06. Kitaab ul Haiz; [كِتَابُ الحَيْض]; Menstrual Periods
✦ كِتَابُ الحَيْض ✦
[کتاب: حیض کے احکام و مسائل]
بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الحَيْضِ وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ: «هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ» ❁
باب: حیض کی ابتداء کیسے ہوئی ❁
❁ 294 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ القَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ [ص:67]، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: خَرَجْنَا لاَ نَرَى إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قَالَ: «مَا لَكِ أَنُفِسْتِ؟». قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ» قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ
❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے سنا، کہا میں نے قاسم سے سنا۔ وہ کہتے تھے میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ فرماتی تھیں کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی اور اس رنج میں رونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا۔ کیا حائضہ ہو گئی ہو۔ میں نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ ( سرف ایک مقام مکہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے
❁ بَابُ غَسْلِ الحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِيلِهِ
❁ باب: حائضہ کا اپنے شوہر کا سر دھونا
❁ 295 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كُنْتُ أُرَجِّلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا حَائِضٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں خبر دی مالک نے ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے والد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو حائضہ ہونے کی حالت میں بھی کنگھا کیا کرتی تھی۔
❁ بَابُ غَسْلِ الحَائِضِ رَأْسَ زَوْجِهَا وَتَرْجِيلِهِ
❁ باب: حائضہ کا اپنے شوہر کا سر دھونا
❁ 296 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَهُمْ قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّهُ سُئِلَ أَتَخْدُمُنِي الحَائِضُ أَوْ تَدْنُو مِنِّي المَرْأَةُ وَهِيَ جُنُبٌ؟ فَقَالَ عُرْوَةُ: كُلُّ ذَلِكَ عَلَيَّ هَيِّنٌ، وَكُلُّ ذَلِكَ تَخْدُمُنِي وَلَيْسَ عَلَى أَحَدٍ فِي ذَلِكَ بَأْسٌ أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ: «أَنَّهَا كَانَتْ تُرَجِّلُ، تَعْنِي رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ حَائِضٌ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ مُجَاوِرٌ فِي المَسْجِدِ، يُدْنِي لَهَا رَأْسَهُ، وَهِيَ فِي حُجْرَتِهَا، فَتُرَجِّلُهُ وَهِيَ حَائِضٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ابن جریج نے انھیں خبر دی، انھوں نے کہا مجھے ہشام بن عروہ نے عروہ کے واسطے سے بتایا کہ ان سے سوال کیا گیا، کیا حائضہ بیوی میری خدمت کر سکتی ہے، یا ناپاکی کی حالت میں عورت مجھ سے نزدیک ہو سکتی ہے؟ عروہ نے فرمایا میرے نزدیک تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح کہ عورتیں میری بھی خدمت کرتی ہیں اور اس میں کسی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حائضہ ہونے کی حالت میں کنگھا کیا کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں معتکف ہوتے۔ آپ اپنا سر مبارک قریب کر دیتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ سے کنگھا کر دیتیں، حالانکہ وہ حائضہ ہوتیں۔
تشریح : باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے۔ ادیان سابقہ میں عورت کو ایام حیض میں بالکل علیحدہ قید کردیا جاتا تھا۔ اسلام نے ان قیود کو ہٹا دیا۔
❁ بَابُ قِرَاءَةِ الرَّجُلِ فِي حَجْرِ امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ
❁ باب: مرد کا حائضہ بیوی کی گود میں قرآن پڑھنا
❁ 297 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ الفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، سَمِعَ زُهَيْرًا، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، أَنَّ أُمَّهُ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يَتَّكِئُ فِي حَجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، ثُمَّ يَقْرَأُ القُرْآنَ»
❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے زہیر سے سنا، انھوں نے منصور بن صفیہ سے کہ ان کی ماں نے ان سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اس وقت حیض والی ہوتی تھی۔
❁ تشریح : حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
❁ بَابُ مَنْ سَمَّى النِّفَاسَ حَيْضًا، وَالحَيْضَ نِفَاسًا
❁ باب: نفاس کا نام حیض بھی ہے
❁ 298 حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أُمِّ سَلَمَةَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ حَدَّثَتْهَا قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مُضْطَجِعَةٌ فِي خَمِيصَةٍ، إِذْ حِضْتُ، فَانْسَلَلْتُ، فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، قَالَ: «أَنُفِسْتِ» قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي، فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الخَمِيلَةِ
❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام نے یحییٰ بن کثیر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ سے کہ زینب بنت ام سلمہ نے ان سے بیان کیا اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اتنے میں مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں آہستہ سے باہر نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں نفاس آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پھر مجھے آپ نے بلا لیا، اور میں چادر میں آپ کے ساتھ لیٹ گئی۔
❁ تشریح : نفاس کے مشہور معنی تو یہ ہیں کہ جو خون عورت کو زچگی میں آئے وہ نفاس ہے۔ مگر کبھی حیض کو بھی نفاس کہہ دیتے ہیں اور نفاس کو حیض، اس طرح نام بدل کر تعبیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہاں حیض کے لیے نفاس کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
❁ بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ
❁ باب: حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
❁ 299 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ كِلاَنَا جُنُبٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے منصور بن معمر کے واسطے سے، وہ ابراہیم نخعی سے، وہ اسود سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے۔ حالانکہ دونوں جنبی ہوتے۔
❁ بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ
❁ باب: حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
❁ 300 وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ»
❁ ترجمہ : اور آپ مجھے حکم فرماتے، پس میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ میرے ساتھ مباشرت کرتے، اس وقت میں حائضہ ہوتی۔
❁ بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ
❁ باب: حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
❁ 301 وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ»
❁ ترجمہ : اور آپ اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے۔ اس وقت آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور میں حیض کی حالت میں ہونے کے باوجود آپ کا سر مبارک دھو دیتی۔
❁ تشریح : بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی استہزاء کرتے ہوئے اسے قرآن کے خلاف بتلایا ہے۔ ان کے خیال ناپاک میں مباشرت کا لفظ جماع ہی پر بولا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مباشرت کے معنی بدن سے بدن لگانا اور بوس وکنار مراد ہے اور اسلام میں بالاتفاق حائضہ عورت کے ساتھ صرف جماع حرام ہے۔ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا، بوس وکنار بشرائط معلومہ منع نہیں ہے۔ منکرین حدیث اپنے خیالات فاسدہ کے لیے محض ہفوات باطلہ سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جس کو اپنی شہوت پر قابو نہ ہو اسے مباشرت سے بھی بچنا چاہئیے۔
❁ بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ
❁ باب: حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
❁ 302 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاقَ هُوَ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، فَأَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبَاشِرَهَا أَمَرَهَا أَنْ تَتَّزِرَ فِي [ص:68] فَوْرِ حَيْضَتِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا، قَالَتْ: وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ، كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ تَابَعَهُ خَالِدٌ، وَجَرِيرٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ
❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ہم سے ابواسحاق سلیمان بن فیروز شیبانی نے عبدالرحمن بن اسود کے واسطہ سے، وہ اپنے والد اسود بن یزید سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے، آپ نے کہا تم میں ایسا کون ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہو۔ اس حدیث کی متابعت خالد اور جریر نے شیبانی کی روایت سے کی ہے۔(یہاں بھی مباشرت سے ساتھ لیٹنا بیٹھنا مراد ہے )
بَابُ مُبَاشَرَةِ الحَائِضِ ❁
❁ باب: حائضہ کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا
❁ 303 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَيْمُونَةَ، تَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا أَرَادَ أَنْ يُبَاشِرَ امْرَأَةً مِنْ نِسَائِهِ أَمَرَهَا، فَاتَّزَرَتْ وَهِيَ حَائِضٌ» وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنِ الشَّيْبَانِيِّ
❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن شداد نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے میمونہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی سے مباشرت کرنا چاہتے اور وہ حائضہ ہوتی، تو آپ کے حکم سے وہ پہلے ازار باندھ لیتیں۔ اور سفیان نے شیبانی سے اس کو روایت کیا ہے۔
❁ تشریح : ان تمام احادیث میں حیض کی حالت میں مباشرت سے عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا مراد ہے۔ منکرین حدیث کا یہاں جماع مراد لے کران احادیث کو قرآن کا معارض ٹھہرانا بالکل جھوٹ اور افترا ہے۔
❁ بَابُ تَرْكِ الحَائِضِ الصَّوْمَ
❁ باب: حائضہ عورت روزہ چھوڑ دے
❁ 304 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ إِلَى المُصَلَّى، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ» فَقُلْنَ: وَبِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ العَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ»، قُلْنَ: وَمَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَعَقْلِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَلَيْسَ شَهَادَةُ المَرْأَةِ مِثْلَ نِصْفِ شَهَادَةِ الرَّجُلِ» قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: «فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ عَقْلِهَا، أَلَيْسَ إِذَا حَاضَتْ لَمْ تُصَلِّ وَلَمْ تَصُمْ» قُلْنَ: بَلَى، قَالَ: «فَذَلِكِ مِنْ نُقْصَانِ دِينِهَا»
❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے زید نے اور یہ زید اسلم کے بیٹے ہیں، انھوں نے عیاض بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کی کہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انھوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
❁ تشریح : قسطلانی نے کہا کہ لعنت کرنا اس پر جائز نہیں ہے جس کے خاتمہ کی خبرنہ ہو، البتہ جس کا کفر پر مرنا یقینی ثابت ہو اس پر لعنت جائز ہے۔ جیسے ابوجہل وغیرہ، اسی طرح بغیرنام لیے ہوئے ظالموں اور کافروں پر بھی لعنت کرنی جائز ہے۔
❁ بَابٌ: تَقْضِي الحَائِضُ المَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ
❁ باب: حائضہ حج میں طواف کے علاوہ ارکان
❁ 305 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ نَذْكُرُ إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا جِئْنَا سَرِفَ طَمِثْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: «مَا يُبْكِيكِ؟» قُلْتُ: لَوَدِدْتُ وَاللَّهِ أَنِّي لَمْ أَحُجَّ العَامَ، قَالَ: «لَعَلَّكِ نُفِسْتِ؟» قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «فَإِنَّ ذَلِكِ شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَافْعَلِي مَا يَفْعَلُ الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي»
❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ ( اس غم سے ) میں رو رہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔
❁ تشریح : سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 ) حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔ صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں )
❁ بَابُ الِاسْتِحَاضَةِ
❁ باب: استحاضہ کا بیان
❁ 306 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:69]: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلاَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَ بِالحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الحَيْضَةُ فَاتْرُكِي الصَّلاَةَ، فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا، فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ فَصَلِّي»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بیان کیا کہ فاطمہ ابی حبیش کی بیٹی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو پاک ہی نہیں ہوتی، تو کیا میں نماز بالکل چھوڑ دوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں اس لیے جب حیض کے دن ( جس میں کبھی پہلے تمہیں عادتاً آیا کرتا تھا ) آئیں تو نماز چھوڑ دے اور جب اندازہ کے مطابق وہ دن گزر جائیں، تو خون دھو ڈال اور نماز پڑھ۔
❁ تشریح : یعنی غسل کرکے ایک روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہو۔ مالکیہ اس عورت کے لیے جس کا خون جاری ہی رہے یابواسیر والوں کے لیے مجبوری کی بنا پر وضونہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔
❁ بَابُ غَسْلِ دَمِ المَحِيضِ
❁ باب: حیض کا خون دھونے کا بیان
❁ 307 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ المُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَتِ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الحَيْضَةِ كَيْفَ تَصْنَعُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاكُنَّ الدَّمُ مِنَ الحَيْضَةِ فَلْتَقْرُصْهُ، ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِمَاءٍ، ثُمَّ لِتُصَلِّي فِيهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے بیان کیا، انھوں نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے، انھوں نے فاطمہ بنت منذر سے، انھوں نے اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ایک ایسی عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس کے کپڑے پر حیض کا خون لگ گیا ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی عورت کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو چاہیے کہ اسے رگڑ ڈالے، اس کے بعد اسے پانی سے دھوئے، پھر اس کپڑے میں نماز پڑھ لے۔
❁ بَابُ غَسْلِ دَمِ المَحِيضِ
❁ باب: حیض کا خون دھونے کا بیان
❁ 308 حَدَّثَنَا أَصْبَغُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَتْ إِحْدَانَا تَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَرِصُ الدَّمَ مِنْ ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا، فَتَغْسِلُهُ وَتَنْضَحُ عَلَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے اصبغ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے عمرو بن حارث نے عبدالرحمن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد قاسم بن محمد سے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔
❁ بَابُ اعْتِكَافِ المُسْتَحَاضَةِ
❁ باب: استحاضہ کی حالت میں اعتکاف
❁ 309 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَكَفَ مَعَهُ بَعْضُ نِسَائِهِ وَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ تَرَى الدَّمَ»، فَرُبَّمَا وَضَعَتِ الطَّسْتَ تَحْتَهَا مِنَ الدَّمِ، وَزَعَمَ أَنَّ عَائِشَةَ رَأَتْ مَاءَ العُصْفُرِ، فَقَالَتْ: كَأَنَّ هَذَا شَيْءٌ كَانَتْ فُلاَنَةُ تَجِدُهُ
❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن شاہین ابوبشر واسطی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے خالد بن مہران سے، انھوں نے عکرمہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی بعض ازواج نے اعتکاف کیا، حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں اور انھیں خون آتا تھا۔ اس لیے خون کی وجہ سے طشت اکثر اپنے نیچے رکھ لیتیں۔ اور عکرمہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسم کا پانی دیکھا تو فرمایا یہ تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے فلاں صاحبہ کا استحاضہ کا خون آتا تھا۔
❁ تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مستحاضہ مسجد میں رہ سکتی ہے اور اس کا اعتکاف اور نماز درست ہے اور مسجد میں حدث کرنا بھی درست ہے جب کہ مسجد کے آلودہ ہونے کا ڈر نہ ہو اور جو مرد دائم الحدث ہو وہ بھی مستحاضہ کے حکم میں ہے یا جس کے کسی زخم سے خون جاری رہتاہو۔
❁ بَابُ اعْتِكَافِ المُسْتَحَاضَةِ
❁ باب: استحاضہ کی حالت میں اعتکاف
❁ 310 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «اعْتَكَفَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ أَزْوَاجِهِ، فَكَانَتْ تَرَى الدَّمَ وَالصُّفْرَةَ وَالطَّسْتُ تَحْتَهَا وَهِيَ تُصَلِّي»
❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے خالد سے، وہ عکرمہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواج میں سے ایک نے اعتکاف کیا۔ وہ خون اور زردی ( نکلتے ) دیکھتیں، طشت ان کے نیچے ہوتا اور نماز ادا کرتی تھیں۔
تشریح : یہ خون استحاضہ کی بیماری کا تھا جس میں عورتوں کے لیے نماز معاف نہیں ہے۔
❁ بَابُ اعْتِكَافِ المُسْتَحَاضَةِ
❁ باب: استحاضہ کی حالت میں اعتکاف
❁ 311 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، «أَنَّ بَعْضَ أُمَّهَاتِ المُؤْمِنِينَ اعْتَكَفَتْ وَهِيَ مُسْتَحَاضَةٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے خالد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ عکرمہ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بعض امہات المومنین نے اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں۔ ( اوپر والی روایت میں ان ہی کا ذکر ہے
❁ بَابٌ: هَلْ تُصَلِّي المَرْأَةُ فِي ثَوْبٍ حَاضَتْ فِيهِ؟
❁ باب: کیا عورت حیض والے کپڑے میں نماز
❁ 312 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «مَا كَانَ لِإِحْدَانَا إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ تَحِيضُ فِيهِ، فَإِذَا أَصَابَهُ شَيْءٌ مِنْ دَمٍ قَالَتْ بِرِيقِهَا، فَقَصَعَتْهُ بِظُفْرِهَا»
❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے۔
❁ بَابٌ: الطِّيبُ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنَ المَحِيضِ
❁ باب: حیض کے غسل میں خوشبو استعمال کرنا
❁ 313 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: أَوْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «كُنَّا نُنْهَى أَنْ نُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، وَلاَ نَكْتَحِلَ وَلاَ نَتَطَيَّبَ وَلاَ نَلْبَسَ ثَوْبًا مَصْبُوغًا، إِلَّا ثَوْبَ عَصْبٍ، وَقَدْ رُخِّصَ لَنَا عِنْدَ الطُّهْرِ إِذَا اغْتَسَلَتْ إِحْدَانَا مِنْ مَحِيضِهَا فِي نُبْذَةٍ مِنْ كُسْتِ أَظْفَارٍ، وَكُنَّا نُنْهَى عَنِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: رَوَاهُ هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، عَنْ حَفْصَةَ [ص:70]، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے حفصہ سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔ اس حدیث کو ہشام بن حسان نے حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
❁ تشریح : عورت جب حیض کا غسل کرے تومقام مخصوص پر بدبو کو دور کرنے کے لیے ضرور کچھ خوشبو کا استعمال کرے، اس کی یہاں تک تاکید ہے کہ سوگ والی عورت کو بھی اس کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ احرام میں نہ ہو۔ کست یااظفار کست عود کو کہتے ہیں۔ بعض نے اظفار سے وہ شہر مراد لیا ہے جو یمن میں تھا۔ وہاں سے عود ہندی عربی ممالک میں آیا کرتا تھا۔ ہشام کی روایت خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الطلاق میں بھی نقل کی ہے۔
❁ بَابُ دَلْكِ المَرْأَةِ نَفْسَهَا إِذَا تَطَهَّرَتْ مِنَ المَحِيضِ، وَكَيْفَ تَغْتَسِلُ، وَتَأْخُذُ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، فَتَتَّبِعُ أَثَرَ الدَّمِ
❁ باب: حیض سے پاکی کے بعد غسل
❁ 314 حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ غُسْلِهَا مِنَ المَحِيضِ، فَأَمَرَهَا كَيْفَ تَغْتَسِلُ، قَالَ: «خُذِي فِرْصَةً مِنْ مَسْكٍ، فَتَطَهَّرِي بِهَا» قَالَتْ: كَيْفَ أَتَطَهَّرُ؟ قَالَ: «تَطَهَّرِي بِهَا»، قَالَتْ: كَيْفَ؟، قَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، تَطَهَّرِي» فَاجْتَبَذْتُهَا إِلَيَّ، فَقُلْتُ: تَتَبَّعِي بِهَا أَثَرَ الدَّمِ
❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے منصور بن صفیہ سے، انھوں نے اپنی ماں صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے پوچھا۔ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں، آپ نے فرمایا، اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ! پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ اسے خون لگی ہوئی جگہوں پر پھیر لیا کر۔
❁ تشریح : اس غسل کی کیفیت مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ اچھی طرح سے پاکی حاصل کر پھر اپنے سر پر پانی ڈال تاکہ پانی بالوں کی جڑوںمیں پہنچ جائے پھر سارے بدن پر پانی ڈال۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کرکے بتلایا کہ اگرچہ یہاں نہ بدن کا ملنا ہے نہ غسل کی کیفیت مگر خوشبو کا پھایہ لینا مذکور ہے۔ تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنا بھی اس سے ثابت ہوا۔ عورتوں سے شرم کی بات اشارہ وکنایہ سے کہنا، عورتوں کے لیے مردوں سے دین کی باتیں پوچھنا یہ جملہ امور اس سے ثابت ہوئے، قالہ الحافظ۔
❁ بَابُ غَسْلِ المَحِيضِ
❁ باب: حیض کا غسل کیونکر ہو؟
❁ 315 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الأَنْصَارِ قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَغْتَسِلُ مِنَ المَحِيضِ؟ قَالَ: «خُذِي فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، فَتَوَضَّئِي ثَلاَثًا» ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَحْيَا، فَأَعْرَضَ بِوَجْهِهِ، أَوْ قَالَ: «تَوَضَّئِي بِهَا» فَأَخَذْتُهَا فَجَذَبْتُهَا، فَأَخْبَرْتُهَا بِمَا يُرِيدُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمن نے اپنی والدہ صفیہ سے، وہ عائشہ سے کہ انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ نے فرمایا کہ ایک مشک میں بسا ہوا کپڑا لے اور پاکی حاصل کر، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شرمائے اور آپ نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، یا فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے انھیں پکڑ کر کھینچ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہنی چاہتے تھے وہ میں نے اسے سمجھائی۔
❁ بَابُ امْتِشَاطِ المَرْأَةِ عِنْدَ غُسْلِهَا مِنَ المَحِيضِ
❁ باب: عورت کا حیض کے غسل کے بعد کنگھی کرنا
❁ 316 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَهْلَلْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ، فَكُنْتُ مِمَّنْ تَمَتَّعَ وَلَمْ يَسُقْ الهَدْيَ، فَزَعَمَتْ أَنَّهَا حَاضَتْ وَلَمْ تَطْهُرْ حَتَّى دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ لَيْلَةُ عَرَفَةَ وَإِنَّمَا كُنْتُ تَمَتَّعْتُ بِعُمْرَةٍ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَمْسِكِي عَنْ عُمْرَتِكِ»، فَفَعَلْتُ، فَلَمَّا قَضَيْتُ الحَجَّ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ لَيْلَةَ الحَصْبَةِ، فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي نَسَكْتُ
❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے ابن شہاب زہری نے عروہ کے واسطہ سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کیا، میں تمتع کرنے والوں میں تھی اور ہدی ( یعنی قربانی کا جانور ) اپنے ساتھ نہیں لے گئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق بتایا کہ پھر وہ حائضہ ہو گئیں اور عرفہ کی رات آ گئی اور ابھی تک وہ پاک نہیں ہوئی تھیں۔ اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور آج عرفہ کی رات ہے اور میں عمرہ کی نیت کر چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سر کو کھول ڈال اور کنگھا کر اور عمرہ کو چھوڑ دے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے حج پورا کیا۔ اور لیلۃ الحصبہ میں عبدالرحمن بن ابوبکر کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ وہ مجھے اس عمرہ کے بدلہ میں جس کی نیت میں نے کی تھی تنعیم سے ( دوسرا ) عمرہ کرا لائے۔
❁ تشریح : تمتع اسے کہتے ہیں کہ آدمی میقات پر پہنچ کر صرف عمرہ کا احرام باندھے پھر مکہ پہنچ کر عمرہ کرکے احرام کھول دے۔ اس کے بعدآٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے۔ ترجمہ الباب اس طرح نکلا کہ جب احرام کے غسل کے لیے کنگھی کرنا مشروع ہوا توحیض کے غسل کے لیے بطریق اولیٰ ہوگا۔ تنعیم مکہ سے تین میل دور حرم سے قریب ہے۔ روایت میں لیلۃ الحصبۃ کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ رات ہے جس میں منیٰ سے حج سے فارغ ہوکر لوٹتے ہیں اور وادی محصب میں آکر ٹھہرتے ہیں، یہ ذی الحجہ کی تیرہویں یا چودہویں شب ہوتی ہے، اسی کو لیلۃ الحصبہ کہتے ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر شارحین نے مقصد ترجمہ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ آیا حائضہ حج کا احرام باندھ سکتی ہے یا نہیں، پھر روایت سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ گویہ بھی درست ہے مگرظاہری الفاظ سے معنی یہ ہیں کہ حائضہ کس حالت کے ساتھ احرام باندھے یعنی غسل کرکے احرام باندھے یا بغیر غسل ہی، سودوسری روایت میں غسل کا ذکر موجود ہے اگرچہ پاکی حاصل نہ ہوگی، مگرغسل احرام سنت ہے۔ اس پر عمل ہوجائے گا۔
❁ بَابُ نَقْضِ المَرْأَةِ شَعَرَهَا عِنْدَ غُسْلِ المَحِيضِ
❁ باب: حیض کے غسل کے وقت بالوں کو کھولنا
❁ 317 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُوَافِينَ لِهِلاَلِ ذِي الحِجَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهْلِلْ، فَإِنِّي لَوْلاَ أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ» فَأَهَلَّ بَعْضُهُمْ بِعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ بَعْضُهُمْ بِحَجٍّ، وَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَشَكَوْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ، وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِحَجٍّ»، فَفَعَلْتُ حَتَّى إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الحَصْبَةِ، أَرْسَلَ مَعِي أَخِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَخَرَجْتُ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ مَكَانَ عُمْرَتِي قَالَ هِشَامٌ: «وَلَمْ يَكُنْ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ هَدْيٌ، وَلاَ صَوْمٌ وَلاَ صَدَقَةٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسامہ حماد نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے فرمایا ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی نکلے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا دل چاہے تو اسے عمرہ کا احرام باندھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اگر میں ہدی ساتھ نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ اس پر بعض صحابہ نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا۔ میں بھی ان لوگوں میں سے تھی جنھوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ مگر عرفہ کا دن آ گیا اور میں حیض کی حالت میں تھی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرہ چھوڑ اور اپنا سر کھول اور کنگھا کر اور حج کا احرام باندھ لے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب حصبہ کی رات آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا۔ میں تنعیم میں گئی اور وہاں سے اپنے عمرہ کے بدلے دوسرے عمرہ کا احرام باندھا۔ ہشام نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کی وجہ سے بھی نہ ہدی واجب ہوئی اور نہ روزہ اور نہ صدقہ۔ ( تنعیم حد حرم سے قریب تین میل دور ایک مقام کا نام ہے
❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {مُخَلَّقَةٍ وَغَيْرِ مُخَلَّقَةٍ} [الحج: 5]
❁ باب: مخلقہ و غیر مخلقہ کی تفسیر
❁ 318 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَّلَ بِالرَّحِمِ مَلَكًا [ص:71]، يَقُولُ: يَا رَبِّ نُطْفَةٌ، يَا رَبِّ عَلَقَةٌ، يَا رَبِّ مُضْغَةٌ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ خَلْقَهُ قَالَ: أَذَكَرٌ أَمْ أُنْثَى، شَقِيٌّ أَمْ سَعِيدٌ، فَمَا الرِّزْقُ وَالأَجَلُ، فَيُكْتَبُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے عبید اللہ بن ابی بکر کے واسطے سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے رب! اب یہ نطفہ ہے، اے رب! اب یہ علقہ ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ مضغہ ہو گیا ہے۔ پھر جب خدا چاہتا ہے کہ اس کی خلقت پوری کرے تو کہتا ہے کہ مذکر یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی۔ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے۔
❁ تشریح : اس باب کے انعقاد سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ کو جو خون آجائے وہ حیض نہیں ہے کیونکہ اگر حمل پورا ہے تورحم اس میں مشغول ہوگا اور جوخون نکلا ہے وہ غذا کاباقی ماندہ ہے۔ اگرناقص ہے تورحم نے پتلی بوٹی نکال دی ہے تووہ بچہ کا حصہ کہا جائے گا حیض نہ ہوگا۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کی حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ حاملہ کا خون حیض نہیں ہے کیونکہ وہاں ایک فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے اور وہ نجاست کے مقام پر نہیں جاتا۔ ابن منیر کے اس استدلال کو ضعیف کہا گیا ہے۔ احناف اور حنابلہ اور اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ حالت حمل میں آنے والا خون بیماری مانا جائے گا حیض نہ ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی ثابت فرما رہے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت آپ نے عنوان مخلقۃ و غیر مخلقۃ اختیار فرمایا ہے۔ روایت مذکورہ اسی طرف مشیرہے، پوری آیت سورۃ حج میں ہے۔
❁ بَابٌ: كَيْفَ تُهِلُّ الحَائِضُ بِالحَجِّ وَالعُمْرَةِ
❁ باب: حائضہ عورت حج اور عمرہ کا احرام کس طرح باندھے
❁ 319 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَقَدِمْنَا مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ يُهْدِ، فَلْيُحْلِلْ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى، فَلاَ يُحِلُّ حَتَّى يُحِلَّ بِنَحْرِ هَدْيِهِ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ» قَالَتْ: فَحِضْتُ فَلَمْ أَزَلْ حَائِضًا حَتَّى كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ، وَلَمْ أُهْلِلْ إِلَّا بِعُمْرَةٍ، فَأَمَرَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِي وَأَمْتَشِطَ، وَأُهِلَّ بِحَجٍّ وَأَتْرُكَ العُمْرَةَ، فَفَعَلْتُ ذَلِكَ حَتَّى قَضَيْتُ حَجِّي، فَبَعَثَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَمِرَ مَكَانَ عُمْرَتِي مِنَ التَّنْعِيمِ
❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سفر میں نکلے، ہم میں سے بعض نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا، پھر ہم مکہ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی ساتھ نہ لایا ہو تو وہ حلال ہو جائے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور وہ ہدی بھی ساتھ لایا ہو تو وہ ہدی کی قربانی سے پہلے حلال نہ ہو گا۔ اور جس نے حج کا احرام باندھا ہو تو اسے حج پورا کرنا چاہیے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں حائضہ ہو گئی اور عرفہ کا دن آ گیا۔ میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اپنا سر کھول لوں، کنگھا کر لوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور عمرہ چھوڑ دوں، میں نے ایسا ہی کیا اور اپنا حج پورا کر لیا۔ پھر میرے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے چھوٹے ہوئے عمرہ کے عوض تنعیم سے دوسرا عمرہ کروں۔
❁ بَابُ إِقْبَالِ المَحِيضِ وَإِدْبَارِهِ
❁ باب: حیض کا آنا اور اس کا ختم ہونا
❁ 320 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، كَانَتْ تُسْتَحَاضُ، فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الحَيْضَةُ، فَدَعِي الصَّلاَةَ وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ بن ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے باپ سے، وہ حضرت عائشہ سے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا۔ تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ اس لیے جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کر اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھ لیا کر۔
❁ بَابٌ: لاَ تَقْضِي الحَائِضُ الصَّلاَةَ
❁ باب: حائضہ عورت نماز کی قضا نہ کرے
❁ 321 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلاَتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ «كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ يَأْمُرُنَا بِهِ» أَوْ قَالَتْ: فَلاَ نَفْعَلُهُ
❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ ( حیض سے ) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔
❁ تشریح : شیخنا المکرم حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: الحروری منسوب الی حرورابفتح وضم الراءالمہملتین وبعدالواو الساکنۃ راءایضاً بلدۃ علی میلین من الکوفۃ و یقال من یعتقد مذہب الخوارج حروری لان اول فرقۃ منہم خرجواعلی علی بالبلدۃ المذکورۃ فاشتہروا بالنسبۃ الیہا وہم فرق کثیرۃ لکن من اصولہم المتفق علیہا بینہم الاخذ بما دل علیہ القرآن وردما زاد علیہ من الحدیث مطلقا۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1، ص: 123 ) یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دومیل کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیداہوا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں مگریہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کردیا جائے گا۔ چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہوجانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیاتم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
❁ بَابُ النَّوْمِ مَعَ الحَائِضِ وَهِيَ فِي ثِيَابِهَا
❁ باب: حائضہ عورت کے ساتھ سونا
❁ 322 حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: حِضْتُ وَأَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الخَمِيلَةِ، فَانْسَلَلْتُ فَخَرَجْتُ مِنْهَا، فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي فَلَبِسْتُهَا، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنُفِسْتِ» قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَانِي، فَأَدْخَلَنِي مَعَهُ فِي الخَمِيلَةِ قَالَتْ: وَحَدَّثَتْنِي أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ» «وَكُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنَ الجَنَابَةِ»
❁ ترجمہ : ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نحوی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، اس لیے میں چپکے سے نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور اپنے ساتھ چادر میں داخل کر لیا۔ زینب نے کہا کہ مجھ سے ام سلمہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور اسی حالت میں ان کا بوسہ لیتے۔ اور میں نے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی برتن میں جنابت کا غسل کیا۔
❁ بَابُ مَنِ اتَّخَذَ ثِيَابَ الحَيْضِ سِوَى ثِيَابِ الطُّهْرِ
❁ باب: حیض کے لئے علیحدہ کپڑے
❁ 323 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُضْطَجِعَةٌ فِي خَمِيلَةٍ حِضْتُ، فَانْسَلَلْتُ، فَأَخَذْتُ ثِيَابَ حِيضَتِي، فَقَالَ: «أَنُفِسْتِ»، فَقُلْتُ: نَعَمْ فَدَعَانِي، فَاضْطَجَعْتُ مَعَهُ فِي الخَمِيلَةِ
❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ زینب بنت ابی سلمہ سے، وہ ام سلمہ سے، انھوں نے بتلایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں چپکے سے چلی گئی اور حیض کے کپڑے بدل لیے، آپ نے پوچھا کیا تجھ کو حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا، جی ہاں! پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ حیض کے لیے عورت کو علیحدہ کپڑے بنانے مناسب ہیں اور طہر کے لیے علیحدہ تاکہ ان کو سہولت ہوسکے، یہ اسراف میں داخل نہیں۔
❁ بَابُ شُهُودِ الحَائِضِ العِيدَيْنِ وَدَعْوَةَ المُسْلِمِينَ، وَيَعْتَزِلْنَ المُصَلَّى
❁ باب: عیدین میں حائضہ بھی جائیں
❁ 324 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ فِي العِيدَيْنِ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ، فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ عَنْ أُخْتِهَا، وَكَانَ زَوْجُ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتٍّ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الكَلْمَى، وَنَقُومُ عَلَى المَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لاَ تَخْرُجَ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا وَلْتَشْهَدِ الخَيْرَ وَدَعْوَةَ المُسْلِمِينَ»، فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ، سَأَلْتُهَا أَسَمِعْتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بِأَبِي، نَعَمْ، وَكَانَتْ لاَ تَذْكُرُهُ إِلَّا قَالَتْ: بِأَبِي، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «يَخْرُجُ العَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الخُدُورِ، أَوِ العَوَاتِقُ ذَوَاتُ الخُدُورِ، وَالحُيَّضُ، وَلْيَشْهَدْنَ الخَيْرَ، وَدَعْوَةَ المُؤْمِنِينَ، وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ المُصَلَّى»، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ الحُيَّضُ، فَقَالَتْ: أَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ، وَكَذَا وَكَذَا
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انھوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انھوں نے اپنی بہن ( ام عطیہ ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبر گیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نماز عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، ( یعنی عیدگاہ جائیں ) پھر جب ام عطیہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔ ( انھوں نے کہا ) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔
❁ تشریح : اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوںتک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہوکر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دوررہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادربھی نہیں، آپ نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایاکہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کردیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ حضرت حفصہ نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر حضرت ام عطیہ نے فرمایاکہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہوگا۔ مگرتعجب ہے فقہائے احناف پر جنھوں نے اپنے فرضی شکوک واوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ مناسب ہوگا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کردیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: “ اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے پہلے عیدگاہ مسجدکی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دورِحاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدراول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ وفساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا،مرد وعورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہارشان وشوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ الی آخرہ ( ایضاح البخاری، جز11،ص: 129 ) منصف مزاج ناظرین اندازہ فرماسکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جارہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگرعیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجدجیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کردیا جائے کہ فتنہ وفساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان وشوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرناجائز ہوگا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل وعیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ وفساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ وغضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آجاتی ہیں۔ پھر یہ بھی تو غورطلب چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں جیساکہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات توبہرحال ان سے کمترہیں وہ اگر با پردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ وفساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آجائے گا۔ کیاوہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد : لورای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم مااحدث النساءالخ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کے نوپیداحالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کردیتے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ لو ( اگر ) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
❁ بَابُ إِذَا حَاضَتْ فِي شَهْرٍ ثَلاَثَ حِيَضٍ، وَمَا يُصَدَّقُ النِّسَاءُ فِي الحَيْضِ وَالحَمْلِ، فِيمَا يُمْكِنُ مِنَ الحَيْضِ
❁ باب: اگر کسی عورت کو ایک ماہ میں تین بار
❁ 325 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلاَ أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاَةَ، فَقَالَ: «لاَ إِنَّ ذَلِكِ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاَةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي»
❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابو اسامہ نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، کہا مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے خبر دی کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے، ہاں اتنے دنوں میں نماز ضرور چھوڑ دیا کر جن میں اس بیماری سے پہلے تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔
❁ تشریح : آیت کریمہ ولایحل لہن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامہن ( البقرۃ: 228 ) کی تفسیر میں زہری اور مجاہد نے کہا کہ عورتوں کواپنا حیض یاحمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہئیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کردیں۔ اب اگران کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آگئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جلد1،ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہوسکی۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔ حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کے دلائق قوی نہیں ہیں۔صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔ ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے اگرمعین بھی کریں توچھ یا سات روز اکثر مدت معین ہوگی جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔ ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چندایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تواس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومناسبۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ قدرالایام التی کنت تحیضین فیہا فیوکل ذلک الی امانتہا وردہا الی عادتہا یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑدو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔ پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑدیا جائے گا۔
❁ بَابُ الصُّفْرَةِ وَالكُدْرَةِ فِي غَيْرِ أَيَّامِ الحَيْضِ
❁ باب: زرد اور مٹیالا رنگ ایام حیض کے
❁ 326 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: «كُنَّا لاَ نَعُدُّ [ص:73] الكُدْرَةَ وَالصُّفْرَةَ شَيْئًا»
❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انھوں نے ایوب سختیانی سے، وہ محمد بن سیرین سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔
❁ تشریح : یعنی جب حیض کی مدت ختم ہوجاتی تومٹیالے یازرد رنگ کی طرح پانی کے آنے کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ اس حدیث کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی ان الصفرۃ والکدرۃ بعدالطہر لیستا من الحیض واما فی وقت الحیض فہما حیض ( نیل الاوطار ) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طہر کے بعد اگرمٹیالے یازرد رنگ کا پانی آئے تووہ حیض نہیں ہے۔ لیکن ایام حیض میں ان کا آنا حیض ہی ہوگا۔ بالکل برعکس: صاحب تفہیم البخاری ( دیوبند ) نے محض اپنے مسلک حنفیہ کی پاسداری میں اس حدیث کا ترجمہ بالکل برعکس کیا ہے، جو یہ ہے “ آپ نے فرمایاکہ ہم زردا اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے ( یعنی سب کو حیض سمجھتے تھے۔ ) ” الفاظ حدیث پر ذرا بھی غورکیا جائے توواضح ہوگا کہ ترجمہ بالکل برعکس ہے، اس پر خود صاحب تفہیم البخاری نے مزید وضاحت کردی ہے کہ “ ہم نے ترجمہ میں حنفیہ کے مسلک کی رعایت کی ہے۔ ” ( تفہیم البخاری، ج2،ص: 44 ) اس طرح ہر شخص اگراپنے اپنے مزعومہ مسالک کی رعایت میں حدیث کا ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ مگرہمارے معزز فاضل صاحب تفہیم البخاری کا ذہن محض حمایت مسلک کی وجہ سے ادھر نہیں جاسکا۔ تقلید جامد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ای من الحیض اذا کان فی غیرزمن الحیض امافیہ فہومن الحیض تبعا وبہ قال سعید بن المسیب وعطاءواللہث وابوحنیفۃ ومحمدوالشافعی واحمد ( قسطلانی ) یعنی غیرزمانہ حیض میں مٹیالے یازرد رنگ والے پانی کوحیض نہیں مانا جائے گا، ہاں زمانہ حیض میں آنے پر اسے حیض ہی کہا جائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء اور لیث اور ابوحنیفہ اور محمد اور شافعی اور احمد کا یہی فتویٰ ہے۔ خدا جانے صاحب تفہیم البخاری نے ترجمہ میں اپنے مسلک کی رعایت کس بنیاد پر کی ہے؟ اللہم وفقنا لماتحب وترضیٰ آمین۔
❁ بَابُ عِرْقِ الِاسْتِحَاضَةِ
❁ باب: استحاضہ کی رگ کے بارے میں
❁ 327 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، وَعَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ اسْتُحِيضَتْ سَبْعَ سِنِينَ، فَسَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ، فَقَالَ: «هَذَا عِرْقٌ» فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلاَةٍ
❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے ایوب بن ابی ذئب سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ اور عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ) کہ ام حبیبہ سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ رگ ( کی وجہ سے بیماری ) ہے۔ پس ام حبیبہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔
❁ تشریح : استحاضہ والی عورت کے لیے ہرنماز کے وقت غسل کرناواجب نہیں ہے۔یہاں حضرت ام حبیبہ کے غسل کا ذکر ہے جو وہ ہر نمازکے لیے کیا کرتی تھیں۔سویہ ان کی خود اپنی مرضی سے تھا۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ولااشک ان شاءاللہ ان غسلھا کان تطوعاغیرما امرت بہ وذلک واسع لہا وکذا قال سفیان واللہث بن سعد وغیرھما وذہب الیہ الجمہورمن عدم وجوب الاغتسال الالادبار الحیضۃ ہوالحق لفقد الدلیل الصحیح الذی تقوم بہ الحجۃ۔ ( نیل الاوطار باب طہر المستحاضۃ ) ان شاءاللہ مجھ کو قطعاً شک نہیں ہے کہ حضرت ام حبیبہ کا یہ ہرنماز کے لیے غسل کرنا محض ان کی اپنی خوشی سے بطور نفل کے تھا جمہور کا مذہب حق یہی ہے کہ صرف حیض کے خاتمہ پر ایک ہی غسل واجب ہے۔ اس کے خلاف جو روایات ہیں جن سے ہرنماز کے لیے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں۔ حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وجمیع الاحادیث التی فیہا ایجاب الغسل لکل صلوۃ قدذکر المصنف بعضہا فی ہذاالباب و اکثرہا یاتی فی ابواب الحیض وکل واحد منہالایخلو عن مقال۔ ( نیل الاوطار ) یعنی وہ جملہ احادیث جن سے ہر نماز کے لیے غسل واجب معلوم ہوتا ہے ان سب کی سند اعتراضات سے خالی نہیں ہیں۔ پھر الدین یسر ( کہ دین آسان ہے ) کے تحت بھی ہر نماز کے لیے نیا غسل کرنا کس قدر باعث تکلیف ہے۔ خاص کر عورت ذات کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس لیے لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا وقدجمع بعضہم بین الاحادیث بحمل احادیث الغسل لکل صلوۃ علی الاستحباب ( نیل الاوطار ) یعنی بعض حضرات نے جملہ احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے کی احادیث میں استحباباً کہا گیا ہے۔ یعنی یہ غسل مستحب ہوگا، واجب نہیں۔
❁ بَابُ المَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ
❁ باب: جو عورت طواف افاضہ کے بعد حائض ہو
❁ 328 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ قَدْ حَاضَتْ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَعَلَّهَا تَحْبِسُنَا أَلَمْ تَكُنْ طَافَتْ مَعَكُنَّ»، فَقَالُوا: بَلَى، قَالَ: «فَاخْرُجِي»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم سے، انھوں نے اپنے باپ ابوبکر سے، انھوں نے عبدالرحمن کی بیٹی عمرہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صفیہ بنت حیی کو ( حج میں ) حیض آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید کہ وہ ہمیں روکیں گی۔ کیا انھوں نے تمہارے ساتھ طواف ( زیارت ) نہیں کیا۔ عورتوں نے جواب دیا کہ کر لیا ہے۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر نکلو۔
❁ تشریح : اسی کو طواف الافاضہ بھی کہتے ہیں۔یہ دسویں تاریخ کو منیٰ سے آکر کیا جاتا ہے۔ یہ طواف فرض ہے اور حج کا ایک رکن ہے، لیکن طواف الوداع جو حاجی کعبہ شریف سے رخصتی کے وقت کرتے ہیں، وہ فرض نہیں ہے۔ اس لیے وہ حائضہ کے واسطے معاف ہے۔
❁ بَابُ المَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ
❁ باب: جو عورت طواف افاضہ کے بعد حائض ہو
❁ 329 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «رُخِّصَ لِلْحَائِضِ أَنْ تَنْفِرَ إِذَا حَاضَتْ»
❁ ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے عبداللہ بن طاؤس کے حوالہ سے، وہ اپنے باپ طاؤس بن کیسان سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ حائضہ کے لیے ( جب کہ اس نے طواف افاضہ کر لیا ہو ) رخصت ہے کہ وہ گھر جائے ( اور طواف وداع کے لیے نہ رکی رہے
بَابُ المَرْأَةِ تَحِيضُ بَعْدَ الإِفَاضَةِ ❁
❁ باب: جو عورت طواف افاضہ کے بعد حائض ہو
❁ 330 وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: فِي أَوَّلِ أَمْرِهِ إِنَّهَا لاَ تَنْفِرُ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «تَنْفِرُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ لَهُنَّ»
❁ ترجمہ : ابن عمر ابتدا میں اس مسئلہ میں کہتے تھے کہ اسے ( بغیر طواف وداع کے ) جانا نہیں چاہیے۔ پھر میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا کہ چلی جائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی رخصت دی ہے۔
❁ تشریح : اس حدیث کے ذیل میں مولانا وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی مرحوم نے خوب لکھا ہے، فرماتے ہیں: “ توعبداللہ بن عمر کو جب حدیث پہنچی انھوں نے اپنی رائے اور فتوے سے رجوع کرلیا۔ ہمارے دین کے کل اماموں اور پیشواؤں نے ایسا ہی کیا ہے کہ جدھر حق معلوم ہوا ادھر ہی لوٹ گئے۔ کبھی اپنی بات کی پچ نہیں کی، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد سے ایک ایک مسئلہ میں دودو، تین تین، چارچار قول منقول ہیں۔ ہائے ایک وہ زمانہ تھا اور ایک یہ زمانہ ہے کہ صحیح حدیث دیکھ کر بھی اپنی رائے اور خیال سے نہیں پلٹتے بلکہ جو کوئی حدیث کی پیروی کرے اس کی دشمنی پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ” مقلدین جامدین کا عام طور پر یہی رویہ ہے سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پر چلنے میں دیں کا خلل ہے
❁ بَابُ إِذَا رَأَتِ المُسْتَحَاضَةُ الطُّهْرَ
❁ باب: جب مستحاضہ جسم میں پاکی دیکھے
❁ 331 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، عَنْ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَقْبَلَتِ الحَيْضَةُ، فَدَعِي الصَّلاَةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ، فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي»
❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ زمانہ گزر جائے تو خون کو دھو اور نماز پڑھ۔
تشریح : یعنی جب مستحاضہ کے لیے غسل کرکے نماز پڑھنا درست ہوا تو خاوند کو اس سے صحبت کرنا توبطریق اولیٰ درست ہوگا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہی ثابت کیا ہے۔
❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ وَسُنَّتِهَا
❁ باب: نفاس میں مرنے والی عورت کا نماز جنازہ
❁ 332 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ حُسَيْنٍ المُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ: «أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ، فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا»
❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ بن سوار نے، کہا ہم سے شعبہ نے حسین سے۔ وہ عبداللہ بن بریدہ سے، وہ سمرہ بن جندب سے کہ ایک عورت ( ام کعب ) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ ان کے ( جسم کے ) وسط میں کھڑے ہو گئے۔
❁ تشریح : فی بطن سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔ اس سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کوروایت کیا ہے۔
❁ 333 حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُدْرِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ اسْمُهُ الوَضَّاحُ، مِنْ كِتَابِهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ خَالَتِي مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا كَانَتْ تَكُونُ حَائِضًا، لاَ تُصَلِّي وَهِيَ مُفْتَرِشَةٌ بِحِذَاءِ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَهُوَ يُصَلِّي عَلَى خُمْرَتِهِ إِذَا سَجَدَ أَصَابَنِي بَعْضُ ثَوْبِهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابوعوانہ وضاح نے اپنی کتاب سے دیکھ کر خبر دی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خبر دی سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد سے، انھوں نے کہا میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں سنا کہ میں حائضہ ہوتی تو نماز نہیں پڑھتی تھی اور یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( گھر میں ) نماز پڑھنے کی جگہ کے قریب لیٹی ہوتی تھی۔ آپ نماز اپنی چٹائی پر پڑھتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کوئی حصہ مجھ سے لگ جاتا تھا۔
❁ تشریح : حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ حائضہ عورت اگرچہ ناپاک ہوگئی ہے مگرا س قدر ناپاک نہیں ہے کہ اس سے کسی کا کپڑا چھوجائے تو وہ بھی ناپاک ہوجائے۔ ایسی مشکلات ادیان سابقہ میں تھیں، اسلام نے ان مشکلات کوآسانیوں سے بدل دیا ہے۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج دین میں تنگی نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واستنبط منہ عدم نجاسۃ الحائض والتواضع المسکنۃ فی الصلوۃ بخلاف صلوٰۃ المتکبرین علی سجادید غالیۃ الاثمان مختلفۃ الالوان۔ ( قسطلانی ) اس حدیث سے حائضہ کی عدم نجاست پر استنباط کیا گیا ہے اور نماز میں تواضع اور مسکینی پر۔ بخلاف نماز متکبرین کے جوبیش قیمت مصلوں پر جو مختلف رنگوں سے مزین ہوتے ہیں تکبر سے نماز پڑھتے ہیں۔ ( الحمد للہ کہ رمضان شریف 1387ھ میں بحالت قیام بنگلور کتاب الحیض کے ترجمہ سے فراغت حاصل ہوئی والحمدللہ علی ذلک