Search
Sections
< All Topics
Print

11. Kitaab ul Jumu’ah; [كِتَابُ الجُمُعَةِ]; Friday prayer

✦ كِتَابُ الجُمُعَةِ ✦

کتاب: جمعہ کے بیان میں

 


 ❁ بَابُ فَرْضِ الجُمُعَةِ

❁ باب: جمعہ کی نماز فرض ہے


❁ 876 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الأَعْرَجَ، مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ الحَارِثِ، حَدَّثَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا، ثُمَّ هَذَا يَوْمُهُمُ الَّذِي فُرِضَ عَلَيْهِمْ، فَاخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ، فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ اليَهُودُ غَدًا، وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور آپ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی۔ یہی ( جمعہ ) ان کا بھی دن تھا جو تم پر فرض ہوا ہے۔ لیکن ان کا اس کے بارے میں اختلاف ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا اس لیے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاریٰ تیسرے دن۔


بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، وَهَلْ عَلَى الصَّبِيِّ شُهُودُ يَوْمِ الجُمُعَةِ، أَوْ عَلَى النِّسَاءِ ❁ 
باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت ❁

❁ 877 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی اور ان کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔


❁ بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، وَهَلْ عَلَى الصَّبِيِّ شُهُودُ يَوْمِ الجُمُعَةِ، أَوْ عَلَى النِّسَاءِ
❁ باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت

❁ 878 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ قَالَ أَخْبَرَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ فِي الْخُطْبَةِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُ عُمَرُ أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ قَالَ إِنِّي شُغِلْتُ فَلَمْ أَنْقَلِبْ إِلَى أَهْلِي حَتَّى سَمِعْتُ التَّأْذِينَ فَلَمْ أَزِدْ أَنْ تَوَضَّأْتُ فَقَالَ وَالْوُضُوءُ أَيْضًا وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ بِالْغُسْلِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماءنے امام مالک سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے صحابہ مہاجرین میں سے ایک بزرگ تشریف لائے ( یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا بھلا یہ کون سا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں مشغول ہو گیا تھا اور گھر واپس آتے ہی اذان سنی، اس لیے میں وضو سے زیادہ اور کچھ ( غسل ) نہ کرسکا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا وضو بھی۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے لیے فرماتے تھے۔

 

❁ تشریح : یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تاخیرمیں آنے پر ٹوکا۔ آپ نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں غسل بھی نہ کر سکا بلکہ صرف وضوکر کے چلا آیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گویا آپ نے صرف دیر میں آنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک دوسری فضیلت غسل کو بھی چھوڑ آئے ہیں۔ اس موقع پر قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے غسل کے لیے پھر نہیں کہا، ورنہ اگر جمعہ کے دن غسل فرض یا واجب ہوتا تو حضرت عمر کو ضرور کہنا چاہیے تھااور یہی وجہ تھی کہ دوسرے بزرگ صحابی جن کا نام دوسری روایتوں میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آتا ہے، نے بھی غسل کو ضروری نہ سمجھ کر صرف وضو پر اکتفا کیا تھا۔ ہم اس سے پہلے بھی جمعہ کے دن غسل پر ایک نوٹ لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران امام امر ونہی کر سکتا ہے۔ لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ انہیں خاموشی اور اطمینان کے ساتھ خطبہ سننا چاہیے۔ ( تفہیم البخاری )


❁ بَابُ فَضْلِ الغُسْلِ يَوْمَ الجُمُعَةِ، وَهَلْ عَلَى الصَّبِيِّ شُهُودُ يَوْمِ الجُمُعَةِ، أَوْ عَلَى النِّسَاءِ
❁ باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت

❁ 879 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں مالک نے صفوان بن سلیم کے واسطہ سے خبر دی، انہیں عطاء بن یسار نے، انہیں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔


❁ بَابُ الطِّيبِ لِلْجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن خوشبو لگانا

❁ 880 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بَكرِ بْنِ الْمُنكَدِرِ قَالَ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سُلَيْمٍ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ أَشْهَدُ عَلَى أَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ وَأَنْ يَسْتَنَّ وَأَنْ يَمَسَّ طِيبًا إِنْ وَجَدَ قَالَ عَمْرٌو أَمَّا الْغُسْلُ فَأَشْهَدُ أَنَّهُ وَاجِبٌ وَأَمَّا الِاسْتِنَانُ وَالطِّيبُ فَاللَّهُ أَعْلَمُ أَوَاجِبٌ هُوَ أَمْ لَا وَلَكِنْ هَكَذَا فِي الْحَدِيثِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ هُوَ أَخُو مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ وَلَمْ يُسَمَّ أَبُو بَكْرٍ هَذَا رَوَاهُ عَنْهُ بُكَيْرُ بْنُ الْأَشَجِّ وَسَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ وَعِدَّةٌ وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ يُكْنَى بِأَبِي بَكْرٍ وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں حرمی بن عمارہ نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ بن حجاج نے ابوبکر بن منکدر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن سلیم انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں گواہ ہوں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ میں گواہ ہوں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر جوان پر غسل، مسواک اور خوشبو لگانا اگر میسر ہو، ضروری ہے۔ عمرو بن سلیم نے کہا کہ غسل کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ واجب ہے لیکن مسواک اور خوشبو کا علم اللہ تعالیٰ کو زیادہ ہے کہ وہ بھی واجب ہیں یا نہیں۔ لیکن حدیث میں اسی طرح ہے۔ ابوعبد اللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے فرمایا کہ ابوبکر بن منکدر محمد بن منکدر کے بھائی تھے اور ان کا نام معلوم نہیں ( ابوبکر ان کی کنیت تھی ) بکیر بن اثج۔ سعید بن ابی ہلال اور بہت سے لوگ ان سے روایت کرتے ہیں۔ اور محمد بن منکدر ان کے بھائی کی کنیت ابو بکر اور ابو عبداللہ بھی تھی۔


❁ بَابُ فَضْلِ الجُمُعَةِ’
❁ باب: جمعہ کی نماز کو جانے کی فضیلت

❁ 881 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتْ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابو بکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے خبر دی، جنہیں ابوصالح سمان نے، انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی ( اگراول وقت مسجد میں پہنچا ) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو ملائکہ خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

 

❁ تشریح : اس حدیث میں ثواب کے پانچ درجے بیان کئے گئے ہیں جمعہ میں حاضری کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور سب سے پہلا ثواب اسی کو ملے گا جو اول وقت جمعہ کے لیے مسجد میں آجائے۔ سلف امت کا اسی پر عمل تھا کہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد گھر جاتے، پھر کھانا کھا تے اور قیلولہ کرتے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو ثواب لکھنے والے فرشتے بھی مسجد میں آجاتے اور سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مرغ کے ساتھ انڈے کا بھی ذکر ہے اسے حقیقت پر محمول کیا جائے تو انڈے کی بھی حقیقی قربانی جا ئز ہوگی جس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ثابت ہو اکہ یہاں مجازاً قربانی کا لفظ بولاگیا ہے جو تقرب الی اللہ کے معنی میں ہے ( کما سیاتی )


بَابٌ ❁ 

❁ 882 بَاب حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى هُوَ ابْنُ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَيْنَمَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِمَ تَحْتَبِسُونَ عَنْ الصَّلَاةِ فَقَالَ الرَّجُلُ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ تَوَضَّأْتُ فَقَالَ أَلَمْ تَسْمَعُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے شیبان بن عبد الرحمن نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک بزرگ ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر کرتے ہیں۔ ( اول وقت کیوں نہیں آتے ) آنے والے بزرگ نے فرمایا کہ دیر صرف اتنی ہوئی کہ اذان سنتے ہی میں نے وضو کیا ( اور پھر حاضر ہوا ) آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ جب کوئی جمعہ کے لیے جائے تو غسل کر لینا چاہیے۔

 

❁ تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان ایسے جلیل الشان صحابی پر خفا ہوئے اگر جمعہ کی نماز فضیلت والی نہ ہوتی تو خفگی کی ضرورت کیا تھی، پس جمعہ کی نماز کی فضیلت ثابت ہوئی اور یہی ترجمہ باب ہے۔ بعضوں نے کہا کہ اور نمازوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہوا اِذَاقُمتُم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغسِلُوا وَجُوھَکُم ( المائدۃ:6 ) یعنی وضو کرو اور جمعہ کی نماز کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز کا درجہ اور نمازوں سے بڑھ کرہے اور دوسری نمازوں پر اس کی فضیلت ثابت ہوئی اور یہی ترجمہ باب ہے ( وحیدی ) یہاں ادنی تامل سے معلوم ہوسکتاہے کہ حضرت سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے حدیث نبوی کے مطالب پر کس قدر گہری نظر عطا فرمائی تھی۔ اسی لیے حضرت علامہ عبدالقدوس بن ہمام اپنے چند مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے فقہی تراجم وابواب بھی مسجد نبوی کے اس حصہ میں بیٹھ کر لکھے ہیں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ایک کیاری بتلایا ہے۔ اس جانکاہی اور ریاضت کے ساتھ سولہ سال کی مدت میں یہ عدیم النظیر کتاب مکمل ہوئی جس کا لقب بغیر کسی تردد کے اصح الکتب بعد کتاب اللہ قرارپایا امت کے لاکھوں کروڑوں محدثین اور علماءنے سخت سے سخت کسوٹی پر اسے کسا مگر جو لقب اس تصنیف کا مشہور ہو چکا تھا وہ پتھر کی لکیر تھا نہ مٹناتھا نہ مٹا۔ اس حقیقت باہرہ کے باوجود ان سطحی ناقدین زمانہ پر سخت افسوس ہے جو آج قلم ہاتھ میں لے کر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی عدیم المثال کتاب پر تنقید کرنے کے لیے جسارت کرتے اور اپنی کم عقلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے حضرات دیوبند سے متعلق ہوں یا کسی اور جگہ سے، ان پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کی یہ سعی لا حاصل حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی جلیل القدر کتاب کی ذرہ برابر بھی شان نہ گھٹاسکے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو کوئی آسمان کی طرف تھوکے اس کا تھوک الٹا اس کے منہ پر آئے گا کہ قانون قدرت یہی ہے۔ بخاری شریف کی علمی خصوصیات لکھنے کے لیے ایک مستقل تصنیف اور ایک روشن ترین فاضلانہ دماغ کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب صرف احادیث صحیحہ ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ اصول وعقائد، عبادات ومعاملات، غزوات وسیر، اسلامی معاشرت وتمدن، مسائل سیاست وسلطنت کی ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے۔ آج کے نوجوان روشن دماغ مسلمانوں کو اس کتاب سے جو کچھ تشفی حاصل ہو سکتی ہے وہ کسی دوسری جگہ نہ ملے گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بڑے لوگوں کو چا ہیے کہ نیک کاموں کا حکم فرماتے رہیں اور اس بارے میں کسی کا لحاظ نہ کریں۔ جن کو نصیحت کی جائے ان کا بھی فرض ہے کہ تسلیم کرنے میں کسی قسم کا دریغ نہ کریں اور بلاچوں وچرانیک کاموں کے لیے سرتسلیم خم کردیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی دیکھئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب سنتے ہی تاڑ گئے کہ آپ بغیر غسل کے جمعہ کے لیے آگئے ہیں۔اس سے غسل جمعہ کی اہمیت بھی ثابت ہوئی۔


❁ بَاب الدُّهْنِ لِلْجُمُعَةِ
❁ نماز جمعہ کے لئے بالوں میں تیل کا استعمال

❁ 883 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ ابْنِ وَدِيعَةَ عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيَتَطَهَّرُ مَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ ثُمَّ يَخْرُجُ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ ثُمَّ يُصَلِّي مَا كُتِبَ لَهُ ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى

 

❁ ترجمہ : م سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے سعید مقبری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ ابو سعید مقبری نے عبد اللہ بن ودیعہ سے خبر دی، ان سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لیکر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ایک سچے مسلمان کے لیے ظاہری وباطنی ہر قسم کی مکمل پاکی حاصل کرنے کا دن ہے۔


 ❁ بَاب الدُّهْنِ لِلْجُمُعَةِ
❁ نماز جمعہ کے لئے بالوں میں تیل کا استعمال

❁ 884 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ طَاوُسٌ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ ذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اغْتَسِلُوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاغْسِلُوا رُءُوسَكُمْ وَإِنْ لَمْ تَكُونُوا جُنُبًا وَأَصِيبُوا مِنْ الطِّيبِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَّا الْغُسْلُ فَنَعَمْ وَأَمَّا الطِّيبُ فَلَا أَدْرِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ طاؤس بن کیسان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن اگرچہ جنابت نہ لیکن غسل کرو اور اپنے سر دھویا کر و اور خوشبو لگایا کرو۔ ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ غسل کا حکم تو ٹھیک ہے لیکن خوشبو کے متعلق مجھے علم نہیں۔


❁ بَاب الدُّهْنِ لِلْجُمُعَةِ
❁ نماز جمعہ کے لئے بالوں میں تیل کا استعمال

❁ 885 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ ذَكَرَ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ أَيَمَسُّ طِيبًا أَوْ دُهْنًا إِنْ كَانَ عِنْدَ أَهْلِهِ فَقَالَ لَا أَعْلَمُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہ انہیں ا بن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھے ابراہیم بن میسرہ نے طاؤس سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ کیا تیل اور خوشبو کا استعمال بھی ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

 

❁ تشریح : تیل اور خوشبو کے متعلق حضرت سلمان فارسی کی حدیث اوپر ذکر ہوئی ہے غالباًحضرت ابن عباس کو اس کا علم نہ ہوسکا۔


❁ بَابُ يَلْبَسُ أَحْسَنَ مَا يَجِدُ
باب: جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننا ❁ 

❁ 886 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً سِيَرَاءَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ ثُمَّ جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ فَأَعْطَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْهَا حُلَّةً فَقَالَ عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا فَكَسَاهَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخًا لَهُ بِمَكَّةَ مُشْرِكًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ( ریشم کا ) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔

 

تشریح : عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی رضی اللہ عنہ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیاگیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسندفرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔ تشریح : عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی رضی اللہ عنہ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیاگیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسندفرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔


❁ بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا

❁ 887 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَوْلاَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي أَوْ عَلَى النَّاسِ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ صَلاَةٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابو الزناد سے خبر دی، ان سے اعرج نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

 

❁ تشریح : حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بذیل احادیث مرویہ متعلق مسواک فرماتے ہیں: اقول معناہ لولا خوف الحرج لجعلت السواک شرطا للصلوۃ کالوضوءوقد ورد بھذا الا سلوب احادیث کثیرۃ جدا وھی دلائل واضحۃ علی ان اجتھاد النبی صلی اللہ علیہوسلم مدخلا فی الحدود الشرعیۃ وانھا منوطۃ بالمقاصد وان رفع الحرج من الاصول التی بنی علیہ الشرائع قول الراوی فی صفۃ تسوکہ صلی اللہ علیہ وسلم اع اع کانہ یتھوع اقول ینبغی للانسان ان یبلغ بالسواک اقاصی الفم فیخرج الحلق والصدر ولاستقصاءفی السواک یذھب بالقلاع ویصفی الصوت ویطیب النکھۃ الخ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ ص:449,450 ) یعنی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کر نے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دے دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کرنے کی کیفیت کے متعلق جو راوی کا بیان ہے کہ آپ مسواک کرتے وقت اع اع کی آواز نکالتے جیسے کوئی قے کرتے وقت کرتا ہے، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر، مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندرتک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے اورمنہ خوشبو دار ہو جاتا ہے۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عشر من الفطرۃ قص الشوارب واعفاءاللحیۃ والسواک الخ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت میں سے ہیں مونچھوں کا ترشوانا اور داڑھی کا بڑھانا اور مسواک کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اور ناخن کتروانا اور انگلیوں کے جوڑوں کا دھونا اور بغل کے بال اکھاڑنا اور زیر ناف کے بال صاف کرنا اور پانی سے استنجا کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ دسویں بات مجھ کو یاد نہیں رہی وہ غالباً کلی کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ طہارتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں اور تمام امم حنیفیہ میں برابرجارہی ہیں اور ان کے دلوں میں پیوست ہیں اسی وجہ سے ان کا نام فطرت رکھا گیا ہے


❁ بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ

❁ باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا


❁ 888 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ الحَبْحَابِ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكْثَرْتُ عَلَيْكُمْ فِي السِّوَاكِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعیب بن حبحاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے مسواک کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔


❁ بَاب السِّوَاكِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ

❁ باب: جمعہ کے دن مسواک کرنا


❁ 889 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ وَحُصَيْنٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہ ہمیں سفیان ثوری نے منصو بن معمر اور حصین بن عبد الرحمن سے خبر دی، انہیں ابووائل نے، انہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کر تے۔

 

❁ تشریح : ان جملہ احادیث سے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسواک کرنا چاہیے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لیے مسواک کی تاکید فرمائی تو جمعہ کی نماز کے لیے بھی اس کی تاکید ثابت ہوئی۔ اس لیے بھی کہ جمعہ میں زیادہ لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے منہ کا صاف کرنا ضروری ہے تاکہ منہ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔


❁ بَابُ مَنْ تَسَوَّكَ بِسِوَاكِ غَيْرِهِ
❁ باب: دوسرے کی مسواک استعمال کرنا

❁ 890 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ قَالَ قَالَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَهُ سِوَاكٌ يَسْتَنُّ بِهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ أَعْطِنِي هَذَا السِّوَاكَ يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْطَانِيهِ فَقَصَمْتُهُ ثُمَّ مَضَغْتُهُ فَأَعْطَيْتُهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَنَّ بِهِ وَهُوَ مُسْتَسْنِدٌ إِلَى صَدْرِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے خبر دی، انہوں نے کہا کہ عبد الرحمن بن ابی بکر ( ایک مرتبہ ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی جسے وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں ان سے کہا عبدالرحمن یہ مسواک مجھے دے دے۔ انہوں نے دے دی۔ میں نے اس کے سرے کو پہلے توڑا یعنی اتنی لکڑی نکال دی جو عبدالرحمن اپنے منہ سے لگایا کرتے تھے، پھر اسے چبا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

 

❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دوسرے کی مسواک اس سے لے کر استعمال کی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسرا آدمی مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اپنے بھائی کو دے سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت اپنے کسی بھائی سے جن پر ہم کو بھروسہ واعتماد ہو کوئی ضرورت کی چیز اس سے طلب کر سکتے ہیں۔ تعاون باہمی کا یہی مفہوم ہے۔ اس حدیث سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مرض الموت میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی خدمات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خدا کی مار ان بدشعاروں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان اقدس میں کلمات گستاخی استعمال کر کے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔


❁ بَابُ مَا يُقْرَأُ فِي صَلاَةِ الفَجْرِ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن نماز فجر میں کون سی سورت پڑھے

❁ 891 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ هُرْمُزَ الْأَعْرَجُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنْ الدَّهْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے سعد بن ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے، ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ھل اتی علی الانسان پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔ اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا ( وحید ی ) علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وھذا الاحادیث فیھا مشروعیۃ قراۃ تنزیل السجدۃ وھل اتی علی الانسان قال العراقی وممن کان یفعلہ من الصحابۃ عبد اللہ بن عباس ومن التابعین ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعی واحمد واصحاب الاحادیث ( نیل الاوطار ) یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل اتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں والتعبیر بکان یشعر بمواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی القراۃ بھما فیھا یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔ اگر چہ کچھ علماءمواظبت کو نہیں مانتے مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی ( قسطلانی ) کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے واما دعواہ ان الناس ترکوا العمل بہ فباطلۃ لان اکثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین قد قالوا بہ کما نقلہ ابن المنذر وغیرہ حتی انہ ثابت عن ابراہیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من اہل المدینۃ انہ ام الناس بالمدینۃ بھما فی الفجر یوم الجمعۃ اخرجہ ابن ابی شیبۃباسناد صحیح الخ ( فتح الباری ) یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔ اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔ ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔


❁ بَابُ الجُمُعَةِ فِي القُرَى وَالمُدُنِ
❁ باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے

❁ 892 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى مِنْ الْبَحْرَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے ابو جمرہ نضر بن عبد الرحمن ضبعی نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بن و عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔


بَابُ الجُمُعَةِ فِي القُرَى وَالمُدُنِ ❁ 
❁ باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے

 ❁ 893 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَزَادَ اللَّيْثُ قَالَ يُونُسُ كَتَبَ رُزَيْقُ بْنُ حُكَيْمٍ إِلَى ابْنِ شِهَابٍ وَأَنَا مَعَهُ يَوْمَئِذٍ بِوَادِي الْقُرَى هَلْ تَرَى أَنْ أُجَمِّعَ وَرُزَيْقٌ عَامِلٌ عَلَى أَرْضٍ يَعْمَلُهَا وَفِيهَا جَمَاعَةٌ مِنْ السُّودَانِ وَغَيْرِهِمْ وَرُزَيْقٌ يَوْمَئِذٍ عَلَى أَيْلَةَ فَكَتَبَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَنَا أَسْمَعُ يَأْمُرُهُ أَنْ يُجَمِّعَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سَالِمًا حَدَّثَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ الْإِمَامُ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا وَالْخَادِمُ رَاعٍ فِي مَالِ سَيِّدِهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ قَالَ وَحَسِبْتُ أَنْ قَدْ قَالَ وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي مَالِ أَبِيهِ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ وَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے ا بن عمر سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور لیث نے اس میں یہ زیادتی کی کہ یونس نے بیان کیا کہ رزیق بن حکیم نے ا بن شہاب کو لکھا، ان دنوں میں بھی وادی القریٰ میں ا بن شہاب کے پاس تھا کہ کیا میں جمعہ پڑھا سکتا ہوں۔ رزیق ( ایلہ کے اطراف میں ) ایک زمین کاشت کروا رہے تھے۔ وہاں حبشہ وغیرہ کے کچھ لوگ موجود تھے۔ اس زمانہ میں رزیق ایلہ میں ( حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ) حاکم تھے۔ ا بن شہاب رحمہ اللہ نے انہیں لکھوایا، میں وہیں سن رہا تھا کہ رزیق جمعہ پڑھائیں۔ ا بن شہاب رزیق کو یہ خبر دے رہے تھے کہ سالم نے ان سے حدیث بیان کی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

 

❁ تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے شہر اور حاکم وغیرہ وغیرہ کی قیود لگاتے ہیں اور گاؤں میں جمعہ کے لیے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس سے امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو جمعہ کے لیے شہر کی قید کرتے ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی شرطیں جو حنفیوں نے لگائی ہیں وہ سب بے دلیل ہیں اور جمعہ دوسری نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا سنت ہے باقی کوئی شرط نہیں ہے۔ دارالحرب اور کافروں کے ملک میں بھی حضرت امام نے باب میں لفظ قریٰ اور مدن استعمال فرمایا ہے قریٰ قریۃ کی جمع ہے جو عموماً گاؤں ہی پربولا جاتا ہے اور مدن مدینہ کی جمع ہے جس کا اطلاق شہر پر ہوتا ہے۔ علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ یعنی باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے خلاف اشارہ فرمایا ہے جو جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہات میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبد القیس نامی قبیلہ کی مسجد میں قائم کیا گیا جو جواثی نامی گاؤں میں تھی اور وہ گاؤں علاقہ بحرین میں واقع تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے قائم کیا گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیروہ کوئی کام کر سکیں۔ جواثی اس وقت ایک گاؤں تھا۔ مگر حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ وہ شہر تھا حالانکہ حدیث مذکورسے اس کا گاؤں ہونا ظاہر ہے جیسا کہ وکیع کی روایت میں صاف موجود ہے۔ انھا قریۃ من قریٰ البحرین یعنی جواثی بحرین کے دیہا ت میں ایک گاؤں تھا۔ بعض روایتوں میں قریٰ عبدالقیس بھی آیا ہے کہ وہ قبیلہ عبد القیس کا ایک گاؤں تھا ( قسطلانی ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں اس کی آبادی بڑھ گئی ہو اوروہ شہر ہوگیا ہو مگر اقامت جمعہ کے وقت وہ گاؤں ہی تھا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کے لیے حضرت ابن شہاب کا فرمان ذکر فرمایا کہ انہوں نے رزیق نامی ایک بزرگ کو جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف سے ایلہ کے گورنر تھے اور ایک گاؤں میں جہاں ان کی زمینداری تھی، سکونت پذیر تھے ان کو اس گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ تحریر فرمایا۔ امام قسطلانی فرماتے ہیں واملاہ ابن شھاب من کاتبہ فسمعہ یونس منہ یعنی ابن شہاب زہری نے اپنے کاتب سے اس اجازت نامے کو لکھوایا اور یونس نے ان سے اس وقت اسے سنا۔ اور ابن شہاب نے یہ حدیث پیش کر کے ان کو بتلایا کہ وہ گاؤں اور دیہات ہی میں ہے لیکن ان کو جمعہ پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی رعایا کے جو وہاں رہتی ہے، اس طرح اپنے نوکر چاکروں کے نگہبان ہیں جیسے بادشاہ نگہبان ہوتا ہے تو بادشاہ کی طرح ان کو بھی احکام شرعیہ قائم کرناچاہیے جن میں سے ایک اقامت جمعہ بھی ہے۔ ابن شہاب زہری وادی قری میں تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 ھ بماہ جمادی الاخریٰ میں فتح کیاتھا۔ فتح الباری میں ہے کہ زین بن منیر نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے۔ جب کوئی جمعہ قائم کے نے کے قابل امام خطیب وہاں ہو اور موجود ہو اور اس سے گاؤں میں بھی جمعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوا۔ گاؤں میں جمعہ کی صحت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے جس میں فرمایا یٰا ٓیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُوا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ الآیہ ( الجمعہ: 9 ) یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کو یاد کرنے کے لیے چلو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ اس آیت کریمہ میں “ایمان والے” عام ہیں وہ شہری ہوں یا دیہاتی سب اس میں داخل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبد مملوک اوامراۃ اوصبی او مریض ( رواہ ابو داؤد والحاکم ) یعنی جمعہ ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت،بچے اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے :من کان یومن باللہ والیوم الاخر فعلیہ الجمعۃ الامریض اومسافر او امراۃ اوصبی او مملوک فمن استغنی بلھو او تجارۃ اسغنی اللہ عنہ واللہ غنی حمید ( رواہ الدارقطنی ) یعنی جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے مگر مریض مسافر غلام اوربچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے بے پروائی کرے تو اللہ پاک بھی اس سے بے پروائی کرے گا کیونکہ اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کے ذکر سے بعض دماغوں نے جمعہ کے لیے شہر ہونا نکالا ہے حالانکہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کا اس لیے ذکر آیا کہ نزول آیت کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان ایک تجارتی قافلہ کے آ جانے سے جمعہ چھوڑ کر خرید وفروخت کے لیے دوڑ پڑے تھے۔ اس لیے آیت میں خرید وفروخت چھوڑ نے کا ذکر آ گیا اور اگر اس کو اسی طرح مان لیا جائے تو کون سا گاؤں آج ایسا ہے جہاں کم وبیش خرید وفروخت کا سلسلہ جاری نہ رہتا ہو پس اس آیت سے جمعہ کے لیے شہر کا خاص کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا تنکے کا سہارا حاصل کرے۔ ایک حدیث میں صاف گاؤں کا لفظ موجود ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ فیھا امام وان لم یکونوا الاربعۃ رواہ الدارقطنی ص: 26 یعنی ہر ایسے گاؤں والوں پر جس میں نماز پڑھا نے والا امام موجود ہو جمعہ واجب ہے اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔ یہ روایت گو قدرے کمزور ہے مگر پہلی روایتوں کی تائید وتقویت اسے حاصل ہے۔ لہذا اس سے بھی استدلال درست ہے اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو صحت جمعہ کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔ اکابرصحابہ سے بھی گاؤں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ “تم جہاں کہیں ہو جمعہ پڑھ لیا کرو” عطاءبن میمون ابو رافع سے روایت کرتے ہیں کہ ان ابا ھریرۃ کتب الی عمر یسالہ عن الجمعۃ وھو بالبحرین فکتب الیھم ان جمعوا حیث ما کنتم اخرجہ ابن خزیمۃ وصححہ وابن ابی شیبۃ والبیھقی وقال ھذا الا ثر اسنادہ حسن فتح الباری، ص: 486 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بحرین سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو۔ اس کا مطلب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں قال الشافعی معناہ فی ای قریۃ کنتم لان مقامھم بالبحرین انما کان فی القریٰ ( التعلیق المغنی علی الدارقطنی ) یعنی حیث ماکنتم کے یہ معنی ہیں کہ تم جس گاؤں میں بھی موجود ہو ( جمعہ پڑھ لیا کرو ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ( سوال کرنے والے ) گاؤں میں ہی مقیم تھے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں وھذا ما یشتمل المدن والقریٰ ( فتح الباری، ص: 486 ) فاروقی حکم شہروں اور دیہاتوں کو برابر شامل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ سب کو حکم دیتے تھے چنانچہ لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ان اھل الاسکندریۃ ومدآئن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بامرھما وفیھا رجال من الصحابۃ ( التعلیق المغنی علی الدار قطنی، جلد:1ص:166 ) اسکندریہ اور مصر کے آس پاس والے حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان دونوں کے ارشاد سے جمعہ پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی اور ولید بن مسلم فرماتے ہیں کہ: سالت اللیث بن سعد ( ای عن التجمیع فی القریٰ ) فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصر وسواحلھا کانوایجمعون الجمعۃ علی عھد عمر وعثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ ( بیہقی والتعلیق المغنی علی الدارقطنی1ص:166وفتح الباری، ص:486 ) نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گاؤں اور شہر کے باہر رہنے والوں پر جمعہ کی نماز فرض ہونے کے قائل تھے چنانچہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم ( فتح الباری، ج1ص:486 والتعلیق المغنی علی الدارقطنی، ص:166 ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکہ ومدینہ کے درمیان پانی کے پاس اترتے ہوئے وہاں کے دیہاتی لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو بھی ان کو نہ منع کرتے اور نہ ان کو بر ا کہتے اور ولید بن مسلم روایت کر تے ہیں کہ یروی عن شیبان عن مولی لال سعید بن العاص انہ سال ابن عمر عن القریٰ التی بین مکۃ والمدینۃ ما تری فی الجمعۃ قال نعم اذاکان علیھم امیر فلیجمع ( رواہ البیھقی والتعلیق،ص166 ) سعید بن عاص کے مولیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے گاؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ہیں کہ ان گاؤں میں جمعہ ہے یا نہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امیر ( امام نماز پڑھانے والا ) ہو تو جمعہ ان کو پڑھائے۔ نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جعفر بن برقان رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ کتب عمربن عبد العزیز الی عدی بن عدی الکندی انظر کل قریۃ اھل قرار لیسو ھم باھل عمود ینتقلون فامر علیھم امیرا ثم مرہ فلیجمع بھم ( رواہ البیہقی فی المعرفۃ والتعلیق المغنی علی الدار قطنی، ص:166 ) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی ابن عدی الکندی کے پاس لکھ کر بھیجا کہ ہر ایسے گاؤں کو دیکھو جہاں کے لوگ اسی جگہ مستقل طور پر رہتے ہیں۔ ستون والوں ( خانہ بدوشوں ) کی طرح ادھر ادھر پھرتے ومنتقل نہیں ہوتے۔ اس گاؤں والوں پر ایک امیر ( امام ) مقرر کردو کہ ان کو جمعہ پڑھاتا رہے۔ اور حضرت ابوذر ( صحابی ) رضی اللہ عنہ ربذہ گاؤں میں رہنے کے باوجود وہیں چند صحابہ کے ساتھ برابر جمعہ پڑھتے تھے۔ چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ صح انہ کان لعثمان عبد اسود امیر لہ علی الربد یصلی خلفہ ابو ذر رضی اللہ عنہ من الصحابۃ الجمعۃ وغیرھا ( کبیری شرح منیہ ص:512 ) صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک سیاہ فام غلام ربذہ میں حکومت کی طرف سے امیر ( امام ) تھا۔ حضرت ابو ذر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔ نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ شہربصرہ کے قریب موضع“زاویہ” میں رہتے تھے۔ کبھی تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بصرہ آتے اور کبھی جمعہ کی نماز موضع زاویہ ہی میں پڑھ لیتے تھے۔ بخاری شریف، ج:1 ص: 123 میں ہے وکان انس فی قصر احیانا یجمع واحیانا لا یجمع وھو بالزاویۃ علی فرسخین اس عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کبھی زاویہ ہی میں پڑھ لیتے اور کبھی زاویہ میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ بصرہ میں آکر جمعہ پڑھتے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہی مطلب بیان فرماتے ہیں قولہ یجمع ای یصلی الجمعۃ بمن معہ او یشھد الجمعۃ البصرۃ یعنی کبھی جمعہ کی نماز ( مقام زاویہ میں ) اپنے ساتھیوں کو پڑھاتے یا جمعہ کے لیے بصرہ تشریف لاتے۔ اور یہی مطلب علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری، ص: 274 جلد: 3 میں بیان فرمایاہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ عید کی نماز بھی اسی زاویہ میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف، ص:134 میں ہے کہ وامر انس بن مالک مولاہ ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فجمع اھلہ وبنیہ وصلی کصلوۃ المصر وتکبیرھم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ میں حکم دیا اور اپنے تمام گھر والوں بیٹوں وغیرہ کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح عید کی نماز پڑھی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی عمدۃ القاری،ص:400جلد: 3 میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ ان آثار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ اور عیدین کی نماز شہر والوں کی طرح گاؤں میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودگاؤں میں جمعہ پڑھا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے تو بنی مالک کے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی۔ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ ومن اعظم البرھان علی صحتھا فی القری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتی المدینۃ وانما ھی قریۃ صغار متفرقۃ فبنی مسجدہ فی بنی مالک بن نجار وجمع فیہ فی قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصرھنالک ( عون المعبود شرح ابی داؤد، ج:1ص:414 ) دیہات وگاؤں میں جمعہ پڑھنے کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے چھوٹے چھوٹے الگ الگ گاؤں بسے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مالک بن نجار میں مسجد بنائی اور اسی گاؤں میں جمعہ پڑھا جو نہ تو شہر تھا اور نہ بڑا گاؤں ہی تھا۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر،ص: 132 میں فرماتے ہیں کہ وروی البیھقی فی المعرفۃ عن مغازی ابن اسحاق وموسیٰ ابن عقبۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ فمر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قباوالمدینۃ فادرکتہ الجمعۃ فصلی بھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا حین قدم امام بیہقی رحمہ اللہ نے المعرفہ میں ابن اسحاق وموسی بن عقبہ رحمہ اللہ کے مغازی سے روایت کیا ہے کہ ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بنی عمروبن عوف ( قبا ) سے سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سالم کے پاس سے آپ کا گزر ہوا وہ قبا ومدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا تو اسی جگہ جمعہ نے آپ کو پالیا یعنی جمعہ کا وقت ہو گیا تو سب کے ساتھ ( اسی گاؤں میں ) جمعہ کی نماز پڑھی۔ مدینہ تشریف لانے کے وقت سب سے پہلا یہی جمعہ آپ نے پڑھا ہے۔ خلاصۃ الوفاءص196 میں ہے ولابن اسحاق فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلا ھا فی بطن الوادی وادی ذی رانونا فکانت اول جمعۃ صلاھا با لمدینۃ اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ فادرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وادی رانونا یعنی وادی ( میدان ) رانونا کی مسجد میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔ اورآپ کے ہجرت کرنے سے پہلے بعض وہ صحابہ کرام جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لا چکے تھے وہ اپنے اجتہاد سے بعض گاؤں میں جمعہ پڑھتے تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا جیسے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ہزم النبیت ( گاؤں ) میں جمعہ پڑھایا۔ ابوداؤد شریف میں ہے۔ لانہ اول من جمع بنا فی ھزم النبیت من حرہ بنی بیاضۃ فی نقیع یقال نقیع الخضمات ( الحدیث ) حرہ بنی بیاضہ ایک گاؤں کا نام تھا جو مدینہ طیبہ سے ایک میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر، ص:133 میں فرماتے ہیں۔ حرۃ بنی بیاضۃ قریۃ علی میل من المدینۃ اور خلاصۃ الوفاءمیں ہے والصواب انہ بھزم النبیت من حرۃبنی بیاضۃ وھی الحرۃ الغربیۃ التی بھا قریۃ بنی بیاضۃ قبل بنی سلمۃ ولذاقال النووی انہ قریۃ بقرب المدینۃ علی میل من منازل بنی سلمۃ قالہ الامام احمد کما نقلہ الشیخ ابو حامد اس عبارت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ کے قریب ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔ اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں وفی الحدیث من الفقہ ان الجمعۃ جوازھا فی القریٰ کجوازھا فی المدن والامصار اس حدیث سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جیسے کہ شہروں میں جائز ہے۔ ان احادیث وآثار سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دیہات میں ہمیشہ جمعہ پڑھا کر تے تھے اور از خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایااورپڑھنے کا حکم دیاہے کہ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ ( دارقطنی،ص:165 ) ہر گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گاؤں میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما اور حضرت عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔ ان تمام احادیث وآثار کے ہوتے ہوئے بعض لوگ دیہات میں جمعہ بندکرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ جمعہ تمام مسلمانوں کے لیے عید ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ ترغیب ترہیب، ص:195ج :1 میں ہے کہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال عرضت الجمعۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءبھا جبرئیل علیہ السلام فی کفۃ کالمراۃ البیضاءفی وسطھا کالنکتۃ السوداءفقال ما ھذا یا جبرئیل قال ھذہ الجمعۃ یعرضھا علیک ربک لتکون لک عیدا ولقومک من بعدک ( الحدیث رواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد جید ترغیب، ص195ج:1 ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کو سفید آئینہ کی طرح ایک پلہ میں لاکر پیش فرمایا۔ اس کے درمیان میں ایک سیاہ نکتہ سا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ یہ وہ جمعہ ہے جس کو آپ کا رب آپ کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ آپ کے اور آپ کی امت کے واسطے یہ عید ہوکر رہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ تمام امت محمدیہ کے لیے عید ہے، اس میں شہری ودیہاتی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اب دیہاتیوں کو اس عید ( جمعہ ) سے محروم رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔ ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جیسے دیہاتی پر برابر فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی دیہاتی وغیر دیہاتی پر برابر فرض ہے۔ اگر گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ کر کے خارج کر دیتے۔ جیسے مسافر ومریض وغیرہ کو خارج کیا گیا ہے حالانکہ کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح میں اس کا استثناءنہیں کیا گیا۔ مانعین جمعہ کی دلیل! حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ( قول ) لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع مانعین کی سب سے بڑی دلیل ہے مگر یہ قول مذکورہ بالااحادیث وآثار کے معارض ومخالف ہونے کے علاوہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور حرمت ووجوب اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس کے لیے نص قطعی ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مجمع الانہار، ص:109میں اس اثر کے بعد لکھا ہے۔لکن ھذا مشکل جدا لان الشرط ھو فرض لا یثبت الا بقطعی۔ پھر مصرجامع کی تعریف میں اس قدر اختلاف ہے کہ اگر اس کو معتبر سمجھا جائے تو دیہات تو دیہات ہی ہے آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی جمعہ پڑھا جانانا جائز ہو جائے گا۔ کیونکہ مصر جامع کی تعریف میں امیر و قاضی واحکام شرعی کا نفاذ اور حدود کا جاری ہونا شرط ہے حالانکہ اس وقت ہندوستان میں نہ کوئی شرعی حاکم وقاضی ہے نہ حدود ہی کا اجراءہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حدود کا نفاذ نہیں ہے تو اس قول کے مطابق شہروں میں بھی جمعہ نہ ہونا چاہیے اور ان شرطوں کاثبوت نہ قرآن مجید سے ہے نہ صحیح حدیثوں سے ہے۔ اور لا جمعۃ الخ میں لا نفی کمال کا بھی ہو سکتا ہے یعنی کامل جمعہ شہر ہی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں جماعت زیادہ ہوتی ہے اور شہر کے اعتبار سے دیہات میں جماعت کم ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کی حیثیت سے دیہات میں ثواب کم ملے گا۔ جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ثواب ملتا ہے اور تنہا پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا تو لا جمعۃ الخ میں کمال اور زیادتی ثواب کی نفی ہے فرضیت کی نفی نہیں ہے۔ اگر بالفرض اس توجیہ کو تسلیم نہ کیاجائے تو دیہاتیوں کے لیے قربانی اور بقرعید کے دنوں کی تکبیر یں وغیرہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں کیونکہ قربانی نماز عید کے تابع وماتحت ہے اور جب متبوع ( نماز عید ) ہی نہیں تو تابع ( قربانی ) کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنے سے روکتے ہیں ان کو چاہیے کہ دیہاتیوں کو قربانی سے بھی روک دیں۔ اور اثر مذکور پر ان کا خود بھی عمل نہیں کیونکہ تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام کے حکم سے گاؤں میں مسجد بنائی جائے تو اسی کے حکم سے گاؤں میں جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں چنانچہ رد المختار، جلد:اول ص :537 میں ہے۔ اذا بنی مسجد فی الرستاق بامر الامام فھو امر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی والرستاق القران کما فی القاموس جب گاؤں میں امام کے حکم سے مسجد بنائی جائے تو وہاں باتفاق فقہاءجمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے لیے مصر ( شہر ) ہونا ضروری نہیں بلکہ دیہات میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے۔امام محمد رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔ حتی لو بعث الی قریۃ نائبا لا قامۃ الحدود والقصاص تصیر مصرا فاذا عزلہ تلحق بالقریٰ ( عینی شرح بخاری، ص:26 وکبیری شرح منیہ، ص: 514 ) اگر کسی نائب کو حدود وقصاص جاری کرنے کے لیے کسی گاؤں میں بھیجے تو وہ گاؤں مصر ( شہر ) ہو جائے گا۔جب نائب کو معزول ( علیحدہ ) کر دے گا تو وہ گاؤں کے ساتھ مل جائے گا یعنی پھر گاؤں ہو جائے گا۔ بہر کیف جمعہ کے لیے مصر ہونا ( شرعاً ) شرط نہیں ہے۔ بلکہ آبادی وبستی وجماعت ہونا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول فی مصر جامع سے بستی ہی مراد ہو کیونکہ بستی شہر ودیہات دونوں کو شامل ہے اس لیے لفظ قریہ سے کبھی شہر اور کبھی گاؤں مراد لیتے ہیں۔ لیکن اس کے اصل معنی وہی بستی کے ہیں۔ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری ، جلد: دوم ص: 138میں لکھتے ہیں والقریۃ واحدۃ القریٰ کل مکان اتصلت فیہ الابنیۃ واتخذ قرارا ویقع ذلک علی المدن وغیرھا اور لسان العرب ، ص: 637 ج 1 میں ہے۔ والقریۃ من المساکن والابنیۃ والضیاع وقد تطلق علی المدن وفی الحدیث امرت بقریۃ تاکل القریٰ وھی مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اہ ایضا وجاءفی کل قار وبادی الذی ینزل القریۃ والبادی۔ ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کے معنی مطلق بستی کے ہیں اور مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں۔ کیونکہ اہل لغت نے قریہ کی تفسیر میں لفظ مصر جامع اختیار کیا ہے۔ چنانچہ اسی لسان العرب میں ہے قال ابن سیدہ القریۃ والقریۃ لغتان المصر الجامع التھذیب الملسکورۃ یمانیۃ ومن ثم اجتمعوا فی جمعھا علی القری اور قاموس ، ص :285میں ہے القریۃ المصر الجامع اور المنجد، ص:661 میں ہے القریۃ والقریۃ الضیعۃ المصرالجامع۔ ان عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قریہ اور مصر جامع دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اور قریہ کے معنی بستی کے تو مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں اور بستی شہروگاؤں دونوں کا شامل ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کا مطلب یہ ہوا کہ جمعہ بستی میں ہونا چاہیے۔ یعنی شہرو دیہات دونوں جگہ ہونا چاہیے۔ مناسب ہوگا : اس بحث کو ختم کرتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ کا فاضلانہ تبصرہ ( آپ کی قابل قدر کتاب مرعاۃ، جلد:2ص:288سے ) شائقین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں: واختلفوا ایضا فی محل اقامۃ الجمعۃ فقال ابو حنیفۃ واصحابہ لا تصح الا فی مصر جامع وذھب الائمۃ الثلاثۃ الی جوازھا وصحتھا فی المدن والقری ٰ جمیعا واستدل لابی حنیفۃ بماروی عن علی مرفوعا لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقد ضعف احمد وغیرہ رفعہ وصحح ابن حزم وغیرہ وفقہ وللاجتہاد فیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ فضلا عن ان یخصص بہ عموم الا یۃ او یقید بہ اطلاقھا مع ان الحنفیۃ قد تخبطوا فی تحدید المصر الجامع وضبطہ الی اقوال کثیرۃ متباینہ متناقضۃ متخالفۃ جدا کما لا یخفی علی من طالع کتب فروعھم وھذا یدل علی انہ لم یتعین عندھم معنی الحدیث والراجح عندنا ماذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ من عدم اشتراط المصر وجوازھا فی القریٰ لعموم الایۃ واطلاقھا وعدم وجود ما یدل علی تخصیصھا ولا بدل لمن یقید ذالک بالمصر الجامع ان یاتی بدلیل قاطع من کتاب او سنۃ متواترۃ او خبر مشھور بالمعنی المصطلح عند المحدثین وعلی التنزیل بخبر واحد مرفوع صریح صحیح یدل علی التخصیص بالمصر الجامع۔ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ علماءنے محل اقامت جمعہ میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک،امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی جمعہ ہر جگہ صحیح اور جائز ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جو مرفوعاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور عید صحیح نہیں مگر مصر جامع میں ۔ا مام احمد وغیرہ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف کہا ہے اور علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش ہے لہذا یہ احتجاج کے قابل نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس سے قرآن پاک کی آیت اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے۔ پھر حنفیہ خود مصر کی تعریف میں بھی مختلف ہیں۔ جبکہ ان کے ہاں بہ سلسلہ تعریف مصر جامع اقوال بے حد متضاد اور متناقض نیز متبائن ہیں جیسا کہ ان کی کتب فروع کے مطالعہ کرنے والے حضرات پر مخفی نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ فی الحقیقت اس حدیث کے کوئی صحیح معنی ان کے ہاں بھی متعین نہیں ہیں پس ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ تینوں امام جدھر گئے ہیں کہ جمعہ کے لیے مصر کی شرط نہیں ہے اور جمعہ شہر کی طرح گاؤں بستیوں میں بھی جائز ہے یہی فتوی صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیت مذکور جس سے جمعہ کی فرضیت ہر مسلمان پر ثابت ہوتی ہے ( سوا ان کے جن کو شارع نے مستثنی کر دیا ہے ) یہ آیت عام ہے جو شہری اور دیہاتی جملہ مسلمانوں کو شامل ہے اور مصر جامع کی شرط کے لیے جو آیت کے عموم کو خاص کرے کوئی دلیل قاطع قرآن یا حدیث متواتر یا خبر مشہور جو محدثین کے نزدیک قابل قبول اور لائق استدلال ہو، نہیں ہے نیز کوئی خبر واحد مرفوع صریح صحیح بھی ایسی نہیں ہے جو آیت کو مصر جامع کے ساتھ خاص کر سکے۔ تعداد کے بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:والراجح عندی ما ذھب الیہ اھل الظاھر انہ تصح الجمعۃ باثنین لانہ لم یقم دلیل علی اشتراط عدد مخصوص وقد صحت الجماعۃ فی سائر الصلوات باثنین ولا فرق بینھما وبین الجمعۃ فی ذلک ولم یات نص من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان الجمعۃ لا تنعقد الا بکذا الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:288 ) یعنی اس بارے میں کہ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کتنی تعداد ضروری ہے، میرے نزدیک اس کو ترجیح حاصل ہے جو اہل ظاہر کا فتوی ہے کہ بلا شک جمعہ دو نمازیوں کے ساتھ بھی صحیح ہے اس لیے کہ عدد مخصوص کے شرط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور دوسری نمازوں کی جماعت بھی دو نمازیوں کے ساتھ صحیح ہے اور پنج وقتہ نماز اور جمعہ میں اس بارے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ کوئی نص صریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ جمعہ کا انعقاد اتنی تعداد کے بغیر صحیح نہیں۔ اس بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ اس مقالہ کو اس لیے طول دیا گیا ہے کہ حالات موجودہ میں علماءکرام غور کریں اور جہاں بھی مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہ قصبہ ہو یا شہر یا گاؤں ہر جگہ جمعہ قائم کرائیں کیونکہ شان اسلام اس کے قائم کرنے میں ہے اور جمعہ ترک کرانے میں بہت سے نقصانات ہیں جبکہ امامان ہدایت میں سے تینوں امام امام شافعی وامام مالک وامام احمد بن حنبل بھی گاؤں میں جمعہ کے حق میں ہیں پھر اس کے ترک کرانے پر زور دیکر اپنی تقلید جامد کا ثبوت دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ واللہ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم


❁ بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟
❁ باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

❁ 894 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے ( اپنے والد ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تم میں سے جو شخص جمعہ پڑھنے آئے تو غسل کرے۔


بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟ ❁ 
❁ باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

❁ 895 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے، ان سے عطاء بن یسار نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بالغ کے اوپر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔


بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟ ❁ 
❁ باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

❁ 896 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ [ص:6] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ القِيَامَةِ، أُوتُوا الكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، فَهَذَا اليَوْمُ الَّذِي اخْتَلَفُوا فِيهِ، فَهَدَانَا اللَّهُ فَغَدًا لِلْيَهُودِ، وَبَعْدَ غَدٍ لِلنَّصَارَى فَسَكَتَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ طاؤس نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم ( دنیا میں ) تو بعد میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے، فرق صرف یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں بعد میں۔ تو یہ دن ( جمعہ ) وہ ہے جس کے بارے میں اہل کتاب نے اختلاف کیا، اللہ تعالی نے ہمیں یہ دن بتلا دیا ( اس کے بعد ) دوسرا دن ( ہفتہ ) یہود کا دن ہے اور تیسرا دن ( اتوار ) نصاری کا۔ آپ پھر خاموش ہو گئے۔


❁ بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟
❁ باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

❁ 897 ثُمَّ قَالَ: «حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ، أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا يَغْسِلُ فِيهِ رَأْسَهُ وَجَسَدَهُ»

 

❁ ترجمہ : اس کے بعد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے ( اللہ تعالی کا ) ہر سات دن میں ایک دن جمعہ میں غسل کرے جس میں اپنے سر اور بدن کو دھوئے۔


❁ بَابُ هَلْ عَلَى مَنْ لَمْ يَشْهَدِ الجُمُعَةَ غُسْلٌ مِنَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ وَغَيْرِهِمْ؟
❁ باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

❁ 898 – رَوَاهُ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لِلَّهِ تَعَالَى عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ حَقٌّ، أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا

 

❁ ترجمہ : اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن ( جمعہ ) غسل کرے۔

 

❁ تشریح : یعنی یہ دن جمعہ کا وہ دن ہے جس کی تعظیم عبادت الٰہی کے لیے فرض کی گئی تھی۔ قسطلانی نے چند آثار ذکر کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کو خاص دن اللہ کی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ لیکن بہ سبب نا فرمانی کے اپنے اجتہاد کو دخل دے کر اسے ترک کر دیا اور کہنے لگے کہ ہفتہ کا دن ایسا ہے کہ اس میں اللہ نے بعد پیدائش تمام کائنات کے آرام فرمایا تھا۔ پس ہم کو بھی مناسب ہے کہ ہم ہفتہ کو عبادت کا دن مقرر کریں اور نصاری کہنے لگے کہ اتوار کے دن اللہ نے مخلوق کی پیدائش شروع کی۔ مناسب ہے کہ اس کو ہم اپنی عبادت کا دن ٹھہر الیں۔ پس ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کواللہ نے صراحتاً بتلادیا کہ جمعہ کا ہی دن بہتر دن ہے۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ مدینہ کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے جبکہ ابھی سورۃ جمعہ بھی نازل نہیں ہوئی تھی، ایک دن جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہود ونصاریٰ نے ایک ایک دن جمع ہوکر عبادت کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں، کیوں نہ ہم بھی ایک دن مقرر کر کے اللہ کی عبادت کیا کریں۔ سو انہوں نے عروبہ کا دن مقرر کیا اور اسعد بن زرارہ کو امام بنایا اور جمعہ ادا کیا۔ اس روز یہ آیت نازل ہوئی۔ یٰآیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُو ااِذَا نُودِیَ لَلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ ( الجمعۃ: 9 ) اس کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرزاق سے نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اس کا شاہد اسناد حسن کے ساتھ احمد، ابو داؤدو ابن ماجہ نے نکالا۔ استاذنا مولانا حضرت محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سمیت الجمعۃ لاجتماع الناس فیھا وکان یوم الجمعۃ یسمی العروبۃ یعنی جمعہ اس لیے نام ہوا کہ لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں اور عہد جاہلیت میں اس کا نام یوم العروبہ تھا اس فضیلت کے بارے میں امام ترمذی یہ حدیث لائے ہیں۔ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خیر یوم طلعت فیہ الشمس یوم الجمعۃ فیہ خلق ادم وفیہ ادخل الجنۃ وفیہ اخرج منھا ولا تقوم الساعۃ الا فی یوم الجمعۃ یعنی تمام دنوں میں بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا ہوئے اور اس دن میں جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ان کا جنت سے خروج ہوا اور قیامت بھی اس دن قائم ہوگی۔ فضائل جمعہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، یہ امت ہفتہ واری عید ہے۔ مگر صد افسوس کہ جن حضرات نے دیہات میں جمعہ بند کرانے کی تحریک چلائی اس سے کتنے ہی دیہات کے مسلمان جمعہ سے اس درجہ غافل ہو گئے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ آج جمعہ کا دن ہے۔ اس کی ذمہ داری ان علماءپر عائد ہوتی ہے۔ کاش یہ لوگ حالات موجودہ کا جائزہ لے کر مفادامت پر غور کر سکتے۔


❁ بَابٌ

 ❁ 899 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ بِاللَّيْلِ إِلَى الْمَسَاجِدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینارنے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو۔


❁ 900 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَتْ امْرَأَةٌ لِعُمَرَ تَشْهَدُ صَلَاةَ الصُّبْحِ وَالْعِشَاءِ فِي الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسْجِدِ فَقِيلَ لَهَا لِمَ تَخْرُجِينَ وَقَدْ تَعْلَمِينَ أَنَّ عُمَرَ يَكْرَهُ ذَلِكَ وَيَغَارُ قَالَتْ وَمَا يَمْنَعُهُ أَنْ يَنْهَانِي قَالَ يَمْنَعُهُ قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یوسف بن موسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبید اللہ ا بن عمرنے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھیں جو صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ باوجوداس علم کے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو مکروہ جانتے ہیں اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کر دیتے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔


❁ بَابُ الرُّخْصَةِ إِنْ لَمْ يَحْضُرِ الجُمُعَةَ فِي المَطَرِ
❁ باب: بارش ہو رہی ہو تو نماز جمعہ واجب نہیں

❁ 901 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ابْنُ عَمِّ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ إِذَا قُلْتَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَلَا تَقُلْ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ قُلْ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا قَالَ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي إِنَّ الْجُمْعَةَ عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالدَّحَضِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں صاحب الزیادی عبدالحمید نے خبر دی، کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن حارث نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااپنے مؤذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ اشھد ان محمدا رسول اللہ کے بعد حی علی الصلوۃ ( نماز کی طرف آؤ ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ صلوا فی بیوتکم ( اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو ) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا تھا۔ بے شک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے باہر نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔

 

تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے۔ مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے لہذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔


❁ بَابُ مِنْ أَيْنَ تُؤْتَى الجُمُعَةُ، وَعَلَى مَنْ تَجِبُ
❁ باب: جمعہ کے لئے کتنی دور والوں کو آنا چاہئے

❁ 902 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ كَانَ النَّاسُ يَنْتَابُونَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ مَنَازِلِهِمْ وَالْعَوَالِيِّ فَيَأْتُونَ فِي الْغُبَارِ يُصِيبُهُمْ الْغُبَارُ وَالْعَرَقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُمْ الْعَرَقُ فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنْسَانٌ مِنْهُمْ وَهُوَ عِنْدِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَنَّكُمْ تَطَهَّرْتُمْ لِيَوْمِكُمْ هَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ نے، آپ نے کہا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاۃں سے ( مسجد نبوی میں ) باری باری آیا کرتے تھے۔ لوگ گردوغبار میں چلے آتے، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔ اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں تھا۔ اسی حالت میں ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے فر مایا کہ تم لوگ اس دن ( جمعہ میں ) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔

 

❁ تشریح : جمعہ کے دن غسل کرنا موجب اجر وثواب ہے مگر یہ غسل واجب ہے یا مستحب، اس میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں اس کے لیے لفظ واجب استعمال ہوا ہے اور بعض میں صیغہ امر بھی ہے جس سے اس کا وجوب ثابت ہوتا ہے مگر ایک روایت میں سمرہ ابن جندب رضی اللہ عنہ سے ان لفظوں میں بھی مروی ہے۔ ان نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال من توضا للجمعۃ فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلک افضل ( رواہ الخمسۃ الا ابن ماجۃ ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے لیے وضو کیا پس اچھا کیا اور بہت ہی اچھا کیا اور جس نے غسل بھی کر لیا پس یہ غسل افضل ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے اسی بناءپر علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ قال النووی فحکی وجوبہ عن طائفۃ من السلف حکوہ عن بعض الصحابۃ وبہ قال اھل الظاھر یعنی ( حدیث بخاری کے تحت ) سلف میں سے ایک جماعت سے غسل جمعہ کا وجوب نقل ہوا ہے بعض صحابہ سے بھی یہ منقول ہے اور اہل ظاہر کا یہی فتوی ہے۔ مگر دوسری روایت کی بنا پر حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وذھب جمھور العلماءمن السلف والخلف وفقھاءالامصار الی انھا مستحب ( نیل ) یعنی سلف اور خلف سے جمہور علماءفقہاءامصار اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب ہے جن روایات میں حق اور واجب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاکید ہے اور وہ وجوب مراد نہیں ہے جن کے ترک سے گناہ لازم آئے ( نیل ) ہاں جن لوگوں کا یہ حال ہو وہ ہفتہ بھر نہ نہاتے ہوں اور ان کے جسم ولباس سے بدبو آرہی ہو، ان کے لیے غسل جمعہ ضروری ہے۔ حضرت علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قلت قد جاءفی ھذا الباب احادیث مختلفۃ بعضھا یدل علی ان الغسل یوم الجمعۃ واجب وبعضھا یدل علی انہ مستحب والظاھر عندی انہ سنۃ موکدۃ وبھذا یحصل الجمع بین الاحادیث المختلفۃ واللہ تعالی اعلم ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مختلف احادیث آئی ہیں بعض سے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے اور بعض سے صرف استحباب اور میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہ ہے کہ غسل جمعہ سنت مؤکدہ ہے اور اسی طرح سے مختلف احادیث واردہ میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل دیہات جمعہ کے لیے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءان کے لیے باعث صد فخر تھی اور وہ اہل دیہات بھی ایسے کہ اونٹ اور بکریوں کے چرانے والے، عسرت کی زندگی گزارنے والے، بعض دفعہ غسل کے لیے موقع بھی نہ ملتا اور بدن کے پسینوں کی بو آتی رہتی تھی۔ اگر اسلام میں اہل دیہات کے لیے جمعہ کی ادائیگی معاف ہوتی تو ضرور کبھی نہ کبھی آنحضرت ان سے فرما دیتے کہ تم لوگ اس قدر محنت مشقت کیوں اٹھاتے ہو، تمہارے لیے جمعہ کی حاضری فرض نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی کبھی ایسا نہیں فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ہاں جن کوخود صاحب شریعت نے مستثنی فرما دیا، ان پر فرض نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غسل جمعہ بہر حال ہونا چاہیے کیونکہ اسلام میں صفائی ستھرائی کی بڑی تاکید ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَھَّرِینَ ( البقرۃ:222 ) “بے شک اللہ پاک توبہ کرنے والوں اور پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ” غسل بھی پاکی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ بغیر پاکی حاصل کئے نماز ہی درست نہ ہوگی جس میں بوقت ضرورت استنجائ، غسل، وضو سب طریقے داخل ہیں۔ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الطھور شطر الایمان۔ اقول المراد بالایمان ھھنا ھیئۃ نفسانیۃ مرکبۃ من نور الطھارۃ والاخبات والاحسان اوضح منہ فی ہذا المعنی ولا شک ان الطھور شطرہ ( حجۃ اللہ البالغۃ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “طہارت نصف ایمان ہے” میں کہتاہوں کہ یہاں ایمان سے ایک ایسی ہیئت نفسانیہ مراد ہے جو نور طہارت اور خشوع سے مرکب ہے اور لفظ احسان اس معنی میں ایمان سے زیادہ واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طہارت اس کانصف ہے۔ خلاصۃ المرام یہ کہ جمعہ کے دن خاص طور پر نہا دھوکر خوب پاک صاف ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا موجب صداجر وثواب ہے اور نہانے دھونے سے صفائی ستھرائی کا حصول صحت جسمانی کے لیے بھی مفید ہے۔ جو لوگ روز انہ غسل کے عادی ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ہے مگر جو لوگ کسی وجہ سے روزانہ غسل نہیں کر سکتے کم از کم جمعہ کے دن وہ ضرورضرورغسل کر کے صفائی حاصل کریں۔ جمعہ کے دن غسل کے علاوہ بوقت جنابت مرد وعورت دونوں کے لیے غسل واجب ہے، یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے آچکا ہے۔


❁ بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ
❁ باب: جمعہ کا وقت کب شروع ہوگا

❁ 903 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ أَنَّهُ سَأَلَ عَمْرَةَ عَنْ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَتْ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَانَ النَّاسُ مَهَنَةَ أَنْفُسِهِمْ وَكَانُوا إِذَا رَاحُوا إِلَى الْجُمُعَةِ رَاحُوا فِي هَيْئَتِهِمْ فَقِيلَ لَهُمْ لَوْ اغْتَسَلْتُمْ

 

ترجمہ : ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یحی بن سعید نے خبر دی کہ انہوں نے عمرہ بن ت عبد الرحمن سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ لوگ اپنے کاموں میں مشغول رہتے اور جمعہ کے لیے اسی حالت ( میل کچیل ) میں چلے آتے، اس لیے ان سے کہا گیا کہ کاش تم لوگ ( کبھی ) غسل کر لیا کرتے۔

 

❁ تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت لفظ حدیث کانو اذا ارادوا الی الجمعۃ سے ہے۔ علامہ عینی فرماتے ہیں لان الرواح لا یکون الابعد الزوال امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ صحابہ کرام جمعہ کی نماز کے لیے زوال کے بعد آیا کرتے تھے معلوم ہوا کہ جمعہ کا وقت بعد زوال ہوتا ہے۔


❁ بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ
❁ باب: جمعہ کا وقت کب شروع ہوگا

❁ 904 حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سریج بن نعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے عثمان ا بن عبد الرحمن بن عثمان تیمی نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔


❁ بَابُ وَقْتُ الجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ
❁ باب: جمعہ کا وقت کب شروع ہوگا

❁ 905 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كُنَّا نُبَكِّرُ بِالْجُمُعَةِ وَنَقِيلُ بَعْدَ الْجُمُعَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں حمید طویل نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جمعہ سویرے پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : امام بخاری نے وہی مذہب اختیار کیا جو جمہور کا ہے کہ جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ ظہر کا قائم مقام ہے بعض احادیث سے جمعہ قبل الزوال بھی جائز معلوم ہوتا ہے یہاں لفظ نبکر بالجمعۃ یعنی صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جایا کرتے تھے ( اس سے قبل الزوال کے لیے گنجائش نکلتی ہے ) اس کے بارے میں علامہ امام شوکانی مرحوم فرماتے ہیں۔ ظاھر ذلک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکر النھار قال الحافظ لکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی فعل الشئی فی اول وقتہ او تقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا المعنی انھم کانوا یبدؤن بالصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر فانھم کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد۔ یعنی حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمعہ اول دن میں ادا کر لیا کر تے تھے۔ حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ہر دو احادیث میں تعارض پیدا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے۔ یہ امر محقق ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کا اوّل وقت میں کرنے پر بولا جاتا ہے یا اس کا غیر پر مقدم کرنا۔ یہاں یہی مراد ہے معنی یہ ہواکہ وہ قیلولہ سے قبل جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے بخلاف ظہر کے کیونکہ گرمیوں میں ان کی عادت یہ تھی کہ پہلے قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تا کہ ٹھنڈا وقت کرنے کی مشروعیت پر عمل ہو۔ مگر لفظ حین تمیل الشمس ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھلنے پر جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے ) پر علامہ شوکانی فرماتے ہیں فیہ اشعار بمواظبتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صلوۃ الجمعۃ اذا زالت الشمس یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ زوال شمس کے بعد نماز جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے امام بخاری اور جمہور کا مسلک یہی ہے، اگر چہ بعض صحابہ اور سلف سے زوال سے پہلے بھی جمعہ کا جواز منقول ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ترجیح اسی مسلک کو حاصل ہے۔ ایسا ہی علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واماما ذھب الیہ بعضھم من انھا تجوز قبل الزوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح واللہ اعلم ( تحفۃ الاحوذی )


❁ بَابُ إِذَا اشْتَدَّ الحَرُّ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ جب سخت گرمی میں آپڑے

❁ 906 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ هُوَ خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَدَّ الْبَرْدُ بَكَّرَ بِالصَّلَاةِ وَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ يَعْنِي الْجُمُعَةَ قَالَ يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ أَخْبَرَنَا أَبُو خَلْدَةَ فَقَالَ بِالصَّلَاةِ وَلَمْ يَذْكُرْ الْجُمُعَةَ وَقَالَ بِشْرُ بْنُ ثَابِتٍ حَدَّثَنَا أَبُو خَلْدَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا أَمِيرٌ الْجُمُعَةَ ثُمَّ قَالَ لِأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ جن کا نام خالد بن دینار ہے، نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے پڑھ لیتے۔ لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت نماز پڑھتے۔ آپ کی مراد جمعہ کی نماز سے تھی۔ یونس بن بکیر نے کہا کہ ہمیں ابوخلدہ نے خبر دی۔ انہوں نے صرف نماز کہا۔ جمعہ کا ذکر نہیں کیا اور بشر بن ثابت نے کہا کہ ہم سے ابو خلدہ نے بیان کیا کہ امیر نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی۔ پھر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے؟

 

❁ تشریح : امیر سے حکم بن ابو عقیل ثقفی مراد ہیں جو حجاج بن یوسف کی طرف سے نائب تھے استدل بہ ابن بطال علی ان وقت الجمعۃ وقت الظھر لان انسا سوی بینھما فی جوابہ للحکم المذکور حین قیل کیف کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الظھر ( یعنی ) اس سے ابن بطال نے استدلال کیا کہ جمعہ اور ظہر کا وقت ایک ہی ہے۔ کیونکہ حضرت انس نے جواب میں جمعہ اور ظہر کو برابر کیا جبکہ ان سے پوچھا گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز کس وقت ادا فرمایا کرتے تھے؟


❁ بَابُ المَشْيِ إِلَى الجُمُعَةِ
 ❁ باب: جمعہ کی نماز کے لئے چلنے کا بیان

❁ 907 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ قَالَ أَدْرَكَنِي أَبُو عَبْسٍ وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى الْجُمُعَةِ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں ابوعبس رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کے قدم خدا کی راہ میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔

 

❁ تشریح : حدیث اور ترجمہ میں مطابقت لفظ فی سبیل اللہ سے ہوتی ہے اس لیے جمعہ کے لیے چلنا فی سبیل اللہ ہی میں چلنا ہے گویا حضرت ابو عبس عبد الرحمن انصاری بدری صحابی مشہور نے جمعہ کو بھی جہاد کے حکم میں داخل فرمایا۔ پھر افسوس ہے ان حضرات پر جنہوں نے کتنے ہی دیہات میں جمعہ نہ ہونے کا فتوی دے کر دیہاتی مسلمانوں کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا۔ دیہات میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہروں میں جمعہ ادا کرنے کے لیے جائیں۔ وہ نماز پنج وقتہ تک میں سستی کرتے ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے ان حضرات علماءنے چھوٹ دے دی جس سے ان کو کافی سہارا مل گیا۔ انا للّٰہ۔


 ❁ بَابُ المَشْيِ إِلَى الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کی نماز کے لئے چلنے کا بیان

❁ 908 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ قَالَ الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَا تَأْتُوهَا تَسْعَوْنَ وَأْتُوهَا تَمْشُونَ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةُ فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے سعید اور ابوسلمہ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( دوسری سند سے بیان کیا ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انھیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑ تے ہوئے مت آؤ بلکہ ( اپنی معمولی رفتارسے ) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ ( امام کے ساتھ ) پالواسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تواسے بعد میں پورا کرو۔

 

❁ تشریح : یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز بھی ایک نماز ہے اور اس کے لیے دوڑنا منع ہو کر معمولی چال سے چلنے کا حکم ہوا یہی ترجمہ باب ہے۔


❁ بَابُ المَشْيِ إِلَى الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کی نماز کے لئے چلنے کا بیان

❁ 909 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي وَعَلَيْكُمْ السَّكِينَةُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ بن قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مبارک نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن ابی قتادہ نے ( امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ) عبد اللہ نے اپنے باپ ابوقتادہ سے روایت کی ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی ہیں کہ آپ نے فرمایا جب تک مجھے دیکھ نہ لو صف بندی کے لیے کھڑے نہ ہوا کرو اور آہستگی سے چلنا لازم کر لو۔

 

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے احتیاط کی راہ سے اس میں شک کیاکہ یہ حدیث ابو قتادہ کے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ سے موصولا روایت کی یا عبد اللہ نے اس کو مرسلاً روایت کیا، شاید یہ حدیث انہوں نے اس کتاب میں اپنی یاد سے لکھی، اس وجہ سے ان کو شک رہا لیکن اسماعیلی نے اسی سند سے اس کو نکالا اس میں شک نہیں ہے عبداللہ سے انہوں نے ابو قتادہ سے روایت کی موصولاً ایسے بہت سے بیانات سے واضح ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ روایت حدیث میں انتہا ئی احتیاط ملحوظ رکھتے تھے پھر تف ہے ان لوگوں پر جو صحیح مرفوع احادیث کا انکار کر تے ہیں ھداھم اللہ۔


❁ بَابٌ: لاَ يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: نماز جمعہ کے دن جہاں دو آدمی بیٹھے ہوں

❁ 910 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ وَدِيعَةَ حَدَّثَنَا سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَتَطَهَّرَ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ ثُمَّ ادَّهَنَ أَوْ مَسَّ مِنْ طِيبٍ ثُمَّ رَاحَ فَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ فَصَلَّى مَا كُتِبَ لَهُ ثُمَّ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ أَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں ا بن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ ابو سعید نے، انہیں عبد اللہ بن ودیعہ نے، انہیں سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ میں سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔

 

❁ تشریح : آداب جمعہ میں سے ضرورادب ہے کہ آنے والا نہایت ہی ادب ومتانت کے ساتھ جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے۔ کسی کی گردن پھلانگ کر آگے نہ بڑھے کیونکہ یہ شرعا ممنوع اور معیوب ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں کسی کو ایذا پہنچانا خواہ وہ ایذا بنام عبادت نمازہی کیوں نہ ہو، وہ عند اللہ گناہ ہے۔ اسی مضمون کی اگلی حدیث میں مزید تفصیل آرہی ہے۔


❁ بَابٌ لاَ يُقِيمُ الرَّجُلُ أَخَاهُ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَيَقْعُدُ فِي مَكَانِهِ
❁ باب: کسی مسلمان کو اس کی جگہ سے اٹھانا

❁ 911 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ قَالَ أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ يَزِيدَ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ سَمِعْتُ نَافِعًا يَقُولُ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ أَخَاهُ مِنْ مَقْعَدِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ قُلْتُ لِنَافِعٍ الْجُمُعَةَ قَالَ الْجُمُعَةَ وَغَيْرَهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی رحمہ اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں مخلد بن یزید نے خبر دی، کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، کہا کہ میں نے نافع سے سنا، انہوں نے کہا میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کو اٹھا کر اس کی جگہ خود بیٹھ جائے۔ میں نے نافع سے پوچھا کہ کیا یہ جمعہ کے لیے ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جمعہ اور غیر جمعہ سب کے لیے یہی حکم ہے۔

 

❁ تشریح : تعجب ہے ان لوگوں پر جو اللہ کی مساجد حتیٰ کہ کعبہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ثواب کے لیے دوڑتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچا کر ان کی جگہ پر قبضہ کر تے ہیںبلکہ بعض دفعہ جھگڑا فساد تک نوبت پہنچاکر پھر وہاں نماز پڑھتے اور اپنے نفس کو خوش کرتے ہیں کہ وہ عبادت الٰہی کر رہے ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ انہوں نے عبادت کا صحیح مفہوم نہیں سمجھا بلکہ بعض نمازی تو ایسے ہیں کہ ان کو حقیقی عبادت کا پتہ نہیں ہے اللھم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم۔ یہاں مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مسجد خدا کی ہے کسی کے باوا دادا کی ملک نہیں جو نمازی پہلے آیا اور کسی جگہ بیٹھ گیا وہی اس جگہ کا حقدار ہے، اب بادشاہ یا وزیربھی آئے تو اس کو اٹھانے کا حق نہیں رکھتا۔ ( وحیدی )


❁ بَابُ الأَذَانِ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن اذان کا بیان

❁ 912 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ كَانَ النِّدَاءُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَوَّلُهُ إِذَا جَلَسَ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرَ النَّاسُ زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ الزَّوْرَاءُ مَوْضِعٌ بِالسُّوقِ بِالْمَدِينَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ اصل اذان وہی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وشیخین کے مبارک زمانوں میں امام کے منبر پر آنے کے وقت دی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بازار میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا۔تاکہ وقت سے لوگ جمعہ کے لیے تیار ہو سکیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح بوقت ضرورت مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان اگر اب بھی دی جائے تو جائز ہے مگر جہاں ضرورت نہ ہو وہاں سنت کے مطابق صرف خطبہ ہی کے وقت خوب بلند آواز سے ایک ہی اذان دینی چاہیے۔


❁ 913 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ أَنَّ الَّذِي زَادَ التَّأْذِينَ الثَّالِثَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ وَلَمْ يَكُنْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنٌ غَيْرَ وَاحِدٍ وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَعْنِي عَلَى الْمِنْبَرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابوسلمہ ماجشون نے بیا کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ جمعہ میں تیسری اذان حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے بڑھائی جبکہ مدینہ میں لوگ زیادہ ہو گئے تھے جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہی مؤذن تھے۔ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ) جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی جب امام منبر پر بیٹھتا۔

 

❁ تشریح : اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر جاتے توتین مؤذن ایک کے بعد ایک اذان دیتے۔ ایک مؤذن کا مطلب یہ کہ جمعہ کی اذان خاص ایک مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ ہی دیا کرتے تھے ورنہ ویسے تو عہد نبوی میںکئی مؤذن مقرر تھے جو باری باری اپنے وقتوں پر اذان دیا کرتے تھے۔


❁ بَابٌ يُجِيبُ الإِمَامُ عَلَى المِنْبَرِ إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ
❁ باب: امام منبر پر بیٹھے اذان کا جواب دے

❁ 914 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ وَهُوَ جَالِسٌ عَلَى الْمِنْبَرِ أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ مُعَاوِيَةُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ وَأَنَا فَقَالَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ وَأَنَا فَلَمَّا أَنْ قَضَى التَّأْذِينَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا الْمَجْلِسِ حِينَ أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ يَقُولُ مَا سَمِعْتُمْ مِنِّي مِنْ مَقَالَتِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو بکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انہیں ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے، انہوں نے کہا میں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو دیکھا آپ منبر پر بیٹھے، مؤذن نے اذان دی “اللہ اکبر اللہ اکبر” معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا “اللہ اکبر اللہ اکبر” مؤذن نے کہا “اشہد ان لا الہ الا اللہ” معاویہ نے جواب دیا “وانا” اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا “اشہد ان محمدارسول اللہ” معاویہ نے جواب دیا “وانا” اور میں بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں “ جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے کہا حاضرین! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ بیٹھے تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرمارہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا۔ اذان کے جواب میں سننے والے بھی وہی الفاظ کہتے جائیںجومؤذن سے سنتے ہیں، اس طرح ان کو وہی ثواب ملے گا جو مؤذن کو ملتا ہے۔


❁ بَابُ الجُلُوسِ عَلَى المِنْبَرِ عِنْدَ التَّأْذِينِ
❁ باب: جمعہ کی اذان ختم ہونے تک امام منبر پر رہے

❁ 915 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ أَنَّ التَّأْذِينَ الثَّانِيَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَمَرَ بِهِ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہ سائب بن یزید نے انہیں خبر دی کہ جمعہ کی دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس وقت دیا جب نمازی بہت زیادہ ہو گئے تھے اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کر تاتھا۔

 

❁ تشریح : صاحب تفہیم البخاری حنفی دیوبندی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی اذان کا طریقہ پنج وقتہ اذان سے مختلف تھا۔ اور دنوں میں اذان نماز سے کچھ پہلے دی جاتی تھی۔ لیکن جمعہ کی اذان کے ساتھ ہی خطبہ شروع ہو جاتا تھا اور اس کے بعد فوراً نماز شروع کر دی جاتی۔ یہ یاد رہے کہ آج کل جمعہ کا خطبہ شروع ہونے پر امام کے سامنے آہستہ سے مؤذن جواذان دیتے ہیں۔ یہ خلاف سنت ہے۔ خطبہ کی اذان بھی بلند جگہ پر بلند آوازہونی چاہیے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے کوفہ والوں کا رد کیا جو کہتے ہیں کہ خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔


❁ بَابُ التَّأْذِينِ عِنْدَ الخُطْبَةِ
❁ باب: جمعہ کی اذان خطبہ کے وقت دینا

❁ 916 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ يَقُولُ إِنَّ الْأَذَانَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَانَ أَوَّلُهُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمَّا كَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَثُرُوا أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تھا کہ جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔

 

❁ تشریح : تیسری اس کو اس لیے کہا کہ تکبیر بھی اذان ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا کہ جمعہ میں ایک پہلی اذان ہوتی ہے پھر جب امام منبر پر جاتا ہے تو دوسری اذان دیتے ہیں پھر نماز شروع کرتے وقت تیسری اذان یعنی تکبیر کہتے ہیں گوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل بدعت نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ خلفاءراشدین میں سے ہیں۔مگر انہوں نے یہ اذان ایک ضرورت سے بڑھائی کہ مدینہ کی آبادی دور دور تک پہنچ گئی تھی اور خطبہ کی اذان سب کے جمع ہونے کے لیے کافی نہ تھی،آتے آتے ہی نماز ختم ہو جاتی۔ مگر جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں بموجب سنت نبوی صرف خطبہ ہی کی اذان دینا چاہیے اورخوب بلند آواز سے نہ کہ جیسا جاہل لوگ خطبہ کے وقت آہستہ آہستہ اذان دیتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا تیسری اذان بدعت ہے۔ یعنی ایک نئی بات ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہ تھی اب اس سنت نبوی کو سوائے اہل حدیث کے اور کوئی بجا نہیں لاتے۔ جہاں دیکھو سنت عثمانی کا رواج ہے ( مولانا وحید الزماں ) حضرت عبد اللہ بن عمر نے جو اسے بدعت کہا اس کی توجیہ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: فیحتمل ان یکون ذالک علی سبیل الانکار ویحتمل ان یرید انہ لم یکن فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکل مالم یکن فی زمنہ یسمی بدعۃ۔ ( نیل الاوطار ) یعنی احتمال ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کے طور پر ایسا کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ یہ اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ تھی اور جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو ( لغوی حیثیت سے ) بدعت یعنی نئی چیز کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلغنی ان اھل المغرب الادنی الان لاتاذین عندھم سوی مرۃ یعنی مجھے خبر پہنچی ہے کہ مغرب والوں کا عمل اب بھی صرف سنت نبوی یعنی ایک ہی اذان پر ہے۔ جمہورعلماءاہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ سنت نبوی پر عمل بہتر ہے اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے جیسی ضرورت محسوس ہو تو مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان کہہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اذان عثمانی کو بھی مسنون قرار دیا ان کا قول محل نظر ہے۔چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں:ان الاستدلال علی کون الاذان الثالث ھو من مجتھدات عثمان امرا مسنونا لیس بتام الاتری ان ابن عمر قال الاذان الاول یوم الجمعۃ بدعۃ فلو کان ھذا الاستدلال تاما وکان الاذان الثالث امرا مسنونا لم یطلق علیہ لفظ البدعۃ لا علی سبیل الانکار ولا علی سبیل غیرالانکار فان الامر المسنون لا یجوز ان یطلق علیہ لفظ البدعۃ بای معنی کان فتفکر۔ ( تحفۃ الاحوذی )


❁ بَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ
 ❁ باب: خطبہ منبر پر پڑھنا

❁ 917 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيُّ الْقُرَشِيُّ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمِ بْنُ دِينَارٍ أَنَّ رِجَالًا أَتَوْا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ وَقَدْ امْتَرَوْا فِي الْمِنْبَرِ مِمَّ عُودُهُ فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مِمَّا هُوَ وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ أَوَّلَ يَوْمٍ وُضِعَ وَأَوَّلَ يَوْمٍ جَلَسَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى فُلَانَةَ امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ سَمَّاهَا سَهْلٌ مُرِي غُلَامَكِ النَّجَّارَ أَنْ يَعْمَلَ لِي أَعْوَادًا أَجْلِسُ عَلَيْهِنَّ إِذَا كَلَّمْتُ النَّاسَ فَأَمَرَتْهُ فَعَمِلَهَا مِنْ طَرْفَاءِ الْغَابَةِ ثُمَّ جَاءَ بِهَا فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ بِهَا فَوُضِعَتْ هَا هُنَا ثُمَّ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَيْهَا وَكَبَّرَ وَهُوَ عَلَيْهَا ثُمَّ رَكَعَ وَهُوَ عَلَيْهَا ثُمَّ نَزَلَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ فِي أَصْلِ الْمِنْبَرِ ثُمَّ عَادَ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّمَا صَنَعْتُ هَذَا لِتَأْتَمُّوا وَلِتَعَلَّمُوا صَلَاتِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبد القاری قرشی اسکندرانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان کا آپس میں اس پراختلاف تھا کہ منبر نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی لکڑی کس درخت کی تھی۔ اس لیے سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے میں جانتا ہوں کہ منبر نبوی کس لکڑی کا تھا۔ پہلے دن جب وہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو میں اس کو بھی جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فلاں عورت کے پاس جن کا حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نام بھی بتا یا تھا۔ آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے میرے لیے لکڑی جوڑ دینے کے لیے کہیں۔ تاکہ جب مجھے لوگوں سے کچھ کہنا ہوتو اس پر بیٹھا کروں چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا اور وہ غابہ کے جھاؤ کی لکڑی سے اسے بنا کر لایا۔ انصاری خاتون نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہاں رکھوایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ( کھڑے ہو کر ) نماز پڑھائی۔ اسی پر کھڑے کھڑے تکبیر کہی۔ اسی پر رکوع کیا۔ پھر الٹے پاؤں لوٹے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو خطاب فرمایا۔ لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنی سیکھ لو۔

 

❁ تشریح : یعنی کھڑے کھڑے ان لکڑیوں پر وعظ کہا کروں جب بیٹھنے کی ضرورت ہو تو ان پر بیٹھ جاؤں۔ پس ترجمہ باب نکل آیا بعضوں نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو طبرانی نے نکالا کہ آپ نے اس منبر پر خطبہ پڑھا۔ غابہ نامی ایک گاؤں مدینہ کے قریب تھا وہاں جھاؤ کے درخت بہت تھے۔ آپ اس لیے الٹے پاؤں اترے تاکہ منہ قبلہ ہی کی طرف رہے۔


❁ بَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ
❁ باب: خطبہ منبر پر پڑھنا

❁ 918 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَنَسٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كَانَ جِذْعٌ يَقُومُ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا وُضِعَ لَهُ الْمِنْبَرُ سَمِعْنَا لِلْجِذْعِ مِثْلَ أَصْوَاتِ الْعِشَارِ حَتَّى نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ قَالَ سُلَيْمَانُ عَنْ يَحْيَى أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یحیٰ بن سعید نے خبر دی، کہا کہ مجھے حفص بن عبد اللہ بن انس نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک کھجور کا تنا تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر بن گیا ( آپ نے اس تنے پر ٹیک نہیں لگایا ) تو ہم نے اس سے رونے کی آواز سنی جیسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی آواز کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر اپنا ہاتھ اس پر رکھا ( تب وہ آواز موقوف ہو ئی ) اور سلیمان نے یحییٰ سے یوں حدیث بیان کی کہ مجھے حفص بن عبید اللہ بن انس نے خبر دی اور انہوں نے جابر سے سنا۔

 

❁ تشریح : سلیمان کی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے علامات النبوۃ میں نکالا اس حدیث میں انس کے بیٹے کا نام مذکور ہے۔ یہ لکڑی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں رونے لگی جب آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اس کو تسلی ہو گئی کیا مومنوں کو اس لکڑی کے برابر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں۔ جو آپ کے کلام پر دوسروں کی رائے اور قیاس کو مقدم سمجھتے ہیں ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں اس لکڑی کا رونا یہ معجزات نبوی میں سے ہے۔


❁ بَابُ الخُطْبَةِ عَلَى المِنْبَرِ
❁ باب: خطبہ منبر پر پڑھنا

❁ 919 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے باپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو جمعہ کے لیے آئے وہ پہلے غسل کر لیا کرے۔

 

❁ تشریح : ( اس حدیث سے منبر ثابت ہوا )


❁ بَابُ الخُطْبَةِ قَائِمًا
❁ باب: خطبہ کھڑے ہو کر پڑھنا

❁ 920 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ يَقْعُدُ ثُمَّ يَقُومُ كَمَا تَفْعَلُونَ الْآنَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید اللہ بن عمر قواریری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن عمر نے نافع سے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو۔

 

❁ تشریح : شافعیہ نے کہا کہ قیام خطبہ کی شرط ہے کیونکہ قرآن شریف ( وَتَرَکُوکَ قَائِمًا ) ( الجمعۃ:11 ) اور حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے ہمیشہ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا۔ عبد الرحمن بن ابی الحکم بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا تھا تو کعب بن عجرہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا۔


❁ بَابٌ يَسْتَقْبِلُ الإِمَامُ القَوْمَ، وَاسْتِقْبَالِ النَّاسِ الإِمَامَ إِذَا خَطَبَ
❁ باب: امام خطبہ دے تو لوگ امام کی طرف رخ کریں

❁ 921 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ هِلاَلِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، قَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى المِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ»

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحی بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم سب آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔

 

❁ تشریح : اور سب نے آپ کی طرف منہ کیا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ خطبہ کا اولین مقصد امام کے خطاب کو پوری توجہ سے سننا اور دل میں جگہ دینا اور اس پر عمل کرنے کا عزم کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امام کا خطاب اس طور پر ہو کہ سامعین اسے سمجھ لیں۔ اسی سے سامعین کی مادری زبان میں خطبہ ہونا ثابت ہوتا ہے یعنی آیات واحادیث پڑھ پڑھ کر سامعین کی مادری زبان میں سمجھائی جائیں اور سامعین امام کی طرف منہ کر کے پوری توجہ سے سنیں۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 922 وَقَالَ مَحْمُودٌ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ المُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ، قُلْتُ: مَا شَأْنُ النَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: إِلَى السَّمَاءِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ؟ فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا: أَيْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَأَطَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِدًّا حَتَّى تَجَلَّانِي الغَشْيُ، وَإِلَى جَنْبِي قِرْبَةٌ فِيهَا مَاءٌ، فَفَتَحْتُهَا، فَجَعَلْتُ أَصُبُّ مِنْهَا عَلَى رَأْسِي، فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ، وَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ» قَالَتْ: – وَلَغَطَ نِسْوَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَانْكَفَأْتُ إِلَيْهِنَّ لِأُسَكِّتَهُنَّ، فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ: مَا قَالَ؟ قَالَتْ: قَالَ -: مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَكُنْ أُرِيتُهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَإِنَّهُ قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي القُبُورِ، مِثْلَ – أَوْ قَرِيبَ مِنْ – فِتْنَةِ المَسِيحِ الدَّجَّالِ، يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا المُؤْمِنُ – أَوْ قَالَ: المُوقِنُ شَكَّ هِشَامٌ – فَيَقُولُ: هُوَ رَسُولُ اللَّهِ، هُوَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالهُدَى، فَآمَنَّا وَأَجَبْنَا وَاتَّبَعْنَا وَصَدَّقْنَا، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ كُنَّا نَعْلَمُ إِنْ كُنْتَ لَتُؤْمِنُ بِهِ، وَأَمَّا المُنَافِقُ – أَوْ قَالَ: المُرْتَابُ، شَكَّ هِشَامٌ – فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُولُ: لاَ أَدْرِي، سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُ قَالَ هِشَامٌ: فَلَقَدْ قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ فَأَوْعَيْتُهُ، غَيْرَ أَنَّهَا ذَكَرَتْ مَا يُغَلِّظُ عَلَيْهِ ‏

 

❁ ترجمہ : اور محمود بن غیلان ( امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ) نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بن ت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے ( اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ ) یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا ( کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا ) اسماء نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا اما بعد! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں ( تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگرمیں آپ کا کلام نہ سن سکی ) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایاگیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہوگی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا ( ہشام کو شک تھا ) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہاتھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔

 

❁ تشریح : یہ حدیث یہاں اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں اما بعد کا لفظ استعمال فرمایا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ خطبہ میں اما بعد کہنا سنت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ کہا تھا۔ آپ کا “فصل خطاب”بھی یہی ہے پہلے خداوند قدوس کی حمد وتعریف پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وسلام بھیجا گیا اور اما بعد نے اس تمہید کو اصل خطاب سے جدا کر دیا۔ اما بعد کا مطلب یہ ہے کہ حمد وصلوۃ کے بعد اب اصل خطبہ شروع ہوگا۔


 ❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 923 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَالٍ – أَوْ سَبْيٍ – فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَى رِجَالًا وَتَرَكَ رِجَالًا، فَبَلَغَهُ أَنَّ الَّذِينَ تَرَكَ عَتَبُوا، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي [ص:11] أُعْطِي، وَلَكِنْ أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا أَرَى فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الجَزَعِ وَالهَلَعِ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الغِنَى وَالخَيْرِ، فِيهِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ» فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حمر النعم

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیاکہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد وتعریف کی پھر فرمایا اما بعد! خدا کی قسم میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالی نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کر تاہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ خدا کی قسم میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔

 

❁ تشریح : سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا ( وحیدی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی لفظ اما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 924 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ ذَاتَ لَيْلَةٍ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلَّوْا مَعَهُ فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ فَلَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَتَشَهَّدَ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ مَكَانُكُمْ لَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ تَابَعَهُ يُونُسُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ صبح کو ان صحابہ ( رضوان اللہ علہیم اجمعین ) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ ( دوسرے دن ) اس سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے پیچھے نماز پرھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ اما بعد! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔

 

❁ تشریح : یہ حدیث کئی جگہ آئی ہے یہاں اس مقصد کے تحت لائی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ میں لفظ اما بعد استعمال فرمایا۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 925 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَشِيَّةً بَعْدَ الصَّلَاةِ فَتَشَهَّدَ وَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ تَابَعَهُ أَبُو مُعَاوِيَةَ وَأَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ تَابَعَهُ الْعَدَنِيُّ عَنْ سُفْيَانَ فِي أَمَّا بَعْدُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی، پھر فرمایا اما بعد! زہری کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابو معاویہ اور ابو اسامہ نے ہشام سے کی، انہوں نے اپنے والد عروہ سے اس کی روایت کی، انہوں نے ابوحمید سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا امابعد! اور ابوالیمان کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن یحییٰ نے بھی سفیان سے روایت کیا۔ اس میں صرف امابعد ہے۔

 

❁ تشریح : یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جسے خود حضرت امام رحمہ اللہ نے ایمان اور نذور میں نکالا ہے۔ ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن البتیہ نامی ایک صحابی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ زکوۃ کا مال لایا تو بعض چیزوں کی نسبت کہنے لگا کہ یہ مجھ کو بطور تحفہ ملی ہیں، اس وقت آپ نے عشاءکے بعد یہ خطبہ سنایا اور بتایا کہ اس طرح سرکاری سفر میں تم کو ذاتی تحائف لینے کا حق نہیں ہے جو بھی ملا ہے وہ سب بیت المال میں داخل کرنا ہوگا۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 926 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ يَقُولُ أَمَّا بَعْدُ تَابَعَهُ الزُّبَيْدِيُّ عَنْ الزُّهْرِيِّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ میں نے سنا کہ کلمہ شہادت کے بعد آپ نے فرمایا امابعد! شعیب کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے کی ہے۔

 

❁ تشریح : زبیدی کی روایت کو طبرانی نے شامیوں کی سند میں وصل کیا ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ
❁ باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا

❁ 927 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ الْغَسِيلِ قَالَ حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ وَكَانَ آخِرَ مَجْلِسٍ جَلَسَهُ مُتَعَطِّفًا مِلْحَفَةً عَلَى مَنْكِبَيْهِ قَدْ عَصَبَ رَأْسَهُ بِعِصَابَةٍ دَسِمَةٍ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَيَّ فَثَابُوا إِلَيْهِ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ الْأَنْصَارِ يَقِلُّونَ وَيَكْثُرُ النَّاسُ فَمَنْ وَلِيَ شَيْئًا مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَطَاعَ أَنْ يَضُرَّ فِيهِ أَحَدًا أَوْ يَنْفَعَ فِيهِ أَحَدًا فَلْيَقْبَلْ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَتَجَاوَزْ عَنْ مُسِيِّهِمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن غسیل عبد الرحمن بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ منبر پر یہ آپ کی آخری بیٹھک تھی۔ آپ دونوں شانوں سے چادر لپیٹے ہوئے تھے اور سر مبارک پر ایک پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا لوگو! میری بات سنو۔ چنانچہ لوگ آپ کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا امابعد! یہ قبیلہ انصار کے لوگ ( آنے والے دور میں ) تعداد میں بہت کم ہو جائیں گے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کاجو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع ونقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے برے کی برائی سے در گزر کرے۔

 

❁ تشریح : یہ آپ کا مسجد نبوی میں آخری خطبہ تھا۔ آپ کی اس پیشین گوئی کے مطابق انصار اب دنیا میں کمی میں ہی ملتے ہیں۔ دوسرے شیوخ عرب کی نسلیں تمام عالم اسلامی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس شان کریمی پر قربان جائیے۔ اس احسان کے بدلے میں کہ انصار نے آپ کی اور اسلام کی کسمپرسی اور مصیبت کے وقت مدد کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام امت کو اس کی تلقین فرمارہے ہیں کہ انصار کو اپنا محسن سمجھو۔ ان میں جو اچھے ہوں ان کے ساتھ حسن معاملت بڑھ چڑھ کر کرو اور بروں سے در گزر کرو کہ ان کے آباءنے اسلام کی بڑی کسمپرسی کے عالم میں مدد کی تھی۔ اس باب میں جتنی حدیثیں آئی ہیں یہاں ان کا ذکر صر ف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ کسی خطبہ وغیرہ کے موقع پر اما بعد کا اس میں ذکر ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصارپر سے حدود شرعیہ اٹھادی جائیں حدود توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امیر غریب سب پر قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں انصار کی خفیف غلطیاں مراد ہیں کہ ان سے در گزر کیاجائے۔ حضرت امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے تحت یہ مختلف احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان سب میں ترجمہ باب لفظ اما بعد سے نکالا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد لفظ اما بعد کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں عشاءکے بعد آپ کے ایک خطاب عام کا ذکر ہے جس میں آپ نے لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ آپ نے ابن لبتیہ کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ اموال زکوۃ لے کر واپس ہوئے تو بعض چیزوں کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطور تحائف ملی ہیں اس وقت آپ نے عشاءکے بعد یہ وعظ فرمایا اور اس پر سخت اظہار ناراضگی فرمایا کہ کوئی شخص سر کاری طورپرتحصیل زکوۃ کے لیے جائے تو اس کا کیا حق ہے کہ وہ اس سفر میں اپنی ذات کے لیے تحائف قبول کرے حالانکہ اس کو جو بھی ملے گا وہ سب اسلامی بیت المال کا حق ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایمان ونذور میں پورے طور پر نقل فرمایا ہے۔ گزشتہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک آخری اور بالکل آخری خطاب عام کاتذکرہ ہے جو آپ نے مرض الموت کی حالت میں پیش فرمایا اور جس میں آپ نے حمد وثنا کے بعد لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ پھر انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ مستقبل میں مسلمان ذی اقتدار لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ انصار کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ان میں اچھے لوگوں کو نگاہ احترام سے دیکھیں اور برے لوگوں سے درگزر کریں۔ فی الواقع انصار قیامت تک کے لیے امت مسلمہ میں اپنی خاص تاریخ کے مالک ہیں جس کو اسلام کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ انصار ہی کی تاریخ ہے پس انصار کی عزت واحترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔


❁ بَابُ القَعْدَةِ بَيْنَ الخُطْبَتَيْنِ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن دونوں خطبوں کے بیچ میں بیٹھنا

❁ 928 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ خُطْبَتَيْنِ يَقْعُدُ بَيْنَهُمَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( جمعہ میں ) دو خطبے دیتے اور دونوں کے بیچ میں بیٹھتے تھے۔

 

❁ تشریح : ( خطبہ جمعہ کے بیچ میں یہ بیٹھنا بھی مسنون طریقہ ہے )


❁ بَابُ الِاسْتِمَاعِ إِلَى الخُطْبَةِ
❁ باب: خطبہ کان لگا کر سننا

❁ 929 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَقَفَتْ الْمَلَائِكَةُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَمَثَلُ الْمُهَجِّرِ كَمَثَلِ الَّذِي يُهْدِي بَدَنَةً ثُمَّ كَالَّذِي يُهْدِي بَقَرَةً ثُمَّ كَبْشًا ثُمَّ دَجَاجَةً ثُمَّ بَيْضَةً فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَوْا صُحُفَهُمْ وَيَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد الرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوعبداللہ سلیمان اغرنے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

 

❁ تشریح : اس حدیث میں بہ سلسلہ ذکر ثواب مختلف جانوروں کے ساتھ مرغی اور انڈے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: والمشکل ذکر الدجاجۃ والبیضۃ لان الھدی لا یکون منھما واجیب بانہ من باب المشاکلۃ ای من تسمیۃ الشئی باسم قرینۃ والمراد با لاھداءھنا التصدق لما دل علیہ لفظ قرب فی روایۃ اخریٰ وھو یجوز بھما۔ ( مرعاۃ ج:2ص293 ) یعنی مرغی اور انڈے کا بھی ذکر آیا حالانکہ ان کی قربانی نہیں ہوتی، اس کا جواب دیا گیا کہ یہاں یہ ذکر باب مشاکلہ میں ہے یعنی کسی چیز کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کے قرین کا نام ہو یہاں قربانی سے مراد صدقہ کرنا ہے جس پر بعض روایات میں آمدہ لفظ قرب دلالت کرتا ہے اور قربت میں رضائے الہی حاصل کرنے کے لیے ان ہر دو چیزوں کو بھی خیرات میں دیا جا سکتا ہے۔ حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ نمازیوں کو خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے کیونکہ فرشتے بھی کان لگا کرخطبہ سنتے ہیں۔ شافعیہ کے نزدیک خطبہ کی حالت میں کلام کرنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ حنفیہ کے نزدیک خطبے کے وقت نماز اور کلام دونوں منع ہیں۔ بعضوں نے کہا کہ دنیا کا بے کار کلام منع ہے مگر ذکر یا دعا منع نہیں ہے اور امام احمد کا یہ قول ہے کہ جو خطبہ سنتا ہو یعنی خطبہ کی آواز اس کو پہنچتی ہو اس کو منع ہے جو نہ سنتا ہو اس کو منع نہیں۔ شوکانی نے اہلحدیث کا مذہب یہ لکھا ہے کہ خطبے کے وقت خاموش رہے۔ سید علامہ نے کہا تحیۃ المسجد مستثنیٰ ہے جو شخص مسجد میں آئے اور خطبہ ہو رہا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد کی پڑھ لے۔ اسی طرح امام کا کسی ضرورت سے بات کرنا جیسے صحیح احادیث میں وارد ہے۔ مسلم کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ ( تحیۃ المسجد ) کی ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ لے۔ یہی اہلحدیث اور امام احمد کی دلیل ہے کہ خطبہ کی حالت میں تحیۃ المسجد پڑھ لینا چاہیے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ امام خطبہ کی حالت میں ضرورت سے بات کر سکتا ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔ ہلکی پھلکی کا مطلب یہ کہ قرات کو طول نہ دے۔ یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ لے۔


❁ بَابٌ إِذَا رَأَى الإِمَامُ رَجُلًا جَاءَ وَهُوَ يَخْطُبُ، أَمَرَهُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ

❁ اب: امام خطبہ کی حالت میں کسی کو دو رکعت


❁ 930 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ أَصَلَّيْتَ يَا فُلَانُ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَارْكَعْ رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پوچھا کہ اے فلاں! کیا تم نے ( تحیۃ المسجدکی ) نماز پڑھ لی۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔


❁ بَابُ مَنْ جَاءَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ
❁ باب: دوران خطبہ دو رکعت پڑھنا

❁ 931 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ أَصَلَّيْتَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے ( تحیۃ المسجد کی ) نماز پڑھ لی ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھ لو۔

 

❁ تشریح : جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب فی الرکعتین اذا جاءالرجل والامام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص ( سلیک نامی ) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔ دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ جو صاف لفظوں میں النبی صص یخطب الناس یوم الجمعۃ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے ) نقل فرمارہے ہیں نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: ان ابا سعید الخدری دخل یوم الجمعۃ ومروان یخطب فقام یصلی فجاءالحرس لیجلسوہ فابی حتی صلی فلما انصرف اتیناہ فقلنا رحمک اللہ ان کادوا لیقعو بک فقال ماکنت لا ترکھما بعد شئی رایتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ذکر ان رجلا جاءیوم الجمعۃ فی ھیئۃ بذۃ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ فامرہ فصلی رکعتین والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے :عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعۃ فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین وتجوز فیھما فاذا اتی احدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا فی قوت المعتذی وتحفۃ الاحوذی، ج:2ص:264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی شارح مسلم شریف فرماتے ہیں:ھذہ الاحادیث کلھا یعنی التی رواھا مسلم صریحۃ فی الدلالۃ لمذھب الشافعی واحمد واسحاق فقھاءالمحدثین انہ اذا دخل الجامع یوم الجمعۃ والامام یخطب یستحب لہ ان یصلی رکعتین تحیۃ المسجد ویکرہ الجلوس قبل ان یصلیھما وانہ یستحب ان یتجوز فیھما یسمع بعد ھما الخطبۃ وحکی ھذا المذھب عن الحسن البصری وغیرہ من المتقدمین ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول الاول اصح یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فاذا جاءوالامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما رعایۃ لسنۃ الراتبۃ وادب الخطبۃ جمیعا بقدر الامکان ولا تغتر فی ھذہ المسالۃ بما یلھج بہ اھل بلدک فان الحدیث صحیح واجب اتباعہ ( حجۃ اللہ البالغۃ، جلد:دومص:101 ) یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے وبا للّٰہ التوفیق۔


 ❁ بَابُ رَفْعِ اليَدَيْنِ فِي الخُطْبَةِ
❁ باب: خطبہ میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

❁ 932 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسٍ وَعَنْ يُونُسَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْكُرَاعُ وَهَلَكَ الشَّاءُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن انس نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ( دوسری سند ) اور حماد بن یونس سے بھی روایت کی عبد العزیز اور یونس دونوں نے ثابت سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مویشی اور بکریاں ہلاک ہو گئیں ( بارش نہ ہونے کی وجہ سے ) آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی بارش برسائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور دعا کی۔


❁ بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِي الخُطْبَةِ يَوْمَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے خطبہ میں بارش کی دعا کرنا

❁ 933 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَصَابَتْ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا وَضَعَهَا حَتَّى ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَى لِحْيَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِكَ وَمِنْ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيهِ حَتَّى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى وَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتْ الْمَدِينَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام ابو عمرو اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوایا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور جانور ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناۃ کا نالا مہینہ بھربہتا رہا اور ارد گرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھر پور بارش کی خبر دیتے رہے۔

 

❁ تشریح : باب اور نقل کردہ حدیث سے ظاہر ہے کہ امام بوقت ضرورت جمعہ کے خطبہ میں بھی بارش کے لیے دعا کر سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی ایسی عوامی ضرورت کے لیے دعا کرنے کی درخواست بحالت خطبہ امام سے کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ امام ایسی درخواست پر خطبہ ہی میں توجہ کر سکتا ہے۔جن حضرات نے خطبہ کو نماز کا درجہ دے کر اس میں بوقت ضرورت تکلم کو بھی منع بتلایا ہے، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں:الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں:الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا انت الغنی ونحن الفقراءانزل علینا الغیث ما انزلت لنا قوۃ وبلاغا الی حین۔ اللھم اسقنا غیثا مغیثا مریئا مریعا طبقا غدقا عاجلا غیررائث اللھم اسق عبادت وبھا ئمک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت یہ بھی امر مشروع ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے میں سے کسی نیک بزرگ کو دعا کے لیے آگے بڑھا یا جائے اور وہ اللہ سے رو رو کر دعا کرے اور لوگ پیچھے سے آمین آمین کہہ کر تضرع وزاری کے ساتھ اللہ سے پانی کا سوال کریں۔


❁ بَابُ الإِنْصَاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
❁ بَابُ الإِنْصَاتِ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ

❁ 934 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنْصِتْ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَقَدْ لَغَوْتَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ “چپ رہ” تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔


❁ بَابُ السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کے دن قبولیت دعا کی ساعت

❁ 935 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَالَ فِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ تَعَالَى شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ يُقَلِّلُهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان سے عبد الرحمن اعرج نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔

 

❁ تشریح : س گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے بعض روایات میں اس کے لیے وہ وقت بتلایا گیاہے جب امام نماز جمعہ شروع کر تا ہے۔ گویا نماز ختم ہونے تک درمیان میں یہ گھڑی آتی ہے بعض روایات میں طلوع فجر سے اس کا وقت بتلایاگیا ہے۔ بعض روایات میں عصر سے مغرب تک کا وقت اس کے لیے بتلایا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بہت تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پر روشنی ڈالی ہے اور اس بارے میں علمائے اسلام وفقہاءعظام کے143قوال کیے ہیں۔ امام شوکانی نے علامہ ابن منیر کا خیال ان لفظوں میں نقل فرمایا ہے: قال ابن المنیر اذا علم ان فائدۃ الابھام لھذا الساعۃ وللیلۃ القدر بعث الدواعی علی الاکثار من الصلاۃ والدعاءولووقع البیان لا تکل الناس علی ذالک وترکوا ما عداھا فالعجب بعد ذالک ممن یتکل فی طلب تحدیدھا وقال فی موضع آخر یحسن جمع الاقوال فتکون ساعۃ الاجابۃ واحدۃ منھا لا بعینھا فیصاد فھا من اجتھد فی جمیعھا ( نیل الاوطار ) یعنی اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں، اس صورت میں ضرورضرور وہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں اسے حاصل ہوگی۔ اگر ان کو ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے۔ پس تعجب ہے اس شخص پر جواسے محدود وقت میں پالینے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ بہتر ہے کہ مذکورہ بالا اقوال کو بایں صورت جمع کیا جائے کہ اجابت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جاسکتا پس جوتمام اوقات میں اس کے لیے کوشش کرے گا وہ ضرور اسے کسی نہ کسی وقت میں پالے گا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول بانھا آخر ساعۃ من الیوم ھو ارجح الاقوال والیہ ذھب الجمھور ( من الصحابۃ والتابعین والائمۃ ) الخ یعنی اس بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ گھڑی آخر دن میں بعد عصر آتی ہے اور جمہور صحابہ وتابعین وائمہ دین کا یہی خیال ہے۔


❁ بَابٌ إِذَا نَفَرَ النَّاسُ عَنِ الإِمَامِ فِي صَلاَةِ الجُمُعَةِ، فَصَلاَةُ الإِمَامِ وَمَنْ بَقِيَ جَائِزَةٌ
❁ باب: اگر جمعہ کی نماز میں کچھ لوگ چلے جائیں

❁ 936 حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ قَالَ حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَتْ عِيرٌ تَحْمِلُ طَعَامًا فَالْتَفَتُوا إِلَيْهَا حَتَّى مَا بَقِيَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے حصین سے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی جعد نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں غلہ لادے ہوئے ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا۔ لوگ خطبہ چھوڑ کر ادھر چل دیئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کل بارہ آدمی رہ گئے۔ اس وقت سورۃ جمعہ کی یہ آیت اتری۔ ترجمہ “ اور جب یہ لوگ تجارت اور کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ”

 

❁ تشریح : ایک مرتبہ مدینہ میں غلہ کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر مدینہ آیا، اس کی خبر سن کر کچھ لوگ جمعہ کے دن عین خطبہ کی حالت میں باہر نکل گئے، اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت امام نے اس واقعہ سے یہ ثابت فرمایا کہ احناف اور شوافع جمعہ کی صحت کے لیے جو خاص قید لگا تے ہیں وہ صحیح نہیں ہے، اتنی تعداد ضرور ہو جسے جماعت کہا جا سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سے اکثر لوگ چلے گئے پھر بھی آپ نے نمازجمعہ ادا فرمائی۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ صحابہ کی شان خود قرآن میں یوں ہے رِجَال لَا تُلھِیھِم تِجَارَۃ الخ ( النور:37 ) یعنی میرے بندے تجارت وغیرہ میں غافل ہو کر میری یاد کبھی نہیں چھوڑدیتے۔ سوا س کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نزول سے پہلے کا ہے بعد میں وہ حضرات اپنے کاموں سے رک گئے اور صحیح معنوں میں اس آیت کے مصداق بن گئے تھے رضی اللہ عنہم وارضاہم ( آمین )


❁ بَابُ الصَّلاَةِ بَعْدَ الجُمُعَةِ وَقَبْلَهَا
❁ باب: جمعہ کے پہلے اور بعد کی سنتوں کا بیان

❁ 937 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الظُّهْرِ رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَهَا رَكْعَتَيْنِ وَبَعْدَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ وَبَعْدَ الْعِشَاءِ رَكْعَتَيْنِ وَكَانَ لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے نافع سے خبر دی، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت، اس کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں جب گھر واپس ہوتے تب پڑھا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : چونکہ ظہر کی جگہ جمعہ کی نماز ہے، اس لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو سنتیں ظہر سے پہلے اور پیچھے مسنون ہیں، وہی جمعہ کے پہلے اور پیچھے بھی مسنون ہیں۔ بعض دوسری احادیث میں ان سنتوں کا ذکر بھی آیا ہے جمعہ کے بعد کی سنتیں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں پڑھا کر تے تھے۔


❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ}
❁ باب: سورۃ جمعہ میں فرمان باری کا بیان

❁ 938 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كَانَتْ فِينَا امْرَأَةٌ تَجْعَلُ عَلَى أَرْبِعَاءَ فِي مَزْرَعَةٍ لَهَا سِلْقًا فَكَانَتْ إِذَا كَانَ يَوْمُ جُمُعَةٍ تَنْزِعُ أُصُولَ السِّلْقِ فَتَجْعَلُهُ فِي قِدْرٍ ثُمَّ تَجْعَلُ عَلَيْهِ قَبْضَةً مِنْ شَعِيرٍ تَطْحَنُهَا فَتَكُونُ أُصُولُ السِّلْقِ عَرْقَهُ وَكُنَّا نَنْصَرِفُ مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ فَنُسَلِّمُ عَلَيْهَا فَتُقَرِّبُ ذَلِكَ الطَّعَامَ إِلَيْنَا فَنَلْعَقُهُ وَكُنَّا نَتَمَنَّى يَوْمَ الْجُمُعَةِ لِطَعَامِهَا ذَلِكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوغسان محمد بن مطر مدنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحاز م سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ ہمارے یہاں ایک عورت تھی جو نالوں پر اپنے ایک کھیت میں چقندر بوتی۔ جمعہ کا دن آتا تو وہ چقندراکھاڑ لاتیں اور اسے ایک ہانڈی میں پکاتیں پھر اوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہو جاتے۔ جمعہ سے واپسی میں ہم انہیں سلام کرنے کے لیے حاضر ہوتے تو یہی پکوان ہمارے آگے کر دیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہر جمعہ کو ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : باب کی مناسبت اس طرح پر ہے کہ صحابہ جمعہ کی نماز کے بعد رزق کی تلاش میں نکلتے اور اس عورت کے گھر پر اس امید پر آتے کہ وہاں کھانا ملے گا۔ اللہ اکبر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابہ رضی اللہ عنہ نے کیسی تکلیف اٹھائی کہ چقندر کی جڑیں اور مٹھی بھر جو کا آٹا غنیمت سمجھتے اور اسی پر قناعت کرتے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاَةُ فَانْتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ} ❁ 

❁ باب: سورۃ جمعہ میں فرمان باری کا بیان


❁ 939 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَهْلٍ بِهَذَا وَقَالَ مَا كُنَّا نَقِيلُ وَلَا نَتَغَدَّى إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا اپنے باپ سے اور ان سے سہل بن سعد نے یہی بیان کیا اور فرمایا کہ دوپہر کا سونا اور دوپہر کا کھانا جمعہ کی نماز کے بعد رکھتے تھے۔


❁ بَابُ القَائِلَةِ بَعْدَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کی نماز کے بعد سونا

❁ 940 حدثنا محمد بن عقبة الشيباني، قال حدثنا أبو إسحاق الفزاري، عن حميد، قال سمعت أنسا، يقول كنا نبكر إلى الجمعة ثم نقيل

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحاق فزاری ابراہیم بن محمد نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم جمعہ سویرے پڑھتے، اس کے بعد دوپہر کی نیند لیتے تھے۔


❁ بَابُ القَائِلَةِ بَعْدَ الجُمُعَةِ
❁ باب: جمعہ کی نماز کے بعد سونا

❁ 941 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ تَكُونُ الْقَائِلَةُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔

 

❁ تشریح : حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وظاھر ذالک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکرالنھار قال الحافظ تکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی جعل الشئی فی اول وقتہ وتقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا انھم کانوا یبدون الصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد والمراد بالقائلۃ المذکورۃ فی الحدیث نوم نصف النھار ( نیل الاوطار ) یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد ظھر بما ذکرنا انہ لیس فی صلوۃ الجمعۃ قبل الزوال حدیث صحیح صریح فالقول الراجح ھو ما قال بہ الجمھور قال شیخنا فی شرح التر مذی والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واما ماذھب الیہ بعضھم من تجوز قبل زوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح انتھیٰ ( مرعاۃ ج:2 ص:203 ) خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے ( واللہ اعلم با لصواب )


 

 

Table of Contents