NA HAQ QATL KI HOULNAAKIYAAN
*ناحق قتل کی ہولناکیاں*
تحرير: فضیلة الشیخ ابوعمير حفظہ اللہ
اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری
اللہ تعالی نے مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوۓ فرمایا:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا . يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا) [سورة الفرقان.68 . 69]
❀ اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دگنا کیا جائے گا اور وہ ہمیشہ اس میں ذلیل کیا ہوا رہے گا۔
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا فَلَا يُسْرِف فِّي الْقَتْلِ ۖ إِنَّهُ كَانَ مَنصُورًا.(بني اسرائيل: 33)
❀ اور اس جان کو قتل مت کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور جو شخص قتل کردیا جائے، اس حال میں کہ مظلوم ہو تو یقینا ہم نے اس کے ولی کے لیے پورا غلبہ رکھا ہے۔ پس وہ قتل میں حد سے نہ بڑھے، یقینا وہ مدد دیا ہوا ہوگا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ۗ ذَٰلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَىٰ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ(البقرة: 178)
❀ اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! تم پر مقتولوں میں بدلہ لینا لکھ دیا گیا ہے، آزاد (قاتل) کے بدلے وہی آزاد (قاتل) اور غلام (قاتل) کے بدلے وہی غلام (قاتل) اور (قاتلہ) عورت کے بدلے وہی (قاتلہ) عورت (قتل) ہوگی، پھر جسے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے پیچھا کرنا اور اچھے طریقے سے اس کے پاس پہنچا دینا (لازم) ہے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے ایک قسم کی آسانی اور ایک مہربانی ہے، پھر جو اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ(179) البقرة.)
❀ اور تمہارے لیے بدلہ لینے میں ایک طرح کی زندگی ہے اے عقل والو ! تاکہ تم بچ جاؤ۔
ہمارے اسلامی ملکوں کے حکمران ان آیات پر غور کریں کہ قصاص کو نافذ کرنے میں ملک اور اس کے رہنے والوں کے لیے حیاتی اور زندگی ہے، اسکے سوا معاشرہ کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکتا
اور کبھی بھی ملک میں امن قائم نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدوں کو بغیر کسی تفریق کے انصاف کے ساتھ نافذ نہ کیا جاۓ، اللہ تعالی ارض توحید سعودی عرب کو قائم ودائم رکھے، ان کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں کچھ نہ کچھ شرعی حدود کا نفاذ ہے اس لیے وہاں جرائم کا ریشہ بہت کم ہے، شاہی خاندان کے شہزادوں کو بھی قصاص میں قتل کیا گیا، ابھی حال ہی میں تازہ واقعہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی ڈرائیور کے قتل میں ملوث چار بندوں کو قصاص میں قتل کیا گیا، کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی کچھ ہوش آجاۓ اور وہ حدود کا نفاذ کردیں تاکہ واقعہ ساہیوال، آرمی پبلک اسکول، سوات والے مدرسہ، لال مسجد اور بارہ مئی والے واقعہ اور خصوصا سندھ میں آئے روز قتل وغارتگری جیسے سانحات کا سد باب ہوسکے .
مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ۚ وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُم بَعْدَ ذَٰلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ.(المائدة: 32)
❀ اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کردیا کہ بیشک حقیقت یہ ہے کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے (بدلے کے) بغیر، یا زمین میں فساد کے بغیر قتل کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا اور جس نے اسے زندہ کیا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا اور بلاشبہ ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، پھر بیشک ان میں سے بہت سے لوگ اس کے بعد بھی زمین میں یقینا حد سے بڑھنے والے ہیں۔
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا.(النساء: 93) >
❀ اور جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے، اس میں ہمیشہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غصے ہوگیا اور اس نے اس پر لعنت کی اور اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہے۔.
نبی ڪريم ﷺ نے فرمايا:
لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ : النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَمَاعَةِ۔
تین باتوں کے سوا کسی بھی کلمہ گو مسامان کو قتل کرنا حلال نہیں (1) قتل کے بدلے میں قتل (2) شادی شدہ ہوکر زنا کرنے والا (3) دین اسلام کو چھوڑتے ہوئے مرتد ہوکر مسلمانوں کی جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والا۔
(صحيح بخاري : 6878 . صحیح مسلم : 1676)
شریعت میں بعض دیگر امور بھی ہیں جن کے ارتکاب پر قتل لازم ہوجاتا ہے مثلا: اللہ اور اس کے رسول سے بغاوت، ان کی توہین یا گستاخی وغیرہ .
لیکن یاد رہے کہ قصاص یا حد نافذ کرنے کا کام اسلامی خلیفہ، حکمران یا عدالت کا ہے، کسی عام آدمی کو قطعا اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ کسی کو قتل کرے .
*مسلمان کی عزت اور حرمت*
نبی ڪريم ﷺ نے مسلمان کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.
یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں . (صحيح بخاري: 10)
امام کائنات نے حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوۓ ارشاد فرمایا:
فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ،كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا . فَأَعَادَهَا مِرَارًا…. فَلَا تَرْجِعُنَّ بَعْدِي كُفَّارًا، أَوْ ضُلَّالًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ،.
بے شک تمارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ( عظمت، شرف، حرمت ) میں اسی طرح حرام ہیں جس طرح یہ(جمعہ کا دن) حرمت والا ہے، یہ شہر (مکہ مکرمہ) اور یہ مہینہ (ذوالحج) حرمت والا ہے،اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں آپ نے بیان فرمائیں نیز یہ بھی فرمایا کہ: میرے بعد کافر اور گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگ جاؤ. (صحيح بخاري : 1739. صحيح مسلم : 1679)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ ، ایک دوسرے سے بغض اور نفرت نہ رکھو ، ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرو ، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ مسلمان ( دوسرے ) مسلمان کا بھائی ہے ، نہ اس پر ظلم کرتا ہے ، نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے ۔ تقویٰ یہاں ہے ۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا ، ( پھر فرمایا ) :’’ کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے ،
مزید فرمایا:
❀ كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ ؛ دَمُهُ، وَمَالُهُ، وَعِرْضُهُ .
ہر مسلمان پر ( دوسرے ) مسلمان کا خون ، مال اور عزت حرام ہیں ۔‘ (صحيح مسلم : 2564. جامع ترمذي : 1927)
آپ ﷺ کا فرمان ہے:
❀ سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ ۔
یعنی کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ کا کام ہے اور قتل کرنا کفر ہے . (صحیح بخاري: 6044)
نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ خطبہ دیتے ہوئے بآواز بلند فرمایا:
❀ اے زبانی اسلام لانے والے لوگوں کی جماعت جن کے دلوں میں ابھی تک ایمان نہیں پہنچا ! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالی اس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالی جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو“۔ راوی ( نافع رحمہ اللہ ) کہتے ہیں: ایک دن سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی الله عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا:
❀ مَا أَعْظَمَكِ، وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ.
اے کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں ایک مومن کی حرمت تجھ سے کہیں زیادہ عظیم ہے۔ (جامع ترمذي : 2032. سنده حسن)
*نوٹ:* اس معنی میں سنن ابن ماجہ والی مرفوع روایت (3932) میں نصر بن محمد راوی ضعیف ہے اور اس کے تمام شواھد بھی ضعیف ہیں . (انوار الصحيفة للشيخ زبير علي زئي رحمه الله : ص 517.)
مسلمان کو قتل کرنا تو بہت بڑی بات ہے، نبی کریم ﷺ نے تو فرمایا:
❀ مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ،فَلَيْسَ مِنَّا .
جس نے ہم مسلمانوں پر ہتھیار اٹھایا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے . (صحيح بخاري: 7070)
دوسری حدیث میں ہے :
❀ مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يَدَعَهُ، وَإِنْ كَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ. (صحيح مسلم : 2616)
جس نے اپنے بھائی کی طرف لوہے کی کسی چیز ہتھیار وغیرہ سے اشارہ کیا تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ اس کام کو ترک کر دے ، اگرچہ وہ اس کا ماں باپ جایا بھائی ہی کیوں نہ ہو .
رسول الله ﷺ نے فرمايا:
❀ جب دو مسلمان تلوار کھینچ کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں جاتے ہیں۔ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (ﷺ) ایک تو قاتل تھا لیکن مقتول کو سزا کیوں ملے گی؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❀ إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ .
وہ بھی تو اپنے قاتل کے قتل پر آمادہ (تیار) تھا۔ (صحيح بخاري: 6875)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
❀ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا.
کسی مسلمان کے لیے حلال ہی نہیں کہ و کسی بھی مسلمان کو خوفزدہ کرے یا ڈراۓ ۔(ابودائود: 5004)
رسول الله ﷺ نے تو کھلے عام ہتھیار لہرانے اور ان کی نمائش کرنے سے بھی منع فرمایا ہے کہ کہیں کسی کو نقصان نہ پہنچ جاۓ ۔ (ابوداؤد: 2588)
اسلام نے تو مؤمن کی عظمت کا ایسا عظیم درس دیا ہے کہ مؤمن کی لاش کی بے حرمتی بھی برداشت نہیں کی، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:
کسی فوت شدہ مؤمن کی ہڈی توڑنا زندہ کی ہڈی توڑنے کی طرح بڑا جرم ہے. ( مسند احمد: 24308)
مطلب کہ کسی مسلمان کی طرف اس قسم کا اشارہ کرنا یا قتل کا ارادہ کرنا بھی سنگین جرم ہے.
*ذمی کافر کا قتل*
بلکہ مسلمان تو کیا ایک غیر مسلم ذمی جو جزیہ ادا کرتے ہوۓ کسی مسلمان سلطنت حکومت یا ملک میں رہائش پذیر ہو اس کو بھی قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے . رسول الله ﷺ نے فرمایا :
❀ مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا – وفي رواية لابي داؤد: حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ . (صحيح بخاري: 3166. ابوداؤد: 2760)
جس نے کسی ذمی کو ( ناحق ) قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کی دوری سے بھی سونگھی جا سکتی ہوگی ، اور اللہ تعالی نے جنت اس پر حرام کردی ہے .
یہاں تک کہ صرف ان ہی کفار سے قتال کرنے کی اجازت ہے جو مسلمانوں سے خود لڑیں یا لڑائی کی ابتدا کریں یا دین اسلام کی ترویج میں رکاوٹ بنیں، لیکن ان لڑنے والے محارب کافروں کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو مارنے سے بھی منع کردیا گیا ہے ، بلکہ بلاضرورت کے ان کے جانوروں اور کھیتی باڑی وغیرہ کو نقصان پہچانے سے بھی روک دیا گیا ہے .
یاد رہے کہ مسلمان معاشرے میں جو بھی انسان چاہے وہ مسلمان ہو یا ذمی کافر کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرے جس پر شرعی حد نافذ ہوتی ہو تو کسی فرد، تنظیم یا جماعت کے لیے جائز نہیں کہ وہ از خود مجرم پر شرعی حد یا سزا نافذ کردے، شرعی سزا نافذ کرنا ہرگز انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی کی حدوں کو نافذ کرنے کا اختیار اور ذمہ داری حکمرانوں ( اور مجازی عدالتوں) کی ہے.
تفصیل کے لیئے:(بداية المجتهد : 233/2 ، نيل الأوطار : 295/7)
*ضرورت کے بغیر کسی پرندے یا جانور کو مارنا*
رسول الله ﷺ نے فرمايا:
❀ جس نے کسی چڑیا یا اس سے بھی چھوٹی بڑی کسی چیز کو بغیر کسی ضرورت کے مارا تو اللہ تعالی قیامت والے دن اس سے سوال کرے گا . (سنن النسائي : 4349. 4445 )
❀ *نوٹ*: اس سے وہ جانور خارج ہیں جن کو شریعت نے مارنے کا حکم دیا ہے، مثلا: سانپ، بچھو، کوا، چھپکلی(گرگٹ)، چیل، نقصان دینے والا کتا وغیرہ .
اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی لعنت ہے ہر اس شخص پر جو کسی جاندار کو نشانہ بنا کر مارے .(صحيح مسلم : 1958)
نبی ڪريم ﷺ نے فرمايا :
❀ گروہ انبیاء میں سے کوئی نبی ایک درخت کے سائے میں اترے، وہاں انہیں ایک چیونٹی نے کاٹ لیا۔ تو انہوں نے حکم دیا، اور چیونٹیوں کا سارا چھتہ جلوا دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی بھیجی کہ تم کو تو ایک ہی چیونٹی نے کاٹا تھا، فقط اسی کو جلانا تھا۔ اور تم نے ایک ایسی خلقت کو جلا کر خاک کر دیا جو اللہ کی تسبیح بیان کرتی تھی.(صحيح بخاري : 3019. 3319.)
*انسانیت کا قتل قیامت کی نشانی*
نبی ڪريم ﷺ نے قیامت سے قبل رونما ہونے ہونے والی علامات کا تذکرہ کرتے ہوۓ فرمایا:
❀ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ، وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ .
یعنی قتل کی کثرت بہت زیادہ ہوجاۓ گی . (صحيح بخاري : 1036)
اتنی زیادہ کہ آپ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَتَلَ، وَلَا يَدْرِي الْمَقْتُولُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ قُتِلَ .
قاتل کو یہ خبر تک نہیں ہوگی کہ کیوں قتل کر رہا ہے اور مقتول کو بھی خبر نہیں ہوگی کہ اسے کس جرم میں مارا جا رہا ہے . (صحيح مسلم: 2908)
> : قرب قیامت میں قتل کی اس قدر سنگین صورتحال ہوگی کہ ایک انسان اپنے پڑوسی، قریبی رشتے دار، کزن، بھائی اور والد تک کو قتل کرنے لگے گا . (السلسلة الصحيحة : 3185)
اس طرح کے پر فتن دور میں رسول ﷺ نے اپنے ہتھیار کند کرنے یعنی ناقابل استعمال بنانے کا حکم دیا :
❀ يَعْمِدُ إِلَى سَيْفِهِ، فَيَدُقُّ عَلَى حَدِّهِ بِحَجَرٍ، ثُمَّ لِيَنْجُ إِنِ اسْتَطَاعَ النَّجَاءَ، (صحيح مسلم : 2887)
*قتل شیطان کا پسندیدہ گناہ*
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :
❀ إِذَا أَصْبَحَ إِبْلِيسُ بَثَّ جُنُودَهُ، فَيَقُولُ: مَنْ أَضَلَّ الْيَوْمَ مُسْلِمًا أَلْبَسْتُهُ التَّاجَ…..وَيَجِيءُ هَذَا، فَيَقُولُ: لَمْ أَزَلْ بِهِ حَتَّى قَتَلَ فَيَقُولُ: أَنْتَ أَنْتَ، وَيُلْبِسُهُ التَّاجَ.
(صحيح ابن حبان : 6189. مستدرك حاكم : 8027. صححه ووافقه الذهبي. السلسلة الصحيحة : 1280)
شیطان اپنے لشکروں کو مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: جو بڑا کام کرکے آیا میں اسے تاج پہناؤں گا پھر جب تمام چیلے واپس آکر رپورٹ دیتے ہیں تو سب سے زیادہ قتل کروانے والے چیلے سے خوش ہو کر اس کو شیطانی تاج پہناتا ہے .
*نا حق قتل کی سنگینی*
ارشاد نبوی ﷺ ہے :
❀ لَا تُقْتَلُ نَفْسٌ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا ؛ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ سَنَّ الْقَتْلَ .(صحيح بخاري: 3335)
جب بھی کوئی انسان ظلم سے قتل کیا جاتا ہے تو آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) کے نامہ اعمال میں بھی اس قتل کا کچھ گناہ لکھا جاتا ہے۔ کیونکہ قتل ناحق کی بنیاد سب سے پہلے اسی نے قائم کی تھی .
نبی ڪريم صلي الله عليه وسلم نے قتل کو “الموبقات“ يعني ہلاک، تباہ اور برباد کرنے والے سات کبیرہ گناہوں میں شرک اور جادو کے بعد تیسرے نمبر پر ذکر فرمایا ہے۔ ( صحيح بخاري: 2766 .صحیح مسلم: 89)
اللہ تعالی جن تین انسانوں سے سب سے زیادہ نفرت کرتا ہے ان میں ایک ناحق خون کرنے والا بھی ہے چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❀ أَبْغَضُ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ ثَلَاثَةٌ : مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبُ دَمِ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقٍّ لِيُهَرِيقَ دَمَهُ . ( صحيح بخاري: 6882)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک لوگوں ( مسلمانوں ) میں سب سے زیادہ مبغوض تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک حرم میں زیادتی جرم کرنے والا، دوسرا جو اسلام میں جاہلیت کی رسموں پر چلنے کا خواہشمند ہو، تیسرا وہ شخص جو کسی آدمی کا ناحق خون کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❀ لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا . وفي رواية لابي داؤد : لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا، فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ
(صحيح بخاري : 6862. ابوداؤد : 4270)
مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر ترقی اور کشادگی میں رہتا ہے جب تک ناحق خون نہ کرے جب ناحق خون کیا تو اس کی دینی ترقی رک جاتی ہے اور وہ ہلاکت اور بربادی کے کنارے پہنچ جاتا ہے .
نبی ڪريم ﷺ نے فرمایا:
❀ وَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يُحَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَنَّةِ بِمِلْءِ كَفِّهِ مِنْ دَمٍ أَهْرَاقَهُ فَلْيَفْعَلْ .
اور جو کوئی طاقت رکھتا ہو کہ وہ چلو بھر لہو بہا کر( یعنی ناحق خون کر کے ) اپنے آپ کو بہشت میں جانے سے روکنے سے محفوظ رہ سکتا ہو تو اسے ایسا ہی کرنا چاہئے. (یعنی وہ ناحق خون سے ہر صورت میں اپنے آپ کو بچاۓ، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز اس کے جنت میں جانے سے رکاوٹ بن جاۓ)۔ (صحيح بخاري : 7152)
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :
❀ يَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ يَتَكَلَّمُ، يَقُولُ : وُكِّلْتُ الْيَوْمَ بِثَلَاثَةٍ : بِكُلِّ جَبَّارٍ، وَبِمَنْ جَعَلَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَبِمَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ. فَيَنْطَوِي عَلَيْهِمْ، فَيَقْذِفُهُمْ فِي غَمَرَاتِ جَهَنَّمَ . (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2699)
قیامت کے دن دوزخ سے ایک گردن نکلے گی جو کچھ انسانوں کو پکڑ کر دوزخ کی تہہ میں پھینک دے گی ان میں سے ایک شخص نا حق قتل کرنے والا بھی ہوگا .
سيدنا عبدالله بن عمر رضي الله عنہما فرماتے ہیں :
❀ إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُورِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ فِيهَا، سَفْكَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ. (صحيح بخاري : 6863)
ہلاکت کا بھنور جس میں گرنے کے بعد پھر نکلنے کی امید نہیں ہے وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔ (یعنی نا حق خون کرنا ایسا گناہ ہے جس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نہیں ہے) . >
: اسلام نے ایک انسان کی عظمت کا درس اس قدر دیا ہے کہ جس میں ایک میت کی ہڈی توڑنے کو گناہ میں زندہ کی ہڈی توڑنے کے برابر قرار دیا گیا ہے . (ابوداؤد : 3207. )
*کلمہ گو مسلمان اور مؤمن کا قتل*
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
❀ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اللَّهُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا . (ابوداؤد : 4270)
جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو، تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ ہی فرض۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
❀ لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَى اللَّهِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ. (جامع ترمذي: 1395. نسائي : 3987. ابن ماجة: 2619)
پوری دنیا کی تباہی اور بربادی اللہ کے نزدیک ایک مسلمان کے قتل ہونے سے کہیں زیادہ کمتر و آسان ہے۔
سیدنا ابوسعید الخدری اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
❀ لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ، وَالْأَرْضِ اِشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَكَبَّهُمُ اللَّهُ فِي النَّارِ . (جامع ترمذي : 1398)
اگر(بالفرض) آسمان اور زمین والے ( سارے کے سارے ) ایک مومن کے خون میں ملوث ہو جائیں تو اللہ ان ( سب ) کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا (اور اسے کوئی بھی پرواہ نہیں ہوگی) .
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوۓ سنا:
❀ كُلُّ ذَنْبٍ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَغْفِرَهُ، إِلَّا مَنْ مَاتَ مُشْرِكًا، أَوْ مُؤْمِنٌ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا . (ابوداؤد: 4270)
❀ وفي رواية : أبى اللهُ أنْ يَجْعَلَ لِقاتِلِ المُؤمِنِ تَوْبَةٌ .(السلسة الصحيحة : 689)
ہر گناہ کے بارے امید ہے کہ اللہ اسے بخش سکتا ہے سوائے اس کے جو مشرک ہو کر مرے یا مومن ہو کر کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے….. اللہ تعالی قاتل کی توبہ قبول کرنے سے انکار کرتا ہے…..
❀ *نوٹ:* علماء و محدثین کا اس طرح کی روایات کے بارے کہنا ہے کہ: معاف نہ کرنے کا حکم اس انسان کے لیے ہے جو مسلمان کاخون کرنا حلال سمجھتا ہے یا پھر ایسی روایتیں تغلیظ اور تشدید پر محمول ہونگی وگرنہ شرک کے سوا باقی گناہوں کی معافی ممکن ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:
❀ إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَىٰ إِثْمًا عَظِيمًا(سورة النساء 48)
یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔
ایک سو آدمیوں کے قاتل کی توبہ اللہ تعالی نے قبول فرمائی . (صحیح بخاري : 3470. صحیح مسلم : 2766)
سيدنا ابن عباس رضي الله عنہما کا موقف تھا کہ قاتل کے لیے توبہ نہیں ہے، اس کو بھی ایسے ہی سمجھنا چاہیے جیسا کہ مذکورہ روایتوں کے بارے موقف ہے یا پھر دلائل کے اعتبار سے آپ کا یہ موقف مرجوح قرار دیا جاسکتا ہے . (تفصيل کے لئے شروحات حديث کی طرف رجوع کیا جائے)
ایک جنگ میں ایک کافر نے مسلمانوں کو بہت نقصان پینچایا اور کتنے ہی مسلمانوں کو شہید کیا، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری صحابی اس کے پیچھے لگے اور اسے گھیر لیا، ابھی بس تلوار کا وار کرنا ہی باقی تھا کہ اس نے کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھ لیا، یہ دیکھ کر انصاری صحابی نے تو اپنی تلوار روک لی لیکن سیدنا اسامہ نے اسے قتل کردیا، سیدنا اسامہ کا خیال تھا کہ اس نے قتل سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھا ہے، جس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❀ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا ؟ – أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ أَنْ قَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ؟ . قَالَ : فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الْيَوْمِ. – وَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ؟-
تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے ( دل سے ) کہا ہے یا نہیں ۔کیا تو نے اسے لا إله إلا الله کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا ؟ پھر آپ میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ ( کاش ) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا ( یعنی آج اسلام لانے کی وجہ سے اس کلمہ گو کے قتل کے عظیم گناہ سے بری ہو جاتا ۔) آپ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن لا إله إلا الله ( تمہارے سامنے ) آئے گا تو اس کا کیا کرو گے ؟ (صحيح بخاري : 4269. صحيح مسلم : 96. 97.) >
: ❀ ایک حدیث میں ہے کہ ایسا کافر جو جنگ میں کسی مسلمان کے ہتھے چڑھ جاۓ اور پھر وہ کلمہ پڑھ لے تو (جانتے بھوجتے) اس کو قتل کرنے والا مسلمان کافر ہوجاۓ گا اور وہ کافر مسلمان :
❀ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ . (صحيح بخاري: 4019. صحیح مسلم: 95)
*قیامت کے دن قاتل اور مقتول کی حالت*
❀ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فِي الدِّمَاء.
قیامت کے دن سب سے پہلے (حقوق العباد کے متعلق) خون يعنی قتل کا فیصلہ کیا جاۓ گا . (صحيح بخاري: 6864)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن قاتل اور مقتول اس حالت میں آئیں گے کہ مقتول اپنے قاتل کو گھسیٹتا ہوا اللہ تعالی کے عرش کے پاس پہنچے گا اس حال میں کہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا، وہ اللہ تعالی سے کہے گا:
❀ رَبِّ، سَلْ هَذَا لِمَ قَتَلَنِي ؟
اے اللہ! اس سے سوال کر کہ اس نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟۔ (جامع ترمذي : 3029. سنن ابن ماجه : 2621. سنن نسائي : 3999)
(وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ)
*********************