QOUM QABEELE SE MOHABBAT AUR NAFRAT KE SHARA’I USUL-O-ZAWABIT
قوم قبیلے سے محبت اور نفرت کے شرعی اصول و ضوابط
تحریر: فضیلة الشیخ ابوعمير حفظہ اللہ
اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری
مدرس مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث گھمن آباد۔
اپنے وطن قوم قبیلے اور خاندان سے محبت ایک فطری چیز ہے , دین اسلام اس سے منع نہیں کرتا, لیکن یہ اسوقت ایک ناسور بن گیا ہے جو دوسروں کو اپنے سے نیچ, کمتر سمجھنے لگے ہیں پھر بھلے سے وہ مسلمان, متقی , نیک اور پرہیزگار ہی کیوں نہ ہو. اسلام نے اس سے روکا اور رد کردیا ہے
کیونکہ اللہ تعالی کے نزدیک اچھا ہونے کا معیار قومیں, قبیلے, خاندان اور برادری نہیں بلکہ ایمان, نیکی, تقوی اور پرہیز گاری ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ . [سورة الحجرات 13]
ترجمہ:
اے لوگو ! بیشک ہم نے تمہیں ایک نر اور ایک مادہ سے پیدا کیا اور ہم نے تمہیں قومیں اور قبیلے بنادیا، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بیشک تم میں سب سے عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے، بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا، پوری خبر رکھنے والا ہے۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ. (آل عمران: 103)
ترجمہ:
اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہوجاؤ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
◀ مطلب کہ کسی بھی قوم یا خاندان کی تفریق کے بغیر اللہ تعالی نے سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیا ہے
جاہلیت والی سب عداوتیں بالکل ختم کردی ہیں
◀ اپنی قوم اور قبیلے کے ساتھ مل کر اللہ تعالی کے دین کی سربلندی , بے دینی اور ظلم کے خلاف جہاد کرنا مطلوب ومقصود ہے
جیسا کہ سیدنا لوط علیہ السلام نے ظالموں کے خلاف ایسی خواہش کا اظہار فرمایا:
قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ. [سورة هود :80]
ترجمہ:
اس نے کہا کاش ! واقعی میرے پاس تمہارے مقابلہ کی کچھ طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا۔
وَمَا بَعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ مِنْ نَبِيٍّ إِلَّا فِي ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ .
آپ نے فرمایا: ”لوط علیہ السلام کے بعد تو اللہ نے جتنے بھی نبی بھیجے انہیں ان کی قوم کے اعلیٰ نسب چیدہ لوگوں اور بلند مقام والوں ہی میں سے بھیجے .
(ترمذي : 3116. مسنداحمد: 8392. الصحيحة : 1617)
◀ سيدنا شعيب عليه السلام کی قوم اور قبیلے کی وجہ سے کافر کوئی نقصان نہ کرسکے :
قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ. قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ .
[سورة هود ،91.92]
ترجمہ:
انھوں نے کہا اے شعیب ! ہم اس میں سے بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور بیشک ہم تو تجھے اپنے درمیان بہت کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تیری برادری نہ ہوتی تو ہم ضرور تجھے سنگسار کردیتے اور تو ہم پر ہرگز کسی طرح غالب نہیں۔
اس نے کہا اے میری قوم ! کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ غالب ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ پیچھے پھینکا ہوا بنا رکھا ہے، بیشک میرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو، اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔
◀ سیدنا موسی علیہ السلام کی فرعون کے خلاف تحریک ایک تو اللہ تعالی کی توحید قائم کرنے اور فرعون کی الوہیت والے دعوی سے روکنے کے لیے تھی اور ساتھ ساتھ اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعونیوں کے ظلم , جبر اور غلامی سے آزادی دلانے کا بھی مقصد تھا
◀ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان بنوہاشم ایک صاحب حیثیت خاندان تھا اس لیے بھی لوگوں کے دلوں میں ایک مقام تھا, آپکے چچا ابوطالب نے خود تو اسلام قبول نہیں کیا پر جب تک زندہ رہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا , آپ نے اپنا مکمل تعاون رکھا, خود ابوطالب کہا کرتا تھا :
واللهِ لن يَصلوا إليكَ بجمعِهمْ حتى أُوَسَّدَ في الترابِ دَفينا.
فاصدَعْ بأمرِك ما عليكَ غَضاضة وأبشِرْ بذاكَ، وقرَّ منهُ عُيونا. ودَعَوْتَني، وزَعمتَ أنك ناصحٌ ولقد صدقْتَ، وكنتَ ثَمَّ أَمينا.
وعَرضْتَ دِيناً قد علمتُ بأنَّهُ مِن خيرِ أديانِ البريَّةِ دِينا.
لولا المَلامةُ أو حِذاري سُبَّةً لوجَدْتني سَمحاً بذاك مُبِينا.
◀ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کے لیے, حق, سچ, اور ظلم کے خلاف اپنے خاندان, قوم اور قبیلے سے مدد لینا اور مدد کرنا جائز ہے بلکہ ضروری ہے, نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : ” تَعَلَّمُوا مِنْ أَنْسَابِكُمْ مَا تَصِلُونَ بِهِ أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّ صِلَةَ الرَّحِمِ مَحَبَّةٌ فِي الْأَهْلِ، مَثْرَاةٌ فِي الْمَالِ، مَنْسَأَةٌ فِي الْأَثَرِ “.
(جامع ترمذي : 1979)
سیدنا ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس قدر اپنا نسب جانو جس سے تم اپنے رشتے جوڑ سکو، اس لیے کہ رشتہ جوڑنے سے رشتہ داروں کی محبت بڑھتی ہے، مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے، اور آدمی کی عمر بڑھا دی جاتی ہے“
◀ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا “. فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْصُرُهُ إِذَا كَانَ مَظْلُومًا، أَفَرَأَيْتَ إِذَا كَانَ ظَالِمًا كَيْفَ أَنْصُرُهُ ؟ قَالَ : ” تَحْجُزُهُ – أَوْ تَمْنَعُهُ – مِنَ الظُّلْمِ ؛ فَإِنَّ ذَلِكَ نَصْرُهُ “. (صحيح بخاري : 2444. 6952)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن آپ کا کیا خیال ہے جب وہ ظالم ہو گا پھر میں اس کی مدد کیسے کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس وقت تم اسے ظلم سے روکنا کیونکہ یہی اس کی مدد ہے۔
◀ اس سلسلہ میں اللہ تعالی نے مذید رہمنائی فرمائی :
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا.
(النساء: 36)
ترجمہ:
اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابت والے کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں اور قرابت والے ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر (کے ساتھ) اور (ان کے ساتھ بھی) جن کے مالک تمہارے دائیں ہاتھ بنے ہیں، یقینا اللہ ایسے شخص سے محبت نہیں کرتا جو اکڑنے والا، شیخی مارنے والا ہو۔
◀ جبکہ جاہلیت والی بڑائی, غرور, قوم اور قبیلے کی غیرت کو کافروں کی نشانی قرار دیا ہے :
إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ. (الفتح : 26)
ترجمہ:
جب ان لوگوں نے جنھوں نے کفر کیا، اپنے دلوں میں ضد رکھ لی، جو جاہلیت کی ضد تھی.
◀ اللہ تعالی کے نزدیک اگر ایمان اور تقوی کے سوا کسی قوم, قبیلے یا خاندان کی اہمیت ہوتی تو یقینا سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے والد, سیدنا نوح علیہ السلام کی بیوی اور بیٹا, سیدنا لوط علیہ السلام کی گھر والی, ابوجہل اور ابوطالب کبھی بھی جہنم کی آگ میں نہ جاتے بلکہ سب سے معتبر سمجھے جاتے .
◀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوۓ فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَلَا إِنَّ رَبَّكُمْ وَاحِدٌ، وَإِنَّ أَبَاكُمْ وَاحِدٌ، أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ، وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ، وَلَا أَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ، وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى .
(مسنداحمد : 23489 . السلسلة الصحيحية للالباني : 2700.)
اے لوگو! خبردار! بیشک تمہارا ربّ ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، کسی عربی کو عجمی پر، کسی عجمی کو عربی پر، کسی سرخ کو سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو سرخ پر کوئی برتری حاصل نہیں ہے، مگر تقوی کی بنیاد پر.
◀ سب سے ذیادہ عزت دار کون؟
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قِيلَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَكْرَمُ النَّاسِ ؟ قَالَ : ” أَتْقَاهُمْ “. قَالُوا : لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُكَ. قَالَ : ” فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللَّهِ “.
(صحيح بخاري: 3490)
سیدنا ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ پوچھا گیا: یا رسول اللہ! سب سے زیادہ عزت والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔“ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارا سوال اس کے بارے میں نہیں ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”پھر ( نسب کی رو سے ) اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ عزت والے تھے۔“
◀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ ؛ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ .
(صحيح مسلم : 2699)
سیدنا ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جس کے عمل نے اسے ( خیر کے حصول میں ) پیچھے رکھا ، اس کا نسب اسے تیز( آگے بڑھا) نہیں کر سکتا(یعنی قیامت والے دن اسے قوم یا قبیلے کی طرف سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا) ۔‘‘
◀ مطلب کہ اصل تعلق وہ ہے جو ایمان اور پرہیز گاری پر ہو اس کے سوا کوئی بھی قومی یا خاندانی تعلق کی کوئی حیثیت نہیں. نبی کریم صلی اللہ نے قیامت سے قبل نمودار ہونے والے سخت ترین فتنوں کا ذکر کرتے ہوۓ فرمایا :
ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ ؛ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي،وَإِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ، (ابوداود : 4242. الصحيحة : 974)
پھر اس کے بعد فتنہ سراء ہے جس کا فساد میرے اہل بیت کے ایک شخص کے پیروں کے نیچے سے رونما ہو گا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے حالانکہ وہ مجھ سے نہ ہو گا، میرے اولیاء تو وہی ہیں جو متقی ہوں.
وفي رواية لاحمد : إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ، مَنْ كَانُوا، وَحَيْثُ كَانُوا (مسند احمد : 22052)
اور مسند احمد کی ایک روایت میں ہے کہ: بے شک لوگوں میں سے میرے سب سے ذیادہ قریب متقین ہونگے وہ جو بھی ہوں جہاں بھی ہوں.
◀ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے قریبی رشتے داروں کے کئی خاندان والوں کو بلایا اور بلند آواز سے اعلان برات کرتے ہوۓ فرمایا :
إِنَّ آلَ أَبِي – يعني بني فلان – لَيْسُوا بِأَوْلِيَائِي، إِنَّمَا وَلِيِّيَ اللَّهُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ …. وَلَكِنْ لَهُمْ رَحِمٌ، أَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا . يَعْنِي أَصِلُهَا بِصِلَتِهَا.(صحيح بخاري: 5990 )
بے شک فلاں قوم یا قبیلے والے میرے اولیاء یعنی دوست نہیں( گو ان سے نسبی رشتہ ہے ) میرا ولی یعنی دوست تو اللہ ہے اور جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیزگار ہیں ( گو ان سے نسبی رشتہ بھی نہ ہو ) ۔ البتہ ان سے میرا رشتہ ناطہٰ ہے جسے میں تروتازہ رکھنے اور جوڑنے کی کوشش کرتا رہونگا۔
◀ جبکہ دوسری طرف الگ ملک, الگ زبان, الگ قوم اور قبیلے سے تعلق رکھنے والے سیدنا سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کے بارے میں امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سلمان تو ہمارے اہل بیت میں سے ہے .
(سلسلة الاحاديث الضعيفة تحت حديث : 3704) نوٹ: یہ الفاظ مرفوعا ثابت نہیں )
◀ کوئی کسی پر فخر نہ کرے:
عیاض بن حمار رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَإِنَّ اللَّهَ أَوْحَى إِلَيَّ ؛ أَنْ تَوَاضَعُوا، حَتَّى لَا يَفْخَرَ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، وَلَا يَبْغِ أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ. (صحيح مسلم : 2865)
اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو ، حتی کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے پر زیادتی نہ کرے ۔‘‘
◀ تکبر , بڑائی اور گھمنڈ کرنے والے کو قیامت کے دن چونٹیوں کی جسامت اور انسانی شکل میں اٹھایا جاۓ گا. ہر طرف سے ذلت انکے اوپر چھائی ہوگی . جہنم کے قید خانے “بولس” میں داخل کیا جاۓ گا جہاں ہر طرف بھڑکتی ہوئی آگ ہی آگ ہوگی جہنمیوں کے پیپ پسینہ اور گند میں سے انہیں پلایا جاۓ گا.
(جامع ترمذي2492، )
◀ اپنے خاندان اور قبیلے پر فخر عذاب کا باعث :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ عُبِّيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ وَفَخْرَهَا بِالْآبَاءِ، مُؤْمِنٌ تَقِيٌّ وَفَاجِرٌ شَقِيٌّ، أَنْتُمْ بَنُو آدَمَ، وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ، لَيَدَعَنَّ رِجَالٌ فَخْرَهُمْ بِأَقْوَامٍ إِنَّمَا هُمْ فَحْمٌ مِنْ فَحْمِ جَهَنَّمَ، أَوْ لَيَكُونُنَّ أَهْوَنَ عَلَى اللَّهِ مِنَ الْجِعْلَانِ الَّتِي تَدْفَعُ بِأَنْفِهَا النَّتْنَ (ابوداؤد : 5116. ترمذي : 3270)
بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے جاہلیت کی نخوت و غرور کو ختم کر دیا اور باپ دادا کا نام لے کر فخر کرنے سے روک دیا، ( اب دو قسم کے لوگ ہیں ) ایک متقی و پرہیزگار مومن، دوسرا بدبخت فاجر، تم سب آدم کی اولاد ہو، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں، لوگوں کو اپنی قوموں پر فخر کرنا چھوڑ دینا چاہیئے کیونکہ ان کے آباء جہنم کے کوئلوں میں سے کوئلہ ہیں ( اس لیے کہ وہ کافر تھے، اور کوئلے پر فخر کرنے کے کیا معنی ) اگر انہوں نے اپنے آباء پر فخر کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کے نزدیک اس گبریلے کیڑے سے بھی زیادہ ذلیل ہو جائیں گے، جو اپنی ناک سے گندگی کو ڈھکیل کر لے جاتا ہے ۔
◀ اسلام سے پہلے جاہلیت والے زمانہ میں قوم اور قبائل کے درمیان اتنا ذیادہ فخر تکبر حسد اور تعصب تھا کہ اس سے بیت اللہ بھی محفوظ نہیں تھا. اس قدر کہ حج اور عمرہ میں پڑھا جانے والا تلبیہ بھی مختلف اقوام اور قبائل نے اپنا اپنا بنایا ہوا تھا، قريش ، اسد ، ربيعة قبائل نے ان میں اپنا نام شامل کیا ہوا تھا. (المفصل في تاريخ العرب قبل الاسلام ڈاکٹر جواد علي ج 6 ص 376-77. )
◀ اسی طرح قریش اپنے آپکو “الحُمۡسُ“ کہلواتے تھے، صرف یہی لوگ کپڑے پہن کر طواف کیا کرتے بقایا سب برہنہ ہوتے تھے، اور قریش عرفات میں بھی نہیں جاتے تھے . (صحيح بخاري : 1665)
جیسے ہی اسلام آیا سب کچھ ختم کرکے ایک ہی طریقہ ایک ہی تلبیہ اور ایک ہی لباس مقرر کرکے قوم پرستی کا بیڑا ہی غرق کردیا .
◀ معلوم ہوا کہ قوم قبیلے اور خاندان پر فخر اور بڑائی ظاہر کرنا جاہلیت والا طریقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَا يَتْرُكُونَهُنَّ : الْفَخْرُ فِي الْأَحْسَابِ، وَالطَّعْنُ فِي الْأَنْسَابِ… . (صحيح مسلم : 934)
میری امت میں جاہلیت کے کاموں میں سے چار باتیں ( موجود ) ہیں ، وہ ان کو ترک نہیں کریں گے : احساب ( باپ دادا کے اصلی یا مزعومہ کارناموں ) پر فخر کرنا ، ( دوسروں کے ) نسب پر طعن کرنا ،
◀ سيدنا ابوذر رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ ایک شخص سے میرا اختلاف ہوگیا تو میں نے اسے اس کی ماں کے عجمی ہونے کا طعنہ دیا اور برا بھلا کہا اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا: إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ .
تجھ میں ابھی بھی جاہلیت والی صفت ہے(کیا) !! میں نے کہا: بڑھاپے کی اس گھڑی کے باوجود بھی ( جاہلیت کی عادت باقی ہے ؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ہاں ۔‘‘ .(صحيح بخاري: 6050، صحيح مسلم : 1661)
◀ جنگ تبوک کے دوران ایک انصاری اور مھاجر کا آپس میں جھگڑا ہوگیا تو انصاری اور مھاجر نے مدد کے لیے اپنی اپنی قوم کو پکارا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ ؟ …دَعُوهَا ؛ فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ .
یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے؟ اس طرح جاہلیت (قومیت)کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک (گندی)باتیں ہیں.
(صحيح بخاري : 4905)
◀ اوس اور خزرج دونوں قبیلوں کے درمیان قومیت والی گفتگو کو ذکر کرتے ہوۓ راوی فرماتے ہیں کہ: وَلَكِنِ اجْتَهَلَتْه ُالْحَمِيَّةُ .
یعنی قومیت والی غیرت نے ایسی جہالت والی بات کہنے پر آمادہ کیا . (صحيح مسلم : 2770.)
◀ مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ قوم پرستی والی پکار جاہلیت کا طریقہ ہے جو کہ نہایت خطرناک ہوسکتا ہے نبی کریم صلي الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
وَمَنْ دَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ مِنْ جُثَا جَهَنَّمَ . قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَإِنْ صَامَ وَإِنْ صَلَّى ؟ قَالَ : وَإِنْ صَامَ وَإِنْ صَلَّى وَزَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ. (مسنداحمد :17170. جامع ترمذي :2863)
اور جس نے جاہلیت کا نعرہ لگایا تو وہ جہنم کے ایندھنوں میں سے ایک ایندھن ہے۔ ( یہ سن کر ) صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں(جب بھی جاہلیت کے نعرے لگانے والا جہنم میں جاۓ گا)۔
◀ نبی ڪريم صلي الله عليه وسلم نے فرمايا :
وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ ، يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ، أَوْ يَدْعُو إِلَى عَصَبَةٍ، أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً، -وَيُقَاتِلُ لِلْعَصَبَةِ – فَلَيْسَ مِنْ أُمَّتِي – فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ – (صحيح مسلم : 1848. 1850)
اور جو شخص اندھے تعصب کے جھنڈے کے نیچے لڑا ، اپنی عصبیت ( قوم ، قبیلے ) کی خاطر غصے میں آیا یا اس نے کسی عصبیت کی طرف دعوت دی یا عصبیت کے تحت ہی مدد کی اور عصبیت کے لیے لڑتا رہا ، وہ میری امت(مسلمہ) میں سے نہیں ہےاور اگر عصبیت کی خاطر مارا گیا تو ( یہ ) جاہلیت کی موت ہو گی
◀ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : لَيْسَ مِنَّا مَنْ دَعَا إِلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ قَاتَلَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ، وَلَيْسَ مِنَّا مَنْ مَاتَ عَلَى عَصَبِيَّةٍ . (ابوداؤد : 5121)
نوٹ: اس روایت میں اگرچہ کچھ کلام ہے لیکن مذکورہ روایت کا بہترین شاھد ہے . والله اعلم بالصواب .
◀ نبی ڪريم صلي الله عليه وسلم کے دور میں دو آدمیوں نے ( آپس میں فخر و تکبر کرتے ہوۓ) اپنا نسب نامہ بیان کیا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، تیری ماں فوت ہوگئی تو بتا تو کون ہے ؟
جس پر اللہ کے رسول صلي الله عليه وسلم نے فرمایا: موسی علیہ السلام کے دور میں ایک مشرک نے مسلمان کے سامنے اسی طرح فخر و تکبر کرتے ہوۓ اپنا نسب نامہ بیان کیا کہ میں فلاں بن فلاں بن فلاں ہوں حتی کہ نو (9) پشتیں ذکر کردی ، جس مسلمان نے کہا کہ: میں تو بس فلاں بن فلاں ہوں باقی سب سے بیزار ہوں (اس لیے کہ وہ سب مشرک تھے) جس پر سیدنا موسی علیہ السلام نے تمام لوگوں کو جمع اور فرمایا اور کہا کہ ان کے درمیان فیصلہ ہوچکا ہے :
إِنَّ هَذَيْنِ الْمُنْتَسِبَيْنِ، أَمَّا أَنْتَ أَيُّهَا الْمُنْتَمِي – أَوِ الْمُنْتَسِبُ – إِلَى تِسْعَةٍ فِي النَّارِ، فَأَنْتَ عَاشِرُهُمْ، وَأَمَّا أَنْتَ يَا هَذَا الْمُنْتَسِبُ إِلَى اثْنَيْنِ فِي الْجَنَّةِ، فَأَنْتَ ثَالِثُهُمَا فِي الْجَنَّةِ .
اس مشرک نے نو (9) پشتیں ذکر کیں جن کے ساتھ یہ دسواں بھی مل کر جہنمی ہے(لہذا اپنے نسب پر تکبر کرنا اس کے لیے کسی کام کا نہیں) باقی یہ مسلمان اپنے والد کے ساتھ تیسرا جنتی ہے
(مسنداحمد : ( 34-9733 ) 21178. الصحيحة : 1270)
◀ سيدنا عبدالله بن مسعود رضي الله عنه سے مرفوعا اور موقوفا مروی ہے کہ :
مَنْ نَصَرَ قَوْمَهُ عَلَى غَيْرِ الْحَقِّ، فَهُوَ كَالْبَعِيرِ الَّذِي رَدَى فَهُوَ يُنْزَعُ بِذَنَبِهِ.
(سنن ابوداؤد : 18-5117)
جس نے اپنی قوم کی ناحق مدد کی تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہے جو کنوئیں میں گرا دیا گیا ہو اور پھر دم پکڑ کر نکالا جا رہا ہو.
مطلب جس طرح اونٹ کو دم سے پکڑ کر باہر نکالنا مشکل ہے اسی طرح تعصب کا شکار انسان کے دنیا و آخرت کے معاملات مشکل ہوتے ہیں .
(وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ)