37. Ujrat kay masaail ka bayan;[الإجارة]; Hiring
كِتَابُ الإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
بَابُ اسْتِئْجَارُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ
باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ
2260 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ أَخْبَرَنِي جَدِّي أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُؤَدِّي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبَةً نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقِينَ
ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ یزید بن عبداللہ نے کہا کہ میرے دادا، ابوبردہ عامر نے مجھے خبر دی اور انہیں ان کے باپ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو اس کو حکم دیا جائے، ا س کے مطابق دل کی فراخی کے ساتھ ( صدقہ ادا کردے ) وہ بھی ایک صدقہ کرنے والوں ہی میں سے ہے۔
بَابُ اسْتِئْجَارُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ
باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ
2261 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ فَقُلْتُ مَا عَمِلْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ فَقَالَ لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ ( میرے قبیلہ ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہش مند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لن یا لفظ لا استعمال فرمایا )
تشریح : لفظ ”اجارات“ اجارۃ کی جمع ہے۔ اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔ مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ںسے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔ اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ان خیر من استاجرت نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان ! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے پوچھا کہ تجھے کیو ںکر معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔ حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔ اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔ اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گااور اسی پر چلوں گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب علیہ السلام کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔ اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔ بہرحال امیر المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔ وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔ ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔ مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں : قال العلماءو الحکمۃ فی انہ لا یولی من سال الولایۃ انہ یوکل الیہا و لا تکون معہ اعانۃ کما صرح بہ فی حدیث عبدالرحمن بن سمرۃ السابق و اذا لم تکن معہ اعانۃ لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لان فیہ تمہۃ للطالب و الحرص ( نووی ) یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔ اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔ علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔ حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔ خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و قد روی ابن جریر من طریق شعیب الجبئی انہ قال اسم المراۃ التی تزوجہا موسی صفورہ و اسم اختہا لیا و کذ روی من طریق ابن اسحاق الا انہ قال اسم اختہا شرقا و قیل لیا و قال غیرہ ان اسمہما صفورا و عبرا و انہما کانتا تواما و روی من طریق علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی قولہ ان خیر من استاجرت القوی الامین قال قوی فیما ولی امین فیما استودع و روی من طریق ابن عباس و مجاہد فی آخرین ان اباہا سالہا عمارات من قوتہ و امانتہ فذکرت قوتہ فی حال السقی و امانتہ فی غض طرفہ عنہما و قولہ لھا امشی خلفی و دلینی علی الطریق و ہذا اخرجہ البیہقی باسناد صحیح عن عمر بن الخطاب و زاد فیہ فزوجہ واقام موسی معہ یکفیہ او یعمل لہ فی رعایۃ غنمہ ( فتح الباری ) دختر حضرت شعیب علیہ السلام کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام ”لیا“ تھا۔ بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔ اور بعض نے ”الیا“ اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔ اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی ( طاقتور ) ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔ اور امین ( امانت دار ) ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔ اور ابن عبا س رضی اللہ عنہما اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔ تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔ اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔ جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔ اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے قال کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان موسی اجر نفسہ ثمان سنین او عشرا علی عفۃ فرجہ و طعام بطنہ اخرجہ ابن ماجہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب علیہ السلام کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔ المجموع شرح المہذب للاستاذالمحقق محمد نجیب المطیعی میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الاجارۃ علی المنافع المباحۃ و الدلیل علیہ قولہ تعالیٰ فان ارضعن لکم فاتوہن اجورہن ( الجزءالرابع عشر ص255 ) یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔ معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔ مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
بَابُ رَعْيِ الغَنَمِ عَلَى قَرَارِيطَ
باب : چند قیراط کی مزدوری پر بکریاں چرانا
2262 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى عَنْ جَدِّهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا بَعَثَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا رَعَى الْغَنَمَ فَقَالَ أَصْحَابُهُ وَأَنْتَ فَقَالَ نَعَمْ كُنْتُ أَرْعَاهَا عَلَى قَرَارِيطَ لِأَهْلِ مَكَّةَ
ترجمہ : ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا سعید بن عمرو نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا نبی نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے پوچھا کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں؟ فرمایا کہ ہاں ! کبھی میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی تنخواہ پر چرایا کرتا تھا۔
تشریح : امیر المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ مزدوری کے طور پر بکریاں چرانا بھی ایک حلال پیشہ ہے۔ بلکہ انبیاءعلیہم السلام کی سنت ہے۔ بکریوں پر گائے بھینس، بھیڑوں اور اونٹوں کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ان کو مزدوری پر چرانا چگانا جائز اور درست ہے۔ ہر پیغمبر نے بکریاں چرائی ہیں اس میں حکمت یہ ہے کہ بکریوں پر رحم اور شفقت کرنے کی ابتدائے عمر ہی سے عادت ہو اور رفتہ رفتہ بنی نوع انسان کی قیادت کرنے سے بھی وہ متعارف ہوجائیں۔ اور جب اللہ ان کو یہ منصب جلیلہ بخشے تو رحمت اور شفقت سے وہ ابن آدم کو راہ راست پر لاسکیں۔ اس اصول کے تحت جملہ انبیاءکرام کی زندگیوں میں آپ کو رحمت اور شفقت کی جھلک نظر آئے گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہدایت کے لیے بھیجا جارہا ہے۔ ساتھ ہی تاکید کی جاری ہے فقولا قولا لینا لعلہ یتذکراو یخشی ( طہ : 44 ) یعنی دونو ںبھائی فرعون کے ہاں جاکر اس کو نہایت ہی نرمی سے سمجھانا۔ شاید وہ نصیحت پکڑ سکے یا وہ اللہ سے ڈر سکے۔ اسی نرمی کا نتیجہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جادو گروں پر فتح عظیم حاصل فرمائی۔ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے بچپن میں مکہ والوں کی بکریاں اجرت پر چرائی ہیں۔ اس لیے بکری چرانا ایک طرح سے ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ ولسم کی سنت بھی ہے۔ آپ اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط اجرت پر چرایا کرتے تھے۔ قیراط آدھے ودانق کو کہتے ہیں جس کا وزن 5جو کے برابر ہوتا ہے۔ الحمد للہ ! آج مکہ شریف کے اطراف میں وادی منیٰ میں بیٹھ کر یہ سطریں لکھ رہا ہوںاور اطراف کی پہاڑیوں پر نظر ڈال رہا ہوں اور یاد کر رہا ہوں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جس میں رسول کریم رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم ان پہاڑوں میں مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ کاش ! میں اتنی طاقت رکھتا کہ ان پہاڑوں کے چپہ چپہ پر پیدل چل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقوش اقدام کی یاد تازہ کرسکتا۔ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ و سلم۔ بعض لوگوں نے کہا کہ اطراف مکہ میں قراریط نام سے ایک موضع تھا۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتے تھے۔ حافظ فرماتے ہیں لکن رجح الاول لان اہل مکۃ لا یعرفون بہا مکانا یقال لہ قراریط یعنی قول اول کہ قراریط سے درہم اور دینار کے بعض اجزاءمراد ہیں اسی کو ترجیح حاصل ہے اس لیے کہ مکہ والے کسی ایسے مکان سے ناواقف تھے جسے قراریط کے نام سے پکارا جاتا ہو۔ و قال العلماءالحکمۃ فی الہام الانبیاءمن رعی الغنم قبل النبوۃ ان یحصل لہم التمرن برعیہا علی ما یکلفونہ من القیام بامر امتہم یعنی علماءنے کہا ہے کہ انبیاءکو بکری چرانے کے الہام کے بارے میں حکمت یہ ہے کہ ان کو نبوت سے پہلے ہی ان کو چرا کر امت کی قیادت کے لیے مشق ہو جائے۔ بکری خود ایک ایسا بابرکت جانور ہے کہ اللہ پاک کا فضل ہو تو بکری پالنے میں چند ہی دنوں میں وارے کے نیارے ہو جائیں۔ اسی لیے فتنوں کے زمانوں میں ایک ایسے شخص کی تعریف کی گئی ہے جو سب فتنوں سے دور رہ کر جنگلوں میں بکریاں پالے۔ اور ان سے گزران کرکے جنگوں ہی میں اللہ کی عبادت کرے۔ ایسے وقت میں یہ بہترین قسم کا مسلمان ہے۔ اس وقت مسجد نبوی روضۃ من ریاض الجنۃ مدینہ منورہ میں بہ سلسلہ نظر ثانی اس مقام پر پہنچتا ہوا حرمین شریفین کے ماحول پر نظر ڈال کر حدیث ہذا پر غور کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم ملک میں بکریوں کے مزاج کے موافق کتنے مواقع پیدا کر رکھے ہیں۔ مکہ شریف میں ایک مخلص دوست کے ہاں ایک بکری دیکھی جو2 کلو وزن سے زیادہ دودھ دیتی تھی۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ما من نبی الا رعی الغنم آج صفر1390ھ مقام مبارک مذکورہ میں یہ چند الفاظ لکھے گئے۔
بَابُ اسْتِئْجَارِ المُشْرِكِينَ عِنْدَ الضَّرُورَةِ، أَوْ: إِذَا لَمْ يُوجَدْ أَهْلُ الإِسْلاَمِ وَعَامَلَ النَّبِيُّ ﷺ يَهُودَ خَيْبَرَ
باب : جب کوئی مسلمان مزدور نہ ملے تو ضرورت کے وقت مشرکوں سے مزدوری کرانا جائز ہے کیو ںکہ نبی کریم ﷺ نے خبیر کے یہودیوں سے کام لیا ( ان سے بٹائی پر معاملہ کیا تھا )
2263 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَاسْتَأْجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ ثُمَّ مِنْ بَنِي عَبْدِ بْنِ عَدِيٍّ هَادِيًا خِرِّيتًا الْخِرِّيتُ الْمَاهِرُ بِالْهِدَايَةِ قَدْ غَمَسَ يَمِينَ حِلْفٍ فِي آلِ الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَأَمِنَاهُ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ فَأَتَاهُمَا بِرَاحِلَتَيْهِمَا صَبِيحَةَ لَيَالٍ ثَلَاثٍ فَارْتَحَلَا وَانْطَلَقَ مَعَهُمَا عَامِرُ بْنُ فُهَيْرَةَ وَالدَّلِيلُ الدِّيلِيُّ فَأَخَذَ بِهِمْ أَسْفَلَ مَكَّةَ وَهُوَ طَرِيقُ السَّاحِلِ
ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن عروہ نے خبردی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( ہجرت کرتے وقت ) بنودیل کے ایک مرد کو نوکر رکھا جو بنو عبد بن عدی کے خاندان سے تھا۔ اور اسے بطور ماہر راہبر مزدوری پر رکھا تھا ( حدیث کے لفظ ) خریت کے معنی راہبری میں ماہر کے ہیں۔ اس نے اپنا ہاتھ پانی وغیرہ میں ڈبو کر عاص بن وائل کے خاندان سے عہد کیا تھا اور وہ کفار قریش ہی کے دین پر تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس پر بھروسہ تھا۔ اسی لیے اپنی سواریاں انہوں نے اسے دے دیں اور غارثور پر تین رات کے بعد اس سے ملنے کی تاکید کی تھی۔ وہ شخص تین راتوں کے گزرتے ہی صبح کو دونوں حضرات کی سواریاں لے کر وہاں حاضر ہوگیا۔ اس کے بعدیہ حضرات وہا ں سے عامر بن فہیرہ اور اس دیلی راہبر کو ساتھ لے کر چلے۔ یہ شخص ساحل کے کنارے سے آپ کو لے کر چلا تھا۔
بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا
باب : کوئی شخص کسی مزدور کو اس شرط پر رکھے ک
2264 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ وَاسْتَأْجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَجُلًا مِنْ بَنِي الدِّيلِ هَادِيًا خِرِّيتًا وَهُوَ عَلَى دِينِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَدَفَعَا إِلَيْهِ رَاحِلَتَيْهِمَا وَوَاعَدَاهُ غَارَ ثَوْرٍ بَعْدَ ثَلَاثِ لَيَالٍ بِرَاحِلَتَيْهِمَا صُبْحَ ثَلَاثٍ
ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنو دیل کے ایک ماہر راہبر سے مزدوری طے کر لی تھی۔ وہ شخص کفار قریش کے دین پر تھا۔ ان دونوں حضرات نے اپنی دونوں اونٹنیاں اس کے حوالے کر دی تھیں اور کہہ دیا تھا کہ تین راتوں کے بعد صبح سویرے ہی سواروں کے ساتھ غار ثور پر آجائے۔
تشریح : اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے متعلق ایک جزوی ذکر ہے کہ آپ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے شب ہجرت میں سفر شروع کرنے سے پہلے ایک ایسے شخص کو بطور راہبر مزدور مقرر فرما لیا تھا جو کفار قریش کے دین پر تھا اور یہ بنودیل میں سے تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اس پر اعتماد تھا اس لیے اپنی ہر دو سواریوں کو اس کے حوالہ کرتے ہوئے اس سے وعدہ لے لیا کہ وہ تین راتیں گزر جانے کے بعد دونوں سواریوں کو لے کر غار ثور پر چلا آئے۔ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ اور آپ ہر دو نے سفر شروع کیا۔ یہ شخص بطور ایک ماہر راہبر کے تھا اور عامر بن فہیرہ کو ہر دو سواریوں کے لیے نگران کے طور پر مقرر کیا تھا۔ اگلے باب میں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو اس شرط پر مزدور مقرر کیا کہ وہ اپنا مقرر کام تین راتیں گزرنے کے بعد انجام دے۔ اسی طرح اگر ایک ماہ بعد یا سال بعد کی شرط پر کسی کو مزدور رکھا جائے اور ہر دو فریق راضی ہوں تو ایسا معاملہ کرنا درست ہے۔ اس حدیث سے بھی ضرورت کے وقت کسی معتمد غیر مسلم کو بطور مزدور رکھ لینا جائز ثابت ہوا۔ و ہذا ہو المراد الحمد للہ کہ کعبہ شریف میں غار ثور کی طرف بیٹھے ہوئے یہ حدیث اور اس کی یہ تشریح حوالہ قلم کر رہا ہوں، چودہ سو سال گزررہے ہیں مگر حیات طیبہ کا ایک ایک ورق ہر طرح سے اتنامحفوظ ہے کہ اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ یہی وہ غار ثور ہے جس کو آج جبل الثور کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اسی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تین راتوں تک قیام فرمایا تھا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اس باب کے ذیل میں حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کا تشریحی نوٹ یہ ہے کہ اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اجارہ میں یہ امر ضروری نہیں کہ جس وقت سے اجارہ شروع ہو اسی وقت سے کام شروع کرے۔ اسماعیلی نے اعتراض کیا ہے کہ باب کی حدیث سے یہ نہیں نکلتا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے یہ شرط لگائی تھی کہ وہ تین دن کے بعد اپنا کام شروع کرے، مگر یہ اعتراض صحیح نہیں کیوں کہ حدیث مذکورہ میں باب کی مطابقت واضح طور پر موجود ہے۔ بہ ثبوت اجارہ صاحب المہذب لکھتے ہیں : فقد ثبت ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابابکر استاجر عبداللہ بن الاریقط الدیلی و کان حزینا و ہواخبر بمسالک الصحراءو الوہاد العالم بجغرافیۃ بلاد العرب علی الطبیعۃ لیکون ہادیا و مرشدا لہما فی ہجرتہما من مکۃ الی المدینۃتحقیق ثابت ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اریقط دیلی کو مزدور بنایا۔ وہ صحرائی راستے کا بہت بڑا ماہر تھا۔ و ہ بلاد عرب کے طبعی جغرافیہ سے پورے طور پر واقف تھا۔ اس کو اس لیے مزدور رکھا تھا تاکہ وہ بوقت ہجرت مکہ سے مدینہ تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ا بوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے رہنمائی کا فر ض انجام دے۔ جس سے غیر مسلم کو جس پر اعتماد ہو مزدور بنا کر رکھنا ثابت ہوا۔ آج 29ذی الحجہ1389ھ کو بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ والحمد للہ علی ذلک اور2صفر یوم جمعہ کو مسجد نبوی جنت کی کیاری میں بیٹھ کر اس پر نظر ثانی کی گی۔ والحمد للہ علی ذلک۔ غار ثور پر حاضری : اس حدیث کو لکھتے ہوئے دل میں خیال آیا تھا کہ مکۃ المکرمہ میں موجود ہونے پر مناسب ہوگا کہ ہجرت نبوی کی اولین منزل یعنی غار ثور کو خو داپنی آنکھوں سے دیکھ کر عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہاں جانا نہ کوئی رکن حج ہے نہ اس کے لیے کوئی شرعی حکم ہے مگر سیروا فی الارض کے تحت بتاریخ 16محرم 1390ھ دیگر رفقاءحجاج کرام کے ہمراہ غار ثور پر جانے کا عزم کرلیا۔ حرم شریف سے کئی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں جانے پر چاروں طرف پہاڑوں کی خوفناک مناظر سامنے آتے ہیں۔ چنانچہ ہندوستان ٹائم کے مطابق اندازا دن کے گیارہ بجے ہمارا قافلہ دامن کوہ ثور میں پہنچ گیا۔ پہاڑ کی چوٹی پر نظر ڈالی گئی تو ہمت نے جواب دے دیا۔ مگر رفقاءکرام کے عزم کو دیکھ کر چڑھائی شروع کی گئی۔ حال یہ تھا کہ جس قدر اوپر چڑھتے جاتے وہ مقام دور ہی نظر آتا جا رہا تھا۔ آخر بیٹھ بیٹھ کر بصد مشکل تقریباً گھنٹہ بھر کی محنت کے بعد غار ثور تک رسائی ہو سکی۔ یہاں اس قسم کے کئی غار ہیں جن کے اوپر عظیم پتھروں کی چھت قدرتی طور پر بنی ہوئی ہیں۔ ایک غار پر غار ثور لکھا ہوا تھا یہی وہ غار ثور ہے جس کے اندر بیٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یار غار حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا ما ظنک باثنین اللہ ثالثہما جب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دشمنوں کا خوف محسوس ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مذکورہ بالا لفظوں میں تسلی دلائی تھی کہ اے ابوبکر ! تمہارا ان دو کے بارے میں کیا گمان ہے جن کے ساتھ تیسرا خود اللہ پاک ہے۔ ( اللہ پاک کے خود ساتھ ہونے سے اس کی مدد و نصرت مراد ہے، جب کہ وہ خو داپنی ذات سے عرش عظیم پر ہے ) مطلب یہ تھا کہ خود اللہ ہمارا محافظ و ناصر ہے۔ پھر ہم کو دشمنوں کی طرف سے کیا غم ہو سکتا ہے اور اللہ پاک نے اپنے ہر دو محبوب بندوں کو بچا لیا۔ غار کے اندر دو آدمیوں کے بیٹھنے لیٹے کی جگہ ہے ایک طرف سے بیٹھ کر داخل ہو ا جاسکتا ہے میں اور ہمارے رفیق اندر داخل ہوئے اور سارا منظر دیکھا۔ اور بار بار قدرت الٰہی یاد آتی رہی۔ اور تاریخ اسلام کے عظیم واقعہ کی یاد تازہ ہوتی رہی۔ چند الفاظ یاد داشت غار کے اندر ہی بیٹھ کر حوالہ قلم کئے گئے۔ جی چاہتا ہے کہ یہا ںکافی دیر ٹھہرا جائے کیوں کہ منظر بہت ہی روح افزا تھا۔ مگر نیچے گاڑی والا منتظر تھا۔ اس لیے دوستوں کے ساتھ واپسی کا مرحلہ طے کیا گیا۔ غار اونچائی اور راستہ پر خطر ہونے کے لحاظ سے اس قابل نہیں ہے کہ ہر شخص وہاں تک جاسکے۔ چڑھنا بھی خطرناک اور اترنا اس سے زیادہ خطرناک ہے، چنانچہ اترنے میں دو گنا وقت صرف ہوا اور نماز ظہر کا وقت بھی اترتے اترتے ہی ہوگیا۔ بصد مشکل نیچے اتر کر گاڑی پکڑی اور حرم شریف میں ایسے وقت حاضری ہوئی کہ ظہر کی نماز ہو چکی تھی مگر الحمد للہ کہ زندگی کی ایک حسرت تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی اولین منزل کو دیکھا جائے سو اللہ پاک نے یہ موقع نصیب فرمایا۔ و الحمد للہ اولا و آخراوالصلوۃ و السلام علی رسول اللہ و علی صاحبہ الصدیق رضی اللہ عنہ۔ ( محترم حاجی اللہ بخش صاحب بیجا پوری اور محترم حاجی منشی حقیق اللہ صاحب ناظر مدرسہ دار الہدی یوسف پور، یوپی ساتھ تھے جن کی ہمت سے مجھ جیسے ضعیف کمزور نے بھی اس منزل تک رسائی حاصل کی۔ جزاہم اللہ )
بَابُ الأَجِيرِ فِي الغَزْوِ
باب : جہاد میں کسی کومزدور کرکے لے جانا
2265 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ غَزَوْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَكَانَ مِنْ أَوْثَقِ أَعْمَالِي فِي نَفْسِي فَكَانَ لِي أَجِيرٌ فَقَاتَلَ إِنْسَانًا فَعَضَّ أَحَدُهُمَا إِصْبَعَ صَاحِبِهِ فَانْتَزَعَ إِصْبَعَهُ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَسَقَطَتْ فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَ ثَنِيَّتَهُ وَقَالَ أَفَيَدَعُ إِصْبَعَهُ فِي فِيكَ تَقْضَمُهَا قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ
ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں صفوان بن یعلی نے، ان کو یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جیش عسرۃ ( غزوۃ تبوک ) میں گیا تھا یہ میرے نزدیک میرا سب سے زیادہ قابل اعتماد نیک عمل تھا۔ میرے ساتھ ایک مزدور بھی تھا وہ ایک شخص سے جھگڑا اور ان میں سے ایک نے دوسرے مقابل والے کی انگلی چبا ڈالی۔ دوسرے نے جو اپنی ہاتھ زور سے کھینچا تو اس کے آگے کے دانت بھی ساتھ ہی کھینچے چلے آئے اور گر گئے۔ اس پر وہ شخص اپنا مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دانت ( ٹوٹنے کا ) کوئی قصاص نہیں دلوایا۔ بلکہ فرمایا کہ کیا وہ انگلی تمہارے منہ میں چبانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ راوی نے کہا کہ میں خیال کرتا ہو ںکہ آپ نے یوں بھی فرمایا۔ جس طرح اونٹ چبا لیا کرتا ہے۔
بَابُ الأَجِيرِ فِي الغَزْوِ
باب : جہاد میں کسی کومزدور کرکے لے جانا
2266 قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ جَدِّهِ بِمِثْلِ هَذِهِ الصِّفَةِ أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَأَهْدَرَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
ترجمہ : ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ ( دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو ) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
تشریح : باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو کئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی گئی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیہم ( التوبہ : 94 ) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔
بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا، عَلَى أَنْ يُقِيمَ حَائِطًا، يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ جَازَ
باب : اگر کوئی شخص کسی کو اس کام پر مقرر کرے کہ وہ گرتی ہوئی دیوار کو درست کردے تو جائز ہے
2267 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَالَ قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَاسْتَقَامَ قَالَ يَعْلَى حَسِبْتُ أَنْ سَعِيدًا قَالَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ فَاسْتَقَامَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ سَعِيدٌ أَجْرًا نَأْكُلُهُ
ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہا کہ مجھے یعلیٰ بن مسلم اور عمرو بن دینار نے سعید سے خبر دی۔ یہ دونوں حضرات ( سعید بن جبیر سے اپنی روایتوں میں ) ایک دوسرے سے کچھ زیادہ روایت کرتے ہیں۔ ابن جریج نے کہا میں نے یہ حدیث اوروں سے بھی سنی ہے۔ وہ بھی سعید بن جبیر سے نقل کرتے تھے کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا، اور ان سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر وہ دونوں ( موسیٰ اور خضر علیہما السلام ) چلے۔ تو انہیں ایک گاؤں میں ایک دیوار ملی جو گرنے ہی والی تھی۔ سعید نے کہا خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا اور ہاتھ اٹھایا، وہ دیوار سیدھی ہوگئی۔ یعلی نے کہامیرا خیال ہے کہ سعید نے کہا، خضر علیہ السلام نے دیوار کو اپنے ہاتھ سے چھوا، اور وہ سیدھی ہو گئی، تب موسیٰ علیہ السلام بولے کہ اگر آپ چاہتے تو اس کام کی مزدوری لے سکتے تھے۔ سعید نے کہا کہ ( حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ) کوئی ایسی چیز مزدوری میں ( آپ کو لینی چاہئیے تھی ) جسے ہم کھا سکتے ( کیو ںکہ بستی والوں نے ان کو کو کھانا نہیں کھلایا تھا۔ )
تشریح : حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا یہ واقعہ قرآن مجید میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہوا ہے۔ اسی جگہ یہ دیوار کا واقعہ بھی ثابت ہے جو گرنے ہی والی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام نے اس کو درست کر دیا۔ اسی سے اس قسم کی مزدوری کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خیال تھا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اس خدمت پر گاؤں والو ںسے مزدوری لینی چاہئے تھی کیوں کہ گاؤں والوں نے بے مروتی کا ثبوت دیتے ہوئے ان کو کھانا نہیں کھلایا تھا حضرت خضر علیہ السلام نے اس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے الہام الٰہی سے معلوم کر لیا تھا کہ یہ دیوار یتیم بچوں کی ہے اور اس کے نیچے ان کا خزانہ دفن ہے۔ اس لیے اس کا سیدھا کرنا ضروری ہوا تاکہ یتیموں کی امداد بایں طور پر ہو سکے اور ان کا خزانہ ظاہر نہ ہو کہ لوگ لوٹ کر لے جائیں۔ آج 3صفر کو محترم حاجی عبدالرحمن سندی کے مکان واقع مجیدی مدینہ منور میں یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ اللہ پاک محترم کو دونوں جہاں کی برکتیں عطا کرے۔ بہت ہی نیک مخلص اور کتاب و سنت کے دلدادہ ذی علم بزرگ ہیں۔ جزاہ اللہ خیرا فی الدارین ۔ امید ہے کہ قارئین بھی ان کے لیے دعائے خیر کریں گے۔
بَابُ الإِجَارَةِ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ
باب : آدھے دن کے لیے مزدور لگانا ( جائز ہے )
2268 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُكُمْ وَمَثَلُ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ أُجَرَاءَ فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ غُدْوَةَ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ الْيَهُودُ ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ نِصْفِ النَّهَارِ إِلَى صَلَاةِ الْعَصْرِ عَلَى قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ النَّصَارَى ثُمَّ قَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي مِنْ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ عَلَى قِيرَاطَيْنِ فَأَنْتُمْ هُمْ فَغَضِبَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالُوا مَا لَنَا أَكْثَرَ عَمَلًا وَأَقَلَّ عَطَاءً قَالَ هَلْ نَقَصْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ قَالُوا لَا قَالَ فَذَلِكَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ
ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص نے کئی مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ میرا کام ایک قیراط پر صبح سے دوپہر تک کون کرے گا؟ اس پر یہودیوں نے ( صبح سے دوپہر تک ) اس کا کام کیا۔ پھر اس نے کہا کہ آدھے دن سے عصر تک ایک قیراط پر میرا کام کون کرے گا؟ چنانچہ یہ کام پھر نصاری نے کیا، پھر اس شخص نے کہا کہ عصر کے وقت سے سورج ڈوبنے تک میرا کام دو قیراط پر کون کرے گا؟ اور تم ( امت محمدیہ ) ہی وہ لوگ ہو ( جن کو یہ درجہ حاصل ہوا ) اس پر یہود و نصاری نے برا مانا، وہ کہنے لگے کہ کام تو ہم زیادہ کریں اور مزدوری ہمیں کم ملے، پھر اس شخص نے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کیا تمہارا حق تمہیں پورا نہیں ملا؟ سب نے کہا کہ ہمیں تو ہمارا پورا حق مل گیا۔ اس شخص نے کہا کہ پھر یہ میرا فضل ہے میں جسے چاہوں زیادہ دوں۔
تشریح : تم کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے۔ اس سے اہل سنت کا مذہب ثابت ہوا کہ اللہ کی طرف سے ثواب ملنا بطریق احسن کے ہے۔ امت محمدیہ پر یہ خدا کا کرم ہے کہ وہ جو بھی نیکی کرے اس کو دس گنا بلکہ بعض دفعہ اور بھی زیادہ ثواب ملتا ہے۔ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں مگر ثواب پچاس وقت کا دیا جاتاہے۔ یہ اس امت مرحومہ کی خصوصیات میں سے ہے۔
بَابُ الإِجَارَةِ إِلَى صَلاَةِ العَصْرِ
باب : عصر کی نماز تک مزدور لگانا
2269 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَالْيَهُودُ وَالنَّصَارَى كَرَجُلٍ اسْتَعْمَلَ عُمَّالًا فَقَالَ مَنْ يَعْمَلُ لِي إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ فَعَمِلَتْ الْيَهُودُ عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ عَمِلَتْ النَّصَارَى عَلَى قِيرَاطٍ قِيرَاطٍ ثُمَّ أَنْتُمْ الَّذِينَ تَعْمَلُونَ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى مَغَارِبِ الشَّمْسِ عَلَى قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ فَغَضِبَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى وَقَالُوا نَحْنُ أَكْثَرُ عَمَلًا وَأَقَلُّ عَطَاءً قَالَ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ حَقِّكُمْ شَيْئًا قَالُوا لَا فَقَالَ فَذَلِكَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ
ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند مزدور کام پر لگائے اور کہا کہ ایک ایک قیراط پر آدھے دن تک میری مزدوری کون کرے گا؟ پس یہود نے ایک قیراط پر یہ مزدوری کی۔ پھر نصاریٰ نے بھی ایک قیراط پر کام کیا۔ پھر تم لوگوں نے عصر سے مغرب تک دو دو قیراط پر کام کیا۔ اس پر یہود و نصاریٰ غصہ ہو گئے کہ ہم نے تو زیادہ کام کیا اور مزدوری ہم کو کم ملی۔ اس شخص نے کہا کہ کیا میں نے تمہارا حق ذرہ برابر بھی مارا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر اس شخص نے کہا کہ یہ مرا فضل ہے جسے چاہوں زیادہ دیتا ہوں۔
تشریح : اس روایت میںگو یہ صراحت نہیں کہ نصاریٰ نے عصر تک کام کیا، مگر یہ مضمون اس سے نکلتا ہے کہ تم مسلمانوں نے عصر کی نماز سے سورج ڈوبنے تک کام کیا۔ کیوں کہ مسلمانوں کا عمل نصاریٰ کے عمل کے بعد شروع ہوا ہوگا۔ اس میں امت محمدیہ کے خاتم الامم ہونے کا بھی اشارہ ہے اوریہ بھی کہ ثواب کے لحاظ سے یہ امت سابقہ جملہ امم پر فوقیت رکھتی ہے۔
بَابُ إِثْمِ مَنْ مَنَعَ أَجْرَ الأَجِيرِ
باب : اس امر کا بیان کہ مزدور کی مزدوری مار لینے کا گناہ کتنا ہے
2270 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ
ترجمہ : ہم سے یوسف بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سلیم نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن امیہ نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا قیامت میں میں خود مدعی بنوں گا۔ ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام پہ عہد کیا، اور پھر وعدہ خلافی کی۔ دوسرا وہ جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی اور تیسرا وہ شخص جس نے کسی کو مزدور کیا، پھر کام تو اس سے پورا لیا، لیکن اس کی مزدوری نہ دی۔
تشریح : قرآن مجید میں باری تعالیٰ نے اکثر مقامات پر اوصاف اہل ایمان بیان کرتے ہوئے ایفائے عہد کا وصف نمایاں بیان کیا ہے پھر جو وعدہ اور قسم اللہ تعالیٰ کا پاک نام درمیان میں ڈال کر کیا جائے، اس کا توڑنا اور پورا نہ کرنا بہت بڑا اخلاقی جرم ہے۔ جس کے لیے قیامت کے دن خود اللہ پاک مدعی بنے گا اور وہ غدار بندہ مدعی علیہ ہوگا۔ جس کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔ اور وہ محض اس عظیم جرم کی بناءپر دوزخ میں دھکیلا جائے گا۔ اس لیے ایک حدیث میں وعدہ خلافی کو نفاق کی ایک علامت بتلایا گیا ہے۔ جس کے ساتھ اگر آدمی خیانت کا بھی عادی ہو اور جھوٹ بھی اس کی گھٹی میں داخل ہو تو پھر وہ از روئے شرع محمدی پکا منافق شمار کیا جاتاہے۔ اور نور ایمان سے اس کا دل قطعاً خالی ہو جاتا ہے۔ دوسرا جرم کسی آزاد آدمی کو غلام بنا کر اسے بیچ کر اس کی قیمت کھانا اس میں نمبروار تین جرم شامل ہیں۔ اول تو کسی آزاد کو غلام بنانا ہی جرم ہے پھر اسے ناحق بیچنا جرم، پھر اس کی قیمت کھانا۔ یہ اور بھی ڈبل جرم ہے۔ ایسا ظالم انسان بھی وہ ہے جس پر قیامت کے دن اللہ پاک خود مدی بن کر کھڑا ہوگا۔ تیسرا مجرم جس نے کسی مزدور سے پورا پورا کام کرایا مگر مزدوری ادا کرتے وقت اس کو دھتکار دیا اور وہ غریب کلیجہ مسوس کر رہ گیا۔ یہ بھی بہت ہی بڑا ظلم ہے۔ حکم یہ ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کر دی جائے۔ سرمایہ داروں کے ایسے ہی پے در پے مظالم نے مزدوروں کی تنظیم کو جنم دیا ہے جو آج ہر ملک میں مستحکم بنیادوں پر قائم اور مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔ اسلام نے ایک زمانہ قبل ہی اس قسم کے مفاسد کے خلاف آواز بلند کی تھی، جو اسلام کے مزدور اور غریب پرور ہونے کی اٹل دلیل ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
بَابُ الإِجَارَةِ مِنَ العَصْرِ إِلَى اللَّيْلِ
باب : عصر سے لے کر رات تک مزدوری کرانا
2271 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ الْمُسْلِمِينَ وَالْيَهُودِ وَالنَّصَارَى كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ قَوْمًا يَعْمَلُونَ لَهُ عَمَلًا يَوْمًا إِلَى اللَّيْلِ عَلَى أَجْرٍ مَعْلُومٍ فَعَمِلُوا لَهُ إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ فَقَالُوا لَا حَاجَةَ لَنَا إِلَى أَجْرِكَ الَّذِي شَرَطْتَ لَنَا وَمَا عَمِلْنَا بَاطِلٌ فَقَالَ لَهُمْ لَا تَفْعَلُوا أَكْمِلُوا بَقِيَّةَ عَمَلِكُمْ وَخُذُوا أَجْرَكُمْ كَامِلًا فَأَبَوْا وَتَرَكُوا وَاسْتَأْجَرَ أَجِيرَيْنِ بَعْدَهُمْ فَقَالَ لَهُمَا أَكْمِلَا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمَا هَذَا وَلَكُمَا الَّذِي شَرَطْتُ لَهُمْ مِنْ الْأَجْرِ فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا كَانَ حِينُ صَلَاةِ الْعَصْرِ قَالَا لَكَ مَا عَمِلْنَا بَاطِلٌ وَلَكَ الْأَجْرُ الَّذِي جَعَلْتَ لَنَا فِيهِ فَقَالَ لَهُمَا أَكْمِلَا بَقِيَّةَ عَمَلِكُمَا مَا بَقِيَ مِنْ النَّهَارِ شَيْءٌ يَسِيرٌ فَأَبَيَا وَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا أَنْ يَعْمَلُوا لَهُ بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ فَعَمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ حَتَّى غَابَتْ الشَّمْسُ وَاسْتَكْمَلُوا أَجْرَ الْفَرِيقَيْنِ كِلَيْهِمَا فَذَلِكَ مَثَلُهُمْ وَمَثَلُ مَا قَبِلُوا مِنْ هَذَا النُّورِ
ترجمہ : ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مسلمانوں کی اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے چند آدمیوں کو مزدور کیا کہ یہ سب اس کا ایک کام صبح سے رات تک مقررہ اجرت پر کریں۔ چنانچہ کچھ لوگوں نے یہ کام دوپہر تک کیا۔ پھر کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری اس مزدوری کی ضرورت نہیں ہے جو تم نے ہم سے طے کی ہے بلکہ جو کام ہم نے کر دیا وہ بھی غلط رہا۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ اپنا کام پورا کرلو اور اپنی پوری مزدوری لے جاؤ، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ آخر اس نے دوسرے مزدور لگائے اور ان سے کہا کہ باقی دن پورا کرلو تو میں تمہیں وہی مزدوری دوں گا جو پہلے مزدوروں سے طے کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کام شروع کیا، لیکن عصر کی نماز کا وقت آیا تو انہوں نے بھی یہی کیا کہ ہم نے جو تمہارا کام کر دیا ہے وہ بالکل بیکار رہا۔ وہ مزدوری بھی تم اپنے ہی پاس رکھو جو تم نے ہم سے طے کی تھی۔ اس شخص نے ان کو سمجھایا کہ اپنا باقی کام پورا کرلو۔ دن بھی اب تھوڑا ہی باقی رہ گیا ہے، لیکن وہ نہ مانے، آخر اس شخص نے دوسرے مزدور لگائے کہ یہ دن کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے اس میں یہ کام کردیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے سورج غروب ہونے تک دن کے بقیہ حصہ میں کام پورا کیا اور پہلے اور دوسرے مزدوروں کی مزدوری بھی سب ان ہی کو ملی۔ تو مسلمانوں کی اور اس نور کی جس کو انہوں نے قبول کیا، یہی مثال ہے۔
تشریح : یہ بظاہر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کے خلاف ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ اس نے صبح سے لے کر دوپہر تک کے لیے مزدور لگائے تھے۔ اور یہ درحقیقت دو الگ الگ قصے ہیں۔ لہٰذا باہمی طور پر دونوں حدیثوں میں کوئی تخالف نہیں ہے۔ ان احادیث میں یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام کی ایک تمثیل ذکر کی گئی ہے کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی شرعی ذمہ داریو ںکو پورے طور پر ادا نہیں کیا۔ بلکہ وہ وقت سے پہلے ہی اپنا کام چھوڑ کر بھاگ نکلے مگر مسلمانوں نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ قرآن مجید آج تک لفظ بہ لفظ موجود ہے اور جب تک اللہ چاہے گا موجود رہے گا۔ جس میں ایک شوشے کی بھی رد و بدل نہیں ہوئی اور قرآن مجید کے ساتھ اسوہ رسالت بھی پورے طور پر محفوظ ہے۔ اس طور پر کہ انبیاءسابقہ میں ایسی مثال ملنی ناممکن ہے کہ ان کی زندگی اور ان کی ہدایات کو بایں طور پر محفوظ رکھا گیا ہو۔ حدیث مذکور کے آخری الفاظ سے بعضوں نے نکالا کہ اس امت کی بقا ہزار برس سے زیادہ رہے گی اور الحمد للہ یہ امر اب پورا ہو رہا ہے کہ امت محمدیہ پر چودھویں صدی پوری ہونے والی ہے اور مسلمان دنیا میں آج بھی کروڑہا کی تعداد میں موجود ہیں۔ اس دنیا کی عمر کتنی ہے یا یہ کہ امت مسلمہ کتنی عمر لے کر آئی ہے، شریعت اسلامیہ نے ان باتوں کو علم الٰہی پر موقوف رکھا ہے۔ اتنا ضرور بتلایا گیا ہے کہ امت مسلمہ سے قبل جو بھی انسانی دور گزر چکا ہے وہ مدت کے لحاظ سے ایسا ہے جیسا کہ فجر سے عصر تک کا وقت ہے۔ اور امت مسلمہ کا دور ایسے وقت میں شروع ہورہا ہے گویا اب عصر سے دن کا باقی حصہ شروع ہورہاہے۔ اس لیے اس امت کو آخری امت اور اس دین کو آخری دین اور قرآن مجید کو آخری کتاب اور سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی و خاتم الرسل کہا گیا ہے۔ اب علم الٰہی میں دنیا کی عمر کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے آخر تک یہی دین آسمانی رہے گا۔ یہی شریعت آسمانی رہے گی اوراس کے خلاف جو بھی مدعی ہو وہ خواہ اسلام کا ہی دعوے دار کیوں نہ ہو وہ کذاب، مکار، دجال سمجھا جائے گا۔ جیسا کہ ایسے دجاجلہ کی بکثرت مثالیں موجود ہیں۔ نظر ثانی میں یہ نوٹ حرم نبوی کے نزدیک مدینہ المنورہ میں حوالہ قلم کیا گیا۔
بَابُ مَنِ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَتَرَكَ الأَجِيرُ أَجْرَهُ، فَعَمِلَ فِيهِ
باب : اگر کسی نے کوئی مزدور کیا اور وہ مزدور اپنی اجرت لیے بغیر چلا گیا
2272 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ انْطَلَقَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حَتَّى أَوَوْا الْمَبِيتَ إِلَى غَارٍ فَدَخَلُوهُ فَانْحَدَرَتْ صَخْرَةٌ مِنْ الْجَبَلِ فَسَدَّتْ عَلَيْهِمْ الْغَارَ فَقَالُوا إِنَّهُ لَا يُنْجِيكُمْ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ إِلَّا أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ بِصَالِحِ أَعْمَالِكُمْ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ اللَّهُمَّ كَانَ لِي أَبَوَانِ شَيْخَانِ كَبِيرَانِ وَكُنْتُ لَا أَغْبِقُ قَبْلَهُمَا أَهْلًا وَلَا مَالًا فَنَأَى بِي فِي طَلَبِ شَيْءٍ يَوْمًا فَلَمْ أُرِحْ عَلَيْهِمَا حَتَّى نَامَا فَحَلَبْتُ لَهُمَا غَبُوقَهُمَا فَوَجَدْتُهُمَا نَائِمَيْنِ وَكَرِهْتُ أَنْ أَغْبِقَ قَبْلَهُمَا أَهْلًا أَوْ مَالًا فَلَبِثْتُ وَالْقَدَحُ عَلَى يَدَيَّ أَنْتَظِرُ اسْتِيقَاظَهُمَا حَتَّى بَرَقَ الْفَجْرُ فَاسْتَيْقَظَا فَشَرِبَا غَبُوقَهُمَا اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ فَانْفَرَجَتْ شَيْئًا لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الْآخَرُ اللَّهُمَّ كَانَتْ لِي بِنْتُ عَمٍّ كَانَتْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيَّ فَأَرَدْتُهَا عَنْ نَفْسِهَا فَامْتَنَعَتْ مِنِّي حَتَّى أَلَمَّتْ بِهَا سَنَةٌ مِنْ السِّنِينَ فَجَاءَتْنِي فَأَعْطَيْتُهَا عِشْرِينَ وَمِائَةَ دِينَارٍ عَلَى أَنْ تُخَلِّيَ بَيْنِي وَبَيْنَ نَفْسِهَا فَفَعَلَتْ حَتَّى إِذَا قَدَرْتُ عَلَيْهَا قَالَتْ لَا أُحِلُّ لَكَ أَنْ تَفُضَّ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ فَتَحَرَّجْتُ مِنْ الْوُقُوعِ عَلَيْهَا فَانْصَرَفْتُ عَنْهَا وَهِيَ أَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ وَتَرَكْتُ الذَّهَبَ الَّذِي أَعْطَيْتُهَا اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ فَانْفَرَجَتْ الصَّخْرَةُ غَيْرَ أَنَّهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ الْخُرُوجَ مِنْهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ الثَّالِثُ اللَّهُمَّ إِنِّي اسْتَأْجَرْتُ أُجَرَاءَ فَأَعْطَيْتُهُمْ أَجْرَهُمْ غَيْرَ رَجُلٍ وَاحِدٍ تَرَكَ الَّذِي لَهُ وَذَهَبَ فَثَمَّرْتُ أَجْرَهُ حَتَّى كَثُرَتْ مِنْهُ الْأَمْوَالُ فَجَاءَنِي بَعْدَ حِينٍ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَدِّ إِلَيَّ أَجْرِي فَقُلْتُ لَهُ كُلُّ مَا تَرَى مِنْ أَجْرِكَ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ وَالرَّقِيقِ فَقَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَسْتَهْزِئُ بِي فَقُلْتُ إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِكَ فَأَخَذَهُ كُلَّهُ فَاسْتَاقَهُ فَلَمْ يَتْرُكْ مِنْهُ شَيْئًا اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ فَانْفَرَجَتْ الصَّخْرَةُ فَخَرَجُوا يَمْشُونَ
ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے خبر دی، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی امت کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے۔ رات ہونے پر رات گزارنے کے لیے انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی، اور اس میں اندر داخل ہو گئے۔ اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ سب نے کہا کہ اب اس غار سے تمہیں کوئی چیز نکالنے والی نہیں، سوا اس کے کہ تم سب، اپنے سب سے زیادہ اچھے عمل کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک شخص نے اپنی دعا شروع کی کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ بہت بوڑھے تھے اور میں روزانہ ان سے پہلے گھر میں کسی کو بھی دودھ نہیں پلاتا تھا، نہ اپنے بال بچوں کو، اور نہ اپنے غلام وغیرہ کو۔ ایک دن مجھے ایک چیز کی تلاش میں رات ہوگئی اور جب میں گھر واپس ہوا تو وہ ( میرے ماں باپ ) سو چکے تھے۔ پھر میں نے ان کے لیے شام کا دودھ نکالا۔ جب ان کے پا س لایا تو وہ سوئے ہوئے تھے۔ مجھے یہ بات ہرگز اچھی معلوم نہیں ہوئی کہ ان سے پہلے اپنے بال بچوں یا اپنے کسی غلام کو دودھ پلاؤں، اس لیے میں ان کے سرہانے کھڑا رہا۔ دودھ کا پیالہ میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے جاگنے کا انتظار کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اب میرے ماں باپ جاگے اور انہوں نے اپنا شام کا دودھ اس وقت پیا، اے اللہ ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت کو ہم سے ہٹا دے۔ اس دعا کے نتیجہ میں وہ غار تھوڑا سا کھل گیا۔ مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دوسرے نے دعا کی، اے اللہ ! میرے چچا کی ایک لڑکی تھی۔ جو سب سے زیادہ مجھے محبوب تھی، میں نے اس کے ساتھ برا کام کرنا چاہا، لیکن اس نے نہ مانا۔ اسی زمانہ میں ایک سال قحط پڑا۔ تو وہ میرے پاس آئی میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ خلوت میں مجھے سے برا کام کرائے۔ چنانچہ وہ راضی ہو گئی۔ اب میں اس پر قابو پاچکا تھا۔ لیکن اس نے کہا کہ تمہارے لیے میں جائز نہیں کرتی کہ اس مہر کو تم حق کے بغیر توڑو۔ یہ سن کر میں اپنے برے ارادے سے باز آگیا اور وہاں سے چلا آیا۔ حالانکہ وہ مجھے سب سے بڑھ کر محبوب تھی اور میں نے اپنا دیا ہوا سونا بھی واپس نہیں لیا۔ اے اللہ ! اگر یہ کام میں نے صرف تیری رضا کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ چٹان ذرا سی اور کھسکی، لیکن اب بھی ا س سے باہر نہیں نکلا جاسکتا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تیسرے شخص نے دعا کی۔ اے اللہ ! میں نے چند مزدور کئے تھے۔ پھر سب کو ان کی مزدوری پوری دے دی، مگر ایک مزدور ایسا نکلا کہ وہ اپنی مزدوری ہی چھوڑ گیا۔ میں نے اس کی مزدوری کو کاروبار میں لگا دیا اور بہت کچھ نفع حاصل ہو گیا پھر کچھ دنوں کے بعد وہی مزدور میرے پا س آیا اور کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھے میری مزدوری دے دے، میں نے کہا یہ جو کچھ تو دیکھ رہا ہے۔ اونٹ، گائے، بکری اور غلام یہ سب تمہاری مزدوری ہی ہے۔ وہ کہنے لگا اللہ کے بندے ! مجھ سے مذاق نہ کر۔ میں نے کہا میں مذاق نہیں کرتا، چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی۔ تو اے اللہ ! اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے۔ چنانچہ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گئے۔
تشریح : اس حدیث سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں اور باب کا مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے جو حدیث مذکور میں تیسرے شخص سے متعلق ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعمال صالحہ کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہے۔ آیت کریمہ وابتغوا الیہ الوسلیۃ کا یہی مطلب ہے کہ اس اللہ کی طرف نیک اعمال کا وسیلہ ڈھونڈو۔ جو لوگ بزرگوں، ولیوں کا وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں یا محض ذات نبوی کو بعد وفات بطور وسیلہ پیش کرتے ہیں وہ ایسا عمل کرتے ہیں جس پر کتاب و سنت سے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر بعد وفات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بطور وسیلہ پیش کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک استسقاءکی دعا کے موقع پر ایسا نہ کہتے کہ یا اللہ ! ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعا کرانے کے لیے آپ کو پیش کیا کرتے تھے۔ اب اللہ کے نبی دنیا سے چلے گئے اور آپ کے محترم چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی موجود ہے لہٰذا دعا کرانے کے لیے ہم ان کو پیش کرتے ہیں تو ان کی دعائیں ہمارے حق میں قبول فرما کر ہم کو باران رحمت سے شاداب فرمادے۔
بَابُ مَنْ آجَرَ نَفْسَهُ لِيَحْمِلَ عَلَى ظَهْرِهِ، ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ، وَأُجْرَةِ الحَمَّالِ
باب : جس نے اپنی پیٹھ پر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کی یعنی حمالی کی اور پھر اسے صدقہ کر دیا اور حمال کی اجرت کا بیان
2273 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَى السُّوقِ فَيُحَامِلُ فَيُصِيبُ الْمُدَّ وَإِنَّ لِبَعْضِهِمْ لَمِائَةَ أَلْفٍ قَالَ مَا تَرَاهُ إِلَّا نَفْسَهُ
ترجمہ : ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ( یحییٰ بن سعید قریش ) نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شفیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، تو بعض لوگ بازاروں میں جاکر بوجھ اٹھاتے جن سے ایک مدمزدوری ملتی ( وہ اس میں سے بھی صدقہ کرتے ) آج ان میں سے کسی کے پاس لاکھ لاکھ ( درہم یا دینار ) موجود ہیں۔ شفیق نے کہا ہمارا خیال ہے کہ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کسی سے اپنے ہی تیئں مراد لیا تھا۔
تشریح : اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عہد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم محنت مزدوری بخوشی کیا کرتے تھے۔ حتی کہ وہ حمالی بھی کرتے پھر جو مزدوری ملتی اس میں سے صدقہ بھی کرتے۔ اللہ پاک ان کو امت کی طرف سے بے شمار جزائیں عطا کرے کہ اس محنت سے انہوں نے شجر اسلام کی آبیاری کی، آج الحمد للہ وہی مدینہ ہے جن کے باشندے فراخی اور کشادگی میں بہت بڑھے ہوئے ہیں۔ آج مدینہ میں کتنے ہی عظیم محلات موجود ہیں۔
بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ
باب : دلالی کی اجرت لینا
2274 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ وَلَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ قُلْتُ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ قَالَ لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( تجارتی ) قافلوں سے ( منڈی سے آگے جاکر ) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس رضی اللہ عنہما ! ” شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں “ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔
بَابٌ: هَلْ يُؤَاجِرُ الرَّجُلُ نَفْسَهُ مِنْ مُشْرِكٍ فِي أَرْضِ الحَرْبِ
باب : کیا کوئی مسلمان دار الحرب میں کسی مشرک کی مزدوری کرسکتا ہے؟
2275 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ حَدَّثَنَا خَبَّابٌ قَالَ كُنْتُ رَجُلًا قَيْنًا فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ فَاجْتَمَعَ لِي عِنْدَهُ فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ لَا أَقْضِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ فَقُلْتُ أَمَا وَاللَّهِ حَتَّى تَمُوتَ ثُمَّ تُبْعَثَ فَلَا قَالَ وَإِنِّي لَمَيِّتٌ ثُمَّ مَبْعُوثٌ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَإِنَّهُ سَيَكُونُ لِي ثَمَّ مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَقْضِيكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا
تشریح : حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے عاص بن وائل کی مزدوری کی، حالانکہ وہ کافر اور دار الحرب کا باشندہ تھا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ عاص بن وائل نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بات سن کر بطور مذاق ایسا کہا۔ اللہ پاک نے اسی کی مذمت میں آیت مذکورہ نازل فرمائی کہ ”اے نبی ! تو نے اس کافر کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کے ساتھ کفر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں مرنے کے بعد ضرور مال اور اولاد دیا جاؤں گا“ گویا اس نے اللہ کے یہاں کوئی عہد حاصل کر لیا ہے۔
بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ العَرَبِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ
باب : سورہ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا
2276 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ فَقَالُوا يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ قَالَ فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَى لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ فَقَالَ وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ بِهَذَا
ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پا س کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔
تشریح : مجتہد مطلق، امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ا س باب اور روایت کردہ حدیث کے تحت بہت سے مسائل جمع فرما دیئے ہیں۔ اصحاب نبوی چوں کہ سفر میں تھے اور اس زمانے میں ہوٹلوں کا کوئی دستور نہ تھا۔ عربو ںمیں مہمان نوازی ہی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک رات کی مہمانی کے لیے قبیلہ والوں سے درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی اثنا میں ان قبیلے والوں کا سردار سانپ یا بچھو سے کاٹا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو وہ قبیلہ والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پا س آکر دم جھاڑ کے لیے متمنی ہوئے اور حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر فرمائی اور اجرت میں تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سردار پر سات بار یا تین بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ اور وہ سردار اللہ کے حکم سے تندرست ہو گیا اور قبیلہ والوں نے بکریاں پیش کر دیں جن کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تائید فرمائی اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی کے لیے بکریوں کی تقسیم میں اپنا حصہ مقرر کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ شعبہ کی روایت کو ترمذی نے وصل کیا ہے اس لفظ کے ساتھ۔ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی طب میں عنعنہ کے ساتھ ذکرکیا ہے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی آیتوں اوراسی طرح دیگر اذکار و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دم کرنا درست ہے۔ دیگر روایت میں صاف مذکور ہے لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم جھاڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جو لوگ شرکیہ لفظوں سے اور پیروں فقیروں کے نام سے منتر جنتر کرتے ہیں، وہ عند اللہ مشرک ہیں۔ ایک موحد مسلمان کو ہرگز ایسے ڈھکوسلوں میں نہ آنا چاہئے اور ایسے مشرک و مکار تعویذ و منتر والوں سے دور رہنا چاہئے کہ آج کل ایسے لوگوں کے ہتھکنڈے بہت کثرت کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اس حدیث سے بعض علماءنے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت کیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں : و من ادلۃ الجواز حدیث عمر المتقدم فی کتاب الزکوٰۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ ما اتاک من ہذا المال من غیر مسئلۃ و لا اشراف نفس فخذہ و من ادلۃ الجواز حدیث الرقیۃ المشہور الذی اخرجہ البخاری عن ابی عباس و فیہ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ( ص 268 ) اور جواز کے دلائل میں سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر سوال کئے اور بغیر تانکے جھانکے خود آئے، اس کو قبول کرلو اور جواز کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں دم کرنے کا واقعہ مذکور ہے جس کو امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے اوراس میں یہ بھی ہے کہ بلاشک جس پر تم بطور اجر لینے کا حق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔ صاحب لمعات لکھتے ہیں و فیہ دلیل علی ان الرقیۃ بالقران و اخذ الاجرۃ علیہا جائز بلا شبھۃ یعنی اس میں اس پر دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ دم کرنا اور اس پر اجرت لینا بلاشبہ جائز ہے۔ ایسا ہی واقعہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں خارجۃ بن صلت عن عمہ کی روایت سے مذکور ہے راوی کہتے ہیں اقبلنا من عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم فاتینا علی حی من العرب فقالوا نا انبئنا انکم قد جئتم من عند ہذا الرجل بخیر فہل عندکم من دواء اور قیۃ فان عندنا معتوہا فی القیود فقلنا نعم فجاوا بمعتوہ فی القیود فقرات علیہ بفاتحۃ الکتاب ثلاثۃ ایام غدوۃ و عشیۃ اجمع بزاقی ثم اتفل قال فکانما انشط من عقال فاعطونی جعلا فقلت لا حتی اسال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل فلعمری لمن اکل برقیۃ باطل لقد اکلت برقیۃ حق ( رواہ احمد و ابوداود ) مختصر مطلب یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا ہو کر ایک عرب قبیلہ پر سے گزرے۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تم اس آدمی کے پاس سے کچھ نہ کچھ خیر لے کر آئے ہو۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید اور ذکر اللہ سیکھ کر آئے ہو۔ ہمارے ہاں ایک دیوانہ بیڑیوں میں مقید ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوا یا دم جھاڑ ہو تو مہربانی کرو۔ ہم نے کہا کہ ہاں ! ہم موجود ہیں۔ پس وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آدمی کو لائے اور میں نے ا س پر صبح و شام تین روز تک برابر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ میں یہ سورۃ پڑھ پرھ کر اپنے منہ میں تھوک جمع کرکے اس پر دم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ مریض اتنا آزاد ہو گیا کہ جتنا اونٹ اس کی رسی کھولنے سے آزاد ہوجاتاہے یعنی وہ تندرست ہو گیا۔ پس ان قبیلہ والوں نے مجھ کو اجرت دینا چاہی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ تو جھوٹ موٹ فریب دے کر دم جھاڑا سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، تم نے تو حق اور سچا دم کیا ہے جس پر کھانا حق ہے جو حلال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک کے بہانہ سے غلط قسم کے لوگوں کی کثرت بھی پہلے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اور بہت سے نادان لوگ اپنی طبعی کمزوری کی بناءپر ایسے لوگوں کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخ میں اقوام قدیم کلدانیوں، مصریوں، سامیو ںوغیرہ وغیرہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ لوگ بیشتر تعداد میں دم، جھاڑ، پھونک پھانک منتر، جنتر کرنے والو ںکے زبردست معتقد ہوتے تھے۔ اکثر تو موت و حیات تک کو ایسے ہی مکار دم جھاڑ کرنے والو ںکے ہاتھوں میں جانتے تھے۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ بھی ان بیماریوں سے نہ بچ سکی اور ان میں بھی منتر جنتر کے ناموں پر کتنے ہی شرکیہ طور طریقے جاری ہو گئے۔ اور اب بھی بکثرت عوام ایسے ہی مکار لوگوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہیں نقش و تعویذ لکھنے والے صرف ہندسوں سے کام چلاتے ہیں۔ جن کو خود ان ہندسوں کی حقیقت کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتنے ہی صرف پیروں، درویشوں، فوت شدہ بزرگوں کے نالکھ کر دے دیتے ہیں۔ کتنے یا جبرئیل، یا میکائیل یا عزرائیل لکھ کر استعمال کراتے ہیں۔ کتنے من گھڑت شرکیہ دعائیں لکھ کر خود مشرک بنتے اور دوسروں کو مشرک بناتے ہیں کتنے حضرت پیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی دہائی لکھ کر لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں۔ الغرض مسلمانوںکی ایک کثیر تعداد ایسے ہتھکنڈوں کی شکار ہے، پھر ان تعویذ گنڈہ کرنے والے اور لوگوں کا مال اس دھوکہ فریب سے کھانے والے غور کریں کہ وہ اللہ اورا س کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن کیا منہ دکھلائیں گے۔ آج 29 ذی الحجہ1389ھ کو مقام ابراہیم کے قریب بوقت مغرب یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور بعونہ تعالیٰ2 صفر1390ھ کو مدینہ منورہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چپوترہ پر بیٹھ کر نظر ثانی کی گئی۔
بَابُ ضَرِيبَةِ العَبْدِ، وَتَعَاهُدِ ضَرَائِبِ الإِمَاءِ
باب : غلام لونڈی پر روزانہ ایک رقم مقرر کردینا
2277 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَجَمَ أَبُو طَيْبَةَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَكَلَّمَ مَوَالِيَهُ فَخَفَّفَ عَنْ غَلَّتِهِ أَوْ ضَرِيبَتِهِ
ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوطیبہ حجام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجرت میں ایک صاع یا دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے سفارش کی کہ جو محصول اس پر مقرر ہے اس میں کچھ کمی کردیں۔
بَابُ خَرَاجِ الحَجَّامِ
باب : پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان
2278 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَى الْحَجَّامَ اجره
ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھانے لگانے والے کو اجرت بھی دی۔ اگر پچھنا لگوانا ناجائز ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ پچھنا لگواتے نہ اجرت دیتے۔
بَابُ خَرَاجِ الحَجَّامِ
باب : پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان
2279 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَعْطَى الْحَجَّامَ أَجْرَهُ وَلَوْ عَلِمَ كَرَاهِيَةً لَمْ يُعْطِهِ
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو اجرت بھی دی، اگر اس میں کوئی کراہت ہوتی تو آپ کاہے کو دیتے۔
تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے گویا اس شخص کا رد کیا، جو حجام کی اجرت کو حرام کہتا تھا۔ جمہور کا یہی مذہب ہے کہ وہ حلال ہے۔ حدت خون میں پچھنا لگانا بہت مفید ہے۔ عربوں میں یہ علاج اس مرض کے لیے عام تھا۔
بَابُ خَرَاجِ الحَجَّامِ
باب : پچھنا لگانے والے کی اجرت کا بیان
2280 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجِمُ وَلَمْ يَكُنْ يَظْلِمُ أَحَدًا أَجْرَهُ
ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ کسی کی مزدوری کے معاملے میں کسی پر ظلم نہیں کرتے تھے۔
تشریح : باب کی احادیث سے حضرت امام بخاری نے یہ ثابت فرمایا کہ حجام یعنی پچھنا لگانے والے کی اجرت حلال ہے اور یہ پیشہ بھی جائز ہے اگریہ پیشہ ناجائز ہوتا تو نہ آپ پچھنا لگواتے نہ اس کو اجرت دیتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے کاموں کو بنظر حقارت دیکھنے والے غلطی پر ہیں۔
بَابُ مَنْ كَلَّمَ مَوَالِيَ العَبْدِ: أَنْ يُخَفِّفُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ
باب : اس کے متعلق جس نے کسی غلام کے مالکوں سے غلام کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کے لیے سفارش کی
2281 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا حَجَّامًا فَحَجَمَهُ وَأَمَرَ لَهُ بِصَاعٍ أَوْ صَاعَيْنِ أَوْ مُدٍّ أَوْ مُدَّيْنِ وَكَلَّمَ فِيهِ فَخُفِّفَ مِنْ ضَرِيبَتِهِ
ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پچھنالگانے والے غلام ( ابوطیبہ ) کو بلایا، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنا لگایا۔ اور آپ نے انہیں ایک یا دو صاع، یا ایک یا دو مد ( راوی حدیث شعبہ کو شک تھا ) اجرت دینے کے لیے حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کے مالکوں سے بھی ) ان کے بارے میں سفارش فرمائی تو ان کا خراج کم کر دیا گیا۔
تشریح : پچھلی حدیث میں پچھنا لگانے والے غلام کی کنیت ابوطیبہ رضی اللہ عنہ مذکور ہے۔ ان کا نام نافع بتلایا گیا ہے۔ حافظ نے اسی کو صحیح کہا ہے۔ ابن حذاءنے کہا کہ ابوطیبہ نے 134سال کی عمر پائی تھی۔ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ غلام یا لونڈی کے اوپر مقررہ ٹیکس میں کمی کرانے کی سفارش کرنا درست ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب اسلام کی برکت سے غلامی کا یہ بدترین دور تقریباً دنیا سے ختم ہو چکا ہے۔ مگر اب غلامی کے دوسرے طریقے ایجاد ہو گئے ہیں جو اور بھی بدتر ہیں۔ اب قوموں کو غلام بنایا جاتا ہے جن کے لیے اقلیت اور اکثریت کی اصطلاحات مروج ہو گئی ہیں۔
بَابُ كَسْبِ البَغِيِّ وَالإِمَاءِ
باب : رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان
2282 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ
ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے بیان کیا، ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ ( کے زنا ) کی خرچی اور کاہن کی مزدوری سے منع فرمایا۔
بَابُ كَسْبِ البَغِيِّ وَالإِمَاءِ
باب : رنڈی اور فاحشہ لونڈی کی خرچی کا بیان
2283 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَسْبِ الْإِمَاءِ
ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے باندیوں کی زنا کی کمائی سے منع فرمایا تھا۔
تشریح : آیت قرآنی اور ہر دو احادیث سے حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رنڈی کی کمائی اور لونڈی کی کمائی حرام ہے۔ عہد جاہلیت میں لوگ اپنی لونڈیوں سے حرام کمائی حاصل کرتے اور ان سے بالجبر پیشہ کراتے تھے۔ اسلام نے نہایت سختی کے ساتھ اسے روکا اور ایسی کمائی کو لقمہ حرام قرار دیا۔ اسی طرح کہانت کا پیشہ بھی حرام قرار پایا نیز کتے کی قیمت سے بھی منع کیا گیا۔
بَابُ عَسْبِ الفَحْلِ
باب : نر کی جفتی ( پر اجرت ) لینا
2284 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ
ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث اور اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے علی بن حکم نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کدانے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ( حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے )
بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَرْضًا، فَمَاتَ أَحَدُهُمَا
باب : اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مرجائے
2285 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ الْيَهُودَ أَنْ يَعْمَلُوهَا وَيَزْرَعُوهَا وَلَهُمْ شَطْرُ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَأَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ أَنَّ الْمَزَارِعَ كَانَتْ تُكْرَى عَلَى شَيْءٍ سَمَّاهُ نَافِعٌ لَا أَحْفَظُهُ
ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماءنے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہودیوں کو ) خیبر کی زمین دے دی تھی کہ اس میں محنت کے ساتھ کاشت کریں اور پیداوار کا آدھا حصہ خود لے لیا کریں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بیان کیا کہ زمین کچھ کرایہ پر دی جاتی تھی۔ نافع نے اس کرایہ کی تعیین بھی کردی تھی لیکن وہ مجھے یا دنہیں رہا۔
بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَرْضًا، فَمَاتَ أَحَدُهُمَا
باب : اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مرجائے
2286 وَأَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ حَدَّثَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ
ترجمہ : اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبید اللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ( خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا ) یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جلاوطن کردیا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ کا منشائے باب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں سے زمین کی بٹائی کا ٹھیکہ طے فرمایا، جو حیات نبوی تک جاری رہا۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا تب اسی معاملہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ اسلام ہونے کی حیثیت میں جاری رکھا حتی کہ ان کا بھی وصال ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی شروع خلافت میں اس معاملہ کو جاری رکھا۔ بعد میں یہودیوں کی مسلسل شرارتیں دیکھ کر ان کو خیبر سے جلاوطن کر دیا۔ پس ثابت ہوا کہ دو معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی موت ہوجانے سے وہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ان کے وارث اسے جاری رکھیں گے ہاں اگر کسی معاملہ کو فریقین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر یہ امر دیگر ہے۔ روایت میں زمینوں کو کرایہ پر دینے کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ فالتو زمین پڑی ہو جیسا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں حالات تھے، تو ایسے حالات میں مالکان زمین یا تو فالتو زمینوں کی خود کاشت کریں یا پھر بجائے کرایہ پر دینے کے اپنے کسی حاجت مند بھائی کو مفت دے دیں۔
بَابُ الحَوَالَةِ، وَهَلْ يَرْجِعُ فِي الحَوَالَةِ؟
باب : حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں
2287 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ
ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قرض ادا کرنے میں ) مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جاے تو اسے قبول کرے۔
تشریح : اس سے یہی نکلتا ہے کہ حوالہ کے لیے محیل اور محتال کی رضا مندی کافی ہے۔ محتال علیہ کی رضا مندی ضروری نہیں۔ جمہوری کا یہی قول ہے اور حنفیہ نے اس کی رضا مندی بھی شرط رکھی ہے۔
بَابُ إِذَا أَحَالَ عَلَى مَلِيٍّ فَلَيْسَ لَهُ رَدٌّ
باب : قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں
2288 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ ذَكْوَانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَمَنْ أُتْبِعَ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتَّبِعْ
ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالدار کی طرف سے ( قرض ادا کرنے میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ کسی مالدار نے کسی کاقرض اگر اپنے سر لے لیا تو اس ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہوگا۔ چاہئیے کہ اسے فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض حوالہ کیا گیا ہے اسے بھی چاہئیے کہ اس کو قبول کرکے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کرلے اور ایسے حوالہ سے انکار نہ کرے۔ ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔
بَابُ إِنْ أَحَالَ دَيْنَ المَيِّتِ عَلَى رَجُلٍ جَازَ
باب : اگر کسی میت کا قرض کسی ( زندہ ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے
2289 حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قِيلَ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ فَصَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ
ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوںنے آپ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پرہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ںنے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔
تشریح : ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔ حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔ جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔ اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔ امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔ ( وحیدی ) اور خود حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔ جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔ ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔ اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔ ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔ یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔ ام لہم شرکٰوٓا شرعوا لہم من الدین ما لم باذن بہ اللہ ( الشوری : 21 ) کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں ( جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔ ) جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔ صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے ! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔ کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : زاد الحاکم فی حدیث جابر فقال ہما علیک و فی مالک و المیت منہما بری قال نعم فصلی علیہ فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا لقی ابا قتادۃ یقول ما صنعت الدینار ان حتی کان اخر ذلک ان قال قد قضیتہا یا رسول اللہ قال الان حین بردت علیہ جلدہ و قد وقعت ہذہ القصۃ مرۃ اخری فروی۔ الدار قطنی من حدیث علی کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اتی بجنازۃ لم یسال عن شی من عمل الرجل و یسال عن دینہ فان قیل علیہ دین کف و ان قیل لیس علیہ دین صلی فاتی بجنازۃ فلما قام لیکبر سال ہل علیہ دین؟ فقالوا دینار ان فعدل عنہ فقال علی ہما علی یا رسول اللہ وہوبری منہما فصلی علیہ ثم قال لعلی جزاک اللہ خیرا و فک اللہ رہناک ( فتح الباری ) یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔ اور میت ان سے بری ہو گیا۔ اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔ پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔ اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔ پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔ جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔ پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ میں ادا کردوں گا۔ اور یہ میت ان سے بری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور فرمایا کہ اے علی ! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔ ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔ اور ان رسمو ںکو عین خوشنودی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔ من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔ ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔ نہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔ اعاذنا اللہ منہا آمین۔
بَابُ الكَفَالَةِ فِي القَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا
باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں
2290 وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَهُ مُصَدِّقًا، فَوَقَعَ رَجُلٌ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَأَخَذَ حَمْزَةُ مِنَ الرَّجُلِ كَفِيلًا حَتَّى قَدِمَ عَلَى عُمَرَ، وَكَانَ عُمَرُ قَدْ جَلَدَهُ مِائَةَ جَلْدَةٍ، فَصَدَّقَهُمْ وَعَذَرَهُ بِالْجَهَالَةِ وَقَالَ جَرِيرٌ، وَالأَشْعَثُ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: «فِي المُرْتَدِّينَ اسْتَتِبْهُمْ وَكَفِّلْهُمْ، فَتَابُوا، وَكَفَلَهُمْ عَشَائِرُهُمْ» وَقَالَ حَمَّادٌ: «إِذَا تَكَفَّلَ بِنَفْسٍ فَمَاتَ فَلاَ شَيْءَ عَلَيْهِ»، وَقَالَ الحَكَمُ: «يَضْمَنُ»
ترجمہ : اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد ( حمزہ ) نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے عہد خلافت میں ) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ( جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے ) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے ( کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے ) چنانچہ انہوں نے توبہ کر لی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مر جائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔
بَابُ الكَفَالَةِ فِي القَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا
باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں
2291 قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، قَالَ: فَأْتِنِي بِالكَفِيلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي البَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ التَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةً فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى البَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلاَنًا أَلْفَ دِينَارٍ، فَسَأَلَنِي كَفِيلاَ، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا، فَرَمَى بِهَا فِي البَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا المَالُ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ المَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، فَأَتَى بِالأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا
ترجمہ : ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی صفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری ( کشتی وغیرہ ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ ( اور اس کا قرض ادا کردے ) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک ( اس مضمون کا ) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف ( یہ دینار بھیجے جارہے ہیں ) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور ( تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک ( مدت مقررہ میں ) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں ( کہ تو اس تک پہنچا دے ) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب ( قرض دار ) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں ( بندرگاہ ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینا رنکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ ( کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے ) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور ( یہ خیال کرکے کہ شادی وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھرانہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ کا قول جو یہاں مذکور ہوا ہے اس کو امام بیہقی نے وصل کیا۔ اور ایک قصہ بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے بیان کیا کہ ابن نواحہ کا موذن اذان میں یوں کہتا ہے اشہد ان مسیلمۃ رسول اللہ۔ انہوں نے ابن نواحہ اور اس کے ساتھیوں کو بلا بھیجا۔ ابن نواحہ کی تو گردن مار دی اور اس کے ساتھیوں کے باب میں مشورہ لیا۔ عدی بن حاتم نے کہا قتل کرو۔ جریر اور اشعث نے کہا ان سے توبہ کراؤ اور ضمانت لو۔ وہ ایک سو ستر آدمی تھے۔ ابن ابی شیبہ نے ایسا ہی نقل کیاہے۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدود میں کفالت سے دیون میں بھی کفالت کا حکم ثابت کیا، لیکن حدود اور قصاص میں کوئی کفیل ہو اور اصل مجرم یعنی مکفول عنہ غائب ہو جائے تو کفیل پر حد یا قصاص نہ ہوگا اس پر اتفاق ہے لیکن قرضہ میں جو کفیل ہو اس کو قرض ادا کرنا ہوگا۔ ( وحیدی ) حدیث میں بنی اسرائیل کے جن دو شخصوں کا ذکر ہے ان کی مزید تفصیلات جو حدیث ہذا میں نہیں ہیں تو اللہ کے حوالہ ہیں کہ وہ لوگ کون تھے، کہاں کے باشندے تھے؟ کون سے زمانہ سے ان کا تعلق ہے؟ بہرحال حدیث میں مذکورہ واقعہ اس قابل ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔ اگرچہ یہ دنیا دار الاسباب ہے اور یہاں ہر چیز ایک سبب سے وابستہ ہے۔ قدرت نے اس کارخانہ عالم کو اسی بنیاد پر قائم کیا مگر کچھ چیزیں مستثنیٰ بھی وجود پذیر ہوجاتی ہیں۔ ان ہر دو میں سے قرض لینے والے نے دل کی پختگی اور ایمان کی مضبوطی کے ساتھ محض ایک اللہ پاک ہی کا نام بطور ضامن اور کفیل پیش کر دیا۔ کیوں کہ اس کے دل میں قرض کے ادا کرنے کا یقینی جذبہ تھا۔ اور وہ قرض حاصل کرنے سے قبل عزم مصمم کر چکا تھا کہ اسے کسی نہ کسی صورت یہ قرض بالضرور واپس کرنا ہوگا، اسی عزم صمیم کی بنا پر اس نے یہ قدم اٹھایا۔ حدیث میں اسی لیے فرمایا گیا کہ جو شخص قرض لیتے وقت ادائیگی کا عزم صمیم رکھتا ہے اللہ پاک ضرور اس کی مدد کرتا اور اس کا قرض ادا کردیتا ہے۔ اسی لیے ادائیگی کے وقت وہ شخص کشتی کی تلاش میں ساحل بحر پر آیا کہ سوار ہو کر وقت مقررہ پر قرض ادا کرنے کے لیے قرض خواہ کے گھر حاضر ہوجائے۔ مگر اتفاق کہ تلاش بسیار کے باوجود اس کو سواری نہ مل سکی اور مجبوراً اس نے قرض کے دینار ایک لکڑی کے سوراخ میں بند کرکے اور اس کے ساتھ تعارفی پرچھ لکھ کر لکڑی کو دریا میں اللہ کے بھروسہ پر ڈال دیا۔ اس نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ لکڑی کی یہ رقم اگر اس قرض خواہ بھائی کو اللہ وصول کرا دے تو فبہا ورنہ وہ جب بھی وطن لوٹے گا اس کو دوبارہ یہ رقم ادا کرے گا۔ ادھر وہ قرض دینے والا ساحل بحر پر کسی آنے والی کشتی کا انتظار کررہا تھا کہ وہ بھائی وقت مقررہ پر اس کشتی سے آئے گا اور رقم ادا کردے گا۔ مگر وہ بھی ناکام ہو کر جا ہی رہا تھا کہ اچانک دریا میں اس بہتی ہوئی لکڑی پر نظر جاپڑی اور اس نے ایک عمدہ لکڑی جان کر ایندھن وغیرہ کے خیال سے اسے حاصل کر لیا۔ گھر لے جانے پر اس لکڑکو کو کھولا۔ تو حقیقت حال سے اطلاع پاکر اور اپنی رقم وصول کرکے مسرور ہوا چونکہ ادا کرنے والے حضرت کو وصول کرنے کی اطلاع نہ تھی وہ احتیاطا ً وطن آنے پر دوبارہ یہ رقم لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور تفصیلات سے ہر دو کو علم ہوا اور دونوں بے انتہا مسرور ہوئے۔ یہ توکل علی اللہ کی وہ منزل ہے جو ہر کسی کو نہیں حاصل ہوتی۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے فرمایا تھا کہ اپنے اونٹ رات کو خوب مضبوط باندھ کر اللہ پر بھروسہ رکھو کہ اسے کوئی نہیں چرائے گا۔ گفت پیغمبر با آواز بلند بر توکل زانوے اشتر بہ بند آج بھی ضرورت ہے کہ قرض حاصل کرنے والے مسلمان اس عزم صمیم و توکل علی اللہ کا مظاہر کریں کہ وہ اللہ کی توفیق سے ضرور ضرور قرض کی رقم جلد ہی واپس کریں گے۔ وہ ایسا کریں گے تو اللہ بھی ان کی مدد کرے گا اور ان سے ان کا قرض ادا کرادے گا۔ ان دونوں شخصوں کا نام معلوم نہیں ہوا۔ حافظ نے کہا محمد بن ربیع نے مسند صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ قرض دینے والا نجاشی تھا۔ اس صورت میں اس کو بنی اسرائیل فرمانا اس وجہ سے ہوگا کہ وہ بنی اسرائیل کا متبع تھا نہ یہ ہے کہ ان کی اولاد میں تھا۔ علامہ عینی نے اپنی عادت کے موافق حافظ صاحب پر اعتراض کیا اور حافظ صاحب کی وسعت نظر اور کثرت علم کی تعریف نہ کی۔ اور کہا کہ یہ روایت ضعیف ہے اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا حالانکہ حافظ نے خود فرمایا ہے کہ اس کی سند میں ایک مجہول ہے۔ ( وحیدی ) اس حدیث کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و فی الحدیث جواز الاجل فی القرض ووجوب الوفاءبہ و فیہ التحدیث عما کان فی بنی اسرائیل و غیرہم من العجائب للاتعاظ و الائتساءو فیہ التجارۃ فی البحر و جواز رکوبہ و فیہ بداۃ الکاتب بنفسہ و فیہ طلب الشہود فی الدین و طلب الکفیل بہ و فیہ فضل التوکل علی اللہ و ان من صح توکلہ تکفل اللہ بنصرہ و عونہ الخ ( فتح ) یعنی اس حدیث میں جواز ہے کہ قرض میں وقت مقرر کیا جائے اور وقت مقرر پر ادائیگی کا وجوب بھی ثابت ہوا اور اس سے بنی اسرائیل کے عجیب و اقعات کا بیان کرنا بھی جائز ثابت ہوا تاکہ ان سے عبرت حاصل کی جائے، اور ان کی اقتداءکی جائے اور اس سے دریائی تجارت کا بھی ثبوت ہوا اور دریائی سواریوں پر سوار ہونا بھی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کاتب شروع میں اپنا نام لکھے اور اس سے قرض کے متعلق گواہوں کا طلب کرنا اور اس کے کفیل کا طلب بھی ثابت ہوا۔ اور اس سے توکل علی اللہ کی فضیلت بھی نکلی اور یہ بھی کہ جو حقیقی صحیح متوکل ہوگا اللہ پاک اس کی مدد اور نصرت کا ذمہ دار ہوتاہے۔ خود قرآن پاک میں ارشاد باری ہے و من یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ( الطلاق3 ) جو اللہ پر توکل کرے گا اللہ اس کے لیے کافی و وافی ہے۔ اس قسم کی بہت سی آیات قرآن مجید میں وارد ہیں۔ مگر اس سلسلہ میں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہاتھ پیر چھوڑ کر بیٹھ جانے کا نام توکل نہیں ہے۔ بلکہ کام کو پوری قوت کے ساتھ انجام دینا اور اس کا نتیجہ اللہ کے حوالے کر دینا اور خیر کے لیے اللہ سے پوری پوری امید رکھنا یہ توکل ہے جو ایک مسلمان کے لیے داخل ایمان ہے۔ حدیث قدسی میں فرمایا انا عند ظن عبدی بی میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں وہ میرے متعلق جو بھی گمان قائم کرے گا۔ مطلب یہ کہ بندہ اللہ پر جیسا بھی بھروسہ کرے گا اللہ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا۔ اسرائیلی مومن نے اللہ پر بھروسہ کرکے ایک ہزار اشرفیوں کی خطیر رقم کو اللہ کے حوالہ کر دیا۔ اللہ نے اس کے گمان کو صحیح کرکے دکھلایا۔ شروع میں ابولزناد کی روایت سے جو اوقعہ مذکور ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی بیوی کی لونڈی کو اپنا ہی مال سمجھ کر اس سے بوجہ نادانی صحبت کر لی یہ مقدمہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدالت عالیہ میں آیا تو آپ نے اس کی نادانی کے سبب اس پر رجم کی سزا معاف کر دی مگر بطور تعزیر سو کوڑے لگوائے۔ پھر جب حضرت حمزہ اسلمی وہاں زکوٰۃ وصول کرنے بطور تحصیل دار گئے، تو ان کے سامنے بھی یہ معاملہ آیا۔ ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کا علم نہ تھا۔ لوگوں نے ذکرکیا تب ان کو یقین نہ آیا۔ اس لیے قبیلہ والوں میں سے کسی نے اپنی ضمانت پیش کی کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی تصدیق فرما لیں۔ چنانچہ انہوں نے یہ ضمانت قبول کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس واقعہ کی تصدیق چاہی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے حاضر ضمانت کو ثابت فرمایا ہے۔
بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)
باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “
2292 حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ إِدْرِيسَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ قَالَ وَرَثَةً وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الْأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ نَسَخَتْ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ إِلَّا النَّصْرَ وَالرِّفَادَةَ وَالنَّصِيحَةَ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ
ترجمہ : ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ ( قرآن مجید کی آیت لکل جعلنا موالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا کہ ( موالی کے معنی ) ورثہ کے ہیں۔ اور والذین عقدت ایمانکم ( کا قصہ یہ ہے کہ ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت و لکل جعلنا موالی نازل ہوئی تو پہلی آیت والذین عقدت ایمانکم منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم ( جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا ) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جنتی چاہے کی جاسکتی ہے۔ ( جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔ )
تشریح : یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔ شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ و اولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ ( الانفال : 75 ) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔ قال الطبری ما استدل بہ انس علی اثبات الحلف لا ینافی حدیث جبیر بن مطعم فی نفیہ فان الاخاءالمذکور کان فی اول الہجرۃ و کانوا یتوارثون بہ ثم نسخ من ذلک المیراث و بقی مالکم یبطلہ القرآن و ہو التعاون علی الحق والنصر و الاخذ علی ید الظالم کما قال ابن عباس الا النصر والنصیحۃ و الوفادۃ و یوصی لہ و قد ذہب المیراث ( فتح ) یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔