Search
Sections
< All Topics
Print

06. Khatna [Circumcision of the Newly Born Child]

ختنہ

 

ختنہ لغت میں اس زائد چمڑی کو کہتے ہیں جو مرد کے عضوِ تناسل کے سر پر رہتی ہے اس زائد چمڑی کو کاٹ دینے سے نظافت اور پاکیزگی کا اہتمام ہوتا ہے، اس لئے کہ پیشاب، منی وغیرہ جب اس چمڑی میں رہ جائے تو گندگی اور بدبو پیدا کرتے ہیں، جس کے سبب انسان ذَکر کے کینسر کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔ اسلام دین ودنیا کی پاکیزگی کی تعلیم دیتا ہے، اس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں، یہ الگ بات ہے کہ اس کے احکام کی بہت سی مصلحتوں تک انسانی ذہن کی رسائی نہیں ہوسکی، ختنہ کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت ہے، جیسا کہ روایت ہے :

 

عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :” إِخْتَتَنَ ابراہیم علیہ السلام وَہُوَ إِبْنُ ثَمَانِیْنَ سَنَۃً بِالقُدُوْمِ”(بخاری : 3356مسلم :6290)

 

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسّی سال کی عمر میں (بحکمِ الٰہی) استرے سے اپنا ختنہ کرلیا”۔

چونکہ اللہ تعالی نے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملّت ابراہیمی کی پیروی کا حکم دیا ہے ﴿ ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرَاہِیْمَ حَنِیْفًا﴾ (النحل : 123) ہم نے آپکی جانب وحی کی کہ آپ یکسو ہو کر ملّتِ ابراہیمی کی پیروی کریں۔

اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ختنہ کا حکم دیا بلکہ عملًا امّت کو اس کی تاکید فرمائی اور اسے انسانی فطرت میں سے ایک قرار دیا :

عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :

“أَلْفِطْرَۃُ خَمْسٌ أَلْخِتَانُ،وَالْإِسْتِحْدَادُ، وَقَصُّ الشَّارِبِ،وَتَقْلِیْمُ الْأَظَافِرِوَنَتْفُ الْإِبِط ِ “ (بخاری:5889مسلم :620 )

 

پانچ باتیں انسانی فطرت میں سے ہیں : 1) ختنہ کرنا 2) زیر ناف کے بال مونڈھنا 3) مونچھ کتروانا 4) ناخن تراشنا رضی اللہ عنہ ) اور بغل کے بال اکھاڑنا۔ اور دوسری روایت میں ہے :

عن عمّار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم :”مِنَ الْفِطْرَۃِ:
اَلْمَضْمَضَۃُوَالْإِسْتَنْشَاقُ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَالسِّوَاکُ وَتَقْلِیْمُ الْأَظَافِرِ وَنَتْفُ الْإِبِطِ وَالْإِسْتِحْدَادُ وَالْإِخْتِتَانُ”(إبن ماجہ294:)

 

عمّار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تمام باتیں فطرت میں داخل ہیں :

1) کُلّی کرنا۔ 2) ناک میں پانی چڑھانا۔3) مونچھ کتروانا۔ 4) مسواک کرنا۔ 5) ناخن تراشنا۔ 6 )بغل کے بال اکھاڑنا۔7 ) زیر ناف کے بال مونڈھنا۔8 ) ختنہ کرنا۔

 

ختنہ کس عمر میں کیا جائے اس بارے میں علماء میں اختلاف ہے، صحیح بات یہی ہے کہ اگر لڑکا صحت مند اور تندرست ہو تو عقیقے کے دن ہی ختنہ کردینا چاہیئے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کا کیا :

 

عن جابر رضی اللّٰہ عنہ قال : عَقَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ، وَخَتَنَہُمَا لِسَبْعَۃِ أَیَّامٍ “

 

 ترجمہ : رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما کا عقیقہ اور ختنہ ساتویں دن کیا۔

 

 صحیح۔رواہ أبوداؤد :کتاب الأضاحی ؍باب فی العقیقۃ ۔ والنسائی :کتاب العقیقۃ ؍ باب کم یعقّ من الجاریۃ۔

” وَخَتَنَہُمَ ا لِسَبْعَۃِ أَیَّامٍ”کے یہ الفاظ نہ أبوداؤد کے ہیں نہ نسائی کے ، بلکہ طبرانی کے ہیں اور ان الفاظ کو سوائے ولید بن مسلم کے اور کسی نے روایت نہیں کیا۔

( المعجم الصغیر للطبرانی : 2؍122)

 

اگر بچے کی صحت ٹھیک نہیں ہے اور وہ کمزور ہے تو اس کے صحت مند اور طاقتور ہوجانے کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے، علماء نے زیادہ سے زیادہ ختنہ کی عمر دس سال ذکر کی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ دس سال تک انتظار کیا جائے، بلکہ ممکن حد تک اس معاملے میں جلدی کرنی چاہیئے اور بچے کو گندگی و بدبو سے نجات دلانی چاہئے۔ بہت سے لوگ بچّے کے ختنہ کے دن دعوتیں کرتے اور جشن مناتے اور فضول خرچی کرتے ہیں، اس طرح کی دعوتوں کا کوئی ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہیں ملتا، ہاں تابعین اور تبع تابعین کے دورمیں بعض بزرگوں سے ان دعوتوں کا ثبوت ملتا ہے،اور یہ دعوتیں عادات اور تقالید عرب میں ایک ہیں،اسلئے ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے، اس لئے رسم ورواج کے طور پر ہونے والی ان دعوتوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔ہاں اگر کوئی صرف دعوت کرتا ہے، اور دیگر خرافات سے اجتناب کرتا ہے تو شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ إمام أہل سنت، احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ ختنہ کی دعوت میں شریک ہوتے تھے، کیونکہ اسطرح کی دعوتیں رسم ورواج سے متعلق ہیں، جیسا کہ آج بھی عرب میں گھر بنانے، سفر سے واپسی، بیماری سے صحت یابی وغیرہ پر دعوتوں کا عام رواج ہے۔ اگر ان دعوتوں میں کوئی غیر شرعی کام نہیں ہوتا تو شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن آج کل ہر جاہل مفتیٔ عام بنا ہوا ہے، وہ حلال حرام کے فتوے اپنے مونہہ میں، جیب میں رکھتے ہیں اور ہر مسئلہ جو لوگ ان دعوتوں کو حرام اور ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ وہ بلا دلیل اپنی خواہشات کو لوگوں پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح کے فتوؤں سے ہر مسلمان کو دور رہنا چاہئے۔



حواله جات : 

كتاب :  “اولاد كى اسلامى تربيت”
محمد انور محمدقاسم السّلفی

 

 

Table of Contents