Search
Sections
< All Topics
Print

12. Kitaab ul Salatut Khouf; [کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ]; Fear Prayer

✦ کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ ✦

باب: خوف کی نماز کا بیان

 


❁ 942 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ سَأَلْتُهُ هَلْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي صَلَاةَ الْخَوْفِ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ فَوَازَيْنَا الْعَدُوَّ فَصَافَفْنَا لَهُمْ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي لَنَا فَقَامَتْ طَائِفَةٌ مَعَهُ تُصَلِّي وَأَقْبَلَتْ طَائِفَةٌ عَلَى الْعَدُوِّ وَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْ مَعَهُ وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ انْصَرَفُوا مَكَانَ الطَّائِفَةِ الَّتِي لَمْ تُصَلِّ فَجَاءُوا فَرَكَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهِمْ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ فَقَامَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ فَرَكَعَ لِنَفْسِهِ رَكْعَةً وَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے زہری سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ خوف پڑھی تھی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ( ذات الرقاع ) میں شریک تھا۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی ( توہم میں سے ) ایک جماعت آپ کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ اب دوسری جماعت آئی۔ ان کے ساتھ بھی آپ نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔

 


❁ تشریح : نجد لغت میں بلندی کو کہتے ہیں اور عرب میں یہ علاقہ وہ ہے جو تہامہ اور یمن سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔جہاد مذکورہ 7 ھ میں بنی غطفان کے کافروں سے ہوا تھا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کے دوحصے کئے گئے اور ہر حصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت باری باری ادا کی پھر دوسری رکعت انہوں نے اکیلے اکیلے ادا کی۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ ہر حصہ ایک رکعت پڑھ کر چلا گیا اور جب دوسرا گروہ پوری نماز پڑھ گیا تو یہ گروہ دوبارہ آیا اور ایک رکعت اکیلے اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔ فٹ پٹ ہو جائیں یعنی بھڑجائیں صف باندھنے کا موقع نہ ملے تو جو جہاں کھڑاہو وہیں نماز پڑھ لے۔ بعضوں نے کہا قیاماًکا لفظ یہاں ( راوی کی طرف سے ) غلط ہے صحیح قائماً ہے اور پوری عبارت یوں ہے اذا اختلطو قائما فانما ھو الذکر والاشارۃ بالراس یعنی جب کافر اور مسلمان لڑائی میں خلط ملط ہو جائیں توصرف زبان سے قرات اور رکوع سجدے کے بدل سر سے اشارہ کرنا کافی ہے ( شرح وحیدی ) قال ابن قدامۃ یجوز ان یصلی صلوۃ الخوف علی کل صفۃ صلاھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال احمد کل حدیث یروی فی ابواب صلوۃ الخوف فالعمل بہ جائز وقال ستۃ اوجہ اوسبعۃ یروی فیھا کلھا جائز۔ ( مرعاۃ المصابیح، ج:2ص:319 ) یعنی ابن قدامہ نے کہا کہ جن جن طریقوں سے خوف کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ان سب کے مطابق جیسا موقع ہو خوف کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔ امام احمد نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فرمایاہے کہ یہ نماز چھ ساتھ طریقوں سے جائز ہے جو مختلف احادیث میں مروی ہیں قال ابن عباس والحسن البصری وعطاءوطاؤس ومجاھد والحکم بن عتبۃ وقتادہ واسحاق والضحاک والثوری انھا رکعۃ عند شدۃ القتال یومی ایماء ( حوالہ مذکور ) یعنی مذکورہ جملہ اکابر اسلام کہتے ہیں کہ شدت قتال کے وقت ایک رکعت بلکہ محض اشاروں سے بھی ادا کر لینا جائز ہے۔


بَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ رِجَالًا وَرُكْبَانًا رَاجِلٌ قَائِمٌ ❁ 
❁ باب: خوف کی نماز پیدل و سوار پڑھنا

❁ 943 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے موسی بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ا بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر ( جس طور ممکن ہو ) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔

 


❁ تشریح : علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیل مقصودہ ان الصلوۃ لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابۃ ولا توخر عن وقتھا بل تصلی علی ای وجہ حصلت القدرۃ علیہ بدلیل الآیۃ ( فتح الباری ) یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔ زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع علیہ السلام نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔


❁ بَابُ يَحْرُسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا فِي صَلاَةِ الخَوْفِ
❁ باب: نماز خوف میں نمازی ایک دوسرے کی

❁ 944 حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ الزُّبَيْدِيِّ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ فَكَبَّرَ وَكَبَّرُوا مَعَهُ وَرَكَعَ وَرَكَعَ نَاسٌ مِنْهُمْ مَعَهُ ثُمَّ سَجَدَ وَسَجَدُوا مَعَهُ ثُمَّ قَامَ لِلثَّانِيَةِ فَقَامَ الَّذِينَ سَجَدُوا وَحَرَسُوا إِخْوَانَهُمْ وَأَتَتْ الطَّائِفَةُ الْأُخْرَى فَرَكَعُوا وَسَجَدُوا مَعَهُ وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ فِي صَلَاةٍ وَلَكِنْ يَحْرُسُ بَعْضُهُمْ بَعْضًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن حرب نے زبیدی سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دوسرے لوگ بھی آپ کی اقتداء میں کھڑے ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی تو لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ آپ نے رکوع کیا تو لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر لیا تھا وہ کھڑے کھڑے اپنے بھائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ اور دوسرا گروہ آیا۔ ( جواب تک حفاظت کے لیے دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا بعد میں ) اس نے بھی رکوع اور سجدے کئے۔ سب لوگ نماز میں تھے لیکن لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے تھے۔


❁ بَابُ الصَّلاَةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الحُصُونِ وَلِقَاءِ العَدُوِّ
❁ باب: جب فتح کے امکانات روشن ہوں

❁ 945 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ الْبُخَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَيَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتْ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ قَالَ فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بَعْدَهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے ( جو مدینہ میں ایک میدان تھا ) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔


❁ تشریح : باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔ قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے


❁ بَابُ صَلاَةِ الطَّالِبِ وَالمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً
❁ باب: جو دشمن کے پیچھے یا دشمن اس کے

 ❁ 946 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ قَالَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنْ الْأَحْزَابِ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمْ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے ( ابوسفیان لوٹا ) تو ہم سے آپ نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔

 


❁ تشریح : طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب پر حدیث لا یصلین احد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قضا ہوجانے کی ان کے لیے پروانہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے ( الغرض ) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔


بَابُ التَّكْبِيرِ وَالغَلَسِ بِالصُّبْحِ، وَالصَّلاَةِ عِنْدَ الإِغَارَةِ وَالحَرْبِ ❁ 
❁ باب: حملہ سے پہلے نمازفجراندھیرے میں پڑھنا

❁ 947 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الصُّبْحَ بِغَلَسٍ ثُمَّ رَكِبَ فَقَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ فَخَرَجُوا يَسْعَوْنَ فِي السِّكَكِ وَيَقُولُونَ مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ قَالَ وَالْخَمِيسُ الْجَيْشُ فَظَهَرَ عَلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَ الْمُقَاتِلَةَ وَسَبَى الذَّرَارِيَّ فَصَارَتْ صَفِيَّةُ لِدِحْيَةَ الْكَلْبِيِّ وَصَارَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ تَزَوَّجَهَا وَجَعَلَ صَدَاقَهَا عِتْقَهَا فَقَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ لِثَابِتٍ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ أَنْتَ سَأَلْتَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ مَا أَمْهَرَهَا قَالَ أَمْهَرَهَا نَفْسَهَا فَتَبَسَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن صہیب اور ثابت بنانی نے، بیان کیا ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھا دی، پھر سوار ہوئے ( پھر آپ خیبر پہنچ گئے اور وہاں کے یہودیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع ہو گئی ) اور فرمایا اللہ اکبر خیبر پر بربادی آگئی۔ ہم تو جب کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہوگی۔ اس وقت خیبر کے یہودی گلیوں میں یہ کہتے ہوئے بھاگ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آگئے۔ راوی نے کہا کہ ( روایت میں ) لفظ خمیس لشکر کے معنی میں ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی۔ اتفاق سے صفیہ دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں اور آپ نے ان سے نکاح کیا اور آزادی ان کا مہر قرار دیا۔ عبد العزیز نے ثابت سے پوچھا ابومحمد! کیا تم نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تھا کہ حضرت صفیہ کا مہر آپ نے مقرر کیا تھا انہوں نے جواب دیا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دے دیا تھا۔ کہا کہ ابو محمد اس پر مسکرا دیئے۔

 


❁ تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سویرے اندھیرے منہ پڑھ لی اورسوار ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا۔ خمیس لشکر کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ٹکڑیاں ہوتی ہیں مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب۔ صفیہ شاہزادی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی اور شرافت نسبی کی بنا پر انہیں اپنے حرم میں لے لیا اور آزاد فرما دیا ان ہی کو ان کے مہر میں دینے کا مطلب ان کوآزاد کر دینا ہے، بعد میں یہ خاتون ایک بہترین وفادار ثابت ہوئیں۔ امہا ت المومنین میں ان کا بھی بڑا مقام ہے۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا۔ علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہ حی بن اخطب کی بیٹی ہیں جو بنی اسرائیل میں سے تھے اور ہارون ابن عمران علیہ السلام کے نواسہ تھے۔ یہ صفیہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں بماہ محرم 7 ھ قتل کیا گیا اور یہ قید ہو گئیں تو ان کی شرافت نسبی کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا، پہلے دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھیں۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حال معلوم فرماکر سات غلاموں کے بدلے ان کو دحیہ کلبی سے حاصل فرمالیا اس کے بعد یہ برضا ورغبت اسلام لے آئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت سے ان کومشرف فرمایا اور ان کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔ حضرت صفیہ نے 50 ھ میں وفات پائیں اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ ان سے حضرت انس اور ابن عمر وغیرہ روایت کرتے ہیں حی میں یائے مہملہ کا پیش اور نیچے دو نقطوں والی یاءکا زبر اور دوسری یاءپر تشدید ہے۔ صلوۃالخو ف کے متعلق علامہ شوکانی نے بہت کافی تفصیلات پیش فرمائی ہیں اور چھ سات طریقوں سے اس کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں وقد اختلف فی عدد الانواع الواردۃ فی صلوۃ الخوف فقال ابن قصار المالکی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاھا افی عشرۃ مواطن وقال النووی انہ یبلغ مجموع انواع صلوۃ الخوف ستۃ عشر وجھا کلھا جائزۃ وقال الخطابی صلوۃ الخوف انواع صلاھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ایام مختلفۃ واشکال متباینۃ یتحری فی کلھا ما ھو احوط للصلوۃ وابلغ فی الحراسۃ الخ ( نیل الاوطار ) یعنی صلوۃ خوف کی قسموں میں اختلاف ہے جو وارد ہوئی ہیں ابن قصار مالکی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دس جگہ پڑھا ہے اور نووی کہتے ہیں کہ اس نماز کی تمام قسمیں سولہ تک پہنچی ہیں اور وہ سب جائز درست ہیں۔ خطابی نے کہا کہ صلوۃ الخوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام مختلفہ میں مختلف طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔ اس میں زیادہ تر قابل غور چیز یہی رہی ہے کہ نماز کے لیے بھی ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ حفاظت اور نگہبانی میں بھی فرق نہ آنے پائے۔ علامہ ابن حزم نے اس کے چودہ طریقے بتلائے ہیں اور ایک مستقل رسالہ میں ان سب کا ذکر فرمایا ہے۔ الحمد للہ کہ اواخر محرم 1389ھ میں کتاب صلوۃ الخوف کی تبیض سے فراغت حاصل ہوئی، اللہ پاک ان لغزشوں کو معاف فرمائے جو اس مبارک کتاب کا ترجمہ لکھنے اور تشریحات پیش کرنے میں مترجم سے ہوئی ہونگی۔ وہ غلطیاں یقینامیری طرف سے ہیں۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ کا مقام بلند وبرتر ہے، آپ کی شان اوتیت جوامع الکلم ہے۔ اللہ سے مکرر دعا ہے کہ وہ میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور اس مبارک کتاب کے جملہ قدردانوں کو برکات دارین سے نوازے آمین یا رب العالمین۔


 

 

 

 

 

Table of Contents