Search
Sections
< All Topics
Print

08. Kitaab us Salat; [كِتَابُ الصَّلاَةِ]; Prayers

✦ كِتَابُ الصَّلاَةِ ✦

[کتاب: نماز کے احکام و مسائل]

 


بَابٌ: كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِي الإِسْرَاءِ؟ ❁
باب: نماز کیسے فرض ہوئی؟ ❁

❁ 349 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي، فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَلَمَّا جِئْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ: لِخَازِنِ السَّمَاءِ افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ مَعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَإِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ، وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَسَارِهِ بَكَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا آدَمُ، وَهَذِهِ الأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ اليَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الجَنَّةِ، وَالأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ، فَإِذَا نَظَرَ عَنْ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنِهَا مِثْلَ مَا قَالَ الأَوَّلُ: فَفَتَحَ، – قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ [ص:79] وَجَدَ فِي السَّمَوَاتِ آدَمَ، وَإِدْرِيسَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى، وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ أَنَسٌ – فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، فَقُلْتُ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُوسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عِيسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا إِبْرَاهِيمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الأَنْصَارِيَّ، كَانَا يَقُولاَنِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوَى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الأَقْلاَمِ»، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلاَةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلاَةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ، فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، قُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لاَ تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ، وَهِيَ خَمْسُونَ، لاَ يُبَدَّلُ القَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ بِي، حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ المُنْتَهَى، وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لاَ أَدْرِي مَا هِيَ؟ ثُمَّ أُدْخِلْتُ الجَنَّةَ، فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا المِسْكُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرئیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں۔ پھر جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسی علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرئیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی ( جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی ) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور ( ثواب میں ) پچاس ( کے برابر ) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرئیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔

❁ تشریح : معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔ سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔ یہ شق صدردوبارہ ہے۔ ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔ دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔ جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ ( النجم: 18 ) آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔ سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔ فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔ آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔


❁ بَابٌ: كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِي الإِسْرَاءِ؟
❁ باب: نماز کیسے فرض ہوئی؟

❁ 350  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: «فَرَضَ اللَّهُ الصَّلاَةَ حِينَ فَرَضَهَا، رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ، فِي الحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَأُقِرَّتْ صَلاَةُ السَّفَرِ، وَزِيدَ فِي صَلاَةِ الحَضَرِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔


❁ بَابُ وُجُوبِ الصَّلاَةِ فِي الثِّيَابِ
❁ باب: کپڑے پہن کر نماز پڑھنا

❁ 351  حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الحُيَّضَ يَوْمَ العِيدَيْنِ، وَذَوَاتِ الخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ المُسْلِمِينَ، وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ، قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ عَطِيَّةَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ محمد سے، وہ ام عطیہ سے، انھوں نے فرمایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تا کہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس ( پردہ کرنے کے لیے ) چادر نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ہم سے عمران قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے، کہا ہم سے ام عطیہ نے، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہی حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : ترجمہ باب حدیث کے الفاظ لتلبسہا صاحبتہا من جلبابہا ( جس عورت کے پاس کپڑا نہ ہو اس کی ساتھ والی عورت کو چاہئیے کہ اپنی چادر ہی کا کوئی حصہ اسے بھی اڑھا دے ) سے نکلتا ہے۔ مقصد یہ کہ مساجد میں جاتے وقت، عیدگاہ میں حاضری کے وقت، نماز پڑھتے وقت اتنا کپڑا ضرور ہونا چاہئیے جس سے مرد وعورت اپنی اپنی حیثیت میں ستر پوشی کرسکیں۔ اس حدیث سے بھی عورتوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سند میں عبداللہ بن رجاء کو لاکر اس شخص کا رد کیا جس نے کہا کہ محمد بن سیرین نے یہ حدیث ام عطیہ سے نہیں سنی بلکہ اپنی بہن حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے۔ اسے طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔


❁ بَابُ عَقْدِ الإِزَارِ عَلَى القَفَا فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں گدی پر تہمند باندھنا

❁ 352  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي وَاقِدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، قَالَ: «صَلَّى جَابِرٌ فِي إِزَارٍ قَدْ عَقَدَهُ مِنْ قِبَلِ قَفَاهُ وَثِيَابُهُ مَوْضُوعَةٌ عَلَى المِشْجَبِ»، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: تُصَلِّي فِي إِزَارٍ وَاحِدٍ؟، فَقَالَ: «إِنَّمَا صَنَعْتُ ذَلِكَ لِيَرَانِي أَحْمَقُ مِثْلُكَ وَأَيُّنَا كَانَ لَهُ ثَوْبَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ :  ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے محمد بن منکدر کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہبند باندھ کر نماز پڑھی۔ جسے انھوں نے سر تک باندھ رکھا تھا اور آپ کے کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تجھ جیسا کوئی احمق مجھے دیکھے۔ بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو کپڑے بھی کس کے پاس تھے؟


بَابُ عَقْدِ الإِزَارِ عَلَى القَفَا فِي الصَّلاَةِ ❁ 
باب: نماز میں گدی پر تہمند باندھنا ❁

❁ 353  حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ أَبُو مُصْعَبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي المَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، وَقَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومصعب بن عبداللہ مطرف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن بن ابی الموالی نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اور انھوں نے بتلایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔

 

❁ تشریح : اس حدیث کا ظاہر میں اس باب سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے یہاں اس لیے نقل کیا کہ اگلی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا صاف مذکور نہ تھا، اس میں صاف صاف مذکور ہے۔ تشریح : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اکثر لوگوں کے پاس ایک ہی کپڑا ہوتا تھا، اسی میں وہ ستر پوشی کرکے نماز پڑھتے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کپڑے موجود ہونے کے باجود اسی لیے ایک کپڑے میں نماز ادا کی تاکہ لوگوں کو اس کا بھی جواز معلوم ہوجائے۔ بہت سے دیہات میں خاص طور پر خانہ بدوش قبائل میں ایسے لوگ اب بھی مل سکتے ہیں جوسرسے پیرتک صرف ایک ہی چادر یا کمبل کا تہبند وکرتا بنالیتے ہیں اور اسی سے ستر پوشی کرلیتے ہیں۔ اسلام میں ادائے نماز کے لیے ایسے سب لوگوں کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ
باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ❁ 

❁ 354  حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَدْ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد کے حوالہ سے بیان کیا، وہ عمر بن ابی سلمہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اور آپ نے کپڑے کے دونوں کناروں کو مخالف طرف کے کاندھے پر ڈال لیا۔


بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ ❁ 
باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ❁ 

❁ 355 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ «رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ قَدْ أَلْقَى طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ»

 

❁ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے عمر بن ابی سلمہ سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ام سلمہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا، کپڑے کے دونوں کناروں کو آپ نے دونوں کاندھوں پر ڈال رکھا تھا۔


بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ ❁
باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ❁

❁ 356 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ مُشْتَمِلًا بِهِ فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ وَاضِعًا طَرَفَيْهِ عَلَى عَاتِقَيْهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے والد سے جن کو عمر بن ابی سلمہ نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ اسے لپیٹے ہوئے تھے اور اس کے دونوں کناروں کو دونوں کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے


بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ ❁
باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ❁

❁ 357  حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ: ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الفَتْحِ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «مَنْ هَذِهِ» [ص:81]، فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ: «مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ»، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ، قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ، فُلاَنَ ابْنَ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ» قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَاكَ ضُحًى

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک بن انس نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن امیہ سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ یزید نے بیان کیا کہ انھوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے یہ سنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں کے بیٹے ( حضرت علی بن ابی طالب ) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ ( میرے خاوند ) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔

 

❁ تشریح : حضرت علی رضی اللہ عنہ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔ ایک باپ ایک ماں۔ ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔ گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔ ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔ ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یاعبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔ یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔ ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔ ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔ ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔ ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔


بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ ❁
باب: ایک کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا ❁

❁ 358  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ سَائِلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّلاَةِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَوَلِكُلِّكُمْ ثَوْبَانِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے ابن شہاب کے حوالہ سے خبر دی، وہ سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کچھ برا نہیں ) بھلا کیا تم سب میں ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہیں؟

 

❁ تشریح : ایک ہی کپڑا جس سے ستر پوشی ہوسکے اس میں نماز جائزو درست ہے۔ جمہورامت کا یہی فتویٰ ہے۔


بَابٌ: إِذَا صَلَّى فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ فَلْيَجْعَلْ عَلَى عَاتِقَيْهِ ❁

باب: جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے ❁


❁ 359 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَاتِقَيْهِ شَيْءٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوالزناد سے، انھوں نے عبدالرحمن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو بھی ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھنی چاہیے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔


بَابٌ: إِذَا صَلَّى فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ فَلْيَجْعَلْ عَلَى عَاتِقَيْهِ ❁
باب: جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے ❁

❁ 360  حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ – أَوْ كُنْتُ سَأَلْتُهُ – قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلْيُخَالِفْ بَيْنَ طَرَفَيْهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطہ سے، انھوں نے عکرمہ سے، یحییٰ نے کہا میں نے عکرمہ سے سنایا میں نے ان سے پوچھا تھا تو عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے۔ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ ارشاد فرماتے سنا تھا کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے کپڑے کے دونوں کناروں کو اس کے مخالف سمت کے کندھے پر ڈال لینا چاہیے۔

❁ تشریح : التحاف اور توشیح اور اشتمال سب کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کپڑے کا وہ کنارہ جو دائیں مونڈھے پر ہو اس کو بائیں ہاتھ کی بغل سے اور جو بائیں مونڈھے پر ڈالا ہو اس کو داہنے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر باندھ لینا، یہاں بھی مخالف سمت کندھے سے یہی مراد ہے۔


❁ بَابٌ: إِذَا كَانَ الثَّوْبُ ضَيِّقًا
❁ باب: جب کپڑا تنگ ہو تو کیا کرے

❁ 361 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ، فَقَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَجِئْتُ لَيْلَةً لِبَعْضِ أَمْرِي، فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي، وَعَلَيَّ ثَوْبٌ وَاحِدٌ، فَاشْتَمَلْتُ بِهِ وَصَلَّيْتُ إِلَى جَانِبِهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «مَا السُّرَى يَا جَابِرُ» فَأَخْبَرْتُهُ بِحَاجَتِي، فَلَمَّا فَرَغْتُ قَالَ: «مَا هَذَا الِاشْتِمَالُ الَّذِي رَأَيْتُ»، قُلْتُ: كَانَ ثَوْبٌ – يَعْنِي ضَاقَ – قَالَ: «فَإِنْ كَانَ وَاسِعًا فَالْتَحِفْ بِهِ، وَإِنْ كَانَ ضَيِّقًا فَاتَّزِرْ بِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، وہ سعید بن حارث سے، کہا ہم نے جابر بن عبداللہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر ( غزوہ بواط ) میں گیا۔ ایک رات میں کسی ضرورت کی وجہ سے آپ کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہیں، اس وقت میرے بدن پر صرف ایک ہی کپڑا تھا۔ اس لیے میں نے اسے لپیٹ لیا اور آپ کے بازو میں ہو کر میں بھی نماز میں شریک ہو گیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا جابر اس رات کے وقت کیسے آئے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ضرورت کے متعلق کہا۔ میں جب فارغ ہو گیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا لپیٹ رکھا تھا جسے میں نے دیکھا۔ میں نے عرض کی کہ ( ایک ہی ) کپڑا تھا ( اس طرح نہ لپیٹتا تو کیا کرتا ) آپ نے فرمایا کہ اگر وہ کشادہ ہو تو اسے اچھی طرح لپیٹ لیا کر اور اگر تنگ ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھ لیا کر۔

 

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر پر اس وجہ سے انکار فرمایاکہ انھوں نے کپڑے کو سارے بدن پر اس طرح سے لپیٹ رکھا ہوگا کہ ہاتھ وغیرہ سب اندر بند ہوگئے ہوں گے اسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اسی کو اشتمال صماءکہتے ہیں، مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا تنگ تھا اور جابر نے اس کے دونوں کناروں میں مخالفت کی تھی اور نماز میں ایک جانب جھکے ہوئے تھے تاکہ ستر نہ کھلے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلایا کہ یہ صورت جب ہے جب کپڑا فراخ ہو اگر تنگ ہو تو صرف تہبند کرلینا چاہئیے۔


❁ بَابٌ: إِذَا كَانَ الثَّوْبُ ضَيِّقًا
❁ باب: جب کپڑا تنگ ہو تو کیا کرے

❁ 362 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَ رِجَالٌ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَاقِدِي أُزْرِهِمْ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، كَهَيْئَةِ الصِّبْيَانِ، وَيُقَالُ لِلنِّسَاءِ: «لاَ تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انھوں نے سفیان ثوری سے، انھوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی سے، انھوں نے کہا کہ کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنی گردنوں پر ازاریں باندھے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور عورتوں کو ( آپ کے زمانے میں ) حکم تھا کہ اپنے سروں کو ( سجدے سے ) اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔

 

❁ تشریح : کیونکہ مردوں کے بیٹھ جانے سے پہلے سراٹھانے میں کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے ستر پر نہ پڑجائے۔ اسی لیے عورتوں کو پہلے سراٹھانے سے منع فرمایا۔ اس زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتی تھیں اور مردوں کا لباس بھی اسی قسم کا ہوتا تھا۔ آج کل یہ صورتیں نہیں ہیں پھر عورتوں کے لیے اب عیدگاہ میں بھی پر دے کا بہترین انتظام کردیا جاتا ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الجُبَّةِ الشَّامِيَّةِ
 ❁ باب: غیر مسلموں کے بنے کپڑے میں نماز پڑھنا

❁ 363  حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَالَ: «يَا مُغِيرَةُ خُذِ الإِدَاوَةَ»، فَأَخَذْتُهَا، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَوَارَى عَنِّي، فَقَضَى حَاجَتَهُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ شَأْمِيَّةٌ، فَذَهَبَ [ص:82] لِيُخْرِجَ يَدَهُ مِنْ كُمِّهَا فَضَاقَتْ، فَأَخْرَجَ يَدَهُ مِنْ أَسْفَلِهَا، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ، فَتَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلاَةِ، وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ صَلَّى

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر ( غزوہ تبوک ) میں تھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا۔ مغیرہ! پانی کی چھاگل اٹھا لے۔ میں نے اسے اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میری نظروں سے چھپ گئے۔ آپ نے قضائے حاجت کی۔ اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ ہاتھ کھولنے کے لیے آستین اوپر چڑھانی چاہتے تھے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آستین کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا۔ میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا اور اپنے خفین پر مسح کیا۔ پھر نماز پڑھی۔


❁ بَابُ كَرَاهِيَةِ التَّعَرِّي فِي الصَّلاَةِ وَغَيْرِهَا
❁ باب: بے ضرورت ننگا ہونے کی کراہت

❁ 364  حَدَّثَنَا مَطَرُ بْنُ الفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يُحَدِّثُ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْقُلُ مَعَهُمُ الحِجَارَةَ لِلْكَعْبَةِ وَعَلَيْهِ إِزَارُهُ»، فَقَالَ لَهُ العَبَّاسُ عَمُّهُ: يَا ابْنَ أَخِي، لَوْ حَلَلْتَ إِزَارَكَ فَجَعَلْتَ عَلَى مَنْكِبَيْكَ دُونَ الحِجَارَةِ، قَالَ: «فَحَلَّهُ فَجَعَلَهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ، فَسَقَطَ مَغْشِيًّا عَلَيْهِ، فَمَا رُئِيَ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْيَانًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم

 

❁ تشریح : اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ ( ارشادالساری ) ایمان کے بعد سب سے بڑا فریضہ ستر پوشی کا ہے، جو نماز کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہوجانا امردیگرہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي القَمِيصِ وَالسَّرَاوِيلِ وَالتُّبَّانِ وَالقَبَاءِ
❁ باب: قمیص، پاجامہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا

❁ 365 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الوَاحِدِ، فَقَالَ: «أَوَكُلُّكُمْ يَجِدُ ثَوْبَيْنِ» ثُمَّ سَأَلَ رَجُلٌ عُمَرَ، فَقَالَ: «إِذَا وَسَّعَ اللَّهُ فَأَوْسِعُوا»، جَمَعَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابَهُ، صَلَّى رَجُلٌ فِي إِزَارٍ وَرِدَاءٍ، فِي إِزَارٍ، وَقَمِيصٍ فِي إِزَارٍ وَقَبَاءٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَرِدَاءٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَقَمِيصٍ، فِي سَرَاوِيلَ وَقَبَاءٍ، فِي تُبَّانٍ وَقَبَاءٍ، فِي تُبَّانٍ وَقَمِيصٍ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: فِي تُبَّانٍ وَرِدَاءٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہ کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب کے واسطہ سے، انھوں نے محمد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم سب ہی لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر ( یہی مسئلہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص، کوئی تہبند اور قبا میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔

 

❁ تشریح : اس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شک تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آخر کا لفظ کہا تھا یا نہیں، کیونکہ محض جانگیا سے ستر پوشی نہیں ہوتی ہاں اس پر ایسا کپڑا ہو جس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوجائے توجائز ہے اور یہ اں یہی مراد ہے، والستر بہ حاصل مع القبا ومع القمیص ( قسطلانی ) چغہ یا طویل قمیص پہن کر اس کے ساتھ ستر پوشی ہوجاتی ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي القَمِيصِ وَالسَّرَاوِيلِ وَالتُّبَّانِ وَالقَبَاءِ 
❁ باب: قمیص، پاجامہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا

❁ 366 حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا يَلْبَسُ المُحْرِمُ؟ فَقَالَ: «لاَ يَلْبَسُ القَمِيصَ وَلاَ السَّرَاوِيلَ، وَلاَ البُرْنُسَ، وَلاَ ثَوْبًا مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ، وَلاَ وَرْسٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسِ الخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنَ الكَعْبَيْنِ»، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے سالم سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ پاجامہ، نہ باران کوٹ اور نہ ایسا کپڑا جس میں زعفران لگا ہوا ہو اور نہ ورس لگا ہوا کپڑا، پھر اگر کسی شخص کو جوتیاں نہ ملیں ( جن میں پاؤں کھلا رہتا ہو ) وہ موزے کاٹ کر پہن لے تا کہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں اور ابن ابی ذئب نے اس حدیث کو نافع سے بھی روایت کیا، انھوں نے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کیا ہے۔

 

❁ تشریح : ورس ایک زرد رنگ والی خوشبودار گھاس یمن میں ہوتی تھی جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے۔ مناسبت اس حدیث کی باب سے یہ ہے کہ محرم کو احرام کی حالت میں ان چیزوں کو پہننے سے منع فرمایا۔ معلوم ہوا کہ احرام کے علاوہ دیگر حالتوں میں ان سب کو پہنا جا سکتا ہے حتیٰ کہ نماز میں بھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کویہاں بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ قمیص اور پاجامے کے بغیر بھی ( بشرطیکہ ستر پوشی حاصل ہو ) نماز درست ہے کیونکہ محرم ان کو نہیں پہن سکتا اور آخر وہ نماز ضرور پڑھے گا۔


❁ بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ العَوْرَةِ
❁ باب: ستر عورت کا بیان

❁ 367  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، لَيْسَ عَلَى فَرْجِهِ مِنْهُ شَيْءٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے ابن شہاب سے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انھوں نے ابوسعید خدری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صماء کی طرح کپڑا بدن پر لپیٹ لینے سے منع فرمایا اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی ایک کپڑے میں احتباء کرے اور اس کی شرم گاہ پر علیحدہ کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔

 

❁ تشریح : احتباءکا مطلب یہ کہ اکڑوں بیٹھ کرپنڈلیوں اور پیٹھ کو کسی کپڑے سے باندھ لیاجائے۔ اس کے بعد کوئی کپڑا اوڑھ لیا جائے۔ عرب اپنی مجلسوں میں ایسے بھی بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ اس صورت میں بے پردہ ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے اسلام نے اس طرح بیٹھنے کی ممانعت کردی۔ اشتمال صماء یہ ہے کہ کپڑے کو لپیٹ کے اور ایک طرف سے اس کو اٹھا کر کندھے پر ڈال لے۔ اس میں شرمگاہ کھل جاتی ہے اس لیے منع ہوا، ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنا اس کو کہتے ہیں کہ دونوں سرین کو زمین سے لگادے اور دونوں پنڈلیاں کھڑی کردے۔ اس میں بھی شرمگاہ کے کھلنے کا احتمال ہے، اس لیے اس طرح بیٹھنا بھی منع ہوا۔


❁ بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ العَوْرَةِ
 ❁ باب: ستر عورت کا بیان

❁ 368 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ عَنِ اللِّمَاسِ وَالنِّبَاذِ، وَأَنْ يَشْتَمِلَ الصَّمَّاءَ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، جو ابوالزناد سے نقل کرتے ہیں، وہ اعرج سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی بیع و فروخت سے منع فرمایا۔ ایک تو چھونے کی بیع سے، دوسرے پھینکنے کی بیع سے اور اشتمال صماء سے ( جس کا بیان اوپر گزرا ) اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔

 

❁ تشریح : عرب میں خرید وفروخت کا طریقہ یہ بھی تھا کہ خریدنے والا اپنی آنکھ بندکرکے کسی چیز پر ہاتھ رکھ د یتا، دوسرا طریقہ یہ کہ خود بیچنے والا آنکھ بندکرکے کوئی چیز خریدنے والے کی طرف پھینک دیتا، ان دونوں صورتوں میں مقررہ قیمت پر خریدوفروخت ہوا کرتی تھی، پہلے کو لماس اور دوسرے کو نباذ کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں ناجائز قراری دی گئیں اور یہ اصول ٹھہرایا گیا کہ خریدوفروخت میں بیچنے یا خریدنے والا ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا نہ کھاجائے۔ ( یہاں تک فرمایا کہ دھوکہ بازی سے خریدوفروخت کرنے والا ہماری امت سے نہیں ہے۔


❁ بَابُ مَا يَسْتُرُ مِنَ العَوْرَةِ
❁ باب: ستر عورت کا بیان

❁ 369  حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ فِي تِلْكَ الحَجَّةِ فِي مُؤَذِّنِينَ [ص:83] يَوْمَ النَّحْرِ، نُؤَذِّنُ بِمِنًى: أَنْ لاَ يَحُجَّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: ثُمَّ أَرْدَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةٌ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْلِ مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ: «لاَ يَحُجُّ بَعْدَ العَامِ مُشْرِكٌ وَلاَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انھوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر ( ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تا کہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ سورہ برات پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔

 

❁ تشریح : مذکورہ امور کی ممانعت اس لیے کردی گئی کیونکہ بیت اللہ کی خدمت وحفاظت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہئیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی رضی اللہ عنہ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بِغَيْرِ رِدَاءٍ
❁ باب: بغیر چادر اوڑھے ایک کپڑے میں نماز پڑھنا

❁ 370  حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي المَوَالِي، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ المُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: وَهُوَ «يُصَلِّي فِي ثَوْبٍ مُلْتَحِفًا بِهِ، وَرِدَاؤُهُ مَوْضُوعٌ»، فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ تُصَلِّي وَرِدَاؤُكَ مَوْضُوعٌ، قَالَ: نَعَمْ، أَحْبَبْتُ أَنْ يَرَانِي الجُهَّالُ مِثْلُكُمْ «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي هَكَذَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمن بن ابی الموالی نے محمد بن منکدر سے، کہا میں جابر بن عبداللہ انصاری کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایک کپڑا اپنے بدن پر لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، حالانکہ ان کی چادر الگ رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے ابوعبداللہ! آپ کی چادر رکھی ہوئی ہے اور آپ ( اسے اوڑھے بغیر ) نماز پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے فرمایا، میں نے چاہا کہ تم جیسے جاہل لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیں، میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔


❁ بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الفَخِذِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ:
❁ باب: ران کے متعلق روایات

❁ 371 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلاَةَ الغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ حَسَرَ الإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ القَرْيَةَ قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ {فَسَاءَ صَبَاحُ المُنْذَرِينَ} [الصافات: 177] قَالَهَا ثَلاَثًا، قَالَ: وَخَرَجَ القَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ العَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: وَالخَمِيسُ – يَعْنِي الجَيْشَ – قَالَ: فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً، فَجُمِعَ السَّبْيُ، فَجَاءَ دِحْيَةُ الكَلْبِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، قَالَ: «اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً»، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ، لاَ تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: «ادْعُوهُ بِهَا» فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا»، قَالَ: فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ، جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ [ص:84] سُلَيْمٍ، فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، فَقَالَ: «مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ» وَبَسَطَ نِطَعًا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے کہ کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خبیر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے والخمیس کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انھیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انھیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انھیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم ( رضی اللہ عنہا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) نے انھیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔


❁ بَابٌ: فِي كَمْ تُصَلِّي المَرْأَةُ فِي الثِّيَابِ
 ❁ باب: عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے

❁ 372 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَقَدْ «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الفَجْرَ، فَيَشْهَدُ مَعَهُ نِسَاءٌ مِنَ المُؤْمِنَاتِ مُتَلَفِّعَاتٍ فِي مُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَرْجِعْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ مَا يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں۔ پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں۔ اس وقت انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر میں وہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتی تھیں۔ ثابت ہوا کہ ایک کپڑے سے اگر عورت اپنا سارا بدن چھپالے تونماز درست ہے۔ مقصود پردہ ہے وہ جس طور پر مکمل حاصل ہو صحیح ہے۔ کتنی ہی غریب عورتیں ہیں جن کوبہت مختصر کپڑے میسر ہوتے ہیں، اسلام میں ان سب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى فِي ثَوْبٍ لَهُ أَعْلاَمٌ وَنَظَرَ إِلَى عَلَمِهَا
❁ باب: بیل لگے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھنا

❁ 373  حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي خَمِيصَةٍ لَهَا أَعْلاَمٌ، فَنَظَرَ إِلَى أَعْلاَمِهَا نَظْرَةً، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: «اذْهَبُوا بِخَمِيصَتِي هَذِهِ إِلَى أَبِي جَهْمٍ وَأْتُونِي بِأَنْبِجَانِيَّةِ أَبِي جَهْمٍ، فَإِنَّهَا أَلْهَتْنِي آنِفًا عَنْ صَلاَتِي» وَقَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُنْتُ أَنْظُرُ إِلَى عَلَمِهَا، وَأَنَا فِي الصَّلاَةِ فَأَخَافُ أَنْ تَفْتِنَنِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم ( عامر بن حذیفہ ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کر دیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے غافل نہ کر دے۔

 

❁ تشریح : حضرت عامربن حذیفہ صحابی ابوجہم نے یہ نقش ونگاروالی چادرآپ کو تحفہ میں پیش کی تھی۔ آپ نے اسے واپس کردیا اور سادہ چادران سے منگالی تاکہ ان کو رنج نہ ہوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میراتحفہ واپس کردیا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز نماز کے اندر خلل کا سبب بن سکے اس کو علیحدہ کرنا ہی اچھا ہے۔ ہشام بن عروہ کی تعلیق کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ اور مسلم اور ابوداؤد نے نکالا ہے۔


❁ بَابُ إِنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ مُصَلَّبٍ أَوْ تَصَاوِيرَ، هَلْ تَفْسُدُ صَلاَتُهُ؟ وَمَا يُنْهَى عَنْ ذَلِكَ؟
❁ باب: ایسا کپڑا جس پر صلیب یا تصویریں ہوں

❁ 374  حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، كَانَ قِرَامٌ لِعَائِشَةَ سَتَرَتْ بِهِ جَانِبَ بَيْتِهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمِيطِي عَنَّا قِرَامَكِ هَذَا، فَإِنَّهُ لاَ تَزَالُ تَصَاوِيرُهُ تَعْرِضُ فِي صَلاَتِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انھوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔

 

❁ تشریح : گواس حدیث میں صلیب کا ذکر نہیں ہے۔ مگراس کا حکم بھی وہی ہے جو تصویر کا ہے اور جب لٹکانے سے آپ نے منع فرمایا تویقینا بطریق اولیٰ منع ہوگا۔ اور شاید حضرت امام نے کتاب اللباس والی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہ چھوڑتے جس پر صلیب بنی ہوتی، اس کو توڑ دیا کرتے تھے۔ اور باب کی حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ایسے کپڑے کا پہننا یا لٹکانا منع ہے لیکن اگر کسی نے اتفاقاً پہن لیا تونماز فاسد نہ ہوگی کیوں کہ آپ نے اس نماز کو دوبارہ نہیں لوٹایا۔


❁ بَابُ مَنْ صَلَّى فِي فَرُّوجِ حَرِيرٍ ثُمَّ نَزَعَهُ
❁ باب: ریشم کے کوٹ میں نماز پڑھنا

❁ 375 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: أُهْدِيَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُّوجُ حَرِيرٍ، فَلَبِسَهُ، فَصَلَّى فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَنَزَعَهُ نَزْعًا شَدِيدًا كَالكَارِهِ لَهُ، وَقَالَ: «لاَ يَنْبَغِي هَذَا لِلْمُتَّقِينَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن حبیب سے بیان کیا، انھوں نے ابوالخیر مرثد سے، انھوں نے عقبہ بن عامر سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشم کی قبا تحفہ میں دی گئی۔ اسے آپ نے پہنا اور نماز پڑھی لیکن آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو بڑی تیزی کے ساتھ اسے اتار دیا۔ گویا آپ اسے پہن کر ناگواری محسوس کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔

 

❁ تشریح : مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو اس کے پہننے سے منع فرمادیا۔ یہ کوٹ آپ نے اس وقت پہنا ہوگا جب تک مردوں کو ریشمی کپڑے کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ بعدمیں آپ نے سونا اور ریشم کے لیے اعلان فرمادیا کہ یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لیے حرام ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الأَحْمَرِ
باب: سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز پڑھنا ❁

❁ 376  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلاَلًا أَخَذَ وَضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُونَ ذَاكَ الوَضُوءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ، ثُمَّ رَأَيْتُ بِلاَلًا أَخَذَ عَنَزَةً، فَرَكَزَهَا وَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، مُشَمِّرًا [ص:85] صَلَّى إِلَى العَنَزَةِ بِالنَّاسِ رَكْعَتَيْنِ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ وَالدَّوَابَّ يَمُرُّونَ مِنْ بَيْنِ يَدَيِ العَنَزَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر ابن ابی زائدہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، انھوں نے اپنے والد ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انھوں نے گاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ڈیرے میں سے ) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔

 

❁ تشریح : امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کا یہ جوڑا نرا سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ اور کالی دھاریاں تھیں۔ سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر نے سات مذہب بیان کئے ہیں اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں یا عورتوں کی مشابہت کی نیت سے مرد کو سرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں ہیں اور کسم میں رنگا ہوا کپڑا مردوں کے لیے بالاتفاق ناجائز ہے۔ اسی طرح لال زین پوشوں کا استعمال جس کی ممانعت میں صاف حدیث موجود ہے۔ ڈیرے سے نکلتے وقت آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ مسلم کی روایت میں ہے، گویا میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سترہ کے باہر سے کوئی آدمی نمازی کے آگے سے نکلے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ نماز میں خلل ہوتا ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالمِنْبَرِ وَالخَشَبِ
❁ باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنا

❁ 377  حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ المِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ عَمِلَهُ فُلاَنٌ مَوْلَى فُلاَنَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ، خَلْفَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى، فَسَجَدَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى المِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ القَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالأَرْضِ»، فَهَذَا شَأْنُهُ، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ المَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ فَلاَ بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ قَالَ: لاَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبر نبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب ( دنیائے اسلام میں ) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے ( مسجد میں ) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرات رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔ امام ابوعبداللہ بخاری نے کہا کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو پوچھا۔ علی نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں لوگوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث اکثر پوچھی جاتی تھی، آپ نے بھی یہ حدیث ان سے سنی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔

 

❁ تشریح : غابہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا۔ جہاں جھاؤ کے درخت بہت عمدہ ہوا کرتے تھے۔ اسی سے آپ کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نکلا کہ اتنا ہٹنا یا آگے بڑھنا نماز کو نہیں توڑتا۔ خطابی نے کہا کہ آپ کا منبرتین سیڑھیوں کا تھا۔ آپ دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے تواترنے چڑھنے میں صرف دوقدم ہوئے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث علی بن مدینی سے سنی تواپنا مسلک یہی قرار دیا کہ امام مقتدیوں سے بلند کھڑا ہو تواس میں کچھ قباحت نہیں۔ سننے کی نفی سے مراد یہ کہ پوری روایت نہیں سنی۔ امام احمدنے اپنی سندسے سفیان سے یہ حدیث نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ کا بنایاگیا تھا۔ حنفیہ کے ہاں بھی اس صورت میں اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی اپنے امام کے رکوع اور سجدہ کو کسی ذریعہ سے جان سکے اس کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ چھت میں کوئی سوراخ ہو۔ ( تفہیم الباری، جلددوم، ص: 77 )


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالمِنْبَرِ وَالخَشَبِ
❁ باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنا

❁ 378 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ فَجُحِشَتْ سَاقُهُ – أَوْ كَتِفُهُ – وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ، فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: «إِنَّمَا جُعِلَ الإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا» وَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: «إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( 5 ھ میں ) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ میں بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر کھڑے ہو کر تمہیں نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور آپ انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔

 

❁ تشریح : 5ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تفاقاً گھوڑے سے گرگئے تھے اور ایک موقع پر آپ نے ازواج مطہرات سے ایک مہینہ کے لیے 9ھ میں علیحدگی کی قسم کھالی تھی۔ ان دونوں مواقع پر آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا تھا۔ زخمی ہونے کی حالت میں اس لیے کہ صحابہ کو عیادت میں آسانی ہو اور ازواج مطہرات سے جب آپ نے ملنا جلنا ترک کیا تواس خیال سے کہ پوری طرح ان سے علیحدگی رہے، بہرحال ان دونوں واقعات کے سن وتاریخ الگ الگ ہیں۔ لیکن راوی اس خیال سے کہ دونوں مرتبہ آپ نے بالاخانہ پر قیام فرمایا تھا انھیں ایک ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ قسطلانی فرماتے ہیں: والصحیح انہ منسوخ بصلاتہم فی آخرعمرہ علیہ الصلوۃ والسلام قیاما خلفہ وہوقاعد۔ یعنی صحیح یہ ہے کہ یہ منسوخ ہے اس لیے کہ آخر عمر میں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔


بَابُ إِذَا أَصَابَ ثَوْبُ المُصَلِّي امْرَأَتَهُ إِذَا سَجَدَ ❁ 
❁ باب: جب آدمی کا کپڑا اس کی عورت سے لگ جائے

❁ 379 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا حِذَاءَهُ، وَأَنَا حَائِضٌ، وَرُبَّمَا أَصَابَنِي ثَوْبُهُ إِذَا سَجَدَ، قَالَتْ: وَكَانَ يُصَلِّي عَلَى الخُمْرَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا خالد سے، کہا کہ ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا عبداللہ بن شداد سے، انھوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور حائضہ ہونے کے باوجود میں ان کے سامنے ہوتی، اکثر جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ( کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ) مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الحَصِيرِ
❁ باب: بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان

❁ 380 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ ان کی نانی ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا تیار کر کے کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے کھانے کے بعد فرمایا کہ آو تمہیں نماز پڑھا دوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے گھر سے ایک بوریا اٹھایا جو کثرت استعمال سے کالا ہو گیا تھا۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے ( اسی بورئیے پر ) کھڑے ہوئے اور میں اور ایک یتیم ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابوضمیرہ کے لڑکے ضمیرہ ) آپ کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہو گئے اور بوڑھی عورت ( انس کی نانی ملیکہ ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی اور واپس گھر تشریف لے گئے۔

 

❁ تشریح : بعض لوگوں نے ملیکہ کو حضرت انس کی دادی بتلایا ہے۔ ملیکہ بنت مالک بن عدی انس کی ماں کی والدہ ہیں۔ انس کی ماں کا نام ام سلیم اور ان کی ماں کا نام ملیکہ ہے۔ اوالضمیر فی جدتہ یعودعلی انس نفسہ وبہ جزم ابن سعد ( قسطلانی ) یہاں بھی حضرت امام ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے صرف مٹی ہی کو بطور شرط خیال کرتے ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الخُمْرَةِ
❁ باب: کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھنا

❁ 381 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الخُمْرَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے، انھوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ گاہ ( یعنی چھوٹے مصلے ) پر نماز پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : قال الجوہری الخمرۃ بالضم سجادۃ صغیرۃ تعمل من سحف النخل وترمل بالخبوط وقال صاحب النہایۃ ہی مقدار مایضع علیہ الرجل وجہہ فی سجودہ من حصیر اونسیحۃ خوض ونحوہ من الثیاب ولایکون خمرۃ الا فی ہذا المقدار۔ ( نیل، ج2،ص: 129 ) خلاصہ یہ کہ خمرہ چھوٹے مصلے پر بولاجاتا ہے وہ کھجور کا ہو یا کسی اور چیز کا اور حیصر طویل بوریا، ہردو پر نماز جائز ہے، یہاں بھی حضرت امام قدس سرہ ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کو شرط قراردیتے ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الفِرَاشِ
❁ باب: بچھونے پر نماز پڑھنے کے بیان میں

❁ 382 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: «كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَيَ، فِي قِبْلَتِهِ فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا»، قَالَتْ: وَالبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہ کہا مجھ سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سالم کے حوالہ سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سو جاتی اور میرے پاؤں آپ کے قبلہ میں ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے، تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دبا دیتے۔ میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور آپ جب کھڑے ہو جاتے تو میں انھیں پھر پھیلا دیتی۔ ان دنوں گھروں میں چراغ بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الفِرَاشِ
❁ باب: بچھونے پر نماز پڑھنے کے بیان میں

❁ 383 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهِيَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ عَلَى فِرَاشِ أَهْلِهِ اعْتِرَاضَ الجَنَازَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے، ان کو عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتیں جیسے ( نماز کے لیے ) جنازہ رکھا جاتا ہے۔

 

❁ تشریح : اوپر والی حدیث میں بچھونے کا لفظ نہ تھا، اس حدیث سے وضاحت ہوگئی۔


 ❁ بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الفِرَاشِ
❁ باب: بچھونے پر نماز پڑھنے کے بیان میں

 ❁ 384 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ عُرْوَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَعَائِشَةُ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ عَلَى الفِرَاشِ الَّذِي يَنَامَانِ عَلَيْهِ»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انھوں نے عراک سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔

 

❁ تشریح : اس حدیث میں مزید وضاحت آگئی کہ جس بستر پر آپ سویا کرتے تھے، اسی پر بعض دفعہ نماز بھی پڑھ لیتے۔ پس معلوم ہوا کہ سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کا بطور شرط ہونا ضروری نہیں ہے۔ سجدہ بہرحال زمین ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بستر یاچٹائی یا مصلّی پر بچھاہوا ہے )


❁ بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا

❁ 385 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ المَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ القَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي النِّعَالِ
 باب: جوتوں سمیت نماز پڑھنا ❁ 

❁ 386 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مَسْلَمَةَ سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ الأَزْدِيُّ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ: أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي نَعْلَيْهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابومسلمہ سعید بن یزید ازدی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں

 

❁ تشریح : ابوداؤد اور حاکم کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کے خلاف کرو وہ جوتیوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابوعمرو شیبانی کوئی نماز میں جوتا اتارے تواسے مارا کرتے تھے۔ مگریہ شرط ضروری ہے کہ پاک صاف ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نعل عربوں کا ایک خاص جوتا تھا اور عام جوتوں میں نماز جائز نہیں۔ خواہ وہ پاک صاف بھی ہوں۔ دلائل کی رو سے ایسا کہناصحیح نہیں ہے۔ جوتوں میں نماز بلاکراہت جائز درست ہے۔ بشرطیکہ وہ پاک صاف ستھرے ہوں، گندگی کا ذرا بھی شبہ ہو تو ان کو اتاردینا چاہئیے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الخِفَافِ
❁ باب: موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا

❁ 387 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ، يُحَدِّثُ عَنْ هَمَّامِ بْنِ الحَارِثِ، قَالَ: رَأَيْتُ جَرِيرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ «بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى» فَسُئِلَ، فَقَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ هَذَا» قَالَ إِبْرَاهِيمُ: «فَكَانَ يُعْجِبُهُمْ لِأَنَّ جَرِيرًا كَانَ مِنْ آخِرِ مَنْ أَسْلَمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے اعمش کے واسطہ سے، اس نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے سنا۔ وہ ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور ( موزوں سمیت ) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ یہ حدیث لوگوں کی نظر میں بہت پسندیدہ تھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ آخر میں اسلام لائے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي الخِفَافِ
❁ باب: موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا

❁ 388 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنِ المُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: «وَضَّأْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَصَلَّى»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا۔ آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔

 

❁ تشریح : خف کی تعریف یہ ہے والخف نعل من ادم یغطی الکعبین ( نیل الاوطار ) یعنی وہ چمڑے کا ایک ایسا جوتا ہوتا ہے جو ٹخنوں تک سارے پیر کو ڈھانپ لیتا ہے۔اس پر مسح کا جائز ہونا جمہور امت کا مسلمہ ہے۔ عن ابن المبارک قال لیس فی المسح علی الخفین عن الصحابۃ اختلاف۔ ( نیل الاوطار ) یعنی صحابہ میں خفین پر مسح کرنے کے جواز میں کسی کا اختلاف منقول نہیں ہوا۔ نووی شرح مسلم میں ہے کہ مسح علی الخفین کا جواز بے شمار صحابہ سے مروی ہے۔ یہ ضروری شرط ہے کہ پہلی دفعہ جب بھی خف پہنا جائے وضو کرکے پیر دھوکر پہنا جائے، اس صورت میں مسافرکے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اس پر مسح کرلینا جائز ہوگا۔ ترجمہ میں موزوں سے یہی خف مراد ہیں۔ جرابوں پر بھی مسح درست ہے بشرطیکہ وہ اس قدر موٹی ہوں کہ ان کوحقیقی جراب کہا جاسکے۔


❁ بَابُ إِذَا لَمْ يُتِمَّ السُّجُودَ
❁ باب: جب کوئی پورا سجدہ نہ کرے

 ❁389 أَخْبَرَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا مَهْدِيٌّ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، رَأَى رَجُلًا لاَ يُتِمُّ رُكُوعَهُ وَلاَ سُجُودَهُ، فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ قَالَ لَهُ حُذَيْفَةُ: «مَا صَلَّيْتَ؟» قَالَ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ: «لَوْ مُتَّ مُتَّ عَلَى غَيْرِ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہمیں صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے واصل کے واسطہ سے، وہ ابووائل شقیق بن سلمہ سے، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے اپنی نماز پوری کر لی تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل راوی نے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تو ایسی ہی نماز پر مر جاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں مرتا۔

 

❁ تشریح : رکوع اور سجدہ پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم تین تین مرتبہ رکوع اور سجدہ کی دعائیں پڑھی جائیں اور رکوع ایسا ہو کہ کمر بالکل سیدھی جھک جائے اور ہاتھ عمدہ طور پر گھٹنوں پر ہوں۔ سجدہ میں پیشانی اور ناک اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کی قبلہ رخ انگلیاں زمین پر جم جائیں۔ رکوع اور سجدہ کو ان صورتوں میں پورا کیا جائے گا۔ جو لوگ مرغوں کی طرح ٹھونگے مارتے ہیں، وہ اس حدیث کی وعید کے مصداق ہیں۔ سنت کے مطابق آہستہ آہستہ نماز ادا کرنا جماعت اہل حدیث کا طرئہ امتیاز ہے، اللہ اسی پر قائم دائم رکھے آمین۔


❁ بَابُ يُبْدِي ضَبْعَيْهِ وَيُجَافِي فِي السُّجُودِ
 ❁باب: سجدہ میں بغلوں کو کھلا رکھنا

❁ 390 أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ هُرْمُزَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ ابْنِ بُحَيْنَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى فَرَّجَ بَيْنَ يَدَيْهِ حَتَّى يَبْدُوَ بَيَاضُ إِبْطَيْهِ» وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے حدیث بیان کی بکر بن مضر نے جعفر سے، وہ ابن ہرمز سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی اور لیث نے یوں کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : یہ سب رکوع وسجود کے آداب بیان کئے گئے ہیں جن کا ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ
❁ باب: قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت

❁ 391 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ المَهْدِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ سِيَاهٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلاَتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ المُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةُ رَسُولِهِ، فَلاَ تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے منصور بن سعد نے میمون بن سیاہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔


❁ بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ
❁ باب: قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت

❁ 392 حَدَّثَنَا نُعَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَإِذَا قَالُوهَا، وَصَلَّوْا صَلاَتَنَا، وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَذَبَحُوا ذَبِيحَتَنَا، فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْنَا دِمَاؤُهُمْ وَأَمْوَالُهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن المبارک نے حمید طویل کے واسطہ سے، انھوں نے روایت کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں۔ پس جب وہ اس کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہو گئے۔ مگر کسی حق کے بدلے اور ( باطن میں ) ان کا حساب اللہ پر رہے گا۔


❁ بَابُ فَضْلِ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ
 ❁ باب: قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت

❁ 393 قَالَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، قَالَ: سَأَلَ مَيْمُونُ بْنُ سِيَاهٍ، أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، مَا يُحَرِّمُ دَمَ العَبْدِ وَمَالَهُ؟ فَقَالَ: «مَنْ شَهِدَ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا، وَصَلَّى صَلاَتَنَا، وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا، فَهُوَ المُسْلِمُ، لَهُ مَا لِلْمُسْلِمِ، وَعَلَيْهِ [ص:88] مَا عَلَى المُسْلِمِ قال ابن أبي مريم أخبرنا يحي قال حدثنا حميد قال حدثنا انس عن النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : علی بن عبداللہ بن مدینی نے فرمایا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میمون بن سیاہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ! آدمی کی جان اور مال پر زیادتی کو کیا چیزیں حرام کرتی ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے وہی حقوق ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو عام مسلمانوں پر ہیں اور ابن ابی مریم نے کہا، ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم سے حمید نے حدیث بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : ان احادیث میں ان چیزوں کا بیان ہے جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے جن میں اوّلین چیز کلمہ طیبہ پڑھنا اور توحید ورسالت کی گواہی دینا ہے اور اسلامی تعلیم کے مطابق قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کرنا اور اسلام کے طریقہ پر ذبح کرنا اور اسے کھانا، یہ وہ ظاہری امورہیں جن کے بجالانے والے کو مسلمان ہی کہا جائے گا۔ رہا اس کے دل کامعاملہ وہ اللہ کے حوالہ ہے۔ چونکہ اس میں قبلہ رخ منہ کرنا بطور اصل اسلام مذکور ہے، اس لیے حدیث اور باب میں مطابقت ہوئی۔


❁ بَابُ قِبْلَةِ أَهْلِ المَدِينَةِ وَأَهْلِ الشَّأْمِ وَالمَشْرِقِ
❁ باب: مدینہ اور شام والوں کا قبلہ

❁ 394 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَتَيْتُمُ الغَائِطَ فَلاَ تَسْتَقْبِلُوا القِبْلَةَ، وَلاَ تَسْتَدْبِرُوهَا وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا» قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: «فَقَدِمْنَا الشَّأْمَ فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ بُنِيَتْ قِبَلَ القِبْلَةِ فَنَنْحَرِفُ، وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى»، وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے زہری نے عطاء بن یزید لیثی کے واسطہ سے، انھوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو اس وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف اس وقت اپنا منہ کر لیا کرو۔ ابوایوب نے فرمایا کہ ہم جب شام میں آئے تو یہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے ( جب ہم قضائے حاجت کے لیے جاتے ) تو ہم مڑ جاتے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے اور زہری نے عطاء سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ عطاء نے کہا میں نے ابوایوب سے سنا، انھوں نے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔

 

❁ تشریح : اصل میں یہ حدیث ایک ہے جو دوسندوں سے روایت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سفیان نے علی بن عبداللہ مدینی سے یہ حدیث دوبار بیان کی، ایک بار میں توعن عطاءعن ابی ایوب کہا، اور دوسری بار میں سمعت اباایوب کہا تو دوسری بار میں عطاءکے سماع کی ابوایوب سے وضاحت ہوگئی۔


❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125]
 ❁ باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ

❁ 395 حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ طَافَ بِالْبَيْتِ العُمْرَةَ، وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ، أَيَأْتِي امْرَأَتَهُ؟ فَقَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، «فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ المَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ»، وَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا ہم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے بیت اللہ کا طواف عمرہ کے لیے کیا لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کی، کیا ایسا شخص ( بیت اللہ کے طواف کے بعد ) اپنی بیوی سے صحبت کر سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی، پھر صفا اور مردہ کی سعی کی اور تمہارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ” ( الاحزاب : 21 )


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] ❁

باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ ❁


❁ 396 وَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «لاَ يَقْرَبَنَّهَا حَتَّى يَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالمَرْوَةِ»

 

❁ ترجمہ : عمرو بن دینار نے کہا، ہم نے جابر بن عبداللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ وہ بیوی کے قریب بھی اس وقت تک نہ جائے جب تک صفا اور مروہ کی سعی نہ کر لے۔

 

❁ تشریح : گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے اور یہ بھی بتایاکہ صفا اور مروہ میں دوڑنا واجب ہے اور جب تک یہ کام نہ کرے عمرہ کا احرام نہیں کھل سکتا۔ حضرت امام حمیدی اور ائمہ احناف رحمہم اللہ اجمعین: صاحب انوارالباری نے حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بعض جگہ بہت ہی نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں ان کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا رفیق سفر اور ان کے مذہب کابڑا علم بردار بتاتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف قرار دیا ہے۔ ( دیکھو انوارالباری،جلدہفتم،ص: 44 ) چونکہ امام حمیدی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اکابراساتذہ میں سے ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو اپنے بزرگ استاد سے کافی متاثر اور حنفیت کے لیے شدید متعصب نظر آتے ہیں۔ اس نامناسب بیان کے باوجود صاحب انوارالباری نے شاہ صاحب ( مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) سے جو ہدایات نقل فرمائی ہیں، وہ اگرہر وقت ملحوظ خاطر رہیں تو کافی حد تک تعصب اور تقلید جامد سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔شاہ صاحب کے ارشادات صاحب انوار الباری کے لفظوں میں یہ ہیں۔ ہمیں اپنے اکابر کی طرف سے کسی حالت میں بدگمان نہ ہونا چاہئیے حتیٰ کہ ان حضرات سے بھی جن سے ہمارے مقتداؤں کے بارے میں صرف برے کلمات ہی نقل ہوئے ہوں کیونکہ ممکن ہے ان کی رائے آخر وقت میں بدل گئی ہو اور وہ ہمارے ان مقتداؤں کی طرف سے سلیم الصدر ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غرض سب سے بہتر اور اسلم طریقہ یہی ہے کہ “ قصہ زمیں برسرزمیں ” ختم کردیا جائے اور آخرت میں سب ہی حضرات اکابر کوپوری عزت اور سربلندی کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسرے سے خوش ہوتے ہوئے ملیک مقتدر کے دربار خاص میں یکجا ومجتمع تصور کیاجائے، جہاں وہ سب ارشاد خداوندی ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( الحجر: 47 ) کے مظہر اتم ہوں گے۔ ان شاءاللہ العزیز۔ ” ( انوارالباری، جلد7،ص: 45 ) ہمیں بھی یقین ہے کہ آخرت میں یہی معاملہ ہوگا، مگرشدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بھی جملہ کلمہ گومسلمان ایک دوسرے کے لیے اپنے دلو ںمیں جگہ پیدا کریں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں تاکہ وہ امت واحدہ کا نمونہ بن کر آنے والے مصائب کا مقابلہ کرسکیں۔ اس بارے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی علماءکرام کی ہے جو امت کی عزت و ذلت کے واحد ذمہ دار ہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطاکرے۔ کسی شاعر نے ٹھیک کہا ہے وما افسد الدین الا الملوک و احبار سوءو رہبانہا یعنی دین کو بگاڑنے میں زیادہ حصہ ظالم بادشاہوں اور دنیا دار مولویوں اور مکار درویشوں ہی کا رہا ہے۔ اعاذنا اللہ منہم

❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125]

❁ باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ


❁ 397 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَيْفٍ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا، قَالَ: أُتِيَ ابْنُ عُمَرَ فَقِيلَ لَهُ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الكَعْبَةَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَأَقْبَلْتُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَجَ وَأَجِدُ بِلاَلًا قَائِمًا بَيْنَ البَابَيْنِ، فَسَأَلْتُ بِلاَلًا، فَقُلْتُ: أَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الكَعْبَةِ؟ قَالَ: «نَعَمْ، رَكْعَتَيْنِ، بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ اللَّتَيْنِ عَلَى يَسَارِهِ إِذَا دَخَلْتَ، ثُمَّ خَرَجَ، فَصَلَّى فِي وَجْهِ الكَعْبَةِ رَكْعَتَيْنِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا سیف ابن ابی سلیمان سے، انھوں نے کہا میں نے مجاہد سے سنا، انھوں نے کہا کہ ابن عمر کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے لو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے اور آپ کعبہ کے اندر داخل ہو گئے۔ ابن عمر نے کہا کہ میں جب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے نکل چکے تھے، میں نے دیکھا کہ بلال دونوں دروازوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ میں نے بلال سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! دو رکعت ان دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھیں، جو کعبہ میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف واقع ہیں۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز ادا فرمائی۔

 

❁ تشریح : یعنی مقام ابراہیم کے پاس، گوآپ نے مقام ابراہیم کی طرف منہ نہیں کیا بلکہ کعبہ کی طرف منہ کیا۔


❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125]

❁ باب: مقام ابراہیم کو مصلٰے بناؤ


❁ 398 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَيْتَ، دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا، وَلَمْ يُصَلِّ حَتَّى خَرَجَ مِنْهُ، فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قُبُلِ الكَعْبَةِ، وَقَالَ: «هَذِهِ القِبْلَةُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔

 

❁ تشریح : اور یہ اب کبھی منسوخ نہیں ہوگا یعنی مقام ابراہیم کے پاس اس طرح یہ حدیث باب کے مطابق ہوگئی۔ حضرت الامام کا ان احادیث کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آیت شریفہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی ( البقرۃ: 125 ) میں امروجوب کے لیے نہیں ہے۔ آدمی کعبہ کی طرف منہ کرکے ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے خواہ مقام ابراہیم میں پڑھے یا کسی اور جگہ میں۔ اس روایت میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، اگلی روایت میں یہ ذکر موجود ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ آپ کعبہ کے اندر شاید کئی دفعہ ہوئے بعض دفعہ آپ نے نماز پڑھی، بعض دفعہ صرف دعا پر اکتفاکیا اور کعبہ میں داخل ہونے کے دونوں طریقے جائز ہیں۔


❁ بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ
باب: ہر مقام اور ملک میں رخ قبلہ کی طرف ہو ❁ 

❁ 399 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى نَحْوَ بَيْتِ المَقْدِسِ، سِتَّةَ عَشَرَ أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ أَنْ يُوَجَّهَ إِلَى الكَعْبَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: {قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ} [البقرة: 144]، فَتَوَجَّهَ نَحْوَ الكَعْبَةِ ، وَقَالَ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ، وَهُمُ اليَهُودُ: {مَا وَلَّاهُمْ} [البقرة: 142] عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا، قُلْ لِلَّهِ المَشْرِقُ [ص:89] وَالمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، ثُمَّ خَرَجَ بَعْدَ مَا صَلَّى، فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ فِي صَلاَةِ العَصْرِ نَحْوَ بَيْتِ المَقْدِسِ، فَقَالَ: هُوَ يَشْهَدُ: أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ تَوَجَّهَ نَحْوَ الكَعْبَةِ، فَتَحَرَّفَ القَوْمُ، حَتَّى تَوَجَّهُوا نَحْوَ الكَعْبَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، کہا انھوں نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( دل سے ) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “ ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔ پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انھیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ” ( جب قبلہ بدلا تو ) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔

 

❁ تشریح : بیان کرنے والے عبادبن بشرنامی ایک صحابی تھے اوریہ بنی حارثہ کی مسجد تھی جس کو آج بھی مسجدالقبلتین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم الحروف کو ایک مرتبہ1951 ءمیں اوردوسری مرتبہ 1962 ءمیں یہ مسجددیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔قباوالوں کو دوسرے دن خبرہوئی تھی وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اورنماز ہی میں کعبہ کی طرف گھوم گئے۔


❁ بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ
❁ باب: ہر مقام اور ملک میں رخ قبلہ کی طرف ہو

❁ 400 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ، حَيْثُ تَوَجَّهَتْ فَإِذَا أَرَادَ الفَرِيضَةَ نَزَلَ فَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن عبدالرحمن کے واسطہ سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو ( نفل ) نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔

 

❁ تشریح : نفل نمازیں سواری پر پڑھنا درست ہے اوررکوع سجدہ بھی اشارے سے کرنا کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اونٹنی پر نماز شروع کرتے وقت آپ قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ لیا کرتے تھے۔


❁ بَابُ التَّوَجُّهِ نَحْوَ القِبْلَةِ حَيْثُ كَانَ
❁ باب: ہر مقام اور ملک میں رخ قبلہ کی طرف ہو

❁ 401 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – قَالَ إِبْرَاهِيمُ: لاَ أَدْرِي زَادَ أَوْ نَقَصَ – فَلَمَّا سَلَّمَ قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلاَةِ شَيْءٌ؟ قَالَ: «وَمَا ذَاكَ»، قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، فَثَنَى رِجْلَيْهِ، وَاسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ، وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَلَمَّا أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ، قَالَ: «إِنَّهُ لَوْ حَدَثَ فِي الصَّلاَةِ شَيْءٌ لَنَبَّأْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيتُ فَذَكِّرُونِي، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاَتِهِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّوَابَ فَلْيُتِمَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ لِيُسَلِّمْ، ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دینا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔

 

❁ تشریح : بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي القِبْلَةِ، وَمَنْ لَمْ يَرَ الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا، فَصَلَّى إِلَى غَيْرِ القِبْلَةِ 
❁ باب: قبلہ سے متعلق اور احادیث 

❁ 402 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى، فَنَزَلَتْ: {وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} [البقرة: 125] وَآيَةُ الحِجَابِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَمَرْتَ نِسَاءَكَ أَنْ يَحْتَجِبْنَ، فَإِنَّهُ يُكَلِّمُهُنَّ البَرُّ وَالفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الحِجَابِ، وَاجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ: (عَسَى رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَكُنَّ أَنْ يُبَدِّلَهُ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَّ)، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ:

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری تین باتوں میں جو میرے منہ سے نکلا میرے رب نے ویسا ہی حکم فرمایا۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو ” دوسری آیت پردہ کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ کاش! آپ اپنی عورتوں کو پردہ کا حکم دیتے، کیونکہ ان سے اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ بات کرتے ہیں۔ اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی عسی ربہ ان طلقلکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن اور سعید ابن ابی مریم نے کہا کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی۔

 

❁ تشریح : اس سند کے بیان کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کاسماع انس سے معلوم ہوجائے اوریحییٰ بن ایوب اگرچہ ضعیف ہے مگرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی روایت بطور متابعت قبول فرمائی ہے۔


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي القِبْلَةِ، وَمَنْ لَمْ يَرَ الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا، فَصَلَّى إِلَى غَيْرِ القِبْلَةِ
❁ باب: قبلہ سے متعلق اور احادیث

❁ 403 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: بَيْنَا النَّاسُ بِقُبَاءٍ فِي صَلاَةِ الصُّبْحِ، إِذْ جَاءَهُمْ آتٍ، فَقَالَ: «إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ اللَّيْلَةَ قُرْآنٌ، وَقَدْ أُمِرَ أَنْ يَسْتَقْبِلَ الكَعْبَةَ، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وَكَانَتْ وُجُوهُهُمْ إِلَى الشَّأْمِ، فَاسْتَدَارُوا إِلَى الكَعْبَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر سے، آپ نے فرمایا کہ لوگ قبا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آنے والا آیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کل وحی نازل ہوئی ہے اور انھیں کعبہ کی طرف ( نماز میں ) منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے بھی کعبہ کی جانب منہ کر لیے جب کہ اس وقت وہ شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے، اس لیے وہ سب کعبہ کی جانب گھوم گئے۔

 

❁ تشریح : ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیںاورمرد گھوم کر عورتوں کی جگہ چلے گئے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ امام جو مسجد کے آگے کی جانب تھا گھوم کر مسجد کے پیچھے کی جانب آگیا، کیونکہ جو کوئی مدینہ میں کعبہ کی طرف منہ کرے گا توبیت المقدس اس کے پیٹھ کی طرف ہوجائے گا اور اگرامام اپنی جگہ پر رہ کر گھوم جاتا تو اس کے پیچھے صفوں کی جگہ کہاں سے نکلتی اور جب امام گھوما تو مقتدی بھی اس کے ساتھ گھوم گئے اور عورتیں بھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے پیچھے آگئیں۔ ضرورت کے تحت یہ کیا گیا جیسا کہ وقت آنے پر سانپ مارنے کے لیے مسجد میں بحالت نماز گھومنا پھرنا درست ہے۔


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي القِبْلَةِ، وَمَنْ لَمْ يَرَ الإِعَادَةَ عَلَى مَنْ سَهَا، فَصَلَّى إِلَى غَيْرِ القِبْلَةِ
❁ باب: قبلہ سے متعلق اور احادیث

❁ 404 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الظُّهْرَ خَمْسًا، فَقَالُوا: أَزِيدَ فِي الصَّلاَةِ؟ قَالَ: «وَمَا ذَاكَ» قَالُوا: صَلَّيْتَ خَمْسًا [ص:90]، فَثَنَى رِجْلَيْهِ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے شعبہ کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے انھوں نے عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بھولے سے ) ظہر کی نماز ( ایک مرتبہ ) پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر آپ نے اپنے پاؤں موڑ لیے اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے۔

 

❁ تشریح : گذشتہ حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ صحابہ نے باوجود اس کے کہ کچھ نماز کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے پڑھی مگر اس کو دوبارہ نہیں لوٹایا اوراس حدیث سے یہ نکلا کہ آپ نے بھول کر لوگوں کی طرف منہ کرلیا اورکعبہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو پھر بھی نہیں لوٹایا، باب کا یہی مقصود تھا۔


❁ بَابُ حَكِّ البُزَاقِ بِاليَدِ مِنَ المَسْجِدِ
❁ باب: اگر مسجد میں تھوک لگا ہو تو

❁ 405 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي القِبْلَةِ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رُئِيَ فِي وَجْهِهِ، فَقَامَ فَحَكَّهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلاَتِهِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ، أَوْ إِنَّ رَبَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ، فَلاَ يَبْزُقَنَّ أَحَدُكُمْ قِبَلَ قِبْلَتِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمَيْهِ» ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ، فَبَصَقَ فِيهِ ثُمَّ رَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: «أَوْ يَفْعَلُ هَكَذَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا، جو آپ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص ( نماز میں اپنے ) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنادہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔


بَابُ حَكِّ البُزَاقِ بِاليَدِ مِنَ المَسْجِدِ ❁
باب: اگر مسجد میں تھوک لگا ہو تو ❁

❁ 406 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى بُصَاقًا فِي جِدَارِ القِبْلَةِ، فَحَكَّهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ يُصَلِّي، فَلاَ يَبْصُقُ قِبَلَ وَجْهِهِ، فَإِنَّ اللَّهَ قِبَلَ وَجْهِهِ إِذَا صَلَّى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے نافع کے واسطہ سے روایت کیا، کہا انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی دیوار پر تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچ ڈالا پھر ( آپ نے ) لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز میں ہو تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے کیونکہ نماز میں منہ کے سامنے اللہ عزوجل ہوتا ہے۔


❁ بَابُ حَكِّ البُزَاقِ بِاليَدِ مِنَ المَسْجِدِ
❁ باب: اگر مسجد میں تھوک لگا ہو تو

❁ 407 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «رَأَى فِي جِدَارِ القِبْلَةِ مُخَاطًا أَوْ بُصَاقًا أَوْ نُخَامَةً، فَحَكَّهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی دیوار پر رینٹ یا تھوک یا بلغم دیکھا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھرچ ڈالا۔


❁ بَابُ حَكِّ المُخَاطِ بِالحَصَى مِنَ المَسْجِدِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «إِنْ وَطِئْتَ عَلَى قَذَرٍ رَطْبٍ، فَاغْسِلْهُ وَإِنْ كَانَ يَابِسًا فَلاَ»
❁ باب: مسجد میں سے رینٹ کو کھرچ ڈالنا

❁ 408 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبَا سَعِيدٍ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي جِدَارِ المَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ حَصَاةً فَحَكَّهَا، فَقَالَ: «إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَخَّمَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن شہاب نے حمید بن عبدالرحمن کے واسطہ سے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تھوکے تو اسے اپنے منہ کے سامنے یا دائیں طرف نہیں تھوکنا چاہیے، البتہ بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے۔

 

❁  تشریح : ترجمہ باب میں رینٹ کا ذکر تھا اورحدیث میں بلغم کا ذکر ہے۔ چونکہ یہ دونوں آدمی کے فضلے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے، حدیث مذکور میں نماز کی قیدنہیں ہے۔ مگرآگے یہی روایت آدم بن ابی ایاس سے آرہی ہے اس میں نماز کی قید ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت مطلق ہے۔ یعنی نماز میں ہویا غیر نماز میں مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنامنع ہے۔ پچھلے باب میں تھوک کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے کا ذکر تھا اوریہاں کنکری سے کھرچنے کا ذکر ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی ایسا کیا، کبھی ایسا کیا، دونوں طرح سے مسجد کو صاف کرنا مقصد ہے۔


❁ بَابُ حَكِّ المُخَاطِ بِالحَصَى مِنَ المَسْجِدِ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «إِنْ وَطِئْتَ عَلَى قَذَرٍ رَطْبٍ، فَاغْسِلْهُ وَإِنْ كَانَ يَابِسًا فَلاَ»
❁ باب: مسجد میں سے رینٹ کو کھرچ ڈالنا

❁ 409 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبَا سَعِيدٍ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي جِدَارِ المَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ حَصَاةً فَحَكَّهَا، فَقَالَ: «إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَخَّمَنَّ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن شہاب نے حمید بن عبدالرحمن کے واسطہ سے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تھوکے تو اسے اپنے منہ کے سامنے یا دائیں طرف نہیں تھوکنا چاہیے، البتہ بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے۔

 

❁ تشریح : ترجمہ باب میں رینٹ کا ذکر تھا اورحدیث میں بلغم کا ذکر ہے۔ چونکہ یہ دونوں آدمی کے فضلے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے، حدیث مذکور میں نماز کی قیدنہیں ہے۔ مگرآگے یہی روایت آدم بن ابی ایاس سے آرہی ہے اس میں نماز کی قید ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت مطلق ہے۔ یعنی نماز میں ہویا غیر نماز میں مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنامنع ہے۔ پچھلے باب میں تھوک کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے کا ذکر تھا اوریہاں کنکری سے کھرچنے کا ذکر ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی ایسا کیا، کبھی ایسا کیا، دونوں طرح سے مسجد کو صاف کرنا مقصد ہے۔


❁ بَابُ لاَ يَبْصُقْ عَنْ يَمِينِهِ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں داہنی طرف نہ تھوکنا


❁ 410 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبَا سَعِيدٍ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي حَائِطِ المَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً، فَحَتَّهَا، ثُمَّ قَالَ: «إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلاَ يَتَنَخَّمْ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا اگر تم میں سے کسی کو تھوکنا ہو تو اسے اپنے چہرے کے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔


❁ بَابُ لاَ يَبْصُقْ عَنْ يَمِينِهِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں داہنی طرف نہ تھوکنا

❁ 411 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبَا سَعِيدٍ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي حَائِطِ المَسْجِدِ، فَتَنَاوَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَاةً، فَحَتَّهَا، ثُمَّ قَالَ: «إِذَا تَنَخَّمَ أَحَدُكُمْ، فَلاَ يَتَنَخَّمْ قِبَلَ وَجْهِهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا اگر تم میں سے کسی کو تھوکنا ہو تو اسے اپنے چہرے کے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔


❁ بَابُ لاَ يَبْصُقْ عَنْ يَمِينِهِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں داہنی طرف نہ تھوکنا

❁ 412 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ يَتْفِلَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ رِجْلِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اپنے سامنے یا اپنی دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ بائیں طرف یا بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔


❁ بَابٌ: لِيَبْزُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى
❁ باب: بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنا

❁ 413 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ المُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي الصَّلاَةِ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي رَبَّهُ، فَلاَ يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن جب نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے، ہاں بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک لے۔


❁ بَابٌ: لِيَبْزُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى
❁ باب: بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنا

❁ 414 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ [ص:91]، أَنَّ النَّبِيَّ صلّى الله عليه وسلم أَبْصَرَ نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ المَسْجِدِ، فَحَكَّهَا بِحَصَاةٍ ثُمَّ «نَهَى أَنْ يَبْزُقَ الرَّجُلُ بَيْنَ يَدَيْهِ، أَوْ عَنْ يَمِينِهِ وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى» وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، سَمِعَ حُمَيْدًا، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوسعید خدری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی دیوار پر بلغم دیکھا تو آپ نے اسے کنکری سے کھرچ ڈالا۔ پھر فرمایا کہ کوئی شخص سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے، البتہ بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لینا چاہیے۔ دوسری روایت میں زہری سے یوں ہے کہ انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے ابوسعید خدری کے واسطہ سے اسی طرح یہ حدیث سنی۔

 

❁ تشریح : اس سند کے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ زہری کا سماع حمید سے معلوم ہوجائے۔ یہ جملہ احادیث اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جب مساجد خام تھیں اورفرش بھی ریت کا ہوتا تھا اس میں اس تھوک کو غائب کردینا ممکن تھا جیسا کہ کفارتھا دفنہا میں وارد ہوا، اب پختہ فرشوں والی مسجد میں صرف رومال کا استعمال ہونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں اس کا ذکر موجود ہوا ہے۔


❁  بَابُ كَفَّارَةِ البُزَاقِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں تھوکنے کا کفارہ

❁ 415 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «البُزَاقُ فِي المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے قتادہ نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے ( زمین میں ) چھپا دینا ہے۔


❁ بَابُ دَفْنِ النُّخَامَةِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: بلغم کو مسجد میں مٹی کے اندر چھپانا

❁ 416 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلاَةِ، فَلاَ يَبْصُقْ أَمَامَهُ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي اللَّهَ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، فَإِنَّ عَنْ يَمِينِهِ مَلَكًا، وَلْيَبْصُقْ عَنْ يَسَارِهِ، أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ، فَيَدْفِنُهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالرزاق نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ہمام بن منبہ سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ جب تک اپنی نماز کی جگہ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اور دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس طرف فرشتہ ہوتا ہے، ہاں بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے مٹی میں چھپا دے۔

 

❁ تشریح : امام بخاری قدس سرہ نے تھوک سے متعلق ان جملہ ابواب اوران میں روایت کردہ احادیث سے ثابت فرمایاکہ بوقت ضرورت تھوک، رینٹ، کھنکار، بلغم سب کا آنا لازمی ہے مگر مسجد کا ادب اور نمازیوں کے آرام وراحت کا خیال ضروری ہے۔ ابتدائے اسلام میں مساجد خام تھیں، فرش بالکل خام مٹی کے ہوا کرتے تھے جن میں تھوک لینا اور پھر ریت میں اس تھوک کو چھپا دینا ممکن تھا۔ آج کل مساجد پختہ، ان کے فرش پختہ پھر ان پر بہترین حصیر ہوتے ہیں۔ ان صورتوں اوران حالات میں رومال کا استعمال ہی مناسب ہے۔ مسجد میں یا اس کے درودیوار پر تھوکنا یارینٹ یابلغم لگادینا سخت گناہ اورمسجد کی بے ادبی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر اپنی سخت ترین ناراضگی کا اظہارفرمایاہے، جیسا کہ حدیث عبداللہ بن عمر میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔


❁ بَابُ إِذَا بَدَرَهُ البُزَاقُ فَلْيَأْخُذْ بِطَرَفِ ثَوْبِهِ
❁ باب: جب (نماز میں) تھوک کا غلبہ ہو

❁ 417 حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي القِبْلَةِ، فَحَكَّهَا بِيَدِهِ وَرُئِيَ مِنْهُ كَرَاهِيَةٌ، أَوْ رُئِيَ كَرَاهِيَتُهُ لِذَلِكَ وَشِدَّتُهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا قَامَ فِي صَلاَتِهِ، فَإِنَّمَا يُنَاجِي رَبَّهُ أَوْ رَبُّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قِبْلَتِهِ، فَلاَ يَبْزُقَنَّ فِي قِبْلَتِهِ، وَلَكِنْ عَنْ يَسَارِهِ أَوْ تَحْتَ قَدَمِهِ»، ثُمَّ أَخَذَ طَرَفَ رِدَائِهِ، فَبَزَقَ فِيهِ وَرَدَّ بَعْضَهُ عَلَى بَعْضٍ، قَالَ: «أَوْ يَفْعَلُ هَكَذَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے حمیدنے انس بن مالک سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا تو آپ نے خود اسے کھرچ ڈالا اور آپ کی ناخوشی کو محسوس کیا گیا یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا کہ ) اس کی وجہ سے آپ کی شدید ناگواری کو محسوس کیا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، یا یہ کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے قبلہ کی طرف نہ تھوکا کرو، البتہ بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لیا کرو۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا ایک کونا ( کنارہ ) لیا، اس میں تھوکا اور چادر کی ایک تہہ کو دوسری تہہ پر پھیر لیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرے۔

 

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے حالات کی بناپر بوقت ضرورت اپنے عمل سے ہر طرح کی آسانی ثابت فرمائی ہے۔ چونکہ آج کل مساجد پختہ ہوتی ہیں، فرش بھی پختہ اوران پر مختلف قسم کی قیمتی چیزیں ( قالین وغیرہ ) بچھی ہوتی ہیں، لہٰذآج آپ کی یہی سنت ملحوظ رکھنی ہوگی کہ بوقت ضرورت رومال میں تھوک لیا جائے اوراس مقصد کے لیے خاص رومال رکھے جائیں۔ قربان جائیے! آپ نے اپنے عمل سے ہر طرح کی سہولت ظاہر فرمادی۔ کاش! مسلمان سمجھیں اوراسوئہ حسنہ پر عمل کواپنا مقصد حیات بنالیں۔


❁ بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ القِبْلَةِ
❁ باب: نماز پوری طرح پڑھنا اور قبلہ کا بیان

❁ 418 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «هَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِي هَا هُنَا، فَوَاللَّهِ مَا يَخْفَى عَلَيَّ خُشُوعُكُمْ وَلاَ رُكُوعُكُمْ، إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میرا منہ ( نماز میں ) قبلہ کی طرف ہے، اللہ کی قسم مجھ سے نہ تمہارا خشوع چھپتا ہے نہ رکوع، میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تم کو دیکھتا رہتا ہوں۔


❁ بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي إِتْمَامِ الصَّلاَةِ، وَذِكْرِ القِبْلَةِ
 ❁ باب: نماز پوری طرح پڑھنا اور قبلہ کا بیان

❁ 419 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِلاَلِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةً، ثُمَّ رَقِيَ المِنْبَرَ، فَقَالَ فِي الصَّلاَةِ وَفِي الرُّكُوعِ: «إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ وَرَائِي كَمَا أَرَاكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے ہلال بن علی سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر چڑھے، پھر نماز کے باب میں اور رکوع کے باب میں فرمایا میں تمہیں پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا رہتا ہوں جیسے اب سامنے سے دیکھ رہا ہوں۔

 

❁ تشریح : یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ آپ مہرنبوت کے ذریعہ سے پیٹھ پیچھے سے بھی برابر دیکھ لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ وحی اورالہام کے ذریعہ بھی آپ کو معلوم ہوجایاکرتا تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہاں حقیقتاً دیکھنا مراد ہے اوریہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ آپ پشت کی طرف کھڑے ہوئے لوگوں کودیکھ لیا کرتے تھے۔ مواہب اللدنیہ میں بھی ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يُقَالُ مَسْجِدُ بَنِي فُلاَنٍ
❁ باب: یہ مسجد فلاں خاندان کی ہے کہنا؟

❁ 420 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَابَقَ بَيْنَ الخَيْلِ الَّتِي أُضْمِرَتْ مِنَ الحَفْيَاءِ، وَأَمَدُهَا ثَنِيَّةُ الوَدَاعِ، وَسَابَقَ بَيْنَ الخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضْمَرْ مِنَ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ»، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ فِيمَنْ سَابَقَ بِهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی جنھیں ( جہاد کے لیے ) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیا الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیا الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔

 

❁ تشریح : خاندانوں کی طرف مساجد کی نسبت کا رواج زمانہ رسالت ہی سے شروع ہوچکا تھا جیسا کہ یہاں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ جہاد کے لیے خاص طور پر گھوڑوں کو تیار کرنا اوران میں سے مشق کے لیے دوڑ کرانابھی حدیث مذکور سے ثابت ہوا۔ آپ نے جس گھوڑے کو دوڑکے لیے پیش کیاتھا اس کا نام سکب تھا۔ یہ دوڑحفیاءاورثنیۃ الوداع سے ہوئی تھی جن کا درمیانی فاصلہ پانچ یا چھ یا زیادہ سے زیادہ سات میل بتلایا گیاہے اورجوگھوڑے ابھی نئے تھے ان کی دوڑ کے لیے تھوڑی مسافت مقرر کی گئی تھی، جوثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔ موجودہ دورمیں ریس کے میدانوں میں جودوڑکرائی جاتی ہے، اس کی ہارجیت کا سلسلہ سراسر جوئے بازی سے ہے، لہٰذا اس میں شرکت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔


 ❁ بَابُ القِسْمَةِ، وَتَعْلِيقِ القِنْوِ فِي المَسْجِدِ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «القِنْوُ العِذْقُ وَالِاثْنَانِ قِنْوَانِ وَالجَمَاعَةُ أَيْضًا قِنْوَانٌ مِثْلَ صِنْوٍ وَصِنْوَانٍ» 
❁ باب: مسجد میں مال تقسیم کرنا 

❁ 421 وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي ابْنَ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَالٍ مِنَ البَحْرَيْنِ، فَقَالَ: «انْثُرُوهُ فِي المَسْجِدِ» وَكَانَ أَكْثَرَ مَالٍ أُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ [ص:92] صلّى الله عليه وسلم، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلاَةِ وَلَمْ يَلْتَفِتْ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلاَةَ جَاءَ فَجَلَسَ إِلَيْهِ، فَمَا كَانَ يَرَى أَحَدًا إِلَّا أَعْطَاهُ، إِذْ جَاءَهُ العَبَّاسُ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَعْطِنِي، فَإِنِّي فَادَيْتُ نَفْسِي وَفَادَيْتُ عَقِيلًا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُذْ» فَحَثَا فِي ثَوْبِهِ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ إِلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ ذَهَبَ يُقِلُّهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اؤْمُرْ بَعْضَهُمْ يَرْفَعْهُ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» قَالَ: فَارْفَعْهُ أَنْتَ عَلَيَّ، قَالَ: «لاَ» فَنَثَرَ مِنْهُ، ثُمَّ احْتَمَلَهُ، فَأَلْقَاهُ عَلَى كَاهِلِهِ، ثُمَّ انْطَلَقَ، فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُتْبِعُهُ بَصَرَهُ حَتَّى خَفِيَ عَلَيْنَا – عَجَبًا مِنْ حِرْصِهِ – فَمَا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَمَّ مِنْهَا دِرْهَمٌ

 

❁ ترجمہ : ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ نماز پوری کر چکے تو آ کر مال ( رقم ) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے ( غزوہ بدر میں ) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی ( اس لیے میں زیر بار ہوں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ( وزن کی زیادتی کی وجہ سے ) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یہ نہیں ہو سکتا ) انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ نے اس پر بھی انکار کیا، تب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، ( لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے ) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ نے اس سے بھی انکار کیا، تب انھوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔ بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔ اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔ صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔ ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔ احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاءحضرمی رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات ( اقدس ) کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس رضی اللہ عنہ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔


  ❁ بَابُ مَنْ دَعَا لِطَعَامٍ فِي المَسْجِدِ وَمَنْ أَجَابَ فِيهِ
❁ باب: جسے مسجد میں کھانے کی دعوت

❁ 422 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، سَمِعَ أَنَسًا، قَالَ: وَجَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ مَعَهُ نَاسٌ، فَقُمْتُ فَقَالَ لِي: «آرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ؟»، قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: «لِطَعَامٍ»، قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: «لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ»

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ سے انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا، آپ کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپ نے پوچھا کھانے کے لیے؟ ( بلایا ہے ) میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو، سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔

 

❁ تشریح : یہاں یہ حدیث مختصر ہے پوری حدیث باب علامات النبوۃ میں آئے گی۔حضرت انس رضی اللہ عنہ آگے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو خبر کرنے کے لیے گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے آدمیوں کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مسجد میں آپ کو دعوت دی اور آپ نے مسجد ہی میں دعوت قبول فرمائی۔یہی ترجمہ باب ہے۔


❁ بَابُ القَضَاءِ وَاللِّعَانِ فِي المَسْجِدِ بَيْنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ
❁ باب: مسجد میں فیصلے کرنا

❁ 423 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ «أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ فَتَلاَعَنَا فِي المَسْجِدِ، وَأَنَا شَاهِدٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے، کہا ہم کو ابن جریج نے، کہا ہمیں ابن شہاب نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک شخص نے کہا، یا رسول اللہ! اس شخص کے بارہ میں فرمائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو ( بدفعلی کرتے ہوئے ) دیکھتا ہے، کیا اسے مار ڈالے؟ آخر اس مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ مسجد میں لعان کیا اور اس وقت میں موجود تھا۔

 

❁ تشریح : لعان یہ کہ مرد اپنی عورت کو زنا کراتے دیکھے مگراس کے پاس گواہ نہ ہوں بعد میں عورت انکار کرجائے۔ اس صورت میں وہ دونوں قاضی کے ہاں دعویٰ پیش کریں گے، قاضی پہلے مرد سے چار دفعہ قسم لے گا کہ وہ سچا ہے اورآخر میں کہے گا کہ میں اگرجھوٹ بولتا ہوں تومجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ پھر اسی طرح چار دفعہ عورت قسم کھاکر آخر میں کہے گی کہ اگر میں جھوٹی ہوں تومجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ پھر قاضی دونوں ( میاں، بیوی ) کے درمیان جدائی کا فیصلہ دے دے گا، اسی کو لعان کہتے ہیں۔ باب کی حدیث سے مسجد میں ایسے جھگڑوں کا فیصلہ دینا ثابت ہوا۔ یہاں جس مرد کا واقعہ ہے اس کا نام عویمر بن عامر عجلانی تھا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو طلاق، اعتصام اوراحکام محاربین میں بھی روایت کیاہے۔


❁ بَابُ إِذَا دَخَلَ بَيْتًا يُصَلِّي حَيْثُ شَاءَ أَوْ حَيْثُ أُمِرَ وَلاَ يَتَجَسَّسُ
❁ باب: کسی کے گھر میں نماز پڑھنا

❁ 424  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَاهُ فِي مَنْزِلِهِ، فَقَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ لَكَ مِنْ بَيْتِكَ؟» قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى مَكَانٍ، فَكَبَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے محمود بن ربیع سے انھوں نے عتبان بن مالک سے ( جو نابینا تھے ) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کہاں پسند کرتے ہو کہ تمہارے لیے نماز پڑھوں۔ عتبان نے بیان کیا کہ میں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی پھر آپ نے دو رکعت نماز ( نفل ) پڑھائی۔

 

❁ تشریح : باب کا مطلب حدیث سے اس طرح نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان کی بتائی ہوئی جگہ کو پسند فرمالیا اورمزید تفتیش نہ کی۔ عتبان نابیناتھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھرمیں نفل نماز باجماعت پڑھا کر اس طرح ان پر اپنی نوازش فرمائی، پھرانھوں ( عتبان ) نے اپنی نفلی نمازوں کے لیے اسی جگہ کو مقرر کرلیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر نفل نمازوں کو جماعت سے بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔


❁ بَابُ المَسَاجِدِ فِي البُيُوتِ
❁ باب: گھروں میں جائے نماز مقرر کرنا

425 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ، أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الأَنْصَارِ أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي فَإِذَا كَانَتِ الأَمْطَارُ سَالَ الوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَفْعَلُ إِنْ [ص:93] شَاءَ اللَّهُ» قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ: «أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ» قَالَ: فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنَ البَيْتِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَّنَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، قَالَ وَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرَةٍ صَنَعْنَاهَا لَهُ، قَالَ: فَآبَ فِي البَيْتِ، رِجَالٌ مِنْ أَهْلِ الدَّارِ ذَوُو عَدَدٍ، فَاجْتَمَعُوا، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخَيْشِنِ أَوِ ابْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: ذَلِكَ مُنَافِقٌ لاَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تَقُلْ ذَلِكَ، أَلاَ تَرَاهُ قَدْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يُرِيدُ بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّا نَرَى وَجْهَهُ وَنَصِيحَتَهُ إِلَى المُنَافِقِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ الحُصَيْنَ بْنَ مُحَمَّدٍ الأَنْصَارِيَّ – وَهُوَ أَحَدُ بَنِي سَالِمٍ – وَهُوَ مِنْ سَرَاتِهِمْ، عَنْ حَدِيثِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيِّ: «فَصَدَّقَهُ بِذَلِكَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انھیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور ( کسی جگہ ) نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ ( دوسرے دن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اس جگہ ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت ( نفل ) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا ( یہ کہا ) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے خدا اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اور اس سے مقصود خالص خدا کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لا الہ الا اللہ کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص خدا کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں ( اس حدیث ) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔

 

❁ تشریح : علامہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا ( 1 ) اندھے کی امامت کا جائز ہونا جیسا کہ حضرت عتبان نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ( 2 ) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ ( 3 ) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ ( 4 ) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ ( 5 ) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ ( 6 ) صفوں کا برابر کرنا۔ ( 7 ) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ ( 8 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ ( 9 ) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ ( 10 ) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ ( 11 ) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے ان شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ ( 12 ) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ ( 13 ) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ ( 14 ) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ ( 15 ) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ ( 16 ) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ ( 17 ) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ ( 18 ) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔ قسطلانی نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔ مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجدضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا جیسا کہ حاطب بن بلتعہ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔


❁ بَابُ التَّيَمُّنِ فِي دُخُولِ المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ
❁ باب: مسجد میں داخل ہونے اور دیگر کاموں

❁ 426 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الأَشْعَثِ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ، فِي طُهُورِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَتَنَعُّلِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی اشعث بن سلیم کے واسطہ سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی۔


❁ بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ
 ❁ باب: دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو

❁ 427 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ، وَأُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتَا كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِالحَبَشَةِ فِيهَا تَصَاوِيرُ، فَذَكَرَتَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ أُولَئِكَ إِذَا كَانَ فِيهِمُ الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَمَاتَ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، فَأُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ القِيَامَةِ»

 

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں ( تصویریں ) تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار ( نیک ) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں ( تصویریں ) بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔

 

تشریح : یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰۃ میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔ ( فتح ) آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہئیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟


❁ بَابٌ: هَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِكِي الجَاهِلِيَّةِ، وَيُتَّخَذُ مَكَانُهَا مَسَاجِدَ
❁ باب: دور جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو

❁ 428 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَنَزَلَ أَعْلَى المَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ، فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَمَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ حَتَّى أَلْقَى بِفِنَاءِ أَبِي أَيُّوبَ [ص:94]، وَكَانَ يُحِبُّ أَنْ يُصَلِّيَ حَيْثُ أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ، وَيُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الغَنَمِ، وَأَنَّهُ أَمَرَ بِبِنَاءِ المَسْجِدِ، فَأَرْسَلَ إِلَى مَلَإٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ فَقَالَ: «يَا بَنِي النَّجَّارِ ثَامِنُونِي بِحَائِطِكُمْ هَذَا»، قَالُوا: لاَ وَاللَّهِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَهُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَكَانَ فِيهِ مَا أَقُولُ لَكُمْ قُبُورُ المُشْرِكِينَ، وَفِيهِ خَرِبٌ وَفِيهِ نَخْلٌ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ المُشْرِكِينَ، فَنُبِشَتْ، ثُمَّ بِالخَرِبِ فَسُوِّيَتْ، وَبِالنَّخْلِ فَقُطِعَ، فَصَفُّوا النَّخْلَ قِبْلَةَ المَسْجِدِ وَجَعَلُوا عِضَادَتَيْهِ الحِجَارَةَ، وَجَعَلُوا يَنْقُلُونَ الصَّخْرَ وَهُمْ يَرْتَجِزُونَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُمْ، وَهُوَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ لاَ خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالمُهَاجِرَهْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انھوں نے ابوالتیاح کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس راتیں قیام فرمایا۔ پھر آپ نے بنونجار کو بلا بھیجا، تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ انس نے کہا، گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں، جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بن و نجار کے لوگ آپ کے چاروں طرف ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ابوایوب کے گھر کے سامنے اترے اور آپ یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے فوراً نماز ادا کر لیں۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے، پھر آپ نے یہاں مسجد بنانے کے لیے حکم فرمایا۔ چنانچہ بن و نجار کے لوگوں کو آپ نے بلوا کر فرمایا کہ اے بن و نجار! تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انھوں نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ! اس کی قیمت ہم صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں، اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت بھی تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انھیں مضبوط بنا دیا۔ صحابہ پتھر اٹھاتے ہوئے رجز پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! آخرت کے فائدہ کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمانا۔

 

❁ تشریح : بنونجار سے آپ کی قرابت تھی۔ آپ کے دادا عبدالمطلب کی ان لوگوں میں ننہال تھی۔ یہ لوگ اظہارخوشی اوروفاداری کے لیے تلواریں باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور خصوصی شان کے ساتھ آپ کولے گئے۔ آپ نے شروع میں حضرت ابوایوب کے گھر قیام فرمایا، کچھ دنوں کے بعد مسجدنبوی کی تعمیرشروع ہوئی، اوریہاں سے پرانی قبروں اور درختوں وغیرہ سے زمین کو صاف کیا۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کھجور کے ان درختوں کی لکڑیوں سے قبلہ کی دیوار بنائی گئی تھی۔ ان کو کھڑاکرکے اینٹ اور گارے سے مضبوط کردیاگیاتھا۔ بعض کا قول ہے کہ چھت کے قبلہ کی جانب والے حصہ میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا گیاتھا۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي مَرَابِضِ الغَنَمِ
❁ باب: بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھنا

❁ 429 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الغَنَمِ، ثُمَّ سَمِعْتُهُ بَعْدُ يَقُولُ: «كَانَ يُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الغَنَمِ قَبْلَ أَنْ يُبْنَى المَسْجِدُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے ابوالتیاح کے واسطے سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھتے تھے، ابوالتیاح یا شعبہ نے کہا، پھر میں نے انس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑہ میں مسجد کی تعمیر سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : معلوم ہواکہ بکریوں کے باڑوں میں بوقت ضرورت ایک طرف جگہ بناکر نماز پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بعد میں مسجد نبوی بن گئی اور یہ جواز بوقت ضرورت باقی رہا۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي مَوَاضِعِ الإِبِلِ
 ❁ باب: اونٹوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھنا

❁ 430 حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الفَضْلِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ «يُصَلِّي إِلَى بَعِيرِهِ»، وَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان بن حیان نے، کہا ہم سے عبیداللہ نے نافع کے واسطہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے اونٹ کی طرف نماز پڑھتے دیکھا اور انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے دیکھا تھا۔


❁ بَابُ مَنْ صَلَّى وَقُدَّامَهُ تَنُّورٌ أَوْ نَارٌ، أَوْ شَيْءٌ مِمَّا يُعْبَدُ، فَأَرَادَ بِهِ اللَّهَ
 ❁ باب: اگر نمازی کےآگے آگ ہو

❁ 431 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: انْخَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: «أُرِيتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ مَنْظَرًا كَاليَوْمِ قَطُّ أَفْظَعَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے امام مالک کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ سورج گہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور فرمایا کہ مجھے ( آج ) دوزخ دکھائی گئی، اس سے زیادہ بھیانک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ نماز میں آگ کے انگارے سامنے ہونے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔


 ❁ بَابُ كَرَاهِيَةِ الصَّلاَةِ فِي المَقَابِرِ
❁ باب: مقبروں میں نماز کی کراہیت

❁ 432 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلاَتِكُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عمر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انھیں بالکل مقبرہ نہ بنا لو۔

 

❁ تشریح : اس باب میں ایک اور صریح حدیث میں فرمایاہے کہ میرے لیے ساری زمین مسجد بنائی گئی ہے مگر قبرستان اور حمام، یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہ تھی اس لیے آپ اس کو نہ لائے، قبرستان میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے، صحیح مسلک یہی ہے، گھروں کو مقبرہ نہ بناؤ کا یہی مطلب ہے کہ نفل نمازیں گھروں میں پڑھا کرو۔ اورقبرستان کی طرح وہاں نماز پڑھنے سے پرہیز نہ کیا کرو۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي مَوَاضِعِ الخَسْفِ وَالعَذَابِ
❁ باب: عذاب کی جگہوں میں نماز

❁ 433 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلاَءِ المُعَذَّبِينَ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ فَلاَ تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ، لاَ يُصِيبُكُمْ مَا أَصَابَهُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان عذاب والوں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو روتے ہوئے گزرو، اگر تم اس موقع پر رو نہ سکو تو ان سے گزرو ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ان کا سا عذاب آ جائے۔


 ❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي البِيعَةِ
❁ باب: گرجا میں نماز پڑھنے کا بیان

❁ 434 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ [ص:95]: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنِيسَةً رَأَتْهَا بِأَرْضِ الحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ، فَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ العَبْدُ الصَّالِحُ، أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ، بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا، وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انھوں نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انھوں نے حبش کے ملک میں دیکھا اس کا نام ماریہ تھا۔ اس میں جو مورتیں دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ ( یا یہ فرمایا کہ ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدتر ہیں۔

 

❁ تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترجمہ اورباب میں مطابقت یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اس میں یہ اشارہ ہے کہ مسلمان کو گرجا میں نماز پڑھنا منع ہے۔ کیونکہ احتمال ہے کہ گرجا کی جگہ پہلے قبر ہو اورمسلمان کے نماز پڑھنے سے وہ مسجد ہوجائے۔ ان عیسائیوں سے بدترآج ان مسلمانوں کا حال ہے جو مزاروں کو مسجدوں سے بھی زیادہ زینت دے کر وہاں بزرگوں سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ بلکہ ان مزاروں پر سجدہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یہ لوگ بھی اللہ کے نزدیک بدترین خلائق ہیں۔


435 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالاَ: لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ: «لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ» يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے۔ جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ آپ نے اسی اضطراب و پریشانی کی حالت میں فرمایا، یہود و نصاریٰ پر اللہ کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجد بنا لیا۔ آپ یہ فرما کر امت کو ایسے کاموں سے ڈراتے تھے۔


❁ 436 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالاَ: لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ، فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ: «لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى اليَهُودِ وَالنَّصَارَى، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ» يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے۔ جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ آپ نے اسی اضطراب و پریشانی کی حالت میں فرمایا، یہود و نصاریٰ پر اللہ کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجد بنا لیا۔ آپ یہ فرما کر امت کو ایسے کاموں سے ڈراتے تھے۔


❁ 437 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «قَاتَلَ اللَّهُ اليَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے مالک کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔

 

❁ تشریح : آپ نے امت کو اس لیے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ کی قبر کو مسجد نہ بنالیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ ایک دفعہ فرمایاکہ یااللہ! میری قبرکو بت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں۔یہود اورنصاریٰ ہردو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اورآج بھی ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیث نبوی اور آثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں موازنہ کرے تووہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔ مثلاً: ( 1 ) حضورعلیہ السلام نے قبورانبیاءپربھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپر نماز پڑھتے ہیں۔ ( 2 ) حضور علیہ السلام نے قبروں پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی سے روکا مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بناکر ان کا نام خانقاہ، مزارشریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔ ( 3 ) حضورعلیہ السلام نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا۔ مگرقبرپرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔ ( 4 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایا۔ مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔ ( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا۔ مگریہ لوگ شاندار عمارتیں بناکر آیات قرآنی قبروں پر لکھتے ہیں۔ گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اوردین کی ہر ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔ صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو ( حد سے بڑھنا ) میں یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح قبروں کے آداب اورارکان ومناسک مقرر کرڈالے ہیں۔ جواسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لیے نہیں فرمایا۔ اللہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔


❁ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : جُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا
 ❁ فرمان مبارک میرے لئے ساری زمین پر نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت ہے

❁ 438 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارٌ هُوَ أَبُو الحَكَمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ الفَقِيرُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الأَنْبِيَاءِ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، وَأَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي أَدْرَكَتْهُ الصَّلاَةُ فَلْيُصَلِّ، وَأُحِلَّتْ لِي الغَنَائِمُ، وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، وَأُعْطِيتُ الشَّفَاعَةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوالحکم سیار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید فقیر نے، کہا ہم سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء کو نہیں دی گئی تھیں۔ ( 1 ) ایک مہینے کی راہ سے میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی۔ ( 2 ) میرے لیے تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اس لیے میری امت کے جس آدمی کی نماز کا وقت ( جہاں بھی ) آ جائے اسے ( وہیں ) نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ( 3 ) میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ ( 4 ) پہلے انبیاء خاص اپنی قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ( 5 ) مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ زمین کے ہر حصہ پرنماز اوراس سے تیمم کرنا درست ہے۔ بشرطیکہ وہ حصہ پاک ہو۔ مال غنیمت وہ جو اسلامی جہاد میں فتح کے نتیجہ میں حاصل ہو۔ یہ آپ کی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ سارے انبیاءمیں ممتاز ہیں۔ اللہ نے آپ کا رعب اس قدر ڈال دیاتھاکہ بڑے بڑے بادشاہ دور دراز بیٹھے ہوئے محض آپ کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔ کسریٰ پرویز نے آپ کا نامہ مبارک چاک کرڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی دنوںبعد اسی کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے اس کا پیٹ چاک کرادیا۔ اب بھی دشمنان رسول کا یہی حشر ہوتاہے کہ وہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔


❁ باب: عورت کا مسجد میں سونا
❁ باب: عورت کا مسجد میں سونا

❁ 439 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ وَلِيدَةً كَانَتْ سَوْدَاءَ لِحَيٍّ مِنَ العَرَبِ، فَأَعْتَقُوهَا، فَكَانَتْ مَعَهُمْ، قَالَتْ: فَخَرَجَتْ صَبِيَّةٌ لَهُمْ عَلَيْهَا وِشَاحٌ أَحْمَرُ مِنْ سُيُورٍ، قَالَتْ: فَوَضَعَتْهُ – أَوْ وَقَعَ مِنْهَا – فَمَرَّتْ بِهِ حُدَيَّاةٌ وَهُوَ مُلْقًى، فَحَسِبَتْهُ لَحْمًا فَخَطِفَتْهُ، قَالَتْ: فَالْتَمَسُوهُ، فَلَمْ يَجِدُوهُ، قَالَتْ: فَاتَّهَمُونِي بِهِ، قَالَتْ: فَطَفِقُوا يُفَتِّشُونَ حَتَّى فَتَّشُوا قُبُلَهَا، قَالَتْ: وَاللَّهِ إِنِّي لَقَائِمَةٌ مَعَهُمْ، إِذْ مَرَّتِ الحُدَيَّاةُ فَأَلْقَتْهُ، قَالَتْ: فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ، قَالَتْ: فَقُلْتُ هَذَا الَّذِي اتَّهَمْتُمُونِي بِهِ، زَعَمْتُمْ وَأَنَا مِنْهُ بَرِيئَةٌ، وَهُوَ ذَا هُوَ، قَالَتْ: «فَجَاءَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَتْ»، قَالَتْ عَائِشَةُ: «فَكَانَ لَهَا خِبَاءٌ فِي المَسْجِدِ – أَوْ حِفْشٌ -» قَالَتْ: فَكَانَتْ تَأْتِينِي فَتَحَدَّثُ عِنْدِي، قَالَتْ: فَلاَ تَجْلِسُ عِنْدِي مَجْلِسًا، إِلَّا قَالَتْ: [البحر الطويل] وَيَوْمَ الوِشَاحِ مِنْ أَعَاجِيبِ رَبِّنَا … أَلاَ إِنَّهُ مِنْ بَلْدَةِ الكُفْرِ أَنْجَانِي [ص:96] قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لَهَا مَا شَأْنُكِ، لاَ تَقْعُدِينَ مَعِي مَقْعَدًا إِلَّا قُلْتِ هَذَا؟ قَالَتْ: فَحَدَّثَتْنِي بِهَذَا الحَدِيثِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور انھیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی ( جو دلہن تھی ) نہانے کو نکلی، اس کا کمر بند سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے ( سرخ رنگ کی وجہ سے ) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی، یہاں تک کہ انھوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔ اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے ( اسے دیکھ کر ) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند! اس ( لونڈی ) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ ( یا یہ کہا کہ ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا، آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔

 

❁ تشریح : ثابت کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی، ثابت ہوا کہ ایسی نومسلمہ مظلومہ عورت اگر کہیں جائے پناہ نہ پاسکے تو اسے مسجد میں پناہ دی جاسکتی ہے اوروہ رات بھی مسجد میں گزارسکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ عام حالات میں مسجد کا ادب واحترام پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مظلوم اگرچہ کافرہو پھر بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ آج کل بھی بعض قوموں میں عورتیں چاندی کا کمربند بطور زیور استعمال کرتی ہیں۔ وہ بھی اسی قسم کا قیمتی کمربند ہوگا جو سرخ رنگ کا تھا۔ جسے چیل نے گوشت جان کر اٹھالیا مگربعد میں اسے واپس اسی جگہ پر لاکر ڈال دیا۔ یہ اس مظلومہ کی دعا کا اثر تھا ورنہ وہ چیل اسے اور نامعلوم جگہ ڈال دیتی تواللہ جانے کہ کافر اس غریب مسکینہ پر کتنے ظلم ڈھاتے۔ وہ نومسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر بیٹھاکرتی اورآپ سے اپنے ذاتی واقعات کا ذکر کیا کرتی تھی اوراکثر مذکورہ شعر اس کی زبان پر جاری رہا کرتا تھا۔


❁ بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجدوں میں مردوں کا سونا

❁ 440 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، «أَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهُوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لاَ أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبیداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ کو نافع نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں سویا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : ادب کے ساتھ بوقت ضرورت جوانوں بوڑھوں کے لیے مسجد میں سونا جائز ہے۔ صفہ مسجد نبوی کے سامنے ایک سایہ دار جگہ تھی۔ جوآج بھی مدینہ منورہ جانے والے دیکھتے ہیں، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے والے رہتے تھے۔


❁ بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجدوں میں مردوں کا سونا

❁ 441 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي البَيْتِ، فَقَالَ: «أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟» قَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ، فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ: «انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟» فَجَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هُوَ فِي المَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، وَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «قُمْ أَبَا تُرَابٍ، قُمْ أَبَا تُرَابٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے، انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہا گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔

 

❁ تشریح : تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔ میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔ مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔ یہی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔ جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔


❁ بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجدوں میں مردوں کا سونا

❁ 442 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «لَقَدْ رَأَيْتُ سَبْعِينَ مِنْ أَصْحَابِ الصُّفَّةِ مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ عَلَيْهِ رِدَاءٌ، إِمَّا إِزَارٌ وَإِمَّا كِسَاءٌ، قَدْ رَبَطُوا فِي أَعْنَاقِهِمْ، فَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ نِصْفَ السَّاقَيْنِ، وَمِنْهَا مَا يَبْلُغُ الكَعْبَيْنِ، فَيَجْمَعُهُ بِيَدِهِ، كَرَاهِيَةَ أَنْ تُرَى عَوْرَتُهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے اپنے والد کے واسطہ سے، انھوں نے ابوحازم سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امام قدس سرہ نے اس حدیث سے یہ نکالاکہ مساجد میں بوقت ضرورت سونا جائز ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ
❁ باب: سفر سے واپسی پر نماز پڑھنا

❁ 443 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي المَسْجِدِ – قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: ضُحًى – فَقَالَ: «صَلِّ رَكْعَتَيْنِ» وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا ہم سے محارب بن دثار نے جابر بن عبداللہ کے واسطہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مسعر نے کہا میرا خیال ہے کہ محارب نے چاشت کا وقت بتایا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( پہلے ) دو رکعت نماز پڑھ اور میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا۔ جسے آپ نے ادا کیا اور زیادہ ہی دیا۔


❁ بَابُ إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ
❁ باب: مسجد میں داخل ہو تو دو رکعت پڑھے

❁ 444 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ السَّلَمِيِّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَ أَحَدُكُمُ المَسْجِدَ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَجْلِسَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

 

❁ تشریح : مسجد میں آنے والا پہلے دورکعت نفل پڑھے، پھر بیٹھے۔ چاہے کوئی بھی وقت ہو اورچاہے امام جمعہ کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ جامع ترمذی میں جابربن عبداللہ سے مروی ہے کہ بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ اذ جاءرجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلیت قال لا قال قم فارکع قال ابوعیسی وہذاالحدیث حسن صحیح اخرجہ الجماعۃ وفی روایۃ اذجاءاحدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیہما رواہ احمد ومسلم وابوداؤد وفی روایۃ اذا جاءاحدکم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین متفق علیہ کذا فی المنتقیٰ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص: 363 ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ سنا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دورکعت پڑھ کر بیٹھو اوران دورکعتوں کو ہلکاکرکے پڑھو۔ ایک روایت میں فرمایاکہ جب بھی کوئی تم میں سے مسجد میں آئے اورامام خطبہ پڑھ رہا ہو چاہئیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم وبہ یقول الشافعی واحمدو اسحاق وقال بعضہم اذا دخل والامام یخطب فانہ یجلس ولایصلی وہو قول سفیان الثوری واہل الکوفۃ والقول الاول اصح یعنی بعض اہل علم اورامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق کا یہی فتویٰ ہے۔ مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نماز نہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔ مگرپہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کا قول صحیح نہیں ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث صریحہ کی بناپر فقہائے محدثین اورامام شافعی وغیرہم کا یہی فتویٰ ہے کہ خواہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ مگر مناسب ہے کہ مسجد میں آنے والا دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے اور مستحب ہے کہ ان میں تخفیف کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے شخص کو جمعہ کے خطبہ کے دوران دورکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس کا نام سلیک تھا۔ موجودہ دورمیں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں جب کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت یہ ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے، پھر بیٹھے۔

 


بَابُ الحَدَثِ فِي المَسْجِدِ ❁
❁ باب: مسجد میں ہوا خارج کرنا

❁ 445 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: المَلاَئِكَةُ تُصَلِّي عَلَى أَحَدِكُمْ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ الَّذِي صَلَّى فِيهِ، مَا لَمْ يُحْدِثْ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ کہا ہمیں مالک نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم اپنے مصلے پر جہاں تم نے نماز پڑھی تھی، بیٹھے رہو اور ریاح خارج نہ کرو تو ملائکہ تم پر برابر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں “ اے اللہ! اس کی مغفرت کیجیئے، اے اللہ! اس پر رحم کیجیئے۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ حدث ( ہوا خارج ) ہونے کی بدبو سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور وہ اپنی دعا موقوف کردیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسجد میں جہاں تک ممکن ہو باوضو بیٹھنا افضل ہے۔


❁ بَابُ بُنْيَانِ المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد کی عمارت

❁ 446 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ المَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ، وَسَقْفُهُ الجَرِيدُ، وَعُمُدُهُ خَشَبُ النَّخْلِ، فَلَمْ يَزِدْ فِيهِ أَبُو بَكْرٍ شَيْئًا، وَزَادَ فِيهِ عُمَرُ: وَبَنَاهُ عَلَى بُنْيَانِهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّبِنِ وَالجَرِيدِ وَأَعَادَ عُمُدَهُ خَشَبًا، ثُمَّ غَيَّرَهُ عُثْمَانُ فَزَادَ فِيهِ زِيَادَةً كَثِيرَةً: وَبَنَى جِدَارَهُ بِالحِجَارَةِ المَنْقُوشَةِ، وَالقَصَّةِ وَجَعَلَ عُمُدَهُ مِنْ حِجَارَةٍ مَنْقُوشَةٍ وَسَقَفَهُ بِالسَّاجِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد ابراہیم بن سعید نے صالح بن کیسان کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور ستون اسی کی کڑیوں کے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کی زیادتی نہیں کی۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بڑھایا اور اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجوروں کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی کڑیوں ہی کے رکھے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی عمارت کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کی۔ اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچھ سے بنائیں۔ اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت ساگوان سے بنائی۔

 

تشریح : مسجدنبوی زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جب پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو اس کا طول وعرض تیس مربع گز تھا۔ پھر غزوئہ خیبر کے بعد ضرورت کے تحت اس کا طول وعرض پچاس مربع گز کردیاگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجدنبوی کو کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے مستحکم کیا اورستون لکڑیوں کے بنائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے پختہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے توآپ نے ایک حدیث نبوی سنائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک دن میری مسجد کی تعمیر پختہ بنیادوں پر ہوگی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر بطور خوشی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو پانچ سودینار پیش کئے۔ بعدکے سلاطین اسلام نے مسجدنبوی کی تعمیرواستحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موجودہ دور حکومت سعودیہ ( خلدہا اللہ تعالیٰ ) نے مسجد کی عمارت کو اس قدر طویل وعریض اورمستحکم کردیاہے کہ دیکھ کر دل سے اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول کرے۔ احادیث و آثارکی بناپر حد سے زیادہ مساجد کی ٹیپ ٹاپ کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ یہودونصاریٰ کا دستور تھا کہ وہ اپنے مذہب کی حقیقی روح سے غافل ہوکر ظاہری زیب وزینت پر فریفتہ ہوگئے۔ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے، جن کے مینارے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں مگرتوحید وسنت اور اسلام کی حقیقی روح سے ان کو خالی پایا جاتاہے۔ الا ماشاءاللہ۔


❁ بَابُ التَّعَاوُنِ فِي بِنَاءِ المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد بنانے میں مدد کرنا

 ❁ 447 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ مُخْتَارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ وَلِابْنِهِ عَلِيٍّ: انْطَلِقَا إِلَى أَبِي سَعِيدٍ فَاسْمَعَا مِنْ حَدِيثِهِ، فَانْطَلَقْنَا فَإِذَا هُوَ فِي حَائِطٍ يُصْلِحُهُ، فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَاحْتَبَى، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُنَا حَتَّى أَتَى ذِكْرُ بِنَاءِ المَسْجِدِ، فَقَالَ: كُنَّا نَحْمِلُ لَبِنَةً لَبِنَةً وَعَمَّارٌ لَبِنَتَيْنِ لَبِنَتَيْنِ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَنْفُضُ التُّرَابَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: «وَيْحَ عَمَّارٍ، تَقْتُلُهُ الفِئَةُ البَاغِيَةُ، يَدْعُوهُمْ إِلَى الجَنَّةِ، وَيَدْعُونَهُ إِلَى النَّارِ» قَالَ: يَقُولُ عَمَّارٌ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الفِتَنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا، افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔

 

❁ تشریح : یہاں مذکورہ علی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں۔ جس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا، اسی دن یہ پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کا نام علی رکھا گیا اورکنیت ابوالحسن۔ یہ قریش میں بہت ہی حسین وجمیل اوربڑے عابد و زاہد تھے۔ 120 ھ کے بعد ان کا انتقال ہوا۔ حضرت عمار بن یاسر بڑے جلیل القدر صحابی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے۔ ان کی ماں سمیہ رضی اللہ عنہا بھی بڑے عزم وایقان والی خاتون گزری ہیں جن کو شہید کردیاگیا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے لوگوں کی صحبت میں بیٹھناان سے دین کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں مثلاً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح علم وفضل کے باوجود کھیتی باڑی کے کاموں میں مشغول رہنابھی امر مستحسن ہے۔ آنے والے مہمانوں کے احترام کے لیے اپنے کاروبار والے لباس کو درست کرکے پہن لینا اوران کے لیے کام چھوڑدینا اوران سے بات چیت کرنا بھی بہت ہی اچھا طریقہ ہے۔ ( 3 ) مساجد کی تعمیر میں خود پتھر اٹھا اٹھاکر مدد دینا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے۔ قسطلانی نے کہا کہ امام بخاری نے اس حدیث کو باب الجہاد اورباب الفتن میں بھی روایت کیاہے۔ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بھی روشن دلیل ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ پہلے جو خبردی وہ من وعن پوری ہوکررہی، اس لیے کہ وماینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی آپ دین کے بارے میں جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے فرمایا کرتے تھے۔ سچ ہے مصطفی ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے جبرئیل جبرئیل ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے پروردگار


 ❁ بَابُ الِاسْتِعَانَةِ بِالنَّجَّارِ وَالصُّنَّاعِ فِي أَعْوَادِ المِنْبَرِ وَالمَسْجِدِ
❁ باب: مسجد کی تعمیر میں کاریگروں سے امداد لینا

❁ 448 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى امْرَأَةٍ: «مُرِي غُلاَمَكِ النَّجَّارَ، يَعْمَلْ لِي أَعْوَادًا، أَجْلِسُ عَلَيْهِنَّ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبدالعزیز نے ابوحازم کے واسطہ سے، انھوں نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے کہے کہ میرے لیے ( منبر ) لکڑیوں کے تختوں سے بنا دے جن پر میں بیٹھا کروں۔


❁ بَابُ الِاسْتِعَانَةِ بِالنَّجَّارِ وَالصُّنَّاعِ فِي أَعْوَادِ المِنْبَرِ وَالمَسْجِدِ
❁ باب: مسجد کی تعمیر میں کاریگروں سے امداد لینا

❁ 449 حَدَّثَنَا خَلَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلاَ أَجْعَلُ لَكَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ، فَإِنَّ لِي غُلاَمًا نَجَّارًا؟ قَالَ: «إِنْ شِئْتِ» فَعَمِلَتِ المِنْبَرَ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے اپنے والد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا دوں جس پر آپ بیٹھا کریں۔ میرا ایک بڑھئی غلام بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو منبر بنوا دے۔

 

❁ تشریح : اس باب کی احادیث میں صرف بڑھئی کا ذکر ہے۔ معمار کا اسی پر قیاس کیاگیا۔ یا حضرت طلق بن علی کی حدیث کی طرف اشارہ ہے جسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے کہ تعمیر مسجد کے وقت یہ مٹی کا گارا بنا رہا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کام بہت پسند فرمایا تھا۔ یہ حدیث پہلی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ پہلے خود اس عورت نے منبربنوانے کی پیش کش کی ہوگی بعد میں آپ کی طرف سے اس کو یاد دہانی کرائی گئی ہوگی۔ اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتاہے کہ ہدیہ بغیرسوال کئے آئے تو قبول کرلے اور وعدہ یاد دلانا بھی درست ہے اوراہل اللہ کی خدمت کرکے تقرب حاصل کرنا عمدہ ہے۔ حضرت امام نے اس حدیث کو علامات نبوت اور بیوع میں بھی نقل کیاہے۔


 ❁ بَابُ مَنْ بَنَى مَسْجِدًا
 ❁ باب: مسجد بنانے کا اجر و ثواب

❁ 450 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ بُكَيْرًا، حَدَّثَهُ أَنَّ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ اللَّهِ الخَوْلاَنِيَّ، أَنَّهُ سَمِعَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، يَقُولُ عِنْدَ قَوْلِ النَّاسِ فِيهِ حِينَ بَنَى مَسْجِدَ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكُمْ أَكْثَرْتُمْ، وَإِنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا – قَالَ بُكَيْرٌ: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ – بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ [ص:98] فِي الجَنَّةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن حارث نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عاصم بن عمرو بن قتادہ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن اسود خولانی سے سنا، انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سنا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے متعلق لوگوں کی باتوں کو سن کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں۔ حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مسجد بنائی بکیر ( راوی ) نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لیے بنائے گا۔

 

❁ تشریح : 30 ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر جدید کا کام شروع کرایا۔ کچھ لوگوں نے یہ پسند کیا کہ مسجد کوپہلے حال ہی پر باقی رکھا جائے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبوی اپنی دلیل میں پیش فرمائی اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ يَأْخُذُ بِنُصُولِ النَّبْلِ إِذَا مَرَّ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں اپنے تیر کے پھل کو تھامے رکھنا

❁ 451 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرٍو: أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: مَرَّ رَجُلٌ فِي المَسْجِدِ وَمَعَهُ سِهَامٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمْسِكْ بِنِصَالِهَا»؟

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انھوں نے کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کیا تم نے جابر بن عبداللہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اور وہ تیر لیے ہوئے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ان کی نوکیں تھامے رکھو۔


❁ بَابُ المُرُورِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں تیر وغیرہ لے کر گزرنا

❁ 452 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ مَرَّ فِي شَيْءٍ مِنْ مَسَاجِدِنَا أَوْ أَسْوَاقِنَا بِنَبْلٍ، فَلْيَأْخُذْ عَلَى نِصَالِهَا، لاَ يَعْقِرْ بِكَفِّهِ مُسْلِمًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے کہ کہا ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ نے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد ( ابوموسیٰ اشعری صحابی ) سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص ہماری مساجد یا ہمارے بازاروں میں تیر لیے ہوئے چلے تو ان کے پھل تھامے رہے، ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں سے کسی مسلمان کو زخمی کر دے۔

 

❁ تشریح : ان روایات اورابواب سے حضرت امام بخاری یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مساجد میں مسلمانوں کو ہتھیار بند ہوکر آنا درست ہے مگریہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس لیے کہ مسلمان کی عزت وحرمت بہرحال مقدم ہے۔


❁ بَابُ الشِّعْرِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں شعر پڑھنا

❁ 453 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِيَّ، يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «يَا حَسَّانُ، أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ القُدُسِ» قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری کے واسطے سے کہا کہ مجھے ابوسلمہ ( اسماعیل یا عبداللہ ) ا بن عبدالرحمن بن عوف نے، انھوں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ( مشرکوں کو اشعار میں ) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں ( میں گواہ ہوں۔ بے شک میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے۔

 

❁ تشریح : خلافت فاروقی کے دورمیں ایک روز حضرت حسان مسجد نبوی میں دینی اشعار سنارہے تھے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو روکنا چاہا توحسان رضی اللہ عنہ نے اپنے فعل کے جواز میں یہ حدیث بیان کی۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ دربارِ رسالت کے خصوصی شاعر تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے غلط اشعار کا جواب اشعارہی میں دیا کرتے تھے۔ اس پر آپ نے ان کے حق میں ترقی کی دعا فرمائی۔ معلوہواکہ دینی اشعار، نظمیں مساجد میں سنانا درست ہے۔ ہاں لغو اورعشقیہ اشعار کا مسجد میں سنانا بالکل منع ہے۔


❁ بَابُ أَصْحَابِ الحِرَابِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: چھوٹے نیزوں سے مسجد میں کھیلنا

❁ 454 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا عَلَى بَابِ حُجْرَتِي وَالحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ فِي المَسْجِدِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، أَنْظُرُ إِلَى لَعِبِهِمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازے پر دیکھا۔ اس وقت حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں ( نیزوں سے ) کھیل رہے تھے ( ہتھیار چلانے کی مشق کر رہے تھے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپا لیا تا کہ میں ان کا کھیل دیکھ سکوں۔


❁ بَابُ أَصْحَابِ الحِرَابِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: چھوٹے نیزوں سے مسجد میں کھیلنا

❁ 455  زَادَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالحَبَشَةُ يَلْعَبُونَ بِحِرَابِهِمْ»

 

ترجمہ : ابراہیم بن منذر سے روایت میں یہ زیادتی منقول ہے کہ انھوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب کہ حبشہ کے لوگ چھوٹے نیزوں ( بھالوں ) سے مسجد میں کھیل رہے تھے۔

 

تشریح : اس باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہتھیار لے کر مسجد میں جانا جن سے کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا ا ندیشہ نہ ہو، جائز ہے اوربعض روایات میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کے اس کھیل پر اظہارناراضگی کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیزوں سے کھیلنا صرف کھیل کود کے درجے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے جنگی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جو دشمنانِ اسلام کی مدافعت میں کام آئیں گی۔ ( فتح الباری


❁ بَابُ ذِكْرِ البَيْعِ وَالشِّرَاءِ عَلَى المِنْبَرِ فِي المَسْجِدِ

❁ باب: منبر پر مسائل خرید و فروخت کا ذکر کرنا


❁ 456 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَتَتْهَا بَرِيرَةُ تَسْأَلُهَا فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتُ أَهْلَكِ وَيَكُونُ الوَلاَءُ لِي، وَقَالَ أَهْلُهَا: إِنْ شِئْتِ أَعْطَيْتِهَا مَا بَقِيَ – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: إِنْ شِئْتِ أَعْتَقْتِهَا، وَيَكُونُ الوَلاَءُ لَنَا – فَلَمَّا جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَّرَتْهُ ذَلِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ابْتَاعِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الوَلاَءَ لِمَنْ أَعْتَقَ» ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ – وَقَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً: فَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ – فَقَالَ: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَشْتَرِطُونَ شُرُوطًا، لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ مَنِ اشْتَرَطَ شَرْطًا لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلَيْسَ لَهُ، وَإِنِ اشْتَرَطَ مِائَةَ مَرَّةٍ»، قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى، وَعَبْدُ الوَهَّابِ: عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ، نَحْوَهُ، وَقَالَ جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، وَرَوَاهُ مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ عَمْرَةَ: أَنَّ بَرِيرَةَ وَلَمْ يَذْكُرْ صَعِدَ المِنْبَرَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے، انھوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ ( لونڈی ) ان سے اپنی کتابت کے بارے میں مدد لینے آئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم چاہو تو میں تمہارے مالکوں کو یہ رقم دے دوں ( اور تمہیں آزاد کرا دوں ) اور تمہارا ولاء کا تعلق مجھ سے قائم ہو۔ اور بریرہ کے آقاؤں نے کہا ( عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) کہ اگر آپ چاہیں تو جو قیمت باقی رہ گئی ہے وہ دے دیں اور ولاء کا تعلق ہم سے قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس امر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید کر آزاد کرو اور ولاء کا تعلق تو اسی کو حاصل ہو سکتا ہے جو آزاد کرائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ سفیان نے ( اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے ) ایک مرتبہ یوں کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا۔ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی شرائط کرتے ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ سے نہیں ہے۔ جو شخص بھی کوئی ایسی شرط کرے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اگرچہ وہ سو مرتبہ کر لے۔ اس حدیث کی روایت مالک نے یحییٰ کے واسطہ سے کی، وہ عمرہ سے کہ بریرہ اور انھوں نے منبر پر چڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ الخ

 

❁ تشریح : عہدغلامی میں یہ دستور تھا کہ لونڈی یا غلام اپنے آقا کا منہ مانگا روپیہ ادا کرکے آزاد ہوسکتے تھے مگرآزادی کے بعد ان کی وراثت انہی پہلے مالکوں کو ملتی تھی۔ اسلام نے جہاں غلامی کو ختم کیا، ایسے غلط درغلط رواجوں کو بھی ختم کیا اوربتلایا کہ جو بھی کسی غلام کو آزاد کرائے اس کی وراثت ترکہ وغیرہ کا ( غلام کی موت کے بعد ) اگرکوئی اس کا وراث عصبہ نہ ہو توآزاد کرانے والا ہی بطور عطیہ اس کا وارث قرارپائے گا۔ لفظ ولاءکا یہی مطلب ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترجمہ باب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ ما بال اقوام الخ سے نکلتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصدیہی ہے کہ بیع وشراءکے مسائل کا منبر پر ذکر کرنا درست ہے۔ ( فتح الباری


❁ بَابُ التَّقَاضِي وَالمُلاَزَمَةِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں قرض کا تقاضا کرنا

❁ 457 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ كَعْبٍ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي المَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، فَنَادَى: «يَا كَعْبُ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «ضَعْ مِنْ دَيْنِكَ هَذَا» وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ: أَيِ الشَّطْرَ، قَالَ: لَقَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «قُمْ فَاقْضِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر عبدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے زہری کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن کعب بن مالک سے، انھوں نے اپنے باپ کعب بن مالک سے کہ انھوں نے مسجد نبوی میں عبداللہ ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند آوازوں سے ہونے لگی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرے سے سن لیا۔ آپ پردہ ہٹا کر باہر تشریف لائے اور پکارا۔ کعب۔ کعب ( رضی اللہ عنہ ) بولے، جی حضور فرمائیے کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دو۔ آپ کا اشارہ تھا کہ آدھا کم کر دیں۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے ( بخوشی ) ایسا کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب اٹھو اور اس کا قرض ادا کرو۔ ( جو آدھا معاف کر دیا گیا ہے۔


❁ بَابُ كَنْسِ المَسْجِدِ وَالتِقَاطِ الخِرَقِ وَالقَذَى وَالعِيدَانِ
❁ باب: مسجد میں جھاڑو دینا

❁ 458 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَجُلًا أَسْوَدَ أَوِ امْرَأَةً سَوْدَاءَ كَانَ يَقُمُّ المَسْجِدَ فَمَاتَ، فَسَأَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، فَقَالُوا: مَاتَ، قَالَ: «أَفَلاَ كُنْتُمْ آذَنْتُمُونِي بِهِ دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ – أَوْ قَالَ قَبْرِهَا – فَأَتَى قَبْرَهَا فَصَلَّى عَلَيْهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، پھر آپ قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی۔

 

❁ تشریح : بیہقی کی روایت میں ہے کہ ام محجن نامی عورت تھی، وہ مسجد کی صفائی ستھرائی وغیرہ کی خدمت انجام دیا کرتی تھی، آپ اس کی موت کی خبرسن کر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں اس کا جنازہ ادا فرمایا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ مسجد کی اس طرح خدمت کرنا بڑا ہی کارِثواب ہے۔


❁ بَابُ تَحْرِيمِ تِجَارَةِ الخَمْرِ فِي المَسْجِدِ

❁ باب: مسجد میں شراب کی سوداگری کی حرمت


❁ 459 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا أُنْزِلَتِ الآيَاتُ مِنْ سُورَةِ البَقَرَةِ فِي الرِّبَا، «خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى المَسْجِدِ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ حَرَّمَ تِجَارَةَ الخَمْرِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان بن عبداللہ بن عثمان نے ابوحمزہ محمد بن میمون کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اعمش سے، انھوں نے مسلم سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب سورہ بقرہ کی سود سے متعلق آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور ان آیات کی لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ شراب کی تجارت حرام ہے۔
تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ الخَدَمِ لِلْمَسْجِدِ
❁ باب: مسجد کے لئے خادم مقرر کرنا

❁ 460 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ وَاقِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ امْرَأَةً – أَوْ رَجُلًا – كَانَتْ تَقُمُّ المَسْجِدَ – وَلاَ أُرَاهُ إِلَّا امْرَأَةً – فَذَكَرَ حَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّهُ صَلَّى عَلَى قَبْرِهَا»

 

ترجمہ : ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ثابت بنانی کے واسطہ سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک عورت یا مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ ابورافع نے کہا، میرا خیال ہے کہ وہ عورت ہی تھی۔ پھر انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی کہ آپ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔


❁ بَابُ الأَسِيرِ – أَوِ الغَرِيمِ – يُرْبَطُ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: قیدی یا قرضدار مسجد میں باندھنا

❁ 461 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ عِفْرِيتًا مِنَ الجِنِّ تَفَلَّتَ عَلَيَّ البَارِحَةَ – أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا – لِيَقْطَعَ عَلَيَّ الصَّلاَةَ، فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْبِطَهُ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ حَتَّى تُصْبِحُوا وَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ كُلُّكُمْ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ أَخِي سُلَيْمَانَ: رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لاَ يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي ، قَالَ رَوْحٌ: «فَرَدَّهُ خَاسِئًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے شعبہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے محمد بن زیاد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا کہ گذشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا۔ یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی، وہ میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تا کہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی ( جو سورہ ص میں ہے ) “ اے میرے رب! مجھے ایسا ملک عطا کرنا جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ ” راوی حدیث روح نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شیطان کو ذلیل کر کے دھتکار دیا۔

 


❁ تشریح : ترجمہ باب یہاں سے ثابت ہوتاہے کہ آپ نے اس جن کو بطور قیدی مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنا چاہا۔ مگر پھر آپ کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی وہ دعا یاد آگئی جس کی وجہ سے جنوں پر ان کو اختیار خاص حاصل تھا۔ آپ نے سوچا کہ اگرمیں اسے قید کردوں گا توگویا یہ اختیار مجھ کو بھی حاصل ہوجائے گا اوریہ اس دعا کے خلاف ہوگا۔


❁ بَابُ الِاغْتِسَالِ إِذَا أَسْلَمَ، وَرَبْطِ الأَسِيرِ أَيْضًا فِي المَسْجِدِ
❁ باب: جب کوئی شخص اسلام لائے

❁ 462 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ»، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ [ص:100] المَسْجِدِ، فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ المَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے ( جو تعداد میں تیس تھے ) یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا پکڑ کر لائے۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور ( تیسرے روز ثمامہ کی نیک طبیعت دیکھ کر ) آپ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ ( رہائی کے بعد ) وہ مسجد نبوی سے قریب ایک کھجور کے باغ تک گئے۔ اور وہاں غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔

 


تشریح : اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔ یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔ اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔ حضرت ثمامہ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔ یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔ مگررسول اکرم نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔


❁ بَابُ الخَيْمَةِ فِي المَسْجِدِ لِلْمَرْضَى وَغَيْرِهِمْ

❁ باب: مسجد میں مریضوں کے لئے خیمہ لگانا


❁ 463 حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الخَنْدَقِ فِي الأَكْحَلِ، «فَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي المَسْجِدِ، لِيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ فَلَمْ يَرُعْهُمْ» وَفِي المَسْجِدِ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ، إِلَّا الدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الخَيْمَةِ، مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟ فَإِذَا سَعْدٌ يَغْذُو جُرْحُهُ دَمًا، فَمَاتَ مِنهَا

 

ترجمہ : ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ بن زبیر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا کہ غزوہ خندق میں سعد ( رضی اللہ عنہ ) کے بازو کی ایک رگ ( اکحل ) میں زخم آیا تھا۔ ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تا کہ آپ قریب رہ کر ان کی دیکھ بھال کیا کریں۔ مسجد ہی میں بنی غفار کے لوگوں کا بھی ایک خیمہ تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کے زخم کا خون ( جو رگ سے بکثرت نکل رہا تھا ) بہہ کر جب ان کے خیمہ تک پہنچا تو وہ ڈر گئے۔ انھوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ کیسا خون ہمارے خیمہ تک آ رہا ہے۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ یہ خون سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے بہہ رہا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا اسی زخم کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔

 


تشریح : حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ذی قعدہ 4 ھ میں جنگ خندق کی لڑائی میں ابن عرقہ نامی ایک کافر کے تیر سے زخمی ہوگئے تھے جو جان لیوا ثابت ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی ضرورت کے تحت ان کا خیمہ مسجد ہی میں لگوادیاتھا جنگی حالات میں ایسے امور پیش آجاتے ہیں اوران ملی مقاصدکے لیے مساجد تک کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مقصد ہے۔ آپ کی بالغ نگاہ احادیث کی روشنی میں وہاں تک پہنچتی ہے جہاں دوسرے علماءکی نگاہیں کم پہنچتی ہیں اوروہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے خواہ مخواہ حضرت امام پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی عقلوں کا علاج کراناچاہئیے۔ اسی وجہ سے جملہ فقہاءمحدثین کرام میں حضرت امام بخاری قدس سرہ کا مقام بہت اونچا ہے۔ ( رحمۃ اللہ علیہ )


❁ بَابُ إِدْخَالِ البَعِيرِ فِي المَسْجِدِ لِلْعِلَّةِ
❁ باب: ضرورت سے مسجد میں اونٹ لے جانا

❁ 464 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي قَالَ: «طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ» فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ البَيْتِ يَقْرَأُ بِالطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے محمد بن عبدالرحمن بن نوفل سے خبر دی، انھوں نے عروہ بن زبیر سے۔ انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے ام المؤمنین ام سلمہ سے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( حجۃ الوداع میں ) اپنی بیماری کا شکوہ کیا ( میں نے کہا کہ میں پیدل طواف نہیں کر سکتی ) تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے پیچھے رہ اور سوار ہو کر طواف کر۔ پس میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیت اللہ کے قریب نماز میں آیت والطور وکتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔

 

❁ تشریح : شاید کسی کوتاہ نظر کویہ باب پڑھ کر حیرت ہومگر سیدالفقہاءوالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی گہری نظر پوری دنیائے اسلام پر ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ممکن ہے بہت سی مساجد ایسی بھی ہوں جو ایک طول طویل چاردیواری کی شکل میں بنائی گئی ہوں۔ اب کوئی دیہاتی اونٹ سمیت آکر وہاں داخل ہوگیاتو اس کے لیے کیا فتویٰ ہوگا۔ حضرت امام بتلانا چاہتے ہیں کہ عہدرسالت میں مسجد حرام کا بھی یہی نقشہ تھا۔ چنانچہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ ضرورت کے تحت اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو بھی بیماری کی وجہ سے آپ نے اونٹ پر سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کرنے کا حکم فرمایا۔ ابن بطال نے کہا کہ حلال جانوروں کا مسجد میں لے جانا جائز اوردرست ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مسجد کے آلودہ ہونے کا خوف ہو توجانور کو مسجد میں نہ لے جائے۔


❁ 465 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ «أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ مُظْلِمَةٍ، وَمَعَهُمَا مِثْلُ المِصْبَاحَيْنِ يُضِيئَانِ بَيْنَ أَيْدِيهِمَا، فَلَمَّا افْتَرَقَا صَارَ مَعَ كُلِّ وَاحِدٍ، مِنْهُمَا وَاحِدٌ حَتَّى أَتَى أَهْلَهُ»

 

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکلے، ایک عباد بن بشر اور دوسرے صاحب میرے خیال کے مطابق اسید بن حضیر تھے۔ رات تاریک تھی اور دونوں اصحاب کے پاس روشن چراغ کی طرح کوئی چیز تھی جس سے ان کے آگے آگے روشنی پھیل رہی تھی پس جب وہ دونوں اصحاب ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ رہ گیا جو گھر تک ساتھ رہا۔

 


تشریح : ان صحابیوں کے سامنے روشنی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت تھی۔ آیت مبارکہ نورہم یسعی بین ایدیہم ( التحریم:8 ) کا ایمانی نورقیامت کے دن ان کے آگے آگے دوڑے گا۔ دنیا ہی میں یہ نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں اس لیے لائے کہ یہ دونوں صحابی اندھیری رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے اوریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرکے ہی نکلے تھے۔ پس مسجدوں میں نیک باتوں کے کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ( فتح وغیرہ


❁ بَابُ الخَوْخَةِ وَالمَمَرِّ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں کھڑکی اور راستہ

❁ 466 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ»، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ، فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ العَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، قَالَ: «يَا أَبَا بَكْرٍ لاَ تَبْكِ، إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الإِسْلاَمِ وَمَوَدَّتُهُ، لاَ يَبْقَيَنَّ فِي المَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، کہا ہم سے ابونضر سالم بن ابی امیہ نے عبید بن حنین کے واسطہ سے، انھوں نے بسر بن سعید سے، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا ( کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے ) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر خدا نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن ( جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی ) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔

 


❁ تشریح : بعض راویان بخاری نے یہاں واؤ عطف لاکر ہر دوکو حضرت ابوالنضر کا شیخ قرار دیاہے۔ اور اس صورت میں وہ دونوں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وقدرواہ مسلم کذلک واللہ اعلم ( راز )


❁ بَابُ الخَوْخَةِ وَالمَمَرِّ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں کھڑکی اور راستہ

❁ 467 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الجُعْفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، عَاصِبٌ رَأْسَهُ بِخِرْقَةٍ، فَقَعَدَ عَلَى المِنْبَرِ [ص:101]، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «إِنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنَ النَّاسِ خَلِيلًا لاَتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، وَلَكِنْ خُلَّةُ الإِسْلاَمِ أَفْضَلُ، سُدُّوا عَنِّي كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا المَسْجِدِ، غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے باپ جریر بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے یعلی بن حکیم سے سنا، وہ عکرمہ سے نقل کرتے تھے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے۔ سر سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں جانی دوست بناتا تو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے۔ دیکھو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔

 


❁ تشریح : مسجدنبوی کی ابتدائی تعمیر کے وقت اہل اسلام کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ بعد میں قبلہ بدلا گیا اورکعبہ مقدس قبلہ قرارپایا۔ جو مدینہ سے جانب جنوب تھا۔ چونکہ صحابہ کرام کے مکانات کی طرف کھڑکیاں بنادی گئی تھیں۔ بعد میں آپ نے مشرق و مغرب کے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ صرف شمالی صدردروازہ باقی رکھا گیا اوران تمام کھڑکیوں کو بھی بند کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان کی جانب والی کھڑکی باقی رکھی گئی۔ اس میں آپ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ خلافت کے زمانہ میں نماز پڑھاتے وقت ان کو آنے جانے میں سہولت رہے گی۔ خلیل سے مراد محبت کا وہ آخری درجہ ہے جو صرف بندہ مومن اللہ ہی کے ساتھ قائم کرسکتاہے۔ اسی لیے آپ نے ایسا فرمایا۔ اس کے بعد اسلامی اخوت ومحبت کا آخری درجہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قراردیا۔ آج بھی مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی اس کھڑکی کی جگہ پر بطور یادگار کتبہ لگا ہواہے۔ جس کو دیکھ کر یہ سارے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔ ان احادیث سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔


 ❁ بَابُ الأَبْوَابِ وَالغَلَقِ لِلْكَعْبَةِ وَالمَسَاجِدِ
 ❁ باب: کعبہ اور مساجد میں دروازے

❁ 468 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالاَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مَكَّةَ فَدَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ فَفَتَحَ البَابَ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِلاَلٌ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، ثُمَّ أَغْلَقَ البَابَ، فَلَبِثَ فِيهِ سَاعَةً، ثُمَّ خَرَجُوا» قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَبَدَرْتُ فَسَأَلْتُ بِلاَلًا فَقَالَ: صَلَّى فِيهِ، فَقُلْتُ: فِي أَيٍّ؟ قَالَ: بَيْنَ الأُسْطُوَانَتَيْنِ، قَالَ: ابْنُ عُمَرَ: فَذَهَبَ عَلَيَّ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل اور قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی کے واسطہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے ( اور مکہ فتح ہوا ) تو آپ نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ ( جو کعبہ کے متولی، چابی بردار تھے ) انھوں نے دروازہ کھولا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ چاروں اندر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا اور وہاں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر باہر آئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر بلال سے پوچھا کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کیا ) انھوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر نماز پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کس جگہ؟ کہا کہ دونوں ستونوں کے درمیان۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ پوچھنا مجھے یاد نہ رہا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔

 


تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف میں داخل ہوکر کعبہ کا دروازہ اس لیے بند کرادیاتھا کہ اورلوگ اندر نہ آجائیں اور ہجوم کی شکل میں اصل مقصد عبادت فوت ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازہ میں زنجیر تھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ مساجد میں حفاظت کے لیے کواڑلگانا اوران میں کنڈی وقفل وغیرہ جائز ہیں۔


❁ بَابُ دُخُولِ المُشْرِكِ المَسْجِدَ
❁ باب: مشرک کا مسجد میں داخل ہونا

❁ 469 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ يُقَالُ لَهُ: ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي المَسْجِدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے سعید بن ابی سعید مقبری کے واسطہ سے، بیان کیا انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف بھیجا تھا۔ وہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو ( بطور جنگی قیدی ) پکڑ لائے اور مسجد میں ایک ستون سے باندھ دیا۔

 


❁ تشریح : بوقت ضرورت کفار ومشرکین کو بھی آداب مساجد کے شرائط کے ساتھ مساجد میں داخلہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی حضرت امام کا مقصد باب ہے۔


❁ بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي المَسَاجِدِ
❁ باب: مسجد میں آواز بلند کرنا

❁ 470 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا – أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ – قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ: «لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انھوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انھیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟


❁ بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي المَسَاجِدِ
❁ باب: مسجد میں آواز بلند کرنا

❁ 471 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، وَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: «يَا كَعْبُ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ فَاقْضِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انھوں نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا، ان کو ان کے باپ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انھوں نے عبداللہ ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے ایک قرض کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے اندر تقاضا کیا۔ دونوں کی آواز کچھ اونچی ہو گئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرہ سے سن لیا۔ آپ اٹھے اور حجرہ پر پڑے ہوئے پردہ کو ہٹایا۔ آپ نے کعب بن مالک کو آواز دی، اے کعب! کعب بولے۔ یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ اپنا آدھا قرض معاف کر دے۔ حضرت کعب نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کر دیا۔ آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب چل اٹھ اس کا قرض ادا کر۔

 


❁ تشریح : طائف مکہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر مشہور قصبہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مسجدنبوی میں شوروغل کرنے پر جھڑکا اوربتلایا کہ تم لوگ باہر کے رہنے والے اورمسجد کے آداب سے ناواقف ہو اس لیے تم کو چھوڑدیتاہوں، کوئی مدینہ والا ایسی حرکت کرتا تو اسے بغیر سزادئیے نہ چھوڑتا۔ اس سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایاکہ فضول شوروغل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے۔ دوسری روایت سے آپ نے ثابت فرمایاکہ تعلیم رشد وہدایت کے لیے اگر آواز بلند کی جائے تو یہ آداب مسجد کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر ان کونیک ہدایت فرمائی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر بھی رعایت دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ مقروض نادار ہی ہو تو یہ عین رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ قرآن کریم کی بھی یہی ہدایت ہے۔ مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پورا قرض ادا کرکے اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔


❁ بَابُ الحِلَقِ وَالجُلُوسِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں حلقہ بنا کر یا یونہی بیٹھنا

❁ 472 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ المُفَضَّلِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى المِنْبَرِ، مَا تَرَى فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ، قَالَ: «مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ الصُّبْحَ صَلَّى وَاحِدَةً، فَأَوْتَرَتْ لَهُ مَا صَلَّى» وَإِنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اجْعَلُوا آخِرَ صَلاَتِكُمْ وِتْرًا، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے عبیداللہ بن عمر سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ( جبکہ ) اس وقت آپ منبر پر تھے کہ رات کی نماز ( یعنی تہجد ) کس طرح پڑھنے کے لیے آپ فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو دو رکعت کر کے پڑھ اور جب صبح قریب ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت اس ساری نماز کو طاق بنا دے گی اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ رات کی آخری نماز کو طاق رکھا کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔


❁ بَابُ الحِلَقِ وَالجُلُوسِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں حلقہ بنا کر یا یونہی بیٹھنا

❁473 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا، جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: كَيْفَ صَلاَةُ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ: «مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ، تُوتِرُ لَكَ مَا قَدْ صَلَّيْتَ» قَالَ الوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُمْ: أَنَّ رَجُلًا نَادَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي المَسْجِدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا کہ کہا ہم سے حماد بن زید نے، انھوں نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے آنے والے نے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ نے فرمایا دو دو رکعت پھر جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر کی پڑھ لے تا کہ تو نے جو نماز پڑھی ہے اسے یہ رکعت طاق بنا دے اور امام بخاری نے فرمایا کہ ولید بن کثیر نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ عمری نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی جب کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔


❁ بَابُ الحِلَقِ وَالجُلُوسِ فِي المَسْجِدِ
❁ باب: مسجد میں حلقہ بنا کر یا یونہی بیٹھنا

❁ 474 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ فَأَقْبَلَ ثَلاَثَةُ نَفَرٍ، فَأَقْبَلَ اثْنَانِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَهَبَ وَاحِدٌ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا، فَرَأَى فُرْجَةً فِي الحَلْقَةِ، فَجَلَسَ وَأَمَّا الآخَرُ فَجَلَسَ خَلْفَهُمْ، فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكُمْ عَنِ النَّفَرِ الثَّلاَثَةِ؟ أَمَّا أَحَدُهُمْ: فَأَوَى إِلَى اللَّهِ، فَآوَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا الآخَرُ: فَاسْتَحْيَا فَاسْتَحْيَا اللَّهُ مِنْهُ، وَأَمَّا الآخَرُ: فَأَعْرَضَ فَأَعْرَضَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ کے واسطے سے کہ عقیل بن ابی طالب کے غلام ابومرہ نے انھیں خبر دی ابوواقد لیثی حارث بن عوف صحابی کے واسطہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ تین آدمی باہر سے آئے۔ دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضری کی غرض سے آگے بڑھے لیکن تیسرا چلا گیا۔ ان دو میں سے ایک نے درمیان میں خالی جگہ دیکھی اور وہاں بیٹھ گیا۔ دوسرا شخص پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی جا رہا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ان تینوں کے متعلق ایک بات نہ بتاؤں۔ ایک شخص تو خدا کی طرف بڑھا اور خدا نے اسے جگہ دی ( یعنی پہلا شخص ) رہا دوسرا تو اس نے ( لوگوں میں گھسنے سے ) شرم کی، اللہ نے بھی اس سے شرم کی، تیسرے نے منہ پھیر لیا۔ اس لیے اللہ نے بھی اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔


❁ بَابُ الِاسْتِلْقَاءِ فِي المَسْجِدِ وَمَدِّ الرِّجْلِ
❁ باب: مسجد میں چت لیٹنا کیسا ہے؟

❁ 475 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، أَنَّهُ «رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَلْقِيًا فِي المَسْجِدِ، وَاضِعًا إِحْدَى رِجْلَيْهِ عَلَى الأُخْرَى» وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، قَالَ: «كَانَ عُمَرُ، وَعُثْمَانُ يَفْعَلاَنِ ذَلِكَ»
 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک کے واسطہ سے، انھوں نے ابن شہاب زہری سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے، انھوں نے اپنے چچا ( عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ ) سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ ابن شہاب زہری سے مروی ہے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح لیٹتے تھے۔

 


تشریح : چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پر رکھنے کی ممانعت بھی آئی ہے اوراس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عمرو عثمان رضی اللہ عنہما بھی اس طرح لیٹا کرتے تھے۔ اس لیے کہا جائے گا کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب شرمگاہ بے پردہ ہونے کا خطرہ ہو۔ کوئی شخص سترپوشی کا پورا اہتمام کرتاہے، پھر اس طرح چت لیٹ کر سونے میں مضائقہ نہیں ہے۔


 ❁ بَابُ المَسْجِدِ يَكُونُ فِي الطَّرِيقِ مِنْ غَيْرِ ضَرَرٍ بِالنَّاسِ
❁ باب: عام راستوں پر مسجد بنانا

❁ 476 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ، وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، طَرَفَيِ النَّهَارِ: بُكْرَةً وَعَشِيَّةً، ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ، فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ، فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ القُرْآنَ، فَيَقِفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ المُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً، لاَ يَمْلِكُ عَيْنَيْهِ إِذَا قَرَأَ القُرْآنَ [ص:103]، فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنَ المُشْرِكِينَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب زہری سے، انھوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے ماں باپ کو مسلمان ہی پایا اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دن کے وقت ہمارے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی تو انھوں نے گھر کے سامنے ایک مسجد بنا لی، وہ اس میں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے۔ مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے وہاں تعجب سے سنتے اور کھڑے ہو جاتے اور آپ کی طرف دیکھتے رہتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رونے والے آدمی تھے۔ جب قرآن کریم پڑھتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا، قریش کے مشرک سردار اس صورت حال سے گھبرا گئے۔

 

❁ تشریح : حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد کا اپنی ملک میں بنانا جائز ہے اورغیرملک میں منع ہے اور راستوں میں بھی مساجد بنانا درست ہے۔ بشرطیکہ چلنے والوں کو نقصان نہ ہو۔ بعض نے راہ میں مطلقاً ناجائز کا فتویٰ دیاہے حضرت امام اسی فتویٰ کی تردید فرمارہے ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ فِي مَسْجِدِ السُّوقِ
❁ باب: بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا

❁ 477 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: صَلاَةُ الجَمِيعِ تَزِيدُ عَلَى صَلاَتِهِ فِي بَيْتِهِ، وَصَلاَتِهِ فِي سُوقِهِ، خَمْسًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ، وَأَتَى المَسْجِدَ، لاَ يُرِيدُ إِلَّا الصَّلاَةَ، لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْهُ خَطِيئَةً، حَتَّى يَدْخُلَ المَسْجِدَ، وَإِذَا دَخَلَ المَسْجِدَ، كَانَ فِي صَلاَةٍ مَا كَانَتْ تَحْبِسُهُ، وَتُصَلِّي – يَعْنِي عَلَيْهِ المَلاَئِكَةُ – مَا دَامَ فِي مَجْلِسِهِ الَّذِي يُصَلِّي فِيهِ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، مَا لَمْ يُحْدِثْ فِيهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار ( دوکان وغیرہ ) میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ جب تک کہ ریح خارج کر کے ( وہ فرشتوں کو ) تکلیف نہ دے۔

 


❁ تشریح : بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔ خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزاء


❁ بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ
❁ باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا

❁478 حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، حَدَّثَنَا وَاقِدٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَوْ ابْنِ عَمْرٍو: «شَبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حامد بن عمر نے بشر بن مفضل کے واسطہ سے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے، کہا ہم سے واقد بن محمد نے اپنے باپ محمد بن زید کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔


 ❁ بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ

❁ باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا


❁ 479 حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، حَدَّثَنَا وَاقِدٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَوْ ابْنِ عَمْرٍو: «شَبَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حامد بن عمر نے بشر بن مفضل کے واسطہ سے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے، کہا ہم سے واقد بن محمد نے اپنے باپ محمد بن زید کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔


❁ بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ
❁ باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا

❁ 480 وَقَالَ عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ هَذَا الحَدِيثَ مِنْ أَبِي، فَلَمْ أَحْفَظْهُ، فَقَوَّمَهُ لِي وَاقِدٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي وَهُوَ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو كَيْفَ بِكَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُثَالَةٍ مِنَ النَّاسِ بِهَذَا»

 

❁ ترجمہ : اور عاصم بن علی نے کہا، ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو اپنے باپ محمد بن زید سے سنا۔ لیکن مجھے حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ تو میرے بھائی واقد نے اس کو درستی سے اپنے باپ سے روایت کر کے مجھے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے اس طرح ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں کر کے دکھلائیں

 


❁ تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو قینچی کرنے سے اس لیے روکا کہ یہ ایک لغو حرکت ہے۔ لیکن اگرکسی صحیح مقصد کے پیش نظر ایسا کبھی کیا جائے توکوئی ہرج نہیں ہے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصد کی وضاحت کے لیے ہاتھوں کو قینچی کرکے دکھلایا۔ اس حدیث میں آگے یوں ہے کہ نہ ان کے اقرار کا اعتبار ہوگا نہ ان میں امانت داری ہوگی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ عاصم بن علی کی دوسری روایت جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے معلقاً بیان کی اس کو ابراہیم حربی نے غریب الحدیث میں وصل کیاہے، باب کے انعقاد سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تشبیک کی کراہیت کے بارے میں جو احادیث واردہوئی ہیں وہ ثابت نہیں ہیں بعض نے ممانعت کو حالت نماز پر محمول کیاہے۔


❁ بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ

❁ باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا


❁ 481 حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ المُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا» وَشَبَّكَ أَصَابِعَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے ابی بردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انھوں نے اپنے دادا ( ابوبردہ ) سے، انھوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔

 


❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہمی طور پر شیروشکر رہنے کی مثال بیان فرمائی اور ہاتھوں کو قینچی کرکے بتلایا کہ مسلمان بھی باہمی طور پر ایسے ہی ملے جلے رہتے ہیں، جس طرح عمارات کے پتھر ایک دوسرے کو تھامے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا قوت بازو ہوناچاہئیے۔ ایک مسلمان پر کہیں ظلم ہو تو سارے مسلمانوں کو اس کی امداد کے لیے اٹھنا چاہئیے۔ کاش! امت مسلمہ اپنے پیارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری نصیحت کویاد رکھتی تو آج یہ تباہ کن حالات نہ دیکھنے پڑتے۔


❁ بَابُ تَشْبِيكِ الأَصَابِعِ فِي المَسْجِدِ وَغَيْرِهِ
❁ باب: مسجد وغیرہ میں انگلیوں کا قینچی کرنا

❁ 482 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلاَتَيِ العَشِيِّ – قَالَ ابْنُ سِيرِينَ: سَمَّاهَا أَبُو هُرَيْرَةَ وَلَكِنْ نَسِيتُ أَنَا – قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي المَسْجِدِ، فَاتَّكَأَ عَلَيْهَا كَأَنَّهُ غَضْبَانُ، وَوَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى اليُسْرَى، وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، وَوَضَعَ خَدَّهُ الأَيْمَنَ عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ اليُسْرَى، وَخَرَجَتِ السَّرَعَانُ مِنْ أَبْوَابِ المَسْجِدِ، فَقَالُوا: قَصُرَتِ الصَّلاَةُ؟ وَفِي القَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ، وَفِي القَوْمِ رَجُلٌ فِي يَدَيْهِ طُولٌ، يُقَالُ لَهُ: ذُو اليَدَيْنِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسِيتَ أَمْ قَصُرَتِ الصَّلاَةُ؟ قَالَ: «لَمْ أَنْسَ وَلَمْ تُقْصَرْ» فَقَالَ: «أَكَمَا يَقُولُ ذُو اليَدَيْنِ» فَقَالُوا: نَعَمْ، فَتَقَدَّمَ فَصَلَّى مَا تَرَكَ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ، ثُمَّ كَبَّرَ وَسَجَدَ مِثْلَ سُجُودِهِ أَوْ أَطْوَلَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ وَكَبَّرَ، فَرُبَّمَا سَأَلُوهُ: ثُمَّ سَلَّمَ؟ فَيَقُولُ: نُبِّئْتُ أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ، قَالَ: ثُمَّ سَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انھوں نے محمد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ ( ظہر یا عصر کی ) ابن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام تو لیا تھا۔ لیکن میں بھول گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہو گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انھیں میں ایک شخص تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا۔ کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں۔ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور باقی رکعتیں پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سہو کا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی لمبا سجدہ۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی، لوگوں نے بار بار ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیرا تو وہ جواب دیتے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران بن حصین کہتے تھے کہ پھر سلام پھیرا۔

 


❁ تشریح : یہ حدیث “حدیث ذوالیدین” کے نام سے مشہور ہے۔ ایک بزرگ صحابی خرباق رضی اللہ عنہ نامی کے ہاتھ لمبے لمبے تھے۔ اس لیے ان کو ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سہواً بات کرلینے سے یامسجد سے نکل جانے سے یا نماز کی جگہ سے چلے جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھوں کی انگلیوں کو قینچی کرنا مذکور ہے جس سے اس حالت کا جواز مسجد اورغیرمسجد میں ثابت ہوا۔ یہی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے۔ باقی مباحث متعلق حدیث ہذا اپنے مقامات پر آئیں گے۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 483 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ المُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَتَحَرَّى أَمَاكِنَ مِنَ الطَّرِيقِ فَيُصَلِّي فِيهَا، وَيُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يُصَلِّي فِيهَا «وَأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الأَمْكِنَةِ». وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الأَمْكِنَةِ، وَسَأَلْتُ سَالِمًا، فَلاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا وَافَقَ نَافِعًا فِي الأَمْكِنَةِ كُلِّهَا إِلَّا أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا فِي مَسْجِدٍ بِشَرَفِ الرَّوْحَاءِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، کہا میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ( مدینہ سے مکہ تک ) راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈھ کو وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے باپ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کیا کہ وہ ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے سالم سے پوچھا تو مجھے خوب یاد ہے کہ انھوں نے بھی نافع کے بیان کے مطابق ہی تمام مقامات کا ذکر کیا۔ فقط مقام شرف روحاء کی مسجد کے متعلق دونوں نے اختلاف کیا۔

 


❁ تشریح : شرف الروحاءمدینہ سے 30 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جگہ سترنبیوں نے عبادت الٰہی کی ہے اوریہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حج یا عمرے کی نیت سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سنت رسول کے پیش نظر اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے اورحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایسے تاریخی مقامات کو ڈھونڈھنے سے اس لیے منع کیاکہ ایسا نہ ہوآگے چل کر لوگ اس کو ضروری سمجھ لیں۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ خالی اس قسم کے آثار کی زیارت کرنا بغیرنماز کی نیت کے بے فائدہ ہے اور عتبان کی حدیث اوپر گزر چکی ہے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجیے تاکہ میں اس کونماز کی جگہ بنالوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو منظور فرمایاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے آثار سے بایں طور برکت لینا درست ہے، خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقول وہرفعل وہرنقش قدم ہمارے لیے سرمایہ برکت وسعادت ہیں۔ مگراس بارے میں جوافراط وتفریط سے کام لیاگیا ہے وہ بھی حد درجہ قابل مذمت ہے۔ مثلاً صاحب انوارالباری ( دیوبندی ) نے اپنی کتاب مذکور جلد 5 ص 157 پر ایک جگہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیاہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب اورتمام فضلات کو بھی طاہر کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے سیدالفقہاءایسا نہیں کہہ سکتے مگر یہی وہ غلو ہے جو تبرکات انبیاءکے نام پر کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 484 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ الحِزَامِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَخْبَرَهُ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِذِي الحُلَيْفَةِ حِينَ يَعْتَمِرُ، وَفِي حَجَّتِهِ حِينَ حَجَّ تَحْتَ سَمُرَةٍ فِي مَوْضِعِ المَسْجِدِ الَّذِي بِذِي الحُلَيْفَةِ، وَكَانَ إِذَا رَجَعَ مِنْ غَزْوٍ كَانَ فِي تِلْكَ الطَّرِيقِ أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ هَبَطَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ، فَإِذَا ظَهَرَ مِنْ بَطْنِ وَادٍ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي عَلَى شَفِيرِ الوَادِي الشَّرْقِيَّةِ، فَعَرَّسَ ثَمَّ حَتَّى يُصْبِحَ لَيْسَ عِنْدَ المَسْجِدِ الَّذِي بِحِجَارَةٍ وَلاَ عَلَى الأَكَمَةِ الَّتِي عَلَيْهَا المَسْجِدُ»، كَانَ ثَمَّ خَلِيجٌ يُصَلِّي عَبْدُ اللَّهِ عِنْدَهُ فِي بَطْنِهِ كُثُبٌ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَّ يُصَلِّي، فَدَحَا السَّيْلُ فِيهِ بِالْبَطْحَاءِ، حَتَّى دَفَنَ ذَلِكَ المَكَانَ، الَّذِي كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُصَلِّي فِيهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے، ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے قصد سے تشریف لے گئے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں قیام فرمایا۔ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے اترے اور جب آپ کسی جہاد سے واپس ہوتے اور راستہ ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتا یا حج یا عمرہ سے واپسی ہوتی تو آپ وادی عقیق کے نشیبی علاقہ میں اترتے، پھر جب وادی کے نشیب سے اوپر چڑھتے تو وادی کے بالائی کنارے کے اس مشرقی حصہ پر پڑاؤ ہوتا جہاں کنکریوں اور ریت کا کشادہ نالا ہے۔ ( یعنی بطحاء میں ) یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو صبح تک آرام فرماتے۔ یہ مقام اس مسجد کے قریب نہیں ہے جو پتھروں کی بنی ہے، آپ اس ٹیلے پر بھی نہیں ہوتے جس پر مسجد بنی ہوئی ہے۔ وہاں ایک گہرا نالہ تھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہیں نماز پڑھتے۔ اس کے نشیب میں ریت کے ٹیلے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کنکریوں اور ریت کے کشادہ نالہ کی طرف سے سیلاب نے آ کر اس جگہ کے آثار و نشانات کو پاٹ دیا ہے، جہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 485  وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى حَيْثُ المَسْجِدُ الصَّغِيرُ الَّذِي دُونَ المَسْجِدِ الَّذِي بِشَرَفِ الرَّوْحَاءِ، وَقَدْ كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَعْلَمُ المَكَانَ الَّذِي كَانَ صَلَّى فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ثَمَّ عَنْ يَمِينِكَ حِينَ تَقُومُ فِي المَسْجِدِ تُصَلِّي، وَذَلِكَ المَسْجِدُ عَلَى حَافَةِ الطَّرِيقِ اليُمْنَى، وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَى مَكَّةَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ المَسْجِدِ الأَكْبَرِ رَمْيَةٌ بِحَجَرٍ أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بھی بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ نماز پڑھی جہاں اب شرف روحاء کی مسجد کے قریب ایک چھوٹی مسجد ہے، عبداللہ بن عمر اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ کہتے تھے کہ یہاں تمہارے دائیں طرف جب تم مسجد میں ( قبلہ رو ہو کر ) نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ جب تم ( مدینہ سے ) مکہ جاؤ تو یہ چھوٹی سی مسجد راستے کے دائیں جانب پڑتی ہے۔ اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے یا اس سے کچھ کم زیادہ۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 486 وَأَنَّ ابْنَ عُمَرَ: كَانَ يُصَلِّي إِلَى العِرْقِ الَّذِي عِنْدَ مُنْصَرَفِ الرَّوْحَاءِ، وَذَلِكَ العِرْقُ انْتِهَاءُ طَرَفِهِ عَلَى حَافَةِ الطَّرِيقِ دُونَ المَسْجِدِ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ المُنْصَرَفِ، وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَى مَكَّةَ وَقَدِ ابْتُنِيَ ثَمَّ مَسْجِدٌ، فَلَمْ يَكُنْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُصَلِّي فِي ذَلِكَ المَسْجِدِ، كَانَ يَتْرُكُهُ عَنْ يَسَارِهِ وَوَرَاءَهُ، وَيُصَلِّي أَمَامَهُ إِلَى العِرْقِ نَفْسِهِ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَرُوحُ مِنَ الرَّوْحَاءِ فَلاَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حَتَّى يَأْتِيَ ذَلِكَ المَكَانَ، فَيُصَلِّي فِيهِ الظُّهْرَ، وَإِذَا أَقْبَلَ مِنْ مَكَّةَ، فَإِنْ مَرَّ بِهِ قَبْلَ الصُّبْحِ بِسَاعَةٍ أَوْ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ عَرَّسَ حَتَّى يُصَلِّيَ بِهَا الصُّبْحَ

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس چھوٹی پہاڑی کی طرف نماز پڑھتے جو روحاء کے آخر کنارے پر ہے اور یہ پہاڑی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں راستے کا کنارہ ہے۔ اس مسجد کے قریب جو اس کے اور روحاء کے آخری حصے کے بیچ میں ہے مکہ کو جاتے ہوئے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے بائیں طرف مقابل میں چھوڑ دیتے اور آگے بڑھ کر خود پہاڑی عرق الطبیہ کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب روحاء سے چلتے تو ظہر اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک اس مقام پر نہ پہنچ جاتے۔ جب یہاں آ جاتے تو ظہر پڑھتے، اور اگر مکہ سے آتے ہوئے صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے یا سحر کے آخر میں وہاں سے گزرتے تو صبح کی نماز تک وہیں آرام کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 487 وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ حَدَّثَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ تَحْتَ سَرْحَةٍ ضَخْمَةٍ دُونَ الرُّوَيْثَةِ، عَنْ يَمِينِ الطَّرِيقِ، وَوِجَاهَ الطَّرِيقِ فِي مَكَانٍ بَطْحٍ سَهْلٍ، حَتَّى يُفْضِيَ مِنْ أَكَمَةٍ دُوَيْنَ بَرِيدِ الرُّوَيْثَةِ بِمِيلَيْنِ، وَقَدِ انْكَسَرَ أَعْلاَهَا، فَانْثَنَى فِي جَوْفِهَا وَهِيَ قَائِمَةٌ عَلَى سَاقٍ، وَفِي سَاقِهَا كُثُبٌ كَثِيرَةٌ»

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے کے دائیں طرف مقابل میں ایک گھنے درخت کے نیچے وسیع اور نرم علاقہ میں قیام فرماتے جو قریہ رویثہ کے قریب ہے۔ پھر آپ اس ٹیلہ سے جو رویثہ کے راستے سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہے چلتے تھے۔ اب اس درخت کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور درمیان میں سے دوہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے۔ اس کی جڑ میں ریت کے بہت سے ٹیلے ہیں۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 488 وَأَنَّ [ص:105] عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي طَرَفِ تَلْعَةٍ مِنْ وَرَاءِ العَرْجِ، وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَى هَضْبَةٍ عِنْدَ ذَلِكَ المَسْجِدِ قَبْرَانِ أَوْ ثَلاَثَةٌ، عَلَى القُبُورِ رَضَمٌ مِنْ حِجَارَةٍ، عَنْ يَمِينِ الطَّرِيقِ عِنْدَ سَلَمَاتِ الطَّرِيقِ بَيْنَ أُولَئِكَ السَّلَمَاتِ» كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَرُوحُ مِنَ العَرْجِ، بَعْدَ أَنْ تَمِيلَ الشَّمْسُ بِالهَاجِرَةِ، فَيُصَلِّي الظُّهْرَ فِي ذَلِكَ المَسْجِدِ

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریہ عرج کے قریب اس نالے کے کنارے نماز پڑھی جو پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے پڑتا ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان قبروں پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں، راستے کے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس جو راستے میں ہیں۔ ان کے درمیان میں ہو کر نماز پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریہ عرج سے سورج ڈھلنے کے بعد چلتے اور ظہر اسی مسجد میں آ کر پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 489 وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عِنْدَ سَرَحَاتٍ عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ فِي مَسِيلٍ دُونَ هَرْشَى، ذَلِكَ المَسِيلُ لاَصِقٌ بِكُرَاعِ هَرْشَى، بَيْنَهُ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ قَرِيبٌ مِنْ غَلْوَةٍ» وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ «يُصَلِّي إِلَى سَرْحَةٍ هِيَ أَقْرَبُ السَّرَحَاتِ إِلَى الطَّرِيقِ، وَهِيَ أَطْوَلُهُنَّ»

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نافع سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے بائیں طرف ان گھنے درختوں کے پاس قیام فرمایا جو ہرشی پہاڑ کے نزدیک نشیب میں ہیں۔ یہ ڈھلوان جگہ ہرشی کے ایک کنارے سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں سے عام راستہ تک پہنچنے کے لیے تیر کی مار کا فاصلہ ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس بڑے درخت کی طرف نماز پڑھتے تھے جو ان تمام درختوں میں راستے سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اور سب سے لمبا درخت بھی یہی ہے۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 490 وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ فِي المَسِيلِ الَّذِي فِي أَدْنَى مَرِّ الظَّهْرَانِ، قِبَلَ المَدِينَةِ حِينَ يَهْبِطُ مِنَ الصَّفْرَاوَاتِ يَنْزِلُ فِي بَطْنِ ذَلِكَ المَسِيلِ عَنْ يَسَارِ الطَّرِيقِ، وَأَنْتَ ذَاهِبٌ إِلَى مَكَّةَ، لَيْسَ بَيْنَ مَنْزِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الطَّرِيقِ إِلَّا رَمْيَةٌ بِحَجَرٍ»

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نالے میں اترا کرتے تھے جو وادی مرالظہران کے نشیب میں ہے۔ مدینہ کے مقابل جب کہ مقام صفراوات سے اترا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھلوان کے بالکل نشیب میں قیام کرتے تھے۔ یہ راستے کے بائیں جانب پڑتا ہے جب کوئی شخص مکہ جا رہا ہو ( جس کو اب بطن مرو کہتے ہیں ) راستے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل کے درمیان صرف ایک پتھر ہی کے مار کا فاصلہ ہوتا۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 491 وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْزِلُ بِذِي طُوًى، وَيَبِيتُ حَتَّى يُصْبِحَ، يُصَلِّي الصُّبْحَ حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ، وَمُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ، لَيْسَ فِي المَسْجِدِ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ، وَلَكِنْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ»

 

❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ذی طوی میں قیام فرماتے اور رات یہیں گزارا کرتے تھے اور صبح ہوتی تو نماز فجر یہیں پڑھتے۔ مکہ جاتے ہوئے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک بڑے سے ٹیلے پر تھی۔ اس مسجد میں نہیں جواب وہاں بنی ہوئی ہے بلکہ اس سے نیچے ایک بڑا ٹیلا تھا۔


❁ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ
❁ باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان

❁ 492 وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، حَدَّثَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَقْبَلَ فُرْضَتَيِ الجَبَلِ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَبَلِ الطَّوِيلِ، نَحْوَ الكَعْبَةِ، فَجَعَلَ المَسْجِدَ الَّذِي بُنِيَ ثَمَّ يَسَارَ المَسْجِدِ، بِطَرَفِ الأَكَمَةِ، وَمُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْفَلَ مِنْهُ عَلَى الأَكَمَةِ السَّوْدَاءِ، تَدَعُ مِنَ الأَكَمَةِ عَشَرَةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا، ثُمَّ تُصَلِّي مُسْتَقْبِلَ الفُرْضَتَيْنِ مِنَ الجَبَلِ الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَ الكَعْبَةِ»

 

 ❁ ترجمہ : اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑ کے دونوں کونوں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبہ کی سمت ہیں۔ آپ اس مسجد کو جواب وہاں تعمیر ہوئی ہے اپنی بائیں طرف کر لیتے ٹیلے کے کنارے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلے پر تھی ٹیلے سے تقریباً دس ہاتھ چھوڑ کر پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہے۔

 


❁ تشریح : امام قسطلانی شارح بخاری لکھتے ہیں کہ ان مقامات میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھنا تبرک حاصل کرنے کے لیے تھا اور یہ اس کے خلاف نہیں جو حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کیونکہ عمررضی اللہ عنہ نے اس حال میں اس کو مکروہ رکھا جب کوئی واجب اورضروری سمجھ کر ایسا کرے۔ یہاں جن جن مقامات کی مساجد کا ذکر ہے ان میں سے اکثراب ناپید ہوچکی ہیں۔ چند باقی ہیں۔ ذوالحلیفہ ایک مشہور مقام ہے جہاں سے اہل مدینہ احرام باندھا کرتے ہیں۔ بطحاءوہ جگہ ہے جہاں پانی کا بہاؤ ہے اوروہاں باریک باریک کنکریاں ہیں۔ رویثہ مدینہ سے سترہ فرس کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے۔ یہاں سے عرج نامی گاؤں تیرہ چودہ میل پڑتاہے۔ ہضبہ بھی مدینہ کے راستے میں ایک پہاڑ ہے جو زمین پر پھیلا ہوا ہے ہر شی حجفہ کے قریب مدینہ اورشام کے راستوں میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ مہرالظہران ایک مشہور مقام ہے۔ صفراوات وہ ندی نالے اورپہاڑ جو مرالظہران کے بعدآتے ہیں۔ اس حدیث میں نوحدیثیں مذکو رہیں۔ ان کو حسن بن سفیان نے متفرق طور پر اپنی مسند میں نکالا ہے۔ مگرتیسری کو نہیں نکالا۔ اور مسلم نے آخری حدیث کو کتاب الحج میں نکالاہے۔ اب ان مساجد کا پتہ نہیں چلتا نہ درخت اورنشانات باقی ہیں۔ خود مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، جن جن مساجد میں نماز پڑھی ہے ان کو عمربن شیبہ نے اخبار مدینہ میں ذکرکیاہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہدخلافت میں ان کومعلوم کرکے نقشی پتھروں سے تعمیرکرادیا تھا ان میں سے مسجدقبائ، مسجدفضیخ، مسجدبنی قریظہ، مسجد بغلہ، مسجد بنی معاویہ، مسجد فتح، مسجد قبلتین وغیرہ وغیرہ ابھی تک باقی ہیں۔ موجودہ حکومت سعودیہ نے اکثرمساجد کو عمدہ طور پر مستحکم کردیا ہے۔ اس حدیث میں جس سفر کی نمازوں کا ذکر ہے وہ سات دن تک جاری رہا تھا اورآپ نے اس میں 35 نمازیں ادا کی تھیں راویان حدیث نے اکثر کا ذکر نہیں کیا۔ وادی روحاءکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔ قال الشیخ ابن حجر ہذہ المساجد لایعرف الیوم ہہنا غیرمسجدذی الحلیفۃ والمساجد التی بالروحاءاہل تلک الناہیۃ انتہیٰ۔ و انما کان ابن عمر یصلی فی تلک المواضع تبرکا بہا ولم یزل الناس یتبرکون بمواضع الصلحاءواما ماروی عن عمر انہ کرہ ذلک فلانہ خشی ان یلتزم الناس الصلوٰۃ فی تلک المواضع وینبغی للعالم اذا رای الناس یلتزمون بالنوافل التزاما شدیدا ان ینہاہم عنہ۔ علامہ ابن حجر کی اس تقریر کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ یعنی ان مقامات پر نماز محض تبرکا پڑھتے تھے۔ مگرعوام اس کا التزام کرنے لگیں تو علماءکے لیے ضروری ہے کہ ان کوروکیں۔


❁ بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ
 ❁ باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو کفایت کرتا ہے

❁ 493 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْتُ رَاكِبًا عَلَى حِمَارٍ أَتَانٍ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ قَدْ نَاهَزْتُ الِاحْتِلاَمَ، «وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ، فَمَرَرْتُ بَيْنَ يَدَيْ بَعْضِ الصَّفِّ فَنَزَلْتُ، وَأَرْسَلْتُ الأَتَانَ تَرْتَعُ، وَدَخَلْتُ فِي الصَّفِّ، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس زمانہ میں بالغ ہونے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن دیوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھی۔ میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا۔ پس کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔

 


❁ تشریح : بظاہر اس حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ میدان میں بغیرسترہ کے نماز نہ پڑھتے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے برچھی گاڑی جاتی،تویقینا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ ضرور ہوگا۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوگیا کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: الی غیرجدار قال الشافعی الی غیرسترۃ وحینئذ فلامطابقۃ بین الحدیث والترجمۃ وقدبوب علیہ البیہقی باب من صلی الی غیرسترۃ لکن استنبط بعضہم المطابقۃ من قولہ الی غیرجدار لان لفظ غیر یشعربان ثمۃ سترۃ لانہا تقع دائما صفۃ و تقدیرہ الی شئی غیر جدار وہو اعم من ان یکون عصا اوغیر ذلک یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں باب باندھا کہ یہ باب اس کے بارے میں ہے جو بغیرسترہ کے نماز پڑھے۔ لیکن اسی حدیث سے بعض علماءنے لفظ الی غیرجدار سے مطابقت پر استنباط کیاہے۔ لفظ غیربتلاتا ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کسی اورچیز سے سترہ کیاگیاتھا۔ وہ چیز عصا تھی۔ یاکچھ اور بہرحال آپ کے سامنے سترہ موجود تھا جو دیوار کے علاوہ تھا۔ حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قلت حمل البخاری لفظ الغیر علی النعت والبیہقی علی النفی المحض وامااختارہ البخاری ہنا اولیٰ فان التعرض لنفی الجدار خاصۃ یدل علی انہ کان ہناک شئی مغایرللجدار الخ۔ ( مرعاۃ، ج 1، ص: 515 ) خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں یہ ہے کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور چیز بطور سترہ تھی۔ حضرت الامام نے لفظ غیر کو یہاں بطور نعت سمجھا اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے نفی محض مراد لی، اورجو کچھ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیاہے وہی مناسب اوربہتر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ اس وقت یہ بلوغ کے قریب تھے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ بتلائی گئی ہے۔


❁ بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ
❁ باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو کفایت کرتا ہے

❁ 494 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ يَعْنِي ابْنَ مَنْصُورٍ [ص:106]، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا خَرَجَ يَوْمَ العِيدِ أَمَرَ بِالحَرْبَةِ، فَتُوضَعُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا وَالنَّاسُ وَرَاءَهُ، وَكَانَ يَفْعَلُ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ»، فَمِنْ ثَمَّ اتَّخَذَهَا الْأُمَرَاءُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن ( مدینہ سے ) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ ( برچھا ) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔ ( مسلمانوں کے ) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔


❁ بَابُ سُتْرَةُ الإِمَامِ سُتْرَةُ مَنْ خَلْفَهُ
❁ باب: امام کا سترہ مقتدیوں کو کفایت کرتا ہے

❁ 495 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ بِالْبَطْحَاءِ وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ، الظُّهْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَالعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، تَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْهِ المَرْأَةُ وَالحِمَارُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، کہا میں نے اپنے باپ ( وہب بن عبداللہ ) سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بطحاء میں نماز پڑھائی۔ آپ کے سامنے عنزہ ( ڈنڈا جس کے نیچے پھل لگا ہوا ہو ) گاڑ دیا گیا تھا۔ ( چونکہ آپ مسافر تھے اس لیے ) ظہر کی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت ادا کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔

 


❁ تشریح : یہاں بھی حضرت امام قدس سرہ نے یہی ثابت فرمایاکہ امام کا سترہ سارے نمازیوں کے لیے کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاءمیں ظہر وعصر کی دونوں نمازیں جمع تقدیم کے طور پر پڑھائیں۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بطور سترہ برچھا گاڑدیا گیاتھا۔ برچھے سے باہر آپ اورنمازیوں کے آگے گدھے گزررہے تھے اور عورتیں بھی، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سترہ سب نمازیووں کے لیے کافی گردانا گیا۔ بغیرسترہ کے امام یا نمازیوں کے آگے سے اگرعورتیں یاگدھے وکتے وغیرہ گزریں توچونکہ ان کی طرف توجہ بٹنے کا احتمال ہے۔ اس لیے ان سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض لوگ نماز ٹوٹنے کو نماز میں صرف خلل آجانے پر محمول کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ خود نمازی ہی کرسکتاہے کہ انما الاعمال بالنیات اگران چیزوں پر نظر پڑنے سے اس کی نماز میں پوری توجہ ادھر ہوگئی تویقینا نماز ٹوٹ جائے گی ورنہ خلل محض بھی معیوب ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: قال مالک و ابوحنیفۃ والشافعی رضی اللہ عنہم و جمہور من السلف والخلف لاتبطل الصلوٰۃ بمرور شئی من ہولاءولا من غیرہم وتاول ہولاءہذالحدیث علی ان المراد بالقطع نقص الصلوٰۃ لشغل القلب بہذہ الاشیاءولیس المراد ابطالہا الخ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص:276 ) خلاصہ یہی ہے کہ کتے اور گدھے اور عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے نماز میں نقص آجاتاہے۔ اس لیے کہ دل میں ان چیزوں سے تاثر آجاتا ہے۔ نماز مطلقاً باطل ہوجائے ایسا نہیں ہے۔ جمہورعلمائے سلف وخلف کا یہی فتویٰ ہے۔


❁ بَابُ قَدْرِ كَمْ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَ المُصَلِّي وَالسُّتْرَةِ؟
❁ باب: نمازی اور سترہ میں کتنا فاصلہ ہونا چاہئے

❁ 496 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: «كَانَ بَيْنَ مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الجِدَارِ مَمَرُّ الشَّاةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے اپنے باپ ابوحازم سلمہ بن دینار سے بیان کیا، انھوں نے سہل بن سعد سے، انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر سکنے کا فاصلہ رہتا تھا۔


❁ بَابُ قَدْرِ كَمْ يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ بَيْنَ المُصَلِّي وَالسُّتْرَةِ؟
❁ باب: نمازی اور سترہ میں کتنا فاصلہ ہونا چاہئے

❁ 497 حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: «كَانَ جِدَارُ المَسْجِدِ عِنْدَ المِنْبَرِ مَا كَادَتِ الشَّاةُ تَجُوزُهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے، انھوں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ مسجد کی دیوار اور منبر کے درمیان بکری کے گزر سکنے کے فاصلے کے برابر تھی۔

 


❁ تشریح : مسجد نبوی میں اس وقت محراب نہیں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر کی بائیں طرف کھڑے ہوکر نماز پڑھتے تھے۔ لہٰذا منبر اور دیوار کا فاصلہ اتناہی ہوگا کہ ایک بکری نکل جائے۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ بلال کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھائی آپ میں اور دیوار میں تین ہاتھ کا فاصلہ تھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مسجد میں محراب بنانااور منبر بنانا سنت نہیں ہے، منبر علیحدہ لکڑی کا ہونا چاہئیے۔ بخاری شریف کی ثلاثیات میں سے یہ دوسری حدیث ہے اورثلاثیات کی پہلی حدیث پہلے پارہ کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مکی بن ابراہیم کی روایت سے گزر چکی ہے۔ ثلاثیات جن کی سند میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صرف تین ہی اساتذہ سے اسے نقل کریں۔ ( یعنی ثلاثیات سے مراد یہ ہے کہ امام بخاری اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تین راویوں کا واسطہ ہو


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الحَرْبَةِ
❁ باب: برچھی کی طرف نماز پڑھنا

❁ 498 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُرْكَزُ لَهُ الحَرْبَةُ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے عبیداللہ کے واسطے سے بیان کیا، کہا مجھے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برچھا گاڑ دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى العَنَزَةِ
 ❁ باب: عنزہ کی طرف نماز پڑھنا

 ❁ 499 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: «خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوءٍ، فَتَوَضَّأَ، فَصَلَّى بِنَا الظُّهْرَ وَالعَصْرَ، وَبَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ وَالمَرْأَةُ وَالحِمَارُ يَمُرُّونَ مِنْ وَرَائِهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ سے سنا انھوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت باہر تشریف لائے۔ آپ کی خدمت میں وضو کا پانی پیش کیا گیا، جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ پھر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھائی اور عصر کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عنزہ گاڑ دیا گیا تھا اور عورتیں اور گدھے پر سوار لوگ اس کے پیچھے سے گزر رہے تھے۔

 


❁ تشریح : آپ نے ظہر اورعصر کوجمع کیاتھا۔ اسے جمع تقدیم کہتے ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى العَنَزَةِ
❁ باب: عنزہ کی طرف نماز پڑھنا

❁ 500 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَاذَانُ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ، تَبِعْتُهُ أَنَا وَغُلاَمٌ وَمَعَنَا عُكَّازَةٌ أَوْ عَصًا أَوْ عَنَزَةٌ، وَمَعَنَا إِدَاوَةٌ، فَإِذَا فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ نَاوَلْنَاهُ الإِدَاوَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن حاتم بن بزیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شاذان بن عامر نے شعبہ بن حجاج کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عطاء بن ابی میمونہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک اور لڑکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جاتے۔ ہمارے ساتھ عکازہ ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو ) یا چھڑی یا عنزہ ہوتا۔ اور ہمارے ساتھ ایک چھاگل بھی ہوتا تھا۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہو جاتے تو ہم آپ کو وہ چھاگل دے دیتے تھے۔


❁ بَابُ السُّتْرَةِ بِمَكَّةَ وَغَيْرِهَا
❁ باب: مکہ اور دیگر مقامات پر سترہ کا حکم

❁ 501 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الحَكَمِ، عَنْ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: «خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالهَاجِرَةِ، فَصَلَّى بِالْبَطْحَاءِ الظُّهْرَ وَالعَصْرَ رَكْعَتَيْنِ، وَنَصَبَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةً وَتَوَضَّأَ»، فَجَعَلَ النَّاسُ يَتَمَسَّحُونَ بِوَضُوئِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم بن عیینہ سے، انھوں نے ابوحجیفہ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء میں ظہر اور عصر کی دو دو رکعتیں پڑھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عنزہ گاڑ دیا گیا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کو اپنے بدن پر لگا رہے تھے۔

 


تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سترہ کے مسئلہ میں مکہ اور دوسرے مقامات میں کوئی فرق نہیں۔ مسندعبدالرزاق میں ایک حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے تھے۔ امام بخاری نے اس حدیث کو ضعیف سمجھا ہے۔ بطحامکہ کی پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔ والغرض من ہذاالباب الرد علی من قال یجوز المرور دون السترۃ للطائفین للضرورۃ لالغیرہم جو لوگ کعبہ کے طواف کرنے والوں کو نمازیوں کے آگے سے گزرنے کے قائل ہیں۔ حضرت امام ر حمۃ اللہ علیہ یہ باب منعقدکرکے ان کا رد کرناچاہتے ہیں۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الأُسْطُوَانَةِ
❁ باب: ستونوں کی آڑ میں نماز پڑھنا

❁ 502 حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: كُنْتُ آتِي مَعَ سَلَمَةَ بْنِ الأَكْوَعِ فَيُصَلِّي عِنْدَ الأُسْطُوَانَةِ الَّتِي عِنْدَ المُصْحَفِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ، أَرَاكَ تَتَحَرَّى الصَّلاَةَ عِنْدَ هَذِهِ الأُسْطُوَانَةِ، قَالَ: فَإِنِّي «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى الصَّلاَةَ عِنْدَهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ ( مسجد نبوی میں ) حاضر ہوا کرتا تھا۔ سلمہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اس ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے جہاں قرآن شریف رکھا رہتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابومسلم! میں دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور سے اسی ستون کو سامنے کر کے نماز پڑھا کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسجد نبوی میں ایک ستون کے پاس قرآن شریف صندوق میں رکھا رہتا تھا۔ اس کو ستون مصحف کہاکرتے تھے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے، ثلاثیات بخاری شریف میں سے یہ تیسری حدیث ہے


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الأُسْطُوَانَةِ
❁ باب: ستونوں کی آڑ میں نماز پڑھنا

❁ 503 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «لَقَدْ [ص:107] رَأَيْتُ كِبَارَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْتَدِرُونَ السَّوَارِيَ عِنْدَ المَغْرِبِ»، وَزَادَ شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ أَنَسٍ، حَتَّى يَخْرُجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے عمرو بن عامر سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دیکھا کہ وہ مغرب ( کی اذان ) کے وقت ستونوں کی طرف لپکتے۔ اور شعبہ نے عمرو بن عامر سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ( اس حدیث میں ) یہ زیادتی کی ہے۔ “ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے باہر تشریف لاتے۔

 


❁ تشریح : مغرب کی اذان اورنماز کے درمیان دوہلکی پھلکی رکعتیں پڑھنا سنت ہے۔ عہدرسالت میں یہ صحابہ رضی اللہ عنہ کا عام معمول تھا۔ مگربعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ جو چاہے ان کو پڑھے جو چاہے نہ پڑھے۔ اس حدیث سے ستونوں کو سترہ بناکر نماز پڑھنے کا ثبوت ہوا اور ان دورکعتوں کا بھی جیسا کہ روایت سے ظاہر ہے۔ شعبہ کی روایت کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاذان میں وصل کیاہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ
❁ باب: دو ستونوں کے بیچ میں نماز پڑھنا

❁ 504 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَيْتَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، وَبِلاَلٌ فَأَطَالَ، ثُمَّ خَرَجَ وَكُنْتُ أَوَّلَ النَّاسِ دَخَلَ عَلَى أَثَرِهِ، فَسَأَلْتُ بِلاَلًا: أَيْنَ صَلَّى؟ قَالَ: بَيْنَ العَمُودَيْنِ المُقَدَّمَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے اور اسامہ بن زید عثمان بن طلحہ اور بلال رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک اندر رہے۔ پھر باہر آئے۔ اور میں سب لوگوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہی وہاں آیا۔ میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ آگے کے دو ستونوں کے بیچ میں آپ نے نماز پڑھی تھی۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَيْنَ السَّوَارِي فِي غَيْرِ جَمَاعَةٍ
❁ باب: دو ستونوں کے بیچ میں نماز پڑھنا

❁ 505 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الكَعْبَةَ وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الحَجَبِيُّ فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، وَمَكَثَ فِيهَا، فَسَأَلْتُ بِلاَلًا حِينَ خَرَجَ: مَا صَنَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: جَعَلَ عَمُودًا عَنْ يَسَارِهِ، وَعَمُودًا عَنْ يَمِينِهِ، وَثَلاَثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ البَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ، ثُمَّ صَلَّى ، وَقَالَ لَنَا: إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، وَقَالَ: «عَمُودَيْنِ عَنْ يَمِينِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور اسامہ بن زید، بلال اور عثمان بن طلحہ حجبی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے کعبہ کا دروازہ بند کر دیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ٹھہرے رہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر کیا کیا؟ انھوں نے کہا کہ آپ نے ایک ستون کو تو بائیں طرف چھوڑا اور ایک کو دائیں طرف اور تین کو پیچھے اور اس زمانہ میں خانہ کعبہ میں چھ ستون تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔ امام بخاری نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی ادریس نے کہا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے امام مالک نے یہ حدیث یوں بیان کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں طرف دو ستون چھوڑے تھے۔

 


❁ تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلا کہ اگر اکیلا نماز پڑھنا چاہئیے تو دوستونوں کے بیچ میں پڑھ سکتا ہے۔ شارح حدیث حضرت مولاناوحیدالزماں رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ جب خانہ کعبہ چھ ستونوں پر تھا تو ایک طرف خواہ مخواہ دوستون رہیں گے اور ایک طرف ایک۔ امام احمد اوراسحاق اوراہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اکیلا شخص ستونوں کے بیچ میں نماز پڑھ سکتا ہے۔ لیکن ستونوں کے بیچ میں صف باندھنا مکروہ ہے اورحنفیہ اورشافعیہ اور مالکیہ نے اس کو جائز رکھا ہے۔ تسہیل القاری میں ہے کہ ہمارے امام احمدبن حنبل کا مذہب حق ہے۔ اورحنفیہ اور مالکیہ کو اس مسئلہ میں شاید ممانعت کی حدیثیں نہیں پہنچیں، واللہ اعلم۔


❁ 506 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، كَانَ «إِذَا دَخَلَ الكَعْبَةَ مَشَى قِبَلَ وَجْهِهِ حِينَ يَدْخُلُ، وَجَعَلَ البَابَ قِبَلَ ظَهْرِهِ، فَمَشَى حَتَّى يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجِدَارِ الَّذِي قِبَلَ وَجْهِهِ قَرِيبًا مِنْ ثَلاَثَةِ أَذْرُعٍ، صَلَّى يَتَوَخَّى المَكَانَ الَّذِي أَخْبَرَهُ بِهِ بِلاَلٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِيهِ»، قَالَ: وَلَيْسَ عَلَى أَحَدِنَا بَأْسٌ إِنْ صَلَّى فِي أَيِّ نَوَاحِي البَيْتِ شَاءَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا انھوں نے نافع سے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کعبہ میں داخل ہوتے تو سیدھے منہ کے سامنے چلے جاتے۔ دروازہ پیٹھ کی طرف ہوتا اور آپ آگے بڑھتے جب ان کے اور سامنے کی دیوار کا فاصلہ قریب تین ہاتھ کے رہ جاتا تو نماز پڑھتے۔ اس طرح آپ اس جگہ نماز پڑھنا چاہتے تھے جس کے متعلق حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہیں نماز پڑھی تھی۔ آپ فرماتے تھے کہ بیت اللہ میں جس کونے میں ہم چاہیں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الرَّاحِلَةِ، وَالبَعِيرِ وَالشَّجَرِ وَالرَّحْلِ

❁ باب: اونٹ اور درخت و چارپائی وغیرہ کا سترہ


❁ 507 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ المُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ «كَانَ يُعَرِّضُ رَاحِلَتَهُ، فَيُصَلِّي إِلَيْهَا»، قُلْتُ: أَفَرَأَيْتَ إِذَا هَبَّتِ الرِّكَابُ؟ قَالَ: «كَانَ يَأْخُذُ هَذَا الرَّحْلَ فَيُعَدِّلُهُ، فَيُصَلِّي إِلَى آخِرَتِهِ – أَوْ قَالَ مُؤَخَّرِهِ -» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَفْعَلُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا عبیداللہ بن عمر سے، وہ نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو سامنے عرض میں کر لیتے اور اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے، عبیداللہ بن عمر نے نافع سے پوچھا کہ جب سواری اچھلنے کودنے لگتی تو اس وقت آپ کیا کیا کرتے تھے؟ نافع نے کہا کہ آپ اس وقت کجاوے کو اپنے سامنے کر لیتے اور اس کے آخری حصے کی ( جس پر سوار ٹیک لگاتا ہے ایک کھڑی سی لکڑی کی ) طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے اونٹنی پر اونٹ کو اورپالان کی لکڑی پر درخت کو قیاس کیاہے۔ اس تفصیل کے بعد حدیث اور باب میں مطابقت ظاہرہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى السَّرِيرِ

❁ باب: چارپائی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا


❁ 508  حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَعَدَلْتُمُونَا بِالكَلْبِ وَالحِمَارِ «لَقَدْ رَأَيْتُنِي مُضْطَجِعَةً عَلَى السَّرِيرِ، فَيَجِيءُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَتَوَسَّطُ السَّرِيرَ، فَيُصَلِّي، فَأَكْرَهُ أَنْ أُسَنِّحَهُ، فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيِ السَّرِيرِ حَتَّى أَنْسَلَّ مِنْ لِحَافِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا منصور بن معتمر سے، انھوں نے ابراہیم نخعی سے، انھوں نے اسود بن یزید سے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا تم لوگوں نے ہم عورتوں کو کتوں اور گدھوں کے برابر بنا دیا۔ حالانکہ میں چارپائی پر لیٹی رہتی تھی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور چارپائی کے بیچ میں آ جاتے ( یا چارپائی کو اپنے اور قبلے کے بیچ میں کر لیتے ) پھر نماز پڑھتے۔ مجھے آپ کے سامنے پڑا رہنا برا معلوم ہوتا، اس لیے میں پائینتی کی طرف سے کھسک کے لحاف سے باہر نکل جاتی۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب الاستیذان میں ایک حدیث روایت فرمائی ہے جس میںصاف مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور چارپائی آپ کے اورقبلے کے بیچ میں ہوتی پس فیتوسط السریر کا ترجمہ یہ صحیح ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چارپائی کو اپنے اورقبلہ کے بیچ میں کرلیتے۔


❁ بَاب إِثْمِ الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي
❁ باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ

❁ 509 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ [ص:108]، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلاَلٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وَحَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ المُغِيرَةِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلاَلٍ العَدَوِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ، قَالَ: رَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ يُصَلِّي إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ، فَأَرَادَ شَابٌّ مِنْ بَنِي أَبِي مُعَيْطٍ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَدَفَعَ أَبُو سَعِيدٍ فِي صَدْرِهِ، فَنَظَرَ الشَّابُّ فَلَمْ يَجِدْ مَسَاغًا إِلَّا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَعَادَ لِيَجْتَازَ، فَدَفَعَهُ أَبُو سَعِيدٍ أَشَدَّ مِنَ الأُولَى، فَنَالَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى مَرْوَانَ، فَشَكَا إِلَيْهِ مَا لَقِيَ مِنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَدَخَلَ أَبُو سَعِيدٍ خَلْفَهُ عَلَى مَرْوَانَ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلِابْنِ أَخِيكَ يَا أَبَا سَعِيدٍ؟ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنَ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلْيَدْفَعْهُ فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یونس بن عبید نے حمید بن ہلال کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابوصالح ذکوان سمان سے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( دوسری سند ) اور ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے، کہا ہم سے حمید بن ہلال عدوی نے، کہا ہم سے ابوصالح سمان نے، کہا میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو جمعہ کے دن نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ کسی چیز کی طرف منہ کئے ہوئے لوگوں کے لیے اسے آڑ بنائے ہوئے تھے۔ ابومعیط کے بیٹوں میں سے ایک جوان نے چاہا کہ آپ کے سامنے سے ہو کر گزر جائے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس کے سینہ پر دھکا دے کر باز رکھنا چاہا۔ جوان نے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی راستہ سوائے سامنے سے گزرنے کے نہ ملا۔ اس لیے وہ پھر اسی طرف سے نکلنے کے لیے لوٹا۔ اب ابوسعید رضی اللہ عنہ نے پہلے سے بھی زیادہ زور سے دھکا دیا۔ اسے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے شکایت ہوئی اور وہ اپنی یہ شکایت مروان کے پاس لے گیا۔ اس کے بعد ابوسعید رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے گئے۔ مروان نے کہا اے ابوسعید رضی اللہ عنہ آپ میں اور آپ کے بھتیجے میں کیا معاملہ پیش آیا۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا تھا کہ جب کوئی شخص نماز کسی چیز کی طرف منہ کر کے پڑھے اور اس چیز کو آڑ بنا رہا ہو پھر بھی اگر کوئی سامنے سے گزرے تو اسے روک دینا چاہیے۔ اگر اب بھی اسے اصرار ہو تو اسے لڑنا چاہیے۔ کیونکہ وہ شیطان ہے۔

 

❁ تشریح : نمازی کے آگے سے گزرنا سخت ترین گناہ ہے۔ اگرگزرنے والا قصداً یہ حرکت کررہاہے تووہ یقینا شیطان ہے۔ جوخدا اور بندے کے درمیان حائل ہورہاہے۔ ایسے گزرنے والے کو حتی الامکان روکناچاہئیے حتیٰ کہ حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ کی طرح ضرورت ہو تو اسے دھکادے کر بھی باز رکھا جائے، بعض لوگ ارشاد نبوی فلیقاتلہ کو مبالغہ پر محمول کرتے ہیں۔


 ❁ بَاب إِثْمِ الْمَارِّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي
❁ باب: نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ

❁ 510 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ، أَرْسَلَهُ إِلَى أَبِي جُهَيْمٍ يَسْأَلُهُ: مَاذَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَارِّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي؟ فَقَالَ أَبُو جُهَيْمٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ يَعْلَمُ المَارُّ بَيْنَ يَدَيِ المُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ، لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ» قَالَ أَبُو النَّضْرِ: لاَ أَدْرِي، أَقَالَ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ شَهْرًا، أَوْ سَنَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن ابی امیہ سے خبر دی۔ انھوں نے بسر بن سعید سے کہ زید بن خالد نے انھیں ابوجہیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انھوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے۔ ابوجہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔ ابوالنضر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال۔


❁ بَابُ اسْتِقْبَالِ الرَّجُلِ صَاحِبَهُ أَوْ غَيْرَهُ فِي صَلاَتِهِ وَهُوَ يُصَلِّي
❁ باب: ایک نمازی کا دوسرے کی طرف رخ کرنا

❁ 511 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ يَعْنِي ابْنَ صُبَيْحٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَهَا مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ، فَقَالُوا: يَقْطَعُهَا الكَلْبُ وَالحِمَارُ وَالمَرْأَةُ، قَالَتْ: لَقَدْ جَعَلْتُمُونَا كِلاَبًا، «لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي، وَإِنِّي لَبَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ، وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ عَلَى السَّرِيرِ، فَتَكُونُ لِي الحَاجَةُ، فَأَكْرَهُ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ، فَأَنْسَلُّ انْسِلاَلًا» وَعَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا سلیمان اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ ان کے سامنے ذکر ہوا کہ نماز کو کیا چیزیں توڑ دیتی ہیں، لوگوں نے کہا کہ کتا، گدھا اور عورت ( بھی ) نماز کو توڑ دیتی ہے۔ ( جب سامنے آ جائے ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ہمیں کتوں کے برابر بنا دیا۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے اور آپ کے قبلہ کے درمیان ( سامنے ) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی۔ اعمش نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے عائشہ سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بیان میں الفاظ اکرہ ان استقبلہ سے ترجمہ باب نکلتاہے۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔ مگرمیں اسے مکروہ جان کر ادھر ادھر سرک جایا کرتی تھی۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ خَلْفَ النَّائِمِ
❁ باب: سوتے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا

❁ 512 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور میں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ) بچھونے پڑ آڑی سوتی ہوئی پڑی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔

 

❁ تشریح : باب اورحدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔ خانگی زندگی میں بعض دفعہ ایسے بھی مواقع آجاتے ہیں کہ ایک شخص سورہا ہے اور دوسرے نمازی بزرگ اس کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں۔ عندالضرورت اس سے نماز میں خلل نہیں آتا۔


❁ بَابُ التَّطَوُّعِ خَلْفَ المَرْأَةِ
❁ باب: عورت کو بطور سترہ کر کے نفل پڑھنا

❁ 513 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى [ص:109] عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: «كُنْتُ أَنَامُ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرِجْلاَيَ فِي قِبْلَتِهِ، فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي، فَقَبَضْتُ رِجْلَيَّ، فَإِذَا قَامَ بَسَطْتُهُمَا»، قَالَتْ: وَالبُيُوتُ يَوْمَئِذٍ لَيْسَ فِيهَا مَصَابِيحُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سے، انھوں نے ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو جایا کرتی تھی۔ میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( پھیلے ہوئے ) ہوتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو پاؤں کو ہلکے سے دبا دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی پھر جب قیام فرماتے تو میں انھیں پھیلا لیتی تھی اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ ( معلوم ہوا کہ ایسا کرنا بھی جائز ہے )۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْءٌ
❁ باب: نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی

❁ 514 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، عَنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، ح قَالَ: الأَعْمَشُ، وَحَدَّثَنِي مُسْلِمٌ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، ذُكِرَ عِنْدَهَا مَا يَقْطَعُ الصَّلاَةَ الكَلْبُ وَالحِمَارُ وَالمَرْأَةُ، فَقَالَتْ: شَبَّهْتُمُونَا بِالحُمُرِ وَالكِلاَبِ، وَاللَّهِ «لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَإِنِّي عَلَى السَّرِيرِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ مُضْطَجِعَةً، فَتَبْدُو لِي الحَاجَةُ، فَأَكْرَهُ أَنْ أَجْلِسَ، فَأُوذِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْسَلُّ مِنْ عِنْدِ رِجْلَيْهِ»

 

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم نے اسود کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ( دوسری سند ) اور اعمش نے کہا کہ مجھ سے مسلم بن صبیح نے مسروق کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ ان کے سامنے ان چیزوں کا ذکر ہوا۔ جو نماز کو توڑ دیتی ہیں یعنی کتا، گدھا اور عورت۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا۔ حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں چارپائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے بیچ میں لیٹی رہتی تھی۔ مجھے کوئی ضرورت پیش آئی اور چونکہ یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کے سامنے ( جب کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوں ) بیٹھوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔ اس لیے میں آپ کے پاؤں کی طرف سے خاموشی کے ساتھ نکل جاتی تھی۔

 

تشریح : صاحب تفہیم البخاری لکھتے ہیں کہ “امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ کتے، گدھے اورعورت نماز کو توڑدیتی ہے۔ یہ بھی صحیح حدیث ہے لیکن اس سے مقصد یہ بتاناتھاکہ ان کے سامنے سے گزرنے سے نمازکے خشوع وخضوع میں فرق پڑتاہے۔ یہ مقصد نہیں تھاکہ واقعی ان کا سامنے سے گزرنا نماز کو توڑدیتاہے۔ چونکہ بعض لوگوں نے ظاہری الفاظ پر ہی حکم لگادیاتھا۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تردیدکی ضرورت سمجھی۔ اس کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی شبہ ہوتا تھا کہ نماز کسی دوسرے کے عمل سے بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان لگایاکہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی یعنی کسی دوسرے کا کوئی عمل خاص طور سے سامنے سے گزرنا۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ يَقْطَعُ الصَّلاَةَ شَيْءٌ
❁ باب: نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی

❁ 515 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّهُ سَأَلَ عَمَّهُ عَنِ الصَّلاَةِ، يَقْطَعُهَا شَيْءٌ فَقَالَ لاَ يَقْطَعُهَا شَيْءٌ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ فَيُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، وَإِنِّي لَمُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ عَلَى فِرَاشِ أَهْلِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ کیا نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں، اسے کوئی چیز نہیں توڑتی۔ کیونکہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ کے سامنے آپ کے اور قبلہ کے درمیان عرض میں بستر پر لیٹی رہتی تھی۔

 

❁ تشریح : تفصیل پہلے تحفۃ الاحوذی کے حوالہ سے گزر چکی ہے۔


❁ بَابُ إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں اگر کوئی گردن پر بچی اٹھالے

❁ 516 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي العَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا، وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انھوں نے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( بعض اوقات ) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔

 

❁ تشریح : حضرت امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی محبوب نواسی تھیں، بعض اوقات اس فطری محبت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جب یہ بہت چھوٹی تھیں نماز میں کندھے پر بھی بٹھالیا کرتے تھے۔ حضرت امامہ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور وہ ان سے نکاح کرنے کی وصیت بھی فرماگئی تھیں،یہ11 ھ کا واقعہ ہے۔ 40 ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید کردئیے گئے تو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کا عقدثانی مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔ جو حضرت عبدالمطلب کے پوتے ہوتے تھے۔ ان ہی کے پاس آپ نے وفات پائی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ احکام اسلام میں وسعت کے پیش نظر بتلانا چاہتے ہیں کہ ایسے کسی خاص موقعہ پر اگر کسی شخص نے نماز میں اپنے کسی پیارے معصوم بچے کو کاندھے پر بٹھا لیا تواس سے نماز فاسد نہ ہو گی۔


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى إِلَى فِرَاشٍ فِيهِ حَائِضٌ
❁ باب: حائضہ عورت کے بستر کی طرف نماز

❁ 517 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الهَادِ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي خَالَتِي مَيْمُونَةُ بِنْتُ الحَارِثِ، قَالَتْ: «كَانَ فِرَاشِي حِيَالَ مُصَلَّى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُبَّمَا وَقَعَ ثَوْبُهُ عَلَيَّ وَأَنَا عَلَى فِرَاشِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے شیبانی کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن شداد بن ہاد سے، کہا مجھے میری خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ میرا بستر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے کے برابر میں ہوتا تھا۔ اور بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا ( نماز پڑھتے میں ) میرے اوپر آ جاتا اور میں اپنے بستر پر ہی ہوتی تھی۔


❁ بَابُ إِذَا صَلَّى إِلَى فِرَاشٍ فِيهِ حَائِضٌ
❁ باب: حائضہ عورت کے بستر کی طرف نماز

❁ 518 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ سُلَيْمَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَيْمُونَةَ، تَقُولُ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ نَائِمَةٌ، فَإِذَا سَجَدَ أَصَابَنِي ثَوْبُهُ وَأَنَا حَائِضٌ» وَزَادَ مُسَدَّدٌ، عَنْ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ، وَأَنَا حَائِضٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن شداد بن ہاد نے بیان کیا، کہا ہم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں سوتی رہتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔

 

❁ تشریح : اوپر کی حدیث میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے حائضہ ہونے کی وضاحت نہ تھی۔ اس لیے حضرت امام دوسری حدیث لائے جس میں ان کے حائضہ ہونے کی وضاحت موجود ہے۔ ان سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سامنے لیٹی ہو تو بھی نماز میں کوئی نقص لازم نہیں آتا۔ یہی حضرت امام کا مقصد باب ہے۔


❁ بَابٌ: هَلْ يَغْمِزُ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ عِنْدَ السُّجُودِ لِكَيْ يَسْجُدَ؟
❁ باب: نمازی کا بیوی کو چھونا

❁ 519 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ [ص:110]: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا القَاسِمُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: بِئْسَمَا عَدَلْتُمُونَا بِالكَلْبِ وَالحِمَارِ «لَقَدْ رَأَيْتُنِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ القِبْلَةِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَسْجُدَ غَمَزَ رِجْلَيَّ، فَقَبَضْتُهُمَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ تم نے برا کیا کہ ہم کو کتوں اور گدھوں کے حکم میں کر دیا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ جب سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو چھو دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی تھی۔


❁ بَابُ المَرْأَةِ تَطْرَحُ عَنِ المُصَلِّي، شَيْئًا مِنَ الأَذَى
❁ باب: عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹا دے

❁ 520 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّورَمَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي عِنْدَ الكَعْبَةِ وَجَمْعُ قُرَيْشٍ فِي مَجَالِسِهِمْ، إِذْ قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ: أَلاَ تَنْظُرُونَ إِلَى هَذَا المُرَائِي أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى جَزُورِ آلِ فُلاَنٍ، فَيَعْمِدُ إِلَى فَرْثِهَا وَدَمِهَا وَسَلاَهَا، فَيَجِيءُ بِهِ، ثُمَّ يُمْهِلُهُ حَتَّى إِذَا سَجَدَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، فَانْبَعَثَ أَشْقَاهُمْ، فَلَمَّا سَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ؟ وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا، فَضَحِكُوا حَتَّى مَالَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مِنَ الضَّحِكِ، فَانْطَلَقَ مُنْطَلِقٌ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلاَمُ – وَهِيَ جُوَيْرِيَةٌ -، فَأَقْبَلَتْ تَسْعَى وَثَبَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدًا حَتَّى أَلْقَتْهُ عَنْهُ، وَأَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَسُبُّهُمْ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّلاَةَ، قَالَ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ»، ثُمَّ سَمَّى: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعَمْرِو بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالوَلِيدِ بْنِ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ وَعُمَارَةَ بْنِ الوَلِيدِ» قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَوَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى القَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَأُتْبِعَ أَصْحَابُ القَلِيبِ لَعْنَةً»

 

❁ ترجمہ :ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں ( قریب ہی ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ دوڑتی ہوئی آئیں۔ حضور رضی اللہ عنہ اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا “ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ ” پھر نام لے کر کہا خدایا! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انھیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنویں والے خدا کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔

 

❁ تشریح : ابتدائے اسلام میں جو کچھ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتاؤ کیا۔ اسی میں سے ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خدا نے قبول کی اوروہ بدبخت سب کے سب بدرکی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اورہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے موقع پر اگرکوئی بھی عورت نمازی کے اوپر سے گندگی اٹھاکر دورکردے تواس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرقرائن سے کفار کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حرکات بد سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے لیے بددعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کا نام لے کر بددعا کی جاسکتی ہے کہ مومن کایہی آخری ہتھیارسے۔ وہ غلاظت لانے والا عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا۔ الحمدللہ کہ عاشورہ محرم 1388ھ میں اس مبارک کتاب کے پارہ دوم کے ترجمہ اورتحشیہ سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف فرماکر اسے قبول کرے اور میرے لیے، میرے والدین،اولاد، احباب کے لیے، جملہ معاونین کرام اورناظرین عظام کے لیے وسیلہ نجات بنائے۔ اوربقایا پاروں کو بھی اپنی غیبی امداد سے پورا کرائے۔ آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔ ( مترجم )


 

Table of Contents