Search
Sections
< All Topics
Print

18. Namaz-e-Qasar; [کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ]; Prostration During Recital of Qur’an

✦ کِتَابُ تَقْصِيرِ الصَّلاَةِ ✦ 

کتاب: نماز میں قصر کرنے کا بیان

 


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّقْصِيرِ وَكَمْ يُقِيمُ حَتَّى يَقْصُرَ
❁ باب: نماز میں قصر کرنے کا بیان

❁ 1081 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ فَكَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ حَتَّى رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ قُلْتُ أَقَمْتُمْ بِمَكَّةَ شَيْئًا قَالَ أَقَمْنَا بِهَا عَشْرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی اسحاق نے بیان کیا انہوں نے انس رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم مکہ کے ارادہ سے مدینہ سے نکلے تو برابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ ہم مدینہ واپس آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کا مکہ میں کچھ دن قیام بھی رہا تھا؟ تو اس کا جواب انس رضی اللہ عنہ نے یہ دیا کہ دس دن تک ہم وہاں ٹھہرے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى
❁ باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان

❁ 1082 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ ثُمَّ أَتَمَّهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ منیٰ میں در رکعت ( یعنی چار رکعت والی نمازوں میں ) قصر پڑھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ان کے دور خلافت کے شروع میں دو ہی رکعت پڑھی تھیں۔ لیکن بعد میں آپ رضی اللہ عنہ نے پوری پڑھی تھیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى
❁ باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان

❁ 1083 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَنْبَأَنَا أَبُو إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ قَالَ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آمَنَ مَا كَانَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابو اسحاق نے خبر دی، انہوں نے حارثہ سے سنا اور انہوں نے وہب رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں امن کی حالت میں ہمیں دورکعت نماز پڑھائی تھی۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بِمِنًى
❁ باب: منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان

❁ 1084 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ عَنْ الْأَعْمَشِ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ صَلَّى بِنَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَقِيلَ ذَلِكَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَرْجَعَ ثُمَّ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ وَصَلَّيْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد الرحمن بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہمیں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منیٰ میں چار رکعت نماز پڑھائی تھی لیکن جب اس کا ذکر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پھر کہنے لگے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منی ٰ میں دو رکعت نماز پڑھی ہے اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میں نے دوہی رکعت ہی پڑھی ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی دو رکعت پڑھی تھی کاش میرے حصہ میں ان چار رکعتوں کے بجائے دو مقبول رکعتیں ہوتیں۔

 


❁ تشریح : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی منیٰ میں نماز کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ آپ حضرات حج کے ارادہ سے جاتے اور حج کے ارکان ادا کرتے ہوئے منیٰ میں بھی قیام کیا ہوتا۔ یہاں سفر کی حالت میں ہوتے تھے اس لیے قصر کرتے تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کا ہمیشہ یہی معمول تھا کہ منیٰ میں قصر کرتے تھے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی ابتدائی دور خلافت میں قصر کیا لیکن بعد میں جب پوری چار رکعتیں آپ نے پڑھیں تو ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے اس پر سخت ناگواری کا اظہار فرمایا۔ دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی پوری چار رکعت پڑھنے کا عذر بیان کیا تھا جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔


❁ بَابٌ: كَمْ أَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فِي حَجَّتِهِ؟
❁ باب: حج کے موقعہ پر قیام

❁ 1085 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لِصُبْحِ رَابِعَةٍ يُلَبُّونَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً إِلَّا مَنْ مَعَهُ الْهَدْيُ تَابَعَهُ عَطَاءٌ عَنْ جَابِرٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیا ن کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے ابوالعالیہ براء نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ساتھ لے کر تلبیہ کہتے ہوئے ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کو ( مکہ میں ) تشریف لائے پھر آپ نے فرمایا کہ جن کے پاس ہدی نہیں ہے وہ بجائے حج کے عمرہ کی نیت کر لیں اور عمرہ سے فارغ ہو کر حلال ہوجائیں پھر حج کا احرام باندھیں۔ اس حدیث کی متابعت عطاءنے جابر سے کی ہے۔

 


❁ تشریح : کیونکہ آپ چوتھی ذی الحجہ کو مکہ معظمہ پہنچے تھے اور چودھویں کو مراجعت فرمائے مدینہ ہوئے تو مدت اقامت کل دس دن ہوئی اور مکہ میں صرف چار دن رہنا ہوا باقی ایام منیٰ وغیرہ میں صرف ہوئے اسی لیے امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ جب مسافر کسی مقام میں چار دن سے زیادہ رہنے کی نیت کرے تو پوری نماز پڑھے چار دن تک قصر کرتا رہے اور امام احمد نے کہا اکیس نمازوں تک ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) پچھلی روایت جس میں آپ کا قیام اکیس دن مذکور ہے اس میں یہ قیام فتح مکہ سے متعلق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مغازی میں دوسرے طریق سے اقامت کا مقام مکہ بیان فرمایا ہے جہاں آپ نے انیس دن قیام فرمایا اورآپ نماز قصرکرتے رہے معلوم ہوا کہ قصر کے لیے یہ آخری حد ہے اگر اس سے زیادہ ٹھہرنے کا فیصلہ ہو تو نماز پوری پڑھنی ہوگی اور اگر فیصلہ نہ کر سکے اور تردد میں آج کل آج کل کر تا رہ جائے تو وہ جب تک اس حالت میں ہے قصر کر سکتا ہے جیسا کہ زاد المعاد میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بیان فرمایا :ومنھا انہ صلی اللہ علیہ وسلم اقام بتبوک عشرین یوما یقصر الصلوۃ ولم یقل للامۃ لا یقصر الرجل الصلوۃ اذا قام اکثر من ذلک ولکن انفق اقامتہ ھذہ المدۃ وھذہ الاقامۃ فی حالۃ السفر لا تخرج عن حکم السفر سواءطالت او قصرت اذا کان غیر متوطن ولا عازم علی الاقامۃ بذلک الموضع۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں بیس دن تک مقیم رہے اور نماز قصر فرماتے رہے اور آپ نے امت کے لیے نہیں فرمایا کہ امت میں سے اگر کسی کا اس سے بھی زیادہ کہیں ( حالت سفر میں ) اقامت کا موقعہ آجائے تو وہ قصر نہ کرے۔ ایسا آپ نے کہیں نہیں فرمایا پس جب کوئی شخص سفر میں کسی جگہ بہ حیثیت وطن کے نہ اقامت کرے اور نہ وہاں اقامت کا عزم ہو مگر آج کل میں تردد رہے تو اس کی مدت اقامت کم ہو یا زیادہ وہ بہر حال سفر کے حکم میں ہے اور نماز قصر کر سکتا ہے۔ حافظ نے کہا کہ بعض لوگوں نے احمد سے امام احمد بن حنبل کو سمجھا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ امام احمد نے عبد اللہ بن مبارک سے نہیں سنا ( وحیدی )


❁ بَابٌ: فِي كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ
❁ باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

❁ 1086 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ قَالَ قُلْتُ لِأَبِي أُسَامَةَ حَدَّثَكُمْ عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، انہوں نے ابو اسامہ سے، میں نے پوچھا کہ کیا آپ سے عبیداللہ عمری نے نافع سے یہ حدیث بیان کی تھی کہ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا تھا کہ عورتیں تین دن کا سفر ذی رحم محرم کے بغیر نہ کریں ( ابو اسامہ نے کہا ہاں )

 


❁ تشریح : محرم وہ جن سے عورت کے لیے نکاح حرام ہے اگر ان میں سے کوئی نہ ہو تو عورت کے لیے سفر کرنا جائز نہیں۔ یہاں تین دن کی قید کا مطلب ہے کہ اس مدت پر لفظ کا اطلاق کیا گیا اور ایک دن اوررات کو بھی سفر کہا گیا ہے تقریبا اڑتالیس میل پر اکثر اتفاق ہے کما مر۔


❁ بَابٌ: فِي كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ
❁ باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

❁ 1087 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ ثَلَاثًا إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ تَابَعَهُ أَحْمَدُ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحی ٰ بن سعیدقطان نے، عبید اللہ عمری سے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں نافع نے خبر دی، انہیں ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دی کہ آپ نے فرمایا عورت تین دن کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ کوئی محرم رشتہ دار نہ ہو۔ اس روایت کی متابعت احمد نے ا بن مبارک سے کی ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے ا ور ان سے ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔


❁ بَابٌ: فِي كَمْ يَقْصُرُ الصَّلاَةَ
❁ باب: نماز کتنی مسافت میں قصر کرنی چاہیے

❁ 1088 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْمَقْبُرِيُّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ لَيْسَ مَعَهَا حُرْمَةٌ تَابَعَهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ وَسُهَيْلٌ وَمَالِكٌ عَنْ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے اپنے باپ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی خاتون کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتی ہو، جائز نہیں کہ ایک دن رات کا سفر بغیر کسی ذی رحم محرم کے کرے۔ اس روایت کی متابعت یحییٰ بن ابی کثیر، سہیل اور مالک نے مقبری سے کی۔ وہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : عورت کے لیے پہلی احادیث میں تین دن کے سفر کی ممانعت وارد ہوئی ہے جب کہ اس کے ساتھ کوئی ذی محرم نہ ہو اور اس حدیث میں ایک دن اور ایک رات کی مدت کا ذکر آیا۔ دن سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد لفظ سفرکا کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد بتلانا مقصود ہے یعنی ایک دن رات کی مدت سفر کوشرعی سفر کا ابتدائی حصہ اور تین دن کے سفر کو آخری حصہ قراردیا ہے۔ پھراس سے جس قدر بھی زیادہ ہو پہلے بتلایا جاچکا ہے کہ اہل حدیث کے ہاں قصر کرنا سنت ہے فرض وا جب نہیں ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ قصر اللہ کی طرف کا ایک صدقہ ہے جسے قبول کرنا ہی مناسب ہے۔


❁ بَابُ يَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ وَخَرَجَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: فَقَصَرَ وَهُوَ يَرَى البُيُوتَ، فَلَمَّا رَجَعَ قِيلَ لَهُ هَذِهِ الكُوفَةُ قَالَ: «لاَ حَتَّى نَدْخُلَهَا»
❁ باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی

❁ 1089 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَإِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ الظُّهْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ أَرْبَعًا وَبِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں طہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔

 


❁ تشریح : دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔ کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔ ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔


❁ بَابُ يَقْصُرُ إِذَا خَرَجَ مِنْ مَوْضِعِهِ وَخَرَجَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: فَقَصَرَ وَهُوَ يَرَى البُيُوتَ، فَلَمَّا رَجَعَ قِيلَ لَهُ هَذِهِ الكُوفَةُ قَالَ: «لاَ حَتَّى نَدْخُلَهَا»
❁ باب: جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی

❁ 1090 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ الصَّلَاةُ أَوَّلُ مَا فُرِضَتْ رَكْعَتَيْنِ فَأُقِرَّتْ صَلَاةُ السَّفَرِ وَأُتِمَّتْ صَلَاةُ الْحَضَرِ قَالَ الزُّهْرِيُّ فَقُلْتُ لِعُرْوَةَ مَا بَالُ عَائِشَةَ تُتِمُّ قَالَ تَأَوَّلَتْ مَا تَأَوَّلَ عُثْمَانُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تواپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری ( چار رکعت ) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔

 


❁ تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں۔ اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔ مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔


❁ بَابُ يُصَلِّي المَغْرِبَ ثَلاَثًا فِي السَّ
❁ باب: مغرب کی نماز سفر میں بھی تین رکعت

❁ 1091 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ يُؤَخِّرُ المَغْرِبَ، حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ العِشَاءِ» قَالَ سَالِمٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، زہری سے انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاءایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تو اس طرح کرتے۔


❁ بَابُ يُصَلِّي المَغْرِبَ ثَلاَثًا فِي السَّ
 ❁ باب: مغرب کی نماز سفر میں بھی تین رکعت

❁ 1092 وَزَادَ اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ سَالِمٌ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ قَالَ سَالِمٌ وَأَخَّرَ ابْنُ عُمَرَ الْمَغْرِبَ وَكَانَ اسْتُصْرِخَ عَلَى امْرَأَتِهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ أَبِي عُبَيْدٍ فَقُلْتُ لَهُ الصَّلَاةَ فَقَالَ سِرْ فَقُلْتُ الصَّلَاةَ فَقَالَ سِرْ حَتَّى سَارَ مِيلَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى ثُمَّ قَالَ هَكَذَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ فَيُصَلِّيهَا ثَلَاثًا ثُمَّ يُسَلِّمُ ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ الْعِشَاءَ فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ يُسَلِّمُ وَلَا يُسَبِّحُ بَعْدَ الْعِشَاءِ حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ

 

❁ ترجمہ : لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ا بن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی ( چلتے ہوئے ) میں نے کہا کہ نماز! ( یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے ) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے توآپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میںنے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( منزل مقصود تک ) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھرتھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔


❁ تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں مغرب کی تین رکعت فرض نمازادا کی


❁ بَابُ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ عَلَى الدَّابَّةِ وَحَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ
❁ باب: نفل نماز سواری پر، اگر چہ سواری کا رخ

❁ 1093 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى قَالَ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ بِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر نے اور ان سے ان کے باپ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اونٹنی پر نماز پڑھتے رہتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو۔


❁ تشریح : ثابت ہو اکہ نفل سواری پر درست ہیں اسی طرح وتر بھی۔ امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر سواری پر پڑھنی درست نہیں۔


❁ بَابُ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ عَلَى الدَّابَّةِ وَحَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ
❁ باب: نفل نماز سواری پر، اگر چہ سواری کا رخ

❁ 1094 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي التَّطَوُّعَ وَهُوَ رَاكِبٌ فِي غَيْرِ الْقِبْلَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے کہا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبد الرحمن نے بیان کیا، کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز اپنی اونٹنی پر غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی پڑھتے تھے۔


❁ تشریح : یہ واقعہ غزوہ انمار کا ہے قبلہ وہاں جانے والوں کے لیے بائیں طرف رہتا ہے سواری اونٹ اور ہر جانور کو شامل ہے۔


❁ بَابُ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ عَلَى الدَّابَّةِ وَحَيْثُمَا تَوَجَّهَتْ بِهِ
❁ باب: نفل نماز سواری پر، اگر چہ سواری کا رخ

❁ 1095 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا وَيُخْبِرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نفل نماز سواری پر پڑھتے تھے۔ اسی طرح وتر بھی۔ اور فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے تھے۔


بَابُ الإِيمَاءِ عَلَى الدَّابَّةِ ❁ 
❁ باب: سواری پر اشارے سے نماز پڑھنا

❁ 1096 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي فِي السَّفَرِ عَلَى رَاحِلَتِهِ أَيْنَمَا تَوَجَّهَتْ يُومِئُ وَذَكَرَ عَبْدُ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَفْعَلُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہوتا۔ آپ اشاروں سے نماز پڑھتے۔ آپ کا بیان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔


❁ بَابُ يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ
❁ باب: فرض نماز کے لیے سواری سے اترنا

❁ 1097 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، أَنَّ عَامِرَ بْنَ رَبِيعَةَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الرَّاحِلَةِ يُسَبِّحُ، يُومِئُ بِرَأْسِهِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ، وَلَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِي الصَّلاَةِ المَكْتُوبَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے کہ عامر بن ربیعہ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر نماز نفل پڑھتے دیکھا۔ آپ سر کے اشاروں سے پڑھ رہے تھے اس کا خیال کئے بغیر کہ سواری کا منہ کدھر ہوتا ہے لیکن فرض نمازوں میں آپ اس طرح نہیں کرتے تھے۔


❁ بَابُ يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ
❁ باب: فرض نماز کے لیے سواری سے اترنا

❁ 1098 وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمٌ: «كَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلِّي عَلَى دَابَّتِهِ مِنَ اللَّيْلِ، وَهُوَ مُسَافِرٌ مَا يُبَالِي حَيْثُ مَا كَانَ وَجْهُهُ» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: «وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ، وَيُوتِرُ عَلَيْهَا، غَيْرَ أَنَّهُ لاَ يُصَلِّي عَلَيْهَا المَكْتُوبَةَ

 

❁ ترجمہ : اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ سالم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں رات کے وقت اپنے جانور پر نماز پڑھتے کچھ پرواہ نہ کرتے کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔


❁ تشریح : معلوم ہوا فرض نماز کے لیے جانور سے اترتے کیونکہ وہ سواری پر درست نہیں ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ سواری سے اونٹ گھوڑے، خچر وغیرہ مراد ہیں۔ ریل میں نماز درست ہے۔


❁ بَابُ يَنْزِلُ لِلْمَكْتُوبَةِ
❁ باب: فرض نماز کے لیے سواری سے اترنا

❁ 1099 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبانَ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ الْمَكْتُوبَةَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے یحییٰ سے بیان کیا ان سے محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان نے بیا ن کیا انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور جب فرض پڑھتے تو سواری سے اتر جاتے اور پھر قبلہ کی طرف رخ کر کے پڑھتے۔


❁ تشریح : اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جو سواری اپنے اختیار میں ہو بہر حال اسے روک کر فرض نماز نیچے زمین ہی پر پڑھنی چاہیے۔ ( واللہ اعلم بالصواب


❁ بَابُ صَلاَةِ التَّطَوُّعِ عَلَى الحِمَارِ
❁ باب: نفل نماز سواری پر بیٹھے ہوئے ادا کرنا

❁ 1100 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَبَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ قَالَ اسْتَقْبَلْنَا أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ قَدِمَ مِنْ الشَّأْمِ فَلَقِينَاهُ بِعَيْنِ التَّمْرِ فَرَأَيْتُهُ يُصَلِّي عَلَى حِمَارٍ وَوَجْهُهُ مِنْ ذَا الْجَانِبِ يَعْنِي عَنْ يَسَارِ الْقِبْلَةِ فَقُلْتُ رَأَيْتُكَ تُصَلِّي لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ فَقَالَ لَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ لَمْ أَفْعَلْهُ رَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ حَجَّاجٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن سعید نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے حبان بن ہلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب ( حجاج کی خلیفہ سے شکایت کرکے ) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ا ور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ اس روایت کو ابراہیم ابن طہمان نے بھی حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیاہے۔

 


❁ تشریح : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یوں ہے رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی علی حمار وھو متوجہ الی خیبر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ( نفل نماز ) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔ اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوںسے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے۔ اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا
❁ باب: سفرمیں جس نے سنتوں کو نہیں پڑھا

❁ 1101 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَنَّ حَفْصَ بْنَ عَاصِمٍ حَدَّثَهُ قَالَ سَافَرَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ صَحِبْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أَرَهُ يُسَبِّحُ فِي السَّفَرِ وَقَالَ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن سلیمان کوفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن یزید نے بیان کیا کہ حفص بن عاصم بن عمر نے ان سے بیا ن کیا کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ سفرمیں خالی فرض نماز کی دو رکعتیں ظہر وعصر میں کافی ہیں سنت نہ پڑھنا بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ فِي السَّفَرِ دُبُرَ الصَّلاَةِ وَقَبْلَهَا
❁ باب: سفرمیں جس نے سنتوں کو نہیں پڑھا

❁ 1102 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عِيسَى بْنِ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ صَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ لَا يَزِيدُ فِي السَّفَرِ عَلَى رَكْعَتَيْنِ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ كَذَلِكَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن حفص بن عاصم نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں دو رکعت ( فرض ) سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : دوسری روایت مسلم شریف میں یوں ہے۔صحبت ابن عمر فی طریق مکۃ فصلی بنا الظھررکعتین ثم اقبل واقبلنا معہ حتی جاءرحلہ وجلسنا معہ فحانت منہ التفاتۃ فرای ناساً قیاما فقال ما یصنع ھولاءقلت یسبحون قال لو کنت مسبحا لا تممت ( قسطلانی ) حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں مکہ شریف کے سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ نے ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھائی پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنت پڑھ رہے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر میں سنتیں پڑھوں تو پھر فرض ہی کیوں نہ پورے پڑھ لوں۔ اگلی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کا یہی عمل تھا کہ وہ سفر میں نماز قصر کرتے اور ان دورکعتوں فرض کے علاوہ کوئی سنت نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بہت سے نا واقف بھائیوں کو سفر میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث کے اس عمل پر تعجب کیا کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اظہار نفرت سے بھی نہیں چوکتے، ان لوگوں کو خود اپنی ناواقفی پر افسوس کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ حالت سفر میں جب فرض نماز کو قصر کیا جارہا ہے پھر اس وقت سنت نمازوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔


❁ بَابُ مَنْ تَطَوَّعَ فِي السَّفَرِ، فِي غَيْرِ دُبُرِ الصَّلَوَاتِ وَقَبْلَهَا
❁ فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا

❁ 1103 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: مَا أَخْبَرَنَا أَحَدٌ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:46] صَلَّى الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ ذَكَرَتْ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ اغْتَسَلَ فِي بَيْتِهَا، فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، فَمَا رَأَيْتُهُ صَلَّى صَلاَةً أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ا بن ابی لیلیٰ نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی نے یہ خبرنہیں دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہاں ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر غسل کیا تھا اور اس کے بعد آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے آپ کو کبھی اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ آپ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ تَطَوَّعَ فِي السَّفَرِ، فِي غَيْرِ دُبُرِ الصَّلَوَاتِ وَقَبْلَهَا
❁ فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا

❁ 1104 وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى السُّبْحَةَ بِاللَّيْلِ فِي السَّفَرِ عَلَى ظَهْرِ رَاحِلَتِهِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ بِهِ

 

❁ ترجمہ : اور لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ انہیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) سفر میں نفل نمازیں سواری پر پڑھتے تھے، وہ جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاتی ادھر ہی سہی۔

 


❁ تشریح : اس سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں نفل پڑھنا ثابت ہوا، نیز چاشت کی نماز بھی ثابت ہوئی اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر بھر کوئی کام صرف ایک ہی دفعہ کرنا ثابت ہو تو وہ بھی امت کے لئے سنت ہے اور چاشت کے لئے تو اور بھی ثبوت موجود ہیں۔ حضرت ام ہانی نے صرف اپنے دیکھنے کا حال بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت ام ہانی کو ہروقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔


 ❁ بَابُ مَنْ تَطَوَّعَ فِي السَّفَرِ، فِي غَيْرِ دُبُرِ الصَّلَوَاتِ وَقَبْلَهَا
 ❁ فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا

❁ 1105 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُسَبِّحُ عَلَى ظَهْرِ رَاحِلَتِهِ حَيْثُ كَانَ وَجْهُهُ يُومِئُ بِرَأْسِهِ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو تا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔ قال ابن القیم فی الھدی وکان من ھدیہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر ہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنہ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی سنۃ الصلاۃ قبلھا ولا بعدھا الا ما کان من سنۃ الوتر والفجر فانہ لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ ( نیل الاوطار ) یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔ آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔ پھر علامہ ابن قیم نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔ وقد سئل الاما م احمد عن التطوع فی السفر فقال ارجو ان لا یکون بالتطوع فی السفر باس یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔ پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم فی الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائہ الکاملۃ۔


❁ بَابُ الجَمْعِ فِي السَّفَرِ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ
❁ باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملانا

❁ 1106 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ إِذَا جَدَّ بِهِ السَّيْرُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمرسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواگرسفر میں جلد چلنا منظور ہوتا تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔


❁ بَابُ الجَمْعِ فِي السَّفَرِ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ
❁ باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملانا

❁ 1107 وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنِ الحُسَيْنِ المُعَلِّمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاَةِ الظُّهْرِ وَالعَصْرِ، إِذَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ سَيْرٍ وَيَجْمَعُ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ

 

❁ ترجمہ : اور ابرہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ الجَمْعِ فِي السَّفَرِ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ
❁ باب: سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملانا

❁ 1108 حدثنا وَعَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ صَلاَةِ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ فِي السَّفَرِ» وَتَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ المُبَارَكِ، وَحَرْبٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ حَفْصٍ، عَنْ أَنَسٍ جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : اور ا بن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبید اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے۔ یحییٰ حفص سے اور حفص انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں۔

 


❁ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ جمع کا مسئلہ قصر کے ابواب میں اس لیے لائے کہ جمع بھی گویا ایک طرح کاقصر ہی ہے۔ سفر میں ظہر عصر اور مغرب عشاءکا جمع کرنا اہل حدیث اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور اسحاق سب کے نزدیک جائز ہے خواہ جمع تقدیم کرے یعنی ظہر کے وقت عصر اور مغرب کے وقت عشاءپڑھ لے خواہ جمع تاخیر کرے یعنی عصر کے وقت ظہر اور عشاءکے وقت مغرب بھی پڑھ لے۔ اس بارے میں مزید تفصیل مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو سکتی ہے۔ عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ تبوک اذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل جمع بین الظھر والعصر وان ارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر حتی ینزل للعصر وفی المغرب مثل ذلک اذا غابت الشمس قبل ان یر تحل جمع بن المغرب والعشاءوان ارتحل قبل ان تغیب الشمس اخر المغرب حتی ینزل العشاءثم یجمع بینھما۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وقال ھذا حدیث حسن غریب یعنی معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی دن کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ( جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے ) اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تو ظہر اور عصر ملاکر پڑھتے ( جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ) مغرب میں بھی آپ کا یہی عمل تھا اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہو جاتا تو پھر مغرب کو مؤخر کر کے عشاءکے ساتھ ملاکر ادا کرتے۔ مسلم شریف میں بھی یہ روایت مختصر مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں مطلق سفر کاذکر ہے اور ساتھ ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر الی وقت العصر الحدیث یعنی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمو ل تھا کہ اگر سفرسورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا توآپ ظہر کو عصر میں ملالیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے۔ مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس میں مزید یہ ہے کہ قال سعیدفقلت لابن عباس ما حملہ علی ذلک قال اراد ان لایحرج امتہ ( رواہ مسلم ص:246 ) یعنی سعید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑ جائے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی اور ابن عمر اور انس اور عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ اور ابن عباس اور اسامہ بن زید اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی مرویات ہیں اور امام شافعی اوراحمد اور اسحاق رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کا جمع کرنا خواہ جمع تقدیم ہو یا تاخیر بلاخوف وخطر جائز ہے۔ علامہ نووی نے شرح مسلم میں امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ سفر طویل میں جو48میل ہاشمی پر بولا جاتا ہے جمع تقدیم اور جمع تاخیر ہر دو طورپر جمع کرنا جائز ہے اور چھوٹے سفر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول ہیں اور ان میں بہت صحیح قول یہ ہے کہ جس سفر میں نماز کا قصر کرنا جائز نہیں اس میں جمع بھی جائز نہیں ہے علامہ شوکانی دررالبھیۃ میں فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے جمع تقدیم اورجمع تاخیر ہر دو طور پر جمع کرنا جائز ہے۔ خواہ اذان اور اقامت سے ظہر میں عصر کو ملائے یا عصر کے ساتھ ظہر کو ملائے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشاءپڑھے یا عشاءکے ساتھ مغرب ملائے۔ حنفیہ کے ہاں سفر میں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جسے بخاری اور مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ میں نے مزدلفہ کے سوا کہیں نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں ملاکر ادا کی ہوں۔ اس کا جواب صاحب مسک الختام نے یوں دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہمارے مقصود کے لیے ہرگز مضر نہیں ہے کہ یہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے اس بیان کے خلاف بیا ن دے رہے ہیں جیسا کہ محدث سلام اللہ نے محلّی شرح مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں مسند ابی سے نقل کیا ہے کہ ابو قیس ازدی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے۔ اب ان کے پہلے بیان میں نفی ہے اور اس میں اثبات ہے اور قاعدہ مقررہ کی رو سے نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ان کا پہلا بیان محض نسیان کی وجہ سے ہے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا ان الصلوٰ ۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا ( النساء: 103 ) یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے اس کا جواب یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسراول ہیں۔ اور آپ کے عمل سے نمازمیں جمع ثابت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ جمع بھی وقت موقت ہی میں داخل ہے ورنہ آیت کو اگر مطلق مانا جائے تو پھر مزدلفہ میں بھی جمع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہاں کے جمع پر حنفی، شافعی اور اہل حدیث سب کا اتفاق ہے۔ بہر حال امر ثابت یہی ہے کہ سفر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر ہر دو صورتوں میں جائز ہے۔ وقد روی مسلم عن جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم جمع بین الظھر والعصر بعرفۃ فی وقت الظھر فلو لم یرد من فعلہ الا ھذا لکان ادل دلیل علی جواز جمع التقدیم فی السفر۔ ( قسطلانی ج:2ص:249 ) یعنی امام مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو عرفہ میںظہر کے وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ پس اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی موقع پر صحیح روایت سے جمع ثابت ہوا۔ یہی بہت بڑی دلیل ہے کہ جمع تقدیم سفر میں جائز ہے۔ علامہ قسطلانی نے امام زہری کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سالم سے پوچھا کہ سفر میں ظہر اور عصر کا جمع کرنا کیسا ہے؟انہوں نے فرمایا کہ بلا شک جائز ہے تم دیکھتے نہیں کہ عرفات میں لوگ ظہر اور عصر ملا کر ادا کرتے ہیں۔ پھر علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ جمع تقدیم کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اول والی نماز پڑھی جائے مثلا ظہر وعصرکو ملانا ہے توپہلے ظہر ادا کی جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نیت بھی پہلے ظہر ادا کرنے کی جائے اور یہ بھی ضرور ی ہے کہ ان ہر دو نمازوں کو پے در پے پڑھا جائے درمیان میں کسی سنت راتبہ وغیرہ سے فصل نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نمرہ میں ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تو والی بینھما وترک الرواتب واقام الصلوۃ بینھماورواہ الشیخان آپ نے ان کو ملا کر پڑھا درمیان میں کوئی سنت نماز نہیں پڑھی اور درمیان میں تکبیر کہی۔ اسے بخاری ومسلم نے بھی روایت کیا ہے ( حوالہ مذکور ) ا س بارے میں علامہ شوکانی نے یوں باب منعقد فرمایا ہے باب الجمع باذان واقامتین من غیر تطوع بینھما یعنی نماز کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کرنا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہ ادا کرنا۔ پھر آپ اس بارے میں بطور دلیل حدیث ذیل کو لائے ہیں۔ عن ابن عمران النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی المغرب والعشاءبالمزدلفہ جمیعا کل واحدۃ منھما باقامۃ ولم یسبح بینھما ولا علی اثر واحدۃ منھما۔ ( رواہ البخاری والنسائی ) یعنی حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ مزدلفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءکو الگ الگ اقامت کے ساتھ جمع فرمایا اور نہ آپ نے ان کے درمیان کوئی نفل نماز ادا کی اور نہ ان کے آگے پیچھے۔ جابر کی روایت سے مسلم اوراحمد اور نسائی میں اتنا اور زیادہ ہے ثم اضطجع حتی طلع الفجر پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر ہوگئی۔


❁ بَابٌ: هَلْ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ إِذَا جَمَعَ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ؟
❁ باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے

❁ 1109 – حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ فِي السَّفَرِ، يُؤَخِّرُ صَلاَةَ المَغْرِبِ حَتَّى يَجْمَعَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ العِشَاءِ» قَالَ سَالِمٌ: «وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَفْعَلُهُ إِذَا أَعْجَلَهُ السَّيْرُ وَيُقِيمُ المَغْرِبَ، فَيُصَلِّيهَا ثَلاَثًا، ثُمَّ يُسَلِّمُ، ثُمَّ قَلَّمَا يَلْبَثُ حَتَّى يُقِيمَ العِشَاءَ، فَيُصَلِّيهَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يُسَلِّمُ، وَلاَ يُسَبِّحُ بَيْنَهُمَا بِرَكْعَةٍ، وَلاَ بَعْدَ العِشَاءِ بِسَجْدَةٍ، حَتَّى يَقُومَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے۔ پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے۔ مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے ( اور تہجد ادا کرتے )۔


❁ بَابٌ: هَلْ يُؤَذِّنُ أَوْ يُقِيمُ إِذَا جَمَعَ بَيْنَ المَغْرِبِ وَالعِشَاءِ؟
❁ باب: جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے

❁ 1110 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا حَرْبٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ فِي السَّفَرِ يَعْنِي الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الصمد بن عبد الوارث نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے حرب بن سداد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حفص بن عبید اللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاءکو سفر میں ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابُ يُؤَخِّرُ الظُّهْرَ إِلَى العَصْرِ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ
❁ باب: مسافر جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ

❁ 1111 حَدَّثَنَا حَسَّانُ الْوَاسِطِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ يَجْمَعُ بَيْنَهُمَا وَإِذَا زَاغَتْ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حسان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز عصر تک نہ پڑھتے پھر ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔


❁ بَابُ إِذَا ارْتَحَلَ بَعْدَ مَا زَاغَتِ الشَّمْسُ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ
❁ باب: سفر اگر سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو

❁ 1112 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ارْتَحَلَ قَبْلَ أَنْ تَزِيغَ الشَّمْسُ أَخَّرَ الظُّهْرَ إِلَى وَقْتِ الْعَصْرِ ثُمَّ نَزَلَ فَجَمَعَ بَيْنَهُمَا فَإِنْ زَاغَتْ الشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ يَرْتَحِلَ صَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ رَكِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر عصر کا وقت آنے تک نہ پرھتے۔ پھر کہیں ( راستے میں ) ٹھہر تے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے لیکن اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔


❁ بَابُ صَلاَةِ القَاعِدِ
❁ باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان

❁ 1113 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِهِ وَهُوَ شَاكٍ فَصَلَّى جَالِسًا وَصَلَّى وَرَاءَهُ قَوْمٌ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ اجْلِسُوا فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیما ر تھے اس لیے آپ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، بعض لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔ لیکن آپ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔


❁ بَابُ صَلاَةِ القَاعِدِ
❁ باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان

❁ 1114 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَقَطَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَرَسٍ فَخُدِشَ أَوْ فَجُحِشَ شِقُّهُ الْأَيْمَنُ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ نَعُودُهُ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّى قَاعِدًا فَصَلَّيْنَا قُعُودًا وَقَالَ إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا وَإِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے اور اس کی وجہ سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آگئے۔ ہم مزاج پرسی کے لیے گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی بیٹھ کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا تھا کہ امام اس لیے ہے تا کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا ولک الحمد کہو۔

 


❁ تشریح : ہر دو احادیث میں مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کا حکم پہلے دیا گیا تھا۔ بعد میں آخری نماز مرض الموت میں جو آپ نے پڑھائی اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔


❁ بَابُ صَلاَةِ القَاعِدِ
باب: نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان ❁ 

❁ 1115 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ قَالَ أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَأَلَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ وَكَانَ مَبْسُورًا قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ قَاعِدًا فَقَالَ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں حسین نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن بریدہ نے، انہیں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ( دوسری سند ) اور ہمیں اسحاق بن منصور نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد الصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے باپ عبدالوارث سے سنا، کہا کہ ہم سے حسین نے بیا ن کیا اور ان سے ا بن بریدہ نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ بواسیر کے مریض تھے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے فرمایا کہ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔

 


❁ تشریح : اس حدیث میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر اور لیٹ کر نمازوں کے ثواب میں کیا تفاوت ہے۔ رہی صورت مسئلہ کہ لیٹ کر نماز جائز بھی ہے یا نہیں اس سے کوئی بحث نہیں کی گئی ہے ا س لیے اس حدیث پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ جب لیٹ کر نماز جائز ہی نہیں تو حدیث میں اس پرثواب کا کیسے ذکر ہو رہا ہے؟ مصنف رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث پر جو عنوان لگایا ہے اس کا مقصد اسی اصول کی وضاحت ہے۔ اس کی تفصیلات دوسرے مواقع پر شارع سے خود ثابت ہیں۔ اس لیے عملی حدود میں جواز اور عدم جواز کافیصلہ انہیں تفصیلات کے پیش نظر ہوگا۔ اس باب کی پہلی دو احادیث پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عذر کی وجہ سے مسجد میں نہیں جا سکتے تھے اس لیے آپ نے فرض اپنی قیامگاہ پر ادا کئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوکر عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے انہوں نے بھی اقتداءکی نیت باندھ لی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے آپ نے انہیں منع کیا کہ نفل نماز میں امام کی حالت کے اس طرح خلاف مقتدیوں کے لیے کھڑا ہونا مناسب نہیں ہے۔ ( تفہیم البخاری، پ:5ص:13 ) جو مریض بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ جس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ امام کے ساتھ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا بعد میں منسوخ ہوگیا۔


❁ بَاب صَلَاةِ الْقَاعِدِ بِالْإِيمَاءِ
❁ باب: بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھنا

❁ 1116 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ وَكَانَ رَجُلًا مَبْسُورًا وَقَالَ أَبُو مَعْمَرٍ مَرَّةً عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلَاةِ الرَّجُلِ وَهُوَ قَاعِدٌ فَقَالَ مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ نَائِمًا عِنْدِي مُضْطَجِعًا هَا هُنَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیا ن کیا اور ان سے عبداللہ بن بریدہ نے کہ عمران بن حصین نے جنہیں بواسیر کا مرض تھا۔ اور کبھی ابومعمر نے یوں کہا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے اسے آدھا ثواب ملے گا اور لیٹ کر پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ میں نائم مضطجع کے معنی میں ہے یعنی لیٹ کر نماز پڑھنے والا۔


❁ بَابُ إِذَا لَمْ يُطِقْ قَاعِدًا صَلَّى عَلَى جَنْبٍ
❁ باب: بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ

❁ 1117 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ الْمُكْتِبُ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَتْ بِي بَوَاسِيرُ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے امام عبداللہ بن مبارک نے، ان سے ابراہیم بن طہمان نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حسین مکتب نے ( جو بچوں کو لکھنا سکھاتا تھا ) بیان کیا، ان سے ابن بریدہ نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى قَاعِدًا، ثُمَّ صَحَّ، أَوْ وَجَدَ خِفَّةً، تَمَّمَ مَا بَقِيَ
❁ باب: نماز بیٹھ کر شروع کی پھر نماز میں وہ تندرست

❁ 1118 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا لَمْ تَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي صَلَاةَ اللَّيْلِ قَاعِدًا قَطُّ حَتَّى أَسَنَّ فَكَانَ يَقْرَأُ قَاعِدًا حَتَّى إِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ نَحْوًا مِنْ ثَلَاثِينَ آيَةً أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً ثُمَّ رَكَعَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قرات قرآن نماز میں بیٹھ کر کر تے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریبا تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى قَاعِدًا، ثُمَّ صَحَّ، أَوْ وَجَدَ خِفَّةً، تَمَّمَ مَا بَقِيَ
❁ باب: نماز بیٹھ کر شروع کی پھر نماز میں وہ تندرست

❁ 1119 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ وَأَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي جَالِسًا فَيَقْرَأُ وَهُوَ جَالِسٌ فَإِذَا بَقِيَ مِنْ قِرَاءَتِهِ نَحْوٌ مِنْ ثَلَاثِينَ أَوْ أَرْبَعِينَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهَا وَهُوَ قَائِمٌ ثُمَّ يَرْكَعُ ثُمَّ سَجَدَ يَفْعَلُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ فَإِذَا قَضَى صَلَاتَهُ نَظَرَ فَإِنْ كُنْتُ يَقْظَى تَحَدَّثَ مَعِي وَإِنْ كُنْتُ نَائِمَةً اضْطَجَعَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن یزید اور عمر بن عبید اللہ کے غلام ابوالنضر سے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے، انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھنا چاہتے تو قرات بیٹھ کر کرتے۔ جب تقریبا تیس چالیس آیتیں پڑھنی باقی رہ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ نماز سے فارغ ہونے پر دیکھتے کہ میں جاگ رہی ہوں تو مجھ سے باتیں کرتے لیکن اگر میں سوتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیٹ جاتے۔


Table of Contents