13. Kitaab ul Eidain; [کِتَابُ العِيدَيْنِ]; The Two Festivals
✦ کِتَابُ العِيدَيْنِ ✦
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
❁ بَابٌ: فِي العِيدَيْنِ وَالتَّجَمُّلِ فِيهِ
❁ باب: عیدوں کا بیان، زیب و زینت کرنا
❁ 948 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ قَالَ أَخَذَ عُمَرُ جُبَّةً مِنْ إِسْتَبْرَقٍ تُبَاعُ فِي السُّوقِ فَأَخَذَهَا فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ تَجَمَّلْ بِهَا لِلْعِيدِ وَالْوُفُودِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فَلَبِثَ عُمَرُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَلْبَثَ ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجُبَّةِ دِيبَاجٍ فَأَقْبَلَ بِهَا عُمَرُ فَأَتَى بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ قُلْتَ إِنَّمَا هَذِهِ لِبَاسُ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ وَأَرْسَلْتَ إِلَيَّ بِهَذِهِ الْجُبَّةِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبِيعُهَا أَوْ تُصِيبُ بِهَا حَاجَتَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک خدا نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسو ل اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ ا س لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔
❁ تشریح : اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جبہ آپ عید کے دن پہنا کیجئے اسی طرح وفود آتے رہتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے بھی آپ اس کا استعمال کیجئے۔ لیکن وہ جبہ ریشمی تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا کہ ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ عید کے دن جائز لباسوں کے ساتھ آرائش کرنی چاہیے اس سلسلے میں دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔ مولانا وحید الزماں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے کہ مردوں کو جھوٹا موٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کو سزاوار ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط محنتی جفا کش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔ اسلام نے عیش وعشرت کا ناجائز اسباب مثلا نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کر دیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبر کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔ ہاتھوں میں کڑے اور پاؤں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین لی اور دوسری مردانہ قوم کو عطاءفرمائی ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے بے غیرت بے حیا کم بخت ( وحیدی ) مولانا کا اشارہ ان مغل شہزادوں کی طرف ہے جو عیش وآرام میں پڑ کر زوال کاسبب بنے، آج کل مسلمانوں کے کالج زدہ نوجوانوں کا کیا حال ہے جو زنانہ بننے میں شاید مغل شہزادوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن کا حال یہ ہے نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کما کر وہ کھوئے گئے الٹے تعلیم پا کر
❁ بَابُ الحِرَابِ وَالدَّرَقِ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: عید کے دن برچھیوں اور ڈھالوں سے کھیلنا
❁ 949 حدثنا أحمد، قال حدثنا ابن وهب، قال أخبرنا عمرو، أن محمد بن عبد الرحمن الأسدي، حدثه عن عروة، عن عائشة، قالت دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، ودخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند النبي صلى الله عليه وسلم فأقبل عليه رسول الله ـ عليه السلام ـ فقال ” دعهما ” فلما غفل غمزتهما فخرجتا.
❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن عیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی کہ محمد بن عبد الرحمن اسدی نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے بتلایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس ( انصار کی ) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ آپ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جانے دو خاموش رہو پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔
❁ بَابُ الحِرَابِ وَالدَّرَقِ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: عید کے دن برچھیوں اور ڈھالوں سے کھیلنا
❁ 950 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَسَدِيَّ حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ فَاضْطَجَعَ عَلَى الْفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجْهَهُ وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَالَ دَعْهُمَا فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا وَكَانَ يَوْمَ عِيدٍ يَلْعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالْحِرَابِ فَإِمَّا سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا قَالَ تَشْتَهِينَ تَنْظُرِينَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي عَلَى خَدِّهِ وَهُوَ يَقُولُ دُونَكُمْ يَا بَنِي أَرْفِدَةَ حَتَّى إِذَا مَلِلْتُ قَالَ حَسْبُكِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَاذْهَبِي
❁ ترجمہ : اور یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ سے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب یا خود میں نے کہا یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ( ارفدہ ) یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا “ بس! ” میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ۔
❁ تشریح : بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت نہیں واجاب ابن المنیر فی الحاشیۃ بان مراد البخاری رحمہ اللہ الاستدلال علی ان العید بنتضر فیہ من الانبساط مالا ینتضرفی غیرہ ولیس فی الترجمۃ ایضاً تقیید بحال الخروج الی العید بل الظاھر ان لعب الحبشۃ ان کان بعد رجوعہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المصلی لانہ کان یخرج اول النھار ( فتح الباری ) یعنی ابن منیر نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اس امر کے لیے ہے کہ عید میں اس قدر مسرت ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتی اور ترجمہ میں حبشیوں کے کھیل کا ذکر عید سے قبل کے لیے نہیں ہے بلکہ ظاہر ہے کہ حبشیوں کا یہ کھیل عیدگاہ سے واپسی پر تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شروع دن ہی میں نماز عید کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔
❁ بَابُ سُنَّةِ العِيدَيْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ
❁ باب: عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟
❁ 951 حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي زُبَيْدٌ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ مِنْ يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا
❁ ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں زبید بن حارث نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن ( عید الاضحیٰ ) میں کرتے ہیں، یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربا نی کریں۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریق پر چلا۔
بَابُ سُنَّةِ العِيدَيْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ ❁
❁ باب: عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟
❁ 952 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا
❁ ترجمہ : ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
❁ تشریح : قال الخطابی یوم بعاث یو م مشھودمن ایام العرب کانت فیہ مقتلۃ عظیمۃ للاوس والخروج ولقیت الحربۃ قائمۃ مائۃ وعشرین سنۃ الی الاسلام علی ما ذکر ابن اسحاق وغیرہ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی ( فتح الباری ) اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میںخرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 ) بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
❁ بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ الفِطْرِ قَبْلَ الخُرُوجِ
❁ باب: عید الفطر میں نماز سے پہلے کھانا
❁ 953 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَغْدُو يَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَقَالَ مُرَجَّأُ بْنُ رَجَاءٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عبد الرحیم نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی کہ ہمیں ہشیم بن بشیر نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطرکے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاءنے کہا کہ مجھ سے عبید اللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔
❁ تشریح : معلوم ہوا کہ عید الفطر میں نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں اگر میسر ہوں تو کھا لینا سنت ہے۔
❁ بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ النَّحْرِ
❁ باب: بقرہ عید کے دن کھانا
❁ 954 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ هَذَا يَوْمٌ يُشْتَهَى فِيهِ اللَّحْمُ وَذَكَرَ مِنْ جِيرَانِهِ فَكَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَّقَهُ قَالَ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَرَخَّصَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَدْرِي أَبَلَغَتْ الرُّخْصَةُ مَنْ سِوَاهُ أَمْ لَا
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے قربانی کر دے اسے دوبارہ کر نی چاہیے۔ اس پر ایک شخص ( ابو بردہ ) نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔
❁ تشریح : یہ اجازت خاص ابو بردہ کے لیے تھی جیسا کہ آگے آرہا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر نہیں ہوئی، اس لیے انہوں نے ایسا کہا۔
بَابُ الأَكْلِ يَوْمَ النَّحْرِ ❁
باب: بقرہ عید کے دن کھانا ❁
❁ 955 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَضْحَى بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسُكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَلَا نُسُكَ لَهُ فَقَالَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ خَالُ الْبَرَاءِ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنِّي نَسَكْتُ شَاتِي قَبْلَ الصَّلَاةِ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَأَحْبَبْتُ أَنْ تَكُونَ شَاتِي أَوَّلَ مَا يُذْبَحُ فِي بَيْتِي فَذَبَحْتُ شَاتِي وَتَغَدَّيْتُ قَبْلَ أَنْ آتِيَ الصَّلَاةَ قَالَ شَاتُكَ شَاةُ لَحْمٍ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَإِنَّ عِنْدَنَا عَنَاقًا لَنَا جَذَعَةً هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْنِ أَفَتَجْزِي عَنِّي قَالَ نَعَمْ وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصورنے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی سی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابوبردہ بن نیاریہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابو بردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہوگی۔
❁ تشریح : کیونکہ قربانی میں مسنہ بکری ضروری ہے جو دوسرے سال میں ہو اور دانت نکال چکی ہو۔ بغیر دانت نکالے بکری قربانی کے لائق نہیں ہوتی۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: قولہ الامسنۃ قال العلماءالمسنۃ ھی الثنیۃ من کل شئی من الابل والبقر والغنم فما فوقھا الخ مسجد میں ہے۔ کہ الثنیۃ جمعہ ثنایا وھی اسنان مقدم الفم ثنتان من فوق وثنتان من اسفل یعنی ثنیہ سامنے کے اوپر نیچے کے دانت کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دانت والے جانوروں کو قربانی کرو اس سے لازم یہی نتیجہ نکلا کہ کھیرے کی قربانی نہ کرو اس لیے ایک روایت میں ہے ینفی من الضحایا التی لم تسن قربانی کے جانوروں میں سے وہ جانور نکال ڈالا جائے گا جس کے دانت نہ اگے ہوں گے اگر مجبوری کی حالت میں مسنہ نہ ملے مشکل ودشوار ہو تو جذعۃ من الضان بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں آپ نے فرمایا: الاان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضان لغات الحدیث میں لکھا ہے پانچویں برس میں جو اونٹ لگا ہواور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو اور چوتھے برس میں جو گھوڑا لگا ہو۔ بعضوں نے کہا جو گائے تیسرے برس میں لگی ہو اور جو بھیڑ ایک برس کی ہو گئی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ضحینا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالجذع من الضان والثنی من المعز ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برس کی بھیڑ اور دو برس کی ( جو تیسرے میں لگی ہو ) بکری قربانی کی اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ بکری ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکی ہو اور جذعہ اسے کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو گیا ہو۔
❁ بَابُ الخُرُوجِ إِلَى المُصَلَّى بِغَيْرِ مِنْبَرٍ
❁ باب: عیدگاہ میں منبر نہ لے جانا
❁ 956 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى إِلَى الْمُصَلَّى فَأَوَّلُ شَيْءٍ يَبْدَأُ بِهِ الصَّلَاةُ ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَيَقُومُ مُقَابِلَ النَّاسِ وَالنَّاسُ جُلُوسٌ عَلَى صُفُوفِهِمْ فَيَعِظُهُمْ وَيُوصِيهِمْ وَيَأْمُرُهُمْ فَإِنْ كَانَ يُرِيدُ أَنْ يَقْطَعَ بَعْثًا قَطَعَهُ أَوْ يَأْمُرَ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ ثُمَّ يَنْصَرِفُ قَالَ أَبُو سَعِيدٍ فَلَمْ يَزَلْ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ فَإِذَا مَرْوَانُ يُرِيدُ أَنْ يَرْتَقِيَهُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَجَبَذْتُ بِثَوْبِهِ فَجَبَذَنِي فَارْتَفَعَ فَخَطَبَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَقُلْتُ لَهُ غَيَّرْتُمْ وَاللَّهِ فَقَالَ أَبَا سَعِيدٍ قَدْ ذَهَبَ مَا تَعْلَمُ فَقُلْتُ مَا أَعْلَمُ وَاللَّهِ خَيْرٌ مِمَّا لَا أَعْلَمُ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَجْلِسُونَ لَنَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَجَعَلْتُهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ
❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انہیں عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح نے، انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ( مدینہ کے باہر ) عید گاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ نماز پڑھاتے، نمازسے فارغ ہو کر آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عید گاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے ( خطبہ دینے کے لیے چڑھے ) اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔
❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب سے یہ بتلانا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عید گاہ میں منبر نہیں رکھا جاتا تھا اور نماز کے لیے کوئی خاص عمارت نہ تھی۔ میدان میں عید الفطر اور بقرعید کی نماز یں پڑھی جاتی تھیں۔ مروان جب مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے عیدگاہ میں خطبہ کے لیے منبر بھجوایا اور عیدین میں خطبہ نماز کے بعد دینا چاہیے تھا۔ لیکن مروان نے سنت کے خلاف پہلے ہی خطبہ شروع کر دیا۔ صد افسوس کہ اسلام کی فطری سادگی جلد ہی بدل دی گئی پھر ان میں دن بدن اضافے ہوتے رہے۔ علماءاحناف نے آج کل نیا اضافہ کر ڈالا کہ نماز اورخطبہ سے قبل کچھ وعظ کرتے ہیں اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ اس میں صرف کرکے بعد میں نماز اور خطبہ محض رسمی طور پر چند منٹوں میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ آج کوئی کثیر بن صلت نہیں جو ان اختراعات پر نوٹس لے۔
بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ ❁
❁ باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت
❁ 957 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ثُمَّ يَخْطُبُ بَعْدَ الصَّلَاةِ
❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الضحی یا عید الفطر کی نماز پہلے پڑھتے اور خطبہ نماز کے بعد دیتے تھے۔
❁ تشریح : باب کی حدیثوں میں سے نہیں نکلتا کہ عید کی نماز کے لیے سواری پر جانا یا پیدل جانا مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سواری پر جانے کی ممانعت مذکور نہ ہونے سے یہ نکالا کہ سواری پر بھی جانا منع نہیں ہے گو پیدل جانا افضل ہے۔ شافعی نے کہا ہمیں زہری سے پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید میں یا جنازے میں کبھی سوار ہو کر نہیں گئے اور ترمذی نے حضرت علی سے نکالا کہ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا سنت ہے۔ ( وحیدی ) اس باب کی روایات میں نہ پیدل چلنے کا ذکر ہے نہ سوار ی پر چلنے کی ممانعت ہے جس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ہر دو طرح سے عید گاہ جانا درست ہے، اگر چہ پیدل چلنا سنت ہے اور اسی میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ زمین پر جس قدر بھی نقش قدم ہوں گے ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب ملے گا لیکن اگر کوئی معذور ہو یا عیدگاہ دور ہو تو سواری کا استعمال بھی جائز ہے۔ بعض شارحین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال رضی اللہ عنہ پر تکیہ لگانے سے سواری کا جواز ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم
❁ بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ
❁ باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت
❁ 958 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامٌ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام نے خبر دی کہ ا بن جریج نے انہیں خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ آپ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے اور پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ سنایا۔
❁ بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ
❁ باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت
❁ 959 قَالَ وَأَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَرْسَلَ إِلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي أَوَّلِ مَا بُويِعَ لَهُ إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ بِالصَّلَاةِ يَوْمَ الْفِطْرِ إِنَّمَا الْخُطْبَةُ بَعْدَ الصَّلَاةِ
❁ ترجمہ : پھر ابن جریج نے کہا کہ مجھے عطاءنے خبر دی کہ ا بن عباس رضی اللہ عنہ نے ا بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو اس زمانہ میں بھیجا جب ( شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا آپ نے کہلایا کہ ) عید الفطر کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا۔
❁ بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ
❁ باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت
❁ 960 و أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَا لَمْ يَكُنْ يُؤَذَّنُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَلَا يَوْمَ الْأَضْحَى
❁ ترجمہ : اور مجھے عطاءنے ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں اذان نہیں دی جاتی تھی۔
❁ بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ
❁ باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت
❁ 961 وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ خَطَبَ النَّاسَ بَعْدُ فَلَمَّا فَرَغَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ صَدَقَةً قُلْتُ لِعَطَاءٍ أَتَرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ الْآنَ أَنْ يَأْتِيَ النِّسَاءَ فَيُذَكِّرَهُنَّ حِينَ يَفْرُغُ قَالَ إِنَّ ذَلِكَ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ أَنْ لَا يَفْعَلُو
❁ ترجمہ : اور جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ( عید کے دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پہلے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا، اس سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصیحت کی۔ آپ بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا، عورتیں اس میں خیرات ڈال رہی تھیں۔ میں نے اس پر عطاء سے پوچھا کہ کیا اس زمانہ میں بھی آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ عورتوں کے پاس آ کر انہیں نصیحت کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ بےشک یہ ان پر حق ہے اور سبب کیا جو وہ ایسا نہ کریں۔
❁ تشریح : یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد 62ھ میں عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی گئی۔ اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ باب یوں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال پر ٹیکا دیا معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت عید میں سوارہوکر بھی جانا درست ہے۔ روایت میں عورتوں کو الگ وعظ بھی مذکور ہے، لہذا امام کو چاہیے کہ عید میں مردوں کو وعظ سنا کر عورتوں کو بھی دین کی باتیں سمجھائے اور ان کو نیک کاموں کی رغبت دلائے۔ تشریح : یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد 62ھ میں عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی گئی۔ اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ باب یوں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال پر ٹیکا دیا معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت عید میں سوارہوکر بھی جانا درست ہے۔ روایت میں عورتوں کو الگ وعظ بھی مذکور ہے، لہذا امام کو چاہیے کہ عید میں مردوں کو وعظ سنا کر عورتوں کو بھی دین کی باتیں سمجھائے اور ان کو نیک کاموں کی رغبت دلائے۔
❁ بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِيدِ
❁ باب: عید میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا
❁ 962 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ قَالَ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَكُلُّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے، انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ نے فرمایا کہ میں عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کے ساتھ گیا ہوں یہ لوگ پہلے نماز پڑھتے، پھر خطبہ دیا کرتے تھے۔
❁ بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِيدِ
❁ باب: عید میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا
❁ 963 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ
❁ ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔
❁ بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِيدِ
❁ باب: عید میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا
❁ 964 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ الْفِطْرِ رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَجَعَلْنَ يُلْقِينَ تُلْقِي الْمَرْأَةُ خُرْصَهَا وَسِخَابَهَا
❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر ( خطبہ پڑھ کر ) آپ عورتوں کے پاس آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے عورتوں سے فرمایا خیرات کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کر نے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی۔
❁ بَابُ الخُطْبَةِ بَعْدَ العِيدِ
❁ باب: عید میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا
❁ 965 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنَا زُبَيْدٌ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ نَحَرَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ قَدَّمَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسْكِ فِي شَيْءٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ فَقَالَ اجْعَلْهُ مَكَانَهُ وَلَنْ تُوفِيَ أَوْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زبید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری رضی اللہ عنہ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے تو ( نماز سے پہلے ہی ) قربانی کر دی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔
❁ تشریح : روایت میں لفظ اول ما نبدا فی یومنا ھذا سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جب پہلا کام نماز ہوا تو معلوم ہوا کہ نماز خطبے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔
❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ حَمْلِ السِّلاَحِ فِي العِيدِ وَالحَرَمِ
❁ باب: عید کے دن اور حرم کے اندر ہتھیار باندھنا
❁ 966 حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى أَبُو السُّكَيْنِ قَالَ حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُوقَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ كُنْتُ مَعَ ابْنِ عُمَرَ حِينَ أَصَابَهُ سِنَانُ الرُّمْحِ فِي أَخْمَصِ قَدَمِهِ فَلَزِقَتْ قَدَمُهُ بِالرِّكَابِ فَنَزَلْتُ فَنَزَعْتُهَا وَذَلِكَ بِمِنًى فَبَلَغَ الْحَجَّاجَ فَجَعَلَ يَعُودُهُ فَقَالَ الْحَجَّاجُ لَوْ نَعْلَمُ مَنْ أَصَابَكَ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ أَنْتَ أَصَبْتَنِي قَالَ وَكَيْفَ قَالَ حَمَلْتَ السِّلَاحَ فِي يَوْمٍ لَمْ يَكُنْ يُحْمَلُ فِيهِ وَأَدْخَلْتَ السِّلَاحَ الْحَرَمَ وَلَمْ يَكُنْ السِّلَاحُ يُدْخَلُ الْحَرَمَ
❁ ترجمہ : ہم سے زکریا بن یحییٰ ابوالسکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرحمن محاربی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن سوقہ نے سعید بن جبیر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں ( حج کے دن ) ا بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا جب نیزے کی انی آپ کے تلوے میں چبھ گئی جس کی وجہ سے آپ کاپاؤں رکاب سے چپک گیا۔ تب میں نے اتر کر اسے نکالا۔ یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔ جب حجاج کو معلوم ہوا جو اس زمانہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے بعد حجاج کا امیر تھا تووہ بیمار پرسی کے لیے آیا۔ حجاج نے کہا کہ کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کس نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ اس پر ابن عمر نے فرمایا کہ تو نے مجھ کو نیزہ ماراہے۔ حجاج نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اس دن ہتھیار اپنے ساتھ لائے جس دن پہلے کبھی ہتھیار ساتھ نہیں لایا جاتا تھا ( عیدین کے دن ) تم ہتھیار حرم میں لائے حالانکہ حرم میں ہتھیار نہیں لایا جاتا تھا۔
❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ حَمْلِ السِّلاَحِ فِي العِيدِ وَالحَرَمِ
❁ باب: عید کے دن اور حرم کے اندر ہتھیار باندھنا
❁ 967 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ الْحَجَّاجُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالَ كَيْفَ هُوَ فَقَالَ صَالِحٌ فَقَالَ مَنْ أَصَابَكَ قَالَ أَصَابَنِي مَنْ أَمَرَ بِحَمْلِ السِّلَاحِ فِي يَوْمٍ لَا يَحِلُّ فِيهِ حَمْلُهُ يَعْنِي الْحَجَّاجَ
❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔
❁ تشریح : حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔ دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔ خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔ واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔ آخر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، ان کا مگر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزادیں۔ جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوںنے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی علماءکو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔
❁ بَابُ التَّبْكِيرِ إِلَى العِيدِ
❁ باب: عید کی نماز کے لئے سویرے جانا
❁ 968 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ فَقَامَ خَالِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أُصَلِّيَ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ قَالَ اجْعَلْهَا مَكَانَهَا أَوْ قَالَ اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر ( خطبہ کے بعد ) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہوگا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعا نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لویا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہوگی۔
❁ تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ ( رحمہ اللہ ) اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں الجذعۃ من الضان مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھو الاشھر عن اھل اللغۃ وجمہور اھل العلم من غیر ھم یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔ دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے ( جذعۃمن المعز ذات سنۃ ) یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔
❁ بَابُ فَضْلِ العَمَلِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ
❁ باب: ایام تشریق میں عمل کی فضیلت کا بیان
❁ 969 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ قَالُوا وَلَا الْجِهَادُ قَالَ وَلَا الْجِهَادُ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے سلیمان کے واسطے سے بیان کیا، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان ومال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا۔ (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)
❁ تشریح : اور ایک حنفی فتوی!ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں عبادت سال کے تمام دنوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ کہا گیا ہے کہ ذی الحجہ کے دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں اور رمضان کی راتوں میں سے سب سے افضل ہیں۔ ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی خاص عبادت جس پر سلف کا عمل تھا تکبیر کہنا اور روزے رکھنا ہے۔ اس عنوان کی تشریحات میں ہے کہ ابو ہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم جب تکبیر کہتے تو عام لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر میں مطلوب بھی یہی ہے کہ جب کسی کہتے ہوئے کو سنیں تو ارد گرد بھی آدمی ہو ں سب بلند آواز سے تکبیر کہیں ( تفہیم البخاری ) عام طور پر برادران احناف نویں تاریخ سے تکبیر شروع کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود ان کے علماءکی تحقیق کے مطابق ان کا یہ طرز عمل سلف کے عمل کے خلاف ہے جیسا کہ یہاں صاحب تفہیم البخاری دیوبندی حنفی نے صاف لکھا ہے کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں تکبیر کہنا سلف کا عمل تھا ( اللہ نیک توفیق دے ) آمین۔ بلکہ تکبیروں کا سلسلہ ایام تشریق میں بھی جاری ہی رہنا چاہیے جو گیارہ سے تیرہ تاریخ تک کے دن ہیں۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد اور یوں بھی مروی ہیں اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا.
❁ بَابُ التَّكْبِيرِ أَيَّامَ مِنًى، وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ
باب: ایام تشریق میں عمل کی فضیلت کا بیان ❁
❁ 970 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيُّ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ وَنَحْنُ غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ عَنْ التَّلْبِيَةِ كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ يُلَبِّي الْمُلَبِّي لَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے۔ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر۔ اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔
❁ تشریح : لفظ منیٰ کی تحقیق حضرت علامہ قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے منا بکسر المیم یذکر ویونث فان قصد الموضع فمذکر ویکتب بالالف وینصرف وان قصد البقعۃ فمؤنث ولا ینصرف ویکتب بالیاءوالمختارتذکیرہ یعنی لفظ منا میم کے زیر کے ساتھ اگر اس سے منا موضع مراد لیا جائے تو یہ مذکر ہے اور منصرف ہے اور یہ الف کے ساتھ ( منا ) لکھا جائے گا اور اگر اس سے مراد بقعہ ( مقام خاص ) لیا جائے تو پھر یہ مؤنث ہے اور لفظ یاءکے ساتھ منی لکھا جائے گا مگر مختار یہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور منا کے ساتھ اس کی کتابت بہتر ہے۔ پھر فرماتے ہیں وسمی منی لما یمنی فیہ ای یراق من الدماءیعنی یہ مقام لفظ منی سے اس لیے موسوم ہوا کہ یہاں خون بہانے کا قصد ہوتا ہے۔
❁ بَابُ التَّكْبِيرِ أَيَّامَ مِنًى، وَإِذَا غَدَا إِلَى عَرَفَةَ
❁ باب: ایام تشریق میں عمل کی فضیلت کا بیان
❁ 971 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَاصِمٍ عَنْ حَفْصَةَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ كُنَّا نُؤْمَرُ أَنْ نَخْرُجَ يَوْمَ الْعِيدِ حَتَّى نُخْرِجَ الْبِكْرَ مِنْ خِدْرِهَا حَتَّى نُخْرِجَ الْحُيَّضَ فَيَكُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَيُكَبِّرْنَ بِتَكْبِيرِهِمْ وَيَدْعُونَ بِدُعَائِهِمْ يَرْجُونَ بَرَكَةَ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَطُهْرَتَهُ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے عاصم بن سلیمان سے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے، ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے فرمایا کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔
❁ تشریح : باب کی مطابقت اس سے ہوئی کہ عید کے دن عورتیں بھی تکبیریں کہتی تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ درحقیقت عیدین کی روح ہی بلند آواز سے تکبیر کہنے میں مضمر ہے تاکہ دنیا والوں کو اللہ پاک کی بڑائی اور بزرگی سنائی جائے اور اس کی عظمت کا سکہ دل میں بٹھایا جائے۔ آج بھی ہر مسلمان کے لیے نعرہ تکبیر کی روح کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگی۔ تکبیر کے لفظ یہ ہیں: اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا یا یوں کہیے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
❁ بَابُ الصَّلاَةِ إِلَى الحَرْبَةِ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: برچھی کا سترہ بنانا
❁ 972 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ تُرْكَزُ الْحَرْبَةُ قُدَّامَهُ يَوْمَ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ ثُمَّ يُصَلِّي
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدا لوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے برچھی آگے آگے اٹھائی جاتی اور وہ عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑدی جاتی آپ اسی کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
❁ تشریح : کیونکہ عید میدان میں پڑھی جاتی تھی اور میدان میں نماز پڑھنے کے لیے سترہ ضروری ہے، اس لیے چھوٹا سا نیزہ لے لیتے تھے جو سترہ کے لیے کافی ہو سکے اور اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیتے تھے نیزہ اس لیے لیتے تھے کہ اسے گاڑ نے میں آسانی ہوتی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس سے پہلے لکھ آئے ہیں کہ عید گاہ میں ہتھیار نہ لے جانا چاہیے۔ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ضرورت ہو تو لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سترہ کے لیے نیزہ لے جایا جاتا تھا ( تفہیم البخاری )
❁ بَابُ حَمْلِ العَنَزَةِ أَوِ الحَرْبَةِ بَيْنَ يَدَيِ الإِمَامِ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: امام کے آگے عید کے دن نیزہ لے کر چلنا
❁ 973 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِزَامِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ أَخْبَرَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْدُو إِلَى الْمُصَلَّى وَالْعَنَزَةُ بَيْنَ يَدَيْهِ تُحْمَلُ وَتُنْصَبُ بِالْمُصَلَّى بَيْنَ يَدَيْهِ فَيُصَلِّي إِلَيْهَا
❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عمرواوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو ) آپ کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا پھر یہ عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔
❁ تشریح : تشریح اوپر گزر چکی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز جنگل ( میدان ) میں پڑھا کرتے تھے پس مسنون یہی ہے جو لوگ بلا عذر بار ش وغیرہ مساجد میں عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں وہ سنت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔
❁ بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ وَالحُيَّضِ إِلَى المُصَلَّى
❁ باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ جانا
❁ 974 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَعَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتْ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى
❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن عبد الوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لئے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔ یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔ بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔ جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔ عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے اما فی معناہ من الاحادیث قاضیۃ بمشروعیۃ خروج النساءفی العیدین الی المصلی من غیر فرق بین البکروالثیب والشابۃ والعجوز والحائض وغیرھا مالم تکن معتدۃ او کان فی خروجھا فتنۃ اوکان لھا عذر یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے پھر فرماتے ہیں والقول بکراھیۃ الخروج علی الاطلاق رد للاحادیث الصحیحۃ بالاراءالفاسدۃ یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔ آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔ جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ وباادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں،یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عن ام عطیۃ ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعواتق وذوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض لیعتزلن المصلی ویشھدن دعوۃ المسلمین قالت احداھن یا رسول اللہ ان لم یکن لھا جلباب قال فلتصرھا اختھا من جلبابھا ( صحیحین وغیرہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔ جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔ حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں قال شیخنا فی شرح الترمذی لا دلیل علی منع الخروج الی العید للشواب مع الامن من المفاسد مما حدثن فی ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔
❁ بَابُ خُرُوجِ الصِّبْيَانِ إِلَى المُصَلَّى
❁ باب: بچوں کا عیدگاہ جانا
❁ 975 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحَى فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ
❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبد الرحمن بن عابس سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے عیدالفطر یا عید الاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کے لیے حکم فرمایا۔
❁ بَابُ اسْتِقْبَالِ الإِمَامِ النَّاسَ فِي خُطْبَةِ العِيدِ
❁ باب: امام خطبہ عید میں لوگوں کی طرف منہ
❁ 976 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أَضْحًى إِلَى الْبَقِيعِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ وَقَالَ إِنَّ أَوَّلَ نُسُكِنَا فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نَبْدَأَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ وَافَقَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ ذَلِكَ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْءٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي ذَبَحْتُ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ قَالَ اذْبَحْهَا وَلَا تَفِي عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے زبید نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور دو رکعت عید کی نماز پڑھائیں۔ پھر ہماری طرف چہرہ مبارک کر کے فرمایا کہ سب سے مقدم عبادت ہمارے اس دن کی یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر ( نماز اور خطبے سے ) لوٹ کر قربانی کریں۔ اس لیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ ایسی چیز ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے کھلانے کے لیے جلدی سے مہیا کر دیا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو پہلے ہی ذبح کردیا۔ لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ دوندی بکری سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خیر تم اسی کو ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسی پٹھیا جائز نہ ہوگی۔
تشریح : سوال کرنے والے ابو بردہ بن نیار انصاری تھے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
❁ بَابُ العَلَمِ الَّذِي بِالْمُصَلَّى
❁ باب: عیدگاہ میں نشان لگانا
❁ 977 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ قِيلَ لَهُ أَشَهِدْتَ الْعِيدَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَعَمْ وَلَوْلَا مَكَانِي مِنْ الصِّغَرِ مَا شَهِدْتُهُ حَتَّى أَتَى الْعَلَمَ الَّذِي عِنْدَ دَارِ كَثِيرِ بْنِ الصَّلْتِ فَصَلَّى ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَوَعَظَهُنَّ وَذَكَّرَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ فَرَأَيْتُهُنَّ يَهْوِينَ بِأَيْدِيهِنَّ يَقْذِفْنَهُ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ ثُمَّ انْطَلَقَ هُوَ وَبِلَالٌ إِلَى بَيْتِهِ
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان ثوری سے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عابس نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے دریافت کیا گیا تھا کہ کیا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اور اگر باوجود کم عمری کے میری قدر ومنزلت آپ کے یہاں نہ ہوتی تو میں جا نہیں سکتا تھا۔ آپ اس نشان پر آئے جو کثیر بن صلت کے گھر کے قریب ہے۔ آپ نے وہاں نماز پڑھائی پھر خطبہ سنایا۔ اس کے بعد عورتوں کی طرف آئے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ نے انہیں وعظ اور نصیحت کی اور صدقہ کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالے جا رہی تھیں۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور بلال رضی اللہ عنہ گھر واپس ہوئے۔
تشریح : کثیربن صلت کا مکان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بنایا گیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لوگوں کو عید گاہ کا مقام بتانے کے لیے اس کا پتہ دیا۔
❁ بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا
❁ 978 حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَصْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى فَبَدَأَ بِالصَّلَاةِ ثُمَّ خَطَبَ فَلَمَّا فَرَغَ نَزَلَ فَأَتَى النِّسَاءَ فَذَكَّرَهُنَّ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى يَدِ بِلَالٍ وَبِلَالٌ بَاسِطٌ ثَوْبَهُ يُلْقِي فِيهِ النِّسَاءُ الصَّدَقَةَ قُلْتُ لِعَطَاءٍ زَكَاةَ يَوْمِ الْفِطْرِ قَالَ لَا وَلَكِنْ صَدَقَةً يَتَصَدَّقْنَ حِينَئِذٍ تُلْقِي فَتَخَهَا وَيُلْقِينَ قُلْتُ أَتُرَى حَقًّا عَلَى الْإِمَامِ ذَلِكَ وَيُذَكِّرُهُنَّ قَالَ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْهِمْ وَمَا لَهُمْ لَا يَفْعَلُونَهُ
❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن ابراہیم بن نصر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاء نے خبر دی کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو میں نے یہ کہتے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کی نماز پڑھی۔ پہلے آپ نے نماز پڑھی اس کے بعد خطبہ دیا۔ جب آپ خطبہ سے فارغ ہوگئے تو اترے اور عورتوں کی طرف آئے۔ پھر انہیں نصیحت فرمائی۔ آپ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ میں نے عطاء سے پوچھا کیا یہ صدقہ فطر دے رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا کہ نہیں بلکہ صدقہ کے طور پر دے رہی تھیں۔ اس وقت عورتیں اپنے چھلے ( وغیرہ ) برابر ڈال رہی تھیں۔ پھر میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا آپ اب بھی امام پر اس کا حق سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو نصیحت کرے؟ انہوں نے فرمایا ہاں ان پر یہ حق ہے اور کیا وجہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرتے۔
❁ بَابُ مَوْعِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: عید کے دن عورتوں کو نصیحت کرنا
❁ 979 قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَأَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ شَهِدْتُ الْفِطْرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يُصَلُّونَهَا قَبْلَ الْخُطْبَةِ ثُمَّ يُخْطَبُ بَعْدُ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ حِينَ يُجَلِّسُ بِيَدِهِ ثُمَّ أَقْبَلَ يَشُقُّهُمْ حَتَّى جَاءَ النِّسَاءَ مَعَهُ بِلَالٌ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ الْآيَةَ ثُمَّ قَالَ حِينَ فَرَغَ مِنْهَا آنْتُنَّ عَلَى ذَلِكِ قَالَتْ امْرَأَةٌ وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ لَمْ يُجِبْهُ غَيْرُهَا نَعَمْ لَا يَدْرِي حَسَنٌ مَنْ هِيَ قَالَ فَتَصَدَّقْنَ فَبَسَطَ بِلَالٌ ثَوْبَهُ ثُمَّ قَالَ هَلُمَّ لَكُنَّ فِدَاءٌ أَبِي وَأُمِّي فَيُلْقِينَ الْفَتَخَ وَالْخَوَاتِيمَ فِي ثَوْبِ بِلَالٍ قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ الْفَتَخُ الْخَوَاتِيمُ الْعِظَامُ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
❁ ترجمہ : ابن جریج نے کہا کہ حسن بن مسلم نے مجھے خبر دی، انہیں طاؤس نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ عیدالفطر کی نماز پڑھنےگیا ہوں۔ یہ سب حضرات خطبہ سے پہلے نماز پڑھتے اور بعد میں خطبہ دیتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے، جب آپ لوگوں کو ہاتھ کے اشارے سے بٹھا رہے تھے۔ پھر آپ صفوں سے گزرتے ہوئے عورتوں کی طرف آئے۔ آپ کے ساتھ بلال تھے۔ آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی “ اے نبی! جب تمہارے پاس مومن عورتیں بیعت کے لیے آئیں ” الآیہ۔ پھر جب خطبہ سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا تم ان باتوں پر قائم ہو؟ ایک عورت نے جواب دیا کہ ہاں۔ ان کے علاوہ کوئی عورت نہ بولی، حسن کو معلوم نہیں کہ بولنے والی خاتون کون تھیں۔ آپ نے خیرات کے لیے حکم فرمایا اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا دیا اور کہا کہ لاؤ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ چنانچہ عورتیں چھلے اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ عبدالرزاق نے کہا فتخ بڑے ( چھلے ) کو کہتے ہیں جس کا جاہلیت کے زمانہ میں استعمال تھا۔
❁ تشریح : اگرچہ عہد نبوی میں عید گاہ کے لیے کوئی عمارت نہیں تھی اور جہاں عیدین کی نماز پڑھی جاتی تھی وہاں کوئی منبر بھی نہیں تھا لیکن اس لفظ فلما فرغ نزل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بلند جگہ تھی جس پر آپ خطبہ دیتے تھے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے سامنے خطبہ دے چکے تو لوگوں نے سمجھا کہ اب خطبہ ختم ہو گیا ہے اور انہیں واپس جانا چاہیے، چنا نچہ لوگ واپسی کے لیے اٹھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے روکا کہ ابھی بیٹھے رہیں۔ کیونکہ آپ عورتوں کو خطبہ دینے جا رہے تھے۔ دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جواب دینے والی خاتون اسماءبنت یزید تھیں جو اپنی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے “خطیبۃ النسائ” کے نام سے مشہور تھیں۔ انہیں کی ایک روایت میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف آئے تو میں بھی ان میں موجود تھی۔ آپ نے فرمایا کہ عورتو!تم جہنم کا ایندھن زیادہ بنوگی۔ میں نے آپ کو پکار کر کہا کیونکہ میں آپ کے ساتھ بہت تھی کہ یارسول اللہ! ایسا کیوں ہو گا؟ آپ نے فرمایا اس لیے کہ تم لعن طعن بہت زیادہ کر تی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔
❁ بَابُ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ فِي العِيدِ
❁ باب: عید کے دن اگر کسی عورت کے پاس دوپٹہ نہ ہو
❁ 980 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ قَالَتْ كُنَّا نَمْنَعُ جَوَارِيَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ يَوْمَ الْعِيدِ فَجَاءَتْ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ فَأَتَيْتُهَا فَحَدَّثَتْ أَنَّ زَوْجَ أُخْتِهَا غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً فَكَانَتْ أُخْتُهَا مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ فَقَالَتْ فَكُنَّا نَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى وَنُدَاوِي الْكَلْمَى فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ فَقَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا فَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ حَفْصَةُ فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ أَتَيْتُهَا فَسَأَلْتُهَا أَسَمِعْتِ فِي كَذَا وَكَذَا قَالَتْ نَعَمْ بِأَبِي وَقَلَّمَا ذَكَرَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا قَالَتْ بِأَبِي قَالَ لِيَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوْ قَالَ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ شَكَّ أَيُّوبُ وَالْحُيَّضُ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى وَلْيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ فَقُلْتُ لَهَا الْحُيَّضُ قَالَتْ نَعَمْ أَلَيْسَ الْحَائِضُ تَشْهَدُ عَرَفَاتٍ وَتَشْهَدُ كَذَا وَتَشْهَدُ كَذَا
❁ ترجمہ : ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے حفصہ بن سیرین کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عیدگاہ جانے سے منع کر تے تھے۔ پھر ایک خاتون باہر سے آئی اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا میں ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک رہے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ لڑائیوں میں شریک ہوئی تھیں، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کے دن ( عیدگاہ ) نہ جاسکے تو کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعامیں شریک ہوں۔ حفصہ نے بیان کیا کہ پھر جب ام عطیہ یہاں تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئی اور دریافت کیا کہ آپ نے فلاں فلاں بات سنی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فداہوں۔ ام عطیہ جب بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور کہتیں کہ میرے باپ آپ پر فدا ہوں، ہاں توانہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوان پردہ والی یا جوان اور پردہ والی باہر نکلیں۔ شبہ ایوب کو تھا۔ البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے علیحدہ ہو کر بیٹھیں انہیں خیر اور مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ حفصہ نے کہا کہ میں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حائضہ عورتیں بھی؟ انہوں نے فرمایا کیا حائضہ عورتیں عرفات نہیں جاتیں اور کیا وہ فلاں فلاں جگہوں میں شریک نہیں ہوتیں۔ ( پھر اجتماع عید ہی کی شرکت میں کون سی قباحت ہے )
❁ تشریح : حفصہ کے سوال کی وجہ یہ تھی کہ حائضہ پر نماز ہی فرض نہیں اور نہ وہ نماز پڑھ سکتی ہے تو عید گاہ میں اس کی شرکت سے کیا فائدہ ہوگا۔ اس پر حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب حیض والی عرفات اور دیگر مقامات مقدسہ میں جاسکتی ہیں اور جاتی ہیں تو عید گاہ میں کیوں نہ جائیں، اس جواب پر آج کل کے ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو عورتوں کو عید گاہ میں جانا ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سو حیلے بہانے تراشتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی عورتیں میلوں میں اور فسق وفجور میں دھڑلے سے شریک ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حیض والی عورتوں کوبھی عید گاہ جانا چاہیے۔وہ نماز سے الگ رہیں مگر دعاؤں میں شریک ہوں۔اس سے مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔بلا شک دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب مسلمان مرد وعورت مل کر دعا کریں تو نہ معلوم کس کی دعا قبول ہو کر جملہ اہل اسلام کے لیے باعث برکت ہو سکتی ہے۔ بحالات موجودہ جبکہ مسلمان ہر طرف سے مصائب کا شکار ہیں بالضرور دعاؤں کا سہارا ضروری ہے۔ امام عید کا فرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لیے دعا کرے، خاص طور پر قرآنی دعائیں زیادہ مؤثر ہیں پھر احادیث میں بھی بڑی پاکیزہ دعائیں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے بعد سامعین کی مادری زبانوں میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ ( وباللہ التوفیق )
❁ بَاب اعْتِزَالِ الْحُيَّضِ الْمُصَلَّى
❁ باب: حیضہ عورتیں عید گاہ سے الگ رہیں
❁ 981 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ أُمِرْنَا أَنْ نَخْرُجَ فَنُخْرِجَ الْحُيَّضَ وَالْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ قَالَ ابْنُ عَوْنٍ أَوْ الْعَوَاتِقَ ذَوَاتِ الْخُدُورِ فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلْنَ مُصَلَّاهُمْ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن ابراہیم ا بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ حائضہ عورتوں، دوشیزاؤں اور پردہ والیوں کو عید گاہ لے جائیں ابن عون نے کہا کہ یا ( حدیث میں ) پردہ والی دوشیزائیں ہے البتہ حائضہ عورتیں مسلمانوں کی جماعت اور دعاؤں میں شریک ہوں اور ( نماز سے ) الگ رہیں۔
❁ بَاب النَّحْرِ وَالذَّبْحِ يَوْمَ النَّحْرِ بِالْمُصَلَّى
❁ باب: عید الاضحٰی کے دن عید گاہ میں نحر اور ذبح کرنا
❁ 982 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ فَرْقَدٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَنْحَرُ أَوْ يَذْبَحُ بِالْمُصَلَّى
❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے کثیر بن فرقد نے نافع سے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ ہی میں نحر اور ذبح کیا کرتے۔
❁ تشریح : نحراونٹ کا ہوتا ہے باقی جانوروں کو لٹا کر ذبح کرتے ہیں۔ اونٹ کو کھڑے کھڑے اس کے سینہ میں خنجر ماردیتے ہیں اس کا نام نحر ہے۔قربانی شعائر اسلام میں ہے۔ حسب موقع ومحل بلا شبہ عید گاہ میں بھی نحر اور قربانی مسنون ہے مگر بحالات موجودہ اپنے گھروں یا مقررہ مقامات پر یہ سنت ادا کرنی چاہیے، حالات کی مناسبت کے لیے اسلام میں گنجائش رکھی گئی ہے۔
❁ بَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِي خُطْبَةِ العِيدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ يَخْطُبُ
❁ باب: عید کے خطبہ میں امام کا باتیں کرنا
❁ 983 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ بَعْدَ الصَّلَاةِ فَقَالَ مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسْكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ فَقَامَ أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ نَسَكْتُ قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ إِلَى الصَّلَاةِ وَعَرَفْتُ أَنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ فَتَعَجَّلْتُ وَأَكَلْتُ وَأَطْعَمْتُ أَهْلِي وَجِيرَانِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ قَالَ فَإِنَّ عِنْدِي عَنَاقَ جَذَعَةٍ هِيَ خَيْرٌ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَهَلْ تَجْزِي عَنِّي قَالَ نَعَمْ وَلَنْ تَجْزِيَ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ
❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوالاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے منصور بن معتمر نے بیان کیا کہ ان سے عامر شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز کے بعد خطبہ سنایا اور فرمایا کہ جس نے ہماری طرح کی نماز پڑھی اور ہماری طرح کی قربانی کی، اس کی قربانی درست ہوئی۔ لیکن جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ ذبیحہ صرف گوشت کھانے کے لیے ہوگا۔ اس پر ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قسم اللہ کی میں نے تو نماز کے لیے آنے سے پہلے قربانی کر لی میں نے یہ سمجھا کہ آج کا دن کھانے پینے کا دن ہے۔ اسی لیے میں نے جلدی کی اور خود بھی کھایا اور گھر والوں کو اور پڑوسیوں کو بھی کھلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہر حال یہ گوشت ( کھانے کا ) ہوا ( قربانی نہیں ) انہوں نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا سال بھر کا بچہ ہے وہ دو بکریوں کے گوشت سے زیادہ بہتر ہے۔ کیا میری ( طرف سے اس کی ) قربانی درست ہوگی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں مگر تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسے بچے کی قربانی کافی نہ ہوگی۔
❁ تشریح : اس سے یہ ثابت فرمایا کہ امام اور لوگ عید کے خطبہ میں مسائل کی بات کر سکتے ہیں اور آگے کے فقروں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کی حالت میں اگر امام سے کوئی شخص مسئلہ پوچھے تو جواب دے۔
❁ بَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِي خُطْبَةِ العِيدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ يَخْطُبُ
❁ باب: عید کے خطبہ میں امام کا باتیں کرنا
❁ 984 حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ خَطَبَ فَأَمَرَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ أَنْ يُعِيدَ ذَبْحَهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ جِيرَانٌ لِي إِمَّا قَالَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَإِمَّا قَالَ بِهِمْ فَقْرٌ وَإِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ الصَّلَاةِ وَعِنْدِي عَنَاقٌ لِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شَاتَيْ لَحْمٍ فَرَخَّصَ لَهُ فِيهَا
❁ ترجمہ : ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمدنے، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھ کر خطبہ دیا آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کر لیا اسے دوبارہ قربانی کرنی ہوگی۔ اس پر انصار میں سے ایک صاحب اٹھے کہ یا رسول اللہ! میرے کچھ غریب بھوکے پڑوسی ہیں یا یوں کہا وہ محتاج ہیں۔ اس لیے میں نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دو بکریوں کے گوشت سے بھی زیادہ مجھے پسند ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
❁ بَابُ كَلاَمِ الإِمَامِ وَالنَّاسِ فِي خُطْبَةِ العِيدِ، وَإِذَا سُئِلَ الإِمَامُ عَنْ شَيْءٍ وَهُوَ يَخْطُبُ
❁ باب: عید کے خطبہ میں امام کا باتیں کرنا
❁ 985 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ جُنْدَبٍ قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ خَطَبَ ثُمَّ ذَبَحَ فَقَالَ مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا وَمَنْ لَمْ يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ بِاسْمِ اللَّهِ
❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، ان سے جندب نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بقر عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر قربانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا ہوتو اسے دوسرا جانور بدلہ میں قربانی کرنا چاہیے اور جس نے نماز سے پہلے ذبح نہ کیا ہو وہ اللہ کے نام پر ذبح کرے۔
❁ بَابُ مَنْ خَالَفَ الطَّرِيقَ إِذَا رَجَعَ يَوْمَ العِيدِ
❁ باب: عیدگاہ میں آمدورفت کے راستے مختلف ہوں
❁ 986 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلَامٍ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بْنُ وَاضِحٍ عَنْ فُلَيْحِ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ يَوْمُ عِيدٍ خَالَفَ الطَّرِيقَ تَابَعَهُ يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ فُلَيْحٍ وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ عَنْ فُلَيْحٍ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَحَدِيثُ جَابِرٍ أَصَحُّ
❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو تمیلہ یحییٰ بن واضح نے خبر دی، انہیں فلیح بن سلیمان نے، انہیں سعید بن حارث نے، انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن ایک راستہ سے جاتے پھر دوسرا راستہ بدل کر آتے۔ اس روایت کی متابعت یونس بن محمد نے فلیح سے کی، ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا لیکن جابر کی روایت زیادہ صحیح ہے۔
❁ تشریح : یعنی جو شخص سعید کا شیخ جابر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتا ہے اس کی روایت اس سے زیادہ صحیح ہے جو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو سعید کا شیخ کہتا ہے۔یونس کی اس روایت کو اسماعیل نے وصل کیا ہے۔ راستہ بدل کر آنا جانا بھی شرعی مصالح سے خالی نہیں ہے جس کا مقصد علماءنے یہ سمجھا کہ ہر دو راستوں پر عبادت الٰہی کے لیے نمازی کے قدم پڑیں گے اور دونوں راستوں کی زمینیں عند اللہ اس کے لیے گواہ ہوں گی ( واللہ اعلم )
❁ بَابٌ: إِذَا فَاتَهُ العِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَذَلِكَ النِّسَاءُ، وَمَنْ كَانَ فِي البُيُوتِ وَالقُرَى
❁ باب: اگر جماعت سے عید کی نماز نہ ملے
❁ 987 – حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ [ص:24]، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنَى تُدَفِّفَانِ، وَتَضْرِبَانِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَشٍّ بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَكَشَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، فَقَالَ: «دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ، وَتِلْكَ الأَيَّامُ أَيَّامُ مِنًى
❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے یہاں ( منا کے دنوں میں ) تشریف لائے اس وقت گھر میں دو لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور بعاث کی لڑائی کی نظمیں گا رہی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چہرہ مبارک پر کپڑا ڈالے ہوئے تشریف فرما تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو ڈانٹا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹا کر فرمایا کہ ابوبکر جانے بھی دو یہ عید کے دن ہیں ( اور وہ بھی منا میں )
❁ بَابٌ: إِذَا فَاتَهُ العِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، وَكَذَلِكَ النِّسَاءُ، وَمَنْ كَانَ فِي البُيُوتِ وَالقُرَى
❁ باب: اگر جماعت سے عید کی نماز نہ ملے
❁ 988 – وَقَالَتْ عَائِشَةُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ فِي المَسْجِدِ فَزَجَرَهُمْ عُمَرُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «دَعْهُمْ أَمْنًا بَنِي أَرْفِدَةَ» يَعْنِي مِنَ الأَمْنِ
❁ ترجمہ : اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے ( ایک دفعہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے مجھے چھپا رکھا تھا اور میں حبشہ کے لوگوں کو دیکھ رہی تھی جو مسجد میں تیروں سے کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جانے دو اور ان سے فرمایا اے بنوارفدہ! تم بے فکر ہو کر کھیل دکھاؤ۔
❁ تشریح : شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکالا کہ جب ہر ایک شخص کے لیے یہ دن خوشی کے ہوئے تو ہر ایک کو عید کی نماز بھی پڑھنی ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی اور بعد کے ایام تشریق گیارہ، بارہ تیرہ سب کو عید کے ایام فرمایا اور ارشاد ہوا کہ ایک تو عید کے دن خودخوشی کے دن ہیں اور پھر منیٰ میں ہونے کی اور خوشی ہے کہ اللہ نے حج نصیب فرمایا۔
❁ بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ العِيدِ وَبَعْدَهَا
❁ باب: عیدگاہ میں نماز سے پہلے نفل پڑھنا
❁ 989 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الْفِطْرِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا وَمَعَهُ بِلَالٌ
❁ ترجمہ : ہم سے ابو ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عدی بن ثابت نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کر تے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نکلے اور ( عید گاہ ) میں دورکعت نماز عید پڑھی۔ آپ نے نہ اس سے پہلے نفل نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
❁ تشریح : علامہ شوکانی فرماتے ہیں قولہ لم یصل قبلھا ولا بعدھا فیہ وفی بقیۃ احادیث الباب دلیل علی کراھۃ الصلوۃ قبل صلاۃ العید وبعدھا الیہ ذھب احمد بن حنبل قال ابن قدامۃ وھو مذھب ابن عباس وابن عمر الخ ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث اور اس بارے میں دیگر احادیث سے ثابت ہوا کہ عید کی نماز کے پہلے اور بعدنفل نماز پڑھنی مکروہ ہے۔ امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مسلک ہے اور بقول ابن قدامہ حضرت عبد اللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت علی وحضرت عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اکابر صحابہ وتابعین کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام زہری فرماتے ہیں لم اسمع احدا من علماءنا یذکر ان احدا من سلف ھذہ الامۃ کا ن یصلی قبل تلک الصلوۃ ولا بعدھا ( نیل الاوطار ) یعنی اپنے زمانہ کے علماءمیں میں نے کسی عالم سے نہیں سنا کہ سلف امت میں سے کوئی بھی عید سے پہلے یا بعد میں کوئی نفل نماز پڑھتا ہو۔ ہاں عید کی نماز پڑھ کر اور واپس گھر آکر گھر میں دو رکعت نفل پڑھنا ثابت ہے جیسا کہ ابن ماجہ میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، وہ فرماتے ہیں عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کان لا یصلی قبل العید شیئا فاذا رجع الی منزلہ صلی رکعتین رواہ ابن ماجہ واحمد بمعناہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید سے پہلے کوئی نماز نفل نہیں پڑھی جب آپ اپنے گھر واپس ہوئے تو آپ نے دو رکعتیں ادا فرمائیں۔ اس کو ابن ماجہ اور احمد نے بھی اس کے قریب قریب روایت کیا ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں وحدیث ابی سعید اخرجہ ایضا الحاکم وصححہ وحسنہ الحافظ فی الفتح وفی اسنادہ عبد اللہ بن محمد بن عقیل وفیہ مقال وفی الباب عن عبداللہ بن عمروبن العاص عند ابن ماجہ بنحو حدیث ابن عباس الخ ( نیل الاوطار ) یعنی ابو سعید والی حدیث کو حاکم نے بھی روایت کیا ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس کی تحسین کی ہے اور اس کی سند میں عبداللہ بن محمد بن عقیل ایک راوی ہے جن کے متعلق کچھ کہا گیا ہے اور اس مسئلہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص کی بھی ایک روایت حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت کی مانند ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں صرف نماز عید اورخطبہ نیز دعا کرنا مسنون ہے عیدگاہ مزید نفل نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے۔ یہ تو وہ مقام ہے جس کی حاضری ہی اللہ کو اس قدر محبوب ہے کہ وہ اپنے بندوں اور بندیوں کو میدان عید گاہ میں دیکھ کر اس قدر خوش ہوتا ہے کہ جملہ حالات جاننے کے باوجود اپنے فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ یہ میرے بندے اور بندیاں آج یہاں کیوں جمع ہوئے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ یہ تیرے مزدور ہیں جنہوں نے رمضان میں تیرا فرض ادا کیا ہے، تیرے رضا کے لیے روزے رکھے ہیں اور اب میدان میں تجھ سے مزدوری مانگنے آئے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے فرشتو!گواہ رہو میں نے ان کو بخش دیا اور ان کے روزوں کو قبول کیا اور ان کی دعاؤں کو بھی شرف قبولیت تا قیامت عطا کیا۔ پھر اللہ کی طرف سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندو! جاؤ اس حال میں کہ تم بخش دیئے گئے ہو۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں بجزدوگانہ عید کے کوئی نماز نفل نہ پڑھی جائے یہی اسوہ حسنہ ہے اور اسی میں اجروثواب ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم