Search
Sections
< All Topics
Print

22. Imam Tirmidhi [Sunan/Jamia][D: 275]

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ

امام ترمذی کا پورا نام محمد بن عیسیٰ بن سورۃ بن موسیٰ ہے. کنیت ابو عیسٰی اور وطن کی نسبت “بوغی” اور “ترمذی” ہے. علامہ بقاعی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ کے آباءواجداد شہر “مرہ” کے باشندے تھے. پھر خراسان کے شہر “ترمذ” میں منتقل ہوگئے، جو دریائے جیحون کے کنارے ایک مشہور شہر تھا. اس شہر سے بڑے بڑے علماءومحدثین پیدا ہوئے. اس لئے اس کو “مدینۃ الرجال” کہا جاتا ہے. اس شہر سے چند فرسخ کے فاصلہ پر “بوغ” نامی قصبہ آباد تھا. امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ اسی قصبہ میں پیدا ہوئے. اس لئے ان کو “بوغی” بھی کہتے ہیں اور “ترمذی” بھی. لیکن چونکہ “بوغ” ترمذ کے مضافات میں واقع تھا اس لئے ترمذی کی نسبت زیادہ مشہور ہوئی.

لفظ ترمذ کے ضبط میں کئی اقوال ہیں.

١.ضم الأول والثالث یعنی تُرْمُذْ.
۲. فتح الأول و کسر الثالث یعنی تَرْمِذْ
٣.فتحہما یعنی تَرْمَذْ.
٤. کسرہما یعنی تِرْمِذْ اور یہ آخری قول زیادہ معروف و مقبول ہے .

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا سن پیدائش ٢٠٩ ہجری اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ٢٠٠ہجری ہے. لیکن پہلا قول زیادہ راجح ہے. آپ کی وفات بالاتفاق ٢٧٩ ہجری میں ہوئی. حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے ایک مصرعہ میں ان کی تاریخ وفات جمع کی ہے:

عطر مداہ و عمرہ فی عین (ع)
             ٧٠​ – ۲٧۹
اس میں عطر کے اعداد دو سو اناسی ہوتے ہیں،جو انکی تاریخ وفات ہے اور ع سکا عدد ٧٠ ہے جو انکی کل مدت عمر ہے.
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے اپنے وطن میں رہ کر علم حاصل کیا. اس کے بعد طلب علم کے لئے حجاز، مصر، شام، کوفہ، خراسان اور بغداد وغیرہ کے سفر بھی کئے اور اپنے وقت کے بڑے بڑے شیوخ حدیث سے علم حاصل کیا. جن میں امام بخاری رحمہ اللہ،امام مسلم رحمہ اللہ، امام ابو داؤد سجستانی،احمد بن منیع، محمد بن المثنی، محمد بن بشار، ہناد بن السری، قتیبہ بن سعید، محمود بن غیلان، اسحٰق بن موسیٰ الانصاری جیسے جلیل القدر محدثین شامل ہیں اور ان کے علاوہ بھی سینکڑوں محدثین سے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے علم حاصل کیا.

تمام اساتذہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کی بہت قدر کیا کرتے تھے. امام بخاری رحمہ اللہ کو تو آپ سے بہت ہی تعلق تھا. بعض روایات میں ہے کہ ایک موقع پر امام بخاری رحمہ اللہ نے امام ترمذی سے فرمایا ” ما انتفعت بک اکثر مما انتفعت بی”……

 حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اسکی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر شاگرد ذہین اور ذی استعداد ہو تو استاذ اسے پڑھانے میں زیادہ محنت کرتا ہے. جس سے خود استاد کو فوائد پہنچتے ہیں.

اس کے علاوہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ وہ بعض احادیث میں اپنے استاذ امام بخاری رحمہ اللہ کے بھی استاذ ہیں. یعنی چند حدیثیں خود امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے سنی ہیں. چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جامع میں ایسی دو حدیثوں کے بارے میں تصریح کی ہے کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مجھ سے سنی تھیں. ایک حدیث یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا ” لا یحل (1) لاحد ان یتجنب فی ھذا المسجد غیری و غیرک”

 امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرمایا ” وقد سمع محمد بن اسمٰعیل منی ھٰذا الحدیث واستغر بہ” اس طرح کتاب التفسير میں سورہ حشر کی تفسیر کے تحت ایک حدیث آئی ہے. وہاں بھی امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نے اسی قسم کی تشریح فرمائی ہے.

امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے اور اس سلسلہ میں آپ کے کئی واقعات مشہور ہیں. چنانچہ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ نے “بستان المحدثین” میں ان کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کو کسی شیخ سے احادیث کے وہ صحیفے اجازۃ پہنچے تھے. ایک مرتبہ وہ سفر میں تھے کہ راستہ میں کسی منزل پر ان شیخ سے ملاقات ہوئی. امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے چاہا کہ جو صحیفے ان کے پاس اجازۃ پہنچے ہیں، ان کی قرآت شیخ سے حاصل کرلیں. چنانچہ شیخ سے ان اجزا کی قرآت کی درخواست کی. شیخ نے درخواست منظور فرمالی اور کہا وہ اجزا لے آؤ. امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے محمل جاکر ان اجزا کو اپنے سامان میں تلاش کیا تو وہ نہ مل سکے اور پتہ چلا کہ وہ جزو تو گھر پر رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ سادے کاغذ رکھے ہوئے ہیں. بڑے پریشان ہوئے، پھر یہ ترکیب کی کہ وہی سادہ کاغذ لے کر شیخ کی خدمت میں پہنچ گئے. شیخ نے احادیث پڑھنا شروع کردیں اور امام ترمذی سادہ کاغذ پر نظر جمائے یہ ظاہر کرتے رہے کہ لکھے ہوئے اجزاء کا شیخ کی قرإت سے موازنہ کر رہے ہیں. اچانک شیخ کی نظر سادہ کاغذ پر پڑی تو شیخ نے ناراض ہو کر فرمایا ” اما تستحی منی؟ ” اس موقع پر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے پورا واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ آپ نے جتنی احادیث سنائی ہیں وہ سب کی سب مجھے یاد ہو گئی ہیں.

شیخ نے سنانے کا مطالبہ کیا تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے من و عن تمام احادیث سنا دیں. شیخ نے فرمایا “لعلک استظھرتھا من قبل” امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ آپ مجھے انکے علاوہ کچھ اور احادیث سنائیں. چنانچہ شیخ نے مزید چالیس احادیث سنائیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فوراًوہ من وعن دہرادیں. شیخ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا “مارأیت مثلک”

امام ترمذی کا ایک اور واقعہ مشہور ہے جو اب تک کسی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا، لیکن اپنے متعدد مشائخ سے سنا ہے، اور وہ یہ کہ امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ نابینا ہونے کے بعد ایک مرتبہ اونٹ پر سوار ہو کر حج کو تشریف لے جارہے تھے. راستہ میں ایک مقام پر انہوں نے چلتے چلتے اپنا سر جھکا لیا اور دیگر رفقاء کو بھی ایسا کرنے کی ھدایت دی. رفقاء نے حیران ہو کر اسکی وجہ پوچھی تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہاں کوئی درخت نہیں ہے؟ ساتھیوں نے انکار کیا. تو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے گھبرا کر قافلہ کو روکنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اسکی تحقیق کرو، مجھے یاد ہے کہ عرصہ دراز پہلے جب میں یہاں سے گزرا تھا اس جگہ ایک درخت تھا. جس کی شاخیں بہت جھکی ہوئی تھیں اور جو مسافروں کے لیے بڑی پریشانی کا باعث تھا اور سر جھکائے بغیر اس کے نیچے سے گزرنا نا ممکن نہ تھا. شاید اب وہ درخت کسی نے کاٹ دیا ہے. اگر واقعہ ایسا نہیں ہے اور یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہاں درخت نہیں تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا حافظہ کمزور ہو چکا ہے. لہذا میں روایت حدیث کو ترک کر دوں گا. لوگوں نے اتر کر آس پاس کے لوگوں سے تحقیق کی تو لوگوں نے بتایا کہ واقعتاً یہاں ایک درخت تھا، چونکہ وہ مسافروں کی پریشانی کا باعث تھا اس لیے اب اسے کٹوادیا گیا ہے.

حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ “اکمہ” یعنی مادرزاد نابینا تھے. لیکن حضرت شاہ صاحب رحمتہ اللہ وغیرہ نے فرمایا کہ یہ قول درست نہیں، بلکہ وہ شروع میں نابینا نہ تھے، جیسا کہ انکے بعض واقعات سے معلوم ہوتا ہے. ہاں آخری عمر میں خشیت الہی کے غلبہ کی وجہ سے بہت روتے تھے، جس کی وجہ سے بینائی جاتی رہی.

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت “ابو عیسٰی” ہے اور وہ اسی کنیت سے “جامع ترمذی” میں اپنے اقوال ذکر کرتے ہیں، لیکن اس میں کلام ہوا ہے کہ یہ کنیت رکھنا کہاں تک جائز ہے. مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ میں ایک روایت ہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول ہے کہ آپ نے ابو عیسٰی کنیت رکھنے سے منع فرمایا، جس کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بیان فرمائی کہ عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا اور اس کنیت سے فسادِ عقیدہ کا شبہ ہوتا ہے. اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کنیت کیوں اختیار کی؟ اس کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں. بعض حضرات نے فرمایا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کو ممانعت والی حدیث پہنچی نہیں ہوگی. لیکن یہ بات بہت مستبعد ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جیسے حافظ حدیث سے ایسی معروف حدیث پوشیدہ رہ گئی ہو. اس لیے بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ ممانعت خلاف اولی پر محمول ہے نہ کہ تحریم پر. لیکن اس پر بھی شبہ ہوتا ہے کہ اہل تقویٰ کے نزدیک ناجائز اور خلاف اولی دونوں قسم کے افعال متروک ہونے میں برابر ہوتے ہیں اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ورع و تقویٰ کے جس مقام پر تھے، اس سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے بلاوجہ اس خلاف اولی کا ارتکاب کیا ہو، بعض لوگوں نے یہ بھی جواب دیا ہے کہ نہی تنز یہی ہے، اس لیے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا. لیکن یہ بات بھی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے ورع و تقویٰ سے بعید ہے. اس لیے سب سے بہتر جواب یہ ہے کہ اس مسئلہ پر امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے اور اس میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ انہوں نے اپنی کنیت ابو عیسٰی رکھی تھی. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا تو حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے یہ کنیت حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں اختیار کی تھی. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کا علم تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی.

اس حدیث کی بناء پر امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہوگا کہ یہ کنیت رکھنا ابتدائے اسلام میں فسادِ عقیدت سے بچنے کے لیے ممنوع تھا، گویا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی ممانعت والی حدیث اسلام کے ابتدائی دور پر محمول ہے. پھر اسلامی عقائد کے راسخ ہوجانے کے بعد یہ ممانعت بھی ختم ہوگئی. چنانچہ جواز کا حکم حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوا.

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ان کے معاصرین اور بعد کے علماء نے زبردست توصیفی کلمات ارشاد فرمائے ہیں، جو صاحب “تحفۃ الاحوذی” نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ذکر کئے ہیں.

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی تین کتب آج تک ان کی یادگار چلی آرہی ہیں. ایک “جامع ترمذی” دوسری کتاب “کتاب الشمائل” اور تیسری کتاب “العلل”. اس کے علاوہ ابن ندیم رحمۃ اللہ علیہ نے “فہرست” میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب “تاریخ” بھی لکھی تھی اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے “البدایہ والنہایہ” میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ کے تحت ان کی ایک تفسیر کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن ان کی یہ تفسیر اور تاریخ اب نایاب ہیں.

یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ “ترمذی” کے نام سے تین بزرگ معروف ہیں. ایک ابو عیسٰی محمد بن عیسیٰ الترمذی صاحب الجامع میں جن کا تذکرہ اوپر کیا گیا. دوسرے ابو الحسین محمد بن الحسين الترمذی، یہ بھی جلیل القدر محدثین میں سے ہیں اور بخاری میں انکی ایک روایت موجود ہے. تیسرے امام حکیم ترمذی رحمۃ اللہ علیہ جو صوفی اور مؤذن تھے. اور جن کی کتاب ” نوادرالاصول” کا تذکرہ پیچھے گزرا کہ وہ زیادہ تر احادیث ضعیفہ پر مشتمل ہے. واللہ اعلم

جامع ترمذی اور اس کی خصوصیات:

امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی جامع ترمذی معروف اور غیر مختلف فیہ کتاب ہے. اسے پوری امت نے باتفاق صحاح ستہ میں شامل سمجھا ہے. حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے ” جامع ترمذی” تالیف کرنے کے بعد اسے خراسان، حجاز، مصر اور شام کے علماء کے پاس پیش کیا، جب ان تمام علماء نے اسے پسند کیا اور اس کی تحسین کی، تب ان کی عمومی اشاعت فرمائی اور خود امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :

” من کان عندہ ھذا الکتاب الجامع فکان عندہ نبیا یتکلم”

١.اس کتاب میں بعض ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو کسی اور کتاب کو حاصل نہیں

۲. یہ کتاب بیک وقت جامع بھی ہے اور سنن بھی، اس لیے کہ اسے فقہی ترتیب پر مرتب کیا گیا ہے.
اس کتاب میں احادیث کا تکرار نہیں
  ​٣. اس میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے تمام فقہاء کے بنیادی مستدلات کو جمع کیا ہے اور ہر ایک کے لیے جدا باب قائم کیا ہے
٤. ہر باب میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے فقہاء کے مذاہب بالالتزام بیان کیے ہیں، جن کی وجہ سے یہ کتاب حدیث کے ساتھ فقہ کا بھی قابل قدر ذخیرہ بن گئی ہے.
 ٥. امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ہر حدیث کے بارے میں اس کا درجہ استناد بھی بناتے ہیں اور سند کی کمزوریوں کی تفصیل کے ساتھ نشاندہی کرتے ہیں
٦.ہر باب میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ ایک یا دو تین احادیث بیان کرتے ہیں اور ان احادیث کا انتخاب کرتے ہیں جو عموماً دوسرے آئمہ نے نہیں نکالیں لیکن ساتھ ہی “وفی الباب عن فلان و فلان” کہہ کر ان احادیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو اس باب میں آسکتی ہیں. چنانچہ بہت سے علماء نے صرف امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی “و فی الباب” کی تخریج پر مستقل کتابیں لکھی ہیں.

حوالہ :
نام كتاب : “جَامع تِرمزِیْ”  اردو
ترجمه :  ‘ مولانا فضل احمد صاحب’

Table of Contents