Search
Sections
< All Topics
Print

17. Kitaab us Sujud al Qur’an; [کِتَابُ سُجُودِ القُرْآنِ]; Prostration During Recital of Qur’an

✦ کِتَابُ سُجُودِ القُرْآنِ ✦ 

کتاب: سجود قرآن کے مسائل

 


❁ مَا جَاءَ فِي سُجُودِ القُرْآنِ وَسُنَّتِهَا
باب: سجدہ تلاوت کا بیان ❁ 

❁ 1067 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ الْأَسْوَدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجْمَ بِمَكَّةَ فَسَجَدَ فِيهَا وَسَجَدَ مَنْ مَعَهُ غَيْرَ شَيْخٍ أَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى جَبْهَتِهِ وَقَالَ يَكْفِينِي هَذَا فَرَأَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ قُتِلَ كَافِرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابو اسحاق نے انہوں نے کہا کہ میں نے اسود سے سنا انہوں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ النجم کی تلاوت کی اور سجدہ تلاوت کیا آپ کے پاس جتنے آدمی تھے ( مسلمان اور کافر ) ان سب نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا البتہ ایک بوڑھا شخص ( امیہ بن خلف ) اپنے ہاتھ میں کنکری یا مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی تک لے گیا اور کہا میرے لیے یہی کافی ہے میں نے دیکھا کہ بعد میں وہ بوڑھا کافر ہی رہ کر مارا گیا۔

 


❁ تشریح : شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی تو مشرکین اس درجہ مقہور ومغلوب ہو گئے کہ آپ نے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو مسلمانوں کے ساتھ وہ بھی سجدہ میں چلے گئے۔ اس باب میں یہ تاویل سب سے زیادہ مناسب اور واضح ہے حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ بھی اسی طرح کا واقعہ پیش آیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ جب فرعون کے بلائے ہوئے جادوگروں کے مقابلہ میں آپ کاعصا سانپ ہوگیا اور ان کے شعبدوں کی حقیقت کھل گئی تو سارے جادوگر سجدہ میں پڑ گئے۔ یہ بھی حضرت موسی علیہ السلام کے معجزہ سے مدہوش ومغلوب ہو گئے تھے۔ اس وقت انہیں اپنے اوپر قابونہ رہا تھا۔ اور سب بیک زبان بول اٹھے تھے کہ امنا برب موسی وھارون یہی کیفیت مشرکین مکہ کی ہوگئی تھی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ پر پہنچے تو آپ نے سجدہ کیا اور ہم نے سجدہ کیا۔ دارقطنی کی روایت میں ہے کہ جن وانس تک نے سجدہ کیا۔ جس بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا تھا وہ امیہ بن خلف تھا۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اما المصنف فی روایۃ اسرائیل ان النجم اول سورۃ انزلت فیھا سجدۃ وھذا ھوا لسر فی بداءۃ المصنف فی ھذہ الابواب بھذا الحدیث یعنی مصنف نے روایت اسرائیل میں بتایا کہ سورۃ نجم پہلی سورت ہے جس میں سجدہ نازل ہوا یہاں بھی ان ابواب کو اسی حدیث سے شروع کرنے میں یہی بھید ہے یوں تو سجدہ سورۃہ اقرا میں اس سے پہلے بھی نازل ہو چکا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا کھل کر اعلان فرمایا وہ یہی سورۃہ نجم ہے اور اس میں یہ سجدہ ہے ان المراد اول سورۃ فیھا سجدۃ تلاوتھا جھرا علی المشرکین ( فتح الباری )


❁ بَابُ سَجْدَةِ تَنْزِيلُ السَّجْدَةُ

❁ باب: سورۃ الم تنزیل میں سجدہ کرنا


❁ 1068 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةُ وَهَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ

 

❁ ترجمہ :  یہ حدیث ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہے مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے اپنی وسعت نظری کی بنا پر اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے طبرانی نے معجم صغیر میں نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں سورہ الم تنزیل کی تلاوت فرمائی اور سجدہ تلاوت کیا یہ روایت حضرت امام کے شرائط پر نہ تھی۔ اس لیے یہاں صرف یہ روایت لائے جس میں خالی پہلی رکعت میں الم تنزیل پڑھنے کا ذکر ہے اس میں بھی یہ اشارہ ہے کہ اگر چہ احادیث میں سجدہ تلاوت کاذکر نہیں مگر اس میں سجدہ تلاوت ہے لہٰذا اعلاناً آپ نے سجدہ کیا ہوگا۔

 


❁ تشریح : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں لم ارفی شئی من الطریق التصریح بانہ صلی اللہ علیہ وسلم سجد لما قرا سورۃ تنزیل السجدۃ فی ھذا المحل الا فی کتاب الشریعۃ لابن ابی داؤد من طریق اخری عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال غدوت علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم الجمعۃ فی صلوۃ الفجر فقرا سورۃ فیھا سجدۃ فسجد الحدیث وفی اسنادہ من ینظر فی حالہ وللطبرانی فی الصغیر من حدیث علی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سجد فی صلوۃ الصبح فی تنزیل السجدۃ لکن فی اسنادہ ضعف یعنی میں صراحتا کسی روایت میں یہ نہیں پایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس مقام پر ( یعنی نماز فجر میں ) سورۃ الم تنزیل سجدہ کو پڑھا آپ نے یہا ں سجدہ کیا ہوہاں کتاب الشریعۃ ابن ابی داؤد میں ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے ایک جمعہ کے دن فجر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ادا کی اور آپ نے سجدہ والی سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ طبرانی میں حدیث علی رضی اللہ عنہ میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز میں یہ سورۃ پڑھی اور سجدہ کیا۔ ان سورتوں کے فجر کی نماز میں جمعہ کے دن بلاناغہ پڑھنے میں بھید یہ ہے کہ ان میں پیدائش آدم پھر قیامت کے واقع ہونے کا ذکر ہے۔ آدم کی پیدائش جمعہ کے ہی دن ہوئی اور قیامت بھی جمعہ کے ہی دن قائم ہوگی جمعہ کے دن نماز فجر میں ان ہر دو سورتوں کو ہمیشگی کے ساتھ پڑھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور یہ بھی ثابت شدہ امر ہے کہ سورہ الم تنزیل میں سجدہ تلاوت ہے پس یہ ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سورہ شریفہ کو پڑھیں اور سجدہ تلاوت نہ کریں۔ پھر طبرانی وغیرہ میں صراحت کے ساتھ اس امر کا ذکر بھی موجود ہے اس تفصیل کے بعد علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو نفی فرمائی ہے وہ اسی حقیقت بیان کردہ کی روشنی میں مطالعہ کرنی چاہیے۔


❁ بَابُ سَجْدَةِ ص

 ❁ باب: سورۃ ص میں سجدہ کرنا


❁ 1069 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ قَالَا حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ ص لَيْسَ مِنْ عَزَائِمِ السُّجُودِ وَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِيهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان بن فضل نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیا ن کیا، ان سے ایوب نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ سورۃ ص کا سجدہ کچھ تاکیدی سجدوں میں سے نہیں ہے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

 


❁ تشریح : نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ ص میں سجدہ کیا اور فرمایا کہ یہ سجدہ داؤد علیہ السلام نے توبہ کے لیے کیا تھا ہم شکر کے طور پر یہ سجدہ کرتے ہیں اس حدیث میں “لیس من عزائم السجود” کابھی یہی مطلب ہے کہ سجدہ تو داؤد علیہ السلام کا تھا اور انہیں کی سنت پر ہم بھی شکر کے لیے یہ سجدہ کر تے ہیں۔ اللہ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کی توبہ قبول کر لی تھی۔ والمراد بالعزائم ما وردت العزیمۃ علی فعلہ کصیغۃ الامر الخ ( فتح الباری ) یعنی عزائم سے مراد وہ جن کے لیے صیغہ امر کے ساتھ تاکید وارد ہوئی ہو۔ سورۃ ص کا سجدہ ایسا نہیں ہے ہاں بطور شکر سنت ضرور ہے


❁ بَابُ سَجْدَةِ النَّجْمِ
❁ باب: سورۃ نجم میں سجدہ کا بیان

❁ 1070 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ سُورَةَ النَّجْمِ فَسَجَدَ بِهَا فَمَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنْ الْقَوْمِ إِلَّا سَجَدَ فَأَخَذَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ كَفًّا مِنْ حَصًى أَوْ تُرَابٍ فَرَفَعَهُ إِلَى وَجْهِهِ وَقَالَ يَكْفِينِي هَذَا قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُهُ بَعْدُ قُتِلَ كَافِرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ابو اسحاق سے بیان کیا، ان سے اسود نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا اس وقت قوم کا کوئی فرد ( مسلمان اور کافر ) بھی ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو۔ البتہ ایک شخص نے ہاتھ میں کنکری یا مٹی لے کر اپنے چہرہ تک اٹھائی اور کہا کہ میرے لیے یہی کافی ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بعد میں میں نے دیکھا کہ وہ کفرکی حالت ہی میں قتل ہوا۔ ( یہ امیہ بن خلف تھا )

 


❁ تشریح : اس حدیث سے سورۃ نجم میں سجدہ تلاوت بھی ثابت ہوا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فلعل جمیع من وفق للسجود یومئذ ختم لہ بالحسنیٰ فاسلم لبرکۃ السجود یعنی جن جن لوگوں نے اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سجدہ کر لیا ( خواہ ان میں سے کافروں کی نیت کچھ بھی ہو بہرحال ) ان کو سجدہ کی برکت سے اسلام لانے کی توفیق ہوئی اور ان کا خاتمہ اسلام پر ہوا۔ بعد کے واقعات سے ثابت ہے کہ کفار مکہ بڑی تعداد میں مسلمان ہوگئے تھے جن میں یقینا اس موقعہ پر یہ سجدہ کرنے والے بھی شامل ہیں۔ مگر امیہ بن خلف نے آج بھی سجدہ نہیں کیا بلکہ رسماً مٹی کو ہاتھ میں لے کر سر سے لگا لیا اس تکبر کی وجہ سے اس کو اسلام نصیب نہیں ہوا۔ آخر کفر کی ہی حالت میں وہ مارا گیا۔ خلاصہ یہ کہ سورۃ نجم میں بھی سجدہ ہے اور یہ عزائم السجود میں شمار کر لیا گیا ہے یعنی جن سجدوں کا ادا کرنا ضروری ہے وعن علی ما ورد الامر فیہ بالسجود عزیمۃ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جن آیات میں سجدہ کرنے کاحکم صادر ہوا ہے وہ سجدے ضروری ہیں ( فتح ) مگر ضروری کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ فرض واجب ہوں جب کہ سجدہ تلاوت سنت کے درجہ میں ہے یہ امر علیحدہ ہے کہ ہر سنت نبوی پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لیے سعادت دارین کا واحد وسیلہ ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم۔


❁ بَابُ سُجُودِ المُسْلِمِينَ مَعَ المُشْرِكِينَ وَالمُشْرِكُ نَجَسٌ لَيْسَ لَهُ وُضُوءٌ
❁ باب: مسلمانوں کا مشرکوں کے ساتھ سجدہ کرنا

❁ 1071 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجَدَ بِالنَّجْمِ وَسَجَدَ مَعَهُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ أَيُّوبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ النجم میں سجدہ کیا تو مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس سب نے آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔ اس حدیث کی روایت ابراہیم بن طہمان نے بھی ایوب سختیانی سے کی ہے۔

 


❁ تشریح : ظاہر ہے کہ مسلمان بھی اس وقت سب باوضو نہ ہوں گے اور مشرکوں کے وضو کا تو کوئی سوال ہی نہیں پس بے وضو سجدہ کرنے کا جواز نکلا اور امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَرَأَ السَّجْدَةَ وَلَمْ يَسْجُدْ
❁ باب: سجدہ کی آیت پڑھ کرسجدہ نہ کرنا

❁ 1072 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو الرَّبِيعِ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ عَنْ ابْنِ قُسَيْطٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَزَعَمَ أَنَّهُ قَرَأَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن داؤد ابوالربیع نے بیا ن کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یزید بن خصیفہ نے خبر دی، انہیں ( یزید بن عبداللہ ) ابن قسیط نے، اور انہیں عطاء بن یسار نے کہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا۔ آپ نے یقین کے ساتھ اس امر کا اظہار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ النجم کی تلاوت آپ نے کی تھی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

 


❁ تشریح : آپ کے اس وقت سجدہ نہ کرنے کی کئی وجوہ ہیں۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اوترک حینئذ لبیان الجواز وھذا رجح الاحتمالات وبہ جزم الشافعی ( فتح ) یعنی آپ نے سجدہ اس لیے نہیں کیا کہ اس کا ترک بھی جائز ہے اسی تاویل کو ترجیح حاصل ہے امام شافعی کا یہی خیال ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَرَأَ السَّجْدَةَ وَلَمْ يَسْجُدْ
❁ باب: سجدہ کی آیت پڑھ کرسجدہ نہ کرنا

❁ 1073 حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّجْمِ فَلَمْ يَسْجُدْ فِيهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن عبداللہ بن قسیط نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار نے، ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سورہ نجم کی تلاوت کی اور آپ نے اس میں سجدہ نہیں کیا۔

 


❁ تشریح : اس باب سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کچھ واجب نہیں ہے بعضوں نے کہا کہ اس کا رد مقصود ہے جو کہتا ہے کہ مفصل سورتوں میں سجدہ نہیں ہے کیونکہ سجدہ کرنا فوراً واجب نہیں تو سجدہ ترک کرنے سے یہ نہیں نکلتا کہ سورۃ والنجم میں سجدہ نہیں ہے۔ جو لوگ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں وہ بھی فوراً سجدہ کرنا ضروری نہیں جانتے۔ ممکن ہے آپ نے بعد کو سجدہ کر لیاہو۔ بزاد اور دارقطنی نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ والنجم میں سجدہ کیااور ہم نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا۔


❁ بَابُ سَجْدَةِ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ
❁ باب: سورہ اذالسلماء النشقت میں سجدہ کرنا

❁ 1074 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ قَالَا أَخْبَرَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ رَأَيْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَرَأَ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ فَسَجَدَ بِهَا فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أَلَمْ أَرَكَ تَسْجُدُ قَالَ لَوْ لَمْ أَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ لَمْ أَسْجُدْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم اور معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبد اللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے کہا کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو سورہ اذاالسماءانشقت پڑھتے دیکھا۔ آپ نے اس میں سجدہ کیا میں نے کہا کہ یا ابوہریرہ! کیا میں نے آپ کو سجدہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ آپ نے کہا کہ اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔


❁ بَابُ مَنْ سَجَدَ لِسُجُودِ القَارِئِ
❁ باب: سننے والا اسی وقت سجدہ کرے

❁ 1075 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَيْنَا السُّورَةَ فِيهَا السَّجْدَةُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا مَوْضِعَ جَبْهَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیی بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری موجودگی میں آیت سجدہ پڑھتے اور سجدہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ ( ہجوم کی وجہ سے ) اس طرح سجدہ کرتے کہ پیشانی رکھنے کی جگہ بھی نہ ملتی جس پر سجدہ کرتے۔


❁ بَابُ ازْدِحَامِ النَّاسِ إِذَا قَرَأَ الإِمَامُ السَّجْدَةَ
❁ باب: امام جب سجدہ کی آیت پڑھے

❁ 1076 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السَّجْدَةَ وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ فَنَزْدَحِمُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا لِجَبْهَتِهِ مَوْضِعًا يَسْجُدُ عَلَيْهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے علی بن مسہر نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبید اللہ عمری نے خبر دی، انہیں نافع نے اور نافع کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آیت سجدہ کی تلاوت اگر ہماری موجودگی میں کرتے تو آپ کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ اس وقت اتنا اژدھام ہو جاتا کہ سجدہ کے لیے پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی جس پر سجدہ کرنے والا سجدہ کر سکے۔

 

تشریح : اسی حدیث سے بعضوں نے یہ نکالاکہ جب پڑھنے والا سجدہ کرے تو سننے والا بھی کرے گویا اس سجدے میں سننے والا مقتدی ہے اور پڑھنے والا امام ہے۔ بیہقی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا جب لوگوں کا بہت ہجوم ہوتو تم میں کوئی اپنے بھائی کی پشت پر بھی سجدہ کر سکتا ہے۔ قسطلانی نے کہا جب ہجوم کی حالت میں فرض نماز میں پیٹھ پر سجدہ کرنا جائز ہوا تو تلاوت قرآن پاک کا سجدہ ایسی حالت میں بطریق اولی جائز ہوگا۔


❁ بَابُ مَنْ رَأَى أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يُوجِبِ السُّجُودَ
❁ باب: اللہ نے سجدہ تلاوت کو واجب نہیں کیا

❁1077 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهُدَيْرِ التَّيْمِيِّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ رَبِيعَةُ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ عَمَّا حَضَرَ رَبِيعَةُ مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَرَأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ بِسُورَةِ النَّحْلِ حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ نَزَلَ فَسَجَدَ وَسَجَدَ النَّاسُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ الْجُمُعَةُ الْقَابِلَةُ قَرَأَ بِهَا حَتَّى إِذَا جَاءَ السَّجْدَةَ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا نَمُرُّ بِالسُّجُودِ فَمَنْ سَجَدَ فَقَدْ أَصَابَ وَمَنْ لَمْ يَسْجُدْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَسْجُدْ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَزَادَ نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَفْرِضْ السُّجُودَ إِلَّا أَنْ نَشَاءَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی اور انہیں ا بن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن ابی ملیکہ نے خبر دی، انہیں عثمان بن عبد الرحمن تیمی نے اور انہیں ربیعہ بن عبد اللہ بن ہدیر تیمی نے کہا۔۔۔ ابوبکر بن ابی ملیکہ نے بیا ن کیا کہ ربیعہ بہت اچھے لوگوں میں سے تھے ربیعہ نے وہ حال بیان کیا جو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہوں نے دیکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر سورہ نحل پڑھی جب سجدہ کی آیت ( وللّٰہ یسجد ما فی السمٰوٰت ) آخر تک پہنچے تو منبر پر سے اترے اور سجدہ کیا تو لوگوں نے بھی ان کے ساتھ سجدہ کیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر یہی سورت پڑھی جب سجدہ کی آیت پر پہنچے تو کہنے لگے لوگو! ہم سجدہ کی آیت پڑھتے چلے جاتے ہیں پھر جو کوئی سجدہ کرے اس نے اچھا کیا اور جو کوئی نہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سجدہ نہیں کیا اور نافع نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ اللہ تعالی نے سجدہ تلاوت فرض نہیں کیا ہماری خوشی پر رکھا۔

 


❁ تشریح : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں واقوی الادلۃ علی نفی الوجوب حدیث عمر المذکور فی ھذا الباب یعنی اس بات کی قوی دلیل کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جو یہاں اس باب میں مذکور ہوئی اکثر ائمہ وفقہاءاسی کے قائل ہیں کہ سجدہ تلاوت ضروری نہیں بلکہ صرف سنت ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔


❁ بَابُ مَنْ قَرَأَ السَّجْدَةَ فِي الصَّلاَةِ فَسَجَدَ بِهَا
❁ باب: جس نے نماز میں آیت سجدہ تلاوت کی

❁ 1078 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي بَكْرٌ عَنْ أَبِي رَافِعٍ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ الْعَتَمَةَ فَقَرَأَ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ فَسَجَدَ فَقُلْتُ مَا هَذِهِ قَالَ سَجَدْتُ بِهَا خَلْفَ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَزَالُ أَسْجُدُ فِيهَا حَتَّى أَلْقَاهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا کہا کہ ہم سے بکر بن عبد اللہ مزنی نے بیان کیا، ان سے ابورافع نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی۔ آپ نے اذا السماءانشقت کی تلاوت کی اور سجدہ کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ انہوں نے اس کا جواب دیا کہ میں نے اس میں ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں سجدہ کیا تھا اور ہمیشہ سجدہ کرتا ہوں گا تا آنکہ آپ سے جاملوں۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَجِدْ مَوْضِعًا لِلسُّجُودِ مَعَ الإِمَامِ مِنَ الزِّحَامِ
❁ باب: جو ہجوم کی وجہ سے سجدہ تلاوت کی جگہ نہ پائے

❁ 1079 حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ السُّورَةَ الَّتِي فِيهَا السَّجْدَةُ فَيَسْجُدُ وَنَسْجُدُ مَعَهُ حَتَّى مَا يَجِدُ أَحَدُنَا مَكَانًا لِمَوْضِعِ جَبْهَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے صدقہ بن فضل نے بیا ن کیا، ان سے یحیی بن سعیدقطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی سورۃ کی تلاوت کرتے جس میں سجدہ ہوتا پھر آپ سجدہ کرتے اور ہم بھی آپ کے ساتھ سجدہ کرتے یہاں تک کہ ہم میں کسی کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ ( معلوم ہوا کہ ایسی حالت میں سجدہ نہ کیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ) واللہ اعلم۔


 

Table of Contents