04. Aqeeqah [The ‘Aqiqah and its Rules]
عقیقہ
عقیقہ کے لغوی معنے کاٹنے اور ذبح کرنے کے ہیں، اصطلاحِ شرعی میں نو مولود کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو بکرا یا بکری ذبح کی جائے اسے عقیقہ کہتے ہیں، عقیقہ مسنون ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح اور متواتر روایات سے ثابت ہے۔
1۔ عن سلمان بن عمار الضبّی رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : “مَعَ الْغُلَامِ عَقِیْقَۃٌ، فَأَھْرِیْقُوْا عَنْہُ دَمًا، وَأَمِیْطُوْا عَنْہُ الأَْذٰی”۔
حضرت سلمان بن عمار الضبّی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” لڑکے کے لئے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ، اور اس سے آلائش (سر کے بالوں ) کو دور کرو.”( بخاری:5472)
2۔عن سمرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :
” کُلُّ غُلَامٍ رَھِیْنَۃٌ بِعَقِیْقَتِہِ، تُذْبَحُ عَنْہُ یَوْمَ سَابِعِہِ، وَیُسَمّٰی فِیْہِ وَیُحْلَقُ رَأسُہُ “ (أبوداؤد :2840 حسن )
ترجمہ : سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” ہر بچہ اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے، اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائیگا، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سر منڈوایا جائے گا”۔
3۔ عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم:
أمرہم عَنِ الْغُلَامِ شَأتَانِ مُکَافِئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَأۃٌ “( ترمذی1513:۔صحیح )
أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ذبح کرنے کا حکم دیاہے “۔
4۔ عن أم کرز الکعبیۃ رضی اللّٰہ عنہا، أَنَّہَا سَأَلَتْ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ الْعَقِیْقَۃِ، فَقَالَ :” شَأتَانِ مُکَافَئَتَانِ وَعَن الأنثیٰ وَاحِدَۃٌ، وَلَا یَضُرُّکُمْ ذُکْرَانًا کُنَّ أَوْ إِنَاثًا “
ترجمہ: ام کرز الکعبیۃ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقے کی بابت سوال کیا، تو آپ نے فرمایا :
“لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے،عقیقہ کے جانور چاہے بکرے ہوں یا بکریاں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا”۔
( ابوداؤد:2836 )
5۔عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا أَنَّہَا قَالَتْ :
” عَقَّ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ السَّابِعَ وَسَمَّاہُمَا وَاَمَرَ أَن یُّمَاطَ عَنْ رُؤُسِہِمَا الأَذٰی “[1]
ترجمہ : أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ ساتویں دن کیا اسی دن ان کا نام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں سے بال مونڈ دئے جائیں۔
أبوداؤد باب: ماجاء فی وقت العقیقۃ وحلق الرأس والتسمیۃ ۔ صحیح
عقیقے سے متعلق چند اہم باتیں درجِ ذیل ہیں
1۔ بچوں کا عقیقہ کرنا سنّت ہے، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی متواتر احادیث کے ذریعے قولاً اور عملاً ثابت ہے، جو لوگ عقیقہ نہ کرکے اس کی رقم صدقہ وخیرات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، وہ مخالفِ سنّت عمل کررہے ہیں، اس طرح عقیقہ ادا ہی نہیں ہوتا۔
2۔ ساتویں دن عقیقہ کرنا چاہئے، اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو چودھویں اور اکیسویں دن بھی جائز ہے، جیسا کہ أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ میمونی کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا کہ بچے کا عقیقہ کب کیا جائے ؟ فرمایا :”أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اس تعلق سے فرماتی ہیں : ساتویں، چودھویں اور اکیسویں دن عقیقہ کیا جائے “۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : “اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ساتویں دن کی قید مستحب ہے، اگر کسی نے بچے کی پیدائش کے چوتھے، یا آٹھویں، یا دسویں دن یا اس کے بعد بھی عقیقہ کرتا ہے تو اس کے لئے کافی ہوگا”۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو” تحفۃ المودود بأحکام المولود : لإبن قیّم رحمہ اللّٰہ “۔
3۔ بچے کے عقیقہ کیلئے دو اور بچی کے لئے ایک بکرا یا بکری ضروری ہے۔کچھ علماء نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس استطاعت نہیں ہے تو وہ لڑکے کے عقیقہ میں ایک جانور بھی ذبح کرسکتا ہے، ان کی دلیل سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت ہے کہ : ” أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا”( أبوداؤد:2843 ) ترجمہ :کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے میں ایک ایک دُنبہ ذبح کیا۔
کچھ علماء نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سنن نسائی کی روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح کئے۔
عن عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہما أنہ قال : ” أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشَیْنِ کَبْشَیْنِ”( نسائی) :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے عقیقے میں دو دو دُنبے ذبح کئے۔
4۔ ساتویں دن بچے یا بچی کے سر کے بال (زعفران کے پانی سے تر کر کے) مونڈ دئے جائیں، اور ان بالوں کو چاندی سے وزن کرکے صدقہ اور خیرات کردیا جائے
عن أنس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ :”أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَمَرَ بِحَلْقِ رَأْسِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ یَوْمَ سَابِعِہِمَا،فَحُلِقَا،وَتُصَدِّقَ بِوَزْنِ فِضَّۃٍ ” (ترمذی۔ حاکم۔ بیہقی۔ حدیث صحیح ) ترجمہ : أنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے سر منڈوانے کا حکم دیا، جب وہ مونڈھ دئے گئے تو اسکے وزن کے برابر چاندی صدقہ کردی گئی۔
5۔ مذکورہ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیقہ کے دن ہی نام رکھنا چاہیئے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں کا ساتویں یعنی عقیقہ کے دن نام رکھا، صحیح مسلم کی اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں دن سے پہلے بھی نام رکھا جاسکتا ہے :
عن أنس رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :” وُلِدَ لِیَ الْلَیْلَۃَ غُلَامٌ فَسَمَّیْتُہُ بِإِسْمِ أَبِیْ إِبْرَاہِیْمَ “ ( مسلم:6167 ) ترجمہ : أنس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” گذشتہ رات میں میرے ہاں لڑکا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام پر ابراہیم رکھا “۔
6۔ عقیقہ کا گوشت خود بھی کھائیں اور دوست واحباب، اقارب ورشتہ دار، غرباء و مساکین وغیرہ کو کھلائیں،چاہے بانٹ دیں یا پکا کر کھلائیں، دونوں طرح جائز ہے۔
7۔ لوگوں میں یہ جو مشہور ہے کہ عقیقہ کے جانور کی ہڈیاں نہیں توڑنی چاہیئے، بلکہ انہیں جوڑوں سے کاٹ کر الگ کرنا چاہیئے، اس سلسلے میں تابعین سے کچھ مرسل روایات بھی ذکر کی گئی ہیں، لیکن ان کی کوئی حقیقت نہیں، اس لئے کہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی مرفوع روایت مذکور نہیں ہے۔ اور اس لئے بھی کہ اگر ہڈی کو نہ توڑا گیا تو اس گوشت سے کما حقہ، فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا، اس لئے یہ مرسل روایات حجت اور دلیل نہیں۔
8۔ کئی لوگ گائے کے حصّوں سے عقیقہ ادا کرتے ہیں، مثلاً اگر کسی نے اپنے تین لڑکوں اور ایک لڑکی کا عقیقہ کرنا چاہا، اس نے ایک گائے لے لی اور اس کو اپنے بچوں کی جانب سے عقیقہ میں ذبح کردیا۔ یہ طریقہ جائز نہیں ہے، اس لئے کہ اس کی کوئی سند صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین سے نہیں ملتی، اس لئے بھی کہ ایک فرد
کی جانب سے ایک جانور ( لڑکا ہو تو دو) کا خون بہا نا ضروری ہے اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے، اگر کئی بچوں کے عقیقہ میں ایک خون بہایا جائے تو یہ خون ایک فرد کے جانب سے بہے گا نہ کہ تمام کی جانب سے۔جب کہ اس میں کئی افراد کی جانب سے ایک جانور ذبح کیا جارہا ہے، جیسا کہ قربانی میں کیا جاتا ہے، واضح رہے کہ قربانی کے شرائط اور ہیں اور عقیقے کے احکام الگ ہیں،عقیقہ کو قربانی پرقیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے اور غلط ہے۔
9۔ کیا عقیقے میں بکرا بکری اور مینڈھا مینڈھی کے علاوہ دیگر جانو ر مثلاً اونٹ، گائے وغیرہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ؟ اس بارے میں اختلاف ہے، کچھ لوگوں نے دیگر جانوروں کو بھی ذبح کرنے کو جائز قرار دیا ہے، ان کی دلیل یہ حدیث ہے :
عن سلمان بن عمار الضبّی رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : “مَعَ الْغُلَامِ عَقِیْقَۃٌ، فَأَھْرِیْقُوْاعَنْہُ دَمًا،وَأَمِیْطُوْاعَنْہُ الْأَذٰی” (بخاری :5472 ) ترجمہ : سلمان بن عمار الضبّی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :” لڑکے کے لئے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ، اور اس سے گندگی (سر کے بالوں ) کو دور کرو”۔
وہ کہتے ہیں کہ خون بہانے پر عمل، گائے، اونٹ اور اونٹنی ذبح کرکے بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ دیگر علماء کہتے ہیں کہ سلمان بن عمار رضی اللہ عنہ کی روایت مجمل
ہے، جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت مفصل ہے اور مفصل روایت مجمل سے بہتر ہے اور وہ یہ ہے :
عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہا قالت، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ” عَنِ الْغُلَامِ شَأتَانِ مُکَافِئَتَانِ وَعَنِ الْجَارِیَۃِ شَأۃٌ “(أبوداؤد :2836ترمذی 1513:۔ صحیح )
أم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لڑکے کی جانب سے دو مساوی بکریاں اور لڑکی کیلئے ایک بکری ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف بکرا بکری اور مینڈھا مینڈھی(دنبہ، دنبی) ہی ثابت ہیں، اس کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ لائقِ اعتناء نہیں۔
10۔ جس کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیاجیسا کہ ہندوپاک میں کئی جگہوں پر ہوتا ہے کہ بجائے عقیقے کے، چھٹے دن پر چھٹّی اور چالیسویں دن پر چلّہ کیا جاتا ہے، اگر کسی کو جوان ہونے کے بعد اس کا پتا چلا،یا مذہبی معلومات ہونے کے بعد اس کا احساس ہوا،ایسا شخص اگر عقیقہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ روایات ایسی مروی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا، اور یہ روایت صحیح ہے :
عن الہیثم بن جمیل عن عبد اللّٰہ المثنی عن ثمامۃ عن أنس رضی اللّٰہ عنہ أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَقَّ عَنْ نَفْسِہ“۔[1]
[1] أخرجہ إبن حزم فی”المحلّٰی6۔239)والطحاوی فی”المشکل” (3۔78؍79) قال الحافظ :سندہ قوی ، و ہیثم بن جمیل ثقۃ و عبد اللّٰہ المثنی من رجال البخاری” فتح الباری: 9؍515) ( تحفۃ المودود )
11۔ عقیقے کے جانور کا چمڑا بیچ کر اس کی قیمت صدقہ کردینا چاہیئے، اسی طرح سری پائے وغیرہ بھی صدقہ کردینا چاہئے، قصاب کو ان چیزوں میں سے کوئی چیز بطورِ اجر ت نہیں دینا چاہئے، اگر چمڑے کو اپنے گھریلو استعمال میں لانا چاہے تو جائز ہے.
12۔ اگر کسی بچے کے عقیقے کے دن عیداالأضحیٰ آجائے تو کیا عقیقہ اور قربانی دونوںکی جائے یا بچہ کی جانب سے قربانی ہی اسکے عقیقے کے لئے کافی ہوجائے گی ؟
اس سلسلے میں راجح بات یہی ہے کہ اگر باپ کے پاس استطاعت ہو تو وہ دونوں الگ الگ کرے، قربانی بھی اور عقیقہ بھی، اگر استطاعت نہیں ہے تو پھر بچے کی جانب سے عقیقہ ہی کردے جو إنشاء اللہ اسکی قربانی کے لئے بھی کافی ہوجائے گا۔
13۔عقیقے کا جانور ذبح کرتے ہوئے یہ دعا پڑھیں، جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت میں مروی ہے :
(۱) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنہ قالت : قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ” إِذْبَحُوْا عَلٰی إِسْمِہِ فَقُوْلُوْا : بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُمَّ لَکَ وَإِلَیْکَ ہٰذِہِ عَقِیْقَۃُ فُلَانٍ…… “ [1]
[1] رواہ عبد الرزاق فی”المصنّف330۔4؍7963)وأبو یعلیٰ: 4054۔301 4؍) الحکم :4؍237) البیہقی :9؍304) وصححہ الحاکم ووافقہ الذہبی وصححہ إبن السّکن کما فی التلخیص الحبیرلإبن حجر: 4۔147)
أم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس بچے کے نام پر یہ کہہ کر ذبح کرو : بسم اللہ ( اللہ کے نام سے ) یا اللہ یہ تیرا ہے اور تیری ہی جانب ہے، یہ فلان …… یہاں بچے کانام لیں ……کا عقیقہ ہے”۔
(۲) یا وہ دعا پڑھیں جو عموماً قربانی کے لئے پڑھی جاتی ہے، اس لئے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا :“إِذَا أَرَادَ الرَّجُلُ أَن یَّعُقَّ کَیْفَ یَقُوْلُ ؟ قَالَ : یَقُوْلُ بِسْمِ اللّٰہِ وَیَذْبَحُ عَلَی النِّیَّۃِ کَمَا یُضَحِّیْ بِنِیَّتِہِ، وَیَقُوْلُ : ہٰذِہِ عَقِیْقَۃُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ”۔( تحفۃ المودود: 211۔)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : “اگر کوئی شخص عقیقہ کا جانور ذبح کرنا چاہے
تو کیا کہے ؟ تو آپ نے فرمایا : بسم اللہ کہہ کر نیّت پر ذبح کرے جس طرح کہ وہ قربانی کے لئے کرتا ہے اور کہے : یہ فلان بن فلان کا عقیقہ ہے “۔
عقیقے(اور قربانی )کی دعا یہ ہے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ لَا شَرِیْکَ لَہُ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ اَللّٰہُمَّ مِنْکَ وَلَکَ عَنْ عَقِیْقَۃِ …یہاںپر نام لیں … بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر ذبح کردیں۔
(۳) اگر دل میں عقیقے کی نیت رکھ کر زبان سے الفاظ کو نہ ادا کرتے ہوئے“بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ”کہہ کر ذبح کردیں تب بھی کافی ہے۔
14۔ وہ احکام جو ساتویں دن سے متعلق ہیں، وہ چار ہیں :1) عقیقہ کرنا۔ 2) بال اتارنا۔ 3) نام رکھنا۔ 4) اور لڑکے کے لئے ختنہ کرنا۔
حواله جات :
كتاب : “اولاد كى اسلامى تربيت”
محمد انور محمدقاسم السّلفی