Search
Sections
< All Topics
Print

TAKHNOU SE NECHE KAPDA LATKAANA SANGEEN GUNAAH HAI

 ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا سنگین گناہ

تحریر :  فضیلة الشیخ ابوعمير  حفظہ اللہ

اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے: 

’’ مؤمن مسلمان (مرد)کا تہبند(شلوار، پینٹ، ٹاؤزر اور پاجامہ وغیرہ) آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے ۔ آدھی پنڈلی سے ٹخنوں تک کے مابین میں کوئی حرج نہیں اور جو ٹخنوں سے نیچے رکھے گا اسے آگ ( جہنم) کا عذاب ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ یہ بات بیان فرما کر تنبیہ فرمائی.  (سنن ابی داؤد: 4093، سنن ابن ماجه: 3573، مسند احمد: 11028) 

❁ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

 

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَنْظُرُ إِلَى مُسْبِلِ الْإِزَارِ . 

یقیناً جو شخص اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا ۔‘‘ (سنن نسائی: 5332) 

 


*خواتین کے لئے کیا حکم ہے؟*


❁ قارئین کرام ٹخنوں سے اوپر کپڑا رکھنے کا حکم امت مسلمہ کے مردوں کے لیے ہے، خواتین کے لیے یہ حکم نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حکم دیا تو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا کہ اس سلسلہ میں خواتین کے لیے کیا حکم ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بالشت کے برابر کپڑا نصف پنڈلی سے نیچے رکھیں۔ جس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ ایک بالشت سے تو ان کے پاؤں ظاہر ہوجائے گیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر خواتین ایک ہاتھ کے برابر نیچے رکھیں (تاکہ ان کے پاؤں ظاہر نہ ہوں) (سنن ترمذی: 1731، سنن نسائی: 5336) 

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو بھی نصف پنڈلی سے ایک بالشت نیچے کپڑا لٹکانے کا حکم دیا. (سنن ابوداؤد: 4119) 

❁ معلوم ہوا کہ خواتین ٹخنوں سے کپڑا اتنا نیچے رکھیں کہ ان کے پاؤں ظاہر نہ ہوں۔ مطلب کہ ٹخنوں سے اوپر کپڑا رکھنے کا یہ حکم امت مسلمہ کے مردوں کے لیے ہے خواتین کے لیے نہیں. 

 


*سخت ترین وعید* 


❁ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ نہ تو اس شخص سے بات کرے گا، نہ اس کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی اسے گناہوں سے پاک کرے گا جو اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکاتا ہے . (صحيح مسلم: 106) 

❁ ٹخنوں سے نیچے جو بھی کپڑا ہوگا تو وہ حصہ جہنم کی آگ میں جائے گا. ( صحيح بخاری: 5787) 

*نبی کریم ﷺ کا طرز عمل* 

❁ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میری چادر، تہبند ٹخنوں سے نیچے ہوگئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا: اے عبداللہ اگر تو واقعی عبداللہ (اللہ کا بندہ) ہے تو اپنی چادر اوپر کرو، میں نے کچھ اوپر کر لی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید اوپر کرنے کا حکم دیتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصف پنڈلی تک رکھنے کا حکم دیا . (صحيح مسلم : 2086، مسند احمد: 6340) 

 

مسند احمد: (6263) میں ہے کہ اس کے بعد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے وفات تک اپنی چادر نصف پنڈلی تک رکھی. 

❁ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی کا گوشت یا کھال پکڑی اور فرمایا: چادر، تہبند یا کپڑا رکھنے کی جگہ یہ ہے، لیکن اگر تو راضی نہ ہو تو اس سے کچھ نیچے رکھنا چاہیے، اس کے بعد ٹخنوں کے لیے کوئی حق نہیں کہ (کپڑا ) ٹخنوں سے نیچے رہے، بلکہ ٹخنوں سے اوپر ہونا چاہیے.

 

(جامع ترمذی: 1783 سنن نسائی: 5329) 

 

❁ سیدنا سفیان بن سھل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:

 

 لَا تُسْبِلْ إزارَكَ، فَإنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ المُسْبِلِينَ. 

 

اپنی چادر ٹخنوں سے نیچے نہ لٹکاؤ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے والوں کو پسند نہیں کرتا.

(السنن الکبری للنسائی: 6924 سلسله صحيحه : 4004) 

 

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثقیف قبیلے کے ایک شخص کو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پیچھے دوڑے اور کپڑا پکڑ کر فرمایا : 

ارْفَعْ إِزَارَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ. اللہ سے ڈر اور اپنا کپڑا اوپر کر۔ اس نے عرض کی کہ میرے پاؤں ٹیڑھے ہیں، چلتے ہوئے میرا تہبند آپس میں ٹکراتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

شلوار اوپر رکھو، اللہ کی ہر تخلیق بہترین ہے۔ اس کے بعد وفات تک اس شخص کو نصف پنڈلی سے نیچے شلوار کرتے نہیں دیکھا گیا.

(مسنداحمد: 19472، 19475، سلسلة الصحيحة: 1441) 

 

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خریم اسدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا: نِعْمَ الرَّجُلُ خُرَيْمٌ الْأَسَدِيُّ، لَوْلَا طُولُ جُمَّتِهِ وَإِسْبَالُ إِزَارِهِ.

خریم بہت ہی بہترین انسان ہے، بس اس کے بال زیادہ بڑے نہ ہوتے اور شلوار ٹخنوں سے نیچے نہ ہو تو ! خریم رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنی تو اپنے بال بھی کٹوا لیے اور شلوار بھی ہمیشہ نصف پنڈلی تک ہی رکھتے.

(سنن ابی داؤد :4089)

 

❁ ان احادیث پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ شلوار، تہبند وغیرہ کو ٹخنوں سے نیچے رکھنا حقیقت میں ایسا عمل ہے جو ناجائز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مطلقا اس عمل سے منع فرمایا، تکبر کرنے یا نہ کرنے کی کوئی تخصیص نہیں فرمائی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ سوال نہیں کیا کہ تم یہ عمل تکبر سے کر رہے ہو یا نہیں؟ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے ہر گز بھی یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تکبر کرتے ہوئے یہ عمل کرتے ہوں! جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع فرمایا! (العیاذ باللہ)

❁ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی پاکباز ہستیوں کو اس عمل سے منع فرما دیا تو پھر ان کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے اور یہ دعویٰ کرے کہ میں تکبر میں یہ عمل نہیں کر رہا یا مجھ میں کوئی تکبر نہیں! 

اور یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کرتے وقت کسی بھی صحابی سے یہ سوال نہیں کیا کہ اس عمل میں تمہاری نیت تکبر کی ہے یا نہیں؟ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلق طور پر منع فرمایا اور پھر کسی بھی صحابی کے بارے میں ایسی بدگمانی نہیں رکھی جا سکتی.  

 

❁ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ أَسْبَلَ إِزَارَهُ فِي صَلَاتِهِ خُيَلَاءَ فَلَيْسَ مِنْ اللَّهِ فِي حِلٍّ وَلَا حَرَامٍ.

 

جس انسان نے تکبر کرتے ہوئے نماز کی حالت میں اپنا کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکایا تو تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی بھی حلال یا حرام میں نہیں، یعنی اللہ تعالی اس کے گناہ معاف نہیں کرے گا اور نہ ہی برے کاموں سے اسے بچائے گا، یا اس کے لیے جنت حلال اور جہنم حرام نہیں فرمائے گا. یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے لیے کسی بھی قسم کا احترام، عزت، شرف اور مقام نہیں ہے.

(سنن ابی داؤد: 637) 

 


* وضوء اور نماز دھرانے کا حکم* 


❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سامنے ایک شخص نے اس حالت میں نماز پڑھی کہ اس کی چادر ٹخنوں سے نیچے تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ اس کو واپس لوٹایا اور دوبارہ وضوء کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا:

إنَّ اللَّهَ تَعالى لا يَقْبَلُ صَلاةَ رَجُلٍ مُسْبِلٍ إزارَهُ.

 

یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول ہی نہیں کرتا جو ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکائے نماز پڑھاتا ہے.

(سنن ابی داؤد: [638]

 

قال شيخنا المحدث زبير علي زئي رحمه الله : إسنادہ حسن، فیہ أبو جعفر وثقہ الجمھور وحدیثہ لا ینزل عن درجۃ الحسن) 

 


*صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرز عمل*  


❁ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کپڑا لٹکائے دیکھا تو اسے سختی سے منع کیا اور مذمت میں حدیث بیان کی. (صحيح مسلم : 2087) 

اسی طرح کا واقعہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہے. (مسنداحمد: 4884) 

❁ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب سختی زخمی حالت میں آخری سانسیں لے رہے تھے اور لوگ آپ کی عیادت کرنے کے لیے آرہے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان کو دیکھا جس نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عیادت کرتے ہوئے اچھی خاصی تعریف بھی کی، جب وہ واپس جانے لگا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا کہ اس کا کپڑا نیچے لٹک رہا تھا تو آپ نے اسے واپس بلایا اور فرمایا: ابْنَ أَخِي، ارْفَعْ ثَوْبَكَ ؛ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ، وَأَتْقَى لِرَبِّكَ.  بھتیجے! اپنا کپڑا اوپر کر لو، اس لیے کہ ایسا کرنے سے تیرا کپڑا بھی صاف رہے گا اور یہ عمل تیرے لیے رب کے تقوی میں اضافے کا باعث بھی ہوگا . (صحيح بخاری: 3700)

❁ ابو اسحاق السبیعی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے کتنے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ اپنا کپڑا نصف پنڈلی تک رکھتے تھے، پھر آپ نے اسامہ بن زید، عبداللہ بن عمر، زید بن ارقم اور براء بن عازب رضوان اللہ علیہم اجمعین اجمعین کے نام ذکر کیے. (طبرانی کبير: 375، مصنف ابن ابی شيبه: 24830)  

❁ قارئین کرام ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کی ممانعت میں اوپر ذکر کی گئی تمام احادیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل عام ہے، وہ شخص جو تکبر کی نیت سے یہ عمل کرے یا کوئی بھی انسان تکبر کی نیت کے ارادے کے بغیر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے وہ بھی اس ممانعت اور وعید میں شامل ہے. 

باقی رہا وہ شخص جو تکبر کے ساتھ یہ عمل کرے گا تو یقینا اس کا گناہ بھی بڑا ہے اور احادیث میں اس کی مزید سخت وعید موجود ہے.

مطلب کہ صحابہ کرام بغیر کسی حیلے اور حجت کے اس عمل سے بچتے ہوئے اپنا کپڑا ٹخنوں سے اوپر رکھا کرتے تھے اور اس شرعی وعید سے بے خوف نہیں تھے، تو اب کون ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے زیادہ پارسا اور پاکباز بنتے ہوئے یہ عمل کرتا رہے اور شریعت میں ذکر کردہ وعیدوں سے بے خوف ہوجائے! کیا کوئی ایسا انسان ہے جو بغیر کسی شرعی دلیل کے خود ہی تکبر سے پاک ہونے کا دعویٰ کرسکے! جبکہ شریعت نے تو اس عمل کو ہی تکبر قرار دیا ہے. 


*متکبر انسان کی نشانی*  


❁ قارئین کرام شلوار ٹخنوں سے نیچے رکھنے کی ممانعت اس وجہ سے بھی ہے کہ یہ عمل متکبر لوگوں کا عمل ہے، جیسا کہ سیدنا جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: 

وَإِيَّاكَ وَإِسْبَالَ الْإِزَارِ ؛ فَإِنَّهَا مِنَ الْمَخِيلَةِ ، وَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمَخِيلَةَ. 

 

اپنی شلوار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے سے بچو، اس لیے کہ یہ عمل تکبر میں سے ہے اور بے شک اللہ تعالی تکبر کو پسند نہیں کرتا . (سنن ابی داؤد: 4084) 

 

❁ دیکھیں اس حدیث میں صرف ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کو ہی تکبر کی نشانی قرار دیا گیا ہے اگر چہ یہ عمل تکبر کی نیت سے نہ بھی کیا گیا ہو، لیکن اگر اس میں تکبر کی نیت بھی شامل کر لی جائے تو اس کا گناہ، شناعت اور قباحت کتنی زیادہ بڑھ جائے گی!

 

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس سلسلے میں بحث کرتے ہوئے بطور خلاصہ رکھتے ہیں کہ:

وَحَاصِلُهُ أنَّ الإسْبالَ يَسْتَلْزِمُ جَرَّ الثَّوْبِ وجَرُّ الثَّوْبِ يَسْتَلْزِمُ الخُيَلاءَ ولَوْ لَمْ يَقْصِدِ اللّابِسُ الخُيَلاءَ. 

اس کا خلاصہ اس طرح ہے کہ ٹخنوں سے نیچے کپڑا کرنا، کپڑا لٹکانا ہے اور کپڑا لٹکانا تکبر کو لازم ہے اگر چہ انسان تکبر کی نیت نہ بھی کرے. (فتح الباری تحت حديث : 5791) 

❁ اور تکبر ایک پوشیدہ مرض، بیماری اور گناہ ہے کہ اس میں مبتلا انسان کو بھی خبر نہیں ہوتی ( کہ وہ اس بیماری کا شکار ہوچکا ہے) اس لیے اس حدیث میں کپڑا نیچے لٹکانے کو ہی تکبر کی نشانی قرار دے کر اس عمل سے مطلق طور پر منع کیا گیا ہے.  

 


*تکبر سے کپڑا لٹکانا*  


❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص تکبر کرتے ہوئے اپنی چادر نیچے گھسیٹے گا، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس شخص کی طرف دیکھے گا بھی نہیں!

(صحيح بخاری: 5788. صحيح مسلم: 2087) 

 

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسبال ( یعنی معروف طریقے سے ہٹ کر حد سے زیادہ) کپڑا نیچے لٹکانا، تہبند ( شلوار، پینٹ، ٹاؤزر، پاجامہ) قمیص اور پگڑی سمیت ان تمام اشیاء میں منع ہے، جو شخص تکبر کرتے ہوئے ان میں سے جو بھی چیز نیچے لٹکائے گا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں. (سنن ابی داؤد: 4094، سنن نسائی: 5334) 

❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گذشتہ امتوں میں سے ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بہترین لباس پہن کر کپڑا نیچے لٹکائے گھسیٹتے ہوئے متکبرانہ انداز میں اپنے گھر سے نکلا تو اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا اور وہ قیامت تک اس عذاب میں مبتلا رہے گا اور نیچے دھنستا جا رہا ہے. (صحيح بخاری: 3485، صحيح مسلم : 2088) 

❁ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو دنیا میں ہی کسی دردناک عذاب میں مبتلا کردے جیسا کہ مذکورہ شخص قیامت تک اس متکبرانہ عمل کی سزا بھگت رہا ہے. 


*تکبر کی قباحت و شناعت *


❁ مطلب کہ جو شخص جانتے بوجھتے اپنی شلوار، تہبند وغیرہ ٹخنوں سے نیچے رکھتا ہے تو وہ متکبر ہے اور تکبر انتہائی کبیرہ گناہ اور شیطانی کام ہے، ابلیس کے بھی مردود بننے کا سبب تکبر ہی تھی جس کی وجہ سے وہ کافر اور گمراہ ہوگیا، اور دنیا میں بڑے بڑے کفار اسی بیماری کا شکار تھے:

 

❁ وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِیْنَۚ. 

 

اور قارون اور فرعون اور ہامان کو بھی (تباہی و برباد کیا)، بے شک ان کے پاس موسیٰ  ( علیہ السلام )  کھلے کھلے معجزے لے کر آئے تھے  پھر بھی انہوں نے زمین میں تکبر کیا لیکن ہم سے آگے بڑھنے والے نہ ہو سکے. (سورة الۡعَنۡکَبُوۡتِ آيت 39)

 

❁ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا. 

 

اور زمین میں تکبر کرتے ہوئے اکڑ کر نہ چل کہ یقینا نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے. (سورة بَنِیۡۤ اسۡرَآءِیۡلَ آيت 37)

 

❁ وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍۚ (لقمان:18) 

 

 تکبر کرتے ہوئے لوگوں سے اپنا منہ نہ موڑ اور زمین پر اترا  کر نہ چل یقینا  کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعا لٰی پسند نہیں فرماتا.

❁ قیامت کے دن میدان حشر میں تکبر کرنے والوں کو چونٹیوں جتنی جسامت میں انسانوں کی صورت میں لایا جائے گا، جہاں ہر طرف سے ان پر ذلت اور رسوائی چھائی ہوگی، بولس نامی جہنم کی ایک جیل میں قید کیا جائے گا جہاں جہنمیوں کے زخموں کے خون، پیپ اور گند پلایا جائے گا. (جامع ترمذی: 2492) 

 


*ایک اشکال اور اس کا جواب* 


❁ کچھ لوگ اس حدیث سے کپڑا وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کے جواز کو ثابت کرنے کی نا کام کوشش کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ وعید سنی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ: مکمل کوشش کے باوجود کبھی کبھار بے دیہانی میں ایک طرف سے کپڑا نیچے لٹک جاتا ہے؟ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! تو ان لوگوں میں نہیں جو تکبر کرتے ہوئے یہ عمل کرتے ہیں. (صحيح بخاری: 3665، 5784، مسند احمد: 6340) 

 

❁ اولا تو اس حدیث میں جانتے بوجھتے مستقل طور پر یا باقاعدہ ارادہ کرتے ہوئے اس عمل کا ذکر نہیں، بلکہ کبھی کبھار بے دیہانی یا جلدی میں غیری ارادی طور پر کپڑا نیچے چلے جانے کا ذکر ہے، اس لیے اس حدیث سے اس عمل کا جواز نکالنا درست نہیں ہوگا.  

 

❁ دوسرا یہ کہ اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود شارع ہونے کی حیثیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تکبر سے پاک اور آزاد قرار دیا ہے.

کیا جواز اخذ کرنے والوں کے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس میں اللہ تعالیٰ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تکبر سے پاک اور آزاد قرار دیا ہو؟ یا وہ خود ہی شارع بن کر اپنے بارے میں یہ فیصلہ دے رہے ہیں کہ ہم تو متکبر ہیں ہی نہیں، اس لیے ہمارے لیے یہ عمل جائز ہے؟! اور اگر کوئی شخص ایسا دعویٰ کرتا بھی ہے کہ میں یہ عمل تکبر کرتے ہوئے نہیں کر رہا تو اس کا یہ دعویٰ قابل قبول نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالی نے خود اپنا تزکیہ( اپنے آپ کو پاکیزہ قرار دینا) کرنے سے منع فرمایا ہے:

 

فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۠. 

 

پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو. جو پرہیز گار ہے ان کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے. (سورة النَّجۡمِ آيت 32)

 


*دو مختلف کام اور دو مختلف سزائیں * 


❁ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: 

 

إِزْرَةُ الْمُسْلِمِ إِلَى نِصْفِ السَّاقِ، وَلَا حَرَجَ – أَوْ : لَا جُنَاحَ – فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَعْبَيْنِ، مَا كَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ فَهُوَ فِي النَّارِ، مَنْ جَرَّ إِزَارَهُ بَطَرًا لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ “.

 

ایک مؤمن کی چادر کی اصل جگہ نصف پنڈلی تک ہے ۔ نصف پنڈلی سے ٹخنوں تک کے درمیان رکھنے میں کوئی حرج نہیں اور جو چادر ٹخنوں سے نیچے گئی وہ آگ میں ہوگی ، جس نے تکبر کرتے ہوئے اپنی چادر کو ٹخنوں سے نیچے گھسیٹا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف نہیں دیکھے گا. (سنن ابی داؤد: 4093) 

 

❁ یہ حدیث قابل غور ہے کہ ایک ہی حدیث میں دو عمل یعنی مطلق طور پر بنا کسی تکبر کے کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا اور تکبر کرتے ہوئے مذکورہ عمل کرنا، دونوں عمل کی الگ الگ سزا بھی ذکر کی گئی ہے. جس سے واضح ہوتا ہے کہ تکبر کرتے ہوئے یا تکبر کا دعویٰ کیے بغیر ٹخنوں سے نیچے کپڑا رکھنے کی ممانعت مطلق طور پر دونوں صورتوں میں ہے. 

 


*کبیرہ گناہ*  


❁ قارئین کرام ذکر کردہ احادیث میں جس طرح اس عمل کی وجہ سے لعنت، غضب، جہنم کا سبب اور اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اس اسلوب اور انداز سے بالکل واضح ہے کہ یہ بڑا یعنی کبیرہ گناہ ہے، کتنے ہی علماء اور محدثین نے اس عمل کو کتاب الکبائر میں ذکر کیا ہے. اس لیے ایسے عمل سے اجتناب یعنی بچنا انتہائی ضروری ہے ، اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین.

 

 

 

✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯
Table of Contents