Search
Sections
< All Topics
Print

SHAWAAL KE ROZOU KA SAWAB AUR FAZILAT AUR AHMIYAT

شوال کے روزوں کا ثواب، فضیلت اور اہمیت  

 تحریر:  فضیلة الشیخ ابوعمير  حفظہ اللہ

اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری

 

✦  نفلی عبادات کی بڑی اہمیت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

 

وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ .. (صحيح بخاری: 6502) 

میرا بندہ نفلی عبادات کرتے کرتے میرا اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔۔

✦  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: قیامت کے دن فرض عبادات میں ہونے والے کمی کوتاہی کو بندے کے نفلی عبادات سے پورا کیا جائے گا.

(جامع ترمذی: 413، ابوداؤد: 864) 

 

✦  نفلی روزوں کی بہت زیادہ فضیلت و اہمیت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:

 

مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَعَّدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا. (صحيح بخاری: 2840 مسلم : 1153) 

 

جو بندہ اللہ تعالی کی راہ میں (رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے) ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اسے دوزخ کی آگ سے ستر سال کی مسافت کے برابر دور کردیتا ہے. 

 

✦  ایک دوسری حدیث ہے:

 مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا، كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. (جامع ترمذی: 1624)

 

جو بندہ اللہ تعالی کی راہ میں (رب کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے) ایک دن کا روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اسے دوزخ کی آگ سے آسمان و زمین کے برابر ایک بڑی کھائی جتنی مسافت کے برابر دور کردیتا ہے. 

 

مکمل سال، پوری زندگی کے روزوں کا ثواب

 

جس طرح فرض نمازوں سے پہلے اور بعد میں مختلف نوافل یعنی سنن مؤکدہ اور غیر مؤکدہ ہیں، جن کی اپنی جگہ الگ فضیلت و اہمیت ہیں، اسی طرح رمضان المبارک کے فرضی روزوں کے بعد ایسے نفلی روزے ہیں جن کا بڑا ہی اجر و ثواب ہے، جن میں شوال کے مہینے کے چھ (6) روزے بھی ہیں:

✦  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ . 

 

جو شخص رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے مہینے میں چھ (6) روزے رکھتا ہے تو اس نے پوری زندگی یعنی مکمل سال کے روزے رکھے. 

 

(صحيح مسلم: 1164، ابوداؤد:2433، ترمذی: 759، ابن ماجه: 1716)   

 

✦  اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کا ثواب کم سے کم دس گنا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

 

مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّیِّئَةِ فَلَا یُجْزٰۤى اِلَّا مِثْلَهَا وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ. 

 

جو شخص (اللہ تعالیٰ کے پاس) ایک نیکی لے کر آئے گا تو اس کے لیے اس جیسی دس نیکیاں ہوں گی.

(سورة الۡاَنۡعَامِ آيت 160)

 

✦  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : 

 

جَعَلَ اللهُ الحَسَنَةَ بِعَشْرٍ فَشَهْرٌ بِعَشَرَةِ أشْهُرٍ وَسِتَّةُ أيّامٍ بَعْدَ الفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ. 
صِيَامُ شَهْرِ رَمَضَانَ بِعَشَرَةِ أشْهُرٍ وَصِيامُ سِتَّةِ أيّامٍ مِن شَوّالٍ بِشَهْرَيْنِ فَذَالِكَ صِيَامُ سَنَةٍ. 
(السنن الكبرى للنسائی: 2874، 2873 صحيح الترغيب: 1007) 

 

اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک نیکی کا بدلہ دس گنا ہے اس لیے رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوگیا اور شوال کے چھ روزے ساٹھ (60) روزوں یعنی دو مہینوں کے برابر ہوگئے، اسی طرح رمضان المبارک کے ساتھ شوال کے چھ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہوگئے. 

 

شوال کے روزے سال کے فرضی روزوں کے برابر !

 

✦  حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

فإن قال قائل: فلو صام هذه الستة أيام من غير شوال يحصل له هذا الفضل؟ فكيف خص صيامها من شوال؟

 

قيل: صيامها من شوال يلتحق بصيام رمضان في الفضل فيكون له أجر صيام الدهر فرضا ذكر ذلك ابن المبارك وذكر: أنه في بعض الحديث حكاه الترمذي في جامعه ولعله أشار إلى ما روي عن أم سلمة ﵂: أن من صام الغد من يوم الفطر فكأنما صام رمضان.

(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی ١/‏٢٢٠.) 

 

اگر کوئی سوال کرے کہ ہر مہینے میں روزوں کا ثواب دس گنا ہے تو پھر شوال کے چھ روزوں کی خصوصیت کا کیا فائدہ ؟

اس کا جواب عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ رمضان المبارک کے ساتھ شوال میں چھ روزے رکھنے کا ثواب پورے سال کے (نفلی نہیں بلکہ) فرضی روزے رکھنے کے برابر ہے، اسی لیے ہی خصوصی طور پر شوال کا ذکر کیا گیا ہے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت میں الفاظ ہیں کہ تم رمضان المبارک میں رہے ہوئے روزے عید کے دوسرے دن سے ہی رکھو، یہ ایسا ہی ہے جیسے تم نے رمضان میں ہی رکھے ہوں.

 

شوال کے روزے رمضان المبارک کی عبادات کی قبولیت کی نشانی ہیں 

 

✦  حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

أن معاودة الصيام بعد صيام رمضان علامة على قبول صوم رمضان فإن الله إذا تقبل عمل عبد وفقه لعمل صالح بعده كما قال بعضهم: ثواب الحسنة الحسنة بعدها فمن عمل حسنة ثم اتبعها بعد بحسنة كان ذلك علامة على قبول الحسنة الأولى. 

(لطائف المعارف لابن رجب الحنبلی ١/‏٢٢١.) 

 

رمضان المبارک کے بعد ( جلد ہی شوال اور دوسرے مہینوں میں) نفلی روزے رکھنا، رمضان المبارک کے روزوں کی قبولیت کی بڑی نشانی ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنے کسی بندے کا عمل قبول کرتا ہے تو اسے مزید نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ 

سلف صالحین فرمایا کرتے تھے کہ ایک نیکی کے فورا بعد جلدی ہی دوسری نیکی کرنا، پہلی نیکی کی قبولیت کی نشانی ہے. 

شوال کے روزے پورے مہینے میں کبھی بھی رکھے جاسکتے ہیں 

✦  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

قالَ لا بَأْس بصيامها إنَّما قالَ النَّبِي ﷺ سِتَّة ايام من شَوّال فَإذا صامَ سِتَّة ايام من شَوّال لا يُبالِي فرق اَوْ تابع. 
(مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ١/‏١٩٣ ) 

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال کے مہینے میں چھ روزے رکھنے کا حکم دیا ہے، اس لیے ایک ساتھ رکھے جائیں یا وقفے سے، کوئی مسئلہ نہیں سب جائز ہے. 

✦  امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 

والأفْضَلُ أنْ تُصامَ السِّتَّةُ مُتَوالِيَةً عَقِبَ يَوْمِ الفِطْرِ فَإنْ فَرَّقَها أوْ أخَّرَها عَنْ أوائِلِ شَوّالٍ إلى أواخِرِهِ حَصَلَتْ فَضِيلَةُ المُتابَعَةِ. (شرح النووی على صحيح مسلم تحت حديث: 1164) 

 

افضل عمل یہی ہے کہ شوال کے چھ روزے عید الفطر کے بعد مسلسل، لگاتار رکھے جائیں، لیکن اگر مہینے کے شروع میں یا آخر تک وقفے سے رکھے جائیں تو بھی حدیث میں وارد فضیلت حاصل ہوجائے گی …

 

ایک اہم مسئلہ  

 

✦  جس انسان کے عذر کی وجہ سے رمضان المبارک کے روزے رہ جائیں خاص طور پر حیض یا نفاس کی وجہ سے عورتوں کے رہے ہوئے روزے تو وہ یہ روزے رکھنے سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں یا نہیں؟؟

جیسا کہ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے پر جمہور اہل علم کے قول کے مطابق ایسی عورتیں رمضان المبارک کے رہے ہوئے روزوں سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتی ہیں، اس لیے کہ رہے ہوئے روزوں کے بارے شریعت میں بھی وسعت موجود ہے کہ وہ اگلے رمضان المبارک سے پہلے پہلے رکھے جا سکتے ہیں، مگر ان روزوں کی خصوصیت شوال کے مہینے کے ساتھ مقید ہے،۔ اس لیے پہلے شوال کے روزے رکھنے میں کوئی مسئلہ نہیں. ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے رمضان کے رہے ہوئے روزے شعبان تک مؤخر کیا کرتی تھیں .

(صحيح بخاری: 1950، صحيح مسلم: 1146)

 

 
✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯
Table of Contents