Search
Sections
< All Topics
Print

14. Kitaab ul Witr; [کِتَابُ الوِترِ]; Witr Prayer

✦ کِتَابُ الوِترِ ✦

کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان

 


❁ 990 حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، وعبد الله بن دينار، عن ابن عمر، أن رجلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الليل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏ صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا خشي أحدكم الصبح صلى ركعة واحدة، توتر له ما قد صلى‏”‏‏. ‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے نافع اور عبد اللہ ابن دینار سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رات میں نماز کے متعلق معلوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات کی نمازدو دو رکعت ہے پھر جب کوئی صبح ہو جانے سے ڈرے تو ایک رکعت پڑھ لے، وہ اس کی ساری نماز کو طاق بنا دے گی۔


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ
❁ باب: وتر کا بیان

❁ 991 وَعَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُسَلِّمُ بَيْنَ الرَّكْعَةِ وَالرَّكْعَتَيْنِ فِي الْوِتْرِ حَتَّى يَأْمُرَ بِبَعْضِ حَاجَتِهِ

 

❁ ترجمہ : اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔


❁ تشریح : اس حدیث سے دو باتیں نکلیں ایک یہ کہ رات کی نماز دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیے یعنی ہر دوگانہ کے بعد سلا م پھیرے، دوسرے وتر کی ایک رکعت بھی پڑھ سکتا ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے اور ان کی دلیل ضعیف ہے۔ صحیح حدیثوں سے وتر کی ایک رکعت پڑھنا ثابت ہے اور تفصیل امام محمد بن نصر مرحوم کی کتاب الوتر والنوافل میں ہے ( مولانا وحید الزماں )


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ
❁ باب: وتر کا بیان

❁ 992 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔

 


❁ تشریح : بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میںذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھاتاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں ( تفہیم البخاری ) یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ
❁ باب: وتر کا بیان

❁ 993 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَنْصَرِفَ فَارْكَعْ رَكْعَةً تُوتِرُ لَكَ مَا صَلَّيْتَ قَالَ الْقَاسِمُ وَرَأَيْنَا أُنَاسًا مُنْذُ أَدْرَكْنَا يُوتِرُونَ بِثَلَاثٍ وَإِنَّ كُلًّا لَوَاسِعٌ أَرْجُو أَنْ لَا يَكُونَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَأْسٌ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبد الرحمن بن قاسم نے اپنے باپ قاسم سے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات کی نمازیں دو دو رکعتیں ہیں اور جب تو ختم کرنا چاہے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے جو ساری نماز کوطاق بنا دے گی۔ قاسم بن محمد نے بیان کیا کہ ہم نے بہت سوں کو تین رکعت وتر پڑھتے بھی پایا ہے اور تین یا ایک سب جائز اور مجھ کو امید ہے کہ کسی میں قباحت نہ ہوگی۔

 


❁ تشریح : یہ قاسم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے۔ بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ ان کے کلام سے اس شخص کی غلطی معلوم ہوگئی جو ایک رکعت وتر کو نا درست جا نتا ہے اور مجھ کو حیرت ہے کہ صحیح حدیثیں دیکھ کر پھر کوئی مسلمان یہ کیسے کہے گا کہ ایک رکعت وتر نا درست ہے۔ اس روایت سے گو عبد اللہ بن عمر کا تین رکعتیں وتر پڑھنا ثابت ہوتا ہے مگر حنفیہ کے لیے کچھ بھی مفید نہیں کیونکہ اس میں یہ نہیں ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ وتر کی تین ہی رکعتیں پڑھتے۔ علاوہ بھی اس کے دو سلام سے تین رکعتیں وتر کی ثابت ہیں اور حنفیہ ایک سلام سے کہتے ہیں ( مولانا وحیدی ) یہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہیں جن سے صحیح مسلم شریف ص 257 میں صراحتاً ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتررکعۃ من آخر اللیل رواہ مسلم۔ حضرت ابن عمر روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر پچھلی رات میں ایک رکعت ہے۔ دوسری حدیث میں مزید وضاحت موجود ہے۔عن ایوب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الوتر حق علی کل مسلم ومن احب ان یوتر بخمس فلیفعل ومن احب ان یوتر بثلاث فلیفعل ومن احب ان یوتر بواحدۃ فلیفعل ( رواہ ابو داؤد والنسائی او ابن ماجہ ) یعنی حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر کی نماز حق ہے جو ہر مسلم کے لیے ضروری ہے اور جو چاہے پانچ رکعات وتر پڑھ لے اور جوچاہے تین رکعات اور جو چاہے ایک رکعت وتر ادا کر لے۔ اور بھی اس قسم کی کئی روایات مختلفہ کتب احادیث میں موجود ہیں۔ اسی لیے حضرت مولانا عبید اللہ شیخ الحدیث بذیل حدیث حضرت عائشہ صدیقہ لفظ ویوتر بواحدۃ ( آپ ایک رکعت وتر پڑھتے ) فرماتے ہیں فیہ ان اقل الوتر رکعۃ وان الرکعۃ الفردۃ صلوۃ صحیحۃ وھو مذھب الائمۃ الثلاثۃ وھو الحق وقال ابو حنیفۃ لا یصح الایتار بواحدۃ فلا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط قال النووی والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ ( مرعاۃ ج:2ص:158 ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ وتر کی کم از کم ایک رکعت ہے اور یہ کہ ایک رکعت پڑھنا بھی نماز صحیح ہے، ائمہ ثلاثہ کا یہی مذہب ہے اور یہی حق ہے ( ائمہ ثلاثہ سے حضرت امام شافعی، امام مالک، امام احمدبن حنبل رحمہم اللہ مراد ہیں ) حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک رکعت وتر صحیح نہیں کیونکہ ایک رکعت نماز ہی نہیں ہوتی۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ احادیث صحیحہ سے حضرت امام کے اس قول کی تردید ہوتی ہے۔ وتر کے واجب فرض سنت ہونے کے متعلق بھی اختلاف ہے، اس بارے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحق ان الوتر سنۃ ھو اوکد السنن بینہ علی وابن عمر وعبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہم اور حق یہ ہے کہ نماز وتر سنت ہے اور وہ سب سنتوں سے زیادہ مؤکد ہے۔ حضرت علی،حضرت عبد اللہ عمر، حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی بیان فرمایا ہے ( حجۃ البالغۃ، ج:2ص :24 ) وتر تین رکعت پڑھنے کی صورت میں پہلی رکعت میں سورۃ سبح اسم ربک الاعلی اور دوسری میں قل یایھا الکفرون اور تیسری میں قل ھو اللہ احد پڑھنا مسنون ہے۔ وتر کے بعد بآواز بلند تین مرتبہ سبحان الملک القدوس کا لفظ ادا کرنا مسنون ہے۔ ایک رکعت وتر کے بارے میں مزید تفصیلات حضرت نواب صدیق حسن صاحب رحمہ اللہ کی مشہور کتاب ھدایۃ السائل الی ادلۃ المسائل مطبوعہ بھوپال، ص:255 پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ
❁ باب: وتر کا بیان

❁ 994 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً كَانَتْ تِلْكَ صَلَاتَهُ تَعْنِي بِاللَّيْلِ فَيَسْجُدُ السَّجْدَةَ مِنْ ذَلِكَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلصَّلَاةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سےابوالیمان نےبیان کیا انہوں نےکہاکہ ہمیں شعیب نےزہری سےخبردی انہوں نے کہاکہ مجھ سے عروہ بن زبیربیان کیا کہ حضرت عائشہ‎‎رضی اللہ عنہا نےانہیں خبردی کہ رسولﷺ ‎گیارہ رکعتیں(وتراور تہجدکی) ‎پڑھتےتھے‎،آ‎پﷺکی یہی نماز تھی مرادان کی رات کی نماز تھی۔آ‎‎ٗ‎‎پ کاسجدہ ان رکعتوں میں اتنالمبا ہوتاتھاکہ سراٹھانے ‎پہلےتم میں سے کو‎‎‎ٗٗ‎‎‎ئی شخص بھی پچاس آیتیں ‎پڑھ سکتا اور فجرکی نماز فرض سے پہلے ‎آپ سنت دو رکعتیں پڑھتے تھے اس کےبعد(ذرادیر)داہنے پہلوپرلیٹ رہتے یہاں تک مؤذن بلانےکےلئےآپ کے پاس ‎‎‎‎‎‎‎‎‎آتا۔

 


❁ تشریح : پس گیارہ رکعتیں انتہا ہیں۔ وتر کی دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اب ابن عباس کی حدیث میں جو تیرہ رکعتیں مذکورہ ہیں تو اس کی رو سے بعضوں نے انتہا وتر کی تیرہ رکعت قرار دی ہیں۔ بعضوں نے کہا ان میں دو رکعتیں عشاء کی سنت تھیں تو وتر کی وہی گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ غرض وتر کی ایک رکعت سے لے کر تین پانچ نو گیارہ رکعتوں تک منقول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان گیارہ رکعتوں میں آٹھ تہجد کی تھیں اور تین وتر کی اور صحیح یہ ہے کہ تراویح تہجد وتر صلوۃ اللیل سب ایک ہی ہیں (وحید الزماں رحمہ اللہ)


❁ بَابُ سَاعَاتِ الوِتْرِ
 ❁ باب: وتر کےاوقات کا بیان

❁ 995 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ سِيرِينَ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ أُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ فَقَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ وَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ وَكَأَنَّ الْأَذَانَ بِأُذُنَيْهِ قَالَ حَمَّادٌ أَيْ سُرْعَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرات کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رات کی نماز ( تہجد ) دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کوطاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں ( سنت فجر تو ) اس طرح پڑھتے گویا اذان ( اقامت ) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔

 


❁ تشریح : اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔ طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاءکے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں والحدیث یدل علی مشروعیۃ الایتار برکعۃ واحدۃ عند مخافۃ ھجوم الصبح وسیاتی ما یدل علی مشروعیۃ ذالک من غیر تقیید وقد ذھب الی ذالک الجمھور قال العراقی وممن کان یوتر برکعۃ من الصحابۃ الخلفاءالاربعۃالخ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ ( حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم ) اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے، یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حنفیہ کے دلائل! علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے عن محمد بن کعب ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن البتیراء یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا لفظ ( بتیراء) دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔ عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس سے رضی اللہ عنہما روایت کیا کہ بتیراءتین رکعت وتر بھی بتیراء ( یعنی دم کٹی ) نماز ہے فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔ حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود کا یہ قول ہے انہ قال ما اجزات رکعۃ قط یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔ امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز ( وتر ) ایک ایک رکعت ادا کی ( نیل الاوطار ) بڑی مشکل! یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کاذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔


❁ بَابُ سَاعَاتِ الوِتْرِ

❁ باب: وتر کےاوقات کا بیان


❁ 996 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُلَّ اللَّيْلِ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔

 


❁ تشریح : دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔

❁ بَابُ إِيقَاظِ النَّبِيِّ ﷺ أَهْلَهُ بِالوِتْرِ
❁ باب: وتر کے لئےگھر والوں کو جگانا

❁ 997 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي وَأَنَا رَاقِدَةٌ مُعْتَرِضَةً عَلَى فِرَاشِهِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي فَأَوْتَرْتُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہاکہ مجھ سے میرے باپ نے عائشہ رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ آپ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( تہجد کی ) نماز پڑھتے رہتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر عرض میں لیٹی رہتی۔ جب وتر پڑھنے لگتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی۔


❁ بَابٌ: لِيَجْعَلْ آخِرَ صَلاَتِهِ وِتْرًا

❁ باب: نماز وتر تمام نمازوں کے بعد پڑھی جائے


❁ 998 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اجْعَلُوا آخِرَ صَلَاتِكُمْ بِاللَّيْلِ وِتْرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے ان سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وتر رات کی تمام نمازوں کے بعد پڑھا کرو۔


❁ بَابُ الوِتْرِ عَلَى الدَّابَّةِ
❁ باب: وتر سواری پر پڑھنا

❁ 999 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ قَالَ كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ فَقَالَ سَعِيدٌ فَلَمَّا خَشِيتُ الصُّبْحَ نَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَيْنَ كُنْتَ فَقُلْتُ خَشِيتُ الصُّبْحَ فَنَزَلْتُ فَأَوْتَرْتُ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ أَلَيْسَ لَكَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ فَقُلْتُ بَلَى وَاللَّهِ قَالَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُوتِرُ عَلَى الْبَعِيرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب سے بیان کیا اور ان کو سعید بن یسار نے بتلایا کہ میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا۔ سعید نے کہا کہ جب راستے میں مجھے طلوع فجر کا خطرہ ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر پڑھ لیا اور پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے جا ملا۔ آپ نے پوچھا کہ کہاں رک گئے تھے؟ میں نے کہا کہ اب صبح کا وقت ہونے ہی والاتھا اس لیے میں سواری سے اتر کر وتر پڑھنے لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اچھا نمونہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں بے شک ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہی بہر حال قابل اقتداءاور باعث صدبرکات ہے


❁ بَابُ الوِتْرِ فِي السَّفَرِ
❁ باب: نماز وتر سفر میں پڑھنا

❁ 1000 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي السَّفَرِ عَلَى رَاحِلَتِهِ حَيْثُ تَوَجَّهَتْ بِهِ يُومِئُ إِيمَاءً صَلَاةَ اللَّيْلِ إِلَّا الْفَرَائِضَ وَيُوتِرُ عَلَى رَاحِلَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں اپنی سواری ہی پر رات کی نماز اشاروں سے پڑھ لیتے تھے خواہ سواری کا رخ کسی طرف ہو جاتا آپ اشاروں سے پڑھتے رہتے مگر فرائض اس طرح نہیں پڑھتے تھے اور وتر اپنی اونٹنی پر پڑھ لیتے۔


❁ بَابُ القُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ
❁ باب: قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد

❁ 1001 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَقَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصُّبْحِ قَالَ نَعَمْ فَقِيلَ لَهُ أَوَقَنَتَ قَبْلَ الرُّكُوعِ قَالَ بَعْدَ الرُّكُوعِ يَسِيرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے ان سے محمد بن سیرین نے، انہوں نے کہا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوت پڑھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں پھر پوچھا گیا کہ کیا رکوع سے پہلے؟ توآپ نے فرمایا کہ رکوع کے بعد تھوڑے دنوں تک۔

 


❁ تشریح : صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا شافعیہ کے ہاں ضروری ہے، اس لیے وہ اس کے ترک ہونے پر سجدہ سہو کرتے ہیں۔ حنفیہ کے ہاں صبح کی نماز میں قنوت پڑھنا مکروہ ہے، اہلحدیث کے ہاں گاہے بگاہے قنوت پڑھ لینا بھی جائز اور ترک بھی جائز۔ اسی لیے مسلک اہلحدیث افراط وتفریط سے ہٹ کر ایک صراط مستقیم کانام ہے۔ اللہ پاک ہم کو سچا اہلحدیث بنائے ( آمین )


❁ بَابُ القُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ
❁ باب: قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد

 ❁ 1002 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ الْقُنُوتِ فَقَالَ قَدْ كَانَ الْقُنُوتُ قُلْتُ قَبْلَ الرُّكُوعِ أَوْ بَعْدَهُ قَالَ قَبْلَهُ قَالَ فَإِنَّ فُلَانًا أَخْبَرَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ فَقَالَ كَذَبَ إِنَّمَا قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الرُّكُوعِ شَهْرًا أُرَاهُ كَانَ بَعَثَ قَوْمًا يُقَالُ لَهُمْ الْقُرَّاءُ زُهَاءَ سَبْعِينَ رَجُلًا إِلَى قَوْمٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ دُونَ أُولَئِكَ وَكَانَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ فَقَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَيْهِمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے قنوت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ دعائے قنوت ( حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ) پڑھی جاتی تھی۔ میں نے پوچھا کہ رکوع سے پہلے یا اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا کہ رکوع سے پہلے۔ عاصم نے کہا کہ آپ ہی کے حوالے سے فلاں شخص نے خبر دی ہے کہ آپ نے رکوع کے بعد فرمایا تھا۔ اس کا جواب حضرت انس نے یہ دیا کہ انہوں نے غلط سمجھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد صرف ایک مہینہ دعائے قنوت پڑھی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ آپ نے صحابہ میں سے ستر قاریوں کے قریب مشرکوں کی ایک قوم ( بن ی عامر ) کی طرف سے ان کو تعلیم دینے کے لیے بھیجے تھے، یہ لوگ ان کے سوا تھے جن پر آپ نے بد دعا کی تھی۔ ان میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان عہد تھا، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی ( اور قاریوں کو مار ڈالا ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک ( رکوع کے بعد ) قنوت پڑھتے رہے ان پر بد دعا کر تے رہے۔


❁ بَابُ القُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ
❁ باب: قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد

❁ 1003 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي مِجْلَزٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَنَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے تیمی نے، ان سے ابو مجلز نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک دعا قنوت پڑھی اور اس میں قبائل رعل و ذکوان پر بد دعا کی تھی۔


❁ بَابُ القُنُوتِ قَبْلَ الرُّكُوعِ وَبَعْدَهُ
❁ باب: قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد

❁ 1004 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ الْقُنُوتُ فِي الْمَغْرِبِ وَالْفَجْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، کہا کہ ہمیں خالد حذاء نے خبر دی، انہیں ابوقلابہ نے، انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے فرمایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں قنوت مغرب اور فجر میں پڑھی جاتی تھی۔

 


❁ تشریح : مگر ان حدیثوں میں جو امام بخاری رحمہ اللہ اس باب میں لائے خاص وتر قنوت پڑھنے کا ذکر نہیں ہے مگر جب فرض نمازوں میں قنوت پڑھنا جائز ہوا تو وتر میں بطریق اولیٰ جائز ہوگا اور بعضوں نے کہا مغرب دن کا وتر ہے۔ جب اس میں قنوت پڑھنا ثابت ہوا تو رات کے وترمیں بھی ثابت ہوا۔حاصل یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان لوگوں کا رد کیا جو قنوت کوبد عت کہتے ہیں گزشتہ حدیث کے ذیل مولاناوحید الزماں صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعنی ایک مہینے تک۔ اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ قنوت رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد دونوں طرح درست ہے اورصبح کی نماز میں اور اسی طرح ہر نماز میں جب مسلمانوں پر کوئی آفت آئے، قنوت پڑھنا چاہئے۔ عبد الرزاق اورحاکم نے باسناد صحیح روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قنوت پڑھتے رہے یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔ شافعیہ کہتے ہیں کہ قنوت ہمیشہ رکوع کے بعد پڑھے اور حنفیہ کہتے ہیں ہمیشہ رکوع سے پہلے پڑھے اور اہلحدیث سب سنتوں کا مزا لوٹتے ہیں۔ گزشتہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافروں اور ظالموں پر نماز میں بد دعا کر نے سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ آپ نے ان قاریوں کو نجد والوں کی طرف بھیجا تھا، راہ میں بئر معونہ پر یہ لوگ اترے تو عامر بن طفیل نے رعل وذکوان اور عصبہ کے لوگوں کو لے کر ان پر حملہ کیا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اوران سے عہد تھا۔ لیکن انہوں نے دغاکی۔ قنوت کی صحیح دعا یہ ہے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ وتر میں پڑھا کرتے تھے: اللھم اھدنی فیمن ھدیت وعافنی فیمن عافیت وتولنی فیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شرما قضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک وانہ لا یذل من والیت ولا یعز من عادیت تبارک ربنا وتعالیت نستغفرک ونتوب الیک وصلی اللہ علی النبی محمد۔ یہ دعابھی منقول ہے: اللھم اغفرلنا وللمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات اللھم الف بین قلوبھم واصلح ذات بینھم وانصرھم علی عدوک وعدوھم اللھم العن الکفرۃ الذین یصدون عن سبیلک ویقاتلون اولیائک اللھم خالف بین کلمتھم وزلزل اقدامھم وانزل بھم باسک الذی لا تردہ عن القوم المجرمین اللھم انج المستضعفین من المومنین اللھم اشدد وطاتک علی فلان واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف۔ فلاں کی جگہ اس شخص کا یا اس قوم کا نام لے جس پر بد دعا کرنا منظور ہو۔


 

 

 

Table of Contents