16. Kitaab ul Kasoof; [کِتَابُ الكُسُوفِ]; Eclipses
✦ کِتَابُ الكُسُوفِ ✦
باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان
❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان ❁
❁ 1040 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْكَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلْنَا فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ حَتَّى انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ
❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے یونس سے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا، ان سے ابو بکرہ نفیع بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کوگرہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اٹھ کر جلدی میں ) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت وہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گرہن کھل نہ جائے۔
❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان
❁ 1041 حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ قَيْسٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا مَسْعُودٍ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ مِنْ النَّاسِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَقُومُوا فَصَلُّوا
❁ ترجمہ : ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن حمید نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں قیس بن ابی حازم نے اور انہوں نے کہا کہ میں نے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی شخص کی موت سے نہیں لگتا۔ یہ دونوں تو اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ اس لیے اسے دیکھتے ہی کھڑے ہو جاؤ اور نماز پڑھو۔
❁ تشریح : اس حدیث سے معلوم ہو اکہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب گرہن لگے خواہ وہ کسی وقت ہو اور حنفیوں نے اوقات مکروہہ کو مستثنی کیا ہے اور امام احمد سے بھی مشہورروایت یہی ہے اور مالکیہ کے نزدیک اس وقت سورج کے نکلنے سے آفتاب کے ڈھلنے تک ہے اور اہل حدیث نے اول مذہب کواختیار کیا ہے اور وہی راجح ہے ( وحیدی )
❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان
❁ 1042 حَدَّثَنَا أَصْبَغُ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهَا فَصَلُّوا
❁ ترجمہ : ہم سے اصبغ بن فرح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد اللہ بن وہب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے عبد الرحمن بن قاسم سے خبر دی، انہیں ان کے باپ قاسم بن محمد نے اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و زندگی سے نہیں لگتا بلکہ یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم یہ دیکھو تو نماز پڑھو۔
❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج گرہن کی نماز کا بیان
❁ 1043 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ كَسَفَتْ الشَّمْسُ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ فَصَلُّوا وَادْعُوا اللَّهَ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان ابو معاویہ نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، ان سے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن اس دن لگا جس دن ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا بعض لوگ کہنے لگے کہ گرہن حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرہن کسی کی موت وحیات سے نہیں لگتا۔ البتہ تم جب اسے دیکھو تو نماز پڑھا کرو اور دعا کیا کرو۔
❁ تشریح : اتفاق سے جب حضرت ابراہیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے گزر گئے تو سورج گرہن لگا۔ بعض لوگوں نے سمجھا کہ ان کی موت سے یہ گرہن لگا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعتقاد کا رد فرمایا۔ جاہلیت کے لوگ ستاروں کی تاثیر زمین پر پڑنے کا اعتقاد رکھتے تھے ہماری شریعت نے اسے باطل قرار دیا۔حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز کا وقت وہی ہے جب بھی گرہن لگے خواہ کسی وقت ہو، یہی مذہب راجح ہے۔ یہاں گرہن کو اللہ کی نشانی قرار دیا گیا ہے۔ مسند امام احمد اور نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں اتنا زیادہ منقول ہے کہ اللہ عزوجل جب کسی چیز پر تجلی کرتا ہے تو وہ عاجزی سے اطاعت کرتی ہے۔ تجلی کا اصل مفہوم ومطلوب اللہ ہی کو معلوم ہے۔ یہ خیال کہ گرہن ہمیشہ چاند یا زمین کے حائل ہونے سے ہوتا ہے یہ علماءہیئت کا خیال ہے اور یہ علم یقینی نہیں ہے۔ حکیم دیو جانس کلبی کا یہ حال تھا کہ جب اس کے سامنے کوئی علم ہیئت کا مسئلہ بیان کرتا تو وہ کہتا کہ کیا آپ آسمان سے اترے ہیں۔ بہر حال بقول حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم علماءہیئت جو کہتے ہیں کہ زمین یا چاند حائل ہوجانے سے گرہن ہوتا ہے، یہ حدیث کے خلاف نہیں ہے پھر بھی آیۃ من آیات اللہ کا اطلاق اس پر صحیح ہے۔ روایت میں جس واقعہ کاذکر ہے وہ 10ھ میں بماہ ربیع الاول یا ماہ رمضان میں ہوا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔ صاحب تسہیل القاری لکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا جیسے کفار کا اعتقاد تھا تو گرہن سورج اور چاند کا اپنے مقررہ وقت پر نہ ہوتا بلکہ جب دنیا میں کسی بڑے کی موت کا حادثہ پیش آتا یا کوئی بڑا آدمی پیدا ہوتا، گرہن لگا کرتا، حالانکہ اب کا ملین علم ہیئت نے سورج اور چاند کے گرہن کے اوقات ایسے دریافت کئے ہیں کہ ایک منٹ ان سے آگے پیچھے گرہن نہیں ہوتا اور سال بھر کی بیشتر جنتریوں میں لکھ دیتے ہیں کہ اس سال سورج گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت ہوگا اور چاند گرہن فلاں تاریخ اور فلاں وقت میںاور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ سورج یا چاند کی ٹکی گرہن سے کل چھپ جائے گی یا ان کا اتنا حصہ۔ اور یہ بھی لکھ دیتے ہیں کہ کس ملک میں کس قدر گرہن لگے گا۔ بہر حال یہ دونوں اللہ کی قدرت کی اہم نشانیاں ہیں اور قرآن پاک میں اللہ نے فرمایا ہے وَمَانُرسِلُ بِالآیَاتِ اِلاَّ تَخوِیفًا ( بنی اسرائیل: 59 ) کہ ہم اپنی قدرت کی کتنی ہی نشانیاں لوگوں کو ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں جو اہل ایمان ہیں وہ ان سے اللہ کے وجود برحق پر دلیل لے کر اپنا ایمان مضبوط کر تے ہیںاور جو الحادو دہریت کے شکار ہیں وہ ان کو مادی عینک سے دیکھ کر اپنے الحاد ودہریت میں ترقی کرتے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ وفی کل شئی لہ ایۃ تدل علی انہ واحد یعنی کائنات کی ہر چیز میں اس امر کی نشانی موجود ہے کہ اللہ پاک اکیلا ہے علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ وفی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدونہ من تاثیر الکواکب قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر الارض من موت اوضرر فاعلم النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل وان الشمس والقمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیرھما ولا قدرۃ علی الدفع عن انفسھما ( نیل الاوطار ) یعنی عہد جاہلیت والے ستاروں کی تاثیر کا جو اعتقاد رکھتے تھے اس حدیث میں اس کا ابطال ہے۔ خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ گرہن سے زمین پر موت یا اورکسی نقصان کا حادثہ ہوتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ پاک کی دو مخلوق جو اللہ پاک ہی کے تابع ہیں ان کو اپنے غیر میں کوئی اختیار نہیں اور نہ وہ اپنے ہی نفسوں سے کسی کو دفع کر سکتے ہیں۔ آج کل بھی عوام الناس جاہلیت جیسا ہی عقیدہ رکھتے ہیں، اہل اسلام کو ایسے غلط خیال سے بالکل دو رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ستاروں میں کوئی طاقت قدرت نہیں ہے۔ ہر قسم کی قدرت صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے۔ واللہ اعلم۔
❁ بَابُ الصَّدَقَةِ فِي الكُسُوفِ
❁ باب: سورج گرہن میں صدقہ خیرات کرنا
❁ 1044 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الْأُولَى ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ انْجَلَتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا ثُمَّ قَالَ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنْ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیا ن کیا، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ پہلے آپ کھڑے ہوئے تو بڑی دیر تک کھڑے رہے، قیام کے بعد رکوع کیا اور رکوع میں بہت دیر تک رہے۔ پھر رکوع سے اٹھنے کے بعد دیر تک دوبارہ کھڑے رہے لیکن آپ کے پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا تو بڑی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر، پھر سجدہ میں گئے اور دیر تک سجدہ کی حالت میں رہے۔ دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا، جب آپ فارغ ہوئے تو گرہن کھل چکاتھا۔ اس کے بعدآپ نے خطبہ دیا اللہ تعالی کی حمد وثنا کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا۔ جب تم گرہن لگا ہوا دیکھو تو اللہ سے دعا کرو تکبیر کہو اور نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر آپ نے فرمایا اے محمد کی امت کے لوگو! دیکھو اس بات پر اللہ تعالی سے زیادہ غیرت اور کسی کو نہیں آتی کہ اس کا کوئی بندہ یا بندی زنا کرے، اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم! واللہ جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوجائے تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔
❁ تشریح : یعنی ہر رکعت میں دو دو رکوع کئے اور دو دو قیام اگر چہ بعض روایتوں میں تین تین رکوع اور بعض میں چار چار اور بعض میں پانچ پانچ ہر رکعت میں وارد ہوئے ہیں۔ مگر دو دو رکوع کی روایتیں صحت میں بڑھ کر ہیں اور اہلحدیث اور شافعی کا اس پر عمل ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کرے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ایک رکوع کی روایتیں صحت میں دو دو رکوع کی روایتوں کے برابر نہیں ہیں اب جن روایتوں میں دو رکوع سے زیادہ منقول ہیں تو وہ راویوں کی غلطی ہے یا کسوف کا واقعہ کئی بار ہوا ہوگا۔ بعضے علماءنے یہی اختیار کیا ہے کہ جن جن طرحوں سے کسوف کی نماز منقول ہے ان سب طرحوں سے پڑھنا درست ہے۔ قسطلانی نے پچھلے متکلمین کی طرح غیرت کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ غیرت غصے کے جوش کو کہتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے تغیرات سے پاک ہے۔ اہلحدیث کا یہ طریق نہیں، اہل حدیث اللہ تعالی کی ان سب صفات کو جو قرآن وحدیث میں وارد ہیں اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں اور ان میں تاویل اور تحریف نہیں کرتے جب غضب اللہ تعالی صفات کی میں سے ہے تو غیرت بھی اس کی صفات میں سے ہوگی غضب زائد اور کم ہو سکتا ہے اور تغیر اللہ کی ذات اور صفات حقیقیہ میں نہیں ہوتا لیکن صفات افعال میں تو تغیر ضرور ہے مثلاً گناہ کرنے سے اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے پھر توبہ کرنے سے راضی ہو جاتا ہے اللہ تعالی کلا م کرتا اور کبھی کلام نہیں کرتا کبھی اترتا ہے کبھی چڑھتا ہے غرض صفات افعالیہ کا حدوث اور تغیر اہلحدیث کے نزدیک جائز ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
❁ بَابُ النِّدَاءِ بِالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ فِي الكُسُوفِ
❁ باب: گرہن میں نماز کے لئے پکارنا
❁ 1045 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ الْحَبَشِيُّ الدِّمَشْقِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ الزُّهْرِيُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ
❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں یحی بن صالح نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معاویہ بن سلام بن ابی سلام رحمہ اللہ تعالی حبشی دمشقی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف زہری نے خبر دی، ان سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سورج گرہن لگا تو یہ اعلان کیا گیا کہ نماز ہونے والی ہے۔
❁ تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ گرہن کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی مگر لوگوں میں اس طورپر اعلان کرانا کہ نماز گرہن جماعت سے ادا کی جانے والی ہے لہذا لوگو شرکت کے لیے تیار ہو جاؤ اس طرح پر اعلان کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ایسا اعلان کرانا حدیث ذیل سے ثابت ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گرہن کی نماز خاص اہتمام جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہیے۔
بَابُ خُطْبَةِ الإِمَامِ فِي الكُسُوفِ ❁
❁ باب: گرہن کی نماز میں امام کا خطبہ پڑھنا
❁ 1046 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ح و حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَصَفَّ النَّاسُ وَرَاءَهُ فَكَبَّرَ فَاقْتَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقَامَ وَلَمْ يَسْجُدْ وَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً هِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ كَبَّرَ وَرَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ أَدْنَى مِنْ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَالَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ فَاسْتَكْمَلَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي أَرْبَعِ سَجَدَاتٍ وَانْجَلَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَنْصَرِفَ ثُمَّ قَامَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ هُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَكَانَ يُحَدِّثُ كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يُحَدِّثُ يَوْمَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ بِمِثْلِ حَدِيثِ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ فَقُلْتُ لِعُرْوَةَ إِنَّ أَخَاكَ يَوْمَ خَسَفَتْ بِالْمَدِينَةِ لَمْ يَزِدْ عَلَى رَكْعَتَيْنِ مِثْلَ الصُّبْحِ قَالَ أَجَلْ لِأَنَّهُ أَخْطَأَ السُّنَّةَ
❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے ( دوسری سند ) اور مجھ سے احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورج گرہن لگا، اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی آپ نے تکبیر کہی اور بہت دیر قرآن مجید پڑھتے رہے پھر تکبیر کہی اور بہت لمبا رکوع کیا پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر کھڑے ہوگئے اور سجدہ نہیں کیا ( رکوع سے اٹھنے کے بعد ) پھر بہت دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن پہلی قرات سے کم، پھر تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے گئے اور دیر تک رکوع میں رہے، یہ رکوع بھی پہلے رکوع سے کم تھا۔ اب سمع اللہ لمن حمدہ اور ر بنا ولک الحمد کہا پھر سجدہ میں گئے۔ آپ نے دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا ( ان دونوں رکعتوں میں ) پورے چار رکوع اور چار سجدے کئے۔ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ فرمایا اور پہلے اللہ تعالی کی اس کی شان کے مطابق تعریف کی پھر فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں ان میں گرہن کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں لگتا لیکن جب تم گرہن دیکھا کرو تو فوراً نماز کی طرف لپکو۔ زہری نے کہا کہ کثیر بن عباس اپنے بھائی عبد اللہ بن عباس سے روایت کر تے تھے وہ سورج گرہن کا قصہ اس طرح بیان کرتے تھے جیسے عروہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا۔ زہری نے کہا میں نے عروہ سے کہا تمہارے بھائی عبداللہ بن زبیر نے جس دن مدینہ میں سورج گرہن ہوا صبح کی نماز کی طرح دو رکعت پڑھی اور کچھ زیادہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا ہاں مگر وہ سنت کے طریق سے چوک گئے۔
❁ تشریح : ان کو حضرت عائشہ کی یہ حدیث نہ پہنچی ہوگی حالانکہ عبد اللہ بن زبیر صحابی رضی اللہ عنہ تھے اور عروہ تابعی ہیں مگر عروہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی اور حدیث کی پیروی سب پر مقدم ہے۔ اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابی جیسے عبد اللہ بن زبیر اور عبداللہ بن عباس ہیں ان سے بھی غلطی ہو جاتی تھی تواور مجتہدوں سے جیسے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ یا امام شافعی ہیں غلطی کا ہونا کچھ بعید نہیں اوراگر منصف آدمی امام ابن قیم کی اعلام الموقعین انصاف سے دیکھے تواس کو ان مجتہدوں کی غلطیاں بخوبی معلوم ہو سکتی ہیں ( وحیدی )
❁ بَابٌ: هَلْ يَقُولُ كَسَفَتِ الشَّمْسُ أَوْ خَسَفَتْ؟
❁ باب: کسوف اور خسوف دونوں کہہ سکتے ہیں
❁ 1047 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ فَكَبَّرَ فَقَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ وَقَامَ كَمَا هُوَ ثُمَّ قَرَأَ قِرَاءَةً طَوِيلَةً وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الْقِرَاءَةِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهِيَ أَدْنَى مِنْ الرَّكْعَةِ الْأُولَى ثُمَّ سَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ سَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَقَالَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ
❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ جس دن سورج میں خسوف ( گرہن ) لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ آپ کھڑے ہوئے تکبیر کہی پھر دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ لیکن اس کے بعد ایک طویل رکوع کیا۔ رکوع سے سراٹھایا تو کہا سمع اللہ لمن حمدہ پھر آپ پہلے ہی کی طرح کھڑے ہوگئے اور دیر تک قرآن مجید پڑھتے رہے لیکن اس مرتبہ کی قرات پہلے سے کچھ کم تھی۔ پھر آپ سجدہ میں گئے اور بہت دیر تک سجدہ میں رہے پھر دوسری رکعت میں بھی آپ نے اسی طرح کیا پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ سورج اور چاند کا “ کسوف” ( گرہن ) اللہ تعالی کی ایک نشانی ہے اور ان میں “خسوف” ( گرہن ) کسی کی موت و زندگی پر نہیں لگتا۔ لیکن جب تم سے دیکھو تو فوراً نماز کے لیے لپکو۔
❁ تشریح : ہر دو کے گرہن پر آپ نے کسوف اور خسوف ہر دو لفظ استعمال فرمائے۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوا
❁ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «يُخَوِّفُ اللَّهُ عِبَادَهُ بِالكُسُوفِ» وَقَالَ أَبُو مُوسَى: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ
❁ باب: اللہ اپنے بندوں کوگرہن سے ڈراتا ہے
❁ 1048 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهُ وَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدُ الْوَارِثِ وَشُعْبَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ يُونُسَ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهَا عِبَادَهُ وَتَابَعَهُ أَشْعَثُ عَنْ الْحَسَنِ وَتَابَعَهُ مُوسَى عَنْ مُبَارَكٍ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُخَوِّفُ بِهِمَا عِبَادَهُ
❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یونس بن عبید نے، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وحیات سے ان میں گرہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ عبد الوارث، شعبہ، خالد بن عبداللہ اور حماد بن سلمہ ان سب حافظوں نے یونس سے یہ جملہ کہ “ اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ” بیان نہیں کیا اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو موسیٰ نے مبارک بن فضالہ سے، انہوں نے امام حسن بصری سے روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ ابوبکرہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر مجھ کو خبر دی کہ اللہ تعالی ان کو گرہن کر کے اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اور یونس کے ساتھ اس حدیث کو اشعث بن عبد اللہ نے بھی امام حسن بصری سے روایت کیا۔
❁ تشریح : اس کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے چل کر وصل کیا گو کسوف یا خسوف زمین یا چاند کے حائل ہونے سے ہو جس میں اب کچھ شک نہیں رہا۔ یہاں تک کہ منجمین اور اہل ہیئت خسوف اور کسوف کا ٹھیک وقت اور یہ کہ وہ کس ملک میں کتنا ہوگا پہلے ہی بتا دیتے ہیں اور تجربہ سے وہ بالکل ٹھیک نکلتا ہے، اس میں سرموفرق نہیں ہوتا مگر اس سے حدیث کے مطلب میں کوئی خلل نہیں آیا کیونکہ خدا وند کریم اپنی قدرت اور طاقت دکھلاتا ہے کہ چاند اور سورج کیسے بڑے اور روشن اجرام کو وہ دم بھر میں تاریک کر دیتا ہے۔ اس کی عظمت اورطاقت اور ہیئت سے بندوں کو ہر دم تھرانا چاہیے اور جس نے چاند اور سورج گرہن کے عادی اور حسابی ہونے کا انکار کیا ہے وہ عقلاءکے نزدیک ہنسی کے قابل ہے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
❁ بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي الْكُسُوفِ
❁ باب: سورج گرہن میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ مانگنا
❁ 1049 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ يَهُودِيَّةً جَاءَتْ تَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ لَهَا: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُعَذَّبُ النَّاسُ فِي قُبُورِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ»،
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بن ت عبد الرحمن نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس مانگنے کے لیے آئی اور اس نے دعادی کہ اللہ آپ کو قبر کے عذاب سے بچائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا لوگوں کو قبر میں عذاب ہوگا؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالی کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔
❁ بَاب التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فِي الْكُسُوفِ
❁ باب: سورج گرہن میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ مانگنا
❁ 1050 – ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَجَعَ ضُحًى، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الحُجَرِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ وَانْصَرَفَ، فَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ
❁ ترجمہ : پھر ایک مرتبہ صبح کو ( کہیں جانے کے لیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اس کے بعد سورج گرہن لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے واپس ہوئے اور اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرتے ہوئے ( مسجد میں ) نماز کے لیے کھڑے ہوگئے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ کی اقتدا میں نیت باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت ہی لمبا قیام کیا پھر رکوع بھی بہت طویل کیا، اس کے بعد کھڑے ہوئے اور اب کی دفعہ قیام پھر لمبا کیا لیکن پہلے سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ور اس دفعہ بھی دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور سجدہ میں گئے۔ اب آپ پھر دوبارہ کھڑے ہوئے اور بہت دیر تک قیام کیا لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر ایک لمبا رکوع کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قیام میں اب کی دفعہ بھی بہت دیر تک رہے لیکن پہلے سے کم دیر تک ( چوتھی مرتبہ ) پھر رکوع کیا اور بہت دیر تک رکوع میں رہے لیکن پہلے سے مختصر۔ رکوع سے سراٹھایا تو سجدہ میں چلے گئے آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح نماز پوری کر لی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے جو چاہا آپ نے فرمایا اسی خطبہ میں آپ نے لوگوں کو ہدایت فرمائی کہ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
❁ تشریح : بعض روایتوں میں ہے کہ جب یہود یہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عذاب قبر کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا چلو! قبر کا عذاب یہودیوں کو ہوگا مسلمانوں کا اس سے کیا تعلق لیکن اس یہودیہ کے ذکر پر انہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور آپ نے اس کا حق ہونا بتا یا۔ اسی روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو عذاب قبر سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی اور یہ نماز کسوف کے خطبہ کا واقعہ 9 ھ میں ہوا۔ حدیث کے آخر ی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے اس یہودن کو شاید اپنی کتابوں سے قبر عذاب معلوم ہو گیا ہوگا۔ ابن حبان میں سے کہ آیت کریمہ میں لفظ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ:124 ) اس سے عذاب قبر مرا دہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم کو عذاب قبر کی تحقیق اس وقت ہوئی جب آیت کریمہ حَتّٰی زُرتُمُ المَقَابِرَ ( التکاثر:2 ) نازل ہوئی اسے ترمذی نے روایت کیا ہے اور قتادہ اور ربیع نے آیت سَنُعَذِّبُھُم مَرَّتَینِ ( التوبہ:101 ) کی تفسیر میں کہا کہ ایک عذاب دنیا کا اور دوسرا عذاب قبر کا مراد ہے۔ اب اس حدیث میں جو دوسری رکعت میں دون القیام الاول ہے اس کے مطلب میں اختلاف ہے کہ دوسری رکعت کا قیام اول مراد ہے یا اگلے کل قیام مراد ہیں بعضوں نے کہا چار قیام اور چار رکوع ہیں اور ہر ایک قیام اور رکوع اپنے ما سبق سے کم ہوتا تو ثانی اول سے کم اور ثالث ثانی سے کم اور رابع ثالث سے کم واللہ اعلم۔ یہ جو کسوف کے وقت عذاب قبر سے ڈرایا ا س کی مناسبت یہ ہے کہ جیسے کسوف کے وقت دنیا میں اندھیرا ہو جاتا ہے ایسے ہی گنہگار کی قبر میں جس پر عذاب ہوگا، اندھیرا چھاجائے گا۔ اللہ تعالی پناہ میں رکھے۔ قبر کا عذاب حق ہے، حدیث اور قرآن سے ثابت ہے جو لوگ عذاب قبر سے انکار کر تے ہیں وہ قرآن وحدیث کا انکار کر تے ہیں لہذا ان کو اپنے ایمان کے بارے میں فکرکرنا چاہیے۔
❁ بَابُ طُولِ السُّجُودِ فِي الكُسُوفِ
❁ باب: گرہن کی نماز میں لمبا سجدہ کرنا
❁ 1051 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ لَمَّا كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُودِيَ إِنَّ الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ فَرَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي سَجْدَةٍ ثُمَّ جَلَسَ ثُمَّ جُلِّيَ عَنْ الشَّمْسِ قَالَ وَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مَا سَجَدْتُ سُجُودًا قَطُّ كَانَ أَطْوَلَ مِنْهَا
❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین کوفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان بن عبد الرحمن نے یحییٰ بن ا بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے، ان سے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو اعلان ہوا کہ نماز ہونے والی ہے ( اس نماز میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو رکوع کئے اور پھر دوسری رکعت میں بھی دو رکوع کئے، اس کے بعد آپ بیٹھے رہے ( قعدہ میں ) یہاں تک کہ سورج صاف ہو گیا۔ عبداللہ نے کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے اس سے زیادہ لمبا سجدہ اور کبھی نہیں کیا۔
❁ تشریح : سجدہ میں بندہ اللہ پاک کے بہت ہی زیادہ قریب ہوجاتا ہے، اس لیے اس میں جس قدر خشوع وخضوع کے ساتھ اللہ کو یاد کر لیا جائے اور کچھ بھی اس سے مانگا جائے کم ہے۔ سجدہ میں اس کیفیت کاحصول خوش بختی کی دلیل ہے
❁ بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ جَمَاعَةً وَصَلَّى ابْنُ عَبَّاسٍ لَهُمْ فِي صُفَّةِ زَمْزَمَ وَجَمَعَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ
باب: سورج گرہن کی نماز جماعت کے ساتھ ❁
❁ 1052 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ انْخَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ قِرَاءَةِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدْ تَجَلَّتْ الشَّمْسُ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ ثُمَّ رَأَيْنَاكَ كَعْكَعْتَ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ عُنْقُودًا وَلَوْ أَصَبْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتْ الدُّنْيَا وَأُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَالْيَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ قَالُوا بِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بِكُفْرِهِنَّ قِيلَ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ قَالَ يَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج کو گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ اتنی دیر میں سورہ بقرہ پڑھی جا سکتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع لمبا کیا اور اس کے بعد کھڑے ہوئے تو اب کی مرتبہ بھی قیام بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم پھر ایک دوسرا لمبا رکوع کیاجو پہلے رکوع سے کچھ کم تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے، سجدہ سے اٹھ کر پھر لمبا قیام کیا لیکن پہلے قیام کے مقابلے میں کم لمبا تھا پھر ایک لمبا رکوع کیا۔ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلہ میں کم تھا رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہے اور یہ قیام بھی پہلے سے مختصر تھا۔ پھر ( چوتھا ) رکوع کیا یہ بھی بہت لمبا تھا لیکن پہلے سے کچھ کم۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا اور نماز سے فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ سورج اور چاند دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت وزندگی کی وجہ سے ان میں گرہن نہیں لگتا اس لیے جب تم کو معلوم ہو کہ گرہن لگ گیا ہے تو اللہ تعالی کا ذکر کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے دیکھا کہ ( نماز میں ) اپنی جگہ سے آپ کچھ آگے بڑھے اور پھر اس کے بعد پیچھے ہٹ گئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے جنت دیکھی اور اس کا یک خوشہ توڑنا چاہا تھا اگر میں اسے توڑ سکتا تو تم اسے رہتی دنیا تک کھاتے اور مجھے جہنم بھی دکھائی گئی میں نے اس سے زیادہ بھیانک اور خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے دیکھا اس میں عورتیں زیادہ ہیں۔ کسی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے کفر ( انکار ) کی وجہ سے، پوچھا گیا۔ کیا اللہ تعالی کا کفر ( انکار ) کر تی ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ شوہر کا اور احسان کا کفر کر تی ہیں۔ زندگی بھر تم کسی عورت کے ساتھ حسن سلوک کرو لیکن کبھی اگر کوئی خلاف مزاج بات آگئی تو فوراًیہی کہے گی کہ میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں دیکھی۔
❁ تشریح : یہ حدیث اس سے قبل بھی گزر چکی ہے، دوزخ اور جنت کی تصویریں آپ کو دکھلادیں، اس حدیث میں عورتوں کا بھی ذکر ہے جس میں ان کے کفر سے ناشکری مراد ہے۔ بعضوں نے کہا کہ آپ نے اصل جنت اور دوزخ کو دیکھا کہ پردہ درمیان سے اٹھ گیا یا یہ مراد ہے کہ دوزخ اور جنت کا ایک ایک ٹکڑا بطور نمونہ آپ کو دکھلایا گیا۔ بہر حال یہ عالم بزرخ کی چیز ہے جس طرح حدیث میں آگیا ہمارا ایمان ہے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ جنت کے خوشے کے لیے آپ نے جو فرمایا وہ اس لیے کہ جنت اور نعمائے جنت کے لیے فنا نہیں ہے اس لیے وہ خوشہ اگر آجاتا تو وہ یہاں دنیا کے قائم رہنے تک رہتا مگر یہ عالم دنیا اس کا محل نہیں اس لیے اس کاآپ کو معائنہ کرایا گیا۔ اس روایت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر رکعت میں دو رکوع کرنے کا ذکر ہے جس کے پیش نظر برادران احناف نے بھی بہر حال اپنے مسلک کے خلاف اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے جو قابل تحسین ہے چنا نچہ صاحب تفہیم البخاری کے الفاظ ملاحظہ ہوں آپ فرماتے ہیں اس باب کی تمام احادیث میں قابل غور بات یہ ہے کہ راویوں نے اس پر خاص طور سے زور دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رکعت میں دو رکوع کئے تھے چنا نچہ قیام پھر رکوع پھر قیام پھر رکوع کی کیفیت پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں لیکن سجدہ کا ذکر جب آیا تو صرف اسی پر اکتفا کیا کہ آپ نے سجدہ کیا تھا اس کی کوئی تفصیل نہیں کہ سجدے کتنے تھے کیونکہ راویوں کے پیش نظر اس نماز کے امتیازات کو بیان کرنا ہے اس سے بھی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ رکوع ہر رکعت میں آپ نے دو کئے تھے اور جن میں ایک رکوع کا ذکر ہے ان میں اختصار سے کام لیا گیاہے۔
❁ بَابُ صَلاَةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الكُسُوفِ
باب: سورج گرہن میں عورتوں کا مردوں کے ساتھ ❁
❁ 1053 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا قَالَتْ أَتَيْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا إِلَى السَّمَاءِ وَقَالَتْ سُبْحَانَ اللَّهِ فَقُلْتُ آيَةٌ فَأَشَارَتْ أَيْ نَعَمْ قَالَتْ فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ فَجَعَلْتُ أَصُبُّ فَوْقَ رَأْسِي الْمَاءَ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْ شَيْءٍ كُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوْ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا فَيُقَالُ لَهُ نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُوقِنًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوْ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَتْ أَسْمَاءُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے، انہیں اسماء بن ت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئی۔ اچانک لوگ کھڑے ہو ئے نماز پڑھ رہے تھے اور عائشہ رضی اللہ عنہا بھی نماز میں شریک تھی میں نے پوچھا کہ لوگوں کو بات کیا پیش آئی؟ اس پر آپ نے آسمان کی طرف اشارہ کر کے سبحان اللہ کہا۔ پھر میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ اس کاآپ نے اشارہ سے ہاں میں جواب دیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں بھی کھڑی ہو گئی۔ لیکن مجھے چکر آگیا اس لیے میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ وہ چیزیں جو کہ میں نے پہلے نہیں دیکھی تھیں اب انہیں میں نے اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا۔ جنت اور دوزخ تک میں نے دیکھی اور مجھے وحی کے ذریعہ بتا یاگیا ہے کہ تم قبر میں دجال کے فتنہ کی طرح یا ( یہ کہا کہ ) دجال کے فتنہ کے قریب ایک فتنہ میں مبتلا ہو گے۔ مجھے یاد نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا تھا آپ نے فرمایا کہ تمہیں لایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ اس شخص ( مجھ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں تم کیا جانتے ہو۔ مومن یا یہ کہا کہ یقین کرنے والا ( مجھے یاد نہیں کہ ان دوباتوں میں سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کون سی بات کہی تھی ) تو کہے گا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں آپ نے ہمارے سامنے صحیح راستہ اور اس کے دلائل پیش کئے اور ہم آپ پر ایمان لائے تھے اور آپ کی بات قبو ل کی اور آپ کا اتباع کیا تھا۔ اس پر اس سے کہا جائے گا کہ تو مرد صالح ہے پس آرام سے سو جاؤ ہمیں تو پہلے ہی معلوم تھا کہ تو ایمان و یقین والا ہے۔ منافق یا شک کرنے والا ( مجھے معلوم نہیں کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے کیا کہا تھا ) وہ یہ کہے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں میں نے لوگوں سے ایک بات سنی تھی وہی میں نے بھی کہی ( آگے مجھ کو کچھ حقیقت معلوم نہیں )
❁ تشریح : اس حدیث سے بہت سے امور پر روشنی پڑتی ہے جن میں سے صلوۃ کسوف میں عورت کی شرکت کا مسئلہ بھی ہے اور اس میںعذاب قبر اور امتحان قبر کی تفصیلات بھی شامل ہیں یہ بھی کہ ایمان والے قبر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق اورآپ کی اتباع کا اظہار کریں گے اور بے ایمان لوگ وہاں چکر میں پڑ کر صحیح جواب نہ دے سکیں گے اور دوزخ کے مستحق ہوں گے۔ اللہ ہر مسلمان کو قبر میں ثابت قدمی عطافرمائے ( آمین )
❁ بَابُ مَنْ أَحَبَّ العَتَاقَةَ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج گرہن میں غلام آزاد کرنا
❁ 1054 حَدَّثَنَا رَبِيعُ بْنُ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ لَقَدْ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ
❁ ترجمہ : ہم سے ربیع بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے ہشام سے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے، ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن میں غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا۔
بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ فِي المَسْجِدِ ❁
❁ باب: کسوف کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے
❁ 1055 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ يَهُودِيَّةً جَاءَتْ تَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُعَذَّبُ النَّاسُ فِي قُبُورِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ»
❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یحی بن سعید انصاری سے بیان کیا، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس کچھ مانگنے آئی۔ اس نے کہا کہ آپ کو اللہ تعالی قبر کے عذاب سے بچائے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا قبر میں بھی عذاب ہوگا؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ میں خدا کی اس سے پناہ مانگتا ہوں۔
❁ بَابُ صَلاَةِ الكُسُوفِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: کسوف کی نماز مسجد میں پڑھنی چاہئے
❁ 1056 – ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَكَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَرَجَعَ ضُحًى، فَمَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الحُجَرِ، ثُمَّ قَامَ، فَصَلَّى وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ، فَسَجَدَ سُجُودًا طَوِيلًا، ثُمَّ قَامَ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ القِيَامِ الأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ وَهُوَ دُونَ السُّجُودِ الأَوَّلِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ «أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ القَبْرِ»
❁ ترجمہ : پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت سوار ہوئے ( کہیں جانے کے لیے ) ادھر سورج گرہن لگ گیا اس لیے آپ واپس آگئے، ابھی چاشت کا وقت تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے حجروں سے گزرے اور ( مسجد میں ) کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں صف باندھ کر کھڑے ہوگئے آپ نے قیام بہت لمبا کیا رکوع بھی بہت لمبا کیا پھر رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد دوبارہ لمبا قیام کیا لیکن پہلے سے کم اس کے بعد رکوع بہت لمبا کیا لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم۔ پھر رکوع سے سر اٹھا کر سجدہ میں گئے اور لمبا سجدہ کیا۔ پھر لمبا قیام کیا اور یہ قیام بھی پہلے سے کم تھا۔ پھر لمبا رکوع کیا اگرچہ یہ رکوع بھی پہلے کے مقابلے میں کم تھاپھر آپ رکوع سے کھڑے ہوگئے اور لمبا قیام کیا لیکن یہ قیام پھر پہلے سے کم تھااب ( چوتھا ) رکوع کیا اگر چہ یہ رکوع بھی پہلے رکوع کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر سجدہ کیا بہت لمبا لیکن پہلے سجدہ کے مقابلے میں کم۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو کچھ اللہ تعالی نے چاہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ پھر لوگوں کو سمجھایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگیں۔
❁ تشریح : اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر کا عذاب وثواب بر حق ہے۔ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا۔ اس بارے میں شارحین بخاری لکھتے ہیں:لعظم ھو لہ وایضا فان ظلمۃ الکسوف اذا غمت الشمس تناسب ظلمۃ القبر والشئی یذکر فیخاف من ھذا کما یخاف من ھذا ومما یستنبط منہ انہ یدل علی ان عذاب القبر حق واھل السنۃ مجمعون علی الایمان بہ والتصدیق بہ ولا ینکرہ الامبتدع۔ ( حاشیہ بخاری ) یعنی اس کی ہولناک کیفیت کی وجہ سے آپ نے ایسا فرمایا اوراس لیے بھی کہ سورج گرہن کی کیفیت جب اس کی روشنی غائب ہو جائے قبر کے اندھیرے سے مناسبت رکھتی ہے۔ اسی طرح ایک چیز کا ذکر دوسری چیز کے ذکر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے اوراس سے ڈرایا جاتا ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ قبر کا عذاب حق ہے اور جملہ اہل سنت کا یہ متفقہ عقیدہ ہے جو عذاب قبر کا انکار کرے وہ بدعتی ہے۔ ( انتہیٰ )
❁ بَابٌ: لاَ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ رَوَاهُ أَبُو بَكْرَةَ، وَالمُغِيرَةُ، وَأَبُو مُوسَى، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
❁ باب: سورج گرہن کسی کے پیدا ہونے یا مرنے
❁ 1057 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا فَصَلُّوا
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے اسماعیل بن ابی خالد سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے قیس نے بیان کیا، ان سے ابو مسعود عقبہ بن عامر انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت کی وجہ سے نہیں لگتا البتہ یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں، اس لیے جب تم گرہن دیکھو تو نماز پڑھو۔
❁ بَابٌ: لاَ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ رَوَاهُ أَبُو بَكْرَةَ، وَالمُغِيرَةُ، وَأَبُو مُوسَى، وَابْنُ عَبَّاسٍ، وَابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
❁ باب: سورج گرہن کسی کے پیدا ہونے یا مرنے
❁ 1058 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَهِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِالنَّاسِ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَأَطَالَ الْقِرَاءَةَ وَهِيَ دُونَ قِرَاءَتِهِ الْأُولَى ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ دُونَ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ قَامَ فَصَنَعَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ قَامَ فَقَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ يُرِيهِمَا عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى الصَّلَاةِ
❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری اور ہشام بن عروہ نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں سورج کو گرہن لگا توآپ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں مشغول ہو گئے۔ آپ نے لمبی قرات کی۔ پھر رکوع کیا اور یہ بھی بہت لمبا تھا۔ پھر سر اٹھا یا اور اس مرتبہ بھی دیر تک قرات کی مگر پہلی قرات سے کم۔ اس کے بعد آپ نے ( دوسری مرتبہ ) رکوع کیا بہت لمبا لیکن پہلے کے مقابلہ میں مختصر پھر رکوع سے سراٹھا کرآپ سجدہ میں چلے گئے اور دو سجدے کئے پھر کھڑے ہوئے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا جیسے پہلی رکعت میں کر چکے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ سورج اور چاند میں گرہن کسی کی موت و حیات سے نہیں لگتا۔ البتہ یہ دونوں اللہ تعالی کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنے بندوں کو دکھاتا ہے، اس لیے جب تم انہیں دیکھو توفوراً نماز کے لیے دوڑو۔
❁ بَابُ الذِّكْرِ فِي الكُسُوفِ
باب: سورج گرہن میں اللہ کو یاد کرنا ❁
❁ 1059 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزِعًا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَصَلَّى بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعٍ وَسُجُودٍ رَأَيْتُهُ قَطُّ يَفْعَلُهُ وَقَالَ هَذِهِ الْآيَاتُ الَّتِي يُرْسِلُ اللَّهُ لَا تَكُونُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ وَلَكِنْ يُخَوِّفُ اللَّهُ بِهِ عِبَادَهُ فَإِذَا رَأَيْتُمْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَافْزَعُوا إِلَى ذِكْرِهِ وَدُعَائِهِ وَاسْتِغْفَارِهِ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے، ان سے ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دفعہ سورج گرہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت گھبرا کر اٹھے اس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ قائم ہو جائے۔ آپ نے مسجد میں آکر بہت ہی لمبا قیام لمبا رکوع اور لمبے سجدوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ میں نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح کرتے نہیں دیکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد فرمایا کہ یہ نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی بھیجتا ہے یہ کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں آتیں بلکہ اللہ تعالی ان کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے اس لیے جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو فوراً اللہ تعالی کے ذکر اور اس سے استغفار کی طرف لپکو۔
❁ تشریح : قیامت کی کچھ علامات ہیں جو پہلے ظاہر ہوں گی اور پھر اس کے بعد قیامت برپا ہوگی۔ اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات میں ہی قیامت ہو جانے سے ڈرے حالانکہ اس وقت قیامت کی کوئی علامت نہیں پائی جا سکتی تھی۔ اس لیے اس حدیث کے ٹکڑے کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ آپ اس طرح کھڑے ہوئے جیسے ابھی قیامت آجائے گی گویا اس سے آپ کی خشیت وخوف کی حالت کو بتانا مقصود ہے اللہ تعالی کی نشانیوں کو دیکھ کر ایک خاشع وخاضع کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اگر کبھی گھٹا دیکھتے یا آندھی چل پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت بھی یہی کیفیت ہو جاتی تھی۔ یہ صحیح ہے کہ قیامت کی ابھی علامتیں ظہور پذیر نہیں ہوئی تھیں۔ لیکن جو اللہ تعالی کی شان جلالی وقہاری میں گم ہو تا ہے وہ ایسے مواقع پر غوروفکر سے کام نہیں لے سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جنت کی بشارت دی گئی تھی لیکن آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر حشر میں میرا معاملہ برابرسرابر پر ختم ہو جائے تو میں اسی پر راضی ہوں۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ الغرض بہ نظر غور وتدبر وانصاف اگر دیکھا جائے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا چاند اور سورج گرہن کی حقیقت آپ نے ایسے جامع لفظوں میں بیان فرمادی کہ سائنس کی موجودہ معلومات اور آئندہ کی ساری معلومات اسی ایک جملہ کے اندر مدغم ہو کر رہ گئی ہیں۔ بلا شک وشبہ جملہ اختراعات جدید اور ایجادات موجودہ معلومات سائنسی سب اللہ پاک کی قدرت کی نشانیاں ہیں سب کا اولین موجد وہی ہے جس نے انسان کو ان ایجادات کے لیے ایک بیش قیمت دماغ عطا فرمادیا فتبارک اللہ احسن الخالقین والحمد للہ رب العالمین۔ قال الکرمانی ھذا تمثیل من الراوی کانہ فزع کالخاشی ان یکون القیامۃ والافکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم عالما بان الساعۃ لا تقوم وھو بین اظھرھم وقد وعد اللہ اعلاءدینہ علی الا دیان کلھا ولم یبلغ الکتاب اجلہ یعنی کرمانی نے کہا کہ یہ تمثیل راوی کی طرف سے ہے گویاآپ ایسے گھبرائے جیسے کوئی قیامت کے آنے سے ڈر رہا ہو۔ ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو جانتے تھے کہ آپ کی موجودگی میں قیامت قائم نہیں ہوگی، اللہ نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ قیامت سے پہلے آپ کادین جملہ ادیان پر غالب آکر رہے گا اور آپ کو یہ بھی معلوم تھا کہ ابھی قیامت کے بارے میں اللہ کا نوشتہ اپنے وقت کو نہیں پہنچا ہے واللہ اعلم بالصواب وما علینا الا البلاغ۔
❁ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الخُسُوفِ
❁ باب: سورج گرہن میں دعا کرنا
❁ 1060 – حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عِلاَقَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ المُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ، يَقُولُ: انْكَسَفَتِ الشَّمْسُ يَوْمَ مَاتَ إِبْرَاهِيمُ، فَقَالَ النَّاسُ: انْكَسَفَتْ لِمَوْتِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لاَ يَنْكَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُمَا، فَادْعُوا اللَّهَ وَصَلُّوا حَتَّى يَنْجَلِيَ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید طیالسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے زیاد بن علاقہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ جس دن ابراہیم رضی اللہ عنہ کی موت ہوئی سورج گرہن بھی اسی دن لگا۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ گرہن ابراہیم رضی اللہ عنہ ( آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشان ہیں۔ ان میں گرہن کسی کی موت وحیات کی وجہ سے نہیں لگتا۔ جب اسے دیکھو تو اللہ پاک سے دعا کرو اور نماز پڑھو تا آنکہ سورج صاف ہو جائے۔
❁ بَابُ قَوْلِ الإِمَامِ فِي خُطْبَةِ الكُسُوفِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: گرہن کے خطبہ میں امام کا اما بعد کہنا
❁ 1061 وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ المُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ»
❁ ترجمہ : اور ابو اسامہ نے بیا ن کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے خبر دی، ان سے حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب سورج صاف ہو گیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور آپ نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالی کی شان کے مطابق اس کی تعریف کی اس کے بعد فرمایا “ اما بعد ”
بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ القَمَرِ ❁
❁ باب: چاند گرہن کی نماز پڑھنا
❁ 1062 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ يُونُسَ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْكَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ
❁ ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سورج گرہن لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی تھی۔
❁ تشریح : یہاں یہ اعتراض ہو اہے کہ یہ حدیث ترجمہ باب سے مطابقت نہیں رکھتی اس میں تو چاند کا ذکر تک نہیں ہے اور جواب یہ ہے کہ یہ روایت مختصر ہے اس روایت کی جو آگے آتی ہے اس میں صاف چاند کا ذکر ہے تو مقصود وہی دوسری روایت ہے اور اس کو اس لیے ذکر کردیا کہ معلوم ہو جائے کہ روایت مختصر بھی مروی ہوئی ہے بعضوں نے کہا صحیح بخاری کے ایک نسخہ میں اس حدیث میں یوں ہے انکسف القمر دوسرے ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے اس طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس کو ابن ابی شیبہ نے نکالا اس میں یوں ہے انکسفت الشمس و القمرامام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ ایک حدیث بیان کرکے اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر تے ہیں اور باب کا مطلب اس سے نکالتے ہیں ( وحیدی ) سیرت ابن حبان میں ہے کہ 5ھ میں چاند گرہن بھی ہوا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بھی نماز با جماعت ادا کی تھی۔ معلوم ہو اکہ چاند گرہن اور سورج گرہن ہر دو کا ایک ہی حکم ہے مگر ہمارے محترم برادران احناف چاند گرہن کی نماز کے لیے نماز با جماعت کے قائل نہیں ہیں۔ اس کو تنہا پڑھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ اس باب میں ان کے پاس بجزرائے قیاس کوئی دلیل پختہ نہیں ہے مگر ان کو اس پر اصرار ہے لیکن سنت رسول کے شیدائیوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طور طریقہ ہی سب سے بہتر عمدہ چیز ہے۔ الحمد لللہ علی ذلک
❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي كُسُوفِ القَمَرِ
❁ باب: چاند گرہن کی نماز پڑھنا
❁ 1063 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ خَسَفَتْ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَسْجِدِ وَثَابَ النَّاسُ إِلَيْهِ فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ فَانْجَلَتْ الشَّمْسُ فَقَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَإِنَّهُمَا لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَإِذَا كَانَ ذَاكَ فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ وَذَاكَ أَنَّ ابْنًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ فَقَالَ النَّاسُ فِي ذَاكَ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالورث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے ابوبکرہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن لگا توآپ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے ( بڑی تیزی سے ) مسجد میں پہنچے۔ صحابہ بھی جمع ہو گئے۔ پھر آپ نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی، گرہن بھی ختم ہو گیا۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں اور ان میں گرہن کسی کی موت پر نہیں لگتا اس لیے جب گرہن لگے تو اس وقت تک نماز اور دعا میں مشغول رہو جب تک یہ صاف نہ ہو جائے۔ یہ آپ نے اس لیے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صاحبزادے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ( اسی دن ) ہوئی تھی اور بعض لوگ ان کے متعلق کہنے لگے تھے ( کہ گرہن ان کی موت پر لگا ہے۔ )
❁ تشریح : اس حدیث میں صاف چاند گرہن کا ذکر موجود ہے اور یہی مقصد باب ہے
❁ بَابٌ: الرَّكْعَةُ الأُولَى فِي الكُسُوفِ أَطْوَلُ
❁ باب: امام گرہن کی نماز میں پہلی رکعت لمبی
❁ 1064 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ عَمْرَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي سَجْدَتَيْنِ الْأَوَّلُ الْأَوَّلُ أَطْوَلُ
❁ ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو احمد محمد بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے یحیی بن سعید انصاری نے، ان سے عمرہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گرہن کی دو رکعتوں میں چار رکوع کئے اور پہلی رکعت دوسری رکعت سے لمبی تھی۔
❁ تشریح : سورج اور چاند گرہن میں نماز با جماعت مسنون ہے مگر حنفیہ چاند گرہن میں نماز با جماعت کے قائل نہیں۔ خدا جانے ان کویہ فرق کرنے کی ضرورت کیسے محسوس ہوئی کہ سورج گرہن میں تو نماز با جماعت جائز ہو اور چاند گرہن میں ناجائز۔ اس فرق کے لیے کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے تھی بہر حال خیال اپنااپنا نظر اپنی اپنی۔
❁ بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِي الكُسُوفِ
باب: گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنا ❁
❁ 1065 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ نَمِرٍ، سَمِعَ ابْنَ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، جَهَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلاَةِ الخُسُوفِ بِقِرَاءَتِهِ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَتِهِ كَبَّرَ، فَرَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ مِنَ الرَّكْعَةِ قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ، ثُمَّ يُعَاوِدُ القِرَاءَةَ فِي صَلاَةِ الكُسُوفِ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن سلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدا لرحمن بن نمر نے بیان کیا، انہوں نے ا بن شہاب سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے ( اپنی خالہ ) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرہن کی نماز میں قرات بلند آواز سے کی، قرات سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے گئے جب رکوع سے سر اٹھا یا تو سمع اللہ لمن حمدہ ر بنا ولک الحمد کہا پھر دوبارہ قرات شروع کی۔ غرض گرہن کی دو رکعتوں میں آپ نے چار رکوع اور چار سجدے کئے۔
❁ بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِي الكُسُوفِ
❁ باب: گرہن کی نماز میں بلند آواز سے قرات کرنا
❁ 1066 – وَقَالَ الأَوْزَاعِيُّ، وَغَيْرُهُ، سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الشَّمْسَ خَسَفَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ مُنَادِيًا: بالصَّلاَةُ جَامِعَةٌ، فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فِي رَكْعَتَيْنِ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ، سَمِعَ ابْنَ شِهَابٍ مِثْلَهُ قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَقُلْتُ: مَا صَنَعَ أَخُوكَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ مَا صَلَّى إِلَّا رَكْعَتَيْنِ مِثْلَ الصُّبْحِ، إِذْ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: أَجَلْ إِنَّهُ أَخْطَأَ السُّنَّةَ تَابَعَهُ سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي الجَهْرِ
❁ ترجمہ : اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے عروہ سے اور عروہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں سورج گرہن لگا تو آپ نے ایک آدمی سے اعلان کرا دیا کہ نماز ہونے والی ہے پھر آپ نے دو رکعتیں چار رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ پڑھیں۔ ولید بن مسلم نے بیان کیا کہ مجھے عبد الرحمن بن نمر نے خبر دی اور انہوں نے ا بن شہاب سے سنا، اسی حدیث کی طرح زہری ( ا بن شہاب ) نے بیان کیا کہ اس پر میں نے ( عروہ سے ) پوچھا کہ پھر تمہارے بھائی عبد اللہ بن زبیر نے جب مدینہ میں کسوف کی نماز پڑھائی تو کیوں ایسا کیا کہ جس طرح صبح کی نماز پڑھی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ نماز کسوف بھی انہوں نے پڑھائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں انہوں نے سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی زہری سے روایت کیا، اس میں بھی پکار کر قرات کرنے کا بیان ہے۔
❁ تشریح :یعنی سنت یہ تھی کہ گرہن کی نماز میں ہر رکعت میں دو رکوع کرتے دو قیام مگر عبد اللہ بن زبیر نے جو صبح کی نماز کی طرح اس میں ہر رکعت میں ایک رکوع کیا اور ایک ہی قیام تو یہ ان کی غلطی ہے وہ چوک گئے طریقہ سنت کے خلاف کیا۔ عبد الرحمن بن نمر کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے گو زہری وغیرہ نے اس کوثقہ کہاہے مگر یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف کہا ہے توا مام بخاری نے اس روایت کا ضعف رفع کرنے کے لیے یہ بیان فرما کر کہ عبد الرحمن کی متابعت سلیمان بن کثیر اور سفیان بن حسین نے بھی کی ہے مگر متابعت سے حدیث قوی ہو جاتی ہے۔ حافظ نے کہا کہ ان کے سواعقیل اوراسحاق بن راشد نے بھی عبد الرحمن بن نمرکی متابعت کی ہے۔ سلیمان بن کثیر کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے اور سفیان بن حسین کی روایت کو ترمذی اور طحاوی نے، عقیل کی روایت کو بھی طحاوی رحمہ اللہ نے اور اسحاق بن راشد کی روایت کو دار قطنی نے وصل کیا ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) وقد ورد الجھر فیھا عن علی مرفوعا اخرجہ ابن خزیمۃوغیرہ وبہ قال صاحباابی حنیفۃ واحمد واسحاق وابن خزیمۃ وابن المنذر وغیرھما من الشافعیۃ وابن العربی۔ ( فتح الباری ) یعنی کسوف میں جہری قرات کے بارے میں حضرت علی سے بھی مرفوعا اور موقوفا ابن خزیمہ نے روایت کی ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگرد امام محمد اور امام ابویوسف بھی اسی کے قائل ہیں اور احمد اور اسحاق اور ابن خزیمہ اورابن منذر اورابن عربی وغیرہ بھی جہر کے قائل ہیں۔ واللہ اعلم۔ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ :جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الخسوف بقرائتہ کے ذیل میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں ھذا نص فی ان قرائتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف الشمس کانت جھرا لاسراو ھو یدل علی ان السنۃ فی صلوۃ الکسوف ھی الجھر بالقراءۃ لا الاسرار ویدل لذلک ایضا حدیث اسماءعند البخاری قال الزیلعی فی نصب الرایۃ ص:232ج: 2 ) الحافظ فی الدرایۃ، ص:137 وابن الھمام فی فتح القدیر والعینی فی النھایۃ وللبخاری من حدیث اسماءبنت ابی بکر قالت جھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوۃ الکسوف انتھی ویدل لہ ایضا لہ ما روی ابن خزیمۃ والطحاوی عن علی مرفوعا وموقوفا من الجھر بالقراءۃ فی صلوۃ الکسوف قال الطحاوی بعد روایۃ الحدیث عن علی موقوفا ولو لم یجھر النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین صلی علی معہ لما جھر علی ایضا لانہ علم انہ السنۃ فلم یترک الجھر واللہ اعلم ( مرعاۃ ج:2ص:375 ) یعنی یہ حدیث اس امر پر نص ہے کہ کسوف شمس کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات جہری تھی سری نہ تھی اور یہ دلیل ہے کہ صلوۃ کسوف میں جہری قرات سنت ہے نہ کہ سری اور اس پر حضرت اسماءکی حدیث بھی دلیل ہے۔ زیلعی نے اپنی کتاب نصب الرایہ، ج:2ص: 232 پر اور حافظ نے درایہ، ص:137 پر اور ابن ہمام نے فتح القدیر میں اور عینی نے نہایہ میں لکھا ہے کہ امام بخاری کے لیے حدیث اسماءبنت ابی بکر بھی دلیل ہے جس میں ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسوف کی نماز میں جہری قرات کی تھی اور ابن خزیمہ اور طحاوی میں بھی حضرت علی کی سند سے مرفوعا اور موقوفا ہر دو طرح سے نماز کسوف کی نماز میں قرات کی دلیل موجود ہے۔ حضرت علی کی اس روایت کوذکر فرما کر امام طحاوی نے فرمایا کہ جس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسوف کی نماز ادا کی تھی اس وقت اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہری قرات نہ فرماتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی نماز میں جہری قرات نہ کرتے۔ وہ بلا شک جانتے تھے کہ جہری سنت ہے، اس لیے انہوں نے اسے ترک نہیں کیا اورسنت نبوی کے مطابق جہری قرات کے ساتھ اسے ادا فرمایا۔ اس بارے میں کچھ علماءمتقدمین نے اختلافات بھی کئے ہیں مگر دلائل قویہ کی رو سے ترجیح جہری قرات ہی کو حاصل ہے وقال فی السیل الجرار روایۃ الجھر اصح واکثر راوی الجھر مثبت وھو مقدم علی النافی وتاول بعض الحنفیۃ حدیث عائشۃ بانہ صلی اللہ علیہ وسلم جھر بایۃ او آیتین قال فی البدائع نحمل ذلک علی انہ جھر ببعضھا اتفاقا کما روی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسمع الآیۃ والآیتین فی صلوۃ الظھر احیانا انتھی وھذا تاویل باطل لان عائشۃ کانت تصلی فی حجر تھا قریبا من القبلۃ وکذا اختھا اسماءومن کان کذلک لا یخفی علیہ قراۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فلو کانت قراءتہ سرا وکان یجھر بایۃ او آیتین احیانا کما فعل کذلک فی صلوۃ الظھر لما عبرت عن ذلک بانہ کان جھر بالقراۃ فی صلوۃ الکسوف کما لم یقل احد ممن روی قرائتہ فی صلوۃ الظھر انہ جھر فیھا بالقراۃ حوالہ مذکورہ یعنی سیل جرار میں کہا کہ جہر کی روایت صحیح اوراکثر ہیں اور جہر کی روایت کرنے والا راوی مثبت ہے جو نفی کرنے والے پر اصولا مقدم ہے بعض حنفیہ نے یہ تاویل کی ہے کہ آپ نے بعض آیات کو جہر سے پڑھ دیا تھا جیسا کہ آپ بعض دفعہ ظہر کی نماز میں بھی بعض آیات جہر سے پڑھ دیا کرتے تھے پس حدیث عائشہ میں جہری سے یہی مراد ہے اور یہ تاویل بالکل باطل ہے کیونکہ حضرت عائشہ اوران کی بہن اسماءقبلہ کے قریب اپنے حجروں میں نماز پڑھتی تھیں اور جو ایسا ہو اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرات مخفی رہ سکتی ہے پس اگر آپ کی قرات کسوف کی نماز میں سری ہوتی اور آپ کبھی کبھار کوئی آیت ظہر کی طرح پڑھ دیا کرتے تو عائشہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہ سے جہری قرات سے نہ تعبیر کرتیں جیسا کہ آپ کے نماز ظہر میں بعض آیات کو جہری پڑھ دینے سے کسی نے بھی اس کو جہری قرات پر محمول نہیں کیا۔