Search
Sections
< All Topics
Print

09. Kitaab Ouqaat-e-Namaz kay bayan; [كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ]; Times of the Prayers

✦ كِتَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ ✦

کتاب: اوقات نماز کے بیان میں

 


بَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ وَفَضْلِهَا ❁ 

باب: نماز کے اوقات اور مسائل ❁ 


❁ 521 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ العَزِيزِ أَخَّرَ الصَّلاَةَ يَوْمًا فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ المُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ أَخَّرَ الصَّلاَةَ يَوْمًا وَهُوَ بِالعِرَاقِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ أَبُو مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: مَا هَذَا يَا مُغِيرَةُ أَلَيْسَ قَدْ [ص:111] عَلِمْتَ أَنَّ جِبْرِيلَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فَصَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: «بِهَذَا أُمِرْتُ»، فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ: اعْلَمْ مَا تُحَدِّثُ، أَوَأَنَّ جِبْرِيلَ هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلاَةِ؟ قَالَ عُرْوَةُ: كَذَلِكَ كَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ،

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ کو پڑھ کر سنایا ابن شہاب کی روایت سے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے ایک دن ( عصر کی ) نماز میں دیر کی، پس عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، اور انھوں نے بتایا کہ ( اسی طرح ) مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن ( عراق کے ملک میں ) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں ( حاکم ) تھے۔ پس ابومسعود انصاری ( عقبہ بن عمر ) ان کی خدمت میں گئے۔ اور فرمایا، مغیرہ رضی اللہ عنہ! آخر یہ کیا بات ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہا، معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات ( عمل کر کے ) بتلائے تھے۔ عروہ نے کہا، کہ ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پاکیزہ کتاب کے پارہ سوم کو کتاب مواقیت الصلوٰۃ سے شروع فرمایا، آگے باب مواقیت الصلوٰۃ الخ منعقد کیا، ان ہر دو میں فرق یہ کہ کتاب میں مطلق اوقات مذکور ہوں گے، خواہ فضیلت کے اوقات ہوں یا کراہیت کے اورباب میں وہ وقت مذکور ہورہے ہیں جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مواقیت کی تحقیق اورآیت کریمہ مذکورہ کی تفصیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مواقیت جمع میقات وہو مفعال من الوقۃ والمراد بہ الوقت الذی عینہ اللہ لاداءہذہ العبادۃ وہوالقدر المحدود للفعل من الزمان قال تعالیٰ ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتا ای مفروضاً فی اوقات معینۃ معلومۃ فاجمل ذکرالاوقات فی ہذہ الآیۃ و بینہا فی مواضع آخر من الکتاب من غیر ذکر تحدیداوائلہا واواخرہا وبین علی لسان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تحدیدہا ومقادیرہاالخ۔ مرعاۃجلد 1، ص: 383 ) یعنی لفظ مواقیت کا ماہ وقت ہے اوروہ مفعال کے وزن پر ہے اوراس سے مراد وقت ہے۔جسے اللہ نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے متعین فرمادیا اوروہ زمانہ کاایک محدود حصہ ہے۔ اللہ نے فرمایانماز کہ ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات کامجمل ذکر ہے، قرآن پاک کے دیگر مقامات پر کچھ تفصیلات بھی مذکورہیں، مگروقتوں کا اول وآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ہی سے بیان کرایاہے۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ طرفی النہار وزلفا من اللیل میں فجر اورمغرب اور عشاءکی نمازیں مذکور ہیں۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس میں ظہر وعصر کی طرف اشارہ ہے۔ الی غسق اللہ میں مغرب اورعشاءمذکورہیں وقرآن الفجر میں نماز فجر کا ذکر ہے۔ آیت کریمہ فسبحان اللہ حین تمسون میں مغرب اورعشاءمذکور ہیں وحین تصبحون میں صبح کا ذکر ہے۔ وعشیاء میں عصر اور حین تظہرون میں ظہر اورآیت شریفہ وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس میں فجر اور قبل غروبہا میں عصر ومن انآءاللیل آیت کریمہ وزلفا من اللیل کی طرح ہے۔ فسبحہ واطراف النہار میں ظہر کا ذکر ہے۔ الغرض نماز پنجگانہ کی یہ مختصر تفصیلات قرآن کریم میں ذکرہوئی ہیں، ان کے اوقات کی پوری تفصیل اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اورقول سے پیش کی ہیں،جن کے مطابق نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ آج کل کچھ بدبختوں نے احادیث نبوی کا انکار کرکے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیاہے، چونکہ وہ قرآن مجید کی تفسیر محض اپنی رائے ناقص سے کرتے ہیں اس لیے ان میں کچھ لوگ پنج وقت نمازوں کے قائل ہیں، کچھ تین نمازیں بتلاتے ہیں اورکچھ دونمازوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ادائیگی نماز کے لیے انھوں نے اپنے ناقص دماغوں سے جو صورتیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ احادیث نبوی کو چھوڑنے کایہی نتیجہ ہونا چاہئیے تھا، چنانچہ یہ لوگ اہل اسلام میں بدترین انسان کہے جاسکتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن مجید کی آڑمیں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلی ہوئی غداری پر کمرباندھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔ آیت مذکورہ باب کے تحت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرتلوار چل رہی ہو اورٹھہرنے کی مہلت نہ ہو توتب بھی نماز اپنے وقت پر پڑھ لینی چاہئیے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے وقت میں نماز میں تاخیر درست ہے۔ ان کی دلیل خندق کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازوں کو تاخیر سے ادا فرمایا، وہ حدیث یہ ہے عن جابربن عبداللہ ان عمر جاءیوم الخندق بعد ما غربت الشمس فجعل یسب کفارقریش وقال یارسول اللہ ماکدت اصلی العصر حتی کادت الشمس تغرب فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ماصلیتہا فتوضا وتوضانا فصلی العصر بعدما غربت الشمس ثم صلی بعدہا المغرب۔ ( متفق علیہ ) یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار قریش کو برابھلا کہتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میری عصر کی نماز رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں بھی نہیں پڑھ سکاہوں۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورہم نے وضوکیا اور پہلے عصرکی نماز پھرمغرب کی نماز ادا کی۔ معلوم ہوا کہ ایسی ضرورت کے وقت تاخیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں،جن کو مغرب کے وقت ترتیب کے ساتھ پڑھایاگیا۔ بعض علمائے احناف کا یہ کہنا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں عصر کی نماز دیر کرکے پڑھنے کا معمول غلط تھا روایت میں صاف موجود ہے کہ اخّر الصلوٰۃ یوما ایک دن اتفاق سے تاخیر ہوگئی تھی، حنفیہ کے جواب کے لیے یہی روایت کافی ہے۔ واللہ اعلم۔


بَابُ مَوَاقِيتِ الصَّلاَةِ وَفَضْلِهَا ❁ 
باب: نماز کے اوقات اور مسائل ❁

❁ 522 قَالَ عُرْوَةُ: وَلَقَدْ حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»
 

❁ ترجمہ :عروہ رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے.


❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ المُشْرِكِينَ} [الروم: 31]
❁ باب: آیت منیبین الیہ واتقول کی تفسیر

❁ 523 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ القَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّا مِنْ هَذَا الحَيِّ مِنْ رَبِيعَةَ وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الحَرَامِ، فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذْهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، فَقَالَ: آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الإِيمَانِ بِاللَّهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ: شَهَادَةُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا إِلَيَّ خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَى عَنْ: الدُّبَّاءِ وَالحَنْتَمِ وَالمُقَيَّرِ وَالنَّقِيرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد بصری نے، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں، ابوجمرہ ( نصر بن عمران ) کے ذریعہ سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، پہلے خدا پر ایمان لانے کا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا، تیسرے زکوٰۃ دینے کا، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں۔

 

❁ تشریح : وفدعبدالقیس پہلے 6 ھ میں پھر فتح مکہ کے سال حاضر خدمت نبوی ہواتھا۔ حرمت والے مہینے رجب، ذی القعدہ، ذی الحجہ اورمحرم ہیں۔ ان میں اہل عرب لڑائی موقوف کردیتے اورہر طرف امن و امان ہوجایا کرتا تھا۔اس لیے یہ وفد ان ہی مہینوں میں حاضر ہوسکتاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ارکان اسلام کی تعلیم فرمائی اورشراب سے روکنے کے لیے ان برتنوں سے بھی روک دیا جن میں اہل عرب شراب تیارکرتے تھے۔ حنتم ( سبز رنگ کی مرتبان جیسی گھڑیا جس پر روغن لگاہوا ہوتاتھا ) اورقسار ( ایک قسم کا تیل جو بصرہ سے لایا جاتا تھا، لگے ہوئے برتن ) اورنقیر ( کھجور کی جڑکھود کر برتن کی طرح بنایا جاتاتھا ) باب میں آیت کریمہ لانے سے مقصود یہ ہے کہ نماز ایمان میں داخل ہے اورتوحید کے بعد یہ دین کا اہم رکن ہے اس آیت سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جوبے نمازی کوکافر کہتے ہیں۔


❁ بَابُ البَيْعَةِ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز درست طریقے سے پڑھنے پر بیعت کرنا

❁ 524 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: «بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے قیس بن ابی حازم نے جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر نماز قائم کرنے، زکوٰۃ دینے، اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

 

❁ تشریح : جریراپنی قوم کے سردار تھے، ان کو عام خیرخواہی کی نصیحت کی، اور عبدالقیس کے لوگ سپاہ پیشہ اس لیے ان کو پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنے کی ہدایت فرمائی۔


❁ بَابٌ: الصَّلاَةُ كَفَّارَةٌ
❁ باب: گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے

❁ 525 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ الأَعْمَشِ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَقِيقٌ، قَالَ: سَمِعْتُ حُذَيْفَةَ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الفِتْنَةِ، قُلْتُ أَنَا كَمَا قَالَهُ: قَالَ: إِنَّكَ عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهَا لَجَرِيءٌ، قُلْتُ: «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ وَالصَّوْمُ وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ وَالنَّهْيُ»، قَالَ: لَيْسَ هَذَا أُرِيدُ، وَلَكِنِ الفِتْنَةُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَا يَمُوجُ البَحْرُ، قَالَ: لَيْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا بَأْسٌ يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: أَيُكْسَرُ أَمْ يُفْتَحُ؟ قَالَ: يُكْسَرُ، قَالَ: إِذًا لاَ يُغْلَقَ أَبَدًا، قُلْنَا: أَكَانَ عُمَرُ يَعْلَمُ البَابَ؟ قَالَ: نَعَمْ، كَمَا أَنَّ دُونَ الغَدِ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ بِحَدِيثٍ لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَ حُذَيْفَةَ، فَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: البَابُ عُمَرُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے اعمش کی روایت سے بیان کیا، اعمش ( سلیمان بن مہران ) نے کہا کہ مجھ سے شقیق بن مسلمہ نے بیان کیا، شقیق نے کہا کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا، میں نے اسے ( اسی طرح یاد رکھا ہے ) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے، کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا کہ انسان کے گھر والے، مال اولاد اور پڑوسی سب فتنہ ( کی چیز ) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا بڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یا امیرالمومنین! آپ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا ( صرف ) کھولا جائے گا۔ میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے، کہ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔ شقیق نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا، کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے تو انھوں نے کہا کہ ہاں! بالکل اسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔ میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا ( کہ دروازہ سے کیا مراد ہے ) اس لیے ہم نے مسروق سے کہا ( کہ وہ پوچھیں ) انھوں نے دریافت کیا تو آپ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔

 

❁ تشریح : یہاں جس فتنہ کا ذکر ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی سے شروع ہوگیاتھا۔ جس کا نتیجہ شیعہ سنی کی شکل میں آج تک موجودہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ بنددروازہ توڑدیا جائے گا۔ ایک مرتبہ فتنے شروع ہونے پر پھر بڑھتے ہی جائیں گے۔ چنانچہ امت کا افتراق محتاج تفصیل نہیں اور فقہی اختلافات نے توبالکل ہی بیڑا غرق کردیاہے۔ یہ سب کچھ تقلید جامد کے نتائج ہیں۔


❁ بَابٌ: الصَّلاَةُ كَفَّارَةٌ
❁ باب: گناہوں کے لیے نماز کفارہ ہے

❁ 526  حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {أَقِمِ الصَّلاَةَ [ص:112] طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ، إِنَّ الحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ} [هود: 114] فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِي هَذَا؟ قَالَ: «لِجَمِيعِ أُمَّتِي كُلِّهِمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، سلیمان تیمی کے واسطہ سے، انہوں نے ابوعثمان نہدی سے، انہوں نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کا بوسہ لے لیا۔ اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور آپ کو اس حرکت کی خبر دے دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، کہ نماز دن کے دونوں حصوں میں قائم کرو اور کچھ رات گئے بھی، اور بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ صرف میرے لیے ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میری تمام امت کے لیے یہی حکم ہے۔

 

❁ تشریح : باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ اس آیت میں برائیوں سے صغیرہ گناہ مراد ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے کہ ایک نماز دوسری نماز تک کفارہ ہے گناہوں کا جب تک آدمی کبیرہ گناہوں سے بچارہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ الصَّلاَةِ لِوَقْتِهَا
❁ باب: نماز وقت پر پڑھنے کی فضیلت

❁ 527 حَدَّثَنَا أَبُو الوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ المَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ الوَلِيدُ بْنُ العَيْزَارِ: أَخْبَرَنِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَاحِبُ – هَذِهِ الدَّارِ وَأَشَارَ إِلَى دَارِ – عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ العَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: «الصَّلاَةُ عَلَى وَقْتِهَا»، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «ثُمَّ بِرُّ الوَالِدَيْنِ» قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: «الجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ» قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا کہ مجھے ولید بن عیزار کوفی نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوعمر و شیبانی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میں نے اس گھر کے مالک سے سنا، ( آپ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کر رہے تھے ) انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے وقت پر نماز پڑھنا، پھر پوچھا، اس کے بعد، فرمایا والدین کے ساتھ نیک معاملہ رکھنا۔ پوچھا اس کے بعد، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ تفصیل بتائی اور اگر میں اور سوالات کرتا تو آپ اور زیادہ بھی بتلاتے۔ ( لیکن میں نے بطور ادب خاموشی اختیار کی۔

 

❁ تشریح : دوسری حدیثوں میں جواور کاموں کو افضل بتایا ہے وہ اس کے خلاف نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شخص کی حالت اوروقت کا تقاضا دیکھ کر اس کے لیے جو کام افضل نظر آتاوہ بیان فرماتے، جہاد کے وقت جہاد کو افضل بتلاتے اور قحط و گرانی میں لوگوں کو کھانا کھلانا وغیرہ وغیرہ مگر نماز کا عمل ایسا ہے کہ یہ ہرحال میں اللہ کو بہت ہی محبوب ہے جب کہ اسے آداب مقررہ کے ساتھ ادا کیاجائے اور نماز کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک بہترین عمل ہے۔


❁ بَابٌ: الصَّلَوَاتُ الخَمْسُ كَفَّارَةٌ
❁ باب: پانچوں وقت کی نمازیں گناہوں کا کفارہ

❁ 528 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا، مَا تَقُولُ: ذَلِكَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ قَالُوا: لاَ يُبْقِي مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا، قَالَ: «فَذَلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الخَمْسِ، يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الخَطَايَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز بن محمد در اوردی نے یزید بن عبداللہ کی روایت سے، انھوں نے محمد بن ابراہیم تیمی سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ پانچ دفعہ نہائے تو تمہارا کیا گمان ہے۔ کیا اس کے بدن پر کچھ بھی میل باقی رہ سکتا ہے؟ صحابہ نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! ہرگز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی حال پانچوں وقت کی نمازوں کا ہے کہ اللہ پاک ان کے ذریعہ سے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔


❁ بَابُ تَضْيِيعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا
باب: نماز کو بے وقت پڑھنا نماز کو ضائع

❁ 529 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، عَنْ غَيْلاَنَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: الصَّلاَةُ؟ قَالَ: أَلَيْسَ ضَيَّعْتُمْ مَا ضَيَّعْتُمْ فِيهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے غیلان بن جریر کے واسطہ سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی بات اس زمانہ میں نہیں پاتا۔ لوگوں نے کہا، نماز تو ہے۔ فرمایا اس کے اندر بھی تم نے کر رکھا ہے جو کر رکھا ہے۔


❁ بَابُ تَضْيِيعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا
❁ باب: نماز کو بے وقت پڑھنا نماز کو ضائع

❁ 530 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ أَبُو عُبَيْدَةَ الحَدَّادُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، أَخِي عَبْدِ العَزِيزِ بْنِ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي، فَقُلْتُ: مَا يُبْكِيكَ؟ فَقَالَ: «لاَ أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلاَةَ وَهَذِهِ الصَّلاَةُ قَدْ ضُيِّعَتْ» وَقَالَ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ البُرْسَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالواحد بن واصل ابوعبیدہ حداد نے خبر دی، انھوں نے عبدالعزیز کے بھائی عثمان بن ابی رواد کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا کہ میں دمشق میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا۔ آپ اس وقت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے۔ اور بکر بن خلف نے کہا کہ ہم سے محمد بن بکر برسانی نے بیان کیا کہ ہم سے عثمان بن ابی رواد نے یہی حدیث بیان کی۔

 


تشریح : اس روایت سے ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کو نمازوں کا کس قدر اہتمام مدنظر تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے تاخیر سے نماز پڑھنے کو نماز کا ضائع کرنا قرار دیا۔ امام زہری نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث دمشق میں سنی تھی۔ جب کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ حجاج کی امارت کے زمانہ میں دمشق کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے حجاج کی شکایت کرنے آئے تھے کہ وہ نماز بہت دیر کرکے پڑھاتے ہیں۔ ایسے ہی وقت میں ہدایت کی گئی ہے کہ تم اپنی نمازوقت پر ادا کرلو اوربعد میں جماعت سے بھی پڑھ لو تاکہ فتنہ کا وقوع نہ ہو۔ یہ نفل نماز ہوجائے گی۔ مولاناوحیدالزماں صاحب حیدرآبادی نے کیا خوب فرمایاکہ اللہ اکبر جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حال تھا تووائے برحال ہمارے زمانے کے اب تو توحیدسے لے کر شروع عبادات تک لوگوں نے نئی باتیں اورنئے اعتقاد تراش لیے ہیں جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شان گمان بھی نہ تھا۔ اور اگرکوئی اللہ کا بندہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام کے طریق کے موافق چلتا ہے اس پر طرح طرح کی تہمتیں رکھی جاتی ہیں، کوئی ان کو وہابی کہتاہے کوئی لامذہب کہتاہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔


❁ بَابٌ: المُصَلِّي يُنَاجِي رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
❁ باب: نماز پڑھنے والا اپنے رب سے محو کلام

❁ 531 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا صَلَّى يُنَاجِي رَبَّهُ، فَلاَ يَتْفِلَنَّ عَنْ يَمِينِهِ، وَلَكِنْ تَحْتَ قَدَمِهِ اليُسْرَى»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے قتادہ ابن دعامہ کے واسطے سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اس لیے اپنی داہنی جانب نہ تھوکنا چاہیے لیکن بائیں پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

 

❁ تشریح : یہ حکم خام مساجد کے لیے تھا جہاں تھوک جذب ہوجایا کرتا تھا اب ضروری ہے کہ بوقت ضرورت رومال میں تھوک لیاجائے۔


❁ بَابٌ: المُصَلِّي يُنَاجِي رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ
❁ باب: نماز پڑھنے والا اپنے رب سے محو کلام

❁ 532 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ [ص:113] صلّى الله عليه وسلم قَالَ: «اعْتَدِلُوا فِي السُّجُودِ، وَلاَ يَبْسُطْ ذِرَاعَيْهِ كَالكَلْبِ، وَإِذَا بَزَقَ فَلاَ يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلاَ عَنْ يَمِينِهِ، فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ السجود، ولا يبسط ذراعيه كالكلب، وإذا بزق فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، فإنه يناجي ربه‏”‏‏. وقال سعيد عن قتادة لا يتفل قدامه أو بين يديه، ولكن عن يساره أو تحت قدميه‏.‏ وقال شعبة لا يبزق بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏.‏ وقال حميد عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏”‏ لا يبزق في القبلة ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏”‏‏.‏ »

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سجدہ کرنے میں اعتدال رکھو ( سیدھی طرح پر کرو ) اور کوئی شخص تم میں سے اپنے بازوؤں کو کتے کی طرح نہ پھیلائے۔ جب کسی کو تھوکنا ہی ہو تو سامنے یا داہنی طرف نہ تھوکے، کیونکہ وہ نماز میں اپنے رب سے پوشیدہ باتیں کرتا رہتا ہے اور سعید نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے بیان کیا ہے کہ آگے یا سامنے نہ تھوکے البتہ بائیں طرف پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے اور شعبہ نے کہا کہ اپنے سامنے اور دائیں جانب نہ تھوکے، بلکہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ اور حمید نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ قبلہ کی طرف نہ تھوکے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔

 

تشریح : سجدہ میں اعتدال یہ ہے کہ ہاتھوں کوزمین پر رکھے، کہنیوں کو دونوں پہلو سے اور پیٹ کو زانوں سے جدا رکھے۔ حمید کی روایت کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ابواب المساجد میں نکالاہے۔ حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان تعلیقات کو اس واسطے سے ذکر کیا کہ قتادہ کے اصحاب کا اختلاف اس حدیث کی روایت میں معلوم ہوا اورشعبہ کی روایت سب سے زیادہ پوری ہے مگر اس میں سرگوشی کا ذکر نہیں ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 533 حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، حَدَّثَنَا الأَعْرَجُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَنَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 534 حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، حَدَّثَنَا الأَعْرَجُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَنَافِعٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ایوب بن سلیمان مدنی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر عبدالحمید بن ابی اویس نے سلیمان بن بلال کے واسطہ سے کہ صالح بن کیسان نے کہا کہ ہم سے اعرج عبدالرحمن وغیرہ نے حدیث بیان کی۔ وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے مولیٰ نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کی روایت کرتے تھے کہ ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو، کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہوتی ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 535 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ المُهَاجِرِ أَبِي الحَسَنِ، سَمِعَ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: أَذَّنَ مُؤَذِّنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ، فَقَالَ: «أَبْرِدْ أَبْرِدْ» أَوْ قَالَ: «انْتَظِرِ انْتَظِرْ» وَقَالَ: «شِدَّةُ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا عَنِ الصَّلاَةِ» حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے مہاجر ابوالحسن کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے زید بن وہب ہمدانی سے سنا۔ انھوں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مؤذن ( بلال ) نے ظہر کی اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا کر، ٹھنڈا کر، یا یہ فرمایا کہ انتظار کر، انتظار کر، اور فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی آگ کی بھاپ سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، پھر ظہر کی اذان اس وقت کہی گئی جب ہم نے ٹیلوں کے سائے دیکھ لیے۔

 

❁ تشریح : ٹھنڈا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ زوال کے بعد پڑھے نہ یہ کہ ایک مثل سایہ ہوجانے کے بعد، کیونکہ ایک مثل سایہ ہوجانے پرتوعصر کا اوّل وقت ہوجاتاہے۔ جمہورعلماءکا یہی قول ہے۔ زوال ہونے پر فوراً پڑھ لینا یہ تعجیل ہے، اورذرا دیر کرکے تاکہ موسم گرما میں کچھ خنکی آجائے پڑھنا یہ ابراد ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقداختار قوم من اہل العلم تاخیرصلوٰۃ الظہر فی شدۃ الحر وہوقول ابن المبارک واحمدواسحاق یعنی اہل علم کی ایک جماعت کا مذہب مختار یہی ہے کہ گرمی کی شدت میں ظہر کی نماز ذرا دیر سے پڑھی جائے۔ عبداللہ بن مبارک واحمد واسحاق کا یہی فتوی ہے۔ مگر اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ ظہر کو عصر کے اول وقت ایک مثل تک کے لیے مؤخر کردیا جائے، جب کہ بدلائل قویہ ثابت ہے کہ عصر کا وقت ایک مثل سایہ ہونے کے بعد شروع ہوجاتاہے۔ خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی مقام پر متعددروایات سے عصر کا اوّل وقت بیان فرمایاہے۔ جو ایک سایہ ہونے پر شروع ہوجاتاہے۔جو کہ مختار مذہب ہے اور دوسرے مقام پر اس کی تفصیل ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
 ❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 536 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ المَدِينِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا اس حدیث کو ہم نے زہری سے سن کر یاد کیا، وہ سعید بن مسیب کے واسطہ سے بیان کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب گرمی تیز ہو جائے تو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی تیزی دوزخ کی آگ کی بھاپ کی وجہ سے ہوتی ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 537 وَاشْتَكَتِ النَّارُ إِلَى رَبِّهَا، فَقَالَتْ: يَا رَبِّ أَكَلَ بَعْضِي بَعْضًا، فَأَذِنَ لَهَا بِنَفَسَيْنِ، نَفَسٍ فِي الشِّتَاءِ وَنَفَسٍ فِي الصَّيْفِ، فَهُوَ أَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الحَرِّ، وَأَشَدُّ مَا تَجِدُونَ مِنَ الزَّمْهَرِيرِ

 

❁ ترجمہ : دوزخ نے اپنے رب سے شکایت کی کہ اے میرے رب! ( آگ کی شدت کی وجہ سے ) میرے بعض حصہ نے بعض حصہ کو کھا لیا ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی، ایک سانس جاڑے میں اور ایک سانس گرمی میں۔ اب انتہائی سخت گرمی اور سخت سردی جو تم لوگ محسوس کرتے ہو وہ اسی سے پیدا ہوتی ہے۔

 

❁ تشریح : دوزخ نے حقیقت میں شکوہ کیا، وہ بات کرسکتی ہے جب کہ آیت شریفہ ویوم نقول لجہنم ( ق: 30 ) میں وارد ہے کہ ہم قیامت کے دن دوزخ سے پوچھیں گے کہ کیا تیرا پیٹ بھر گیا، وہ جواب دے گی کہ ابھی تک توبہت گنجائش باقی ہے۔ وقال عیاض انہ الاظہر واللہ قادر علی خلق الحیاۃ بجزءمنہا حتی تکلم اویخلق لہا کلا مایسمعہ من شاءمن خلقہ وقال القرطبی لا احالۃ فی حمل اللفظ علی حقیقتہ واذا اخبر الصادق بامرجائز لم یحتج الی تاویلہ فحملہ علی حقیقتہ اولیٰ۔ ( مرعاۃ المفاتیح،ج 1، ص: 392 ) یعنی عیاض نے کہا کہ یہی امر ظاہر ہے اللہ پاک قادر ہے کہ دوزخ کو کلام کرنے کی طاقت بخشے اوراپنی مخلوق میں سے جسے چاہے اس کی بات سنادے۔ قرطبی کہتے ہیں کہ اس امر کو حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اور جب صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک امرجائز کی خبردی ہے تو اس کی تاویل کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کو حقیقت ہی پر محمول کیا جانا مناسب ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: اختلف العلماءفی معناہ فقال بعضہم ہو علی ظاہرہ وقیل بل ہو علی وجہ التشبیہ والاستعارۃ وتقدیرہ ان شدۃ الحر تشبہ نارجہنم فاحذروہ واجتنبوا ضررہ قال والاول اظہر و قال النووی ہو الصواب لانہ ظاہر الحدیث ولامانع من حملہ علی حقیقتہ فوجب الحکم بانہ علی ظاہرہ انتہیٰ۔ ( نیل ) یعنی اس کے معنے میں بعض اہل علم اس کو اپنے ظاہر پر رکھتے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس حرارت کو دوزخ کی آگ سے تشبیہ دی گئی ہے اورکہا گیاہے کہ اس کے ضررسے بچو اور اوّل مطلب ہی ظاہر ہے۔ امام نووی کہتے ہیں کہ یہی صواب ہے، اس لیے کہ حدیث ظاہرہے اور اسے حقیقت پر محمول کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ دوزخ گرمی میں سانس نکالتی ہے، یعنی دوزخ کی بھاپ اوپر کو نکلتی ہے اور زمین کے رہنے والوں کو لگتی ہے، اس کو سخت گرمی معلوم ہوتی ہے اورجاڑے میں اندر کو سانس لیتی ہے تواوپر گرمی نہیں محسوس ہوتی، بلکہ زمین کی ذاتی سردی غالب آکر رہنے والوں کو سردی محسوس ہوتی ہے۔ اس میں کوئی بات عقل سلیم کے خلاف نہیں۔ اور حدیث میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ زمین کے اندر دوزخ موجود ہے۔ جیالوجی والے کہتے ہیں کہ تھوڑے فاصلہ پر زمین کے اندر ایسی گرمی ہے کہ وہاں کے تمام عنصرپانی کی طرح پگھلے رہتے ہیں۔ اگرلوہا وہاں پہنچ جائے تواسی دم گل کر پانی ہوجائے۔ سفیان ثوری کی روایت جوحدیث ہذا کے آخر میں درج ہے اسے خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب بدءالخلق میں اوریحییٰ کی روایت کو امام احمد رحمہ اللہ نے وصل کیاہے۔ لیکن ابوعوانہ کی روایت نہیں ملی۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي شِدَّةِ الحَرِّ
❁ باب: سخت گرمی میں ظہر کو ٹھنڈے وقت

❁ 538 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْرِدُوا بِالظُّهْرِ، فَإِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ» تَابَعَهُ سُفْيَانُ، وَيَحْيَى، وَأَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ گرمی کے موسم میں ) ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ اس حدیث کی متابعت سفیان ثوری، یحییٰ اور ابوعوانہ نے اعمش کے واسطہ سے کی ہے۔


❁ بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي السَّفَرِ
❁ باب: سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت پڑھنا

❁ 539 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُهَاجِرٌ أَبُو الحَسَنِ مَوْلَى لِبَنِي تَيْمِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الغِفَارِيِّ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ المُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَبْرِدْ» ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: «أَبْرِدْ» حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ شِدَّةَ الحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلاَةِ» وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «(تَتَفَيَّأُ) تَتَمَيَّلُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انھوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے ( تھوڑی دیر بعد ) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دے۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ ( تب اذان کہی گئی ) پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا یتفیئو ( کا لفظ جو سورہ نحل میں ہے ) کے معنے یتمیل ( جھکنا، مائل ہونا ) ہیں۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا آجائے جوقرآن میں بھی ہو توساتھ ہی قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں حدیث میں یتفیا کا لفظ ہے جو قرآن مجید میں یتفیؤا مذکور ہواہے، مادہ ہردو کا ایک ہی ہے، اس لیے اس کی تفسیر بھی نقل کردی ہے۔ پوری آیت سورۃ نحل میں ہے جس میں ذکر ہے کہ ہرچیز کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے بھی دائیں اورکبھی بائیں جھکتا رہتاہے۔


❁ بَابٌ: وَقْتُ الظُّهْرِ عِنْدَ الزَّوَالِ
❁ باب: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے پر ہے

❁ 540 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، فَقَامَ عَلَى المِنْبَرِ، فَذَكَرَ السَّاعَةَ، فَذَكَرَ أَنَّ فِيهَا أُمُورًا عِظَامًا، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَسْأَلَ عَنْ شَيْءٍ فَلْيَسْأَلْ، فَلاَ تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْءٍ إِلَّا أَخْبَرْتُكُمْ، مَا دُمْتُ فِي مَقَامِي هَذَا» فَأَكْثَرَ النَّاسُ [ص:114] فِي البُكَاءِ، وَأَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: «سَلُونِي»، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ السَّهْمِيُّ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: «أَبُوكَ حُذَافَةُ» ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: «سَلُونِي» فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، فَسَكَتَ، ثُمَّ قَالَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ الجَنَّةُ وَالنَّارُ آنِفًا فِي عُرْضِ هَذَا الحَائِطِ، فَلَمْ أَرَ كَالخَيْرِ وَالشَّرِّ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے زہری کی روایت سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جب سورج ڈھلا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجرہ سے باہر تشریف لائے اور ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر منبر پر تشریف لائے۔ اور قیامت کا ذکر فرمایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں بڑے عظیم امور پیش آئیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی کو کچھ پوچھنا ہو تو پوچھ لے۔ کیونکہ جب تک میں اس جگہ پر ہوں تم مجھ سے جو بھی پوچھو گے۔ میں اس کا جواب ضرور دوں گا۔ لوگ بہت زیادہ رونے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر فرماتے جاتے تھے کہ جو کچھ پوچھنا ہو پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ سہمی کھڑے ہوئے اور دریافت کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے باپ حذافہ تھے۔ آپ اب بھی برابر فرما رہے تھے کہ پوچھو کیا پوچھتے ہو۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ ادب سے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور انھوں نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے مالک ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نبی ہونے سے راضی اور خوش ہیں۔ ( پس اس گستاخی سے ہم باز آتے ہیں کہ آپ سے جا اور بے جا سوالات کریں ) اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ابھی ابھی میرے سامنے جنت اور جہنم اس دیوار کے کونے میں پیش کی گئی تھی۔ پس میں نے نہ ایسی کوئی عمدہ چیز دیکھی ( جیسی جنت تھی ) اور نہ کوئی ایسی بری چیز دیکھی ( جیسی دوزخ تھی

 

❁ تشریح : یہ حدیث مختصرکتاب العلم میں بھی گزر چکی ہے۔ لفظ خرج حین زاغت الشمس سے ترجمہ باب نکلتاہے کہ ظہر کی نماز کا وقت سورج ڈھلتے ہی شروع ہوجاتاہے۔ اس حدیث میں کچھ سوال وجواب کا بھی ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی تھی کہ منافق لوگ امتحان کے طور پر آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا اورفرمایا کہ جو تم چاہو مجھ سے پوچھو۔ عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کو لوگ کسی اورکا بیٹا کہتے تھے۔ لہٰذا انھوں نے تحقیق چاہی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے خوش ہوئے۔ لوگ آپ کی خفگی دیکھ کر خوف سے رونے لگے کہ اب خدا کا عذاب آئے گا یا جنت ودوزخ کا ذکر سن کر رونے لگے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے آپ کا غصہ معلوم کرکے وہ الفاظ کہے جن سے آپ کا غصہ جاتا رہا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم


❁ بَابٌ: وَقْتُ الظُّهْرِ عِنْدَ الزَّوَالِ
❁ باب: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے پر ہے

❁ 541 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو المِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الصُّبْحَ وَأَحَدُنَا يَعْرِفُ جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ فِيهَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ، وَيُصَلِّي الظُّهْرَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، وَالعَصْرَ وَأَحَدُنَا يَذْهَبُ إِلَى أَقْصَى المَدِينَةِ، رَجَعَ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ – وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ – وَلاَ يُبَالِي بِتَأْخِيرِ العِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ: إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ وَقَالَ مُعَاذٌ: قَالَ شُعْبَةُ: لَقِيتُهُ مَرَّةً، فَقَالَ: «أَوْ ثُلُثِ اللَّيْلِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ابوالمنہال کی روایت سے، انھوں نے ابوبرزہ ( فضلہ بن عبید رضی اللہ عنہ ) سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب ہم اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص کو پہچان لیتے تھے۔ صبح کی نماز میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔ اور عصر کی نماز اس وقت کہ ہم مدینہ منورہ کی آخری حد تک ( نماز پڑھنے کے بعد ) جاتے لیکن سورج اب بھی تیز رہتا تھا۔ نماز مغرب کا حصرت انس رضی اللہ عنہ نے جو وقت بتایا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز کو تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے، پھر ابوالمنہال نے کہا کہ آدھی رات تک ( موخر کرنے میں ) کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور معاذ نے کہا کہ شعبہ نے فرمایا کہ پھر میں دوبارہ ابوالمنہال سے ملا تو انھوں نے فرمایا “ یا تہائی رات تک۔ ”


❁ بَابٌ: وَقْتُ الظُّهْرِ عِنْدَ الزَّوَالِ
❁ باب: ظہر کا وقت سورج ڈھلنے پر ہے

❁ 542 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي غَالِبٌ القَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ المُزَنِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالظَّهَائِرِ، فَسَجَدْنَا عَلَى ثِيَابِنَا اتِّقَاءَ الحَرِّ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ مزنی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ جب ہم ( گرمیوں میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر کی نماز دوپہر دن میں پڑھتے تھے تو گرمی سے بچنے کے لیے کپڑوں پر سجدہ کیا کرتے۔

 

تشریح : معلوم ہوا کہ شدت گرمی میں جب ایسی جگہ نماز پڑھنے کا اتفاق ہو کہ نہ کوئی سایہ ہو نہ فرش ہو تو کپڑے پر سجدہ کرلینا جائز ہے۔


❁ بَابُ تَأْخِيرِ الظُّهْرِ إِلَى العَصْرِ
❁ باب: کبھی نماز ظہر عصر تک موخر کی

❁ 543 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ ، فَقَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، قَالَ: عَسَى

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا عمرو بن دینار سے۔ انھوں نے جابر بن زید سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں رہ کر سات رکعات ( ایک ساتھ ) اور آٹھ رکعات ( ایک ساتھ ) پڑھیں۔ ظہر اور عصر ( کی آٹھ رکعات ) اور مغرب اور عشاء ( کی سات رکعات ) ایوب سختیانی نے جابر بن زید سے پوچھا شاید برسات کا موسم رہا ہو۔ جابر بن زید نے جواب دیا کہ غالباً ایسا ہی ہو گا۔

 

❁ تشریح : ترمذی نے سعیدبن جبیرعن ابن عباس سے اس حدیث پر یہ باب منعقد کیا ہے باب ماجاءفی الجمع بن الصلوٰتین یعنی دو نمازوں کے جمع کرنے کا بیان۔ اس روایت میں یہ وضاحت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اورمغرب اور عشاءکو جمع فرمایا، ایسے حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ کوئی خوف لاحق تھا نہ بارش تھی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی گئی توانھوں نے بتلایاکہ اراد ان لاتحرج امتہ تاکہ آپ کی امت مشقت میں نہ ڈالی جائے۔ حضرت مولاناعبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: قال الحافظ فی الفتح وقد ذہب جماعۃ من الائمۃ الی اخذ بظاہر ہذالحدیث فجوزوا الجمع فی الحضر مطلقالکن بشرط ان لایتخذ ذلک عادۃ وممن قال بہ ابن سیرین وربیعۃ واشہب وابن المنذر والقفال الکبیر وحکاہ الخطابی عن جماعۃ من اہل الحدیث انتہیٰ۔ وذہب الجمہور الی ان الجمع بغیرعذر لایجوز۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1،ص: 166 ) یعنی حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ ائمہ کی ایک جماعت نے اس حدیث کے ظاہرہی پر فتویٰ دیاہے۔ اور حضر میں بھی مطلقاً انھوں نے جائز کہاہے کہ دونمازوں کو جمع کرلیاجائے اس شرط کے ساتھ کہ اسے عادت نہ بنالیا جائے۔ ابن سیرین، ربیعہ، اشہب، ابن منذر، قفال کبیر کا یہی فتویٰ ہے۔ اورخطابی نے اہل حدیث کی ایک جماعت سے یہی مسلک نقل کیاہے۔ مگرجمہور کہتے ہیں کہ بغیرعذر جمع کرنا جائز نہیں ہے۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ اتنے اماموں کا اختلاف ہونے پر یہ نہیں کہا جاسکتاکہ جمع کرنا بالاجماع ناجائز ہے۔امام احمدبن حنبل اوراسحاق بن راہویہ نے مریض اورمسافر کے لیے ظہر اورعصر،اورمغرب اورعشاءمیں جمع کرنا مطلقاً جائز قراردیاہے۔ دلائل کی رو سے یہی مذہب قوی ہے۔


 ❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 544 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ المُنْذِرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي العَصْرَ، وَالشَّمْسُ لَمْ تَخْرُجْ مِنْ حُجْرَتِهَا» وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ: «مِنْ قَعْرِ حُجْرَتِهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض لیثی نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے کہ حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت پڑھتے تھے کہ ان کے حجرہ میں سے ابھی دھوپ باہر نہیں نکلتی تھی۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 545 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى العَصْرَ، وَالشَّمْسُ فِي حُجْرَتِهَا لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ مِنْ حُجْرَتِهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے ابن شہاب سے بیان کیا، انھوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی تو دھوپ ان کے حجرہ ہی میں تھی۔ سایہ وہاں نہیں پھیلا تھا۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 546 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يُصَلِّي صَلاَةَ العَصْرِ وَالشَّمْسُ طَالِعَةٌ فِي حُجْرَتِي لَمْ يَظْهَرِ الفَيْءُ بَعْدُ»، وَقَالَ مَالِكٌ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَشُعَيْبٌ، وَابْنُ أَبِي حَفْصَةَ: «وَالشَّمْسُ قَبْلَ أَنْ تَظْهَرَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن شہاب زہری سے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج ابھی میرے حجرے میں جھانکتا رہتا تھا۔ ابھی سایہ نہ پھیلا ہوتا تھا۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ امام مالک اور یحییٰ بن سعید، شعیب رحمہم اللہ اور ابن ابی حفصہ کے روایتوں میں ( زہری سے ) والشمس قبل ان تظہر کے الفاظ ہیں، ( جن کا مطلب یہ ہے کہ دھوپ ابھی اوپر نہ چڑھی ہوتی


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ

❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان


❁ 547 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ سَيَّارِ بْنِ سَلاَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي المَكْتُوبَةَ؟ فَقَالَ: «كَانَ يُصَلِّي الهَجِيرَ، الَّتِي تَدْعُونَهَا الأُولَى، حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى رَحْلِهِ فِي أَقْصَى المَدِينَةِ [ص:115]، وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ – وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ – وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ العِشَاءَ، الَّتِي تَدْعُونَهَا العَتَمَةَ، وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ حِينَ يَعْرِفُ الرَّجُلُ جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ بِالسِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں عوف نے خبر دی سیار بن سلامہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں اور میرے باپ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان سے میرے والد نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کن وقتوں میں پڑھتے تھے۔ انھوں نے فرمایا کہ دوپہر کی نماز جسے تم “ پہلی نماز ” کہتے ہو سورج ڈھلنے کے بعد پڑھتے تھے۔ اور جب عصر پڑھتے اس کے بعد کوئی شخص مدینہ کے انتہائی کنارہ پر اپنے گھر واپس جاتا تو سورج اب بھی تیز ہوتا تھا۔ سیار نے کہا کہ مغرب کے وقت کے متعلق آپ نے جو کچھ کہا تھا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔ اور عشاء کی نماز جسے تم “ عتمہ ” کہتے ہو اس میں دیر کو پسند فرماتے تھے اور اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے اور صبح کی نماز سے اس وقت فارغ ہو جاتے جب آدمی اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان سکتا اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : روایت مذکورمیں ظہر کی نماز کونماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے توانھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اوردوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہوجانے پر ہی ادا فرمایاکرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے والشمس مرتفعۃ حیۃ سے تعبیر کیا گیاہے کہ ابھی سورج کافی بلند اورخوب تیز ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ “عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔” کسی روایت میں یوں مذکور ہواہے کہ “نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کرجاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔” ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کرلی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے کہ حافظوا علی الصلوٰت والصلوٰۃ الوسطیٰ وقوموا للہ قنتین ( البقرۃ: 238 ) یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو ( جوعصر کی نماز ہے ) اوراللہ کے لیے فرمانبرداربندے بن کر ( باوفا غلاموںکی طرح مؤدب ) کھڑے ہوجایاکرو۔ ان ہی احادیث وآیات کی بناپر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہواہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ودیگراکابرعلمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اورمذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔ ولے تاویل شاں در حیرت انداخت خدا و جبرئیل و مصطفی را عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیاہے جو یہ ہے کہ: “ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔” ( تفہیم البخاری،پ 3،ص: 18 ) حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتاہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کرجاتاہے، جو قائل کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہرلحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیاہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرمارہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہوجائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیرمفید ہے۔ اوراس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہرہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک وشبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیساکہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خودہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہرسال جاتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ وہاں عصرکی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔ صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں: “حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔” حوالہ مذکور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اورپڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگریہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتاہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اورجوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اورخوب روشن رہا کرتاتھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کرکے رکھ دیا۔ مگرواقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہوجاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 548 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَخْرُجُ الإِنْسَانُ إِلَى بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَنَجِدُهُمْ يُصَلُّونَ العَصْرَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، وہ امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انھوں نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے روایت کیا، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ ہم عصر کی نماز پڑھ چکتے اور اس کے بعد کوئی بنی عمرو بن عوف ( قبا ) کی مسجد میں جاتا تو ان کو وہاں عصر کی نماز پڑھتے ہوئے پاتا۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 549 حَدَّثَنَا ابْنُ مُقَاتِلٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلٍ، يَقُولُ: صَلَّيْنَا مَعَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ الظُّهْرَ، ثُمَّ خَرَجْنَا حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فَوَجَدْنَاهُ يُصَلِّي العَصْرَ، فَقُلْتُ: يَا عَمِّ مَا هَذِهِ الصَّلاَةُ الَّتِي صَلَّيْتَ؟ قَالَ: «العَصْرُ، وَهَذِهِ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي كُنَّا نُصَلِّي مَعَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں ابوبکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ابوامامہ ( سعد بن سہل ) سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ہم نے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی۔ پھر ہم نکل کر حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ نماز پڑھ رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ اے مکرم چچا! یہ کون سی نماز آپ نے پڑھی ہے۔ فرمایا کہ عصر کی اور اسی وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہ نماز پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 550 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي العَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى العَوَالِي، فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ» وَبَعْضُ العَوَالِي مِنَ المَدِينَةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَمْيَالٍ أَوْ نَحْوِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا ( زہری نے کہا کہ ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔


❁ بَابُ وَقْتِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کے وقت کا بیان

❁ 551 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَذْهَبُ الذَّاهِبُ مِنَّا إِلَى قُبَاءٍ، فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا ہم عصر کی نماز پڑھتے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) اس کے بعد کوئی شخص قبا جاتا اور جب وہاں پہنچ جاتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔

 

❁ تشریح : عوالی دیہات کو کہا گیاہے جو مدینہ کے اطراف میں بلندی پرواقع تھے۔ ان میں بعض چار میل بعض چھ میل، بعض آٹھ آٹھ میل کے فاصلے پر تھے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز کا وقت ایک مثل سائے سے شروع ہوجاتاہے۔ دومثل سایہ ہوجانے کے بعد یہ ممکن نہیں کہ آدمی چارچھ میل دور جاسکے اوردھوپ ابھی تک خوب تیز باقی رہے۔ اس لیے عصر کے لیے اول وقت ایک مثل سے شروع ہوجاتاہے۔ جو حضرات ایک مثل کا انکار کرتے ہیں وہ اگربنظر انصاف ان جملہ احادیث پر غور کریں گے تو ضرور اپنے خیال کو غلطی تسلیم کرنے پر مجبورہوجائیں گے۔ مگر نظرانصاف درکار ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وہودلیل لمذہب مالک والشافعی واحمد والجمہور من العترۃ وغیرہم القائلین بان اول وقت العصر اذا صار ظل کل شیئی مثلہ وفیہ رد لمذہب ابی حنیفۃ فانہ قال ان اول وقت العصر لا یدخل حتی یصیر ظل الشئی مثلیہ۔ ( نیل ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ عصر کا اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ہوجاتاہے اورامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمد رحمۃ اللہ علیہ، شافعی رحمۃ اللہ علیہ اورجمہور عترت کا یہی مذہب ہے اوراس حدیث میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مذہب کی تردید ہے جو سایہ دو مثل سے قبل عصر کا وقت نہیں مانتے۔


❁ بَابُ إِثْمِ مَنْ فَاتَتْهُ العَصْرُ
❁ باب: نماز عصر کے چھوٹ جانے پر کتنا گناہ ہے؟

❁ 552 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الَّذِي تَفُوتُهُ صَلاَةُ العَصْرِ، كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: {يَتِرَكُمْ} [محمد: 35] «وَتَرْتُ الرَّجُلَ إِذَا قَتَلْتَ لَهُ قَتِيلًا أَوْ أَخَذْتَ لَهُ مَالًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے نافع کے ذریعہ سے خبر پہنچائی، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر چھوٹ گئی گویا اس کا گھر اور مال سب لٹ گیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سورہ محمد میں جو یترکم کا لفظ آیا ہے وہ وتر سے نکالا گیا ہے۔ وتر کہتے ہیں کسی شخص کا کوئی آدمی مار ڈالنا یا اس کا مال چھین لینا۔


❁ بَابُ مَنْ تَرَكَ العَصْرَ
❁ باب: نماز عصر چھوڑ دینے پر کتنا گناہ ہے؟

❁ 553 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ أَبِي المَلِيحِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِصَلاَةِ العَصْرِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، کہا ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ عبداللہ بن زید سے خبر دی۔ انھوں نے ابوالملیح سے، کہا ہم بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر جنگ میں تھے۔ ابر و بارش کا دن تھا۔ آپ نے فرمایا کہ عصر کی نماز جلدی پڑھ لو۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی، اس کا نیک عمل ضائع ہو گیا۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کی فضیلت کا بیان

❁ 554 حَدَّثَنَا الحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَيْلَةً – يَعْنِي البَدْرَ – فَقَالَ: «إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ، كَمَا تَرَوْنَ هَذَا القَمَرَ، لاَ تُضَامُّونَ فِي رُؤْيَتِهِ، فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا فَافْعَلُوا» ثُمَّ قَرَأَ: {وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الغُرُوبِ} [ق: 39]، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: «افْعَلُوا لاَ تَفُوتَنَّكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے مروان بن معاویہ نے، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے قیس بن ابی حازم سے۔ انھوں نے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند پر ایک نظر ڈالی پھر فرمایا کہ تم اپنے رب کو ( آخرت میں ) اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو اب دیکھ رہے ہو۔ اس کے دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہو گی، پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز ( فجر ) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز ( عصر ) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ “ پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔ ” اسماعیل ( راوی حدیث ) نے کہا کہ ( عصر اور فجر کی نمازیں ) تم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ ان کا ہمیشہ خاص طور پر دھیان رکھو۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ العَصْرِ
❁ باب: نماز عصر کی فضیلت کا بیان

❁ 555 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَتَعَاقَبُونَ [ص:116] فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ: كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابوالزناد عبداللہ بن ذکوان سے، انھوں نے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں ( ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا ) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انھیں چھوڑا تو وہ ( فجر کی ) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ ( عصر کی ) نماز پڑھ رہے تھے۔

 

❁ تشریح : فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہوگا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اورجن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربارمیں فرشتے ان کے بارے میں کیاکہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماًکاتبین ہی ہیں۔ جوآدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح وشام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دوفرشتے ہیں اور پروردگار جوسب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اورفساد کریں گے۔


❁ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ الغُرُوبِ
❁ باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے

❁ 556 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَدْرَكَ أَحَدُكُمْ سَجْدَةً مِنْ صَلاَةِ العَصْرِ، قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَلْيُتِمَّ صَلاَتَهُ، وَإِذَا أَدْرَكَ سَجْدَةً مِنْ صَلاَةِ الصُّبْحِ، قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَلْيُتِمَّ صَلاَتَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے ( اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا ) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے۔

 

❁ تشریح : اس حدیث کے ذیل حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں: اس پر تمام ائمہ اورعلماءکا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کولیاہے اورآدھی کو چھوڑدیاہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصرکی نماز توصحیح ہوجائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہوگی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اورخود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑدینے کے لائق ہے۔ ” بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے: من ادرک رکعۃ من الصبح فلیصل الیہا اخری جو فجر کی ایک رکعت پالے اورسورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملالے اس کی نماز فجر صحیح ہوگی۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویوخذ من ہذا الرد علی الطحاوی حیث خص الادراک باحتلام الصبی وطہرالحائض واسلام الکافر ونحوہا وارادبذلک نصرۃ مذہبہ فی ان من ادرک من الصبح رکعۃ تفسد صلوٰتہ لانہ لایکملہا الافی وقت الکراہۃ انتہی۔ والحدیث یدل علی ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃالصبح قبل طلوع الشمس فقد ادرک صلوٰۃ الصبح ولاتبطل بطلوعہا کما ان من ادرک رکعۃ من صلوٰۃ العصر قبل غروب الشمس فقدادرک صلوٰۃ العصر ولاتبطل بغروبہا وبہ قال مالک والشافعی واحمد واسحاق و ہوالحق۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج1، ص:398 ) اس حدیث مذکور سے امام طحاوی کا رد ہوتاہے جنھوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیاہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کوفجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی توگویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہوگیا، تواس کی نماز باطل ہوگئی اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کررہاہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پالی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اوروہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہوگی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پالی تواس نے عصرکی نماز پالی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہوگی۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، مالک رحمۃ اللہ علیہ، احمدواسحاق رحمۃ اللہ علیہما سب کا یہی مذہب ہے اوریہی حق ہے۔


❁ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ الغُرُوبِ
❁ باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے

❁ 557 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الأُوَيْسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ العَصْرِ إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، أُوتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ، فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِيَ أَهْلُ الإِنْجِيلِ الإِنْجِيلَ، فَعَمِلُوا إِلَى صَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوا، فَأُعْطُوا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، ثُمَّ أُوتِينَا القُرْآنَ، فَعَمِلْنَا إِلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِينَا قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، فَقَالَ: أَهْلُ الكِتَابَيْنِ: أَيْ رَبَّنَا، أَعْطَيْتَ هَؤُلاَءِ قِيرَاطَيْنِ قِيرَاطَيْنِ، وَأَعْطَيْتَنَا قِيرَاطًا قِيرَاطًا، وَنَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلًا؟ قَالَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوا: لاَ، قَالَ: فَهُوَ فَضْلِي أُوتِيهِ مَنْ أَشَاءُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے، انہون نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ تم سے پہلے کی امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی صرف اتنی ہے جتنا عصر سے سورج ڈوبنے تک کا وقت ہوتا ہے۔ توراۃ والوں کو توراۃ دی گئی۔ تو انھوں نے اس پر ( صبح سے ) عمل کیا۔ آدھے دن تک پھر وہ عاجز آ گئے، کام پورا نہ کر سکے، ان لوگوں کو ان کے عمل کا بدلہ ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر انجیل والوں کو انجیل دی گئی، انھوں نے ( آدھے دن سے ) عصر تک اس پر عمل کیا، اور وہ بھی عاجز آ گئے۔ ان کو بھی ایک ایک قیراط ان کے عمل کا بدلہ دیا گیا۔ پھر ( عصر کے وقت ) ہم کو قرآن ملا۔ ہم نے اس پر سورج کے غروب ہونے تک عمل کیا ( اور کام پورا کر دیا ) ہمیں دو دو قیراط ثواب ملا۔ اس پر ان دونوں کتاب والوں نے کہا۔ اے ہمارے پروردگار! انھیں تو آپ نے دو دو قیراط دئیے اور ہمیں صرف ایک ایک قیراط۔ حالانکہ عمل ہم نے ان سے زیادہ کیا۔ اللہ عزوجل نے فرمایا، تو کیا میں نے اجر دینے میں تم پر کچھ ظلم کیا۔ انھوں نے عرض کی کہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر یہ ( زیادہ اجر دینا ) میرا فضل ہے جسے میں چاہوں دے سکتا ہوں۔

 

تشریح :اس حدیث سے حنفیہ نے دلیل لی ہے کہ عصر کا وقت دومثل سائے سے شروع ہوتاہے ورنہ جو وقت ظہر سے عصر تک ہے وہ اس وقت سے زیادہ نہیں ٹھہرے گا جو عصر سے غروب آفتاب تک ہے، حالانکہ مخالف کہہ سکتاہے کہ حدیث میں عصرکی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت اس وقت سے کم رکھا گیاہے جو دوپہردن سے عصر کی نماز تک ہے۔ اور اگرایک مثل سایہ پر عصر کی نماز ادا کی جائے جب بھی نماز سے فارغ ہونے کے بعد سے غروب تک جو وقت ہوگا وہ دوپہر سے تابفراغت از نماز عصر کم ہوگا، کیونکہ نماز کے لیے اذان ہوگی، لوگ جمع ہوں گے، وضو کریں گے، سنتیں پڑھیں گے، اس کے علاوہ حدیث کا یہ مطلب ہوسکتاہے کہ مسلمانوں کا وقت یہود ونصاریٰ کے مجموعی وقت سے کم تھا۔ اور اس میں کوئی شک نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں لائے اس کی مناسبت بیان کرنا مشکل ہے، حافظ نے کہا اس سے اور اس کے بعد والی حدیث سے یہ نکلتاہے کہ کبھی عمل کے ایک جزو پر پوری مزدوری ملتی ہے اسی طرح جو کوئی فجریاعصر کی ایک رکعت پالے، اس کو بھی اللہ ساری نماز کا وقت پر پڑھنے کا ثواب دے سکتاہے۔ ( اس حدیث میں مسلمانوں کا ذکر بھی ہواہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ) کام توکیا صرف عصر سے مغرب تک، لیکن سارے دن کی مزدوری ملی۔ و جہ یہ کہ انھوں نے شرط پوری کی، شام تک کام کیا، اورکام کو پورا کیا۔ اگلے دو گروہوں نے اپنا نقصان آپ کیا۔ کام کو ادھورا چھوڑکر بھاگ گئے۔ محنت مفت گئی۔ یہ مثالیں یہودونصاریٰ اورمسلمانوں کی ہیں۔ یہودیوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کومانا اور توراۃ پر چلے لیکن اس کے بعدانجیل مقدس اورقرآن شریف سے منحرف ہوگئے اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے نہ مانا۔ اورنصاریٰ نے انجیل اور حضرت عیسیٰ کو مانا لیکن قرآن شریف اورحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف ہوگئے توان دونوں فرقوں کی محنت برباد ہوگئی۔ آخرت میں جو اجرملنے والا تھا، اس سے محروم رہے۔ آخر زمانہ میں مسلمان آئے اورانھوں نے تھوڑی سی مدت کام کیا۔ مگر کام کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ کی سب کتابوں اورسب نیبوں کو مانا، لہٰذا سارا ثواب ان ہی کے حصہ میں آگیا۔ ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاءواللہ ذوالفضل العظیم ( از حضرت مولانا وحیدالزماں خاں صاحب محدث حیدرآبادی رحمۃ اللہ علیہ )


❁ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ الغُرُوبِ
❁ باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے

❁ 558 حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَثَلُ المُسْلِمِينَ وَاليَهُودِ وَالنَّصَارَى، كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَأْجَرَ قَوْمًا، يَعْمَلُونَ لَهُ عَمَلًا إِلَى اللَّيْلِ، فَعَمِلُوا إِلَى نِصْفِ النَّهَارِ فَقَالُوا: لاَ حَاجَةَ لَنَا إِلَى أَجْرِكَ، فَاسْتَأْجَرَ آخَرِينَ، فَقَالَ: أَكْمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ وَلَكُمُ الَّذِي شَرَطْتُ، فَعَمِلُوا حَتَّى إِذَا كَانَ حِينَ صَلاَةِ العَصْرِ، قَالُوا: لَكَ مَا عَمِلْنَا، فَاسْتَأْجَرَ قَوْمًا، فَعَمِلُوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ، وَاسْتَكْمَلُوا أَجْرَ الفَرِيقَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوکریب محمد بن علا نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوبردہ عامر بن عبداللہ سے، انھوں نے اپنے باپ ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ سے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کی مثال ایک ایسے شخص کی سی ہے کہ جس نے کچھ لوگوں سے مزدوری پر رات تک کام کرنے کے لیے کہا۔ انھوں نے آدھے دن کام کیا۔ پھر جواب دے دیا کہ ہمیں تمہاری اجرت کی ضرورت نہیں، ( یہ یہود تھے ) پھر اس شخص نے دوسرے مزدور بلائے اور ان سے کہا کہ دن کا جو حصہ باقی بچ گیا ہے ( یعنی آدھا دن ) اسی کو پورا کر دو۔ شرط کے مطابق مزدوری تمہیں ملے گی۔ انھوں نے بھی کام شروع کیا لیکن عصر تک وہ بھی جواب دے بیٹھے۔ ( یہ نصاریٰ تھے ) پس اس تیسرے گروہ نے ( جو اہل اسلام ہیں ) پہلے دو گروہوں کے کام کی پوری مزدوری لے لی۔

 

❁ تشریح : اس حدیث کو پچھلی حدیث کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے۔ جس میں ذکرہوا کہ یہودونصاریٰ نے تھوڑا کام کیا اور بعد میں باغی ہوگئے۔ پھر بھی ان کو ایک ایک قیراط کے برابر ثواب دیاگیا۔ اورامت محمدیہ نے وفادارانہ طور پر اسلام کوقبول کیا اورتھوڑے وقت کام کیا، پھر بھی ان کو دوگنا اجرملا، یہ اللہ کا فضل ہے، امت محمدیہ اپنی آمد کے لحاظ سے آخروقت میں آئی، اسی کو عصر تامغرب تعبیر کیا گیاہے۔


❁ بَابُ وَقْتِ المَغْرِبِ
❁ باب: مغرب کی نماز کے وقت کا بیان

❁ 559 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ صُهَيْبٌ مَوْلَى رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، يَقُولُ: «كُنَّا نُصَلِّي المَغْرِبَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَنْصَرِفُ أَحَدُنَا وَإِنَّهُ لَيُبْصِرُ مَوَاقِعَ نَبْلِهِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مہران نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید بن مسلمہ نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنجاشی نے بیان کیا، ان کا نام عطاء بن صہیب تھا اور یہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے رافع بن خدیج سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم مغرب کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر جب واپس ہوتے اور تیراندازی کرتے ( تو اتنا اجالا باقی رہتا تھا کہ ) ایک شخص اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھتا تھا۔

 

❁ تشریح : تشریح :حدیث سے ظاہر ہوا کہ مغرب کی نماز سورج ڈوبنے پر فوراً ادا کرلی جایا کرتی تھی۔ بعض احادیث میں یہ بھی آیاہے کہ مغرب کی جماعت سے پہلے صحابہ دورکعت سنت بھی پڑھا کرتے تھے، پھر فوراً جماعت کھڑی کی جاتی اور نماز سے فراغت کے بعد صحابہ کرام بعض دفعہ تیراندازی کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ اوراس وقت اتنا اجالا رہتاتھا کہ وہ اپنے تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ سکتے تھے۔ مسلمانوں میں مغرب کی نماز اول وقت پڑھنا توسنت متوارثہ ہے۔ مگرصحابہ کی دوسری سنت یعنی تیراندازی کو وہ اس طرح بھول گئے، گویا یہ کوئی کام ہی نہیں۔ حالانکہ تعلیمات اسلامی کی روسے سپاہیانہ فنون کی تعلیمات بھی مذہبی مقام رکھتی ہیں۔


 ❁ بَابُ وَقْتِ المَغْرِبِ
❁ باب: مغرب کی نماز کے وقت کا بیان

❁ 560 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قَدِمَ الحَجَّاجُ فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَةِ، وَالعَصْرَ وَالشَّمْسُ نَقِيَّةٌ، وَالمَغْرِبَ إِذَا [ص:117] وَجَبَتْ، وَالعِشَاءَ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا، إِذَا رَآهُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ، وَإِذَا رَآهُمْ أَبْطَؤُوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ كَانُوا – أَوْ كَانَ – النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے سعد بن ابراہیم سے، انھوں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی سے، انھوں نے کہا کہ حجاج کا زمانہ آیا ( اور وہ نماز دیر کر کے پڑھایا کرتا تھا اس لیے ) ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھایا کرتے تھے۔ ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تو نماز عصر پڑھاتے۔ نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے اور کبھی دیر سے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھا دیتے اور اگر لوگ جلدی جمع نہ ہوتے تو نماز میں دیر کرتے۔ ( اور لوگوں کا انتظار کرتے ) اور صبح کی نماز صحابہ رضی اللہ عنہم یا ( یہ کہا کہ ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ وَقْتِ المَغْرِبِ
❁ باب: مغرب کی نماز کے وقت کا بیان

❁ 561 حَدَّثَنَا المَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: «كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَغْرِبَ إِذَا تَوَارَتْ بِالحِجَابِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے، فرمایا کہ ہم نماز مغرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت پڑھتے تھے جب سورج پردے میں چھپ جاتا۔


❁ بَابُ وَقْتِ المَغْرِبِ
 ❁ باب: مغرب کی نماز کے وقت کا بیان

❁ 562 حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ زَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعًا جَمِيعًا وَثَمَانِيًا جَمِيعًا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا میں نے جابر بن زید سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات رکعات ( مغرب اور عشاء کی ) ایک ساتھ آٹھ رکعات ( ظہر اور عصر کی نمازیں ) ایک ساتھ پڑھیں۔


❁ بَابُ مَنْ كَرِهَ أَنْ يُقَالَ لِلْمَغْرِبِ: العِشَاءُ
 ❁ باب: جس نے مغرب کو عشاء کہنا مکروہ جانا

 ❁ 563 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، عَنِ الحُسَيْنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُغَفَّلٍ المُزَنِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ تَغْلِبَنَّكُمُ الأَعْرَابُ عَلَى اسْمِ صَلاَتِكُمُ المَغْرِبِ» قَالَ الأَعْرَابُ: وَتَقُولُ: هِيَ العِشَاءُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، جو عبداللہ بن عمرو ہیں، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے حسین بن ذکوان سے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے، کہا مجھ سے عبداللہ مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایسا نہ ہو کہ “ مغرب ” کی نماز کے نام کے لیے اعراب ( یعنی دیہاتی لوگوں ) کا محاورہ تمہاری زبانوں پر چڑھ جائے۔ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے کہا یا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بدوی مغرب کو عشاء کہتے تھے۔

 

تشریح : بدوی لوگ نماز مغرب کو عشاء اور نماز عشاء کو عتمہ سے موسوم کرتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ بدویوں کی اصطلاح غالب نہ ہونی چاہئیے۔ بلکہ ان کو مغرب اورعشاء ہی کے ناموں سے پکارا جائے۔ عتمہ وہ باقی دودھ جو اونٹنی کے تھن میں رہ جاتا اور تھوڑی رات گزرنے کے بعد اسے نکالتے۔ بعضوں نے کہا کہ عتمہ کے معنی رات کی تاریکی تک دیر کرنا چونکہ اس نماز عشاءکایہی وقت ہے۔ اس لیے اسے عتمہ کہا گیا۔ بعض مواقع پر نماز عشاء کو صلوٰۃ عتمہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اسے درجہ جواز دیا گیا۔ مگربہتر یہی کہ لفظ عشاءہی سے یاد کیا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت آپ نے اس خیال سے کی کہ عشاءکے معنی لغت میں تاریکی کے ہیں اوریہ شفق ڈوبنے کے بعد ہوتی ہے۔ پس اگر مغرب کا نام عشاء پڑجائے تواحتمال ہے کہ آئندہ لوگ مغرب کا وقت شفق ڈوبنے کے بعدسمجھنے لگیں۔


❁ بَابُ ذِكْرِ العِشَاءِ وَالعَتَمَةِ، وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا
❁ باب: عشاء اور عتمہ کا بیان

❁ 564 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَالِمٌ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً صَلاَةَ العِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ العَتَمَةَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: «أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا، لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ مجھے ( میرے باپ ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ “ عتمہ ” کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

 

❁ تشریح : یعنی سوبرس میں جتنے لوگ آج زندہ ہیں سب مرجائیں گے۔ اور نئی نسل ظہور میں آتی رہے گی۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ہیں۔ جن کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت خضرعلیہ السلام کی وفات پر بھی دلیل پکڑی ہے۔


❁ بَابُ وَقْتِ العِشَاءِ إِذَا اجْتَمَعَ النَّاسُ أَوْ تَأَخَّرُوا
❁ باب: نماز عشاء کا وقت جب لوگ جمع ہو جائیں

❁ 565 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو هُوَ ابْنُ الحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ صَلاَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالهَاجِرَةِ، وَالعَصْرَ وَالشَّمْسُ [ص:118] حَيَّةٌ، وَالمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ، وَالعِشَاءَ إِذَا كَثُرَ النَّاسُ عَجَّلَ، وَإِذَا قَلُّوا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ بِغَلَسٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ حجاج نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ محمد بن عمرو سے جو حسن بن علی بن ابی طالب کے بیٹے ہیں، فرمایا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ آپ نماز ظہر دوپہر میں پڑھتے تھے۔ اور جب نماز عصر پڑھتے تو سورج صاف روشن ہوتا۔ مغرب کی نماز واجب ہوتے ہی ادا فرماتے، اور “ عشاء ” میں اگر لوگ جلدی جمع ہو جاتے تو جلدی پڑھ لیتے اور اگر آنے والوں کی تعداد کم ہوتی تو دیر کرتے۔ اور صبح کی نماز منہ اندھیرے میں پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ باب اوران میں آمدہ احادیث سے ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ عشاءکی نمازاگرجلدی ادا کی جائے تواسے عشاءہی کہیں گے اور اگر دیر سے ادا کی جائے تواسے عتمہ کہیں گے، گویا ان لوگوں نے دونوں روایتوں میںتطبیق دی ہے۔ اور ان پر رد اس طرح ہوا کہ ان احادیث میں دونوں حالتوں میں اسے عشاء ہی کہا گیا۔


❁ بَابُ فَضْلِ العِشَاءِ

❁ باب: نماز عشاء کے لئے انتظار کرنے کی فضیلت


 ❁ 566 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالعِشَاءِ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الإِسْلاَمُ، فَلَمْ يَخْرُجْ حَتَّى قَالَ عُمَرُ: نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ، فَقَالَ لِأَهْلِ المَسْجِدِ: «مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرَكُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔

 

❁ تشریح : یعنی اس وقت تک مدینہ کے سوا اور کہیں مسلمان نہ تھے، یا یہ کہ ایسی شان والی نماز کے انتظار کا ثواب اللہ نے صرف امت محمدیہ ہی کی قسمت میں رکھا ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ العِشَاءِ
❁ باب: نماز عشاء کے لئے انتظار کرنے کی فضیلت

❁ 567 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِي الَّذِينَ قَدِمُوا مَعِي فِي السَّفِينَةِ نُزُولًا فِي بَقِيعِ بُطْحَانَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَكَانَ يَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلاَةِ العِشَاءِ كُلَّ لَيْلَةٍ نَفَرٌ مِنْهُمْ، فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِي، وَلَهُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، فَأَعْتَمَ بِالصَّلاَةِ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلاَتَهُ، قَالَ لِمَنْ حَضَرَهُ: «عَلَى رِسْلِكُمْ، أَبْشِرُوا، إِنَّ مِنْ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ، أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ يُصَلِّي هَذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ» أَوْ قَالَ: «مَا صَلَّى هَذِهِ السَّاعَةَ أَحَدٌ غَيْرُكُمْ» لاَ يَدْرِي أَيَّ الكَلِمَتَيْنِ قَالَ، قَالَ أَبُو مُوسَى فَرَجَعْنَا، فَفَرِحْنَا بِمَا سَمِعْنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطہ سے، انھوں نے ابربردہ سے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ ( حبشہ سے ) آئے تھے “ بقیع بطحان ” میں قیام کیا۔ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف رکھتے تھے۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام میں مشغول تھے۔ ( کسی ملی معاملہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گفتگو فرما رہے تھے ) جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی اور تقریباً آدھی رات گزر گئی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو اور ایک خوش خبری سنو۔ تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ تمہارے سوا اس وقت کسی ( امت ) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ یہ یقین نہیں کہ آپ نے ان دو جملوں میں سے کون سا جملہ کہا تھا۔ پھر راوی نے کہا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ پس ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے۔

 

❁ تشریح : حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد بقیع بطحان میں قیام فرمایا۔ بقیع ہر اس جگہ کو کہا جاتا تھا، جہاں مختلف قسم کے درخت وغیرہ ہوتے۔ بطحان نام کی وادی مدینہ کے قریب ہی تھی۔ امام سیوطی فرماتے ہیں کہ امم سابقہ میں عشاءکی نماز نہ تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ بشارت فرمائی جسے سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ مدینہ شریف کی دیگرمساجد میں لوگ نماز عشاءسے فارغ ہوچکے لیکن مسجدنبوی کے نمازی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے اس لیے ان کو یہ فضیلت حاصل ہوئی۔ بہرحال عشاءکی نماز کے لیے تاخیر مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگرمیری امت پر شاق نہ گزرتا تومیں عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے پر ہی پڑھا کرتا۔


❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النَّوْمِ قَبْلَ العِشَاءِ
❁ باب: نماز عشاء سے پہلے سونا کیسا ہے

❁ 568 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ الحَذَّاءُ، عَنْ أَبِي المِنْهَالِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ العِشَاءِ وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ابوالمنہال سے، انھوں نے ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند فرماتے تھے.

 

تشریح : جب خطرہ ہو کہ عشاء کے پہلے سونے سے نماز باجماعت چلی جائے گی تو سونا جائز نہیں۔ ہردو احادیث میں جو آگے آ رہی ہے، یہی تطبیق بہتر ہے۔


❁ بَابُ النَّوْمِ قَبْلَ العِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ
❁ باب: نیند کا غلبہ ہو تو عشاء سے پہلے بھی سونا

❁ 569 حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ هُوَ ابْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ هُوَ ابْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالعِشَاءِ حَتَّى نَادَاهُ عُمَرُ: الصَّلاَةَ نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ، فَقَالَ: «مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرُكُمْ»، قَالَ: وَلاَ يُصَلَّى يَوْمَئِذٍ إِلَّا بِالْمَدِينَةِ، وَكَانُوا يُصَلُّونَ فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَغِيبَ الشَّفَقُ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ الأَوَّلِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ایوب بن سلیمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبکر نے سلیمان سے، ان سے صالح بن کیسان نے بیان کیا کہ مجھے ابن شہاب نے عروہ سے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عشاء کی نماز میں دیر فرمائی۔ یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا، نماز! عورتیں اور بچے سب سو گئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ راوی نے کہا، اس وقت یہ نماز ( باجماعت ) مدینہ کے سوا اور کہیں نہیں پڑھی جاتی تھی۔ صحابہ اس نماز کو شام کی سرخی کے غائب ہونے کے بعد رات کے پہلے تہائی حصہ تک ( کسی وقت بھی ) پڑھتے تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امیرالدنیا فی الحدیث یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ عشاء سے پہلے سونا یا اس کے بعد بات چیت کرنا اس لیے ناپسندہے کہ پہلے سونے میں عشاءکی نماز کے فوت ہونے کا خطرہ ہے اور دیر تک بات چیت کرنے میں صبح کی نماز فوت ہونے کا خطرہ ہے۔ ہاں اگرکوئی شخص ان خطرات سے بچ سکے تو اس کے لیے عشاءسے پہلے سونا بھی جائز اوربعد میں بات چیت بھی جائز جیسا کہ روایات واردہ سے ظاہر ہے۔ اور حدیث میں یہ جو فرمایا کہ تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظارنہیں کرتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی امتوں میں کسی بھی امت پر اس نماز کو فرض نہیں کیاگیا، یہ نماز اہل اسلام ہی کے لیے مقرر کی گئی یا یہ مطلب ہے کہ مدینہ کی دوسری مساجد میں سب لوگ اوّل وقت ہی پڑھ کر سوگئے ہیں۔ صرف تم ہی لوگ ہو جو کہ ابھی تک اس کا انتظار کررہے ہو۔


❁ بَابُ النَّوْمِ قَبْلَ العِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ
❁ باب: نیند کا غلبہ ہو تو عشاء سے پہلے بھی سونا

❁ 570 حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ يَعْنِي ابْنَ غَيْلاَنَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً، فَأَخَّرَهَا حَتَّى رَقَدْنَا فِي المَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: «لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ يَنْتَظِرُ الصَّلاَةَ غَيْرُكُمْ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ: «لاَ يُبَالِي أَقَدَّمَهَا أَمْ أَخَّرَهَا، إِذَا كَانَ لاَ يَخْشَى أَنْ يَغْلِبَهُ النَّوْمُ عَنْ وَقْتِهَا، وَكَانَ يَرْقُدُ قَبْلَهَا»، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ [ص:119]:

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمود نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی، انھوں نے کہا مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات کسی کام میں مشغول ہو گئے اور بہت دیر کی۔ ہم ( نماز کے انتظار میں بیٹھے ہوئے ) مسجد ہی میں سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے، پھر ہم سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص بھی تمہارے سوا اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔ اگر نیند کا غلبہ نہ ہوتا تو ابن عمر رضی اللہ عنہما عشاء کو پہلے پڑھنے یا بعد میں پڑھنے کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ کبھی نماز عشاء سے پہلے آپ سو بھی لیتے تھے۔ ابن جریج نے کہا میں نے عطاء سے معلوم کیا۔


❁ بَابُ النَّوْمِ قَبْلَ العِشَاءِ لِمَنْ غُلِبَ
❁ باب: نیند کا غلبہ ہو تو عشاء سے پہلے بھی سونا

❁ 571 وَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً بِالعِشَاءِ، حَتَّى رَقَدَ النَّاسُ وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَقَالَ: الصَّلاَةَ – قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ -: فَخَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، فَقَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا هَكَذَا» فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَأْسِهِ يَدَهُ، كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ، ثُمَّ ضَمَّهَا يُمِرُّهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ، حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الأُذُنِ، مِمَّا يَلِي الوَجْهَ عَلَى الصُّدْغِ، وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ، لاَ يُقَصِّرُ وَلاَ يَبْطُشُ إِلَّا كَذَلِكَ، وَقَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوا هَكَذَا»

 

❁ ترجمہ : تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ ( مسجد ہی میں ) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے ‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اٹھے اور پکارا “ نماز ” عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔ میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی۔ اس پر حضرت عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انھیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انھیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا۔ نہ سستی کی اور نہ جلدی، بلکہ اس طرح کیا اور کہا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔

 

❁ تشریح : صحابہ کرام تاخیر کی وجہ سے نماز سے پہلے سو گئے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نماز عشاء سے پہلے بھی سونا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز عشاءباجماعت پڑھی جاسکے۔ جیساکہ یہاں صحابہ کرام کا عمل منقول ہے یہی باب کا مقصد ہے۔ لایقصر کا مطلب یہ کہ جیسے میں ہاتھ پھیر رہا ہوں اسی طرح پھیرا نہ اس سے جلدی پھیرا نہ اس سے دیر میں۔ بعض نسخوں میں لفظ لایعصر ہے تو ترجمہ یوں ہوگا۔ نہ بالوں کو نچوڑتے نہ ہاتھ میں پکڑتے بلکہ اسی طرح کرتے۔ یعنی انگلیوں سے بالوں کو دبا کر پانی نکال رہے تھے۔


 ❁ بَابُ وَقْتِ العِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ
❁ باب: نماز عشاء کا وقت آدھی رات تک ہے

❁ 572 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ المُحَارِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ العِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى، ثُمَّ قَالَ: «قَدْ صَلَّى النَّاسُ وَنَامُوا، أَمَا إِنَّكُمْ فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا»، وَزَادَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: «كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ لَيْلَتَئِذٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک دن ) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ ( یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان ) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ( گویا سارے وقت ) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔

 

❁ تشریح : ابن مریم کی اس تعلیق کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صراحتاً ثابت ہوجائے۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ
 ❁ باب: نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں

❁ 573 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا قَيْسٌ، قَالَ لِي جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ نَظَرَ إِلَى القَمَرِ لَيْلَةَ البَدْرِ، فَقَالَ: «أَمَا إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ هَذَا، لاَ تُضَامُّونَ – أَوْ لاَ تُضَاهُونَ – فِي رُؤْيَتِهِ فَإِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ لاَ تُغْلَبُوا عَلَى صَلاَةٍ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا، فَافْعَلُوا» ثُمَّ قَالَ: «وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا قال ابو عبد اللہ زاد بن شھاب عن اسماعیل عن قیس عن جریر قال النبی صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَسَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ عیانا »

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو ( اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی ) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے ( فجر اور عصر ) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ ( کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی “ پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ ” امام ابوعبداللہ بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر ( راوی ہیں ) یہ زیادتی نقل کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “ تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے۔

 

❁ تشریح : جامع صغیر میں امام سیوطی فرماتے ہیں کہ عصر اورفجر کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ دیدارِ الٰہی ان ہی وقتوں کے اندازے پر حاصل ہوگا۔


❁ بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر کی فضیلت کے بیان میں

❁ 574 حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى البَرْدَيْنِ دَخَلَ الجَنَّةَ»،

 

❁ ترجمہ : ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں ( وقت پر ) پڑھیں ( فجر اور عصر ) تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ ابن رجاء نے کہا کہ ہم سے ہمام نے ابوجمرہ سے بیان کیا کہ ابوبکر بن عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ نے انھیں اس حدیث کی خبر دی۔ ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم سے حبان نے، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوجمرہ نے بیان کیا ابوبکر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پہلی حدیث کی طرح۔

 

❁ تشریح : مقصد یہ ہے کہ ان ہردو نمازوں کا وقت پر پابندی کے ساتھ ادا کیا۔ چونکہ ان اوقات میں اکثر غفلت ہوسکتی ہے اس لیے اس خصوصیت سے ان کا ذکر کیا، عصر کا وقت کاروبار میں انتہائی مشغولیت اورفجر کا وقت میٹھی نیند سونے کا وقت ہے، مگر اللہ والے ان کی خاص طور پر پابندی کرتے ہیں۔ عبداللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا نام ہے۔ اس تعلیق سے حضرت امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ ابوبکربن ابی موسیٰ جو اگلی روایت میں مذکور ہیں وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری کے بیٹے ہیں۔ اس تعلیق کو ذہلی نے موصولاً روایت کیاہے۔


❁ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر کا وقت

❁ 575 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُمْ تَسَحَّرُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَامُوا إِلَى الصَّلاَةِ، قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: قَدْرُ خَمْسِينَ أَوْ سِتِّينَ ، يَعْنِي آيَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عاصم نے یہ حدیث بیان کی، کہا ہم سے ہمام نے یہ حدیث بیان کی قتادہ سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ ان لوگوں نے ( ایک مرتبہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ ان دونوں کے درمیان کس قدر فاصلہ رہا ہو گا۔ فرمایا کہ جتنا پچاس یا ساٹھ آیت پڑھنے میں صرف ہوتا ہے اتنا فاصلہ تھا۔

 

❁ تشریح : پچاس یا ساٹھ آیتیں دس منٹ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سحری دیر سے کھانا مسنون ہے۔ جو لوگ سویرے ہی سحری کھالیتے ہیں وہ سنت کے خلاف کرتے ہیں۔


❁ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر کا وقت

❁ 576 حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ [ص:120]، سَمِعَ رَوْحَ بْنَ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ: «تَسَحَّرَا فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ سَحُورِهِمَا، قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَصَلَّى»، قُلْنَا لِأَنَسٍ: كَمْ كَانَ بَيْنَ فَرَاغِهِمَا مِنْ سَحُورِهِمَا وَدُخُولِهِمَا فِي الصَّلاَةِ؟ قَالَ: «قَدْرُ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً»

 

❁ ترجمہ : ہم سے حسن بن صباح نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے روح بن عبادہ سے سنا، انھوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ سے روایت کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے سحری کھائی، پھر جب وہ سحری کھا کر فارغ ہوئے تو نماز کے لیے اٹھے اور نماز پڑھی۔ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کی سحری سے فراغت اور نماز کی ابتداء میں کتنا فاصلہ تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ اتنا کہ ایک شخص پچاس آیتیں پڑھ سکے۔


❁ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر کا وقت

❁ 577 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، يَقُولُ: «كُنْتُ أَتَسَحَّرُ فِي أَهْلِي، ثُمَّ يَكُونُ سُرْعَةٌ بِي، أَنْ أُدْرِكَ صَلاَةَ الفَجْرِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا اپنے بھائی عبدالحمید بن ابی اویس سے، انھوں نے سلیمان بن بلال سے، انھوں نے ابی حازم سلمہ بن دینار سے کہ انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ صحابی سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ میں اپنے گھر سحری کھاتا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پانے کے لیے مجھے جلدی کرنی پڑتی تھی۔


❁ بَابُ وَقْتِ الفَجْرِ
❁ باب: نماز فجر کا وقت

❁ 578 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: «كُنَّ نِسَاءُ المُؤْمِنَاتِ يَشْهَدْنَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ الفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثُمَّ يَنْقَلِبْنَ إِلَى بُيُوتِهِنَّ حِينَ يَقْضِينَ الصَّلاَةَ، لاَ يَعْرِفُهُنَّ أَحَدٌ مِنَ الغَلَسِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں لیث نے خبر دی، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ مسلمان عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز فجر پڑھنے چادروں میں لپٹ کر آتی تھیں۔ پھر نماز سے فارغ ہو کر جب اپنے گھروں کو واپس ہوتیں تو انھیں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شخص پہچان نہیں سکتا تھا۔

 

❁ تشریح : امام الدنیا فی الحدیث قدس سرہ نے جس قدر احادیث یہاں بیان کی ہیں، ان سے یہی ظاہر ہوتاہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجرکی نماز صبح صادق کے طلوع ہونے کے فوراً بعد شروع کر دیا کرتے تھے اور ابھی کافی اندھیرا رہ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہوجایا کرتی تھی۔ لفظ “ غلس ” کا یہی مطلب ہے کہ فجر کی نماز آپ اندھیرے ہی میں اوّل وقت ادا فرمایا کرتے تھے۔ ہاں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوقات صلوٰۃ کی تعلیم کے لیے فجر کی نماز دیر سے بھی ادا کی ہے تاکہ اس نماز کا بھی اوّل وقت “ غلس ” اور آخر وقت “ اسفار ” معلوم ہوجائے۔ اس کے بعد ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز اندھیرے ہی میں ادا فرمائی ہے۔ جیسا کہ حدیث ذیل سے ظاہر ہے۔ عن ابی مسعود الانصاری ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی صلوٰۃ الصبح مرۃ بغلس ثم صلی مرۃ اخری فاسفربہا ثم کانت صلوٰتہ بعدذالک التغلیس حتی مات ولم یعدالی ان یسفر رواہ ابوداؤد ورجالہ فی سنن ابی داؤد رجال الصحیح۔ یعنی ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ نماز فجر غلس ( اندھیرے ) میں پڑھائی اورپھر ایک مرتبہ اسفار ( یعنی اجالے ) میں اس کے بعد ہمیشہ آپ یہ نماز اندھیرے ہی میں پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اللہ سے جاملے۔ پھر کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو اسفار یعنی اجالے میں نہیں پڑھایا۔ حدیث “ عائشہ ” کے ذیل میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی استحباب المبادرۃ بصلوٰۃ الفجر فی اول الوقت وقد اختلف العلماءفی ذلک فذہب العترۃ ومالک والشافعی و احمد واسحاق وابوثور والاوزاعی وداؤد بن علی وابوجعفر الطبری وہوالمروی عن عمروبن عثمان وابن الزبیر وانس وابی موسیٰ وابی ہریرۃ الی ان التغلیس افضل وان الاسفار غیرمندوب وحکی ہذاالقول الحازمی عن بقیۃ الخلفاءالاربعۃ وابن مسعود وابی مسعود الانصاری واہل الحجاز واحتجوا بالاحادیث المذکورۃ فی ہذاالباب وغیرہا ولتصریح ابی مسعود فی الحدیث بانہا کانت صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم التغلیس حتیٰ مات ولم یعدالی الاسفار۔ ( نیل، ج2، ص:19 ) خلاصہ یہ کہ اس حدیث اور دیگر احادیث سے یہ روزروشن کی طرح ثابت ہے کہ فجر کی نماز “ غلس ” یعنی اندھیرے ہی میں افضل ہے۔ اورخلفائے اربعہ اوراکثر ائمہ دین امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق، واہل بیت نبوی اوردیگر مذکورہ علمائے اعلام کا یہی فتویٰ ہے۔ اور ابومسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ صراحتاً موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر وقت تک غلس ہی میں یہ نماز پڑھائی، چنانچہ مدینہ منورہ اور حرم محترم اورسارے حجاز میں الحمد للہ اہل اسلام کا یہی عمل آج تک موجود ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بیشتر صحابہ کا اس پر عمل رہا جیسا کہ ابن ماجہ میں ہے: عن مغیث بن سمی قال صلیت مع عبداللہ بن الزبیر الصبح بغلس فلما سلم اقبلت علی ابن عمر فقلت ماہذہ الصلوٰۃ قال ہذہ صلوٰتنا کانت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وعمر فلما طعن عمر اسفربہا عثمان و اسنادہ صحیح۔ ( تحفۃ الاحوذی، ج1، ص:144 ) یعنی مغیث بن سمی نامی ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ فجر کی نماز غلس میں یعنی اندھیر ے میں پڑھی، سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے۔ ان سے میں نے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہماری نماز اسی وقت ہوا کرتی تھی اورحضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں بھی یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جاتی رہی۔ مگرجب حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نماز فجر میں حملہ کیاگیاتو احتیاطاً حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے اجالے میں پڑھا۔ یہ کہ یہ اختلاف مذکورہ محض اوّلیت وافضلیت میں ہے۔ ورنہ اسے ہرشخص جانتا ہے کہ نماز فجر کا اول وقت غلس اورآخروقت طلوع شمس ہے اوردرمیان میں سارے وقت میں یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ اس تفصیل کے بعد تعجب ہے ان عوام وخواص برادران پر جو کبھی غلس میں نماز فجر نہیں پڑھتے۔ بلکہ کسی جگہ اگر غلس میں جماعت نظر آئے تو وہاں سے چلے جاتے ہیں، حتیٰ کہ حرمین شریفین میں بھی کتنے بھائی نماز فجر اوّل وقت جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے، اس خیال کی بناپر کہ یہ ان کا مسلک نہیں ہے۔ یہ عمل اورایسا ذہن بے حد غلط ہے۔ اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ خوداکابر علمائے احناف کے ہاں بعض دفعہ غلس کا عمل رہاہے۔ دیوبند میں نماز فجر غلس میں: صاحب تفہیم البخاری دیوبندی فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جن احادیث کا ذکر کیاہے، اس میں قابل غوربات یہ ہے کہ تین پہلی احادیث رمضان کے مہینے میں نماز فجر پڑھنے سے متعلق ہیں۔ کیونکہ ان تینو ںمیں ہے کہ ہم سحری کھانے کے بعد نماز پڑھتے تھے۔ اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان کی ضرورت کی وجہ سے سحری کے بعدفوراً پڑھ لی جاتی رہی ہو کہ سحری کے لیے جو لوگ اٹھے ہیں کہیں درمیان شب کی اس بیداری کے نتیجہ میں وہ غافل ہوکر سونہ جائیں۔ اورنماز ہی فوت ہوجائے۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں اکابر کے عہدسے اس پر عمل رہاہے کہ رمضان میں سحر کے فوراً بعد فجر کی نماز شروع ہوجاتی ہے۔ ( تفہیم بخاری، پ3، ص:34 ) محترم نے یہاں جس احتمال کا ذکر فرمایاہے اس کی تردید کے لیے حدیث ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کافی ہے جس میں صاف موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز فجر کے بارے میں ہمیشہ غلس میں پڑھنے کا عمل رہا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ اس میں رمضان وغیر رمضان کا کوئی امتیاز نہ تھا۔ بعض اہل علم نے حدیث اسفار کی یہ تاویل بھی کی ہے کہ گرمیوں میں راتیں چھوٹی ہوتی ہیں اس لیے اسفار کرلیا جائے تاکہ اکثر لوگ شریک جماعت ہوسکیں اورسردیوں میں راتیں طویل ہوتی ہیں اس لیے ان میں یہ نماز غلس ہی میں ادا کی جائے۔ بہرحال دلائل قویہ سے ثابت ہے کہ نماز فجر غلس میں افضل ہے اور اسفار میں جائز ہے۔ اس پر لڑنا، جھگڑنا اوراسے وجہ افتراق بنانا کسی طرح بھی درست نہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عالموں کو لکھا تھا کہ فجر کی نماز اس وقت پڑھا کرو جب تارے گہنے ہوئے آسمان پر صاف نظر آتے ہوں۔ یعنی اوّل وقت میں پڑھا کرو۔


❁ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الفَجْرِ رَكْعَةً
❁ باب: فجر کی ایک رکعت پانے والا

❁ 579 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، وَعَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، وَعَنِ الأَعْرَجِ يُحَدِّثُونَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصُّبْحِ رَكْعَةً قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصُّبْحَ، وَمَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ العَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَدْرَكَ العَصْرَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار اور بسر بن سعید اور عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، ان تینوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت ( جماعت کے ساتھ ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔

 

❁ تشریح : اب اسے چاہئیے کہ باقی نماز بلا تردد پوری کرلے۔ اس کو نماز وقت ہی میں ادا کرنے کا ثواب حاصل ہوگا۔


❁ بَابُ مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلاَةِ رَكْعَةً
❁ باب: جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پا لے

❁ 580 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الصَّلاَةِ، فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلاَةَ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز ( باجماعت ) پا لی اس نے نماز ( باجماعت کا ثواب ) پا لیا۔

 

❁ تشریح : اگلا باب فجر اور عصر کی نمازوں سے خاص تھا اور یہ باب ہر نماز کو شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نماز کی ایک رکعت بھی وقت گزرنے سے پہلے مل گئی گویا اسے ساری نماز مل گئی اب اس کی یہ نماز ادا ہی مانی جائے گی قضا نہ مانی جائے گی۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے پس وہ نمازی اپنی نماز پوری کرلے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگرکسی نماز کا وقت ایک رکعت پڑھنے تک کا باقی ہو اور اس وقت کوئی کافر مسلمان ہوجائے یا کوئی لڑکا بالغ ہوجائے یا کوئی دیوانہ ہوش میں آجائے یا حائضہ پاک ہوجائے تو اس نماز کا پڑھنا اس کے اوپر فرض ہوگا۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ

❁ 581 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدَ عِنْدِي رِجَالٌ مَرْضِيُّونَ وَأَرْضَاهُمْ عِنْدِي عُمَرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَشْرُقَ الشَّمْسُ وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَالِيَةِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنِي نَاسٌ بِهَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ بن دعامہ سے، انھوں نے ابوالعالیہ رفیع سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، فرمایا کہ میرے سامنے چند معتبر حضرات نے گواہی دی، جن میں سب سے زیادہ معتبر میرے نزدیک حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے، کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے شعبہ سے، انھوں نے قتادہ سے کہ میں نے ابوالعالیہ سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ مجھ سے چند لوگوں نے یہ حدیث بیان کی۔ ( جو اوپر ذکر ہوئی


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
❁ باب: صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنا

❁ 582 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَحَرَّوْا بِصَلاَتِكُمْ طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلاَ غُرُوبَهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھنے کے لیے سورج کے طلوع اور غروب ہونے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہو۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
❁ باب: صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنا

❁ 583 وَقَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلاَةَ حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَإِذَا غَابَ حَاجِبُ الشَّمْسِ فَأَخِّرُوا الصَّلاَةَ حَتَّى تَغِيبَ» تَابَعَهُ عَبْدَةُ

 

❁ ترجمہ : حضرت عروہ نے کہا مجھ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب سورج کا اوپر کا کنارہ طلوع ہونے لگے تو نماز نہ پڑھو یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے۔ اور جب سورج ڈوبنے لگے اس وقت بھی نماز نہ پڑھو، یہاں تک کہ غروب ہو جائے۔ اس حدیث کو یحییٰ بن سعید قطان کے ساتھ عبدہ بن سلیمان نے بھی روایت کیا ہے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ
❁ باب: صبح کی نماز کے بعد نماز پڑھنا

❁ 584 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي [ص:121] أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ، وَعَنْ لِبْسَتَيْنِ وَعَنْ صَلاَتَيْنِ: نَهَى عَنِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَعَنِ اشْتِمَالِ الصَّمَّاءِ، وَعَنْ الِاحْتِبَاءِ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، يُفْضِي بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ، وَعَنِ المُنَابَذَةِ، وَالمُلاَمَسَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے ابی اسامہ کے واسطے سے بیان کیا۔ انھوں نے عبیداللہ بن عمر سے، انھوں نے خبیب بن عبدالرحمن سے، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی خرید و فروخت اور دو طرح کے لباس اور دو وقتوں کی نمازوں سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد غروب ہونے تک نماز پڑھنے سے منع فرمایا ( اور کپڑوں میں ) اشتمال صماء یعنی ایک کپڑا اپنے اوپر اس طرح لپیٹ لینا کہ شرم گاہ کھل جائے۔ اور ( احتباء ) یعنی ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے منع فرمایا۔ ( اور خرید و فروخت میں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منابذہ اور ملامسہ سے منع فرمایا۔

 

❁ تشریح : دن اور رات میں کچھ وقت ایسے ہیں جن میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے۔ سورج نکلتے وقت اور ٹھیک دوپہر میں اور عصر کی نماز کے بعد غروب شمس تک اور فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک۔ ہاں اگر کوئی فرض نماز قضاء ہوگئی ہو اس کا پڑھ لینا جائز ہے۔ اور فجر کی سنتیں بھی اگر نماز سے پہلے نہ پڑھی جاسکی ہوں توان کو بھی بعد جماعت فرض پڑھا جاسکتاہے۔ جو لوگ جماعت ہوتے ہوئے فجر کی سنت پڑھتے رہتے ہیں وہ حدیث کے خلاف کرتے ہیں۔ دولباسوں سے مراد ایک اشتمال صماء ہے یعنی ایک کپڑے کا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لینا کہ ہاتھ وغیرہ کچھ باہر نہ نکل سکیں اور احتباءایک کپڑے میں گوٹ مارکر اس طرح بیٹھنا کہ پاؤں پیٹ سے الگ ہوں اورشرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ دو خرید وفروخت میں اوّل بیع منابذہ یہ ہے کہ مشتری یا بائع جب اپنا کپڑا اس پر پھینک دے تو وہ بیع لازم ہو جائے اور بیع ملامسہ یہ کہ مشتری کا یا مشتری بائع کا کپڑا چھولے تو بیع پوری ہو جائے۔ اسلام نے ان سب کو بند کر دیا۔


❁ بَابٌ: لاَ تُتَحَرَّى الصَّلاَةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج چھپنے سے پہلے قصداً نماز نہ پڑھے

❁ 585 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لاَ يَتَحَرَّى أَحَدُكُمْ، فَيُصَلِّي عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَلاَ عِنْدَ غُرُوبِهَا»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہ کہا ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی تم میں سے انتظار میں نہ بیٹھا رہے کہ سورج طلوع ہوتے ہی نماز کے لیے کھڑا ہو جائے۔ اسی طرح سورج کے ڈوبنے کے انتظار میں بھی نہ رہنا چاہیے۔


❁ بَابٌ: لاَ تُتَحَرَّى الصَّلاَةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج چھپنے سے پہلے قصداً نماز نہ پڑھے

❁ 586 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ الجُنْدَعِيُّ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ صَلاَةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَرْتَفِعَ الشَّمْسُ، وَلاَ صَلاَةَ بَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے صالح سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے کہا مجھ سے عطاء بن یزید جندعی لیثی نے بیان کیا کہ انھوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ فجر کی نماز کے بعد کوئی نماز سورج کے بلند ہونے تک نہ پڑھی جائے۔ اسی طرح عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔


❁ بَابٌ: لاَ تُتَحَرَّى الصَّلاَةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج چھپنے سے پہلے قصداً نماز نہ پڑھے

❁ 587 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ، قَالَ: سَمِعْتُ حُمْرَانَ بْنَ أَبَانَ، يُحَدِّثُ عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: «إِنَّكُمْ لَتُصَلُّونَ صَلاَةً لَقَدْ صَحِبْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْنَاهُ يُصَلِّيهَا، وَلَقَدْ نَهَى عَنْهُمَا»، يَعْنِي: الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی ابوالتیاح یزید بن حمید سے، کہا کہ میں نے حمران بن ابان سے سنا، وہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ انھوں نے فرمایا کہ تم لوگ تو ایک ایسی نماز پڑھتے ہو کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے لیکن ہم نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ بلکہ آپ نے تو اس سے منع فرمایا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی مراد عصر کے بعد دو رکعتوں سے تھی۔ ( جسے آپ کے زمانہ میں بعض لوگ پڑھتے تھے

 

❁ تشریح : اسماعیلی کی روایت میں ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو خطبہ سنایا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ شاید حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عصر کے بعد دوسنتوں کو منع کیا۔ لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ان کا پڑھنا ثابت ہوتاہے مگر آپ ان کو مسجد میں نہیں پڑھا کرتے تھے۔ اکثر علماءنے اسے خصوصیات نبوی میں شمار کیا ہے، جیسا وصال کا روزہ آپ رکھتے تھے اور امت کے لیے منع فرمایا۔ اسی طرح امت کے لیے عصر کے بعد نفل نمازوں کی اجازت نہیں ہے۔


❁ بَابٌ: لاَ تُتَحَرَّى الصَّلاَةُ قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ
❁ باب: سورج چھپنے سے پہلے قصداً نماز نہ پڑھے

❁ 588 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ خُبَيْبٍ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَتَيْنِ: بَعْدَ الفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَبَعْدَ العَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدہ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ سے خبر دی، انھوں نے خبیب سے، انھوں نے حفص بن عاصم سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔ نماز فجر کے بعد سورج نکلنے تک اور نماز عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَكْرَهِ الصَّلاَةَ إِلَّا بَعْدَ العَصْرِ وَالفَجْرِ
❁ باب: جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ جانا

❁ 589 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: أُصَلِّي كَمَا رَأَيْتُ أَصْحَابِي يُصَلُّونَ: لاَ أَنْهَى أَحَدًا يُصَلِّي بِلَيْلٍ وَلاَ نَهَارٍ مَا شَاءَ، غَيْرَ أَنْ لاَ تَحَرَّوْا طُلُوعَ الشَّمْسِ وَلاَ غُرُوبَهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سے کہا، انھوں نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا۔ میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں۔ کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔

 

❁ تشریح : عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔


❁ بَابٌ: مَا يُصَلَّى بَعْدَ العَصْرِ مِنَ الفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا
❁ باب: عصر کے بعد قضا نمازیں

❁ 590 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّهُ، سَمِعَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ، مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنِ الصَّلاَةِ، وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلاَتِهِ قَاعِدًا – تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ – «وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، وَلاَ يُصَلِّيهِمَا فِي المَسْجِدِ، مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ ایمن نے حدیث بیان کی کہ انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں ( صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح ) امت کو گراں باری ہو، انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا۔

 

❁ تشریح : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں داخل تھی۔


❁ بَابٌ: مَا يُصَلَّى بَعْدَ العَصْرِ مِنَ الفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا
❁ باب: عصر کے بعد قضا نمازیں

❁ 591 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي [ص:122] أَبِي، قَالَتْ عَائِشَةُ: ابْنَ أُخْتِي «مَا تَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السَّجْدَتَيْنِ بَعْدَ العَصْرِ عِنْدِي قَطُّ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی، کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میرے بھانجے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات میرے یہاں کبھی ترک نہیں کیں۔

 

❁ تشریح : یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لا کر ان کو پڑھ لیا کرتے تھے، اوریہ عمل آپ کے ساتھ خاص تھا۔


❁ بَابٌ: مَا يُصَلَّى بَعْدَ العَصْرِ مِنَ الفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا
❁ باب: عصر کے بعد قضا نمازیں

❁ 592 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَكْعَتَانِ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَعُهُمَا سِرًّا وَلاَ عَلاَنِيَةً: رَكْعَتَانِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ العَصْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمن بن اسود نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ دو رکعتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں فرمایا۔ پوشیدہ ہو یا عام لوگوں کے سامنے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعات اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعات۔


❁ بَابٌ: مَا يُصَلَّى بَعْدَ العَصْرِ مِنَ الفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا
❁ باب: عصر کے بعد قضا نمازیں

❁ 593 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: رَأَيْتُ الأَسْوَدَ، وَمَسْرُوقًا، شَهِدَا عَلَى عَائِشَةَ قَالَتْ: «مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي فِي يَوْمٍ بَعْدَ العَصْرِ، إِلَّا صَلَّى رَكْعَتَيْنِ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابو اسحاق سے بیان کیا، کہا کہ ہم نے اسود بن یزید اور مسروق بن اجدع کو دیکھا کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس کہنے پر گواہی دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی میرے گھر میں عصر کے بعد تشریف لائے تو دو رکعت ضرور پڑھتے۔

 

❁ تشریح : مگر امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا۔


❁ بَابُ التَّبْكِيرِ بِالصَّلاَةِ فِي يَوْمِ غَيْمٍ
❁ باب: ابر کے دنوں میں نماز کے لئے جلدی کرنا

❁ 594 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، أَنَّ أَبَا المَلِيحِ حَدَّثَهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِالصَّلاَةِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ تَرَكَ صَلاَةَ العَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، وہ قلابہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابوالملیح عامر بن اسامہ ہذلی نے ان سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم ابر کے دن ایک مرتبہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھ تھے، انھوں نے فرمایا کہ نماز سویرے پڑھا کرو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی اس کا عمل اکارت ہو گیا۔

 

تشریح : یعنی اس کے اعمال خیر کا ثواب مٹ گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کرکے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیاہے۔ جسے اسماعیلی نے نکالا ہے اورجس میں صاف یوں ہے کہ ابر کے دن نماز سویرے پڑھ لو۔ کیونکہ جس نے عصر کی نماز چھوڑی۔ اس کے سارے نیک اعمال برباد ہوگئے۔ حضرت امام کی عادت ہے کہ وہ باب ہی اس حدیث پر لاتے ہیں۔ جس سے آپ کا مقصد دوسرے طریق کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔ جس کو آپ نے بیان نہیں فرمایا۔


❁ بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ
❁ باب: وقت نکل جانے کے بعد نماز پڑھتے وقت اذان دینا

❁ 595 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سِرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَقَالَ: بَعْضُ القَوْمِ: لَوْ عَرَّسْتَ بِنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «أَخَافُ أَنْ تَنَامُوا عَنِ الصَّلاَةِ» قَالَ بِلاَلٌ: أَنَا أُوقِظُكُمْ، فَاضْطَجَعُوا، وَأَسْنَدَ بِلاَلٌ ظَهْرَهُ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ فَنَامَ، فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ طَلَعَ حَاجِبُ الشَّمْسِ، فَقَالَ: «يَا بِلاَلُ، أَيْنَ مَا قُلْتَ؟» قَالَ: مَا أُلْقِيَتْ عَلَيَّ نَوْمَةٌ مِثْلُهَا قَطُّ، قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ قَبَضَ أَرْوَاحَكُمْ حِينَ شَاءَ، وَرَدَّهَا عَلَيْكُمْ حِينَ شَاءَ، يَا بِلاَلُ، قُمْ فَأَذِّنْ بِالنَّاسِ بِالصَّلاَةِ» فَتَوَضَّأَ، فَلَمَّا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ وَابْيَاضَّتْ، قَامَ فَصَلَّى

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمران بن میسرہ نے روایت کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، کہا ہم ( خیبر سے لوٹ کر ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات میں سفر کر رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ۔ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگا دوں گا۔ چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوہ سے لگا لی۔ اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا۔ آپ نے فرمایا بلال! تو نے کیا کہا تھا۔ وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے۔ اے بلال! اٹھ اور اذان دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔

 

❁ تشریح : اس حدیث شریف سے قضاء نماز کے لیے اذان دینا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قدیم قول یہی ہے۔ اور یہی مذہب ہے امام احمد و ابوثور اور ابن منذر کا۔ اور اہل حدیث کے نزدیک جس نماز سے آدمی سو جائے یا بھول جائے پھر جاگے یا یاد آ ئے۔ اور اس کو پڑھ لے تو وہ ادا ہوگی نہ کہ قضائ۔ کیونکہ صحیح حدیث میں ہے کہ اس کا وقت وہی ہے جب آدمی جاگا یا اس کو یاد آئی۔ ( مولانا وحیدالزماں مرحوم


❁ بَابُ مَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ جَمَاعَةً بَعْدَ ذَهَابِ الوَقْتِ
❁ باب: قضا نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا

❁ 596 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، جَاءَ يَوْمَ الخَنْدَقِ، بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ، حَتَّى كَادَتِ الشَّمْسُ تَغْرُبُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا» فَقُمْنَا إِلَى بُطْحَانَ، فَتَوَضَّأَ لِلصَّلاَةِ وَتَوَضَّأْنَا لَهَا، فَصَلَّى العَصْرَ بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى بَعْدَهَا المَغْرِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے حدیث نقل کی، انھوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک مرتبہ ) سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور وہ کفار قریش کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ اور آپ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! سورج غروب ہو گیا، اور نماز عصر پڑھنا میرے لیے ممکن نہ ہو سکا۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں نے بھی نہیں پڑھی۔ پھر ہم وادی بطحان میں گئے اور آپ نے وہاں نماز کے لیے وضو کیا، ہم نے بھی وضو بنایا۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔

 

❁ تشریح : جنگ خندق یا جنگ احزاب 5ھ میں ہوئی۔ تفصیلی ذکر اپنی جگہ آئے گا۔ اس روایت میں گویہ صراحت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ لوگوں کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھتے۔ لہٰذا یہ نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ہی سے پڑھی ہوگی۔ اوراسماعیلی کی روایت میں صاف یوں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( قولہ ماکدت ) لفظہ کادمن افعال المقاربۃ فاذا قلت کادزید یقوم فہم منہ انہ قارب القیام ولم یقم کما تقرر فی النحو والحدیث یدل علی وجوب قضاءالصلوٰۃ المتروکۃ لعذر الاشتغال بالقتال وقد وقع الخلاف فی سبب ترک النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ لہذہ الصلوٰۃ فقیل ترکوہا نسیانا وقیل شغلوا فلم یتمکنوا وہو الاقرب کما قال الحافظ وفی سنن النسائی عن ابی سعید ان ذلک قبل ان ینزل اللہ فی صلوٰۃ الخوف فرجالاً اورکباناً وسیاتی الحدیث وقد استدل بہذا الحدیث علی وجوب الترتیب بین الفوائت المقضیۃ والموداۃ الخ۔ ( نیل الاوطار، ج2ص:31 ) یعنی لفظ کاد افعال مقاربہ سے ہے۔ جب تم کاد زید یقوم ( یعنی زید قریب ہوا کہ کھڑا ہو ) بولوگے تو اس سے سمجھا جائے گا کہ زید کھڑے ہونے کے قریب توہوا مگر کھڑا نہ ہوسکا جیساکہ نحو میں قاعدہ مقرر ہے۔ پس روایت میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بیان کا مقصد یہ کہ نماز عصر کے لیے انھوں نے آخر وقت تک کوشش کی مگر وہ ادا نہ کرسکے۔ حضرت مولانا وحیدالزماں مرحوم کے ترجمہ میں نفی کی جگہ اثبات ہے کہ آخر وقت میں انھوں نے عصر کی نماز پڑھ لی۔ مگر امام شوکانی کی وضاحت اورحدیث کا سیاق وسباق بتلارہاہے کہ نفی ہی کا ترجمہ درست ہے کہ وہ نماز عصر ادا نہ کرسکے تھے۔ اسی لیے وہ خود فرمارہے ہیں کہ فتوضا للصلوٰۃ وتوضانالہا کہ آپ نے بھی وضوکیا اورہم نے بھی اس کے لیے وضو کیا۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ جو نمازیں جنگ وجہاد کی مشغولیت یا اورکسی شرعی وجہ سے چھوٹ جائیں ان کی قضاءواجب ہے اوراس میں اختلاف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ نماز کیوں ترک ہوئیں۔ بعض بھول چوک کی وجہ بیان کرتے ہیں۔ اوربعض کا بیان ہے کہ جنگ کی تیزی اور مصروفیت کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اوریہی درست معلوم ہوتاہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاہے۔ اورنسائی میں حضرت سعیدرضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ یہ صلوٰۃ خوف کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے۔ جب کہ حکم تھا کہ حالت جنگ میں پیدل یا سوار جس طرح بھی ممکن ہو نمازادا کرلی جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فوت ہونے والی نمازوں کو ترتیب کے ساتھ ادا کرنا واجب ہے۔


❁ بَابُ مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَ، وَلاَ يُعِيدُ إِلَّا تِلْكَ الصَّلاَةَ
❁ باب: جو شخص کوئی نماز بھول جائے

❁ 597 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، وَمُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالاَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:123] قَالَ: مَنْ نَسِيَ صَلاَةً فَلْيُصَلِّ إِذَا ذَكَرَهَا، لاَ كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] ، قَالَ مُوسَى: قَالَ هَمَّامٌ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: بَعْدُ: «وَأَقِمِ الصَّلاَةَ للذِّكْرَى»، قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ حَبَّانُ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رحمہ اللہ علیہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی نماز پڑھنا بھول جائے تو جب بھی یاد آ جائے اس کو پڑھ لے۔ اس قضاء کے سوا اور کوئی کفارہ اس کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ اور ( اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ) نماز میرے یاد آنے پر قائم کر۔ موسیٰ نے کہا کہ ہم سے ہمام نے حدیث بیان کی کہ میں نے قتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ یوں پڑھتے تھے نماز پڑھ میری یاد کے لیے۔ حبان بن ہلال نے کہا، ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے، انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر ایسی ہی حدیث بیان کی۔

 

❁ تشریح : اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید ہے جو کہتے ہیں کہ قضاءشدہ نمازدوبارپڑھے، ایک بار جب یاد آئے اوردوسری بار دوسرے دن اس کے وقت پر پڑھے۔ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت شریفہ واقم الصلوٰۃ لذکری اس لیے تلاوت فرمائی کہ قضا نماز جب بھی یاد آجائے اس کا وہی وقت ہے۔ اسی وقت اسے پڑھ لیا جائے۔ شارحین لکھتے ہیں: فی الایۃ وجوہ من المعانی اقربہا مناسبۃ بذلک الحدیث ان یقال اقم الصلوٰۃ وقت ذکرہا فان ذکرالصلوٰۃ ہو ذکراللہ تعالیٰ اویقدر المضاف فیقال اقم الصلوٰۃ وقت ذکر صلوٰتی یعنی نماز یاد آنے کے وقت پر قائم کرو۔


❁ بَابُ قَضَاءِ الصَّلاَةِ، الأُولَى فَالأُولَى
❁ باب: اگر کئی نمازیں قضا ہو جائیں

❁ 598 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى القَطَّانُ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَعَلَ عُمَرُ يَوْمَ الخَنْدَقِ يَسُبُّ كُفَّارَهُمْ، وَقَالَ: مَا كِدْتُ أُصَلِّي العَصْرَ حَتَّى غَرَبَتْ، قَالَ: فَنَزَلْنَا بُطْحَانَ، فَصَلَّى بَعْدَ مَا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى المَغْرِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے حدیث بیان کی، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے جو ابی کثیر کے بیٹے ہیں حدیث بیان کی ابوسلمہ سے، انھوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے فرمایا کہ عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے موقع پر ( ایک دن ) کفار کو برا بھلا کہنے لگے۔ فرمایا کہ سورج غروب ہو گیا، لیکن میں ( لڑائی کی وجہ سے ) نماز عصر نہ پڑھ سکا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم وادی بطحان کی طرف گئے۔ اور ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ) غروب شمس کے بعد پڑھی اس کے بعد مغرب پڑھی۔

 

تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آپ نے پہلے عصر کی نماز ادا کی پھر مغرب کی۔ ثابت ہوا کہ فوت شدہ نمازوں میں ترتیب کا خیال ضروری ہے۔


 ❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ السَّمَرِ بَعْدَ العِشَاءِ
❁ باب: عشاء کے بعد دنیاوی باتیں کرنا مکروہ ہے

❁ 599 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو المِنْهَالِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي إِلَى أَبِي بَرْزَةَ الأَسْلَمِيِّ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: حَدِّثْنَا كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي المَكْتُوبَةَ؟ قَالَ: كَانَ يُصَلِّي الهَجِيرَ – وَهِيَ الَّتِي تَدْعُونَهَا الأُولَى – حِينَ تَدْحَضُ الشَّمْسُ، وَيُصَلِّي العَصْرَ، ثُمَّ يَرْجِعُ أَحَدُنَا إِلَى أَهْلِهِ فِي أَقْصَى المَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ – وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي المَغْرِبِ – قَالَ: وَكَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُؤَخِّرَ العِشَاءَ، قَالَ: وَكَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَهَا، وَالحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَكَانَ يَنْفَتِلُ مِنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ، حِينَ يَعْرِفُ أَحَدُنَا جَلِيسَهُ، وَيَقْرَأُ مِنَ السِّتِّينَ إِلَى المِائَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، کہا ہم سے عوف اعرابی نے، کہا کہ ہم سے ابوالمنہال سیار بن سلامہ نے، انھوں نے کہا کہ میں اپنے باپ سلامہ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان سے میرے والد صاحب نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نمازیں کس طرح ( یعنی کن کن اوقات میں ) پڑھتے تھے۔ ہم سے اس کے بارے میں بیان فرمائیے۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجیر ( ظہر ) جسے تم صلوٰۃ اولیٰ کہتے ہو سورج ڈھلتے ہی پڑھتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عصر پڑھنے کے بعد کوئی بھی شخص اپنے گھر واپس ہوتا اور وہ بھی مدینہ کے سب سے آخری کنارہ پر تو سورج ابھی صاف اور روشن ہوتا۔ مغرب کے بارے میں آپ نے جو کچھ بتایا مجھے یاد نہیں رہا۔ اور فرمایا کہ عشاء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تاخیر پسند فرماتے تھے۔ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات کرنے کو پسند نہیں کرتے تھے۔ صبح کو نماز سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوتے تو ہم اپنے قریب بیٹھے ہوئے دوسرے شخص کو پہچان لیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر میں ساٹھ سے سو تک آیتیں پڑھتے تھے۔


❁ بَابُ السَّمَرِ فِي الفِقْهِ وَالخَيْرِ بَعْدَ العِشَاءِ
❁ باب: عشاء کے بعد مسائل کی باتیں کرنا

❁ 600 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ الحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: انْتَظَرْنَا الحَسَنَ وَرَاثَ عَلَيْنَا حَتَّى قَرُبْنَا مِنْ وَقْتِ قِيَامِهِ، فَجَاءَ فَقَالَ: دَعَانَا جِيرَانُنَا هَؤُلاَءِ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: انْتَظَرْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ، حَتَّى كَانَ شَطْرُ اللَّيْلِ يَبْلُغُهُ، فَجَاءَ فَصَلَّى لَنَا، ثُمَّ خَطَبَنَا، فَقَالَ: «أَلاَ إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا ثُمَّ رَقَدُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلاَةٍ مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلاَةَ – قَالَ الحَسَنُ – وَإِنَّ القَوْمَ لاَ يَزَالُونَ بِخَيْرٍ مَا انْتَظَرُوا الخَيْرَ» قَالَ قُرَّةُ: هُوَ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعلی عبیداللہ حنفی نے، کہا ہم سے قرہ بن خالد سدوسی نے، انھوں نے کہا کہ ایک دن حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے بڑی دیر کی۔ اور ہم آپ کا انتظار کرتے رہے۔ جب ان کے اٹھنے کا وقت قریب ہو گیا تو آپ آئے اور ( بطور معذرت ) فرمایا کہ میرے ان پڑوسیوں نے مجھے بلا لیا تھا ( اس لیے دیر ہو گئی ) پھر بتلایا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ ہم ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے۔ تقریباً آدھی رات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، پھر ہمیں نماز پڑھائی۔ اس کے بعد خطبہ دیا۔ پس آپ نے فرمایا کہ دوسروں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے۔ لیکن تم لوگ جب تک نماز کے انتظار میں رہے ہو گویا نماز ہی کی حالت میں رہے ہو۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی خیر کے انتظار میں بیٹھے رہیں تو وہ بھی خیر کی حالت ہی میں ہیں۔ قرہ بن خالد نے کہا کہ حسن کا یہ قول بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ہے جو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

 

❁ تشریح : ترمذی نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی ایک حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں مسلمانوں کے معاملات کے بارے میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ اورمیں بھی اس میں شریک رہتا تھا۔ یعنی اگرچہ عام حالات میں عشاءکے بعد سوجاناچاہئیے۔ لیکن اگر کوئی کار خیر پیش آجائے یاعلمی ودینی کوئی کام کرنا ہو تو عشاءکے بعد جاگنے میں بشرطیکہ صبح کی نماز چھوٹنے کا خطرہ نہ ہو کوئی مضائقہ نہیں۔ امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ روزانہ رات میں تعلیم کے لیے مسجد میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آج آنے میں دیر کی اوراس وقت آئے جب یہ تعلیمی مجلس حسب معمول ختم ہوجانی چاہئیے تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس کے بعد لوگوں کو نصیحت کی اور فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ دیرمیں نمازپڑھائی اور یہ فرمایا۔ یہ حدیث دوسری سندوں کے ساتھ پہلے بھی گزر چکی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عشاء بعد دین اور بھلائی کی باتیں کرنا ممنوع نہیں ہے۔


❁ بَابُ السَّمَرِ فِي الفِقْهِ وَالخَيْرِ بَعْدَ العِشَاءِ
❁ باب: عشاء کے بعد مسائل کی باتیں کرنا

❁ 601 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَأَبُو بَكْرٍ ابْنُ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلاَةَ العِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ، لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ أَحَدٌ» فَوَهِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَى مَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الأَحَادِيثِ، عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:124]: «لاَ يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ اليَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ» يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّهَا تَخْرِمُ ذَلِكَ القَرْنَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور ابوبکر بن ابی حثمہ نے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اپنی زندگی کے آخری زمانے میں۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس رات کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟ آج اس روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں۔ سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لوگوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں غلطی کی اور مختلف باتیں کرنے لگے۔ ( ابومسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ سو برس بعد قیامت آئے گی ) حالانکہ آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ آج ( اس گفتگو کے وقت ) زمین پر بستے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آج سے ایک صدی بعد باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ سو برس میں یہ قرن گزر جائے گا۔

 

❁ تشریح : سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور ان کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے ٹھیک سوسال بعد۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث کو سن کر یہ سمجھ لیا تھا کہ سوسال بعد قیامت آجائے گی۔ حدیث نبوی کا منشاءیہ نہ تھا بلکہ صرف یہ تھا کہ سوبرس گزرنے پر ایک دوسری نسل وجود میں آگئی ہوگی۔ اورموجودہ نسل ختم ہوچکی ہوگی۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔


❁ بَابُ السَّمَرِ مَعَ الضَّيْفِ وَالأَهْلِ
❁ باب: عشاء کے بعد اپنی بیوی یا مہمان سے باتیں کرنا

❁ 602 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ، كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ» وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي – فَلاَ أَدْرِي قَالَ: وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ – بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ العِشَاءُ، ثُمَّ رَجَعَ، فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضَى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ – أَوْ قَالَتْ: ضَيْفِكَ – قَالَ: أَوَمَا عَشَّيْتِيهِمْ؟ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِيءَ، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ، فَقَالَ يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ، وَقَالَ: كُلُوا لاَ هَنِيئًا، فَقَالَ: وَاللَّهِ لاَ أَطْعَمُهُ أَبَدًا، وَايْمُ اللَّهِ، مَا كُنَّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا – قَالَ: يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا – وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا؟ قَالَتْ: لاَ وَقُرَّةِ عَيْنِي، لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ – يَعْنِي يَمِينَهُ – ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً، ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ، وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ، فَمَضَى الأَجَلُ، فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ، اللَّهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ، فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ، أَوْ كَمَا قَالَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ سلیمان بن طرخان نے، کہا کہ ہم سے ابوعثمان نہدی نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے ( اصحاب صفہ میں سے کسی ) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یا چھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ، ماں اور میں تھا۔ ابوعثمان راوی کا بیان ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ عبدالرحمن بن ابی بکر نے یہ کہا یا نہیں کہ میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا یہ بھی تھے۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے۔ ( اور غالباً ) کھانا بھی وہیں کھایا۔ صورت یہ ہوئی کہ ) نماز عشاء تک وہیں رہے۔ پھر ( مسجد سے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے تاآنکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی ( ام رومان ) نے کہا کہ کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی، یا یہ کہ مہمان کی خبر نہ لی۔ آپ نے پوچھا، کیا تم نے ابھی انھیں رات کا کھانا نہیں کھلایا۔ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکار کیا۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پکارا اے غنثر! ( یعنی او پاجی ) آپ نے برا بھلا کہا اور کوسنے دئیے۔ فرمایا کہ کھاؤ تمہیں مبارک نہ ہو! خدا کی قسم! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ ( آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ) ( عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا ) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے۔ اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ اپنی بیوی سے بولے۔ بنوفراس کی بہن! یہ کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ صبح تک آپ کے پاس رکھا رہا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا۔ اور معاہدہ کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ ( اس قبیلہ کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا ) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کئے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سبھوں نے ان میں سے کھایا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایسا ہی کہا۔

 

❁ تشریح : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مہمانوں کو گھر بھیج دیا تھا اور گھر والوں کو کہلوا بھیجا تھا کہ مہمانوں کو کھانا کھلادیں۔ لیکن مہمان یہ چاہتے تھے کہ آپ ہی کے ساتھ کھانا کھائیں۔ ادھر آپ مطمئن تھے۔ اس لیے یہ صورت پیش آئی۔ پھر آپ کے آنے پر انھوں نے کھانا کھایا۔ دوسری روایتوں میں یہ بھی ہے کہ سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھالیا۔ اور اس کے بعد بھی کھانے میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کرامت تھی۔ کرامت ِاولیاء برحق ہے۔ مگراہل بدعت نے جو جھوٹی کرامتیں گھڑلی ہیں۔ وہ محض لایعنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ انھیں ہدایت دے۔


 

Table of Contents