Search
Sections
< All Topics
Print

10. Kitaab ul Adhaan; [كِتَابُ الأَذَانِ]; Call to Prayers

✦ كِتَابُ الأَذَانِ ✦

کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں

 


بَابُ بَدْءِ الأَذَانِ ❁ 
باب: اذان کیونکر شروع ہوئی ❁

❁ 603 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: ذَكَرُوا النَّارَ وَالنَّاقُوسَ، فَذَكَرُوا اليَهُودَ وَالنَّصَارَى «فَأُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ ( نماز کے وقت کے اعلان کے لیے ) لوگوں نے آگ اور ناقوس کا ذکر کیا۔ پھر یہود و نصاریٰ کا ذکر آ گیا۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ کو یہ حکم ہوا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور اقامت میں ایک ایک مرتبہ

 

❁ تشریح : امیرالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان قائم فرماکر باب بدءالاذان کو قرآن پاک کی دوآیات مقدسہ سے شروع فرمایا جس کا مقصد یہ ہے کہ اذان کی فضیلت قرآن شریف سے ثابت ہے اوراس طرف بھی اشارہ ہے کہ اذان کی ابتدا مدینہ میں ہوئی کیونکہ یہ دونوں سورتیں جن کی آیات نقل کی گئی ہیں یعنی سورۃ مائدہ اورسورۃ جمعہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ اذان کی تفصیلات کے متعلق حضرت مولانا عبیداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہوفی اللغۃ الاعلام وفی الشرع الاعلام بوقت الصلوٰۃ بالفاظ مخصوصۃ یعنی لغت میں اذان کے معنی اطلاع کرنا اور شرع میں مخصوص لفظوں کے ساتھ نمازوں کے اوقات کی اطلاع کرنا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں تعمیر مسجدنبوی کے بعد سوچا گیا کہ مسلمانوں کونماز کے لیے وقت مقررہ پر کس طرح اطلاع کی جائے۔ چنانچہ یہودونصاریٰ ومجوس کے مروجہ طریقے سامنے آئے۔ جو وہ اپنی عبادت گاہوں میں لوگوں کو بلانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلام میں ان سب چیزوں کو ناپسند کیاگیاکہ عبادت الٰہی کے بلانے کے لیے گھنٹے یا ناقوس کا استعمال کیا جائے۔ یا اس کی اطلاع کے لیے آگ روشن کردی جائے۔ یہ مسئلہ درپیش ہی تھا کہ ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان کو نماز کے وقتوں کی اطلاع کے لیے مروجہ اذان کے الفاظ سکھا رہاہے۔ وہ صبح اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے آئے تودیکھا گیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی دوڑے چلے آرہے ہیں۔ اورآپ بھی حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ خواب میں ان کو بھی ہوبہو ان ہی کلمات کی تلقین کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان بیانات کو سن کر خوش ہوئے۔ اورفرمایاکہ یہ خواب بالکل سچے ہیں۔ اب یہی طریقہ رائج کردیاگیا۔ یہ خواب کا واقعہ مسجدنبوی کی تعمیر کے بعدپہلے سال ہی کا ہے۔ جیسا کہ حافظ نے تہذیب التہذیب میں بیان کیا ہے کہ آپ نے جناب عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے فرمایاکہ تم یہ الفاظ بلال رضی اللہ عنہ کو سکھادو، ان کی آواز بہت بلند ہے۔ اس حدیث اوراس کے علاوہ اوربھی متعدد احادیث میں تکبیر ( اقامت ) کے الفاظ ایک ایک مرتبہ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی مذہب جمہور العلماءوالذی جری بہ العمل فی الحرمین والحجاز والشام والیمن ومصر و المغرب الی اقصی بلادالاسلام ان الاقامۃ فرادی ( نیل ) یعنی امام خطابی نے کہا کہ جمہور علماءکا یہی فتویٰ ہے تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ حرمین اورحجاز اورشام اوریمن اور مصر اور دور دراز تک تمام ممالک اسلامیہ غربیہ میں یہی معمول ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جاتی ہے۔ اگرچہ تکبیراقامت میں جملہ الفاظ کا دو دو دفعہ مثل اذان کے کہنا بھی جائز ہے۔ مگر ترجیح اسی کو ہے کہ تکبیر اقامت اکہری کہی جائے۔ مگر برادران احناف اس کا نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اکہری تکبیر سن کر بیشتر چونک جاتے ہیں اور دوبارہ تکبیر اپنے طریق پر کہلواتے ہیں۔ یہ رویہ کس قدر غلط ہے کہ ایک امر جائز جس پر دنیائے اسلام کا عمل ہے اس سے اس قدر نفرت کی جائے۔ بعض علمائے احناف نے اکہری تکبیر والی حدیث کو منسوخ قرار دیاہے۔ اورکئی طرح کی تاویلات رکیکہ سے کام لیاہے۔ حضرت الشیخ الکبیر والمحدث الجلیل علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر کی احادیث صحیح اور ثابت ہیں۔ اس قدر مضبوط کہ نہ وہ منسوخ ہیں اورنہ تاویل کے قابل ہیں۔ اسی طرح تکبیر دودو دفعہ کہنے کی احادیث بھی محکم ہیں۔ پس میرے نزدیک تکبیر اکہری کہنا بھی جائز ہے اوردوہری کہنا بھی جائز ہے۔ تکبیراکہری کے وقت الفاظ قد قامت الصلوٰۃ قد قامت الصلوٰۃ دودو دفعہ کہنے ہوں گے جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔ حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو مع قلۃ الفاظہ مشتمل علی مسائل العقائد کما بین ذلک الحافظ فی الفتح نقلا عن القرطبی۔ یعنی اذان میں اگرچہ الفاظ تھوڑے ہیں مگر اس میں عقائد کے بہت سے مسائل آگئے ہیں جیسا کہ فتح الباری میں حافظ نے قرطبی سے نقل کیاہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: “ اذان کے کلمات باوجود قلت الفاظ دین کے بنیادی عقائد اورشعائر پر مشتمل ہیں۔ سب سے پہلا لفظ “ اللہ اکبر ” یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے اورسب سے بڑا ہے، یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی کبریائی اورعظمت پر دلالت کرتاہے۔ “ اشہد ان لا الہ الا اللہ ” بجائے خود ایک عقیدہ ہے اورکلمہ شہادت کا جزء۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا اوریکتا ہے۔ اوروہی معبود ہے۔ کلمہ شہادت کا دوسرا جز “ اشہدان محمدارسول اللہ ” ہے۔ جس سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کی گواہی دی جاتی ہے۔ “ حی علی الصلوٰۃ ” پکار ہے اس کی کہ جس نے اللہ کی وحدانیت اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دے دی وہ نماز کے لیے آئے کہ نماز قائم کی جارہی ہے۔ اس نماز کے پہنچانے والے اوراپنے قول وفعل سے اس کے طریقوں کو بتلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت کے بعد فوراً ہی اس کی دعوت دی گئی۔ اور اگرنماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ لی اور بتمام واکمال آپ نے اسے ادا کیاتو یہ اس بات کی ضامن ہے کہ آپ نے “ فلاح ” حاصل کرلی۔ “ حی علی الفلاح ” نماز کے لیے آئیے! آپ کو یہاں فلاح یعنی بقاءدائم اورحیات آخرت کی ضمانت دی جائے گی، آئیے، چلے آئیے۔ کہ اللہ کے سوا عبادت کے لائق اورکوئی نہیں۔ اس کی عظمت وکبریائی کے سایہ میں آپ کو دنیا اورآخرت کے شرور و آفات سے پناہ مل جائے گی۔ اوّل بھی اللہ ہے اورآخر بھی اللہ۔ خالق کل، مالک یکتا اورمعبود، پس اس کی دی ہوئی ضمانت سے بڑھ کر اورکون سی ضمانت ہوسکتی ہے۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ۔ ” ( تفہیم البخاری


❁ بَابُ بَدْءِ الأَذَانِ 
 ❁ باب: اذان کیونکر شروع ہوئی 

❁ 604 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ يَقُولُ: كَانَ المُسْلِمُونَ حِينَ قَدِمُوا المَدِينَةَ يَجْتَمِعُونَ فَيَتَحَيَّنُونَ الصَّلاَةَ لَيْسَ يُنَادَى لَهَا، فَتَكَلَّمُوا يَوْمًا فِي ذَلِكَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَى [ص:125]، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: بَلْ بُوقًا مِثْلَ قَرْنِ اليَهُودِ، فَقَالَ عُمَرُ: أَوَلاَ تَبْعَثُونَ رَجُلًا يُنَادِي بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا بِلاَلُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلاَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جب مسلمان ( ہجرت کر کے ) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی۔ ایک دن اس بارے میں مشورہ ہوا۔ کسی نے کہا نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا ( بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو ) لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے ) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے۔


❁ بَابٌ: الأَذَانُ مَثْنَى مَثْنَى 
❁ باب: اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں 

❁ 605 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: «أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ، إِلَّا الإِقَامَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا سماک بن عطیہ سے، انھوں نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے ابوقلابہ سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ کہیں اور سوا “ قد قامت الصلوٰۃ ” کے تکبیر کے کلمات ایک ایک دفعہ کہیں۔


❁ بَابٌ: الأَذَانُ مَثْنَى مَثْنَى  
 ❁ باب: اذان کے کلمات دو دو مرتبہ دہرائے جائیں

❁ 606 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «لَمَّا كَثُرَ النَّاسُ» قَالَ: «ذَكَرُوا أَنْ يَعْلَمُوا وَقْتَ الصَّلاَةِ بِشَيْءٍ يَعْرِفُونَهُ، فَذَكَرُوا أَنْ يُورُوا نَارًا، أَوْ يَضْرِبُوا نَاقُوسًا فَأُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن مہران حذاء نے ابوقلابہ عبدالرحمن بن زید حرمی سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب مسلمان زیادہ ہو گئے تو مشورہ ہوا کہ کسی ایسی چیز کے ذریعہ نماز کے وقت کا اعلان ہو جسے سب لوگ سمجھ لیں۔ کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ آگ روشن کی جائے۔ یا نرسنگا کے ذریعہ اعلان کریں۔ لیکن آخر میں بلال کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر کے ایک ایک دفعہ۔

 

❁ تشریح : اذان کے بارے میں بعض روایات میں پندرہ کلمات وارد ہوئے ہیں جیسا کہ عوام میں اذان کا مروجہ طریقہ ہے۔ بعض روایات میں انیس کلمات آئے ہیں اوریہ اس بناپر کہ اذان ترجیع کے ساتھ دی جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شہادت کے ہردو کلموں کو پہلے دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہا جائے پھر ان ہی کو دو دو مرتبہ بلند آواز سے کہا جائے۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ان لفظوں میں باب منعقد کیاہے۔ باب ماجاءفی الترجیع فی الاذان۔ یعنی ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کے بیان میں۔ پھر آپ یہاں حدیث ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو لائے ہیں۔ جس سے اذان میں ترجیع ثابت ہے۔ چنانچہ خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال ابوعیسیٰ حدیث ابی محذورۃ فی الاذان حدیث صحیح وقد روی عنہ من غیروجہ وعلیہ العمل بمکۃ وہوقول الشافعی۔ یعنی اذان کے بارے میں ابومحذورہ کی حدیث صحیح ہے۔ جو مختلف طرق سے مروی ہے۔ مکہ شریف میں اسی پر عمل ہے اورامام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ امام نووی حدیث ابومحذورہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: فی ہذاالحدیث حجۃ بینۃ ودلالۃ واضحۃ لمذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءان الترجیع فی الاذان ثابت مشروع وہوالعود الی الشہادتین مرتین برفع الصوت بعد قولہما مرتین بخفض الصوت۔ ( نووی، شرح مسلم ) یعنی حدیث ابی محذورہ روشن واضح دلیل ہے کہ اذان میں ترجیع مشروع ہے اوروہ یہ ہے کہ پہلے کلمات شہادتین کو آہستہ آواز سے دودو مرتبہ ادا کرکے بعد میں بلند آواز سے پھر دو دومرتبہ دہرایا جائے۔ امام مالک اورامام شافعی اورجمہور علماءکا یہی مذہب ہے۔ حضرت ابومحذورہ کی روایت ترمذی کے علاوہ مسلم اور ابوداؤد میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ فقہائے احناف رحمہم اللہ اجمعین ترجیع کے قائل نہیں ہیں اورانھوں نے روایات ابومحذورہ کی مختلف توجیہات کی ہیں۔ ترجیع کے ساتھ اذان کہنے کا بیان: المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واجاب عن ہذہ الروایات من لم یقل بالترجیع باجوبۃ کلہا مخدوشۃ واہیۃ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جوحضرات ترجیع کے قائل نہیں ہیں انھوں نے روایات ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ جوسب مخدوش اورواہیات ہیں۔ کوئی ان میں قابل توجہ نہیں۔ ان کی بڑی دلیل عبداللہ بن زید کی حدیث ہے۔ جس میں ترجیع کا ذکر نہیں ہے۔ علامہ مبارک پوری مرحوم اس بارے میں فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن زید میں فجر کی اذان میں کلمات “ الصلوٰۃ خیرمن النوم کا بھی ذکر نہیں ہے۔ اوریہ زیادتی بھی حدیث ابومحذورہ ہی سے ثابت ہے۔ جسے محترم فقہائے احناف نے قبول فرمالیاہے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ ترجیع کے بارے میں بھی حدیث ابومحذورہ کی زیادتی کو قبول نہ کیا جائے۔ قلت فلذلک یقال ان الترجیع وان لم یکن فی حدیث عبداللہ بن زید فقد علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذلک ابامحذورۃ بعد ذلک فلما علمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابامحذورۃ کان زیادۃ علی ما فی حدیث عبداللہ بن زید فوجب استعمالہ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اگرچہ ترجیع کی زیادتی حدیث عبداللہ بن زید میں مذکور نہیں ہے مگرجس طرح فجر میں آپ نے ابومحذورہ رضی اللہ عنہ کو الصلوٰۃ خیرمن النوم کے الفاظ کی زیادتی تعلیم فرمائی ایسے ہی آپ نے ترجیع کی بھی زیادتی تعلیم فرمائی۔ پس اس کا استعمال ضروری ہوا، لہٰذا ایک ہی حدیث کے نصف حصہ کو لینا اورنصف کا انکار کردینا قرین انصاف نہیں ہے۔ حضرت علامہ انورشاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ:صاحب تفہیم البخاری ( دیوبندی ) ترجیع کی اذان کے بارے میں حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرماتے ہیں: “ حضرت ابومحذورہ رضی اللہ عنہ جنھیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد مسجدالحرام کا مؤذن مقرر کیاتھا وہ اسی طرح ( ترجیع کے ساتھ ) اذان دیتے تھے جس طرح امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے۔ اوران کا یہ بھی بیان تھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسی طرح سکھایاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں برابر آپ اسی طرح ( ترجیع سے ) اذان دیتے رہے اورپھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طویل دورمیں بھی آپ کا یہی عمل رہا کسی نے انھیں اس سے نہیں روکا۔ اس کے بعد بھی مکہ میں اسی طرح اذان دی جاتی رہی۔ لہٰذا اذان کا یہ طریقہ مکروہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ صاحب بحرالرائق نے یہی فیصلہ کیاہے اوراس آخری دورمیں حنفیت اورحدیث کے امام حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس فیصلہ کو درست کہاہے۔ ” ( تفہیم البخاری، کتاب الاذان، پ3، ص:50 ) یہ مختصر تفصیل اس لیے دی گئی کہ ہمارے معزز/حنفی بھائیوںکی اکثریت اوّل تو ترجیع کی اذان سے واقف ہی نہیں اور اگر اتفاقاً کہیں کسی اہل حدیث مسجد میں اسے سن پاتے ہیں تو حیرت سے سنتے ہیں۔ بلکہ بعض لوگ انکار کرتے ہوئے ناک بھوں بھی چڑھانے لگ جاتے ہیں۔ ان پر واضح ہونا چاہئیے کہ وہ اپنی ناواقفیت کی بناپر ایسا کررہے ہیں۔ رہی یہ بحث کہ ترجیع کے ساتھ اذان دینا افضل ہے یابغیرترجیع کے جیسا کہ عام طور پر مروج ہے اس لفظی بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر دوطریقے جائز درست ہیں۔ باہمی اتفاق اوررواداری کے لیے اتناہی سمجھ لینا کافی وافی ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت ہذا ہوالحق ان الوجہین جائزان ثابتان مشروعان سنتان من سنن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:422 ) یعنی حق یہ ہے کہ ہر دو طریقے جائز اورثابت اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ہیں۔ پس اس بارے میں باہمی طور پر لڑنے جھگڑنے کی کوئی بات ہی نہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر لڑنا چھوڑکر باہمی اتفاق پیدا کریں۔ آمین۔


❁  بَابٌ: الإِقَامَةُ وَاحِدَةٌ، إِلَّا قَوْلَهُ قَدْ قَامَتِ الصَّلاَةُ
❁ باب: اقامت کے کلمات ایک ایک دفعہ کہنا

❁ 607 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «أُمِرَ بِلاَلٌ أَنْ يَشْفَعَ الأَذَانَ، وَأَنْ يُوتِرَ الإِقَامَةَ» قَالَ إِسْمَاعِيلُ: فَذَكَرْتُ لِأَيُّوبَ، فَقَالَ: «إِلَّا الإِقَامَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ سے بیان کیا، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو دفعہ کہیں اور تکبیر میں یہی کلمات ایک ایک دفعہ۔ اسماعیل نے بتایا کہ میں نے ایوب سختیانی سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا مگر لفظ قد قامت الصلوٰۃ دو ہی دفعہ کہا جائے گا۔

 

❁ تشریح :امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے اکہری اقامت کے مسنون ہونے کے بارے میں یہ باب منعقد فرمایاہے اورحدیث بلال رضی اللہ عنہ سے اسے مدلل کیاہے۔ یہاں صیغہ مجہول امربلال وارد ہواہے۔ مگر بعض طرق صحیحہ میں صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم امربلالا ان یشفع الاذان ویوتر الاقامۃ۔ ( کذا رواہ النسائی ) یعنی حضرت بلال کو اکہری تکبیر کا حکم فرمانے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ محدث مبارک پوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاحوذی میں فرماتے ہیں: وبہذا ظہر بطلان قول العینی فی شرح الکنزلاحجۃ لہم فیہ لانہ لم یذکر الامر فیحتمل ان یکون ہوالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیرہ۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سنن نسائی میں آمدہ تفصیل سے علامہ عینی کے اس قول کا بطلان ظاہر ہوگیا جوانھوں نے شرح کنزمیں لکھاہے کہ اس حدیث میں احتمال ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم کرنے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یا آپ کے علاوہ کوئی اورہو۔ لہٰذا اس سے اکہری تکبیر کا ثبوت صحیح نہیں ہے۔ یہ علامہ عینی صاحب مرحوم کی تاویل کس قدر باطل ہے، مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ اکہری تکبیر کے بارے میں احمد، ابوداؤد، نسائی میں اس قدر روایات ہیں کہ سب کو جمع کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ مولانا مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحازمی فی کتاب الاعتبار رای اکثراہل العلم ان الاقامۃ فرادی والی ہذاالمذہب ذہب سعیدبن المسیب وعروۃ بن الزبیر والزہری ومالک بن انس واہل الحجاز والشافعی واصحابہ والیہ ذہب عمروبن عبدالعزیز ومکحول والاوزاعی واہل الشام والیہ ذہب الحسن البصری ومحمدبن سیرین واحمدبن حنبل ومن تبعہم من العراقیین والیہ ذہب یحییٰ بن یحییٰ واسحاق بن ابراہیم الحنظلی ومن تبعہما من الخراسانیین وذہبوا فی ذلک الی حدیث انس انتہیٰ کلام الجازمی۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی امام حازمی نے کتاب الاعتبار میں اکثر اہل علم کا یہی فتویٰ نقل کیاہے کہ تکبیر اکہری کہنا مسنون ہے۔ ان علماءمیں حجازی، شامی، عراقی اور خراسانی یہ تمام علماءاس کے قائل ہیں۔ جن کے اسماءگرامی علامہ حازمی صاحب نے پیش فرمائے ہیں۔ آخر میں علامہ مبارک پوری مرحوم نے کس قدر منصفانہ فیصلہ دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں: والحق ان احادیث افراد الاقامۃ صحیحۃ ثابتۃ محکمۃ لیست بمنسوخۃ ولابمؤلۃ نعم قد ثبت احادیث ثنیۃ الاقامۃ ایضا وہی ایضاً محکمۃ لیست منسوخۃ ولابمؤلۃ وعندی الافراد والثنیۃ کلاہما جائزان واللہ تعالیٰ اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:172 ) یعنی حق بات یہی ہے کہ اکہری تکبیر والی احادیث صحیح، ثابت محکم ہیں۔ نہ وہ منسوخ ہیں نہ قابل تاویل ہیں، اسی طرح دوہری تکبیر کی احادیث بھی محکم ہیں اوروہ بھی منسوخ نہیں ہیں۔ نہ قابل تاویل ہیں۔ پس میرے نزدیک ہر دوطرح سے تکبیر کہنا جائز ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے: ہمارے عوام نہیں بلکہ خواص حنفی حضرات اگرکبھی اتفاقاً کہیں اکہری تکبیر سن پاتے ہیں تو فوراً ہی مشتعل ہوجاتے ہیں اوربعض متعصّب اس اکہری تکبیر کوباطل قرار دے کر دوبارہ دوہری تکبیرکہلواتے ہیں۔ اہل علم حضرات سے ایسی حرکت انتہائی مذموم ہے جو اپنی علمی ذمہ داریوں کو ذرا بھی محسوس نہیں کرتے۔ بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہی حضرات افتراق امت کے مجرم ہیں۔ جنھوں نے جزئی وفروعی اختلافات کو ہوا دے کر اسلام میں فرقہ بندی کی بنیاد رکھی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی کا نام تقلید جامد ہے۔ جب تک امت ان اختلافات کو فراموش کرکے اسلامی تعلیمات کے ہر پہلو کے لیے اپنے دلوںمیں گنجائش نہ پیدا کرے گی امت میں اتفاق مشکل ہے۔ اگرکچھ مخلصین ذمہ دار علماءاس کے لیے تہیہ کرلیں تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔ جب کہ آج پوری دنیائے اسلام موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاہے ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عوام وخواص کو بتلایا جائے کہ اتفاق باہمی کتنی عمدہ چیز ہے۔ الحمد للہ کہ آج تک کسی اہل حدیث مسجد سے متعلق ایسا کوئی کیس نہیں مل سکے گا کہ وہاں کسی حنفی بھائی نے دوہری تکبیرکہی ہو اوراس پر اہل حدیث کی طرف سے کبھی بلوہ ہوگیا ہو۔ برخلاف اس کے کتنی ہی مثالیں موجود ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ کلمہ اورقرآن اورکعبہ وتوحید ورسالت پر متفق ہوکر اسلام کوسربلند کرنے کی کوشش کریں۔


❁ بَابُ فَضْلِ التَّأْذِينِ
❁ باب: اذان دینے کی فضیلت

❁ 608 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ، وَلَهُ ضُرَاطٌ، حَتَّى لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، فَإِذَا قَضَى النِّدَاءَ أَقْبَلَ، حَتَّى إِذَا ثُوِّبَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ، حَتَّى إِذَا قَضَى التَّثْوِيبَ أَقْبَلَ، حَتَّى يَخْطِرَ بَيْنَ المَرْءِ وَنَفْسِهِ، يَقُولُ: اذْكُرْ كَذَا، اذْكُرْ كَذَا، لِمَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى يَظَلَّ الرَّجُلُ لاَ يَدْرِي كَمْ صَلَّى

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے ابولزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب نماز کے کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پادتا ہوا بڑی تیزی کے ساتھ پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تا کہ اذان کی آواز نہ سن سکے اور جب اذان ختم ہو جاتی ہے تو پھر واپس آ جاتا ہے۔ لیکن جوں ہی تکبیر شروع ہوئی وہ پھر پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ جب تکبیر بھی ختم ہو جاتی ہے تو شیطان دوبارہ آ جاتا ہے اور نمازی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے۔ کہتا ہے کہ فلاں بات یاد کر فلاں بات یاد کر۔ ان باتوں کی شیطان یاددہانی کراتا ہے جن کا اسے خیال بھی نہ تھا اور اس طرح اس شخص کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔

 

❁ تشریح : شیطان اذان کی آواز سن کر اس لیے بھاگتاہے کہ اسے آدم کو سجدہ نہ کرنے کا قصہ یاد آجاتاہے لہٰذا وہ اذان نہیں سننا چاہتا۔ بعض نے کہا اس لیے کہ اذان کی گواہی آخرت میں نہ دینی پڑے۔ چونکہ جہاں اذان کی آواز جاتی ہے وہ سب گواہ بنتے ہیں۔ اس ڈر سے وہ بھاگ جاتاہے کہ جان بچی لاکھوں پائے۔ کتنے ہی انسان نماشیطان بھی ہیں جو اذان کی آواز سن کر سوجاتے ہیں یااپنے دنیاوی کاروبار سے مشغول ہوجاتے ہیں اور نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتے۔ یہ لوگ بھی شیطان مردود سے کم نہیں ہیں۔ اللہ ان کو ہدایت سے نوازے۔


❁ بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالنِّدَاءِ
❁ باب: اذان بلند آواز سے ہونی چاہیے

❁ 609 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الأَنْصَارِيِّ ثُمَّ المَازِنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، قَالَ لَهُ: إِنِّي أَرَاكَ تُحِبُّ الغَنَمَ وَالبَادِيَةَ، فَإِذَا كُنْتَ فِي غَنَمِكَ، أَوْ بَادِيَتِكَ، فَأَذَّنْتَ بِالصَّلاَةِ فَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالنِّدَاءِ، فَإِنَّهُ: «لاَ يَسْمَعُ مَدَى صَوْتِ المُؤَذِّنِ، جِنٌّ وَلاَ إِنْسٌ وَلاَ شَيْءٌ، إِلَّا شَهِدَ لَهُ يَوْمَ القِيَامَةِ»، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ انصاری سے خبر دی، پھر عبدالرحمن مازنی اپنے والد عبداللہ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد نے انھیں خبر دی کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی نے ان سے بیان کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں بکریوں اور جنگل میں رہنا پسند ہے۔ اس لیے جب تم جنگل میں اپنی بکریوں کو لیے ہوئے موجود ہو اور نماز کے لیے اذان دو تو تم بلند آواز سے اذان دیا کرو۔ کیونکہ جن و انس بلکہ تمام ہی چیزیں جو مؤذن کی آواز سنتی ہیں قیامت کے دن اس پر گواہی دیں گی۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

 

❁ تشریح : حضرت خلیفۃ المسلمین عمربن عبدالعزیز کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے۔ اس مؤذن نے تال اور سرکے ساتھ گانے کی طرح اذان دی تھی، جس پر اس کویہ سرزنش کی گئی۔ پس اذان میں ایسی بلندآواز اچھی نہیں جس میں تال اورسرپیدا ہو۔ بلکہ سادی طرح بلندآواز سے مستحب ہے۔ حدیث سے جنگلوں، بیابانوں میں اذان کی آواز بلند کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی تو وہ گڈریے اورمسلمان چرواہے بڑے ہی خوش نصیب ہیں جو اس پر عمل کریں سچ ہے دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں


❁ بَابُ مَا يُحْقَنُ بِالأَذَانِ مِنَ الدِّمَاءِ
❁ باب: اذان کی وجہ سے خون ریزی کا رکنا

❁ 610 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا غَزَا بِنَا قَوْمًا، لَمْ يَكُنْ يَغْزُو بِنَا حَتَّى يُصْبِحَ وَيَنْظُرَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَخَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ، فَانْتَهَيْنَا [ص:126] إِلَيْهِمْ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ وَلَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا رَكِبَ، وَرَكِبْتُ خَلْفَ أَبِي طَلْحَةَ، وَإِنَّ قَدَمِي لَتَمَسُّ قَدَمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَرَجُوا إِلَيْنَا بِمَكَاتِلِهِمْ وَمَسَاحِيهِمْ، فَلَمَّا رَأَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، مُحَمَّدٌ وَالخَمِيسُ، قَالَ: فَلَمَّا رَآهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ {فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِينَ} [الصافات: 177]

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر انصاری نے حمید سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم خیبر کی طرف گئے اور رات کے وقت وہاں پہنچے۔ صبح کے وقت جب اذان کی آواز نہیں سنائی دی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ چلنے میں میرے قدم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے چھو چھو جاتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خبیر کے لوگ اپنے ٹوکروں اور کدالوں کو لیے ہوئے ( اپنے کام کاج کو ) باہر نکلے۔ تو انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور چلا اٹھے کہ “ محمد واللہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوری فوج سمیت آ گئے۔ ” انس نے کہا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ اکبر اللہ اکبر خیبر پر خرابی آ گئی۔ بے شک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو گی۔

 

❁ تشریح : حضرت امام خطابی فرماتے ہیں کہ اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی ہے۔ اس لیے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔ جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہواس بستی والوں کے لیے اسلام جان اورمال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ کے دوسرے شوہرہیں۔ گویا حضرت انس کے سوتیلے باپ ہیں۔ خمیس پورے لشکر کو کہتے ہیں جس میں پانچوں ٹکڑیاں ہوں یعنی میمنہ، میسرہ، قلب، مقدمہ، ساقہ۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ انا اذا نزلنا سورہ صافات کی آیت کا اقتباس ہے جو یوں ہے فاذا نزل بساحتہم فساءصباح المنذرین ( الصافات:177 )


❁ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ المُنَادِي
❁ باب: اذان کا جواب کس طرح دینا چاہئے

❁ 611 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمُ النِّدَاءَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ المُؤَذِّنُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب زہری سے خبر دی، انھوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔

 

تشریح : یعنی مؤذن ہی کے لفظوں میں جواب دو، مگر حی علی الصلوٰۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں لاحول ولاقوۃ الاباللہ کہنا چاہئیے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔


❁ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ المُنَادِي
❁ باب: اذان کا جواب کس طرح دینا چاہئے

❁ 612 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يَوْمًا، فَقَالَ مِثْلَهُ، إِلَى قَوْلِهِ: وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى – نَحْوَهُ –

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے محمد بن ابراہیم بن حارث سے کہا کہ مجھ سے عیسیٰ بن طلحہ نے بیان کیا کہ انھوں نے معاویہ بن ابی سفیان سے ایک دن سنا آپ ( جواب میں ) مؤذن کے ہی الفاظ کو دہرا رہے تھے۔ اشہد ان محمدا رسول اللہ تک۔ ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اسی طرح حدیث بیان کی۔


❁ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ المُنَادِي
❁ باب: اذان کا جواب کس طرح دینا چاہئے

❁ 613 قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِنَا، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا قَالَ: حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، قَالَ: «لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ»، وَقَالَ: هَكَذَا سَمِعْنَا نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ

 

❁ ترجمہ : یحییٰ نے کہا کہ مجھ سے میرے بعض بھائیوں نے حدیث بیان کی کہ جب مؤذن نے حی علی الصلوٰۃ کہا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہا اور کہنے لگے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی کہتے سنا ہے۔

 

❁ تشریح : پہلی حدیث میں وضاحت نہ تھی کہ سننے والا حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح کے جواب میں کیا کہے۔ اس لیے حضرت امام بخاری دوسری معاویہ والی حدیث لائے۔ جس میں بتلادیاگیا کہ ان کلمات کا جواب لاحول ولاقوۃ الا باللہ سے دینا چاہئیے۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ النِّدَاءِ
❁ باب: اذان کی دعا کے بارے میں

❁ 614 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ القِيَامَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عیاش ہمدانی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعیب بن ابی حمزہ نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن المنکدر سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ جو شخص اذان سن کر یہ کہے اللہم رب ہذہ الدعوۃ التامۃ والصلوٰۃ القائمۃ آت محمدا الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محموداً الذی وعدتہ اسے قیامت کے دن میری شفاعت ملے گی۔

 

❁ تشریح : دعا کا ترجمہ یہ ہے:اے میرے اللہ جو اس ساری پکار کا رب ہے اورقائم رہنے و الی نماز کا بھی رب ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن وسیلہ نصیب فرمانا اور بڑے مرتبہ اورمقام محمود پر ان کا قیام فرمائیو، جس کا تونے ان سے وعدہ کیاہواہے۔ بعض لوگوں نے اس دعا میں کچھ الفاظ اپنی طرف سے بڑھا لیے ہیں یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ حدیث میں جتنے الفاظ وارد ہوئے ہیں ان پر زیادتی کرنا موجب گناہ ہے۔ اذان پوری پکار ہے اس کا مطلب یہ کہ اس کے ذریعہ نماز اور کامیابی حاصل کرنے کے لیے پکارا جاتاہے۔ کامیابی سے مراد دین اوردنیا کی کامیابی ہے اوریہ چیز یقینا نماز کے اندر موجود ہے کہ اس کو باجماعت ادا کرنے سے باہمی محبت اوراتفاق پیدا ہوتاہے اورکسی قوم کی ترقی کے لیے یہی بنیاداوّل ہے۔ دعوۃ تامۃ سے دعوت توحید کلمہ طیبہ مراد ہے۔


❁ بَابُ الِاسْتِهَامِ فِي الأَذَانِ
❁ باب: اذان کے لئے قرعہ اندازی کا بیان

❁ 615 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاَسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاَسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ، لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے سمی سے جو ابوبکر عبدالرحمن بن حارث کے غلام تھے خبر دی، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے اور نماز پہلی صف میں پڑھنے سے کتنا ثواب ملتا ہے۔ پھر ان کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوائے اور کوئی چارہ نہ باقی رہتا، تو البتہ اس پر قرعہ اندازی ہی کرتے اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ نماز کے لیے جلدی آنے میں کتنا ثواب ملتا ہے تو اس کے لیے دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے۔ اور اگر لوگوں کو معلوم ہو جاتا کہ عشاء اور صبح کی نماز کا ثواب کتنا ملتا ہے، تو ضرور چوتڑوں کے بل گھسیٹتے ہوئے ان کے لیے آتے۔

 

❁ تشریح : سلام کےبعد امام کاحالت تشہد سےپھرکرمقتدیوں کی طرف رخ کرکے بیٹھنا مسنون ہے۔اور اس طرح بیٹھے کہ دائیں جانب والوں کی طرف رخ قدرے زیادہ ہوا اور بائیں طرف والے بھی اچھی طرح اس کی نظر میں ہوں ۔ اس طرح بیٹھنا کہ بائیں جانب والوں کی طرف پشت ہوجائے صحیح نہیں ہے۔ اور مذکورہ عمل دائمی نہیں ہوناچاہیے بلکہ کبھی کبھی رخ بائیں جانب بھی ہونا چائیے۔


❁ بَابُ الكَلاَمِ فِي الأَذَانِ
❁ باب: اذان کے دوران بات کرنا

❁ 616 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، وَعَبْدِ الحَمِيدِ، صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ، وَعَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ رَدْغٍ، فَلَمَّا بَلَغَ المُؤَذِّنُ حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُنَادِيَ «الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ»، فَنَظَرَ القَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: «فَعَلَ هَذَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ [ص:127] مِنْهُ وَإِنَّهَا عَزْمَةٌ»

 

ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی اور عبدالحمید بن دینار صاحب الزیادی اور عاصم احول سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن حارث بصری سے، انھوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک دن ہم کو جمعہ کا خطبہ دیا۔ بارش کی وجہ سے اس دن اچھی خاصی کیچڑ ہو رہی تھی۔ مؤذن جب حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے اس سے الصلوٰۃ فی الرحال کہنے کے لیے فرمایا کہ لوگ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لیں۔ اس پر لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اسی طرح مجھ سے جو افضل تھے، انھوں نے بھی کیا تھا اور اس میں شک نہیں کہ جمعہ واجب ہے۔

 

تشریح : موسلادھاربارش ہورہی تھی کہ جمعہ کا وقت ہوگیا اورمؤذن نے اذان شروع کی جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے فوراً لقمہ دیاکہ یوں کہو الصلوٰۃ فی الرحال یعنی لوگو اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز ادا کرلو۔ چونکہ لوگوں کے لیے یہ نئی بات تھی اس لیے ان کو تعجب ہوا۔ جس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کو سمجھایا کہ میں نے ایسے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول دیکھاہے۔ معلوم ہوا کہ ایسے خاص موقع پر دوران اذان کلام کرنا درست ہے۔ اوراتفاقاً اگرکسی کو اذان کے وقت ہنسی آگئی تو اس سے بھی اذان میں خلل نہ ہوگا۔ یہ اتفاقی امور ہیں جن سے اسلام میں آسانی دکھانا مقصود ہے۔


❁ بَابُ أَذَانِ الأَعْمَى إِذَا كَانَ لَهُ مَنْ يُخْبِرُهُ
❁ باب: نابینا شخص کے اذان دینے کا بیان

❁ 617 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»، ثُمَّ قَالَ: وَكَانَ رَجُلًا أَعْمَى، لاَ يُنَادِي حَتَّى يُقَالَ لَهُ: أَصْبَحْتَ أَصْبَحْتَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔

 

❁ تشریح : عہدرسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیاکرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔ عہدخلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔ جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح ہونے کے بعد اذان دینا

❁ 618 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اعْتَكَفَ المُؤَذِّنُ لِلصُّبْحِ، وَبَدَا الصُّبْحُ، صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ تُقَامَ الصَّلاَةُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا مجھے ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد دے چکا ہوتا تو آپ اذان اور تکبیر کے بیچ نماز قائم ہونے سے پہلے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے۔

 

❁ تشریح : یہ فجر کی سنت ہوتی تھی آپ سفر اورحضر ہرجگہ لازماً ان کو ادا فرماتے تھے۔


❁ بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح ہونے کے بعد اذان دینا

❁ 619 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، «كَانَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالإِقَامَةِ مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ»

 

ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح ہونے کے بعد اذان دینا

❁ 620 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُنَادِي بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُنَادِيَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے عبداللہ بن دینار سے خبر دی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ دیکھو بلال رضی اللہ عنہ رات رہے میں اذان دیتے ہیں، اس لیے تم لوگ ( سحری ) کھا پی سکتے ہو۔ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں۔

 

❁ تشریح : ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ عہدنبوی میں فجر میں دواذانیں دی جاتی تھیں۔ ایک فجر ہونے سے پہلے اس بات کی اطلاع کے لیے کہ ابھی سحری کا اورنماز تہجد کا وقت باقی ہے۔ جولوگ کھانا پینا چاہیں کھاپی سکتے ہیں، تہجدوالے تہجد پڑھ سکتے ہیں۔ پھر فجر کے لیے اذان اس وقت دی جاتی جب صبح صادق ہوچکتی۔ پہلی اذان کے لیے حصرت بلال مقرر تھے اوردوسری کے لیے حضرت ابن ام مکتوم اورکبھی اس کے برعکس بھی ہوتا جیسا کہ آگے بیان ہورہاہے۔


❁ بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح صادق سے پہلے اذان دینا

❁ 621 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يَمْنَعَنَّ أَحَدَكُمْ – أَوْ أَحَدًا مِنْكُمْ – أَذَانُ بِلاَلٍ مِنْ سَحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ – أَوْ يُنَادِي بِلَيْلٍ – لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ، وَلِيُنَبِّهَ نَائِمَكُمْ، وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ الفَجْرُ – أَوِ الصُّبْحُ -» وَقَالَ بِأَصَابِعِهِ وَرَفَعَهَا إِلَى فَوْقُ وَطَأْطَأَ إِلَى أَسْفَلُ حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا وَقَالَ زُهَيْرٌ: «بِسَبَّابَتَيْهِ إِحْدَاهُمَا فَوْقَ الأُخْرَى، ثُمَّ مَدَّهَا عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ»

 

❁ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ جعفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن طرخان تیمی نے بیان کیا ابوعثمان عبدالرحمن نہدی سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ بلال کی اذان تمہیں سحری کھانے سے نہ روک دے کیونکہ وہ رات رہے سے اذان دیتے ہیں یا ( یہ کہا کہ ) پکارتے ہیں۔ تا کہ جو لوگ عبادت کے لیے جاگے ہیں وہ آرام کرنے کے لیے لوٹ جائیں اور جو ابھی سوئے ہوئے ہیں وہ ہوشیار ہو جائیں۔ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ فجر یا صبح صادق ہو گئی اور آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے ( طلوع صبح کی کیفیت ) بتائی۔ انگلیوں کو اوپر کی طرف اٹھایا اور پھر آہستہ سے انھیں نیچے لائے اور پھر فرمایا کہ اس طرح ( فجر ہوتی ہے ) حضرت زہیر راوی نے بھی شہادت کی انگلی ایک دوسری پر رکھی، پھر انھیں دائیں بائیں جانب پھیلا دیا۔

 

❁ تشریح : یعنی بتلادیاکہ فجر کی روشنی اس طرح پھیل جاتی ہے۔


 ❁ بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح صادق سے پہلے اذان دینا

❁ 622 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: عُبَيْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عِيسَى المَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِنَّ بِلاَلًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ»

 

❁ ترجمہ : مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابواسامہ حماد بن اسامہ نے خبر دی، کہا ہم سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے قاسم بن محمد سے اور انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا اور نافع نے ابن عمر سے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم ( سحری ) کھا پی سکتے ہو۔


❁ بَابُ الأَذَانِ قَبْلَ الفَجْرِ
❁ باب: صبح صادق سے پہلے اذان دینا

❁ 623 وحدثني يوسف بن عيسى المروزي، قال حدثنا الفضل، قال حدثنا عبيد الله بن عمر، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏ ‏ إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى يؤذن ابن أم مكتوم‏ ‏‏. ‏

 

❁ ترجمہ : امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے قاسم بن محمد سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات رہے میں اذان دیتے ہیں۔ عبداللہ ابن ام مکتوم کی اذان تک تم ( سحری ) کھا پی سکتے ہو

 

❁ تشریح : حضرت عبداللہ بن ام مکتوم قیس بن زائدہ رضی اللہ عنہ قریشی مشہور نابینا صحابی ہیں۔ جن کے متعلق سورۃ عبس نازل ہوئی۔ ایک دفعہ کچھ اکابر قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تبادلہ خیال کررہے تھے کہ اچانک وہاں یہ بھی پہنچ گئے۔ ایسے موقع پر ان کا وہاں حاضر ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونامناسب معلوم ہوا۔ جس کے بارے میں اللہ نے سورۃ مذکورہ میں اپنے مقدس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فہمائش فرمائی اور ارشاد ہوا کہ ہمارے ایسے پیارے غریب مخلص بندوں کا اعزازواکرام ہروقت ضروری ہے۔ چنانچہ بعدمیں ایسا ہوا کہ یہ جب بھی تشریف لاتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کوبڑی شفقت ومحبت سے بٹھاتے اورفرمایا کہ یہ وہ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ پاک نے مجھ کو فہمائش فرمائی۔ حدیث مذکورہ میں جو کچھ ہے بعض روایات میں اس کے برعکس بھی وارد ہواہے۔ یعنی یہ کہ اذان اوّل حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم اوراذان ثانی حضرت بلال رضی اللہ عنہ دیا کرتے تھے۔ جیسا کہ نسائی، ابن خزیمہ، ابن حبان، مسنداحمد وغیرہ میں مذکور ہے۔ وقد جمع بینھما ابن خزیمۃ وغیرہ بانہ یجوز ان یکون علیہ السلام جعل الاذان بین بلال وابن ام مکتوم نوائب فامر فی بعض اللیالی بلالا ان یؤذن بلیل فاذا نزل صعد ابن ام مکتوم فاذن فی الوقت فاذا جاءت نوبۃ ابن ام مکتوم فاذن بلیل فاذا نزل صعد بلال فاذن فی الوقت فکانت مقالۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان بلالا یوذن بلیل فی وقت نوبۃ بلال وکانت مقالتہ ان ابن ام مکتوم یوذن بلیل فی وقت نوبۃ ابن ام مکتوم۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:443 ) یعنی محدث ابن خزیمہ وغیرہ نے ان واقعات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ممکن ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال وحضرت ابن ام مکتوم کو باری باری ہردو اذانوں کے لیے مقرر کررکھاہو۔ جس دن حضرت بلال کی باری تھی کہ وہ رات میں اذان دے رہے تھے اس دن آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ بلال کی اذان سن کر کھانا پینا سحری کرنا وغیرہ منع نہیں ہوا کیونکہ یہ اذان اسی آگاہی کے لیے دی گئی ہے اورجس دن حضرت ابن ام مکتوم کی رات میں اذان دینے کی باری تھی اس دن ان کے لیے فرمایاکہ ان کی اذان سن کر کھانے پینے سے نہ رک جانا کیونکہ یہ سحری یاتہجد کی اذان دے رہے ہیں اورحضرت بلال کو خاص سحری کی اذان کے لیے مقرر کردیاگیا۔ امام مالک وامام شافعی وامام احمد وامام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہم نے طلوع فجر سے کچھ قبل نماز فجر کے لیے اذان دینا جائز قرار دیاہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ نماز فجر خاص اہمیت رکھتی ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال ہولاءکان الاذانان لصلوٰۃ الفجر ولم یکن الاول مانعا من التسحر وکان الثانی من قبیل الاعلام بعدالاعلام وانما اختصت صلوٰۃ الفجر بہذا من بین الصلوٰات لما ورد من الترغیب فی الصلوٰۃ اوّل الوقت والصبح یاتی غالباً عقیب النوم فناسب ان ینصب من یوقظ الناس قبل دخول وقتہا لیتاہبوا ویدرکوا فضیلۃ اول الوقت الخ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص:444 ) یعنی مذکورہ بالا حضرات کہتے ہیں کہ ہردواذان جن کا ذکر حدیث مذکورہ میں ہے۔ یہ نماز فجرہی کے واسطے ہوتی تھیں۔ پہلی اذان سحری اور تہجد سے مانع نہ تھی۔ دوسری اذان مکرر آگاہی کے لیے دلائی جاتی تھی اوربہ نسبت دوسری نمازوں کے یہ خاص فجر ہی کے بارے میں ہے اس لیے کہ اسے اوّل وقت ادا کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ پس مناسب ہوا کہ ایک ایسا مؤذن بھی مقرر کیاجائے جو لوگوں کوپہلے ہی ہوشیار وبیدار کردے تاکہ وہ تیار ہوجائیں اوراوّل وقت کی فضیلت حاصل کرسکیں۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ اذان بلال رضی اللہ عنہ کا تعلق خاص ماہ رمضان ہی سے تھا۔ بعض شراح دیوبند نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وفیہ نظرلان قولہ کلواواشربوا یتاتی فی غیررمضان ایضا وہذا لمن کان یرید صوم التطوع فان کیثرا من الصحابۃ فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم کانوا یکثرون صیام النفل فکان قولہ فکلوا واشربوا بالنظر الی ہولاءویدل علی ذلک مارواہ عبدالرزاق عن ابن المسیب مرسلا بلفظ ان بلالا یوذن بلیل فمن اراد الصوم فلایمنعہ اذان بلال حتی یوذن ابن ام مکتوم ذکرہ علی المتقی فی کنزالعمال۔ ( ج4، ص:311 ) فجعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم الصوم فیہ باختیار الرجل ولایکون ذلک الا فی غیررمضان فدل علی ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ان بلالا یوذن بلیل لیس مختصابرمضان۔ ( مرعاۃ، ج1، ص:444 ) یعنی یہ صحیح نہیں کہ اس اذان کا تعلق خاص رمضان سے تھا۔ زمانہ نبوی میں بہت سے صحابہ غیررمضان میں نفل روزے بھی بکثرت رکھا کرتے تھے جیسا کہ مسندعبدالرزاق میں ابن مسیب کی روایت سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بلال رات میں اذان دیتے ہیں۔ پس جو کوئی روزہ رکھنا چاہے اس کو یہ اذان سن کر سحری سے رکنا نہ چاہئیے۔ یہ ارشادِ نبوی غیررمضان ہی سے متعلق ہے۔ پس ثابت ہوا کہ اذان بلال کو رمضان سے مخصوص کرنا صحیح نہیں ہے۔ رہا یہ مسئلہ کہ اگر کوئی شخص فجر کی اذان جان کر یابھول کر وقت سے پہلے پڑھ دے تووہ کفایت کرے گی یافجر ہونے پر دوبارہ اذان لوٹائی جائے گی۔ اس بارے میں حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: فقال بعض اہل العلم اذااذن الموذن باللیل اجزاہ ولایعید وہوقول مالک وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق وقال بعض اہل العلم اذا اذن باللیل اعاد وبہ یقول سفیان الثوری یعنی بعض اہل علم کا قول ہے کہ اگرمؤذن رات میں فجر کی اذان کہہ دے تو وہ کافی ہوگی اور دوبارہ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔ یہ امام مالک اور عبداللہ بن مبارک وامام شافعی واحمد واسحاق وغیرہ کا فتویٰ ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہ اذان لوٹائی جائے گی، امام سفیان ثوری کا یہی فتویٰ ہے۔ محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: قلت لم اقف علی حدیث صحیح صریح یدل علی الاکتفاءفالظاہر عندی قول من قال بعدم الاکتفاءواللہ تعالیٰ اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:180 ) یعنی میں کہتا ہوں کہ مجھے کوئی ایسی صریح حدیث نہیں ملی جس سے رات میں کہی ہوئی اذان فجر کی نماز کے لیے کافی ثابت ہو۔ پس میرے نزدیک ظاہر میں ان ہی کا قول صحیح ہے جو اسی اذان کے کافی نہ ہونے کا مسلک رکھتے ہیں۔ واللہ اعلم


❁ بَابٌ: كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ، وَمَنْ يَنْتَظِرُ الإِقَامَةَ
❁ باب: اذان اور تکبیر کے بیچ میں کتنا فاصلہ ہو

❁ 624 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنِ الجُرَيْرِيِّ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ المُزَنِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، ثَلاَثًا لِمَنْ شَاءَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے سعد بن ایاس جریری سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مغفل مزنی سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و اقامت ) کے درمیان ایک نماز ( کا فصل ) دوسری نماز سے ہونا چاہیے ( تیسری مرتبہ فرمایا کہ ) جو شخص ایسا کرنا چاہے۔


❁ بَابٌ: كَمْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ، وَمَنْ يَنْتَظِرُ الإِقَامَةَ
❁ باب: اذان اور تکبیر کے بیچ میں کتنا فاصلہ ہو

❁ 625 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الأَنْصَارِيَّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ المُؤَذِّنُ إِذَا أَذَّنَ قَامَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ، حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ [ص:128] صلّى الله عليه وسلم وَهُمْ كَذَلِكَ، يُصَلُّونَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ المَغْرِبِ، وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَ الأَذَانِ وَالإِقَامَةِ شَيْءٌ»، قَالَ عُثْمَانُ بْنُ جَبَلَةَ، وَأَبُو دَاوُدَ: عَنْ شُعْبَةَ، لَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا إِلَّا قَلِيلٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عمرو بن عامر انصاری سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ ( عہد رسالت میں ) جب مؤذن اذان دیتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ستونوں کی طرف لپکتے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرہ سے باہر تشریف لاتے تو لوگ اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے ملتے۔ یہ جماعت مغرب سے پہلے کی دو رکعتیں تھیں۔ اور ( مغرب میں ) اذان اور تکبیر میں کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا تھا۔ اور عثمان بن جبلہ اور ابوداود طیالسی نے شعبہ سے اس ( حدیث میں یوں نقل کیا ہے کہ ) اذان اور تکبیر میں بہت تھوڑا سا فاصلہ ہوتا تھا۔

 

❁ تشریح : مغرب کی جماعت سے قبل دورکعت سنت پڑھنے کا صحابہ کرام میں عام معمول تھا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ اذان اورتکبیر کے درمیان کم ازکم اتنا فاصلہ توہونا ہی چاہئیے کہ دورکعت نماز نفل پڑھی جاسکیں۔ حتیٰ کہ مغرب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ بعض فضلائے دیوبند نے لکھاہے کہ بعدمیں ان رکعتوں کے پڑھنے سے روک دیاگیا تھا۔ مگریہ وضاحت نہیں کی کہ روکنے والے کون صاحب تھے۔ شایدآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ممانعت کے لیے کوئی حدیث ان کے علم میں ہو۔ مگرہماری نظر سے وہ حدیث نہیں گزری۔ یہ لکھنے کے باوجود ان ہی حضرات نے ان رکعتوں کو مباح بھی قرار دیا ہے۔ ( دیکھو تفہیم البخاری، پ3، ص:


❁ بَابُ مَنِ انْتَظَرَ الإِقَامَةَ
❁ باب: اذان سن کر جو گھر میں تکبیر کا انتظار کرے

❁ 626 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَكَتَ المُؤَذِّنُ بِالأُولَى مِنْ صَلاَةِ الفَجْرِ قَامَ، فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الفَجْرِ، بَعْدَ أَنْ يَسْتَبِينَ الفَجْرُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الأَيْمَنِ، حَتَّى يَأْتِيَهُ المُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انھوں نے زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب مؤذن صبح کی دوسری اذان دے کر چپ ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور فرض سے پہلے دو رکعت ( سنت فجر ) ہلکی پھلکی ادا کرتے صبح صادق روشن ہو جانے کے بعد پھر داہنی کروٹ پر لیٹ رہتے۔ یہاں تک کہ مؤذن تکبیر کہنے کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ گھر میں سنت پڑھ کر جماعت کھڑی ہونے کا انتظار کرتے ہوئے بیٹھے رہنا جائز ہے۔ آج کل گھڑی گھنٹوں کا زمانہ ہے۔ ہرنمازی مسلمان اپنے ہاں کی جماعتوں کے اوقات کو جانتاہے پس اگر کوئی شخص عین جماعت کھڑی ہونے کے وقت پر گھر سے نکل کر شامل جماعت ہوتو یہ بھی درست ہے۔


بَابٌ: بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ لِمَنْ شَاءَ ❁ 
باب: اذان اور تکبیر کے درمیان نفل پڑھنا ❁ 

❁ 627 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَهْمَسُ بْنُ الحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ، بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلاَةٌ»، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ: «لِمَنْ شَاءَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یزید مقری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے کہمس بن حسن نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بریدہ سے، انھوں نے عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دو اذانوں ( اذان و تکبیر ) کے بیچ میں نماز ہے۔ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ پھر تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی پڑھنا چاہے۔

 

 تشریح : مقصدباب یہ کہ اذان اورتکبیر میں کچھ نہ کچھ فاصلہ ہونا چاہئیے۔ کم ازکم اتنا ضروری کہ کوئی شخص دورکعت سنت پڑھ سکے۔ مگر مغرب میں وقت کم ہونے کی وجہ سے فوراً جماعت شروع ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مغرب میں بھی نماز فرض سے پہلے دورکعت سنت پڑھنا چاہے تواس کے لیے اجازت ہے۔


بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ ❁ 
باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے ❁ 

❁ 628 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الحُوَيْرِثِ، أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِي، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا رَأَى شَوْقَنَا إِلَى أَهَالِينَا، قَالَ: «ارْجِعُوا فَكُونُوا فِيهِمْ، وَعَلِّمُوهُمْ، وَصَلُّوا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے معلی بن سعد اسد بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے ابوایوب سے بیان کیا، انھوں نے ابوقلابہ سے، انھوں نے مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی قوم ( بنی لیث ) کے چند آدمیوں کے ساتھ حاضر ہوا اور میں نے آپ کی خدمت شریف میں بیس راتوں تک قیام کیا۔ آپ بڑے رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے ہمارے اپنے گھر پہنچنے کا شوق محسوس کر لیا تو فرمایا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ وہاں جا کر اپنی قوم کو دین سکھاؤ اور ( سفر میں ) نماز پڑھتے رہنا۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک شخص اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

 

❁ تشریح : آداب سفرمیں سے ہے کہ امیر سفرکے ساتھ ساتھ امام ومؤذن کا بھی تقرر کر لیا جائے۔ تاکہ سفرمیں نماز باجماعت کا اہتمام کیا جاسکے۔ حدیث نبوی کا یہی منشا ہے اور یہی مقصد باب ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ
باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے ❁ 

❁ 629 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ المُهَاجِرِ أَبِي الحَسَنِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ المُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: «أَبْرِدْ»، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: «أَبْرِدْ»، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: «أَبْرِدْ» حَتَّى سَاوَى الظِّلُّ التُّلُولَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے مہاجر ابوالحسن سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب سے، انھوں نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے فرمایا ٹھنڈا ہونے دے۔ پھر مؤذن نے اذان دینی چاہی تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ یہاں تک کہ سایہ ٹیلوں کے برابر ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی شدت دوزخ کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان مسافروں کی جب ایک جماعت موجود ہو تو وہ بھی اذان، تکبیر اور جماعت اسی طرح کریں جس طرح حالت اقامت میں کیا کرتے ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ گرمیوں میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھنا مناسب ہے۔ تاکہ گرمی کی شدت کچھ کم ہوجائے جو دوزخ کے سانس لینے سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسی دوزخ ہے ویسا ہی اس کا سانس بھی ہے۔ جس کی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ مزید کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ
❁ باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے

❁ 630 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الحُوَيْرِثِ، قَالَ: أَتَى رَجُلاَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ السَّفَرَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَنْتُمَا خَرَجْتُمَا، فَأَذِّنَا، ثُمَّ أَقِيمَا، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے خالد حذاء سے، انھوں نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے مالک بن حویرث سے، انھوں نے کہا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے یہ کسی سفر میں جانے والے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ دیکھو جب تم سفر میں نکلو تو ( نماز کے وقت راستے میں ) اذان دینا پھر اقامت کہنا، پھر جو شخص تم میں عمر میں بڑا ہو نماز پڑھائے۔

 

❁ تشریح : مطلب یہ کہ سفرمیں نماز باجماعت سے غافل نہ ہونا۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ
❁ باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے

❁ 631 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، أَتَيْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُونَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ عِشْرِينَ يَوْمًا وَلَيْلَةً، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا رَفِيقًا، فَلَمَّا ظَنَّ أَنَّا قَدِ اشْتَهَيْنَا أَهْلَنَا – أَوْ قَدِ اشْتَقْنَا – سَأَلَنَا عَمَّنْ تَرَكْنَا بَعْدَنَا، فَأَخْبَرْنَاهُ، قَالَ: «ارْجِعُوا إِلَى أَهْلِيكُمْ، فَأَقِيمُوا فِيهِمْ وَعَلِّمُوهُمْ وَمُرُوهُمْ – وَذَكَرَ أَشْيَاءَ أَحْفَظُهَا أَوْ لاَ أَحْفَظُهَا – وَصَلُّوا [ص:129] كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالوہاب نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ابوایوب سختیانی نے ابوقلابہ سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے مالک بن حویرث نے بیان کیا، کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر اور نوجوان ہی تھے۔ آپ کی خدمت مبارک میں ہمارا بیس دن و رات قیام رہا۔ آپ بڑے ہی رحم دل اور ملنسار تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہمیں اپنے وطن واپس جانے کا شوق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم لوگ اپنے گھر کسے چھوڑ کر آئے ہو۔ ہم نے بتایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم اپنے گھر جاؤ اور ان گھر والوں کے ساتھ رہو اور انھیں بھی دین سکھاؤ اور دین کی باتوں پر عمل کرنے کا حکم کرو۔ مالک نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا جن کے متعلق ابوایوب نے کہا کہ ابوقلابہ نے یوں کہا وہ باتیں مجھ کو یاد ہیں یا یوں کہا مجھ کو یاد نہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نماز پڑھنا جیسے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور جب نماز کا وقت آ جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو تم میں سب سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ ثابت فرمایاہے کہ حالت سفرمیں اگرچند مسلمان یکجاہوں توان کو نماز اذان اور جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئیے۔ ان نوجوانوں کو آپ نے بہت سی نصائح کے ساتھ آخرمیں یہ تاکید فرمائی کہ جیسے تم نے مجھ کونماز پڑھتے دیکھاہے۔ عین اسی طرح میری سنت کے مطابق نماز پڑھنا۔ معلوم ہوا کہ نماز کا ہر ہررکن فرض واجب مستحب سب رسول علیہ السلام کے بتلائے ہوئے طریقہ پرادا ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس معیار پر دیکھا جائے توآج کتنے نمازی ملیں گے جوبحالت قیام ورکوع وسجدہ وقومہ سنت رسول کوملحوظ رکھتے ہیں۔ سچ ہے مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ
❁ باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے

❁ 632 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: أَذَّنَ ابْنُ عُمَرَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ بِضَجْنَانَ، ثُمَّ قَالَ: صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ، فَأَخْبَرَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ، ثُمَّ يَقُولُ عَلَى إِثْرِهِ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ» فِي اللَّيْلَةِ البَارِدَةِ، أَوِ المَطِيرَةِ فِي السَّفَرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ضجنان پر اذان دی پھر فرمایا کہ لوگو! اپنے اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو اور ہمیں آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن سے اذان کے لیے فرماتے اور یہ بھی فرماتے کہ مؤذن اذان کے بعد کہہ دے کہ لوگو! اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ یہ حکم سفر کی حالت میں یا برسات کی راتوں میں تھا۔

 

❁ تشریح : کیونکہ ارشادباری ہے۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج ( الحج:78 ) دین میں تنگی نہیں ہے۔ ضجنان مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کا نام ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لِيُؤَذِّنْ فِي السَّفَرِ مُؤَذِّنٌ وَاحِدٌ
❁ باب: سفر میں ایک ہی شخص اذان دے

❁ 633 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو العُمَيْسِ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالأَبْطَحِ، فَجَاءَهُ بِلاَلٌ فَآذَنَهُ بِالصَّلاَةِ ثُمَّ خَرَجَ بِلاَلٌ بِالعَنَزَةِ حَتَّى رَكَزَهَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالأَبْطَحِ، وَأَقَامَ الصَّلاَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں جعفر بن عون نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوالعمیس نے بیان کیا، انھوں نے عون بن ابی حجیفہ سے ابوحجیفہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابطح میں دیکھا کہ بلال حاضر ہوئے اور آپ کو نماز کی خبر دی پھر بلال رضی اللہ عنہ برچھی لے کر آگے بڑھے اور اسے آپ کے سامنے ( بطور سترہ ) مقام ابطح میں گاڑ دیا اور آپ نے ( اس کو سترہ بنا کر ) نماز پڑھائی۔

 

تشریح : ابطح مکہ سے کچھ فاصلہ پر ایک مشہورمقام ہے۔ جہاں آپ نے حالت سفر میں جماعت سے نماز پڑھائی۔ پس حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔ یہ بھی ثابت ہواکہ اگر ضرورت ہو تومؤذن امام کوگھر سے بلاکر لاسکتے ہیںاور یہ بھی کہ جنگل میں سترہ کا انتظام ضروری ہے۔ اس کا اہتمام مؤذن کو کرنا ہے۔ عنزہ وہ لکڑی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو، اسے زمین میں با آسانی گاڑا جا سکتا ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَتَتَبَّعُ المُؤَذِّنُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَا هُنَا، وَهَلْ يَلْتَفِتُ فِي الأَذَانِ
❁ باب: کیا مؤذن اذان میں اپنا منہ اِدھر اُدھر گھمائے؟

❁ 634 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، «أَنَّهُ رَأَى بِلاَلًا يُؤَذِّنُ فَجَعَلْتُ أَتَتَبَّعُ فَاهُ هَا هُنَا وَهَهُنَا بِالأَذَانِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عون بن ابی حجیفہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے کہ انھوں نے بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دیتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہتے ہیں میں بھی ان کے منہ کے ساتھ ادھر ادھر منہ پھیرنے لگا۔

 

❁ تشریح : اس باب کے ذیل میں حضرت الامام نے کئی ایک مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً مؤذن کو حی علی الصلوٰۃ حی علی الفلاح کے وقت دائیں بائیں منہ پھیرنا درست ہے نیز کانوں میں انگلیاں داخل کرنا بھی جائز ہے تاکہ آواز میں بلندی پیدا ہو۔ کوئی کانوں میں انگلیاں نہ ڈالیں توبھی کوئی ہرج نہیں۔ وضوکرکے اذان کہنا بہتر ہے مگراس کے لیے وضو شرط نہیں ہے جن لوگوں نے وضو ضروری قرار دیا ہے، انھوں نے فضیلت کا پہلواختیار کیا ہے۔


بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ: فَاتَتْنَا الصَّلاَةُ ❁ 
❁ باب: یوں کہنا کہ نماز نے ہمیں چھوڑ دیا؟

❁ 635 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ سَمِعَ جَلَبَةَ رِجَالٍ، فَلَمَّا صَلَّى قَالَ: «مَا شَأْنُكُمْ؟» قَالُوا: اسْتَعْجَلْنَا إِلَى الصَّلاَةِ؟ قَالَ: «فَلاَ تَفْعَلُوا إِذَا أَتَيْتُمُ الصَّلاَةَ فَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے والد قتادہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں تھے۔ آپ نے کچھ لوگوں کے چلنے پھرنے اور بولنے کی آواز سنی۔ نماز کے بعد آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا قصہ ہے لوگوں نے کہا کہ ہم نماز کے لیے جلدی کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو۔ بلکہ جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور سکون کو ملحوظ رکھو، نماز کا جو حصہ پاؤ اسے پڑھو اور اور جو رہ جائے اسے ( بعد ) میں پورا کر لو۔

 

❁ تشریح : حدیث کے لفظ ومافاتکم سے حضرت امام نے باب کو ثابت فرمایاہے اورگفتگو کا سلیقہ سکھلایاہے کہ یوں کہنا چاہئیے کہ نماز کا جو حصہ تم پاسکو اسے پڑھ لو اور جو رہ جائے بعدمیں پورا کرلو۔


❁ باب: ماأدركْتُم فصلُّوْ، وَمَا فَاتَكُم فَأَتَمُّوْ
باب: نماز کا جو حصہ جماعت کے ساتھ پاسکو ❁

❁ 636 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا سَمِعْتُمُ الإِقَامَةَ، فَامْشُوا إِلَى الصَّلاَةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالوَقَارِ، وَلاَ تُسْرِعُوا، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام زہری نے سعید بن مسیب سے بیان کیا، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( دوسری سند ) اور زہری نے ابوسلمہ سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے ( معمولی چال سے ) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو ( بہرحال ) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔


❁ بَابٌ: مَتَى يَقُومُ النَّاسُ، إِذَا رَأَوُا الْإِمَامَ عِنْدَ الْإِقَامَةِ
❁ باب: نماز کی تکبیر کے وقت کس وقت کھڑے ہوں؟

❁ 637 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيَّ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ [ص:130] صلّى الله عليه وسلم: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا مجھے یحییٰ نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے یہ حدیث لکھ کر بھیجی کہ وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک مجھے نکلتے ہوئے نہ دیکھ لو۔

 

❁ تشریح : اس مسئلے میں کئی قول ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تکبیر ختم ہونے کے بعد مقتدیوں کو اٹھنا چاہئیے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں تکبیر شروع ہوتے ہی۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب مؤذن حی علی الصلوٰۃ کہے اور جب مؤذن قدقامت الصلوٰۃ کہے توامام نماز شروع کردے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حی علی الصلوٰۃ پر اٹھے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کی حدیث لا کر یہ اشارہ کیا جب امام مسجد میں نہ ہو تو مقتدیوں کو چاہئیے کہ بیٹھے رہیں اور جب امام کو دیکھ لیں تب نماز کے لیے کھڑے ہوں۔


بَابٌ: لاَ يَسْعَى إِلَى الصَّلاَةِ مُسْتَعْجِلًا، وَلْيَقُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالوَقَارِ ❁ 
باب: نماز کے لئے جلدی نہ اٹھے ❁

 ❁ 638 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَلاَ تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز کی تکبیر ہو تو جب تک مجھے دیکھ نہ لو کھڑے نہ ہو اور آہستگی کو لازم رکھو۔ شیبان کے ساتھ اس حدیث کو یحییٰ سے علی بن مبارک نے بھی روایت کیا ہے۔

 

❁ تشریح : جسے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الجمعہ میں نکالا ہے۔ معلوم ہوا کہ شرکت جماعت کے لیے بھاگ دوڑ مناسب نہیں بلکہ سکون اوروقار کے ساتھ چل کر شریک جماعت ہونا چاہئیے۔ پھر جو نماز چھوٹ جائے وہ بعدمیں پڑھ لے۔ جماعت کا ثواب بہرحال حاصل ہوگا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَخْرُجُ مِنَ المَسْجِدِ لِعِلَّةٍ؟
❁ باب: کیا مسجد سے کسی ضرورت کی وجہ سے

❁ 639 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ، حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ، انْتَظَرْنَا أَنْ يُكَبِّرَ، انْصَرَفَ، قَالَ: «عَلَى مَكَانِكُمْ» فَمَكَثْنَا عَلَى هَيْئَتِنَا، حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا يَنْطِفُ رَأْسُهُ مَاءً، وَقَدِ اغْتَسَلَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، وہ صالح بن کیسان سے، وہ ابن شہاب سے، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک دن حجرے سے ) باہر تشریف لائے، اقامت کہی جا چکی تھی اور صفیں برابر کی جا چکی تھیں۔ آپ جب مصلے پر کھڑے ہوئے تو ہم انتظار کر رہے تھے کہ اب آپ تکبیر کہتے ہیں۔ لیکن آپ واپس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو۔ ہم اسی حالت میں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ آپ دوبارہ تشریف لائے، تو سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ نے غسل کیا تھا۔

 

❁ تشریح : آپ حالت جنابت میں تھے مگر یادنہ رہنے کی وجہ سے تشریف لے آئے۔ بعدمیں معلوم ہوگیا توواپس تشریف لے گئے۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری قدس سرہ نے یہ مسئلہ ثابت کیا کہ کوئی ایسی ہی سخت ضرورت پیش آجائے، تو اذان وتکبیر کے بعد بھی آدمی مسجد سے باہر نکل سکتاہے۔ جس حدیث میں ممانعت آئی ہے وہاں محض بلاوجہ نفسانی خواہش کے باہر نکلنا مراد ہے۔ ممانعت والی حدیث صحیح مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اورمسنداحمد میں بھی ہے۔ ان احادیث کو نقل کرنے کے بعد حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:والحدیثان یدلان علی تحریم الخروج من المسجد بعد سماع الاذان لغیرالوضوءوقضاءالحاجۃ وماتدعوا الضرورۃ الیہ حتی یصلی فیہ تلک الصلوٰۃ لان ذلک المسجد قد تعین لتلک الصلوٰۃ۔ ( نیل الاوطار ) یعنی مسجد سے اذان سننے کے بعد نکلنا حرام ہے۔ مگروضو یاقضائے حاجت یا اورکوئی ضروری کام ہو تواجازت ہے ورنہ جس مسجد میں رہتے ہوئے اذان سن لی اب اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی لازم ہے کیونکہ اس نماز کے لیے وہی مسجد متعین ہوچکی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ احکام شریعت وطریقہ عبادت میں نسیان ہوسکتاہے تاکہ وہ وحی آسمانی کے مطابق اس نسیان کا ازالہ کرسکیں۔


❁ بَابٌ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: مَكَانَكُمْ حَتَّى رَجَعَ انْتَظَرُوهُ
❁ باب: اگرامام مقتدیوں سے کہے کہ تم لوگ

❁ 640 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَسَوَّى النَّاسُ صُفُوفَهُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَقَدَّمَ، وَهُوَ جُنُبٌ، ثُمَّ قَالَ: «عَلَى مَكَانِكُمْ» فَرَجَعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ خَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مَاءً، فَصَلَّى بِهِمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن یوسف فریابی نے خبر دی کہ کہا ہم سے اوزاعی نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے فرمایا کہ نماز کے لیے اقامت کہی جا چکی تھی اور لوگوں نے صفیں سیدھی کر لی تھیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آگے بڑھے۔ لیکن حالت جنابت میں تھے ( مگر پہلے خیال نہ رہا ) اس لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنی اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو آپ غسل کئے ہوئے تھے اور سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔

 

❁ تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں کہ بعض نسخوں میں یہاں اتنی عبارت زائد ہے:قیل لابی عبداللہ ای البخاری ان بدا لاحدنا مثل ہذا یفعل کما یفعل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فای شئی یصنع فقیل ینتظرونہ قیاما اوقعودا قال ان کان قبل التکبیر للاحرام فلاباس ان یقعدوا وان کان بعدالتکبیر انتظروہ حال کونہم قیاما۔ یعنی لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے کہا اگر ہم میں کسی کو ایسا اتفاق ہو تووہ کیا کرے؟ انھوں نے کہا کہ جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ویسا کرے۔ لوگوں نے کہا تو مقتدی امام کا انتظار کھڑے رہ کر کرتے رہیں یا بیٹھ جائیں۔ انھوں نے کہا اگرتکبیرتحریمہ ہوچکی ہے تو کھڑے کھڑے انتظارکریں۔ ورنہ بیٹھ جانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


❁ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلنَّبِيِّ ﷺ: مَا صَلَّيْنَا
 ❁ باب: آدمی یوں کہے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی

❁ 641 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: أَخْبَرَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ يَوْمَ الخَنْدَقِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ: مَا كِدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، وَذَلِكَ بَعْدَ مَا أَفْطَرَ الصَّائِمُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا» فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بُطْحَانَ وَأَنَا مَعَهُ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ صَلَّى – يَعْنِي العَصْرَ – بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قسم خدا کی سورج غروب ہونے کو ہی تھا کہ میں اب عصر کی نماز پڑھ سکا ہوں۔ آپ جب حاضر خدمت ہوئے تو روزہ افطار کرنے کا وقت آ چکا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میں نے بھی تو نماز عصر نہیں پڑھی ہے۔ پھر آپ بطحان کی طرف گئے۔ میں آپ کے ساتھ ہی تھا۔ آپ نے وضو کیا، پھر عصر کی نماز پڑھی۔ سورج ڈوب چکا تھا۔ پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

 

❁ تشریح : یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا ردکیاہے۔ جنھوں نے یہ کہنا مکروہ قرار دیا کہ یوں کہاجائے کہ ہم نے نماز نہیں پڑھی۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابراہیم نے یہ کہنا اس شخص کے لیے مکروہ جانا جو نماز کا انتظار کررہاہو۔ کیونکہ وہ گویا نماز ہی میں ہے۔


❁ بَابُ الإِمَامِ تَعْرِضُ لَهُ الحَاجَةُ بَعْدَ الإِقَامَةِ
❁ باب: تکبیر کے بعد اگر امام کو کوئی ضرورت

❁ 642 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنَاجِي رَجُلًا فِي جَانِبِ المَسْجِدِ، فَمَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ حَتَّى نَامَ القَوْمُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر ہو چکی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی شخص سے مسجد کے ایک گوشے میں چپکے چپکے کان میں باتیں کر رہے تھے۔ پھر آپ نماز کے لیے جب تشریف لائے تو لوگ سو رہے تھے۔

 

❁ تشریح : سونے سے مراد اونگھنا ہے جیسا کہ ابن حبان اوراسحاق بن راہویہ نے روایت کیاہے کہ بعض لوگ اونگھنے لگے، چونکہ عشاءکی نماز کے وقت میں کافی گنجائش ہے اورباتیں بے حد ضروری تھیں، اس لیے آپ نے نماز کو مؤخر کردیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان شرعی سہولتوں کوبیان کرناہے جو روا رکھی گئی ہیں۔ آج جب کہ مصروفیات زندگی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہیں اورہر ہر منٹ مصروفیات کا ہے حدیث نبوی “ الامام ضامن ” کے تحت امام کو بہرحال مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا۔


❁ بَابُ الكَلاَمِ إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ
❁ باب: تکبیر ہو چکنے کے بعد باتیں کرنا

❁ 643 حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلْتُ ثَابِتًا البُنَانِيَّ – عَنِ الرَّجُلِ يَتَكَلَّمُ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلاَةُ – فَحَدَّثَنِي عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَعَرَضَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَحَبَسَهُ بَعْدَ مَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ثابت بنانی سے ایک شخص کے متعلق مسئلہ دریافت کیا جو نماز کے لیے تکبیر ہونے کے بعد گفتگو کرتا رہے۔ اس پر انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انھوں نے فرمایا کہ تکبیر ہو چکی تھی۔ اتنے میں ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں ملا اور آپ کو نماز کے لیے تکبیر کہی جانے کے بعد بھی روکے رکھا۔

 

تشریح : یہ آپ کے کمال اخلاق حسنہ کی دلیل ہے کہ تکبیر ہوچکنے کے بعد بھی آپ نے اس شخص سے گفتگو جاری رکھی۔ آپ کی عادت مبارکہ تھی کہ جب تک ملنے والا خود جدا نہ ہوتا آپ ضرور موجود رہتے۔ یہاں بھی یہی ماجرا ہوا۔ بہرحال کسی خاص موقع پر اگرامام ایسا کرے تو شرعاً اس پر مؤاخذہ نہیں ہے۔


❁ بَابُ وُجُوبِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ
  ❁ باب: جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے

❁ 644 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ، فَيُحْطَبَ، ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلاَةِ، فَيُؤَذَّنَ لَهَا، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ، أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا، أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ، لَشَهِدَ العِشَاءَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں۔ پھر نماز کے لیے کہوں، اس کے لیے اذان دی جائے پھر کسی شخص سے کہوں کہ وہ امامت کرے اور میں ان لوگوں کی طرف جاؤں ( جو نماز باجماعت میں حاضر نہیں ہوتے ) پھر انھیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر یہ جماعت میں نہ شریک ہونے والے لوگ اتنی بات جان لیں کہ انھیں مسجد میں ایک اچھے قسم کی گوشت والی ہڈی مل جائے گی یا دو عمدہ کھر ہی مل جائیں گے تو یہ عشاء کی جماعت کے لیے مسجد میں ضرور حاضر ہو جائیں

 

❁ تشریح : اس حدیث سے نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا جس قدر ضروری معلوم ہوتاہے وہ الفاظ حدیث سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تارکین جماعت کے لیے ان کے گھروں کو آگ لگانے کا ارادہ ظاہر فرمایا۔ اسی لیے جن علماءنے نماز کو جماعت کے ساتھ فرض قراردیاہے یہ حدیث ان کی اہم دلیل ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث استدل بہ القائلون بوجوب صلوٰۃ الجماعۃ لانہا لوکانت سنۃ لم یہدد تارکہا بالتحریق۔ یعنی اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو نماز باجماعت کو واجب قراردیتے ہیں۔ اگریہ محض سنت ہوتی تواس کے چھوڑنے والے کو آگ میں جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ اگرنماز باجماعت ہی فرض ہوتی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بغیر جلائے نہ چھوڑتے۔ آپ کا اس سے رک جانا اس امر کی دلیل ہے کہ یہ فرض نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے۔ نیل الاوطار میں تفصیل سے ان مباحت کو لکھا گیاہے۔ من شاءفلیرجع الیہ۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ
❁ باب: نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 645 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ
❁ باب: نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 646 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ الهَادِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ہاد نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن خباب سے، انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جماعت سے نماز تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ
❁ باب: نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 647 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَلاَةُ الرَّجُلِ فِي الجَمَاعَةِ تُضَعَّفُ عَلَى صَلاَتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَفِي سُوقِهِ، خَمْسًا وَعِشْرِينَ ضِعْفًا، وَذَلِكَ أَنَّهُ: إِذَا تَوَضَّأَ، فَأَحْسَنَ الوُضُوءَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى المَسْجِدِ، لاَ يُخْرِجُهُ إِلَّا الصَّلاَةُ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً، إِلَّا رُفِعَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، فَإِذَا صَلَّى، لَمْ تَزَلِ المَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ، مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، وَلاَ يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوا نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہو جاتا ہے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہو۔

 

❁ تشریح : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں پچیس درجہ اورابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ستائیس درجہ ثواب باجماعت نماز میں بتایاگیا ہے۔ بعض محدثین نے یہ بھی لکھاہے کہ ابن عمررضی اللہ عنہما کی روایت زیادہ قوی ہے۔ اس لیے عدد سے متعلق اس روایت کو ترجیح ہوگی۔ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح مسلک یہ ہے کہ دونوں کو صحیح تسلیم کیا جائے۔ باجماعت نماز بذات خود واجب یاسنت مؤکدہ ہے۔ ایک فضیلت کی وجہ تو یہی ہے۔ پھر باجماعت نماز پڑھنے والوں کے اخلاص وتقویٰ میں بھی تفاوت ہوگا اور ثواب بھی اسی کے مطابق کم وبیش ملے گا۔ اس کے علاوہ کلام عرب میں یہ اعداد کثرت کے اظہار کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ گویا مقصود صرف ثواب کی زیادتی کوبتانا تھا۔ ( تفہیم البخاری ) ابن دقیق العید کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ مسجد میں جماعت سے نمازادا کرنا گھروں اوربازاروں میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا زیادہ ثواب رکھتاہے گوبازار یاگھر میں جماعت سے نماز پڑھے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں گھر میں اوربازار میں نماز پڑھنے سے وہاں اکیلے پڑھنا مراد ہے۔ واللہ اعلم۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ
❁ باب: فجر کی نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 648 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «تَفْضُلُ صَلاَةُ الجَمِيعِ صَلاَةَ أَحَدِكُمْ وَحْدَهُ، بِخَمْسٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا، وَتَجْتَمِعُ مَلاَئِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةُ النَّهَارِ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ» ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {إِنَّ قُرْآنَ الفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا} [الإسراء: 78]

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، ، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے، انھوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جماعت سے نماز اکیلے پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ اور رات دن کے فرشتے فجر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر تم پڑھنا چاہو تو ( سورہ بنی اسرائیل ) کی یہ آیت پڑھو ان قرآن الفجر کان مشہودا یعنی فجر میں قرآن پاک کی تلاوت پر فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ
❁ باب: فجر کی نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 649 قَالَ شُعَيْبٌ: وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: «تَفْضُلُهَا بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً»

 

❁ ترجمہ : شعیب نے فرمایا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے اس طرح حدیث بیان کی کہ جماعت کی نماز اکیلے کی نماز سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ
❁ باب: فجر کی نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 650 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، تَقُولُ: دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو الدَّرْدَاءِ وَهُوَ مُغْضَبٌ، فَقُلْتُ: مَا أَغْضَبَكَ؟ فَقَالَ: «وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سالم سے سنا۔ کہا کہ میں نے ام درداء سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ( ایک مرتبہ ) ابودرداء آئے، بڑے ہی خفا ہو رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی، جس نے آپ کو غضبناک بنا دیا۔ فرمایا، خدا کی قسم! حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی کوئی بات اب میں نہیں پاتا۔ سوا اس کے کہ جماعت کے ساتھ یہ لوگ نماز پڑھ لیتے ہیں۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ
❁ باب: فجر کی نماز باجماعت کی فضیلت

❁ 651 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي [ص:132] بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَعْظَمُ النَّاسِ أَجْرًا فِي الصَّلاَةِ أَبْعَدُهُمْ، فَأَبْعَدُهُمْ مَمْشًى وَالَّذِي يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ حَتَّى يُصَلِّيَهَا مَعَ الإِمَامِ أَعْظَمُ أَجْرًا مِنَ الَّذِي يُصَلِّي، ثُمَّ يَنَامُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوبردہ سے، انھوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر وہ شخص ہوتا ہے، جو ( مسجد میں نماز کے لیے ) زیادہ سے زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ پڑھتا ہے اس شخص سے اجر میں بڑھ کر ہے جو ( پہلے ہی ) پڑھ کر سو جائے۔

 

❁ تشریح : پہلی حدیث میں نماز فجر کی خاص فضیلت کا ذکر ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اورقرات قرآن مجید سنتے ہیں۔ دوسری دوحدیثوں میں مطلق جماعت کی فضیلت کا ذکر ہے۔ جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ فجر کی نماز باجماعت ادا کی جائے تاکہ ستائیس حصہ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے علاوہ فرشتوں کی بھی معیت نصیب ہو جو فجر میں تلاوت قرآن سننے کے لیے جماعت میں حاضر ہوتے ہیں، پھرعرش پر جاکر اللہ پاک کے سامنے ان نیک بندوں کا ذکر خیر کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان میں شامل فرمادے۔ آمین۔


❁ بابُ فَضْلِ التَّهْجِيرِ إِلَى الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے کی فضیلت

 ❁ 652 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَجُلٌ يَمْشِي بِطَرِيقٍ وَجَدَ غُصْنَ شَوْكٍ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخَّرَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے امام مالک سے بیان کیا، انھوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی نامی سے، انھوں نے ابوصالح سمان سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک شخص کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اس نے کانٹوں کی بھری ہوئی ایک ٹہنی دیکھی، پس اسے راستے سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ( صرف اسی بات پر ) راضی ہو گیا اور اس کی بخشش کر دی۔


❁ بابُ فَضْلِ التَّهْجِيرِ إِلَى الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے کی فضیلت

 ❁ 653 ثُمَّ قَالَ: الشُّهَدَاءُ خَمْسَةٌ: المَطْعُونُ، وَالمَبْطُونُ، وَالغَرِيقُ، وَصَاحِبُ الهَدْمِ، وَالشَّهِيدُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَالَ: «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا لاَسْتَهَمُوا عَلَيْهِ

 

❁ ترجمہ : پھر آپ نے فرمایا کہ شہداء پانچ قسم کے ہوتے ہیں۔ طاعون میں مرنے والے، پیٹ کے عارضے ( ہیضے وغیرہ ) میں مرنے والے اور ڈوب کر مرنے والے اور جو دیوار وغیرہ کسی بھی چیز سے دب کر مر جائے اور خدا کے راستے میں ( جہاد کرتے ہوئے ) شہید ہونے والے اور آپ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں شریک ہونے کا ثواب کتنا ہے اور پھر اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو کہ قرعہ ڈالا جائے تو لوگ ان کے لیے قرعہ ہی ڈالا کریں۔


❁ بابُ فَضْلِ التَّهْجِيرِ إِلَى الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر کی نماز کے لئے سویرے جانے کی فضیلت

❁ 654 وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاَسْتَبَقُوا إِلَيْهِ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا»

 

❁ ترجمہ : اور اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ظہر کی نماز کے لیے سویرے جانے میں کیا ثواب ہے تو اس کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور اگر یہ جان جائیں کہ عشاء اور صبح کی نماز کے فضائل کتنے ہیں، تو گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے ان کے لیے آئیں۔

 

❁ تشریح : اس حدیث میں اوّل رفاہ عام کے ثواب پر روشنی ڈالی گئی ہے اوربتلایا گیاہے کہ مخلوق الٰہی کو فائدہ پہنچانے کے لیے اگر کوئی ادنیٰ قدم بھی اٹھایا جائے توعنداللہ اتنی بڑی نیکی ہے کہ نجات اخروی کے لیے صرف وہی ایک کافی ہوسکتی ہے۔ پھر اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کا بیان کیاگیا۔ جن کی پانچ مذکورہ قسمیں ہیں۔ پھر اذان دینا اورپہلی صف میں حاضرہوکر باجماعت نماز ادا کرنا۔ پھر ظہر کی نماز اوّل وقت ادا کرنا۔ پھر صبح اور عشاءکی نمازوں کا خاص خیال رکھنا وغیرہ وغیرہ نیکیوں پر توجہ دلائی گئی۔ ظہر کی نماز گرمیوں میں دیر کرنے کی احادیث ذکر میں آچکی ہیں۔ یہاں گرمیوں کے علاوہ اوّل وقت پڑھنے کی فضیلت مذکور ہے۔


❁ بابُ احْتِسَابِ الآثَارِ
❁ باب: جماعت کے لئے ہر ہر قدم پر ثواب

❁ 655 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا بَنِي سَلِمَةَ أَلاَ تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے بنوسلمہ والو! کیا تم اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے؟


❁ بابُ احْتِسَابِ الآثَارِ
❁ باب: جماعت کے لئے ہر ہر قدم پر ثواب

❁ 656 وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ: أَنَّ بَنِي سَلِمَةَ أَرَادُوا أَنْ يَتَحَوَّلُوا عَنْ مَنَازِلِهِمْ فَيَنْزِلُوا قَرِيبًا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُعْرُوا المَدِينَةَ، فَقَالَ: «أَلاَ تَحْتَسِبُونَ آثَارَكُمْ» قَالَ مُجَاهِدٌ: «خُطَاهُمْ آثَارُهُمْ، أَنْ يُمْشَى فِي الأَرْضِ بِأَرْجُلِهِمْ»

 

❁ ترجمہ : اور ابن ابی مریم نے بیان میں یہ زیادہ کہا ہے کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنوسلمہ والوں نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے مکان ( جو مسجد سے دور تھے ) چھوڑ دیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ رہیں۔ ( تا کہ باجماعت کے لیے مسجد نبوی کا ثواب حاصل ہو ) لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کا اجاڑ دینا برا معلوم ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اپنے قدموں کا ثواب نہیں چاہتے؟ مجاہد نے کہا ( سورہ یٰسین میں ) وآثارہم سے قدم مراد ہیں۔ یعنی زمین پر چلنے سے پاؤں کے نشانات۔

 

❁ تشریح : مدینہ کے قرب وجوار میں جومسلمان رہتے تھے ان کی آرزو تھی کہ وہ مسجدنبوی کے قریب شہر میں سکونت اختیار کرلیں۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا کہ تم لوگ جتنی دور سے چل چل کر آؤ گے اور یہاں نماز باجماعت ادا کرو گے ہر ہرقدم نیکیوں میں شمار کیا جائے گا۔ سورۃ یٰسین کی آیت کریمہ: انانحن نحی الموتیٰ ونکتب ماقدموا و آثارہم میں اللہ نے اسی عام اصول کو بیان فرمایا ہے کہ انسان کا ہروہ قدم بھی لکھا جاتا ہے جو وہ اٹھاتا ہے۔ اگر قدم نیکی کے لیے ہے تو وہ نیکیوں میں لکھا جائے گا اور اگر برائی کے لیے کوئی قدم اٹھا رہا ہے تو وہ برائیوں میں لکھا جائے گا۔ مجاہد کے قول کو عبدبن حمید نے موصولاً روایت کیا ہے۔


❁ بابُ فَضْلِ العِشَاءِ فِي الجَمَاعَةِ
❁ باب: عشاء کی نماز باجماعت

❁ 657 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيْسَ صَلاَةٌ أَثْقَلَ عَلَى المُنَافِقِينَ مِنَ الفَجْرِ وَالعِشَاءِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ المُؤَذِّنَ، فَيُقِيمَ، ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا يَؤُمُّ النَّاسَ، ثُمَّ آخُذَ شُعَلًا مِنْ نَارٍ، فَأُحَرِّقَ عَلَى مَنْ لاَ يَخْرُجُ إِلَى الصَّلاَةِ بَعْدُ»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافقوں پر فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کا ثواب کتنا زیادہ ہے ( اور چل نہ سکتے ) تو گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آتے اور میرا تو ارادہ ہو گیا تھا کہ مؤذن سے کہوں کہ وہ تکبیر کہے، پھر میں کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود آگ کی چنگاریاں لے کر ان سب کے گھروں کو جلا دوں جو ابھی تک نماز کے لیے نہیں نکلے۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے امام بخاری نے یہ نکالا کہ عشاءاورفجر کی جماعت دیگرنمازوں کی جماعت سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے اورشریعت میں ان دونمازوں کا بڑا اہتمام ہے۔ جبھی توآپ نے ان لوگوں کے جلانے کا ارادہ کیا جو ان میں شریک نہ ہوں۔ مقصد باب یہی ہے اور باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بابٌ: اثْنَانِ فَمَا فَوْقَهُمَا جَمَاعَةٌ
❁ باب: دو یا زیادہ آدمی ہوں تو جماعت ہو سکتی ہے

 ❁ 658 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الحُوَيْرِثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَأَذِّنَا وَأَقِيمَا، ثُمَّ لِيَؤُمَّكُمَا أَكْبَرُكُمَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے، انھوں نے مالک بن حویرث سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا جب نماز کا وقت آ جائے تو تم دونوں اذان دو اور اقامت کہو، پھر جو تم میں بڑا ہے وہ امام بنے۔

 

❁ تشریح :اس سے پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ دوشخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو سفر کا ارادہ رکھتے تھے۔ انھیں دواصحاب کوآپ نے یہ ہدایت فرمائی تھی۔ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ اگرصرف دوآدمی ہوں تو بھی نماز کے لیے جماعت کرنی چاہئیے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: المراد بقولہ اذناای من احب منکما ان یوذن فلیوذن وذلک لاستوائہما فی الفضل ولایعتبر فی الاذان السن بخلاف الامامۃ الخ۔ ( فتح الباری ) حافظ ابن حجر لفظ اذنا کی تفسیر کرتے ہیں کہ تم میں سے جو چاہے اذان دے یہ اس لیے کہ وہ دونوں فضیلت میں برابر تھے اوراذان میں عمر کا اعتبار نہیں۔ بخلاف امامت کے کہ اس میں بڑی عمروالے کا لحاظ رکھا گیاہے۔


بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ ❁ 
باب: نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت ❁

❁ 659 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: المَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ، مَا لَمْ يُحْدِثْ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، لاَ يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا دَامَتِ الصَّلاَةُ تَحْبِسُهُ [ص:133]، لاَ يَمْنَعُهُ أَنْ يَنْقَلِبَ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا الصَّلاَةُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ملائکہ تم میں سے اس نمازی کے لیے اس وقت تک یوں دعا کرتے رہتے ہیں۔ جب تک ( نماز پڑھنے کے بعد ) وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے کہ اے اللہ! اس کی مغفرت کر۔ اے اللہ! اس پر رحم کر۔ تم میں سے وہ شخص جو صرف نماز کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ گھر جانے سے سوا نماز کے اور کوئی چیز اس کے لیے مانع نہیں، تو اس کا ( یہ سارا وقت ) نماز ہی میں شمار ہو گا۔


 ❁ بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ 
❁ باب: نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت 

❁ 660 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ بُنْدَارٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ، يَوْمَ لاَ ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الإِمَامُ العَادِلُ، وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ، وَرَجُلاَنِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ، أَخْفَى حَتَّى لاَ تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ بن عمر عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے بیان کیا حفص بن عاصم سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ سات طرح کے آدمی ہوں گے۔ جن کو اللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔ جس دن اس کے سایہ کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ اوّل انصاف کرنے والا بادشاہ، دوسرے وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں جوانی کی امنگ سے مصروف رہا، تیسرا ایسا شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگا رہتا ہے، چوتھے دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے باہم محبت رکھتے ہیں اور ان کے ملنے اور جدا ہونے کی بنیاد یہی للٰہی ( اللہ کے لیے محبت ) محبت ہے، پانچواں وہ شخص جسے کسی باعزت اور حسین عورت نے ( برے ارادہ سے ) بلایا لیکن اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، چھٹا وہ شخص جس نے صدقہ کیا، مگر اتنے پوشیدہ طور پر کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہوئی کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتواں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور ( بے ساختہ ) آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

 

❁ شریح : علامہ ابوشامہ عبدالرحمن بن اسماعیل نے ان سات خوش نصیبوں کا ذکر ان شعروں میں منظوم فرمایاہے و قال النبی المصطفی ان سبعۃ یظلہم اللہ الکریم بظلہ محب عفیف ناشی متصدق باک مصل و الامام بعدلہ ان سات کے علاوہ بھی اوربہت سے نیک اعمال ہیں۔ جن کے بجالانے والوں کو سایہ عرش عظیم کی بشارت دی گئی ہے۔ حدیث کے لفظ قلبہ معلق فی المساجد ( یعنی وہ نمازی جس کا دل مسجد سے لٹکا ہوا رہتاہو ) سے باب کا مقصد ثابت ہوتاہے۔ باقی ان ساتوں پر تبصرہ کیاجائے تو دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ متصدق کے بارے میں مسنداحمد میں ایک حدیث مرفوعاً حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ فرشتوں نے کہا یااللہ! تیری کائنات میں کوئی مخلوق پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے؟ اللہ نے فرمایا ہاں لوہا ہے۔ پھر پوچھا کہ کوئی مخلوق لوہے سے بھی زیادہ سخت ہے فرمایا کہ ہاں آگ ہے جو لوہے کو بھی پانی بنادیتی ہے۔ پھر پوچھا پروردگار کوئی چیز آگ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ فرمایا ہاں پانی ہے جو آگ کو بھی بجھا دیتا ہے۔ پھر پوچھا الٰہی کوئی چیز پانی سے بھی زیادہ اہم ہے فرمایا ہاں ہوا ہے جو پانی کو بھی خشک کردیتی ہے، پھر پوچھا کہ یااللہ! کوئی چیز ہوا سے بھی زیادہ اہم ہے فرمایا ہاں آدم کا وہ بیٹا جس نے اپنے دائیں ہاتھ سے صدقہ کیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ کیاصدقہ کیا۔ حدیث مذکورہ میں جن سات خوش نصیبوں کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے مخصوص طور پر مردوں ہی کو نہ سمجھنا چاہئیے۔ بلکہ عورتیں بھی اس شرف میں داخل ہوسکتی ہیں اورساتوں وصفوںمیں سے ہر ہر وصف اس عور ت پر بھی صادق آسکتاہے جس کے اندر وہ خوبی پیدا ہو۔ مثلاً ساتواں امام عادل ہے۔ اس میں وہ عورت بھی داخل ہے جو اپنے گھر کی ملکہ ہے اور اپنے ماتحتوں پر عدل وانصاف کے ساتھ حکومت کرتی ہے۔ اپنے جملہ متعلقین میں سے کسی کی حق تلفی نہیں کرتی، نہ وہ کسی کی رو رعایت کرتی ہے بلکہ ہمہ وقت عدل و انصاف کو مقدم رکھتی ہے وعلی ہذاالقیاس۔


❁ بابُ مَنْ جَلَسَ فِي المَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ وَفَضْلِ المَسَاجِدِ
❁ باب: نماز کا انتظار کرنے کی فضیلت

❁ 661 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ هَلِ اتَّخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمًا؟ فَقَالَ: نَعَمْ أَخَّرَ لَيْلَةً صَلاَةَ العِشَاءِ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ بَعْدَ مَا صَلَّى، فَقَالَ: «صَلَّى النَّاسُ وَرَقَدُوا وَلَمْ تَزَالُوا فِي صَلاَةٍ مُنْذُ انْتَظَرْتُمُوهَا» قَالَ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا حمید طویل سے، انھوں نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی انگوٹھی پہنی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں! ایک رات عشاء کی نماز میں آپ نے آدھی رات تک دیر کی۔ نماز کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا، لوگ نماز پڑھ کر سو چکے ہوں گے۔ اور تم لوگ اس وقت تک نماز ہی کی حالت میں تھے جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا جیسے اس وقت میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں ( یعنی آپ کی انگوٹھی کی چمک کا سماں میری آنکھوں میں ہے


❁ بابُ فَضْلِ مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَمَنْ رَاحَ
❁ باب: مسجد میں صبح و شام آنے والوں کی فضیلت

❁ 662 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُطَرِّفٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ غَدَا إِلَى المَسْجِدِ وَرَاحَ، أَعَدَّ اللَّهُ لَهُ نُزُلَهُ مِنَ الجَنَّةِ كُلَّمَا غَدَا أَوْ رَاحَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن مطرف نے زید بن اسلم سے خبر دی، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا کہ جو شخص مسجد میں صبح شام بار بار حاضری دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی مہمانی کا سامان کرے گا۔ وہ صبح شام جب بھی مسجد میں جائے۔


 ❁ بابٌ: إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَلاَ صَلاَةَ إِلَّا المَكْتُوبَةَ
❁ باب: جب نماز کی تکبیر ہونے لگے

❁ 663 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ قَالَ: ح وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَمِعْتُ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الأَزْدِ يُقَالُ لَهُ: مَالِكُ ابْنُ بُحَيْنَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا وَقَدْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَثَ بِهِ النَّاسُ، وَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الصُّبْحَ أَرْبَعًا، الصُّبْحَ أَرْبَعًا» تَابَعَهُ غُنْدَرٌ، وَمُعَاذٌ، عَنْ شُعْبَةَ فِي مَالِكٍ، وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ سَعْدٍ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَقَالَ حَمَّادٌ: أَخْبَرَنَا سَعْدٌ، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ مَالِكٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے اپنے باپ سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک شخص پر ہوا ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن بشر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بہز بن اسد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے سعد بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ میں نے حفص بن عاصم سے سنا، کہا کہ میں نے قبیلہ ازد کے ایک صاحب سے جن کا نام مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ تھا، سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے نمازی پر پڑی جو تکبیر کے بعد دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگ اس شخص کے ارد گرد جمع ہو گئے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا صبح کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ کیا صبح کی چار رکعتیں ہو گئیں؟ اس حدیث کی متابعت غندر اور معاذ نے شعبہ سے کی ہے جو مالک سے روایت کرتے ہیں۔ ابن اسحاق نے سعد سے، انھوں نے حفص سے، وہ عبداللہ بن بحینہ سے اور حماد نے کہا کہ ہمیں سعد نے حفص کے واسطہ سے خبر دی اور وہ مالک کے واسطہ سے۔

 

❁ تشریح : حضرت سیدنا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں جن لفظوں میں باب منعقد کیاہے یہ لفظ خود اس حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ جسے امام مسلم اور سنن والوں نے نکالاہے۔ مسلم بن خالد کی روایت میں اتنا زیادہ اورہے کہ فجر کی سنتیں بھی نہ پڑھے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارے امام احمدبن حنبل اوراہل حدیث کا یہی قول ہے کہ جب فرض نماز کی تکبیر شروع ہوجائے توپھر کوئی نماز نہ پڑھے نہ فجر کی سنتیں نہ اور کوئی سنت یا فرض، بس اسی فرض میں شریک ہوجائے جس کی تکبیر ہورہی ہے۔ اوربیہقی کی روایت میں جو یہ مذکور ہے الارکعتی الفجر اور حنفیہ نے اس سے دلیل پکڑی کہ فجر کی جماعت ہوتے بھی سنت پڑھنی ضروری ہے، صحیح نہیں ہے۔ اس کی سند میں حجاج بن نصیرمتروک اورعباد بن کثیرمردودہے۔ اہل حدیث کایہ بھی قول ہے کہ اگرکوئی فجر کی سنتیں شروع کرچکا ہو اورفرض کی تکبیر ہو توسنت کو توڑدے اور فرض میں شریک ہوجائے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار میں اس حدیث بخاری کی شرح میں نواقوال ذکر کئے ہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ان لفظوں میں بیان فرمایاہے:انہ ان خشی فوت الرکعتین معا وانہ لایدرک الامام قبل رفعہ من الرکوع فی الثانیۃ دخل معہ والا فلیرکعہما یعنی رکعتی الفجر خارج المسجد ثم یدخل مع الامام اگریہ خطرہ ہو کہ فرض کی ہردو رکعت ہاتھ سے نکل جائیں گی توفجر کی سنتوں کو نہ پڑھے بلکہ امام کے ساتھ مل جائے اوراگراتنا بھی احتمال ہے کہ دوسری رکعت کے رکوع میں امام کے ساتھ مل سکے گا توان دو رکعت سنت فجر کو پڑھ لے پھر فرضوں میں مل جائے۔ اس سلسلہ میں امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل یہ ہے جو بیہقی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: اذااقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ الا رکعتی الصبح یعنی تکبیر ہوچکنے کے بعد سوائے اس فرض نماز کے اورکوئی نماز جائز نہیں مگر صبح کی دو رکعت سنت۔ امام بیہقی اس حدیث کو نقل کرکے خود فرماتے ہیں: ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وفی اسنادہا حجاج بن نصیر وعباد بن کثیر وہما ضعیفان۔ یعنی یہ الارکعتی الفجر والی زیادتی بالکل بے اصل ہے۔ جس کا کوئی ثبوت نہیں اوراس کی سند میں حجاج بن نصیر اورعبادبن کثیرہیں اوریہ دونوں ضعیف ہیں۔ اس لیے یہ زیادتی قطعاً ناقابل اعتبار ہے۔ برخلاف اس کے خود امام بیہقی ہی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی صحیح روایت ان لفظوں میں نقل کی ہے: عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر فی اسنادہ مسلم بن خالد الزنجی وہو متکلم فیہ وقد وثقہ ابن حبان واحتج بہ فی صحیحہ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب نماز فرض کی تکبیر ہوجائے تو پھرکوئی اورنماز جائز نہیں۔ کہا گیا کہ فجر کی سنتوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ فرمایاکہ وہ بھی جائز نہیں۔ اس حدیث کی سند میں مسلم بن خالد زنجی ہے۔ جس میں کلام کیاگیا ہے۔ مگرامام ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔ علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بحث میں آخری نواں قول ان لفظوں میں نقل کیاہے: انہ اذا سمع الاقامۃ لم یحل لہ الدخول فی رکعتی الفجرولا فی غیرہا من النوافل سواءکان فی المسجد اوخارجہ فان فعل فقد عصی وہو قول اہل الظاہر ونقلہ ابن حزم عن الشافعی وجمہور السلف۔ ( نیل الاوطار ) یعنی تکبیرسن لینے کے بعد نمازی کے لیے فجر کی سنت پڑھنا یااورکسی نماز نفل میں داخل ہونا حلال نہیں ہے۔ وہ مسجد میں ہو یا باہر اگرایسا کیاتووہ خدا اور رسول کا نافرمان ٹھہرا۔ اہل ظاہر کا یہی فتویٰ ہے اورعلامہ ابن حزم نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور سلف سے اسی مسلک کو نقل کیاہے۔ ایک تاریخی مکتوب مبارک: کون اہل علم ہے جو حضرت مولانا احمدعلی صاحب مرحوم سہارن پوری کے نام نامی سے واقف نہیں۔ آپ نے بخاری شریف کے حواشی تحریر فرماکر اہل علم پر ایک احسان عظیم فرمایاہے۔ مگراس بحث کے موقع پر آپ کا قلم بھی جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا۔ یعنی آپ نے اسی بےہقی والی روایت کو بطوردلیل نقل کیاہے۔ اوراسے علامہ مولانا محمداسحاق صاحب دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب فرمایاہے۔ انصاف کا تقاضاتھا کہ اس روایت پر روایت نقل کرنے والے بزرگ یعنی خود علامہ بیہقی کا فیصلہ بھی نقل کردیا جاتا، مگر ایسا نہیں کیا جس سے متاثرہوکر استاذالاساتذہ شیخ الکل فی الکل حضرت مولانا واستاذنا سیدمحمد نذیرحسین صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے نام ایک خط تحریر فرمایاتھا۔ چونکہ یہ خط ایک علمی دستاویز ہے جس سے روشن خیال نوجوان کوبہت سے امور معلوم ہوسکیں گے۔ اس لیے اس کا پورا متن درج ذیل کیاجاتاہے۔ امید کہ قارئین کرام و علمائے عظام اس کے مطالعہ سے محظوظ ہوں گے: من العاجز النحیف السید محمدنذیر حسین الی المولوی احمدعلی سلمہ اللہ القوی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ وبعد فاتباعا بحدیث خیرالانام علیہ افضل التحیۃ والسلام الدین النصیحۃ وابتغاءتاس باحسن القول کفی بالمرءاثما ان یحدث بکل ما سمع اظہر بخدمتکم الشریفۃ ان ما وقع من ذلک المکرم فی الحاشیۃ علی صحیح البخاری تحت حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الاالمکتوبۃ سمعت استاذی مولانا محمداسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ یقول ورد فی روایۃ البیہقی اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا رکعتی الفجر انتہیٰ۔ جعلہ اکثر طلبۃ العلم بل بعض اکابر زماننا الذین یعتمدون علی قولکم بمروۃ انفسہم یصلون السنۃ ولایبالون فوت الجماعۃ وہذہ الزیادۃ الاستنثناء الاخیرالا رکعتی الفجر لااصل لہا بل مردودۃ مطرودۃ عندالمحققین ولاسیما عندالبیہقی الامین وآفۃ الوضع علی ہذا الحدیث الصحیح انما طرءعن عباد بن کثیر وحجاج بن نصیر بالحاق ہذہ الزیادۃ الاستثناءالاخیر وظنی انکم ایہا الممجد ماسمعتم نقل کلام استاذی العلامۃ البحر الفہامۃ المشتہربین الافآق مولانا محمد اسحاق رحمہ اللہ تعالیٰ خیررحمۃ فی یوم التلاق من البیہقی بالتمام والکمال فان البیہقی قال لا اصل لہا او تسامح من المولانا المرحوم لضعف مزاجہ فی نقلہا والا فلا کلام عند الثقاۃ المحدثین فی بطلان الارکعتی الفجر کما ہو مکتوب الیکم ومعارضہ معروض علیکم قال الشیخ سلام اللہ فی المحلی شرح المؤطا زاد مسلم بن خالد عن عمرو بن دینار فی قولہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبۃ قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجر قال ولا رکعتی الفجر اخرجہ ابن عدی وسندہ حسن واما زیادۃ الارکعتی الصبح فی الحدیث فقال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا انتہی مختصرا وقال التورپشتی وزاد احمدبلفظ فلاصلوٰۃ الاالتی اقیمت وہو اخص وزاد ابن عدی بسند حسن قیل یارسول اللہ ولارکعتی الفجرقال ولارکعتی الفجر وقال الشوکانی وحدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الصبح قال البیہقی ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وقال الشیخ نورالدین فی موضوعاتہ حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الاالمکتوبۃ الارکعتی الفجر روی البیہقی عن ابی ہریرۃ وقال ہذہ الزیادۃ لااصل لہا وہکذا فی کتب الموضوعات الاخریٰ فعلیکم والحالۃ ہذہ بصیانۃ الدین اماان تصححوا الجملۃ الاخیرۃ من کتب ثقات المحققین اوترجعوا وتعلموا طلبتکم ان ہذہ الزیادۃ مردودۃ ولایلیق العمل بہا ولا یعتقد بسنیتہما وہااناارجو الجواب بالصواب فانہ ینبہ الغفلۃ ویوقظ الجہلۃ والسلام مع الاکرام۔ ( اعلام اہل العصر باحکام رکعتی الفجر، ص:36 ) ترجمہ: یہ مراسلہ عاجز نحیف سیّدمحمدنذیرحسین کی طرف سے مولوی احمدعلی سلمہ اللہ القوی کے نام ہے۔ بعد سلام مسنون حدیث خیرالانام علیہ التحیۃ والسلام الدین النصیحۃ ( دین خیرخواہی کا نام ہے ) کی اتباع اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: کفی بالمرءاثما الحدیث ( انسان کو گنہگار بنانے کے لیے یہی کافی ہے کہ بغیر تحقیق کامل ہرسنی سنائی بات کونقل کردے ) کے پیش نظرآپ کی خدمت شریف میں لکھ رہاہوں کہ آپ مکرم نے بخاری شریف کی حدیث اذا اقیمت الصلوٰۃ الحدیث کے حاشیہ پربیہقی کے حوالہ سے حضرت الاستاذ مولانا محمداسحاق صاحب کا قول نقل فرمایاہے جس سے سنت فجر کا جماعت فرض کی حالت میں پڑھنے کا جواز نکلتاہے۔ آپ کے اس قول پر بھروسا کرکے بہت سے طلبہ بلکہ بعض اکابر عصر حاضر کا یہ عمل ہوگیاہے کہ فرض نماز فجر کی جماعت ہوتی رہتی ہے اور وہ سنتیں پڑھتے رہتے ہیں۔ سوواضح ہو کہ روایت مذکورہ میں بیہقی کے حوالہ سے الارکعتی الفجر والی زیادتی محققین علماءخاص طور پر حضرت علامہ بیہقی کے نزدیک بالکل مردود اورمطرود ہے۔ اورحدیث صحیح روایت کردہ حضرت ابوہریرہ پر یہ اضافہ عبادبن کثیر وحجاج بن نصیر کا وضع کردہ ہے۔ اوراے محترم فاضل! میرا گمان ہے کہ آپ نے حضرت مولانا واستاذناعلامہ فہامہ مولانا محمداسحاق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیہقی سے نقل کردہ قول پورے طور پر نہیں سنا۔ حالانکہ خودامام بیہقی وہاں فرمارہے ہیں کہ یہ قول بالکل بے اصل ہے۔ یاپھر حضرت مولانا ( محمداسحاق مرحوم ) کی طرف سے اس کے نقل میں ان کے ضعف مزاج کی وجہ سے تسامح ہواہے۔ ورنہ الارکعتی الفجر کے لفظوں کے بطلان میں ثقات محدثین کی طرف سے کوئی کلام ہی نہیں۔ جیسا کہ شیخ سلام اللہ صاحب نے محلّی شرح مؤطا میں فرمایاہے کہ مسلم بن خالد نے عمروبن دینار سے نقل کیاہے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: اذا اقیمت الصلوٰۃ فلاصلوٰۃ الاالمکتوبۃ توآپ سے پوچھا گیا کہ فجر کی دوسنتوں کے بارے میں کیاارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں ولارکعتی الفجر یعنی جب فرض نماز کی تکبیر ہوگئی تواب کوئی نماز حتیٰ کہ دوسنتوں کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔ اس کو ابن عدی نے سند حسن کے ساتھ روایت کیاہے۔ اورنقل کردہ زیادتی الارکعتی الفجر کے بارے میں امام بیہقی فرماتے ہیں کہ اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں ہے۔ تورپشتی نے کہا کہ احمدنے زیادہ کیا فلا صلوٰۃ الاالتی اقیمتیعنی اس وقت خصوصاً وہی نماز پڑھی جائے گی، جس کی تکبیر کہی گئی ہے۔ اورابن عدی نے سند حسن کے ساتھ زیادہ کیاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، کیا نماز فجر کی سنتوں کے بارے میں بھی یہی ارشاد ہے۔ آپ نے فرمایاہاں بوقت جماعت ان کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔ امام شوکانی حضرت امام بیہقی سے تحت حدیث اذااقیمت الصلوٰۃ الخمیں زیادتی الارکعتی الفجر کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ یہ زیادتی بالکل من گھڑت اوربے اصل ہے۔ شیخ نورالدین نے بھی ان لفظوں کو موضوعات میں شمار کیاہے اوردوسری کتب موضوعات میں بھی یہ صراحت موجود ہے۔ ان حالات میں دین کی حفاظت کے لیے آپ پر لازم ہوجاتاہے کہ یاتوثقات محققین کی کتابوں سے اس کی صحت ثابت فرمائیں۔ یا پھر رجوع فرماکر اپنے طلبا کو آگاہ فرمادیں کہ یہ زیادتی ناقابل عمل اور مردود ہے، ان کے سنت ہونے کا عقیدہ بالکل نہ رکھا جائے۔ میں جواب باصواب کے لیے اُمیدوار ہوں جس سے غافلوں کو تنبیہ ہوگی۔ اوربہت سے جاہلوں کے لیے آگاہی۔ والسلام مع الاکرام۔ جہاں تک بعد کی معلومات ہیں حضرت مولانااحمدعلی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مکتوب کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی اس غلطی کی اصلاح کی۔ بلکہ آج تک جملہ مطبوعہ بخاری معہ حواشی مولانا مرحوم میں یہ غلط بیانی موجود ہے۔ پس خلاصہ المرام یہ کہ فجر کی جماعت ہوتے ہوئے فرض نماز چھوڑ کر سنتوں میں مشغول ہونا جائز نہیں ہے۔ پھر ان سنتوں کو کب ادا کیا جائے اس کے بارے میں حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سنن میں یوں باب منعقد کیاہے: “ باب ما جاءفیمن تفوتہ الرکعتان قبل الفجر یصلیہما بعد صلوٰۃ الصبح ” باب اس بارے میں جس کی فجر کی یہ دوسنتیں رہ جائیں وہ ان کو نماز فرض کی جماعت کے بعد ادا کرے، اس پر امام ترمذی نے یہ حدیث دلیل میں پیش کی ہے: عن محمدبن ابراہیم عن جدہ قیس قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاقیمت الصلوٰۃ فصلیت معہ الصبح ثم انصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوجدنی اصلی فقال مہلا یاقیس اصلاتان معا قلت یارسول اللہ انی لم اکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذن۔ یعنی محمدبن ابراہیم اپنے دادا قیس کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز فرض باجماعت ادا کی۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نماز میں پھر مشغول ہوگیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے دیکھا توفرمایا کہ اے قیس! کیا دو نمازیں پڑھ رہے ہو؟ میں نے عرض کی۔ حضورمجھ سے فجر کی سنت رہ گئی تھیں ان کو ادا کررہاہوں آپ نے فرمایا۔ پھر کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ حضرت امام ترمذی فرماتے ہیں: وقدقال قوم من اہل مکۃ بہذاالحدیث لم یروا باسا ان یصلی الرجل الرکعتین بعد المکتوبۃ قبل ان تطلع الشمس۔ یعنی مکہ والوں میں سے ایک قوم نے اس حدیث کے پیش نظر فتویٰ دیاہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ جس کی فجر کی سنتیں رہ جائیں وہ نماز جماعت کے بعد سورج نکلنے سے پہلے ہی ان کو پڑھ لے۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان قولہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا اذن معناہ فلاباس علیک ان تصلیہما حینئذ کماذکرتہ ویدل علیہ روایۃ ابی داؤد فسکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( الی ان ) فاذا عرفت ہذا کلہ ظہرلک بطلان قول صاحب العرف الشذی فی تفسیر قولہ فلااذن معناہ فلا تصلی مع ہذا العذر ایضا ای فلااذن للانکار۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جان لے کہ فرمان نبوی فلااذن کا مطلب یہ کہ کوئی حرج نہیں کہ توان کواب پڑھ رہاہے، ابوداؤد میں صراحت یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس تفصیل کے بعد صاحب عرف الشذی کے قول کا بطلان تجھ پر ظاہر ہوگیا۔ جنھوں نے فلا اذنکے معنی انکار کے بتلائے ہیں۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ سے اس کو ان سنتوں کے پڑھنے سے روک دیا۔ حالانکہ یہ معنی بالکل غلط ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن عبدالبر وغیرہ الحجۃ عندالتنازع السنۃ فمن ادلی بہا فقد افلح وترک التنفل عنداقامۃ الصلوٰۃ وتدارکھا بعد قضاءالفرض اقرب الی اتباع السنۃ ویتایدذلک من حیث المعنی بان قولہ فی الاقامۃ حی علی الصلوٰۃ معناہ ہلموا الی الصلوٰہ ای التی یقام لہا فاسعد الناس بامتثال ہذاالامر من لم یتشاغل عنہ بغیرہ واللہ اعلم۔ یعنی ابن عبدالبر وغیرہ فرماتے ہیں کہ تنازع کے وقت فیصلہ کن چیز سنت رسول ہے۔ جس نے اس کو لازم پکڑا وہ کامیاب ہوگیا اورتکبیر ہوتے ہی نفل نمازوں کو چھوڑدینا ( جن میں فجر کی سنتیں بھی داخل ہیں ) اوران کو فرضوں سے فارغ ہونے کے بعد ادا کرلینا اتباع سنت کے یہی قریب ہے اوراقامت میں جوحی علی الصلوٰۃ کہا جاتاہے معنوی طور پر اس سے بھی اسی امر کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نماز کے لیے آؤ جس کے لیے اقامت کہی جارہی ہے۔ پس خوش نصیب وہی ہے جو اس امر پر فوراً عامل ہواوراس کے سوا اورکسی غیرعمل میں مشغول نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ فجر کی نماز فرض کی جماعت ہوتے ہوئے سنتیں پڑھتے رہنا اور جماعت کو چھوڑ دینا عقلاً و نقلاً کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ پھر بھی ہدایت اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔


❁ بَابٌ: حَدُّ المَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الجَمَاعَةَ
❁ باب: بیمار کو کس حد تک جماعت میں آنا چاہئے

❁ 664 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَذَكَرْنَا المُوَاظَبَةَ عَلَى الصَّلاَةِ وَالتَّعْظِيمَ لَهَا، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ [ص:134]، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَأُذِّنَ فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، وَأَعَادَ فَأَعَادُوا لَهُ، فَأَعَادَ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: «إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ»، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى فَوَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، كَأَنِّي أَنْظُرُ رِجْلَيْهِ تَخُطَّانِ مِنَ الوَجَعِ، فَأَرَادَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ، ثُمَّ أُتِيَ بِهِ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِهِ، قِيلَ لِلْأَعْمَشِ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَبُوبَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَتِهِ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: بِرَأْسِهِ نَعَمْ رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ بَعْضَهُ، وَزَادَ أَبُو مُعَاوِيَةَ جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا کہ حضرت اسود بن یزید نخعی نے کہا کہ ہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر تھے۔ ہم نے نماز میں ہمیشگی اور اس کی تعظیم کا ذکر کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس وقت آپ سے کہا گیا کہ ابوبکر بڑے نرم دل ہیں۔ اگر وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو نماز پڑھانا ان کے لیے مشکل ہو جائے گی۔ آپ نے پھر وہی حکم فرمایا، اور آپ کے سامنے پھر وہی بات دہرا دی گئی۔ تیسری مرتبہ آپ نے فرمایا کہ تم تو بالکل یوسف کی ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ( کہ دل میں کچھ ہے اور ظاہر کچھ اور کر رہی ہو ) ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائے۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض میں کچھ کمی محسوس کی اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر باہر تشریف لے گئے۔ گویا میں اس وقت آپ کے قدموں کو دیکھ رہی ہوں کہ تکلیف کی وجہ سے زمین پر لکیر کرتے جاتے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر چاہا کہ پیچھے ہٹ جائیں۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انھیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ پھر ان کے قریب آئے اور بازو میں بیٹھ گئے۔ جب اعمش نے یہ حدیث بیان کی، ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی اقتدا کی اور لوگوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی اقتدا کی؟ حضرت اعمش نے سر کے اشارہ سے بتلایا کہ ہاں۔ ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کا ایک ٹکڑا شعبہ سے روایت کیا ہے اور شعبہ نے اعمش سے اور ابومعاویہ نے اس روایت میں یہ زیادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔


❁ بَابٌ: حَدُّ المَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الجَمَاعَةَ
❁ باب: بیمار کو کس حد تک جماعت میں آنا چاہئے

❁ 665 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: «لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلاَهُ الأَرْضَ، وَكَانَ بَيْنَ العَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ» قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ لِي: وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی معمر سے، انھوں نے زہری سے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔ انھوں نے اس کی آپ کو اجازت دے دی۔ پھر آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔ آپ اس وقت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک اور شخص کے بیچ میں تھے ( یعنی دونوں حضرات کا سہارا لیے ہوئے تھے ) عبیداللہ راوی نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کی، تو آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی جانتے ہو، جن کا نام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے نہیں لیا۔ میں نے کہا کہ نہیں! آپ نے فرمایا کہ وہ دوسرے آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ ( فتح الباری ) یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔ گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔ حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔ خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔ وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔ جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔ یہی حال تمہارا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً ( 1 ) ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔ ( 2 ) اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔ ( 3 ) چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔ ( 4 ) کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔ ( 5 ) بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ ( 6 ) نماز میں بکثرت رونا۔ ( 7 ) بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔ ( 8 ) نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔ ( فتح الباری )


بَابُ الرُّخْصَةِ فِي المَطَرِ وَالعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ ❁
❁ باب: بارش اور کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھنا

❁ 666 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَذَّنَ بِالصَّلاَةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔


❁ بَابُ الرُّخْصَةِ فِي المَطَرِ وَالعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ
❁ باب: بارش اور کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھنا

❁ 667 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ، كَانَ يَؤُمُّ قَوْمَهُ وَهُوَ أَعْمَى، وَأَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا تَكُونُ الظُّلْمَةُ وَالسَّيْلُ، وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِيرُ البَصَرِ، فَصَلِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلَّى، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ؟» فَأَشَارَ إِلَى مَكَانٍ مِنَ البَيْتِ، فَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے محمود بن ربیع انصاری سے کہ بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نابینا تھے اور وہ اپنی قوم کے امام تھے۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اندھیری اور سیلاب کی راتیں ہوتی ہیں اور میں اندھا ہوں، اس لیے آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ لیجیئے تا کہ میں وہیں اپنی نماز کی جگہ بنا لوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ تم کہاں نماز پڑھنا پسند کرو گے۔ انھوں نے گھر میں ایک جگہ بتلا دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھی۔

 

❁ تشریح : مقصد یہ ہے کہ جہاں نماز باجماعت کی شدید تاکید ہے وہاں شریعت نے معقول عذروں کی بنا پر ترک جماعت کی اجازت بھی دی ہے۔ جیسا کہ احادیث بالا سے ظاہر ہے۔


 ❁ بَابٌ: هَلْ يُصَلِّي الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ؟ وَهَلْ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي المَطَرِ؟
باب: بارش میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ❁

❁ 668 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الحَمِيدِ، صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، قَالَ [ص:135]: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الحَارِثِ، قَالَ: خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ ذِي رَدْغٍ، فَأَمَرَ المُؤَذِّنَ لَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، قَالَ: قُلْ: «الصَّلاَةُ فِي الرِّحَالِ»، فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا، فَقَالَ: كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمْ هَذَا، «إِنَّ هَذَا فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي»، – يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – إِنَّهَا عَزْمَةٌ، وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ وَعَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الحَارِثِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: «كَرِهْتُ أَنْ أُؤَثِّمَكُمْ فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إِلَى رُكَبِكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالحمید صاحب الزیادی نے بیان کیا کہ کہا میں نے عبداللہ بن حارث بن نوفل سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دن ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب کہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہو رہی تھی خطبہ سنایا۔ پھر مؤذن کو حکم دیا اور جب وہ حی علی الصلوٰۃ پر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ آج یوں پکار دو کہ نماز اپنی قیام گاہوں پر پڑھ لو۔ لوگ ایک دوسرے کو ( حیرت کی وجہ سے ) دیکھنے لگے۔ جیسے اس کو انھوں نے ناجائز سمجھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے شاید اس کو برا جانا ہے۔ ایسا تو مجھ سے بہتر ذات یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا۔ بے شک جمعہ واجب ہے مگر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ حی علی الصلوٰۃ کہہ کر تمہیں باہر نکالوں ( اور تکلیف میں مبتلا کروں ) اور حماد عاصم سے، وہ عبداللہ بن حارث سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ البتہ انھوں نے اتنا اور کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے اچھا معلوم نہیں ہوا کہ تمہیں گنہگار کروں اور تم اس حالت میں آؤ کہ تم مٹی میں گھٹنوں تک آلودہ ہو گئے ہو.

 

❁ تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں: مقصود المصنف من عقد ذلک الباب بیان ان الامر بالصلوٰۃ فی الرحال للاباحۃ لا للوجوب و لا للندب و الا لم یجز او لم یکن اولی ان یصلی الامام بمن حضر یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ بارش اور کیچڑ کے وقت اپنے اپنے ٹھکانوں پر ادا کرنے کا حکم وجوب کے لیے نہیں ہے، صرف اباحت کے لیے ہے۔ اگر یہ امر وجوب کے لیے ہوتا توپھر حاضرین مسجد کے ساتھ امام کا نماز ادا کرنا بھی جائز نہ ہوتا یا اولی نہ ہوتا۔ بارش میں ایسا ہوتا ہی ہے کہ کچھ لوگ آجاتے ہیں، کچھ نہیں آسکتے۔ بہر حال شارع نے ہر طرح سے آسانی کو پیش نظر رکھا ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يُصَلِّي الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ؟ وَهَلْ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي المَطَرِ؟

❁ باب: بارش میں جو لوگ مسجد میں آجائیں


❁ 669 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، فَقَالَ: جَاءَتْ سَحَابَةٌ، فَمَطَرَتْ حَتَّى سَالَ السَّقْفُ، وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ، فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، «فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي المَاءِ وَالطِّينِ، حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ( شب قدر کو ) پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بادل کا ایک ٹکڑا آیا اور برسا یہاں تک کہ ( مسجد کی چھت ) ٹپکنے لگی جو کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ پھر نماز کے لیے تکبیر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ اور پانی میں سجدہ کر رہے تھے۔ کیچڑ کا نشان آپ کی پیشانی پر بھی میں نے دیکھا۔

 

❁ تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے یہ ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیچڑ اور بارش میں بھی نماز مسجد میں پڑھی۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ ایسی آفتوں میں جو لوگ مسجد میں آجائیں ان کے ساتھ امام نماز پڑھ لے۔


 ❁ بَابٌ: هَلْ يُصَلِّي الإِمَامُ بِمَنْ حَضَرَ؟ وَهَلْ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي المَطَرِ؟
❁ باب: بارش میں جو لوگ مسجد میں آجائیں

❁ 670 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: إِنِّي لاَ أَسْتَطِيعُ الصَّلاَةَ مَعَكَ، وَكَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، «فَصَنَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا، فَدَعَاهُ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَبَسَطَ لَهُ حَصِيرًا، وَنَضَحَ طَرَفَ الحَصِيرِ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَكْعَتَيْنِ»، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ آلِ الجَارُودِ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى؟ قَالَ: مَا رَأَيْتُهُ صَلَّاهَا إِلَّا يَوْمَئِذٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انصار میں سے ایک مرد نے عذر پیش کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو سکتا اور وہ موٹا آدمی تھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا تیار کیا اور آپ کو اپنے گھر دعوت دی اور آپ کے لیے ایک چٹائی بچھا دی اور اس کے ایک کنارہ کو ( صاف کر کے ) دھو دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوریے پر دو رکعتیں پڑھیں۔ آل جارود کے ایک شخص ( عبدالحمید ) نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھتے تھے تو انھوں نے فرمایا کہ اس دن کے سوا اور کبھی میں نے آپ کو پڑھتے نہیں دیکھا۔

 

❁ تشریح : یہاں یہ حدیث لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معذور لوگ اگر چہ جماعت میں نہ شریک ہو سکیں اور وہ امام سے درخواست کریں کہ ان کے گھر میں ان کے لیے نماز کی جگہ تجویز کردی جائے۔ تو امام کو ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ باب میں بارش کے عذر کا ذکر تھا اور حدیث ہذا میں ایک انصاری مرد کے موٹاپے کا عذر مذکور ہے۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ شرعاً جو عذر معقول ہو ا س کی بنا پر جماعت سے پیچھے رہ جانا جائز ہے۔


❁ بَابٌ: إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ
❁ باب: جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر

❁ 671 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا وُضِعَ العَشَاءُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَابْدَءُوا بِالعَشَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر شام کا کھانا سامنے رکھا جائے اور ادھر نماز کے لیے تکبیر بھی ہونے لگے تو پہلے کھانا کھا لو۔


❁ بَابٌ: إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ
❁ باب: جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر

❁ 672 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا قُدِّمَ العَشَاءُ، فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلاَةَ المَغْرِبِ، وَلاَ تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے عقیل سے، انہوں نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شام کا کھانا حاضر کیا جائے تو مغرب کی نماز سے پہلے کھانا کھا لو اور کھانے میں بے مزہ بھی نہ ہونا چاہئے اور اپنا کھانا چھوڑ کر نماز میں جلدی مت کرو۔

 

❁ تشریح : ان جملہ آثار اور احادیث کا مقصد اتنا ہی ہے کہ بھوک کے وقت اگر کھانا تیار ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہئے، تاکہ نماز پورے سکون کے ساتھ ادا کی جائے اور دل کھانے میں نہ لگا رہے اور یہ اس کے لیے ہے جسے پہلے ہی سے بھوک ستا رہی ہو۔


❁ بَابٌ: إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ
❁ باب: جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر

❁ 673 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ عَشَاءُ أَحَدِكُمْ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَابْدَءُوا بِالعَشَاءِ وَلاَ يَعْجَلْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ: «يُوضَعُ لَهُ الطَّعَامُ، وَتُقَامُ الصَّلاَةُ، فَلاَ يَأْتِيهَا حَتَّى يَفْرُغَ، وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قِرَاءَةَ الإِمَامِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ابواسامہ حماد بن اسامہ سے، انہوں نے عبید اللہ سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا شام کا کھانا تیار ہو چکا ہو اور تکبیر بھی کہی جا چکی ہو تو پہلے کھانا کھا لو اور نماز کے لیے جلدی نہ کرو، کھانے سے فراغت کر لو۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے لیے کھانا رکھ دیا جاتا، ادھر اقامت بھی ہو جاتی لیکن آپ کھانے سے فارغ ہونے تک نماز میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ آپ امام کی قرآت برابر سنتے رہتے تھے۔


بَابٌ: إِذَا حَضَرَ الطَّعَامُ وَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ ❁ 
باب: جب کھانا حاضر ہو اور نماز کی تکبیر ❁

 ❁ 674 وَقَالَ زُهَيْرٌ، وَوَهْبُ بْنُ عُثْمَانَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ عَلَى الطَّعَامِ، فَلاَ يَعْجَلْ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ، وَإِنْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ»، رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، عَنْ وَهْبِ بْنِ عُثْمَانَ «وَوَهْبٌ مَدِينِيٌّ»

 

❁ ترجمہ : زہیر اور وہب بن عثمان نے موسیٰ بن عقبہ سے بیان کیا، انہوں نے نافع سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کھانا کھا رہا ہو تو جلدی نہ کرے، بلکہ پوری طرح کھا لے گو ( اگرچہ ) نماز کھڑی کیوں نہ ہو گئی ہو۔ ابوعبداللہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا اور مجھ سے ابراہیم بن منذر نے وہب بن عثمان سے یہ حدیث بیان کی اور وہب مدنی ہیں۔


❁ بَابٌ: إِذَا دُعِيَ الإِمَامُ إِلَى الصَّلاَةِ وَبِيَدِهِ مَا يَأْكُلُ
❁ باب: جب امام کو نماز کے لئے بلایا جائے

❁ 675 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ، أَنَّ أَبَاهُ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ ذِرَاعًا يَحْتَزُّ مِنْهَا، فَدُعِيَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقَامَ، فَطَرَحَ السِّكِّينَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو جعفر بن عمرو بن امیہ نے خبر دی کہ ان کے باپ عمرو بن امیہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بکری کی ران کا گوشت کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں آپ نماز کے لیے بلائے گئے آپ کھڑے ہوئے اور چھری ڈال دی، پھر آپ نے نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔

 

❁ تشریح : اس باب اور ا س کے تحت اس حدیث کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ثابت کرنا منظور ہے کہ پچھلی حدیث کا حکم استحباباً تھا وجوباً نہ تھا۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے کیوں جاتے بعض کہتے ہیں کہ امام کا حکم علیحدہ ہے۔ اسے کھانا چھوڑ کر نماز کے لیے جانا چاہئے۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔


❁ بَابٌ: مَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَهْلِهِ فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَخَرَجَ 
❁ باب: اس آدمی کے بارے میں جو امور خانہ میں

❁ 676 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ فِي بَيْتِهِ؟ قَالَتْ: «كَانَ يَكُونُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِهِ – تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِهِ – فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود بن یزید سے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے آپ نے بتلایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے کام کاج یعنی اپنے گھر والیوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو فوراً ( کام کاج چھوڑ کر ) نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔


❁ بَابٌ: مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ وَهُوَ لاَ يُرِيدُ إِلَّا أَنْ يُعَلِّمَهُمْ صَلاَةَ النَّبِيِّ ﷺ وَسُنَّتَهُ
❁ باب: طریقہ نماز نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت

❁ 677 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: جَاءَنَا مَالِكُ بْنُ الحُوَيْرِثِ – فِي مَسْجِدِنَا هَذَا – فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ وَمَا أُرِيدُ الصَّلاَةَ، أُصَلِّي كَيْفَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَقُلْتُ لِأَبِي قِلاَبَةَ: كَيْفَ كَانَ يُصَلِّي؟ قَالَ: مِثْلَ شَيْخِنَا هَذَا، قَالَ: وَكَانَ شَيْخًا، «يَجْلِسُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، قَبْلَ أَنْ يَنْهَضَ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مالک بن حویرث ( صحابی ) ایک دفعہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم لوگوں کو نماز پڑھاؤں گا اور میری نیت نماز پڑھنے کی نہیں ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ تمہیں نماز کا وہ طریقہ سکھا دوں جس طریقہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا کہ انہوں نے کس طرح نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے بتلایا کہ ہمارے شیخ ( عمر بن سلمہ ) کی طرح۔ شیخ جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو ذرا بیٹھ جاتے پھر کھڑے ہوتے۔

 

❁ تشریح : دوسری یا چوتھی رکعت کے لیے تھوڑی دیر بیٹھ کر اٹھنا یہ جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اسی کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔ قال الحافظ فی الفتح و فیہ مشروعیۃ جلسۃ الاستراحۃ و اخذ بہا الشافعی و طائفۃ من اہل الحدیث یعنی فتح الباری میں حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ اس حدیث سے جلسہ استراحت کی مشروعیت ثابت ہوئی اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت کا اسی پر عمل ہے۔ مگر احناف نے جلسہ استراحت کا انکار کیا ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھا ہوا ہے: “ یہ جلسہ استراحت ہے اور حنفیہ کے یہاں بہتر ہے کہ ایسا نہ کیا جائے۔ ابتدا میں یہی طریقہ تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ” ( تفہیم البخاری، ص: 81 ) آگے یہی حضرت اپنے اس خیال کی خود ہی تردید فرما رہے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ “ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ اس میں اختلاف صرف افضلیت کی حد تک ہے۔ ” جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ اسے درجہ جواز میں مانتے ہیں۔ پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہے کہ بعد میں اس پر عمل ترک ہو گیا تھا۔ ہم اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتے۔ صرف مولانا عبدالحئی صاحب حنفی لکھنؤی کا تبصرہ نقل کردیتے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں: اعلم ان اکثر اصحابنا الحنفیۃ و کثیرا من المشائخ الصوفیۃ قد ذکروا فی کیفیۃ صلوٰہ التسبیح الکیفیۃ التی حکاہا الترمذی و الحاکم عن عبداللہ بن المبارک الخالیۃ عن جلسۃ الاستراحۃ و الشافعیۃ و المحدثون اکثرہم اختاروا الکیفیۃ المشتملۃ علی جلسۃ الاستراحۃ و قد علم ہما اسلفنا ان الاصح ثبوتا ہو ہذہ الکیفیۃ فلیاخذ بہا من یصلیہا حنفیا کان او شافعیا ( تحفۃ الاحوذی، ص:237 بحوالہ کتاب الاثار المرفوعۃ ) یعنی جان لو کہ ہمارے اکثر علمائے احناف اور مشائخ صوفیہ نے صلوٰۃ التسبیح کا ذکر کیا ہے۔ جسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے مگر اس میں جلسہ استراحت کا ذکر نہیں ہے۔ جب کہ شافعیہ اور اکثر محدثین نے جلسہ استراحت کو مختار قرار دیا ہے اور ہمارے بیان گذشتہ سے ظاہر ہے کہ ثبوت کے لحاظ سے صحیح یہی ہے کہ جلسہ استراحت کرنا بہتر ہے پس کوئی حنفی ہو یا شافعی اسے چاہئے کہ جب بھی وہ صلوٰۃ التسبیح پڑھے ضرور جلسہ استراحت کرے۔ محدث کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قد اعتذر الحنفیۃ وغیرہم من لم یقل بجلسۃ الاستراحۃ عن العمل بحدیث مالک بن الحویرث المذکور فی الباب باعذار کلہا باردۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی جو حضرات جلسہ استراحت کے قائل نہیں احناف وغیرہ انہوں نے حدیث مالک بن حویریث رضی اللہ عنہ جو یہاں ترمذی میں مذکور ہوئی ہے ( اور بخاری شریف میں بھی قارئین کے سامنے ہے ) پر عمل کرنے سے کئی ایک عذر پیش کئے ہیں جن میں کوئی جان نہیں ہے اور جن کو عذر بے جاہی کہنا چاہئے۔ ( مزید تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔


❁ بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
❁ باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟

❁678 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّهُ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَامَ مَقَامَكَ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، قَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» فَعَادَتْ، فَقَالَ: «مُرِي أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» فَأَتَاهُ الرَّسُولُ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین بن علی بن ولید نے زائدہ بن قدامہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالملک بن عمیر سے، کہا کہ مجھ سے ابوبردہ عامر نے بیان کیا، انہوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور جب بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بولیں کہ وہ نرم دل ہیں جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو ان کے لئے نماز پڑھانا مشکل ہو گا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پھر وہی بات کہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تم لوگ صواحب یوسف ( زلیخا ) کی طرح ( باتیں بناتی ) ہو۔ آخر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بلانے آیا اور آپ نے لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نماز پڑھائی۔


❁ بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
❁ باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟

❁ 679 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» فَقَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی للہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ ( قرآن مجید ) سنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ فرماتی تھیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو ( قرآن ) نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ رضی اللہ عنہا ( ام المؤمنین اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ) نے بھی اسی طری کہا تو آپ نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟

 

❁ تشریح : اس واقعہ سے متعلق احادیث میں “ صواحب یوسف ” کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبۃ کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں “ انتم ” کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف علیہ السلام کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے ابتداءمیں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میںجب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ ( تفہیم البخاری، ص:82پ:3 ) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ پر خفا کرادیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاءیہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ ( وحیدی )


 ❁ بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
❁ باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟

 ❁ 680 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ [ص:137] الأَنْصَارِيُّ – وَكَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَدَمَهُ وَصَحِبَهُ – أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي الصَّلاَةِ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتْرَ الحُجْرَةِ يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَكُ، فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجٌ إِلَى الصَّلاَةِ «فَأَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ وَأَرْخَى السِّتْرَ فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی …. آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے، آپ کے خادم اور صحابی تھے…. کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے تھے۔ پیر کے دن جب لوگ نماز میں صف باندھے کھڑے ہوئے تھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ کا پردہ ہٹائے کھڑے ہوئے، ہماری طرف دیکھ رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک ( حسن و جمال اور صفائی میں ) گویا مصحف کا ورق تھا۔ آپ مسکرا کر ہنسنے لگے۔ ہمیں اتنی خوشی ہوئی کہ خطرہ ہو گیا کہ کہیں ہم سب آپ کو دیکھنے ہی میں نہ مشغول ہو جائیں اور نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹ کر صف کے ساتھ آملنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لارہے ہیں، لیکن آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ نماز پوری کرلو۔ پھر آپ نے پردہ ڈال دیا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہو گئی۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون )


❁ بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ
❁ باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟

❁ 681 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «لَمْ يَخْرُجِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثًا»، فَأُقِيمَتِ الصَّلاَةُ، فَذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَقَدَّمُ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بِالحِجَابِ فَرَفَعَهُ، فَلَمَّا وَضَحَ وَجْهُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا نَظَرْنَا مَنْظَرًا كَانَ أَعْجَبَ إِلَيْنَا مِنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَضَحَ لَنَا، فَأَوْمَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَتَقَدَّمَ، وَأَرْخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الحِجَابَ، فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ حَتَّى مَاتَ»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرمنقری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایام بیماری میں ) تین دن تک باہر تشریف نہیں لائے۔ ان ہی دنوں میں ایک دن نماز قائم کی گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھنے کو تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجرہ مبارک کا ) پردہ اٹھایا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دکھائی دیا۔ تو آپ کے روئے پاک و مبارک سے زیادہ حسین منظر ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ( قربان اس حسن و جمال کے ) پھر آپ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کے لیے اشارہ کیا اور آپ نے پردہ گرادیا اور ا س کے بعد وفات تک کوئی آپ کودیکھنے پر قادر نہ ہو سکا۔


بَابٌ: أَهْلُ العِلْمِ وَالفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ ❁ 
❁ باب: امامت کرانے کا حقدار کون ہے؟

 ❁ 682 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قِيلَ لَهُ فِي الصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ، إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ البُكَاءُ، قَالَ: «مُرُوهُ فَيُصَلِّي» فَعَاوَدَتْهُ، قَالَ: «مُرُوهُ فَيُصَلِّي، إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» تَابَعَهُ الزُّبَيْدِيُّ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، وَإِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الكَلْبِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَقَالَ عُقَيْلٌ، وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یونس بن یزید ایلی نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ سے نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ دوبارہ انہوں نے پھر وہی عذر دہرایا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ان سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ تم تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی اور زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے اور عقیل اور معمر نے زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

 

❁ تشریح : ان جملہ احادیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہی ہے کہ امامت اس شحص کو کرانی چاہئے جو علم میں ممتاز ہو۔ یہ ایک اہم ترین منصب ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے مناسب نہیں۔ حضرت صدیقہ کا خیال تھا کہ والد محترم حضور کی جگہ کھڑے ہوں اور حضور کی وفات ہو جائے تو لوگ کیا کیا خیالات پیدا کریں گے۔ اس لیے بار بار وہ عذر پیش کرتی رہیں مگر اللہ پاک کو یہ منظور تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اولین طور پر اس گدی کے مالک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ ہی کا تقرر عمل میں آیا۔ زبیدی کی روایت کو طبرانی نے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عدی نے اور اسحاق کی روایت کو ابوبکر بن شاذان نے وصل کیا۔ عقیل اور معمر نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کیوں کہ حمزہ بن عبداللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا۔ عقیل کی روایت کو ابن سعد اور ابولیلیٰ نے وصل کیا ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَامَ إِلَى جَنْبِ الإِمَامِ لِعِلَّةٍ

❁ باب: عذر کی وجہ سے امام کے پہلو میں کھڑا ہونا


❁ 683 حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ»، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، قَالَ عُرْوَةُ: فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ، فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ: «أَنْ كَمَا أَنْتَ»، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے زکریا بن یحییٰ بلخی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد عروہ سے خبر دی، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں حکم دیا کہ ابوبکر لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے۔ عروہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن آپ کو کچھ ہلکا پایا اور باہر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے۔ انھوں نے جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں اپنی جگہ قائم رہنے کا حکم فرمایا۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھ گئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : گو باب میں امام کے بازو میں کھڑا ہونا مذکور ہے اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بیٹھنا بیان ہو رہا ہے۔ مگر شاید آپ پہلے بازو میں کھڑے ہو کر پھر بیٹھ گئے ہوں گے یا کھڑے ہونے کو بیٹھنے پر قیاس کر لیا گیا ہے۔


❁ بَابُ مَنْ دَخَلَ لِيَؤُمَّ النَّاسَ، فَجَاءَ الإِمَامُ الأَوَّلُ، فَتَأَخَّرَ الأَوَّلُ أَوْ لَمْ يَتَأَخَّرْ، جَازَتْ صَلاَتُهُ
❁ باب: امامت شروع ہو جانا اور پہلے امام کا آنا

❁ 684 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ [ص:138] بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ، فَحَانَتِ الصَّلاَةُ، فَجَاءَ المُؤَذِّنُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِيمَ؟ قَالَ: نَعَمْ فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ فِي الصَّلاَةِ، فَتَخَلَّصَ حَتَّى وَقَفَ فِي الصَّفِّ، فَصَفَّقَ النَّاسُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ لاَ يَلْتَفِتُ فِي صَلاَتِهِ، فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِيقَ التَفَتَ، فَرَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنِ امْكُثْ مَكَانَكَ»، فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَيْهِ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَلَى مَا أَمَرَهُ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى اسْتَوَى فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُكَ» فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَا كَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا لِي رَأَيْتُكُمْ أَكْثَرْتُمُ التَّصْفِيقَ، مَنْ رَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيُسَبِّحْ فَإِنَّهُ إِذَا سَبَّحَ التُفِتَ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوحازم سلمہ بن دینار سے خبر دی، انہوں نے سہل بن سعد ساعدی ( صحابی رضی اللہ عنہ ) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عمرو بن عوف میں ( قبا میں ) صلح کرانے کے لیے گئے، پس نماز کا وقت آ گیا۔ مؤذن ( حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ) ابوبکر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ کیا آپ نماز پڑھائیں گے۔ میں تکبیر کہوں۔ ابوبکر رضی اللہ نے فرمایا کہ ہاں چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کر دی۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو لوگ نماز میں تھے۔ آپ صفوں سے گزر کر پہلی صف میں پہنچے۔ لوگوں نے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مارا ( تا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر آگاہ ہو جائیں ) لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ جب لوگوں نے متواتر ہاتھ پر ہاتھ مارنا شروع کیا تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ متوجہ ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ نے اشارہ سے انھیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ ( کہ نماز پڑھائے جاؤ ) لیکن انھوں نے اپنے ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امامت کا اعزاز بخشا، پھر بھی وہ پیچھے ہٹ گئے اور صف میں شامل ہو گئے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ ابوبکر جب میں نے آپ کو حکم دے دیا تھا پھر آپ ثابت قدم کیوں نہ رہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوقحافہ کے بیٹے ( یعنی ابوبکر ) کی یہ حیثیت نہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نماز پڑھا سکیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عجیب بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ تم لوگ بکثرت تالیاں بجا رہے تھے۔ ( یاد رکھو ) اگر نماز میں کوئی بات پیش آ جائے تو سبحان اللہ کہنا چاہئے جب وہ یہ کہے گا تو اس کی طرف توجہ کی جائے گی اور یہ تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔

 

❁ تشریح : بنی عمرو بن عوف ساکنان قبا قبیلہ اوس کی ایک شاخ تھی۔ ان میں آپس میں تکرار ہو گئی۔ ان میں صلح کرانے کی غرض سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے اور چلتے وقت بلال رضی اللہ عنہ سے فرما گئے تھے کہ اگر عصر کا وقت آجائے اور میں نہ آسکوں تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہنا وہ نماز پڑھا دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ آپ کو وہاں کافی وقت لگ گیا۔ یہاں تک کہ جماعت کا وقت آگیا اور حضرت صدیق اکبر ( رضی اللہ عنہ ) مصلے پر کھڑے کر دئیے گئے۔ اتنے ہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور معلوم ہونے پر حضڑت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پیچھے ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تواضع و انکساری کی بنا پر اپنے آپ کو ابوقحافہ کا بیٹا کہا۔ کیوں کہ ان کے باپ ابوقحافہ کو دوسرے لوگوں پر کوئی خاص فضیلت نہ تھی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر مقررہ امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص امام بن جائے اور نماز شروع کرتے ہی فوراً دوسرا امام مقررہ آجائے تو اس کو اختیار ہے کہ خواہ خود امام بن جائے اور دوسرا شخص جو امامت شروع کراچکا تھا وہ مقتدی بن جائے یا نئے امام کا مقتدی رہ کر نماز ادا کرے کسی حال میں نماز میں خلل نہ ہوگا اور نہ نماز میں کوئی خرابی آئے گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مردوں کو اگر امام کو لقمہ دینا پڑے تو باآواز بلند سبحان اللہ کہنا چاہئے۔ اگر کوئی عورت لقمہ دے تو اسے تالی بجا دینا کافی ہوگا۔


❁ بَابٌ: إِذَا اسْتَوَوْا فِي القِرَاءَةِ فَلْيَؤُمَّهُمْ أَكْبَرُهُمْ
❁ باب: قرات میں اگر سب برابر ہوں

❁ 685 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ الحُوَيْرِثِ، قَالَ: قَدِمْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ شَبَبَةٌ، فَلَبِثْنَا عِنْدَهُ نَحْوًا مِنْ عِشْرِينَ لَيْلَةً، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا فَقَالَ: «لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَى بِلاَدِكُمْ، فَعَلَّمْتُمُوهُمْ مُرُوهُمْ، فَلْيُصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَلْيُؤَذِّنْ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حماد بن زید نے خبر دی ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے مالک بن حویرث صحابی رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ملک سے حاضر ہوئے۔ ہم سب ہم عمر نوجوان تھے۔ تقریباً بیس رات ہم آپ کی خدمت میں ٹھہرے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی رحم دل تھے۔ آپ نے ( ہماری غربت کا حال دیکھ کر ) فرمایا کہ جب تم لوگ اپنے گھروں کو جاؤ تو اپنے قبیلہ والوں کو دین کی باتیں بتانا اور ان سے نماز پڑھنے کے لیے کہنا کہ فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت پڑھیں۔ اور جب نماز کا وقت ہو جائے تو کوئی ایک اذان دے اور جو عمر میں بڑا ہو وہ امامت کرائے۔

 

❁ تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حدیث میں اکبرہم سے عمر میں بڑا مراد ہے۔


❁ بَابُ إِذَا زَارَ الإِمَامُ قَوْمًا فَأَمَّهُمْ
❁ باب: جب امام کسی قوم کے ہاں گیا

 ❁ 686 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ أَسَدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَقَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟» فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى المَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ، فَقَامَ وَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے محمود بن ربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میرے گھر تشریف لانے کی ) اجازت چاہی اور میں نے آپ کو اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تم لوگ اپنے گھر میں جس جگہ پسند کرو میں نماز پڑھ دوں میں جہاں چاہتا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کیا۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ پھر آپ نے جب سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔

 

❁ تشریح : دوسری حدیث میں مروی ہے کہ کسی شخص کو اجاز ت نہیں کہ دوسری جگہ جاکر ان کے امام کی جگہ خود امام بن جائے۔ مگر وہ لوگ خود چاہیں اور ان کے امام بھی اجازت دیں تو پھر مہمان بھی امامت کرا سکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ بڑا امام جسے خلیفہ وقت یا سلطان کہہ جائے چونکہ وہ خود آمر ہے، اس لیے وہاں امامت کراسکتا ہے۔


❁ بَابٌ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ
❁ باب: امام کی اقتداء ضروری ہے

 ❁ 687 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَبِي عَائِشَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْتُ: أَلاَ تُحَدِّثِينِي [ص:139] عَنْ مَرَضِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: بَلَى، ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ». قَالَتْ: فَفَعَلْنَا، فَاغْتَسَلَ، فَذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ» قَالَتْ: فَقَعَدَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» قُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: «ضَعُوا لِي مَاءً فِي المِخْضَبِ»، فَقَعَدَ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ ذَهَبَ لِيَنُوءَ فَأُغْمِيَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاقَ فَقَالَ: «أَصَلَّى النَّاسُ؟» فَقُلْنَا: لاَ، هُمْ يَنْتَظِرُونَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالنَّاسُ عُكُوفٌ فِي المَسْجِدِ، يَنْتَظِرُونَ النَّبِيَّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ لِصَلاَةِ العِشَاءِ الآخِرَةِ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ بِأَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ – وَكَانَ رَجُلًا رَقِيقًا -: يَا عُمَرُ صَلِّ بِالنَّاسِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَنْتَ أَحَقُّ بِذَلِكَ، فَصَلَّى أَبُو بَكْرٍ تِلْكَ الأَيَّامَ، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا العَبَّاسُ لِصَلاَةِ الظُّهْرِ وَأَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ لاَ يَتَأَخَّرَ، قَالَ: أَجْلِسَانِي إِلَى جَنْبِهِ، فَأَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: فَجَعَلَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي وَهُوَ يَأْتَمُّ بِصَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ لَهُ: أَلاَ أَعْرِضُ عَلَيْكَ مَا حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ عَنْ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: هَاتِ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَدِيثَهَا، فَمَا أَنْكَرَ مِنْهُ شَيْئًا غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَسَمَّتْ لَكَ الرَّجُلَ الَّذِي كَانَ مَعَ العَبَّاسِ قُلْتُ: لاَ، قَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، ( تو اچھا ہوتا ) انھوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتا دیا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔

 

❁ تشریح : امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہذہ الترجمۃ قطعۃ من الحدیث الآتی فی الباب و المراد بہا ان الائتمام یقتضی متابعۃ الماموم لامامہ الخ ( فتح ) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔


❁ بَابٌ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ
❁ باب: امام کی اقتداء ضروری ہے

❁ 688 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ، فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنِ اجْلِسُوا، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا اجمعون»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

❁ تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد یا ربنا و لک الحمد یا اللہم ربنا لک الحمد کہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ ( مولانا وحید الزماں


❁ بَابٌ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ
❁ باب: امام کی اقتداء ضروری ہے

❁ 689 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا، فَصُرِعَ عَنْهُ فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَصَلَّى صَلاَةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا، فَلَمَّا انْصَرَفَ [ص:140] قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، فَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ، فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا، فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ الحُمَيْدِيُّ: قَوْلُهُ: «إِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا» بهُوَ فِي مَرَضِهِ القَدِيمِ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا، وَالنَّاسُ خَلْفَهُ قِيَامًا، لَمْ يَأْمُرْهُمْ بِالقُعُودِ، وَإِنَّمَا يُؤْخَذُ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ، مِنْ فِعْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول “ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ” کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔

 

❁ تشریح : صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی قلت و فی اقامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابابکر عن یمینہ و ہو مقام الماموم و فی تکبیرہ بالناس و تکبیر ابی بکر بتکبیرہ بیان واضح ان الامام فی ہذہ الصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد صلی قاعداً و الناس من خلفہ قیام و ہی اخر صلوٰۃ صلاہا بالناس فدل علی ان حدیث انس و جابر منسوخ و یزید ما قلناہ وضوحا ما رواہ ابو معاویۃ عن الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشۃ قالت لما ثقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر الحدیث قالت فجاءرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس جالسا و ابوبکر قائما یقتدی بہ و الناس یقتدون بابی بکر حدثونا بہ عن یحیی بن محمد بن یحیٰی قال نا مسدد قال نا ابومعاویۃ و القیاس یشہد لہذا القول لان الامام لا یسقط عن القوم شیئا من ارکان الصلٰوۃ مع القدرۃ علیہ الا تری انہ لا یحیل الرکوع و السجود الی الایماءو کذلک لایحیل القیام الی القعود و الی ہذا ذہب سفیان الثوری و صاحب الرای و الشافعی و ابوثور و قال مالک بن انس لا ینبغی لاحد ان یوم الناس قاعداً و ذہب احمد بن حنبل و اسحق بن راہویہ و نفر من اہل الحدیث الی خبر انس فان الامام اذا صلی قاعداً صلوٰا من خلفہ قعوداً و زرعم بعض اہل الحدیث ان الروایات اختلف فی ہذا فروی الاسود عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اماما و روی شقیق عنہا ان الامام کان ابوبکر فلم یجز ان یترک بہ حدیث انس و جابر ( عون المعبود، ج:1ص:234 ) یعنی امام خطابی نے کہا کہ حدیث مذکورہ میں جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا ذکر ہے جو مقتدی کی جگہ ہے اور ان لوگوں کا تکبیر کہنا اور ابوبکر کی تکبیروں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کے پیچھے ہونا اس میں واضح بیان موجود ہے کہ اس نماز میں امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سارے صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے اور یہ آخری نماز ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت انس اور جابر کی احادیث جن میں امام بیٹھا ہو تو مقتدیوں کو بھی بیٹھنا لازم مذکور ہے۔ وہ منسوخ ہے اور ہم نے جو کہا ہے اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوگئی ہے جسے ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ تشریف لائے اور ابوبکر کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ بیٹھ کر ہی لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور دیگر جملہ نمازی کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ امام ارکان صلوۃمیں سے مقتدیوں سے جب وہ ان پر قادر ہوں کسی رکن کو ساقط نہیں کرسکتا۔ نہ وہ رکوع سجود ہی کو محض اشاروں سے ادا کرسکتا ہے تو پھر قیام جو ایک رکن نماز ہے اسے قعود سے کیسے بدل سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے اور امام شافعی اور ابوثور وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ مناسب نہیں کہ کوئی بیٹھ کر لوگوں کی امامت کرائے اور امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ اور ایک گروہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جو حدیث انس میں مذکور ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ راقم کہتا ہے کہ میں اس تفصیل کے لیے سخت حیران تھا۔ “ تحفۃ الاحوذی، نیل الاوطار، فتح الباری ” وغیرہ جملہ کتب سامنے تھیں مگر کسی سے تشفی نہ ہو رہی تھی کہ اچانک اللہ سے امر حق کے لیے دعا کرکے عون المعبود کو ہاتھ میں لیا اور کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ پہلی ہی دفعہ فی الفور تفصیل بالا سامنے آگئی جسے یقیناً تائید غیبی کہنا ہی مناسب ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔ ( راز )


❁ بابٌ: مَتَى يَسْجُدُ مَنْ خَلْفَ الإِمَامِ؟
❁ باب: مقتدی کب سجدہ کریں؟

❁ 690 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنِي البَرَاءُ – وَهُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ -، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، لَمْ يَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَهْرَهُ، حَتَّى يَقَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا، ثُمَّ نَقَعُ سُجُودًا بَعْدَهُ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، نَحْوَهُ بِهَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے سفیان سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ جھوٹے نہیں تھے۔ ( بلکہ نہایت ہی سچے تھے ) انہوں نے بتلایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک نہ جھکتا جب تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں نہ چلے جاتے پھر ہم لوگ سجدہ میں جاتے۔ ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے، انھوں نے ابواسحق سے جیسے اوپر گزرا۔


❁ بَابُ إِثْمِ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ  
❁ باب: امام سے پہلے سر اٹھانے کا گناہ

❁ 691 حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَمَا يَخْشَى أَحَدُكُمْ – أَوْ: لاَ يَخْشَى أَحَدُكُمْ – إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلَ الإِمَامِ، أَنْ يَجْعَلَ اللَّهُ رَأْسَهُ رَأْسَ حِمَارٍ، أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ صُورَتَهُ صُورَةَ حِمَارٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن زیاد سے بیان کیا، کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم میں وہ شخص جو ( رکوع یا سجدہ میں ) امام سے پہلے اپنا سر اٹھا لیتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ کہیں اللہ پاک اس کا سر گدھے کے سر کی طرح بنا دے یا اس کی صورت کو گدھے کی سی صورت بنا دے۔


❁ بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى
❁ باب: غلام کی امامت کا بیان

❁ 692 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: «لَمَّا قَدِمَ المُهَاجِرُونَ الأَوَّلُونَ العُصْبَةَ – مَوْضِعٌ بِقُبَاءٍ – قَبْلَ مَقْدَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَؤُمُّهُمْ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ، وَكَانَ أَكْثَرَهُمْ قُرْآنًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا انہوں نے عبید اللہ عمری سے، انہوں نے حضرت نافع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ جب پہلے مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بھی پہلے قبا کے مقام عصبہ میں پہنچے تو ان کی امامت ابوحذیفہ کے غلام سالم رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ یاد تھا۔


❁ بَابُ إِمَامَةِ العَبْدِ وَالمَوْلَى
❁ باب: غلام کی امامت کا بیان

❁ 693 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَإِنِ اسْتُعْمِلَ حَبَشِيٌّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالتیاح یزید بن حمید ضبعی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا ( اپنے حاکم کی ) سنو اور اطاعت کرو، خواہ ایک ایسا حبشی ( غلام تم پر ) کیوں نہ حاکم بنا دیا جائے جس کا سر سوکھے ہوئے انگور کے برابر ہو۔

 

❁ تشریح : اس سے باب کا مطلب یوں نکلتا ہے کہ جب حبشی غلام کی جو حاکم ہو اطاعت کا حکم ہوا تو اس کی امامت بطریق اولیٰ صحیح ہو گی کیوں کہ اس زمانہ میں جو حاکم ہوتا وہی امامت بھی نماز میں کیا کرتا تھا۔ اس حدیث سے یہ دلیل بھی لی ہے کہ بادشاہ وقت سے گو وہ کیسا ہی ظالم بے وقوف ہو لڑنا اور فساد کرنا نادرست ہے بشرطیکہ وہ جائز خلیفہ یعنی قریش کی طرف سے بادشاہ بنایا گیا ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ حبشی غلام کی خلافت درست ہے کیوں کہ خلافت سوائے قریشی کے اور کسی قوم کی درست نہیں ہے جیسے دوسری حدیث سے ثابت ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )


❁ بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ الإِمَامُ وَأَتَمَّ مَنْ خَلْفَهُ
❁ باب: اگر امام اپنی نماز کو پورا نہ کرے

❁ 694 حَدَّثَنَا الفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ مُوسَى الأَشْيَبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يُصَلُّونَ لَكُمْ، فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ، وَإِنْ أَخْطَئُوا [ص:141] فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے فضل بن سہل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسن بن موسیٰ اشیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا زید بن اسلم سے، انہوں نے عطاء بن یسار سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں۔ پس اگر امام نے ٹھیک نماز پڑھائی تو اس کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر غلطی کی تو بھی ( تمہاری نماز کا ) ثواب تم کو ملے گا اور غلطی کا وبال ان پر رہے گا۔

 

تشریح : یعنی امام کی نمازمیں نقص رہ جانے سے مقتدیوں کی نماز میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ جب انہوں نے تمام شرائط اور ارکان کو پورا کیا۔


❁ بَابُ إِمَامَةِ المَفْتُونِ وَالمُبْتَدِعِ
❁ باب: باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان

❁ 695 قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ خِيَارٍ، أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، – وَهُوَ مَحْصُورٌ – فَقَالَ: إِنَّكَ إِمَامُ عَامَّةٍ، وَنَزَلَ بِكَ مَا نَرَى، وَيُصَلِّي لَنَا إِمَامُ فِتْنَةٍ، وَنَتَحَرَّجُ؟ فَقَالَ: «الصَّلاَةُ أَحْسَنُ مَا يَعْمَلُ النَّاسُ، فَإِذَا أَحْسَنَ النَّاسُ، فَأَحْسِنْ مَعَهُمْ، وَإِذَا أَسَاءُوا فَاجْتَنِبْ إِسَاءَتَهُمْ» وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ، قَالَ: الزُّهْرِيُّ: «لاَ نَرَى أَنْ يُصَلَّى خَلْفَ المُخَنَّثِ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ لاَ بُدَّ مِنْهَا»

 

❁ ترجمہ : امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمن سے نقل کیا۔ انہوں نے عبید اللہ بن عدی بن خیار سے کہ وہ خود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ جب کہ باغیوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ہی عام مسلمانوں کے امام ہیں مگر آپ پر جو مصیبت ہے وہ آپ کو معلوم ہے۔ ان حالات میں باغیوں کا مقررہ امام نماز پڑھا رہا ہے۔ ہم ڈرتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھ کر گنہگار ہو جائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جواب دیا نماز تو جو لوگ کام کرتے ہیں ان کاموں میں سب سے بہترین کام ہے۔ تو وہ جب اچھا کام کریں تم بھی اس کے ساتھ مل کر اچھا کام کرو اور جب وہ برا کام کریں تو تم ان کی برائی سے الگ رہو اور محمد بن یزید زبیدی نے کہا کہ امام زہری نے فرمایا کہ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ہیجڑے کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ مگر ایسی ہی لاچاری ہو تو اور بات ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔

 

❁ تشریح : مفتون کا ترجمہ باغی کیا ہے جو سچے برحق امام کے حکم سے پھر جائے۔ اور بدعتی سے عام بدعتی مراد ہے۔ خواہ اس کی بدعت اعتقادی ہو جیسے شیعہ، خوارج، مرجیہ، معتزلہ وغیرہ کی، خواہ عملی ہو جیسے سہرا باندھنے والا، تیجا، دسواں کرنے والا، تعزیہ یا علم اٹھانے والے، قبروں پر چراغاں کرنے والے، میلاد یا غنا یا مرثیہ کی مجلس کرنے والے کی، بشرطیکہ ان کی بدعت کفر اور شرک کی حد تک نہ پہنچے۔ اگر کفر یا شرک کے درجے پر پہنچ جائے تو ان کے پیچھے نماز درست نہیں۔ تسہیل میں ہے کہ سنت کہتے ہیں حدیث کو اور جماعت سے مراد صحابہ اور تابعین ہیں جو لوگ حدیث شریف پر چلتے ہیں اور اعتقاد اور عمل میں صحابہ اور تابعین کے طریق پر ہیں وہی اہل سنت والجماعت ہیں باقی سب بدعتی ہیں۔ ( مولانا وحید الزماں )


❁ بَابُ إِمَامَةِ المَفْتُونِ وَالمُبْتَدِعِ
❁ باب: باغی اور بدعتی کی امامت کا بیان

❁ 696 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي ذَرٍّ: «اسْمَعْ وَأَطِعْ وَلَوْ لِحَبَشِيٍّ كَأَنَّ رَأْسَهُ زَبِيبَةٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا شعبہ سے، انہوں نے ابوالتیاح سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا ( حاکم کی ) سن اور اطاعت کر۔ خواہ وہ ایک ایسا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو جس کا سر منقے کے برابر ہو۔


❁ بَابٌ: يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الإِمَامِ، بِحِذَائِهِ سَوَاءً إِذَا كَانَا اثْنَيْنِ

❁ باب: جب صرف دو ہی نمازی ہوں


❁ 697 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الحَكَمِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ العِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ، فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، فَجِئْتُ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ – أَوْ قَالَ: خَطِيطَهُ – ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بتلایا کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر رہ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کے بعد جب ان کے گھر تشریف لائے تو یہاں چار رکعت نماز پڑھی۔ پھر آپ سو گئے پھر نماز ( تہجد کے لیے ) آپ اٹھے ( اور نماز پڑھنے لگے ) تو میں بھی اٹھ کر آپ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا، لیکن آپ نے مجھے اپنی داہنی طرف کر لیا۔ آپ نے پانچ رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعت ( سنت فجر ) پڑھ کر سو گئے اور میں نے آپ کے خراٹے کی آواز بھی سنی۔ پھر آپ فجر کی نماز کے لیے برآمد ہوئے۔

 

❁ تشریح : حدیث ہذا سے ثابت ہوا کہ جب امام کے ساتھ ایک ہی آدمی ہو تو وہ امام کے داہنی طرف کھڑا ہو جوان ہو یا نابالغ۔ پھر کوئی دوسرا آجائے تو وہ امام کے بائیں طرف نیت باندھ لے، پھر امام آگے بڑھ جائے یا مقتدی پیچھے ہٹ جائیں۔


❁ بَابٌ: إِذَا قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَسَارِ الإِمَامِ، فَحَوَّلَهُ الإِمَامُ إِلَى يَمِينِهِ، لَمْ تَفْسُدْ صَلاَتُهُمَا
❁ باب: اگر کوئی امام کی بائیں طرف کھڑا ہوا

❁ 698 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: نِمْتُ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ «فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَلَى يَسَارِهِ، فَأَخَذَنِي، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ نَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ المُؤَذِّنُ، فَخَرَجَ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» قَالَ عَمْرٌو: فَحَدَّثْتُ بِهِ بُكَيْرًا، فَقَالَ: حَدَّثَنِي كُرَيْبٌ بِذَلِكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حماد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن حارث مصری نے عبد ربہ بن سعید سے بیان کیا، انہوں نے مخرمہ بن سلیمان سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات ام المؤمنین میمونہ کے یہاں سو گیا۔ اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی وہیں سونے کی باری تھی۔ آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے مجھے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا۔ پھر تیرہ رکعت ( وتر سمیت ) نماز پڑھی اور سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ پھر مؤذن آیا تو آپ باہر تشریف لے گئے۔ آپ نے اس کے بعد ( فجر کی ) نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے بیان کیا میں نے یہ حدیث بکیر بن عبداللہ کے سامنے بیان کی تو انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث مجھ سے کریب نے بھی بیان کی تھی۔


❁ بَابُ إِذَا لَمْ يَنْوِ الإِمَامُ أَنْ يَؤُمَّ، ثُمَّ جَاءَ قَوْمٌ فَأَمَّهُمْ
❁ باب: اگر امامت کی نیت نہ ہو لیکن لوگ

❁ 699 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي «فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِرَأْسِي، فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے ایوب سختیانی سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن سعید بن جبیر سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گذاری۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا۔ میں ( غلطی سے ) آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر آپ نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کر دیا۔ ( تاکہ صحیح طور پر کھڑا ہو جاؤں )


❁ بَابُ إِذَا طَوَّلَ الإِمَامُ، وَكَانَ لِلرَّجُلِ حَاجَةٌ، فَخَرَجَ فَصَلَّى
❁ باب: اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے

❁ 700 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: «أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ، فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے جابر بن عبداللہ سے کہ معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آ کر اپنی قوم کی امامت کیا کرتے تھے۔


❁ بَابُ إِذَا طَوَّلَ الإِمَامُ، وَكَانَ لِلرَّجُلِ حَاجَةٌ، فَخَرَجَ فَصَلَّى
❁ باب: اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے

❁ 701 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ [ص:142]، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَرْجِعُ، فَيَؤُمُّ قَوْمَهُ، فَصَلَّى العِشَاءَ، فَقَرَأَ بِالْبَقَرَةِ، فَانْصَرَفَ الرَّجُلُ، فَكَأَنَّ مُعَاذًا تَنَاوَلَ مِنْهُ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «فَتَّانٌ، فَتَّانٌ، فَتَّانٌ» ثَلاَثَ مِرَارٍ – أَوْ قَالَ: «فَاتِنًا، فَاتِنًا، فَاتِنًا» – وَأَمَرَهُ بِسُورَتَيْنِ مِنْ أَوْسَطِ المُفَصَّلِ، قَالَ عَمْرٌو: لاَ أَحْفَظُهُمَا

 

❁ ترجمہ : دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے فرمایا کہ معاذ بن جبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( فرض ) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو ( وہی ) نماز پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بار عشاء میں انھوں نے سورہ بقرہ شروع کی۔ ( مقتدیوں میں سے ) ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ معاذ اس کو برا کہنے لگے۔ یہ خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی ( اس شخص نے جا کر معاذ کی شکایت کی ) آپ نے معاذ کو فرمایا تو بلا میں ڈالنے والا ہے، بلا میں ڈالنے والا، بلا میں ڈالنے والا تین بار فرمایا۔ یا یوں فرمایا کہ تو فسادی ہے، فسادی، فسادی۔ پھر آپ نے معاذ کو حکم فرمایا کہ مفصل کے بیچ کی دو سورتیں پڑھا کرے۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ مجھے یاد نہیں رہیں ( کہ کونسی سورتوں کا آپ نے نام لیا۔

 

❁ تشریح : اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداءنفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔ حنفیہ نے یہاں بھی دور از کار تاویلات کی ہیں۔ جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جاکر پڑھائی ( دیکھو تفہیم البخاری پ:3 ص:97 ) یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا


❁ بَابُ تَخْفِيفِ الإِمَامِ فِي القِيَامِ، وَإِتْمَامِ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
❁ باب: امام کو چاہئے کہ قیام ہلکا کرے

❁ 702 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، کہا کہ مجھے ابومسعود انصاری نے خبر دی کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی میں صبح کی نماز میں فلاں کی وجہ سے دیر میں جاتا ہوں، کیوں کہ وہ نماز کو بہت لمبا کر دیتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ ( کبھی بھی ) غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ( عوام کو عبادت سے یا دین سے ) نفرت دلا دیں، خبردار تم میں لوگوں کو جو شخص بھی نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیوں کہ نمازیوں میں بوڑھے اور کمزور بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔


❁ بَابٌ: إِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ
❁ باب: جب اکیلا نماز پڑھے توطویل کر سکتا ہے

❁ 703 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ، فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیوں کہ جماعت میں ضعیف بیمار اور بوڑھے ( سب ہی ) ہوتے ہیں، لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔ ( باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے )


بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ ❁
باب: امام سے نماز کی طوالت کی شکایت ❁

❁ 704 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الفَجْرِ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فُلاَنٌ فِيهَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ فِي مَوْضِعٍ كَانَ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے، انہوں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں۔ اس پر آپ اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو! تم میں بعض لوگ ( نماز سے لوگوں کو ) دور کرنے کا باعث ہیں۔ پس جو شخص امام ہو اسے ہلکی نماز پڑھنی چاہئے اس لیے کہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی ہوتے ہیں۔


❁ بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ
❁ باب: امام سے نماز کی طوالت کی شکایت

❁ 705 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ بِنَاضِحَيْنِ وَقَدْ جَنَحَ اللَّيْلُ، فَوَافَقَ مُعَاذًا يُصَلِّي، فَتَرَكَ نَاضِحَهُ وَأَقْبَلَ إِلَى مُعَاذٍ، فَقَرَأَ بِسُورَةِ البَقَرَةِ – أَوِ النِّسَاءِ – فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَبَلَغَهُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَا إِلَيْهِ مُعَاذًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ» – أَوْ «أَفَاتِنٌ» – ثَلاَثَ مِرَارٍ: «فَلَوْلاَ صَلَّيْتَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الحَاجَةِ» أَحْسِبُ هَذَا فِي الحَدِيثِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَتَابَعَهُ سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ [ص:143]، وَمِسْعَرٌ، وَالشَّيْبَانِيُّ، قَالَ عَمْرٌو، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، قَرَأَ مُعَاذٌ فِي العِشَاءِ بِالْبَقَرَةِ، وَتَابَعَهُ الأَعْمَشُ، عَنْ مُحَارِبٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے بتلایا کہ ایک شخص پانی اٹھانے والا دو اونٹ لئے ہوئے آیا، رات تاریک ہو چکی تھی۔ اس نے معاذ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا۔ اس لیے اپنے اونٹوں کو بٹھا کر ( نماز میں شریک ہونے کے لیے ) معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء شروع کی۔ چنانچہ وہ شخص نیت توڑ کر چل دیا۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو برا بھلا کہا ہے۔ اس لیے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معاذ کی شکایت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا، معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو۔ آپ نے تین مرتبہ ( فتان یا فاتن ) فرمایا، سبح اسم ربک الاعلی و الشمس و ضحہٰا، واللیل اذا یغشی ( سورتیں ) تم نے کیوں نہ پڑھیں، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند نماز پڑھتے ہیں۔ شعبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ آخری جملہ ( کیونکہ تمہارے پیچھے الخ ) حدیث میں داخل ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس کی متابعت سعید بن مسروق، مسعر اور شیبانی نے کی ہے اور عمرو بن دینار، عبیداللہ بن مقسم اور ابوالزبیر نے بھی اس حدیث کو جابر کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ معاذ نے عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تھی اور شعبہ کے ساتھ اس روایت کی متابعت اعمش نے محارب کے واسطہ سے کی ہے۔

 

❁ تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔ اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔ ( تفہیم البخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور والشمس و ضحٰہا یا سبح اسم یا اقتربت الساعۃ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔ یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔ پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔ طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔ اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔ قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔ ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔


❁ بَابُ الإِيجَازِ فِي الصَّلاَةِ وَإِكْمَالِهَا
❁ باب: نماز مختصر لیکن پوری پڑھنا

❁ 706 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجِزُ الصَّلاَةَ وَيُكْمِلُهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 707 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ» تَابَعَهُ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، وَابْنُ المُبَارَكِ، وَبَقِيَّةُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ حارث بن ربعی سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں، کیوں کہ اس کی ماں کو ( جو نماز میں شریک ہو گی ) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔ ولید بن مسلم کے ساتھ اس روایت کی متابعت بشر بن بکر، بقیہ بن ولید اور ابن مبارک نے اوزاعی کے واسطہ سے کی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 708 حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: «مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً، وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر قریشی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہلکی لیکن کامل نماز میں نے کسی امام کے پیچھے کبھی نہیں پڑھی۔ آپ کا یہ حال تھا کہ اگر آپ بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو اس خیال سے کہ اس کی ماں کہیں پریشانی میں نہ مبتلا ہو جائے نماز مختصر کر دیتے۔

 

❁ تشریح : یعنی آپ کی نماز باعتبار قرات کے تو ہلکی ہوتی، چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور ارکان یعنی رکوع سجدہ وغیرہ پورے طور سے ادا فرماتے جو لوگ سنت کی پیروی کرنا چاہیں۔ ان کو امامت کی حالت میں ایسی ہی نماز پڑھانی چاہئے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 709 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز شروع کر دیتا ہوں۔ ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طول کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 710 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ، فَأُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ» وَقَالَ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن ابراہیم بن عدی نے سعید بن ابی عروبہ کے واسطہ سے خبر دی، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھتا ہوں، ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کو طویل کروں گا، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں اس درد کو سمجھتا ہوں جو بچے کے رونے کی وجہ سے ماں کو ہو جاتا ہے۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے کہا ہم سے ابان بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : ان جملہ احادیث سے آپ کی شفقت ظاہر ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوا کرتی تھیں، ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے پہلی رکعت میں ساٹھ آیات کو پڑھا۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اتنا اثر لیا کہ دوسری رکعت میں صرف تین آیات پڑھ کر نماز کو پورا کردیا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى ثُمَّ أَمَّ قَوْمًا

❁ باب: ایک شخص نماز پڑھ کر پھر دوسرے


❁ 711 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَأْتِي قَوْمَهُ، فَيُصَلِّي بِهِمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نےایوب سختیانی سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے جابر سے فرمایا کہ معاذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آ کر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ أَسْمَعَ النَّاسَ تَكْبِيرَ الإِمَامِ
❁ باب: اس سے متعلق جو مقتدیوں کو امام

❁ 712 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَتَاهُ بِلاَلٌ يُوذِنُهُ بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ»، قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ إِنْ يَقُمْ مَقَامَكَ يَبْكِي، فَلاَ يَقْدِرُ عَلَى القِرَاءَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ»، فَقُلْتُ: مِثْلَهُ، فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ: «إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ [ص:144] فَلْيُصَلِّ»، فَصَلَّى وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ الأَرْضَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ صَلِّ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ تَابَعَهُ مُحَاضِرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کرا دی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنا مزاج ذرا ہلکا پا کر ) دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے باہر تشریف لائے۔ گویا میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے کہ آپ کے قدم زمین پر نشان کر رہے تھے۔ ابوبکر آپ کو دیکھ کر ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انھیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بازو میں بیٹھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے۔ عبداللہ بن داؤد کے ساتھ اس حدیث کو محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

 

❁ تشریح : جب مقتدی زیادہ ہوں تو دوسرا شخص تکبیر زور سے پکارے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک آلہ وجود میں آگیا ہے جسے آواز پہچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اکثر علماءکے نزدیک جائز قرار دیا گیا ہے۔


❁ بَابٌ: الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ
❁ باب: ایک شخص امام کی اقتداء کرے اور لوگ

❁ 713 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِلاَلٌ يُوذِنُهُ بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، قَالَ: «إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ» فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، حَتَّى دَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ، ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء۔

 

❁ تشریح : اسی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خود مقتدی تھے، لیکن دوسرے مقتدیوں نے ان کی اقتدا کی۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَأْخُذُ الإِمَامُ إِذَا شَكَّ بِقَوْلِ النَّاسِ؟
❁ باب: اگر امام کو شک ہو جائے

❁ 714 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو اليَدَيْنِ: أَقَصُرَتِ الصَّلاَةُ، أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَدَقَ ذُو اليَدَيْنِ» فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے حضرت امام مالک بن انس سے بیان کیا، انہوں نے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ظہر کی نماز میں ) دو رکعت پڑھ کر نماز ختم کر دی تو آپ سے ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور لوگوں کی طرف دیکھ کر ) پوچھا کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! پھر آپ اٹھے اور دوسری دو رکعتیں بھی پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا۔ پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پہلے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ۔

 

❁ تشریح : یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہئے۔ ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جاسکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنی آدمی بھی کرسکتا ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَأْخُذُ الإِمَامُ إِذَا شَكَّ بِقَوْلِ النَّاسِ؟
❁ باب: اگر امام کو شک ہو جائے

❁ 715 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ: صَلَّيْتَ رَكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ظہر کی صرف دو ہی رکعتیں پڑھیں ( اور بھول سے سلام پھیر دیا ) پھر کہا گیا کہ آپ نے صرف دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ پس آپ نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر سلام پھیرا۔ پھر دو سجدے کئے۔


❁ بَابُ إِذَا بَكَى الإِمَامُ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: امام اگر نماز میں رونے لگے

❁ 716 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ [ص:145] هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» قَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں فرمایا کہ ابوبکر سے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ ابوبکر اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ سے فرمائیے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ نہیں ابوبکر ہی سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو آپ کو یاد کر کے گریہ و زاری کی وجہ سے لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بس چپ رہو، تم لوگ صواحب یوسف سے کسی طرح کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بعد میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو تم سے کہیں بھلائی ہونی ہے۔

 

❁ تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ رونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ جنت یا دوزخ کے ذکر پر رونا تو عین مطلوب ہے، کئی احادیث سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں رونا ثابت ہے۔ یہ حدیث پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے اور امام المحدثین رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رونے کا ذکر سنا پھر بھی آپ نے ان کو نماز کے لیے حکم فرمایا۔ پس دعویٰ ثابت کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹ سکتی۔ صواحب یوسف کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ زلیخا اور اس کے ساتھ والی عورتیں مراد ہیں۔ جن کی زبان پر کچھ تھا اور دل میں کچھ اور۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اپنے کہنے پر پچھتائی اور اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اظہا رخفگی فرمایا۔ ( رضی اللہ عنہن اجمعین )


 ❁ بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا
❁ باب: تکبیر کےوقت صفوں کا برابر کرنا

❁ 717 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ المَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الجَعْدِ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن ابوالجعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا منہ الٹ دے گا۔

 

❁ تشریح : یعنی مسخ کر دے گا۔ بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔ باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔ امام ابن حزم نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔ برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویحتمل ان یکون البخاری اخذ الوجوب من صیغہ الامر فی قولہ سووا صفوفکم و من عمعرم قولہ صلوا کما رایتمونی اصلی و من ورود الوعید علی ترکہ الخ یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم ( صفوں کو سیدھا کرو ) سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔ الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بے حد ضروری ہے۔


❁ بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا
❁ باب: تکبیر کےوقت صفوں کا برابر کرنا

❁ 718 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔

 

❁ تشریح : یہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔ صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کابھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔ جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔


❁ بَابُ إِقْبَالِ الإِمَامِ عَلَى النَّاسِ، عِنْدَ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ
باب: صفیں برابر کرتے وقت امام کا لوگوں

❁ 719 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ ہماری طرف کیا اور فرمایا کہ اپنی صفیں برابر کرلو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

 

❁ تشریح : تراصوا کا مفہوم یہ ہے کہ چوناگچ دیوار کی طرح مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ کندھے سے کندھا، قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ ملا لو۔ سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان اللہ یحب الدین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص ( الصف:4 ) اللہ پاک ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں شیشہ پلائی ہوئی دیواروں کی طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں۔ جب نماز میں ایسی کیفیت نہیں کرپاتے تو میدان جنگ میں کیا خاک کرسکیں گے۔ آج کل کے اہل اسلام کا یہی حال ہے۔


بَابُ مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ ❁
باب: امام سے نماز کی طوالت کی شکایت ❁

❁ 705 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الأَنْصَارِيَّ، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ بِنَاضِحَيْنِ وَقَدْ جَنَحَ اللَّيْلُ، فَوَافَقَ مُعَاذًا يُصَلِّي، فَتَرَكَ نَاضِحَهُ وَأَقْبَلَ إِلَى مُعَاذٍ، فَقَرَأَ بِسُورَةِ البَقَرَةِ – أَوِ النِّسَاءِ – فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ وَبَلَغَهُ أَنَّ مُعَاذًا نَالَ مِنْهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَا إِلَيْهِ مُعَاذًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مُعَاذُ، أَفَتَّانٌ أَنْتَ» – أَوْ «أَفَاتِنٌ» – ثَلاَثَ مِرَارٍ: «فَلَوْلاَ صَلَّيْتَ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ، وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى، فَإِنَّهُ يُصَلِّي وَرَاءَكَ الكَبِيرُ وَالضَّعِيفُ وَذُو الحَاجَةِ» أَحْسِبُ هَذَا فِي الحَدِيثِ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَتَابَعَهُ سَعِيدُ بْنُ مَسْرُوقٍ [ص:143]، وَمِسْعَرٌ، وَالشَّيْبَانِيُّ، قَالَ عَمْرٌو، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مِقْسَمٍ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، قَرَأَ مُعَاذٌ فِي العِشَاءِ بِالْبَقَرَةِ، وَتَابَعَهُ الأَعْمَشُ، عَنْ مُحَارِبٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے بتلایا کہ ایک شخص پانی اٹھانے والا دو اونٹ لئے ہوئے آیا، رات تاریک ہو چکی تھی۔ اس نے معاذ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا۔ اس لیے اپنے اونٹوں کو بٹھا کر ( نماز میں شریک ہونے کے لیے ) معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء شروع کی۔ چنانچہ وہ شخص نیت توڑ کر چل دیا۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو برا بھلا کہا ہے۔ اس لیے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معاذ کی شکایت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا، معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو۔ آپ نے تین مرتبہ ( فتان یا فاتن ) فرمایا، سبح اسم ربک الاعلی و الشمس و ضحہٰا، واللیل اذا یغشی ( سورتیں ) تم نے کیوں نہ پڑھیں، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند نماز پڑھتے ہیں۔ شعبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ آخری جملہ ( کیونکہ تمہارے پیچھے الخ ) حدیث میں داخل ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس کی متابعت سعید بن مسروق، مسعر اور شیبانی نے کی ہے اور عمرو بن دینار، عبیداللہ بن مقسم اور ابوالزبیر نے بھی اس حدیث کو جابر کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ معاذ نے عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تھی اور شعبہ کے ساتھ اس روایت کی متابعت اعمش نے محارب کے واسطہ سے کی ہے۔

 

❁ تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔ اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔ ( تفہیم البخاری ) دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور والشمس و ضحٰہا یا سبح اسم یا اقتربت الساعۃ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔ یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔ پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔ طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔ اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔ قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔ ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔


❁ بَابُ الإِيجَازِ فِي الصَّلاَةِ وَإِكْمَالِهَا
❁ باب: نماز مختصر لیکن پوری پڑھنا

❁ 706 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوجِزُ الصَّلاَةَ وَيُكْمِلُهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 707 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلاَةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ» تَابَعَهُ بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ، وَابْنُ المُبَارَكِ، وَبَقِيَّةُ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ حارث بن ربعی سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں، کیوں کہ اس کی ماں کو ( جو نماز میں شریک ہو گی ) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔ ولید بن مسلم کے ساتھ اس روایت کی متابعت بشر بن بکر، بقیہ بن ولید اور ابن مبارک نے اوزاعی کے واسطہ سے کی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 708 حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: «مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً، وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر قریشی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہلکی لیکن کامل نماز میں نے کسی امام کے پیچھے کبھی نہیں پڑھی۔ آپ کا یہ حال تھا کہ اگر آپ بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو اس خیال سے کہ اس کی ماں کہیں پریشانی میں نہ مبتلا ہو جائے نماز مختصر کر دیتے۔

 

❁ تشریح : یعنی آپ کی نماز باعتبار قرات کے تو ہلکی ہوتی، چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور ارکان یعنی رکوع سجدہ وغیرہ پورے طور سے ادا فرماتے جو لوگ سنت کی پیروی کرنا چاہیں۔ ان کو امامت کی حالت میں ایسی ہی نماز پڑھانی چاہئے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

❁ 709 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلاَتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز شروع کر دیتا ہوں۔ ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طول کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ أَخَفَّ الصَّلاَةَ عِنْدَ بُكَاءِ الصَّبِيِّ
❁ باب: بچے کے رونے پر نماز کو مختصر کرنا

 ❁ 710 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ، فَأُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ، فَأَتَجَوَّزُ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ» وَقَالَ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن ابراہیم بن عدی نے سعید بن ابی عروبہ کے واسطہ سے خبر دی، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھتا ہوں، ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کو طویل کروں گا، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں اس درد کو سمجھتا ہوں جو بچے کے رونے کی وجہ سے ماں کو ہو جاتا ہے۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے کہا ہم سے ابان بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح :ان جملہ احادیث سے آپ کی شفقت ظاہر ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوا کرتی تھیں، ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے پہلی رکعت میں ساٹھ آیات کو پڑھا۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اتنا اثر لیا کہ دوسری رکعت میں صرف تین آیات پڑھ کر نماز کو پورا کردیا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى ثُمَّ أَمَّ قَوْمًا
❁ باب: ایک شخص نماز پڑھ کر پھر دوسرے

❁ 711 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «كَانَ مُعَاذٌ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَأْتِي قَوْمَهُ، فَيُصَلِّي بِهِمْ»

 

❁ ترجمہ :ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نےایوب سختیانی سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے جابر سے فرمایا کہ معاذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آ کر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ أَسْمَعَ النَّاسَ تَكْبِيرَ الإِمَامِ
❁ باب: اس سے متعلق جو مقتدیوں کو امام

❁ 712 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ أَتَاهُ بِلاَلٌ يُوذِنُهُ بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ»، قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ إِنْ يَقُمْ مَقَامَكَ يَبْكِي، فَلاَ يَقْدِرُ عَلَى القِرَاءَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ»، فَقُلْتُ: مِثْلَهُ، فَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ: «إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ [ص:144] فَلْيُصَلِّ»، فَصَلَّى وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَخُطُّ بِرِجْلَيْهِ الأَرْضَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ يَتَأَخَّرُ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ أَنْ صَلِّ، فَتَأَخَّرَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَعَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَنْبِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ التَّكْبِيرَ تَابَعَهُ مُحَاضِرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کرا دی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنا مزاج ذرا ہلکا پا کر ) دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے باہر تشریف لائے۔ گویا میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے کہ آپ کے قدم زمین پر نشان کر رہے تھے۔ ابوبکر آپ کو دیکھ کر ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انھیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بازو میں بیٹھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے۔ عبداللہ بن داؤد کے ساتھ اس حدیث کو محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

 

❁ تشریح : جب مقتدی زیادہ ہوں تو دوسرا شخص تکبیر زور سے پکارے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک آلہ وجود میں آگیا ہے جسے آواز پہچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اکثر علماءکے نزدیک جائز قرار دیا گیا ہے۔


❁ بَابٌ: الرَّجُلُ يَأْتَمُّ بِالإِمَامِ وَيَأْتَمُّ النَّاسُ بِالْمَأْمُومِ
❁ باب: ایک شخص امام کی اقتداء کرے اور لوگ

❁ 713 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ثَقُلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ بِلاَلٌ يُوذِنُهُ بِالصَّلاَةِ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ»، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ وَإِنَّهُ مَتَى مَا يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» فَقُلْتُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ، وَإِنَّهُ مَتَى يَقُمْ مَقَامَكَ لاَ يُسْمِعُ النَّاسَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، قَالَ: «إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ» فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ وَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَقَامَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلاَهُ يَخُطَّانِ فِي الأَرْضِ، حَتَّى دَخَلَ المَسْجِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ أَبُو بَكْرٍ حِسَّهُ، ذَهَبَ أَبُو بَكْرٍ يَتَأَخَّرُ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ عَنْ يَسَارِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي قَائِمًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي قَاعِدًا، يَقْتَدِي أَبُو بَكْرٍ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مُقْتَدُونَ بِصَلاَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء۔

 

❁ تشریح : اسی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خود مقتدی تھے، لیکن دوسرے مقتدیوں نے ان کی اقتدا کی۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَأْخُذُ الإِمَامُ إِذَا شَكَّ بِقَوْلِ النَّاسِ؟
❁ باب: اگر امام کو شک ہو جائے

❁ 714 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ أَبِي تَمِيمَةَ السَّخْتِيَانِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنَ اثْنَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ ذُو اليَدَيْنِ: أَقَصُرَتِ الصَّلاَةُ، أَمْ نَسِيتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَصَدَقَ ذُو اليَدَيْنِ» فَقَالَ النَّاسُ: نَعَمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى اثْنَتَيْنِ أُخْرَيَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ، فَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے حضرت امام مالک بن انس سے بیان کیا، انہوں نے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ظہر کی نماز میں ) دو رکعت پڑھ کر نماز ختم کر دی تو آپ سے ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور لوگوں کی طرف دیکھ کر ) پوچھا کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! پھر آپ اٹھے اور دوسری دو رکعتیں بھی پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا۔ پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پہلے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ۔

 

❁ تشریح : یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہئے۔ ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جاسکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنی آدمی بھی کرسکتا ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَأْخُذُ الإِمَامُ إِذَا شَكَّ بِقَوْلِ النَّاسِ؟
❁ باب: اگر امام کو شک ہو جائے

❁ 715 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، فَقِيلَ: صَلَّيْتَ رَكْعَتَيْنِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ظہر کی صرف دو ہی رکعتیں پڑھیں ( اور بھول سے سلام پھیر دیا ) پھر کہا گیا کہ آپ نے صرف دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ پس آپ نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر سلام پھیرا۔ پھر دو سجدے کئے۔


❁ بَابُ إِذَا بَكَى الإِمَامُ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: امام اگر نماز میں رونے لگے

❁ 716 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ [ص:145] هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ يُصَلِّي بِالنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» قَالَتْ عَائِشَةُ لِحَفْصَةَ: قُولِي لَهُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِكَ لَمْ يُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ البُكَاءِ، فَمُرْ عُمَرَ فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ، فَفَعَلَتْ حَفْصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَهْ إِنَّكُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، مُرُوا أَبَا بَكْرٍ، فَلْيُصَلِّ لِلنَّاسِ» قَالَتْ حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: مَا كُنْتُ لِأُصِيبَ مِنْكِ خَيْرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں فرمایا کہ ابوبکر سے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ ابوبکر اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ سے فرمائیے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ نہیں ابوبکر ہی سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو آپ کو یاد کر کے گریہ و زاری کی وجہ سے لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بس چپ رہو، تم لوگ صواحب یوسف سے کسی طرح کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بعد میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو تم سے کہیں بھلائی ہونی ہے۔

 

❁ تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ رونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ جنت یا دوزخ کے ذکر پر رونا تو عین مطلوب ہے، کئی احادیث سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں رونا ثابت ہے۔ یہ حدیث پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے اور امام المحدثین رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رونے کا ذکر سنا پھر بھی آپ نے ان کو نماز کے لیے حکم فرمایا۔ پس دعویٰ ثابت کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹ سکتی۔ صواحب یوسف کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ زلیخا اور اس کے ساتھ والی عورتیں مراد ہیں۔ جن کی زبان پر کچھ تھا اور دل میں کچھ اور۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اپنے کہنے پر پچھتائی اور اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اظہا رخفگی فرمایا۔ ( رضی اللہ عنہن اجمعین )


❁ بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا
❁ باب: تکبیر کےوقت صفوں کا برابر کرنا

❁ 717 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ المَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الجَعْدِ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، يَقُولُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَكُمْ، أَوْ لَيُخَالِفَنَّ اللَّهُ بَيْنَ وُجُوهِكُمْ»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن ابوالجعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا منہ الٹ دے گا۔

 

❁ تشریح : یعنی مسخ کر دے گا۔ بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔ باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔ امام ابن حزم نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔ برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویحتمل ان یکون البخاری اخذ الوجوب من صیغہ الامر فی قولہ سووا صفوفکم و من عمعرم قولہ صلوا کما رایتمونی اصلی و من ورود الوعید علی ترکہ الخ یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم ( صفوں کو سیدھا کرو ) سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔ الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بے حد ضروری ہے۔


❁ بَابُ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ عِنْدَ الإِقَامَةِ وَبَعْدَهَا
❁ باب: تکبیر کےوقت صفوں کا برابر کرنا

❁ 718 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَقِيمُوا الصُّفُوفَ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔

 

❁ تشریح : یہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔ صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کابھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔ جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔


❁ بَابُ إِقْبَالِ الإِمَامِ عَلَى النَّاسِ، عِنْدَ تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ
 ❁ باب: صفیں برابر کرتے وقت امام کا لوگوں

❁ 719 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ: «أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، وَتَرَاصُّوا، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نماز کے لیے تکبیر کہی گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ ہماری طرف کیا اور فرمایا کہ اپنی صفیں برابر کرلو اور مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ میں تم کو اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

 

❁ تشریح : تراصوا کا مفہوم یہ ہے کہ چوناگچ دیوار کی طرح مل کر کھڑے ہو جاؤ۔ کندھے سے کندھا، قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ ملا لو۔ سورۃ صف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان اللہ یحب الدین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص ( الصف:4 ) اللہ پاک ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو اللہ کی راہ میں شیشہ پلائی ہوئی دیواروں کی طرح متحد ہو کر لڑتے ہیں۔ جب نماز میں ایسی کیفیت نہیں کرپاتے تو میدان جنگ میں کیا خاک کرسکیں گے۔ آج کل کے اہل اسلام کا یہی حال ہے۔


❁ بَابُ الصَّفِّ الأَوَّلِ
❁ باب: صف اول کا ثواب

❁ 720 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشُّهَدَاءُ: الغَرِقُ، وَالمَطْعُونُ، وَالمَبْطُونُ، وَالهَدِمُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے امام مالک کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے سمی سے، انہوں نے ابوصالح ذکوان سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ڈوبنے والے، پیٹ کی بیماری میں مرنے والے، طاعون میں مرنے والے اور دب کر مرنے والے شہید ہیں۔


❁ بَابُ الصَّفِّ الأَوَّلِ
❁ باب: صف اول کا ثواب

❁ 721  وَقَالَ: «وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاَسْتَبَقُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ، لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الصَّفِّ المُقَدَّمِ لاَسْتَهَمُوا»

 

❁ ترجمہ : فرمایا کہ اگر لوگ جان لیں جو ثواب نماز کے لیے جلدی آنے میں ہے تو ایک دوسرے سے آگے بڑھیں اور اگر عشاء اور صبح کی نماز کے ثواب کو جان لیں تو اس کے لیے ضرور آئیں۔ خواہ سرین کے بل آنا پڑے اور اگر پہلی صف کے ثواب کو جان لیں تو اس کے لیے قرعہ اندازی کریں۔

 

❁ تشریح : اتفاقاً کوئی مسلمان مرد عورت کسی پانی میں ڈوب کر مرجائے یا ہیضہ وغیرہ امراض شکم کا شکار ہو جائے، یا مرض طاعون سے فوت ہو جائے یا کسی دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مرجائے۔ ان سب کو شہیدوں کے حکم میں شمار کیا گیا ہے۔ پہلی صف سے امام کے قریب والی صف مراد ہے۔ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ آگے کی صف دوسری صف کو بھی شامل ہے اس لیے کہ وہ تیسری صف سے آگے ہے، اس طرح تیسری صف کو بھی کیوں کہ وہ چوتھی سے آگے ہے۔ یہ حدیث پہلے بھی گزر چکی ہے۔


❁ بَابٌ: إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ
❁ باب: صف برابر کرنا نماز کا پورا کرنا ہے

❁ 722 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَلاَ تَخْتَلِفُوا عَلَيْهِ، فَإِذَا رَكَعَ، فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا، فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ، وَأَقِيمُوا الصَّفَّ فِي الصَّلاَةِ، فَإِنَّ إِقَامَةَ الصَّفِّ مِنْ حُسْنِ الصَّلاَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے ہمام بن منبہ کے واسطہ سے خبر دی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہوتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے تم اس سے اختلاف نہ کرو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر پڑھو اور نماز میں صفیں برابر رکھو، کیوں کہ نماز کا حسن صفوں کے برابر رکھنے میں ہے۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ نماز میں صف درست کرنے کے لیے آدمی آگے پیچھے سرک جائے یا صف ملانے کے واسطے کسی طرف ہٹ جائے یا کسی کو کھینچ لے تو اس سے نماز میں خلل نہیں آئے گا بلکہ ثواب پائے گا کیوں کہ صف برابر کرنا نماز کا ایک ادب ہے۔ امام کے ساتھ بیٹھ کر نماز پڑھنا پہلے تھا بعد میں آپ کے آخری فعل سے یہ منسوخ ہو گیا۔


❁ بَابٌ: إِقَامَةُ الصَّفِّ مِنْ تَمَامِ الصَّلاَةِ

❁ باب: صف برابر کرنا نماز کا پورا کرنا ہے


❁ 723 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «[ص:146] سَوُّوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنَّ تَسْوِيَةَ الصُّفُوفِ مِنْ إِقَامَةِ الصَّلاَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعبہ نے قتادہ کے واسطہ سے خبر دی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں برابر رکھو کیوں کہ صفوں کا برابر رکھنا نماز کے قائم کرنے میں داخل ہے۔


بَابُ إِثْمِ مَنْ لَمْ يُتِمَّ الصُّفُوفَ ❁ 
باب: صفیں برابر نہ کرنے والوں کا گناہ ❁

❁ 724 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَدِمَ المَدِينَةَ فَقِيلَ لَهُ: مَا أَنْكَرْتَ مِنَّا مُنْذُ يَوْمِ عَهِدْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: «مَا أَنْكَرْتُ شَيْئًا إِلَّا أَنَّكُمْ لاَ تُقِيمُونَ الصُّفُوفَ» وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عُبَيْدٍ: عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، قَدِمَ عَلَيْنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ المَدِينَةَ بِهَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سعید بن عبید طائی نے بیان کیا بشیر بن یسار انصاری سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ جب وہ ( بصرہ سے ) مدینہ آئے، تو آپ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور ہمارے اس دور میں آپ نے کیا فرق پایا۔ فرمایا کہ اور تو کوئی بات نہیں صرف لوگ صفیں برابر نہیں کرتے۔ اور عقبہ بن عبید نے بشیر بن یسار سے یوں روایت کیا کہ انس رضی اللہ عنہ ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث لاکر صف برابر کرنے کا وجوب ثابت کیا ہے کیوں کہ سنت کے ترک کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خلاف کرنا نہیں کہہ سکتے، اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کرنا بموجب نص قرآنی باعث عذاب ہے۔ فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبہم فتنۃ او یصیبہم عذاب الیم ( النور:63 ) تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے زمانہ میں لوگوں نے سنت کے موافق صفیں برابر کرنا چھوڑ دی ہیں کہیں تو ایسا ہوتا ہے کہ آگے پیچھے بے ترتیب کھڑے ہوتے ہیں کہیں برابر بھی کرتے ہیں تو مونڈھے سے مونڈھا اور ٹخنے سے ٹخنہ نہیں ملاتے۔ بلکہ ایسا کرنے کو نازیبا جانتے ہیں۔ خدا کی مار ان کی عقل اور تہذیب پر۔ نمازی لوگ پروردگار کی فوجیں ہیں۔ فوج میں جو کوئی قاعدے کی پابندی نہ کرے وہ سزائے سخت کے قابل ہوتا ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )


❁ بَابُ إِلْزَاقِ المَنْكِبِ بِالْمَنْكِبِ وَالقَدَمِ بِالقَدَمِ فِي الصَّفِّ

❁ باب: کندھے سے کندھا اور قدم سے قدم ملانے کا بیان


❁ 725 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ، فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي، وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے حمید سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، صفیں برابر کر لو۔ میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص یہ کرتا کہ ( صف میں ) اپنا مونڈھا ( کندھا ) اپنے ساتھی کے مونڈھے ( کندھے ) سے اور اپنا قدم ( پاؤں ) اس کے قدم ( پاؤں ) سے ملا دیتا تھا۔

 

❁ تشریح : حضرت امام الدین فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں متفرق ابواب منعقد فرما کر اور ان کے تحت متعدد احادیث لاکر صفوں کو سیدھا کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس سلسلہ کا یہ آخری باب ہے۔ جس میں آپ نے بتلایا ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صف میں ہر نمازی اپنے قریب والے نمازی کے مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہو۔ جیسا کہ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کا بیان نقل ہوا کہ ہم اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑا ہوا کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان بھی موجو دہے۔ نیز فتح الباری، جلد:2 ص:176 پر حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ لو فعلت ذلک باحدہم الیوم لنفر کانہ بغل شموس اگر میں آج کے نمازیوں کے ساتھ قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ اس سے سرکش خچر کی طرح دور بھاگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد صحابہ کے ختم ہوتے ہوتے مسلمان اس درجہ غافل ہونے لگے تھے کہ ہدایت نبوی کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدموں سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بننے لگ گیا تھا۔ جس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایسا کہنا پڑا۔ اس بارے میں اور بھی کئی ایک احادیث وارد ہوئی ہیں۔ روی ابوداود و الامام احمد عن ابن عمر انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام قال اقیموا صفوفکم و حاذوا بین المناکب و سدوا الخلل و لینوا بایدی اخوانکم لا تذروا فرجات الشیطان من وصل صفا و صلہ اللہ و من قطع صفا قطعہ اللہ و روی البزار باسناد حسن عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام من سد فرجۃ فی الصف غفر اللہ و فی ابی داود عنہ علیہ الصلوٰۃ و السلام قال خیارکم الینکم مناکب فی الصلوٰۃ۔ یعنی ابوداؤد اور مسند احمد میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صفیں سیدھی کرو اور کندھوں کو برابر کرو۔ یعنی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو جاؤ اور جو سوراخ دو نمازیوں کے درمیان نظر آئے اسے بند کردو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ نرمی اختیار کرو اور شیطان کے گھسنے کے لیے سوراخ کی جگہ نہ چھوڑو۔ یاد رکھو کہ جس نے صف کو ملایا خدا اس کو بھی ملا دے گا اور جس نے صف کو قطع کیا خدا اس کو قطع کرے گا۔ بزار میں سند حسن سے ہے کہ جس نے صف کی دراڑ کو بند کیا خدااس کو بخشے۔ ابوداؤد میں ہے کہ تم میں وہی بہتر ہے جو نماز میں کندھوں کو نرمی کے ساتھ ملائے رکھے۔ و عن النعمان بن بشیر قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسوی صفوفنا کانما یسوی بہ القداح حتی رای انا قد عقلنا عنہ ثم خرج یوما فقام حتی کاد ان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباد اللہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم رواہ الجماعۃ الا البخاری فان لہ منہ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین وجوہکم۔ ولاحمد و ابی داود فی روایۃ قال فرایت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ و رکبتہ برکبتہ و منکبہ بمنکبہ۔ ( نیل الاطار ج:3ص:199 ) یعنی نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری صفوں کو اس طرح سیدھا کراتے گویا اس کے ساتھ تیر کو سیدھا کیا جائے گا۔ یہاں تک کہ آپ کو اطمینان ہوگیا کہ ہم نے اس مسئلہ کو آپ سے خوب سمجھ لیا ہے۔ ایک دن آپ مصلے پر تشریف لائے اور ایک آدمی کو دیکھا کہ اس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا اللہ کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرلو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان باہمی طور پر اختلاف ڈال دے گا۔ بخاری شریف میں یوں ہے کہ اپنی صفوں کو بالکل برابر کر لیا کرو۔ ورنہ تمہارے چہروں میں آپس میں اللہ مخالفت ڈال دے گا۔ اور احمد اور ابوداؤد کی روایات میں ہے کہ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی اپنے ساتھی کے کندھے سے کندھے اور قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخہ ملایا کرتا تھا۔ امام محمد کتاب الآثار باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں: عن ابراہیم انہ کان یقول سووا صفوفکم و سووا مناکبکم تراصوا و لایتخللنکم الشیطان الخ قال محمد و بہ ناخذ لا ینبغی ان یترک الصف و فیہ الخلل حتی یسووا و ہو قول ابی حنفیۃ یعنی ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور گچ کرو ایسا نہ ہو کہ شیطان بکری کے بچہ کی طرح تمہارے درمیان داخل ہو جائے۔ امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اسی کو لیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا لائق نہیں۔ جب تک ان کو درست نہ کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ نیز بحر الرائق و عالمگیری و درمختار میں بھی یہی ہے کہ ینبغی للمامون ان یتراصوا و ان یسدو الخلل فی الصفوف و یسووا مناکبہم وینبغی للامام ان یامرہم بذلک و ان یقف وسطہم یعنی مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو چونا گچ کریں صفوں میں درازوں کو بند کردیں اور شانوں کو ہموار رکھیں بلکہ امام کے لیے لائق ہے کہ مقتدیوں کو اس کا حکم کرے پھر بیچ میں کھڑا ہو۔ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے کہ جب صفوں میں کھڑے ہوں تو گچ کریں اور کندھے ہموار کرلیں۔ ( شامی، ج:1ص:595 ) یہ تفصیل اس لیے پیش کی گئی ہے کہ صفوں کو سیدھا کرنا، پیر سے پیر ملاکر کھڑا ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔ اس کے باوجود آج کل مساجد میں صفوں کا منظر یہ ہوتا ہے کہ ہر نمازی دوسرے نمازی سے دور بالکل ایسے کھڑا ہوتا ہے جیسے کچھ لوگ اچھوتوں سے اپنا جسم دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قدم سے قدم ملانے کی کوشش کی جائے تو ایسے سرک کر الگ ہو جاتے ہیں جیسے کہ کسی بچھو نے ڈنک ماردی ہو۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ملت کے باہمی طور پر دل نہیں مل رہے ہیں۔ باہمی اتفاق مفقود ہے سچ ہے صفیں کج، دل پریشان، سجدہ بے ذوق کہ انداز جنوں باقی نہیں ہے عجیب فتوی: ہمارے محترم دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ اس سے مقصد پوری طرح صفوں کو درست کرنا ہے تاکہ درمیان میں کسی قسم کی کوئی کشادگی باقی نہ رہے۔ ( تفہیم البخاری پ:3 ص:108 ) بالکل درست اور بجا ہے کہ شارع کا یہ مقصد ہے اور لفظ تراصوا کا یہی مطلب ہے کہ نمازیوں کی صفیں چوناگچ دیواروں کی طرح ہونی ضروری ہیں۔ درمیان میں ہرگز ہرگز کوئی سوراخ باقی نہ رہ جائے۔ مگر اسی جگہ آگے ارشاد ہوتا ہے کہ فقہائے اربعہ کے یہاں بھی یہی مسئلہ ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان چار انگلیوں کا فرق ہونا چاہئے۔ ( حوالہ مذکور ) تفصیلات بالا میں شارع کا مقصد ظاہر ہوچکا ہے کہ صف میں ہر نمازی کا دوسرے نمازی کے قدم سے قدم، ٹخنے سے ٹخنہ، کندھے سے کندھا ملانا مقصود ہے۔ اکابر احناف کا بھی یہی ارشاد ہے پھر یہ “ دو آدمیوں کے درمیان چار انگل کے فرق کا فتوی ” سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا مطلب رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کمال ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی صحیح حدیث بطور دلیل پیش کی جاسکتی ہے نہ کسی صحابی و تابعی کا کوئی قول۔ پھر یہ چار انگل کے فاصلے کی اختراع کیا وزن رکھتی ہے؟ اسی فتویٰ کا شاید یہ نتیجہ ہے کہ مساجد میں جماعتوں کا عجیب حال ہے۔ چار انگل کی گنجائش پاکر لوگ ایک ایک فٹ دور کھڑے ہوتے ہیں اور باہمی قدم مل جانے کو انتہائی خطرناک تصور کرتے ہیں اور اس پرہیز کے لیے خاص اہتمام کیا جاتاہے۔ کیا ہمارے انصاف پسند و حقیقت شناس علمائے کرام اس صورت حال پر محققانہ نظر ڈال کر اصلاح حال کی کوشش فرما سکیں گے۔ ورنہ ارشاد نبوی آج بھی پکار پکا ر کر اعلان کر رہا ہے۔ لتسون صفوفکم او لیخالفن اللہ بین قلوبکم صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صفیں برابر کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں باہمی اختلاف ڈال دے گا۔


❁ بَابٌ: إِذَا قَامَ الرَّجُلُ عَنْ يَسَارِ الإِمَامِ، وَحَوَّلَهُ الإِمَامُ، خَلْفَهُ إِلَى يَمِينِهِ تَمَّتْ صَلاَتُهُ
❁ باب: اگر کوئی امام کے بائیں طرف کھڑا ہو

❁ 726 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسِي مِنْ وَرَائِي، فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى وَرَقَدَ، فَجَاءَهُ المُؤَذِّنُ، فَقَامَ وَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے داؤد بن عبدالرحمن نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( آپ کے گھر میں تہجد کی ) نماز پڑھی۔ میں آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کر دیا۔ پھر نماز پڑھی اور آپ سو گئے جب مؤذن ( نماز کی اطلاع دینے ) آیا تو آپ نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے اور وضو نہیں کیا۔

 

❁ تشریح : سو جانے پر بھی آپ کا وضو باقی رہتا تھا۔ ا س لیے کہ دل جاگتا اور ظاہر میں آنکھیں سو جاتی تھیں۔ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہے۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابٌ: المَرْأَةُ وَحْدَهَا تَكُونُ صَفًّا

❁ باب: اکیلی عورت ایک صف کا حکم رکھتی ہے


❁ 727 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ، فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ میں نے اور ایک یتیم لڑکے ( ضمیرہ بن ابی ضمیرہ ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں۔

 

❁ تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ ام سلیم اکیلی تھیں مگر لڑکوں کے پیچھے اکیلی صف میں کھڑی ہوئیں۔


❁ بَابُ مَيْمَنَةِ المَسْجِدِ وَالإِمَامِ

❁ باب: مسجد اور امام کی داہنی جانب کا بیان


❁ 728 حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «قُمْتُ لَيْلَةً أُصَلِّي عَنْ يَسَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَ بِيَدِي – أَوْ بِعَضُدِي – حَتَّى أَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ، وَقَالَ بِيَدِهِ مِنْ وَرَائِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عاصم احول نے عامر شعبی سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ میں ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف ( آپ کے گھر میں ) نماز ( تہجد ) پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اس لیے آپ نے میرا سر یا بازو پکڑ کر مجھ کو اپنی دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا تھا کہ پیچھے سے گھوم آؤ۔

 

❁ تشریح : اس حدیث میں فقط امام کے داہنی طرف کا بیان ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جس کو نسائی نے براءسے نکالا کہ ہم جب آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تو داہنی جانب کھڑا ہونا پسند کرتے تھے۔ اور ابوداؤد نے نکالا کہ اللہ رحمت اتارتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں صفوں کے داہنے جانب والوں کے لیے اور یہ اس کے خلاف نہیں جو دوسری حدیث میں ہے کہ جو کوئی مسجد کا بایاں جانب معمور کرے تواس کو اتنا ثواب ہے۔ کیوں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے۔ دوسرے یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب سب لوگ داہنی جانب کھڑے ہونے لگے اور بایاں جانب بالکل اجڑ گیا۔ ( وحیدی


❁ بَابُ إِذَا كَانَ بَيْنَ الإِمَامِ وَبَيْنَ القَوْمِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَةٌ
❁ باب: جب امام اور مقتدیوں کے درمیان کوئی

❁ 729 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فِي حُجْرَتِهِ، وَجِدَارُ الحُجْرَةِ قَصِيرٌ، فَرَأَى النَّاسُ شَخْصَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، فَأَصْبَحُوا فَتَحَدَّثُوا [ص:147] بِذَلِكَ، فَقَامَ اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ، فَقَامَ مَعَهُ أُنَاسٌ يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، صَنَعُوا ذَلِكَ لَيْلَتَيْنِ – أَوْ ثَلاَثًا – حَتَّى إِذَا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَخْرُجْ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذَكَرَ ذَلِكَ النَّاسُ فَقَالَ: «إِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْكُمْ صَلاَةُ اللَّيْلِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدہ بن سلیمان نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنے حجرہ کے اندر ( تہجد کی ) نماز پڑھتے تھے۔ حجرے کی دیواریں پست تھیں اس لیے لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا اور کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر دوسروں سے کیا۔ پھر جب دوسری رات آپ کھڑے ہوئے تو کچھ لوگ آپ کی اقتدا میں اس رات بھی کھڑے ہو گئے۔ یہ صورت دو یا تین رات تک رہی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ رہے اور نماز کے مقام پر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کے وقت لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ڈرا کہ کہیں رات کی نماز ( تہجد ) تم پر فرض نہ ہو جائے۔ ( اس خیال سے میں نے یہاں کا آنا ناغہ کر دیا


❁ بَابُ صَلاَةِ اللَّيْلِ

باب: رات کی نماز کا بیان ❁ 


❁ 730 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَهُ حَصِيرٌ، يَبْسُطُهُ بِالنَّهَارِ، وَيَحْتَجِرُهُ بِاللَّيْلِ، فَثَابَ إِلَيْهِ نَاسٌ، فَصَلَّوْا وَرَاءَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن اسماعیل بن ابی فدیک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، مقبری کے واسطہ سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چٹائی تھی۔ جسے آپ دن میں بچھاتے تھے اور رات میں اس کا پردہ کر لیتے تھے۔ پھر چند لوگ آپ کے پاس کھڑے ہوئے یا آپ کی طرف جھکے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھنے لگے۔


❁ بَابُ صَلاَةِ اللَّيْلِ
❁ باب: رات کی نماز کا بیان

❁ 731 حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً – قَالَ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ مِنْ حَصِيرٍ – فِي رَمَضَانَ، فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ، فَصَلَّى بِصَلاَتِهِ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا عَلِمَ بِهِمْ جَعَلَ يَقْعُدُ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ: «قَدْ عَرَفْتُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ، فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّلاَةِ صَلاَةُ المَرْءِ فِي بَيْتِهِ إِلَّا المَكْتُوبَةَ» قَالَ عَفَّانُ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى، سَمِعْتُ أَبَا النَّضْرِ، عَنْ بُسْرٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ابوالنضر سالم سے، انہوں نے بسر بن سعید سے، انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں ایک حجرہ بنا لیا یا اوٹ ( پردہ ) بسر بن سعید نے کہا میں سمجھتا ہوں وہ بورئیے کا تھا۔ آپ نے کئی رات اس میں نماز پڑھی۔ صحابہ میں سے بعض حضرات نے ان راتوں میں آپ کی اقتدا کی۔ جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیٹھ رہنا شروع کیا ( نماز موقوف رکھی ) پھر برآمد ہوئے اور فرمایا تم نے جو کیا وہ مجھ کو معلوم ہے، لیکن لوگو! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھتے رہو کیوں کہ بہتر نماز آدمی کی وہی ہے جو اس کے گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز ( مسجد میں پڑھنی ضروری ہے ) اور عفان بن مسلم نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوالنضر ابن ابی امیہ سے سنا، وہ بسر بن سعید سے روایت کرتے تھے، وہ زید بن ثابت سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

 

❁ تشریح : اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ موسیٰ بن عقبہ کا سماع ابوالنضر سے ثابت کریں جس کی اس روایت میں تصریح ہے۔


❁ بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ، وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
❁ باب: تکبیر تحریمہ کا واجب ہونا

❁ 732 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الأَنْصَارِيُّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ فَرَسًا فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ – قَالَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فَصَلَّى لَنَا يَوْمَئِذٍ صَلاَةً مِنَ الصَّلَوَاتِ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ قُعُودًا، ثُمَّ قَالَ لَمَّا سَلَّمَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ

 

❁ ترجمہ :ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے یہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعیب نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے اور ( گر جانے کی وجہ سے ) آپ کے دائیں پہلو میں زخم آ گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس دن ہمیں آپ نے ایک نماز پڑھائی، چونکہ آپ بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر سلام کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو

 

❁ تشریح : جب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جماعت اور امامت کے ذکر سے فارغ ہوئے تو اب صفت نماز کا بیان شروع کیا۔ بعض نسخوں میں باب کے لفظ کے پہلے یہ عبارت ہے: ابواب صفۃ الصلوٰۃ لیکن اکثر نسخوں میں یہ عبارت نہیں ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل اور شافعیہ اور مالکیہ سب کے نزدیک نماز کے شروع میں اللہ اکبر کہنا فر ض ہے اور کوئی لفظ کافی نہیں اور حنفیہ کے نزدیک کوئی لفظ جو اللہ کی تعظیم پر دلالت کرے کافی ہے۔ جیسے اللہ اجل یا اللہ اعظم ( وحیدی ) مگر احادیث واردہ کی بنا پر یہ خیال صحیح نہیں ہے۔


❁ بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ، وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ

❁ باب: تکبیر تحریمہ کا واجب ہونا


❁ 733 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّهُ قَالَ: خَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسٍ، فَجُحِشَ، فَصَلَّى لَنَا قَاعِدًا فَصَلَّيْنَا مَعَهُ قُعُودًا، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: إِنَّمَا الإِمَامُ – أَوْ إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ – لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر گئے اور آپ زخمی ہو گئے، اس لیے آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی اور ہم نے بھی آپ کی اقتداء میں بیٹھ کر نماز پڑھی۔ پھر نماز پڑھ کر آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا و لک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی کرو۔


❁ بَابُ إِيجَابِ التَّكْبِيرِ، وَافْتِتَاحِ الصَّلاَةِ
❁ باب: تکبیر تحریمہ کا واجب ہونا

❁ 734 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا [ص:148]، وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوالزناد نے مجھ سے بیان کیا اعرج کے واسطہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔

 

❁ تشریح : اس بارے میں بھی قدرے اختلاف ہے۔ بہتر یہی ہے کہ امام و مقتدی ہر دو سمع اللہ لمن حمدہ کہیں اور پھر ہر دو ربنا و لک الحمد کہیں۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ بذیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکعۃ ثم یقول وہو قائم ربنا و لک الحمد فرماتے ہیں: ربنا لک الحمد بحذف الواو و فی روایۃ باثباتہا و قد تقدم ان الروایۃ بثبوت الواو ارجح و ہی عاطفۃ علی مقدر ای ربنا اطعناک و حمدناک و لک الحمدو قیل زائدۃ قال الاصمعی سالت ابا عمرو عنہا فقال زائہدۃ تقول العرب یعنی ہذا فیقول المخاطب نعم و ہو لک بدرہم فالواو زائدۃ و قیل ہی واو الحال قالہ ابن الاثیر و ضعف ما عداہ و فیہ ان التسمیع ذکر النہوض و الرفع و التحمید ذکر الاعتدال و استدل بہ علی انہ یشرع الجمیع بین التسمیع و التحمید لکل مصل من امام و منفرد و موتم اذ ہو حکایۃ لمطلق صلوٰتہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ( مرعاۃ، ج:1 ص: 559 ) ربنا لک الحمد حذف واؤ کے ساتھ اور بعض روایات میں اثبات واؤ کے ساتھ مروی ہے اور ترجیح اثبات واؤ کو ہی ہے جو واؤ عطف ہے اور معطوف علیہ مقدر ہے۔ یعنی اے رب ہمارے! ہم نے تیری اطاعت کی، تیری تعریف کی اور تعریف تیرے ہی لیے ہیں۔ بعض لوگوں نے محاورہ عرب کے مطابق اسے واؤ زائدہ بھی کہا ہے۔ بعض نے واؤ حال کے لیے مانا ہے، اس حدیث ابوہریرہ سے معلوم ہوا کہ لفظ سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ رکوع میں جھکنے اور اس سے سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ اور ربنا ولک الحمد کہنا یہ کھڑے ہو کر اعتدال پر آجانے کے وقت کا ذکر ہے۔ اسی لیے مشروع ہے کہ امام ہو یا منفرد یا مقتدی سب ہی سمع اللہ لمن حمدہ پھر ربنا و لک الحمد کہیں۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز اسی طرح نقل کی گئی ہے اورآپ کا ارشاد ہے کہ تم اسی طرح نماز پڑھو جیسے تم نے مجھ کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔


❁ بَابٌ: رَفْعُ اليَدَيْنِ فِي التَّكْبِيرَةِ

❁ باب: تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھوں


❁ 735 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلاَةَ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا، وَقَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَكَانَ لاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے، انہو ں نے ابن شہاب زہری سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ ( عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھاتے، اسی طرح جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھاتے اور رکوع سے سر مبارک اٹھاتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ ربنا و لک الحمد کہتے تھے۔ سجدہ میں جاتے وقت رفع یدین نہیں کرتے تھے۔


❁ بَابُ رَفْعِ اليَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ
❁ باب: تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین

❁ 736 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ فِي الصَّلاَةِ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يَكُونَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يُكَبِّرُ لِلرُّكُوعِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، وَيَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السُّجُودِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس بن یزید ایلی نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انہوں نے بتلایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو تکبیر تحریمہ کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ آپ کے دونوں ہاتھ اس وقت مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھے اور اسی طرح جب آپ رکوع کے لیے تکبیر کہتے اس وقت بھی کرتے۔ اس وقت آپ کہتے سمع اللہ لمن حمدہ البتہ سجدہ میں آپ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔


❁ بَابُ رَفْعِ اليَدَيْنِ إِذَا كَبَّرَ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ
❁ باب: تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین

❁ 737 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الحُوَيْرِثِ «إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ»، وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا خالد حذاء سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ انہوں نے مالک بن حویرث صحابی کو دیکھا کہ جب وہ نماز شروع کرتے تو تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرتے، پھر جب رکوع میں جاتے اس وقت رفع یدین کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی کرتے اور انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔


❁ بَاب إِلَى أَيْنَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ فِي أَصْحَابِهِ رَفَعَ النَّبِيُّ ﷺ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ
❁ باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہیے اور ابو حمید

❁ 738 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ افْتَتَحَ التَّكْبِيرَ فِي الصَّلاَةِ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ حَتَّى يَجْعَلَهُمَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ، وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَهُ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَعَلَ مِثْلَهُ، وَقَالَ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَلاَ يَفْعَلُ ذَلِكَ حِينَ يَسْجُدُ، وَلاَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر تحریمہ سے شروع کرتے اور تکبیر کہتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں ( کندھوں ) تک اٹھا کر لے جاتے اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی اسی طرح کرتے اور ربنا و لک الحمد کہتے۔ سجدہ کرتے وقت یا سجدے سے سر اٹھاتے وقت اس طرح رفع یدین نہیں کرتے تھے۔


❁ بَابُ رَفْعِ اليَدَيْنِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ
❁ باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہئے

❁ 739 حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، كَانَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلاَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا رَكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَفَعَ يَدَيْهِ، وَإِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ رَفَعَ يَدَيْهِ ، وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ ابْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَمُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مُخْتَصَرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔ ( کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : تکبیر تحریمہ کے وقت اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور تیسری رکعت کے لیے اٹھنے کے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا رفع الیدین کہلاتا ہے، تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین پر ساری امت کا اجماع ہے۔ مگر بعد کے مقامات پر ہاتھ اٹھانے میں اختلاف ہے۔ ائمہ کرام و علماءاسلام کی اکثریت حتی کہ اہل بیت سب باالاتفاق ان مقامات پر رفع الیدین کے قائل ہیں، مگر حنفیہ کے ہاں مقامات مذکورہ میں رفع الیدین نہیں ہے کچھ علمائے احناف اسے منسوخ قرار دیتے ہیں، کچھ ترک رفع کو اولیٰ جانتے ہیں کچھ دل سے قائل ہیں مگر ظاہر میںعمل نہیں ہے۔ فریقین نے اس بارے میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔ ہر دو جانب سے خاص طور پر آج کے دور پرفتن میں بہت سے کاغذ سیاہ کئے گئے ہیں۔ بڑے بڑے مناظرے ہوئے ہیں۔ مگر بات ابھی تک جہاں تھی وہیں پر موجود ہے۔ ایک ایسے جزئی مسئلہ پر اس قدر تشدد بہت ہی افسوسناک ہے۔ کتنے عوام ہیں جو کہتے ہیں کہ شروع اسلام میں لوگ بغلوں میں بت رکھ لیا کرتے تھے اس لیے رفع یدین کا حکم ہوا تاکہ ان کے بغلوں کے بت گرجایا کریں۔ استغفرا اللہ! یہ ایسا جھوٹ ہے جو شایدا سلام کی تاریخ میں اس کے نام پر سب سے بڑا جھوٹ کہا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ اس سنت نبوی کو مکھی اڑانے سے تشبیہ دے کر توہین سنت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کاش! علماءاحناف غور کرتے اور امت کے سوادا عظم کو دیکھ کر جواس کے سنت ہونے کے قائل ہیں کم از کم خاموشی اختیار کر لیتے تو یہ فساد یہاں تک نہ بڑھتا۔ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بڑی تفصیلات کے بعد فیصلہ دیا ہے۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ پیا را ہے۔ اس لیے کہ احادیث رفع بکثرت ہیں اور صحیح ہیں جن کی بنا پر انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ محض بدگمانیوں کے دور کرنے کے لیے کچھ تفصیلات ذیل میں دی جاتی ہیں۔ امید ہے کہ ناظرین کرام تعصب سے ہٹ کر ان کا مطالعہ کریں گے اور طاقت سے بھی زیادہ سنت رسول کا احترام مد نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں میں باہمی اتفاق کے لیے کوشاں ہوں گے کہ وقت کا یہی فوری تقاضا ہے۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں :۔ معناہ تظیم للہ و اتباع لسنۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھانے پر رفع یدین کرنے سے ایک تو اللہ کی تعظیم اور دوسرے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع مراد ہے۔ ( نووی ص168 وغیرہ ) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رفع الیدین من زینۃ الصلوۃ کہ یہ رفع یدین نماز کی زینت ہے۔ ( عینی، جلد3ص: 7 وغیرہ ) اور حضرت نعمان بن ابی عیاش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ لکل شیی زینۃ و زینۃ الصلوٰۃ ان ترفع یدیک اذا کبرت و اذا رکعت و اذا رفعت راسک من الرکوع کہ ہر چیز کے لیے ایک زینت ہوتی ہے اور نماز کی زینت شروع نماز میں اور رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرنا ہے۔ ( جزءبخاری ص21 ) اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہو من تمام الصلوٰۃ کہ نماز میں رفع یدین کرنا نماز کی تکمیل کا باعث ہے۔ ( جزءبخاری، ص17 ) اور عبدالملک فرماتے ہیں۔ سالت سعید بن جبیر عن رفع الیدین فی الصلوٰۃ فقال ہو شیی تزین بہ صلوتک ( بیہقی، جلد: 2 ص: 75 ) کہ میں نے سعید بن جبیر سے نماز میں رفع یدین کرنے کی نسبت پوچھا، تو انہوں نے کہا یہ وہ چیز ہے کہ تیری نماز کو مزین کردیتی ہے۔ اورحضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ من رفع یدیہ فی الصلوٰۃ لہ بکل اشارۃ عشر حسنات کہ نماز میں ایک دفعہ رفع یدین کرنے سے دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ ( فتاوی امام ابن تیمیہ، ص: 376 ) گویا دو رکعت میں پچاس اور چار رکعت میں سو نیکیوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ مرویات بخاری کے علاوہ مندرجہ ذیل روایات صحیحہ سے بھی رفع الیدین کا سنت ہونا ثابت ہے۔ عن ابی بکر الصدیق قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکان برفع یدیہ اذا افتتح الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ ہمیشہ شروع نماز میں اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( بیہقی، جلد: 2 ص: 73 ) امام بیہقق، امام سبکی، امام ابن حجر فرماتے ہیں۔ رجالہ ثقات کہ اس حدیث کے سب راوی ثقہ ہیں۔ ( بیہقی، جلد:2 ص : 73، تلخیص، ص: 82، سبکی، ص:6 ) و قال الحاکم انہ محفوظ حاکم نے کہا یہ حدیث محفوظ ہے۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 82 ) عن عمر بن الخطاب انہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برفع یدیہ اذا کبر و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الدار قطنی جزءسبکی: ص6 ) و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ ہمیشہ رکوع جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 ) امام بیہقی اور حاکم فرماتے ہیں۔ فقد روی ہذہ السنۃ عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم کہ رفع یدین کی حدیث جس طرح حضرت ابوبکر و عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ( تعلیق المغنی، ص: 111 ) نیز حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی یہی مروی ہے۔ علامہ سبکی فرماتے ہیں۔ الذین نقل عنہم روایۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر و عثمان و علی وغیرہم رضی اللہ عنہم کہ جن صحابہ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے رفع یدین کی روایت نقل کی ہے حضرت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی وغیرہ رضی اللہ عنہم بھی انہیں میں سے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 9 ) و عن علی بن ابی طالب ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا کبر للصلوٰۃ حذو منکبیہ و اذا اراد ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( جزءبخاری، ص: 6 ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اور جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے اور جب دو رکعتوں سے کھڑے ہوتے تو تکبیر تحریمہ کی طرح ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( ابوداؤد، جلد: 1ص: 198، مسند احمد، جلد: 3 ص : 165، ابن ماجہ، ص: 62 وغیرہ ) عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ حذو منکبیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا کبر للرکوع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفعہما کذلک۔ حضرت عبداللہ بن عمر فاروق رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تحقیق کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو ہمیشہ اپنے دونوں ہاتھوں کو مونڈھوں تک اٹھایا کرتے تھے۔ پھر جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اسی طرح اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ ( مسلم، ص: 168، ابوداؤد جلد: 1 ص: 192، ترمذی، ص: 36، وغیرہ، ان کے علاوہ اکیس کتابوں میں یہ حدیث موجود ہے۔ ) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشق سنت نے کان یرفع یدیہ فرما کر اور موجب روایت بیہقی آخر میں حتی لقی اللہ لاکر یہ ثابت کردیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے نبوت سے لے کر اپنی عمر شریف کی آخری نماز تک رفع یدین کرتے رہے۔ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کان یرفع یدیہ الخ کے تحت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: ہذا دلیل صریح علی ان رفع الیدین فی ہذہ المواضع سنۃ و ہو الحق و الصواب نقل البخاری فی صحیحہ عقب حدیث ابن عمر ہذا عن شیخہ علی بن المدینی انہ قال حق علی المسلمین ان یرفعوا ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لحدیث ابن عمر ہذا و ہذا فی روایۃ ابن العساکر و قد ذکرہ البخاری فی جزءرفع الیدین و زاد و کان اعلم اہل زمانہ انتہی۔ و روی ابن عبدالبر بسندہ عن الحسن البصری قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یرفعون ایدیہم فی الصلوۃ اذا رکعوا و اذا رفعوا کانہا المراوح و روی البخاری عن حمید بن ہلال قال کان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کانما ایدیہم المراوح یرفعونہا اذا رکعوا و اذا رفعوا روسہم قال البخاری و لم یستثن الحسن احدا منہم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسم دون احد و لم یثبت عند اہل العلم عن احد من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ لم یرفع یدیہ ثم ذکر البخاری عن عدۃ من علماءاہل مکۃ و اہل الحجاز و اہل العراق و الشام و البصرۃ و الیمن و عدۃ من اہل خراسان و عامۃ اصحاب ابن المبارک و محدثی اہل بخاری و غیرہم ممن لا یحصی انہم کانوا یرفعون ایدیہم عند الرکوع و الرفع منہ لا اختلاف منہم فی ذلک الخ ( مرعاۃ ج: 1 ص 529 ) خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ یہ حدیث اس امر پر صریح دلیل ہے کہ ان مقامات پر رفع الیدین سنت ہے۔ اور یہی حق اور صواب ہے اورامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد علی بن المدینی سے نقل کیا ہے کہ مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو ( کاندھوں تک یا کانوں کی لو تک ) اٹھائیں۔ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام اہل علم کا یہی مسلک ہے اورمحمد بن نصر مروزی کہتے ہیں کہ سوائے اہل کوفہ کے تمام علمائے امصار نے اس کی مشروعیت پر اجماع کیا ہے۔ جملہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ امام حسن بصری نے اصحاب نبوی میں اس بارے میں کسی کا استثناءنہیں کیا۔ پھر بہت سے اہل مکہ واہل حجاز و اہل عراق و اہل شام اور بصرہ اور یمن اور بہت سے اہل خراسان اور جمیع شاگردان عبداللہ بن مبارک اور جملہ محدثین بخارا وغیرہ جن کی تعداد شمار میں بھی نہیں آسکتی، ان سب کا یہی عمل نقل کیا ہے کہ وہ رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ مندرجہ ذیل احادیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔ عن انس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا دخل فی الصلوٰۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع ( رواہ ابن ماجۃ ) ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ( جو دس سال دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے ) فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز میں داخل ہوتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کرتے۔ و سندہ صحیح۔ سبکی نے کہا سند اس کی صحیح ہے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، بیہقی، جلد: 2 ص74، دار قطنی، ص: 108، جزءبخاری، ص:9، تلخیص، ص: 82، جزءسبکی، ص: 4 ) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کان یرفع فرما کر واضح کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال میں ایسی کوئی نماز نہیں پڑھی، جس میں رفع یدین نہ کیا۔ ( تخریج زیلعی، جلد: 1ص: 24، مجمع الزوائد، ص: 182، التعلیق المغنی، ص: 110 ) عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص: 13 ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ابن ماجہ، ص: 62 ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کان یرفع فرمایا جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن ابی الزبیر ان جابر بن عبداللہ کان اذا افتتح الصلوٰۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع فعل مثل ذلک و یقول رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعل ذلک۔ ( رواہ ابن ماجۃ، ص: 62 ) و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ ( جزءبخاری، ص:12 ) اس حدیث میں کان یرفع موجود ہے جو ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ عن ابی موسی قال ہل اریکم صلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکبر و رفع یدیہ ثم قال سمع اللہ لمن حمدہ و رفع یدیہ ثم قال ہذا فاصنعوا ( رواہ الدارمی، جزءرفع الیدین، سبکی، ص: 5 ) و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع واذا رفع راسہ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے مجمع عام میں کہا۔ آؤ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھ کر دکھاؤں۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کی۔ جب رکوع کے لیے تکبیر کہے تو دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر جب انہوں نے سمع اللہ لمن حمدہ کہا تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور فرمایا۔ لوگو! تم بھی اسی طرح نماز پڑھا کرو۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جانے سے پہلے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( دارمی، دار قطنی، ص: 109، تلخیص الحبیر ص : 81، جزءبخاری، ص: 13، بیہقی، ص: 74 ) اس حدیث میں بھی کان یرفع موجود ہے جو دوام کے لیے ہے۔ مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔ ہی صحیحۃ یہ حدیث صحیح ہے۔ ( العرف الشذی، ص: 125 ) عن ابی ہریرۃ انہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا کبر للصلوٰۃ جعل یدیہ حذو منکبیہ و اذا رکع فعل مثل ذلک و اذا رفع للسجود فعل مثل ذلک و اذا قام من الرکعتین فعل مثل ذلک ( رواہ ابوداود ) و عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عند الرکوع و اذا رفع راسہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز کے لیے اللہ اکبر کہتے ہیں تو اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھاتے اور اسی طرح جب رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو ہمیشہ کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ اس میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے۔ ( ابوداؤد، جلد:1 ص: 197، بیہقی، جلد:2 ص: 74، و رجالہ رجال صحیح تلخیص، ص: 82، و تخریج زیلعی، جلد:1 ص: 315 ) عن عبیدبن عمیرعن ابیہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ عندالرکوع واذا رفع راسہ۔ ( جزءبخاری، ص: 3 ) حضرت عبیدبن عمیر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اس حدیث میں بھی کان یرفع صیغہ استمراری موجود ہے جو دوام پر دلالت کرتاہے۔ عن البراءبن عازب قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا افتتح الصلوۃ رفع یدیہ و اذا ارار ان یرکع و اذا رفع راسہ من الرکوع۔ ( رواہ الحاکم و البیہقی ) براءبن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے بچشم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( حاکم، بیہقی، جلد: 2 ص: 77 ) عن قتادۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یرفع یدیہ اذا رکع و اذا رفع رواہ عبدالرزاق فی جامعہ۔ ( سبکی، ص: 8 ) قال الترمذی و فی الباب عن قتادۃ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ہی رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( ترمذی ص36 ) عن ابی حمید قال فی عشرۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم انا اعلمکم بصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالوا فاذکر قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا قام الی الصلوۃ رفع یدیہ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ حضرت ابوحمید نے دس صحابہ کی موجودگی میں فرمایا کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اچھی طرح واقف ہوں، انہوں نے کہا کہ اچھا بتاؤ، ابوحمید نے کہا۔ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی اپنے ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے کہا صدقت ہکذا کان یصلی بے شک تو سچا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءسبکی، ص: 4 ) اس حدیث میں کان یصلی قابل غور ہے جو دوام اور ہمیشگی پر دلالت کرتا ہے۔ ( جزءبخاری، ص: 8، ابوداؤد، ص : 194 ) عن عبداللہ بن الزبیر انہ صلی بہم یشیر بکفیہ حین یقوم و حین یرکع و حین یسجد و حین ینہض فقال ابن عباس من احب ان ینظر الی صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیقتد بابن الزبیر حضرت عبداللہ بن زبیر نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہونے کے وقت اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سر اٹھانے اور دو رکعتوں سے کھڑے ہونے کے وقت دونوں ہاتھ اٹھائے۔ پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، لوگو! جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پسند کرتاہو اس کو چاہئے کہ عبداللہ بن زبیر کی نماز پڑھے کیوں کہ یہ بالکل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ ( ابوداؤد، ص: 198 ) عن الحسن ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا اراد ان یکبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع رفع یدیہ ( رواہ ابونعیم، جزءسبکی، ص: 8 ) حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کرنے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( رواہ عبدالرزاق، تلخیص الحبیر، ص: 82 ) صحابہ کرام بھی رفع یدین کیا کرتے تھے جیسا کہ تفصیلات ذیل سے ظاہر ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رفع یدین کیا کرتے تھے: عن عبداللہ بن الزبیر قال صلیت خلف ابی بکر فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع و قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فذکر مثلہ۔ ( رواہ البیہقی و رجالہ ثقات، جلد: 2 ص: 73 ) حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی، آپ ہمیشہ شروع نماز اور رکوع میں جانے اور رکوع سے سراٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے اب ہی نہیں بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بھی آپ کو رفع الیدین کرتے دیکھ کر اسی طرح ہی نماز پڑھا کرتا تھا۔ ( تلخیص، ص: 82، سبکی، ص: 6 ) اس حدیث میں بھی صیغہ استمرار ( کان یرفع ) موجود ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی رفع یدین کیا کرتے تھے و عن عمر نحوہ رواہ الدار قطنی فی غرائب مالک و البیہقی و قال الحاکم انہ محفوظ ( تلخیص الحبیر لابن حجر، ص: 82 ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرح حضرت عمر فاروق بھی رفع یدین کیا کرتے تھے۔ عبدالمالک بن قاسم فرماتے ہیں بینما یصلون فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا خرج فیہم عمر فقال اقبلوا علی بوجوہکم اصلی بکم صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم التی یصلی ویامر بہا فقام و رفع یدیہ حتی حاذی بھما منکبیہ ثم کبر ثم رفع و رکع و کذلک حین رفع کہ لوگ مسجد نبوی میں نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر آئے اور فرمایا، میری طرف توجہ کرو میں تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا ہوں، جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے اور جس طرح پڑھنے کا حکم دیا کرتے تھے، پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ قبلہ رو کھڑے ہوگئے اورتکبیر تحریمہ اور رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کندھوں تک اٹھائے۔ فقال القوم ہکذا رسول اللہ صلی اللہ یصلی بنا پھر سب صحابہ نے کہا بے شک حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے۔ ( اخرجہ البیہقی فی الخلافیات تخرییج زیلعی و قال الشیخ تقی الدین رجال اسنادہ معرفون ) ( تحقیق الراسخ، ص: 38 ) حضرت عمر فاروق، حضرت علی و دیگر پندرہ صحابہ رضی اللہ عنہم امام بخاری فرماتے ہیں: ( 1 ) عمر بن خطاب ( 2 ) علی بن ابی طالب ( 3 ) عبداللہ بن عباس ( 4 ) ابوقتادہ ( 5 ) ابواسید ( 6 ) محمد بن مسلمہ ( 7 ) سہل بن سعد ( 8 ) عبداللہ بن عمر ( 9 ) انس بن مالک ( 10 ) ابوہریرہ ( 11 ) عبداللہ بن عمرو ( 12 ) عبداللہ بن زبیر ( 13 ) وائل بن حجر ( 14 ) ابوموسی ( 15 ) مالک بن حویرث ( 16 ) ابوحمید ساعدی ( 17 ) ام درداءانہم کانوا یرفعون عند الرکوع ( جزءبخاری، ص: 6 ) کہ یہ سب کے سب رکوع جانے اور سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کیا کرتے تھے۔ طاؤس و عطاءبن رباح کی شہادت: عطاءبن رباح فرماتے ہیں، میں نے عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن زبیر، ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہم کو دیکھا یرفعون ایدیہم اذا افتتحوا الصلوٰۃ و اذا رکعوا کہ یہ شروع نماز اور عند الرکوع رفع یدین کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 ) حضرت طاؤس کہتے ہیں رایت عبداللہ و عبداللہ و عبداللہ یرفعون ایدیہم کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کودیکھا، یہ تینوں نماز میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 13 ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ : عن عاصم قال رایت انس بن مالک اذا افتتح الصلوۃ کبر و رفع یدیہ و برفع کلما رکع و رفع راسہ من الرکوع عاصم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دیکھا جب تکبیر تحریمہ کہتے اور رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 12 ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ : انہ کان اذا کبر رفع یدیہ و اذا رفع راسہ من الرکوع عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جب تکبیر تحریمہ کہتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع یدین کیا کرتے تھے۔ ( جزءبخاری، ص: 11 ) حضرت ام درداءرضی اللہ عنہا: سلیمان بن عمیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رایت ام درداءترفع یدیہا فی الصلوۃ حذو منکبیہا حین تفتتح الصلوۃ و حین ترکع فاذا قالت سمع اللہ لم حمدہ رفعت یدہا کہ میں نے ام درداءکو دیکھا وہ شروع نماز میں اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتی تھی اور جب رکوع کرتی اور رکوع سے سر اٹھاتی اور سمع اللہ لمن حمدہ کہتی تب بھی اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھایا کرتی تھی۔ ( جزءرفع الیدین، امام بخاری، ص: 12 ) ناظرین کرام کو اندازہ ہو چکا ہوگا کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے رفع یدین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فعل نقل کیا ہے از روئے دلائل وہ کس قدر صحیح ہے۔ جو حضرات رفع یدین کا انکار کرتے اور اسے منسوخ قرار دیتے ہیں وہ بھی غور کریں گے تو اپنے خیال کو ضرور واپس لیں گے۔ چونکہ منکرین رفع یدین کے پاس بھی کچھ نہ کچھ دلائل ہیں۔ اس لیے ایک ہلکی سی نظر ان پر بھی ڈالنی ضروری ہے تاکہ ناظرین کرام کے سامنے تصویر کے ہر دو رخ آجائیں اور وہ خود امر حق کے لیے اپنے خداداد عقل و بصیرت کی بنا پر فیصلہ کرسکیں۔ منکرین رفع یدین کے دلائل اور ان کے جوابات: ( 1 ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: مالی اراکم رافعی ایدیکم کانہا اذناب خیل شمس اسکنوا فی الصلوۃ ( صحیح مسلم باب الامر بالسکون فی الصلوۃ والنہی عن الاشارۃ بالید ورفعہما عند السلام ) یہ کیا بات ہے کہ میں تم کو سرکش گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، نماز میں حرکت نہ کیا کرو۔ منکرین رفع یدین کی یہ پہلی دلیل ہے جو اس لیے صحیح نہیں کہ ( 1 ) اول تو منکرین کو امام نووی نے باب باندھ کر ہی جواب دے دیا کہ یہ حدیث تشہد کے متعلق ہے جب کہ کچھ لوگ سلام پھیرتے وقت ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا کرتے تھے، ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ بھلا اس کو رکوع میں جاتے اور سر اٹھاتے وقت رفع یدین سے کیا تعلق ہے؟ مزید وضاحت کے لیے یہ حدیث موجود ہے۔ ( ب ) جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب ہم نے السلام علیکم کہا و اشار بیدہ الی الجانبین اور ہاتھ سے دونوں طرف اشارہ کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماشانکم تشیرون بایدکم کانہا اذناب خیل شمس تمہارا کیا حال ہے کہ تم شریف گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ ہلاتے ہو۔ تم کو چاہئے کہ اپنے ہاتھ رانوں پر رکھو ویسلم علی اخیہ من علی یمینہ و شمالہ اوراپنے بھائی پر دائیں بائیں سلام کہو اذا سلم احدکم فلیلتفت الی صاحبہ و لا یومی ( یرمی ) بیدہ جب تشہد میں تم سلام کہنے لگو تو صرف منہ پھیر کر سلام کہا کرو، ہاتھ سے اشارہ مت کرو۔ ( مسلم شریف ) ( ج ) تمام محدثین کا متفقہ بیان ہے کہ یہ دونوں حدیثیں دراصل ایک ہی ہیں۔ اختلاف الفاظ فقط تعداد روایات کی بنا پر ہے کوئی عقل مند اس ساری حدیث کو پڑھ کر اس کو رفع یدین عند الرکوع کے منع پر دلیل نہیں لاسکتا۔ جو لوگ اہل علم ہو کر ایسی دلیل پیش کرتے ہیں ان کے حق میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں من احتج بحدیث جابر بن سمرۃ علی منع الرفع عند الرکوع فلیس لہ حظ من العلم کہ جو شخص جابر بن سمرہ کی حدیث سے رفع یدین عند الرکوع منع سمجھتا ہے وہ جاہل ہے اور علم حدیث سے ناواقف ہے۔ کیوں کہ اسکنوا فی الصلوۃ فانما کان فی التشہد لا فی القیام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکنوا فی الصلوٰۃ تشہد میں اشارہ کرتے دیکھ کر فرمایا تھا نہ کہ قیام کی حالت میں ( جزءرفع یدین، بخاری، ص: 16، تلخیص، ص: 83، تحفہ ، صئ223 ) اس تفصیل کے بعد ذرا سی بھی عقل رکھنے والا مسلمان سمجھ سکتا ہے کہ اس حدیث کو رفع یدین کے منع پر پیش کرنا عقل اور انصاف اور دیانت کے کس قدر خلاف ہے۔ ( 2 ) منکرین کی دوسری دلیل یہ کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی فلم یرفع الا مرۃ اور ایک ہی بار ہاتھ اٹھائے ( ابوداؤد، جلد1 ص: 199، ترمذی، ص: 36 ) اس اثر کو بھی بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے۔ مگر فن حدیث کے بہت بڑے امام حضرت ابوداؤد فرماتے ہیں و لیس ہو بصحیح علی ہذا اللفظ یہ حدیث ان لفظوں کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔ اور ترمذی میں ہے یقول عبداللہ بن المبارک و لم یثبت حدیث ابن مسعود عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں کہ حدیث عبداللہ بن مسعود کی صحت ہی ثابت نہیں ( ترمذی، ص:36، تلخیص ، ص: 83 ) اور حضرت امام بخاری، امام احمد، امام یحییٰ بن آدم اور ابوحاتم نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ ( مسند احمد، جلد: 3ص: 16 ) اور حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کے ضغف پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔ لہٰذا یہ قابل حجت نہیں۔ لہٰذا اسے دلیل میں پیش کرنا صحیح نہیں ہے۔ ( 3 ) تیسری دلیل براءبن عازب کی حدیث کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی بار رفع یدین کیا۔ ثم لا یعود پھر نہیں کیا۔ اس حدیث کے بارے میں بھی حضرت امام ابوداؤد فرماتے ہیں ہذا الحدیث لیس بصحیح کہ یہ حدیث صحیح نہیں ۔ ( ابوداؤد جلد: 1 ص: 200 ) و قد رواہ ابن المدینی و احمد و الدار قطنی و ضعفہ البخاری اس حدیث کو بخاری رحمۃ اللہ نے ضعیف اور علی بن مدینی، امام احمد اور دارقطنی نے مردو د کہا ہے لہٰذا قابل حجت نہیں۔ ( تنویر، ص: 16 ) ( 4 ) چوتھی دلیل عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے پہلی بار ہاتھ اٹھائے ( طحاوی ) اس کے متعلق سرتاج علمائے احناف حضرت مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی فرماتے ہیں کہ یہ اثر مردود ہے۔ کیونکہ ا س کی سند میں ابن عیاش ہے جو متکلم فیہ ہے۔ نیز یہی حضرت مزید فرماتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ عند الرکوع رفع یدین کیا کرتے تھے۔ فما زالت تلک صلوٰۃ حتی لقی اللہ تعالیٰ یعنی ابتدائے نبوت سے اپنی عمر کی آخری نماز تک آپ رفع یدین کرتے رہے۔ وہ اس کے خلاف کس طرح کرسکتے تھے اور ان کا رفع یدین کرنا صحیح سند سے ثابت ہے۔ ( تعلیق الممجد، ص: 193 ) انصاف پسند علماءکا یہی شیوہ ہونا چاہئے کہ تعصب سے بلند و بالا ہو کر امر حق کا اعتراف کریں اوراس بارے میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں۔ ( 5 ) پانچویں دلیل۔ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ پہلی بار ہی کرتے تھے۔ ( دار قطنی ) دار قطنی نے خود اسے ضعیف اور مردود کہا ہے اورامام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس حدیث کو ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے موضوعات میں لکھا ہے۔ لہٰذا قابل حجت نہیں ۔ ( تلخیص الحبیر، ص: 83 ) ان کے علاوہ انس، ابوہریرہ ابن زبیر رضی اللہ عنہم کے جو آثار پیش کئے جاتے ہیں سب کے سب موضوع لغو اورباطل ہیں لا اصل لہم ان کا اصل و ثبوت نہیں ( تلخیص الممجد، ص: 83 ) آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کا فیصلہ بھی سن لیجیے۔ آپ فرماتے ہیں ۔ والذی یرفع احب الی ممن لا یرفع یعنی رفع یدین کرنے والا مجھ کو نہ کرنے والے سے زیادہ محبوب ہے۔ کیوں کہ اس کے بارے میں دلیل بکثرت اور صحیح ہیں۔ ( حجۃ اللہ البالغہ، ج: 2 ص: 8 ) اس بحث کو ذرا طول اس لیے دیا گیا کہ رفع یدین نہ کرنے والے بھائی کرنے والوں سے جھگڑا نہ کریں اور یہ سمجھیں کہ کرنے والے سنت رسول کے عامل ہیں۔ حالات زمانہ کا تقاضا ہے کہ ایسے فروعی مسائل میں وسعت قلبی سے کام لے کر رواداری اختیار کی جائے اور مسائل متفق علیہ میں اتفاق کرکے اسلام کو سر بلند کرنے کی کوشش کی جائے۔ اللہ پاک ہر کلمہ گو مسلمان کو ایسی ہی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

 


❁ بَابُ وَضْعِ اليُمْنَى عَلَى اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا

❁ 740 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ [ص:149]، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ اليَدَ اليُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ اليُسْرَى فِي الصَّلاَةِ» قَالَ أَبُو حَازِمٍ لاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا يَنْمِي ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يُنْمَى ذَلِكَ وَلَمْ يَقُلْ يَنْمِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوحازم بن دینار سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں، ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے۔ اسماعیل بن ابی اویس نے کہا کہ یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی جاتی تھی یوں نہیں کہا کہ پہنچاتے تھے.

 

❁ تشریح : شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لم یذکر سہل بن سعد فی حدیثہ محل وضع الیدین من الجسد وہو عندنا علی الصدر لما وردفی ذلک من احادیث صریحۃ قویۃ فمنہا حدیث وائل بن حجر قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسری علی صدرہ اخرجہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ ذکرہ الحافظ فی بلوغ المرام والدرایۃ والتلخیص وفتح الباری والنووی فی الخلاصۃ وشرح المہذب وشرح مسلم للاحتجاج بہ علی ماذہبت الیہ الشافعیۃ من وضع الیدین علی الصدر وذکرہما ہذاالحدیث فی معرض الاحتجاج بہ وسکوتہما عن الکلام فیہ یدل علی ان حدیث وائل ہذا عندہما صحیح اوحسن قابل للاحتجاج الخ۔ ( مرعاۃ المفاتیح ) یعنی حضرت سہل بن سعدنے اس حدیث میں ہاتھوں کے باندھنے کی جگہ کا ذکر نہیں کیااور وہ ہمارے نزدیک سینہ ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں کئی احادیث قوی اورصریح موجود ہیں۔ جن میں ایک حدیث وائل بن حجر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر باندھا اور ان کو سینے پر رکھا۔ اس روایت کو محدث ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اورحافظ ابن حجر نے اپنی کتاب بلوغ المرام اور درایہ اور تلخیص اور فتح الباری میں ذکر فرمایاہے۔ اورامام نووی نے اپنی کتاب خلاصہ اور شرح مہذب اور شرح مسلم میں ذکر کیاہے اورشافعیہ نے اسی سے دلیل پکڑی ہے کہ ہاتھوں کوسینے پر باندھنا چاہئیے۔ حافظ ابن حجر اورعلامہ نووی نے اس بارے میں اس حدیث سے دلیل لی ہے اور اس حدیث کی سند میں انھوں نے کوئی کلام نہیں کیا، لہٰذا یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح یا حسن حجت پکڑنے کے قابل ہے۔ اس بارے میں دوسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام احمدنے اپنی مسند میں روایت کیاہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ حدثنا یحییٰ بن سعید عن سفیان ثنا سماک عن قبیصۃ ابن ہلب عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ و رایتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل ورواۃ ہذاالحدیث کلہم ثقات و اسنادہ متصل۔ ( تحفۃ الاحوذی، ص: 216 ) یعنی ہم نے یحییٰ بن سعید ثوری سے بیان کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سماک نے قبیصہ ابن وہب سے بیان کیا۔ وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ اپنے دائیں اوربائیں جانب سلام پھیرتے تھے اور میں نے آپ کودیکھا کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں پر سینے کے اوپر رکھا تھا۔ اس حدیث کے راوی سب ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے۔ تیسری دلیل وہ حدیث ہے جسے امام ابوداؤد نے مراسیل میں اس سند کے ساتھ نقل کیاہے: حدثنا ابوتوبۃ حدثنا الہیثم یعنی ابن حمید عن ثور عن سلیمان بن موسیٰ عن طاؤس قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ ثم یشدبہما علی صدرہ۔ ( حوالہ مذکور ) یعنی ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ہیثم یعنی ابن حمیدنے ثور سے بیان کیا، انھوں نے سلیمان بن موسیٰ سے، انھوں نے طاؤس سے، وہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھتے اوران کو خوب مضبوطی کے ساتھ ملاکر سینہ پر باندھا کرتے تھے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد کے صفحہ: 275 پر یہ حدیث اسی سند کے ساتھ مذکور ہے۔ امام بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مرسل ہے۔ اس لیے کہ طاؤس راوی تابعی ہیں اور اس کی سند حسن ہے اور حدیث مرسل حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک و امام احمد رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک مطلقاً حجت ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس شرط کے ساتھ تسلیم کیاہے۔ جب اس کی تائید میں کوئی دوسری روایت موجود ہو۔ چنانچہ اس کی تائید حدیث وائل بن حجر اورحدیث باب سے ہوتی ہے جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ پس اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا سنت نبوی ہے ( صلی اللہ علیہ وسلم ) چوتھی دلیل وہ حدیث ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ فصل لربک وانحر کی تفسیر میںروایت کیاہے یعنی ضع یدک الیمنی علی الشمال عندالنحر یعنی اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں پر رکھ کر سینہ پر باندھو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح منقول ہے۔ بیہقی اورابن ابی شیبہ اورابن منذر اورابن ابی حاتم اوردارقطنی وابوالشیخ وحاکم اور ابن مردویہ نے ان حضرات کی اس تفسیر کو ان لفظوں میں نقل کیاہے۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں فرمایاہے : ورای بعضہم ان یضعہما فوق السرۃ ورای بعضہم ان یضعہما تحت السرۃ وکل ذلک واسعۃ عندہم یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بعض نے ناف کے اوپرباندھنا ہاتھ کااختیار کیا۔ بعض نے ناف کے نیچے اوراس بارے میں ان کے نزدیک گنجائش ہے۔ اختلاف مذکور افضلیت سے متعلق ہے اوراس بارے میں تفصیل بالا سے ظاہر ہوگیاہے کہ افضلیت اورترجیح سینہ پر ہاتھ باندھنے کو حاصل ہے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والوں کی بڑی دلیل حضرت علی رضی اللہ عنہ کا وہ قول ہے۔ جسے ابوداؤد اوراحمد اورابن ابی شیبہ اور دارقطنی اوربیہقی نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے کہ ان علیا قال السنۃ وضع الکف علی تحت السرۃ یعنی سنت یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کی کلائی کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر ناف کے نیچے رکھاجائے۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قلت فی اسنادہذاالحدیث عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی وعلیہ مدارہذاالحدیث وہوضعیف لایصلح للاحتجاج یعنی میں کہتاہوں کہ اس حدیث کی سند میں عبدالرحمن بن اسحاق واسطی ہے جن پر اس روایت کا دارومدارہے اوروہ ضعیف ہے۔ اس لیے یہ روایت دلیل پکڑنے کے قابل نہیں ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہوحدیث متفق علی تضعیفہ فان عبدالرحمن بن اسحاق ضعیف بالاتفاق یعنی اس حدیث کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔ ان حضرات کی دوسری دلیل وہ روایت ہے جسے ابن ابی شیبہ نے روایت کیاہے جس میں راوی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے نماز میں اپنا دایاںہاتھ بائیں پر رکھا اورآپ کے ہاتھ ناف کے نیچے تھے۔ اس کے متعلق حضرت علامہ شیخ محمد حیات سندھی اپنے مشہورمقالہ “ فتح الغفور فی وضع الایدی علی الصدور ” میں فرماتے ہیں کہ اس روایت میں یہ تحت السرۃ۔ ( ناف کے نیچے ) والے الفاظ راوی کتاب نے سہو سے لکھ دیے ہیں ورنہ میں نے مصنف ابن ابی شیبہ کا صحیح نسخہ خود مطالعہ کیاہے۔ اوراس حدیث کو اس سند کے ساتھ دیکھا ہے مگراس میں تحت السرۃ کے الفاظ مذکور نہیں ہیں۔ اس کی مزید تائیدمسنداحمد کی روایت سے ہوتی ہے جس میں ابن ابی شبیہ ہی کی سند کے ساتھ اسے نقل کیا گیاہے اوراس میں یہ زیادتی لفظ تحت السرۃ والی نہیں ہے، مسنداحمد کی پوری حدیث یہ ہے: حدثنا وکیع حدثنا موسیٰ بن عمیر العنبری عن علقمۃ بن وائل الحضرمی عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا یمینہ علی شمالہ فی الصلوٰۃ یعنی علقمہ بن وائل اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر رکھے ہوئے دیکھا۔ دارقطنی میں بھی ابن ابی شبیہ ہی کی سند سے یہ روایت مذکور ہے، مگروہاں بھی تحت السرۃ کے الفاظ نہیں ہیں۔ اس بارے میں کچھ اورآثار وروایات بھی پیش کی جاتی ہیں، جن میں سے کوئی بھی قابل حجت نہیں ہے۔ پس خلاصہ یہ کہ نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا ہی سنت نبوی ہے اوردلائل کی روسے اسی کو ترجیح حاصل ہے۔ جو حضرات اس سنت پر عمل نہیں کرتے نہ کریں مگر ان کو چاہئیے کہ اس سنت کے عاملین پر اعتراض نہ کریں۔ ان پر زبان طنزنہ کھولیں۔ اللہ پاک جملہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے کہ وہ ان فروعی مسائل پر الجھنے کی عادت پر تائب ہوکر اپنے دوسرے کلمہ گو بھائیوں کے لیے اپنے دلوں میں گنجائش پیدا کریں۔ واللہ ہوالموفق۔


❁ بَابُ الخُشُوعِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں خشوع کا بیان

❁ 741 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا، وَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ رُكُوعُكُمْ وَلاَ خُشُوعُكُمْ، وَإِنِّي لأَرَاكُمْ وَرَاءَ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد سے بیان کیا، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا منہ ادھر ( قبلہ کی طرف ) ہے۔ خدا کی قسم تمہارا رکوع اور تمہارا خشوع مجھ سے کچھ چھپا ہوا نہیں ہے، میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں۔

 

❁ تشریح : آپ مہرنبوت سے دیکھ لیاکرتے تھے اوریہ آپ کے معجزات میں سے ہے۔


❁ بَابُ الخُشُوعِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں خشوع کا بیان

❁ 742 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَقِيمُوا الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فَوَ اللَّهِ إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ بَعْدِي – وَرُبَّمَا قَالَ: مِنْ بَعْدِ ظَهْرِي – إِذَا رَكَعْتُمْ وَسَجَدْتُمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بشار نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رکوع اور سجود پوری طرح کیا کرو۔ خدا کی قسم! میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا رہتا ہوں یا اس طرح کہا کہ پیٹھ پیچھے سے جب تم رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو ( تو میں تمہیں دیکھتا ہوں )


❁ بَابُ مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ
❁ باب: تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟

❁ 743 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانُوا يَفْتَتِحُونَ الصَّلاَةَ بِ {الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ} [الفاتحة: 2]

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے قتادہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما نماز الحمد للہ رب العالمین سے شروع کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : یعنی قرآن کی قرات سورۃ فاتحہ سے شروع کرتے تھے تو یہ منافی نہ ہوگی اس حدیث کے جو آگے آتی ہے۔ جس میں تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح پڑھنا منقول ہے اور الحمدللہ رب العالمین سے سورۃ فاتحہ مراد ہے۔ اس میں اس کی نفی نہیں ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے کیونکبسم الل سورۃ فاتحہ کی جزو ہے تومقصود یہ ہے کہ بسم اللہ پکارکر نہیں پڑھتے تھے۔ جیسے کہ نسائی اورابن حبان کی روایت میں ہے کہ بسم اللہ کو پکار کرنہیں پڑھتے تھے۔ روضہ میں ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کے ساتھ پڑھنا چاہئیے۔ جہری نمازوں میں پکار کر اورسری نمازوں میں آہستہ اور جن لوگوں نے بسم اللہ کا نہ سننا نقل کیاہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کم سن تھے جیسے انس رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مغفل اوریہ آخری صف میں رہتے ہوں گے، شاید ان کوآواز نہ پہنچی ہوگی اور بسم اللہ کے جہر میں بہت حدیثیں وارد ہیں۔ گو ان میں کلام بھی ہو مگر اثبات مقدم ہے نفی پر۔ ( وحیدی


❁ بَابُ مَا يَقُولُ بَعْدَ التَّكْبِيرِ

❁ باب: تکبیر تحریمہ کے بعد کیا پڑھا جائے؟


❁ 744 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ القَعْقَاعِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْكُتُ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَبَيْنَ القِرَاءَةِ إِسْكَاتَةً – قَالَ أَحْسِبُهُ قَالَ: هُنَيَّةً – فَقُلْتُ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِسْكَاتُكَ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالقِرَاءَةِ مَا تَقُولُ؟ قَالَ: أَقُولُ: اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ، كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ المَشْرِقِ وَالمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ نَقِّنِي مِنَ الخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالبَرَدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں۔ آپ اس تکبیر اور قرات کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں اللہم باعد بینی وبین خطایای، کما باعدت بین المشرق والمغرب، اللہم نقنی من الخطایا کما ینقی الثوب الأبیض من الدنس، اللہم اغسل خطایای بالماء والثلج والبرد ( ترجمہ ) اے اللہ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے۔ اے اللہ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو پانی، برف اور اولے سے دھو ڈال۔

 

❁ تشریح : دعائے استفتاح کئی طرح پرواردہے مگر سب میں صحیح دعا یہی ہے اور سبحانک اللہم جسے عموماً پڑھا جاتا ہے وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ مگراس روایت کی سند میں ضعف ہے، بہرحال اسے بھی پڑھا جاسکتاہے۔ مگرترجیح اسی کو حاصل ہے، اور اہل حدیث کا یہی معمول ہے۔


بَابٌ ❁ 

 


❁ 745 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلاَةَ الكُسُوفِ، فَقَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ، فَأَطَالَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ فَأَطَالَ القِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ رَفَعَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ: قَدْ دَنَتْ مِنِّي الجَنَّةُ، حَتَّى لَوِ اجْتَرَأْتُ عَلَيْهَا، لَجِئْتُكُمْ بِقِطَافٍ مِنْ قِطَافِهَا، وَدَنَتْ مِنِّي النَّارُ حَتَّى قُلْتُ: أَيْ رَبِّ، وَأَنَا مَعَهُمْ؟ فَإِذَا امْرَأَةٌ – حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ – تَخْدِشُهَا هِرَّةٌ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ هَذِهِ؟ قَالُوا: حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، لاَ أَطْعَمَتْهَا [ص:150]، وَلاَ أَرْسَلَتْهَا تَأْكُلُ – قَالَ نَافِعٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مِنْ خَشِيشِ – أَوْ خَشَاشِ الأَرْضِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں نافع بن عمر نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے اسماء بنت ابی بکر سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز پڑھی۔ آپ جب کھڑے ہوئے تو دیر تک کھڑے رہے پھر رکوع میں گئے تو دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر رکوع سے سر اٹھایا تو دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر ( دوبارہ ) رکوع میں گئے اور دیر تک رکوع کی حالت میں رہے اور پھر سر اٹھایا، پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ پھر سر اٹھایا اور پھر سجدہ کیا اور دیر تک سجدہ میں رہے پھر کھڑے ہوئے اور دیر تک کھڑے ہی رہے۔ پھر رکوع کیا اور دیر تک رکوع میں رہے۔ پھر آپ نے سر اٹھایا اور دیر تک کھڑے رہے۔ پھر ( دوبارہ ) رکوع کیا اور آپ دیر تک رکوع کی حالت میں رہے۔ پھر سر اٹھایا۔ پھر آپ سجدہ میں چلے گئے اور دیر تک سجدہ میں رہے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ جنت مجھ سے اتنی نزدیک ہو گئی تھی کہ اگر میں چاہتا تو اس کے خوشوں میں سے کوئی خوشہ تم کو توڑ کر لا دیتا اور مجھ سے دوزخ بھی اتنی قریب ہو گئی تھی کہ میں بول پڑا کہ میرے مالک میں تو اس میں سے نہیں ہوں؟ میں نے وہاں ایک عورت کو دیکھا۔ نافع بیان کرتے ہیں کہ مجھے خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے بتلایا کہ اس عورت کو ایک بلی نوچ رہی تھی، میں نے پوچھا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ جواب ملا کہ اس عورت نے اس بلی کو باندھے رکھا تھا تاآنکہ بھوک کی وجہ سے وہ مر گئی، نہ تو اس نے اسے کھانا دیا اور نہ چھوڑا کہ وہ خود کہیں سے کھا لیتی۔ نافع نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ ابن ابی ملیکہ نے یوں کہا کہ نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے وغیرہ کھا لیتی۔

 

❁ تشریح : سورج گہن یاچاند گہن ہر دومواقع پر نماز کا یہی طریقہ ہے۔ نماز کے بعد خطبہ اوردعا بھی ثابت ہے۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو جانوروں پرظلم کرے گا آخرت میں اس سے اس کا بھی بدلہ لیاجائے گا۔ حافظ نے ابن رشید سے حدیث اورباب میں مطابقت یوں نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مناجات اورمہربانی کی درخواست عین نماز کے اندر مذکور ہے تو معلوم ہوا کہ نماز میں ہرقسم کی دعا کرنا درست ہے۔ بشرطیکہ وہ دعائیں شرعی حدوں میں ہوں۔


❁ بَابُ رَفْعِ البَصَرِ إِلَى الإِمَامِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں امام کی طرف دیکھنا

❁ 746 حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قُلْنَا لِخَبَّابٍ أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: بِمَ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ ذَاكَ؟ قَالَ: «بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے عمارہ بن عمیر سے بیان کیا، انھوں نے ( عبداللہ بن مخبرہ ) ابومعمر سے، انھوں نے بیان کیا کہ ہم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ صحابی سے پوچھا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی رکعتوں میں ( فاتحہ کے سوا ) اور کچھ قرات کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا کہ ہاں۔ ہم نے عرض کی کہ آپ لوگ یہ بات کس طرح سمجھ جاتے تھے۔ فرمایا کہ آپ کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔

 

❁ تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلا۔ کیونکہ داڑھی کا ہلناان کو بغیر امام کی طرف دیکھے کیونکر معلوم ہوسکتاتھا۔ بہرحال نماز میں نظرامام پررہے یامقام سجدہ پر رہے ادھر ادھر نہ جھانکنا چاہئیے۔


❁ بَابُ رَفْعِ البَصَرِ إِلَى الإِمَامِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں امام کی طرف دیکھنا

❁ 747 حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ، يَخْطُبُ قَالَ: حَدَّثَنَا البَرَاءُ – وَكَانَ غَيْرَ كَذُوبٍ – أَنَّهُمْ كَانُوا «إِذَا صَلَّوْا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَامُوا قِيَامًا حَتَّى يَرَوْنَهُ قَدْ سَجَدَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابواسحاق عمرو بن عبداللہ سبیعی نے خبر دی، کہا کہ میں نے عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آپ خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور وہ جھوٹے نہیں تھے کہ جب وہ ( صحابہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک دیکھتے کہ آپ سجدہ میں چلے گئے ہیں ( اس وقت وہ بھی سجدے میں جاتے )


❁ بَابُ رَفْعِ البَصَرِ إِلَى الإِمَامِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں امام کی طرف دیکھنا

❁ 748 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ، قَالَ: «إِنِّي أُرِيتُ الجَنَّةَ، فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے امام مالک نے زید بن اسلم سے بیان کیا، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گہن ہوا تو آپ نے گہن کی نماز پڑھی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم نے دیکھا کہ ( نماز میں ) آپ اپنی جگہ سے کچھ لینے کو آگے بڑھے تھے پھر ہم نے دیکھا کہ کچھ پیچھے ہٹے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی تو اس میں سے ایک خوشہ لینا چاہا اور اگر میں لے لیتا تو اس وقت تک تم اسے کھاتے رہتے جب تک دنیا موجود ہے۔
تشریح : وہ کبھی فنا نہ ہوتا کیونکہ بہشت کو خلود ہے۔ ترجمہ باب اس قول سے نکلتا ہے کہ ہم نے آپ کو دیکھا۔


❁ بَابُ رَفْعِ البَصَرِ إِلَى الإِمَامِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں امام کی طرف دیکھنا

❁ 749 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِلاَلُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَلَّى لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَقِيَ المِنْبَرَ، فَأَشَارَ بِيَدَيْهِ قِبَلَ قِبْلَةِ المَسْجِدِ، ثُمَّ قَالَ: «لَقَدْ رَأَيْتُ الآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلاَةَ الجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قِبْلَةِ هَذَا الجِدَارِ، فَلَمْ أَرَ كَاليَوْمِ فِي الخَيْرِ وَالشَّرِّ» ثَلاَثًا

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہلال بن علی نے بیان کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے قبلہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ ابھی جب میں نماز پڑھا رہا تھا تو جنت اور دوزخ کو اس دیوار پر دیکھا۔ اس کی تصویریں اس دیوار میں قبلہ کی طرف نمودار ہوئیں تو میں نے آج کی طرح خیر اور شر کبھی نہیں دیکھی۔ آپ نے قول مذکور تین بار فرمایا۔

 

❁ تشریح : خیر بہشت اور شر دوزخ مطلب یہ کہ بہشت سے بہتر کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی اور دوزخ سے بری کوئی چیز نہیں دیکھی۔ اس حدیث میں امام کا آگے دیکھنا مذکور ہے اور جب امام کو آگے دیکھنا جائز ہوا تو مقتدی کو بھی اپنے آگے یعنی امام کو دیکھنا جائز ہوگا۔ حدیث اورباب میں یہی مطابقت ہے۔


بَابُ رَفْعِ البَصَرِ إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلاَةِ ❁ 
❁ باب: نماز میں آسمان کی طرف نظراٹھانا

❁ 750 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلاَتِهِمْ»، فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ، حَتَّى قَالَ: «لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مہران ابن ابی عروبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ نے اس سے نہایت سختی سے روکا۔ یہاں تک آپ نے فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔

 

❁ تشریح : فرشتے اللہ کے حکم سے اس کی بینائی سلب کرلیں گے۔ حافظ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا یہ کراہت محمول ہے اس حالت پر جب نماز میں دعا کی جائے جیسے مسلم میں عندالدعاء کا لفظ زیادہ ہے۔ عینی نے کہا کہ یہ ممانعت مطلق ہے نماز میں دعاءکے وقت ہو یا اورکسی وقت۔ امام ابن حزم نے کہا ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔


❁ بَابُ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا ❁ 

❁ 751 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الأَحْوَصِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَشْعَثُ بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلاَةِ؟ فَقَالَ: «هُوَ اخْتِلاَسٌ يَخْتَلِسُهُ الشَّيْطَانُ مِنْ صَلاَةِ العَبْدِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اشعت بن سلیم نے بیان کیا اپنے والد کے واسطے سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تو ڈاکہ ہے جو شیطان بندے کی نماز پر ڈالتا ہے۔

 

❁ تشریح : اس کوالتفات کہتے ہیں یعنی بغیر گردن یاسینہ موڑے ادھر ادھر جھانکنا نماز میں یہ سخت منع ہے۔ پہلے صحابہ نماز میں التفات کیا کرتے تھے جب آیت کریمہ قدافلح المؤمنون الذین ہم فی صلاتہم خاشعون ( المومنون: 1 ) نازل ہوئی تووہ اس سے رک گئے اورنظروں کو مقام سجدہ پر رکھنے لگے۔ حدیث میں آیاہے کہ جب نمازی باربار ادھر ادھر دیکھتاہے تواللہ پاک بھی اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیتاہے۔ رواہ البزار عن جابر۔


❁ بَابُ الِالْتِفَاتِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنا

 ❁ 752حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلاَمٌ، فَقَالَ: «شَغَلَتْنِي أَعْلاَمُ هَذِهِ، اذْهَبُوا بِهَا إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةٍ»
 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دھاری دار چادر میں نماز پڑھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے نقش و نگار نے مجھے غافل کر دیا۔ اسے لے جا کر ابوجہم کو واپس کر دو اور ان سے ( بجائے اس کے ) سادی چادر مانگ لاؤ۔

 

❁ تشریح : یہ چادر ابوجہم نے آپ کو تحفہ میں دی تھی۔ مگراس کے نقش ونگار آپ کو پسندنہیں آئے کیونکہ ان کی وجہ سے نماز کے خشوع وخضوع میں فرق آرہاتھا۔ اس لیے آپ نے اسے واپس کرادیا۔ معلوم ہوا کہ نماز میں غافل کرنے والی کوئی چیز نہ ہونی چاہئیے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ، أَوْ يَرَى شَيْئًا، أَوْ بُصَاقًا فِي القِبْلَةِ؟
❁ باب: اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو؟

❁ 753 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ المَسْجِدِ وَهُوَ يُصَلِّي بَيْنَ يَدَيِ النَّاسِ، فَحَتَّهَا، ثُمَّ قَالَ حِينَ انْصَرَفَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا كَانَ فِي الصَّلاَةِ فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَلاَ يَتَنَخَّمَنَّ أَحَدٌ قِبَلَ وَجْهِهِ فِي الصَّلاَةِ» رَوَاهُ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، وَابْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے نافع سے بیان کیا، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں قبلہ کی دیوار پر رینٹ دیکھی۔ آپ اس وقت لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ آپ نے ( نماز ہی میں ) رینٹ کو کھرچ ڈالا۔ پھر نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب کوئی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے منہ کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص سامنے کی طرف نماز میں نہ تھوکے۔ اس حدیث کی روایت موسیٰ بن عقبہ اور عبدالعزیز ابن ابی رواد نے نافع سے کی۔

 

❁ تشریح : باب اورحدیث میں مطابقت یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت نماز مسجد کی قبلہ رخ دیوارپر بلغم دیکھا اورآپ کو اس کی ناگواری کا بہت سخت احساس ہوا، ایسی حالت میں آپ نے اس کی طرف التفات فرمایا توایسا التفات جائز ہے۔ حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ حالت نماز ہی میں آپ نے اس کو صاف کرڈالا تھا۔


 ❁ بَابٌ: هَلْ يَلْتَفِتُ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ، أَوْ يَرَى شَيْئًا، أَوْ بُصَاقًا فِي القِبْلَةِ؟
❁ باب: اگر نمازی پر کوئی حادثہ ہو؟

❁ 754 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: بَيْنَمَا المُسْلِمُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ لَمْ يَفْجَأْهُمْ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَشَفَ سِتْرَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ صُفُوفٌ، فَتَبَسَّمَ يَضْحَكُ، وَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ لَهُ الصَّفَّ، فَظَنَّ أَنَّهُ يُرِيدُ الخُرُوجَ وَهَمَّ المُسْلِمُونَ أَنْ يَفْتَتِنُوا فِي صَلاَتِهِمْ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَتِمُّوا صَلاَتَكُمْ، فَأَرْخَى السِّتْرَ وَتُوُفِّيَ مِنْ آخِرِ ذَلِكَ اليَوْمِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات میں ) مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے پردہ ہٹایا۔ آپ نے صحابہ کو دیکھا۔ سب لوگ صفیں باندھے ہوئے تھے۔ آپ ( خوشی سے ) خوب کھل کر مسکرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آپ کو دیکھ کر ) پیچھے ہٹنا چاہا تاکہ صف میں مل جائیں۔ آپ نے سمجھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ صحابہ ( آپ کو دیکھ کر خوشی سے اس قدر بےقرار ہوئے کہ گویا ) نماز ہی چھوڑ دیں گے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی نماز پوری کر لو اور پردہ ڈال لیا۔ اسی دن چاشت کو آپ نے وفات پائی۔

 

❁ تشریح : ترجمہ باب یوں نکلا کہ صحابہ نے عین نماز میں التفات کیا۔ کیونکہ اگروہ التفات نہ کرتے تو آپ کا پردہ اٹھانا کیونکر دیکھتے اور ان کااشارہ کیسے سمجھتے۔ بلکہ خوشی کے مارے حال یہ ہوا کہ قریب تھا کہ وہ نماز کو بھول جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کے لیے دوڑیں۔ اسی حالت کو ان لفظوں سے تعبیر کیاگیا ہے کہ مسلمانوں نے یہ قصد کیا کہ وہ فتنے میں پڑجائیں۔ بہرحال یہ مخصوص حالات ہیں۔ ورنہ عام طور پر نماز میں التفات جائز نہیں جیسا کہ حدیث سابقہ میں گزرا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے وقوموا للہ قٰنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نماز میں اللہ کے لیے دلی توجہ کے ساتھ فرماں بردار بندے بن کر کھڑے ہوا کرو۔ نماز کی روح یہی ہے کہ اللہ کو حاضر ناظر یقین کرکے اس سے دل لگایاجائے۔ آیت شریفہ الذین ہم فی صلاتہم خاشعون ( المومنون: 2 ) کا یہی تقاضا ہے۔


بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، وَمَا يُجْهَرُ فِيهَا وَمَا يُخَافَتُ ❁ 
باب: امام اور مقتدی کے لئے قرات کا واجب ہونا ❁

❁ 755 حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: شَكَا أَهْلُ الكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ، وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا، فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لاَ يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ إِنَّ هَؤُلاَءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لاَ تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ «فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَخْرِمُ عَنْهَا، أُصَلِّي صَلاَةَ العِشَاءِ، فَأَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ وَأُخِفُّ فِي الأُخْرَيَيْنِ»، قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ يَا أَبَا إِسْحَاقَ، فَأَرْسَلَ مَعَهُ رَجُلًا أَوْ رِجَالًا إِلَى الكُوفَةِ، فَسَأَلَ عَنْهُ أَهْلَ الكُوفَةِ وَلَمْ يَدَعْ مَسْجِدًا إِلَّا سَأَلَ عَنْهُ، وَيُثْنُونَ مَعْرُوفًا، حَتَّى دَخَلَ مَسْجِدًا لِبَنِي عَبْسٍ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالُ لَهُ أُسَامَةُ بْنُ قَتَادَةَ يُكْنَى أَبَا سَعْدَةَ قَالَ: أَمَّا إِذْ نَشَدْتَنَا فَإِنَّ سَعْدًا كَانَ لاَ يَسِيرُ بِالسَّرِيَّةِ، وَلاَ يَقْسِمُ بِالسَّوِيَّةِ، وَلاَ يَعْدِلُ فِي القَضِيَّةِ، قَالَ سَعْدٌ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَدْعُوَنَّ بِثَلاَثٍ: اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ عَبْدُكَ هَذَا كَاذِبًا، قَامَ رِيَاءً وَسُمْعَةً، فَأَطِلْ عُمْرَهُ، وَأَطِلْ فَقْرَهُ، وَعَرِّضْهُ بِالفِتَنِ، وَكَانَ بَعْدُ إِذَا سُئِلَ يَقُولُ: شَيْخٌ كَبِيرٌ مَفْتُونٌ، أَصَابَتْنِي دَعْوَةُ سَعْدٍ، قَالَ عَبْدُ المَلِكِ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ، قَدْ سَقَطَ حَاجِبَاهُ عَلَى عَيْنَيْهِ مِنَ الكِبَرِ، وَإِنَّهُ لَيَتَعَرَّضُ لِلْجَوَارِي فِي الطُّرُقِ يَغْمِزُهُنَّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالملک بن عمیر نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، کہا کہ اہل کوفہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو علیحدہ کر کے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم میں تو انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں ( قرآت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے خدا کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو ( سنئیے کہ ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ خدا کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر دراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتا۔

 

❁ تشریح : حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے نماز کی جوتفصیل بیان کی اوراس کونبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیااسی سے باب کے جملہ مقاصد ثابت ہوگئے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں، یہ مستجاب الدعوات تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی تھی۔ عہدفاروقی میں یہ کوفہ کے گورنر تھے۔ مگرکوفہ والوں کی بے وفائی مشہور ہے۔ انھوں نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹی شکایتیں کیں۔ آخرحضرت عمررضی اللہ عنہ نے وہاں کے حالات کا اندازہ فرماکر حضرت عماررضی اللہ عنہ کو نماز پڑھانے کے لیے اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بیت المال کی حفاظت کے لیے مقرر فرمایا۔ حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی فضیلت کے لیے یہ کافی ہے کہ جنگ احد میں انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچاؤ کے لیے بے نظیر جرات کا ثبوت دیا۔ جس سے خوش ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے سعد! تیرچلا، تجھ پر میرے ماںباپ فداہوں۔ یہ فضیلت کسی اورصحابی کو نصیب نہیں ہوئی۔ جنگ ایران میں انھوں نے شجاعت کے وہ جوہر دکھلائے جن سے اسلامی تاریخ بھرپورہے۔ سارے ایران پر اسلامی پرچم لہرایا۔ رستم ثانی کو میدان کارزار میں بڑی آسانی سے مارلیا۔ جواکیلا ہزار آدمیوں کے مقابلہ پربھاری سمجھا جاتا تھا۔ حضرت سعدرضی اللہ عنہ نے اسامہ بن قتادہ کوفی کے حق میں بددعا کی جس نے آپ پرالزامات لگائے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی دعا قبول کی اور وہ نتیجہ ہوا جس کا یہاں ذکر موجود ہے۔ معلوم ہوا کہ کسی پرناحق کوئی الزام لگانابہت بڑا گناہ ہے۔ ایسی حالت میں مظلوم کی بددعا سے ڈرنا ایمان کی خاصیت ہے۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ
باب: نماز ظہر میں قرات کا بیان

❁ 756 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:152] قَالَ: «لاَ صَلاَةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا محمود بن ربیع سے، انھوں نے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی۔

 

❁ تشریح : امام کے پیچھے جہری اور سری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا اثبات بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ باوجود اس حقیقت کے پھر یہ ایک معرکہ آراءبحث چلی آرہی ہے۔ جس پر بہت سی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ جو حضرات اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان میں بعض کا توغلویہاں تک بڑھاہواہے کہ وہ اسے حرام مطلق قراردیتے ہیں اورامام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے والوں کے بارے میں یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے منہ میں آگ کے انگارے بھرے جائیں گے۔ نعوذباللہ منہ۔ اسی لیے مناسب ہوا کہ اس مسئلہ کی کچھ وضاحت کردی جائے تاکہ قائلین اورمانعین کے درمیان نفاق کی خلیج کچھ نہ کچھ کم ہوسکے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو حدیث لائے ہیں اس کے ذیل میں حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وسمیت فاتحۃ الکتاب لانہ یبدا بکتابتہا فی المصاحف ویبدا بقراتہا فی الصلوٰۃ و فاتحۃ کل شئی مبداہ الذی یفتح بہ مابعد افتتح فلان کذا ابتدا بہ قال ابن جریر فی تفسیرہ۔ ( ج1، ص: 25 ) و سمیت فاتحۃ الکتاب لانہا یفتتح بکتابتہا المصاحف ویقرابہا فی الصلوٰۃ فہی فواتح لما یتلوہا من سورالقرآن فی الکتابۃ واالقراۃ وسمیت ام القرآن لتقدمہا علی سائرسورالقرآن غیرہا وتاخرماسواہا فی القراۃ والکتابۃ الخ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 583 ) خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ سورۃ الحمد شریف کا نام فاتحۃ الکتاب اس لیے رکھا گیاکہ قرآن مجید کی کتابت اسی سے شروع ہوتی ہے اورنماز میں قرات کی ابتدا بھی اسی سے کی جاتی ہے۔ علامہ ابن جریر نے بھی اپنی تفسیر میں یہی لکھاہے۔ اس کو ام القرآن اس لیے کہا گیا کہ کتابت اورقرات میںیہ اس کی تمام سورتوں پر مقدم ہے۔ اورجملہ سورتیں اس کے بعد ہیں۔ یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ نمازمیں قرات سورۃ فاتحہ فرض ہے اوریہ نماز کے ارکان میں سے ہے۔ جو اسے نہ پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے بھی اپنی مشہورکتاب حجۃ اللہ البالغۃ، جلد2، ص: 4 پر اسے نماز کا اہم رکن تسلیم کیاہے۔ اس لیے کہ یہ حدیث عام ہے۔ نماز چاہے فرض ہو چاہے نفل، اوروہ شخص امام ہو یا مقتدی، یااکیلا۔ یعنی کسی شخص کی کوئی نماز بھی بغیرفاتحہ پڑھے نہیں ہوگی۔ چنانچہ مشہورشارح بخاری حضرت علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ شرح صحیح بخاری، جلد2، ص: 439 میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ای فی کل رکعۃ منفردا اواماما اوماموما سواءاسرالامام اوجہر یعنی اس حدیث کا مقصد یہ ہے کہ ہر رکعت میں ہرنماز کو خواہ اکیلا ہو یاامام ہو، یامقتدی، خواہ امام آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے سورۃ فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ نیز اسی طرح علامہ کرمانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وفی الحدیث ( ای حدیث عبادۃ ) دلیل علی ان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی الامام والمنفرد والماموم فی الصلوٰت کلہا۔ ( عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، جلد3، ص: 63 ) یعنی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث اس امر پر صاف دلیل ہے کہ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا امام اور اکیلے اورمقتدی سب کے لیے تمام نمازوں میں واجب ہے۔ نیز عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج3، ص: 84 ) میں لکھتے ہیں: حنفیوں کے مشہور شارح بخاری امام محمود احمدعینی التوفی 855ھ استدل بہذاالحدیث عبداللہ بن المبارک والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد واسحاق وابوثور وداؤد علی وجوب قراۃ الفاتحۃ خلف الامام فی جمیع الصلوٰت یعنی اس حدیث ( حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ ) سے امام عبداللہ بن مبارک، امام اوزاعی، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوثور، امام داؤد رحمۃ اللہ علیہم نے ( مقتدی کے لیے ) امام کے پیچھے تمام نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے وجوب پر دلیل پکڑی ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المجموع شرح مہذب، جلد3، ص: 326 مصری میں فرماتے ہیں: وقرا ۃ الفاتحۃ للقادر علیہا فرض من فروض الصلوٰۃ ورکن من ارکانہا ومتعینۃ لایقوم ترجمتہا بغیرالعربیۃ ولاقراۃ غیرہا من القرآن ویستوی فی تعینہا جمیع الصلوٰت فرضہا ونفلہا جہرہا و سرہا والرجل المراۃ والمسافر والصبی والقائم والقاعد والمضظجع وفی حال الخوف وغیرہا سواءفی تعینہا الامام والماموم والمنفرد یعنی جو شخص سورۃ فاتحہ پڑھ سکتاہے ( یعنی اس کو یہ سورہ یاد ہے ) اس کے لیے اس کا پڑھنا نماز کے فرائض میں سے ایک فرض اورنماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے اوریہ سورۃ فاتحہ نماز میں ایسی معین ہے کہ نہ تو اس کی بجائے غیرعربی میں اس کا ترجمہ قائم مقام ہوسکتاہے اورنہ ہی قرآن مجید کی دیگر آیت۔ اوراس تعین فاتحہ میں تمام نمازیں برابر ہیں فرض ہوں یا نفل، جہری ہوں یاسری اور مردعورت، مسافر، لڑکا ( نابالغ ) اورکھڑا ہوکر نماز پڑھنے والااوربیٹھ کر یالیٹ کر نماز پڑھنے والا سب اس حکم میں برابر ہیں اور اس تعین فاتحہ میں امام، مقتدی اوراکیلا نماز پڑھنے والا ( سبھی ) برابر ہیں۔ حدیث اورشارحین حدیث کی اس قدر کھلی ہوئی وضاحت کے باوجود کچھ حضرات کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس حدیث میں امام یا مقتدی یامنفرد کا ذکر نہیں۔ اس لیے اس سے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کی فرضیت ثابت نہیں ہوگی۔ اس کے جواب کے لیے حدیث ذیل ملاحظہ ہو۔ جس میں صاف لفظوں میں مقتدیوں کا ذکر موجود ہے۔ عن عبادۃ بن الصامت قال کنا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوٰۃ الفجر فقرا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فثقلت علیہ القراۃ فلما فرغ قال لعلکم تقرءون خلف امامکم قلنا نعم ہذا یارسول اللہ قال لا تفعلوا الابفاتحۃ الکتاب فانہ لا صلوٰۃ لمن لم یقرا ءبھا۔ ( ابوداؤد، ج1، ص: 119، ترمذی، ج1، ص: 41 وقال حسن ) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فجر کی نماز میں ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے جب قرآن شریف پڑھا توآپ پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔ جب آپ ( نمازسے ) فارغ ہوئے تو فرمایا کہ شاید تم اپنے امام کے پیچھے ( قرآن پاک سے کچھ ) پڑھتے رہتے ہو۔ ہم نے کہا، ہاں یا رسول اللہ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یادرکھو سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھا کرو۔ کیونکہ جو شخص سورۃ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہاہے۔ اس حدیث کے ذیل میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا الحدیث فی القراءۃ خلف الامام عند اکثر اہل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم والتابعین وہو قول مالک ابن انس وابن المبارک والشافعی واحمد واسحاق یرون القراءۃ خلف الامام۔ ( ترمذی، ج1، ص:41 ) یعنی امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کے بارے میں اکثراہل علم، صحابہ کرام اورتابعین کا اسی حدیث ( عبادہ رضی اللہ عنہ ) پر عمل ہے اور امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک ( شاگرد امام ابوحنیفہ ) ، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق ( بھی ) امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، ج1، ص: 205میں لکھتے ہیں: ہذاالحدیث نص صریح بان قراۃ الفاتحۃ واجبۃ علی من صلی خلف الامام سواءجہرالامام باالقراۃ اوخافت بہا و اسنادہ جید لا طعن فیہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 619 ) یعنی یہ حدیث نص صریح ہے کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔ خواہ امام قرات بلند آواز سے کرے یا آہستہ سے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص مقتدیوں کو خطاب کرکے سورۃ فاتحہ پڑھنے کاحکم دیااوراس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرکسی کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ اس حدیث کی سند بہت ہی پختہ ہے۔ جس میںطعن کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس بارے میں دوسری دلیل یہ حدیث ہے۔ عن ابی ہریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من صلی صلوٰۃ ولم یقرا فیہا بام القرآن فہی خداج ثلاثا غیرتمام فقیل لابی ہریرۃ انا نکون وراءالامام فقال اقرابہا فی نفسک فانی سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول قال اللہ تعالیٰ قسمت الصلوٰۃ بینی وبین عبدی نصفین الحدیث۔ ( صحیح مسلم، ج1، ص:169 ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھے تووہ نماز ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) ناقص ہے ( مردہ ) پوری نہیں ہے۔ جضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگ امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ( تب بھی پڑھیں ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ( ہاں ) اس کو آہستہ پڑھاکرو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ میں نے نماز کو اپنے اوربندے کے درمیان دوحصوں میں تقسیم کردیاہے۔ ( آخر تک ) اس حدیث میں سورۃ فاتحہ ہی کو نماز کہا گیاہے۔ کیونکہ نماز کی اصل روح سورۃ فاتحہ ہی ہے۔ دوحصوں میں بانٹنے کا مطلب یہ کہ شروع سورت سے ایاک نستعین تک مختلف طریقوں سے اللہ کی حمد وثناہے۔ پھر آخر سورت تک دعائیں ہیں جو بندہ خدا کے سامنے پیش کررہاہے۔ اس طرح یہ سورت شریفہ دوحصوں میں منقسم ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170میں لکھتے ہیں: ففیہ وجوب قراۃ الفاتحۃ وانہا متعینۃ لایجزی غیرھا الالعاجزعنہا وہذا مذہب مالک والشافعی وجمہور العلماءمن الصحابۃ والتابعین فمن بعدہم۔ یعنی اس حدیث ( ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ) میں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے کا ثبوت ہے اورعاجز کے سوا سورۃ فاتحہ نماز میں متعین ہے۔ کوئی دوسری آیت اس کی جگہ کفایت نہیں کرسکتی اور یہی مذہب امام مالک اورامام شافعی اور جمہورصحابہ کرام اورتابعین اوران کے بعد علماءوائمہ عظام کاہے۔ اس حدیث میں سورۃ فاتحہ پڑھے بغیرنماز کے لیے لفظ خداج کا استعمال کیاگیاہے۔ چنانچہ امام خطابی معالم السنن شرح ابوداؤد، جلد1، ص: 203 پر فہی خداج کا معنی لکھتے ہیں: معناہ ناقصۃ نقص فساد وبطلان یقول العرب اخدجت الناقۃ اذا القت ولدہا وہو دم لم یستبن خلقہ فہی مخدج والخداج اسم مبنی عنہ۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 588 ) حاصل اس کا یہ ہے کہ جس نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ فاسداور باطل ہے۔ اہل عرب اخدجت الناقۃ اس وقت بولتے ہیں جب اونٹنی اپنے بچے کو اس وقت گرادے کہ وہ خون ہو اور اس کی خلقت وپیدائش ظاہر نہ ہوئی ہو۔ اوراسی سے لفظ خداج لیا گیاہے۔ ثابت ہوا کہ خداج وہ نقصان ہے جس سے نماز نہیں ہوتی اوراس کی مثال اونٹنی کے مردہ بچہ جیسی ہے۔ اقرابہا فی نفسک اس کا معنی دل میں تدبر وتفکر اورغورکرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ساتھ آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھا کر۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والمراد بقولہ اقرابہا فی نفسک ان یتلفظ بہا سرا دون الجہر بہا ولایجوز حملہ علی ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لاجماع اہل اللسان علی ان ذلک لایسمی قراۃ ولاجماع اہل العلم علی ان ذکرہا بقلبہ دون التلفظ بہا لیس بشرط ولامسنون ولایجوز حمل الخبر علی مالا یقول بہ احد ولایساعدہ لسان العرب۔ ( کتاب القرات، ص: 17 ) یعنی اس قول ( اقرابہا فی نفسک ) سے مراد یہ ہے کہ زبان سے آہستہ آہستہ پڑھ اور اس کو ذکر قلب یعنی تدبر و تفکر و غور پر محمول کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ اہل لغت کا اس پراجماع ہے کہ اس کو قراۃ نہیں کہتے اوراہل علم کا اس پر بھی اجماع ہے کہ زبان سے تلفظ کئے بغیر صرف دل سے ذکر کرنا نماز کی صحت کے لیے نہ شرط ہے اورنہ ہی سنت۔ لہٰذا حدیث کو ایسے معنی پر حمل کرنا جس کا کوئی بھی قائل نہیں اورنہ ہی لغت عرب اس کی تائید کرے جائز نہیں۔ تفسیرجلالین، جلد1، ص: 148مصری میں واذکر ربک فی نفسک کا معنی لکھاہے: ای سرا یعنی اللہ تعالیٰ کو زبان سے آہستہ یادکر۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم، جلد1، ص: 170ںاقرابہا فی نفسک کا معنی لکھتے ہیں: فمعناہ اقراہا سرا بحیث تسمع نفسک واما ماحملہ علیہ بعض المالکیۃ وغیرہم ان المراد تدبر ذلک فلایقبل لان القراۃ لاتطلق الاعلی حرکۃ اللسان بحیث یسمع نفسہ۔ اورحدیث میں قرات ( پڑھنے ) کا حکم ہے۔ لہٰذا جب تک مقتدی فاتحہ کو زبان سے نہیں پڑھے گا، اس وقت تک حدیث پر عمل نہیں ہوگا۔ ہدایہ، جلد1، ص: 98 میں ہے: لان القراۃ فعل اللسان کیونکہ قراۃ ( پڑھنا ) زبان کا کام ہے۔ کفایہ، جلد1، ص: 64 میں ہے: فیصلی السامع فی نفسہ ای یصلی بلسانہ خفیا یعنی جب خطیب آیت یآیہا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما ( الاحزاب: 56 ) پڑھے توسامعین کو چاہئیے کہ اپنی زبان سے آہستہ درود پڑھ لیں۔ یعنی فی نفسہ کا معنی زبان سے آہستہ اورپوشیدہ پڑھنا ہے۔ ان حوالہ جات سے واضح ہوگیا کہ فی نفسک کا معنی دل میں تدبر اور غوروفکر کرنا، لغت اوراہل علم اور خودفقہاءکی تصریحات کے خلاف ہے اورصحیح معنی یہ ہے کہ زبان سے آہستہ پڑھا کراوریہی حدیث کا مقصود ہے۔ تیسری حدیث یہ ہے: عن عائشہ رضی اللہ عنہا قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من صلی صلوٰۃ لم یقرافیہا بفاتحۃ الکتاب فہی خداج غیر تمام۔ ( جزءالقرات، ص: 8، دہلی، کتاب القرات، ص: 31 ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی نماز میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے پوری۔ ” خداج کی تفسیر اوپر گزر چکی ہے۔ اس بارے میں چوتھی حدیث یہ ہے: عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 ) حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔ اس حدیث سے امام کے پیچھے مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی فرضیت صاف ثابت ہے۔ اس بارے میں مزیدوضاحت کے لیے پانچویں حدیث یہ ہے: عن ابی قلابۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لعل احدکم یقرا خلف الامام والامام یقرافقال رجل انالنفعل ذلک قال فلا تفعلوا ولکن لیقرا احدکم بفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 50 ) ابوقلابہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شایدجب امام پڑھ رہا ہو تو ہر ایک تمہارا امام کے پیچھے پڑھتاہے۔ ایک آدمی نے کہا بے شک ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو اورلیکن ہر ایک تمہارا ( امام کے پیچھے ) سورۃ فاتحہ پڑھا کرے۔ ان احادیث سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مقتدی کے لیے سورۃ فاتحہ ضروری ہے۔ کیونکہ ان احادیث میں خاص لفظ فاتحہ اورخلف امام موجود ہے اورمزید وضاحت کے لیے چھٹی حدیث یہ ہے: عن عبداللہ بن سوادۃ القشیری عن رجل من اہل البادیۃ عن ابیہ وکان ابوہ اسیرا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال سمعت محمدا صلی اللہ علیہ وسلم قال لاصحابہ تقرؤن خلفی القرآن فقالوا یارسول اللہ نہذہ ہذا قال لا تقروا الابفاتحۃ الکتاب۔ ( کتاب القراۃ، ص: 53 ) عبداللہ بن سوادۃ ایک دیہاتی سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں اور اس کا باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسیر تھا۔ اس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو فرماتے ہوئے سنا۔ کیا تم نماز میں میرے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا سوائے سورۃ فاتحہ کے کچھ نہ پڑھا کرو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وتواترالخبرعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاصلوٰۃ الابقراۃ ام القرآن۔ ( جزءالقراۃ، ص: 4، دہلی ) یعنی اس بارے میں کہ بغیرسورۃ فاتحہ پڑھے نماز نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر ( یعنی جم غفیر روایت کرتے ہیں ) کے ساتھ احادیث مروی ہیں۔ امام عبدالوہاب شعرانی میزان کبریٰ، جلد1، ص: 166، طبع دہلی میں فرماتے ہیں: من قال بتعین الفاتحۃ وانہ لایجزی قراۃ غیرہا قددار مع ظاہرالاحادیث التی کادت تبلغ حدالتواتر مع تائید ذلک بعمل السلف والخلف۔ یعنی جن علماءنے سورۃ فاتحہ کو نماز میںمتعین کیاہے اورکہاکہ سورۃ فاتحہ کے سوا کچھ اورپڑھنا کفایت نہیں کرسکتا۔ اولاً توان کے پاس احادیث نبویہ اس کثرت سے ہیں کہ تواتر کو پہنچنے والی ہیں۔ ثانیاً سلف وخلف ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین وائمہ عظام ) کا عمل بھی تعین فاتحہ درنماز کی تائید کرتاہے۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام، جلد1، ص: 219 مطبع نظامی میں ہے۔ “ وایں حدیث راشواہد بسیاراست۔ ” یعنی قراۃ فاتحہ خلف الامام کی حدیث کے شواہد بہت زیادہ ہیں۔ تفسیر ابن کثیر، ص: 12 میں ہے: والاحادیث فی ہذا الباب کثیرۃ یعنی قراۃ فاتحہ کی احادیث بکثرت ہیں۔ ان ہی احادیث کثیرہ کی بناپر بہت سے محققین علمائے احناف بھی قراۃ خلف الامام کے قائل ہیں، جس کی تفصیل کے سلسلہ میں المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: علامہ شعرانی نے لکھاہے کہ امام ابوحنیفہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ مقتدی کو الحمدنہیں پڑھنا چاہئیے ان کا پرانا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنے پرانے قول سے رجوع کرلیا ہے اورمقتدی کے لیے الحمد پڑھنے کو سری نماز میں مستحسن اورمستحب بتایاہے۔ چنانچہ علامہ موصوف لکھتے ہیں: لابی حنیفۃ ومحمد قولان احدھما عدم وجوبہا علی الماموم بل ولاتسن وہذا قولہما القدیم وادخلہ محمد فی تصانیفہ القدیمۃ وانتشرت النسخ الی الاطراف وثانیہا استحسانہا علی سبیل الاحتیاط وعدم کراہتہا عندالمخالفۃ الحدیث المرفوع لاتفعلوا الابام القرآن وفی روایۃ لاتقروا بشئی اذا جہرت الابام القرآن وقال عطاءکانوا یرون علی الماموم القراۃ فی ما یجہر فیہ الامام وفی مایسرفرجعا من قولہما الاول الی الثانی احتیاطا انتہیٰ کذا فی غیث الغمام، ص: 156 حاشیۃ امام الکلام۔ خلاصہ ترجمہ: اس عبارت کا یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے دوقول ہیں۔ ایک یہ کہ مقتدی کوالحمد پڑھنا نہ واجب ہے اورنہ سنت اوران دونوں اماموں کا یہ قول پرانا ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے اپنی قدیم تصنیفات میں اسی قول کو درج کیاہے اور ان کے نسخے اطراف وجوانب میں منتشر ہوگئے اور دوسرا قول یہ ہے کہ مقتدی کونماز سری میں الحمد پڑھنا مستحسن ہے علی سبیل الاحتیاط۔ اس واسطے کہ حدیث مرفوع میں وارد ہواہے کہ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور ایک روایت میں ہے کہ جب میں باآوازبلند قرات کروں توتم لوگ کچھ نہ پڑھو مگرسورۃ فاتحہ اور عطاءرحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ ( یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین رحمۃ اللہ علیہم ) کہتے تھے کہ نماز سری وجہری دونوں میں مقتدی کوپڑھنا چاہئیے۔ پس امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے احتیاطاً اپنے پہلے قول سے دوسرے قول کی طرف رجوع کیا۔ لواب بقول علامہ شعرانی امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہوا بلکہ مستحسن ومستحب۔ اے ناظرین: جس حدیث کو علامہ شعرانی نے ذکرکیاہے اورجس کی وجہ سے امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اپنے قول سے رجوع کرنا لکھاہے۔ اسی حدیث اوراس کے مثل اوراحادیث صحیحہ کو دیکھ کرخود مذہب حنفی کے بڑے بڑے فقہاءوعلماءامام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے قول قدیم کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل وفاعل ہوگئے۔ بعض تونماز سری اور جہری دونوں میں اور بعض فقط نماز سری میں۔ علامہ عینی شرح بخاری میں لکھتے ہیں: بعض اصحابنا یستحسنون ذلک علی سبیل الاحتیاط فی جمیع الصلوات وبعضہم فی السریۃ فقط وعلیہ فقہاءالحجاز والشام ( کذا فی غیث الغمام، ص: 156 ) یعنی بعض فقہائے حنفیہ ہرنماز میں خواہ سری ہو خواہ جہری امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کواحتیاطاً مستحسن بتاتے ہیں اوربعض فقہاءفقط نماز سری میں اورمکہ اورمدینہ اورملک شام کے فقہاءکا اسی پر عمل ہے۔ عمدۃ القاری، ص: 173میں مولانا عبدالحئی صاحب لکھتے ہیں: وروی عن محمدانہ استحسن قراءۃ الفاتحۃ خلف الامام فی السریۃ و روی مثلہ عن ابی حنیفۃ صریح بہ فی الہدایۃ والمجتبیٰ شرح مختصر القدروی وغیرہما وہذا ہو مختار کثیرمن مشائخنا یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ انھوں نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز سری میں مستحسن بتایاہے اوراسی طرح امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیاگیاہے۔ اوراسی کو ہمارے بہت سے مشائخ نے اختیارکیاہے۔ ہدایہ میں ہے ویستحسن علی سبیل الاحتیاط فی مایروی عن محمد یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا احتیاطاً مستحسن ہے۔ مولوی عبدالحی صاحب امام الکلام میں لکھتے ہیں: وہو وان کان ضعیفاً روایۃ لکنہ قوی درایۃ ومن المعلوم المصرح فی غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی وغیرہ انہ لایعدل عن الروایۃ اذا وافقتہا درایۃ یعنی امام محمدرحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول کہ ” امام کے پیچھے الحمد پڑھنا مستحسن ہے “ اگرچہ روایتاً ضعیف ہے لیکن دلیل کے اعتبار سے قوی ہے۔ اور غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جب روایت دلیل کے موافق ہو تواس سے عدول نہیں کرناچاہئیے اورعلامہ شعرانی کے کلام سے اوپر معلوم ہوچکاہے کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نیز امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کابھی اخیرقول ہے۔ اور ان دونوں اماموں نے اپنے پہلے قول سے رجوع کرلیاہے۔ اورشیخ الاسلام نظام الملۃ والدین مولانا عبدالرحیم جوشیخ التسلیم کے لقب سے مشہور ہیں اوررئیس اہل تحقیق کے نام سے بھی آپ یادکئے گئے ہیں اورباتفاق علماءماوراءالنہر وخراسان مذہب حنفی کے ایک مجتہد ہیں۔ آپ باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک قدیم کو چھوڑکر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب کہتے ہیں اورخود بھی پڑھتے اور فرماتے تھے: لوکان فی فمی یوم القیامۃ جمرۃ احب الی من ان یقال لاصلوٰۃ لک یعنی اگرقیامت کے روز میرے منہ میں انگارا ہو تومیرے نزدیک یہ بہتر ہے اس سے کہ کہا جائے کہ تیری تونماز ہی نہیں ہوئی۔ ( امام الکلام، ص: 20 ) اے ناظرین! یہ حدیث کہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی نہایت صحیح ہے اوریہ حدیث جو شخص امام کے پیچھے پڑھے اس کے منہ میں قیامت کے روز انگارا ہوگا موضوع اورجھوٹی ہے۔ شیخ التسلیم نے اپنے قول میں پہلی حدیث کے صحیح ہونے اوردوسری حدیث کے موضوع اورجھوٹی ہونے کی طرف اشارہ کیاہے۔ اورامام ابوحفص کبیر رحمۃ اللہ علیہ جومذہب حنفی کے ایک بہت بڑے مشہور فقیہ ہیں اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ کبار میں سے ہیں۔ آپ نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ یعنی یہ بھی نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے اوران کے سوا اور بہت سے فقہاءنے بھی اسی مسلک کو اختیار کیاہے۔ جیسا کہ گزر چکاہے اورمشائخ حنفیہ اورجماعت صوفیہ کے نزدیک بھی یہی مسلک مختار ہے۔ ملاجیون نے تفسیراحمدی میں لکھاہے: فان رایت الطائفۃ الصوفیۃ والمشائخین تراہم یستحسنون قراۃ الفاتحۃ للموتم کما استحسنہ محمد ایضا احتیاطاً فیماروی عنہ انتہیٰ یعنی اگرجماعت صوفیہ اورمشائخین حنفیہ کو دیکھوگے توتمھیں معلوم ہوگا کہ یہ لوگ امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن بتاتے تھے۔ جیساکہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ احتیاطاً استحسان کے قائل تھے۔ اورمولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ دہلوی نے بھی باوجود حنفی المذہب ہونے کے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اولیٰ الاقوال بتایاہے۔ دیکھو حجۃ اللہ البالغۃ اور جناب شاہ صاحب کے والدماجد مولاناشاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کے قائل تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب ” انفاس العارفین “ میں اپنے والد ماجد کے حال میں لکھتے ہیں کہ وہ ( یعنی مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) اکثرمسائل فروعیہ میں مذہب حنفی کے موافق تھے۔ لیکن کسی مسئلہ میں حدیث سے یاوجدان سے مذہب حنفی کے سوا کسی اورمذہب کی ترجیح اورقوت ظاہر ہوتی تو اس صورت میں حنفی مذہب کا مسئلہ چھوڑدیتے۔ ازاں جملہ ایک یہ ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھتے تھے اورنماز جنازہ میں بھی سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔ ( غیث الغمام، ص: 174 ) اورمولانا شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی فرضیت کوترجیح دی ہے۔ چنانچہ آپ ایک استفتا کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے پیچھے الحمد پڑھنا امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک منع ہے اورامام محمدرحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جس وقت امام آہستہ پڑھے جائز ہے۔ اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بغیر پڑھے الحمد کے نماز جائز نہیں۔ اورنزدیک اس فقیر کے بھی قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا ترجیح رکھتاہے اور بہترہے کیونکہ اس حدیث کے لحاظ سے نہیں نماز ہوتی مگر سورۃ فاتحہ سے نماز کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اورقول امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی جابجا وارد ہے کہ جس جگہ حدیث صحیح وارد ہو اورمیرا قول اس کے خلاف پڑے تومیرے قول کو چھوڑدینا چاہئیے اورحدیث پر عمل کرناچاہئیے۔ انتہیٰ مترجماً بقدرالحاجۃ۔ اورمولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی نے اس مسئلہ میں خاص ایک رسالہ تصنیف کیاہے جس کا نام امام الکلام ہے اس رسالہ میں آپ نے باوجود حنفی ہونے کے یہ فیصلہ کیاہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ومستحب ہے اور نماز جہری میں بھی سکتات امام کے وقت۔ چنانچہ رسالہ مذکورہ ص: 156میں لکھتے ہیں: فاذن ظہرحق الظہور ان اقوی المسالک سلک علیہا اصحابنا ہومسلک استحسان القراۃ فی السریۃ کما ہو روایۃ عن محمد بن الحسن واختارہا جمع من فقہاءالزمن وارجورجاءموثقا ان محمدالما جوز القراۃ فی السریۃ واستحسنہا لابد ان یجوز القراۃ فی الجہریۃ فی السکتات عند وجدانہا لعدم الفرق بینہ و بینہ انتہیٰ مختصرا یعنی اب نہایت اچھی طرح ظاہرہوگیا کہ جن مسلکوں کو ہمارے فقہائے حنفیہ نے اختیارکیاہے، ان سب میں زیادہ قوی یہی مسلک ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا نماز سری میں مستحسن ہے۔ جیسا کہ روایت ہے امام محمدرحمۃ اللہ علیہ سے اوراسی مسلک کو فقہائے زمانہ کی ایک جماعت نے اختیار کیاہے اورمیں ( یعنی مولوی عبدالحئی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) امید واثق رکھتاہوں کہ امام محمدرحمۃ اللہ علیہ نے جب نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن کہا ہے توضرور جہری میں بھی سکتات امام کے وقت مستحسن ہونے کے قائل ہوں گے۔ کیونکہ نماز جہری میں سکتات امام کی حالت میں اورنماز سری میں کچھ فرق نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف نے اپنا یہی فیصلہ سعایہ شرح وقایہ میں بھی لکھاہے۔ ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوۃ میں یہ لکھاہے کہ نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنا جائز ہے، اورنماز جہری میں منع ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے ملاصاحب کے اس قول کورد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ میں لکھتے ہیں کہ ملاعلی قاری کا یہ قول ضعیف ہے، کیاملا علی قاری کو یہ نہیں معلوم ہے کہ عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نماز جہری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کا جواز صراحتاً ثابت ہے۔ فتح القدیر وغیرہ کتب فقہ میں لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے۔ مولوی عبدالحئی صاحب نے اس کو بھی رد کردیاہے۔ چنانچہ سعایہ، ص: 304 میں لکھتے ہیں: وکذا ضعف ما فی فتح القدیر وغیرہ ان الاخذ بالمنع احوط فانہ لامنع ہہنا عند تدقیق النظر یعنی فتح القدیر وغیرہ میں جو یہ لکھاہے کہ منع کی دلیلوں کے لینے میں زیادہ احتیاط ہے، سویہ ضعیف ہے۔ کیونکہ دقیق نظر سے دیکھا جائے تویہاں منع کی کوئی روایت ہی نہیں ہے اورمولوی صاحب موصوف تعلیق الممجد، ص: 101 میں لکھتے ہیں: لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ مرفوعا فیہ اما لااصل لہ واما لا یصح انتہی۔ یعنی امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کی ممانعت کسی حدیث مرفوع صحیح میں وارد نہیں ہوئی اور ممانعت کے بارے میں علمائے حنفیہ جس قدر مرفوع حدیثیں بیان کرتے ہیں یاتو ان کی کچھ اصل ہی نہیں ہے یاوہ صحیح نہیں ہیں۔ اے ناظرین! دیکھو اورتو اورخودمذہب حنفی کے بڑے فقہاءوعلماءنے قرات فاتحہ خلف الامام کی حدیثوں کو دیکھ کر امام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک مشہور کو چھوڑ کر امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحسن ومستحب بتایاہے اورخود بھی پڑھاہے۔ بعض فقہاءنے ہرنماز میں سری ہو یا جہری اور بعض نے فقط سری میں۔ اوربقول علامہ شعرانی خودامام ابوحنیفہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اورامام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان ہی حدیثوں کی وجہ سے اپنے پہلے قول سے رجوع کرکے نماز سری میں امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو مستحب ومستحسن بتایاہے اور مولوی عبدالحئی صاحب لکھنوی حنفی نے اس مسئلہ میں جو کچھ فیصلہ کیااور لکھاہے۔ آپ لوگوں نے اس کو بھی سن لیا۔ مگربااین ہمہ ابھی تک بعض حنفیہ کا یہی خیال ہے کہ امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہرنماز میں سری ہو خواہ جہری ناجائز وحرام ہے۔ اور امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اسی مسلک مشہور کو ( جس کی کیفیت مذکورہوچکی ہے ) شاہ راہ سمجھ کر اسی پر چلے جاتے ہیں۔ خیراگر اسی مسلک کو شاہ راہ سمجھتے تھے اور اسی پر چپ چاپ چلے جاتے۔ لیکن حیرت تویہ ہے کہ ساتھ اس کے قرات فاتحہ خلف الامام کی ان حدیثوں کا بھی صاف انکار کیاجاتاہے ۔ جن کی وجہ سے اورتو اورخودمذہب حنفی کے ائمہ وفقہاءوعلماءنے امام کے پیچھے الحمد پڑھنے کو اختیار کرلیا۔ یااگر انکارنہیں کیاجاتاہے توان کی مہمل اورناجائز تاویلیں کی جاتی ہیں۔ اورزیادہ حیرت تو ان علمائے حنفیہ سے ہے جوروایات موضوعہ وکاذبہ اورآثار مختلفہ وباطلہ کو اپنی تصنیفات میں درج کرکے اوربیان کرکے اپنے عوام اورجاہل لوگوں کو فتنے میں ڈالتے ہیں اوران کی زبان سے اورتواور خود اپنے ائمہ وفقہاءکی شان میں کلمات ناشائستہ اورالفاظ ناگفتہ بہ نکلواتے ہیں۔ کوئی جاہل بکتاہے کہ امام کے پیچھے جوالحمد پڑھے گا وہ گنہگار ہے۔ والعیاذ باللہ۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواہہم ( الکہف: 5 ) ۔ اگرچہ غور سے دیکھاجائے تو ان جاہلوں کا یہ قصورنمبردوم میں ہے اور نمبراول کا قصور انھیں علماءحنفیہ کا ہے، جو روایات کاذبہ و موضوعہ کو ذکرکرکے ان جاہلوں کو فتنے میں ڈالتے اوران کی زبان سے اپنے بزرگان دین کے منہ میں آگ وپتھر بھرواتے ہیں اورجو چاہتے ہیں ان سے کہلواتے ہیں۔ اگریہ روایات کاذبہ وموضوعہ کو بیان نہ کرتے یابیان کرتے مگران کا کذب وموضوع ہونا بھی صاف صاف ظاہر کرتے اورساتھ اس کے اس ضمن کو بھی واضح طور پر بیان کرتے جو اوپر ہم نے بیان کیا ہے توان جاہلوں کی زبان سے ایسے ناگفتہ بہ کلمات نہ نکلتے۔ آنچہ مے پرسی کہ خسرو را کہ کشت غمزئہ تو چشم تو ابروئے تو ( تحقیق الکلام، حصہ اول، ص: 7 ) ہمارے محترم علمائے احناف کے پاس بھی کچھ دلائل ہیں جن کی تفصیلی حقیقت معلوم کرنے کے لیے محدث کبیر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری کی مشہور کتاب تحقیق الکلام کا مطالعہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں ہم اجمالی طور پر ان دلائل کی حقیقت حضرت مولاناعبدالحئی حنفی لکھنوی مرحوم کے لفظوں میں پیش کردینا چاہتے ہیں۔ موصوف علمائے احناف کے چوٹی کے عالم ہیں۔ مگراللہ پاک نے آپ کوجو بصیرت عطا فرمائی وہ قابل صدتعریف ہے۔ چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل بیان میں اس بحث کا بالکل خاتمہ کردیاہے۔ آپ فرماتے ہیں : لم یرد فی حدیث مرفوع صحیح النہی عن قراۃ الفاتحۃ خلف الامام وکل ماذکروہ فیہ امالااصل لہ واما لایصح۔ ( تعلیق الممجد علی موطا امام مالک، ص: 101، طبع یوسفی ) یعنی کسی مرفوع حدیث میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کی نہی ( منع ) وارد نہیں ہوئی اور اس کے بارے میں علمائے حنیفہ جس قدردلائل ذکر کرتے ہیں یاتو وہ بالکل بے اصل اورمن گھڑت ہیں، یا وہ صحیح نہیں۔ فظہر انہ لایوجد معارض لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام مرفوعا۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 طبع یوسفی ) یعنی امام کے پیچھے ( سورہ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے معارض ومخالف کوئی مرفوع حدیث نہیں پائی جاتی۔ حنفیہ کے دلائل کے جواب ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وبالجملۃ لایظہر لاحادیث تجویزالقراۃ خلف الامام معارض یساویہا فی الدرجۃ ویدل علی المنع۔ ( تعلیق الممجد، ص: 101 ) یعنی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے پیچھے ( سورۃ فاتحہ ) پڑھنے کی احادیث کے درجہ کی کوئی معارض ومخالف حدیث نہیں ہے اورنہ ہی ( امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کے ) منع پر کوئی حدیث دلالت کرتی ہے۔ امید ہے کہ ناظرین کرام کے اطمینان خاطرکے لیے اسی قدرکافی ہوگا۔ اپنا مقصد صرف یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ خلف الامام پڑھنے والوں سے حسد بغض رکھنا، ان کو غیرمقلد، لامذہب کہنا یہ کسی طرح بھی زیبانہیں ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے فروعی مباحث میں وسعت قلبی سے کام لے کر باہمی اتفاق کے لیے کوشش کی جائے جس کی آج اشد ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق۔ نوٹ: کچھ لوگ آیت شریفہ واذاقری القرآن سے سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے کی دلیل پکڑتے ہیں حالانکہ یہ آیت مکہ شریف میں نازل ہوئی جب کہ نماز باجماعت کا سلسلہ بھی نہ تھا، لہٰذا استدلال باطل ہے۔ تفصیل مزید کے لیے ثنائی ترجمہ والے قرآن مجید کے آخر میں مقالہ ثنائی کا مطالعہ کیاجائے۔ ( راز


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ
باب: نماز ظہر میں قرات کا بیان ❁ 

❁ 758 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ سَعْدٌ: «كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلاَتَيِ العَشِيِّ لاَ أَخْرِمُ عَنْهَا، أَرْكُدُ فِي الأُولَيَيْنِ، وَأَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ» فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: ذَلِكَ الظَّنُّ بِكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے عبدالملک بن عمیر سے بیان کیا، انھوں نے جابر بن سمرہ سے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا میں ان ( کوفہ والوں ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھاتا تھا۔ ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں، کسی قسم کا نقص ان میں نہیں چھوڑتا تھا۔ پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ
❁ باب: نماز ظہر میں قرات کا بیان

❁ 759 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ، وَسُورَتَيْنِ يُطَوِّلُ فِي الأُولَى، وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ وَيُسْمِعُ الآيَةَ أَحْيَانًا، وَكَانَ يَقْرَأُ فِي العَصْرِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ وَسُورَتَيْنِ، وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الأُولَى، وَكَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ، وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور ہر رکعت میں ایک ایک سورت پڑھتے تھے، ان میں بھی قرآت کرتے تھے لیکن آخری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتے تھے کبھی کبھی ہم کو بھی کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے۔ عصر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ فاتحہ اور سورتیں پڑھتے تھے، اس کی بھی پہلی دو رکعتیں لمبی پڑھتے۔ اسی طرح صبح کی نماز کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری ہلکی۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ
❁ باب: نماز ظہر میں قرات کا بیان

❁ 760 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنِي عُمَارَةُ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: سَأَلْنَا خَبَّابًا أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ؟ قَالَ: «بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن مہران اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمارہ بن عمیر نے بیان کیا ابومعمر عبداللہ بن مخبرہ سے، کہا کہ ہم نے خباب بن ارت سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآت کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے بتلایا کہ ہاں، ہم نے پوچھا کہ آپ لوگوں کو کس طرح معلوم ہوتا تھا؟ فرمایا کہ آپ کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر میں قرات کا بیان

❁ 761 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِخَبَّابِ بْنِ الأَرَتِّ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ قِرَاءَتَهُ؟ قَالَ: «بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے اعمش سے، انھوں نے عمارہ بن عمیر سے، انھوں نے ابومعمر سے کہ میں نے خباب بن الارت سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرات کیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں! میں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات کرنے کو آپ لوگ کس طرح معلوم کر لیتے تھے؟ فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے ہلنے سے۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر میں قرات کا بیان

❁ 762 حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ، وَسُورَةٍ سُورَةٍ، وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ أَحْيَانًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے ہشام دستوائی سے، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی دو رکعات میں سورہ فاتحہ اور ایک ایک سورہ پڑھتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی کوئی آیت ہمیں سنا بھی دیا کرتے۔

 

❁ تشریح : مقصود یہ ہے کہ ظہراورعصر کی نمازوں میں بھی امام اور مقتدی ہر دو کے لیے قرات سورۃ فاتحہ اورا س کے بعد پہلی دو رکعات میں کچھ اور قرآن پاک پڑھنا ضروری ہے۔ سورۃ فاتحہ کا پڑھنا تو اتناضروری ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز ہی نہ ہوگی اورکچھ آیات کا پڑھنا بس مسنون طریقہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سری نمازوں میں مقتدیوں کو معلوم کرانے کے لیے امام اگرکبھی کسی آیت کو آواز سے پڑھ دے تواس سے سجدئہ سہو لازم نہیں آتا۔ نسائی کی روایت میں ہے کہ ہم صحابہ آپ سے سورۃ لقمان اور سورۃ والذاریات کی آیت کبھی کبھار سن لیاکرتے تھے۔ بعض روایتوں میں سورۃ سبح اسم اورسورۃ ہل اتاک حدیث الغاشیۃ کا ذکر آیا ہے۔ بہرحال اس طرح کبھی کبھار کوئی آیت آواز سے پڑھ دی جائے توکوئی حرج نہیں۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي المَغْرِبِ
❁ باب: نماز مغرب میں قرات کا بیان

❁ 763 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ أُمَّ الفَضْلِ سَمِعَتْهُ وَهُوَ يَقْرَأُ: {وَالمُرْسَلاَتِ عُرْفًا} [المرسلات: 1] فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ، وَاللَّهِ لَقَدْ ذَكَّرْتَنِي بِقِرَاءَتِكَ «هَذِهِ السُّورَةَ، إِنَّهَا لَآخِرُ [ص:153] مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فِي المَغْرِبِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبر دی، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ام فضل رضی اللہ عنہما ( ان کی ماں ) نے انھیں والمرسلات عرفا پڑھتے ہوئے سنا۔ پھر کہا کہ اے بیٹے! تم نے اس سورت کی تلاوت کر کے مجھے یاد دلایا۔ میں آخر عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں یہی سورت پڑھتے ہوئے سنتی تھی۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي المَغْرِبِ
باب: نماز مغرب میں قرات کا بیان ❁ 

❁ 764 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ الحَكَمِ، قَالَ: قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: «مَا لَكَ تَقْرَأُ فِي المَغْرِبِ بِقِصَارٍ، وَقَدْ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِطُولَى الطُّولَيَيْنِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا، انھوں نے عبدالملک ابن جریج سے، انھوں نے ابن ابی ملیکہ ( زہیر بن عبداللہ ) سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے مروان بن حکم سے، اس نے کہا زید بن ثابت نے مجھے ٹوکا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم مغرب میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے ہو۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو لمبی سورتوں میں سے ایک سورت پڑھتے ہوئے سنا۔


❁ بَابُ الجَهْرِ فِي المَغْرِبِ
❁ باب: نماز مغرب میں بلند آواز سے قرات

❁ 765 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَرَأَ فِي المَغْرِبِ بِالطُّورِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابن شہاب سے خبر دی، انھوں نے محمد بن جبیر بن مطعم سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب میں سورہ طور پڑھتے ہوئے سنا تھا۔

 

❁ تشریح : مغرب کی نماز کا وقت تھوڑا ہوتاہے، اس لیے اس میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھی جاتی ہیں۔ لیکن اگر کبھی کوئی بڑی سورت بھی پڑھ دی جائے تویہ بھی مسنون طریقہ ہے۔ خاص طور پر سورۃ طور پڑھنا کبھی سورۃ مرسلات۔


❁ بَابُ الجَهْرِ فِي العِشَاءِ
❁ باب: نماز عشاء میں بلند آواز سے قرات

❁ 766 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ العَتَمَةَ، فَقَرَأَ: إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَسَجَدَ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: «سَجَدْتُ خَلْفَ أَبِي القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلاَ أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا اپنے باپ سے، انھوں نے بکر بن عبداللہ سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی۔ اس میں آپ نے اذا السماء انشقت پڑھی اور سجدہ ( تلاوت ) کیا۔ میں نے ان سے اس کے متعلق معلوم کیا تو بتلایا کہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی ( اس آیت میں تلاوت کا ) سجدہ کیا ہے اور زندگی بھر میں اس میں سجدہ کروں گا، یہاں تک کہ میں آپ سے مل جاؤں۔


❁ بَابُ الجَهْرِ فِي العِشَاءِ
❁ باب: نماز عشاء میں بلند آواز سے قرات

❁ 767 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ البَرَاءَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ فَقَرَأَ فِي العِشَاءِ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ: بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا عدی بن ثابت سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب سے سنا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ سفر میں تھے کہ عشاء کی دو پہلی رکعات میں سے کسی ایک رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والتین والزیتون پڑھی۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي العِشَاءِ بِالسَّجْدَةِ
❁ باب: نماز عشاء میں سجدہ کی سورۃ پڑھنا

❁ 768 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي التَّيْمِيُّ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ العَتَمَةَ، فَقَرَأَ: إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ، فَسَجَدَ، فَقُلْتُ: مَا هَذِهِ؟ قَالَ: «سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلاَ أَزَالُ أَسْجُدُ بِهَا حَتَّى أَلْقَاهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے تیمی نے ابوبکر سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء پڑھی، آپ نے اذا السماء انشقت پڑھی اور سجدہ کیا۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ سجدہ کیسا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ اس سورت میں میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سجدہ کیا تھا۔ اس لیے میں بھی ہمیشہ اس میں سجدہ کروں گا، یہاں تک کہ آپ سے مل جاؤں۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي العِشَاءِ
❁ باب: نماز عشاء میں قرات کا بیان

❁ 769 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، سَمِعَ البَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ: وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ فِي العِشَاءِ، وَمَا سَمِعْتُ أَحَدًا أَحْسَنَ صَوْتًا مِنْهُ أَوْ قِرَاءَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے مسعر بن کدام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عدی بن ثابت نے کہا۔ انھوں نے براء رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عشاء میں والتین والزیتون پڑھتے سنا۔ میں نے آپ سے زیادہ اچھی آواز یا اچھی قرات والا کسی کو نہیں پایا۔


بَابُ يُطَوِّلُ فِي الأُولَيَيْنِ وَيَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ ❁  
❁ باب: عشاء کی پہلی دو رکعتیں لمبی

❁ 770 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ لِسَعْدٍ: لَقَدْ شَكَوْكَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى الصَّلاَةِ، قَالَ: «أَمَّا أَنَا، فَأَمُدُّ فِي الأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ، وَلاَ آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» قَالَ: صَدَقْتَ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَوْ ظَنِّي بِكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابوعون محمد بن عبداللہ ثقفی سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن سمرہ سے سنا، انھوں نے بیان کیا کہ امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی شکایت کوفہ والوں نے تمام ہی باتوں میں کی ہے، یہاں تک کہ نماز میں بھی۔ انھوں نے کہا کہ میرا عمل تو یہ ہے کہ پہلی دو رکعات میں قرات لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو میں مختصر جس طرح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تھی اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچ کہتے ہو۔ تم سے امید بھی اسی کی ہے۔

 

❁ تشریح : پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت سعدرضی اللہ عنہ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایامگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدرضی اللہ عنہ کو وہاں سے بلالیا۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔ بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الفَجْرِ

❁ باب: نماز فجر میں قرات قرآن


❁ 771 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلاَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ، وَالعَصْرَ، وَيَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى المَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ – وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ – وَلاَ يُبَالِي بِتَأْخِيرِ العِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَلاَ يُحِبُّ [ص:154] النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَلاَ الحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَيُصَلِّي الصُّبْحَ، فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ، فَيَعْرِفُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ – أَوْ إِحْدَاهُمَا – مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیار ابن سلامہ نے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ ہم نے آپ سے نماز کے وقتوں کے متعلق پوچھا تو انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔ عصر جب پڑھتے تو مدینہ کے انتہائی کنارہ تک ایک شخص چلا جاتا۔ لیکن سورج اب بھی باقی رہتا۔ مغرب کے متعلق جو کچھ آپ نے کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا اور عشاء کے لیے تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو ہر شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے کو پہچان سکتا تھا۔ آپ دونوں رکعات میں یا ایک میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔

 

❁ تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ یہ شعبہ نے شک کیاہے۔ طبرانی میں اس کا اندازہ سورۃ الحاقہ مذکور ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں الم تنزیل اوردوسری رکعت میں سورۃ الدہر پڑھا کرتے تھے۔ جابر بن سمرہ کی روایت میں آپ کا فجر کی نماز میں سورۃ ق پڑھنا بھی آیاہے۔ بعض روایات میں والصافات اور سورۃ واقعۃ پڑھنا بھی مذکور ہے۔ بہرحال فجر کی نماز میں قرات قرآن طویل کرنا مقصود ہے۔ یہ وہ مبارک نماز ہے جس میں قرات قرآن سننے کے لیے خود فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔


❁ بَابُ القِرَاءَةِ فِي الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر میں قرات قرآن

❁ 772 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: «فِي كُلِّ صَلاَةٍ يُقْرَأُ، فَمَا أَسْمَعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْمَعْنَاكُمْ، وَمَا أَخْفَى عَنَّا أَخْفَيْنَا عَنْكُمْ، وَإِنْ لَمْ تَزِدْ عَلَى أُمِّ القُرْآنِ أَجْزَأَتْ وَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبدالملک ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ ہر نماز میں قرآن مجید کی تلاوت کی جائے گی۔ جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن سنایا تھا ہم بھی تمہیں ان میں سنائیں گے اور جن نمازوں میں آپ نے آہستہ قرات کی ہم بھی ان میں آہستہ ہی قرات کریں گے اور اگر سورہ فاتحہ ہی پڑھو جب بھی کافی ہے، لیکن اگر زیادہ پڑھ لو تو اور بہتر ہے۔


❁ بَابُ الجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الفَجْرِ
باب: فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرات ❁ 

❁ 773 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ؟ فَقَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، قَالُوا: مَا حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا شَيْءٌ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلاَةَ الفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا القُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ، فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَهُنَالِكَ حِينَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، وَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا: {إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا، يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ، فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا} [الجن: 2]، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الجِنِّ} [الجن: 1] وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الجِنِّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے ابوبشر سے بیان کیا، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے ( شہاب ثاقب ) پھینکے جانے لگے تھے۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور ( جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو ) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے۔ پھر کہا۔ خدا کی قسم یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی ( قل اوحی الی ) ( آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے ) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی۔

 

❁ تشریح : عکاظ ایک منڈی کا نام تھا، جو مکہ شریف کے قریب قدیم زمانہ سے چلی آرہی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب سمیت ایسے عام اجتماعات میں تشریف لے جاتے اور تبلیغ اسلام فرمایا کرتے تھے، چنانچہ آپ اس جگہ جارہے تھے کہ بطن نخلہ وادی میں فجر کا وقت ہوگیا اور آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فجر کی نماز پڑھائی۔ جس میں جنوں کی ایک جماعت نے قرآن پاک سنا اور مسلمان ہو گئے۔ سورۃ جن میں ان ہی کا ذکر ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں بآواز بلند قرات فرمائی۔ مغرب اور عشاء اور فجر ان وقتوں کی نمازیں جہری کہلاتی ہیں کہ ان کے شروع والی رکعتوں میں بلند آواز سے قرآت کی جاتی ہے۔


❁ بَابُ الجَهْرِ بِقِرَاءَةِ صَلاَةِ الفَجْرِ
❁ باب: فجر کی نماز میں بلند آواز سے قرات

❁ 774 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا أُمِرَ وَسَكَتَ فِيمَا أُمِرَ، {وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا} [مريم: 64] {لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ} [الأحزاب: 21]

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے عکرمہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن نمازوں میں بلند آواز سے قرآن مجید پڑھنے کا حکم ہوا تھا۔ آپ نے ان میں بلند آواز سے پڑھا اور جن میں آہستہ سے پڑھنے کا حکم ہوا تھا ان میں آپ نے آہستہ سے پڑھا اور تیرا رب بھولنے والا نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔


❁ بَابُ الجَمْعِ بَيْنَ السُّورَتَيْنِ فِي الرَّكْعَةِ
❁ باب: ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا

❁ 775 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: قَرَأْتُ المُفَصَّلَ اللَّيْلَةَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ: «هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، لَقَدْ عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، فَذَكَرَ عِشْرِينَ سُورَةً مِنَ المُفَصَّلِ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابووائل شقیق بن مسلم سے سنا کہ ایک شخص عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے رات ایک رکعت میں مفصل کی سورہ پڑھی۔ آپ نے فرمایا کہ کیا اسی طرح ( جلدی جلدی ) پڑھی جیسے شعر پڑھے جاتے ہیں۔ میں ان ہم معنی سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ آپ نے مفصل کی بیس سورتوں کا ذکر کیا۔ ہر رکعت کے لیے دو دو سورت


❁ بَابٌ: يَقْرَأُ فِي الأُخْرَيَيْنِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ
❁ باب: پچھلی دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا

❁ 776 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ فِي الأُولَيَيْنِ بِأُمِّ الكِتَابِ، وَسُورَتَيْنِ، وَفِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُخْرَيَيْنِ بِأُمِّ الكِتَابِ وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ، وَيُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مَا لاَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ، وَهَكَذَا فِي العَصْرِ وَهَكَذَا فِي الصُّبْحِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعات میں صرف سورہ فاتحہ پڑھتے۔ کبھی کبھی ہمیں ایک آیت سنا بھی دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قرات دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔ عصر اور صبح کی نماز میں بھی آپ کا یہی معمول تھا ( حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ مَنْ خَافَتَ القِرَاءَةَ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ
❁ باب: ظہر و عصر میں قرات آہستہ

❁ 777 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قُلْتُ لِخَبَّابٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ؟ قَالَ: «بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے اعمش سے بیان کیا، وہ عمارہ بن عمیر سے، وہ ابومعمر عبداللہ بن مخبرہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآن مجید پڑھتے تھے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم نے پوچھا کہ آپ کو معلوم کس طرح ہوتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ آپ کی ریش مبارک کے ہلنے سے۔


❁ بَابُ إِذَا أَسْمَعَ الإِمَامُ الآيَةَ
❁ باب: اگر امام سری نماز میں کوئی آیت

❁ 778 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ بِأُمِّ الكِتَابِ وَسُورَةٍ مَعَهَا فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، وَيُسْمِعُنَا الآيَةَ أَحْيَانًا وَكَانَ يُطِيلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمن اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی قتادہ نے بیان کیا، وہ اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی دو پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی اور سورہ پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی آپ کوئی آیت ہمیں سنا بھی دیا کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں قرات زیادہ طویل کرتے تھے۔


❁ بَابُ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى
❁ باب: پہلی رکعت میں قرات طویل

❁ 779 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُطَوِّلُ فِي الرَّكْعَةِ الأُولَى مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ، وَيُقَصِّرُ فِي الثَّانِيَةِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی رکعت میں ( قرات ) طویل کرتے تھے اور دوسری رکعت میں مختصر۔ صبح کی نماز میں بھی آپ اسی طرح کرتے تھے۔


❁ بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ
❁ باب: جہری نمازوں بلندآواز سےآمین کہنا

❁ 780 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُمَا أَخْبَرَاهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا أَمَّنَ الإِمَامُ، فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ – وَقَالَ ابْنُ شِهَابٍ – وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: آمِينَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔ کیوں کہ جس کی آمین ملائکہ کے آمین کے ساتھ ہو گئی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہتے تھے۔


❁ بَابُ فَضْلِ التَّأْمِينِ
❁ باب: آمین کہنے کی فضیلت

❁ 781 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ أَحَدُكُمْ: آمِينَ، وَقَالَتِ المَلاَئِكَةُ فِي السَّمَاءِ: آمِينَ، فَوَافَقَتْ إِحْدَاهُمَا الأُخْرَى غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے آمین کہے اور فرشتوں نے بھی اسی وقت آسمان پر آمین کہی۔ اس طرح ایک کی آمین دوسرے کے آمین کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

 

❁ تشریح : الحمد شریف کے خاتمہ پر فرشتے بھی آمین کہتے ہیں۔ سری میں پست آواز سے اورجہری میں بلند آواز سے، پس جس نماز کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل گئی اس کا بیڑا پار ہو گیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کا بیڑا پار لگائے۔


❁ بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِينِ
❁ باب: مقتدی کا بلند آواز سے آمین کہنا

❁ 782 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، مَوْلَى أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: {غَيْرِ المَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 7] فَقُولُوا: آمِينَ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ المَلاَئِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ تَابَعَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُعَيْمٌ المُجْمِرُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے، انہوں نے ابوصالح سمان سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم بھی آمین کہو کیوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ آمین کہی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ سمی کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن عمرو نے ابوسلمہ سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ اور نعیم مجمر نے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

 

❁ تشریح : مقتدیٰ امام کی آمین سن کر آمین کہیں گے، اسی سے مقتدیوں کے لیے آمین بالجہر کا اثبات ہوا۔ بنظر انصاف مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہی کافی ہے۔ تعصب مسلکی کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔ تشریح : جہری نمازو ںمیں سورۃ فاتحہ کے اختتام پر امام اور مقتدیوں کے لیے بلند آواز سے آمین کہنا یہ بھی ایک ایسی بحث ہے جس پر فریقین نے کتنے ہی صفحات سیاہ کر ڈالے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس پر بڑے بڑے فسادات بھی ہو چکے ہیں۔ محترم برادران احناف نے کتنی مساجد سے آمین بالجہر کے عاملین کو نکال دیا۔ مارا پیٹا اور معاملہ سرکاری عدالتوں تک پہنچا ہے۔ یہی وجہ ہوئی کہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے اہل حدیث حضرات نے اپنی مساجد الگ تعمیر کیں اور اس طرح یہ فساد کم ہوا۔ اگر غور کیا جائے تو عقلاً و نقلاً یہ جھگڑا ہرگز نہ ہونا چاہئے۔ لفظ آمین کے معنی یہ ہیں کہ اے خدا میں نے جو دعائیں تجھ سے کی ہیں ان کو قبول فرمالے۔ یہ لفظ یہود و نصاری میں بھی مستعمل رہا اور اسلام میں بھی اسے استعمال کیا گیا۔ جہری نمازوں میں اس کا زور سے کہنا کوئی امر قبیح نہیں تھا۔ مگر صد افسوس کہ بعض علماءسو نے رائی کا پہاڑ بنا دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سرپھٹول ہوئی اور عرصہ کے لیے دلوں میں کاوش پیدا ہو گئی۔ سیدنا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں باب منعقد کرکے اوراس کے تحت احادیث لاکر اس بحث کا خاتمہ فرما دیا ہے۔ پھر بھی بہت سے لوگ تفصیلات کے شائق ہیں۔ لہٰذا ہم اس بارے میں ایک تفصیلی مقالہ پیش کر رہے ہیں جو متحدہ بھارت کے ایک زبردست فاضل استاذ الفضلاءراس الاتقیاءحضرت علامہ عبداللہ صاحب روپڑی رحمۃ اللہ علیہ کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ اس میں دلائل کے ساتھ ساتھ ان پر اعتراضات واردہ کے کافی شافی جوابات دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ حضرت مولانا صاحب قدس سرہ فرماتے ہیں: بلند آواز سے آمین کہنے کے متعلق احادیث و آثار اور علماءاحناف کے فتاوے احادیث: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا تلا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین حتی یسمع من یلیہ من الصف الاول ( ابوداؤد، ص: 134 طبع دہلی ) ( ترجمہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین پڑھتے تو آمین کہتے۔ یہاں تک کہ جو پہلی صف میں آپ کے نزدیک تھے وہ سن لیتے۔ اس حدیث پر حنفیہ کی طرف سے دو اعتراض ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس حدیث کی اسناد میں بشر بن رافع الحارثی ابوالاسباط ایک راوی ہے۔ اس کے متعلق نصب الرایہ، جلد: اول ص: 371 میں علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں: “ ضعفہ البخاری و الترمذی والنسائی و احمدو ابن معین وابن حبان ” اس کو امام بخاری، ترمذی، نسائی، احمد، ابن معین اور ابن حبان رحمہم اللہ نے ضعیف کہا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ایک راوی ابوعبداللہ بن عم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے، جو بشر بن رافع کا استاد ہے، اس کے متعلق علامہ زیلعی رحمۃ للہ علیہ لکھتے ہیں: “ کہ اس کا حال معلوم نہیں اور بشر بن رافع کے سوا اس سے کسی نے روایت نہیں کی۔ یعنی یہ مجہول العین ہے، اس کی شخصیت کا پتہ نہیں۔ ” جواب اعتراض اول: خلاصہ تہذیب الکمال کے صفحہ41 میں بشر بن رافع کے متعلق لکھا ہے۔ و ثقہ ابن معین و ابن عدی وقال البخاری لا یتابع علیہ۔ یعنی ابن معین اور ابن عدی نے اس کو ثقہ کہا ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی ضعیف کہتا ہے اور کوئی ثقہ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضعیف کہنے والوں نے ضعف کی وجہ بیان نہیں کی اور ایسی جرح کو جرح مبہم کہتے ہیں۔ اور اصول کا قاعدہ ہے: “ ثقہ کہنے والوں کے مقابلے میں ایسی جرح کا اعتبار نہیں۔ ہاں اگر وجہ ضعف بیان کر دی جاتی تو ایسی جرح بے شک تعدیل پر مقدم ہوتی اور ایسی جرح کو جرح مفسر کہتے ہیں۔ ” پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا کہنا کہ اس کی موافقت نہیں کی جاتی۔ یہ بہت ہلکی جرح ہے۔ ایسے راوی کی حدیث حسن درجہ سے نہیں گرتی۔ غالباً اسی لیے ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ اور منذری نے اس پر سکوت کیا ہے اور اس سے دوسرے اعتراض کا جواب بھی نکل آیا ہے۔ کیوں کہ ابوداؤد جس حدیث پر سکوت کرتے ہیں، وہ ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہے اور مجہول العین کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ پس ابوعبداللہ مجہو ل العین نہ ہوا، ورنہ وہ سکوت نہ کرتے۔ علاوہ اس کے علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ کو غلطی لگی ہے۔ یہ مجہول نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تقریب میں لکھتے ہیں۔ مقبول یعنی اس کی حدیث معتبر ہے۔ امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اسناد حسن ہیں، مستدرک حاکم میں ہے کہ یہ حدیث بخاری مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام بیہقی کہتے ہیں۔ حسن صحیح ہے۔ ( نیل الاوطار، جلد: 2ص: 117، طبع مصر ) تنبیہ: نصب الرایہ جلد اول/ ص: 371 کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کی اسناد میں اسحاق بن ابراہیم بن العلاءزبیدی ضعیف ہے۔ مگر جو جرح مفسر ثابت نہیں ہوئی ا س لیے دار قطنی نے اس کو “ حسن ” کہا ہے اور حاکم نے صحیح اور بیہقی نے حسن صحیح اور میزان الاعتدال میں جو عوف طائی سے اس کا جھوٹا ہونا ذکر ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تقریب میں اس کی تردید کی ہے اور خلاصہ تہذیب الکمال میں عوف طائی کے ان الفاظ کو نقل ہی نہیں کیا۔ حالانکہ وہ خلاصہ والے میزان الاعتدال سے لیتے ہیں۔ ( 2 ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عن ابی ہریرۃ قال ترک الناس التامین کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین حتی یسمعہا اہل الصف الاول فیرتج بہا المسجد۔ ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، لوگوں نے آمین چھوڑ دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔ یہاں کہ پہلی صف سن لیتی۔ پس ( بہت آوازوں کے ملنے سے ) مسجد گونج جاتی۔ ( ابن ماجہ، ص: 62، طبع دہلی ) اس حدیث کی صحت بھی ویسی ہی ہے، جیسی پہلی حدیث کی۔ ملاحظہ ہو نیل الاوطار، جلد2، ص: 117، طبع مصر ) ( 3 ) عن ام الحصین انہا کانت تصلی خلف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صف النساءفسمعتہ یقول الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین حتی اذا بلغ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین قال آمین۔ ( مجمع الزوائد ہیثمی، جلد: 2ص: 114، تخریج ہدایہ حافظ ابن حجر، ص: 78 ) ( ترجمہ ) ام الحصین رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی للہ علیہ وسلم کے پیچھے عورتوں کی صف میں نماز پڑھا کرتی تھیں ( وہ کہتی ہیں ) میں نے آپ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا۔ الحمد للہ رب العلمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین یہاں تک کہ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین پر پہنچتے تو آمین کہتے۔ یہاں تک کہ میں سنتی اور میں عورتوںکی صف میں ہوتی۔ مذکورہ بالا حدیث میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے۔ اس پر زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تو سکوت کیا۔ مگر ہیثمی نے اس کو ضعیف کہا ہے۔ خیر اگر ضعیف ہو تو دوسری روایتیں مذکورہ بالا اور زیریں اس کو تقویت دیتی ہیں۔ تنبیہ: کبھی پہلی صف کا سننا اور کبھی پچھلی صفوں تک آپ کی آواز کا پہنچ جانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی آپ آمین فاتحہ کی آواز کے برابر کہتے اور کبھی معمولی آواز سے۔ ( 4 ) اخرجہ ابوداؤد و الترمذی عن سفیان عن سلمۃ بن کہیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر واللفظ لابی داود قال کان رسول اللہ صلی اللہ علہ وسلم اذا قرا ولا الضالین قال آمین و رفع بہا صوتہ انتہی و لفظ الترمذی و مدبہا صوتہ و قال حدیث حسن ( تخریج ہدایہ زیلعی، جلد: اول / ص: 370 ) ( ترجمہ ) ابوداؤد اور ترمذی میں ہے، وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ولاالضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ یہ ابوداؤد کے لفظ ہیں۔ اور ترمذی کے یہ لفظ ہیں و مد بہا صوتہ یعنی آمین کے ساتھ آواز کو کھینچتے اور ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ تنبیہ: بعض لوگ مدبہا صوتہ کے معنے کرتے ہیں کہ آمین کے وقت الف کو کھینچ کر پڑھتے لیکن ابوداؤد کے لفظ رفع بہا صوتہ اور نمبر 5کی روایت جہر بآمین نے وضاحت کردی کہ مدبہا سے مراد آواز کی بلندی ہے اور عرب کاعام محاورہ ہے اور احادیث میں بھی بہت آیا ہے۔ چنانچہ ترمذی میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ غفار، اسلم اور مزینہ تینوں قبیلے تمیم، اسد، غطفان اور بنی عامر صعصعہ سے بہترہیں۔ یمدبہا صوتہ۔ یعنی بلند آواز سے کہتے اور بخاری میں براءسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احزاب کے دن خندق کھودتے اور یہ کلمات کہتے: اللہم لو لا انت ما اہتدینا ولا تصدقنا و لا صلینا فانزلن سکینۃ علینا و ثبت الاقدام ان لاقینا ان الاولی رغبوا علینا و اذا اراد و افتنۃ ابینا۔ قال یمد صوتہ بآخرہا۔ “ یا اللہ! اگر تیرا احسان نہ ہوتا تو نہ ہم ہدایت پاتے۔ نہ صدقہ خیرات کرتے نہ نماز پڑھتے پس اگر ہم دشمنوں سے ملیں تو ہمارے دلوں کو ڈھارس دے اور ہمارے قدموں کو مضبوط رکھ۔ یہ لوگ ہم پر دشمنوں کو چڑھا کر لے آئے۔ جب انہوں نے ہم سے مشرکانہ عقیدہ منوانا چاہا۔ ہم نے انکار کر دیا۔ براءکہتے ہیں اخیر کلمہ ( ابینا یعنی ہم نے انکار کر دیا ) کے ساتھ دوسرے کلمات کی نسبت آواز بلند کرتے۔ ” اور ابوداؤد وغیرہ میں ترجیع اذان کے متعلق ابومحذورہ کی حدیث ہے اس میں یہ الفاظ فمد من صوتک یعنی اپنی آواز کو ( پہلے کی نسبت ) بلند کر۔ ( 5 ) اخرج ابوداود و الترمذی عن علی بن صالح و یقال العلاءبن صالح الاسدی عن سلمۃ بن کہیل عن حجر بن عنبس عن وائل بن حجر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ صلی فجہر بآمین۔ ( ترجمہ ) وائل بن حجر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں بلند آواز سے آمین کہی۔ تنبیہ: وائل بن حجر کی اس حدیث کے راوی شعبہ بھی ہیں، جو سلمہ بن کہیل کے شاگر د ہیں، انہوں نے اپنی روایت میں و خفض بہا صوتہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ آمین کہی۔ حنفیہ اسی کو لیتے ہیں اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے جو اپنی روایت میں سلمہ بن کہیل سے و مدبہا صوتہ یا رفع بہا صوتہ کہا ہے اس کو ترک کر دیا ہے حالانکہ فتح القدیر شرح ہدایہ اور عنایۃ شرح ہدایہ، جلد: اول /ص: 219 پر رفع یدین کی بحث میں لکھا ہے کہ زیادہ فقیہ کی روایت کو ترجیح ہوتی ہے۔ اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ بالاتفاق شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ فقیہ ہیں۔ اس بنا پر سفیان کی روایت کو ترجیح ہونا چاہئے۔ اور محدثین کا اصول ہے کہ زیادہ حافظہ والے کو ترجیح ہوتی ہے اور سفیان رحمۃ اللہ علیہ حافظہ میں بھی شعبہ رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ ہیں۔ اسی بنا پر حنفیہ نے کئی مقامات پر سفیان رحمۃ اللہ علیہ کو شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت پر ترجیح دی ہے۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی، جلد: 1 ص: 210 و ص:211 ) پھر لطف کی بات یہ ہے کہ سلمہ بن کہیل کے دو شاگر د اور ہیں۔ ایک علاءبن صالح یہ ثقہ ہیں اور ان کو علی بن صالح بھی کہتے ہیں۔ دوسرے محمد بن سلمہ، یہ ضعیف ہیں۔ ان دونوں سے علاءکی روایت میں جہر بآمین ہے اور محمد بن سلمہ کی روایت میں رفع بہا صوتہ ہے بلکہ خود شعبہ نے بھی ایک روایت میں سلمہ بن کہیل سے رفع بہا صوتہ روایت کیا ہے اور سند بھی اس کی صحیح ہے۔ ملاحظہ ہو نصب الرایہ، جلد: 1 ص: 369 اور تلخیص الحبیر، ص: 89 اور تحفۃ الاحوذی، جلد: 1ص: 211۔ مگر باوجود اس کے حنفیہ نے شعبہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت خفض بہا صوتہ ہی کو لیا ہے، لیکن سارے حنفیہ ایک سے نہیں۔ کئی اس کمزوری کو محسوس کرکے آمین بالجہر کے قائل ہیں، چنانچہ اس کا ذکر آگے آتا ہے۔ ان شاءاللہ۔ ( 6 ) عن عبدالجبار بن وائل عن ابیہ قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما افتتح الصلوۃ کبر و رفع یدیہ حتی حاذتا اذانیہ ثم قرا فاتحۃ الکتاب فلما فرغ منہا قال آمین یرفع صوتہ۔ رواہ النسائی ( تخریج زیلعی، ج: 1 ص: 271 ) ( ترجمہ ) عبدالجبار بن وائل رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب نماز شروع کی تو تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ کانوں کے برابر ہوگئے۔ پھر فاتحہ پڑھی، پھر جب فاتحہ سے فارغ ہوئے تو بلند آواز سے آمین کہی۔ اس حدیث کو نسائی نے روایت کیا۔ نصب الرایہ، جلد : اول / ص: 371 کے حاشیہ میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ سے بحوالہ شرح المہذب للنووی لکھا ہے کہ ائمہ اس بات پر متفق ہیں کہ عبدالجبار نے اپنے والد سے نہیں سنا اور ایک جماعت نے کہا ہے کہ وہ اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ پس یہ حدیث منقطع ہوئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حجر بن عنبس نے بھی وائل بن حجر سے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس نے وائل سے سنی ہے۔ اس لیے منقطع ہونے کا شبہ رفع ہو گیا۔ نیز کتب اسماءالرجال میں عبدالجبار کا استاذ زیادہ تر اس کا بھائی علقمہ لکھا ہے اس لیے غالب ظن ہے کہ اس نے یہ حدیث اپنے بھائی علقمہ سے سنی ہو۔ نصب الرایہ جلد: اول/ ص: 370 پر جو لکھا ہے کہ عقلمہ نے اپنے باپ سے نہیں سنا، وہ اپنے باپ کے وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ یہ نقل کرنے والوں کی غلطی ہے اور یہیں سے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کو بھی غلطی لگی ہے۔ وہ بھی تقریب میں لکھتے ہیں کہ علقمہ بن وائل نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ حالانکہ وہ عبدالجبار ہے اور وہی اپنے باپ کی وفات کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی گزرا ہے : ترمذی باب المراۃ استکرہت علی الزنا میں تصریح کی ہے کہ علقمہ نے اپنے باپ سے سنا ہے، اور وہ عبدالجبار سے بڑا ہے اور عبدالجبار نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ اور مسلم باب منع سب الدہر میں علقمہ کی حدیث جو اس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، لائے ہیں اور مسلم منقطع حدیث نہیں لاسکتے کیوں کہ وہ ضعیف ہوتی ہے۔ اور ابوداؤد باب من حلف لیقتطع بہا مالا میں اس کی حدیث اس کے باپ سے لائے ہیں اور اس پر سکوت کیا ہے حالانکہ ان کی عادت ہے کہ وہ انقطاع وغیرہ بیان کرتے ہیں۔ بہر صورت علقمہ کے سماع میں شبہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلاصہ تہذیب الکمال میں تقریب کی یہ عبارت کہ “ اس نے اپنے باپ سے نہیں سنا۔ ” ذکر نہیں کی۔ خلاصہ والے تقریب سے لیتے ہیں۔ پس جب علقمہ کا سماع ثابت ہو گیا اور ظن غالب ہے کہ عبدالجبار نے یہ حدیث علقمہ سے لی ہے۔ پس حدیث متصل ہو گئی اور حنفیہ کے نزدیک تو تابعی کی حدیث ویسے ہی متصل کے حکم میں ہوتی ہے۔ خواہ اپنے استاد کا نام لے یا نہ لے تو ان کو تو اس پر ضرور عمل کرنا چاہئے۔ ( 7 ) عن علی رضی اللہ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا قال ولاالضالین قال آمین ( ابن ماجہ، باب الجہر بآمین، ص: 62 ) ( ترجمہ ) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناکہ جب آپ ولا الضالین کہتے تو آمین کہتے۔ اس حدیث میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلی ایک راوی ہے اس کے متعلق مجمع الزوائد میں لکھا ہے “ جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں اور ابوحاتم کہتے ہیں مقام اس کا صدق ہے۔ ” مجمع الزوائد میں جمہور کے ضعیف کہنے کی وجہ نہیں بتائی۔ تقریب التہذیب میں اس کی وضاحت کی ہے، چنانچہ لکھتے ہیں۔ صدوق سیئی الحفظ جدا۔ یعنی سچا ہے حافظہ بہت خراب ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ضعف کی وجہ حافظہ کی کمزوری ہے۔ ویسے سچاہے، جھوٹ نہیں بولتا۔ پس یہ حدیث بھی کسی قدر اچھی ہوئی اور دوسری حدیثوں کے ساتھ مل کر نہایت قوی ہوگئی۔ تحفۃ الاحوذی، جلداول / ص: 608 میں ہے: و اما حدیث علی رضی اللہ عنہ فاخرجہ الحاکم بلفظ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول آمین اذا قرا غیر المغضوب علیہم ولا الضالین و اخرج ایضا عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا قرا ولا الضالین رفع صوتہ بآمین کذافی الاعلام الموقعین۔ ( ترجمہ ) مستدرک حاکم میں ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہتے سنا جب کہ آپ نے ( غیر المغضوب علیہم ولا الضالین ) پڑھا۔ نیز مستدرک حاکم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب والا الضالین پڑھتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ اعلام الموقعین میں اسی طرح ہے۔ ( 8 ) تحفۃ الاحوذی کے اسی صفحہ میں ہے: ولابی ہریرۃ حدیث آخر فی الجہر بالتامین رواہ النسائی عن نعیم المجمر قال صلیت وراءابی ہریرۃ فقرا بسم اللہ الرحمن الرحیم ثم قرا بام القرآن حتی بلغ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال امین فقال الناس امین الحدیث و فی آخرہ قال والذی نفس محمد بیدہ انی لا شبہکم صلوٰۃ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و اسنادہ صحیح۔ ( ترجمہ ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے آمین بالجہر کے بارے میں ایک اورحدیث ہے جو نسائی میں ہے۔ نعیم بن مجمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ انہوں نے پہلے بسم اللہ پڑھی، پھر فاتحہ پڑھی جب غیر المغضوب علیہم ولاالضالین پر پہنچے، تو آمین کہی۔ پس لوگوں نے بھی آمین کہی۔ اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے۔ بے شک میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تم سے زیادہ مشابہت رکھتا ہوں اور اس کی اسناد صحیح ہیں۔ ( 9 ) نصب الرایہ زیلعی جلد: اول/ ص: 371 میں ہے: و رواہ ابن حبان فی صحیحہ فی النوع الرابع من القسم الخامس و لفظہ کان رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فرغ من قراءۃ ام القرآن رفع بہا صوتہ و قال آمین۔ ( ترجمہ ) ابن حبان نے اپنی صحیح میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحہ سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے آمین کہتے۔ ( زیلعی نے اس حدیث پر کوئی جرح نہیںکی ) ( 10 ) ابن ماجہ باب الجہر بآمین ص63 میں ہے: عن عائشۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما حسدتکم الیہود ما حسدتکم علی السلام و التامین۔ ( ترجمہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود جتنا سلام اور آمین سے حسد کرتے ہیں، اتنا کسی اور شے پر حسد نہیں کرتے۔ بلند آواز سے آمین کہنے میں جب بہت سی آوازیں مل جائیں تو اس میں اسلامی نمائش پائی جاتی۔ اس لیے یہود کو حسد آتا، ورنہ آہستہ میں حسد کے کچھ معنی ہی نہیں۔ کیوں کہ جب سنا ہی کچھ نہیں تو حسد کس بات پر۔ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے جیسے منذری رحمۃاللہ علیہ نے تصریح کی ہے اور ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو اپنی صحیح میں لائے ہیں اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسند میں اور بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی سنن میں اس کو سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔ تلک عشرۃ کاملۃ : یہ دس احادیث ہیں۔ ان کے علاوہ اور روایتیں بھی ہیں۔ مسک الختام شرح بلوغ المرام میں 17 ذکر کی ہیں اور آثار تو بے شمار ہیں۔ دو سو صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذکر تو عطاءتابعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول ہی میں گذرچکا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی لوگ آمین کہتے تھے۔ چنانچہ نمبر 8 کی حدیث گزر چکی ہے بلکہ حنفیہ کے طریق پر اجماع ثابت ہے۔ حنفیہ کا مذہب ہے کہ “ کنویں میں گر کر کوئی مرجائے، تو سارا کنواں صاف کر دینا چاہئے۔ دلیل اس کی کنویں زمزم میں ایک حبشی گر کر مر گیا تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں کنویں کا سارا پانی نکلوادیا اور کسی نے انکار نہیں کیا۔ پس یہ اجماع ہو گیا۔ ٹھیک اسی طرح آمین کا مسئلہ ہے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے مسجد مکہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں آمین کہی اوران کے ساتھ لوگوں نے بھی کہی۔ یہاں تک کہ مسجد گونج اٹھی اور کسی نے اس پر انکار نہیں کیا۔ پس یہ بھی اجماع ہو گیا پھر حنفیہ کے پاس آہستہ آمین کے بارے میں ایک حدیث بھی نہیں۔ صرف شعبہ کی روایت ہے جس کا ضغف اوپر بیان ہو چکا ہے اور ہدایہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ سبحانک اللہم اعوذ بسم اللہ آمین مگر اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ ملاحظہ ہو درایہ تخریج ہدایہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ، ص:71، اور نصب الرایہ تخریج ہدایہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ، جلد: 1 ص: 325، اور فتح القدیر شرح ہدایہ، جلد: 1ص: 204، ص:207 وغیرہ ہاں ابراہیم نخعی تابعی کا یہ قول ہے کہ امام چار چیزیں آہستہ کہے۔ مگر مرفوع احادیث اور آثار صحابہ کے مقابل میں ایک تابعی کے قول کی کیا وقعت ہے۔ خاص کر جب خود اس سے اس کے خلاف روایت موجو دہے۔ چنانچہ اوپر گزر چکا ہے کہ وہ آیت کریمہ ولاتجہر بصلوۃ میں صلوۃ کے معنی دعا کرتے ہیں۔ اس بنا پر آمین ان کے نزدیک درمیانی آواز سے کہنی چاہئے نہ بہت چلا کر نہ بالکل آہستہ اور یہی اہلحدیث کا مذہب ہے۔ حنفیہ کے بقیہ دلائل: بعض حنفیہ نے اس مسئلہ میں کچھ اور آثار بھی پیش کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ بھی ذکر کر دیں۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سفر السعادات میں لکھتے ہیں: از امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کردہ اند کہ اخفاءکند امام چہار چیز را، تعوذ، بسم اللہ، آمین، سبحانک اللہم و بحمدک، و از ابن مسعود رضی اللہ عنہ نیز مثل ایں آمدہ۔ وسیوطی رحمۃ اللہ علیہ در جمع الجوامع از ابی وائل روایت آوردہ کہ گفت بودند عمر و علی کہ جہر نمی کردند بسم اللہ الخ و نہ تعوذ و نہ آمین۔ ( ابن جریر طحاوی ) ( ترجمہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام چار چیز آہستہ کہے۔ اعوذ باللہ، بسم اللہ، آمین، سبحانک اللہم اور اسی کے مثل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی آیا ہے اور سیوطی رحمۃ اللہ علیہ جمع الجوامع میں ابی وائل رحمۃ اللہ علیہ سے روایت لائے ہیں وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ، اعوذ اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔ ابن جریر اور طحاوی نے اس کو روایت کیا ہے۔ اور ابن ماجہ طبع ہند کے ص 62 کے حاشیہ میں لکھا ہے: و روی عن عمر بن الخطاب قال یخفی الامام اربعۃ اشیاءالتعوذ و البسملۃ و آمین و سبحانک اللہم۔ و عن ابن مسعود مثلہ، و روی السیوطی فی جمیع الجوامع عن ابی وائل قال کان عمر و علی رضی اللہ عنہم لا یجہران بالبسلملۃ ولا بالتعوذ ولا بآمین رواہ ابن جریر و الطحاوی و ابن شاہین۔ اس عربی عبارت کا ترجمہ بعینہ شرح سفر السعادۃ کی فارسی عبار ت کا ترجمہ ہے۔ حنفیہ کی ساری پونچی یہی ہے جو ان دونوں عبارتوں میں ہے ان دونوں عبارتوں ( عربی، فارسی ) میں حضرت عمررضی اللہ عنہ اورحضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا تو کوئی حوالہ نہیں دیا کہ کس نے اس کو روایت کیا ہے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل کہ وہ اعوذ، بسم اللہ، آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔ اس کے متعلق کہاہے کہ ابن جریر، طحاوی اورابن شاہین نے اس کو روایت کیا ہے، لیکن اس کی اسناد میں سعید بن مرزبان بقال ہے جس کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھاہے کہ امام فلاس نے اسے ترک کر دیا ہے اور ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی حدیث لکھنے کے قابل نہیں اور بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث ہے اور ابان بن حیلہ کوفی کے ترجمہ میں میزان الاعتدال میں ابن القطان نے نقل کیا ہے بخاری کہتے ہیں جس کے حق میں میں منکر الحدیث کہہ دوں اس کی روایت لینی حلال نہیں۔ پس یہ روایت بالکل ردی ہو گئی۔ علاوہ اس کے ان کتابوں کے متعلق جن کی یہ روایت ہے شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ اور شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ عجالۃ نافعہ میں لکھتے ہیں: “ کہ ان کی روایتیں بغیر جانچ پڑتال کے نہیں لینی چاہئے۔ کیوں کہ یہ احتیاط نہیں کرتے، جھوٹی سچی، صحیح ضعیف سب انہوں نے خلط ملط کر دی ہیں۔ ” پس حنفیہ کا بغیر تصحیح کے ان کی روایتیں پیش کرنا دوہری غلطی ہے۔ خاص کر جب خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آمین بالجہر کی روایت آ گئی ہے جو نمبر 27پر گزر چکی ہے اور بسم اللہ بھی جہراً ان سے ثابت ہے چنانچہ سبل السلام اور دار قطنی میں مذکور ہے۔ ( ملاحظہ ہو مسک الختام شرح بلوغ المرام ص: 230 ) علاوہ اس کے مرفوع احادیث کے مقابلہ میں کسی کا قول و فعل کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ خواہ کوئی بڑا ہو یا چھوٹا۔ مسلمان کی شان یہ ہونی چاہئے۔ مصور کھینچ وہ نقشہ جس میں یہ صفائی ہو ادھر حکم پیغمبر ہو ادھر گردن جھکائی ہو مزید ثبوت اور علماءاحناف کی شہادت: بعض اختلافی مسائل میں جانبین کے پاس دلائل کا کچھ نہ کچھ سہارا ہوتاہے مگر یہاں تو دوسرے پلڑے میں کچھ بھی نہیں اور جو کچھ ہے اس کا اندازہ قارئین کرام کو ہو چکا ہوگا۔ اب اس کی مزید وضاحت علماءاحناف کے فیصلوں سے ملاحظہ فرمائیں: امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ: احناف کے جد امجد ہیں۔ حنفی مذہب کی مشہور کتاب شامی ( رد المختار ) کی جلد : 4، /ص: 388 میں لکھا ہے۔ کمال ابن الہمام بلغ رتبۃ الاجتہاد یعنی امام ابن الہمام مرتبہ اجتہاد کو پہنچ گئے وہ اپنی کتاب فتح القدیر میں لکھتے ہیں: و لو کان الی فی ہذا شیئی لوفقت بان روایۃ الخفض یراد بہا عدم القرع العنیف و روایۃ الجہر بمعنی قولہا فی زیر الصوت و ذیلہ ( فتح القدیر، ج: 117/1 ) ( ترجمہ ) اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا تو میں یوں موافقت کرتا کہ آہستہ کہنے کی حدیث سے یہ مراد ہے کہ چلا کر نہ کہے اور جہر کی حدیث سے درمیانی آواز ہے۔ امام ابن امیر الحاج رحمۃ اللہ علیہ: یہ امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں۔ یہ اپنے استاد کے فیصلہ پر صاد فرماتے ہیں چنانچہ اپنی کتاب “ حلیہ ” میں لکھتے ہیں: و رجع مشایخنا بما لا یعری عن شیئی لمتاملہ فلا جرم ان قال شیخنا ابن الہمام و لو کان الی شیئی الخ ( تعلیق الممجد علی موطا الامام المحمد، ص: 9-10 ) ( ترجمہ ) ہمارے مشائخ نے جن دلائل سے اپنے مذہب کو ترجیح دی ہے وہ تامل سے خالی نہیں اس لیے ہمارے شیخ ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا اگر فیصلہ میرے سپرد ہوتا الخ۔ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ : جن کی فارسی عبارت شرح سفر السعادت کے حوالہ سے ابھی گزری ہے۔ یہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے حنفی مذہب کے ترک کا ارادہ کیا لیکن علماءمکہ نے مشورہ دیا کہ جلدی نہ کرو۔ حنفی مذہب کے دلائل پر غور کرو۔ چنانچہ اس کے بعد انہوں نے “ فتح سر المنان ” لکھی۔ اس میں حنفی مذہب کے دلائل جمع کئے۔ مسئلہ آمین کے متعلق یہی عبارت لکھی جو امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی اور امام ابن الہمام رحمۃاللہ علیہ والا ہی فیصلہ کیا۔ مولانا عبدالحئی صاحب لکھنؤی رحمۃ اللہ علیہ : حنفی مذہب کے مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والانصاف ان الجہر قوی من حیث الدلیل ( التعلیق الممجد علی موطاالامام محمد، ص: 105 ) ( ترجمہ ) یعنی انصاف یہ ہے کہ دلیل کی رو سے آمین بالجہر قوی ہے۔ مولانا سراج احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ: یہ بھی حنفی مذہب کے مشور بزرگ ہیں۔ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں: احادیث الجہر بالتامین اکثر واصح۔ ( ترجمہ ) یعنی بلند آواز سے آمین کہنے کی احادیث کثیر ہیں اور زیادہ صحیح ہیں۔ ان کے علاوہ مولانا عبدالعلی بحر العلوم لکھنؤی حنفی رحمۃ اللہ علیہ بھی “ ارکان الاسلام ” میں یہی لکھتے ہیں کہ “ آمین آہستہ کہنے کی بابت کچھ ثابت نہیں ہوا۔ ” اور دیگر علماءبھی اسی طرح لکھتے ہیں مگر ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ کیوں کہ جب آہستہ کہنے کا کوئی ثبوت ہی نہیں تو بہت بھر مار سے فائدہ ہی کیا۔ تسلی و اطمینان کے لیے جو کچھ لکھا گیا۔ خدا اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور ضد و تعصب سے محفوظ رکھے۔ آمین ( مقالہ آمین و رفع یدین حضرت حافظ عبداللہ صاحب روپڑی نور اللہ قبرہ و برد مضجعہ، آمین ) آج کل کے شارحین بخاری جن کا تعلق دیوبند سے ہے۔ ایسے اختلافی امور پر جو بے تکی رائے زنی فرما رہے ہیں وہ سخت حیرت انگیز ہیں مثلاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پچھلے باب میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا فعل نقل فرمایا کہ وہ اس قدر بلند آواز سے آمین کہا کرتے تھے کہ مسجد گونج اٹھتی تھی۔ اس سے شارحین فرما رہے ہیں: “ غالباً یہ اس زمانہ کا واقعہ ہے کہ جب آپ فجر میں عبدالملک پر قنوت پڑھتے تھے۔ عبدالملک بھی ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر قنوت پڑھتا تھا اور جس طرح کے حالات اس زمانہ میں تھے اس میں مبالغہ اور بے احتیاطی عموماً ہو جایا کرتی ہے۔ ” ( تفہیم البخاری، پ: 3، ص: 135 ) اس بے تکی رائے زنی پر اہل انصاف خود نظر ڈال سکیں گے کہ یہ کہاں تک درست ہے۔ اول تو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا آمین بالجہر کہنا خاص نماز فجر میں کسی روایت میں مذکور نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق مغرب یا عشاءسے بھی ہو۔ پھر الحمدشریف کے خاتمہ پر آمین بالجہر کا عبدالملک پر قنوت پڑھنے سے کیا تعلق، قنوت کا محل دوسرا ہے پھر مبالغہ اور بے احتیاطی کو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کی طرف منسوب کرنا ایک بڑی جرات ہے اور اسی قسم کی بے تکی باتیں کی جاتی ہیں۔ اللہ پاک ایسے علماءکرام کو نیک ہدایت دے کہ وہ امر حق کو تسلیم کرنے کے لیے دل کھول کر تیار ہوں اور بے جا تاویلات سے کام لے کر آج کے تعلیم یافتہ روشن خیال لوگوں کو ہنسنے کا موقع نہ دیں۔ اللہم وقفنا لما تحب و ترضی آمین۔


❁ بَابُ إِذَا رَكَعَ دُونَ الصَّفِّ

❁ باب: جب صف تک پہنچنےسے پہلے ہی کسی نے


❁ 783 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنِ الأَعْلَمِ وَهُوَ زِيَادٌ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ، فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلاَ تَعُدْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسمعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے زیادہ بن حسان اعلم سے بیان کیا، انہوں نے حضرت حسن رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ( نماز پڑھنے کے لیے ) گئے۔ آپ اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا۔

 

❁ تشریح : طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ ابوبکرہ اس وقت مسجد میں پہنچے کہ نماز کی تکبیر ہو چکی تھی، یہ دوڑے اور طحاوی کی روایت میں ہے کہ دوڑتے ہوئے ہانپنے لگے، انہوں نے مارے جلدی کے صف میں شریک ہونے سے پہلے ہی رکو ع کر دیا۔ نماز کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ بعض اہل علم نے اس سے رکوع میں آنے والوں کے لیے رکعت کے ہو جانے پر دلیل پکڑی ہے۔ عون المعبود شرح ابوداؤد میں، ص332، میں ہے۔ قال الشوکانی فی النیل لیس فیہ ما یدل علی ما ذہبوا الیہ لانہ کما لم بامرہ بالاعادۃ لم ینقل ایضا انہ اعتد بہا و الدعاءلہ بالجرض لا یستلزم الاعتداد بہا لان الکون مع الامام مامور بہ سواءکان الشئی الذی یدرکہ الموتم معتدا بہ ام لا کما فی الحدیث اذا جئتم الی الصلوۃ و نحن سجود فاسجدوا ولا تعدوہا شئیا علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد نہی ابابکر عن العود الی مثل ذلک و الاحتجاج بشئی قد نہی عنہ لا یصح و قد اجاب ابن حزم فی المحلی عن حدیث ابی بکرۃ فقال انہ لا حجۃ فیہ لانہ لیس فیہ اجتراءبتلک الرکعۃ الخ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بقول علامہ شوکانی اس حدیث سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے اسے رکعت کے لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا تو ساتھ ہی منقول یہ بھی نہیں ہے کہ اس رکعت کو کافی سمجھا۔ آپ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی حرص پر دعائے خیر ضرور دی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رکعت کو بھی کافی سمجھا اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس فعل سے مطلقاً منع فرما دیا تو ایسی ممنوعہ چیز سے استدلال پکڑنا صحیح نہیں۔ علامہ ابن حزم نے بھی محلی میں ایسا ہی لکھا ہے۔ حضرت صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فہذا محمد بن اسماعیل البخاری احد المجتہدین و واحد من ارکان الدین قد ذہب الی ان مدرکا للرکوع لا یکون مدرکا للرکعۃ حتی یقرا فاتحۃ الکتاب فمن دخل مع الامام فی الرکوع فلہ ان یقضی تلک الرکعۃ بعد سلام الامام بل حکی البخاری ہذا المذہب عن کل من ذہب الی وجوب القراۃ خلف الامام الخ ( عون المعبود، ص: 334 ) یعنی حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو مجتہدین میں سے ایک زبردست مجتہد بلکہ ملت اسلام کے اہم ترین رکن ہیں، انہوں نے رکوع پانے والے کی رکعت کو تسلیم نہیں کیا۔ بلکہ ان کا فتوی یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام کے سلام کے بعد یہ رکعت پڑھنی چاہئے بلکہ حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ہر اس شخص کا مذہب نقل فرمایا ہے جس کے نزدیک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنی واجب ہے اور ہمارے شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتوی ہے۔ ( حوالہ مذکور ) اس تفصیل کے بعد یہ امر بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جو حضرات بلا تعصب محض اپنی تحقیق کی بنا پر رکوع کی رکعت کے قائل ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کو بھی چاہئے کہ رکوع کی رکعت نہ ماننے والوں کے خلاف زبان کو تعریض سے روکیں اور ایسے مختلف فیہ فروعی مسائل میں وسعت سے کام لے کر اتفاق باہمی کو ضرب نہ لگائیں کہ سلف صالحین کا یہی طریقہ یہی طرز عمل رہا ہے۔ ایسے امور میں قائلین و منکرین میں سے حدیث الاعمال بالنیات کے تحت ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پائے گا، اسی لیے المجتہد قد یخطی و یصیب کا اصول وضع کیا گیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب و الیہ المرجع و المآب دلائل کی رو سے صحیح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے سے اس رکعت کا لوٹانا ضروری ہے۔


❁ بَابُ إِتْمَامِ التَّكْبِيرِ فِي الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع کرنے کے وقت بھی تکبیر کہنا

❁ 784 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ الوَاسِطِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنِ الجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي العَلاَءِ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: صَلَّى مَعَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: «ذَكَّرَنَا هَذَا الرَّجُلُ صَلاَةً كُنَّا نُصَلِّيهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ [ص:157] أَنَّهُ كَانَ يُكَبِّرُ كُلَّمَا رَفَعَ وَكُلَّمَا وَضَعَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے سعید بن ایاس جریری سے بیان کیا، انہوں نے ابوالعلاء یزید بن عبداللہ سے، انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے، انہوں نے عمران بن حصین سے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھی۔ پھر کہا کہ ہمیں انہوں نے وہ نماز یاد دلا دی جو کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ پھر کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب سر اٹھاتے اور جب سر جھکاتے اس وقت تکبیر کہتے۔


❁ بَابُ إِتْمَامِ التَّكْبِيرِ فِي الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع کرنے کے وقت بھی تکبیر کہنا

❁ 785 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ كَانَ «يُصَلِّي بِهِمْ، فَيُكَبِّرُ كُلَّمَا خَفَضَ، وَرَفَعَ»، فَإِذَا انْصَرَفَ، قَالَ: إِنِّي لَأَشْبَهُكُمْ صَلاَةً بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے تو جب بھی وہ جھکتے اور جب بھی وہ اٹھتے تکبیر ضرور کہتے۔ پھر جب فارغ ہوتے تو فرماتے کہ میں نماز پڑھنے میں تم سب لوگوں سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہت رکھنے والا ہوں۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو رکوع اور سجدہ وغیرہ میں جاتے ہوئے تکبیر نہیں کہتے۔ بعض شاہان بنی امیہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ باب کا ترجمہ یوں بھی کیا گیا ہے کہ تکبیر کو رکوع میں جا کر پورا کرنا، مگر بہتر ترجمہ وہی ہے جو اوپر ہوا۔


❁ بَابُ إِتْمَامِ التَّكْبِيرِ فِي السُّجُودِ
❁ باب: سجدے کے وقت بھی تکبیر کہنا

❁ 786 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ غَيْلاَنَ بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَا وَعِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، «فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ»، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ أَخَذَ بِيَدِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، فَقَالَ: قَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ قَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ –

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے غیلان بن جریر سے بیان کیا، انہوں نے مطرف بن عبداللہ بن شخیر سے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور عمران بن حصین نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ تو وہ جب بھی سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے۔ اسی طرح جب سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ جب دو رکعات کے بعد اٹھتے تو تکبیر کہتے۔ جب نماز ختم ہوئی تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آج حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلائی، یا یہ کہا کہ اس شخص نے ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرح آج نماز پڑھائی۔


❁ بَابُ إِتْمَامِ التَّكْبِيرِ فِي السُّجُودِ
❁ باب: سجدے کے وقت بھی تکبیر کہنا

❁ 787 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ رَجُلًا عِنْدَ المَقَامِ، «يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ، وَإِذَا قَامَ وَإِذَا وَضَعَ»، فَأَخْبَرْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَوَلَيْسَ تِلْكَ صَلاَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لاَ أُمَّ لَكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشیم بن بشیر نے ابوبشر حفص بن ابی وحشیہ سے خبر دی، انہوں نے عکرمہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ایک شخص کو مقام ابراہیم میں ( نماز پڑھتے ہوئے ) دیکھا کہ ہر جھکنے اور اٹھنے پر وہ تکبیر کہتا تھا۔ اسی طرح کھڑے ہوتے وقت اور بیٹھتے وقت بھی۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اس کی اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا، ارے تیری ماں مرے! کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز نہیں ہے۔

 

❁ تشریح : یعنی یہ نماز تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہے اور تو اس پر تعجب کرتا ہے۔ لا ام لک عرب لوگ زجر و توبیخ کے وقت بولتے ہیں جیسے ثکلتک امک یعنی تیری ماں تجھ پر روئے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما عکرمہ پر خفا ہوئے کہ تو اب تک نماز کا پورا طریقہ نہیں جانتا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے فاضل پر انکار کرتا ہے۔


❁ بَابُ التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ
❁ باب: جب سجدہ کر کے کھڑا ہو تو تکبیر کہے

❁ 788 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ،قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ شَيْخٍ بِمَكَّةَ، «فَكَبَّرَ ثِنْتَيْنِ وَعِشْرِينَ تَكْبِيرَةً»، فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّهُ أَحْمَقُ، فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ «سُنَّةُ أَبِي القَاسِمِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» وَقَالَ مُوسَى: حَدَّثَنَا أَبَانُ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، وہ عکرمہ سے، کہا کہ میں نے مکہ میں ایک بوڑھے کے پیچھے ( ظہر کی ) نماز پڑھی۔ انہوں نے ( تمام نماز میں ) بائیس تکبیریں کہیں۔ اس پر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ یہ بوڑھا بالکل بے عقل معلوم ہوتا ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا تمہاری ماں تمہیں روئے یہ تو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے یوں بھی بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے قتادہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے یہ حدیث بیان کی۔


❁ بَابُ التَّكْبِيرِ إِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ
❁ باب: جب سجدہ کر کے کھڑا ہو تو تکبیر کہے

❁ 789 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ، ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ: رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ اللَّيْثِ: «وَلَكَ الحَمْدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَهْوِي، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ، ثُمَّ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي الصَّلاَةِ كُلِّهَا حَتَّى يَقْضِيَهَا، وَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الثِّنْتَيْنِ بَعْدَ الجُلُوسِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل بن خالد کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث نے خبری دی کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے۔ پھر جب رکوع کرتے تب بھی تکبیر کہتے تھے۔ پھر جب سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کھڑے ہی کھڑے ربنا لک الحمد کہتے۔ پھر جب ( دوسرے ) سجدہ کے لیے جھکتے تب تکبیر کہتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تب بھی تکبیر کہتے۔ اسی طرح آپ تمام نماز پوری کر لیتے تھے۔ قعدہ اولیٰ سے اٹھنے پر بھی تکبیر کہتے تھے۔ ( اس حدیث میں ) عبداللہ بن صالح بن لیث کے واسطے سے ( بجائے ربنا لک الحمد کے ) ربنا ولک الحمد نقل کیا ہے۔ ( ربنا ولک الحمد کہے یا ربنا لک الحمد واؤ کے ساتھ ہر دو طریقہ درست ہے.

 

❁ تشریح : چار رکعت نماز میں کل بائیس تکبیریں ہوتی ہیں ہر رکعت میں پانچ تکبیریں، ایک تکبیر تحریمہ دوسری پہلے تشہد کے بعد اٹھتے وقت سب بائیس ہوئی۔ اور تین رکعت نماز میں سترہ اور دو رکعت میں گیارہ ہوتی ہیں اور پانچوں نماز وں میں چورانوے تکبیریں ہوتی ہیں۔ موسیٰ بن اسماعیل کی سند کے بیان سے حضرت امام کی غرض یہ ہے کہ قتادہ سے دو شخصوں نے اس کو روایت کیا ہے۔ ہمام اور ابان نے اور ہمام کی روایت اصول میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر ہے اور ابان کی روایت متابعات میں۔ دوسری فائدہ یہ ہے کہ قتادہ کا سماع عکرمہ سے معلوم ہوجائے۔


❁ بَابُ وَضْعِ الأَكُفِّ عَلَى الرُّكَبِ فِي الرُّكُوعِ
باب: رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنا ❁ 

❁ 790 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي يَعْفُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: صَلَّيْتُ إِلَى جَنْبِ أَبِي، فَطَبَّقْتُ بَيْنَ كَفَّيَّ، ثُمَّ وَضَعْتُهُمَا بَيْنَ فَخِذَيَّ، فَنَهَانِي أَبِي، وَقَالَ: كُنَّا نَفْعَلُهُ، «فَنُهِينَا عَنْهُ وَأُمِرْنَا أَنْ نَضَعَ أَيْدِينَا عَلَى الرُّكَبِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ابویعفور اکبر سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مصعب بن سعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کے پہلو میں نماز پڑھی اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ اس پر میرے باپ نے مجھے ٹوکا اور فرمایا کہ ہم بھی پہلے اسی طرح کرتے تھے۔ لیکن بعد میں اس سے روک دئیے گئے اور حکم ہوا کہ ہم اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھیں۔

 

❁ تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنا منقول ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر اشارہ فرمایا کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے۔


❁ بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ الرُّكُوعَ
❁ باب: اگر رکوع اطمینان سے نہ کرے

❁ 791 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ: رَأَى حُذَيْفَةُ رَجُلًا لَا يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، قَالَ: «مَا صَلَّيْتَ وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ الفِطْرَةِ الَّتِي فَطَرَ اللَّهُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، سلیمان بن اعمش کے واسطہ سے کہا میں نے زید بن وہب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نہ رکوع پوری طرح کرتا ہے نہ سجدہ۔ اس لیے آپ نے اس سے کہا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی اور اگر تم مر گئے تو تمہاری موت اس سنت پر نہیں ہو گی جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تھا۔

 

❁ تشریح :یعنی تیرا خاتمہ معاذ اللہ کفر پر ہوگا۔ جو لوگ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس طرح خرابی خاتمہ سے ڈرنا چاہئے۔ سبحان اللہ اہل حدیث کا جینا اور مرنا دونوں اچھا۔ مرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندگی نہیں۔ آپ کی حدیث پر چلتے رہے جب تک جئے خاتمہ بھی حدیث پر ہوا۔ ( مولانا وحید الزماں رحمۃ اللہ علیہ )


❁ بَابُ حَدِّ إِتْمَامِ الرُّكُوعِ وَالِاعْتِدَالِ فِيهِ وَالطُّمَأْنِينَةِ

❁ باب: جس نے رکوع پوری طرح نہیں کیا


❁ 792 حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ المُحَبَّرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الحَكَمُ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: «كَانَ رُكُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُهُ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، مَا خَلاَ القِيَامَ وَالقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حکم نے ابن ابی لیلیٰ سے خبر دی، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے۔

 

❁ تشریح : قیام سے مراد قرات کا قیام ہے اور تشہد کا قعود، لیکن باقی چار چیزیں یعنی رکوع اور سجدہ اور دونوں سجدوں کے بیچ میں قعدہ اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب قریب قریب برابر ہوتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ رکوع سے سر اٹھا کر اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتاآپ بھول گئے ہیں۔ حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ اس سے رکوع میں دیر تک ٹھہرنا ثابت ہوتا ہے۔ تو باب کا ایک جزو یعنی اطمینان اس سے نکل آیا اور اعتدال یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا وہ بھی اس روایت سے ثابت ہوچکا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بعض طریقوں میں جن کو مسلم نے نکالا ہے اعتدال لمبا کرنے کا ذکر ہے تو اس سے تمام ارکان کا لمبا کرنا ثابت ہوگیا۔


❁ بَابُ أَمْرِ النَّبِيِّ ﷺ الَّذِي لاَ يُتِمُّ رُكُوعَهُ بِالإِعَادَةِ
❁ باب: نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم دینا جس نے رکوع

❁ 793 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ المَقْبُرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم فَرَدَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ السَّلاَمَ، فَقَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ»، فَصَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ» ثَلاَثًا، فَقَالَ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالحَقِّ، فَمَا أُحْسِنُ غَيْرَهُ، فَعَلِّمْنِي، قَالَ: «إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَعْتَدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلاَتِكَ كُلِّهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ نماز کے بعد اس نے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا کہ واپس جاکر دوبارہ نماز پڑھ، کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ اس نے دوبارہ نماز پڑھی اور واپس آکر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ دوبارہ جاکر نماز پڑھ، کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین بار اسی طرح ہوا۔ آخر اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا۔ میں تو اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لیے آپ مجھے سکھلائیے۔ آپ نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو ( پہلے ) تکبیر کہہ پھر قرآن مجید سے جو کچھ تجھ سے ہو سکے پڑھ، اس کے بعد رکوع کر اور پوری طرح رکوع میں چلا جا۔ پھر سر اٹھا اور پوری طرح کھڑا ہو جا۔ پھر جب تو سجدہ کرے تو پوری طرح سجدہ میں چلا جا۔ پھر ( سجدہ سے ) سر اٹھا کر اچھی طرح بیٹھ جا۔ دوبارہ بھی اسی طرح سجدہ کر۔ یہی طریقہ نماز کے تمام ( رکعتوں میں ) اختیار کر۔

 

❁ تشریح : اسی حدیث کو بروایت رفاعہ بن رافع ابن ابی شیبہ نے یوں روایت کیا کہ اس شخص نے رکوع اور سجدہ پورے طور پر ادا نہیں کیا تھا۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز لوٹانے کا حکم فرمایا۔ یہی ترجمہ باب ہے۔ ثابت ہوا کہ ٹھہر ٹھہر کر اطمینان سے ہر رکن کا ادا کرنا فرض ہے۔ اس روایت بخاری میں یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ پڑھ جو تجھے قرآن سے آسان ہو۔ مگر رفاعہ بن رافع کی روایت ابن ابی شیبہ میں صاف یوں مذکو رہے۔ ثم اقرا بام القرآن وما شاءاللہ یعنی پہلے سورۃ فاتحہ پڑھ پھر جو آسان ہو قرآن کی تلاوت کر۔ اس تفصیل کے بعد اس روایت سے سورۃ فاتحہ کی عدم رکنیت پر دلیل پکڑنے والا یا تو تفصیلی روایات سے نا واقف ہے یا پھر تعصب کا شکار ہے۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الرُّكُوعِ

❁ باب: رکوع کی دعا کا بیان


❁ 794 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ: سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا منصور بن معتمر نے بیان کیا، انہوں نے ابوالضحیٰ مسلم بن صبیح سے، انہوں نے مسروق سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ میں سبحانک اللہم ر بنا و بحمدک اللہم اغفرلی پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : رکوع اور سجدہ میں جو تسبیح پڑھی جاتی ہے اس میں کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ اس حدیث کے پیش نظر کہ “ رکوع میں اپنے رب کی تعظیم کرو اور بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے، اس لیے سجدہ میں دعا کیا کرو کہ سجدہ کی دعا مقبول ہونے کی زیادہ امید ہے۔ ” بعض ائمہ نے سجدہ کی حالت میں دعا جائز قرار دی ہے اور رکوع میں دعا کو مکروہ کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مذکورہ حدیث میں دعا کا ایک مخصوص ترین وقت حالت سجدہ کو بتایا گیا ہے۔ اس میں رکوع میں دعا کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ہے بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ دونوں حالتوں میں دعا کرتے تھے۔ امیر الحاج نے تمام دعائیں جماعت تک میں اس شرط پر جائز قرار دی ہیں کہ مقتدیوں پر اس سے کوئی گراں باری نہ ہو۔ ( تفہیم البخاری


❁ بَابُ مَا يَقُولُ الإِمَامُ وَمَنْ خَلْفَهُ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع سے سر اٹھانے پر دعا

❁ 795 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، قَالَ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ يُكَبِّرُ، وَإِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے سعید مقبری سے بیان کیا، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تو اس کے بعد اللہم ر بنا و لک الحمد بھی کہتے۔ اسی طرح جب آپ رکوع کرتے اور سراٹھاتے تو تکبیر کہتے۔ دونوں سجدوں سے کھڑے ہوتے وقت بھی آپ اللہ اکبر کہا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : حدیث سے امام کا کہنا تو ثابت ہوا لیکن مقتدی کا یہ کہنا ا س طرح ثابت ہوگا کہ مقتدی پر امام کی پیروی ضروری ہے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں مذکور ہے۔ اسی حدیث کے دوسرے طرق میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو پیچھے والے بھی امام کے ساتھ ربنا و لک الحمد الخ بھی کہیں۔


❁ بَابُ فَضْلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ
❁ باب: اللھم ربنا ولک الحمد کی فضیلت

❁ 796 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ المَلاَئِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے سمی سے خبر دی، انہوں نے ابوصالح ذکوان کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللہم ر بنا و لک الحمد کہو۔ کیوں کہ جس کا یہ کہنا فرشتوں کے کہنے کے ساتھ ہوگا، اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیے جائیں گے


بَابٌ
❁ باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہیے اور ابو حمید……

❁ 797 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ [ص:159] يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَأُقَرِّبَنَّ صَلاَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقْنُتُ فِي الرَّكْعَةِ الآخِرَةِ مِنْ صَلاَةِ الظُّهْرِ، وَصَلاَةِ العِشَاءِ، وَصَلاَةِ الصُّبْحِ، بَعْدَ مَا يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَيَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَلْعَنُ الكُفَّارَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے ہشام دستوائی سے، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے ابوسلمہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ لو میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب قریب کردوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ظہر، عشاء اور صبح کی آخری رکعات میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔ سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد۔ یعنی مومنین کے حق میں دعا کرتے اور کفار پر لعنت بھیجتے۔

 

❁ تشریح : کچھ غداروں نے چند مسلمانوں کو دھوکا سے بئر معونہ پر شہید کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حادثہ سے سخت صدمہ ہوا اور آپ نے ایک ماہ تک ان پر بددعا کی اور ان پر مسلمان کی رہائی کے لیے بھی دعا فرمائی جو کفار کے ہاں مقید تھے۔ یہاں اسی قنوت کا ذکر ہے۔ جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے تو ہر نماز میں آخر رکعت میں رکوع کے بعد قنوت پڑھنا مستحب ہے۔


بَابٌ
❁ باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہیے اور ابو حمید……

❁ 798 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الأَسْوَدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ خَالِدٍ الحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كَانَ القُنُوتُ فِي المَغْرِبِ وَالفَجْرِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہوں نے خالد بن حذاء سے بیان کیا، انہوں نے ابوقلابہ ( عبداللہ بن زید ) سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ دعاء قنوت فجر اور مغرب کی نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔


❁ بَابٌ
❁ باب: ہاتھوں کو کہاں تک اٹھانا چاہیے اور ابو حمید……

❁ 799 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ المُجْمِرِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ، قَالَ: كُنَّا يَوْمًا نُصَلِّي وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ، قَالَ رَجُلٌ وَرَاءَهُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: «مَنِ المُتَكَلِّمُ» قَالَ: أَنَا، قَالَ: «رَأَيْتُ بِضْعَةً وَثَلاَثِينَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَكْتُبُهَا أَوَّلُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نعیم بن عبداللہ مجمر سے، انہوں نے علی بن یحییٰ بن خلاد زرقی سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے رفاعہ بن رافع زرقی سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ کہتے۔ ایک شخص نے پیچھے سے کہا ر بنا لک الحمد حمداً کثیراً طیباً مبارکا فیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے ہیں، اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان کلمات کو لکھنے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ ( اس سے ان کلمات کی فضیلت ثابت ہوئی )


❁ بَابُ الطُّمَأْنِينَةِ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہا جائے

❁ 800 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ: كَانَ أَنَسٌ يَنْعَتُ لَنَا صَلاَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانَ يُصَلِّي وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ، قَامَ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ نَسِيَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ثابت بنانی سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بتلاتے تھے۔ چنانچہ آپ نماز پڑھتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ ہم سوچنے لگتے کہ آپ بھول گئے ہیں۔

 

❁ تشریح : قسطلانی نے کہا اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعتدال یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا ایک لمبا رکن ہے۔ جن لوگوں نے اس کا انکار کیا ان کا قول فاسد اور ناقابل توجہ ہے۔


❁ بَابُ الطُّمَأْنِينَةِ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہا جائے

❁ 801 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الحَكَمِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ البَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كَانَ رُكُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُهُ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، انہوں نے ابن ابی لیلیٰ سے، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع، سجدہ، رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دونوں سجدوں کے درمیان کا بیٹھنا تقریباً برابر ہوتا تھا۔

 

❁ تشریح : مراد یہ کہ آپ کی نماز معتدل ہوا کرتی تھی۔ اگر قرات میں طول کرتے تو اسی نسبت سے اور ارکان کو بھی طویل کرتے تھے۔ اگر قرات میں تخفیف کرتے تو اور ارکان کو بھی ہلکا کرتے۔


❁ بَابُ الطُّمَأْنِينَةِ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ
❁ باب: رکوع سے سر اٹھانے کے بعد کیا کہا جائے

❁ 802 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ الحُوَيْرِثِ يُرِينَا كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَاكَ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلاَةٍ، «فَقَامَ فَأَمْكَنَ القِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَمْكَنَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَنْصَبَ هُنَيَّةً»، قَالَ: فَصَلَّى بِنَا صَلاَةَ شَيْخِنَا هَذَا أَبِي بُرَيْدٍ، وَكَانَ أَبُو بُرَيْدٍ: «إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الآخِرَةِ اسْتَوَى قَاعِدًا، ثُمَّ نَهَضَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابوقلابہ سے کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمیں ( نماز پڑھ کر ) دکھلاتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے اور یہ نماز کا وقت نہیں تھا۔ چنانچہ آپ ( ایک مرتبہ ) کھڑے ہوئے اور پوری طرح کھڑے رہے۔ پھر جب رکوع کیا اور پوری طمانیت کے ساتھ سر اٹھایا تب بھی تھوڑی دیر سیدھے کھڑے رہے۔ ابوقلابہ نے بیان کیا کہ مالک رضی اللہ عنہ نے ہمارے اس شیخ ابویزید کی طرح نماز پڑھائی۔ ابویزید جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو پہلے اچھی طرح بیٹھ لیتے پھر کھڑے ہوتے۔


❁ بَابٌ: يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ
❁ باب: سجدہ کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے

❁ 803 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، كَانَ يُكَبِّرُ فِي كُلِّ صَلاَةٍ مِنَ المَكْتُوبَةِ، وَغَيْرِهَا فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ، فَيُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ، ثُمَّ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، ثُمَّ يَقُولُ: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ [ص:160]، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُ أَكْبَرُ حِينَ يَهْوِي سَاجِدًا، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَسْجُدُ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ مِنَ الجُلُوسِ فِي الِاثْنَتَيْنِ، وَيَفْعَلُ ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ حَتَّى يَفْرُغَ مِنَ الصَّلاَةِ ، ثُمَّ يَقُولُ حِينَ يَنْصَرِفُ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَقْرَبُكُمْ شَبَهًا بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْ كَانَتْ هَذِهِ لَصَلاَتَهُ حَتَّى فَارَقَ الدُّنْيَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ تمام نمازوں میں تکبیر کہا کرتے تھے۔ خواہ فرض ہوں یا نہ ہوں۔ رمضان کا مہینہ ہو یا کوئی اور مہینہ ہو، چنانچہ جب آپ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے، رکوع میں جاتے تو تکبیر کہتے۔ پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور اس کے بعد ر بنا و لک الحمد سجدہ سے پہلے، پھر جب سجدہ کے لیے جھکتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے۔ پھر دوسرا سجدہ کرتے وقت اللہ اکبر کہتے۔ اسی طرح سجدہ سے سر اٹھاتے تو اللہ اکبر کہتے۔ دو رکعات کے بعد قعدہ اولی کرنے کے بعد جب کھڑے ہوتے تب بھی تکبیر کہتے اور آپ ہر رکعت میں ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہونے تک۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرماتے کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم میں سب سے زیادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مشابہ ہوں۔ اور آپ اسی طرح نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ دنیا سے تشریف لے گئے۔


❁ بَابٌ: يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ
❁ باب: سجدہ کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے

❁ 804 قَالاَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَرْفَعُ رَأْسَهُ يَقُولُ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، يَدْعُو لِرِجَالٍ فَيُسَمِّيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ، فَيَقُولُ: اللَّهُمَّ أَنْجِ الوَلِيدَ بْنَ الوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ وَالمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ المُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ وَاجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ وَأَهْلُ المَشْرِقِ يَوْمَئِذٍ مِنْ مُضَرَ مُخَالِفُونَ لَهُ

 

❁ ترجمہ : ابوبکر اور ابوسلمہ دونوں نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک ( رکوع سے ) اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ، ر بنا و لک الحمد کہہ کر چند لوگوں کے لیے دعائیں کرتے اور نام لے لے کر فرماتے۔ یا اللہ ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور تمام کمزور مسلمانوں کو ( کفار سے ) نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کے لوگوں کو سختی کے ساتھ کچل دے اور ان پر قحط مسلط کر جیسا کہ یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں آیا تھا۔ ان دنوں پورب والے قبیلہ مضر کے لوگ مخالفین میں تھے۔
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں بددعا کسی مستحق حقیقی کا نام لے کر بھی کی جاسکتی ہے۔


❁ بَابٌ: يَهْوِي بِالتَّكْبِيرِ حِينَ يَسْجُدُ

❁ باب: سجدہ کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا جھکے


❁ 805 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، غَيْرَ مَرَّةٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: سَقَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ فَرَسٍ – وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: مِنْ فَرَسٍ – فَجُحِشَ شِقُّهُ الأَيْمَنُ، فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ نَعُودُهُ، فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَصَلَّى بِنَا قَاعِدًا وَقَعَدْنَا – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: صَلَّيْنَا قُعُودًا – فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا قَالَ سُفْيَانُ: كَذَا جَاءَ بِهِ مَعْمَرٌ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: لَقَدْ حَفِظَ كَذَا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلَكَ الحَمْدُ حَفِظْتُ مِنْ شِقِّهِ الأَيْمَنِ، فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: وَأَنَا عِنْدَهُ، فَجُحِشَ سَاقُهُ الأَيْمَنُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بار بار زہری سے یہ بیان کیا کہ انہوں نے کہاکہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے زمین پر گر گئے۔ سفیان نے اکثر ( بجائے عن فرس کے ) من فرس کہا۔ اس گرنے سے آپ کادایاں پہلو زخمی ہو گیا تو ہم آپ کی خدمت میں عیادت کی غرض سے حاضر ہوئے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا اور آپ نے ہمیں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم بھی بیٹھ گئے۔ سفیان نے ایک مرتبہ کہا کہ ہم نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے توفرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو۔ جب رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ر بنا ولک الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔ ( سفیان نے اپنے شاگرد علی بن مدینی سے پوچھا کہ ) کیا معمر نے بھی اسی طرح حدیث بیان کی تھی۔ ( علی کہتے ہیں کہ ) میں نے کہا جی ہاں۔ اس پر سفیان بولے کہ معمر کو حدیث یاد تھی۔ زہری نے یوں کہا و لک الحمد ۔ سفیان نے یہ بھی کہا کہ مجھے یاد ہے کہ زہری نے یوں کہا آپ کا دایاں بازو چھل گیا تھا۔ جب ہم زہری کے پا س سے نکلے ابن جریج نے کہا میں زہری کے پاس موجود تھا تو انہوں نے یوں کہا کہ آپ کی داہنی پنڈلی چھل گئی۔

 

❁ تشریح : زہری نے کبھی تو پہلو کہا، کبھی پنڈلی، بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے سفیان نے کہا جب ہم زہری کے پاس سے نکلے تو ابن جریج نے اس حدیث کو بیان کیا۔ میں ان کے پاس تھا ابن جریج نے پہلو کے بدلے پنڈلی کہا۔ حافظ نے اس ترجمہ کو ترجیح دی ہے۔ اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور ظاہر ہے کہ مقتدی امام کے بعد سجدہ میں جاتا ہے تو اس کی تکبیر بھی امام کے بعد ہی ہوگی۔ اور جب دونوں فعل اس کے امام کے بعد ہوئے تو تکبیر اسی وقت پر آن کر پڑے گی جب مقتدی سجدہ کے لیے جھکے گا اور یہی ترجمہ باب ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ السُّجُودِ
❁ باب: سجدہ کی فضیلت کا بیان

❁ 806 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، وَعَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، أَخْبَرَهُمَا: أَنَّ النَّاسَ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلْ نَرَى رَبَّنَا يَوْمَ القِيَامَةِ؟ قَالَ: «هَلْ تُمَارُونَ فِي القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ سَحَابٌ» قَالُوا: لاَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «فَهَلْ تُمَارُونَ فِي الشَّمْسِ لَيْسَ دُونَهَا سَحَابٌ» قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَإِنَّكُمْ تَرَوْنَهُ كَذَلِكَ، يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَيَقُولُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا فَلْيَتَّبِعْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الشَّمْسَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ القَمَرَ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَّبِعُ الطَّوَاغِيتَ، وَتَبْقَى هَذِهِ الأُمَّةُ فِيهَا مُنَافِقُوهَا، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ هَذَا مَكَانُنَا حَتَّى يَأْتِيَنَا رَبُّنَا، فَإِذَا جَاءَ رَبُّنَا عَرَفْنَاهُ، فَيَأْتِيهِمُ اللَّهُ فَيَقُولُ: أَنَا رَبُّكُمْ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ رَبُّنَا، فَيَدْعُوهُمْ فَيُضْرَبُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يَجُوزُ مِنَ الرُّسُلِ بِأُمَّتِهِ، وَلاَ يَتَكَلَّمُ يَوْمَئِذٍ أَحَدٌ إِلَّا الرُّسُلُ، وَكَلاَمُ الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ، وَفِي جَهَنَّمَ كَلاَلِيبُ [ص:161] مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ، هَلْ رَأَيْتُمْ شَوْكَ السَّعْدَانِ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّهَا مِثْلُ شَوْكِ السَّعْدَانِ غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يَعْلَمُ قَدْرَ عِظَمِهَا إِلَّا اللَّهُ، تَخْطَفُ النَّاسَ بِأَعْمَالِهِمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ يُوبَقُ بِعَمَلِهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ يُخَرْدَلُ ثُمَّ يَنْجُو، حَتَّى إِذَا أَرَادَ اللَّهُ رَحْمَةَ مَنْ أَرَادَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، أَمَرَ اللَّهُ المَلاَئِكَةَ: أَنْ يُخْرِجُوا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ، فَيُخْرِجُونَهُمْ وَيَعْرِفُونَهُمْ بِآثَارِ السُّجُودِ، وَحَرَّمَ اللَّهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ أَثَرَ السُّجُودِ، فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، فَكُلُّ ابْنِ آدَمَ تَأْكُلُهُ النَّارُ إِلَّا أَثَرَ السُّجُودِ، فَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ، قَدْ امْتَحَشُوا فَيُصَبُّ عَلَيْهِمْ مَاءُ الحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ، ثُمَّ يَفْرُغُ اللَّهُ مِنَ القَضَاءِ بَيْنَ العِبَادِ وَيَبْقَى رَجُلٌ بَيْنَ الجَنَّةِ وَالنَّارِ وَهُوَ آخِرُ أَهْلِ النَّارِ دُخُولًا الجَنَّةَ مُقْبِلٌ بِوَجْهِهِ قِبَلَ النَّارِ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ، قَدْ قَشَبَنِي رِيحُهَا وَأَحْرَقَنِي ذَكَاؤُهَا، فَيَقُولُ: هَلْ عَسَيْتَ إِنْ فُعِلَ ذَلِكَ بِكَ أَنْ تَسْأَلَ غَيْرَ ذَلِكَ؟ فَيَقُولُ: لاَ وَعِزَّتِكَ، فَيُعْطِي اللَّهَ مَا يَشَاءُ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ، فَيَصْرِفُ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ، فَإِذَا أَقْبَلَ بِهِ عَلَى الجَنَّةِ، رَأَى بَهْجَتَهَا سَكَتَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ قَدِّمْنِي عِنْدَ بَابِ الجَنَّةِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ العُهُودَ وَالمِيثَاقَ، أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي كُنْتَ سَأَلْتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لاَ أَكُونُ أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَقُولُ: فَمَا عَسَيْتَ إِنْ أُعْطِيتَ ذَلِكَ أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَهُ؟ فَيَقُولُ: لاَ وَعِزَّتِكَ، لاَ أَسْأَلُ غَيْرَ ذَلِكَ، فَيُعْطِي رَبَّهُ مَا شَاءَ مِنْ عَهْدٍ وَمِيثَاقٍ، فَيُقَدِّمُهُ إِلَى بَابِ الجَنَّةِ، فَإِذَا بَلَغَ بَابَهَا، فَرَأَى زَهْرَتَهَا، وَمَا فِيهَا مِنَ النَّضْرَةِ وَالسُّرُورِ، فَيَسْكُتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَسْكُتَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ أَدْخِلْنِي الجَنَّةَ، فَيَقُولُ اللَّهُ: وَيْحَكَ يَا ابْنَ آدَمَ، مَا أَغْدَرَكَ، أَلَيْسَ قَدْ أَعْطَيْتَ العُهُودَ وَالمِيثَاقَ، أَنْ لاَ تَسْأَلَ غَيْرَ الَّذِي أُعْطِيتَ؟ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ لاَ تَجْعَلْنِي أَشْقَى خَلْقِكَ، فَيَضْحَكُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُ، ثُمَّ يَأْذَنُ لَهُ فِي دُخُولِ الجَنَّةِ، فَيَقُولُ: تَمَنَّ، فَيَتَمَنَّى حَتَّى إِذَا انْقَطَعَ أُمْنِيَّتُهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: مِنْ كَذَا وَكَذَا، أَقْبَلَ يُذَكِّرُهُ رَبُّهُ، حَتَّى إِذَا انْتَهَتْ بِهِ الأَمَانِيُّ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: لَكَ ذَلِكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الخُدْرِيُّ لِأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: قَالَ اللَّهُ: لَكَ ذَلِكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: لَمْ أَحْفَظْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَوْلَهُ: «لَكَ ذَلِكَ وَمِثْلُهُ مَعَهُ» قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: إِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «ذَلِكَ لَكَ وَعَشَرَةُ أَمْثَالِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے؟ آپ نے ( جواب کے لیے ) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس ( ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لےں ) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ بھی کہیں گے کہ بے شک تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کرسکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہا ہاں! ( آپ نے فرمایا ) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ پھر ان کی نجات ہوگی۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کردیا ہے۔ چنانچہ یہ سب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہوگی۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہوگا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے۔ کیوں کہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کردوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا اے میرے رب! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کردی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ افسوس اے ابن آدم! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا؟ کیا ( ابھی ) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا۔ بندہ کہے گا اے رب! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فرما دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں ( اللہ تعالیٰ کے سامنے ) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو، فلاں چیز کا مزید سوال کرو۔ خود اللہ پاک ہی یاد دہانی کرائے گا۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ لیکن حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں۔

 

❁ تشریح : امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔ اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔ ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔ ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔ وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔ اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔ جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔ حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔ نیز حدیث میں ماءالحیات کا ذکر ہے۔ جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔ آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔ اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔ الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔ ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔ پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔


❁ بَابُ يُبْدِي ضَبْعَيْهِ وَيُجَافِي فِي السُّجُودِ
❁ باب: سجدہ میں دونوں بازو کھلے ہوں

❁ 807 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنِ ابْنِ [ص:162] هُرْمُزَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى فَرَجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے بکر بن مضر نے جعفر بن ربیعہ سے بیان کیا، انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے، انہوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے سجدے میں اپنے دونوں بازوؤں کو اس قدر پھیلا دیتے کہ بغل کی سفیدی ظاہر ہوجاتی تھی۔ لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے بھی جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

 


تشریح : امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الام میں کہا ہے کہ سجدے میں کہنیاں پہلو سے الگ رکھنا اور پیٹ کو رانوں سے جدا رکھنا سنت ہے۔


❁ بَاب إِذَا لَمْ يُتِمَّ السُّجُودَ

❁ باب: سجدہ پوری طرح نہ کرئے (تو کیسا گناہ ہے؟)


❁ 808 حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، رَأَى رَجُلًا لَا يُتِمُّ رُكُوعَهُ، وَلاَ سُجُودَهُ فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ قَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: «مَا صَلَّيْتَ؟» قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: «وَلَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے صلت بن محمد بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے واصل سے بیان کیا، انہوں نے ابووائل سے، انہوں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب وہ نماز پڑھ چکا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ تو نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ حذیفہ نے یہ فرمایا کہ اگر تم مر گئے تو تمہاری موت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر نہیں ہوگی۔


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ

❁ باب: سات ہڈیوں پر سجدہ کرنا


❁ 809 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أُمِرَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ، وَلاَ يَكُفَّ شَعَرًا وَلاَ ثَوْبًا: الجَبْهَةِ، وَاليَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَالرِّجْلَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا۔ اس طرح کہ نہ بالوں کو اپنے سمیٹتے نہ کپڑے کو ( وہ سات اعضاء یہ ہیں ) پیشانی ( مع ناک ) دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ

❁ باب: سات ہڈیوں پر سجدہ کرنا


❁ 809 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أُمِرَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْضَاءٍ، وَلاَ يَكُفَّ شَعَرًا وَلاَ ثَوْبًا: الجَبْهَةِ، وَاليَدَيْنِ، وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَالرِّجْلَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کا حکم دیا گیا۔ اس طرح کہ نہ بالوں کو اپنے سمیٹتے نہ کپڑے کو ( وہ سات اعضاء یہ ہیں ) پیشانی ( مع ناک ) دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ

❁ باب: سات ہڈیوں پر سجدہ کرنا


❁ 810 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُمِرْنَا أَنْ نَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ، وَلاَ نَكُفَّ ثَوْبًا وَلاَ شَعَرًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے عمرو سے، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا کہ ہمیں سات اعضاء پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ ہم نہ بال سمیٹیں نہ کپڑے۔


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ

❁ باب: سات ہڈیوں پر سجدہ کرنا


❁ 811 حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الخَطْمِيِّ، حَدَّثَنَا البَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، – وَهُوَ غَيْرُ كَذُوبٍ -، قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، لَمْ يَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَهْرَهُ حَتَّى يَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَبْهَتَهُ عَلَى الأَرْضِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن یزید سے، انہوں نے کہا کہ ہم سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے۔ جب آپ سمع اللہ لمن حمدہ کہتے ( یعنی رکوع سے سر اٹھاتے ) تو ہم میں سے کوئی اس وقت تک اپنی پیٹھ نہ جھکاتا جب تک آپ اپنی پیشانی زمین پر نہ رکھ دیتے۔

 

❁ تشریح : اصل میں پیشانی ہی زمین پر رکھنا سجدہ کرنا ہے اور ناک بھی پیشانی ہی میں داخل ہے۔ اس لیے ناک اور پیشانی ہر دو کا زمین سے لگانا واجب ہے۔ پھر دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کا زمین پر ٹیکنا اور دونوں پیروں کی انگلیوں کو قبلہ رخ موڑ کر رکھنا یہ کل سات اعضاءہوئے جن میں سجدہ ہوتا ہے۔

❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى الأَنْفِ

❁ باب: سجدہ میں ناک بھی زمین سے لگانا


❁ 812 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَى الجَبْهَةِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَى أَنْفِهِ وَاليَدَيْنِ وَالرُّكْبَتَيْنِ، وَأَطْرَافِ القَدَمَيْنِ وَلاَ نَكْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن طاؤس سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے۔ پیشانی پر اور اپنے ہاتھ سے ناک کی طر ف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیوں پر۔ اس طرح کہ ہم نہ کپڑے سمیٹیں نہ بال۔


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى الأَنْفِ، وَالسُّجُودِ عَلَى الطِّينِ

❁ باب: کیچڑ میں بھی ناک زمین سے لگانا


❁ 813 حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: انْطَلَقْتُ إِلَى أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ فَقُلْتُ: أَلاَ تَخْرُجُ بِنَا إِلَى النَّخْلِ نَتَحَدَّثُ، فَخَرَجَ، فَقَالَ: قُلْتُ: حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةِ القَدْرِ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ الأُوَلِ مِنْ رَمَضَانَ وَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي تَطْلُبُ أَمَامَكَ، فَاعْتَكَفَ العَشْرَ الأَوْسَطَ، فَاعْتَكَفْنَا مَعَهُ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: إِنَّ الَّذِي تَطْلُبُ أَمَامَكَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:163] خَطِيبًا صَبِيحَةَ عِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ فَقَالَ: «مَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَرْجِعْ، فَإِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ القَدْرِ، وَإِنِّي نُسِّيتُهَا، وَإِنَّهَا فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ، فِي وِتْرٍ، وَإِنِّي رَأَيْتُ كَأَنِّي أَسْجُدُ فِي طِينٍ وَمَاءٍ» وَكَانَ سَقْفُ المَسْجِدِ جَرِيدَ النَّخْلِ، وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ شَيْئًا، فَجَاءَتْ قَزَعَةٌ، فَأُمْطِرْنَا، فَصَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ وَالمَاءِ عَلَى جَبْهَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَرْنَبَتِهِ تَصْدِيقَ رُؤْيَاهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے عرض کی کہ فلاں نخلستان میں کیوں نہ چلیں سیر بھی کریں گے اور کچھ باتیں بھی کریں گے۔ چنانچہ آپ تشریف لے چلے۔ ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے راہ میں کہا کہ شب قدر سے متعلق آپ نے اگر کچھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے تو اسے بیان کیجئے۔ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف کیا اور ہم بھی آپ کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھ گئے، لیکن جبریل علیہ السلام نے آکر بتایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں ( شب قدر ) وہ آگے ہے۔ چنانچہ آپ نے دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف کیا اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی۔ جبریل علیہ السلام دوبارہ آئے اور فرمایا کہ آپ جس کی تلاش میں ہیں وہ ( رات ) آگے ہے۔ پھر آپ نے بیسویں رمضان کی صبح کو خطبہ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ دوبارہ کرے۔ کیوں کہ شب قدر مجھے معلوم ہوگئی لیکن میں بھول گیا اور وہ آخری عشر ہ کی طاق راتوں میں ہے اور میں نے خود کو کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا۔ مسجد کی چھت کھجور کی ڈالیوں کی تھی۔ مطلع بالکل صاف تھا کہ اتنے میں ایک پتلا سا بادل کا ٹکڑا آیا اور برسنے لگا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا اثر دیکھا۔ آپ کا خواب سچا ہوگیا۔

 

❁ تشریح : کہ میں اس شب پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ آپ نے پیشانی اور ناک پر سجدہ کیا۔ حمیدی نے اس حدیث سے دلیل لی کہ پیشانی اور ناک میں اگر مٹی لگ جائے تو نماز میں نہ پونچھے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ سجدے میں ناک کو زمین پر رکھنا ضروری ہے کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین تر ہونے کے باوجود ناک زمین پر لگائی اور کیچڑ کی کچھ پرواہ نہ کی۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )


❁ عَقْدِ الثِّيَابِ وَشَدِّهَا، وَمَنْ ضَمَّ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ، إِذَا خَافَ أَنْ تَنْكَشِفَ عَوْرَتُهُ

❁ باب: نماز میں کپڑوں میں گرہ لگانا


❁ 814 حدثنا محمد بن كثير، قال أخبرنا سفيان، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال كان الناس يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم وهم عاقدو أزرهم من الصغر على رقابهم فقيل للنساء لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا‏.‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں سفیان نے ابو حازم سلمہ بن دینار کے واسطے سے خبر دی، انہوں نے سہل بن سعد سے، انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہمد چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں گردنوں سے باندھ کر نماز پڑھتے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ جب تک مرد اچھّی طرح بیٹھ نہ جائیں تم اپنے سروں کو ( سجدہ سے ) نہ اٹھاؤ۔

 

❁ تشریح : اسلام کا ابتدائی دور تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہر طرح تنگیوں کا شکار تھے۔ بعض لوگوں کے پاس تن پوشی کے لیے صرف ایک ہی تہ بند ہوتا تھا۔ بعض دفعہ وہ بھی ناکافی ہوتا اس لیے عورتوں کو جو جماعت میں شرکت کرتی تھیں یہ حکم دیا گیا۔ اس سے غرض یہ تھی کہ عورتوں کی نگاہ مردوں کے ستر پر نہ پڑے۔ ایسی تنگ حالت میں بھی عورتوں کا نماز با جماعت میں پردہ کے ساتھ شرکت کرنا زمانہ نبوی میں معمول تھا یہی مسئلہ آج بھی ہے اللہ نیک سمجھ دے اور عمل خیر کی ہر مسلمان کو توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


❁ بَابُ لاَ يَكُفُّ شَعَرًا

❁ باب: نمازی بالوں کو نہ سمیٹے


❁ 815 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهْوَ ابْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ أُمِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةِ أَعْظُمٍ وَلَا يَكُفَّ ثَوْبَهُ وَلَا شَعَرَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تھا کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور بال اور کپڑے نہ سمیٹیں۔

 

❁ تشریح : شارحین لکھتے ہیں ومناسبۃ ھذہ الترجمۃ لاحکام السجود من جھۃ ان الشعر یسجد مع الراس اذا لم یکف او یلف یعنی باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ جب بالوں کو لپیٹا نہ جاے تو وہ بھی سر کے ساتھ سجدہ کرتے ہیں جیسے دوسری روایت میں ہے سنن ابو داؤد میں مرفوعاً روایت ہے کہ بالوں کے جوڑے پر شیطان بیٹھ جاتا ہے سات اعضاءجن کا سجدہ میں زمین پر لگنا فرض ہے۔ ان کا تفصیلی بیان تیسرے پارے میں گزر چکا ہے


❁ بَابُ لاَ يَكُفُّ ثَوْبَهُ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں کپڑے نہ سمیٹے جائیں


❁ 816 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ عَمْرٍو عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَى سَبْعَةٍ لَا أَكُفُّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح نے، عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے طاؤس سے، انہوں نے حضرت ابن عباس سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں پر اس طرح سجدہ کا حکم ہوا ہے کہ نہ بال سمیٹوں اور نہ کپڑے۔

 

❁ تشریح : مطلب یہ ہے کہ نماز پورے انہماک اور استغراق کے ساتھ پڑھی جاے۔ سر کے بال اگر اتنے بڑے ہیں کہ سجدہ کے وقت زمین پر پڑجائیں یا نماز پڑھتے وقت کپڑے گرد آلود ہو جائیں تو کپڑے اور بالوں کو گرد وغبار سے بچانے کے لیے سمیٹنا نہ چاہیے کہ یہ نماز میں خشوع اور استغراق کے خلاف ہے۔ اور نماز کی اصل روح خشوع حضوع ہی ہے جیسا کہ قرآن شریف میں ہے “الذین ھم فی صلاتہم خاشعون” یعنی مومن وہ ہیں جو خشوع کے ساتھ دل لگا کر نماز پڑھتے ہیں دوسری آیت حافظوا علی الصلوٰت والصلٰوۃالوسطی وقوموا للہ قانتین” کا بھی یہی تقاضا ہے یعنی نمازوں کی حفاظت کرو خاص طور پر درمیان والی نمازکی اور اللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ یہاں بھی قنوت سے خشوع وخضوع ہی مراد ہے۔


❁ بَابُ التَّسْبِيحِ وَالدُّعَاءِ فِي السُّجُودِ

❁ باب: سجدہ میں تسبیح اور دعا کرنا


❁ 817 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ مُسْلِمٍ هُوَ ابْنُ صُبَيْحٍ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ فِي رُكُوعِهِ وَسُجُودِهِ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعیدقطان نے، سفیان ثوری سے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے منصور بن معتمر نے مسلم بن صبیح سے بیان کیا، انہوں نے مسروق سے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ اور رکوع میں اکثر یہ پڑھا کرتے تھے۔ سُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی ( اس دعا کو پڑھ کر ) آپ قرآن کے حکم پر عمل کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : سورۃ اِذَاجَآئَ نَصرُ اللّٰہِ میں ہے فَسَبِّح بِحَمدِرَبِّکَ وَاستَغفِرہُ ( اپنے رب کی پاکی بیان کر اور اس سے بخشش مانگ ) اس حکم کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں مذکورہ دعا پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ تو مجھ کو بخش دے۔ اس دعا میں تسبیح اور تحمید اور استغفار تینوں موجود ہیں اس لیے رکوع اور سجدہ میں اس کا پڑھنا افضل ہے علاوہ ازیں رکوع میں سُبحَانَ رَبیِّ العَظِیم اور سجدہ میں سُبحَانَ رَبیِّ الاَعلٰی مسنونہ دعائیں بھی آیات قرآنیہ ہی کی تعمیل ہیں جیسا کہ مختلف آیات میں حکم ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ سورہ اِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ رکوع وسجود میں اس دعا کو پڑھتے رہے یعنی سُبحَانَکَ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی علامہ امام شوکانی رحمہ اللہ اس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں بتوفیقک لی وھدایتک وفضلک علی سبحنک لا بحولی وقوتی یعنی یا اللہ میں محض تیری توفیق اور ہدایت اور فضل سے تیری پاکی بیان کرتا ہوں اپنی طرف سے اس کار عظیم کے لیے مجھ میں کوئی قوت نہیں ہے۔ بعض روایات میں رکوع وسجدہ میں یہ دعا پڑھنی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے سُبُّوح قُدُّوس رَبُّ المَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ ( احمد مسلم وغیرہ ) یعنی میرا رکوع یا سجدہ اس ذات واحد کے لیے ہے جو جملہ نقائص اور شرکاءسے پاک ہے وہ مقدس ہے وہ فرشتوں کا اور جبرئیل کا بھی پروردگار ہے۔ سورۃ اِذَاجَآئَ نَصرُ اللّٰہِ میں ہے فَسَبِّح بِحَمدِرَبِّکَ وَاستَغفِرہُ ( اپنے رب کی پاکی بیان کر اور اس سے بخشش مانگ ) اس حکم کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں مذکورہ دعا پڑھا کرتے تھے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یا اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اے اللہ تو مجھ کو بخش دے۔ اس دعا میں تسبیح اور تحمید اور استغفار تینوں موجود ہیں اس لیے رکوع اور سجدہ میں اس کا پڑھنا افضل ہے علاوہ ازیں رکوع میںسُبحَانَ رَبیِّ العَظِیم اور سجدہ میں سُبحَانَ رَبیِّ الاَعلٰی مسنونہ دعائیں بھی آیات قرآنیہ ہی کی تعمیل ہیں جیسا کہ مختلف آیات میں حکم ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ سورہ اِذَا جَآئَ نَصرُ اللّٰہِ کے نزول کے بعد آپ ہمیشہ رکوع وسجود میں اس دعا کو پڑھتے رہے یعنی سُبحَانَکَ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمدِکَ اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی علامہ امام شوکانی رحمہ اللہ اس کا مطلب یوں بیان فرماتے ہیں بتوفیقک لی وھدایتک وفضلک علی سبحنک لا بحولی وقوتی یعنی یا اللہ میں محض تیری توفیق اور ہدایت اور فضل سے تیری پاکی بیان کرتا ہوں اپنی طرف سے اس کار عظیم کے لیے مجھ میں کوئی قوت نہیں ہے۔ بعض روایات میں رکوع وسجدہ میں یہ دعا پڑھنی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے سُبُّوح قُدُّوس رَبُّ المَلَائِکَۃِ وَالرُّوحِ ( احمد مسلم وغیرہ ) یعنی میرا رکوع یا سجدہ اس ذات واحد کے لیے ہے جو جملہ نقائص اور شرکاءسے پاک ہے وہ مقدس ہے وہ فرشتوں کا اور جبرئیل کا بھی پروردگار ہے۔


❁ بَابُ المُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

❁ باب: دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا


❁ 818 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ الحُوَيْرِثِ، قَالَ لِأَصْحَابِهِ: أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: وَذَاكَ فِي غَيْرِ حِينِ صَلاَةٍ، فَقَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَكَبَّرَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَامَ هُنَيَّةً، ثُمَّ سَجَدَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ هُنَيَّةً، فَصَلَّى صَلاَةَ عَمْرِو بْنِ سَلِمَةَ شَيْخِنَا هَذَا، قَالَ أَيُّوبُ: كَانَ يَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ أَرَهُمْ يَفْعَلُونَهُ كَانَ يَقْعُدُ فِي الثَّالِثَةِ وَالرَّابِعَةِ

 

❁ ترجمہ : م سے ابو النعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی سے بیان کیا، انہوں نے ابو قلابہ عبد اللہ بن زید سے، کہ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ میں تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کیوں نہ سکھا دوں۔ ابو قلابہ نے کہا یہ نمازکا وقت نہیں تھا ( مگر ہمیں سکھانے کے لیے ) کھڑے ہوئے۔ پھر رکوع کیا اور تکبیر کہی پھر سر اٹھایا اور تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر سجدہ کیا اور تھوڑی دیر کے لیے سجدہ سے سر اٹھایا اور پھر سجدہ کیا اور سجدہ سے تھوڑی دیر کے لیے سر اٹھایا۔ انہوں نے ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح نماز پڑھی ایوب سختیانی نے کہا کہ وہ عمرو بن سلمہ نماز میں ایک ایسی چیز کیا کرتے تھے کہ دوسرے لوگوں کو اس طرح کرتے میں نے نہیں دیکھا۔ آپ تیسری یا چوتھی رکعت پر ( سجدہ سے فارغ ہوکر کھڑے ہونے سے پہلے ) بیٹھتے تھے۔ ( یعنی جلسہ استراحت کرتے تھے پھر نماز سکھلانے کے بعد )


❁ بَابُ المُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
❁ باب: دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا

819 – قَالَ: فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقَمْنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: «لَوْ رَجَعْتُمْ إِلَى أَهْلِيكُمْ صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا، فِي حِينِ كَذَا صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا، فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ، فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْبَرُكُمْ»

 

❁ ترجمہ : مالک بن حویرث نے بیان کیا کہ ) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے یہاں ٹھہرے رہے آپ نے فرمایا کہ ( بہتر ہے ) تم اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں بڑا ہو وہ نماز پڑھائے

 

❁ تشریح : مراد جلسہ استراحت ہے جو پہلی اور تیسری رکعت کے خاتمہ پر سجدہ سے اٹھتے ہوئے تھوڑی دیر بیٹھ لینے کو کہتے ہیں۔ بعض نسخوں میں یہ عبارت ثم سجدثم رفع راسہ ھنیۃ ایک ہی بار ہے چنانچہ نسخہ قسطلانی میں بھی یہ عبارت ایک ہی بار ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے اگر دوبارہ ہو پھر بھی مطلب یہی ہوگا کہ دوسرا سجدہ کرکے ذرا بیٹھ گئے جلسہ استراحت کیا پھر کھڑے ہوئے یہ جلسہ استراحت مستحب ہے اور حدیث ہذا سے ثابت ہے شارحین لکھتے ہیں بذلک اخذ الامام الشافعی وطائفۃ من اھل الحدیث وذھبوا الی سنیۃ جلسۃ الاستراحۃ یعنی اس حدیث کی بنا پر امام شافعی اور جماعت اہل حدیث نے جلسہ استراحت کو سنت تسلیم کیا ہے۔ کچھ ائمہ اس کے قائل نہیں ہیں بعض صحابہ سے بھی اس کا ترک منقول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جلسہ فرض وواجب نہیں ہے مگر اس کے سنت اور مستحب ہونے سے انکار بھی صحیح نہیں


❁ بَابُ المُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ
❁ باب: دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا

❁ 820  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ [ص:164] مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الزُّبَيْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ البَرَاءِ، قَالَ: «كَانَ سُجُودُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرُكُوعُهُ وَقُعُودُهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عبد الرحیم صاعقہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو احمد محمد بن عبد اللہ زبیری نے کہا کہ ہم سے مسعر بن کدام نے حکم عتیبہ کوفی سے انہوں نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سجدہ، رکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مقدار تقریباً برابر ہوتی تھی۔
تشریح : قسطلانی نے کہا یہ جماعت کی نماز کا ذکر ہے اکیلے آدمی کو اختیار ہے کہ وہ اعتدال اور قومہ سے رکوع اور سجدہ دو گنا کرے حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے ظاہر ہے۔


❁ بَابُ المُكْثِ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ

❁ باب: دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا


❁ 821  حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنِّي لاَ آلُو أَنْ أُصَلِّيَ بِكُمْ، كَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِنَا – قَالَ ثَابِتٌ: كَانَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَصْنَعُ شَيْئًا لَمْ أَرَكُمْ تَصْنَعُونَهُ – كَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ قَامَ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ، وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ حَتَّى يَقُولَ القَائِلُ: قَدْ نَسِيَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے ثابت سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تھا بالکل اسی طرح تم لوگوں کو نماز پڑھانے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں چھوڑتا ہوں۔ ثابت نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک ایسا عمل کرتے تھے جسے میں تمہیں کرتے نہیں دیکھتا۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھاتے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں اور اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر تک بیٹھتے رہتے کہ دیکھنے والا سمجھتا کہ بھول گئے ہیں۔

 

❁ تشریح : حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسی پر عمل کیا ہے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں باربار رَبِّ اغفِرلِی کہنا مستحب جانا ہے جیسے حذیفہ کی حدیث میں وارد ہے حافظ رحمہ اللہ نے کہا اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے ثابت نے یہ گفتگو کی وہ دونوں سجدوں کے درمیان نہ بیٹھتے ہوں گے لیکن حدیث پر چلنے والا جب حدیث صحیح ہو جائے تو کسی کی مخالفت کی پرواہ نہیں کرتا۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقدترک الناس ھذہ السنۃ الثابتۃ بالاحادیث الصحیحۃمحدثھم وفقیھھم ومجتھدھم ومقلدھم فلیت شعری ما الذی عواوا علیہ ذالک واللہ المستعان یعنی صد افسوس کہ لوگوں نے اس سنت کو جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہے چھوڑ رکھا ہے حتیٰ کہ ان کے محدث اور فقیہ اور مجتہد اور مقلد سب ہی اس سنت کے تارک نظر آتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ اس کے لیے ان لوگوں نے کون سا بہانہ تلاش کیا ہے اور اللہ ہی مددگار ہے۔ دونوں سجدوں کے درمیان یہ دعا بھی مسنون ہے اَللّٰھُمَّ اغفِرلِی وَارحَمنِی وَاجبرنِی وَاھدِنِی وَارزُقنِی۔


❁ بَابُ لاَ يَفْتَرِشُ ذِرَاعَيْهِ فِي السُّجُودِ

❁ باب: اس بارے میں کہ نمازی سجدہ میں اپنے دونوں بازوؤں کو ( جانور کی طرح ) زمین پر نہ بچھائے


❁ 822 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ أَحَدُكُمْ ذِرَاعَيْهِ انْبِسَاطَ الكَلْبِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفرنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو۔

 

❁ تشریح : کیونکہ اس طرح بازو بچھا دینا سستی اور کاہلی کی نشانی ہے۔ کتے کے ساتھ تشبیہ اوربھی مذمت ہے۔ اس کا پورا لحاظ رکھنا چاہیے۔ امام قسطلانی نے کہا کہ اگرکوئی ایسا کرے تو نماز مکروہ تنزیہی ہوگی۔


❁ اسْتَوَى قَاعِدًا فِي وِتْرٍ مِنْ صَلاَتِهِ ثُمَّ

❁ باب: نماز کی طاق رکعت میں تھوڑی دیر بیٹھے


❁ 823 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ الحُوَيْرِثِ اللَّيْثِيُّ، أَنَّهُ «رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، فَإِذَا كَانَ فِي وِتْرٍ مِنْ صَلاَتِهِ لَمْ يَنْهَضْ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشیم نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، ابوقلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے مالک بن حویرث لیثی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب طاق رکعت میں ہوتے تواس وقت تک نہ اٹھتے جب تک تھوڑی دیر بیٹھ نہ لیتے۔

 

❁ تشریح : طاق رکعتوں کے بعد یعنی پہلی اور تیسری رکعت کے دوسرے سجدے سے جب اٹھے تو تھوڑی دیر بیٹھ کر پھر اٹھنا، اس کو جلسہ استراحت کہتے ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہے۔


❁ بَابٌ: كَيْفَ يَعْتَمِدُ عَلَى الأَرْضِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَةِ؟

❁ باب: رکعت سے اٹھتے وقت زمین کا سہارا لینا


❁ 824 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، قَالَ: جَاءَنَا مَالِكُ بْنُ الحُوَيْرِثِ، فَصَلَّى بِنَا فِي مَسْجِدِنَا هَذَا، فَقَالَ: إِنِّي لَأُصَلِّي بِكُمْ وَمَا أُرِيدُ الصَّلاَةَ، وَلَكِنْ أُرِيدُ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، قَالَ أَيُّوبُ: فَقُلْتُ لِأَبِي قِلاَبَةَ: وَكَيْفَ كَانَتْ صَلاَتُهُ؟ قَالَ: مِثْلَ صَلاَةِ شَيْخِنَا هَذَا – يَعْنِي عَمْرَو بْنَ سَلِمَةَ – قَالَ أَيُّوبُ: وَكَانَ ذَلِكَ الشَّيْخُ «يُتِمُّ التَّكْبِيرَ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ عَنِ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ جَلَسَ وَاعْتَمَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ قَامَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے ابو قلابہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ ہمارے یہاں تشریف لائے اور آپ نے ہماری اس مسجد میں نماز پڑھائی۔ آپ نے فرمایا کہ میں نماز پڑھارہا ہوںلیکن میری نیت کسی فرض کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ میں صرف تم کو یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ نبی کریم کس طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔ ایوب سختیانی نے بیان کیا کہ میں ابو قلابہ سے پوچھا کہ مالک رضی اللہ عنہ کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ کی طرح۔ ایوب نے بیان کیا کہ شیخ تمام تکبیرات کہتے تھے اور جب دوسرے سجدہ سے سر اٹھاتے تو تھوڑی دیر بیٹھتے اور زمین کا سہارا لے کر پھر اٹھتے۔

 

❁ تشریح : یعنی جلسہ استراحت کرکے پھر دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک کر اٹھتے جیسے بوڑھا شخص دونوں ہاتھوں پر آٹاگوندھنے میں ٹیکا دیتا ہے حنفیہ نے جو اس کے خلاف ترمذی کی حدیث سے دلیل لی کہ آں حضرت اپنے پاؤں کی انگلیوں پر کھڑے ہوتے تھے تو یہ حدیث ضعیف ہے علاوہ اس کے اس سے یہ نکلتا ہے کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسہ استراحت کیا اور کبھی نہیں کیا اہل حدیث کا یہی مذہب ہے وہ جلسہ استراحت کو مستحب کہتے ہیں اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضعف یا علالت کی وجہ سے ایساکیا اور یہ کہنا کہ نماز کا موضوع استراحت نہیں ہے قیاس ہے بمقابلہ نص اور وہ فاسد ہے۔ ( مولانا وحید الزماں )


❁ بَابُ يُكَبِّرُ وَهُوَ يَنْهَضُ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ
❁ باب: جب دو رکعت پڑھ کر اٹھے تو تکبیر کہے

❁ 825 – حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: صَلَّى لَنَا أَبُو سَعِيدٍ «فَجَهَرَ بِالتَّكْبِيرِ حِينَ رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السُّجُودِ، وَحِينَ سَجَدَ وَحِينَ رَفَعَ وَحِينَ قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ» وَقَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلج بن سلیمان نے، انہوں نے سعید بن حارث سے، انہوں نے کہا کہ ہمیںابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور جب انہوں نے سجدہ سے سر اٹھایا تو پکار کر تکبیر کہی پھر جب سجدہ کیا تو ایسا ہی کیا پھر سجدہ سے سر اٹھایا تو بھی ایسا ہی کیا اسی طرح جب دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوئے اس وقت بھی آپ نے بلند آواز سے تکبیر کہی اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا۔


❁ بَابُ يُكَبِّرُ وَهُوَ يَنْهَضُ مِنَ السَّجْدَتَيْنِ
❁ باب: جب دو رکعت پڑھ کر اٹھے تو تکبیر کہے

❁ 826 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ [ص:165]: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غَيْلاَنُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ مُطَرِّفٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ، صَلاَةً خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، «فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ وَإِذَا رَفَعَ كَبَّرَ، وَإِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ»، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي، فَقَالَ: لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – أَوْ قَالَ: لَقَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلاَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے مطرف بن عبداللہ سے، انہوں نے کہا کہ میں نے اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ آپ نے جب سجدہ کیا، سجدہ سے سر اٹھایا دورکعتوں کے بعد کھڑے ہوئے تو ہر مرتبہ تکبیر کہی۔ جب آپ نے سلام پھیردیا تو عمران بن حصین نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ انہوں نے واقعی ہمیں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز پڑھائی ہے یا یہ کہا کہ مجھے انہوں نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد دلا دی۔

 

❁ تشریح : بعض ائمہ بنی امیہ نے بآواز بلند اس طرح تکبیر کہنا چھوڑدیا تھا جو اسوہ نبوی کے خلاف تھا اس واقعہ سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ دور سلف میں مسلمانوں کو اسوہ رسول کی اطاعت کا بے حد اشتیاق رہتا تھا خاص طور پر نمازکے بارے میں ان کی کوشش ہوتی کہ وہ عین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نماز ادا کر سکیں۔ اس دور آخر میں صرف اپنے اپنے فرضی اماموں کی تقلید کا جذبہ باقی رہ گیا ہے حالانکہ ایک مسلمان کا اولین مقصد سنت نبوی کی تلاش ہونا چا ہیے۔ ہمارے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صاف فرمادیا ہے کہ ہر وقت صحیح حدیث کی تلاش میں رہو اگر میرا کوئی مسئلہ حدیث کے خلاف نظر آئے تو اسے چھوڑ دو اورصحیح حدیث نبوی پر عمل کرو۔ حضرت امام کی اس پاکیزہ وصیت پر عمل کرنے والے آج کتنے ہیں؟ یہ ہر سمجھ دار مسلمان کے غور کرنے کی چیز ہے یونہی لکیر کے فقیر ہو کر رسمی نمازیں ادا کرتے رہنا اور سنت نبوی کو تلاش نہ کرنا کسی بابصیرت مسلمان کا کام نہیں وقفنا اللہ لما یحب ویرضی۔


❁ بَابُ الجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ سُنَّةِ
❁ باب: تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ

❁ 827 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ كَانَ يَرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَتَرَبَّعُ فِي الصَّلَاةِ إِذَا جَلَسَ فَفَعَلْتُهُ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ فَنَهَانِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَقَالَ إِنَّمَا سُنَّةُ الصَّلَاةِ أَنْ تَنْصِبَ رِجْلَكَ الْيُمْنَى وَتَثْنِيَ الْيُسْرَى فَقُلْتُ إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَالَ إِنَّ رِجْلَيَّ لَا تَحْمِلَانِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انہوں نے عبد الرحمن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عبد اللہ سے انہوں نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو وہ ہمیشہ دیکھتے کہ آپ نماز میں چار زانو بیٹھتے ہیں میں ابھی نو عمر تھا میں نے بھی اسی طرح کرنا شروع کر دیا لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ ( تشہد میں ) دایاں پاؤں کھڑا رکھے اور بایاں پھیلادے میں نے کہا کہ آپ تو اسی ( میری ) طرح کرتے ہیں آپ بولے کہ ( کمزوری کی وجہ سے ) میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پاتے۔

 

❁ تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آخرمیں کمزوری کی وجہ سے تشہد میں چار زانو بیٹھتے تھے یہ محض عذر کی وجہ سے تھا ورنہ مسنون طریقہ یہی ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا رہے اور بائیں کو پھیلا کر اس پر بیٹھا جائے اسے تورک کہتے ہیں عورتوں کے لیے بھی یہی مسنون ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ الجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ سُنَّةِ
❁ باب: تشہد میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ

❁ 828 حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن خالد، عن سعيد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء،‏.‏ وحدثنا الليث، عن يزيد بن أبي حبيب، ويزيد بن محمد، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن محمد بن عمرو بن عطاء، أنه كان جالسا مع نفر من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فذكرنا صلاة النبي صلى الله عليه وسلم فقال أبو حميد الساعدي أنا كنت أحفظكم لصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم رأيته إذا كبر جعل يديه حذاء منكبيه، وإذا ركع أمكن يديه من ركبتيه، ثم هصر ظهره، فإذا رفع رأسه استوى حتى يعود كل فقار مكانه، فإذا سجد وضع يديه غير مفترش ولا قابضهما، واستقبل بأطراف أصابع رجليه القبلة، فإذا جلس في الركعتين جلس على رجله اليسرى ونصب اليمنى، وإذا جلس في الركعة الآخرة قدم رجله اليسرى ونصب الأخرى وقعد على مقعدته‏.‏ وسمع الليث يزيد بن أبي حبيب ويزيد من محمد بن حلحلة وابن حلحلة من ابن عطاء‏.‏ قال أبو صالح عن الليث كل فقار‏.‏ وقال ابن المبارك عن يحيى بن أيوب قال حدثني يزيد بن أبي حبيب أن محمد بن عمرو حدثه كل فقار‏.‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے خالد سے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، اور ان سے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمدنے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن حلحلہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عمرو بن عطاء نے بیان کیاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا ذکر ہونے لگا تو ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سب سے زیادہ یاد ہے میں نے آپ کو دیکھا کہ جب آپ تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک لے جاتے، جب آپ رکوع کرتے تو گھٹنوں کو اپنے ہاتھوں سے پوری طرح پکڑ لیتے اور پیٹھ کو جھکادیتے۔ پھر جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح سیدھے کھڑے ہو جاتے کہ تمام جوڑ سیدھے ہو جاتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ اپنے ہاتھوں کو ( زمین پر ) اس طرح رکھتے کہ نہ بالکل پھیلے ہوئے ہوتے اور نہ سمٹے ہوئے۔ پاؤں کی انگلیوں کے منہ قبلہ کی طرف رکھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور جب آخری رکعت میں بیٹھتے بائیں پاؤں کو آگے کر لیتے اور دائیں کو کھڑا کر دیتے پھر مقعد پر بیٹھتے۔ لیث نے یزید بن ابی حبیب سے اور یزید بن محمد بن حلحلہ سے سنا اور محمد بن حلحلہ نے ابن عطاء سے، اور ابوصالح نے لیث سے کُلُّ قَفَارٍ مَکَانَہ نقل کیاہے اور ابن المبارک نے یحییٰ بن ایوب سے بیان کیا انھوں نے کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا کہ محمد بن عمرو بن حلحلہ نے ان سے حدیث میں کُلُّ فَقَار بیان کیا

 

❁ تشریح : صحیح ابن خزیمہ میں دس بیٹھنے والے اصحاب کرام رضی اللہ عنہ میں سہل بن سعد اور ابوحمید ساعدی اور محمد بن مسلمہ اور ابو ہریرہ اور ابو قتادہ رضی اللہ عنہم کے نام بتلائے گئے ہیں باقی کے نام معلوم نہیں ہو سکے یہ حدیث مختلف سندوں کے ساتھ کہیں مجمل اور کہیں مفصل مروی ہے اس میں دوسرے قعدے میں تو اس کا ذکر ہے یعنی سرین پر بیٹھنا دائیں پاؤں کو کھڑا کرنا اور بائیں کو آگے کر کے تلے سے دائیں طرف باہر نکالنا اور دونوں سرین زمین سے ملا کر بائیں ران پر بیٹھنا یہ تورک چار رکعت والی نماز میں اور نماز فجر کی آخری رکعت میں کرنا چاہیے۔ امام شافعی امام احمدبن حنبل کا یہی مسلک ہے آخر حدیث میں حضرت عبداللہ بن مبارک کی جو روایت ہے اسے فریابی اور جوزنی اور ابراہیم حربی نے وصل کیا ہے سنن نماز کے سلسلہ میں یہ حدیث ایک اصولی تفصیلی بیان کی حیثیت رکھتی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ التَّشَهُّدَ الأَوَّلَ وَاجِبًا لِأَنَّ النَّبِيَّ ﷺ: «قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ وَلَمْ يَرْجِعْ»
❁ باب: اس شخص کی دلیل جو پہلے تشہد کو ( چار رکعت یا تین رکعت نماز میں ) واجب نہیں جانتا ( یعنی فرض ) کیونکہ آنحضرت ﷺ دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں۔

❁ 829 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ هُرْمُزَ مَوْلَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَقَالَ مَرَّةً مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ بُحَيْنَةَ وَهُوَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي عَبْدِ مَنَافٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ الظَّهْرَ فَقَامَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ لَمْ يَجْلِسْ فَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ حَتَّى إِذَا قَضَى الصَّلَاةَ وَانْتَظَرَ النَّاسُ تَسْلِيمَهُ كَبَّرَ وَهُوَ جَالِسٌ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُسَلِّمَ ثُمَّ سَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : م سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ شعیب نے ہمیں خبر دی، انہوں نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن ہرمز نے بیان کیا جو مولی بن عبد المطلب ( یا مولی ربیعہ بن حارث ) تھے، کہ عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ جو صحابی رسول اور بن ی عبد مناف کے حلیف قبیلہ ازدشنوء ہ سے تعلق رکھتے تھے، نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ظہر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتوںپر بیٹھنے کے بجائے کھڑے ہوگئے، چنانچہ سارے لوگ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہو گئے، جب نماز ختم ہونے والی تھی اور لوگ آپ کے سلام پھیرنے کا انتظار کر رہے تھے تو آپ نے اللہ اکبر کہا اور سلام پھیرنے سے پہلے دوسجدے کئے، پھر سلام پھیرا۔

 

❁ تشریح : علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر یوںباب منعقد فرمایا ہے باب الامر بالتشھد الاول وسقوطہ بالسھو یعنی تشہد اول کے لیے حکم ہے اور وہ بھول سے رہ جائے تو سجدہ سہو سے ساقط ہو جاتا ہے۔ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ میں جو لفظ“فقولا التحیات”وارد ہوئے ہیں اس پر علامہ فرماتے ہیں فیہ دلیل لمن قال بوجوب التشھد الاوسط وھو احمد فی المشھود عینہ واللیث واسحاق وھو قول الشافعی والیہ ذھب داود ابو ثور ورواہ النووی عن جمھور المحدثین یعنی اس میں ان حضرات کی دلیل ہے جو درمیانی تشہد کو واجب کہتے ہیں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے اور دیگر ائمہ مذکورین سے بھی بلکہ امام نووی رحمہ اللہ نے اسے جمہور محدثین کرام رحمہ اللہ سے نقل فرمایاہے۔ حدیث مذکور سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت فرمایا ہے کہ تشہد اول اگر فرض ہوتا تو آپ اسے ضرور لوٹاتے مگریہ ایسا ہے کہ اگر رہ جائے تو سجدہ سہو سے اس کی تلافی ہو جاتی ہے۔ روایت میں عبداللہ بن بحینہ کے حلیف ہونے کا ذکر ہے عہد جاہلیت میں اگر کوئی شخص یا قبیلہ کسی دوسرے سے یہ عہد کر لیتا کہ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا، تمہارے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن تو اسے اس قوم کا حلیف کہا جاتا تھا صحابی مذکوربنی عبد مناف کے حلیف تھے۔


❁ بَابُ التَّشَهُّدِ فِي الأُولَى
 ❁ باب: جو تشہد اول کو واجب نہ جانے

❁ 830 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا بَكْرٌ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ فَقَامَ وَعَلَيْهِ جُلُوسٌ فَلَمَّا كَانَ فِي آخِرِ صَلَاتِهِ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ

 

❁ ترجمہ : قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بکر بن مضر نے جعفر بن ربیعہ سے بیان کیا، انہوں نے اعرج سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن مالک بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے، کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر پڑھائی۔ آپ کو چاہیے تھا بیٹھنا لیکن آپ ( بھول کر ) کھڑے ہو گئے پھر نماز کے آخر میں بیٹھے ہی بیٹھے دو سجدے کئے۔

 

❁ تشریح : یعنی تشہد نہیں پڑھا۔ حدیث میں علیہ الجلوس کے لفظ بتلاتے ہیں کہ آپ کو بیٹھنا چاہیے تھا مگرآپ بھول گئے جلوس سے تشہد مراد ہے۔ ترجمہ سے باب کی مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ التَّشَهُّدِ فِي الآخِرَةِ
❁ باب: آخری قعدہ میں تشہد پڑھنا

❁ 831 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ فَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلْ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمُوهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے شقیق بن سلمہ سے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تو کہتے ( ترجمہ ) سلام ہو جبریل اور میکائیل پر سلام ہو فلاں اور فلاں پر ( اللہ پر سلام ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اللہ تو خود “ سلام ” ہے۔ ( تم اللہ کو کیا سلام کرتے ہو ) اس لیے جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو یہ کہے ( ترجمہ ) تمام آداب بن دگی، تمام عبادات اور تمام بہترین تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ آپ پر سلام ہو اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہم پر سلام اور اللہ کے تمام صالح بن دوں پر سلام۔ جب تم یہ کہو گے تو تمہارا سلام آسمان وزمین میں جہاں کوئی اللہ کا نیک بن دہ ہے اس کو پہنچ جائے گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بن دے اور رسول ہیں۔

 

❁ تشریح : یہ قعدہ کی دعا ہے جسے تشہد کہتے ہیں۔ بندہ پہلے کہتا ہے کہ تحیات۔ صلوات اور طیبات اللہ تعالی کے لیے ہیں۔ یہ تین الفاظ قول وفعل کے تمام محاسن کو شامل ہیں یعنی تمام خیر اور بھلائی خدا وند قدوس کے لیے ثابت ہے اور اسی کی طرف سے ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا گیا اور اس میں خطاب کی ضمیر اختیار کی گئی ہے کیوں کہ صحابہ کو یہ دعا سکھائی گئی تھی اور آپ اس وقت موجود تھے۔ اب جن الفاظ کے ساتھ ہمیں یہ دعا پہنچی ہے اسی طرح پڑھنی چاہیے۔ ( تفہیم البخاری ) سلام در حقیقت دعا ہے یعنی تم سلامت رہو اللہ پاک کو ایسی دعا دینے کی حاجت نہیں کیونکہ وہ ہرایک آفت اورتغیر سے پاک ہے وہ ازلی ابدی ہے اس میں کوئی عیب اور نقص نہیں وہ ساری کائنات کو خود سلامتی بخشنے والا اور سب کی پرورش کرنے والا ہے اسی لیے اس کا نام سلام ہوااسی دعا میں لفظ التحیات اور صلوات اور طیبات وارد ہوتے ہیں تحیات کے معنی سلامتی بقا عظمت ہر نقص سے پاکی ہر قسم کی تعظیم مرادہے یہ عبادات قولی پر صلوات عبادات فعلی پر اورطیبات عبادات مالی پربولاگیا ہے۔ ( فتح الباری ) پس یہ تینوںقسم کی عبادات ایک اللہ ہی کے لیے مخصوص ہیں جو لوگ ان عبادات میں کسی غیر اللہ کو شریک کرتے ہیں وہ فرشتے ہوں یا انسان یا اور کچھ، وہ خالق کا حق چھین کر جو مخلوق کو دیتے ہیں۔ یہی وہ ظلم عظیم ہے جسے قرآن مجید میں شرک کہا گیا ہے۔ جس کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے “وَمَن یُشرِک بِاللّٰہِ فَقَد حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیہِ الجَنَّۃَ وَمَاوَاہُ النَّارُ”یعنی شرک کرنے والوں پر جنت حرام ہے اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے عبادات قولی میں زبان سے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے اس کا نام لینا، عبادات فعلی میں رکوع سجدہ قیام، عبادات مالی میں ہر قسم کا صدقہ خیرات نیاز نذر وغیرہ وغیرہ مراد ہے۔


 ❁ بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ

باب: سلام پھیرنے سے پہلے کی دعاؤں کا بیان ❁ 


❁ 832 – حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلاَةِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ المَحْيَا، وَفِتْنَةِ المَمَاتِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ المَأْثَمِ وَالمَغْرَمِ فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ مِنَ المَغْرَمِ، فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ، حَدَّثَ فَكَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا پڑھتے تھے ( ترجمہ ) اے اللہ قبر کے عذاب سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں۔ زندگی کے اور موت کے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ دجال کے فتنہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں گناہوںسے اور قرض سے۔ کسی ( یعنی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ) نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرض سے بہت ہی زیادہ پناہ مانگتے ہیں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مقروض ہو جائے تو وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلاف ہو جاتا ہے۔


 ❁ بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ
❁ باب: سلام پھیرنے سے پہلے کی دعاؤں کا بیان

❁ 833 – وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ: أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَعِيذُ فِي صَلاَتِهِ مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ

 

 ❁ ترجمہ : اور اسی سند کے ساتھ زہری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگتے سنا۔

 

❁ تشریح : وَاِذَا وَعَدَ اَخلَفَ کے بعد بعض نسخوں میں یہ عبارت زائد ہے وقال محمد بن یوسف سمعت خلف بن عامر یقول فی المسیح والمسیح لیس بینھما فرق وھما واحد احدھما عیسیٰ علیہ السلام والاخر الدجال یعنی محمد بن یوسف نے کہا میں نے خلف بن عامر سے سنا مسیح اور مسیح میں کچھ فرق نہیں دونوں ایک ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مسیح کہہ سکتے ہیں اور دجال کوبھی۔


بَابُ الدُّعَاءِ قَبْلَ السَّلاَمِ ❁
باب: سلام پھیرنے سے پہلے کی دعاؤں کا بیان ❁ 

❁ 834 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي قَالَ قُلْ اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن ابی حبیب سے بیان کیا، ان سے ابو الخیر مرثد بن عبداللہ نے ان سے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے، ان سے ابو بکر صدیق  رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو ( ترجمہ ) اے اللہ!میں نے اپنی جان پر ( گناہ کر کے ) بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھر پور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بے شک وشبہ تو ہی ہے۔


❁ بَابُ مَا يُتَخَيَّرُ مِنَ الدُّعَاءِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ وَلَيْسَ بِوَاجِبٍ
❁ باب: تشہد کے بعد کی دعاؤں کا بیان

❁ 835 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ الْأَعْمَشِ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنَّا إِذَا كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ قُلْنَا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُولُوا السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ وَلَكِنْ قُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ فِي السَّمَاءِ أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنْ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ فَيَدْعُو

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے اعمش سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شقیق نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ ( پہلے ) جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم ( قعدہ میں ) یہ کہا کرتے تھے کہ اس کے بن دوں کی طرف سے اللہ پرسلام ہو اور فلاں پر اور فلاں پر سلام ہو۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ “ اللہ پر سلام ہو ” کیوں کہ اللہ تو خود سلام ہے۔ بلکہ یہ کہو ( ترجمہ ) آداب بن دگان اور تمام عبادات اور تمام پاکیزہ خیراتیں اللہ ہی کے لیے ہیں آپ پر اے نبی سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ہم پر اور اللہ کے صالح بن دوں پر سلام ہو اور جب تم یہ کہو گے تو آسمان پر خدا کے تمام بن دوں کو پہنچے گا آپ نے فرمایا کہ آسمان اور زمین کے درمیان تمام بن دوں کو پہنچے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمداس کے بن دے اور رسول ہیں۔ اس کے بعد دعا کا اختیار ہے جو اسے پسند ہو کرے۔

 

❁ تشریح : یہ لفظ عام ہے دین اور دنیا کے متعلق ہر ایک قسم کی دعا مانگ سکتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ حنفیہ نے یہ کیسے کہا ہے کہ فلاں قسم کی دعا نماز میں مانگ سکتا ہے فلاں قسم کی نہیں مانگ سکتا۔ نماز میں بندے کو اپنے مالک کی بارگاہ میں بار یابی کا شرف حاصل ہوتا ہے پھر اپنی اپنی لیاقت اور حوصلے کے موافق ہر بندہ اپنے مالک سے معروضہ کرتا ہے اور مالک اپنے کرم اور رحم سے عنایت فر ماتا ہے اگر صرف دین کے متعلق ہی دعائیں مانگنا نماز میں جائز ہوں اور دعائیں جائز نہ ہوں تو دوسرے مطلب کس سے مانگے صحیح حدیث میں ہے کہ اللہ سے اپنی سب حاجتیں مانگو یہاں تک کہ جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے یا ہانڈی میں نمک نہ ہو تو بھی اللہ سے کہو۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) مترجم کا کہناہے کہ ادعیہ ماثورہ ہمارے بیشتر مقاصد ومطالب پر مشتمل موجود ہیں ان کا پڑھنا موجب صد برکت ہوگا حدیث نمبر8337,832و 834 میں جامع دعائیں اور آخر میں سب مقاصد پر مشتمل پاکیزہ یہ دعا کافی ہے ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار۔


بَابُ مَنْ لَمْ يَمْسَحْ جَبْهَتَهُ وَأَنْفَهُ حَتَّى صَلَّى قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: رَأَيْتُ الحُمَيْدِيَّ: يَحْتَجُّ بِهَذَا الحَدِيثِ «أَنْ لاَ يَمْسَحَ الجَبْهَةَ فِي الصَّلاَةِ» ❁ 
باب: اگر نماز میں پیشانی یا ناک کو مٹی لگ جائے ❁ 

❁ 836 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَقَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا ان سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے انہوں نے کہا کہ میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تو آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیچڑ میں سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ مٹی کا اثر آپ کی پیشانی پر صاف ظاہر تھا۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیشانی مبارک سے پانی اور کیچڑ کے نشانات کو صاف نہیں فرمایاتھا۔ امام حمیدی کے استدلال کی بنیاد یہی ہے۔


بَابُ التَّسْلِيمِ ❁ 

باب: سلام پھیرنے کا بیان ❁ 


❁ 837حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ قَامَ النِّسَاءُ حِينَ يَقْضِي تَسْلِيمَهُ وَمَكَثَ يَسِيرًا قَبْلَ أَنْ يَقُومَ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ مُكْثَهُ لِكَيْ يَنْفُذَ النِّسَاءُ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُنَّ مَنْ انْصَرَفَ مِنْ الْقَوْمِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب زہری نے ہند بن ت حارث سے حدیث بیان کی کہ ( ام المؤمنین حضرت ) ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ( نماز سے ) سلام پھیرتے تو سلام کے ختم ہوتے ہیں عورتیں کھڑی ہو جاتیں ( باہر آنے کے لیے ) اور آپ کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے تھے۔ ابن شہاب ؒ نے کہا میں سمجھتا ہوں اور پورا علم تو اللہ ہی کوہے آپ اس لیے ٹھہر جاتے تھے کہ عورتیںجلدی چلی جائیں اور مرد نماز سے فارغ ہو کر ان کو نہ پائیں۔

 


تشریح : سلام پھیرنا امام احمد اور شافعی اور مالک اور جمہورعلماءاور اہل حدیث کے نزدیک فرض اور نماز کا ایک رکن ہے لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ لفظ سلام کو فرض نہیں جانتے بلکہ نماز کے خلاف کوئی کام کرکے نماز سے نکلنا فرض جانتے ہیں اور ہماری دلیل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سلام پھیرا اور فرمایا کہ نماز سے نکلنا سلام پھیرنا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )


بَابُ يُسَلِّمُ حِينَ يُسَلِّمُ الإِمَامُ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ ؓ: «يَسْتَحِبُّ إِذَا سَلَّمَ الإِمَامُ أَنْ يُسَلِّمَ مَنْ خَلْفَهُ» ❁

باب: امام کے بعد مقتدی کا سلام پھیرنا ❁


 ❁ 838 حَدَّثَنَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ قَالَ صَلَّيْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیںمعمر بن راشد نے زہری سے خبر دی، انہیں محمود بن ربیع انصاری نے انہیں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے آپ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی سلام پھیرا۔

 

❁ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب سے یہ ہے کہ مقتدیوں کو سلام پھیرنے میں دیر نہ کرنی چاہیے بلکہ امام کے ساتھ ہی وہ بھی سلام پھیر دیں۔


بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ رَدَّ السَّلاَمِ عَلَى الإِمَامِ وَاكْتَفَى بِتَسْلِيمِ الصَّلاَةِ ❁
باب: امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں ❁

❁ 839 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، وَزَعَمَ أَنَّهُ: «عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا مِنْ دَلْوٍ كَانَ فِي دَارِهِمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیںعبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا کہ ہمیں معمرنے زہری سے خبر دی کہا کہ مجھے محمود بن ربیع نے خبر دی، وہ کہتے تھے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح یاد ہیں اور آپ کا میرے گھر کے ڈول سے کلی کرنا بھی یاد ہے ( جو آپ نے میرے منہ میں ڈالی تھی )


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ رَدَّ السَّلاَمِ عَلَى الإِمَامِ وَاكْتَفَى بِتَسْلِيمِ الصَّلاَةِ
باب: امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں ❁ 

❁ 840 – قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الأَنْصارِيَّ، ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ، فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا حَتَّى أَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ: «أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ [ص:168] مِنْ بَيْتِكَ؟»، فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ المَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ، فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : انہوں نے بیان کیاکہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بن ی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی۔ عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کی امامت کیا کرتا تھا۔ میں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ حضور میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور ( برسات میں ) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لاکر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں آں حضور نے فرمایا کہ انشاء اللہ تعالی میں تمہاری خواہش پوری کروںگا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابوبکر آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے ( اندر آنے کی ) اجازت چاہی اور میں نے دے دی۔ آپ بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو۔ ایک جگہ کی طرف جسے میں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا۔ اشارہ کیا۔ آپ ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صف بن ائی۔ پھر آپ نے سلام پھیرا اور جب آپ نے سلام پھیراتو ہم نے بھی پھیرا۔

 

❁ تشریح : جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں۔ لیکن امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اورنماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں۔ امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی۔ لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیںگے۔ ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے۔ گویااس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔ یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوںنکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے۔ یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے۔


بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ❁ 
باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا ❁

❁ 841 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو أَنَّ أَبَا مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ حِينَ يَنْصَرِفُ النَّاسُ مِنْ الْمَكْتُوبَةِ كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كُنْتُ أَعْلَمُ إِذَا انْصَرَفُوا بِذَلِكَ إِذَا سَمِعْتُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالرزاق بن ہمام نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں عبدالملک بن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ کو عمرو بن دینار نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابو معبد نے انہیں خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ بلند آواز سے ذکر، فرض نماز سے فارغ ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جاری تھا۔

 

❁ تشریح : وقال ابن عباس: كنت أعلم إذا إنصرفوا بذلك إذا سمعته. ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ذکر سن کر لوگوں کی نماز سے فراغت کو سمجھ جاتا تھا


بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ❁
باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا ❁

❁ 842 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ أَعْرِفُ انْقِضَاءَ صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالتَّكْبِيرِ قَالَ عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ كَانَ أَبُو مَعْبَدٍ أَصْدَقَ مَوَالِي ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ عَلِيٌّ وَاسْمُهُ نَافِذٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابو معبد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کو تکبیر کی وجہ سے سمجھ جاتا تھا۔ علی بن مدینی نے کہا کہ ہم سے سفیان نے عمرو کے حوالے سے بیان کیا کہ ابومعبد ابن عباس کے غلاموں میں سب سے زیادہ قابل اعتماد تھے۔ علی بن مدینی نے بتایا کہ ان کانام نافذ تھا۔


بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ❁
باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا ❁

❁ 843 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ سُمَيٍّ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ الْفُقَرَاءُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ مِنْ الْأَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلَا وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ يُصَلُّونَ كَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ وَلَهُمْ فَضْلٌ مِنْ أَمْوَالٍ يَحُجُّونَ بِهَا وَيَعْتَمِرُونَ وَيُجَاهِدُونَ وَيَتَصَدَّقُونَ قَالَ أَلَا أُحَدِّثُكُمْ إِنْ أَخَذْتُمْ أَدْرَكْتُمْ مَنْ سَبَقَكُمْ وَلَمْ يُدْرِكْكُمْ أَحَدٌ بَعْدَكُمْ وَكُنْتُمْ خَيْرَ مَنْ أَنْتُمْ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِ إِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلَهُ تُسَبِّحُونَ وَتَحْمَدُونَ وَتُكَبِّرُونَ خَلْفَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ فَاخْتَلَفْنَا بَيْنَنَا فَقَالَ بَعْضُنَا نُسَبِّحُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَنَحْمَدُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ وَنُكَبِّرُ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ تَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَاللَّهُ أَكْبَرُ حَتَّى يَكُونَ مِنْهُنَّ كُلِّهِنَّ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابو صالح ذکوان نے بیان کیاان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نادار لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ امیرورئیس لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت حاصل کر چکے حالانکہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جیسے ہم روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیںلیکن مال ودولت کی وجہ سے انہیں ہم پر فوقیت حاصل ہے کہ اس کی وجہ سے وہ حج کر تے ہیں۔ عمرہ کرتے ہیں۔ جہاد کرتے ہیں اور صدقے دیتے ہیں ( اور ہم محتاجی کی وجہ سے ان کاموں کو نہیں کر پاتے ) اس پر آپ نے فرمایا کہ لو میں تمہیں ایک ایسا عمل بتاتا ہوں کہ اگر تم اس کی پابن دی کروگے تو جو لوگ تم سے آگے بڑھ چکے ہیں انہیں تم پالوگے اور تمہارے مرتبہ تک پھر کوئی نہیں پہنچ سکتا اور تم سب سے اچھے ہو جاؤگے سوا ان کے جو یہی عمل شروع کر دیں ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ تسبیح ( سبحان اللہ ) تحمید ( الحمدللہ ) تکبیر ( اللہ اکبر ) کہا کرو۔ پھر ہم میں اختلاف ہو گیا کسی نے کہا کہ ہم تسبیح تینتیس مرتبہ، تحمید تینتیس مرتبہ اور تکبیر چونتیس مرتبہ کہیںگے۔ میں نے اس پر آپ سے دوبارہ معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سبحان اللہ اور الحمدللہ اور اللہ اکبر کہو۔ تاآنکہ ہر ایک ان میں سے تینتیس مرتبہ ہو جائے۔


بَابُ الذِّكْرِ بَعْدَ الصَّلاَةِ ❁
باب: نماز کے بعد ذکر الٰہی کرنا ❁

❁ 844  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ وَرَّادٍ، كَاتِبِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: أَمْلَى عَلَيَّ المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ فِي كِتَابٍ إِلَى مُعَاوِيَةَ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلاَةٍ مَكْتُوبَةٍ: «لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ، وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لاَ مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلاَ مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلاَ يَنْفَعُ ذَا الجَدِّ مِنْكَ الجَدُّ» وَقَالَ شُعْبَةُ: عَنْ عَبْدِ المَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، بِهَذَا، وَقَالَ الحَسَنُ: الجَدُّ: غِنًى وَعَنِ الحَكَمِ، عَنِ القَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ وَرَّادٍ، بِهَذَا،

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبدالملک بن عمیر سے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے کاتب وراد نے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ایک خط میں لکھوایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے۔ ( ترجمہ ) اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ بادشاہت اس کی ہے اور تمام تعریف اسی کے لیے ہے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اے اللہ جسے تو دے اس سے روکنے والا کوئی نہیں اور جسے تو نہ دے اسے دینے والا کوئی نہیں اور کسی مال دار کو اس کی دولت ومال تیری بارگاہ میں کوئی نفع نہ پہنچا سکیںگے۔ شعبہ نے بھی عبد الملک سے اسی طرح روایت کی ہے۔ حسن نے فرمایا کہ ( حدیث میں لفظ ) جد کے معنی مال داری کے ہیں اور حکم، قاسم بن مخیمرہ سے وہ وراد کے واسطے سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔


بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ ❁ 
باب: امام سلام کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر لے ❁

❁ 845 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ

 

 ❁ ترجمہ : م سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابورجاء عمران بن تمیم نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز ( فرض ) پڑھا چکتے تو ہماری طرف منہ کرتے۔

 

❁ تشریح : اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فرض کے بعد سنت طریقہ یہی ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد امام دائیں یا بائیں طرف منہ پھیر کر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے مگر صد افسوس ایک دیوبندی مترجم وشارح بخاری صاحب فرماتے ہیں آج کل دائیں یابائیں طرف رخ کر کے بیٹھنے کا عام طور پر رواج ہے اس کی کوئی اصل نہیں نہ یہ سنت ہے نہ مستحب جائزضرور ہے ( تفہیم البخاری پ 4 ص22 ) پھر حدیث مذکورہ ومنعقدہ باب کا مفہوم کیا ہے اس کا جو اب فاضل موصوف یہ دیتے ہیں کہ مصنف رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اگر امام اپنے گھر جانا چاہتا ہے تو گھر چلا جائے لیکن اگر مسجد میں بیٹھنا چاہتا ہے تو سنت یہ ہے کہ دوسرے موجودہ لوگوں کی طرف رخ کر کے بیٹھے ( حوالہ مذکورہ ) ناظرین خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ فاضل شارح بخاری کے ہر دو بیانات میں کس قدر تضاد ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے باب اور حدیث کا مفہوم ظاہر ہے۔


بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ ❁

باب: امام سلام کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر لے ❁


❁ 846 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنْ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي وَمُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالک سے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہو چکی تھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کیا اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تومیرے کچھ بن دے مجھ پر ایمان لائے۔ اور کچھ میرے منکر ہوئے جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تووہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں کا مومن۔

 

❁ تشریح : کفر سے حقیقی کفرمراد ہے معلوم ہوا کہ جو کوئی ستاروں کو موثر جانے وہ بہ نص حدیث کافر ہے۔ پانی برسانا اللہ کا کام ہے ستارے کیا کر سکتے ہیں۔


بَابُ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ النَّاسَ إِذَا سَلَّمَ ❁
باب: امام سلام کے بعد لوگوں کی طرف منہ کر لے ❁

❁ 847 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلَاةَ ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَلَمَّا صَلَّى أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَرَقَدُوا وَإِنَّكُمْ لَنْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمْ الصَّلَاةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انہوں نے یزید بن ہارون سے سنا، انہیں حمید ذیلی نے خبر دی، اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات ( عشاء کی ) نماز میں دیر فرمائی تقریباً آدھی رات تک۔ پھر آخر حجرہ سے باہر تشریف لائے اور نماز کے بعد ہماری طرف منہ کیا اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو چکے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے گویا کہ نماز میں رہے ( یعنی تم کو نماز کا ثواب ملتا رہا )۔

 

❁ تشریح : ان جملہ مرویات سے ظاہر ہوا کہ سلام پھیرنے کے بعد امام مقتدیوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھے، پھر تسبیح تہلیل کرے یا لوگوں کو مسئلہ مسائل بتلائے یا پھر اٹھ کر چلاجائے۔


بَاب مُكْثِ الْإِمَامِ فِي مُصَلَّاهُ بَعْدَ السَّلَامِ ❁ 
باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر (نفل وغیرہ) پڑھ سکتا ہے ❁

❁ 848 َقَالَ لَنَا آدَمُ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ: «يُصَلِّي فِي مَكَانِهِ الَّذِي صَلَّى فِيهِ الفَرِيضَةَ وَفَعَلَهُ القَاسِمُ» وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ «لاَ يَتَطَوَّعُ الإِمَامُ فِي مَكَانِهِ وَلَمْ يَصِحَّ»

 

❁ ترجمہ : اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے کہا کہ ان سے شعبہ نے بیان کیاان سے ایوب سختیانی نے ان سے نافع نے، فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ( نفل ) اسی جگہ پر پڑھتے تھے اور جس جگہ فرض پڑھتے اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے بھی اسی طرح کیا ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ امام اپنی ( فرض پڑھنے کی ) جگہ پر نفل نہ پڑھے اور یہ صحیح نہیں۔


بَاب مُكْثِ الْإِمَامِ فِي مُصَلَّاهُ بَعْدَ السَّلَامِ ❁
باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر (نفل وغیرہ) پڑھ سکتا ہے ❁

❁ 849 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا سَلَّمَ يَمْكُثُ فِي مَكَانِهِ يَسِيرًا» قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «فَنُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ لِكَيْ يَنْفُذَ مَنْ يَنْصَرِفُ مِنَ النِّسَاءِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولیدہشام بن عبد الملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے ہند بن ت حارث سے بیان کیا ان سے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو کچھ دیر اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے۔ ابن شہاب نے کہااللہ بہتر جانے ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ آپ اس لیے کرتے تھے تاکہ عورتیں پہلے چلی جائیں۔


بَاب مُكْثِ الْإِمَامِ فِي مُصَلَّاهُ بَعْدَ السَّلَامِ ❁ 
باب: سلام کے بعد امام اسی جگہ ٹھہر کر (نفل وغیرہ) پڑھ سکتا ہے ❁

❁ 850 وَقَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ أَخْبَرَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ كَتَبَ إِلَيْهِ قَالَ حَدَّثَتْنِي هِنْدُ بِنْتُ الْحَارِثِ الْفِرَاسِيَّةُ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مِنْ صَوَاحِبَاتِهَا قَالَتْ كَانَ يُسَلِّمُ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ فَيَدْخُلْنَ بُيُوتَهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَنْصَرِفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَتْنِي هِنْدُ الْفِرَاسِيَّةُ وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَتْنِي هِنْدُ الْفِرَاسِيَّةُ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ أَنَّ هِنْدَ بِنْتَ الْحَارِثِ الْقُرَشِيَّةَ أَخْبَرَتْهُ وَكَانَتْ تَحْتَ مَعْبَدِ بْنِ الْمِقْدَادِ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ وَكَانَتْ تَدْخُلُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَتْنِي هِنْدُ الْقُرَشِيَّةُ وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ هِنْدٍ الْفِرَاسِيَّةِ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ قُرَيْشٍ حَدَّثَتْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَوقال ابن وهب عن يونس عن ابن شهاب أخبرتني هند الفراسية‏.‏ وقال عثمان بن عمر أخبرنا يونس عن الزهري حدثتني هند الفراسية‏.‏ وقال الزبيدي أخبرني الزهري أن هند بنت الحارث القرشية أخبرته، وكانت تحت معبد بن المقداد ـ وهو حليف بني زهرة ـ وكانت تدخل على أزواج النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال شعيب عن الزهري حدثتني هند القرشية‏.‏ وقال ابن أبي عتيق عن الزهري عن هند الفراسية‏.‏ وقال الليث حدثني يحيى بن سعيد حدثه عن ابن شهاب عن امرأة من قريش حدثته عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.

 

❁ ترجمہ : اور ابو سعید بن ابی مریم نے کہا کہ ہمیں نافع بن یزید نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ ابن شہاب زہری نے انہیں لکھ بھیجا کہ مجھ سے ہند بن ت حارث فراسیہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ( ہندان کی صحبت میں رہتی تھیں ) انہوںنے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو عورتیںلوٹ کر جانے لگتیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اٹھنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہوچکی ہو تیںاور ابن وہب نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں ہند بن ت حارث فراسیہ نے خبر دی اور عثمان بن عمر نے کہا کہ ہمیں یونس نے زہری سے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے بیان کیا محمد بن ولید زبیدی نے کہا کہ مجھ کو زہری نے خبر دی کہ ہند بن ت حارث قرشیہ نے انہیں خبر دی۔ اور وہ بن و زہرہ کے حلیف معبد بن مقداد کی بیوی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھی اور شعیب نے زہری سے اس حدیث کو روایت کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ہند قرشیہ نے حدیث بیان کی، اور ابن ابی عتیق نے زہری کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ہند فراسیہ نے بیان کیا۔ لیث نے کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا اور ان سے قریش کی ایک عورت نے نبی کریم سے روایت کر کے بیان کیا۔

 

❁ تشریح : ان سندوں کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ ہند کی نسبت کا اختلاف ثابت کریں کسی نے ان کو فراسیہ کہا کسی نے قرشیہ اور رد کیا اس شخص پر جس نے قرشیہ کو تصحیف قرار دیاکیونکہ لیث کی روایت میں اس کے قرشیہ ہونے کی تصریح ہے مگر لیث کی روایت موصول نہیں ہے اس لیے کہ ہند فراسیہ یا قرشیہ نے آنحضرت سے نہیں سنا مقصد باب وحدیث ظاہر ہے کہ جہاں فرض نماز پڑھی گئی ہو وہاں نفل بھی پڑھی جا سکتی ہے مگر دیگر روایات کی بنا پر ذرا جگہ بدل لی جائے یا کچھ کلام کر لیا جائے تاکہ فرض اور نفل نمازوں میں اختلاط کا وہم نہ ہوسکے۔


بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ، فَذَكَرَ حَاجَةً فَتَخَطَّاهُمْ ❁ 

اگر امام لوگوں کو نماز پڑھا کر کسی کام کا خیال کرے اور ٹھہرے نہیں بلکہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا چلا جائے تو کیسا ہے ❁ 


❁ 851 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْعَصْرَ فَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ مُسْرِعًا فَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ إِلَى بَعْضِ حُجَرِ نِسَائِهِ فَفَزِعَ النَّاسُ مِنْ سُرْعَتِهِ فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ فَرَأَى أَنَّهُمْ عَجِبُوا مِنْ سُرْعَتِهِ فَقَالَ ذَكَرْتُ شَيْئًا مِنْ تِبْرٍ عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يَحْبِسَنِي فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے عمر بن سعید سے یہ حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک مرتبہ عصر کی نماز پڑھی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ جلدی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے آپ اپنی کسی بیوی کے حجرہ میں گئے۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تیزی کی وجہ سے گھبراگئے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جلدی کی وجہ سے لوگوں کے تعجب کو محسوس فرمایا تو فرمایا کہ ہمارے پاس ایک سونے کا ڈلا ( تقسیم کرنے سے ) بچ گیاتھا مجھے اس میں دل لگا رہنا برا معلوم ہوا، میں نے اس کے بانٹ دینے کا حکم دے دیا۔

 


❁ تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فرض کے بعد امام کو اگر کوئی فوری ضرورت معلوم ہوجائے تو وہ کھڑا ہوکر جاسکتا ہے کیونکہ فرضوں کے سلام کے بعد امام کو خواہ مخواہ اپنی جگہ ٹھہرے رہنا کچھ لازم یا واجب نہیں ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا کس شدت سے احساس رہتا تھاکہ سونے کا ایک تولا بھی گھر میں محض بطور امانت ہی ایک رات کے لیے رکھ لینا ناگوار معلوم ہوا۔ پھر ان معاندین پر پھٹکارہو جو ایسے پاک پیغمبر فداہ ابی وامی کی شان میں گستاخی کرتے اور نعوذباللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دنیاداری کاغلط الزام لگاتے رہتے ہیں ھداھم اللہ۔


بَابُ الِانْفِتَالِ وَالِانْصِرَافِ عَنِ اليَمِينِ وَالشِّمَالِ ❁
باب: نماز پڑھ کر دائیں یا بائیں دونوں طرف ❁

852 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَا يَجْعَلْ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ يَرَى أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان سے بیان کیا، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کوئی شخص اپنی نماز میں سے کچھ بھی شیطان کا حصہ نہ لگائے اس طرح کہ داہنی طرف ہی لوٹنا اپنے لیے ضروری قرار دے لے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر بائیں طرف سے لوٹتے دیکھا۔

 


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ کسی مباح یا مستحب کام کولازم یا واجب کر لینا شیطان کا اغوا ہے ابن منیر نے کہا مستحب کام کو اگر کوئی لازم قرار دے تو وہ مکروہ ہو جاتا ہے جب مباح کام لازم قرار دینے سے شیطان کا حصہ سمجھا جائے تو جو کام مکروہ یا بدعت ہے اس کو کوئی لازم قرار دے لے اور اس کے نہ کرنے پر خدا کو بندوں کے ستائے یا ان کا عیب کرے تو اس پر شیطان کا کیا تسلط ہے سمجھ لینا چاہیے۔ ہمارے زمانہ میں یہ بلابہت پھیلی ہے۔ بے اصل کاموں کو عوام کیا بلکہ خواص نے لازم قرار دے لیا ہے ( مولانا وحید الزماں ) تیجہ، فاتحہ چہلم وغیرہ سب اسی قسم کے کام ہیں۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ وَالبَصَلِ وَالكُرَّاثِ ❁
باب: لہسن، پیاز وغیرہ کے متعلق احادیث ❁

❁ 853 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يَعْنِي الثُّومَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا

 

ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعیدقطان نے، عبیداللہ بکیری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر کہا تھا کہ جو شخص اس درخت یعنی لہسن کو کھائے ہوئے ہو اسے ہماری مسجد میں نہ آناچاہیے ( کچا لہسن یا پیاز کھانا مراد ہے کہ اس سے منہ میں بو پیدا ہو جاتی ہے )


بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ وَالبَصَلِ وَالكُرَّاثِ ❁
باب: لہسن، پیاز وغیرہ کے متعلق احادیث ❁

854 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ يُرِيدُ الثُّومَ فَلَا يَغْشَانَا فِي مَسَاجِدِنَا قُلْتُ مَا يَعْنِي بِهِ قَالَ مَا أُرَاهُ يَعْنِي إِلَّا نِيئَهُ وَقَالَ مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ إِلَّا نَتْنَهُ

 

ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے خبر دی کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص یہ درخت کھائے ( آپ کی مراد لہسن سے تھی ) تووہ ہماری مسجد میں نہ آئے عطاء نے کہا میں نے جابر سے پوچھا کہ آپ کی مراد اس سے کیا تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کی مراد صرف کچے لہسن سے تھی۔ مخلد بن یزید نے ابن جریج کے واسطہ سے ( الانیہ کے بجائے ) الانتنہ نقل کیا ہے ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صرف لہسن کی بدبو سے تھی )

 


تشریح : کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا یا اس کے کھانے کے بعد مسجد میں جانا برا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ لوگ اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کریںگے اور پھر مسجد ایک پاک اور مقدس جگہ ہے جہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے۔ آج کل بیڑی سگریٹ والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ منہ صاف کر کے بدبو دور کر کے مسواک سے منہ کو رگڑ رگڑ کر مسجد میں آئیں اگر نمازیوں کو ان کی بدبو سے تکلیف ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ کتنا گناہ ہوگا۔ کچا لہسن، پیاز اور سگریٹ بیڑی وغیرہ بدبودار چیزوں کا ایک ہی حکم ہے اتنا فرق ضرور ہے کہ پیاز لہسن کی بو اگر دور کی جاسکے تو ان کا استعمال جائز ہے جیسا کہ پکا کر ان کی بو کو دفع کر دیاجاتا ہے۔ تشریح : کسی بھی بدبودار چیز کو مسجد میں لے جانا یا اس کے کھانے کے بعد مسجد میں جانا برا ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ لوگ اس کی بدبو سے تکلیف محسوس کریںگے اور پھر مسجد ایک پاک اور مقدس جگہ ہے جہاں خدا کا ذکر ہوتا ہے۔ آج کل بیڑی سگریٹ والوں کے لیے بھی لازم ہے کہ منہ صاف کر کے بدبو دور کر کے مسواک سے منہ کو رگڑ رگڑ کر مسجد میں آئیں اگر نمازیوں کو ان کی بدبو سے تکلیف ہوئی تو ظاہر ہے کہ یہ کتنا گناہ ہوگا۔ کچا لہسن، پیاز اور سگریٹ بیڑی وغیرہ بدبودار چیزوں کا ایک ہی حکم ہے اتنا فرق ضرور ہے کہ پیاز لہسن کی بو اگر دور کی جاسکے تو ان کا استعمال جائز ہے جیسا کہ پکا کر ان کی بو کو دفع کر دیاجاتا ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ وَالبَصَلِ وَالكُرَّاثِ ❁
باب: لہسن، پیاز وغیرہ کے متعلق احادیث ❁

❁ 855 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ زَعَمَ عَطَاءٌ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ زَعَمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلًا فَلْيَعْتَزِلْنَا أَوْ قَالَ فَلْيَعْتَزِلْ مَسْجِدَنَا وَلْيَقْعُدْ فِي بَيْتِهِ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِقِدْرٍ فِيهِ خَضِرَاتٌ مِنْ بُقُولٍ فَوَجَدَ لَهَا رِيحًا فَسَأَلَ فَأُخْبِرَ بِمَا فِيهَا مِنْ الْبُقُولِ فَقَالَ قَرِّبُوهَا إِلَى بَعْضِ أَصْحَابِهِ كَانَ مَعَهُ فَلَمَّا رَآهُ كَرِهَ أَكْلَهَا قَالَ كُلْ فَإِنِّي أُنَاجِي مَنْ لَا تُنَاجِي وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ أُتِيَ بِبَدْرٍ وَقَالَ ابْنُ وَهْبٍ يَعْنِي طَبَقًا فِيهِ خَضِرَاتٌ وَلَمْ يَذْكُرِ اللَّيْثُ وَأَبُو صَفْوَانَ عَنْ يُونُسَ قِصَّةَ الْقِدْرِ فَلَا أَدْرِي هُوَ مِنْ قَوْلِ الزُّهْرِيِّ أَوْ فِي الْحَدِيثِ

 

ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے یونس سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ عطاء جابر بن عبد اللہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو ہو ہم سے دور رہے یا ( یہ کہا کہ اسے ) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میںکئی قسم کی ہری ترکاریاں تھیں۔ ( پیازیا گندنا بھی ) آپ نے اس میں بو محسوس کی اور اس کے متعلق دریافت کیا۔ اس سالن میں جتنی ترکاریاں ڈالیں گئی تھیں وہ آپ کو بتا دی گئیں۔ وہاں ایک صحابی موجودتھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف یہ سالن بڑھا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانا پسند نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تم لوگ کھا لو۔ میری جن سے سرگوشی رہتی ہے تمہاری نہیں رہتی اور احمد بن صالح نے ابن وہب سے یوں نقل کیا کہ تھال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی تھی۔ ابن وہب نے کہا کہ طبق جس میں ہری ترکاریاں تھیں اور لیث اور ابو صفوان نے یونس سے روایت میں ہانڈی کا قصہ نہیں بیان کیا ہے۔ امام بخاریؒ نے ( یا سعید یا ابن وہب نے کہا ) میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ خود زہری کا قول ہے یا حدیث میں داخل ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي الثُّومِ النِّيِّ وَالبَصَلِ وَالكُرَّاثِ ❁
باب: لہسن، پیاز وغیرہ کے متعلق احادیث ❁

❁ 856 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ قَالَ سَأَلَ رَجُلٌ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ مَا سَمِعْتَ نَبِيَّ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الثُّومِ فَقَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلَا يَقْرَبْنَا أَوْ لَا يُصَلِّيَنَّ مَعَنَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لہسن کے بارے میں کیا سنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس درخت کو کھائے وہ ہمارے قریب نہ آئے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے

 


❁ تشریح : مقصد یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے تکلیف دہ ہے لہذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔ بیڑی سگریٹ کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ تشریح : مقصد یہی ہے کہ ان چیزوں کو کچا کھانے سے منہ میں جو بو پیدا ہو جاتی ہے وہ دوسرے ساتھیوں کے لیے تکلیف دہ ہے لہذا ان چیزوں کے کھانے والوں کو چاہیے کہ جس طور ممکن ہو ان کی بدبو کا ازالہ کر کے مسجد میں آئیں۔ بیڑی سگریٹ کے لیے بھی یہی حکم ہے۔


بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ ❁
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ❁

❁ 857 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنِي غُنْدَرٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ الشَّيْبَانِيَّ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّهُمْ وَصَفُّوا عَلَيْهِ فَقُلْتُ يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان شیبانی سے سنا، انہوں نے شعبی سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی جو ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اکیلی الگ تھلگ ٹوٹی ہوئی قبر پر سے گزررہے تھے وہاں آنحضرت نے نماز پڑھائی اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھے ہوئے تھے۔ سلیمان نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابوعمرو آپ سے یہ کس نے بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

 


❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت فرمایا ہے کہ بچے اگرچہ نابالغ ہوں مگر10-8 سال کی عمر میں جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو ان کو وضو کرنا ہوگا اور وہ جماعت وعیدین وجنائز میں بھی شرکت کر سکتے ہیں جیسا کہ یہاں اس روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے جوابھی نابالغ تھے مگر یہاں ان کا صف میںشامل ہونا ثابت ہے پس اگرچہ بچے بالغ ہونے پر ہی مکلف ہوں گے مگر عادت ڈالنے کے لیے نابالغی کے زمانہ ہی سے ان کو ان باتوں پر عمل کرانا چاہیے حضرت مولاناوحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف یوں نہیں کہا کہ لڑکوں پر وضو واجب ہے یا نہیں کیونکہ صورت ثانی میں لڑکوں کی نماز بے وضو درست ہوتی اور صورت اولی میں لڑکوں کو وضو اور نماز کے ترک پر عذاب لازم آتا صرف اس قدر بیان کر دیا جتنا حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نماز وغیرہ میں شریک ہوتے اور یہ ان کی کمال احتیاط ہے۔ اہل حدیث کی شان یہی ہونی چاہیے کہ آیتِ کریمہ لَاتُقَدِّمُوابَینَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُولِہ ( الحجرات:1 ) اللہ اور اس کے رسول سے آگے مت بڑھو ) کے تحت صرف اسی پر اکتفاکریں جو قرآن وحدیث میں وارد ہوآگے بے جا رائے، قیاس، تاویل فاسدہ سے کام نہ لیں خصوصاً نص کے مقابلہ پر قیاس کرنا ابلیس کا کام ہے۔


بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ ❁
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ❁

❁ 858 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے صفوان بن سلیم نے عطاء سے بیان کیا، ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔

 


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ غسل واجب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بچے بالغ ہو جائیں وہ بھی بصورت احتلام غسل واجب ہوگا اور غسل جمعہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کے پاس شروع اسلام میں کپڑے بہت کم تھے اس لیے کام کرنے میں پسینہ سے کپڑوں میں بد بو پیداہو جاتی تھی اور اسی لیے اس وقت جمعہ کے دن غسل کرنا واجب تھا پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فراخی دی تو یہ وجوب باقی نہیں رہااب ابھی ایسے لوگوں پر غسل ضروری ہے جن کے پسینے کی بدبو سے لوگ تکلیف محسوس کریں۔ غسل صرف بالغ پر واجب ہوتا ہے اسی کو بیان کرنے کے لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث یہاں لائے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کا غسل واجب ہے۔ تشریح : معلوم ہوا کہ غسل واجب اس وقت ہوتا ہے جب کہ بچے بالغ ہو جائیں وہ بھی بصورت احتلام غسل واجب ہوگا اور غسل جمعہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کے پاس شروع اسلام میں کپڑے بہت کم تھے اس لیے کام کرنے میں پسینہ سے کپڑوں میں بد بو پیداہو جاتی تھی اور اسی لیے اس وقت جمعہ کے دن غسل کرنا واجب تھا پھر جب اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فراخی دی تو یہ وجوب باقی نہیں رہااب ابھی ایسے لوگوں پر غسل ضروری ہے جن کے پسینے کی بدبو سے لوگ تکلیف محسوس کریں۔ غسل صرف بالغ پر واجب ہوتا ہے اسی کو بیان کرنے کے لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ حدیث یہاں لائے ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کا غسل واجب ہے۔


بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ ❁
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ❁

❁ 859 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ لَيْلَةً فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوءًا خَفِيفًا يُخَفِّفُهُ عَمْرٌو وَيُقَلِّلُهُ جِدًّا ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَقُمْتُ فَتَوَضَّأْتُ نَحْوًا مِمَّا تَوَضَّأَ ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَحَوَّلَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ ثُمَّ صَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ فَأَتَاهُ الْمُنَادِي يَأْذَنُهُ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ مَعَهُ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ قُلْنَا لِعَمْرٍو إِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ إِنَّ رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ ثُمَّ قَرَأَ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، کہا کہ مجھے کریب نے خبر دی ابن عباس سے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سویا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں سوگئے۔ پھر رات کا ایک حصہ جب گزر گیا آپ کھڑے ہوئے اور ایک لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو ( راوی حدیث نے ) اس وضو کو بہت ہی ہلکا بتلایا ( یعنی اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت کم پانی استعمال فرمایا ) پھر آپ نماز کے لیے کھڑے ہوئے اس کے بعد میں نے بھی اٹھ کر اسی طرح وضو کیاجیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے داہنی طرف پھیر دیا پھر اللہ تعالی نے جتنا چاہا آپ نے نماز پڑھی پھر آپ لیٹ رہے پھر سوگئے۔ یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے۔ آخر مؤذن نے آکر آپ کو نماز کی خبر دی اور آپ اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے اور نماز پڑھائی مگر ( نیا ) وضو نہیں کیا سفیان نے کہا۔ ہم نے عمرو بن دینار سے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ( سوتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ( صرف ) آنکھیں سوتی تھیں لیکن دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو بن دینار نے جواب دیا کہ میں نے عبید بن عمیرسے سنا وہ کہتے تھے کہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتا ہے پھر عبیدنے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔

 

❁ تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابن عباس نے وضو کیا اور نماز میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت وہ نابالغ لڑکے تھے آیت مذکورہ سورہ صافات میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں یہاں خواب بمعنی وحی ہے صاحب خیر جاری لکھتے ہیں:ولما کانت وحیا لم یکن نومھم نوم غفلۃ مودیۃ الی الحدیث بل نوم تنبہ وتیقظ وانتباہ وانتظار للوحی الخ اور جب انبیا کا خواب بھی وحی ہے تو ان کا سونا نہ ایسی غفلت کا سونا جس سے وضو کرنا فرض لازم آئے بلکہ وہ سونا محض ہوشیار ہونا اور وحی کا انتظار کرنے کاسوناہے۔ تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابن عباس نے وضو کیا اور نماز میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت وہ نابالغ لڑکے تھے آیت مذکورہ سورہ صافات میں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں یہاں خواب بمعنی وحی ہے صاحب خیر جاری لکھتے ہیں:ولما کانت وحیا لم یکن نومھم نوم غفلۃ مودیۃ الی الحدیث بل نوم تنبہ وتیقظ وانتباہ وانتظار للوحی الخ اور جب انبیا کا خواب بھی وحی ہے تو ان کا سونا نہ ایسی غفلت کا سونا جس سے وضو کرنا فرض لازم آئے بلکہ وہ سونا محض ہوشیار ہونا اور وحی کا انتظار کرنے کاسوناہے۔


بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ ❁ 
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ❁

❁ 860 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ فَأَكَلَ مِنْهُ فَقَالَ قُومُوا فَلِأُصَلِّيَ بِكُمْ فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا قَدْ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لَبِثَ فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْيَتِيمُ مَعِي وَالْعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالکؒ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ( ان کی ماں ) اسحاق کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا جسے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بطور ضیافت تیار کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایاپھر فرمایا کہ چلو میں تمہیں نماز پڑھادوں۔ ہمارے یہاں ایک بوریاتھا جو پرانا ہونے کی وجہ سے سیاہ ہو گیا تھا۔ میں نے اسے پانی سے صاف کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ( پیچھے ) میرے ساتھ یتیم لڑکا ( ضمیرہ بن سعد ) کھڑا ہوا۔ میری بوڑھی دادی ( ملیکہ ام سلیم ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی۔

 


❁ تشریح : یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یتیم کے لفظ سے بچپن سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ بالغ کو یتیم نہیں کہتے گویا ایک بچہ جماعت میں شریک ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نا پسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ دن کو نفل نماز ایسے مواقع پر جماعت سے بھی پڑھی جا سکتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مکان پر نفل وغیرہ نمازوں کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لینا بھی درست ہے۔ صحیح یہی ہے کہ حضرت ام ملیکہ اسحاق کی دادی ہیں جزم بہ جماعۃ وصححہ النووی بعض لوگوں نے ان کو انس کی دادی قرار دیاہے، ابن حجر کا یہی قول ہے۔


بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ ❁
باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل ❁

❁ 861 أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف، فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك على أحد‏.‏

 

❁ ترجمہ : عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہوکر آیا۔ ابھی میں جوانی کے قریب تھا ( لیکن بالغ نہ تھا ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھارہے تھے۔ آپ کے سامنے دیوار وغیرہ ( آڑ ) نہ تھی۔ میں صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر کر اترا۔ گدھی چرنے کے لیے چھوڑدی اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ کسی نے مجھ پر اعتراض نہیںکیا ( حالانکہ میں نابالغ تھا )

 

❁ تشریح : اس حدیث سے بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔ یہ بھی معلوم ہو اکہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔ اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔


❁ بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ
❁ باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل

❁ 862 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ عَيَّاشٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ قَدْ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ يُصَلِّي هَذِهِ الصَّلَاةَ غَيْرُكُمْ وَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ يَوْمَئِذٍ يُصَلِّي غَيْرَ أَهْلِ الْمَدِينَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں دیر کی اور عیاش نے ہم سے عبد الاعلیٰ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں ایک مرتبہ دیر کی۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ انہوں نے فرمایا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر آئے اور فرمایا کہ ( اس وقت ) روئے زمین پر تمہارے سوا اور کوئی اس نماز کو نہیں پڑھتا، اس زمانہ میں مدینہ والوں کے سوا اور کوئی نماز نہیں پڑھتا تھا۔

 


❁ تشریح : اس لیے کہ اسلام صرف مدینہ میں محدود تھا، خاص طور پر نماز باجماعت کا سلسلہ مدینہ ہی میں تھا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالاکہ اس وقت عشاءکی نماز پڑھنے کے لیے بچے بھی آتے رہتے ہوں گے، جبھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس جماعت میں عورتوں کا مع بچوں کے شریک ہونا بھی ثابت ہوا والظاھر من کلام عمر رضی اللہ عنہ انہ شاھد النساءاللاتی حضرن فی المسجد قد نمن وصبیا نھن معھن ( حاشیہ بخاری ) یعنی ظاہر کلام عمر سے یہی ہے کہ انہوں نے ان عورتوں کا مشاہدہ کیا جو مسجد میں اپنے بچوں سمیت نماز عشاءکے لیے آئی تھیں اور وہ سو گئیں جب کہ ان کے بچے بھی ان کے ساتھ تھے۔


 ❁ بَابُ وُضُوءِ الصِّبْيَانِ، وَمَتَى يَجِبُ عَلَيْهِمُ الغُسْلُ وَالطُّهُورُ، وَحُضُورِهِمُ الجَمَاعَةَ وَالعِيدَيْنِ وَالجَنَائِزَ، وَصُفُوفِهِمْ
❁ باب: بچوں کے لئے وضو اور غسل

❁ 863 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَهُ رَجُلٌ شَهِدْتَ الْخُرُوجَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْهُ مَا شَهِدْتُهُ يَعْنِي مِنْ صِغَرِهِ أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُهْوِي بِيَدِهَا إِلَى حَلْقِهَا تُلْقِي فِي ثَوْبِ بِلَالٍ ثُمَّ أَتَى هُوَ وَبِلَالٌ الْبَيْتَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد الرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا تھا کہ کیا تم نے ( عورتوںکا ) نکلنا عید کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دیکھاہے؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھا ہے اگر میں آپ کا رشتہ دار عزیز نہ ہوتا تو کبھی نہ دیکھتا ( یعنی میری کم سنی اور قرابت کی وجہ سے آنحضرت مجھ کو اپنے ساتھ رکھتے تھے ) کثیر بن صلت کے مکان کے پاس جو نشان ہے پہلے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سنایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی وعظ ونصیحت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خیرات کرنے کے لیے کہا، چنانچہ عورتوں نے اپنے چھلے اور انگوٹھیاں اتار اتار کر بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنی شروع کر دیے۔ آخر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ گھر تشریف لائے۔

 


❁ تشریح : حضرت ابن عباس کمسن تھے،باوجود اس کے عید میں شریک ہوئے، یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور اس سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ چونکہ احناف کے ہاں عید گاہ میں عورتوں کا جاناجائز نہیں ہے، اس لیے ایک دیوبندی ترجمہ بخاری میں یہاں ترجمہ ہی بدل دیا گیا ہے چنانچہ وہ ترجمہ یوں کرتے ہیں“ان سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ عیدگاہ گئے تھے۔” حالانکہ پوچھا یہ جارہا تھا کہ کیا تم نے عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتوں کا نکلنا دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ضرور دیکھا ہے۔ یہ بدلا ہوا ترجمہ دیوبندی تفہیم البخاری پارہ: 4 ص: 32 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباًایسے ہی حضرات کے لیے کہا گیا ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں وفقنا اللہ لما یحب ویرضی آمین


❁ بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى المَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالغَلَسِ
❁ باب: عورتوں کا رات اور صبح کے وقت مساجد میں آنا

❁ 864 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَمَةِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ غَيْرُكُمْ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا يُصَلَّى يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِينَةِ وَكَانُوا يُصَلُّونَ الْعَتَمَةَ فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الْأَوَّلِ

 

ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرے سے ) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا ( اس وقت ) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈو بن ے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھاکرتے تھے۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سوگئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔ اس کے بعد جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔ اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے اور ابویوسف رحمہ اللہ نے کہا بڑھیا ہر ایک نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہے اور جوان کا آنا مکروہ ہے۔ قسطلانی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔


❁ بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى المَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ وَالغَلَسِ
❁ باب: عورتوں کا رات اور صبح کے وقت مساجد میں آنا

❁ 865 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ حَنْظَلَةَ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا اسْتَأْذَنَكُمْ نِسَاؤُكُمْ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأْذَنُوا لَهُنَّ تَابَعَهُ شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔


❁ بَابُ اِنتِظَارِ النَّاسِ قِيَامِ الاِمَامِ العَالِمِ
❁ باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا

❁ 866 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَتْنِي هِنْدُ بِنْتُ الْحَارِثِ أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا أَنَّ النِّسَاءَ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُنَّ إِذَا سَلَّمْنَ مِنْ الْمَكْتُوبَةِ قُمْنَ وَثَبَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ صَلَّى مِنْ الرِّجَالِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَإِذَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ الرِّجَالُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ہند بنت حارث نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں فرض نماز سے سلام پھیرنے کے فوراً بعد ( باہر آنے کے لیے ) اٹھ جاتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مرد نماز کے بعد اپنی جگہ بیٹھے رہتے۔ جب تک اللہ کو منظور ہوتا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے تو دوسرے مرد بھی کھڑے ہو جاتے۔

 


❁ تشریح : اس حدیث سے بھی عورتوں کا جماعت میں شریک ہونا ثابت ہوا۔


❁ بَابُ اِنتِظَارِ النَّاسِ قِيَامِ الاِمَامِ العَالِمِ

❁ باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا


❁ 867 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ النِّسَاءُ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ مَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ

 

ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے امام مالکؒ سے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک ؒنے یحیٰ بن سعید انصاری سے خبر دی، انہیں عمرہ بن ت عبد الرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ لیتے پھر عورتیں چادریں لپیٹ کر ( اپنے گھروںکو ) واپس ہو جاتی تھیں۔ اندھیرے سے ان کی پہچان نہ ہو سکتی۔


❁ بَابُ اِنتِظَارِ النَّاسِ قِيَامِ الاِمَامِ العَالِمِ
❁ باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا

 ❁ 868 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ بَكْرٍ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مسکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی قتادہ انصاری نے، ان سے ان کے والد ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں، میرا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز لمبی کروں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کر دیتا ہوں کہ مجھے اس کی ماں کو تکلیف دینا برا معلوم ہوتا ہے۔

 


❁ تشریح : فاتجوزای فاخفف قال ابن سابط التجوز ھھنا یراد بہ تقلیل القراۃ والدلیل علیہ مارواہ ابن ابی شیبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرافی الرکعۃ الاولی بسورۃ نحو ستین آیۃ فسمع بکاءصبی فقرا فی الثانیۃ بثلاث آیات ومطابقۃ الحدیث للترجمۃ تفھم من قولہ کراھیۃ ان اشق علی امۃلانہ یدل علی حضور النساءالی المساجد مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو اعم من ان یکون باللیل او بالنھار قالہ العینی ( حاشیہ بخاری شریف، ص: 120 ) یعنی یہاں تخفیف کرنے سے قرات میں تخفیف مراد ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ آنحضرت نے پہلی رکعت میں تقریباً ساٹھ آیتیں پڑھیں جب کسی بچے کارونا معلوم ہوا تو دوسری رکعت میں آپ نے صرف تین آیتوں پر اکتفافرمایااور باب اور حدیث میں مطابقت اس سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عورتوں کی تکلیف کو مکروہ جانتاہوں۔معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عورتیں مساجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں رات ہو یا دن یہ عام ہے۔


❁ بَابُ اِنتِظَارِ النَّاسِ قِيَامِ الاِمَامِ العَالِمِ

❁ باب: لوگوں کا نماز کے بعد امام کے اٹھنے کا انتظار کرنا


869 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ

 

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے یحیٰ بن سعید سے خبر دی، ان سے عمرہ بن ت عبدالرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ آج عورتوں میں جو نئی باتیں پیدا ہو گئی ہیںاگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ لیتے توان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں۔

 


تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس سے یہ نہیں نکلتا کہ ہمارے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں جانا منع ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ یہ زمانہ پایا نہ منع کیا اور شریعت کے احکام کسی کے قیاس اور رائے سے نہیں بدل سکتے۔ مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ یہ ام المؤمنین کی رائے تھی کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ زمانہ پاتے تو ایساکرتے اور شاید ان کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا منع ہوگا اس لیے بہتر یہ ہے کہ فساد اور فتنے کا خیال رکھا جائے اور اس سے پرہیز کیا جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خوشبو لگا کر اور زینت کر کے عورتوں کونکلنے سے منع کیا۔ اسی طرح رات کی قید بھی لگائی اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب یہ حدیث بیان کی کہ اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجد میں جانے سے نہ روکوتو ان کے بیٹے واقد یا بلال نے کہا کہ ہم تو روکیں گے۔ عبداللہ نے ان کو ایک گھونسہ لگایا اور سخت سست کہا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ مرنے تک بات نہ کی اور یہی سزا ہے اس نالائق کی جو آنحضرت کی حدیث سن کر سر نہ جھکائے اور ادب کے ساتھ تسلیم نہ کرے۔ وکیع نے کہا کہ شعار یعنی قربانی کے اونٹ کا کوہان چیر کر خون نکال دینا سنت ہے۔ ایک شخص بولا ابو حنیفہ تو اس کو مثلہ کہتے ہیں۔ وکیع نے کہا تو اس لائق ہے کہ قید رہے جب تک توبہ نہ کرے، میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول لاتا ہے۔ اس روایت سے مقلدین بے انصاف کو سبق لینا چاہیے اگر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے اور ان کے سامنے کوئی حدیث کے خلاف کسی مجتہد کا قول لاتا تو گردن مارنے کا حکم دیتے ارے لوگوہائے خرابی یہ ایمان ہے یاکفر کہ پیغمبر کافرمودہ سن کر پھر دوسرے کی رائے اور قیاس کو اس کے خلاف منظور کرتے ہوتم جانو اپنے پیغمبر کو جو جواب قیامت کے دن دینا ہو وہ دے لینا وماعلینا الا البلاغ ( مولانا وحید الزماں )


❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ

❁ باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا


❁ 870 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ قَامَ النِّسَاءُ حِينَ يَقْضِي تَسْلِيمَهُ وَيَمْكُثُ هُوَ فِي مَقَامِهِ يَسِيرًا قَبْلَ أَنْ يَقُومَ قَالَ نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ لِكَيْ يَنْصَرِفَ النِّسَاءُ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُنَّ مِنْ الرِّجَالِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں زہری سے بیان کیا، ان سے ہند بن ت حارث نے بیان کیا، اس سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ کے سلام پھیرتے ہی عورتیں جانے کے لیے اٹھ جاتی تھیں اور انحضور تھوڑی دیر ٹھہرے رہتے کھرے نہ ہوتے۔ زہری نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں، آگے اللہ جانے، یہ اس لیے تھا تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے نکل جائیں۔


❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ
❁ باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

❁ 871 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقُمْتُ وَيَتِيمٌ خَلْفَهُ وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا

 

ترجمہ : ہم سے ابونعیم بن دکین نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میری ماں ) ام سلیم کے گھر میں نماز پڑھائی۔ میں اور یتیم مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے تھیں۔


❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ
❁ باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

❁ 872 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الصُّبْحَ بِغَلَسٍ فَيَنْصَرِفْنَ نِسَاءُ الْمُؤْمِنِينَ لَا يُعْرَفْنَ مِنْ الْغَلَسِ أَوْ لَا يَعْرِفُ بَعْضُهُنَّ بَعْضًا

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے عبدالرحمن بن قاسم سے بیان کیا، ان سے اس کے باپ ( قاسم بن محمد بن ابی بکر ) نے ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز منہ اندھیرے پڑھتے تھے۔ مسلمانوں کی عورتیں جب ( نماز پڑھ کر ) واپس ہوتیں تو اندھیرے کی وجہ سے ان کی پہچان نہ ہوتی یا وہ ایک دوسری کو نہ پہچان سکتیں۔

 


❁ تشریح : نماز ختم ہوتے ہی عورتیں واپس ہو جاتی تھیں اس لیے ان کی واپسی کے وقت بھی اتنا اندھیرا رہتا تھا کہ ایک دوسری کو پہچان نہیں سکتی تھی۔ لیکن مرد فجر کے بعد عام طور سے نماز کے بعد مسجد میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرتے تھے۔ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے اجتہاد کا درجہ کامل عطا فرمایا تھا۔ اسی بنا پر آپ نے اپنی جامع الصحیح میں ایک ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے حدیث مذکور پیچھے بھی کئی بار مذکورہو چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے فجر کی نماز اول وقت غلس میں پڑھنے کا اثبات فرمایا ہے۔ اور یہاں عورتوں کا شریک جماعت ہونا اور سلام کے بعد ان کا فوراً مسجد سے چلے جانا وغیرہ مسائل بیان فرمائے ہیں۔ تعجب ہے ان عقل کے دشمنوں پر جو حضرت امام جیسے مجتہد مطلق کی درایت کا انکار کرتے اور آپ کو صرف روایت کا امام تسلیم کرتے ہیں حالانکہ روایت اور درایت ہر دو میں آپ کی مہارت تامہ ثابت ہے اور مزید خوبی یہ کہ آپ کی درایت وتفقہ کی بنیاد محض قرآن وحدیث پر ہے رائے اور قیاس پر نہیں جیسا کہ دوسرے ائمہ مجتہدین میں سے بعض حضرات کا حال ہے جن کے تفقہ کی بنیاد محض رائے اور قیاس پر ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ نے جو مقام عطا فرمایا تھا وہ امت میں بہت کم لوگوں کے حصہ میں آیا ہے۔ اللہ نے آپ کو پیدا ہی اس لیے فرمایا تھا کہ شریعت محمدیہ کو قرآن وسنت کی بنیاد پر اس درجہ منضبط فرمائیں کہ قیامت تک کے لیے امت اس سے بے نیاز ہو کے بے دھڑک شریعت پر عمل کرتی رہے۔ آیت شریفہ وَاٰخَرِینَ مِنھُم لَمَّا یَلحَقُوابِھِم ( الجمعہ:3 ) کے مصداق بے شک وشبہ ان ہی محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین کی جماعت ہے۔


❁ بَابُ اسْتِئْذَانِ المَرْأَةِ زَوْجَهَا بِالخُرُوجِ إِلَى المَسْجِدِ

❁ باب: عورت مسجد جانے کے لئے خاوند سے اجازت لے


❁ 873 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنَتْ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ فَلَا يَمْنَعْهَا

 

ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان کے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان سے باپ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کی بیوی ( نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں آنے کی ) اس سے اجازت مانگے تو شوہر کو چاہیے کہ اس کو نہ روکے۔

 


❁ تشریح : اجازت دے اس لیے کہ بیوی کوئی ہماری لونڈی نہیں ہے بلکہ ہماری طرح وہ بھی آزاد ہے صرف معاہدہ نکاح کی وجہ سے وہ ہمارے ما تحت ہے۔ شریعت محمدی میں عورت اور مرد کے حقوق برابر تسلیم کئے گئے ہیں اب اگر اس زمانہ کے مسلمان اپنی شریعت کے برخلاف عورتوں کو قیدی اور لونڈی بنا کر رکھیں تو اس کا الزام ان پر ہے نہ کہ شریعت محمدی پر۔ جن پادریوں نے شریعت محمدی کو بدنام کیا ہے کہ اس شریعت میں عورتوں کو مطلق آزادی نہیں، یہ ان کی نادانی ہے۔ ( مولانا وحید الزماںمرحوم ) حنفیہ کے ہاں مساجد میں نماز کے لیے عورتوں کا آنا درست نہیں ہے، اس سلسلہ میں ان کی بڑی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں قالت لوادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم ما احدث النساءلمنعھن المسجد کما منعت نساءبنی اءسرائیل اخرجہ الشیخان یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو پا لیتے جو آج عورتوں نے نئی ایجاد کر لی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مساجد سے منع فرمادیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔ اس کے جواب میں المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب ابکار المنن فی تنقید آثار السنن، ص :101پر فرماتے ہیں لایترتب علی ذلک تغیر الحکم لانھا علقتہ علی شرط لم یوجد بناءعلی ظن ظفتہ فقالت لو رای لمنع فیقال لم یرد ولم یمنع فاستمر الحکم حتی ان عائشۃ لم تصرح بالمنع وان کان کلامھا یشعر بانھا کانت تری المنع وایضا فقد علم اللہ سبحانہ ما سیحدثن فما اوحی الی نبیہ بمنعھن لو کان ما احدثن یستلزم منعھن من المساجد لکان منعھن من غیرھاکالاسواق اولی وایضا فالاحداث انما وقع من بعض النساءلا من جمیعھن فان تعین المنع فلیکن لم احدثت قالہ الحافظ فی فتح الباری ( ج:1 ص: 471 ) وقال فیہ والاولی ان ینظر الی ما یخشی منہ الفساد فیجتنب لا شارتہ صلی اللہ علیہ وسلم الی ذلک بمنع التطیب والزینۃ وکذلک التقیید باللیل انتھی اس عبارت کا خلاصہ یہ کہ اس قول عائشہ کی بنا پر مساجد میں عورتوں کی حاضری کا حکم متغیر نہیں ہو سکتا اس لیے کہ حضرت عائشہ نے اسے جس شرط کے ساتھ معلق فرمایا وہ پائی نہیں گئی۔ انہوں نے یہ گمان کیا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے تو منع فرمادیتے۔ پس کہا جا سکتا ہے کہ نہ آپ نے دیکھا نہ منع فرمایا پس حکم نبوی اپنی حالت پر جاری رہا یہاں تک کہ خود حضرت عائشہ نے بھی منع کی صراحت نہیں فرمائی اگر چہ ان کے کلام سے منع کے لیے اشارہ نکلتا ہے اور یہ بھی ہے کہ اللہ پاک کو ضرور معلوم تھا کہ آئندہ عورتوں میں کیا کیا نئے امور پیدا ہوں گے مگر پھر بھی اللہ پا ک نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عورتوں کو مساجد سے روکنے کے بارے میں وحی نازل نہیں فرمائی اور اگر عورتوں کی نئی نئی باتوں کی ایجاد پر ان کو مساجد سے روکنا لازم آتا تو مساجد کے علاوہ دوسرے مقامات بازار وغیرہ سے بھی ان کو ضرور ضرور منع کیا جاتا اور یہ بھی ہے کہ نئے نئے امور کا احداث بعض عورتوں سے وقوع میں آیا نہ سب ہی سے۔ پس اگر منع کرنا ہی متعین ہوتا تو صرف ان ہی عورتوں کے لیے ہونا تھا جو احداث کی مرتکب ہوتی ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایسا فرمایا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ ان امور پر غور کیا جائے جن سے فساد کا ڈر ہو پس ان سے پرہیز کیا جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ عورتوں کے لیے خوشبو استعمال کر کے یا زیب وزینت کر کے نکلنا منع ہے، اسی طرح رات کی بھی قید لگائی گئی۔ مقصد یہ کہ حنفیہ کا قول عائشہ رضی اللہ عنہ کی بنا پر عورتوں کو مساجد سے روکنا درست نہیں ہے اور عورتیں قیود شرعی کے تحت مساجد میں جاکر نماز با جماعت میں شرکت کر سکتی ہیں۔ عیدگاہ میں ان کی حاضری کے لیے خصوصی تاکید ہوئی ہے جیسا کہ اپنے مقام پر مفصل بیان کیا گیا ہے۔ عورات بنی اسرائیل کی مخالفت کے بارے میں حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں: قلت منع النساءالمساجد کان فی بنی اسرائیل ثم اباح اللہ لھن الخروج الی المساجد لامۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ببعض القیود کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا استاذنتکم النساءباللیل الی المساجد فاذنوا لھن وقال لا تمنعوااماءاللہ مساجد اللہ الخ ( حوالہ مذکور ) یعنی میں کہتا ہوں کہ عورتوں کو بنی اسرائیل کے دور میں مساجد سے روک دیا گیا تھا پھر امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں اسے بعض قیود کے ساتھ مباح کر دیا گیا جیسا کہ فرمان رسالت ہے کہ رات میں جب عورتیں تم سے مساجد میں نماز پڑھنے کی اجازت مانگیں تو تم ان کو اجازت دے دو اور فرمایا کہ اللہ کی مساجد سے اللہ کی بندیوں کو منع نہ کرو جیسا کہ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ بخاری شریف میں عبداللہ بن عباس اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی مرویات بکثرت آئی ہیں اس لیے مناسب ہوگا کہ قارئین کرام کو ان بزرگوں کے مختصر حالات زندگی سے واقف کرا دیا جائے تا کہ ان حضرات کی زندگی ہمارے لیے بھی مشعل راہ بن سکے یہاں بھی متعدد احادیث ان حضرات سے مروی ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ! حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے والدہ گرامی کا نام ام فضل لبابہ اور باپ کانام حضرت عباس تھا۔ ہجرت سے صرف تین سال پیشتر اس احاطہ میں پیدا ہوئے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام خاندان والوں کے ساتھ قید محن میں محصور تھے۔ آپ کی والدہ گرامی بہت پیشتر ایمان لا چکی تھیں اور گو آپ کا اسلام لانا فتح مکہ کے بعد کا واقعہ بتایا جاتا ہے تاہم ایک مسلم ماں کی آغوش میں آپ اسلام سے پوری طرح مانوس ہو چکے تھے اور پیدا ہوتے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن آپ کے منہ میں پڑچکاتھا۔ بچپن ہی سے آپ کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے استفاضہ وصحبت کا موقع ملا اور اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتے رہے، اسی عمر میں کئی بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ ابھی تیرہ ہی سال کے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رحلت فرمائی۔ عہد فاروقی میں سن شباب کو پہنچ کر اس عہد کی علمی صحبتوں میں شریک ہوئے اور اپنے جوہر دماغی کا مظاہرہ کرنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے اور برابر ہمت افزائی کرتے پیچیدہ مسائل حل کراتے اور ذہانت کی داد دیتے تھے۔ 17ھ میں یہ عالم ہو گیا تھا کہ جب مہم مصرمیں شاہ افریقہ جرجیہ سے مکالمہ ہوا تو وہ آپ کی قابلیت علمی دیکھ کر متحیر رہ گیا تھا۔ 25 ھ میں آپ امیر الحج بنا کر مکہ معظمہ بھیجے گئے اور آپ کی عدم موجودگی ہی میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ہائلہ پیش آگیا۔ علم وفضل میں آپ کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ ایک وحید العصر اور یگانہ روزگار ہستی تھے۔ قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، شاعری آیات قرآنی کے شان نزول اور ناسخ منسوخ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے۔ ایک دفعہ شقیق تابعی کے بیان کے مطابق حج کے موقع پر سورۃ نور کی تفسیر جو بیان کی وہ اتنی بہتر تھی اگر اسے فارس اور روم کے لوگ سن لیتے تو یقینااسلام لے آتے ( مستدرک حاکم ) قرآن کریم کے فہم میں بڑے بڑے صحابہ سے بازی لے جاتے تھے۔ تفسیر میں آپ ہمیشہ جامع اور قرین عقل مفہوم کو اختیار کرتے تھے۔ سورۃ کوثر میں لفظ کوثر کی مختلف تفاسیر کی گئیں مگر آپ نے اسے خیر کثیر کے مفہوم سے تعبیر کیا۔ قرآن کریم کی آیت پاک لَا تَحسَبَنَّ الَّذِینَ یَفرَحُونَ بِمَا اَتَوا ( آل عمران : 188 ) الخ یعنی“جو لوگ اپنے کئے پر خوش ہوتے ہیں اور جونہیں کیا ہے اس پر تعریف چاہتے ہیں تو ایسے لوگوں کی نسبت ہرگز یہ خیال نہ کرو کہ وہ عذاب سے بچ جائیں گے بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔” یہ چیز فطرت انسانی کے خلاف ہے اور بہت کم لوگ اس جذبہ سے خالی نظر آتے ہیں۔مسلمان اس پر پریشان تھے۔ آخر مروان نے آپ کو بلا کر پوچھا کہ ہم میں سے کون ہے جو اس جذبہ سے خالی ہے۔ فرمایا ہم لوگوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ نیز بتایا یہ ان اہل کتاب کے متعلق ہے جن سے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی امر کے متعلق استفسار کیا، انہوں نے اصل بات کو جو ان کی کتاب میں تھی، چھپا کر ایک فرضی جواب دے دیا اور اس پر خوشنودی کے طالب ہوئے اور اپنی اس چالاکی پر مسرور ہوئے۔ ہمارے نزدیک عام طور پر اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جو لوگ خفیہ طور پر درپے آزار رہتے ہیں بظاہر ہمدرد بن کر جڑیں کاٹتے رہتے ہیں اور منہ پر یہ کہتے ہیں کہ ہم نے فلاں خدمت کی،فلاں احسان کیا اور اس پر شکریہ کے طالب ہوتے ہیں اور اپنی چالاکی پر خوش ہوتے اور دل میں کہتے ہیں کہ خوب بے وقوف بنایا وہ لوگ عذاب الہی سے ہرگز نہیں بچ سکتے کہ یہ ایک فریب ہے۔ علم حدیث کے بھی اساطین سمجھے جاتے تھے۔ 1660حادیث آپ سے مروی ہیں۔ عرب کے گوشہ میں پہنچ کر خرمن علم کا انبار لگا لیا۔ فقہ وفرائض میں بھی یگانہ حیثیت حاصل تھی۔ ابوبکر محمد بن موسیٰ ( خلیفہ مامون رشید کے پوتے ) نے آپ کے فتاوی بیس جلدوں میں جمع کئے تھے۔ علم فرائض اور حساب میں بھی ممتاز تھے۔ عربوں میں شاعری لازمہ شرافت سمجھی جاتی تھی بالخصوص قریش کی آتش بیانی تو مشہور تھی۔ آپ شعر گوئی کے ساتھ فصیح بھی تھے۔ تقریر اتنی شیریں ہوتی تھی کہ لوگوں کی زبان سے بے ساختہ مرحبا نکل جاتا تھا۔ غرض یہ کہ آپ اس عہد کے جملہ علوم کے منتہی اور فاضل اجل تھے۔ آپ کا مدرسہ یا حلقہ درس بہت وسیع اور بہت مشہور تھااور دوردور سے لوگ آتے اور اپنی دلچسپی اور مذاق کے مطابق مختلف علوم کی تحصیل کرتے۔ مکان کے سامنے اتنا اژدھام ہوتا تھا کہ آمد ورفت بند ہو جاتی تھی۔ ابو صالح تابعی کا بیان ہے کہ آپ کی علمی مجلس وہ مجلس تھی کہ اگر سارا قریش اس پر فخر کرے تو بھی بجا ہے، ہر فن کے طالب وسائل باری باری آتے اور آپ سے تشفی بخش جواب پاکر واپس لوٹتے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک کتابی تعلیم کا رواج نہ ہوا تھااور نہ کتابیں موجود تھیں، علوم وفنون کا انحصار محض حافظہ پر تھا۔ خدا نے اس عہد کی ضرورتوں کے مطابق لوگوں کے حافظے بھی اتنے قوی کر دیئے تھے کہ آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک ایک شخص کو دس دس بیس بیس ہزار احادیث اور اشعار کا یاد کر لینا تو ایک عامۃ الورود واقعہ تھا، سات سات اور آٹھ آٹھ لاکھ احادیث کے حافظ موجود تھے۔ جنہیں حافظہ کے ساتھ فہم ذہانت سے بھی حصہ ملا تھا۔ وہ مطلع انوار بن جاتے تھے۔ آج دو ہزار احادیث کے حافظ بھی بمشکل ہی کہیں نظر آتے ہیں اور ہمیں اس زمانے کے بزرگوں کے حافظہ کی داستانیں افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔ سفرو حضر ہر حالت میں فیض رسانی کا سلسلہ جاری تھا اور طالبان ہجوم کا ایک سیلاب امنڈا رہتا تھا۔ نومسلموں کی تعلیم وتلقین کے لیے آپ نے مخصوص ترجمان مقرر کر رکھے تھے تاکہ انہیں اپنے سوال میں زحمت نہ ہو ایران وروم تک سے لوگ جوق در جوق چلے آتے تھے، تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی تھی اور ان میں کثرت ان بزرگوں کی تھی جو حافظہ کے ساتھ ساتھ فہم وفراست اور ذہانت کے بھی حامل تھے۔ علمی مذاکروں کے دن مقرر تھے۔ کسی روز واقعات مغازی کا تذکرہ کرتے۔ کسی دن شعروشاعری کا چرچہ ہوتا۔ کسی روز تفسیر قرآن پر روشنی ڈالتے۔ کسی روز فقہ کا درس دیتے۔ کسی روز ایام عرب کی داستان سناتے۔ بڑے سے بڑا عالم بھی آپ کی صحبت میں بیٹھتا، اس کی گردن بھی آپ کے کمال علم کے سامنے جھک جاتی۔ تمام جلیل القدر اور ذی مرتبہ صحابہ کرام کو آپ کی کم سنی کے باوجود آپ کے فضل وعلم کا اعتراف تھا۔ جضرت فاروق اعظم آپ کے ذہن رسا کی تعریف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے۔ حضرت طاؤس یمانی فرمایا کرتے تھے میں نے پانچوں صحابہ کو دیکھا۔ ان میں جب کسی مسئلہ پر اختلاف ہوا تو آخر ی فیصلہ آپ ہی کی رائے پر ہوا۔ حضرت قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ آپ سے زیادہ کسی کا فتوی سنت نبوی کے مشابہ نہیں دیکھا۔ حضرت مجاہد تابعی کہا کرتے تھے کہ ہم نے آپ کے فتاویٰ سے بہتر کسی شخص کا فتوی نہیں دیکھا۔ ایک بزرگ تابعی کا بیان ہے کہ میں نے آپ سے زیادہ سنت کا عالم، صائب الرائے اور بڑا دقیق النظر کسی کو نہیں پایا۔ حضرت ابی بن کعب بھی بہت بڑے تھے۔انہوں نے ابتدا ہی میں آپ کی ذہانت وطباعی دیکھ کر فرمایا تھا کہ ایک روز یہ شخص امت کا زبردست عالم اور منتہی فاضل ہوگا۔ تمام معاصرین آپ کی حد درجہ عزت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ سوار ہونے لگے تو حضرت زید بن ثابت نے پہلے توآپ کی رکاب تھام لی اور پھر بڑھ کر ہاتھ چومے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کریم سے غیر معمولی شیفتگی وگرویدگی حاصل تھی۔ جب حضور کی بیماری کی کرب اور وفات کی حالت یاد ہوتی بے قرار ہو جاتے۔ روتے اور بعض اوقات اس قدر روتے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ بچپن ہی سے خدمت نبوی میں مسرت حاصل ہونے لگی اور خودحضور بھی آپ سے خدمت لے لےا کرتے تھے۔ احترام کی یہ حالت تھی کہ کم سنی کے باوجود نماز میں بھی آپ کے برابر کھڑا ہونا گستاخی تصور کرتے تھے اور بے حد ادب ملحوظ رکھتے تھے۔ امہات المومنین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی عزت وتکریم کے ساتھ پیش آتے رہتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی تھی خدا وند ابن عباس کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تفسیر کا علم عطا فرما۔ ایک مرتبہ اور آپ کے ادب سے خوش ہو کر آپ کے لیے فہم وفراست کی دعا عطا فرمائی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ جوان ہو کر سرآمدروزگار بن گئے اور مطلع اخلاق روشن ہوگیا۔ صحابہ کے آخرزمانہ میں نو مسلم عجمیوں کے ذریعہ سے خیر وشراور قضا وقدر کی بحث عراق میں پیدا ہو چکی تھی۔ آپ نابینا ہو چکے تھے مگر جب معلوم ہوا کہ ایک شخص تقدیر کا منکر ہے تو آپ نے فرمایا مجھے اس کے پاس لے چلو۔ عرض کی کیا کروگے؟ فرمایا ناک کاٹ لوں گا اور گردن ہاتھ میں آگئی تو اسے توڑ دوں گا کیونکہ میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ “تقدیر کا انکار اس امت کا پہلا شرک ہے” میں اس ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ایسے لوگوں کی بری رائے یہیں تک محدود نہ رہے گی بلکہ جس طرح انہوں نے خدا کو شر کی تقدیر سے معطل کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کی خیر کی تقدیر سے بھی منکر ہو جائیں گے۔ یوں تو آپ کی زندگی کا ہر شعبہ اہم ودلکش ہے لیکن جو چیز سب سے زیادہ نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ کسی کی طرف سے برائی و مخاصمت کا ظہور اس کی حقیقی عظمت اور خوبیوں کے اعتراف میں مانع نہیں ہوتا تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے خلافت کا دعوی کیا اور آپ کو بھی اپنی بیعت پر مجبور کر نے کی سعی کی، اس زور وشور کے ساتھ کہ جب آپ نے اس سے انکار کیا تو یہی نہیں کہ آپ کو زندہ آگ میں جلا ڈالنے کی دھمکی دی بلکہ آپ کے کاشانہ معلی کے ارد گرد خشک لکڑیوں کے انبار بھی اسی مقصد سے لگوادیئے اور بمشکل آپ کی جانبری ہو سکی۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ انہی کی بدولت جوار حرم چھوڑ کر آپ کو طائف نقل وطن کرنا پڑی۔ ظاہر ہے کہ یہ زیادتیاں تھیں اور آپ کو ان کے ہاتھ سے بہت تکلیف اٹھانا پڑی تھی لیکن جب ابن ملیکہ نے آپ سے کہا ہے کہ لوگوں نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت شروع کر دی ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے اندر آخر وہ کون سی خوبیاں اور مفاخر ہیں جن کی بنا پر انہیں ادعائے خلافت کی جرات ہوئی ہے اور اتنے بڑے حوصلہ سے کام لیا ہے۔ فرمایا:“یہ تم نے کیاکہا۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے زیادہ مفاخر کا حامل کون ہو سکتا ہے۔ باپ وہ ہیں جو حواری رسول کے معزز لقب سے ملقب تھے۔ ماں اسماءذات النطاق تھیں۔ نانا وہ ہیں جن کا اسم گرامی ابو بکر رضی اللہ عنہ اور“لقب”رفیق غار ہے۔ان کی خالہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ترین زوجہ ام المؤمنین حضرت عائشہ تھیں اور ان کے والد محترم کی پھوپھی ام المؤمنین حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہ حرم محترم رسول اکرم تھیں اور دادی حضرت صفیہ خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں، یہ تو ہیں ان کے خاندانی مفاخر۔ ذاتی حیثیت سے بہت بلند اور بے حد ممتاز ہیں، قاری قرآن ہیں، بے مثل بہادر اور عدیم النظیر مدبر ہیں، وہاۃ العرب میں سے ہیں۔بہت پاکباز ہیں۔ ان کی نماز یں پورے خشوع وخضوع کی نمازیں ہیں۔ پھر ان سے زیادہ خلافت کا مستحق کون ہو سکتا ہے، وہ کھڑے ہوئے ہیں اور بجا طور پر کھڑے ہوئے ہیں، ان کا بیعت لینا بجا ہے، خدا کی قسم اگر وہ میرے ساتھ کوئی احسان کریں گے تو یہ ایک عزیزانہ احسان ہوگا اور میری پرورش کریںگے تو یہ اپنے ایک ہمسر محترم کی پرورش ہوگی۔ 67 ھ میں آپ نے وفات پائی۔ انتقال کے وقت آیات کریمہ ( یٰاَیَّتُھَا النَّفسُ المُطمَئِنَّۃُ ) ( الفجر: 27 ) کے مصداق ہوئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما! حضرت فاروق اعظم کے یگانہ روزگار صاحبزادے اور اپنے عہد کے زبردست جید عالم تھے۔باپ کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر صرف پانچ سال تھی۔ زمانہ بعثت کے دوسرے سال کتم عدم سے پردہ وجود پر جلوہ افروز ہوئے۔ ہوش سنبھالا تو گھر کے دروبام اسلام کی شعاعوں سے منور تھے۔ باپ کے ساتھ غیر شعوری طور پر اسلام قبول کیا۔ چونکہ مکہ میں ظلم وطغیانی کی گرج برابر بڑھتی جا رہی تھی اس لیے اپنے خاندان والوں کے ساتھ آپ بھی ہجرت کر گئے۔ تیرہ برس ہی کی عمرتھی کہ غزوہ بدر میں شرکت کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور کم سنی کی وجہ سے واپس کر دیئے گئے۔ اگلے سال غزوہ احد میں بھی اسی بنا پر شریک نہ کئے گئے۔ البتہ پندرہ سال کی عمر ہوجانے پر غزوہ احزاب میں ضرور شریک ہوئے جو 5 ھ میں وقوع پذیر ہواتھا۔ 6ھ میں بیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا۔غزوہ خیبر میں بھی بڑی جانبازی کے ساتھ لڑے۔ اسی سفر میں حلال وحرام کے متعلق جو احکام دربار رسالت سے صادر ہوئے تھے آپ ان کے راوی ہیں۔ اس کے بعد فتح مکہ غزوہ حنین اور محاصرہ طائف میں بھی شریک رہے۔ غزوہ تبوک میں جارہے تھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر کی طرف سے گزرتے ہوئے جہاں قدیم عاد وثمود کی آبادیوں کے کھنڈرات تھے، فرمایا کہ: “ان لوگوں کے مساکن میں داخل نہ ہو جنہوں نے خدا کی نافرمانی کر کے اپنے اوپر ظلم کیا کہ مبادا تم بھی اس عذاب میں مبتلا ہو جاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے تھے اور اگر گزرنا ہی ہے تو یہ کرو کہ خوف خدا اور خشیت الٰہی سے روتے ہوئے گزرجاؤ۔” جوش جہاد!عہد فاروقی میں جو فتوحات ہوئیں اس میں آپ سپاہیانہ حیثیت سے برابر لڑتے رہے، جنگ نہاوند میں بیمار ہوئے تو آپ نے ازخود یہ کیا“پیاز کو” دوا میں پکاتے تھے اور جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اسے نکال کر دواپی لیتے تھے۔ غالباً پیچش کا مرض لاحق ہوگیا ہو گا۔ شام ومصر کی فتوحات میں بھی مجاہدانہ حصے لیتے رہے۔ لیکن انتظامی امور میں حصہ لینے کا کوئی موقع نہ ملا کہ حضرت فاروق اعظم اپنے خاندان وقبیلہ کے افراد کو الگ رکھتے رہے۔ عہد عثمانی میں آپ کی قابلیت کے مدنظر آپ کو عہد قضا پیش کیا گیا لیکن آپ نے یہ فرماکر انکار کر دیا کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں جاہل، عالم مائل الی الدنیا کہ یہ دونوں جہنمی ہیں۔ تیسرے وہ ہیں جو صحیح اجتہاد کرتے ہیں انہیں نہ عذاب ہے نہ ثواب اور صاف کہہ دیا کہ مجھے کہیں عامل نہ بنائیے اس کے بعد امیر المومنین نے بھی اصرار نہ کیا البتہ اس عہد کے معرکہ ہائے جہاد میں ضرور شریک ہوتے رہے۔ تیونس،الجزائر، مراکش، خراسان اور طبرستان کے معرکوں میں لڑے۔ جس قدر اصب اور عہدوں کی قبولیت سے گھبراتے تھے جہادوں میں اسی قدر جوش وخروش اور شوق ودل بستگی کے ساتھ حصہ لیتے تھے۔ آخر عہد عثمانی میں جو فتنے رونما ہوئے آپ ان سے بالکل کنارہ کش رہے۔ ان کی شہادت کے بعد آپ کی خدمت میں خلافت کا اعزاز پیش کیا اور عدم قبولیت کے سلسلے میں قتل کی دھمکی دی گئی لیکن آپ نے فتنوں کے نشو وارتقا کے پیش نظر اس عظیم الشان اعزاز سے بھی انکار کر دیااور کوئی اعتنا نہ کی۔ اس کے بعد آپ نے اس شرط پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی کہ وہ خانہ جنگیوں میں کوئی حصہ نہ لیں گے۔ چنانچہ جنگ جمل وصفین میں شرکت نہ کی۔ تاہم متاسف تھے اور کہا کرتے تھے کہ: “گو میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا لیکن حق پر مقابلہ بھی افضل ہے” ( مستدرک ) فیصلہ ثالثی سننے کے لیے دومۃ الجندل میں تشریف لے گئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بعد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور شوق جہاد میں اس عہد کے تمام معرکوں میں نیز مہم قسطنطنیہ میں شامل ہوئے۔ یزید کے ہاتھ پر فتنہ اختلاف امت سے دامن بچائے رکھنے کے لیے بلا تامل بیعت کر لی اور فرمایا یہ خیر ہے تو ہم اس پر راضی ہیں اور اگر یہ شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔ آج کل لوگ فتنوں سے بچنا تو درکنار اپنے مقاصد ذاتی کے لیے فتنے پیدا کرتے ہیں اور خدا کے خوف سے ان کے جسم پر لرزہ طاری نہیں ہوتا۔ پھر یہ بیعت حقیقتاً نہ کسی خوف کی بنا پر تھی اور نہ آپ کسی لالچ میں آئے تھے۔ طنطنہ اور حق پرستی کا یہ عالم تھا کہ امر حق کے مقابلہ پر کسی بڑی سے بڑی شخصیت کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔


❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ
❁ باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

❁ 874 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ أُمِّ سُلَيْمٍ فَقُمْتُ وَيَتِيمٌ خَلْفَهُ وَأُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( میری ماں ) ام سلیم کے گھر میں نماز پڑھائی۔ میں اور یتیم مل کر آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے تھیں۔


❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ خَلْفَ الرِّجَالِ
❁ باب: عورتوں کا مردوں کے پیچھے نماز پڑھنا

❁ 875 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الحَارِثِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَلَّمَ قَامَ النِّسَاءُ حِينَ يَقْضِي تَسْلِيمَهُ، وَيَمْكُثُ هُوَ فِي مَقَامِهِ يَسِيرًا قَبْلَ أَنْ يَقُومَ»، قَالَ: نَرَى – وَاللَّهُ أَعْلَمُ – أَنَّ ذَلِكَ كَانَ لِكَيْ يَنْصَرِفَ النِّسَاءُ، قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے زہری سے بیان کیا، ان سے ہند بن ت حارث نے بیان کیا، ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے تو آپ کے سلام پھیرتے ہی عورتیں جانے کے لیے اٹھ جاتی تھیں اور انحضور تھوڑی دیر ٹھہر ے رہتے کھڑے نہ ہوتے۔ زہری نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں، آگے اللہ جانے، یہ اس لیے تھا تاکہ عورتیں مردوں سے پہلے نکل جائیں۔


 

Table of Contents