Search
Sections
< All Topics
Print

15. Kitaab ul Istisqaa; [کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ]; Invoking Allah for Rain

✦ کِتَابُ الِاسْتِسْقَاءِ ✦

کتاب: استسقاء یعنی پانی مانگنے کا بیان

 


❁ 1005 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبد اللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانی کی دعا کرنے کے لیے تشریف لے گئے اور اپنی چادر الٹائی۔


❁ تشریح : چادر الٹنے کی کیفیت آگے آئے گی اور اہلحدیث اور اکثر فقہاءکا یہ قول ہے کہ امام استسقاءکے لیے نکلے تو دو رکعت نماز پڑھے پھر دعا اور استغفار کرے۔


❁ بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ : «اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ»
❁ باب: قریش کے کافروں پر بددعا کرنا

❁ 1006 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ يَقُولُ اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ غِفَارُ غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَأَسْلَمُ سَالَمَهَا اللَّهُ قَالَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ هَذَا كُلُّهُ فِي الصُّبْحِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے مغیرہ بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے اعرج نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سر مبارک آخری رکعت ( کے رکوع ) سے اٹھاتے تو یوں فرماتے کہ یا اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ سلمہ بن ہشام کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ ولید بن ولید کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ بے بس ناتواں مسلمانوں کو چھوڑوا دے۔ یا اللہ مضر کے کافروں کو سخت پکڑ۔ یا اللہ ان کے سال یوسف علیہ السلام کے سے سال کر دے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غفار کی قوم کو اللہ نے بخش دیا اور اسلم کی قوم کو اللہ نے سلامت رکھا۔ ابن ابی الزناد نے اپنے باپ سے صبح کی نماز میں یہی دعا نقل کی۔


❁ بَابُ دُعَاءِ النَّبِيِّ ﷺ : «اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ»
❁ باب: قریش کے کافروں پر بددعا کرنا

❁ 1007 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ: إِنَّ [ص:27] النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ: «اللَّهُمَّ سَبْعٌ كَسَبْعِ يُوسُفَ»، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ، حَتَّى أَكَلُوا الجُلُودَ وَالمَيْتَةَ وَالجِيَفَ، وَيَنْظُرَ أَحَدُهُمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى الدُّخَانَ مِنَ الجُوعِ، فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّكَ تَأْمُرُ بِطَاعَةِ اللَّهِ، وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ لَهُمْ، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ} [الدخان: 10] إِلَى قَوْلِهِ {إِنَّكُمْ عَائِدُونَ يَوْمَ نَبْطِشُ البَطْشَةَ الكُبْرَى، إِنَّا مُنْتَقِمُونَ} [الدخان: 16] فَالْبَطْشَةُ: يَوْمَ بَدْرٍ، وَقَدْ مَضَتِ الدُّخَانُ وَالبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَآيَةُ الرُّومِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے امام حمیدی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے، ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، ان سے عبد اللہ بن مسعودنے ( دوسری سند ) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن عبد الحمید نے منصور بن مسعود بن معتمر سے بیان کیا، اور ان سے ابوالضحی نے، ان سے مسروق نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار قریش کی سرکشی دیکھی توآپ نے بد دعا کی کہ اے اللہ! سات برس کا قحط ان پر بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے وقت میں بھیجا تھا چنانچہ ایسا قحط پڑا کہ ہر چیز تباہ ہوگئی اور لوگوں نے چمڑے اور مردار تک کھا لیے۔ بھوک کی شدت کا یہ عالم تھا کہ آسمان کی طرف نظر اٹھائی جاتی تو دھویں کی طرح معلوم ہوتا تھا آخر مجبور ہو کر ابوسفیان حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ لوگوں کو اللہ کی اطاعت اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔ اب تو آپ ہی کی قوم برباد ہو رہی ہے، اس لیے آپ خدا سے ان کے حق میں دعا کیجئے۔ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان صاف دھواں نظر آئے گا آیت انکم عائدون تک ( نیز ) جب ہم سختی سے ان کی گرفت کریں گے ( کفار کی ) سخت گرفت بدر کی لڑائی میں ہوئی۔ دھویں کا بھی معاملہ گزر چکا ( جب سخت قحط پڑا تھا ) جس میں پکڑ اور قید کا ذکر ہے وہ سب ہو چکے اسی طرح سورۃ روم کی آیت میں جو ذکر ہے وہ بھی ہو چکا۔

 


❁ تشریح : یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف رکھتے تھے۔ قحط کی شدت کا یہ عالم تھا کہ قحط زدہ علاقے ویرانے بن گئے تھے۔ ابو سفیان نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور صلہ رحمی کا واسطہ دے کر رحم کی درخواست کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا فرمائی اور قحط ختم ہوا یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ استسقاءمیں اس لیے لائے کہ جیسے مسلمانوں کے لیے بارش کی دعا کرنا مسنون ہے اسی طرح کافروں پر قحط کی بد دعا کرنا جائز ہے۔ روایت میں جن مسلمان مظلوموں کا ذکر ہے یہ سب کافروں کی قید میں تھے۔ آپ کی دعا کی برکت سے اللہ نے ان کو چھوڑا دیا اور وہ مدینہ میں آپ کے پاس آگئے۔ سات سال تک حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط پڑا تھا جس کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ غفار اور اسلم یہ دو قومیں مدینہ کے ارد گرد رہتی تھیں۔ غفار قدیم سے مسلمان تھے اور اسلم نے آپ سے صلح کر لی تھی۔ پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے“اس دن کا منتظر رہ جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لے کر آئے گا جو لوگوں کو گھیر ے گا۔ یہی تکلیف کا عذاب ہے اس وقت لوگ کہیں گے مالک ہمارے!یہ عذاب ہم پرسے اٹھا دے ہم ایمان لاتے ہیں”آخرتک۔ یہاں سورۃ دخان میں بطش اور دخان کا ذکر ہے۔ اور سورۃ فرقان میں فسوف یکون لزاما ( الفرقان: 77 ) لزام یعنی کافروں کے لیے قید ہونے کا ذکر ہے۔ یہ تینوں باتیں آپ کے عہد میں ہی پوری ہوگئی تھیں۔ دخان سے مراد قحط تھا جو اہل مکہ پر نازل ہوا جس میں بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں نظر آتا تھا اور ( بطشۃ الکبری ) ( بڑی پکڑ ) سے کافروں کا جنگ بدر میں مارا جانا مراد ہے اور لزام ان کا قید ہونا۔ سورۃ روم کی آیت میں یہ بیان تھا کہ رومی کافر ایرانیوں سے مغلوب ہوگئے لیکن چند سال میں رومی پھر غالب ہو جائیں گے۔ یہ بھی ہو چکا۔ آئندہ حدیث میں شعر ( ستسقی الغمام الخ ) ابو طالب کے ایک طویل قصیدے کا ہے جو قصیدہ ایک سودس ( 110 ) اشعار پر مشتمل ہے جسے ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کہا تھا


❁ بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا
❁ باب: قحط میں امام سے پانی کی دعا کا کہنا

❁ 1008 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ: « [البحر الطويل] وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الغَمَامُ بِوَجْهِهِ … ثِمَالُ اليَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن عبد اللہ بن دینار نے، ان سے ان کے والد نے، کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے سنا تھا ( ترجمہ ) گورا ان کا رنگ ان کے منہ کے واسطہ سے بارش کی ( اللہ سے ) دعا کی جاتی ہے۔ یتیموں کی پناہ اور بیواؤں کے سہارے۔ ”


❁ بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا

❁ باب: قحط میں امام سے پانی کی دعا کا کہنا


❁ 1009 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو قُتَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ أَبِي طَالِبٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَةَ حَدَّثَنَا سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ رُبَّمَا ذَكَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي فَمَا يَنْزِلُ حَتَّى يَجِيشَ كُلُّ مِيزَابٍ وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلْأَرَامِلِ وَهُوَ قَوْلُ أَبِي طَالِبٍ

 

❁ ترجمہ : اور عمر بن حمزہ نے بیان کیا کہ ہم سے سالم نے اپنے والد سے بیان کیا وہ کہا کرتے تھے کہ اکثر مجھے شاعر ( ابو طالب ) کا شعر یا د آجاتا ہے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کو دیکھ رہا تھا کہ آپ دعاءاستسقاء ( منبر پر ) کر رہے تھے اور ابھی ( دعا سے فارغ ہو کر ) اترے بھی نہیں تھے کہ تمام نالے لبریز ہوگئے۔


❁ تشریح : ابوطالب کا شعر ہے جس کا ترجمہ ہے کہ ( گورا رنگ ان کا، وہ حامی یتیموں بیواؤں کے، لوگ پانی مانگتے ہیں ان کے منہ کے صدقہ سے۔”


❁ بَابُ سُؤَالِ النَّاسِ الإِمَامَ الِاسْتِسْقَاءَ إِذَا قَحَطُوا
❁ باب: قحط میں امام سے پانی کی دعا کا کہنا

❁ 1010 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حسن بن محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد اللہ بن مثنی انصاری نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ عبد اللہ بن مثنی نے بیان کیا، ان سے ثمامہ بن عبد اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ جب کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا کرتے اور فرماتے کہ اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ چنانچہ بارش خوب ہی برسی۔

 

❁ تشریح : خیر القرون میں دعا کا یہی طریقہ تھا اور سلف کا عمل بھی اسی پر رہا کہ مردوں کو وسیلہ بنا کر وہ دعا نہیں کرتے تھے کہ انہیں تو عام حالات میں دعا کا شعور بھی نہیں ہوتا بلکہ کسی زندہ مقرب بارگاہ ایزدی کو آگے بڑھا دیتے تھے۔ آگے بڑھ کر وہ دعا کرتے جاتے اور لوگ ان کی دعا پر آمین کہتے جاتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس طرح توسل کیاگیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر موجود یا مردوں کو وسیلہ بنانے کی کوئی صورت حضرت عمر کے سامنے نہیں تھی۔ سلف کا یہی معمول تھا۔ اور حضرت عمر کا طرز عمل اس مسئلہ میں بہت زیادہ واضح ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت عباس کی دعا بھی نقل کی ہے آپ نے استسقاءکی دعا اس طرح کی تھی“اے اللہ! آفت اور مصیبت بغیر گناہ کے نازل نہیں ہوتی اور توبہ کے بغیر نہیں چھٹتی۔ آپ کے نبی کے یہاں میری قدر ومنزلت تھی اس لیے قوم مجھے آگے بڑھا کر تیری بارگاہ میں حاضر ہوئی ہے۔ یہ ہمارے ہاتھ ہیں جن سے ہم نے گناہ کئے تھے اور توبہ کے لیے ہماری پیشانیاں سجدہ ریز ہیں، باران رحمت سے سیراب کیجئے۔”دوسری روایتوں میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا معاملہ تھا جیسے بیٹے کاباپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس لوگو!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکرو اور خداکی بارگاہ میں ان کے چچا کو وسیلہ بناؤ۔ چنانچہ دعاءاستسقاءکے بعد اس زور کی بارش ہوئی کہ تاحد نظرپانی ہی پانی تھا۔ ( ملخص )


❁ بَابُ تَحْوِيلِ الرِّدَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: استسقاء میں چادر الٹنا

❁ 1011 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى فَقَلَبَ رِدَاءَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں محمد بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے، انہیں عبدا للہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا استسقاء کی تو اپنی چادر کو بھی الٹا۔


❁ بَابُ تَحْوِيلِ الرِّدَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: استسقاء میں چادر الٹنا

❁ 1012 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ يُحَدِّثُ أَبَاهُ عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَاسْتَسْقَى فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ كَانَ ابْنُ عُيَيْنَةَ يَقُولُ هُوَ صَاحِبُ الْأَذَانِ وَلَكِنَّهُ وَهْمٌ لِأَنَّ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ الْمَازِنِيُّ مَازِنُ الْأَنْصَارِ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے تھے کہ ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ گئے۔ آپ نے وہاں دعائے استسقاء قبلہ رو ہو کر کی اور آپ نے چادر بھی پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ ابو عبد اللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) کہتے ہیں کہ ابن عیینہ کہتے تھے کہ ( حدیث کے راوی عبد اللہ بن زید ) وہی ہیں جنہوں نے اذان خواب میں دیکھی تھی لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ یہ عبد اللہ ابن زید بن عاصم مازنی ہے جو انصار کے قبیلہ مازن سے تھے۔

 


❁  تشریح : یہ مضمون احادیث کی اور کتابوں میں بھی موجود ہے کہ دعائے استسقاءمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چادرکا نیچے کا کونا پکڑ کر اس کو الٹا اور چادر کو دائیں جانب سے گھما کر بائیں طرف ڈال لیا۔ اس میں اشارہ تھا کہ اللہ اپنے فضل سے ایسے ہی قحط کی حالت کو بد ل دے گا۔ اب بھی دعائے استسقاءمیں اہلحدیث کے ہاں یہی مسنون طریقہ معمول ہے مگر احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ اسی حدیث میں استسقاءکی نماز دو رکعت کا بھی ذکر ہے استسقاءکی نماز بھی نماز عید کی طرح ہے۔


❁ بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِی المَسْجِدِ الجَامِعِ

❁ باب: جامع مسجد میں بارش کی دعا


❁ 1013 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو ضَمْرَةَ أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَرِيكُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَذْكُرُ أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مِنْ بَابٍ كَانَ وِجَاهَ الْمِنْبَرِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتْ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا قَالَ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا اللَّهُمَّ اسْقِنَا قَالَ أَنَسُ وَلَا وَاللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ وَلَا قَزَعَةً وَلَا شَيْئًا وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلَا دَارٍ قَالَ فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتْ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ ثُمَّ أَمْطَرَتْ قَالَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سِتًّا ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ الْبَابِ فِي الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتْ الْأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يُمْسِكْهَا قَالَ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالْجِبَالِ وَالْآجَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ قَالَ فَانْقَطَعَتْ وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ قَالَ شَرِيكٌ فَسَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَهُوَ الرَّجُلُ الْأَوَّلُ قَالَ لَا أَدْرِي

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مرحوم بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمرنے بیان کیا کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ نے ایک شخص ( کعب بن مرہ یا ابوسفیان ) کا ذکر کیا جو منبر کے سامنے والے دروازے سے جمعہ کے دن مسجد نبوی میں آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہایا رسول اللہ! ( بارش نہ ہونے سے ) جانور مرگئے اور راستے بند ہوگئے آپ اللہ تعالی سے بارش کی دعا فرمائیے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے آپ نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا بخدا کہیں دور دور تک آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑانظر نہیں آتا تھا اور نہ کوئی اور چیز ( ہوا وغیرہ جس سے معلوم ہو کہ بارش آئے گی ) اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے درمیان کوئی مکان بھی نہ تھا ( کہ ہم بادل ہونے کے باوجود نہ دیکھ سکتے ہوں ) پہاڑ کے پیچھے سے ڈھال کے برابر بادل نمودار ہوا اور بیچ آسمان تک پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور بارش شروع ہوگئی، خدا کی قسم ہم نے سورج ایک ہفتہ تک نہیں دیکھا۔ پھر ایک شخص دوسرے جمعہ کو اسی دروازے سے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس شخص نے پھر آپ کو کھڑے کھڑے ہی مخاطب کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) مال ومنال پر تباہی آگئی اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش روک دے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ یا اللہ اب ہمارے اردگرد بارش برسا ہم سے اسے روک دے۔ ٹیلوں پہاڑوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ انہوں نے کہا کہ اس دعا سے بارش ختم ہو گئی اور ہم نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ وہی پہلا شخص تھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

 


❁ تشریح : سلع مدینہ کا پہاڑ۔مطلب یہ کہ کسی بلند مکان یاگھر کی آڑ بھی نہ تھی کہ ابرہو اور ہم اسے نہ دیکھ سکیں بلکہ آسمان شیشے کی طرح صاف تھا، برسات کا کوئی نشان نہ تھا۔ اس حدیث سے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا کہ جمعہ میں بھی استسقاءیعنی پانی کی دعا مانگنا درست ہے نیز اس حدیث سے کئی ایک معجزات نبوی کا ثبو ت ملتا ہے کہ آپ نے اللہ پاک سے بارش کے لیے دعا فرمائی تو وہ فوراً قبول ہوئی اور بارش شروع ہوگئی۔ پھر جب کثرت باراں سے نقصان شروع ہوا تو آپ نے بارش بند ہونے کی دعا فرمائی اور وہ بھی فوراًقبول ہوئی۔ اس سے آپ کے عند اللہ درجہ قبولیت وصداقت پر روشنی پڑتی ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم


❁ بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِي خُطْبَةِ الجُمُعَةِ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِ القِبْلَةِ

❁ باب: جمعہ کا خطبہ پڑھتے وقت جب منہ قبلہ کی طرف نہ ہو پانی کے لیے دعا کرنا


❁ 1014 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَجُلًا، دَخَلَ المَسْجِدَ يَوْمَ جُمُعَةٍ مِنْ بَابٍ كَانَ نَحْوَ دَارِ القَضَاءِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا، ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ الأَمْوَالُ وَانْقَطَعْتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا» قَالَ أَنَسٌ: وَلاَ وَاللَّهِ، مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ مِنْ سَحَابٍ، وَلاَ قَزَعَةً وَمَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ سَلْعٍ مِنْ بَيْتٍ وَلاَ دَارٍ، قَالَ: فَطَلَعَتْ مِنْ وَرَائِهِ سَحَابَةٌ مِثْلُ التُّرْسِ فَلَمَّا تَوَسَّطَتِ السَّمَاءَ انْتَشَرَتْ، ثُمَّ أَمْطَرَتْ، فَلاَ وَاللَّهِ، مَا رَأَيْنَا الشَّمْسَ سِتًّا، ثُمَّ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ ذَلِكَ البَابِ فِي الجُمُعَةِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَخْطُبُ، فَاسْتَقْبَلَهُ قَائِمًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتِ الأَمْوَالُ وَانْقَطَعَتِ السُّبُلُ، فَادْعُ اللَّهَ يُمْسِكْهَا عَنَّا، قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا، اللَّهُمَّ عَلَى الآكَامِ وَالظِّرَابِ، وَبُطُونِ الأَوْدِيَةِ، وَمَنَابِتِ [ص:29] الشَّجَرِ» قَالَ: فَأَقْلَعَتْ، وَخَرَجْنَا نَمْشِي فِي الشَّمْسِ قَالَ شَرِيكٌ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ: أَهُوَ الرَّجُلُ الأَوَّلُ؟ فَقَالَ: «مَا أَدْرِي»

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شریک نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا۔ اب جہاں دار القضاء ہے اسی طرف کے دروازے سے وہ آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے خطبہ دے رہے تھے، اس نے بھی کھڑے کھڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جانور مر گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہم پر پانی برسائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اے اللہ! ہم پر پانی برسا۔ اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم آسمان پر بادل کا کہیں نشان بھی نہ تھا اور ہمارے اور سلع پہاڑ کے بیچ میں مکانات بھی نہیں تھے، اتنے میں پہاڑ کے پیچھے سے بادل نمودار ہوا ڈھال کی طرح اور آسمان کے بیچ میں پہنچ کر چاروں طرف پھیل گیا اور برسنے لگا۔ خدا کی قسم ہم نے ایک ہفتہ تک سورج نہیں دیکھا۔ پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص اسی دروازے سے داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے خطبہ دے رہے تھے، اس لیے اس نے کھڑے کھڑے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت بارش سے ) جانور تباہ ہو گئے اور راستے بند ہو گئے۔ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ بارش بند ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں بارش برسا ( جہاں ضرورت ہے ) ہم پر نہ برسا۔ اے اللہ! ٹیلوں پہاڑیوں وادیوں اور باغوں کو سیراب کر۔ چنانچہ بارش کا سلسلہ بند ہو گیا اور ہم باہر آئے تو دھوپ نکل چکی تھی۔ شریک نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیایہ پہلا ہی شخص تھا؟ انہوں نے جواب دیا مجھے معلوم نہیں۔

 


❁ تشریح : سلع مدینہ کی مشہور پہاڑی ہے ادھر ہی سمندر تھا۔ راوی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بادل کا کہیں نام ونشان بھی نہیں تھا۔ سلع کی طرف بادل کا امکان ہو سکتا تھا۔ لیکن اس طرف بھی بادل نہیں تھا۔کیونکہ پہاڑی صاف نظر آرہی تھی درمیان میں مکانات وغیرہ بھی نہیں تھے اگر بادل ہوتے تو ضرور نظر آتے اور حضور اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بعد بادل ادھر ہی سے آئے۔ دار القضاءایک مکان تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بنوایا تھا۔ جب حضرت عمر کا انتقال ہونے لگا تو آپ نے وصیت فرمائی کہ یہ مکان بیچ کر میرا قرض ادا کردیا جائے جو بیت المال سے میں نے لیا ہے۔آپ کے صاحبزادے عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اسے حضرت معاویہ کے ہاتھ بیچ کر آپ کا قرض ادا کر دیا، اس وجہ سے اس گھر کو دار القضاءکہنے لگے یعنی وہ مکان جس سے قرض ادا کیا گیا، یہ حال تھا مسلمانوں کے خلیفہ کا کہ دنیا سے رخصتی کے وقت ان کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔


❁ بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ عَلَى المِنْبَرِ

❁ باب: پانی کی دعا کرنے میں نماز جمعہ


❁ 1015 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَحَطَ الْمَطَرُ فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا فَدَعَا فَمُطِرْنَا فَمَا كِدْنَا أَنْ نَصِلَ إِلَى مَنَازِلِنَا فَمَا زِلْنَا نُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ قَالَ فَقَامَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَصْرِفَهُ عَنَّا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا قَالَ فَلَقَدْ رَأَيْتُ السَّحَابَ يَتَقَطَّعُ يَمِينًا وَشِمَالًا يُمْطَرُونَ وَلَا يُمْطَرُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پانی کا قحط پڑ گیا ہے، اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کر دے۔ آپ نے دعا کی اور بارش اس طرح شروع ہوئی کہ گھروں تک پہنچنا مشکل ہو گیا، دوسرے جمعہ تک برابر بارش ہوتی رہی۔ انس نے کہا کہ پھر ( دوسرے جمعہ میں ) وہی شخص یا کوئی اور کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ بارش کا رخ کسی اور طرف موڑ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ ہمارے ارد گرد بارش برسا ہم پر نہ برسا۔ انس نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ بادل ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دائیں بائیں طرف چلے گئے پھروہاں بارش شروع ہو گئی اور مدینہ میں اس کاسلسلہ بند ہوا۔


❁ تشریح : اس حدیث میں بظاہر منبر کا ذکر نہیں ہے آپ کے خطبہ جمعہ کا ذکر ہے جو آپ منبر ہی پر دیا کرتے تھے کہ اس سے منبر ثابت ہو گیا۔


❁ بَابُ مَنِ اكْتَفَى بِصَلاَةِ الجُمُعَةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ

❁ باب: پانی کی دعا کرنے میں نماز جمعہ


❁ 1016 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ هَلَكَتْ الْمَوَاشِي وَتَقَطَّعَتْ السُّبُلُ فَدَعَا فَمُطِرْنَا مِنْ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ وَتَقَطَّعَتْ السُّبُلُ وَهَلَكَتْ الْمَوَاشِي فَادْعُ اللَّهَ يُمْسِكْهَا فَقَامَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اللَّهُمَّ عَلَى الْآكَامِ وَالظِّرَابِ وَالْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر نے، ان کو انس رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ایک آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ نے دعا کی اور ایک ہفتہ تک بارش ہوتی رہی پھر ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ( بارش کی کثرت سے ) گھر گر گئے راستے بند ہوگئے۔ چنانچہ آپ نے پھر کھڑے ہو کر دعا کی کہ اے اللہ! بارش ٹیلوں، پہاڑوں، وادیوں اور باغوں میں برسا ( دعا کے نتیجہ میں ) بادل مدینہ سے اس طرح پھٹ گئے جیسے کپڑا پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا تَقَطَّعَتِ السُّبُلُ مِنْ كَثْرَةِ المَطَرِ

❁ باب: جب بارش کی کثرت سے راستے بند ہو جائیں


❁ 1017 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتْ الْمَوَاشِي وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمُطِرُوا مِنْ جُمُعَةٍ إِلَى جُمُعَةٍ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ وَتَقَطَّعَتْ السُّبُلُ وَهَلَكَتْ الْمَوَاشِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ وَالْآكَامِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہاکہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر کے واسطے سے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مویشی ہلاک ہو گئے اور راستے بند ہوگئے۔ آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تو ایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک بارش ہوتی رہی پھر دوسرے جمعہ کو ایک شخص حاضر خدمت ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت باراں سے بہت سے ) مکانات گر گئے، راستے بند ہو گئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف بارش کا رخ کردے۔ ( جہاں بارش کی کمی ہے ) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے بادل کپڑے کی طرح پھٹ گیا۔


❁ تشریح : اور پانی پروردگار کی رحمت ہے، اس کے بالکل بند ہوجانے کی دعا نہیں فرمائی بلکہ یوں فرمایا کہ جہاں مفید ہے وہاں برسے۔


❁ بَابُ مَا قِيلَ: «إِنَّ النَّبِيَّ ﷺ لَمْ يُحَوِّلْ رِدَاءَهُ فِي الِاسْتِسْقَاءِ يَوْمَ الجُمُعَةِ»
❁ باب: مسجد میں پانی کی دعا

❁ 1018 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَافَى بْنُ عِمْرَانَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ رَجُلًا شَكَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلَاكَ الْمَالِ وَجَهْدَ الْعِيَالِ فَدَعَا اللَّهَ يَسْتَسْقِي وَلَمْ يَذْكُرْ أَنَّهُ حَوَّلَ رِدَاءَهُ وَلَا اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے حسن بن بشر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معافی بن عمران نے بیان کیا کہ ان سے امام اوزاعی نے، ان سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( قحط سے ) مال کی بربادی اور اہل وعیال کی بھوک کی شکایت کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ئے استسقاء کی۔ راوی نے اس موقع پر نہ چادر پلٹنے کا ذکر کیا اور نہ قبلہ کی طرف منہ کرنے کا۔


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ چادر الٹانا اس استسقاءمیں سنت ہے جو میدان میں نکل کر کیا جائے اور نماز پڑھی جائے۔


❁ بَابُ إِذَا اسْتَشْفَعُوا إِلَى الإِمَامِ لِيَسْتَسْقِيَ لَهُمْ لَمْ يَرُدَّهُمْ
❁ باب: جب لوگ دعاءے استسقاء کی درخواست کریں تو

❁ 1019 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَتْ الْمَوَاشِي وَتَقَطَّعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ فَدَعَا اللَّهَ فَمُطِرْنَا مِنْ الْجُمُعَةِ إِلَى الْجُمُعَةِ فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ وَتَقَطَّعَتْ السُّبُلُ وَهَلَكَتْ الْمَوَاشِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ عَلَى ظُهُورِ الْجِبَالِ وَالْآكَامِ وَبُطُونِ الْأَوْدِيَةِ وَمَنَابِتِ الشَّجَرِ فَانْجَابَتْ عَنْ الْمَدِينَةِ انْجِيَابَ الثَّوْبِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے شریک بن عبد اللہ بن ابی نمر کے واسطے سے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! ( قحط سے ) جانور ہلاک ہوگئے اور راستے بند، اللہ سے دعا کیجئے۔ چنا نچہ آپ نے دعا کی اور ایک جمعہ سے اگلے جمعہ تک ایک ہفتہ بارش ہوتی رہی۔ پھر ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ( بارش کی کثرت سے ) راستے بند ہوگئے اور مویشی ہلاک ہوگئے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ! بارش کارخ پہاڑوں ٹیلوں وادیوں اور باغات کی طرف موڑ دے، چنانچہ بادل مدینہ سے اس طرح چھٹ گیا جیسے کپڑا پھٹ جایا کرتا ہے۔


❁ بَابُ إِذَا اسْتَشْفَعَ المُشْرِكُونَ بِالْمُسْلِمِينَ عِنْدَ القَحْطِ
❁ باب: جب مشرکین دعاءے استسقاء کی درخواست کریں تو

❁ 1020 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ وَالْأَعْمَشُ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقَالَ إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنْ الْإِسْلَامِ فَدَعَا عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَكَ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ فَقَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَزَادَ أَسْبَاطٌ عَنْ مَنْصُورٍ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسُقُوا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَكَا النَّاسُ كَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتْ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِهِ فَسُقُوا النَّاسُ حَوْلَهُمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحی ٰ نے، ان سے مسروق نے، آپ نے کہا کہ میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ قریش کا اسلام سے اعراض بڑھتا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی۔ اس بددعا کے نتیجے میں ایسا قحط پڑا کہ کفار مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے۔ آخر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم مر رہی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا کیجئے۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ( ترجمہ ) اس دن کا انتظار کر جب آسمان پر صاف کھلا ہوا دھواں نمودار ہوگا الآیہ ( خیر آپ نے دعا کی بارش ہوئی قحط جاتا رہا ) لیکن وہ پھر کفر کر نے لگے اس پر اللہ پاک کا یہ فرمان نازل ہوا ( ترجمہ ) جس دن ہم انہیں سختی کے ساتھ پکڑ کریں گے اور یہ پکڑ بدر کی لڑائی میں ہوئی اور اسباط بن محمد نے منصور سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائے استسقاء کی ( مدینہ میں ) جس کے نتیجہ میں خوب بارش ہوئی کہ سات دن تک وہ برابر جاری رہی۔ آخر لوگوں نے بارش کی زیادتی کی شکایت کی تو حضور اکرم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف وجوانب میں بارش برسا، مدینہ میں بارش کا سلسلہ ختم کر۔ چنانچہ بادل آسمان سے چھٹ گیا اور مدینہ کے ارد گرد خوب بارش ہوئی۔

 


❁ تشریح : شروع میں جو واقعہ بیان ہوا، اس کاتعلق مکہ سے ہے۔ کفار کی سرکشی اور نافرمانی سے عاجز آکر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بد دعا کی اور اس کے نتیجہ میں سخت قحط پڑا تو ابو سفیان جو ابھی تک کافر تھے، حاضر خدمت ہوئے اور کہا کہ آپ صلہ رحمی کاحکم دیتے ہیں۔ لیکن خود اپنی قوم کے حق میں اتنی سخت بددعا کردی۔ اب کم از کم آپ کو دعا کرنی چاہیے کہ قوم کی یہ پریشانی دور ہو۔حدیث میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ آپ نے ان کے حق میں دوبارہ دعا فرمائی لیکن حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دعا کی تھی جبھی تو قحط کا سلسلہ ختم ہوا لیکن قوم کی سرکشی برابرجاری رہی اور پھر یہ آیت نازل ہوئی یَومَ نَبطِشُ البَطشَۃَ الکُبرٰی ( الدخان:16 ) یہ بطش کبریٰ بدر کی لڑائی میں وقوع پزیر ہوئی۔جب قریش کے بہترین افراد لڑائی میں کام آئے اور انہیں بری طرح پسپا ہونا پڑا۔دمیاطی نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے بد دعا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کی تھی جب کفار نے حرم میں سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈال دی تھی اور پھر خوب اس “کارنامے” پر خوش ہوئے اور قہقہے لگائے تھے۔ قوم کی سرکشی اور فساد اس درجہ بڑھ گیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے حلیم الطبع اور بردبار اور صابر نبی کی زبان سے بھی بد دعا نکل گئی۔ جب ایمان لانے کی کسی درجہ میں بھی امید نہیں ہوتی بلکہ قوم کا وجود دنیا میں صرف شر وفساد کا باعث بن کر رہ جاتا ہے تو اس شرکو ختم کرنے کی آخری تدبیر بد دعا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے پھر بھی کبھی بھی ایسی بد دعا نہیں نکلی جو ساری قوم کی تباہی کا باعث ہوتی کیونکہ عرب کے اکثر افراد کا ایمان مقدر تھا۔ اس روایت میں اسباط کے واسطہ سے جو حصہ بیان ہوا ہے اس کا تعلق مکہ سے نہیں بلکہ مدینہ سے ہے۔ اسباط نے منصور کے واسطے سے جو حدیث نقل کی ہے اس کی تفصیل اس سے پہلے متعدد ابواب میں گزر چکی ہے۔مصنف رحمہ اللہ نے دو حدیثوں کو ملا کر ایک جگہ بیان کر دیا، یہ خلط کسی راوی کا نہیں بلکہ جیسا کہ دمیاطی نے کہا ہے خود مصنف رحمہ اللہ کا ہے ( تفہیم البخاری ) پیغمبروں کی شخصیت بہت ہی ارفع واعلی ہوتی ہے، وہ ہر مشکل کو ہر دکھ کو ہنس کر برداشت کر لیتے ہیں مگر جب قو م کی سر کشی حد سے گزر نے لگے اور وہ ان کی ہدایت سے مایوس ہو جائیں تو وہ اپنا آخری ہتھیار بد دعا بھی استعمال کر لیتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے مواقع پر بہت سے نبیوں کی دعائیں منقول ہیں۔ہمارے سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مایوس کن مواقع پر بد دعا کی ہے جن کے نتائج بھی فوراً ہی ظاہر ہوئے ان ہی میں سے ایک یہ واقعہ مذکورہ بھی ہے ( واللہ اعلم )


❁ بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا كَثُرَ المَطَرُ حَوَالَيْنَا وَلاَ عَلَيْنَا
❁ باب: جب بارش حد سے زیادہ ہو

❁ 1021 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ فَقَامَ النَّاسُ فَصَاحُوا فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَحَطَ الْمَطَرُ وَاحْمَرَّتْ الشَّجَرُ وَهَلَكَتْ الْبَهَائِمُ فَادْعُ اللَّهَ يَسْقِينَا فَقَالَ اللَّهُمَّ اسْقِنَا مَرَّتَيْنِ وَايْمُ اللَّهِ مَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً مِنْ سَحَابٍ فَنَشَأَتْ سَحَابَةٌ وَأَمْطَرَتْ وَنَزَلَ عَنْ الْمِنْبَرِ فَصَلَّى فَلَمَّا انْصَرَفَ لَمْ تَزَلْ تُمْطِرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الَّتِي تَلِيهَا فَلَمَّا قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ صَاحُوا إِلَيْهِ تَهَدَّمَتْ الْبُيُوتُ وَانْقَطَعَتْ السُّبُلُ فَادْعُ اللَّهَ يَحْبِسْهَا عَنَّا فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَكَشَطَتْ الْمَدِينَةُ فَجَعَلَتْ تَمْطُرُ حَوْلَهَا وَلَا تَمْطُرُ بِالْمَدِينَةِ قَطْرَةٌ فَنَظَرْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ وَإِنَّهَا لَفِي مِثْلِ الْإِكْلِيلِ

 

❁ ترجمہ : مجھ سے محمد بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے عبید اللہ عمری سے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں لوگوں نے کھڑے ہوکر غل مچایا، کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بارش کے نام بوند بھی نہیں درخت سرخ ہوچکے ( یعنی تمام پتے خشک ہوگئے ) اور جانور تباہ ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کرے۔ آپ نے دعا کی اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ دو مرتبہ آپ نے اس طرح کہا، قسم خدا کی اس وقت آسمان پر بادل کہیں دور دور نظر نہیں آتا تھا لیکن دعا کے بعد اچانک ایک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ آپ منبر سے اتر ے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی اور دوسرے جمعہ تک بارش برابر ہوتی رہی پھر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے جمعہ میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ مکانات منہدم ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور دعا کی اے اللہ! ہمارے اطراف میں اب بارش برسا، مدینہ میں اس کا سلسلہ بند کر۔ آپ کی دعا سے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور بارش ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ اس شان سے کہ اب مدینہ میں ایک بوند بھی نہ پڑتی تھی میں نے مدینہ کو دیکھا ابر تاج کی طرح گردا گرد تھا اور مدینہ اس کے بیچ میں۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ قَائِمًا

❁ باب: استسقاء میں کھڑے ہو کر خطبہ میں دعا


❁ 1022 وَقَالَ لَنَا أَبُو نُعَيْمٍ عَنْ زُهَيْرٍ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيُّ وَخَرَجَ مَعَهُ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ وَزَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَاسْتَسْقَى فَقَامَ بِهِمْ عَلَى رِجْلَيْهِ عَلَى غَيْرِ مِنْبَرٍ فَاسْتَغْفَرَ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ يَجْهَرُ بِالْقِرَاءَةِ وَلَمْ يُؤَذِّنْ وَلَمْ يُقِمْ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَرَأَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے زہیر نے، ان سے ابواسحاق نے کہ عبداللہ بن یزید انصاری رضی اللہ عنہ استسقاء کے لیے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ انہوں نے پانی کے لیے دعا کی تو پاؤں پر کھڑے رہے، منبر نہ تھا۔ اسی طرح آپ نے دعا کی پھر دو رکعت نماز پڑھی جس میں قرات بلند آواز سے کی، نہ اذان کہی اور نہ اقامت ابو اسحاق نے کہا عبد اللہ بن یزید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا۔


❁ تشریح : وہ صحابی تھے اور ان کا یہ واقعہ64ھ سے تعلق رکھتا ہے جب کہ وہ عبد اللہ بن زبیر کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ قَائِمًا
❁ باب: استسقاء میں کھڑے ہو کر خطبہ میں دعا

❁ 1023 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبَّادُ بْنُ تَمِيمٍ أَنَّ عَمَّهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ بِالنَّاسِ يَسْتَسْقِي لَهُمْ فَقَامَ فَدَعَا اللَّهَ قَائِمًا ثُمَّ تَوَجَّهَ قِبَلَ الْقِبْلَةِ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ فَأُسْقُوا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان حکیم بن نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عباد بن تمیم نے بیان کیا کہ ان کے چچا عبداللہ بن زید نے جو صحابی تھے، انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ساتھ لے کر استسقاء کے لیے نکلے اور آپ کھڑے ہوئے اور کھڑے ہی کھڑے اللہ تعالی سے دعا کی، پھر قبلہ کی طرف منہ کرکے اپنی چادر پلٹی چنانچہ بارش خوب ہوئی۔


❁ بَابُ الجَهْرِ بِالقِرَاءَةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: استسقاء کی نماز میں بلند آواز سے قرات

❁ 1024 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَسْقِي فَتَوَجَّهَ إِلَى الْقِبْلَةِ يَدْعُو وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا ( عبد اللہ بن زید ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم استسقاء کے لیے باہرنکلے تو قبلہ رو ہو کر دعا کی۔ پھر اپنی چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھی۔ نماز میں آپ نے قرات بلند آواز سے کی۔


❁ بَابٌ كَيْفَ حَوَّلَ النَّبِيُّ ﷺ ظَهْرَهُ إِلَى النَّاسِ
❁ باب: استسقاء میں نبی ﷺ نے لوگوں

❁ 1025 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ خَرَجَ يَسْتَسْقِي قَالَ فَحَوَّلَ إِلَى النَّاسِ ظَهْرَهُ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ يَدْعُو ثُمَّ حَوَّلَ رِدَاءَهُ ثُمَّ صَلَّى لَنَا رَكْعَتَيْنِ جَهَرَ فِيهِمَا بِالْقِرَاءَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہاکہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبد اللہ بن زید نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ استسقاء کے لیے باہرنکلے، دیکھا تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ نے اپنی پیٹھ صحابہ کی طرف کر دی اور قبلہ رخ ہو کر دعا کی۔ پھر چادر پلٹی اور دو رکعت نماز پڑھائی جس کی قرات قرآن میں آپ نے جہر کیا تھا۔


❁ بَابُ صَلاَةِ الِاسْتِسْقَاءِ رَكْعَتَيْنِ
❁ باب: نماز استسقاء دو رکعت ہیں

❁ 1026 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَسْقَى فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ

 

❁ ترجمہ : مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، ان سے عباد بن تمیم نے، ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا ئے استسقاء کی تو دو رکعت نماز پڑھی اور چادر پلٹی۔

 


❁ تشریح : استسقاءکی دورکعت نماز سنت ہے۔ امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور کا یہی قول ہے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ استسقاءکے لیے نماز ہی نہیں تسلیم کرتے مگر صاحبین نے اس بارے میں حضرت امام کی مخالفت کی ہے اور صلوۃ استسقاءکے سنت ہونے کا اقرار کیا ہے۔ صاحب عرف الشذی نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مد ظلہ العالی جملہ اختلافات کی تشریح کے بعد فرماتے ہیں: وقد عرفت بما ذکرنا من وجہ تخبط الحنفیۃ فی بیان مذھب امامھم وھو انہ قد نفی الصلوۃ فی الاستسقاءمعلقاًکماھو مصرح فی کلام ابی یوسف ومحمد فی بیان مذھب ابی حنیفۃ ولا شک ان قولہ ھذا مخالف ومنابذ للسنۃ الصحیحۃ الثابتۃ الصریحۃ فاضطربت الحنفیۃ لذالک وتخبطوا فی تشریح مذھبہ وتعلیلہ حتی اضطربعضھم الی الاعتراف بان الصلوۃ فی الاستسقاءبجماعۃ سنۃ وقال لم ینکر ابو حنیفۃسنیتھا واستحبابھا وانما انکر کونھا سنۃ مؤکدۃ وھذا کما تری من باب توجیہ الکلام بما لا یرضی بہ قائلہ لانہ لوکان الامر کذالک لم یکن بینہ وبین صاحبیہ خلاف مع انہ قد صرح جمیع الشراح وغیرھم ممن کتب فی اختلاف الائمۃ بالخلاف بینہ وبین الجمھور فی ھذہ المسئلۃ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول الجمھور وھو الصواب والحق لانہ قدثبت صلوتہ صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین فی الاستسقاءمن احادیث کثیرۃ صحیحۃ۔ ( مرعاۃ، ج: 2 ص: 390 ) خلاصہ یہ کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے مطلقا صلوۃ الاستسقاءکا انکار کیا ہے تم پر واضح ہو گیا ہوگا کہ اس بارے میں حنفیہ کو کس قدر پریشان ہونا پڑا ہے حالانکہ حضرت امام ابو یوسف رحمہ اللہ وحضرت امام محمد کے کلام سے صراحتا ثابت ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور کوئی شک نہیں کہ آپ کا قول سنت صحیحہ کے صراحتا خلاف ہے۔ اس لیے اس کی تاویل اور تشریح اور تعلیل بیان کرنے میں علمائے احناف کو بڑی مشکل پیش آئی ہے حتیٰ کہ بعض نے اعتراف کیا ہے کہ نماز استسقاءجماعت کے ساتھ سنت ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے صرف سنت مؤکدہ ہونے کا انکار کیا ہے۔ یہ قائل کے قول کی ایسی توجیہ ہے جو خود قائل کو بھی پسند نہیں ہے۔ اگر حقیقت یہی ہوتی تو صاحبین رحمہ اللہ اپنے امام سے اختلاف نہ کرتے۔ اختلافات ائمہ بیان کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ صلوۃ استسقاءکے بارے میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول جمہور امت کے خلاف ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارک پوری فرماتے ہیں کہ جمہور کا قول ہی درست ہے اور یہی حق ہے کہ نماز استسقاءکی دو رکعتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں جیسا کہ بہت سی احادیث صحیحہ سے ثابت ہے پھر حضرت مولانا مرحوم نے اس سلسلہ کی بیشتر احادیث کو تفصیل سے ذکر فرمایا ہے، شائقین مزید تحفۃ الاحوذی کا مطالعہ فرمائیں۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک استسقاءکی دو رکعتیں عیدین کی نمازوں کی طرح تکبیر زوائد کے ساتھ ادا کی جائیں مگر جمہور کے نزدیک اس نماز میں تکبیرات زوائد نہیں ہیں بلکہ ان کو اسی طرح ادا کیا جا ئے جس طرح دیگر نمازیں ادا کی جاتی ہیں، قول جمہور کو ہی ترجیح حاصل ہے۔ نماز استسقاءکے خطبہ کے لیے منبر کا استعمال بھی مستحب ہے جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا میں صراحت کے ساتھ موجود ہے جسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے اس میں صاف فقعد علی المنبر کے لفظ موجود ہیں۔


❁ بَابُ الِاسْتِسْقَاءِ فِي المُصَلَّى
❁ باب: عیدگاہ میں بارش کی دعا کرنا

❁ 1027 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُصَلَّى يَسْتَسْقِي وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ قَالَ سُفْيَانُ فَأَخْبَرَنِي المَسْعُودِيُّ عَنْ أَبِي بَكْرٍ قَالَ جَعَلَ الْيَمِينَ عَلَى الشِّمَالِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمدمسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبداللہ بن ابی بکر سے بیان کیا، انہوں نے عباد بن تمیم سے سنا اور عباد اپنے چچا عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے لیے عیدگاہ کو نکلے اور قبلہ رخ ہو کر دو رکعت نماز پڑھی پھر چادر پلٹی۔ سفیان ثوری نے کہا مجھے عبدالرحمن بن عبد اللہ مسعودی نے ابوبکر کے حوالے سے خبر دی کہ آپ نے چادر کا داہنا کونا بائیں کندھے پر ڈالا۔


❁ تشریح : افضل تو یہ ہے کہ جنگل میدان میں استسقاءکی نماز پڑھے کیونکہ وہاں سب آسکتے ہیں اور عیدگاہ اور مسجد میں بھی درست ہے۔


❁ بَابُ اسْتِقْبَالِ القِبْلَةِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: استسقاء میں قبلہ کی طرف منہ کرنا

❁ 1028 َحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الوَهَّابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ تَمِيمٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ زَيْدٍ الأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى المُصَلَّى يُصَلِّي، وَأَنَّهُ لَمَّا دَعَا – أَوْ أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ – اسْتَقْبَلَ القِبْلَةَ وَحَوَّلَ رِدَاءَهُ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ هَذَا مَازِنِيٌّ، وَالأَوَّلُ كُوفِيٌّ هُوَ ابْنُ يَزِيد

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد الوہاب ثقفی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یحییٰ بن سعید انصاری نے حدیث بیان کی، کہا کہ مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ عباد بن تمیم نے انہیں خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن زیدانصاری نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( استسقاء کے لیے ) عیدگاہ کی طرف نکلے وہاں نماز پڑھنے کو جب آپ دعا کرنے لگے یا راوی نے یہ کہا دعا کا ارادہ کیا تو قبلہ رو ہو کر چادر مبارک پلٹی۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی عبداللہ بن زید مازنی ہیں اور اس سے پہلے باب الدعا فی الاستسقاءمیں جن کا ذکر گزرا اور وہ عبد اللہ بن یزید ہیں کوفہ کے رہنے والے۔


❁ بَابُ رَفْعِ النَّاسِ أَيْدِيَهُمْ مَعَ الإِمَامِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: امام کے ساتھ لوگوں کا بھی ہاتھ اٹھانا

❁ 1029 قَالَ أَيُّوبُ بْنُ سُلَيْمَانَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلاَلٍ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ أَعْرَابِيٌّ مِنْ أَهْلِ البَدْوِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلَكَتِ المَاشِيَةُ، هَلَكَ العِيَالُ هَلَكَ النَّاسُ، «فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [ص:32] يَدَيْهِ، يَدْعُو، وَرَفَعَ النَّاسُ أَيْدِيَهُمْ مَعَهُ يَدْعُونَ»، قَالَ: فَمَا خَرَجْنَا مِنَ المَسْجِدِ حَتَّى مُطِرْنَا، فَمَا زِلْنَا نُمْطَرُ حَتَّى كَانَتِ الجُمُعَةُ الأُخْرَى، فَأَتَى الرَّجُلُ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَشِقَ المُسَافِرُ وَمُنِعَ الطَّرِيقُ

 

❁ ترجمہ : ایوب بن سلیمان نے کہا کہ مجھ سے ابو بکر بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے سلیمان بن بلال سے بیان کیاکہ یحییٰ بن سعید نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوںنے کہا کہ ایک بدوی ( گاؤں کا رہنے والا ) جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! بھوک سے مویشی تباہ ہو گئے، اہل وعیال اور تمام لوگ مر رہے ہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے، اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے، دعا کرنے لگے، انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی ہم مسجد سے باہر نکلے بھی نہ تھے کہ بارش شروع ہو گئی اور ایک ہفتہ برابر بارش ہوتی رہی۔ دوسرے جمعہ میں پھر وہی شخص آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ( بارش بہت ہونے سے ) مسافر گھبرا گئے اور راستے بند ہوگئے۔


بَابُ رَفْعِ النَّاسِ أَيْدِيَهُمْ مَعَ الإِمَامِ فِي الِاسْتِسْقَاءِ ❁ 
❁ باب: امام کے ساتھ لوگوں کا بھی ہاتھ اٹھانا

❁ 1030 وَقَالَ الأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَشَرِيكٍ، سَمِعَا أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّهُ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ

 

❁ ترجمہ : عبد العزیز اویسی نے کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نے استسقاء میں دعا کرنے کے لیے ) اس طرح ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی۔


❁ بَابُ رَفْعِ الإِمَامِ يَدَهُ فِي الِاسْتِسْقَاءِ
❁ باب: امام کا استسقاء میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا

❁ 1031 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَرْفَعُ يَدَيْهِ فِي شَيْءٍ مِنْ دُعَائِهِ إِلَّا فِي الِاسْتِسْقَاءِ وَإِنَّهُ يَرْفَعُ حَتَّى يُرَى بَيَاضُ إِبْطَيْهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان اور محمد بن ابراہیم بن عدی بن عروبہ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعائے استسقاء کے سوا اور کسی دعا کے لیے ہاتھ ( زیادہ ) نہیں اٹھا تے تھے اور استسقاء میں ہاتھ اتنا اٹھاتے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آجاتی۔

 


❁ تشریح : ابوداؤد کی مرسل روایتوں میں یہی حدیث اسی طرح ہے کہ “استسقاءکے سوا پوری طرح آپ کسی دعا میں بھی ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے” اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بخاری کی اس روایت میں ہاتھ اٹھانے کے انکار سے مراد یہ ہے کہ بمبالغہ ہاتھ نہیں اٹھاتے اس روایت سے یہ کسی بھی طرح ثابت نہیں ہو سکا کہ آپ دعاؤں میں ہاتھ ہی نہیں اٹھاتے تھے۔ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الدعوات میں اس کے لیے ایک باب قائم کیا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ استسقاءکی دعا میں آپ نے ہتھیلی کی پشت آسمان کی طرف کی اور شافعیہ نے کہا کہ قحط وغیرہ بلیات کے رفع کرنے کے لیے اس طرح دعا کرنا سنت ہے ( قسطلانی ) علامہ نووی فرماتے ہیں: ھذا الحدیث یوھم ظاھرہ انہ لم یرفع صص الا فی الاستسقاءولیس الامر کذالک بل قد ثبت رفع یدیہ صص فی مواطن غیر الاستسقاءوھی اکثر من ان تحصر وقد جمعت منھا نحوا من ثلاثین حدیثا من الصحیحین او احدھما وذکرتھا فی اواخر باب صفۃ الصلوۃ من شرح المھذب ویتاول ھذا الحدیث علی انہ لم یرفع الرافع البلیغ بحیث تری بیاض ابطیہ الا فی الاستسقاءواما المراد لم ارہ رفع وقد رای غیرہ رفع فیقدم المثبتون فی مواضع کثیرۃ وجماعات علی واحد یحضر ذلک ولا بد من تاویلہ کما ذکرناہ واللہ اعلم۔ ( نووی، ج:1ص293 ) خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اٹھانے سے مبالغہ کے ساتھ ہاتھ اٹھانا مراد ہے استسقاءکے علاوہ دیگر مقامات پر بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرنا ثابت ہے۔ میں نے اس بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں دیگر آنکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے صرف اپنی روایت کا ذکر کیا ہے جبکہ ان کے علاوہ بہت سے صحابہ سے یہ ثابت ہے


❁ بَابُ مَا يُقَالُ إِذَا مَطَرَتْ
❁ باب: بارش برستے وقت کیا کہے

❁ 1032 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى الْمَطَرَ قَالَ اللَّهُمَّ صَيِّبًا نَافِعًا تَابَعَهُ الْقَاسِمُ بْنُ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ وَعُقَيْلٌ عَنْ نَافِعٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبید اللہ عمری نے نافع سے خبر دی، انہیں قاسم بن محمد نے، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بارش ہوتی دیکھتے تو یہ دعا کر تے اے اللہ! نفع بخشنے والی بارش برسا۔ اس روایت کی متابعت قاسم بن یحییٰ نے عبید اللہ عمری سے کی ہے اور اس کی روایت اوزاعی اور عقیل نے نافع سے کی ہے۔


❁ بَابُ مَنْ تَمَطَّرَ فِي المَطَرِ حَتَّى يَتَحَادَرَ عَلَى لِحْيَتِهِ

❁ باب: اس شخص کے بارے میں جو بارش میں کھڑا رہا


❁ 1033 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ قَالَ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ أَصَابَتْ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَلَكَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا أَنْ يَسْقِيَنَا قَالَ فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَمَا فِي السَّمَاءِ قَزَعَةٌ قَالَ فَثَارَ سَحَابٌ أَمْثَالُ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَى لِحْيَتِهِ قَالَ فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِكَ وَفِي الْغَدِ وَمِنْ بَعْدِ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيهِ إِلَى الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى فَقَامَ ذَلِكَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ رَجُلٌ غَيْرُهُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اللَّهَ لَنَا فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا قَالَ فَمَا جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ إِلَى نَاحِيَةٍ مِنْ السَّمَاءِ إِلَّا تَفَرَّجَتْ حَتَّى صَارَتْ الْمَدِينَةُ فِي مِثْلِ الْجَوْبَةِ حَتَّى سَالَ الْوَادِي وَادِي قَنَاةَ شَهْرًا قَالَ فَلَمْ يَجِئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی، کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ انصاری نے بیان کیا، انہوں نے کہامجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں پر ایک دفعہ قحط پڑا۔ انہی دنوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور بال بچے فاقے پر فاقے کر ہے ہیں، اللہ تعالی سے دعا کیجئے کہ پانی برسائے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ آسمان پر دور دور تک ابر کا پتہ تک نہیں تھا۔ لیکن ( آپ کی دعا سے ) پہاڑوں کے برابر بادل گرجتے ہوئے آگئے ابھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ کی داڑھی سے بہہ رہا ہے۔ انس نے کہا کہ اس روز بارش دن بھر ہوتی رہی۔ دوسرے دن تیسرے دن، بھی اور برابر اسی طرح ہوتی رہی۔ اس طرح دوسرا جمعہ آگیا۔ پھر یہی بدوی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ( کثرت باراں سے ) عمارتیں گر گئیں اور جانور ڈوب گئے، ہمارے لیے اللہ تعالی سے دعا کیجئے۔ چنا نچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے اطراف میں برسا اور ہم پر نہ برسا۔ حضرت انس نے کہا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے آسمان کی جس طرف بھی اشارہ کر دیتے ابر ادھر سے پھٹ جاتا، اب مدینہ حوض کی طرح بن چکا تھا اور اسی کے بعد وادی قناۃ کا نالہ ایک مہینہ تک بہتا رہا۔ حضرت انس نے بیان کیا کہ اس کے بعد مدینہ کے ارد گرد سے جو بھی آیا اس نے خوب سیرابی کی خبر لائی۔

 


❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باران رحمت کا پانی اپنی ریش مبارک پر بہایا۔ مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بارش میں اپنا کپڑا کھول دیا اور یہ پانی اپنے جسد اطہر پر لگایا اور فرمایا کہ انہ حدیث عھد بربہ یہ پانی ابھی ابھی تازہ بتازہ اپنے پروردگاہ کے ہاں سے آیا ہے۔ معلوم ہوا کہ بارش کا پانی اس خیال سے جسم پر لگانا سنت نبوی ہے۔ اس حدیث سے خطبۃ الجمعہ میں بارش کے لیے دعا کرنا بھی ثابت ہوا۔


❁ بَابُ إِذَا هَبَّتِ الرِّيحُ

❁ باب: جب ہوا چلتی


❁ 1034 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدٌ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَتْ الرِّيحُ الشَّدِيدَةُ إِذَا هَبَّتْ عُرِفَ ذَلِكَ فِي وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے حمید طویل نے خبر دی اور انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب تیز ہوا چلتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر ڈر محسوس ہوتا تھا۔

 


❁ تشریح : آندھی کے بعد چونکہ اکثر بارش ہوتی ہے، اس مناسبت سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو یہاں بیان کیا، قوم عاد پرآندھی کا عذاب آیا تھا۔ اس لیے آندھی آنے پر آپ عذاب الٰہی کا تصور فرما کر گھبرا جاتے۔ مسلم کی روایت میں ہے کہ جب آندھی چلتی تو آپ ان لفظوں میں دعافرماتے: اللھم انی اسئلک خیرھا ما فیھا واعوذبک من شرھا وشرما فیھا وخیرما ارسلت بہ وشرما ارسلت بہ یعنی“یا اللہ میں اس آندھی میں تجھ سے خیر کا سوال کرتا ہوں اور اس کے نتیجہ میں بھی خیر ہی چاہتا ہوں اور یا اللہ میں تجھ سے اس کی اور اس کے اندر کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور جو شر یہ لے کر آئی ہے اس سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں۔”ایک روایت میں ہے کہ جب آپ آندھی دیکھتے تو دو زانو ہو کر بیٹھ جاتے اور یہ دعا فرماتے: اللھم اجعلھا ریاحا ولا تجعلھا ریحا یعنی یا اللہ اس ہوا کو فائدہ کی ہوا بنا نہ کہ عذاب کی ہوا۔ لفظ ریاح رحمت کی ہوا اور ریح عذاب کی ہوا پر بولا گیا ہے جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد آیات میں وارد ہوا ہے۔


❁ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ نُصِرْتُ بِالصَّبَا
❁ باب: فرمان مبارک کہ پروا ہوا کے ذریعہ مدد

❁ 1035 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُورِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم سے بیان کیا، ان سے مجاہد نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پروا ہوا کے ذریعہ مدد پہنچائی گئی اور قوم عاد پچھوا کے ذریعہ ہلاک کر دی گئی تھی۔

 


❁ تشریح : جنگ خندق میں بارہ ہزار کافروں نے مدینہ کو ہر طرف سے گھیر لیا تھاآخر اللہ نے پروا ہوا بھیجی، اس زور کے ساتھ کہ ان کے ڈیرے اکھڑ گئے۔ آگ بجھ گئی آنکھوں میں خاک گھس گئی جس پر کافر پریشان ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ آپ کا یہ اشارہ اسی ہوا کی طرف ہے۔


❁ بَابُ مَا قِيلَ فِي الزَّلاَزِلِ وَالآيَاتِ
❁ باب: زلزلہ اور قیامت کی نشانیاں

❁ 1036 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقْبَضَ الْعِلْمُ وَتَكْثُرَ الزَّلَازِلُ وَيَتَقَارَبَ الزَّمَانُ وَتَظْهَرَ الْفِتَنُ وَيَكْثُرَ الْهَرْجُ وَهُوَ الْقَتْلُ الْقَتْلُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد ( عبد اللہ بن ذکوان ) نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز اعرج نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک علم دین نہ اٹھ جائے گا اور زلزلوں کی کثرت نہ ہو جائے گی اور زمانہ جلدی جلدی نہ گزر ے گا اور فتنے فساد پھوٹ پڑیں گے اور “ ہرج ” کی کثرت ہو جائے گی اور ہرج سے مراد قتل ہے۔ قتل اور ہارے درمیان دولت ومال کی اتنی کثرت ہوگی کہ وہ ابل پڑے گا۔

 


❁ تشریح : سخت آندھی کا ذکر آیا توا س کے ساتھ بھونچال کا بھی ذکر کر دیا، دونوں آفتیں ہیں۔ بھونچال یا گرج یا آندھی یا زمین دھنسنے میں ہر شخص کو دعا اوراستغفار کرنا چاہیے اور زلزلے میں نماز بھی پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن اکیلے اکیلے۔ جماعت اس میں مسنون نہیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ زلزلے میں انہوں نے جماعت سے نماز پڑھی تو یہ صحیح نہیں ہے ( مولانا وحید الزماں مرحوم )


❁ بَابُ مَا قِيلَ فِي الزَّلاَزِلِ وَالآيَاتِ
❁ باب: زلزلہ اور قیامت کی نشانیاں

❁ 1037 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا قَالَ قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا وَفِي يَمَنِنَا قَالَ قَالُوا وَفِي نَجْدِنَا قَالَ قَالَ هُنَاكَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ

 

❁ ترجمہ : مجھ سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حسین بن حسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن عون نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا “ اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما ” پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہوگا۔

 


❁ تشریح : نجد عرب حجاز سے مشرق کی طرف واقع ہے خاص وہ علاقہ مراد نہیں ہے جو کہ آج کل نجد کہلاتا ہے بلکہ نجد سے تمام ممالک شرقیہ مراد ہیں۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں وھو تھامۃ وکل کما ارتفع من بلاد تھامۃ الی ارض العراق یعنی نجد سے تہامہ کا علاقہ مراد ہے جو بلاد تہامہ سے ارض عراق تک سطح مرتفع میں پھیلا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ اشار ہ نبوی ارض عراق کے لیے تھا جہاں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو اس علاقے سے مسلمانوں کا افتراق وانتشار شروع ہوا جو آج تک موجود ہے اور شاید ابھی عرصہ تک یہ انتشار باقی رہے گا، یہ سب ارض عراق کی پیداوار ہے۔ یہ روایت یہاں موقوفاًبیان ہوئی ہے اور در حقیقت مرفوع ہے۔ ازہر سماں نے اس کو مرفوعا ً روایت کیا ہے۔اسی کتاب یعنی بخاری شریف کتاب الفتن میں یہ حدیث آئے گی اور وہاں اس پر مفصل تبصرہ کیا جائے گا انشاءاللہ۔ صاحب فضل الباری ترجمہ بخاری حنفی تحریر فرماتے ہیں شام کا ملک مدینہ کے اتر کی طرف ہے اور یمن دکن کی طرف اورنجد کا ملک پورب کی طرف ہے۔ آپ نے شام کو اپنی طرف اس واسطے منسوب کیا کہ وہ مکہ تہامہ کی زمین ہے اور تہامہ یمن سے متعلق ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث اس وقت فرمائی تھی کہ ابھی تک نجد کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فتنہ وفساد میں مشغول تھے جب وہ لوگ اسلام لائے اور آپکی طرف صدقہ بھیجا تو آپ نے صدقہ کو دیکھ کر فرمایا ھذا صدقہ قومی یہ میری قوم کا صدقہ ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ قومی نسبت شامنا و یمننا کی نسبت سے قوی تر ہے۔ سینگ شیطان سے مراد اس کا گروہ ہے، یہ الفاظ آپ نے اسی واسطے فرمائے کہ وہ ہمیشہ آپ کے ساتھ فسادکیا کرتے تھے اور کہا کعب نے کہ عراق سے یعنی اس طرف سے دجال نکلے گا ( فضل الباری،ص:353پ:3 ) اس دور آخر بدرقہ نجد سے وہ تحریک اٹھی جس نے زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور عہد خلفاءراشدین کی یاد کو تازہ کردیا جس سے مجدد اسلام حضرت الشیخ محمدبن عبد الوہاب نجدی رحمہ اللہ کی تحریک مراد ہے جنہوں نے ازسر نو مسلمانوں کو اصل اسلام کی دعوت دی ا ور شرک وبدعات کے خلاف علم جہاد بلند کیا۔ نجدیوں سے قبل حجاز کی حالت جو کچھ تھی وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے۔ جس دن سے وہاں نجدی حکومت قائم ہوئی ہر طرح کا امن وامان قائم ہوا اورآج تو حکومت سعودیہ نجد یہ نے حرمین شریفین کی خدمات کے سلسلے میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو ساری دنیائے اسلام میں ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ایدھم اللہ بنصرہ العزیز ( آمین )


❁ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ
❁ باب: آیت وتجعلون رزقکم انکم تکذبون کی تفسیر

❁ 1038 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّهُ قَالَ صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الصُّبْحِ بِالْحُدَيْبِيَةِ عَلَى إِثْرِ سَمَاءٍ كَانَتْ مِنْ اللَّيْلَةِ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ هَلْ تَدْرُونَ مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِي مُؤْمِنٌ بِي وَكَافِرٌ فَأَمَّا مَنْ قَالَ مُطِرْنَا بِفَضْلِ اللَّهِ وَرَحْمَتِهِ فَذَلِكَ مُؤْمِنٌ بِي كَافِرٌ بِالْكَوْكَبِ وَأَمَّا مَنْ قَالَ بِنَوْءِ كَذَا وَكَذَا فَذَلِكَ كَافِرٌ بِي مُؤْمِنٌ بِالْكَوْكَبِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے صالح بن کیسان سے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا، ان سے زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہم کو صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ لوگ بولے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پروردگار فرماتا ہے آج میرے دوطرح کے بندوں نے صبح کی۔ ایک مومن ہے ایک کافر۔ جس نے کہا اللہ کے فضل و رحم سے پانی پڑا وہ تو مجھ پر ایمان لایا اور ستاروں کا منکر ہوا اور جس نے کہا فلاں تارے کے فلاں جگہ آنے سے پانی پڑا اس نے میرا کفر کیا، تاروں پر ایمان لایا۔


❁ بَابُ: لاَ يَدْرِي مَتَى يَجِيءُ المَطَرُ إِلَّا اللَّهُ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: «خَمْسٌ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ»

❁ باب: اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو نہیں معلوم بارش


❁ 1039 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِفْتَاحُ الْغَيْبِ خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا اللَّهُ لَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي غَدٍ وَلَا يَعْلَمُ أَحَدٌ مَا يَكُونُ فِي الْأَرْحَامِ وَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ وَمَا يَدْرِي أَحَدٌ مَتَى يَجِيءُ الْمَطَرُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جنہیں اللہ تعالی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے کل کیا کرناہوگا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ نہ کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم کہ بارش کب ہوگی۔

 


❁ تشریح : جب اللہ تعالی نے صاف قرآن میں اور پیغمبر صاحب نے فرمادیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ برسات کب پڑے گی تو جس شخص میں ذرا بھی ایمان ہوگا وہ ان دھوتی بند پنڈتوں کی بات کیوں مانے گا اور جو مانے اور ان پر اعتقاد رکھے معلوم ہوا وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے اور کافر ہے۔ لطف یہ ہے کہ رات دن پنڈتوں کا جھوٹ اور بے تکا پن دیکھتے جاتے ہیں اور پھر ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے اگر کافر لوگ ایسا کریں تو چنداں تعجب نہیں۔ حیرت ہوتی ہے باوجود دعویٰ اسلام مسلمان بادشاہ اور امیر نجومیوں کی باتیں سنتے ہیں اور آئندہ واقعات پوچھتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان نام کے مسلمانوں کی عقل کہا ں تشریف لے گئی ہے۔صدہا مسلمان بادشاہتیں انہیں نجومیوں پہ اعتقاد رکھنے سے تباہ اور برباد ہو چکی ہیں اور اب بھی مسلمان بادشاہ اس حرکت سے باز نہیں آتے جو کفر صریح ہے لاحول ولا قوۃ الا باللہ العظیم ( مولانا وحیدالزماں ) آیت کریمہ میں غیب کی پانچ کنجیوں کو بیان کیا گیا ہے جو خاص اللہ ہی کے علم میں ہیں اور علم غیب خاص اللہ ہی کو حاصل ہے۔ جو لوگ انبیاءاولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں، وہ قرآن وحدیث کی روسے صریح کفر کا ارتکاب کرتے ہیں۔ پوری آیت شریفہ یہ ہے اِنَّ اللّٰہَ عِندَہُ عِلمُ السَّاعَۃِ وَیُنَزِّلُ الغَیثَ وَیَعلَمُ مَا فِی الاَرحَامِ وَمَاتَدرِی نَفس مَّاذَا تَکسِبُ غَدًا وَمَا تَدرِی نَفس بِاَیٍِ اَرضٍ تَمُوتُ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیم خَبِیر ( لقمان:34 ) یعنی“بے شک قیامت کب قائم ہوگی یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو ہے اور وہی بارش اتارتا ہے ( کسی کو صحیح علم نہیں کہ بالضرورفلاں وقت بارش ہو جائے گی ) اور صرف وہی جانتا ہے کہ مادہ کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ، اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گااور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کون سی زمین پر انتقال کرے گا بے شک اللہ ہی جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے، یہ غیب کی پانچ کنجیاں ہیں جن کا علم سوائے اللہ پاک کے اور کسی کو حاصل نہیں ہے۔” قیامت کی علامات تو احادیث اور قرآن میں بہت کچھ بتلائی گئی ہیں اور ان میں سے اکثر نشانیاں ظاہر بھی ہو رہی ہیں مگر خاص دن تاریخ وقت یہ علم خاص اللہ پاک ہی کو حاصل ہے، اسی طرح بارش کے لیے بہت سی علامات ہیں جن کے ظہور کے بعد اکثر بارش ہو جاتی ہے پھر بھی خاص وقت نہیں بتلایا جا سکتا۔ اس لیے کہ بعض دفعہ بہت سی علامتوں کے باوجود بارش ٹل جایا کرتی ہے اور ماں کے پیٹ میں نر ہے یا مادہ اس کا صحیح علم بھی کسی حکیم ڈاکٹر کو حاصل ہے نہ کسی کاہن نجومی پنڈت ملا کو یہ خاص اللہ پاک ہی جانتا ہے، اسی طرح ہم کل کیا کام کریں گے یہ بھی خاص اللہ ہی کو معلوم ہے جب کہ ہم روزانہ اپنے کاموں کا نقشہ بناتے ہیں مگر بیشتر اوقات وہ جملہ نقشے فیل ہوجاتے ہیں اور یہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ اس کی قبر کہاں بننے والی ہے۔ الغرض علم غیب جزوی اور کلی طورپر صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے ہاں وہ جس قدر چاہتا ہے کبھی کبھار اپنے محبوب بندوں کو کچھ چیزیں بتلادیا کرتا ہے مگر اس کو غیب نہیں کہا جا سکتا یہ تو اللہ کا عطیہ ہے وہ جس قدر چاہے اور جب چاہے اور جسے چاہے اس کو بخش دے۔ اس کو غیب دانی کہنا بالکل جھوٹ ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں باب کی مناسبت سے اس حدیث کو نقل فرما کر ثابت فرمایا کہ بارش ہونے کا صحیح علم صرف اللہ پاک ہی کو حاصل ہے اور کوئی نہیں بتلا سکتا کہ یقینی طور پر فلاں دن فلاں وقت بارش ہو جائے گی۔


Table of Contents