05. Kitaab ul Ghusl; [كِتَابُ الغُسْلِ]; Bathing
كِتَابُ الغُسْلِ
[کتاب: غسل کے احکام و مسائل]
بَابُ الوُضُوءِ قَبْلَ الغُسْلِ ❁
باب: اس بارے میں کہ غسل سے پہلے وضوکرلینا چاہیے ❁
❁ 248 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، بَدَأَ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ يُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي المَاءِ، فَيُخَلِّلُ بِهَا أُصُولَ شَعَرِهِ، ثُمَّ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثَ غُرَفٍ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ يُفِيضُ المَاءَ عَلَى جِلْدِهِ كُلِّهِ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے ہشام سے خبر دی، وہ اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔
❁ بَابُ الوُضُوءِ قَبْلَ الغُسْلِ
❁ باب: اس بارے میں کہ غسل سے پہلے وضوکرلینا چاہیے
❁ 249 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: «تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُضُوءهُ لِلصَّلاَةِ، غَيْرَ رِجْلَيْهِ، وَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ مِنَ الأَذَى، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَيْهِ المَاءَ، ثُمَّ نَحَّى رِجْلَيْهِ، فَغَسَلَهُمَا، هَذِهِ غُسْلُهُ مِنَ الجَنَابَةِ»
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اعمش سے روایت کر کے، وہ سالم ابن ابی الجعد سے، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ میمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح ایک مرتبہ وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں بھی نجاست لگ گئی تھی، اس کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ پھر پہلی جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔ آپ کا غسل جنابت اسی طرح ہوا کرتا تھا۔
❁ تشریح : حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں تقدیم تاخیر ہوگئی ہے۔ شرمگاہ کو وضو سے پہلے دھونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے۔ پھر وضو کرنا مگرپیرنہ دھونا پھرغسل کرنا پھر باہر نکل کر پیردھونا یہی مسنون طریقہ غسل ہے۔
بَابُ غُسْلِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ
باب: اس بارے میں کہ مردکا اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرنا درست ہے
250 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، مِنْ قَدَحٍ يُقَالُ لَهُ الفَرَقُ»
ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے حدیث بیان کی۔ انھوں نے زہری سے، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔
تشریح : ہردومیاں بیوی ایک ہی برتن میں پانی بھرکر غسل کرسکتے ہیں۔ یہاں فرق ( برتن ) کا ذکر ہردو کے لیے مذکور ہے۔ جن احادیث میں صرف ایک صاع پانی کا ذکر ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہا اکیلے غسل کا ذکر ہے۔ دوفرق کا وزن سولہ رطل یعنی آٹھ سیر کے قریب ہوتا ہے جو تین صاع حجازی کے برابرہے۔ صاحب عون المعبود فرماتے ہیں: ولیس الغسل بالصاع والوضوءبالمد للتحدید والتقدیر بل کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ربما اقتصر بالصاع وربما زاد روی مسلم من حدیث عائشۃ انھا کانت تغتسل ہی والنبی صلی اللہ علیہ وسلم من اناءواحد ہوالفرق قال ابن عیینۃ والشافعی وغیرہما ہوثلاثۃ اصع ( عون المعبود،ج1،ص: 35 ) یعنی غسل اور وضو کے لیے صاع کی تحدید نہیں ہے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع پر کبھی زیادہ پر اکتفا فرمایا ہے۔
❁ بَابُ الغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ
❁ باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے
❁ 251 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ [ص:60]، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ، وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا، وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَبَهْزٌ، وَالجُدِّيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، «قَدْرِ صَاعٍ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد نے، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن حفص نے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے یہ حدیث سنی کہ میں ( ابوسلمہ ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عائشہ کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔ امام ابوعبداللہ ( بخاری ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز اور جدی نے شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ روایت کئے ہیں۔
تشریح : یہ ابوسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور آپ کے محرم تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ سے خود غسل فرماکر ان کو طریقہ غسل کی تعلیم فرمائی۔ مسنون غسل یہی ہے کہ ایک صاع پانی استعمال کیا جائے۔ صاع حجازی کچھ کم پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ پہلے گزر چکی ہے۔
❁ بَابُ الغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ
❁ باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے
❁ 252 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ وَأَبُوهُ وَعِنْدَهُ قَوْمٌ فَسَأَلُوهُ عَنِ الغُسْلِ، فَقَالَ: «يَكْفِيكَ صَاعٌ»، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا يَكْفِينِي، فَقَالَ جَابِرٌ: «كَانَ يَكْفِي مَنْ هُوَ أَوْفَى مِنْكَ شَعَرًا، وَخَيْرٌ مِنْكَ» ثُمَّ أَمَّنَا فِي ثَوْبٍ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انھوں نے کہا ہم سے ابوجعفر ( محمد باقر ) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد ( جناب زین العابدین ) جابر بن عبداللہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔
❁ تشریح : وہ بولنے والے شخص حسن بن محمد بن حنفیہ تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان کوسختی سے سمجھایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف فضول اعتراض کرنے والوں کو سختی سے سمجھانا چاہئیے اور حدیث کے مقابلہ پر رائے قیاس تاویل سے کام لینا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔والحنفیۃ کانت زوجۃ علی تزوجہا بعد فاطمۃ فولدت لہا محمداً فاشتہربالنسبۃ الیہا۔ ( فتح الباری ) یعنی حنفیہ نامی عورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں جن کے بطن سے محمدنامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماںہی کے نام سے زیادہ مشہورہوا۔
❁ بَابُ الغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ
❁ باب: اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے
❁ 253 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَيْمُونَةَ كَانَا يَغْتَسِلاَنِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «كَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ أَخِيرًا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى أَبُو نُعَيْمٍ»
❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے روایت کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو کے واسطہ سے بیان کیا، وہ جابر بن زید سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ایک برتن میں غسل کر لیتے تھے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ اخیر عمر میں اس حدیث کو یوں روایت کرتے تھے ابن عباس سے انھوں نے میمونہ سے اور صحیح وہی روایت ہے جو ابونعیم نے کی ہے۔
❁ بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا
❁ باب: اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے
❁ 254 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ صُرَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلاَثًا، وَأَشَارَ بِيَدَيْهِ كِلْتَيْهِمَا»
❁ ترجمہ : ابونعیم نے ہم سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے زہیر نے روایت کی ابواسحاق سے، انھوں نے کہا کہ ہم سے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے روایت کی۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔
تشریح : ابونعیم نے مستخرج میں روایت کیا ہے کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غسل جنابت کا ذکر کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ انھوں نے جھگڑا کیاتب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔
❁ بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا
❁ باب: اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے
❁ 255 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مِخْوَلِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُفْرِغُ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا»
❁ ترجمہ : محمد بن بشار نے ہم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، مخول بن راشد کے واسطے سے، وہ محمد ابن علی سے، وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے تھے۔
❁ بَابُ مَنْ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلاَثًا
❁ باب: اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے
❁ 256 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَامٍ، حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ لِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَتَانِي ابْنُ عَمِّكَ يُعَرِّضُ بِالحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ ابْنِ الحَنَفِيَّةِ. قَالَ: كَيْفَ الغُسْلُ مِنَ الجَنَابَةِ؟ فَقُلْتُ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ ثَلاَثَةَ أَكُفٍّ وَيُفِيضُهَا عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ» فَقَالَ لِي الحَسَنُ إِنِّي رَجُلٌ كَثِيرُ الشَّعَرِ، فَقُلْتُ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ مِنْكَ شَعَرًا»
ترجمہ : ہم سے ابونعیم ( فضل بن دکین ) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر بن یحییٰ بن سام نے روایت کیا، کہا کہ ہم سے ابوجعفر ( محمد باقر ) نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جابر نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے ( ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی ) آئے۔ انھوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔
تشریح : چچاکے بیٹے مجازاً کہا۔ دراصل وہ ان کے باپ یعنی زین العابدین کے چچازاد بھائی تھے کیونکہ محمدابن حنفیہ جناب حسن اور جناب حسین رضی اللہ عنہما کے بھائی تھے۔ جو حسن کے باپ ہیں، جنھوں نے جابر سے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔ترجمۃ الباب اور احادیث واردہ کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت میں سرمبارک پر تین چلو پانی بہاتے تھے۔ پس مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بہرصورت لائق اتباع ہے۔
❁ بَابُ الغُسْلِ مَرَّةً وَاحِدَةً
❁ باب: صرف ایک مرتبہ بدن پر پانی ڈالنا
❁ 257 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: «وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً لِلْغُسْلِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِالأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَحَوَّلَ مِنْ مَكَانِهِ فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھوئے۔ پھر پانی اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر زمین پر ہاتھ رگڑا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔
تشریح : یعنی غسل میں ایک ہی بارسارے بدن پر پانی ڈالنا کافی ہے۔ گوباب کی حدیث میں ایک بار کی صراحت نہیں مطلق پانی بہانے کا ذکر ہے جو ایک ہی بار پر محمول ہوگا اسی سے ترجمہ باب نکلا۔
❁ بَابُ مَنْ بَدَأَ بِالحِلاَبِ أَوِ الطِّيبِ عِنْدَ الغُسْلِ
❁ باب: حلاب یا خوشبو لگا کر غسل کرنا
❁ 258 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنِ القَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ [ص:61]: كَانَ النَّبِيُّ صلّى الله عليه وسلم «إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الحِلاَبِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ، فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ، ثُمَّ الأَيْسَرِ، فَقَالَ بِهِمَا عَلَى وَسَطِ رَأْسِهِ»
❁ ترجمہ : محمد بن مثنیٰ نے ہم سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ( ضحاک بن مخلد ) نے بیان کیا، وہ حنظلہ بن ابی سفیان سے، وہ قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر ( پانی کا چلو ) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتدا کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے۔
❁ تشریح : حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے : الحلاب بکسر مہملۃ وخفۃ لام اناءیسع قدرحلب ناقۃ ای کان یبتدی بطلب ظرف و بطلب طیب اواراد بہ اناءالطیب یعنی بدا تارۃ بطلب ظرف و تارۃ بطلب نفس الطیب وروی بشدۃ لام وجیم وہو خطائ۔ ( مجمع البحار ) یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سماسکے۔ آ پ وہ برتن پانی سے پر کرکے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو پھرغسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگاکر بعدمیں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے توغسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یابٹنہ یا تیل اور بیسن ملاکر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
❁ بَابُ المَضْمَضَةِ وَالِاسْتِنْشَاقِ فِي الجَنَابَةِ
❁ باب: غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا
❁ 259 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا مَيْمُونَةُ قَالَتْ: «صَبَبْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَأَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى يَسَارِهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ الأَرْضَ فَمَسَحَهَا بِالتُّرَابِ، ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، وَأَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمِنْدِيلٍ فَلَمْ يَنْفُضْ بِهَا»
❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے سالم نے کریب کے واسطہ سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، کہا ہم سے میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو پہلے آپ نے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر گرایا۔ اس طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر اسے مٹی سے ملا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرہ کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔
❁ تشریح : معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔ کذا قال اہل الحدیث وامام احمدبن حنبل۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ وضو کے بعد اعضاءکے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس کردیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں کچھ مستحب کہتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختارہے۔
❁ بَابُ مَسْحِ اليَدِ بِالتُّرَابِ لِتَكُونَ أَنْقَى
❁ باب: ہاتھ مٹی سے ملنا تاکہ خوب صاف ہو جائیں
❁ 260 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ دَلَكَ بِهَا الحَائِطَ، ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ غَسَلَ رِجْلَيْهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کیا تو پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا۔ پھر ہاتھ کو دیوار پر رگڑ کر دھویا۔ پھر نماز کی طرح وضو کیا اور جب آپ اپنے غسل سے فارغ ہو گئے تو دونوں پاؤں دھوئے۔
❁ تشریح : پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے، مگر یہاں دوسری سند سے مروی ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی حدیث کو کئی بار مختلف مسائل نکالنے کے لیے بیان کرتے ہیں مگرجداجدا اسنادوں سے تاکہ تکرار بے فائدہ نہ ہو۔
❁ بَابٌ: هَلْ يُدْخِلُ الجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الجَنَابَةِ
❁ باب: کیا جنبی ہاتھ برتن میں ڈال سکتا ہے؟
❁ 261 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، أَخْبَرَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنِ القَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، تَخْتَلِفُ أَيْدِينَا فِيهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا قاسم سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے۔
❁ تشریح : یعنی کبھی میرا ہاتھ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی دونوں ہاتھ مل بھی جاتے تھے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
❁ بَابٌ: هَلْ يُدْخِلُ الجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الجَنَابَةِ
❁ باب: کیا جنبی ہاتھ برتن میں ڈال سکتا ہے؟
❁ 262 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ غَسَلَ يَدَهُ»
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے والد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرماتے تو ( پہلے ) اپنا ہاتھ دھوتے۔
❁ تشریح : اس حدیث کے لانے سے غرض یہ ہے کہ جب ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہو تو ہاتھ دھوکر برتن میں ڈالنا چاہئیے اور اگر کوئی شبہ نہ ہو تو بغیردھوئے بھی جائز ہے۔
❁ بَابٌ: هَلْ يُدْخِلُ الجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الجَنَابَةِ
❁ باب: کیا جنبی ہاتھ برتن میں ڈال سکتا ہے؟
❁ 263 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَفْصٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ جَنَابَةٍ» وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ القَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَهُ
❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا۔ کہا ہم سے شعبہ نے ابوبکر بن حفص کے واسطے سے بیان کیا، وہ عروہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( دونوں مل کر ) ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ اور شعبہ نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے اپنے والد ( قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ) سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
❁ بَابٌ: هَلْ يُدْخِلُ الجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا، إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الجَنَابَةِ
❁ باب: کیا جنبی ہاتھ برتن میں ڈال سکتا ہے؟
❁ 264 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالمَرْأَةُ مِنْ نِسَائِهِ يَغْتَسِلاَنِ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ» زَادَ مُسْلِمٌ، وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، عَنْ شُعْبَةَ «مِنَ الجَنَابَةِ»
❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن جبیر سے انھوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی کوئی زوجہ مطہرہ ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔ اس حدیث میں مسلم بن ابراہیم اور وہب بن جریر کی روایت میں شعبہ سے من الجنابۃ کا لفظ ( زیادہ ) ہے۔ ( یعنی یہ جنابت کا غسل ہوتا تھا
❁ تشریح : حافظ نے کہا کہ اسماعیل نے وہب کی روایت کو نکالا ہے۔ لیکن اس میں یہ زیادتی نہیں ہے۔ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ تعلیق نہیں ہے کیونکہ مسلم بن ابراہیم توامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہیں اور وہب نے بھی جب وفات پائی توامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عمر اس وقت بارہ سال کی تھی۔ کیا تعجب ہے کہ آپ کو ان سے سماعت حاصل ہو۔
❁ بَابُ مَنْ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فِي الغُسْلِ
❁ باب: غسل میں داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرانا
❁ 265 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ الحَارِثِ، قَالَتْ: «وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا وَسَتَرْتُهُ، فَصَبَّ عَلَى يَدِهِ، فَغَسَلَهَا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ» – قَالَ: سُلَيْمَانُ لاَ أَدْرِي، أَذَكَرَ الثَّالِثَةَ أَمْ لاَ؟ – ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالأَرْضِ أَوْ بِالحَائِطِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَغَسَلَ رَأْسَهُ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ خِرْقَةً، فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا، وَلَمْ يُرِدْهَا
❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ کریب سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ( غسل کا ) پانی رکھا اور پردہ کر دیا، آپ نے ( پہلے غسل میں ) اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اسے ایک یا دو بار دھویا۔ سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں راوی ( سالم بن ابی الجعد ) نے تیسری بار کا بھی ذکر کیا یا نہیں۔ پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا۔ اور شرمگاہ دھوئی، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ اور سر کو دھویا۔ پھر سارے بدن پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف سرک کر دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد میں میں نے ایک کپڑا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ اسے ہٹاؤ اور آپ نے اس کپڑے کا ارادہ نہیں فرمایا۔
تشریح : امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا۔ آداب غسل سے ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کرپہلے خوب اچھی طرح سے استنجاءکرلیا جائے۔ ترجمہ باب حدیث سے ظاہر ہے۔
❁ بَابُ تَفْرِيقِ الغُسْلِ وَالوُضُوءِ
❁ باب: اس بیان میں کہ غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے
❁ 266 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: «وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً يَغْتَسِلُ بِهِ، فَأَفْرَغَ [ص:62] عَلَى يَدَيْهِ، فَغَسَلَهُمَا مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَغَسَلَ رَأْسَهُ ثَلاَثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى مِنْ مَقَامِهِ، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انھیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔
❁ تشریح : یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔ مگرپاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
❁ بَابُ إِذَا جَامَعَ ثُمَّ عَادَ، وَمَنْ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ
❁ باب: جس نے ایک سے زائد مرتبہ جماع کیا
❁ 267 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: ذَكَرْتُهُ لِعَائِشَةَ فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ «كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ يُصْبِحُ مُحْرِمًا يَنْضَخُ طِيبًا»
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے ابن ابی عدی اور یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے، وہ ابراہیم بن محمد بن منتشر سے، وہ اپنے والد سے، انھوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس مسئلہ کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا، اللہ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی پھر آپ اپنی تمام ازواج ( مطہرات ) کے پاس تشریف لے گئے اور صبح کو احرام اس حالت میں باندھا کہ خوشبو سے بدن مہک رہا تھا۔
❁ تشریح : حدیث سے ترجمۃ الباب یوں ثابت ہوا کہ اگرآپ ہر بیوی کے پاس جاکر غسل فرماتے توآپ کے جسم مبارک پر خوشبو کا نشان باقی نہ رہتا۔ جمہور کے نزدیک احرام سے پہلے اس قدر خوشبو لگاناکہ احرام کے بعد بھی اس کا اثرباقی رہے جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے جائز نہیں جانتے تھے۔ اسی پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اصلاح کے لیے ایسا فرمایا، ابوعبدالرحمن ان کی کنیت ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ قول ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ہی ہے۔ مگرجمہور اس کے خلاف ہیں۔
❁ بَابُ إِذَا جَامَعَ ثُمَّ عَادَ، وَمَنْ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ
❁ باب: جس نے ایک سے زائد مرتبہ جماع کیا
❁ 268 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدُورُ عَلَى نِسَائِهِ فِي السَّاعَةِ الوَاحِدَةِ، مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَهُنَّ إِحْدَى عَشْرَةَ» قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ أَوَكَانَ يُطِيقُهُ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ «أَنَّهُ أُعْطِيَ قُوَّةَ ثَلاَثِينَ» وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، إِنَّ أَنَسًا، حَدَّثَهُمْ «تِسْعُ نِسْوَةٍ»
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ انھوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے ان سے نو ازواج کا ذکر کیا۔
❁ تشریح : جس جگہ راوی نے نوبیویوں کا ذکر کیا ہے، وہاں آپ کی نوازواج مطہرات ہی مراد ہیں اور جہاں گیارہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں ماریہ اور ریحانہ جو آپ کی لونڈیاں تھیں،ان کو بھی شامل کرلیاگیا۔ علامہ عینی فرماتے ہیں: قال ابن خزیمۃ لم یقل احدمن اصحاب قتادۃ احدی عشرۃ الامعاذ بن ہشام وقدروی البخاری الروایۃ الاخری عن انس تسع نسوۃ وجمع بینہما بان ازواجہ کن تسعا فی ہذاالوقت کما فی روایۃ سعید و سریتاہ ماریۃ و ریحانۃ۔ حدیث کے لفظ فی الساعۃ الواحدۃ سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے ایک ہی ساعت میں جملہ بیویوں سے ملاپ فرماکر آخر میں ایک ہی غسل فرمایا۔ قوتِ مردانگی جس کا ذکر روایت میں کیا گیا ہے یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ نامردی کو عیب شمار کیا جاتا ہے۔ فی الواقع آپ میں قوتِ مردانگی اس سے بھی زیادہ تھی۔ باوجود اس کے آپ نے عین عالم شباب میں صرف ایک معمربیوی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا پر اکتفا فرمایا۔ جو آپ کے کمال ضبط کی ایک بین دلیل ہے۔ ہاں مدنی زندگی میں کچھ ایسے ملکی وسیاسی واخلاقی وسماجی مصالح تھے جن کی بناء پر آپ کی ازواج مطہرات کی تعداد نوتک پہنچ گئی۔ا س پر اعتراض کرنے والوں کو پہلے اپنے گھر کی خبرلینی چاہئیے کہ ان کے مذہبی اکابر کے گھروں میں سو،سو بلکہ ہزار تک عورتیں کتب تواریخ میں لکھی ہوئی ہیں۔ کسی دوسرے مقام پر اس کی تفصیل آئے گی۔
❁ بَابُ غَسْلِ المَذْيِ وَالوُضُوءِ مِنْهُ
❁ باب: مذی کا دھونا اور اس سے وضو کرنا
❁ 269 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً فَأَمَرْتُ رَجُلًا أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِمَكَانِ ابْنَتِهِ، فَسَأَلَ فَقَالَ: «تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ»
ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے ابوحصین کے واسطہ سے، انھوں نے ابوعبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ) تھیں۔ اس لیے میں نے ایک شخص ( مقداد بن اسود اپنے شاگرد ) سے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انھوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو کر اور شرمگاہ کو دھو ( یہی کافی ہے
❁ بَابُ غَسْلِ المَذْيِ وَالوُضُوءِ مِنْهُ
❁ باب: مذی کا دھونا اور اس سے وضو کرنا
❁ 270 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْتَشِرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ، فَذَكَرْتُ لَهَا قَوْلَ ابْنِ عُمَرَ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: «أَنَا طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ طَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا»
❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابراہیم بن محمد منتشر سے، وہ اپنے والد سے، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا ذکر کیا کہ میں اسے گوارا نہیں کر سکتا کہ میں احرام باندھوں اور خوشبو میرے جسم سے مہک رہی ہو۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی۔ پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور اس کے بعد احرام باندھا۔
❁ تشریح : حدیث سے ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ غسل کے بعد بھی آپ کے جسم مبارک پر خوشبو کا اثرباقی رہتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہم بستری کے وقت میاں بیوی کے لیے خوشبو استعمال کرنا سنت ہے، جیساکہ ابن بطال نے کہا ہے ( فتح الباری ) باقی تفصیل حدیث نمبر 262میں گزر چکی ہے۔
❁ بَابُ مَنْ تَطَيَّبَ ثُمَّ اغْتَسَلَ وَبَقِيَ أَثَرُ الطِّيبِ
❁ باب: غسل کے بعد خوشبو کا اثر باقی رہنا
❁ 271 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ، فِي مَفْرِقِ [ص:63] النَّبِيِّ صلّى الله عليه وسلم وَهُوَ مُحْرِمٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے حکم نے ابراہیم کے واسطہ سے، وہ اسود سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا گویا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔
❁ تشریح : حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ یہ حدیث مختصرہے، تفصیلی واقعہ وہی ہے جو اوپر گزرا، باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا غسل ضرور کیا ہوگا۔اسی سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوا۔
❁ بَابُ تَخْلِيلِ الشَّعَرِ، حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ أَرْوَى بَشَرَتَهُ أَفَاضَ عَلَيْهِ
❁ باب: بالوں کا خلال کرنا
❁ 272 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الجَنَابَةِ، غَسَلَ يَدَيْهِ، وَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ، ثُمَّ اغْتَسَلَ، ثُمَّ يُخَلِّلُ بِيَدِهِ شَعَرَهُ، حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ أَرْوَى بَشَرَتَهُ، أَفَاضَ عَلَيْهِ المَاءَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ»
ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد کے حوالہ سے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کا غسل کرتے تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتے۔ پھر غسل کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے بالوں کا خلال کرتے اور جب یقین کر لیتے کہ جسم تر ہو گیا ہے۔ تو تین مرتبہ اس پر پانی بہاتے، پھر تمام بدن کا غسل کرتے۔
❁ بَابُ تَخْلِيلِ الشَّعَرِ، حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّهُ قَدْ أَرْوَى بَشَرَتَهُ أَفَاضَ عَلَيْهِ
❁ باب: بالوں کا خلال کرنا
❁ 273 وَقَالَتْ: «كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، نَغْرِفُ مِنْهُ جَمِيعًا»
❁ ترجمہ : اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔ ہم دونوں اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔
❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہواکہ جنابت کے غسل میں انگلیاں بھگوکر بالوں کی جڑوں میں خلال کرے، جب یقین ہوجائے کہ سر اور داڑھی کے بال اور اندر کا چمڑا بھیگ گئے ہیں، تب بالو ں پر پانی بہائے۔ یہ خلال بھی آداب غسل سے ہے۔ جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب اور جمہور کے نزدیک صرف سنت ہے۔
❁ بَابُ مَنْ تَوَضَّأَ فِي الجَنَابَةِ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ، وَلَمْ يُعِدْ غَسْلَ مَوَاضِعِ الوُضُوءِ مَرَّةً أُخْرَى
❁ باب: غسل جنابت میں اعضاء کو دوبارہ دھونا
❁ 274 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: «وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ، فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالأَرْضِ أَوِ الحَائِطِ، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ المَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ» قَالَتْ: «فَأَتَيْتُهُ بِخِرْقَةٍ فَلَمْ يُرِدْهَا، فَجَعَلَ يَنْفُضُ بِيَدِهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا انھوں نے سالم کے واسطہ سے، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، انھوں نے ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں ایک کپڑا لائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔
❁ بَابُ إِذَا ذَكَرَ فِي المَسْجِدِ أَنَّهُ جُنُبٌ، يَخْرُجُ كَمَا هُوَ، وَلاَ يَتَيَمَّمُ
❁ باب: جب کوئی شخص مسجد میں ہو اور اس کو
❁ 275 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ قِيَامًا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ، ذَكَرَ أَنَّهُ جُنُبٌ، فَقَالَ لَنَا: «مَكَانَكُمْ» ثُمَّ رَجَعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَكَبَّرَ فَصَلَّيْنَا مَعَهُ تَابَعَهُ عَبْدُ الأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، وَرَوَاهُ الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی زہری کے واسطے سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نماز کی تکبیر ہوئی اور صفیں برابر ہو گئیں، لوگ کھڑے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے ہماری طرف تشریف لائے۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ پس آپ نے ہم سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور آپ واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے غسل کیا اور واپس ہماری طرف تشریف لائے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ عثمان بن عمر سے اس روایت کی متابعت کی ہے عبدالاعلیٰ نے معمر سے اور وہ زہری سے۔ اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
❁ تشریح : عبدالاعلیٰ کی روایت کوامام احمد نے نکالا ہے اور اوزاعی کی روایت کو خود حضرت امام بخاری نے کتاب الاذان میں ذکر فرمایا ہے۔
❁ بَابُ نَفْضِ اليَدَيْنِ مِنَ الغُسْلِ عَنِ الجَنَابَةِ
❁ باب: غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا
❁ 276 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الأَعْمَشَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: «وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ، وَصَبَّ عَلَى يَدَيْهِ، فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ الأَرْضَ، فَمَسَحَهَا، ثُمَّ غَسَلَهَا، فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَأَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ يَأْخُذْهُ، فَانْطَلَقَ وَهُوَ يَنْفُضُ يَدَيْهِ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ ( محمد بن میمون ) نے، کہا میں نے اعمش سے سنا، انھوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے ابن عباس سے، آپ نے کہا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ کر دیا۔ پہلے آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں پانی لیا اور شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر مارا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور بازو دھوئے۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ اس کے بعد آپ مقام غسل سے ایک طرف ہو گئے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے آپ کو ایک کپڑا دینا چاہا۔ تو آپ نے اسے نہیں لیا اور آپ ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔
❁ تشریح : باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے، معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ وضو اور غسل میں بدن کپڑے سے نہ پونچھے۔
❁ بَابُ مَنْ بَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الأَيْمَنِ فِي الغُسْلِ
❁ باب: جس نے سر کے داہنے حصے سے غسل شروع کیا
277 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ، عَنِ الحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ [ص:64]، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كُنَّا إِذَا أَصَابَتْ إِحْدَانَا جَنَابَةٌ، أَخَذَتْ بِيَدَيْهَا ثَلاَثًا فَوْقَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تَأْخُذُ بِيَدِهَا عَلَى شِقِّهَا الأَيْمَنِ، وَبِيَدِهَا الأُخْرَى عَلَى شِقِّهَا الأَيْسَرِ»
ترجمہ : ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انھوں نے حسن بن مسلم سے روایت کی، وہ صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم ازواج ( مطہرات ) میں سے کسی کو اگر جنابت لاحق ہوتی تو وہ ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مربتہ ڈالتیں۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر سر کے داہنے حصے کا غسل کرتیں اور دوسرے ہاتھ سے بائیں حصے کا غسل کرتیں.
تشریح : پہلا چلودائیں جانب پر دوسرا چلو بائیں جانب پر تیسرا چلو سر کے بیچ جیساکہ باب من بدءبالحلاب اوالطیب میں بیان ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں اسی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ بعضوں کے نزدیک ترجمہ باب جملہ ثم تاخذ بیدہا علی شقہا الایمن سے نکلتا ہے کہ اس میں ضمیر سر کی طرف پھرتی ہے۔ یعنی پھر سر کے دائیں طرف پر ہاتھ سے پانی ڈالتے اور سر کے بائیں طرف پر دوسرے ہاتھ سے۔ کرمانی نے کہا کہ باب کا ترجمہ اس سے نکل آیاکیونکہ بدن میں سر سے لے کر قدم تک داخل ہے۔
❁ بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ
❁ باب: جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا
❁ 278 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ يَغْتَسِلُونَ عُرَاةً، يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، وَكَانَ مُوسَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْتَسِلُ وَحْدَهُ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا يَمْنَعُ مُوسَى أَنْ يَغْتَسِلَ مَعَنَا إِلَّا أَنَّهُ آدَرُ، فَذَهَبَ مَرَّةً يَغْتَسِلُ، فَوَضَعَ ثَوْبَهُ عَلَى حَجَرٍ، فَفَرَّ الحَجَرُ بِثَوْبِهِ، فَخَرَجَ مُوسَى فِي إِثْرِهِ، يَقُولُ: ثَوْبِي يَا حَجَرُ، حَتَّى نَظَرَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ إِلَى مُوسَى، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا بِمُوسَى مِنْ بَأْسٍ، وَأَخَذَ ثَوْبَهُ، فَطَفِقَ بِالحَجَرِ ضَرْبًا فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَاللَّهِ إِنَّهُ لَنَدَبٌ بِالحَجَرِ، سِتَّةٌ أَوْ سَبْعَةٌ، ضَرْبًا بِالحَجَرِ
❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انھوں نے معمر سے، انھوں نے ہمام بن منبہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔
❁ بَابُ مَنِ اغْتَسَلَ عُرْيَانًا وَحْدَهُ فِي الخَلْوَةِ، وَمَنْ تَسَتَّرَ فَالتَّسَتُّرُ أَفْضَلُ
❁ باب: جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا
❁ 279 وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: بَيْنَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا، فَخَرَّ عَلَيْهِ جَرَادٌ مِنْ ذَهَبٍ، فَجَعَلَ أَيُّوبُ يَحْتَثِي فِي ثَوْبِهِ، فَنَادَاهُ رَبُّهُ: يَا أَيُّوبُ، أَلَمْ أَكُنْ أَغْنَيْتُكَ عَمَّا تَرَى؟ قَالَ: بَلَى وَعِزَّتِكَ، وَلَكِنْ لاَ غِنَى بِي عَنْ بَرَكَتِكَ وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَيْنَا أَيُّوبُ يَغْتَسِلُ عُرْيَانًا»
❁ ترجمہ : اور اسی سند کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ( ایک بار ) ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام انھیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اتنے میں ان کے رب نے انھیں پکارا۔ کہ اے ایوب! کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بے نیاز نہیں کر دیا، جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ایوب علیہ السلام نے جواب دیا ہاں تیری بزرگی کی قسم۔ لیکن تیری برکت سے میرے لیے بے نیازی کیوں کر ممکن ہے۔ اور اس حدیث کو ابراہیم نے موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابوہریرہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس طرح نقل کرتے ہیں “ جب کہ حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے ” ( آخر تک
❁ تشریح : ابراہیم بن طہمان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں سنا تو یہ تعلیق ہوگئی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کو نسائی اور اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔
❁ بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ
❁ باب: نہاتے وقت پردہ کرنا
❁ 280 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ، مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ؟» فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے روایت کی۔ انھوں نے امام مالک سے، انھوں نے عمر بن عبیداللہ کے مولیٰ ابونضر سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے مولیٰ ابومرہ نے انھیں بتایا کہ انھوں نے ام ہانی بنت ابی طالب کو یہ کہتے سنا کہ میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ غسل فرما رہے تھے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کر رکھا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہیں۔ میں نے عرض کی کہ میں ام ہانی ہوں۔
❁ بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ
❁ باب: نہاتے وقت پردہ کرنا
❁ 281 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الجَعْدِ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ قَالَتْ: «سَتَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنَ الجَنَابَةِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ، ثُمَّ مَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى الحَائِطِ أَوِ الأَرْضِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ غَيْرَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ المَاءَ، ثُمَّ تَنَحَّى، فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ» تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ فُضَيْلٍ فِي السَّتْرِ
❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انھوں نے اعمش سے، وہ سالم بن ابی الجعد سے، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، وہ میمونہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرما رہے تھے میں نے آپ کا پردہ کیا تھا۔ تو آپ نے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی بہایا اور شرمگاہ دھوئی اور جو کچھ اس میں لگ گیا تھا اسے دھویا پھر ہاتھ کو زمین یا دیوار پر رگڑ کر ( دھویا ) پھر نماز کی طرح وضو کیا۔ پاؤں کے علاوہ۔ پھر پانی اپنے سارے بدن پر بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر دونوں قدموں کو دھویا۔ اس حدیث میں ابوعوانہ اور محمد بن فضیل نے بھی پردے کا ذکر کیا ہے۔
❁ تشریح : ابوعوانہ کی روایت اس سے پہلے خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ذکر فرماچکے ہیں اور محمد بن فضیل کی روایت کو ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔ ابوعوانہ کی روایت کے لیے حدیث نمبر 260ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
❁ بَابُ إِذَا احْتَلَمَتِ المَرْأَةُ
❁ باب: عورت کو احتلام ہونا
❁ 282 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ [ص:65]، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ امْرَأَةُ أَبِي طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَحْيِي مِنَ الحَقِّ، هَلْ عَلَى المَرْأَةِ مِنْ غُسْلٍ إِذَا هِيَ احْتَلَمَتْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَعَمْ إِذَا رَأَتِ المَاءَ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انھوں نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے، انھوں نے اپنے والد عروہ بن زبیر سے، وہ زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ام سلیم ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا کہ اللہ تعالیٰ حق سے حیا نہیں کرتا۔ کیا عورت پر بھی جب کہ اسے احتلام ہو غسل واجب ہو جاتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اگر ( اپنی منی کا ) پانی دیکھے ( تو اسے بھی غسل کرنا ہو گا
❁ تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے۔ اس کے لیے بھی مردکا سا حکم ہے کہ جاگنے پر منی کی تری اگر کپڑے یا جسم پر دیکھے توضرور غسل کرے تری نہ پائے توغسل واجب نہیں۔
❁ بَابُ عَرَقِ الجُنُبِ، وَأَنَّ المُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ
❁ باب: جنبی کا پسینہ ناپاک نہیں
❁ 283 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَهُ فِي بَعْضِ طَرِيقِ المَدِينَةِ وَهُوَ جُنُبٌ، فَانْخَنَسْتُ مِنْهُ، فَذَهَبَ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: «أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ» قَالَ: كُنْتُ جُنُبًا، فَكَرِهْتُ أَنْ أُجَالِسَكَ وَأَنَا عَلَى غَيْرِ طَهَارَةٍ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنَّ المُسْلِمَ لاَ يَنْجُسُ»
❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے حمید طویل نے، کہا ہم سے بکر بن عبداللہ نے ابورافع کے واسطہ سے، انھوں نے ابوہریرہ سے سنا کہ مدینہ کے کسی راستے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اس وقت ابوہریرہ جنابت کی حالت میں تھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں پیچھے رہ کر لوٹ گیا اور غسل کر کے واپس آیا۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے۔ انھوں نے جواب دیا کہ میں جنابت کی حالت میں تھا۔ اس لیے میں نے آپ کے ساتھ بغیر غسل کے بیٹھنا برا جانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ سبحان اللہ! مومن ہرگز نجس نہیں ہو سکتا۔
❁ تشریح : یعنی ایسانجس نہیں ہوتا کہ اس کے ساتھ بیٹھا بھی نہ جاسکے۔ اس کی نجاست عارضی ہے جو غسل سے ختم ہوجاتی ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ جنبی کا پسینہ بھی پاک ہے۔ کیونکہ بدن پاک ہے توبدن سے نکلنے والا پسینہ بھی پاک ہوگا۔
❁ بَابٌ: الجُنُبُ يَخْرُجُ وَيَمْشِي فِي السُّوقِ وَغَيْرِهِ وَقَالَ عَطَاءٌ: «يَحْتَجِمُ الجُنُبُ، وَيُقَلِّمُ أَظْفَارَهُ، وَيَحْلِقُ رَأْسَهُ، وَإِنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ»
❁ باب: جنبی گھر سے باہر نکل سکتا ہے
❁ 284 حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ «يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ، فِي اللَّيْلَةِ الوَاحِدَةِ، وَلَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعُ نِسْوَةٍ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ سے، کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام ازواج کے پاس ایک ہی رات میں تشریف لے گئے۔ اس وقت آپ کے ازواج میں نو بیویاں تھیں۔
❁ تشریح : اس سے جنبی کا گھر سے باہر نکلنا یوں ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بی بی سے صحبت کرکے گھر سے باہر دوسری بیوی کے گھر تشریف لے جاتے۔
بَابٌ: الجُنُبُ يَخْرُجُ وَيَمْشِي فِي السُّوقِ وَغَيْرِهِ وَقَالَ عَطَاءٌ: «يَحْتَجِمُ الجُنُبُ، وَيُقَلِّمُ أَظْفَارَهُ، وَيَحْلِقُ رَأْسَهُ، وَإِنْ لَمْ يَتَوَضَّأْ»
باب: جنبی گھر سے باہر نکل سکتا ہے
❁ 285 حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ بَكْرٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا جُنُبٌ، فَأَخَذَ بِيَدِي، فَمَشَيْتُ مَعَهُ حَتَّى قَعَدَ، فَانْسَلَلْتُ، فَأَتَيْتُ الرَّحْلَ، فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ جِئْتُ وَهُوَ قَاعِدٌ، فَقَالَ: «أَيْنَ كُنْتَ يَا أَبَا هِرٍّ»، فَقُلْتُ لَهُ، فَقَالَ: «سُبْحَانَ اللَّهِ يَا أَبَا هِرٍّ إِنَّ المُؤْمِنَ لاَ يَنْجُسُ»
❁ ترجمہ : ہم سے عیاش نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حمید نے بکر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابورافع سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ میری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ اس وقت میں جنبی تھا۔ آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں آپ کے ساتھ چلنے لگا۔ آخر آپ ایک جگہ بیٹھ گئے اور میں آہستہ سے اپنے گھر آیا اور غسل کر کے حاضر خدمت ہوا۔ آپ ابھی بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اے ابوہریرہ! کہاں چلے گئے تھے، میں نے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا سبحان اللہ! مومن تو نجس نہیں ہوتا۔
❁ تشریح : اس حدیث کی اور باب کی مطابقت بھی ظاہر ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حالت جنابت میں راہ چلتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔
❁ بَابُ كَيْنُونَةِ الجُنُبِ فِي البَيْتِ، إِذَا تَوَضَّأَ قَبْلَ أَنْ يَغْتَسِلَ
❁ باب: غسل سے پہلے جنبی کا گھر میں ٹھہرنا
286 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، وَشَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْقُدُ وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَتْ: نَعَمْ وَيَتَوَضَّأُ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام اور شیبان نے، وہ یحیٰی سے، وہ ابوسلمہ سے کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں گھر میں سوتے تھے؟ کہا ہاں لیکن وضو کر لیتے تھے۔
❁ تشریح : ایک حدیث میں ہے کہ جس گھرمیں کتا یا تصویر یاجنبی ہو تو وہاں فرشتے نہیں آتے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر بتلایا ہے وہاں جنبی سے وہ مراد ہے جو وضو بھی نہ کرے اور جنابت کی حالت میں بے پر وابن کریوں ہی گھرمیں پڑا رہے۔
❁ بَابُ نَوْمِ الجُنُبِ
❁ باب: بغیر غسل کئے جنبی کا سونا
❁ 287 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَرْقُدُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَرْقُدْ وَهُوَ جُنُبٌ»
❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے نافع سے، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ فرمایا ہاں، وضو کر کے جنابت کی حالت میں بھی سو سکتے ہو۔
❁ بَابُ الجُنُبِ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يَنَامُ
❁ باب: جنبی پہلے وضو کرے پھر سوئے
❁ 288 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ، وَهُوَ جُنُبٌ، غَسَلَ فَرْجَهُ، وَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ»
❁ ترجمہ : م سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انہوں نے عبید اللہ بن ابی الجعد کے واسطے سے، انہوں نے محمد بن عبدالرحمن سے، انہوں نے عروہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کی حالت میں ہوتے اور سونے کا ارادہ کرتے تو شرمگاہ کو دھو لیتے اور نماز کی طرح وضو کرتے۔
❁ بَابُ الجُنُبِ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يَنَامُ
❁ باب: جنبی پہلے وضو کرے پھر سوئے
❁ 289 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: اسْتَفْتَى عُمَرُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَنَامُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: «نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ»
❁ ترجمہ : ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ نے نافع سے، وہ عبداللہ بن عمر سے، کہا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کیا ہم جنابت کی حالت میں سو سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں لیکن وضو کر کے۔
❁ بَابُ الجُنُبِ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ يَنَامُ
❁ باب: جنبی پہلے وضو کرے پھر سوئے
❁ 290 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ [ص:66] بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: ذَكَرَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ تُصِيبُهُ الجَنَابَةُ مِنَ اللَّيْلِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ، ثُمَّ نَمْ»
❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ رات میں انھیں غسل کی ضرورت ہو جایا کرتی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو کر لیا کر اور شرمگاہ کو دھو کر سو جا۔
❁ تشریح : ان جملہ احادیث کا یہی مقصد ہے کہ جنبی وضو کرکے گھر میں سو سکتا ہے۔ پھر نماز کے واسطے غسل کرلے۔ کیونکہ غسل جنابت کئے بغیر نماز درست نہ ہوگی۔ مریض وغیرہ کے لیے رخصت ہے جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے۔
❁ بَابٌ: إِذَا التَقَى الخِتَانَانِ
❁ باب: جب دونوں شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہوگا
❁ 291 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، ح وحَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الحَسَنِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الأَرْبَعِ، ثُمَّ جَهَدَهَا فَقَدْ وَجَبَ الغَسْلُ» تَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، عَنْ شُعْبَةَ، مِثْلَهُ وَقَالَ مُوسَى: حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، أَخْبَرَنَا الحَسَنُ مِثْلَهُ قال ابو عبداللہ ہذا اجود و اوکد و انما بینا الحدیث لاختلافھم والغسل احوط۔
❁ ترجمہ : دوسری سند سے ) امام بخاری نے فرمایا کہ ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، وہ ہشام سے، قتادہ سے، وہ امام حسن بصری سے، وہ ابو رافع سے، وہ ابوہریرہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چہار زانو میں بیٹھ گیا اور اس کے ساتھ جماع کے لئے کوشش کی تو غسل واجب ہو گیا، اس حدیث کی متابعت عمرو نے شعبہ کے واسطہ سے کی ہے اور موسی نے کہا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حسن بصری نے بیان کیا۔ اسی حدیث کی طرح۔ ابو عبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا یہ حدیث اس باب کی تمام احادیث میں عمدہ اور بہتر ہے اور ہم نے دوسری حدیث ( عثمان اور ابن ابی کعب کی ) صحابہ کے اختلاف کے پیش نظر بیان کی اور غسل میں اختیاط زیادہ ہے۔
❁ تشریح : قال النووی “ معنی الحدیث ان ایجاب الغسل لایتوقف علی الانزال بل متی غابت الحشفۃ فی الفرج وجب الغسل علیہا و لاخلاف فیہ الیوم۔ ” امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ غسل انزال منی پر موقوف نہیں ہے۔ بلکہ جب بھی دخول ہوگیا دونوں پر غسل واجب ہوگیا۔ اور اب اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ طریقہ مناسب نہیں : فقہی مسالک میں کوئی مسلک اگرکسی جزئی میں کسی حدیث سے مطابق ہوجائے توقابل قبول ہے۔ کیونکہ اصل معمول بہ قرآن وحدیث ہے۔ اسی لیے حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمادیا ہے کہ اذا صح الحدیث فہومذہبی۔ جو بھی صحیح حدیث سے ثابت ہو وہی میرا مذہب ہے۔ یہاں تک درست اور قابل تحسین ہے۔ مگر دیکھا یہ جارہا ہے کہ مقلدین اپنے مذہب کو کسی حدیث کے مطابق پاتے ہیں تو اپنے مسلک کو مقدم ظاہر کرتے ہوئے حدیث کو مؤخر کرتے ہیں اور اپنے مسلک کی صحت واولویت پر اس طرح خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ گویا اولین مقام ان کے مزعومہ مسلک کا ہے اور احادیث کا مقام ان کے بعد ہے۔ ہمارے اس بیان کی تصدیق کے لیے موجودہ تراجم احادیث خاص طور پر تراجم بخاری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جو آج کل ہمارے برادران احناف کی طرف سے شائع ہورہے ہیں۔ قرآن وحدیث کی عظمت کی پیش نظریہ طریقہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ جب کہ یہ تسلیم کئے بغیر کسی بھی منصف مزاج کو چارہ نہیں کہ ہمارے مروجہ مسالک بہت بعد کی پیداوار ہیں۔ جن کا قرون راشدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ بقول حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ پورے چارسوسال تک مسلمان صرف مسلمان تھے۔ تقلیدی مذاہب چارصدیوں کے بعد پیدا ہوئے۔ ان کی حقیقت یہی ہے۔ امت کے لیے یہ سب سے بڑی مصیبت ہے کہ ان فقہی مسالک کو علاحدہ علاحدہ دین اور شریعت کا مقام دے دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ افتراق وانتشار پیدا ہوا کہ اسلام مختلف پارٹیوں اور بہت سے فرقوں میں تقسیم ہوکر رہ گیا اور وحدت ملی ختم ہوگئی۔ اور آج تک یہی حال ہے۔ جس پر جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے۔ دعوت اہل حدیث کا خلاصہ یہی ہے کہ اس انتشار کو ختم کرکے مسلمانوں کو صرف اسلام کے نام پر جمع کیا جائے، امید قوی ہے کہ ضروریہ دعوت اپنا رنگ لائے گی۔ اور لارہی ہے کہ اکثر روشن دماغ مسلمان ان خودساختہ پابندیوں کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں۔
❁ بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ المَرْأَةِ
❁ باب: اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے
❁ 292 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنِ الحُسَيْنِ، قَالَ: يَحْيَى، وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الجُهَنِيَّ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ، سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَلَمْ يُمْنِ؟ قَالَ: عُثْمَانُ: «يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلاَةِ وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ» قَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ العَوَّامِ، وَطَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ – فَأَمَرُوهُ بِذَلِكَ. قَالَ: يَحْيَى، وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحیٰی نے کہا مجھ کو ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبید اللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انھوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابو سلمہ نے مجھے بتایا کہ انھیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انھیں ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔
❁ تشریح : حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی حکم تھا، بعد میں منسوخ ہوگیا۔
❁ بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ المَرْأَةِ
❁ باب: اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے
293 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو أَيُّوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ المَرْأَةَ فَلَمْ يُنْزِلْ؟ قَالَ: «يَغْسِلُ مَا مَسَّ المَرْأَةَ مِنْهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ وَيُصَلِّي» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «الغَسْلُ أَحْوَطُ، وَذَاكَ الآخِرُ، وَإِنَّمَا بَيَّنَّا لِاخْتِلاَفِهِمْ والماء انقی»
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحیٰی نے ہشام بن عروہ سے، کہا مجھے خبر دی میرے والد نے، کہا مجھے خبر دی ابو ایوب نے، کہا مجھے خبر دی ابی بن کعب نے کہ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ! جب مرد عورت سے جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورت سے جو کچھ اسے لگ گیا اسے دھو لے پھر وضو کرے اور نماز پڑھے۔ ابو عبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا غسل میں زیادہ احتیاط ہے اور یہ آخری احادیث ہم نے اس لئے بیان کر دیں ( تا کہ معلوم ہو جائے کہ ) اس مسئلہ میں اختلاف ہے اور پانی ( سے غسل کر لینا ہی ) زیادہ پاک کرنے والا ہے۔
تشریح : یعنی غسل کرلینا بہرصورت بہترہے۔ اگربالفرض واجب نہ بھی ہو تو یہی فائدہ کیا کم ہے کہ اس سے بدن کی صفائی ہوجاتی ہے۔ مگرجمہور کا یہی فتویٰ ہے کہ عورت مرد کے ملاپ سے غسل واجب ہو جاتا ہے انزال ہو یا نہ ہو۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ دخول کی وجہ سے ذکر میں عورت کی فرج سے جو تری لگ گئی ہو اسے دھونے کا حکم دیا۔ قال ابن حجر فی الفتح وقدذہب الجمہور الی ان حدیث الاکتفاءبالوضوءمنسوخ وروی ابن ابی شیبۃ وغیرہ عن ابن عباس انہ حمل حدیث الماءمن الماءعلی صورۃ مخصوصۃ مایقع من رویۃ الجماع وہی تاویل یجمع بین الحدیثین بلاتعارض۔ یعنی علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ جمہوراس طرف گئے ہیں کہ یہ احادیث جن میں وضو کو کافی کہا گیا ہے یہ منسوخ ہیں۔ اور ابن ابی شیبہ نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حدیث الماءمن الماءخواب سے متعلق ہے۔ جس میں جماع دیکھا گیا ہو، اس میں انزال نہ ہو تو وضو کافی ہوگا۔ اس طرح دونوں قسم کی حدیثوں میں تطبیق ہوجاتی ہے اور کوئی تعارض نہیں باقی رہتا۔ لفظ جنابت کی لغوی تحقیق سے متعلق حضرت نواب صدیق حسن صاحب فرماتے ہیں وجنب درمصفی گفتہ مادئہ جنب دلالت بربعد میکند وچوں جماع درمواضع بعیدہ دمستورہ میشود الخ یعنی لفظ جنب کے متعلق مصفی شرح مؤطا میں کہا گیا ہے کہ اس لفظ کا مادہ دور ہونے پر دلالت کرتا ہے جماع بھی پوشیدہ اور لوگوں سے دورجگہ پر کیا جاتا ہے، اس لیے اس شخص کو جنبی کہا گیا، اور جنب کو جماع پر بولا گیا۔ بقول ایک جماعت جنبی تاغسل عبادت سے دورہو جاتا ہے اس لیے اسے جنب کہا گیا۔ غسل جنابت شریعت ابراہیمی میں ایک سنت قدیمہ ہے جسے اسلام میں فرض اور واجب قرار دیا گیا۔ جمعہ کے دن غسل کرنا پچھنا لگوا کر غسل کرنا، میت کو نہلا کر غسل کرنا مسنون ہے۔ رواہ داؤد والحاکم۔ جو شخص اسلام قبول کرے اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ پہلے غسل کرے پھر مسلمان ہو۔ ( مسک الختام، شرح بلوغ المرام، جلداول، ص: 170 )
❁ بَابُ كَيْفَ كَانَ بَدْءُ الحَيْضِ وَقَوْلُ النَّبِيِّ ﷺ: «هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ»
❁ باب: حیض کی ابتداء کیسے ہوئی
❁ 294 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ القَاسِمِ، قَالَ: سَمِعْتُ القَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ [ص:67]، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ: خَرَجْنَا لاَ نَرَى إِلَّا الحَجَّ، فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، قَالَ: «مَا لَكِ أَنُفِسْتِ؟». قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: «إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَطُوفِي بِالْبَيْتِ» قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ
❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے سنا، کہا میں نے قاسم سے سنا۔ وہ کہتے تھے میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ فرماتی تھیں کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی اور اس رنج میں رونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا۔ کیا حائضہ ہو گئی ہو۔ میں نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ ( سرف ایک مقام مکہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے