Search
Sections
< All Topics
Print

09. Hazrat Abdullah Bin Jahash (رضی اللہ عنہ)

حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ

( وہ پہلا عظیم صحابی جسے امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا)

 

اب ہم آپ کے سامنے ایک ایسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کا تعارف پیش کر ہے ہیں جنہیں کئی اعتبار سے رسول اللّہ ﷺ کا قرب حاصل تھا اور آپ کا شمار ان صحابہٓ کرام میں ہوتا ہے، جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے۔ آپ رسول اللّہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی تھے۔ یہ اس طرح کہ ان کی والدہ امیمہ بنت عبد المطلب نبی کی رشتہ میں پھوپھی لگتی ہیں اور آپ کو رسول اللّہ ﷺ کا نسبتی بھائی ہونے کا شرف حاصل ہے، کیونکہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہ نبی ﷺ کی زوجہٓ مطہرہ تھیں۔
یہ وہ خوش نصیب شخص ہیں جن کے ہاتھ میں پہلی مرتبہ اسلام کا پرچم تھمایا گیا اور انہیں یہ عظمت بھی حاصل ہے کہ سب سے پہلے انہیں امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا۔ یہ عظیم المرتبت صحابی حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔


نبی ﷺ ابھی خفیہ انداز میں اسلام کی دعوت پیش کرنے کے لئے دار ارقم میں تشریف فرما ہوئے تھے کہ حضرت عبداللہ بن حجش مشرف بہ اسلام ہو گئے، لہٰذا آپ کو اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ایذا رسانیوں کی بنا پر اپنے جان نثار صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو ہجرت کر کے مدینہ منورہ چلے جانے کی اجازت مرحمت فرمائی تو حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ مہاجرین کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھے اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ سرفہرست تھے۔

ہجرت کرنا،یعنی راہ خدا میں اپنا گھر اور وطن چھوڑنا حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے کوئی انوکھی بات نہ تھی۔یہ اور ان کے بعض قریبی رشتہ دار اس سے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے، لیکن اس دفعہ حضرت کا پروگرام پہلے کی نسبت وسیع پیمانے پر تھا۔اس لیے کہ تمام اہل خانہ، عزیز رشتے دار، مرد و زن، بوڑھے جوان ان اور بچے سب ہی اس ہجرت میں آپ کے ہمراہ تھے،کیونکہ یہ پورا گھرانہ ہی مسلمان ہو چکا تھا۔جب یہ خاندان مکہ معظمہ چھوڑ کر سوئے مدینہ روانہ ہوا تو ان کے گھروں میں ویرانی پھیل گئی۔ ایسے معلوم ہو رہا تھا جیسا کہ ان کے گھروں میں کبھی کوئی شخص آباد ہیں نہ ہوا ہو۔اور ایسا ہو کا عالم تھا جیسا کہ ان گروپوں میں کسی نے کبھی کوئی رات ہی بسر نا کی ہو۔

حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کیے ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ان کے سرداران قریش مکہ معظمہ چکر لگانے لگے تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ مسلمانوں سے کن لوگوں نے ہجرت کا راستہ اختیار کیا ہے اور کون کون یہاں آباد ہیں۔ یہ معائنہ کرنے والوں میں ابو جہل اور عتبہ بن ربیعہ بھی تھے۔عتبہ نے بنو حجش کے گھروں کو دیکھا کہ تیز ہوائیں ان میں گردوغبار اڑا رہی ہیں اور دروازے کھڑ کھڑا رہی ہیں اور یہ گھر ویران پڑے اپنے مکینوں کو ترس رہے ہیں۔

ابو جہل نے کہا:
“یہ کیسے لوگ ہیں کہ انہیں اپنے گھروں کی بھی کوئی پروا نہیں۔”
ابو جہل نے تو حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ کے خوبصورت اور عالیشان گھر پر قبضہ جما لیا اور اس میں باقاعدہ رہائش اختیار کر لی۔

جب حضرت عبداللہ بن جحش س رضی اللہ تعالی عنہ کو اس بات کا علم ہوا کہ میرے گھر میں ابوجہل رہائش پذیر ہے تو انہیں بڑا افسوس ہوا۔ رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں اس بات کا تذکرہ کیا۔آپ کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“اے عبداللہ! کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ اللہ جنت میں تیرے لیے ایک خوبصورت گھر بنا دے۔”
عرض کی: کیوں نہیں، یا رسول اللہ ﷺ

آپ نے فرمایا:
“جنت میں تیرا گھر بن چکا ہے”
یہ بات سن کر حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا بہت خوش ہوئے۔


حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا کوئی کے بعد دیگرے دو ہجرتوں کے بعد ابھی مدینہ میں قرار ملا ہی تھا اور قریش کے ہاتھوں بے پناہ اذیت اٹھانے کے بعد انصار کی معاونت و ہمدردی میں ابھی تھوڑی سی راحت محسوس ہوئی تھی کہ اچانک اپنی زندگی کے کٹھن امتحان اور تلخ تجربے سے گزرنا پڑا۔اس تلخ داستان کو ذرا غور سے سنیں۔


پہلی مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے جن آٹھ صحابہ کرام پر مشتمل ایک قافلہ کو فوجی مہم پر روانگی کیلئے تیار کیا،اس نے حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔

آپ نے مجاہدین کے اس قافلہ کو ارشاد فرمایا:
” آج میں تمہارا امیر ایک ایسے شخص کو مقرر کرتا ہوں جو تم میں سب سے زیادہ بھوک پیاس کو برداشت کرنے والا ہے۔”
پھر پرچم حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاتھ میں تھما دیا۔

یہ تاریخ اسلام کی وہ پہلی شخصیت ہیں جنہیں سب سے پہلے اہل اسلام کے ایک فوجی دستے کا امیر مقرر کیا گیا۔


رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا کو اس سفر کے لئے ہدایات دیں اور ایک خط دے کر انہیں مہم پر روانہ کر دیا کہ وہ دو دن کا سفر طے کرنے کے بعد بعد اس خط کو کھولیں۔ جب انہیں سفر میں دو دن گزر گئے تو حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا نے خط کھول کر پڑھا۔ اس میں یہ تحریر تھا۔
“جب تم میرے اس خط کو پڑھو تو آگے چلتے چلے جانا، جب طائف اور مکہ

کے درمیان ایک نخلستان آئے تو وہاں پڑاؤ ڈال دینا اور یہاں بیٹھ کر قریش پر کڑی نگاہ رکھنا اور جو بھی صورتحال ہو ہمیں اس سے آگاہ رکھنا۔”

حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ ﷺ کا خط پڑھ لیا تو اپنے ساتھیوں سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں نخلستان میں پہنچ کر قریش پر کڑی نگاہ رکھوں، اور صورتحال سے آپ کو مسلسل آگاہ کرتا رہا ہوں۔
جو آپ میں سے شہادت کی تمنا رکھتا ہے، وہ میرے ساتھ چلے اور جسے شہادت کا شوق نہیں، وہ بڑی خوشی سے واپس جا سکتا ہے۔ مجھے کسی پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

اس فوجی دستے کے ہر فرد نے یہی کہا:
“رسول اللہ ﷺ کا حکم۔ چشم مار روشن دل ماشاد۔”
“ہم تو آپ کے ساتھ وہیں جائیں گے جہاں پر آپ کو جانے کا حکم دیا گیا ہے۔”

سب مجاہد ساتھ آگے بڑھے۔ یہاں تک کہ نخلستان تک پہنچ گئے اور ہر طرف راستوں میں پھیل گئے تاکہ قریش کی ہر حرکات کا پتہ چلا سکیں۔ گشت کے دوران انہوں نے چار پر مشتمل تاجروں کا ایک قافلہ دیکھا جس میں عمرو بن حضری، حکم بن کیسان، عثمان بن عبداللہ اور مغیرہ شامل تھے اور قریش کا مال تجارت وافر مقدار میں تھا۔

مجاہد آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کریں۔ یہ حرمت کے مہینوں کا آخری دن ہے۔ اگر ہم انہیں قتل کردیں تو یہ حرمت کا مہینہ ہے، اس مہینہ میں کسی کا خون بہانا درست نہیں اور پھر اس سے تمام عربوں میں بے چینی پھیل جائے گی۔ اگر ہم نے انہیں کچھ مہلت دے دی، تو یہ شام تک حرم کی حدود میں داخل ہو جائیں گے اور اس طرح یہ ہم سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

کافی غور و فکر کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں قتل کردیا جائے اور جو کچھ ان کے قبضہ میں ہے، اسے قابو کر لیا جائے۔ یہ فیصلہ کرتے ہی اس تجارتی قافلہ پر حملہ کردیا۔
ان میں سے ایک کو قتل کردیا، دو کو گرفتار کرلیا اور چوتھا بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔


حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ نہ اور ان کے ساتھی دونوں قیدیوں اور سامان سے لدے ہوئے اونٹ ہانک کر مدینہ لے آئے۔ جب یہ قافلہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کی اس کارروائی کو ناپسند کیا۔
اور ان سے کہا:
“میں نے تو آپ کو اس کارروائی کا حکم نہیں دیا تھا۔ میں نے تو تمہیں صرف یہ حکم دیا تھا کہ قریش کی نقل و حرکت پہ نگاہ رکھیں اور ان کی خفیہ کاروائیوں سے ہمیں مطلع کرتے رہیں۔”
دونوں قیدیوں کو تو آپ ﷺ نے اپنے پاس ٹھہرائے رکھا تاکہ ان کے متعلق کوئی مناسب فیصلہ کر سکیں اور سامان میں سے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا۔

رسول اللہ ﷺ کے تیور دیکھ کر حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی حواس باختہ ہوگئے اور انہیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہم تو آپ ﷺ کی حکم عدلی کر کے ہلاک ہوگئے۔

اور مزید تکلیف دہ صورت حال یہ پیدا ہوئی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے بائیکاٹ کردیا، جو بھی سامنے آتا منہ پھیر کر گزر جاتا سب کی زبان پر یہی کلمہ تھا۔ “یہ وہ اشخاص ہیں جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کا حکم نہیں مانا۔”

اس وقت تو ان کی پریشانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ قریش اس واقع کو رسول اللہ ﷺ سے بدلہ لینے کے لیے اپنے حق میں استعمال کر رہے ہیں۔ اور یہ تمام قبائل میں پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ محمد ﷺ نے حرمت کے مہینے کو حلال قرار دے دیا ہے۔ اس میں انہوں نے ناحق خون بہایا، مال چھینا، بے گناہوں کو گرفتار کیا۔
حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھی بے پناہ غم و انداز میں مبتلا ہو گئے اور انہیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ ہم یہ اقدام کر کے بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں۔


ایک دن یہ غم و اندو اور پریشانی کی تصویر بنے بیٹھے تھے کہ اچانک اک شخص نے انہیں مبارکباد دی اور کہا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے تمہیں بری کردیا ہے۔ اللہ تعالی تمہارے اس کارنامے پر راضی ہوگیا اور اس سلسلہ میں اپنے نبی ﷺ پر قرآن نازل کر دیا ہے یہ خبر سن کر بہت خوشی سے اچھل پڑے۔

اور اب یہ حال ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ خوشی سے ان کے گلے مل رہے ہیں اور انہیں مبارکباد دے رہے ہیں اور ان کی آیات کی تلاوت کر رہے ہیں جو ان کے حق میں قرآن مجید میں نازل ہوئی تھیں۔
ان کی بریت کے سلسلہ میں قرآن مجید میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْهِؕ-قُلْ قِتَالٌ فِیْهِ كَبِیْرٌؕ-وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ كُفْرٌۢ بِهٖ وَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِۗ-وَ اِخْرَاجُ اَهْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِؕ○

“آپ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ماں حرام میں لڑنا کیسا ہے۔کہو! اس میں لڑنا بہت برا ہے،لیکن راہ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی برا ہے اور فتنہ خونریزی سے شدید تر ہے۔”

جب یہ آیات کریمہ نازل ہوئی تو رسول اللّہ ﷺ بہت زیادہ خوش ہوئے۔تجارت بطور فدیہ قبضہ میں لے کر قیدیوں کو آزاد کر دیا اور حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی کی۔اسے تاریخ اسلام کا سب سے پہلا معرکہ قرار دیا جاسکتا ہے۔وہ معرکہ ہے جس میں مال غنیمت حاصل کیا گیا۔اسی میں مسلمانوں کے ہاتھوں پہلا مشرک قتل ہوا اور اسی میں سب سے پہلے دو دشمن گرفتار ہوئے۔

اسلامی تاریخ میں یہ پہلا پرچم ہے ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھ مبارک سے تیار کر کے امیر قافلہ کے ہاتھ میں دیا۔ اور حضرت عبداللہ بن حجش وہ عظیم شخصیت ہیں جنہیں پہلی دفعہ امیر المومنین کے لقب سے پکارا گیا۔

حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا ہاں نے میدان بدر میں بھی کار ہائے نمایاں سر انجام دیے لیکن غزوہ احد میں تو آپ نے کمال کر دیا۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ ایک ناقابل فراموش واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ شروع ہوئی تو حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ مجھے ملے اور فرمایا:
“کیا تم اللہ تعالی سے کوئی دعا نہیں کرو گے میں نے عرض کی کیوں نہیں.”


ہم ایک گوشے میں الگ ہو گئے اور میں نے اللہ تعالی کے حضور یہ دعا کی۔
“پروردگار عالم! جب میں دشمن کے سامنے آؤں تو مجھے ایسے شخص سے پنجہ آزمائی کا موقع دینا، جو بڑا بہادر اور جنگجو اور انتہائی غصیل ہو۔میں اس سے لڑو اور وہ مجھ سے لڑے۔پھر مجھے اس پر غلبہ عطا کرنا یہاں تک کہ میں اسے قتل کر دو اور اس کے سارے مال پر قبضہ کر لوں۔”

حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا نے میری دعا پر آمین کہی۔

اللہ تعالی کے حضور خود یہ دعا مانگنے لگے۔

“الہیٰ! مجھے ایسے شخص کے مقابلے کی توفیق عطا فرما ماں جو انتہائی غصیل، بہادر، تجربہ کار اور جنگجو ہو۔ فقط تیری رضا کے لئے میں اس سے لڑو پھر وہ مجھے قابو کرنے میں کامیاب ہو جائے اور میری ناک اور کان کاٹ ڈالے جب میں اسی حالت میں قیامت کے دن تیرے حضور پیش ہو تو آپ کا مجھ سے یہ سوال ہو۔”

“عبداللہ کس لیے تیری ناک اور کان کاٹ دیئے گئے۔”

تو میں تیرے حضور عرض کروں۔

“خدایا تیری رضا کی خاطر۔”
اور آپ کی طرف سے مجھے یہ جواب ملے:

“تو بالکل سچ کہتا ہے۔”

عتبہ بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن جحش کی دعا میری دعا سے بہت بہتر تھی اور اللہ تعالی نے اسے قبول کر لیا۔ میں نے سر شام دیکھا کہ انہیں قتل کر دیا اور دشمنوں نے ان کی ناک اور کان کاٹ کر ایک درخت

کے ساتھ لٹکائے ہوئے ہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالیٰ عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہ کی دعا قبول کرلی اور انہیں شہادت کا شرف عطا کیا۔ جیسا کہ ان کے ماموں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ کی شہادت کا اعزاز بخشا گیا۔

رسول اللہ نے ماموں اور بھانجی کو ایک ہی قبر میں دفن کیا اور آپ کے پاکیزہ ان کی قبر کو سیراب کر رہے تھے اور بھینی بھینی خوشبو پھیل رہی تھی۔


حضرت عبداللہ بن حجش رضی اللہ تعالی عنہا کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

١- الاصابة مترجم ٤٥٧٤
٢- امتاع ا لا سماع۔ ٥٥/١
٣- حليةالاولياء۔ ١٠٨/١
حسن الصحابة۔ ٣٠٠
مجموعة الوثائق السیاسیۃ۔ ٣٠٠

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents