Search
Sections
< All Topics
Print

19. Tahajjud ka bayan; [كِتَابُ التَّهَجُّدِ]; Prayer at Night

✦ 19.  كِتَابُ التَّهَجُّدِ ✦ 

کتاب: تہجد کا بیان

 


❁ بَابُ التَّهَجُّدِ بِاللَّيْلِ وَقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ

❁ باب: رات میں تہجد پڑھنا


❁ 1120 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ عَنْ طَاوُسٍ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ لَكَ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ قَالَ سُفْيَانُ وَزَادَ عَبْدُ الْكَرِيمِ أَبُو أُمَيَّةَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ أَبِي مُسْلِمٍ سَمِعَهُ مِنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن ابی مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (جس کاترجمہ یہ ہے) ”اے میرے اللہ!ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیباہے ، تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچاہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کاہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ!میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اورجو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ آگے کرنے ولااورپیچھے رکھنے والا تو ہی ہے۔معبود صرف توہی ہے۔ یا(یہ کہا کہ )تیرے سوا کوئی معبود نہیں“۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ عبدالکریم ابو امیہ نے اس دعا میں یہ زیادتی کی ہے(لاحول ولا قوۃ الا باللہ)سفیان نے بیان کیا کہ سلیمان بن مسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے۔

 


❁ تشریح : مسنون ہے کہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے والے خوش نصیب مسلمان اٹھتے ہی پہلے یہ دعا پڑھ لیں۔ لفظ تہجد باب تفعل کا مصدر ہے اس کا مادہ ہجود ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں اصلہ ترک الھجود وھو النوم قال ابن فارس المتھجد المصلی لیلا فتھجد بہ ای اترک الھجود للصلٰوۃ یعنی اصل اس کا یہ ہے کہ رات کو سونا نماز کے لیے ترک دیا جائے۔ پس اصطلاحی معنی متہجدکے مصلّی ( نمازی ) کے ہیں جو رات میں اپنی نیند کو خیرباد کہہ کر نماز میں مشغول ہو جائے۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو نماز تہجد سے موسوم کیا گیا۔ آیت شریفہ کے جملہ نافلۃ لک کی تفسیر میں علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ فریضۃ زائدۃ لک علی الصلوات المفروضۃ خصصت بھامن بین امتک روی الطبرانی باسناد ضعیف عن ابن عباس ان النافلۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم خاصۃ لانہ امر بقیام اللیل وکتب علیہ دون امتہ یعنی تہجد کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز پنجگانہ کے علاوہ فرض کی گئی اور آپ کو اس بارے میں امت سے ممتاز قرار دیا گیا کہ امت کے لیے یہ فرض نہیں مگر آپ پر فرض ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی لفظ نافلۃ لک کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص آپ کے لیے بطور ایک فرض نماز کے ہے۔ آپ رات کی نماز کے لیے مامور کیے گئے اور امت کے علاوہ آپ پر اسے فرض قرار دیا گیا لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ بعد میں آپ کے اوپر سے بھی اس کی فرضیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ بہرحال نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو پچھلی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں دو دو کرکے سلام سے ادا کی جاتی ہیں اورآخر میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں۔ یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی۔


❁ بَابُ فَضْلِ قِيَامِ اللَّيْلِ
❁ باب: رات کی نماز کی فضیلت

❁ 1121 – حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، ح وَحَدَّثَنِي مَحْمُودٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ فِي حَيَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا رَأَى رُؤْيَا قَصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَرَى رُؤْيَا، فَأَقُصَّهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكُنْتُ غُلاَمًا شَابًّا، وَكُنْتُ أَنَامُ فِي المَسْجِدِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُ فِي النَّوْمِ كَأَنَّ مَلَكَيْنِ أَخَذَانِي، فَذَهَبَا بِي إِلَى النَّارِ، فَإِذَا هِيَ مَطْوِيَّةٌ كَطَيِّ البِئْرِ وَإِذَا لَهَا قَرْنَانِ وَإِذَا فِيهَا أُنَاسٌ قَدْ عَرَفْتُهُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ النَّارِ، قَالَ: فَلَقِيَنَا مَلَكٌ آخَرُ فَقَالَ لِي: لَمْ تُرَعْ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے حدیث بیان کی ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دیتے ) میرے بھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا، میں ابھی نوجوان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ پر کنویں کی طرح بن دش ہے ( یعنی اس پر کنویں کی سی منڈیر بن ی ہوئی ہے ) اس کے دو جانب تھے۔ دوزخ میں بہت سے ایسے لوگو ں کو دیکھا جنہیں میں پہچانتا تھا۔ میں کہنے لگا دوزخ سے خدا کی پناہ! انہوں نے بیان کیاکہ پھر ہم کو ایک فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔


❁ بَابُ فَضْلِ قِيَامِ اللَّيْلِ
 ❁ باب: رات کی نماز کی فضیلت

❁ 1122 فَقَصَصْتُهَا عَلَى حَفْصَةَ فَقَصَّتْهَا حَفْصَةُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ، لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ» فَكَانَ بَعْدُ لاَ يَنَامُ مِنَ اللَّيْلِ إِلَّا قَلِيلًا

 

❁ ترجمہ : یہ خواب میں نے (اپنی بہن ) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سنایا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ عبد اللہ بہت خوب لڑکا ہے۔ کاش رات میں نماز پڑھا کرتا۔ (راوی نے کہا کہ آپ کے اس فرمان کے بعد) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات میں بہت کم سوتے تھے۔ (زیادہ عبادت ہی کرتے رہتے)۔

 


❁ تشریح : تشریح : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رات میں غفلت کی نیند پر محمول فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں مگر اتنی کسر ہے کہ رات کو نماز تہجد نہیں پڑھتے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز تہجد کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ نماز تہجد کی بے حد فضیلت ہے۔ اس بارے میں کئی احادیث مروی ہیں۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم یعنی اپنے لیے نمازتہجد کو لازم کر لو یہ تمام صالحین ،نیکو کار بندوں کا طریقہ ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ رات میں تہجد پڑھنا دوزخ سے نجات پانے کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی والدہ نے نصیحت فرمائی تھی رات بہت سونا اچھا نہیں جس سے آدمی قیامت کے دن محتاج ہو کر رہ جائے گا۔


 ❁ بَابُ طُولِ السُّجُودِ فِي قِيَامِ اللَّيْلِ
❁ باب: رات کی نمازوں میں لمبے سجدے کرنا

❁ 1123 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً كَانَتْ تِلْكَ صَلَاتَهُ يَسْجُدُ السَّجْدَةَ مِنْ ذَلِكَ قَدْرَ مَا يَقْرَأُ أَحَدُكُمْ خَمْسِينَ آيَةً قَبْلَ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ وَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ ثُمَّ يَضْطَجِعُ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّى يَأْتِيَهُ الْمُنَادِي لِلصَّلَاةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی۔ لیکن اس کے سجدے اتنے لمبے ہوا کرتے کہ تم میں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اٹھانے سے قبل پچاس آیتیں پڑھ سکتا تھا ( اور طلوع فجر ہونے پر ) فجر کی نماز سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت سنت پڑھتے۔ اس کے بعد دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔ آخر مؤذن آپ کو نما ز کے لیے بلانے آتا۔

 


❁ تشریح : فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے داہنی کروٹ پر لیٹنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ جس قدر روایات فجر کی سنتوں کے بارے میں مروی ہیں ان سے بیشتر میں اس “اضطجاع”کا ذکر ملتا ہے۔اسی لیے اہل حدیث کا یہ معمول ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت اور آپ کی ہر مبارک عادت کو اپنے لیے سرمایہ نجات جانتے ہیں۔ پچھلے کچھ متعصب ومتشدد قسم کے بعض حنفی علماءنے اس لیٹنے کو بدعت قرار دے دیا تھا مگر آج کل سنجیدگی کا دور ہے اس میں کوئی اوٹ پٹانگ بات ہانک دینا کسی بھی اہل علم کے لیے زیبا نہیں، اسی لیے آج کل کے سنجیدہ علماءاحناف نے پہلے متشدد خیال والوں کی تردید کی ہے اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کا اقرار کیاہے۔ چنانچہ صاحب تفہیم البخاری کے یہاں یہ الفاظ ہیں: “اس حدیث میں سنت فجر کے بعدلیٹنے کاذکر ہے۔ احناف کی طرف اس مسئلے کی نسبت غلط ہے کہ ان کے نزدیک سنت فجر کے بعد لیٹنا بدعت ہے۔ اس میں بدعت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی، عبادات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں البتہ ضروری سمجھ کر فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا پسندیدہ نہیں خیال کیا جاسکتا، اس حیثیت سے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عادت تھی اس میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے تو ضرور اجر وثواب ملے گا”۔ فاضل موصوف نے بہر حال اس عادت نبوی پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر وثواب کا فتویٰ دے ہی دیا ہے۔ باقی یہ کہنا کہ عبادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں غلط ہے، موصوف کو معلوم ہوگا کہ عبادت ہر وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی امور میں تقرب الی اللہ کے لیے انجام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لیٹنا بھی تقرب الی اللہ ہی کے لیے ہوتا تھا کیونکہ دوسری روایات میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لیٹ کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی بصری نورا وفی سمعی نورا وعن یمینی نورا وعن یساری نورا وفوقی نورا وتحتی نورا و امامی نورا وخلفی نورا واجعل لی نورا وفی لسانی نورا وفی عصبی نورا ولحمی نورا ودمی نورا وشعری نورا وبشری نورا واجعل فی نفسی نورا واعظم لی نورا اللھم اعطنی نورا ( صحیح مسلم ) اس دعا کے بعد کون ذی عقل کہہ سکتا ہے کہ آپ کا یہ کام محض عادت ہی سے متعلق تھااور بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت ہی سہی بہر حال آپ کے سچے فدائیوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا آپ کی ہر عادت آپ کا ہرطور طریقہ زندگی باعث صد فخر ومباہات ہے۔ اللہ عمل کی توفیق بخشے آمین۔ بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست وگر با ونہ رسیدی تمام بولبہی است آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں یہ بار بار کہا کرتے سبحنک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی ایک روایت میں یوں ہے سبحنک لا الہ الا انت سلف صالحین بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں لمبا سجدہ کرتے۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے کہ چڑیاں اتر کر ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتیں اور سمجھتیں کہ یہ کوئی دیوار ہے ( وحیدی )


❁ بَابُ تَرْكِ القِيَامِ لِلْمَرِيضِ
 ❁ باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے

❁ 1124 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ سَمِعْتُ جُنْدَبًا يَقُولُ اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَةً أَوْ لَيْلَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جندب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو ایک یادو رات تک ( نماز کے لیے ) نہ اٹھ سکے۔


❁ بَابُ تَرْكِ القِيَامِ لِلْمَرِيضِ
❁ باب: مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے

❁ 1125 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ احْتَبَسَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ امْرَأَةٌ مِنْ قُرَيْشٍ أَبْطَأَ عَلَيْهِ شَيْطَانُهُ فَنَزَلَتْ وَالضُّحَى وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ( ایک مرتبہ چند دنوں تک ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( وحی لے کر ) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت ( ام جمیل ابو لہب کی بیوی ) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری ﴿والضحی واللیل اذا سجی ماودعک ربک وماقلی﴾

 


تشریح : ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی ( ام جمیل بنت حرب اخت ابی سفیان امراۃ ابی لہب حمالۃ الحطب ) نے یہ فقرہ کہا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ نے فرمایا ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔ اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت ( مذکورہ ام جمیل ) کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ سورۃ اتری والضحی واللیل اذا سجی ما ودعک ربک وما قلی ( الضحی:1-3 ) ( وحیدی ) احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دوکو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے


 ❁ بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ

❁ باب: نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب


❁ 1126 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ هِنْدٍ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَيْقَظَ لَيْلَةً فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا أُنْزِلَ اللَّيْلَةَ مِنْ الْفِتْنَةِ مَاذَا أُنْزِلَ مِنْ الْخَزَائِنِ مَنْ يُوقِظُ صَوَاحِبَ الْحُجُرَاتِ يَا رُبَّ كَاسِيَةٍ فِي الدُّنْيَا عَارِيَةٍ فِي الْآخِرَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ہند بن ت حارث نے اور انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات جاگے تو فرمایا سبحان اللہ! آج رات کیا کیا بلائیں اتری ہیں اور ساتھ ہی ( رحمت اور عنایت کے ) کیسے خزانے نازل ہوئے ہیں۔ ان حجرے والیوں ( ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن ) کو کوئی جگانے والا ہے افسوس! کہ دنیا میںبہت سی کپڑے پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔


❁ بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ
❁ باب: نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب

❁ 1127 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ بِنْتَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام لَيْلَةً فَقَالَ أَلَا تُصَلِّيَانِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْفُسُنَا بِيَدِ اللَّهِ فَإِذَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَنَا بَعَثَنَا فَانْصَرَفَ حِينَ قُلْنَا ذَلِكَ وَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا ثُمَّ سَمِعْتُهُ وَهُوَ مُوَلٍّ يَضْرِبُ فَخِذَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے حضرت زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ نے فر مایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں خدا کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھادے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر ( سورہ کہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے ﴿ وکان الانسان اکثر شئی جدلا ﴾

 


❁ تشریح : یعنی آپ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو رات کی نماز کی طرف رغبت دلائی لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عذر سن کر آپ چپ ہو گئے۔ اگر نماز فرض ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ جاتے ہوئے تاسف کا اظہار ضرور کر دیا۔ مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب فی الحقیقت درست تھا مگر اس کا استعمال اس موقع پر درست نہ تھا کیونکہ دنیادار کو تکلیف ہے اس میں نفس پر زور ڈال کر تمام اوامر الٰہی کو بجالانا چاہیے۔ تقدیر پر تکیہ کر لینا اور عبادت سے قاصر ہو کر بیٹھنا اورجب کوئی اچھی بات کا حکم کرے تو تقدیر پر حوالہ کرنا کج بحثی اور جھگڑاہے۔ تقدیر کا اعتقاد اس لیے نہیں ہے کہ آدمی اپاہج ہو کر بیٹھ رہے اور تدبیر سے غافل ہوجائے۔ بلکہ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ محنت اور مشقت اور اسباب حاصل کرنے میں کوشش کرے مگر یہ سمجھے رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ نے قسمت میں لکھا ہے۔ چونکہ رات کا وقت تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے چھوٹے اور داماد تھے لہٰذا آپ نے اس موقع پر تطویل بحث اور سوال جواب کو نامناسب سمجھ کر جواب نہ دیا مگر آپ کو اس جواب سے افسوس ہوا


❁ بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ
❁ باب: نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب

❁ 1128 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَدَعُ الْعَمَلَ وَهُوَ يُحِبُّ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ خَشْيَةَ أَنْ يَعْمَلَ بِهِ النَّاسُ فَيُفْرَضَ عَلَيْهِمْ وَمَا سَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبْحَةَ الضُّحَى قَطُّ وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ا بن شہاب زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر ( آپ کو دیکھ کر ) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔

 


❁ تشریح : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو شاید وہ قصہ معلوم نہ ہوگا جس کو ام ہانی نے نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن چاشت کی نماز پڑھی۔ باب کا مطلب حدیث سے یوں نکلتا ہے کہ چاشت کی نفل نماز کا پڑھنا آپ کو پسند تھا۔ جب پسند ہوا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ترغیب دلائی اور پھر اس کو واجب نہ کیا۔ کیونکہ آپ نے خود اس کو نہیں پڑھا۔ بعضوں نے کہا آپ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیشگی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھی کیونکہ دوسری روایت سے آپ کا یہ نمازپڑھنا ثابت ہے۔


❁ بَابُ تَحْرِيضِ النَّبِيِّ ﷺ عَلَى صَلاَةِ اللَّيْلِ وَالنَّوَافِلِ مِنْ غَيْرِ إِيجَابٍ
❁ باب: نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب

❁ 1129 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنْ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنْ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوْ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنْ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ا بن شہاب زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہوگیا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

 


❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔ اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔ آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔ چنانچہ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: واما العدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوتہ فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشۃ انھا قالت ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم اوتر۔ ( نیل الاوطار ) اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھا ئیں پھر تین وتر پڑھائے۔ پس ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔ ان شاءاللہ تعالی۔


❁ بَابُ: قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ اللَّيْلَ حَتَّى تَرِمَ قَدَمَاهُ
❁ باب: نمازمیں اتنا قیام کہ پاؤں کا سوجنا

❁ 1130 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ عَنْ زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ إِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَقُومُ لِيُصَلِّيَ حَتَّى تَرِمُ قَدَمَاهُ أَوْ سَاقَاهُ فَيُقَالُ لَهُ فَيَقُولُ أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے، انہوں نے بیان کیاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے “ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”

 


❁ تشریح : سورۃ مزمل کے شروع نزول کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ رات کے اکثر حصوں میں آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔


❁ بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ
❁ باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا

❁ 1131 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَأَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ وَكَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ وَيَقُومُ ثُلُثَهُ وَيَنَامُ سُدُسَهُ وَيَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیاکہ عمرو بن اوس نے انہیں خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ نمازداؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد علیہ السلام ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سو جاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔


❁ تشریح : رات کے بارہ گھنٹے ہوتے ہیں تو پہلے چھ گھنٹے میں سو جاتے، پھر چا ر گھنٹے عبادت کرتے، پھر دو گھنٹے سورہتے۔ گویا سحر کے وقت سوتے ہوتے یہی ترجمہ باب ہے۔


❁ بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ
❁ باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا

❁ 1132 حَدَّثَنِي عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ أَشْعَثَ سَمِعْتُ أَبِي قَالَ سَمِعْتُ مَسْرُوقًا قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَيُّ الْعَمَلِ كَانَ أَحَبَّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ الدَّائِمُ قُلْتُ مَتَى كَانَ يَقُومُ قَالَتْ كَانَ يَقُومُ إِذَا سَمِعَ الصَّارِخَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ قَالَ أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ الْأَشْعَثِ قَالَ إِذَا سَمِعَ الصَّارِخَ قَامَ فَصَلَّى

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان بن جبلہ نے شعبہ سے خبر دی، انہیں اشعث نے۔ اشعث نے کہا کہ میں نے اپنے باپ ( سلیم بن اسود ) سے سنا اور میرے باپ نے مسروق سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا عمل زیادہ پسندتھا؟ آپ نے جواب دیا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے ( خواہ وہ کوئی بھی نیک کام ہو ) میں نے دریافت کیا کہ آپ ( رات میں نماز کے لیے ) کب کھڑے ہوتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جب مرغ کی آواز سنتے۔ ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابو الاحوص سلام بن سلیم نے خبر دی، ان سے اشعث نے بیان کیا کہ مرغ کی آواز سنتے ہی آپ کھڑے ہوجاتے اور نماز پڑھتے۔

 


❁ تشریح : کہتے ہیں کہ پہلے پہل مرغ آدھی رات کے وقت بانگ دیتا ہے۔ احمد اور ابو داؤد میں ہے کہ مرغ کو برامت کہو وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔ مرغ کی عادت ہے کہ فجر طلوع ہوتے ہی اور سورج کے ڈھلنے پر بانگ دیا کرتا ہے۔ یہ خدا کی فطرت ہے پہلے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی شب بیداری کا حال بیان کیا۔ پھر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل اس کے مطابق ثابت کیا تو ان دونوں حدیثوں سے یہ نکلا کہ آپ اول شب میں آدھی رات تک سوتے رہتے پھر مرغ کی بانگ کے وقت یعنی آدھی رات پر اٹھتے۔ پھر آگے کی حدیث سے یہ ثابت کیا کہ سحر کو آپ سوتے ہوتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور حضرت داؤد علیہ السلام کا عمل یکساں ہوگیا۔ عراقی نے اپنی کتاب سیرت میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک سفید مرغ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


❁ بَابُ مَنْ نَامَ عِنْدَ السَّحَرِ
❁ باب: جو شخص سحر کے وقت سو گیا

❁ 1133 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ ذَكَرَ أَبِي عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا أَلْفَاهُ السَّحَرُ عِنْدِي إِلَّا نَائِمًا تَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ میرے باپ سعد بن ابراہیم نے اپنے چچا ابو سلمہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے یہاں سحر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ لیٹے ہوئے پایا۔


❁ تشریح : عادت مبارکہ تھی کہ تہجد سے فارغ ہو کر آپ قبل فجر سحرکے وقت تھوڑی دیر آرام فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہی بیان فرمارہی ہیں


❁ بَابُ مَنْ تَسَحَّرَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ فَلَمْ يَنَمْ حَتَّى صَلَّى الصُّبْحَ
❁ باب: جو سحری کھانے کے بعد صبح کی نماز

❁ 1134 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنَا رَوْحٌ قَالَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَزَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسَحَّرَا فَلَمَّا فَرَغَا مِنْ سَحُورِهِمَا قَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى فَقُلْنَا لِأَنَسٍ كَمْ كَانَ بَيْنَ فَرَاغِهِمَا مِنْ سَحُورِهِمَا وَدُخُولِهِمَا فِي الصَّلَاةِ قَالَ كَقَدْرِ مَا يَقْرَأُ الرَّجُلُ خَمْسِينَ آيَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دونوں نے مل کر سحری کھائی، سحری سے فارغ ہو کر آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا؟ آپ نے جواب دیا کہ اتنی دیر میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ سکتا ہے۔

 


❁ تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ یہا ں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے تھے اور پھر مؤذن صبح کی نماز کی اطلاع دینے آتا تھا لیکن یہ بھی آپ سے ثابت ہے کہ آپ اس وقت لیٹتے نہیں تھے بلکہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رمضان کے مہینہ میں تھا کہ سحری کے بعد تھوڑا سا توقف فرماتے پھر فجر کی نماز اندھیرے میں ہی شروع کردیتے تھے ( تفہیم البخاری ) پس معلوم ہواکہ فجر کی نماز غلس میں پڑھنا سنت ہے جو لوگ اس سنت کا انکار کرتے اور فجر کی نماز ہمیشہ سورج نکلنے کے قریب پڑھتے ہیں وہ یقینا سنت کے خلاف کر تے ہیں۔


❁ بَابُ طُولِ القِيَامِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
باب: رات کے قیام میں نماز کولمبا کرنا ❁ 

❁ 1135 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فَلَمْ يَزَلْ قَائِمًا حَتَّى هَمَمْتُ بِأَمْرِ سَوْءٍ قُلْنَا وَمَا هَمَمْتَ قَالَ هَمَمْتُ أَنْ أَقْعُدَ وَأَذَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیا کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات میں نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑدوں۔

 


❁ تشریح : یہ ایک وسوسہ تھا جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دل میں آیاتھا مگر وہ فوراً سنبھل کر اس وسوسہ سے باز آگئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ رات کی نماز میں آپ بہت لمبی قرات کیا کرتے تھے۔


❁ بَابُ طُولِ القِيَامِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ
❁ باب: رات کے قیام میں نماز کولمبا کرنا

❁ 1136 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَامَ لِلتَّهَجُّدِ مِنْ اللَّيْلِ يَشُوصُ فَاهُ بِالسِّوَاكِ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبد الرحمن نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔

 


❁ تشریح : تہجد کے لیے مسواک کا خاص اہتمام اس لیے تھا کہ مسواک کر لینے سے نیند کا خمار بخوبی اتر جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نیند کا خمار اتار کر طول قیام کے لیے اپنے کو تیار فرماتے۔ یہاں اس حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔


❁ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ؟ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟
❁ باب: رات کی نماز کی کیفیت

❁ 1137 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ إِنَّ رَجُلًا قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ صَلَاةُ اللَّيْلِ قَالَ مَثْنَى مَثْنَى فَإِذَا خِفْتَ الصُّبْحَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! را ت کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت اور جب طلوع صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کر اپنی ساری نماز کو طاق بن ا لے۔

 


❁ تشریح : رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔ اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔ اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔ اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔ اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: وھو حجۃ للشافعیۃ علی جواز الایتار برکعۃ واحدۃ قال النووی وھو مذھب الجمھور وقال ابو حنیفۃ لا یصح بواحدۃ ولا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ۔ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں


❁ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ؟ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟
❁ باب: رات کی نماز کی کیفیت

❁ 1138 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو جَمْرَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً يَعْنِي بِاللَّيْلِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے کہا کہ مجھ سے ابو حمزہ نے بیان کیا اور ان سے ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی۔


❁ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ؟ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟
❁ باب: رات کی نماز کی کیفیت

❁ 1139 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ أَبِي حَصِينٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ فَقَالَتْ سَبْعٌ وَتِسْعٌ وَإِحْدَى عَشْرَةَ سِوَى رَكْعَتِي الْفَجْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابو حصین بن عثمان بن عاصم نے، انہیں یحیٰ بن وثاب نے، انہیں مسروق بن اجدع نے، آپ نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سو اہوتی۔


❁ تشریح : رات کی نماز سے مراد غیررمضان میں نماز تہجد اور رمضان میں تراویح ہے


❁ بَابٌ: كَيْفَ كَانَ صَلاَةُ النَّبِيِّ ؟ وَكَمْ كَانَ النَّبِيُّ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ؟
❁ باب: رات کی نماز کی کیفیت

❁ 1140 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنَا حَنْظَلَةُ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنْ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا الْوِتْرُ وَرَكْعَتَا الْفَجْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمدنے اور انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔


❁ تشریح : وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجدکی دو دو کر کے پڑھتے۔ پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے۔ یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات تراویح پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔


❁ بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ بِاللَّيْلِ مِنْ نَوْمِهِ، وَمَا نُسِخَ مِنْ قِيَامِ اللَّيْلِ
❁ باب: آنحضرت ﷺکی نماز رات میں

❁ 1141 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُفْطِرُ مِنْ الشَّهْرِ حَتَّى نَظُنَّ أَنْ لَا يَصُومَ مِنْهُ وَيَصُومُ حَتَّى نَظُنَّ أَنْ لَا يُفْطِرَ مِنْهُ شَيْئًا وَكَانَ لَا تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنْ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إِلَّا رَأَيْتَهُ وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَأَيْتَهُ تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ عَنْ حُمَيْدٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینہ میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اب آپ اس مہینہ میں روزہ ہی نہیں رکھیں گے اور اگرکسی مہینہ میں روزہ رکھنا شروع کرتے تو خیال ہوتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااس مہینہ کا ایک دن بھی بغیر روزہ کے نہیں رہ جائے گا اور رات کو نمازتو ایسی پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے سوتا دیکھ لیتے۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان اور ابو خالد نے بھی حمید سے روایت کیا ہے۔

 


❁ تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات سوتے بھی نہیں تھے اور ساری رات جاگتے اور عبادت بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر رات میں سوتے اور عبادت بھی کرتے تو جو شخص آپ کو جس حال میں دیکھنا چاہتا دیکھ لیتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری رات جاگنا اور عبادت کرنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ ان کو اتنا شعور نہیں کہ ساری رات جاگتے رہنے سے یا ہمیشہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہو جاتی ہے پھر اس کو عبادت میں کوئی تکلیف نہیں رہتی۔ مشکل یہی ہے کہ رات کو سونے کی عادت بھی رہے اسی طرح دن میں کھانے پینے کی اورپھر نفس پر زور ڈال کر جب ہی چاہے اس کی عادت توڑے۔ میٹھی نیند سے منہ موڑے۔ پس جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی افضل اور وہی اعلیٰ اور وہی مشکل ہے۔ آپ کی نوبیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حق بھی ادا فرماتے، اپنے نفس کا بھی حق ادا کرتے۔ اپنے عزیز واقارب اور عام مسلمانوں کے بھی حقوق ادا فرماتے۔ اس کے ساتھ خدا کی بھی عبادت کرتے، کہیے اس کے لیے کتنا بڑا دل اور جگر چاہیے۔ ایک سونٹا لے کر لنگوٹ باندھ کر اکیلے دم بیٹھ رہنا اور بے فکری سے ایک طرف کے ہوجانا یہ نفس پر بہت سہل ہے۔


❁ بَابُ عَقْدِ الشَّيْطَانِ عَلَى قَافِيَةِ الرَّأْسِ إِذَا لَمْ يُصَلِّ بِاللَّيْلِ
❁ باب: جب آدمی رات کو نماز نہ پڑھے

❁ 1142 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَعْقِدُ الشَّيْطَانُ عَلَى قَافِيَةِ رَأْسِ أَحَدِكُمْ إِذَا هُوَ نَامَ ثَلَاثَ عُقَدٍ يَضْرِبُ كُلَّ عُقْدَةٍ عَلَيْكَ لَيْلٌ طَوِيلٌ فَارْقُدْ فَإِنْ اسْتَيْقَظَ فَذَكَرَ اللَّهَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَإِنْ تَوَضَّأَ انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَإِنْ صَلَّى انْحَلَّتْ عُقْدَةٌ فَأَصْبَحَ نَشِيطًا طَيِّبَ النَّفْسِ وَإِلَّا أَصْبَحَ خَبِيثَ النَّفْسِ كَسْلَانَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ابو الزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگادیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوںپھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز ( فرض یا نفل ) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بن د خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ ست اور بدباطن رہتا ہے۔

 


❁ تشریح : حدیث میں جو آیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ حقیقت میں شیطان گرہیں لگاتا ہے اور یہ گرہیں ایک شیطانی دھاگے میں ہوتی ہیں وہ دھاگہ گدی پر رہتا ہے۔ امام احمد کی روایت میں صاف یہ ہے کہ ایک رسی سے گرہ لگاتا ہے بعضوں نے کہا گرہ لگانے سے یہ مقصود ہے کہ شیطان جادو گر کی طرح اس پر اپنا افسوں چلاتا ہے اور اسے نماز سے غافل کرنے کے لیے تھپک تھپک کر سلادیتا ہے۔


❁ بَابُ عَقْدِ الشَّيْطَانِ عَلَى قَافِيَةِ الرَّأْسِ إِذَا لَمْ يُصَلِّ بِاللَّيْلِ
❁ باب: جب آدمی رات کو نماز نہ پڑھے

❁ 1143 حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ قَالَ حَدَّثَنَا عَوْفٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ قَالَ حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرُّؤْيَا قَالَ أَمَّا الَّذِي يُثْلَغُ رَأْسُهُ بِالْحَجَرِ فَإِنَّهُ يَأْخُذُ الْقُرْآنَ فَيَرْفِضُهُ وَيَنَامُ عَنْ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عوف اعرابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن کا حافظ تھا مگر وہ قرآن سے غافل ہو گیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔

 


❁ تشریح : یعنی عشاءکی نماز نہ پڑھتا نہ فجر کے لیے اٹھتا حالانکہ اس نے قرآن پڑھا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کو بھلا بیٹھا۔ آج دوزخ میں اس کو یہ سزا مل رہی ہے۔ یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آئے گی۔


❁ بَابُ إِذَا نَامَ وَلَمْ يُصَلِّ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ
❁ باب: جو شخص سوتا رہے نماز نہ پڑھے

❁ 1144 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ قَالَ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ فَقِيلَ مَا زَالَ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحَ مَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ فَقَالَ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو الاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے منصور بن معتمر نے ابو وائل سے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک پڑا سوتا رہا اور فرض نماز کے لیے بھی نہیں اٹھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا ہے۔

 


❁ تشریح : جب شیطان کھاتاپیتاہے تو پیشاب بھی کرتا ہوگا۔ اس میں کوئی امر قیاس کے خلاف نہیں ہے۔ بعضوں نے کہا پیشاب کرنے سے یہ مطلب ہے کہ شیطان نے اس کو اپنا محکوم بنا لیا اور کان کی تخصیص اس وجہ سے کی ہے کہ آدمی کان ہی سے آواز سن کر بیدارہوتا ہے۔ شیطان نے اس میں پیشاب کر کے اس کے کان بھر دیئے۔ قال القرطبی وغیرہ لا مانع من ذلک اذلا احالۃ فیہ لانہ ثبت ان الشیطان یاکل ویشرب وینکح فلا مانع من ان یبول۔ ( فتح الباری ) یعنی قرطبی وغیرہ نے کہا کہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہے کہ شیطان کھاتا اور پیتااور شادی بھی کرتا ہے تو اس کا ایسے غافل بے نمازی آدمی کے کان میں پیشاب کردینا کیا بعید ہے۔


❁ بَابُ الدُّعَاءِ فِي الصَّلاَةِ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ
❁ باب: آخر رات میں دعا اور نماز کا بیان

❁ 1145 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ وَأَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالکؒ نے، ان نے ا بن شہاب نے، ان سے ابو سلمہ عبد الرحمن اور ابو عبد اللہ اغر نے اور ان دونوں حضرات سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بلند برکت ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والاہے کہ میں اس کو بخش دوں۔

 


❁ تشریح :  بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔ پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔ ان سات آیتوں میں صراحت کے ساتھ اللہ پاک کا عرش عظیم پر مستوی ہونا مذکور ہے۔ آیات قرآنی کے علاوہ پندرہ احادیث نبوی ایسی ہیں جن میں اللہ پاک کاآسمانوں کے اوپر عرش اعظم پر ہونا مذکور ہے اور جن سے اس کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس حقیقت کے بعد اس باری تعالی وتقدس کا عرش عظیم سے آسمان دنیا پر نزول فرمانا یہ بھی برحق ہے۔ حضرت علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب بنام نزول الرب الی السماءالدنیا تحریر فرمائی ہے جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔ حضرت علامہ وحید الزماں صاحب کے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے یعنی وہ خود اپنی ذات سے اترتا ہے جیسے دوسری روایت میں ہے۔نزل بذاتہ اب یہ تاویل کرنا اس کی رحمت اترتی ہے، محض فاسد ہے۔ علاوہ اس کے اس کی رحمت اتر کر آسمان تک رہ جانے سے ہم کو فائدہ ہی کیا ہے، اس طرح یہ تاویل کہ ایک فرشتہ اس کا اترتا ہے یہ بھی فاسد ہے کیونکہ فرشتہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے جو کوئی مجھ سے دعا کرے میں قبول کروں گا، گناہ بخش دوں گا۔ دعا قبول کرنا یا گناہوں کا بخش دینا خاص پروردگار کا کام ہے۔اہل حدیث نے اس قسم کی حدیثوں کو جن میں صفات الہی کا بیان ہے، بہ دل وجان قبول کیا ہے اور ان کے اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھا ہے، مگر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں اور ہمارے اصحاب میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے اور مخالفوں کے تمام اعتراضوں اور شبہوں کا جواب دیا ہے۔ اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں: ومنھم من اجراہ علی ما ورد مومنا بہ علی طریق الاجمال منزھا اللہ تعالی من الکیفیۃ والتشبیہ وھم جمھور السلف ونقلہ البیھقی وغیرہ عن الائمۃ الاربعۃ السفیانین والحمادین والاوزاعی واللیث وغیرھم وھذا القول ھو الحق فعلیک اتباع جمھور السلف وایاک ان تکون من اصحاب التاویل واللہ تعالی اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سلف صالحین وائمہ اربعہ اور بیشتر علمائے دین اسلاف کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بغیر تاویل اور کیفیت اورتشبیہ کے کہ اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالی وارد ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور صواب ہے۔ پس سلف کی اتباع لازم پکڑلے اور تاویل والوں میں سے مت ہو کہ یہی حق ہے۔ واللہ اعلم۔


❁ بَابُ مَنْ نَامَ أَوَّلَ اللَّيْلِ وَأَحْيَا آخِرَهُ
❁ باب: جو شخص رات کے شروع میں سو جائے

❁ 1146 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح و حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ الْأَسْوَدِ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ قَالَتْ كَانَ يَنَامُ أَوَّلَهُ وَيَقُومُ آخِرَهُ فَيُصَلِّي ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى فِرَاشِهِ فَإِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ وَثَبَ فَإِنْ كَانَ بِهِ حَاجَةٌ اغْتَسَلَ وَإِلَّا تَوَضَّأَ وَخَرَجَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق عمرو بن عبداللہ نے، ان سے اسود بن یزید نے، انہوں نے بتلایا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز کیونکر پڑھتے تھے؟ آپ نے بتلایا کہ شروع رات میں سو رہتے اور آخر رات میں بیدار ہو کر تہجد کی نماز پڑھتے۔ اس کے بعد بستر پر آ جاتے اور جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ بیٹھتے۔ اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔


❁ تشریح : مطلب یہ کہ نہ ساری رات سوتے ہی رہتے نہ ساری رات نماز ہی پڑھتے رہتے بلکہ درمیانی راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور یہی مسنون ہے۔


❁ بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ
❁ باب: نبی کریم ﷺکا رمضان

❁ 1147 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابو سعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( رات کو ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہو تایا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

 


❁ تشریح : ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔ پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔ عن جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا ( یعنی کل گیارہ رکعات ) نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماکان یزیدفی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔ لہذا معلوم ہو اکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان ( تراویح ) یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان ( تراویح ) کو حدیث شریف میں قیام اللیل ( تہجد ) بھی فرمایا ہے۔ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا“مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل ( تہجد ) فرض نہ ہو جائے ” دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو تہجد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان ( تراویح ) اور صلوۃ اللیل ( تہجد ) ایک ہی نماز ہے۔ تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل! عن ابی ذر قال صمنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان فلم یقم بنا شیئا منہ حتی بقی سبع لیال فقام بنا لیلۃ السابعۃ حتی مضی نحو من ثلث اللیل ثم کانت اللیلۃ السادسۃ التی تلیھافلم یقم بنا حتی کانت خامسۃ التی تلیھا قام بنا حتی مضی نحو من شطر اللیل فقلت یا رسول اللہ لو نفلتنا بقیۃ لیلتنا ھذہ فقال انہ من قام مع الامام حتی ینصرف فانہ یعدل قیام اللیلۃ ثم کانت الرابعۃ التی تلیھا فلم یقمھا حتی کانت الثالثۃ التی تلیھا قال فجمع نسائہ واھلہ واجتمع الناس قال فقام بنا حتی خشینا ان یفوتناالفلاح قیل وما الفلاح قال السحور ثم لم یقم بنا شیئا من بقیۃ الشھر رواہ ابن ماجہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔ سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔ پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے بتادیا۔ جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ پس فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون“یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے ”معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا ہے۔ نیز اسی حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد رحمہ اللہ شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے باب قیام شہررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔ ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔ علماءوفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے! ( 1 ) علامہ عینی رحمہ اللہ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں: فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورۃ عدد الصلوۃ التی صلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں”۔ ( 2 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ( جلد:1 ص:597 ) میں فرماتے ہیں کہ لم اری فی شئی من طرقہ بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “ میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔ ( 3 ) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ ( جلد :1ص: 293 ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان فی صحیحہ عن جابر ابن عبد اللہ انہ علیہ الصلوۃ والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔ ( 4 ) امام محمد شاگرد امام اعظم رحمہما اللہ اپنی کتاب مؤطا امام محمد ( ص:93 ) میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت ما کان رسول اللہ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہرضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں محمد وبھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔ ( 5 ) ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے السنۃ ما واظب علیہ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنۃ ھو ذلک القدر المذکور وما زاد علیہ یکون مستحبا سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور ( آٹھ رکعت ہی ) سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔ ( 6 ) امام ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدیٰ عشرۃ رکعۃ با لوتر فی جماعۃ فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام ( تراویح ) سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے ثابت ہے۔ ( 7 ) علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ( 8 ) مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی رحمہ اللہ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر وھذا اصح اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔ ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہ اور صحابیات رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا! ( 9 ) امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جاءابی ابن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اللیلۃ شئی قال وما ذاک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرءالقرآن فنصلی خلفک بصلوتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ شبہ الرضاءابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز ( تراویح ) تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔ گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت ( تراویح ) پڑھتے تھے۔ حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت! ( 10 ) عن سائب ابن یزید قال امرعمر ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان احدیٰ عشرۃ رکعۃ الخ سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ( مؤطا امام مالک ) واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔ اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ چنا نچہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ وعلامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرک عمر“یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا” اور جن لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔ اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں کان القاری یقرءسورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا ( مؤطا امام مالک ) فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا ( مصنف ابن ابی شیبہ ) غرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ لہٰذا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔ فقہاءسے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف! ( 11 ) علامہ ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 ) میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ ابن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔ ( 12 ) شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں ) ( 13 ) شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ماثبت با لسنۃ ( ص:217 ) میں فرماتے ہیں والصحیح ما روتہ عائشۃ انہ صلی اللہعلیہ وسلم صلی احدیٰ عشرۃ رکعۃ کماھو عادتہ فی قیام اللیل وروی انہ کان بعض السلف فی عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون احدیٰ عشرۃ رکعۃ قصدا تشبیھا برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح حدیث وہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پڑھائیں۔ نیز ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ ( 14 ) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احدیٰ عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ “گیارہ رکعت کو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ”۔ اسی طرح فقہاءوعلماءمثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی رحمہم اللہ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔ اور امام محمدشاگرد رشید امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ وبھذا ناخذ کلہ“ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں” یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔ فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔ اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔ اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔ نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔ آمین۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔ ممکن ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ( دو سلام کے ساتھ ) بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں ( دو سلاموں کے ساتھ ) ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔ اسی لیے علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ واما ما سبق من انہ کان یصلی مثنی مثنی ثم واحدۃ فمحمول علی وقت اخر فالامران جائزان یعنی پچھلی روایات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔


❁ بَابُ قِيَامِ النَّبِيِّ ﷺ بِاللَّيْلِ فِي رَمَضَانَ وَغَيْرِهِ
❁ باب: نبی کریم ﷺکا رمضان

❁ 1148 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامٍ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي شَيْءٍ مِنْ صَلَاةِ اللَّيْلِ جَالِسًا حَتَّى إِذَا كَبِرَ قَرَأَ جَالِسًا فَإِذَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ السُّورَةِ ثَلَاثُونَ أَوْ أَرْبَعُونَ آيَةً قَامَ فَقَرَأَهُنَّ ثُمَّ رَكَعَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی کسی نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے لیکن جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے پھر اس کو پڑھ کر رکوع کرتے تھے۔


❁ بَابُ فَضْلِ الطُّهُورِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَفَضْلِ الصَّلاَةِ بَعْدَ الوُضُوءِ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ
❁ باب: دن، رات باوضو رہنے کی فضیلت

❁ 1149 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِبِلَالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ يَا بِلَالُ حَدِّثْنِي بِأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ فِي الْإِسْلَامِ فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ قَالَ مَا عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِنْدِي أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طَهُورًا فِي سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ إِلَّا صَلَّيْتُ بِذَلِكَ الطُّهُورِ مَا كُتِبَ لِي أَنْ أُصَلِّيَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ دَفَّ نَعْلَيْكَ يَعْنِي تَحْرِيكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابو حیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔


❁ تشریح : یعنی جیسے تو بہشت میں چل رہاہے اور تیری جوتیوں کی آواز نکل رہی ہے۔ یہ اللہ تعالی نے آپ کو دکھلادیا جو نظر آیا وہ ہونے والا تھا۔ علماءکا اس پر اتفاق ہے کہ بہشت میں بیداری کے عالم میں اس دنیا میں رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں گیا۔ آپ معراج کی شب میں وہاں تشریف لے گئے۔ اسی طرح دوزخ میں اور یہ جو بعض فقراءسے منقول ہے کہ ان کا خادم حقہ کی آگ لینے کے لیے دوزخ میں گیا محض غلط ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ دنیا میں بھی بطور خادم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سامان وغیرہ لے کر چلا کرتے، ویسا ہی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دکھلادیا کہ بہشت میں بھی ہوگا۔ اس حدیث سے بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت نکلی اور ان کا جنتی ہونا ثابت ہوا ( وحیدی )


❁ باب مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّشْدِيدِ فِي العِبَادَةِ
❁ باب: عبادت میں بہت سختی اٹھانا مکروہ ہے

❁ 1150 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا حَبْلٌ مَمْدُودٌ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ فَقَالَ مَا هَذَا الْحَبْلُ قَالُوا هَذَا حَبْلٌ لِزَيْنَبَ فَإِذَا فَتَرَتْ تَعَلَّقَتْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حُلُّوهُ لِيُصَلِّ أَحَدُكُمْ نَشَاطَهُ فَإِذَا فَتَرَ فَلْيَقْعُدْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمرعبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد الوارث بن سعد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے باندھی ہے جب وہ ( نماز میں کھڑی کھڑی ) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔


❁ باب مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّشْدِيدِ فِي العِبَادَةِ
❁ باب: عبادت میں بہت سختی اٹھانا مکروہ ہے

❁ 1151 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَتْ عِنْدِي امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ قُلْتُ فُلَانَةُ لَا تَنَامُ بِاللَّيْلِ فَذُكِرَ مِنْ صَلَاتِهَا فَقَالَ مَهْ عَلَيْكُمْ مَا تُطِيقُونَ مِنْ الْأَعْمَالِ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا

 

❁ ترجمہ : اور امام بخاریؒ نے فرمایا کہ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالکؒ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے پاس بن و اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جو رات بھر نہیں سوتیں۔ ان کی نماز کا آپ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ بس تمہیں صرف اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنے کی تم میں طاقت ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی تو ( ثواب دینے سے ) تھکتا ہی نہیں تم ہی عمل کر تے کرتے تھک جاؤ گے۔


❁ تشریح : اس لیے حدیث انس رضی اللہ عنہ اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ میں مروی ہے کہ اذا نعس احدکم فی الصلوۃ فلینم حتی یعلم ما یقراء یعنی جب نماز میں کوئی سونے لگے تو اسے چاہیے کہ پہلے سولے پھر نماز پڑھے تاکہ وہ سمجھ لے کہ کیا پڑھ رہا ہے۔ یہ لفظ بھی ہیں فلیرقد حتی یذھب عنہ النوم ( فتح الباری ) یعنی سوجائے تاکہ اس سے نیند چلی جائے۔


❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ تَرْكِ قِيَامِ اللَّيْلِ لِمَنْ كَانَ يَقُومُهُ
❁ باب: جو شخص رات کو عبادت کیا کرتا تھا

❁ 1152 حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا مُبَشِّرُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَكُنْ مِثْلَ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ وَقَالَ هِشَامٌ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْعِشْرِينَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ مِثْلَهُ وَتَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مبشر بن اسماعیل حلبی نے، اوزاعی سے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبد اللہ! فلاں کی طرح نہ ہوجانا وہ رات میں عبادت کیا کرتا تھا پھر چھوڑدی۔ اور ہشام بن عمار نے کہا کہ ہم سے عبد الحمید بن ابوالعشرین نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحیٰ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حکم بن ثوبان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے، اسی طرح پھر یہی حدیث بیان کی، ا بن ابی العشرین کی طرح عمرو بن ابی سلمہ نے بھی اس کو امام اوزاعی سے روایت کیا۔

 


تشریح : عباس بن حسین سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں ایک یہ حدیث اور ایک جہاد کے باب میں روایت کی، پس دوہی حدیثیں۔ یہ بغداد کے رہنے والے تھے۔ ابن ابی عشرین یہ امام اوزاعی کا منشی تھا اس میں محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ اس کی روایت متابعتاً لائے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی سند کو امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے کہ اس میں یحیٰ بن ابی کثیر اور ابو سلمہ میں ایک شخص کا واسطہ ہے یعنی عمرو بن حکم کا اور اگلی سند میں یحیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے خود ابو سلمہ نے بیان کیا تو شاید یحیٰ نے یہ حدیث عمرو کے واسطے سے اور بلا واسطہ دونوں طرح ابو سلمہ سے سنی ( وحیدی )


❁ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ تَرْكِ قِيَامِ اللَّيْلِ لِمَنْ كَانَ يَقُومُهُ
❁ باب: جو شخص رات کو عبادت کیا کرتا تھا

❁ 1153 بَاب حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ قُلْتُ إِنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ قَالَ فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ عَيْنُكَ وَنَفِهَتْ نَفْسُكَ وَإِنَّ لِنَفْسِكَ حَقًّا وَلِأَهْلِكَ حَقًّا فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب بن فروخ نے کہا میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں حضور میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ لیکن اگر تم ایسا کروگے تو تمہاری آنکھیں ( بیداری کی وجہ سے ) بیٹھ جائیں گی اور تیری جان ناتواں ہو جائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔


❁ تشریح : گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سخت مجاہدہ سے منع کیا۔ اب جو لوگ ایسا کریں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف چلتے ہیں، اس سے نتیجہ کیا؟ عبادت تو اسی لیے ہے کہ اللہ اور رسول راضی ہوں۔


❁ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى
❁ باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے

❁ 1154 حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ هُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ قَالَ حَدَّثَنِي جُنَادَةُ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ تَعَارَّ مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ثُمَّ قَالَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي أَوْ دَعَا اسْتُجِيبَ لَهُ فَإِنْ تَوَضَّأَ وَصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے امام اوزاعی سے خبر دی، کہا کہ مجھ کو عمیر بن ہانی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کر نے کی ہمت ” پھر یہ پڑھے ( ترجمہ ) اے اللہ! میری مغفرت فرما ”۔ یا ( یہ کہا کہ ) کوئی دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا ( اور نماز پڑھی ) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔


❁ تشریح : ابن بطال رحمہ اللہ نے اس حدیث پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبا ن پر اللہ تعالی کی توحید، اس پر ایمان ویقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر وحمد اور اس کی ذات پاک کی تنزیہ وتقدیس سے بھرپور کلمات زبان پر جاری ہوجائیں توا للہ تعالی اس کی دعا کو بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے، اسے اس پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے رب کے لیے تمام اعمال میں نیت خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرط قبولیت یہی خلوص ہے۔ ( تفہیم البخاری )


❁ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى
❁ باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے

❁ 1155 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي الْهَيْثَمُ بْنُ أَبِي سِنَانٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَقُصُّ فِي قَصَصِهِ وَهُوَ يَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَخًا لَكُمْ لَا يَقُولُ الرَّفَثَ يَعْنِي بِذَلِكَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنْ الْفَجْرِ سَاطِعُ أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ تَابَعَهُ عُقَيْلٌ وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَعِيدٍ وَالْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے ( اپنے نعتیہ اشعار میں ) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : “ ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں ”۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔


❁ تشریح : زبیدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے ( وحیدی ) اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔


❁ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى
❁ باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے

❁ 1156 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: رَأَيْتُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ بِيَدِي قِطْعَةَ إِسْتَبْرَقٍ، فَكَأَنِّي لاَ أُرِيدُ مَكَانًا مِنَ الجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ إِلَيْهِ، وَرَأَيْتُ كَأَنَّ اثْنَيْنِ أَتَيَانِي أَرَادَا أَنْ يَذْهَبَا بِي إِلَى النَّارِ، فَتَلَقَّاهُمَا مَلَكٌ، فَقَالَ: لَمْ تُرَعْ خَلِّيَا عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ گویا ایک گاڑھے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ ہے۔ جیسے میں جنت میں جس جگہ کا بھی ارادہ کرتا ہوں تو یہ ادھر اڑا کے مجھ کو لے جاتا ہے اور میں نے دیکھا کہ جیسے دو فرشتے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے دوزخ کی طرف لے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک فرشتہ ان سے آکر ملا اور ( مجھ سے ) کہا کہ ڈرو نہیں ( اور ان سے کہا کہ ) اسے چھوڑدو۔


❁ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى
❁ باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے

 ❁ 1157 فَقَصَّتْ حَفْصَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى رُؤْيَايَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللَّهِ لَوْ كَانَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ» فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ،

 

❁ ترجمہ : میری بہن ( ام المؤمنین ) حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ایک خواب بیان کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے کاش رات میں بھی نماز پڑھا کرتا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد ہمیشہ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابُ فَضْلِ مَنْ تَعَارَّ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى
❁ باب: جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے

❁ 1158 وَكَانُوا لَا يَزَالُونَ يَقُصُّونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرُّؤْيَا أَنَّهَا فِي اللَّيْلَةِ السَّابِعَةِ مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيهَا فَلْيَتَحَرَّهَا مِنْ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ

 

❁ ترجمہ : بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر ( رمضان کی ) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں ( شب قدر کے ہونے پر ) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔


❁ تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی رجحان کون لیلۃ القدر منحصرۃ فی رمضان ثم فی العشر الاخیر منہ ثم فی اوتارہ لا فی لیلۃ منھا بعینھا وھذا ھو الذی یدل علیہ مجموع الاخبار الواردۃ فیھا۔ ( فتح ) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے۔


❁ بَابُ المُدَاوَمَةِ عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ
❁ باب: فجر کی سنتوں کو ہمیشہ پڑھنا

❁ 1159 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ هُوَ ابْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ صَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ وَرَكْعَتَيْنِ جَالِسًا وَرَكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءَيْنِ وَلَمْ يَكُنْ يَدَعْهُمَا أَبَدًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدا للہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے ابو سلمہ نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاءکی نماز پڑھی پھر رات کو اٹھ کر آپ نے تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں صبح کی اذان واقامت کے درمیان پڑھیں جن کو آپ کبھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ ( فجر کی سنتوں پر مداومت ثابت ہوئی )


❁ بَابُ الضِّجْعَةِ عَلَى الشِّقِّ الأَيْمَنِ بَعْدَ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ
❁ باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جا نا

❁ 1160 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو الْأَسْوَدِ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنت رکعتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔

 


❁ تشریح : فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی جگہ لکھا جا چکا ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق یہ باب منعقد فرمایا ہے اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ علامہ شوکانی نے اس بارے میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں۔ المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الاول انہ مشروع علی سبیل الاستحباب کما حکاہ الترمذی عن بعض اھل العلم وھو قول ابی موسیٰ الاشعری ورافع بن خدیج وانس بن مالک وابی ھریرۃ قال الحافظ ابن القیم فی زاد المعاد قد ذکر عبدا لرزاق فی المصنف عن معمر عن ایوب عن ابن سیرین ان ابا موسی ورافع بن خدیج وانس بن مالک کانوا یضطجعون بعدرکعتی الفجر ویامرون بذلک وقال العراقی ممن کان یفعل ذلک او یفتی بہ من الصحابۃ ابو موسی الاشعری ورافع بن خدیج وانس بن مالک وابو ھریرۃ انتھی وممن قال بہ من التابعین محمد بن سیرین وعروۃ ابن الزبیر کما فی شرح المنتقی وقال ابو محمد علی بن حزم فی المحلی وذکر عبدا لرحمن بن زید فی کتاب السبعۃ انھم یعنی سعید بن المسیب والقاسم بن محمد بن ابی بکر وعروۃ ابن الزبیر وابابکر ھو ابن عبد الرحمن وخارجۃ بن زید بن ثابت وعبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ بن سلیمان بن یسار کانوا یضطجعون علی ایمانھم بین رکعتی الفجر وصلوۃ الصبح انتھی وممن قال بہ من الائمۃ من الشافعی واصحابہ قال العینی فی عمدۃ القاری ذھب الشافعی واصحابہ الی انہ سنۃ انتھی۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس لیٹنے کے بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم کا مسلک یہی نقل فرمایا ہے اور ابوموسی اشعری اور رافع بن خدیج اور انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا، یہ سب سنت فجر کے بعد لیٹا کرتے اورلوگوں کو بھی اس کاحکم فرمایاکرتے تھے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ان جملہ مذکورہ صحابہ کے نام لکھے ہیں کہ یہ اس کے لیے فتوی دیاکرتے تھے، تابعین میں سے محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر کا بھی یہی عمل تھا۔جیسا کہ شرح منتقیٰ میں ہے اور علامہ ابن حزم نے محلّی میں نقل فرمایا ہے کہ سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عروہ بن زبیر، ابو بکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید بن ثابت اور عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن سلیمان بن یسار، ان جملہ اجلہ تابعین کا یہی مسلک تھا کہ یہ فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ امام شافعی اوران کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے کہ یہ لیٹنا سنت ہے۔ اس بارے میں دوسرا قول علامہ ابن حزم کا ہے جو اس لیٹنے کو واجب کہتے ہیں۔ اس بارے میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قلت قد عرفت ان الامر الوارد فی حدیث ابی ھریرۃ محمول علی الاستحباب لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یداوم علی الاضطجاع فلا یکون واجب فضلا عن ان یکون شرطا لصحۃ صلوۃ الصبح یعنی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں اس بارے میں جو بصیغہ امر وارد ہوا ہے کہ جوشخص فجر کی سنتوں کو پڑھے اس کو چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔ ( رواہ الترمذی ) یہ امر استحباب کے لیے ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مداومت منقول نہیں ہے بلکہ ترک بھی منقول ہے۔ پس یہ بایں طور واجب نہ ہوگا کہ نماز صبح کی صحت کے لیے یہ شرط ہو۔ بعض بزرگوں سے اس کا انکار بھی ثابت ہے مگر صحیح حدیثوں کے مقابلے پر ایسے بزرگوں کا قول قابل حجت نہیں ہے۔ اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال مقدم اور موجب اجر وثواب ہے۔ پچھلے صفحات میں علامہ انورشاہ دیوبندی مرحوم کا قول بھی اس بارے میں نقل کیا جا چکاہے۔ بحث کے خاتمہ پر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والقول الراجح المعمول علیہ ھو ان الاضطجاع بعد سنۃ الفجر مشروع علی طریق الاستحباب واللہ تعالی اعلم یعنی قول راجح یہی ہے کہ یہ لیٹنا بطور استحباب مشروع ہے۔


❁ بَابُ مَنْ تَحَدَّثَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ وَلَمْ يَضْطَجِعْ
❁ باب: فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا

❁ 1161 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا صَلَّى فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي وَإِلَّا اضْطَجَعَ حَتَّى يُؤْذَنَ بِالصَّلَاةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم ابو النضرنے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے جب تک نماز کی اذان ہوتی۔


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ اگر لیٹنے کا موقع نہ ملے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اس لیٹنے کو برا جاننا فعل رسول کی تنقیص کرناہے


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1162 حدثنا قتيبة، قال حدثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كما يعلمنا السورة من القرآن يقول ‏ ‏ إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال عاجل أمري وآجله ـ فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال في عاجل أمري وآجله ـ فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني ـ قال ـ ويسمي حاجته‏ ‏‏. ‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ صل صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کر تا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کوہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جس کے لیے استخارہ کیا جارہا ہے میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا ( آپ نے یہ فرمایاکہ ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے یہ ( خیر ہے ) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے ( برا ہے ) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے، جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کردے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے۔

 


❁ تشریح : استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔ حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلب خیر ہے۔ جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔“ میں تیرے علم کے واسطہ سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا خواستگار ہوں” یہ توکل اور تفویض نہیں تواور کیا چیز ہے؟اور پھر دعا کے آخری الفاظ “میرے لیے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی وہ ہوا اوراس پر میرے قلب کو مطمئن بھی کر دیجئے”یہ ہے رضا بالقضاءکی دعا کہ اللہ کے نزدیک معاملہ کی جو نوعیت صحیح ہے، کام اسی کے مطابق ہو اور پھر اس پر بندہ اپنے لیے ہر طرح اطمینان کی بھی دعا کرتا ہے کہ دل میں اللہ کے فیصلہ کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بھی نہ پیدا ہو دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کا فضل وکرم سے برکت یقینا ہوگی۔ استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اور اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں نفل نماز دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1163 حدثنا المكي بن إبراهيم، عن عبد الله بن سعيد، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن عمرو بن سليم الزرقي، سمع أبا قتادة بن ربعي الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين‏ ‏‏. ‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن سعید نے، ان سے غامر بن عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انہوں نے ابو قتادہ بن ربعی انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو نہ بیٹھے جب تک دو رکعت ( تحیۃ المسجدکی ) نہ پڑھ لے۔


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1164 حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم انصرف‏.‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہمارے گھر میں جب دعوت میں آئے تھے ) دو رکعت نماز پڑھائی اور پھر واپس تشریف لے گئے۔


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1165 حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني سالم، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعد الظهر، وركعتين بعد الجمعة، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء‏.‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، عقیل سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی اور ظہر کے بعد دو رکعت اور جمعہ کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اور عشاءکے بعد بھی دو رکعت ( نماز سنت ) پڑھی ہے۔


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1166 حدثنا آدم، قال أخبرنا شعبة، أخبرنا عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب ‏ ‏ إذا جاء أحدكم والإمام يخطب ـ أو قد خرج ـ فليصل ركعتين‏ ‏‏. 

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص بھی ( مسجد میں ) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو یا خطبہ کے لیے نکل چکا ہو تووہ دو رکعت نماز ( تحیۃ المسجد کی ) پڑھ لے۔


❁ بَابُ مَاجَاءَ فِی التَّطَوُّعِ مَثنٰی مَثنٰی
❁ باب: نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

❁ 1167 حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سيف بن سليمان المكي، سمعت مجاهدا، يقول أتي ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ في منزله فقيل له هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد دخل الكعبة قال فأقبلت فأجد رسول الله صلى الله عليه وسلم قد خرج، وأجد بلالا عند الباب قائما فقلت يا بلال، صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الكعبة قال نعم‏.‏ قلت فأين قال بين هاتين الأسطوانتين‏.‏ ثم خرج فصلى ركعتين في وجه الكعبة‏.‏ قال أبو عبد الله قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بركعتى الضحى‏.‏ وقال عتبان غدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما امتد النهار وصففنا وراءه فركع ركعتين‏.‏

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیف بن سلیمان نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ( مکہ شریف میں ) اپنے گھرآئے۔ کسی نے کہا بیٹھے کیا ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آگئے بلکہ کعبہ کے اندر بھی تشریف لے جا چکے ہیں۔ عبد اللہ نے کہا یہ سن کر میں آیا۔ دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے باہر نکل چکے ہیں اور بلال رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اے بلال! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان دوستونوں کے درمیان۔ پھر آپ باہرتشریف لائے اور دو رکعتیں کعبہ کے دروازے کے سامنے پڑھیں اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی دو رکعتوں کی وصیت کی تھی اور عتبان نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما صبح دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے۔ ہم نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بن ا لی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔


❁ تشریح : ان تمام روایتوں سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نفل نماز خواہ دن ہی میں کیوں نہ پڑھی جائے، دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔


❁ بَابُ الحَدِيثِ بَعدَ رَكعَتِي الفَجرِ
❁ باب: فجر کی سنتوں کے بعد باتیں کرنا

❁ 1168 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ أَبُو النَّضْرِ: حَدَّثَنِي عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ كُنْتُ مُسْتَيْقِظَةً حَدَّثَنِي، وَإِلَّا اضْطَجَعَ» قُلْتُ لِسُفْيَانَ: فَإِنَّ بَعْضَهُمْ يَرْوِيهِ رَكْعَتَيِ الفَجْرِ، قَالَ سُفْيَانُ: هُوَ ذَاكَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابو النضر سالم نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے باپ ابو امیہ نے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعت ( فجر کی سنت ) پڑھ چکتے تو اس وقت اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ مجھ سے باتیں کر تے ورنہ لیٹ جاتے۔ میں نے سفیان سے کہا کہ بعض راوی فجر کی دو رکعتیں اسے بتاتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ وہی ہیں۔


❁ تشریح : اصیلی کے نسخہ میں یوں ہے۔ قال ابو النضر حدثنی عن ابی سلمۃ یعنی سفیان نے کہا کہ مجھ کو یہ حدیث ابو النضر نے ابو سلمہ سے بیان کی۔ اس نسخہ میں گویا ابو النضر کے باپ کا ذکر نہیں ہے۔


❁ بَابُ تَعَاهُدِرَكعَتِي الفَجرِ وَمَن سَمَّاهُمَا تَطَوُّعًا
❁ باب: فجر کی سنت کی دو رکعتیں ہمیشہ لازم کر لینا

❁ 1169 حَدَّثَنَا بَيَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَيْءٍ مِنَ النَّوَافِلِ أَشَدَّ مِنْهُ تَعَاهُدًا عَلَى رَكْعَتَيِ الفَجْرِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءنے بیان کیا، ان سے عبید بن عمیر نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعتوں سے زیادہ پا بن دی نہیں کرتے تھے۔


❁ تشریح : اس حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فجر کی سنتوں کو بھی لفظ نفل ہی سے ذکر فرمایا۔ پس باب اور حدیث میں مطابقت ہوگئی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سنتوں پر مداومت فرمائی ہے۔ لہٰذا سفر وحضر کہیں بھی ان کا ترک کرنا اچھا نہیں ہے۔


❁ بَابُ مَا يُقرَاُ فِي رَكعَتِي الفَجرِ
❁ باب: فجر کی سنتوں میں قرات کیسی کرے؟

1170 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ ثَلاَثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ يُصَلِّي إِذَا سَمِعَ النِّدَاءَ بِالصُّبْحِ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے اور انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ پھر جب صبح کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعتیں ( سنت فجر ) پڑھ لیتے۔


❁ تشریح : اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ فجر کی سنتوں میں چھوٹی چھوٹی سورتوں کو پڑھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہلکا کرنے کا یہی مطلب ہے۔


❁ بَابُ مَا يُقرَاُ فِي رَكعَتِي الفَجرِ
❁ باب: فجر کی سنتوں میں قرات کیسی کرے؟

❁ 1171 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمَّتِهِ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ح وَحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّفُ الرَّكْعَتَيْنِ اللَّتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ: هَلْ قَرَأَ بِأُمِّ الكِتَابِ؟

 

❁ ترجمہ : مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبد الرحمن نے، ان سے ان کی پھوپھی عمرہ بن ت عبد الرحمن نے اور ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( دوسری سند ) اور ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحی بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبد الرحمن نے، ان سے عمرہ بن ت عبدا لرحمن نے اور ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی ( فرض ) نمازسے پہلے کی دو ( سنت ) رکعتوں کو بہت مختصر رکھتے تھے۔ آپ نے ان میں سورہ فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔


تشریح : یہ مبالغہ ہے یعنی بہت ہلکی پھلکی پڑھتے تھے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابُ التَّطَوُّعِ بَعْدَ المَكْتُوبَةِ
❁ باب: فرضوں کے بعد سنت کا بیان

❁ 1172 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنَا نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ وَسَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ وَسَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ وَسَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ وَسَجْدَتَيْنِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَأَمَّا الْمَغْرِبُ وَالْعِشَاءُ فَفِي بَيْتِهِ وَحَدَّثَتْنِي أُخْتِي حَفْصَةُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَعْدَ مَا يَطْلُعُ الْفَجْرُ وَكَانَتْ سَاعَةً لَا أَدْخُلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا وَقَالَ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ بَعْدَ الْعِشَاءِ فِي أَهْلِهِ تَابَعَهُ كَثِيرُ بْنُ فَرْقَدٍ وَأَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے نافع نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت، ظہر کے بعد دو رکعت سنت، مغرب کے بعد دو رکعت سنت، عشاءکے بعد دو رکعت سنت اور جمعہ کے بعد دورکعت سنت پڑھی ہیں اور مغرب اور عشاءکی سنتیں آپ گھر میں پڑھتے تھے۔ ابو الزناد نے موسی بن عقبہ کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ عشاءکے بعد اپنے گھر میں ( سنت پڑھتے تھے ) ان کی روایت کی متابعت کثیر بن فرقد اور ایوب نے نافع کے واسطہ سے کی ہے۔


❁ بَابُ التَّطَوُّعِ بَعْدَ المَكْتُوبَةِ
❁ باب: فرضوں کے بعد سنت کا بیان

❁ 1173 وحدثتني أختي، حفصة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي سجدتين خفيفتين بعد ما يطلع الفجر، وكانت ساعة لا أدخل على النبي صلى الله عليه وسلم فيها‏.‏ تابعه كثير بن فرقد وأيوب عن نافع‏.‏ وقال ابن أبي الزناد عن موسى بن عقبة عن نافع بعد العشاء في أهله‏.‏

 

❁ ترجمہ : ان سے ( ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ) میری بہن حفصہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر ہونے کے بعد دو ہلکی رکعتیں ( سنت فجر ) پڑھتے اور یہ ایسا وقت ہوتا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں جاتی تھی۔ عبید اللہ کے ساتھ اس حدیث کو کثیر بن فرقد اور ایوب نے بھی نافع سے روایت کیا اور ا بن ابی الزناد نے اس حدیث کو موسی بن عقبہ سے، انہوں نے نافع سے روایت کیا۔ اس میںفی بیتہ کے بدل فی اھلہ ہے۔


❁ تشریح : یہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس لیے کہا کہ فجر سے پہلے اور عشاءکی نماز کے بعد اور ٹھیک دوپہر کو گھر کے کام کاجی لوگوں کو بھی اجازت لے کر جانا چاہیے، اس وقت غیر لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسے مل سکتے۔ اس لیے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سنتوں کا حال اپنی بہن ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے سن کر معلوم کیا۔


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ بَعْدَ المَكْتُوبَةِ
❁ باب: جس نے فرض کے بعد سنت نماز نہیں پڑھی

❁ 1174 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ أبَا الشَّعْثَاءِ جَابِرًا قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا قُلْتُ يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ قَالَ وَأَنَا أَظُنُّهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو الشعثاءجابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت ایک ساتھ ( ظہر اور عصر ) اور سات رکعت ایک ساتھ ( مغرب اور عشاءملا کر ) پڑھیں۔ ( بیچ میں سنت وغیرہ کچھ نہیں ) ابو الشعثاءسے میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر آخر وقت میں اور عصر اول وقت میں پڑھی ہوگی۔ اسی طرح مغرب آخر وقت میں پڑھی ہوگی اور عشاءاول وقت میں۔ ابو الشعثاءنے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔

 


❁ تشریح : یہ عمرو بن دینار کا خیال ہے ورنہ یہ حدیث صاف ہے کہ دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے نہ وہاں کوئی خوف تھا نہ بندش تھی۔ اوپر گزر چکا ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک یہ جائز ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ سنتوں کا ترک کرناجائز ہے اور سنت بھی یہی ہے کہ جمع کرے تو سنتیں نہ پڑھے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )


❁ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ
❁ باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا

❁ 1175 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ تَوْبَةَ عَنْ مُوَرِّقٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتُصَلِّي الضُّحَى قَالَ لَا قُلْتُ فَعُمَرُ قَالَ لَا قُلْتُ فَأَبُو بَكْرٍ قَالَ لَا قُلْتُ فَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا إِخَالُهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحی بن سعیدی قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ بن حجاج نے، ان سے توبہ بن کیسان نے، ان سے مورق بن مشمرج نے، انہوںنے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ چاشت کی نماز پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور عمر پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ؟ فرمایا نہیں۔ میں نے پوچھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا نہیں۔ میرا خیال یہی ہے۔

 


❁ تشریح : بعض شراح کرام کا کہنا ہے کہ بظاہر اس حدیث اور باب میں مطابقت نہیں ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں فحملہ الخطابی علی غلط الناسخ وابن المنیر علی انہ لما تعارضت عندہ احادیثھا نفیا کحدیث ابن عمر ھذا واثباتا کحدیث ابی ھریرۃ فی الوصیۃ بھا نزل حدیث النفی علی السفر وحدیث الاثبات علی الحضر ویوید ذلک انہ ترجم لحدیث ابی ھریرۃ بصلوۃ الضحی فی الحضر مع ما یعضدہ من قول ابن عمر لو کنت مسبحا لا تممت فی السفر قالہ ابن حجر یعنی خطابی نے اس باب کو ناقل کی غلطی پر محمول کیا ہے اور ابن منیر کا کہنا یہ ہے کہ حضرت اما م بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک نفی اور اثبات کی احادیث میں تعارض تھا، اس کو انہوں نے اس طرح رفع کیا کہ حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جس میں نفی ہے سفر پر محمول کیا اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو جس میں وصیت کا ذکر ہے اور جس سے اثبات ثابت ہو رہاہے، اس کو حضر پر محمول کیا۔ اس امر کی اس سے بھی تائید ہو رہی ہے کہ حدیث ابوہریرہ پر حضرت امام رحمہ اللہ نے صلوۃ الضحی فی الحضر کا باب منعقد فرمایا اور نفی کے بارے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول سے بھی تائید ہوتی ہے جو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں سفر میں نفل پڑھتا تو نمازوں کو ہی پورا کیوں نہ کرلیتا، پس معلوم ہوا کہ نفی سے ان کی سفر میں نفی مراد ہے اور حضرات شیخین کا فعل بھی سفر ہی سے متعلق ہے کہ وہ حضرات سفر میں نماز ضحی نہیں پڑھا کرتے تھے۔


❁ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ
❁ باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا

❁ 1176 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى يَقُولُ مَا حَدَّثَنَا أَحَدٌ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ فَإِنَّهَا قَالَتْ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ فَلَمْ أَرَ صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبد الرحمن بن ابی لیلی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سواکسی ( صحابی ) نے یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعت ( چاشت کی ) نماز پڑھی۔ تو میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔

 


❁ تشریح : حدیث ام ہانی رضی اللہ عنہا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جس نماز کا ذکر ہے۔ شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحی کی نماز تھی، ابو داؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلی سبحۃالضحی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کے نفل نمازادا فرمائے اور مسلم نے کتاب الطہارت میں نقل فرمایا ثم صلی ثمان رکعات سبحۃ الضحی یعنی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ضحی کی آٹھ رکعت نفل ادا فرمائی اور تمہید ابن عبد البر میں ہے کہ قالت قدم علیہ السلام مکۃ فصلی ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوۃ قال ھذہ صلوۃ الضحی حضرت ام ہانی کہتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف تشریف لائے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔ میں پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ضحی کی نمازہے۔ امام نووی نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ صلاۃ الضحی کا مسنون طریقہ آٹھ رکعات ادا کرنا ہے۔ یوں روایات میں کم وبیش بھی آئی ہیں۔ بعض روایات میں کم سے کم تعداد دو رکعت بھی مذکور ہے۔ بہر حال بہتر یہ ہے کہ صلوۃ الضحی پر مداومت کی جائے کیونکہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جنت میں ایک دروازے کا نام ہی باب الضحی ہے جو لوگ نماز ضحی پر مداومت کرتے ہیں، ان کو اس دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔ عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہ میں حکم دیا کہ ضحی کی نماز میں سورۃ والشمس وضُحٰھا اور والضحی پڑھا کریں۔ اس نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے زوال تک ہے۔ ( قسطلانی )


❁ بَابُ مَنْ لَمْ يُصَلِّ الضُّحَى وَرَآهُ وَاسِعًا
❁ باب: چاشت کی نماز پڑھنا

❁ 1177 حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ سُبْحَةَ الضُّحَى وَإِنِّي لَأُسَبِّحُهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہانے کہ میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا مگر میں خود پڑھتی ہوں۔


❁ تشریح : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے صرف اپنی رؤیت کی نفی کی ہے ورنہ بہت سی روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نماز پڑھنا مذکور ہے۔ حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کے خود پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نماز کے فضائل سنے ہوں گے۔ پس معلوم ہوا کہ اس نماز کی ادائیگی باعث اجروثواب ہے۔ اس لفظ سے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے نہیں دیکھا۔ باب کا مطلب نکلتا ہے کیونکی اس کاپڑھنا ضروری ہوتا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر روز پڑھتے دیکھتیں۔قسطلانی نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہ دیکھنے سے چاشت کی نماز کی نفی نہیں ہوتی۔ ایک جماعت صحابہ نے اس کو روایت کیا ہے۔جیسے انس، ابوہریرہ، ابو ذر، ابو اسامہ، عقبہ بن عبد، ابن ابی اوفیٰ، ابو سعید، زیدبن ارقم، ابن عباس، جبیر بن مطعم، حذیفہ، ابن عمر، ابو موسی، عتبان، عقبہ بن عامر، علی، معاذ بن انس، ابو بکرہ اور ابو مرہ وغیرہم رضی اللہ عنہم نے۔ عتبان بن مالک کی حدیث اوپر کئی بار اس کتاب میں گزر چکی ہے اور امام احمد نے اس کو اس لفظ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں چاشت کے نفل پڑھے۔ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ( وحیدی )


❁ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي الحَضَرِ
❁ باب: چاشت کی نماز اپنے شہر میں پڑھے

 ❁ 1178 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْجُرَيْرِيُّ هُوَ ابْنُ فَرُّوخَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَوْصَانِي خَلِيلِي بِثَلَاثٍ لَا أَدَعُهُنَّ حَتَّى أَمُوتَ صَوْمِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَصَلَاةِ الضُّحَى وَنَوْمٍ عَلَى وِتْرٍ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابرہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہوںنے کہا ہم سے عبا س جریری نے جو فروخ کے بیٹے تھے بیان کیا، ان سے ابو عثمان نہدی نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے میرے جانی دوست ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تین چیزوں کی وصیت کی ہے کہ موت سے پہلے ان کو نہ چھوڑوں۔ ہر مہینہ میں تین دن روزے۔ چاشت کی نماز اور وتر پڑھ کر سونا۔


تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں صلوۃ ضحی کی نفی وارد ہوئی ہے وہ نفی سفر کی حالت سے متعلق ہے پھر بھی اس میں بھی وسعت ہے اور جن روایات میں اس نماز کے لیے اثبات آیا ہے وہاں حالت حضرمراد ہے۔ ہر ماہ میں تین دن کے روزوں سے ایام بیض یعنی13,14,15 تاریخوں کے روزے مراد ہیں۔


❁ بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي الحَضَرِ
❁ باب: چاشت کی نماز اپنے شہر میں پڑھے

❁ 1179 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيَّ قَالَ قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَكَانَ ضَخْمًا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ الصَّلَاةَ مَعَكَ فَصَنَعَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا فَدَعَاهُ إِلَى بَيْتِهِ وَنَضَحَ لَهُ طَرَفَ حَصِيرٍ بِمَاءٍ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَكْعَتَيْنِ وَقَالَ فُلَانُ بْنُ فُلَانِ بْنِ جَارُودٍ لِأَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى فَقَالَ مَا رَأَيْتُهُ صَلَّى غَيْرَ ذَلِكَ الْيَوْمِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا کہ ہم کوشعبہ نے خبر دی، ان سے انس بن سیرین نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انصارمیں سے ایک شخص ( عتبان بن مالک ) نے جو بہت موٹے آدمی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتا ( مجھ کو گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دیجئے تو ) انہوں نے اپنے گھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھانا پکوایا اور ا ٓپ کو اپنے گھر بلایا اور ایک چٹائی کے کنارے کو آپ کے لیے پانی سے صاف کیا، آپ نے اس پر دو رکعت نمازپڑھی۔ اور فلاں بن فلاں بن جارود نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے تو آپ نے فرما یا کہ میں نے اس روز کے سوا آپ کو کبھی یہ نمازپڑھتے نہیں دیکھا۔


❁ تشریح : حضرت امام رحمہ اللہ نے مختلف مقاصد کے تحت اس حدیث کو کئی جگہ روایت فرمایا ہے۔ یہاں آپ کا مقصد اس سے ضحی کی نماز حالت حضر میں پڑھنا اوربعض مواقع پر جماعت سے بھی پڑھنے کا جواز ثابت کرنا ہے۔ بالفرض بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ کے صرف اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز پڑھی تو ثبوت مدعا کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک دفعہ کام کو کر لینا بھی کافی وافی ہے۔ یوں کئی مواقع پر آپ سے اس نماز کے پڑھنے کا ثبوت موجود ہے۔ ممکن ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ان مواقع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کا موقع نہ ملا ہو۔


❁ بَابُ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا

❁ 1180 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ [ص:59]: «حَفِظْتُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ فِي بَيْتِهِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ فِي بَيْتِهِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ» وَكَانَتْ سَاعَةً لاَ يُدْخَلُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دس رکعت سنتیں یاد ہیں۔ دو رکعت سنت ظہر سے پہلے، دو رکعت سنت ظہر کے بعد، دو رکعت سنت مغرب کے بعد اپنے گھر میں، دو رکعت سنت عشاءکے بعد اپنے گھر میں اور دو رکعت سنت صبح کی نماز سے پہلے اور یہ وہ وقت ہوتا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی نہیں جاتا تھا۔


❁ بَابُ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا

❁ 1181 حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ: «أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَذَّنَ المُؤَذِّنُ وَطَلَعَ الفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ»

 

❁ ترجمہ : مجھ کو ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ مؤذن جب اذان دیتا اور فجر ہوجاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھتے۔


❁ بَابُ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الظُّهْرِ
❁ باب: ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھنا

❁ 1182 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يَدَعُ أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ تَابَعَهُ ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ وَعَمْرٌو عَنْ شُعْبَةَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے ابرہیم بن محمد بن منتشر نے، ان سے ان کے باپ محمد بن منتشر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعت سنت اور صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت سنت نماز پڑھنی نہیں چھوڑتے تھے۔ یحیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ا بن ابی عدی اور عمرو بن مرزوق نے بھی شعبہ سے روایت کیا۔
تشریح : یہ حدیث باب کے مطابق نہیں کیونکہ باب میں دو رکعتیں ظہر سے پہلے پڑھنے کا ذکر ہے اور شاید ترجمہ باب کا یہ مطلب ہو کہ ظہر سے پہلے دوہی رکعتیں پڑھنا ضروری نہیں، چار بھی پڑھ سکتا ہے


❁ بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ المَغْرِبِ
❁ باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا

❁ 1183 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ عَنْ الْحُسَيْنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلُّوا قَبْلَ صَلَاةِ الْمَغْرِبِ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ لِمَنْ شَاءَ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے حسین معلم نے، ان سے عبد اللہ بن بریدہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مغرب کے فرض سے پہلے ( سنت کی دورکعتیں ) پڑھا کرو۔ تیسری مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ جس کا جی چاہے کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہ تھی کہ لوگ اسے لازمی سمجھ بیٹھیں۔
تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ مغرب کی جماعت سے قبل ان دو رکعتوں کو پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔


 ❁ بَابُ الصَّلاَةِ قَبْلَ المَغْرِبِ
❁ باب: مغرب سے پہلے سنت پڑھنا

❁ 1184 حدثنا عبد الله بن يزيد، قال حدثنا سعيد بن أبي أيوب، قال حدثني يزيد بن أبي حبيب، قال سمعت مرثد بن عبد الله اليزني، قال أتيت عقبة بن عامر الجهني فقلت ألا أعجبك من أبي تميم يركع ركعتين قبل صلاة المغرب‏.‏ فقال عقبة إنا كنا نفعله على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قلت فما يمنعك الآن قال الشغل‏.

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے مرثد بن عبداللہ یزنی سے سنا کہ میں عقبہ بن عامر جہنی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کیا آپ کو ابو تمیم عبدا للہ بن مالک پر تعجب نہیں آیا کہ وہ مغرب کی نماز فرض سے پہلے دو رکعت نفل پڑھتے ہیں۔ اس پر عقبہ نے فرمایا کہ ہم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اسے پڑھتے تھے۔ میں نے کہا پھر اب اس کے چھوڑنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ دنیا کے کاروبار مانع ہیں۔

 


❁ تشریح : ہر دو احادیث سے ثابت ہوا کہ اب بھی موقع ملنے پر مغرب سے پہلے ان دو رکعتوں کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اگر چہ پڑھنا ضروری نہیں مگر کوئی پڑھ لے تو یقینا موجب اجر وثواب ہوگا۔ بعض لوگوں نے کہا کہ بعد میں ان کے پڑھنے سے روک دیا گیا۔ یہ بات بالکل غلط ہے پچھلے صفحات میں ان دورکعتوں کے استحباب پر روشنی ڈالی جا چکی ہے۔ عبد اللہ بن مالک جثانی یہ تابعی مخضرم تھا یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں موجود تھا،پر آپ سے نہیں ملا، یہ مصر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں آیا، پھر وہیں رہ گیا۔ ایک جماعت نے ان کو صحابہ میں گنا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ مغرب کا وقت لمبا ہے اور جس نے اس کو تھوڑا قرار دیا اس کا قول بے دلیل ہے۔ مگر یہ رکعتیں جماعت کھڑی ہونے سے پہلے پڑھ لینا مستحب ہے۔ ( وحیدی )


❁ بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً
❁ باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا

❁ 1185 حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ: أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔


❁ بَابُ صَلاَةِ النَّوَافِلِ جَمَاعَةً
❁ باب: نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا

❁ 1186 فَزَعَمَ مَحْمُودٌ أَنَّهُ سَمِعَ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بِبَنِي سَالِمٍ وَكَانَ يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ وَادٍ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ قِبَلَ مَسْجِدِهِمْ فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ الْوَادِيَ الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَ قَوْمِي يَسِيلُ إِذَا جَاءَتْ الْأَمْطَارُ فَيَشُقُّ عَلَيَّ اجْتِيَازُهُ فَوَدِدْتُ أَنَّكَ تَأْتِي فَتُصَلِّي مِنْ بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مُصَلًّى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ فِيهِ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَبَّرَ وَصَفَفْنَا وَرَاءَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ فَحَبَسْتُهُ عَلَى خَزِيرٍ يُصْنَعُ لَهُ فَسَمِعَ أَهْلُ الدَّارِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِي فَثَابَ رِجَالٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَثُرَ الرِّجَالُ فِي الْبَيْتِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ مَا فَعَلَ مَالِكٌ لَا أَرَاهُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ ذَاكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُلْ ذَاكَ أَلَا تَرَاهُ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ فَقَالَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ أَمَّا نَحْنُ فَوَاللَّهِ لَا نَرَى وُدَّهُ وَلَا حَدِيثَهُ إِلَّا إِلَى الْمُنَافِقِينَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ عَلَى النَّارِ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ قَالَ مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ فَحَدَّثْتُهَا قَوْمًا فِيهِمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا وَيَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ عَلَيْهِمْ بِأَرْضِ الرُّومِ فَأَنْكَرَهَا عَلَيَّ أَبُو أَيُّوبَ قَالَ وَاللَّهِ مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا قُلْتَ قَطُّ فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيَّ فَجَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ إِنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَقْفُلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنْ وَجَدْتُهُ حَيًّا فِي مَسْجِدِ قَوْمِهِ فَقَفَلْتُ فَأَهْلَلْتُ بِحَجَّةٍ أَوْ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ سِرْتُ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ أَعْمَى يُصَلِّي لِقَوْمِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ الصَّلَاةِ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا ثُمَّ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ فَحَدَّثَنِيهِ كَمَا حَدَّثَنِيهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ

 

❁ ترجمہ :محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیںتاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میںنے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیںکہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔

 


❁ تشریح : یہ50ھ یا اس کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر فوج بھیجی تھی اور اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس لشکر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید تھے۔ جو بعد میں حادثہ کربلا کی وجہ سے تاریخ اسلام میں مطعون ہوئے۔ اس فوج میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اولین میزبان ہیں۔ ان کی موت اسی موقع پر ہوئی اور قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن ہوئے۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حاضرین خانہ نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور یہ نفل نماز جماعت سے ادا کی گئی۔ کیونکہ دوسری حدیث میں موجود ہے کہ آدمی کی نفل نماز گھر ہی میں بہتر ہے اور فرض نماز کا مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس حدیث پر شبہ اس لیے ہوا کہ اس میں اعمال کے بغیر صرف کلمہ پڑھ لینے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر یہ حدیث اس بارے میں مجمل ہے دیگر احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ کلمہ طیبہ بے شک جنت کی کنجی ہے۔ مگر ہر کنجی کے لیے دندانے ضروری ہیں۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے دندانے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے۔محض کلمہ پڑھ لینا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا بے نتیجہ ہے۔ حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔ اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔


❁ بَابُ التَّطَوُّعِ فِي البَيْتِ
❁ باب: گھر میں نفل نماز پڑھنا

❁ 1187 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ حَمَّادٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ أَيُّوبَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْعَلُوا فِي بُيُوتِكُمْ مِنْ صَلَاتِكُمْ وَلَا تَتَّخِذُوهَا قُبُورًا تَابَعَهُ عَبْدُ الْوَهَّابِ عَنْ أَيُّوبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبدا لاعلی بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی اور عبید اللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے اور ان سے ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں بھی کچھ نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل قبریں نہ بن الو ( کہ جہاں نماز ہی نہ پڑھی جاتی ہو ) وہیب کے ساتھ اس حدیث کو عبد الوہاب ثقفی نے بھی ایوب سے روایت کیا ہے۔

 


❁ تشریح : نماز سے مراد یہاں نفل ہی ہے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز کا مسجد میں پڑھنا افضل ہے۔ قبر میں مردہ نماز نہیں پڑھتا لہذا جس گھر میں نماز نہ پڑھی جائے وہ بھی قبر ہوا۔ قبرستان میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اس لیے فرمایا کہ گھروں کو قبرستان کی طرح نماز کے لیے مقام ممنوعہ نہ بنالو۔ عبدالوہاب کی روایت کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی جامع الصحیح میں نکالا ہے۔


Table of Contents