Search
Sections
< All Topics
Print

21. Namaz kay Kaam kay baare mein; [کِتَابُ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ]; Actions while Praying

✦  کِتَابُ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ ✦ 

کتاب: نماز کے کام کے بارے میں

 


❁ بَابُ اسْتِعَانَةِ اليَدِ فِي الصَّلاَةِ، إِذَا كَانَ مِنْ أَمْرِ الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں ہاتھ سے نماز کا کوئی کام کرنا


❁ 1198 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَهِيَ خَالَتُهُ قَالَ فَاضْطَجَعْتُ عَلَى عَرْضِ الْوِسَادَةِ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ ثُمَّ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ فَمَسَحَ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ آيَاتٍ خَوَاتِيمَ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا بِيَدِهِ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں مخرمہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ابن عباس کے غلام کریب نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ آپ ایک رات ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا آپ کی خالہ تھیں۔ آپ نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی اس کے طول میں لیٹے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتی کہ آدھی رات ہوئی یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یابعد۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوکر بیٹھ گئے اور چہرے پر نیند کے خمار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دور کر نے لگے۔ پھر سورہ¿ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا میں نے بھی کیا اور پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے داہنے کان کوپکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی۔ اس کے بعد ( ایک رکعت ) وتر پڑھا اور لیٹ گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ دوبارہ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر نماز ( فجر ) کے لیے تشریف لے گئے۔

 


❁ تشریح : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کان مروڑنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض ان کی اصلاح کرنی تھی کہ وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو پھر جائیں۔ کیونکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے۔ یہیں سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ باب نکالا کیونکہ جب نمازی کو دوسرے کی نماز درست کرنے کے لیے ہاتھ سے کام لینا درست ہواتو اپنی نماز درست کرنے کے لیے تو بطریق اولیٰ ہاتھ سے کام لینا جائز ہوگا ( وحیدی ) اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آپ کبھی تہجد کی نماز تیرہ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ نماز میں عمداًکام کرنا بالاتفاق مفسد صلوۃ ہے۔ بھول چوک کے لیے امید عفو ہے۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز تہجد کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر ساری نماز کا طاق کرلینا بھی ثابت ہوا۔ اس قدر وضاحت کے باوجود تعجب ہے کہ بہت سے ذی علم حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔


❁ بَابُ مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں بات کرنا منع ہے

❁ 1199 حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا وَقَالَ إِنَّ فِي الصَّلَاةِ شُغْلًا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ السَّلُولِيُّ حَدَّثَنَا هُرَيْمُ بْنُ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( پہلے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ اس کا جواب دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے ( پہلے کی طرح نماز ہی میں ) سلام کیا۔ لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا بلکہ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔ہم سے محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہریم بن سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے پھر ایسی ہی روایت بیان کی۔


❁ تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حبشہ میں جا کر پناہ لی تھی اور نجاشی شاہ حبشہ نے جن کو بڑی عقیدت سے اپنے ہاں جگہ دی تھی۔ اسلام کا بالکل ابتدائی دورتھا، اس وقت نماز میں باہمی کلام جائز تھا بعد میں جب وہ حبشہ سے لوٹے تو نماز میں باہمی کلام کرنے کی ممانعت ہوچکی تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری جملہ کا مفہوم یہ کہ نماز میں تو آدمی حق تعالی کی یاد میں مشغول ہوتا ہے ادھر دل لگارہتا ہے اس لیے یہ لوگوں سے بات چیت کا موقع نہیں ہے۔


❁ بَابُ مَا يُنْهَى عَنْهُ مِنَ الكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں بات کرنا منع ہے

❁ 1200 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا عِيسَى هُوَ ابْنُ يُونُسَ عَنْ إِسْمَاعِيلَ عَنْ الْحَارِثِ بْنِ شُبَيْلٍ عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ قَالَ قَالَ لِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ إِنْ كُنَّا لَنَتَكَلَّمُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلِّمُ أَحَدُنَا صَاحِبَهُ بِحَاجَتِهِ حَتَّى نَزَلَتْ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کوعیسی بن یونس نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں حارث بن شیل نے، انہیں ابوعمرو بن سعد بن ابی ایاس شیبانی نے بتایا کہ مجھ سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کردیتا۔ پھر آیت ( حافظوا علی الصلوات ) الخ اتری اور ہمیں ( نماز میں ) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔

 

❁ تشریح : آیت کا ترجمہ یہ ہے“نمازون کا خیال رکھو اوربیچ والی نماز کا اور اللہ کے سامنے ادب سے چپکے کھڑے رہو ( سورۃ بقرہ ) درمیانی نماز سے عصر کی نماز مراد ہے۔ آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز میں کوئی بھی دنیاوی بات کرنا قطعا منع ہے۔


❁ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ التَّسْبِيحِ وَالحَمْدِ فِي الصَّلاَةِ لِلرِّجَالِ
 ❁ باب: نماز میں سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا

❁ 1201 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْلِحُ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ وَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَجَاءَ بِلَالٌ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ حُبِسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَؤُمُّ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتُمْ فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ فَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَلَّى فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ يَشُقُّهَا شَقًّا حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ الْأَوَّلِ فَأَخَذَ النَّاسُ بِالتَّصْفِيحِ قَالَ سَهْلٌ هَلْ تَدْرُونَ مَا التَّصْفِيحُ هُوَ التَّصْفِيقُ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرُوا الْتَفَتَ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّفِّ فَأَشَارَ إِلَيْهِ مَكَانَكَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ يَدَيْهِ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ وَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى

 

❁ ترجمہ :ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبو عمروبن عوف ( قبا ) کے لوگوں میں ملاپ کرنے تشریف لائے، اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اب تک نہیں تشریف لائے اس لیے اب آپ نماز پڑھائیے۔ انہوں نے فرمایااچھا اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھا دیتا ہوں۔ خیر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور نماز شروع کی۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ بجانا شروع کیا۔ ( سہل نے ) کہا کہ جانتے ہو تصفیح کیا ہے یعنی تالیاں بجانا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف بھی دھیان نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف میں موجود ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کاشکر کیا اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔


❁ تشریح : اس روایت کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ اس میں سبحان اللہ کہنے کاذکر نہیں اور شاید حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جوا وپر گزر چکا ہے اور اس میں صاف یوں ہے کہ تم نے تالیاں بہت بجائیں نماز میں کوئی واقعہ ہو تو سبحان اللہ کہا کرو تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ اب رہا الحمد للہ کہنا تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کراللہ کا شکر کیا، بعضوں نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح کو تحمید پر قیاس کیا تو یہ روایت بھی ترجمہ باب کے مطابق ہوگئی ( وحیدی )


❁ بَابُ مَنْ سَمَّى قَوْمًا، أَوْ سَلَّمَ فِي الصَّلاَةِ عَلَى غَيْرِهِ مُوَاجَهَةً، وَهُوَ لاَ يَعْلَمُ
باب: نماز میں نام لے کر دعا یا بددعا کرنا ❁ 

❁ 1202 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عِيسَى حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الصَّمَدِ عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نَقُولُ التَّحِيَّةُ فِي الصَّلَاةِ وَنُسَمِّي وَيُسَلِّمُ بَعْضُنَا عَلَى بَعْضٍ فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُولُوا التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ فَإِنَّكُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذَلِكَ فَقَدْ سَلَّمْتُمْ عَلَى كُلِّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن عیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعبد الصمد العمی عبد العزیز بن عبد الصمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حصین بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہم پہلے نماز میں یوں کہاکرتے تھے فلاں پر سلام اور نام لیتے تھے۔ اور آپس میں ایک شخص دوسرے کو سلام کر لیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا اس طرح کہا کرو۔ ( ترجمہ ) “ یعنی ساری تحیات، بندگیاں اور کوششیں اور اچھی باتیں خاص اللہ ہی کے لیے ہیں اور اے نبی!آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر سلام ہو اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ”۔ اگر تم نے یہ پڑھ لیا تو گویا اللہ کے ان تمام صالح بندوں پر سلام پہنچا دیا جو آسمان اور زمین میں ہیں۔

 


❁ تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ہے لفظ التحیات سے مراد زبان سے کی جانے والی عبادات اورلفظ صلوات سے مراد بدن سے کی جانے والی عبادات اور طیبات سے مراد مال حلال سے کی جانے والی عبادات، یہ سب خاص اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ان میں سے جو ذرہ برابر بھی کسی غیر کے لیے کرے گا وہ عند اللہ شرک ٹھہرے گا۔ لفظ نبوی قولوا الخ سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا کہ نماز میں اس طرح سلام کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کاحکم نہیں فرمایا۔


 ❁ بَابُ التَّصْفِيقِ لِلنِّسَاءِ
❁ باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا

❁ 1203 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ التَّسْبِيحُ لِلرِّجَالِ وَالتَّصْفِيقُ لِلنِّسَاءِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو ) مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارکر یعنی تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہیے۔

 

❁ تشریح : قسطلانی نے کہا کہ عورت اس طرح تالی بجائے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر مارے اگر کھیل کے طور پر بائیں ہاتھ پر مارے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر کسی مرد کو مسئلہ معلوم نہ ہو اور وہ بھی تالی بجا دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کو جنہوں نے نادانستہ تالیاں بجائی تھیں نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا۔ ( وحیدی )


❁ بَابُ التَّصْفِيقِ لِلنِّسَاءِ
❁ باب: تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا

❁ 1204 حَدَّثَنَا يَحْيَى أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التَّسْبِيحُ للرِّجَالِ وَالتَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور عورتوں کے لیے تالی بجانا۔


❁ تشریح : معلوم ہوا کہ امام بھول جائے اور اس کو ہوشیار کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ بلند آواز سے کہیں اور اگر کسی عورت کو لقمہ دینا ہو تو وہ تالی بجائے، اس سے عورتوں کا باجماعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہوا۔


بَابُ مَنْ رَجَعَ القَهْقَرَى فِي صَلاَتِهِ، أَوْ تَقَدَّمَ بِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ ❁ 

❁ باب: جو نماز میں الٹے پاؤں پیچھے سرک جائے


❁ 1205 – حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ يُونُسُ: قَالَ الزُّهْرِيُّ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَّ المُسْلِمِينَ بَيْنَا هُمْ فِي الفَجْرِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُصَلِّي بِهِمْ، «فَفَجِئَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَشَفَ سِتْرَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ صُفُوفٌ، فَتَبَسَّمَ يَضْحَكُ» فَنَكَصَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَظَنَّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى الصَّلاَةِ، وَهَمَّ المُسْلِمُونَ أَنْ يَفْتَتِنُوا فِي صَلاَتِهِمْ، فَرَحًا بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوْهُ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ: «أَنْ أَتِمُّوا، ثُمَّ دَخَلَ الحُجْرَةَ، وَأَرْخَى السِّتْرَ»، وَتُوُفِّيَ ذَلِكَ اليَوْمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا، انہیں امام عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ پیر کے روز مسلمان ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹائے ہوئے دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ صحابہ صف باندھے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ کھل کر مسکرادیئے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائیں گے اور مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر اس درجہ خوش ہوئے کہ نماز ہی توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے ہدایت کی کہ نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور حجرے میں تشریف لے گئے۔ پھر اس دن آپ نے انتقال فرمایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔


❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اب بھی کوئی خاص موقع اگر اس قسم کا آجائے کہ امام کو پیچھے کی طرف ہٹنا پڑے یا کوئی حادثہ ہی ایسا داعی ہو تو اس طرح سے نماز میں نقص نہ آئے گا۔


❁ بَابُ إِذَا دَعَتِ الأُمُّ وَلَدَهَا فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: کوئی نماز پڑھ رہا ہواوراس کی ماں بلائے

❁ 1206 وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ [ص:64] رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَادَتِ امْرَأَةٌ ابْنَهَا وَهُوَ فِي صَوْمَعَةٍ، قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلاَتِي، قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلاَتِي، قَالَتْ: يَا جُرَيْجُ، قَالَ: اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلاَتِي، قَالَتْ: اللَّهُمَّ لاَ يَمُوتُ جُرَيْجٌ حَتَّى يَنْظُرَ فِي وُجُوهِ المَيَامِيسِ، وَكَانَتْ تَأْوِي إِلَى صَوْمَعَتِهِ رَاعِيَةٌ تَرْعَى الغَنَمَ، فَوَلَدَتْ، فَقِيلَ لَهَا: مِمَّنْ هَذَا الوَلَدُ؟ قَالَتْ: مِنْ جُرَيْجٍ، نَزَلَ مِنْ صَوْمَعَتِهِ، قَالَ جُرَيْجٌ: أَيْنَ هَذِهِ الَّتِي تَزْعُمُ أَنَّ وَلَدَهَا لِي؟ قَالَ: يَا بَابُوسُ، مَنْ أَبُوكَ؟ قَالَ: رَاعِي الغَنَمِ

 

❁ ترجمہ : اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بنی اسرائیل کی ) ایک عورت نے اپنے بیٹے کو پکارا، اس وقت وہ عبادت خانے میں تھا۔ ماں نے پکارا کہ اے جریج! جریج ( پس وپیش میں پڑگیا اور دل میں ) کہنے لگا کہ اے اللہ! میں اب ماں کو دیکھوں یا نماز کو۔ پھر ماں نے پکارا اے جریج! ( وہ اب بھی اس پس وپیش میں تھا ) کہ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ماں نے پھر پکارا اے جریج! ( وہ اب بھی یہی ) سوچے جا رہا تھا۔ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ( آخر ) ماں نے تنگ ہوکر بددعا کی اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ فاحشہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ جریج کی عبادت گاہ کے قریب ایک چرانے والی آیا کرتی تھی جو بکریاں چراتی تھی۔ اتفاق سے اس کے بچہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اس نے کہا کہ جریج کا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی عبادت گاہ سے نکل کر میرے پاس رہا تھا۔ جریج نے پوچھا کہ وہ عورت کون ہے؟ جس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے کہ اس کا بچہ مجھ سے ہے۔ ( عورت بچے کو لے کر آئی تو ) انہوں نے بچے سے پوچھا کہ بچے! تمہارا باپ کون؟ بچہ بول پڑا کہ ایک بکری چرانے والا گڈریا میرا باپ ہے۔

 


❁ تشریح : ماں کی اطاعت فرض ہے اور باپ سے زیادہ ماں کا حق ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعضوں نے کہا جواب نہ دے، اگر دے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ بعضوں نے کہا جواب دے اور نماز فاسد نہ ہوگی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا کہ جب تو نماز میں ہو اور تیری ماں تجھ کو بلائے تو جواب دے اور اگر باپ بلائے تو جواب نہ دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ جریج کی حدیث اس باب میں لائے کہ ماں کا جواب نہ دینے سے وہ ( تنگی میں ) مبتلاہوئے۔ بعضوں نے کہا جریج کی شریعت میں نماز میں بات کرنا مباح تھا تو ان کو جواب دینا لازم تھا۔ انہوں نے نہ دیا تو ماں کی بد دعا ان کو لگ گئی۔ ایک روایت میں ہے کہ اگر جریج کو معلوم ہوتا تو جواب دیتا کہ ماں کا جواب دینا بھی اپنے رب کی عبادت ہے۔ بابوس ہر شیرخوار بچے کو کہتے ہیں یا اس بچے کا نام ہوگا۔ اللہ نے اس کوبولنے کی طاقت دی۔ اس نے اپنا باپ بتلایا۔جریج اس طرح اس الزام سے بری ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ماں کو ہر حال میں خوش رکھنا اولاد کے لیے ضروری ہے ورنہ ان کی بد دعا اولاد کی زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔


❁ بَابُ مَسْحِ الحَصَا فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں کنکری اٹھانا کیساہے؟


❁ 1207 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ حَدَّثَنِي مُعَيْقِيبٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي الرَّجُلِ يُسَوِّي التُّرَابَ حَيْثُ يَسْجُدُ قَالَ إِنْ كُنْتَ فَاعِلًا فَوَاحِدَةً

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معیقیب بن ابی طلحہ صحابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے جو ہر مرتبہ سجدہ کرتے ہوئے کنکریاں برابر کرتا تھا فرمایا اگر ایسا کرنا ہے تو صرف ایک ہی بار کر۔

 

❁ تشریح : کیونکہ باربار ایسا کرنا نماز میں خشوع وخضوع کے خلاف ہے۔


❁ بَابُ بَسْطِ الثَّوْبِ فِي الصَّلاَةِ لِلسُّجُودِ
❁ باب: نماز میں سجدہ کے لیے کپڑا بچھانا

❁ 1208 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرٌ حَدَّثَنَا غَالِبٌ الْقَطَّانُ عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ فَإِذَا لَمْ يَسْتَطِعْ أَحَدُنَا أَنْ يُمَكِّنَ وَجْهَهُ مِنْ الْأَرْضِ بَسَطَ ثَوْبَهُ فَسَجَدَ عَلَيْهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غالب بن قطان نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبد اللہ مزنی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہوجاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیاکرتے تھے۔


❁ تشریح : مسجد نبوی ابتداء میں ایک معمولی چھپر کی شکل میں تھی۔ جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہو اکرتا تھا۔اس لیے شدت گرما میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایسا کر لیا کرتے تھے۔ اب بھی کہیں ایسا ہی موقع ہو تو ایسا کر لینا درست ہے۔


❁ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟

❁ 1209 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي النَّضْرِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُنْتُ أَمُدُّ رِجْلِي فِي قِبْلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي فَإِذَا سَجَدَ غَمَزَنِي فَرَفَعْتُهَا فَإِذَا قَامَ مَدَدْتُهَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابو النضر سالم بن ابی امیہ نے، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اپنا پاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پھیلالیتی تھی اور آپ نماز پڑھتے ہوتے جب آپ سجدہ کرنے لگتے تو آپ مجھے ہاتھ لگاتے، میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پھیلا لیتی۔


❁ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ العَمَلِ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟


❁ 1210 حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ صَلَّى صَلَاةً قَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ عَرَضَ لِي فَشَدَّ عَلَيَّ لِيَقْطَعَ الصَّلَاةَ عَلَيَّ فَأَمْكَنَنِي اللَّهُ مِنْهُ فَذَعَتُّهُ وَلَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أُوثِقَهُ إِلَى سَارِيَةٍ حَتَّى تُصْبِحُوا فَتَنْظُرُوا إِلَيْهِ فَذَكَرْتُ قَوْلَ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِ السَّلَام رَبِّ هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي فَرَدَّهُ اللَّهُ خَاسِيًا ثُمَّ قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ فَذَعَتُّهُ بِالذَّالِ أَيْ خَنَقْتُهُ وَفَدَعَّتُّهُ مِنْ قَوْلِ اللَّهِ يَوْمَ يُدَعُّونَ أَيْ يُدْفَعُونَ وَالصَّوَابُ فَدَعَتُّهُ إِلَّا أَنَّهُ كَذَا قَالَ بِتَشْدِيدِ الْعَيْنِ وَالتَّاءِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے ایک مرتبہ ایک نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میرے سامنے ایک شیطان آگیا اور کوشش کرنے لگا کہ میری نماز توڑدے۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کو میرے قابو میں کردیا میں نے اس کا گلا گھونٹایا اس کو دھکیل دیا۔ آخر میں میرا ارادہ ہواکہ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دوں اور جب صبح ہو تو تم بھی دیکھو۔ لیکن مجھے سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی “ اے اللہ! مجھے ایسی سلطنت عطا کیجیوجو میرے بعدکسی اور کو نہ ملے ” ( اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا ) اور اللہ تعالی نے اسے ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔ اس کے بعد نضر بن شمیل نے کہا کہ ذعتہ ذال سے ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور دعتہ اللہ تعالی کے اس قول سے لیا گیاہے۔ “ یوم یدعون ” جس کے معنی ہیں قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ درست پہلا ہی لفظ ہے۔ البتہ شعبہ نے اسی طرح عین اور تاءکی تشدید کے ساتھ بیان کیا ہے۔

 


❁ تشریح : یہاں یہ اعتراض نہ ہوگا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شیطان ڈرتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیونکر آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم توحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہیں افضل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چورڈاکو بدمعاش کوتوال سے زیادہ ڈرتے ہیں بادشاہ سے اتنا نہیں ڈرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آجائے گا۔ تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوتوال بادشاہ سے افضل ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ دشمن کو دھکیلنا یا اس کو دھکا دینا اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوۃ میں اہلحدیث کا مذہب قرار دیا کہ نماز میں کھنکارنا یا کوئی گھر میں نہ ہو تو دروازہ کھول دینا، سانپ بچھو نکلے تو اس کا مارنا، سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا، کسی ضرورت سے آگے پیچھے سرک جانا یہ سب کام درست ہیں۔ ان سے نمازفاسدنہیں ہوتی۔ ( وحیدی ) بعض نسخوں میں ثم قال النضر بن شمیل والی عبارت نہیں ہے۔


❁ بَابُ إِذَا انْفَلَتَتْ الدَّابَّةُ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے

❁ 1211 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْأَزْرَقُ بْنُ قَيْسٍ قَالَ كُنَّا بِالْأَهْوَازِ نُقَاتِلُ الْحَرُورِيَّةَ فَبَيْنَا أَنَا عَلَى جُرُفِ نَهَرٍ إِذَا رَجُلٌ يُصَلِّي وَإِذَا لِجَامُ دَابَّتِهِ بِيَدِهِ فَجَعَلَتْ الدَّابَّةُ تُنَازِعُهُ وَجَعَلَ يَتْبَعُهَا قَالَ شُعْبَةُ هُوَ أَبُو بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيُّ فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنْ الْخَوَارِجِ يَقُولُ اللَّهُمَّ افْعَلْ بِهَذَا الشَّيْخِ فَلَمَّا انْصَرَفَ الشَّيْخُ قَالَ إِنِّي سَمِعْتُ قَوْلَكُمْ وَإِنِّي غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ غَزَوَاتٍ أَوْ سَبْعَ غَزَوَاتٍ وَثَمَانِيَ وَشَهِدْتُ تَيْسِيرَهُ وَإِنِّي إِنْ كُنْتُ أَنْ أُرَاجِعَ مَعَ دَابَّتِي أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَدَعَهَا تَرْجِعُ إِلَى مَأْلَفِهَا فَيَشُقُّ عَلَيَّ

 

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں ( جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں ) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص ( ابو برزہ صحابی رضی اللہ عنہ ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کر نے لگے۔ شعبہ نے کہایہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ!اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ( تم کیا چیز ہو؟ ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہو اکہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کوچھوڑدوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔


❁ بَابُ إِذَا انْفَلَتَتْ الدَّابَّةُ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے

❁ 1212 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ قَالَ قَالَتْ عَائِشَةُ خَسَفَتْ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَ سُورَةً طَوِيلَةً ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ بِسُورَةٍ أُخْرَى ثُمَّ رَكَعَ حَتَّى قَضَاهَا وَسَجَدَ ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ فِي الثَّانِيَةِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُمَا آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَصَلُّوا حَتَّى يُفْرَجَ عَنْكُمْ لَقَدْ رَأَيْتُ فِي مَقَامِي هَذَا كُلَّ شَيْءٍ وُعِدْتُهُ حَتَّى لَقَدْ رَأَيْتُ أُرِيدُ أَنْ آخُذَ قِطْفًا مِنْ الْجَنَّةِ حِينَ رَأَيْتُمُونِي جَعَلْتُ أَتَقَدَّمُ وَلَقَدْ رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا حِينَ رَأَيْتُمُونِي تَأَخَّرْتُ وَرَأَيْتُ فِيهَا عَمْرَو بْنَ لُحَيٍّ وَهُوَ الَّذِي سَيَّبَ السَّوَائِبَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ جب سورج گرہن لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے اور ایک لمبی سورت پڑھی۔ پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اس کے بعد دوسری سورت شروع کردی، پھر رکوع کیا اور رکوع پورا کر کے اس رکعت کو ختم کیا اور سجدے میں گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز شروع کر دو جب تک کہ یہ صاف ہو جائے اور دیکھو میں نے اپنی اسی جگہ سے ان تمام چیزوں کو دیکھ لیا ہے جن کا مجھ سے وعدہ ہے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں جنت کا ایک خوشہ لینا چاہتا ہوں۔ ابھی تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ میں آگے بڑھنے لگا تھا اور میں نے دوزخ بھی دیکھی ( اس حالت میں کہ ) بعض آگ بعض آگ کو کھائے جا رہی تھی۔ تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ جہنم کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر میں پیچھے ہٹ گیا تھا۔ میں نے جہنم کے اندر عمرو بن لحی کو دیکھا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے سانڈ کی رسم عرب میں جاری کی تھی۔

 


❁ تشریح : سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو جاہلیت میں بتوں کی نذرمان کر چھوڑ دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سوارہوتے اور نہ اس کا دودھ پیتے۔ یہی عمرو بن لحی عرب میں بت پرستی اور دوسری بہت سی منکرات کا بانی ہوا ہے۔ حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے ظاہر ہے اس لیے کہ خوشہ لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آگے بڑھنا اور دوزخ کی ہیبت کھا کر پیچھے ہٹنا حدیث سے ثابت ہو گیا اور جس کا چار پایہ چھوٹ جاتا ہے وہ اس کے تھامنے کے واسطے بھی کبھی آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔ ( فتح الباری ) خوارج ایک گروہ ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کیا۔ ساتھ ہی حدیث کا انکار کر کے حسنبا اللہ کتاب اللہ کا نعرہ لگایا۔ یہ گروہ بھی افراط وتفریط میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوا۔


❁ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ البُصَاقِ وَالنَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا

❁ 1213 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ فَتَغَيَّظَ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قِبَلَ أَحَدِكُمْ فَإِذَا كَانَ فِي صَلَاتِهِ فَلَا يَبْزُقَنَّ أَوْ قَالَ لَا يَتَنَخَّمَنَّ ثُمَّ نَزَلَ فَحَتَّهَا بِيَدِهِ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا بَزَقَ أَحَدُكُمْ فَلْيَبْزُقْ عَلَى يَسَارِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکانہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھرآپ اترے اور خودہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ہی ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔

 

❁ تشریح : اس سے یہ معلوم ہوا کہ برے کام کو دیکھ کر تمام جماعت پر ناراض ہونا جائز ہے تاکہ سب کو تنبیہ ہو اورآئندہ کے لیے اس کا لحاظ رکھیں۔ نما ز میں قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا۔ نہ کہ مطلق تھوک ڈالنے سے بلکہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت فرمائی جیسا کہ اگلی حدیث میں مذکور ہے۔ جب تھوک مسجد میں پختہ فرش ہونے کی وجہ سے دفن نہ ہو سکے تو رومال میں تھوکنا چاہیے۔ پھونک مارنا بھی کسی شدید ضرورت کے تحت جائز ہے بلا ضرورت پھونک مارنا نماز میں خشوع کے خلاف ہے۔


❁ بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ البُصَاقِ وَالنَّفْخِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا

❁ 1214 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانَ فِي الصَّلَاةِ فَإِنَّهُ يُنَاجِي رَبَّهُ فَلَا يَبْزُقَنَّ بَيْنَ يَدَيْهِ وَلَا عَنْ يَمِينِهِ وَلَكِنْ عَنْ شِمَالِهِ تَحْتَ قَدَمِهِ الْيُسْرَى

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس لیے اس کو سامنے نہ تھوکنا چاہیے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف اپنے قدم کے نیچے تھوک لے۔


❁ بَابُ إِذَا قِيلَ لِلْمُصَلِّي تَقَدَّمْ، أَوِ انْتَظِرْ، فَانْتَظَرَ، فَلاَ بَأْسَ
❁ باب: اگرنماز ی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ

❁ 1215 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّاسُ يُصَلُّونَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ عَاقِدُو أُزْرِهِمْ مِنْ الصِّغَرِ عَلَى رِقَابِهِمْ فَقِيلَ لِلنِّسَاءِ لَا تَرْفَعْنَ رُءُوسَكُنَّ حَتَّى يَسْتَوِيَ الرِّجَالُ جُلُوسًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابو حازم نے، ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو ( جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں ) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کرنہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر ( سجدے سے ) نہ اٹھانا۔


❁ تشریح : امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر اما م کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ چنانچہ سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آرہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔ حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول میں معلوم ہو اکہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں ( فتح الباری )


❁ بَابُ لاَ يَرُدُّ السَّلاَمَ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں سلام کا جواب ( زبان سے ) نہ دے


❁ 1216 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَرُدُّ عَلَيَّ فَلَمَّا رَجَعْنَا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ وَقَالَ إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ( ابتداءاسلام میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ کو سلام کر تا تو آپ جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم ( حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی ) واپس آئے تو میں نے ( پہلے کی طرح نماز میں ) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ( کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہوگئی تھی ) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔


❁ تشریح : علماءکا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ واپسی مکہ شریف کوتھی یا مدینہ منورہ کو۔ حافظ نے فتح الباری میں اسے ترجیح دی ہے کہ مدینہ منورہ کو تھی جس طرح پہلے گزر چکا ہے اور جب یہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے لیے تیاری فرمارہے تھے۔ اگلی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ نماز کے اندر کلام کرنا مدینہ میں حرام ہوا۔ کیونکہ حضرت جابر انصاری مدینہ کے باشندے تھے۔


❁ بَابُ لاَ يَرُدُّ السَّلاَمَ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں سلام کا جواب ( زبان سے ) نہ دے


❁ 1217 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ شِنْظِيرٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَانْطَلَقْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ وَقَدْ قَضَيْتُهَا فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي مَا اللَّهُ أَعْلَمُ بِهِ فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَعَلَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَيَّ أَنِّي أَبْطَأْتُ عَلَيْهِ ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي أَشَدُّ مِنْ الْمَرَّةِ الْأُولَى ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ فَقَالَ إِنَّمَا مَنَعَنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي وَكَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُتَوَجِّهًا إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے ( غزوہ¿ بنی مصطلق میں ) بھیجا۔ میں جاکر واپس آیا، میں نے کام پورا کر دیاتھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوکر آپ کو سلام کیا۔ لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میںاللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میںپہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے ( تیسری مرتبہ ) سلام کیا، اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دوبارمیں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔

 


❁ تشریح : مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق میں تھا۔ اور مسلم ہی کی روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور جابر رضی اللہ عنہ کا مفہوم ومتفکر ہونا اس لیے تھا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔ کیونکہ پہلے زبان سے سلام کا جواب دیتے تھے نہ کہ اشارہ سے۔


❁ بَابُ رَفْعِ الأَيْدِي فِي الصَّلاَةِ لِأَمْرٍ يَنْزِلُ بِهِ
❁ باب: نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا

❁ 1218 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِقُبَاءٍ كَانَ بَيْنَهُمْ شَيْءٌ فَخَرَجَ يُصْلِحُ بَيْنَهُمْ فِي أُنَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَحُبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَانَتْ الصَّلَاةُ فَجَاءَ بِلَالٌ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ حُبِسَ وَقَدْ حَانَتْ الصَّلَاةُ فَهَلْ لَكَ أَنْ تَؤُمَّ النَّاسَ قَالَ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَأَقَامَ بِلَالٌ الصَّلَاةَ وَتَقَدَّمَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَبَّرَ لِلنَّاسِ وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي فِي الصُّفُوفِ يَشُقُّهَا شَقًّا حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ فَأَخَذَ النَّاسُ فِي التَّصْفِيحِ قَالَ سَهْلٌ التَّصْفِيحُ هُوَ التَّصْفِيقُ قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا أَكْثَرَ النَّاسُ الْتَفَتَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَشَارَ إِلَيْهِ يَأْمُرُهُ أَنْ يُصَلِّيَ فَرَفَعَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَهُ فَحَمِدَ اللَّهَ ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى وَرَاءَهُ حَتَّى قَامَ فِي الصَّفِّ وَتَقَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى لِلنَّاسِ فَلَمَّا فَرَغَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَا لَكُمْ حِينَ نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ أَخَذْتُمْ بِالتَّصْفِيحِ إِنَّمَا التَّصْفِيحُ لِلنِّسَاءِ مَنْ نَابَهُ شَيْءٌ فِي صَلَاتِهِ فَلْيَقُلْ سُبْحَانَ اللَّهِ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ يَا أَبَا بَكْرٍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ لِلنَّاسِ حِينَ أَشَرْتُ إِلَيْكَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ مَا كَانَ يَنْبَغِي لِابْنِ أَبِي قُحَافَةَ أَنْ يُصَلِّيَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

❁ ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدا لعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قباءکے قبیلہ بنو عمروبن عوف میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں ملاپ کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہوتوپڑھا دوں گا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور ابو بکر نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزر تے ہوئے آپ پہلی صف میں آکھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دیئے۔ ( سہل نے کہا کہ تصفیح کے معنی تصفیق کے ہیں ) آپ نے بیان کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نما زمیں کسی طرف متوجہ نہیںہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیںدیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہا کرو۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرما یا کہ ابوبکر!میرے کہنے کے باوجود تم نے نمازکیوں نہیں پڑھائی؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔

 


❁ تشریح : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رب کے سامنے ہاتھوں کو اٹھا کر الحمد للہ کہا۔ اس میں کچھ ہرج ہوتا تو آپ ضرور منع فرمادیتے اور اس سے حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہوئی۔


❁ بَابُ الخَصْرِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں کمرپر ہاتھ رکھنا کیسا ہے؟

❁ 1219 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نُهِيَ عَنْ الْخَصْرِ فِي الصَّلَاةِ وَقَالَ هِشَامٌ وَأَبُو هِلَالٍ عَنْ ابْنِ سِيرِينَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 

 ❁ ترجمہ : ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہشام اور ابو ہلال محمد بن سلیم نے، ابن سیرین سے اس حدیث کو روایت کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔


❁ بَابُ الخَصْرِ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں کمرپر ہاتھ رکھنا کیسا ہے؟

❁ 1220 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ مُخْتَصِرًا

 

❁ ترجمہ : ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان فردوسی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔


❁ تشریح : یعنی کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ابلیس اسی حالت میں آسمان سے اتاراگیا اور یہود اکثر ایسا کیا کرتے تھے یا دوزخی اسی طرح راحت لیں گے۔ اس لیے اس سے منع کیا گیا، یہ متکبروں کی بھی علامت ہے۔


❁ بَابُ يُفْكِرُ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فِي الصَّلاَةِ

❁ باب: نماز میں کسی بات کا فکر کرے


 ❁ 1221 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ حَدَّثَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا عُمَرُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيعًا دَخَلَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ ثُمَّ خَرَجَ وَرَأَى مَا فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ مِنْ تَعَجُّبِهِمْ لِسُرْعَتِهِ فَقَالَ ذَكَرْتُ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ تِبْرًا عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يُمْسِيَ أَوْ يَبِيتَ عِنْدَنَا فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ

 

❁ ترجمہ : ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا کہ ہم سے عمر نے جو سعید کے بیٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے، انہوںنے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یا د آگیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیاتھا۔ مجھے بر امعلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔


❁ تشریح : نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سونے کا وہ بقایا ڈلا تقسیم کے لیے یاد آگیا یہیں سے باب کا مطلب ثابت ہوا


❁ بَابُ يُفْكِرُ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فِي الصَّلاَةِ
❁ باب: نماز میں کسی بات کا فکر کرے

❁ 1222 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرٍ، عَنِ الأَعْرَجِ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أُذِّنَ بِالصَّلاَةِ أَدْبَرَ الشَّيْطَانُ لَهُ ضُرَاطٌ حَتَّى لاَ يَسْمَعَ التَّأْذِينَ، فَإِذَا سَكَتَ المُؤَذِّنُ أَقْبَلَ، فَإِذَا ثُوِّبَ أَدْبَرَ، فَإِذَا سَكَتَ أَقْبَلَ، فَلاَ يَزَالُ، بِالْمَرْءِ يَقُولُ لَهُ: اذْكُرْ مَا لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حَتَّى لاَ يَدْرِيَ كَمْ صَلَّى قَالَ أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: «إِذَا فَعَلَ أَحَدُكُمْ ذَلِكَ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ قَاعِدٌ»، وَسَمِعَهُ أَبُو سَلَمَةَ، مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

 

❁ ترجمہ : ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے، ان سے جعفربن ربیعہ نے اور ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔ جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو مردود پھر آجاتا ہے اور جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے ( اور تکبیر کہی جاتی ہے ) تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب مؤذن چپ ہوجاتا ہے تو پھر آجاتا ہے۔ اور آدمی کے دل میں برابر وساوس پیدا کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ ( فلاں فلاں بات ) یاد کر۔ کم بخت وہ باتیں یاددلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں بھی نہ تھیں۔ اس طرح نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ جب کوئی یہ بھول جائے ( کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ) تو بیٹھے بیٹھے ( سہو کے ) دو سجدے کر لے۔ ابو سلمہ نے یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا۔

 

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔ پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔ ( قسطلانی )


❁ بَابُ يُفْكِرُ الرَّجُلُ الشَّيْءَ فِي الصَّلاَةِ
 ❁ باب: نماز میں کسی بات کا فکر کرے

❁ 1223 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَقُولُ النَّاسُ: أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ، فَلَقِيتُ رَجُلًا، فَقُلْتُ: بِمَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ البَارِحَةَ فِي العَتَمَةِ؟ فَقَالَ: لاَ أَدْرِي؟ فَقُلْتُ: لَمْ تَشْهَدْهَا؟ قَالَ: بَلَى، قُلْتُ: لَكِنْ أَنَا أَدْرِي «قَرَأَ سُورَةَ كَذَا وَكَذَا

 

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہاکہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے ( اور حال یہ ہے کہ ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے ( بطور امتحان ) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاءمیں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔

 


❁ تشریح : اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے،کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی، “صفہ” میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص عنوان کے تحت ا س لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے ( تفہیم البخاری ) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔


Table of Contents