Search
Sections
< All Topics
Print

23. Janaze ke Ahkaam-o-Masail; [كِتَابُ الجَنَائِزِ]; Funerals

✦ كِتَابُ الجَنَائِزِ ✦

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
❁ باب: جس شخص کا آخری کلام

❁ 1237 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا کہ ہم سے واصل بن حیان احدب ( کبڑے ) نے، ان سے معرور بن سوید نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ خواب میں ) میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا ( فرشتہ ) آیا۔ اس نے مجھے خبر دی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوش خبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں نے پوچھا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگر چہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر چہ زنا کیا ہواگر چہ چوری کی ہو۔

❁ تشریح : ابن رشید نے کہا احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد ہو کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ یہ کلمہ توحید موت کے وقت پڑھ لے اس کے گزشتہ گناہ ساقط ہو کر معاف ہو جائیں گے اور اخلاص ملتزم توبہ اور ندامت ہے اور اس کلمے کا پڑھنا اس کے لیے نشانی ہو اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس واسطے لائے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں بلکہ اعتقاد اور عمل ضروری ہے۔ اس واسطے کتاب اللباس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں ہے کہ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موت کے وقت کے لیے ہے یااس سے پہلے جب توبہ کرے اور نادم ہو۔ وہیب کے اثر کو مؤلف نے اپنی تاریخ میں موصولاً روایت کیا ہے اور ابو نعیم نے حلیۃ میں ( فتح الباری )


بَابُ مَا جَاءَ فِي الجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
❁ باب: جس شخص کا آخری کلام 

❁ 1238 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تووہ جہنم میں جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں جائے گا۔

❁ تشریح : اس کی مزید وضاحت حدیث انس رضی اللہ عنہ میں موجود ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا اے ابن آدم! اگر تو دنیا بھر کے گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کرے مگر تونے شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس دنیا بھر کی مغفرت لے کر آؤں گا ( رواہ الترمذی ) خلاصہ یہ کہ شرک بدترین گناہ ہے اور توحید اعظم ترین نیکی ہے۔ موحد گنہگار مشرک عبادت گزارسے بہر حال ہزار درجے بہتر ہے۔


❁ بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ
❁ باب: جنازہ میں شریک ہونے کاحکم

1239 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَشْعَثِ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ أَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَنَهَانَا عَنْ آنِيَةِ الْفِضَّةِ وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْقَسِّيِّ وَالْإِسْتَبْرَقِ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الثعثاءنے، انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید مقرن سے سنا، وہ براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر یرحمک اللہ کہنے کا اور آپ نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کابرتن ( استعمال میں لانے ) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج ( کے کپڑون کے پہننے ) سے، قسی سے، استبرق سے۔

❁ تشریح : دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قس میں ہیں۔ قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔ یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔ ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔ وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جوزین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔


بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ
باب: جنازہ میں شریک ہونے کاحک

1240حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ وَرَوَاهُ سَلَامَةُ بْنُ رَوْحٍ عَنْ عُقَيْلٍ

❁ ترجمہ : ہم سے محمدنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، انہوںنے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر ( اس کے الحمد للہ کے جواب میں ) یرحمک اللہ کہنا۔ اس روایت کی متابعت عبد الرزاق نے کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے معمر نے خبر دی تھی۔ اور اس کی روایت سلامہ نے بھی عقیل سے کی ہے۔

❁ تشریح :اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی حقوق مسلمین میں داخل ہے۔ حافظ نے کہا کہ عبدا لرزاق کی روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اور سلامہ کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں۔


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1241 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ بَكَى فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا 

❁ 1242 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ بَكَى فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1243 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ بَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ اقْتُسِمَ الْمُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ فَقَالَ أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي قَالَتْ فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ مِثْلَهُ وَقَالَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ عُقَيْلٍ مَا يُفْعَلُ بِهِ وَتَابَعَهُ شُعَيْبٌ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَمَعْمَرٌ

❁ ترجمہ : ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کہا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ ام العلاءانصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انھیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انھیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہو ئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابو سائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالی عزت افزائی کرے گا؟ آپ نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آچکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ!مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاءنے کہا کہ خدا کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق ( اس طرح کی ) گواہی نہیں دوں گی۔ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا اور ان سے لیث نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا، نافع بن یزید نے عقیل سے ( ما یفعل بی کے بجائے ) ما یفعل بہ کے الفاظ نقل کئے ہیں اور اس روایت کی متابعت شعیب، عمرو بن دینار اور معمر نے کی ہے۔اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔

❁ تشریح : اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔ ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔ اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون کو دیکھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ہ میں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔ حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔ اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہوگیاتھا۔ پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے۔ بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1244 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ أَبْكِي وَيَنْهَوْنِي عَنْهُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْهَانِي فَجَعَلَتْ عَمَّتِي فَاطِمَةُ تَبْكِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبْكِينَ أَوْ لَا تَبْكِينَ مَا زَالَتْ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ تَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتاتھا۔ دوسرے لوگ تومجھے اس سے روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر میری چچی فاطمہ رضی اللہ عنہابھی رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ روؤ یا چپ رہو۔ جب تک تم لوگ میت کو اٹھا تے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اس روایت کی متابعت شعبہ کے ساتھ ابن جریج نے کی، انہیں ابن منکدر نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔

❁ تشریح : منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔ ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جاناکہ جابر رضی اللہ عنہ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔ حدیث سے نکلاکہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔


بَابُ الرَّجُلِ يَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَيِّتِ بِنَفْسِهِ
باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر

1245 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر ( جنازہ کی نماز میں ) چار تکبیریں کہیں۔

❁ تشریح : بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مراتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماءکے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیا تھا فاسد ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاہوگا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ ( وحیدی ) نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم واحمد ونسائی وترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصۃ القائلون بمشروعیۃ الصلوۃ علی الغائب عن البلد قال فی الفتح وبذلک قال الشافعی واحمدوجمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احمد الصحابۃ منعہ قال الشافعی علی المیت دعاءفکیف لا یدعی لہ وھو غائب او فی القبر۔ ( نیل الاوطار ) یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔ نجاشی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔ جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل انہ لم یات المانعون من الصلوۃ علی الغائب بشئی یعتد بہ الخ یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز ودرست ہے تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار ( جلد:3ص55, 56 ) کا مطالعہ کیا جائے۔


بَابُ الرَّجُلِ يَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَيِّتِ بِنَفْسِهِ
باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر

 1246 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَإِنَّ عَيْنَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتَذْرِفَانِ ثُمَّ أَخَذَهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مِنْ غَيْرِ إِمْرَةٍ فَفُتِحَ لَهُ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حمیدبن بلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے۔ ( آپ نے فرمایا ) ا ور پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خود اپنے طور پر جھنڈا اٹھا لیا اور ان کو فتح حاصل ہوئی۔

❁ تشریح : یہ غزوہ موتہ کا واقعہ ہے جو 8ھ میںملک شام کے پاس بلقان کی سر زمین پر ہواتھا۔ مسلمان تین ہزار تھے اور کافر بے شمار، آپ نے زید بن حارثہ کو امیر لشکر بنایا تھا اور فرما دیا تھا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو ان کی جگہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ قیادت کریں اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر عبد اللہ بن رواحہ۔ یہ تینوں سردارشہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید نے ( از خود ) کمان سنبھالی اور ( اللہ نے ان کے ہاتھ پر ) کافروں کو شکست فاش دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے لوٹنے سے پہلے ہی سب خبریں لوگوں کو سنادیں۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزات بھی مذکورہوئے ہیں۔


بَابُ الإِذْنِ بِالْجَنَازَةِ
باب: جنازہ تیار ہو تو لوگوں کو خبر دینا

1247 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَمَاتَ بِاللَّيْلِ فَدَفَنُوهُ لَيْلًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ فَقَالَ مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي قَالُوا كَانَ اللَّيْلُ فَكَرِهْنَا وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہیں ابو معاویہ نے خبر دی، انہیں ابو اسحاق شیبانی نے، انہیں شعبی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص کی وفات ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ جنازہ تیار ہوتے وقت ) مجھے بتانے میں ( کیا ) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔

❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کے نماز جنازہ کے لیے سب کو اطلاع ہونی چاہیے اور اب بھی ایسے مواقع میں جنازہ قبر پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1248 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ مِنْ مُسْلِمٍ يُتَوَفَّى لَهُ ثَلَاثٌ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے، ان سے عبد العزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے اگر تین بچے مر جائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالی اس رحمت کے نتیجے میں جو ان بچوں سے وہ رکھتا ہے مسلمان ( بچے کے باپ اور ماں ) کو بھی جنت میں داخل کرے گا۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1249 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النِّسَاءَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ لَنَا يَوْمًا فَوَعَظَهُنَّ، وَقَالَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَ لَهَا ثَلاَثَةٌ مِنَ الوَلَدِ، كَانُوا حِجَابًا مِنَ النَّارِ»، قَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: «وَاثْنَانِ

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1250 وَقَالَ شَرِيكٌ: عَنْ ابْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «لَمْ يَبْلُغُوا الحِنْثَ

❁ ترجمہ : شریک نے اصبہانی سے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو صالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید نے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بھی کہا کہ”وہ بچے مراد ہیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں”


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1251 حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمُوتُ لِمُسْلِمٍ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَيَلِجَ النَّارَ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا

❁ ترجمہ : ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔

❁ تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔ یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔ الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔


بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ القَبْرِ: اصْبِرِي
باب: کسی مرد کا عورت سے قبر کے پاس 

1252 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ وَهِيَ تَبْكِي فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س سے فرمایا کہ خدا سے ڈر اور صبر کر۔


بَابُ غُسْلِ المَيِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسَّدْرِ
باب: میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے

1253 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَتْ ابْنَتُهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ( زینب یا ام کلثوم رضی اللہ عنہما ) کی وفات ہوئی آپ وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میںبیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا ( یہ کہا کہ ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنا نچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ کو خبر دیدی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔ آپ کی مراد اپنے ازار سے تھی۔

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔ اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاءکو دھوتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاکہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضوکرے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ “مومن نجس نہیں ہوتا”اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔ اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگا تا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔ جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔


بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُغْسَلَ وِتْرًا
باب: میت کو طاق مرتبہ غسل دینا مستحب ہے

1254 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ فَقَالَ أَيُّوبُ وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُحَمَّدٍ وَكَانَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا وَكَانَ فِيهِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا وَكَانَ فِيهِ أَنَّهُ قَالَ ابْدَءُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا وَكَانَ فِيهِ أَنَّ أُمَّ عَطِيَّةَ قَالَتْ وَمَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوہاب ثقفی نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو یا اس سے بھی زیادہ، پانی اور بیر کے پتوں سے اور آخر میں کافور بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہو کر مجھے خبر دے دینا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو آپ کو خبر کر دی۔ آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ یہ اندر اس کے بدن پر لپیٹ دو۔ایوب نے کہا کہ مجھ سے حفصہ نے بھی محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح بیان کیاتھا۔ حفصہ کی حدیث میں تھا کہ طاق مرتبہ غسل دینا اور اس میں یہ تفصیل تھی کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ ( غسل دینا ) اور اس میں یہ بھی بیان تھا کہ میت کے دائیں طرف سے اعضاءوضو سے غسل شروع کیا جائے۔ یہ بھی اسی حدیث میں تھا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ عورت کے سر میں کنگھی کر کے اس کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ کر پیچھے ڈال دیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔


بَابُ يُبْدَأُ بِمَيَامِنِ المَيِّتِ
باب: غسل میت کی دائیں طرف سے

1255 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَسْلِ ابْنَتِهِ ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایا تھا کہ دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے غسل شروع کرنا۔

❁ تشریح : ہر اچھاکام دائیں طرف سے شروع کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں


بَابُ مَوَاضِعِ الوُضُوءِ مِنَ المَيِّتِ
باب: پہلے میت کے اعضاء وضو کو دھویا جائے

1256 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا غَسَّلْنَا بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا وَنَحْنُ نَغْسِلُهَا ابْدَءُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے خالدحذاءنے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہی تھیں۔ جب ہم نے غسل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے شروع کرو۔

❁ تشریح : اس سے معلوم ہوا کہ پہلے استنجا وغیرہ کرا کے وضو کرایا جائے اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ثابت ہوا پھر غسل دلایا جائے اور غسل دائیں طرف سے شروع کیا جائے۔


بَابُ هَلْ تُكَفَّنُ المَرْأَةُ فِي إِزَارِ الرَّجُلِ
باب: عورت کو مرد کے ازار کا کفن

1257 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَنَزَعَ مِنْ حِقْوِهِ إِزَارَهُ وَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ

❁ ترجمہ : ہم سے عبد الرحمن بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابن عون نے خبر دی، انھیں محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کہ تم اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ بھی غسل دے سکتی ہو۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دی نا۔ چنانچہ جب ہم غسل دے چکیں تو آپ کو خبر دی اور آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔

❁ تشریح : ابن بطال نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے


بَابُ يُجْعَلُ الكَافُورُ فِي آخِرِهِ
باب: میت کے غسل میں کافور کا

1258 – حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا – أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ – فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي» قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: «أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ» وَعَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، بِنَحْوِهِ

❁ ترجمہ : ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اور آخر میں کافور یا ( یہ کہاکہ ) کچھ کافورکا بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دینا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیا ن کیا کہ جب ہم فارغ ہو ئے تو ہم نے کہلا بھجوایا۔ آپ نے اپنا تہبند ہمیں دیا اور فرمایا کہ اسے اندر جسم پر لپیٹ دو۔ ایوب نے حفصہ بنت سیرین سے روایت کی، ان سے ام عطیہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔


بَابُ يُجْعَلُ الكَافُورُ فِي آخِرِهِ
باب: میت کے غسل میں کافور کا

1259 وَقَالَتْ: إِنَّهُ قَالَ: «اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ» قَالَتْ حَفْصَةُ: قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَجَعَلْنَا رَأْسَهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یوں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیا دہ غسل دے سکتی ہو۔ حفصہ نے بیان کیا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے ان کے سر کے بال تین لٹوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔


بَابُ نَقْضِ شَعَرِ المَرْأَة
باب: میت عورت ہو تو غسل کے وقت

1260 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَيُّوبُ: وَسَمِعْتُ حَفْصَةَ بِنْتَ سِيرِينَ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «أَنَّهُنَّ جَعَلْنَ رَأْسَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَلاَثَةَ قُرُونٍ نَقَضْنَهُ، ثُمَّ غَسَلْنَهُ، ثُمَّ جَعَلْنَهُ ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیاانہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیاکہ میں نے حفصہ بنت سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے بال کھولے گئے پھر انہیں دھوکر ان کی تین چوٹیاں کر دی گئیں۔


بَابٌ: كَيْفَ الإِشْعَارُ لِلْمَيِّتِ؟
باب: میت پر کپڑا کیون کر لپیٹنا چا ہیے

1261 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَنَّ أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ سِيرِينَ يَقُولُ جَاءَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَتْ الْبَصْرَةَ تُبَادِرُ ابْنًا لَهَا فَلَمْ تُدْرِكْهُ فَحَدَّثَتْنَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي قَالَتْ فَلَمَّا فَرَغْنَا أَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ وَلَا أَدْرِي أَيُّ بَنَاتِهِ وَزَعَمَ أَنَّ الْإِشْعَارَ الْفُفْنَهَا فِيهِ وَكَذَلِكَ كَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَأْمُرُ بِالْمَرْأَةِ أَنْ تُشْعَرَ وَلَا تُؤْزَرَ

❁ ترجمہ : ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ایوب نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں انصار کی ان خواتین میں سے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، ایک عورت آئی، بصرہ میں انہیں اپنے ایک بیٹے کی تلاش تھی۔ لیکن وہ نہ ملا۔ پھر اس نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہوناچاہیے اور آخر میں کافور بھی استعمال کر لینا۔ غسل سے فارغ ہو کر مجھے خبر کرادینا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم غسل دے چکیں ( تو اطلاع دی ) اور آپ نے ازار عنایت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اندر بدن سے لپیٹ دو۔ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ آپ کی کونسی بیٹی تھیں ( یہ ایوب نے کہا ) اور انہوں نے بتایا کہ اشعار کا مطلب یہ ہے یہ اس میں نعش لپیٹ دی جائے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ عورت کے بدن میں اسے لپیٹا جائے ازار کے طور پر نہ باندھا جائے۔


بَابٌ: هَلْ يُجْعَلُ شَعَرُ المَرْأَةِ ثَلاَثَةَ قُرُونٍ؟
باب: کیا عورت میت کے بال تین لٹوں

1262 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ ضَفَرْنَا شَعَرَ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَقَالَ وَكِيعٌ قَالَ سُفْيَانُ نَاصِيَتَهَا وَقَرْنَيْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ام ہذیل نے اور ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے سر کے بال گوندھ کر ان کی تین چوٹیاں کردیں اور وکیع نے سفیان سے یوں روایت کیا، ایک پیشانی کی طرف کے بالوں کی چوٹی اور دوادھر ادھر کے بالوں کی۔


بَابُ يُلْقَى شَعَرُ المَرْأَةِ خَلْفَهَا
باب: عورت کے بالوں کی تین لٹیں بنا کر

✦ كِتَابُ الجَنَائِزِ ✦

کتاب: جنازے کے احکام و مسائل


❁ بَابُ مَا جَاءَ فِي الجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
❁ باب: جس شخص کا آخری کلام

❁ 1237 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الْأَحْدَبُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَانِي آتٍ مِنْ رَبِّي فَأَخْبَرَنِي أَوْ قَالَ بَشَّرَنِي أَنَّهُ مَنْ مَاتَ مِنْ أُمَّتِي لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ قُلْتُ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ قَالَ وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ

❁ ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا کہ ہم سے واصل بن حیان احدب ( کبڑے ) نے، ان سے معرور بن سوید نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ خواب میں ) میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا ( فرشتہ ) آیا۔ اس نے مجھے خبر دی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوش خبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں نے پوچھا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگر چہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر چہ زنا کیا ہواگر چہ چوری کی ہو۔

❁ تشریح : ابن رشید نے کہا احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد ہو کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ یہ کلمہ توحید موت کے وقت پڑھ لے اس کے گزشتہ گناہ ساقط ہو کر معاف ہو جائیں گے اور اخلاص ملتزم توبہ اور ندامت ہے اور اس کلمے کا پڑھنا اس کے لیے نشانی ہو اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس واسطے لائے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں بلکہ اعتقاد اور عمل ضروری ہے۔ اس واسطے کتاب اللباس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں ہے کہ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موت کے وقت کے لیے ہے یااس سے پہلے جب توبہ کرے اور نادم ہو۔ وہیب کے اثر کو مؤلف نے اپنی تاریخ میں موصولاً روایت کیا ہے اور ابو نعیم نے حلیۃ میں ( فتح الباری )


بَابُ مَا جَاءَ فِي الجَنَائِزِ، وَمَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
❁ باب: جس شخص کا آخری کلام 

❁ 1238 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَاتَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ النَّارَ وَقُلْتُ أَنَا مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الْجَنَّةَ

❁ ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تووہ جہنم میں جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں جائے گا۔

❁ تشریح : اس کی مزید وضاحت حدیث انس رضی اللہ عنہ میں موجود ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا اے ابن آدم! اگر تو دنیا بھر کے گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کرے مگر تونے شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس دنیا بھر کی مغفرت لے کر آؤں گا ( رواہ الترمذی ) خلاصہ یہ کہ شرک بدترین گناہ ہے اور توحید اعظم ترین نیکی ہے۔ موحد گنہگار مشرک عبادت گزارسے بہر حال ہزار درجے بہتر ہے۔


❁ بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ
❁ باب: جنازہ میں شریک ہونے کاحکم

1239 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَشْعَثِ قَالَ سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ أَمَرَنَا بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَنَهَانَا عَنْ آنِيَةِ الْفِضَّةِ وَخَاتَمِ الذَّهَبِ وَالْحَرِيرِ وَالدِّيبَاجِ وَالْقَسِّيِّ وَالْإِسْتَبْرَقِ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الثعثاءنے، انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید مقرن سے سنا، وہ براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر یرحمک اللہ کہنے کا اور آپ نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کابرتن ( استعمال میں لانے ) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج ( کے کپڑون کے پہننے ) سے، قسی سے، استبرق سے۔

❁ تشریح : دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قس میں ہیں۔ قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔ یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔ ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔ وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جوزین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔


بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الجَنَائِزِ
باب: جنازہ میں شریک ہونے کاحک

1240 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ رَدُّ السَّلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيضِ وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ وَتَشْمِيتُ الْعَاطِسِ تَابَعَهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ وَرَوَاهُ سَلَامَةُ بْنُ رَوْحٍ عَنْ عُقَيْلٍ

❁ ترجمہ : ہم سے محمدنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، انہوںنے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر ( اس کے الحمد للہ کے جواب میں ) یرحمک اللہ کہنا۔ اس روایت کی متابعت عبد الرزاق نے کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے معمر نے خبر دی تھی۔ اور اس کی روایت سلامہ نے بھی عقیل سے کی ہے۔

❁ تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی حقوق مسلمین میں داخل ہے۔ حافظ نے کہا کہ عبدا لرزاق کی روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اور سلامہ کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں۔


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1241 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ بَكَى فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا 

❁ 1242 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ وَيُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ أَقْبَلَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى فَرَسِهِ مِنْ مَسْكَنِهِ بِالسُّنْحِ حَتَّى نَزَلَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ فَلَمْ يُكَلِّمْ النَّاسَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَتَيَمَّمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسَجًّى بِبُرْدِ حِبَرَةٍ فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ فَقَبَّلَهُ ثُمَّ بَكَى فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَا يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا قَالَ أَبُو سَلَمَةَ فَأَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكَلِّمُ النَّاسَ فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَقَالَ اجْلِسْ فَأَبَى فَتَشَهَّدَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَالَ إِلَيْهِ النَّاسُ وَتَرَكُوا عُمَرَ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى الشَّاكِرِينَ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَهَا حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ فَمَا يُسْمَعُ بَشَرٌ إِلَّا يَتْلُوهَا

❁ ترجمہ : ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

❁ تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1243 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّ أُمَّ الْعَلَاءِ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ بَايَعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ اقْتُسِمَ الْمُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ فَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ فَقُلْتُ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ فَقَالَ أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ الْيَقِينُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الْخَيْرَ وَاللَّهِ مَا أَدْرِي وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ مَا يُفْعَلُ بِي قَالَتْ فَوَاللَّهِ لَا أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ مِثْلَهُ وَقَالَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ عُقَيْلٍ مَا يُفْعَلُ بِهِ وَتَابَعَهُ شُعَيْبٌ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَمَعْمَرٌ

❁ ترجمہ : ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کہا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ ام العلاءانصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انھیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انھیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہو ئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابو سائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالی عزت افزائی کرے گا؟ آپ نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آچکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ!مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاءنے کہا کہ خدا کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق ( اس طرح کی ) گواہی نہیں دوں گی۔ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا اور ان سے لیث نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا، نافع بن یزید نے عقیل سے ( ما یفعل بی کے بجائے ) ما یفعل بہ کے الفاظ نقل کئے ہیں اور اس روایت کی متابعت شعیب، عمرو بن دینار اور معمر نے کی ہے۔اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔

❁ تشریح : اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔ ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔ اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون کو دیکھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ہ میں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔ حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔ کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔ اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہوگیاتھا۔ پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے۔ بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔


بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ
باب: میت کو جب کفن میں لپیٹا

1244 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْمُنْكَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ أَبْكِي وَيَنْهَوْنِي عَنْهُ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَنْهَانِي فَجَعَلَتْ عَمَّتِي فَاطِمَةُ تَبْكِي فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبْكِينَ أَوْ لَا تَبْكِينَ مَا زَالَتْ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رَفَعْتُمُوهُ تَابَعَهُ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتاتھا۔ دوسرے لوگ تومجھے اس سے روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر میری چچی فاطمہ رضی اللہ عنہابھی رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ روؤ یا چپ رہو۔ جب تک تم لوگ میت کو اٹھا تے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اس روایت کی متابعت شعبہ کے ساتھ ابن جریج نے کی، انہیں ابن منکدر نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔

❁ تشریح : منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔ ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جاناکہ جابر رضی اللہ عنہ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔ حدیث سے نکلاکہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔


بَابُ الرَّجُلِ يَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَيِّتِ بِنَفْسِهِ
باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر

1245 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ خَرَجَ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر ( جنازہ کی نماز میں ) چار تکبیریں کہیں۔

❁ تشریح : بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مراتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماءکے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیا تھا فاسد ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاہوگا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ ( وحیدی ) نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم واحمد ونسائی وترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصۃ القائلون بمشروعیۃ الصلوۃ علی الغائب عن البلد قال فی الفتح وبذلک قال الشافعی واحمدوجمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احمد الصحابۃ منعہ قال الشافعی علی المیت دعاءفکیف لا یدعی لہ وھو غائب او فی القبر۔ ( نیل الاوطار ) یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔ نجاشی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔ جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل انہ لم یات المانعون من الصلوۃ علی الغائب بشئی یعتد بہ الخ یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز ودرست ہے تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار ( جلد:3ص55, 56 ) کا مطالعہ کیا جائے۔


بَابُ الرَّجُلِ يَنْعَى إِلَى أَهْلِ المَيِّتِ بِنَفْسِهِ
باب: آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر

 1246 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ الرَّايَةَ زَيْدٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَهَا جَعْفَرٌ فَأُصِيبَ ثُمَّ أَخَذَهَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ فَأُصِيبَ وَإِنَّ عَيْنَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتَذْرِفَانِ ثُمَّ أَخَذَهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ مِنْ غَيْرِ إِمْرَةٍ فَفُتِحَ لَهُ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حمیدبن بلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے۔ ( آپ نے فرمایا ) ا ور پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خود اپنے طور پر جھنڈا اٹھا لیا اور ان کو فتح حاصل ہوئی۔

❁ تشریح : یہ غزوہ موتہ کا واقعہ ہے جو 8ھ میںملک شام کے پاس بلقان کی سر زمین پر ہواتھا۔ مسلمان تین ہزار تھے اور کافر بے شمار، آپ نے زید بن حارثہ کو امیر لشکر بنایا تھا اور فرما دیا تھا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو ان کی جگہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ قیادت کریں اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر عبد اللہ بن رواحہ۔ یہ تینوں سردارشہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید نے ( از خود ) کمان سنبھالی اور ( اللہ نے ان کے ہاتھ پر ) کافروں کو شکست فاش دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے لوٹنے سے پہلے ہی سب خبریں لوگوں کو سنادیں۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزات بھی مذکورہوئے ہیں۔


بَابُ الإِذْنِ بِالْجَنَازَةِ
باب: جنازہ تیار ہو تو لوگوں کو خبر دینا

1247 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَاتَ إِنْسَانٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَمَاتَ بِاللَّيْلِ فَدَفَنُوهُ لَيْلًا فَلَمَّا أَصْبَحَ أَخْبَرُوهُ فَقَالَ مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تُعْلِمُونِي قَالُوا كَانَ اللَّيْلُ فَكَرِهْنَا وَكَانَتْ ظُلْمَةٌ أَنْ نَشُقَّ عَلَيْكَ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہیں ابو معاویہ نے خبر دی، انہیں ابو اسحاق شیبانی نے، انہیں شعبی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص کی وفات ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ جنازہ تیار ہوتے وقت ) مجھے بتانے میں ( کیا ) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔

❁ تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کے نماز جنازہ کے لیے سب کو اطلاع ہونی چاہیے اور اب بھی ایسے مواقع میں جنازہ قبر پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1248 حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ مِنْ مُسْلِمٍ يُتَوَفَّى لَهُ ثَلَاثٌ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ

❁ ترجمہ : ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے، ان سے عبد العزیز نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے اگر تین بچے مر جائیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں تو اللہ تعالی اس رحمت کے نتیجے میں جو ان بچوں سے وہ رکھتا ہے مسلمان ( بچے کے باپ اور ماں ) کو بھی جنت میں داخل کرے گا۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1249 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ النِّسَاءَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اجْعَلْ لَنَا يَوْمًا فَوَعَظَهُنَّ، وَقَالَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ مَاتَ لَهَا ثَلاَثَةٌ مِنَ الوَلَدِ، كَانُوا حِجَابًا مِنَ النَّارِ»، قَالَتِ امْرَأَةٌ: وَاثْنَانِ؟ قَالَ: «وَاثْنَانِ

❁ ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے، ان سے عبدالرحمن بن عبد اللہ اصبہانی نے، ان سے ذکوان نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ عورتوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمیں بھی نصیحت کر نے کے لیے آپ ایک دن خاص فرما دیجےے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی درخواست منظورفرماتے ہوئے ایک خاص دن میں ) ان کو وعظ فرمایا اور بتلایا کہ جس عورت کے تین بچے مر جائیں تو وہ اس کے لیے جہنم سے پناہ بن جاتے ہیں۔ اس پر ایک عورت نے پوچھا، حضور! اگر کسی کے دوہی بچے مریں؟ آپ نے فرمایا کہ دو بچوں پر بھی۔


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1250 وَقَالَ شَرِيكٌ: عَنْ ابْنِ الأَصْبَهَانِيِّ، حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: «لَمْ يَبْلُغُوا الحِنْثَ

❁ ترجمہ : شریک نے اصبہانی سے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو صالح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید نے اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہمانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بھی کہا کہ”وہ بچے مراد ہیں جو بلوغت کو نہ پہنچے ہوں”


بَابُ فَضْلِ مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدٌ فَاحْتَسَبَ وَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ
باب: جس کی کوئی اولاد مرجائے

1251 حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَمُوتُ لِمُسْلِمٍ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ فَيَلِجَ النَّارَ إِلَّا تَحِلَّةَ الْقَسَمِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَإِنْ مِنْكُمْ إِلَّا وَارِدُهَا

❁ ترجمہ : ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کے اگر تین بچے مرجائیں تو وہ دوزخ میں نہیں جائےگا اور اگر جائے گا بھی تو صرف قسم پوری کرنے کے لیے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ( قرآن کی آیت یہ ہے ) تم میں سے ہر ایک کو دوزخ کے اوپر سے گزرنا ہوگا۔

❁ تشریح : نابالغ بچوں کی وفات پر اگر ماں باپ صبر کریں تو اس پر ثواب ملتا ہے۔ قدرتی طور پر اولاد کی موت ماں باپ کے لیے بہت بڑا غم ہے اور اسی لیے اگر کوئی اس پر یہ سمجھ کر صبر کرے کہ اللہ تعالی ہی نے یہ بچہ دیا تھا اور اب اسی نے اٹھالیا تو اس حادثہ کی سنگینی کے مطابق اس پرثواب بھی اتنا ہی ملے گا۔ اس کے گنا ہ معاف ہو جائیں گے۔ اور آخرت میں اس کی جگہ جنت میں ہوگی۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ جہنم سے یوں تر ہر مسلمان کو گزرنا ہوگا لیکن جو مومن بندے اس کے مستحق نہیں ہوں گے، ان کا گزرنا بس ایسا ہی ہوگا جیسے قسم پوری کی جارہی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قرآن مجید کی آیت بھی لکھی ہے۔ بعض علماءنے ا س کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ پل صراط چونکہ ہے ہی جہنم پر اور اس سے ہر انسان کو گزرنا ہوگا۔ اب جو نیک ہے وہ اس سے بآسانی گزر جائے گا لیکن بدعمل یا کافر اس سے گزر نہ سکیں گے اورجہنم میں چلے جائیں گے تو جہنم سے گزر نے سے یہی مرادہے۔ یہاں اس بات کا بھی لحاظ رہے کہ حدیث میں نابالغ اولاد کے مرنے پر اس اجر عظیم کا وعدہ کیا گیا ہے۔ بالغ کا ذکر نہیں ہے حالانکہ بالغ اور خصوصا جوان اولاد کی موت کا سانحہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے ماں باپ کی اللہ تعالی سے شفارس کرتے ہیں۔ بعض روایتوں میں ایک بچے کی موت پر بھی یہی وعدہ موجود ہے۔جہاں تک صبر کا تعلق ہے وہ بہر حال بالغ کی موت پر بھی ملے گا۔ الغرض دوزخ کے اوپر سے گزرنے کا مطلب پل صراط کے اوپر سے گزرناہے جو دوزخ کے پشت پر نصب ہے پس مومن کا دوزخ میں جانا یہی پل صراط کے اوپر سے گزرنا ہے۔آیت شریفہ ( وان منکم الا واردھا ) کا یہی مفہوم ہے۔


بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلْمَرْأَةِ عِنْدَ القَبْرِ: اصْبِرِي
باب: کسی مرد کا عورت سے قبر کے پاس 

1252 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ عِنْدَ قَبْرٍ وَهِيَ تَبْكِي فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي

❁ ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رورہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا س سے فرمایا کہ خدا سے ڈر اور صبر کر۔


بَابُ غُسْلِ المَيِّتِ وَوُضُوئِهِ بِالْمَاءِ وَالسَّدْرِ
باب: میت کو پانی اور بیری کے پتوں سے

1253 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَتْ ابْنَتُهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ

❁ ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبد اللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے محمد بن سیرین نے، ان سے ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ( زینب یا ام کلثوم رضی اللہ عنہما ) کی وفات ہوئی آپ وہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل کے پانی میںبیری کے پتے ملا لو اور آخر میں کافور یا ( یہ کہا کہ ) کچھ کافور کا استعمال کر لینا اور غسل سے فارغ ہونے پر مجھے خبر دے دینا۔ چنا نچہ ہم نے جب غسل دے لیا تو آپ کو خبر دیدی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنا ازار دیا اور فرمایا کہ اسے ان کی قمیص بنا دو۔ آپ کی مراد اپنے ازار سے تھی۔

❁ تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب باب یہ ہے کہ مومن مرنے سے ناپاک نہیں ہو جاتا اور غسل محض بدن کو پاک صاف کرنے کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس لیے غسل کے پانی میں بیر کے پتوں کا ڈالنا مسنون ہوا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثر کو امام مالک نے مؤطا میں وصل کیا۔ اگر مردہ نجس ہوتا تو عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس کونہ چھوتے نہ اٹھاتے اگر چھوتے تو اپنے اعضاءکو دھوتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے اس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیاکہ جو میت کو نہلائے وہ غسل کرے اور جو اٹھا ئے وہ وضوکرے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کو سعید بن منصور نے سند صحیح کے ساتھ وصل کیا اور یہ کہ “مومن نجس نہیں ہوتا”اس روایت کو مرفوعاً خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الغسل میں روایت کیا ہے اور سعد بن ابی وقاص کے قول کو ابن ابی شیبہ نے نکالا کہ سعد رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید کے مرنے کی خبر ملی۔ وہ گئے اور ان کو غسل اور کفن دیا، خوشبو لگائی اور گھر میں آکر غسل کیا اور کہنے لگے کہ میں نے گرمی کی وجہ سے غسل کیا ہے نہ کہ مردے کو غسل دینے کی وجہ سے۔ اگر وہ نجس ہوتا تو میں اسے ہاتھ ہی کیوں لگا تا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اپنا ازار تبرک کے طور پر عنایت فرمایا۔ اس لیے ارشاد ہوا کہ اسے قمیص بنا دو کہ یہ ان کے بدن مبارک سے ملا رہے۔ جمہور کے نزدیک میت کو غسل دلانا فرض ہے۔


بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يُغْسَلَ وِتْرًا
باب: میت کو طاق مرتبہ غسل دینا مستحب ہے

1254 حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ فَقَالَ أَيُّوبُ وَحَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ بِمِثْلِ حَدِيثِ مُحَمَّدٍ وَكَانَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ اغْسِلْنَهَا وِتْرًا وَكَانَ فِيهِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا وَكَانَ فِيهِ أَنَّهُ قَالَ ابْدَءُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا وَكَانَ فِيهِ أَنَّ أُمَّ عَطِيَّةَ قَالَتْ وَمَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : ہم سے محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوہاب ثقفی نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دو یا اس سے بھی زیادہ، پانی اور بیر کے پتوں سے اور آخر میں کافور بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہو کر مجھے خبر دے دینا۔ جب ہم فارغ ہوئے تو آپ کو خبر کر دی۔ آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ یہ اندر اس کے بدن پر لپیٹ دو۔ایوب نے کہا کہ مجھ سے حفصہ نے بھی محمد بن سیرین کی حدیث کی طرح بیان کیاتھا۔ حفصہ کی حدیث میں تھا کہ طاق مرتبہ غسل دینا اور اس میں یہ تفصیل تھی کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ ( غسل دینا ) اور اس میں یہ بھی بیان تھا کہ میت کے دائیں طرف سے اعضاءوضو سے غسل شروع کیا جائے۔ یہ بھی اسی حدیث میں تھا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے کنگھی کر کے ان کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

❁ تشریح : معلوم ہوا کہ عورت کے سر میں کنگھی کر کے اس کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ کر پیچھے ڈال دیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔


بَابُ يُبْدَأُ بِمَيَامِنِ المَيِّتِ
باب: غسل میت کی دائیں طرف سے

1255 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَسْلِ ابْنَتِهِ ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کے غسل کے وقت فرمایا تھا کہ دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے غسل شروع کرنا۔

❁ تشریح : ہر اچھاکام دائیں طرف سے شروع کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں


بَابُ مَوَاضِعِ الوُضُوءِ مِنَ المَيِّتِ
باب: پہلے میت کے اعضاء وضو کو دھویا جائے

1256 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا غَسَّلْنَا بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا وَنَحْنُ نَغْسِلُهَا ابْدَءُوا بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے خالدحذاءنے، ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو ہم غسل دے رہی تھیں۔ جب ہم نے غسل شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غسل دائیں طرف سے اور اعضاءوضو سے شروع کرو۔

❁ تشریح : اس سے معلوم ہوا کہ پہلے استنجا وغیرہ کرا کے وضو کرایا جائے اور کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ثابت ہوا پھر غسل دلایا جائے اور غسل دائیں طرف سے شروع کیا جائے۔


بَابُ هَلْ تُكَفَّنُ المَرْأَةُ فِي إِزَارِ الرَّجُلِ
باب: عورت کو مرد کے ازار کا کفن

1257 حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمَّادٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ تُوُفِّيَتْ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَنَا اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَنَزَعَ مِنْ حِقْوِهِ إِزَارَهُ وَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ

❁ ترجمہ : ہم سے عبد الرحمن بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابن عون نے خبر دی، انھیں محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا کہ تم اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ مرتبہ بھی غسل دے سکتی ہو۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دی نا۔ چنانچہ جب ہم غسل دے چکیں تو آپ کو خبر دی اور آپ نے اپنا ازار عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔

❁ تشریح : ابن بطال نے کہا کہ اس کے جواز پر اتفاق ہے اور جس نے یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور تھی دوسروں کو ایسا نہ کرنا چاہیے اس کا قول بے دلیل ہے


بَابُ يُجْعَلُ الكَافُورُ فِي آخِرِهِ
باب: میت کے غسل میں کافور کا

1258 – حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الآخِرَةِ كَافُورًا – أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ – فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي» قَالَتْ: فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: «أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ» وَعَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، بِنَحْوِهِ

❁ ترجمہ : ہم سے حامد بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ اسے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ پانی اور بیری کے پتوں سے نہلاؤ اور آخر میں کافور یا ( یہ کہاکہ ) کچھ کافورکا بھی استعمال کرنا۔ پھر فارغ ہوکر مجھے خبر دینا۔ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیا ن کیا کہ جب ہم فارغ ہو ئے تو ہم نے کہلا بھجوایا۔ آپ نے اپنا تہبند ہمیں دیا اور فرمایا کہ اسے اندر جسم پر لپیٹ دو۔ ایوب نے حفصہ بنت سیرین سے روایت کی، ان سے ام عطیہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔


بَابُ يُجْعَلُ الكَافُورُ فِي آخِرِهِ
باب: میت کے غسل میں کافور کا

1259 وَقَالَتْ: إِنَّهُ قَالَ: «اغْسِلْنَهَا ثَلاَثًا، أَوْ خَمْسًا أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّ» قَالَتْ حَفْصَةُ: قَالَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَجَعَلْنَا رَأْسَهَا ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے اس روایت میں یوں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین یا پانچ یا سات مرتبہ یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیا دہ غسل دے سکتی ہو۔ حفصہ نے بیان کیا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نے ان کے سر کے بال تین لٹوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔


بَابُ نَقْضِ شَعَرِ المَرْأَة
باب: میت عورت ہو تو غسل کے وقت

1260 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَيُّوبُ: وَسَمِعْتُ حَفْصَةَ بِنْتَ سِيرِينَ، قَالَتْ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: «أَنَّهُنَّ جَعَلْنَ رَأْسَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَلاَثَةَ قُرُونٍ نَقَضْنَهُ، ثُمَّ غَسَلْنَهُ، ثُمَّ جَعَلْنَهُ ثَلاَثَةَ قُرُونٍ

❁ ترجمہ : ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیاانہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے ایوب نے بیان کیاکہ میں نے حفصہ بنت سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے بالوں کو تین لٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے بال کھولے گئے پھر انہیں دھوکر ان کی تین چوٹیاں کر دی گئیں۔


بَابٌ: كَيْفَ الإِشْعَارُ لِلْمَيِّتِ؟
باب: میت پر کپڑا کیون کر لپیٹنا چا ہیے

1261 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ أَنَّ أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ سِيرِينَ يَقُولُ جَاءَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مِنْ اللَّاتِي بَايَعْنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَتْ الْبَصْرَةَ تُبَادِرُ ابْنًا لَهَا فَلَمْ تُدْرِكْهُ فَحَدَّثَتْنَا قَالَتْ دَخَلَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَغْسِلُ ابْنَتَهُ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي قَالَتْ فَلَمَّا فَرَغْنَا أَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ وَلَا أَدْرِي أَيُّ بَنَاتِهِ وَزَعَمَ أَنَّ الْإِشْعَارَ الْفُفْنَهَا فِيهِ وَكَذَلِكَ كَانَ ابْنُ سِيرِينَ يَأْمُرُ بِالْمَرْأَةِ أَنْ تُشْعَرَ وَلَا تُؤْزَرَ

❁ ترجمہ : ہم سے احمد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، انہیں ایوب نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابن سیرین سے سنا، انہوں نے کہا کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے یہاں انصار کی ان خواتین میں سے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، ایک عورت آئی، بصرہ میں انہیں اپنے ایک بیٹے کی تلاش تھی۔ لیکن وہ نہ ملا۔ پھر اس نے ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں کہ آپ تشریف لائے اور فرمایا کہ تین یا پانچ مرتبہ غسل دے دو اور اگر مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ دے سکتی ہو۔ غسل پانی اور بیری کے پتوں سے ہوناچاہیے اور آخر میں کافور بھی استعمال کر لینا۔ غسل سے فارغ ہو کر مجھے خبر کرادینا۔ انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم غسل دے چکیں ( تو اطلاع دی ) اور آپ نے ازار عنایت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے اندر بدن سے لپیٹ دو۔ اس سے زیادہ آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ آپ کی کونسی بیٹی تھیں ( یہ ایوب نے کہا ) اور انہوں نے بتایا کہ اشعار کا مطلب یہ ہے یہ اس میں نعش لپیٹ دی جائے۔ ابن سیرین رحمہ اللہ بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ عورت کے بدن میں اسے لپیٹا جائے ازار کے طور پر نہ باندھا جائے۔


بَابٌ: هَلْ يُجْعَلُ شَعَرُ المَرْأَةِ ثَلاَثَةَ قُرُونٍ؟
باب: کیا عورت میت کے بال تین لٹوں

1262 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ ضَفَرْنَا شَعَرَ بِنْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعْنِي ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَقَالَ وَكِيعٌ قَالَ سُفْيَانُ نَاصِيَتَهَا وَقَرْنَيْهَا

❁ ترجمہ : ہم سے قبیصہ نے حدیث بیان کی، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ام ہذیل نے اور ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے سر کے بال گوندھ کر ان کی تین چوٹیاں کردیں اور وکیع نے سفیان سے یوں روایت کیا، ایک پیشانی کی طرف کے بالوں کی چوٹی اور دوادھر ادھر کے بالوں کی۔


بَابُ يُلْقَى شَعَرُ المَرْأَةِ خَلْفَهَا
باب: عورت کے بالوں کی تین لٹیں بنا کر

1263 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا حَفْصَةُ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا بِالسِّدْرِ وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَضَفَرْنَا شَعَرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَأَلْقَيْنَاهَا خَلْفَهَا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حفصہ نے بیان کیا، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے لو۔ اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہو اور ا ٓخر میں کافور یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ ) تھوڑی سی کافور استعمال کرو پھر جب غسل دے چکو تو مجھے خبر دو۔ چنانچہ فارغ ہو کر ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے ( ان کے کفن کے لیے ) اپنا ازار عنایت کیا۔ ہم نے اس کے سر کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے کی طرف ڈال دیا تھا۔

تشریح : صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم دیا تھا کہ بالوں کی تین چوٹیاں کردو۔ اس حدیث سے میت کے بالوں کا گوندھنا بھی ثابت ہوا


بَابُ الثِّيَابِ البِيضِ لِلْكَفَنِ
باب: کفن کے لیے سفید کپڑے ہونے مناسب ہیں

1264 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ يَمَانِيَةٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَيْسَ فِيهِنَّ قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبد اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ( ان کی خالہ ) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کے تین سفید سوتی دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔

تشریح : بلکہ ایک ازار تھی ایک چادر ایک لفافہ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں عمامہ باندھنا بدعت ہے۔ حنابلہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل نے اس کو مکروہ رکھا ہے اور شافعیہ نے قمیص اور عمامہ کا بڑھانا بھی جائز رکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔ ترمذی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ زندگی بھی شادی غمی کے رسوم اور بدعات میں گرفتار رہتے ہیں اور مرتے وقت بھی بیچاری میت کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کہیں کفن خلاف سنت کرتے ہیں کہیں لفافہ کے اوپر ایک چادر ڈالتے ہیں کہیں میت پر شامیانہ تانتے ہیں، کہیں تیجا دسواں چہلم کرتے ہیں۔ کہیں قبرمیں پیری مریدی کا شجر رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کا چراغ جلاتے ہیں۔ کہیں صندل شیرینی چادر چڑھاتے ہیں۔ کہیں قبر پر میلہ اور مجمع کر تے ہیں اور اس کا نام عرس رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کو پختہ کرتے ہیں، اس پر عمارت اور گنبد اٹھاتے ہیں۔ یہ سب امور بدعت اور ممنوع ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی آنکھیں کھولے اور ان کو نیک توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین ( وحیدی ) روایت میں کفن نبوی کے متعلق لفظ ’سحولیۃ” آیا ہے۔ جس کی تشریح علامہ شوکانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ سحولیۃ بضم المھملتین ویروی بفتح اولہ نسبۃ الی سحول قریۃ بالیمن قال النووی والفتح اشھر وھو روایۃ الاکثرین قال ابن الاعرابی وغیرہ ھی ثیاب بیض نقیۃ لا تکون الامن القطن وقال ابن قتیبۃ ثیاب بیض ولم یخصھا بالقطن وفی روایۃ للبخاری “سحول” بدون نسبۃ وھو جمع سحل والسحل الثوب الا بیض النقی ولا یکون الامن قطن کما تقدم وقال الازھری بالفتح المدینۃ وبالضم الثیاب وقیل النسبۃ الی القریۃ بالضم واما بالفتح فنسبۃ الی القصار لانہ یسحل الثیاب ای ینقیھا کذا فی الفتح۔ ( نیل الاوطار، جلد:3ص:40 ) خلاصہ یہ کہ لفظ “سحولیہ” سین اورحاءکے ضمہ کے ساتھ ہے اور سین کا فتح بھی روایت کیا گیا ہے۔ جو ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو یمن میں واقع تھا۔ ابن اعرابی وغیرہ نے کہا کہ وہ سفید صاف ستھرا کپڑا ہے جو سوتی ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں لفظ “سحول”آیا ہے جو سحل کی جمع ہے اور وہ سفید دھلا ہو اکپڑا ہوتا ہے۔ ازہری کہتے ہیں کہ سحول سین کے فتح کے ساتھ شہر مراد ہوگا اور ضمہ کے ساتھ دھوبی مراد ہوگا جوکپڑے کو دھو کر صاف شفاف بنا دیتا ہے۔


بَابُ الكَفَنِ فِي ثَوْبَيْنِ
باب: دو کپڑوں میں کفن دینا

1265 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے حماد نے، ان سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا ( وقصتہ کے بجائے یہ لفظ ) او قصتہ کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سرچھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔

❁ تشریح : ثابت ہوا کہ محرم کو دو کپڑوں میں دفنایا جائے۔ کیونکہ وہ حالت احرام میں ہے اور محرم کے لیے احرام کی صرف دو ہی چادریں ہیں، برخلاف ا س کے دیگر مسلمانوں کے لیے مرد کے لیے تین چادریں اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔


بَابُ الحَنُوطِ لِلْمَيِّتِ
باب: میت کو خوشبو لگانا

1266 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَأَقْصَعَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَقْعَصَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفہ میں وقوف کئے ہوئے تھا کہ وہ اپنے اونٹ سے گر پڑا اور اونٹ نے انہیں کچل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، خوشبو نہ لگاؤ اور نہ سر ڈھکو کیونکہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔

❁ تشریح : محرم کو خوشبو نہ لگائی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر محرم میت کو خوشبو لگانی چاہیے۔ باب کامقصد یہی ہے۔ محرم کو خوشبو کے لیے اس واسطے منع فرمایا کہ وہ حالت احرام ہی میں ہے اور قیامت میں اس طرح لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا اور ظاہر ہے کہ محرم کو حالت احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔


بَابٌ: كَيْفَ يُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟
باب: محرم کو کیونکر کفن دیا جائے

❁ 1267 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا وفی نسخة ملبدا

ترجمہ : ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی، انہیں ابو بشر جعفر نے، انہیں سعید بن جبیر نے، انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھے کہ ایک شخص کی گردن اس کے اونٹ نے توڑ ڈالی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے دو اور کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ ان کے سر کو ڈھکو۔ اس لیے کہ اللہ تعالی انہیں اٹھائےگا۔ اس حالت میں کہ وہ لبیک پکار تاہوگا۔


بَابٌ: كَيْفَ يُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟
باب: محرم کو کیونکر کفن دیا جائے

1268 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرٍو وَأَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ كَانَ رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَوَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ قَالَ أَيُّوبُ فَوَقَصَتْهُ وَقَالَ عَمْرٌو فَأَقْصَعَتْهُ فَمَاتَ فَقَالَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَيُّوبُ يُلَبِّي وَقَالَ عَمْرٌو مُلَبِّيًا
ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو اور ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا، اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ایوب نے کہا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی۔ اور عمرو نے یوں کہا کہ اونٹنی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ سر ڈھکو کیونکہ قیامت میں یہ اٹھا یا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ ( یعنی ) تلبیہ کہتے ہوئے ( اٹھا یا جائے گا ) اور عمرونے ( اپنی روایت میں ملبی کے بجائے ) ملبیا کا لفظ نقل کیا۔ ( یعنی لبیک کہتا ہوا اٹھے گا )
تشریح : معلوم ہوا کہ محرم مر جائے تو اس کا احرام باقی رہے گا۔ شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے

بَابُ الكَفَنِ فِي القَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ
باب: قمیص میں کفن دینا

1269 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ فَقَالَ آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ فَآذَنَهُ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَلَيْسَ اللَّهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ قَالَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے کہا کہ مجھ سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا ( عبداللہ صحابی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والدکے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص ( غایت مروت کی وجہ سے ) عنایت کی اور فرما یا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا ۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پیچھے سے پکڑلیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالی نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیساکہ ارشاد باری ہے ” تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو سترمرتبہ بھی استغفار کر ے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا “ چنانچہ نبی کری صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ” کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا “


بَابُ الكَفَنِ فِي القَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ
باب: قمیص میں کفن دینا

1270 حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا دُفِنَ فَأَخْرَجَهُ فَنَفَثَ فِيهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ

ترجمہ : ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرونے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبد اللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن ا سکے منہ میں ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی۔

تشریح : عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔ ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنچادیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔ ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم ( التوبہ: 80 ) نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ بعد میں آیت ولا تصل علي احد منہم ( التوبہء84 ) نازل ہوئی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔ پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے


بَابُ الكَفَنِ بِغَيْرِ قَمِيصٍ 
باب: بغیر قمیص کے کفن دینا

1271 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابِ سُحُولٍ كُرْسُفٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے‘ ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سوتی دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دیا گیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ۔


بَابُ الكَفَنِ بِغَيْرِ قَمِيصٍ
باب: بغیر قمیص کے کفن دینا

1272 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قال ابو عبدالله ابو نعيم لا يقول ثلاثة و عبدالله بن الوليد عن سفيان يقول ثلاثة

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحیٰی ٰ نے‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے لفظ ثلاثہ نہیں کہا اور عبداللہ بن ولید نے سفیان سے لفظ ثلاثہ نقل کیا ہے۔


بَابُ الكَفَنِ بِلاَ عِمَامَةٍ
باب: عمامہ کے بغیر کفن دینے کا بیان

1273 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سحول کے تین سفید کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا نہ ان میں قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ چوتھا کپڑا نہ تھا۔ قسطلانی نے کہا امام شافعی رحمہ اللہ نے قمیص پہنانا جائز رکھا ہے مگر اس کو سنت نہیں سمجھا اور ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ہے جسے بیہقی نے نکالا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا۔ تین لفافے اور ایک قمیص اور ایک عمامہ لیکن شرح مہذب میں ہے کہ قمیص اور عمامہ نہ ہو۔ اگرچہ قمیص اور عمامہ مکروہ نہیں مگر اولیٰ کے خلاف ہے ( وحیدی ) بہتر یہی ہے کہ صرف تین چادروں میں کفن دیا جائے۔


بَابٌ: الكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ المَالِ
باب: کفن کی تیاری میت کے سارے مال

1274 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا بِطَعَامِهِ فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ وَقُتِلَ حَمْزَةُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ خَيْرٌ مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي

ترجمہ : ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے‘ ان سے ان کے باپ سعد نے اور ان سے ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ( غزوئہ احد میں ) شہید ہوئے‘ وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہوسکی۔ اسی طرح جب حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا‘ وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونے لگے۔

تشریح : امام المحدثین رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میت قرض دار ہوتو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ سترپوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قریشی جلیل القدر صحابی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن ومبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جب کہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش وآرام میں زیب وزینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُو اللّٰہَ عَلَیہِ ( الاحزاب: 23 ) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ وارضاہ )


بَابُ إِذَا لَمْ يُوجَدْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ
باب: اگر میت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے

1275 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِطَعَامٍ وَكَانَ صَائِمًا فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي كُفِّنَ فِي بُرْدَةٍ إِنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ وَإِنْ غُطِّيَ رِجْلَاهُ بَدَا رَأْسُهُ وَأُرَاهُ قَالَ وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنْ الدُّنْيَا مَا بُسِطَ أَوْ قَالَ أُعْطِينَا مِنْ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمن نے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آسکی کہ اگر اس سے ان کا سرڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سرکھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ( اسی طرح ) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔

تشریح : حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ‘ وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاءکو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔ رضی اللہ عنہ وار ضاہ


بَابُ إِذَا لَمْ يَجِدْ كَفَنًا إِلَّا مَا يُوَارِي رَأْسَهُ، أَوْ قَدَمَيْهِ غَطَّى رَأْسَهُ
باب: جب کفن کا کپڑا چھوٹا ہو کہ سر اور پاؤں

1276 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ حَدَّثَنَا خَبَّابٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَلْتَمِسُ وَجْهَ اللَّهِ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ مَا نُكَفِّنُهُ إِلَّا بُرْدَةً إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّيَ رَأْسَهُ وَأَنْ نَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنْ الْإِذْخِرِ

 ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شقیق نے بیان کیا‘ کہا ہم سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اللہ کے لیے ہجرت کی۔ اب ہمیں اللہ تعالیٰ سے اجر ملنا ہی تھا۔ ہمارے بعض ساتھی تو انتقال کرگئے اور ( اس دنیا میں ) انہوں نے اپنے کئے کا کوئی پھل نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے اور ہمارے بعض ساتھیوں کا میوہ پک گیا اور وہ چن چن کر کھاتا ہے۔ ( مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ) احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہم کو ان کے کفن میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی اور وہ بھی ایسی کہ اگر اس سے سر چھپاتے ہیں تو پاؤں کھل جاتا ہے اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سرکھل جاتا۔ آخر یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سرکو چھپا دیں اور پاؤں پر سبز گھاس اذ خرنامی ڈال دیں۔

تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا کفن جب ناکافی رہا تو ان کے پیروں کو اذخرنامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا


بَابُ مَنِ اسْتَعَدَّ الكَفَنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ
باب: جس نےاپنا کفن خود ہی تیار رکھا

1277 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ، فِيهَا حَاشِيَتُهَا»، أَتَدْرُونَ مَا البُرْدَةُ؟ قَالُوا: الشَّمْلَةُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: نَسَجْتُهَا بِيَدِي فَجِئْتُ لِأَكْسُوَكَهَا، «فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ»، فَحَسَّنَهَا فُلاَنٌ، فَقَالَ: اكْسُنِيهَا، مَا أَحْسَنَهَا، قَالَ القَوْمُ: مَا أَحْسَنْتَ، لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ، وَعَلِمْتَ أَنَّهُ لاَ يَرُدُّ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ( حاضرین سے ) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ ( تم نے ٹھیک بتایا ) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بناہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طورپر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب ( عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے ( مانگ کر ) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔

تشریح : گویا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کفن مہیا کرلیا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مخیر معتمد بزرگ سے کسی واقعی ضرورت کے موقع پر جائز سوال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی احادیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرکے جو آج کے پیروں کا تبرک حاصل کیا جاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات اور معجزات میں سے ہیں اور آپ ذریعہ خیروبرکت ہیں کوئی اور نہیں۔


بَابُ اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الجَنَائِزَ

باب: عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا کیسا ہے؟


1278 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا

ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے خالد حذاءنے‘ ان سے ام ہذیل حفصہ بنت سیرین نے‘ ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں ( عورتوں کو ) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔

تشریح : بہر حال عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔ کیونکہ عورتیں ضعیف القلب ہوتی ہیں۔ وہ خلاف شرع حرکات کرسکتی ہیں۔ شارع کی اور بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا
باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ

1279 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ تُوُفِّيَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ فَتَمَسَّحَتْ بِهِ وَقَالَتْ نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ

ترجمہ : ہم سے مسددبن مسرہد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے بشربن مفضل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سلمہ بن علقمہ نے اور ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا
باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ

1280 حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ قَالَتْ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ أَبِي سُفْيَانَ مِنْ الشَّأْمِ دَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِصُفْرَةٍ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ فَمَسَحَتْ عَارِضَيْهَا وَذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ إِنِّي كُنْتُ عَنْ هَذَا لَغَنِيَّةً لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب بن موسیٰ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن نافع نے زینب بنت ابی سلمہ سے خبر دی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر جب شام سے آئی تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ( ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین ) نے تیسرے دن صفرہ ( خوشبو ) منگوا کر اپنے دونوں رخساروں اور بازوؤں پر ملا اور فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ تو مجھے اس وقت اس خوشبو کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔

تشریح : جب کہ میں خود رانڈ بیوہ اوربڑھیا ہوں، میں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے خیال سے خوشبو کا استعمال کرلیا۔ قال بن حجر ہو وہم لانہ مات بالمدینۃ بلا خلاف وانما الذی مات بالشام اخوہا یزید بن ابی سفیان والحدیث فی مسندی ابن ابی شیبۃ والدارمی بلفظ جاءنعی لا خی ام حبیبۃ اوحمیم لہا ولا حمد نحوہ فقوی کو نہ اخاہا یعنی علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ وہم ہے۔ اس لیے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال بلا اختلاف مدینہ میں ہوا ہے۔ شام میں انتقال کرنے والے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان تھے۔ مسند ابن ابی شیبہ اور دارمی اورمسند احمد وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ صرف بیوی اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے اور کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی کے خاوند پر اتنا سوگ کرنے کی صورت میں بھی بہت سے اسلامی مصالح پیش نظر ہیں۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا
باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ

1281 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن عمروبن حزم نے‘ ان سے حمید بن نافع نے‘ ان کو زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے شوہر کے سوا کسی مردے پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے۔ ہاں شوہر پر چار مہینے دس دن تک سوگ منائے۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا
باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ

1282 ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَّتْ بِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ يَقُولُ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : پھر میں حضرت زینب بنت حجش کے یہاں گئی جب کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوا‘ انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے لگایا‘ پھر فرمایا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کسی بھی عورت کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو‘ جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ لیکن شوہر کا سوگ ( عدت ) چار مہینے دس دن تک کرے۔


بَابُ زِيَارَةِ القُبُورِ
باب: قبرروں کی زیارت کرنا

1283 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي قَالَتْ إِلَيْكَ عَنِّي فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔ ( اب کیا ہوتا ہے )

تشریح : مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ “میں نے تمہیں قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا‘ لیکن اب کرسکتے ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ممانعت تھی اور پھر بعد میں اس کی اجازت مل گئی۔” دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ قبروں پر جایا کرو کہ اس سے موت یاد آتی ہے یعنی اس سے آدمی کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ “اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو قبروں کی بہت زیارت کرتی ہیں۔” اس کی شرح میں قرطبی نے کہا کہ یہ لعنت ان عورتوں پر ہے جو رات دن قبروں ہی میں پھرتی رہیں اور خاوندوں کے کاموں کا خیال نہ رکھیں، نہ یہ کہ مطلق زیارت عورتوں کو منع ہے۔ کیونکہ موت کو یاد کرنے میں مرد عورت دونوں برابر ہیں۔ لیکن عورتیں اگر قبرستان میں جاکر جزع فزع کریں اور خلاف شرع امور کی مرتکب ہوں تو پھر ان کے لیے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہوگی۔ علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں: ان زیارۃ القبور مکروہ للنساءبل حرام فی ہذا الزمان ولا سیما نساءمصر یعنی حالات موجودہ میں عورتوں کے لیے زیارت قبور مکروہ بلکہ حرام ہے خاص طور پر مصری عورتوں کے لیے۔ یہ علامہ نے اپنے حالات کے مطابق کہا ہے ورنہ آج کل ہر جگہ عورتوں کا یہی حال ہے۔ مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف نہیں بیان کیا کہ قبروں کی زیارت جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں اختلاف ہے اور جن حدیثوں میں زیارت کی اجازت آئی ہے وہ ان کی شرط پر نہ تھیں، مسلم نے مرفوعاً نکالا “میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد پیدا ہوتی ہے۔” ( وحیدی ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث یہاں نقل فرمائی ہے اس سے قبروں کی زیارت یوں ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو وہاں رونے سے منع فرمایا۔ مطلق زیارت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ اسی سے قبروں کی زیارت ثابت ہوئی۔ مگر آج کل اکثر لوگ قبرستان میں جاکر مردوں کا وسیلہ تلاش کرتے اور بزرگوں سے حاجت طلب کرتے ہیں۔ ان کی قبروں پر چادر چڑھاتے پھول ڈالتے ہیں وہاں جھاڑو بتی کا انتظام کرتے اورفرش فروش بچھاتے ہیں۔ شریعت میں یہ جملہ امور ناجائز ہیں۔ بلکہ ایسی زیارات قعطاً حرام ہیں جن سے اللہ کی حدود کو توڑا جائے اور وہاں خلاف شریعت کام کئے جائیں۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1284 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ وَمُحَمَّدٌ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا فَقَالَ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ

ترجمہ : ہم سے عبد ان اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو عاصم بن سلیمان نے خبر دی ‘ انہیں ابوعثمان عبدالرحمن نہدی نے‘ کہا کہ مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ( حضرت زینب رضی اللہ عنہ ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے کے لیے اٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد بن عبادہ‘ معاذ بن جبل‘ ابی بن کعب‘ زیدبن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا۔ جس کی جانکنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جیسے پُرانا مشکیزہ ہوتا ہے ( اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی ) یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ( نیک ) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔

تشریح : اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف رحمہ اللہ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں لاَ تَزِرُ وَازِرَۃ وِّزرَ اُخرٰی ( الانعام : 164 ) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پیش نظریہ حدیث تھی “میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے”۔ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کررہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماءنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ علماءنے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں انہیں حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ “تشریح” میں نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ قوآ انفسکم واہليکم ناراً ( التحریم:6 ) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے‘ اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا‘ تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا‘ تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ “کوئی شخص اگر ظلماً ( ظالمانہ طور پر ) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) پر عائد ہوتی ہے۔” قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کی تھی‘ اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آسکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔” جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ( تفہیم البخاری ) نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کردیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے‘ وہی ٹھیک ہے


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1285 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ شَهِدْنَا بِنْتًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ قَالَ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ قَالَ فَقَالَ هَلْ مِنْكُمْ رَجُلٌ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَنَا قَالَ فَانْزِلْ قَالَ فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ( حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ ( وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔

تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں اتارا۔ ایسا کرنے سے ان کو تنبیہ کرنا منظور تھی۔ کہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شب میں جس میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہانے انتقال فرمایا ایک لونڈی سے صحبت کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ کام پسند نہ آیا ( وحیدی ) حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے آپ کا عقد فرما دیا جن کے انتقال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اسے بھی عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے عقد میں دیتا۔ اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جو وقعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی وہ ظاہر ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1286 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا – أَوْ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ [ص:80] عُثْمَانَ: أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عبد ان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی ( ام ابان ) کا مکہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمروبن عثمان سے کہا ( جو ام ابان کے بھائی تھے ) رونے سے کیوں نہیں روکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1287 – فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: قَدْ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ، فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلاَءِ الرَّكْبُ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ: وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا صُهَيْبُ، أَتَبْكِي عَلَيَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ

ترجمہ : اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی تائید کی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر آپ بیان کرنے لگے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے چلا جب ہم بیداءتک پہنچے تو سامنے ایک ببول کے درخت کے نیچے چند سوار نظر پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جاکر دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا تو صہیب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر جب اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ میں صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا کہ چلئے امیرالمؤمنین بلاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوئے۔ ( خیریہ قصہ تو ہوچکا ) پھر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ وہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی! ہائے میرے صاحب! اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صہیب رضی اللہ عنہ! تم مجھ پر روتے ہو‘ تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میت پر اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1288 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ: حَسْبُكُمُ القُرْآنُ: {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رحمت عمر پر ہو۔ بخدارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ “ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ ” اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت ( یعنی ام ابان کے جنازے میں ) سورئہ نجم کی یہ آیت پڑھی “ اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رُلاتا ہے۔ ” ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ابن عباس کی یہ تقریر سن کر ابن عمررضی اللہ عنہما نے کچھ جواب نہیں دیا۔

تشریح : یہ آیت سورۃ فاطر میں ہے۔ مطلب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کسی شخص پر غیر کے فعل سے سزانہ ہوگی مگر ہاں جب اس کو بھی اس فعل میں ایک طرح کی شرکت ہو۔ جیسے کسی کے خاندان کی رسم رونا پیٹنا نوحہ کرنا ہو اور وہ اس سے منع نہ کر جائے تو بے شک اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوگا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر محمول ہے کہ جب میت نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے۔ بعضوں نے کہا کہ عذاب سے یہ مطلب ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کی تائید کی ہے حدیث لاتقتل نفس کو خود امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دیات وغیرہ میں وصل کیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ ناحق خون کوئی اور بھی کرتا ہے تو قابیل پر اس کے گناہ کا ایک حصہ ڈالا جاتا ہے اور اس کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ اس نے ناحق خون کی بنا سب سے پہلے قائم کی تو اسی طرح جس کے خاندان میں نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے کی رسم ہے اور اس نے منع نہ کیا تو کیا عجب ہے کہ نوحہ کرنے والوں کے گناہ کا ایک حصہ اس پر بھی ڈالا جائے اور اس کو عذاب ہو۔ ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1289 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جارہا ہے۔

تشریح : اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب رضی اللہ عنہ پر انکار کیا۔ ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1290 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ وَهْوَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَعَلَ صُهَيْبٌ يَقُولُ وَا أَخَاهُ فَقَالَ عُمَرُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا‘ ان سے علی بن مسہر نے بیان کیا‘ ان سے ابواسحاق شیبانی نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ان کے والد ابوموسیٰ اشعری نے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ کو زخمی کیا گیا تو صہیب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے آئے‘ ہائے میرے بھائی! اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے۔


تشریح : شوکانی نے کہا کہ رونا اور کپڑے پھاڑنا اور نوحہ کرنا یہ سب کام حرام ہیں ایک جماعت سلف کا جن میں حضرت عمر اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ہیں یہ قول ہے کہ میت کے لوگوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اور جمہور علماءاس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ عذاب اسے ہوتا ہے جو رونے کی وصیت کرجائے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقاً یہ ثابت ہوا کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو مانا اور سن لیا۔ اس پر ہم کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے وہ رونا پکار کر رونا اور نوحہ کرنا ہے نہ کہ صرف آنسو بہانا۔ ( وحیدی )


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى المَيِّتِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1291 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عبیدنے‘ ان سے علی بن ربیعہ نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا کہ کسی میت پر اگر نوحہ وماتم کیا جائے تو اس نوحہ کی وجہ سے بھی اس پر عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى المَيِّتِ
باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے

1292 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ تَابَعَهُ عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ وَقَالَ آدَمُ عَنْ شُعْبَةَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عبد ان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے‘ انہیں قتادہ نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے بھی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ عبدان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالاعلیٰ نے بھی یزیدبن زریع سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے قتادہ نے۔ اور آدم بن ابی ایاس نے شعبہ سے یوں روایت کیا کہ میت پر زندے کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابٌ


1293 بَاب حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ قَدْ مُثِّلَ بِهِ حَتَّى وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سُجِّيَ ثَوْبًا فَذَهَبْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي ثُمَّ ذَهَبْتُ أَكْشِفُ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ فَسَمِعَ صَوْتَ صَائِحَةٍ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ فَقَالُوا ابْنَةُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو قَالَ فَلِمَ تَبْكِي أَوْ لَا تَبْكِي فَمَا زَالَتْ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد کی لاش احد کے میدان سے لائی گئی۔ ( مشرکوں نے ) آپ کی صورت تک بگاڑ دی تھی۔ نعش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی۔ اوپر سے ایک کپڑا ڈھکا ہوا تھا‘ میں نے چاہا کہ کپڑے کو ہٹاؤں۔ لیکن میری قوم نے مجھے روکا۔ پھر دوبارہ کپڑا ہٹانے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی میری قوم نے مجھ کو روک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جنازہ اٹھایا گیا۔ اس وقت کسی زور زور سے رونے والے کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا ( یہ کہا کہ ) عمرو کی بہن ہیں۔ ( نام میں سفیان کو شک ہوا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روتی کیوں ہیں؟ یا یہ فرمایا کہ روؤ نہیں کہ ملائکہ برابر اپنے پروں کا سایہ کئے رہے ہیں جب تک اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔


بَابٌ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الجُيُوبَ

باب: گریبان چاک کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں


1294 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا زُبَيْدٌ الْيَامِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا‘ کہ ہم سے سفیان ثوری نے‘ ان سے زبید یامی نے بیان کیا‘ ان سے ابراہیم نخعی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں ( کسی کی موت پر ) اپنے چہروں کو پیٹتی اور گریبان چاک کرلیتی ہیں اور جاہلیت کی باتیں بکتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
تشریح : یعنی ہماری امت سے خارج ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ حرکت سخت ناپسندیدہ ہے


بَابُ رِثَاءِ النَّبِيِّ ﷺ سَعْدَ ابْنَ خَوْلَةَ

باب: وفات پر افسوس کرنا


1295 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لاَ» فَقُلْتُ: بِالشَّطْرِ؟ فَقَالَ: «لاَ» ثُمَّ قَالَ: «الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ – أَوْ كَثِيرٌ – إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ البَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ» يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ( ۰۱ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔
تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری ) ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔ سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی )


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ الحَلْقِ عِنْدَ المُصِيبَةِ

ڑغمی کے وقت سرمنڈوانے کی ممانعت


1296 وَقَالَ الحَكَمُ بْنُ مُوسَى: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ: أَنَّ [ص:82] القَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَجِعَ أَبُو مُوسَى وَجَعًا شَدِيدًا، فَغُشِيَ عَلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حَجْرِ امْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهَا شَيْئًا، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: أَنَا بَرِيءٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَرِئَ مِنَ الصَّالِقَةِ وَالحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ» __________

ترجمہ : او رحکم بن موسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے یحیٰی بن حمزہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن جابر نے کہ قاسم بن مخیمرہ نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوبردہ ابوموسیٰ نے بیان کیاکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیمار پڑے‘ ایسے کہ ان پر غشی طاری تھی اور ان کا سر ان کی ایک بیوی ام عبداللہ بنت ابی رومہ کی گود میں تھا ( وہ ایک زور کی چیخ مار کر رونے لگی ) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت کچھ بول نہ سکے لیکن جب ان کو ہوش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی اس کام سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کسی غم کے وقت ) چلاکر رونے والی‘ سرمنڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ غمی میں سرمنڈوانا‘ گریبان چاک کرنا اور چلاکر نوحہ کرنا یہ جملہ حرکات حرام ہیں


بَابٌ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ

باب: رخسار پیٹنے والے ہم میں سے نہیں ہیں


1297 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ( کسی میت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان پھاڑے اور عہد جاہلیت کی سی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
تشریح : جو لوگ عرصہ دراز کے شہید شدہ بزرگوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں وہ غور کریں کہ وہ کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بغاوت کررہے ہیں۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ الوَيْلِ وَدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ عِنْدَ المُصِيبَةِ

باب: مصیبت کے وقت واویلا کرنے


1298 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ حفص نے اور ان سے اعمش نے اور ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ( کسی کی موت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
تشریح : یعنی اس کا یہ عمل ان لوگوں جیسا ہے جو غیر مسلم ہیں یا یہ کہ ہماری امت سے خارج ہے۔ بہر حال اس سے بھی نوحہ کی حرمت ثابت ہوئی


بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ المُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الحُزْنُ

باب: جو مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ


1299 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرٍ وَابْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ لَمْ يُطِعْنَهُ فَقَالَ انْهَهُنَّ فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ قَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَزَعَمَتْ أَنَّهُ قَالَ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَتْرُكْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْعَنَاءِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے یحیٰی ٰ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت ( غزوئہ موتہ میں ) کی خبر ملی‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کردے۔ وہ گئے لیکن واپس آکر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کردے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں ( عمرہ نے کہا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہوا کہ ( ان کے اس کہنے پر ) رسول کریم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کروگے نہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف میں ڈال دیا۔
تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے باز نہ آنے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور غصہ میں کہا کہ ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد غمگین تھے۔ یہی مقصد باب ہے۔


بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ المُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الحُزْنُ

باب: جو مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ


1300 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا حِينَ قُتِلَ الْقُرَّاءُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنَ حُزْنًا قَطُّ أَشَدَّ مِنْهُ

ترجمہ : ہم سے عمروبن علی نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کردی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔
تشریح : یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وکانوا من اوزاع الناس ینزلون الصفۃ یتفقہون العلم ویتعلمون القرآن وکانوا رداءللمسلمین اذانزلت بہم نازلۃ وکانوا حقا عمار المسجد ولیوث الملاحم بعثہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہل نجد من بنی عامر لیدعوہم الی الاسلام ویقروا علیہم القرآن فلما نزلوا بئرمعونۃ قصدہم عامر بن الطفیل فی احباءمن بنی سلیم وہم رعل وذکو ان وعصیۃ فقاتلوہم ( فاصیبوا ) ای فقتلوا جمیعا وقیل ولم ینج منہم الاکعب بن زید الانصاری فانہ تخلص وبہ رمق وظنوا انہ مات فعاش حتی استشہدیوم الخندق واسر عمرو بن امیۃ الضمری وکان ذلک فی السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ ای فی صفر علی راس اربعۃ اشہر من احد فحزن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزنا شدیدا قال انس رضی اللہ عنہ مارایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجد علی احدما وجد علیہم ( مرعاۃ ج:2ص222 ) یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہم آمین


بَابُ مَنْ لَمْ يُظْهِرْ حُزْنَهُ عِنْدَ المُصِيبَةِ

باب: جو شخص مصیبت کے وقت اپنا رنج ظاہر نہ کرے


1301 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلَامُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ اسْتَرَاحَ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ قَالَ فَبَاتَ فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ

ترجمہ : ہم سے بشربن حکم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔
تشریح : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔ محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔


بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى

باب: صبر وہی ہے جو مصیبت آتے ہی کیا جائے


1302 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے ان سے ثابت نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔
تشریح : ترجمتہ الباب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے اولئک ہم المہتدون سے تعبیر فرمایا۔ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔ پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔


بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ؓ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ

باب: فرزند رسول اللہ ﷺ کی وفات اور آپ ﷺ کا اظہار غم


1303 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا قُرَيْشٌ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفٍ الْقَيْنِ وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ رَوَاهُ مُوسَى عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ المُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن حسان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے قریش نے جو حیان کے بیٹے ہیں ، نے بیان کیا ، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے ۔ یہ ابراہیم ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور پیار کیا اور سونگھا ۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے ۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں ۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ ! اور آپ بھی لوگوں کی طرح بےصبری کرنے لگے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ابن عوف ! یہ بےصبری نہیں یہ تو رحمت ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا ۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۔ اسی حدیث کو موسیٰ بن اسماعیل نے سلیمان بن مغیرہ سے ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔


بَابُ البُكَاءِ عِنْدَ المَرِيضِ

باب: مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟


1304 حَدَّثَنَا أَصْبَغُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ فَقَالَ قَدْ قَضَى قَالُوا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا فَقَالَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ وَإِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَضْرِبُ فِيهِ بِالْعَصَا وَيَرْمِي بِالْحِجَارَةِ وَيَحْثِي بِالتُّرَابِ

ترجمہ : ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھے خبر دی عمر وبن حارث نے‘ انہیں سعید بن حارث انصاری نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا ( اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو ) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھروالوں کے نوحہ وماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔
تشریح : فوجدہ فی غاشیۃ اہلہ کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے دیکھا تو وہ بے ہوش ہیں اور ان کے گردا گرد لوگ جمع ہیں۔ آپ نے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ شاید سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرماکر ظاہر فرمایا کہ یہی زبان باعث رحمت ہے اگر اس سے کلمات خیر نکلیں اور یہی باعث عذاب ہے اگر اس سے بُرے الفاظ نکالے جائیں۔ اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جلال کا بھی اظہار ہوا کہ آپ خلاف شریعت رونے پیٹنے والوں پر انتہائی سختی فرماتے۔ فی الواقع اللہ طاقت دے تو شرعی اوامر ونواہی کے لیے پوری طاقت سے کام لینا چاہیے۔ حضرت سعد بن عبادہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ عقبہ ثانیہ میں شرف الاسلام سے مشرف ہوئے۔ ان کا شمار بارہ نقباءمیں ہے۔ انصار کے سرداروں میں سے تھے اور شان وشوکت میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔ بدر کی مہم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مشاورتی اجلاس طلب فرمایا تھا اس میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم انصار کو سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر خشکی میں حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں بھی اونٹوں کے کلیجے پگھلاویں گے۔ آپ کی اس پر جوش تقریر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے۔ اکثر غزوات میں انصار کا جھنڈا اکثر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ خاص طور پر اصحاب صفہ پر آپ کے جو دو کرم کی بارش بکثرت برساکرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ اسی وجہ سے آپ کی اس بیماری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ کی بیماری کی تکلیف دہ حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ 15ھ میں بہ زمانہ خلافت فاروقی سرزمین شام میں بمقام حوران آپ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ کسی دشمن نے نعش مبارک کو غسل خانہ میں ڈال دیا۔ انتقال کے وقت ایک بیوی اور تین بیٹے آپ نے چھوڑے۔ اور حوران ہی میں سپرد خاک کئے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ آمین


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ

باب: نوحہ وبکا سے منع کرنااورجھڑکنا


1305 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ لَمَّا جَاءَ قَتْلُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ بِأَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ قَدْ نَهَيْتُهُنَّ وَذَكَرَ أَنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ فَأَمَرَهُ الثَّانِيَةَ أَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنِي أَوْ غَلَبْنَنَا الشَّكُّ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ فَزَعَمَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْعَنَاءِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبوالوہاب ثقفی نے‘ ان سے یحیٰی بن سعید انصاری نے‘ کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمن انصاری نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب زید بن حارثہ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبرآئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ غم کے آثارآپ کے چہرے پر نمایاں تھے میں دروازے کے ایک سراخ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! جعفر کے گھرکی عورتیں نوحہ اور ماتم کررہی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کے لیے کہا۔ وہ صاحب گئے لیکن پھر واپس آگئے اور کہا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے دوبارہ روکنے کے لیے بھیجا۔ وہ گئے اور پھر واپس چلے آئے۔ کہا کہ بخدا وہ تو مجھ پر غالب آگئی ہیں یا یہ کہا کہ ہم پر غالب آگئی ہیں۔ شک محمد بن حوشب کو تھا۔ ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میرا یقین یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میری زبان سے نکلا کہ اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے تونہ تو وہ کام کرسکا جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور نہ آپ کو تکلیف دینا چھوڑتا ہے۔
تشریح : زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔ بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔ بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے۔ ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔ اس کے بعد وہ زید بن محمد یکارے حانے لگے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔ پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔ جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔ ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ صورت اور سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی مشابہ تھے۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔ 7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔ آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔ غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی کمان سنبھالی۔ بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔ بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔ فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔ جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ

باب: نوحہ وبکا سے منع کرنااورجھڑکنا


1306 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَخَذَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْبَيْعَةِ أَنْ لَا نَنُوحَ فَمَا وَفَتْ مِنَّا امْرَأَةٌ غَيْرَ خَمْسِ نِسْوَةٍ أُمِّ سُلَيْمٍ وَأُمِّ الْعَلَاءِ وَابْنَةِ أَبِي سَبْرَةَ امْرَأَةِ مُعَاذٍ وَامْرَأَتَيْنِ أَوْ ابْنَةِ أَبِي سَبْرَةَ وَامْرَأَةِ مُعَاذٍ وَامْرَأَةٍ أُخْرَى

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت ہم سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ ہم ( میت پر ) نوحہ نہیں کریں گی۔ لیکن اس اقرار کو پانچ عورتوں کے سوا اور کسی نے پورا نہیں کیا۔ یہ عورتیں ام سلیم‘ ام علائ‘ ابوسبرہ کی صاحبزادی جو معاذ کے گھر میں تھیں اور اس کے علاوہ دو عورتیں یا ( یہ کہا کہ ) ابوسبرہ کی صاحبزادی، معاذ کی بیوی اور ایک دوسری خاتون ( رضی اللہ عنہن )۔
تشریح : حدیث کے راوی کو یہ شک ہے کہ یہ ابوسبرہ کی وہی صاحبزادی ہیں جو معاذ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں یا کسی دوسری صاحبزادی کا یہاں ذکر ہے اور معاذ کی جو بیوی اس عہد کا حق ادا کرنے والوں میں تھیں وہ ابوسبرہ کی صاحبزادی نہیں تھیں۔ معاذ کی جورو ام عمرو بنت خلاد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً مسلمان مردوں‘ عورتوں سے اسلام پر ثابت قدمی کی بیعت لیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خصوصیت سے نوحہ نہ کرنے پر بھی بیعت لی۔ بیعت کے اصطلاحی معنی اقرار کرنے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جن کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر آئے گا۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پھر بھی کمزوریوں کا مسجمہ ہے۔ صحابیات کی شان مسلم ہے پھر بھی ان میں بہت سی خواتین سے اس عہد پر قائم نہ رہا گیا جیسا کہ مذکور ہوا ہے


بَابُ القِيَامِ لِلْجَنَازَةِ

باب: جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانا۔


1307 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَادَ الْحُمَيْدِيُّ حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سالم نے‘ ان سے ان کے باپ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے‘ ان سے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور کھڑے رہو یہاں تک کہ جنازہ تم سے آگے نکل جائے۔ سفیان نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خبر دی تھی۔ حمیدی نے یہ زیادتی کی ہے۔ “ یہاں تک کہ جنازہ آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے۔ ”


بَابٌ: مَتَى يَقْعُدُ إِذَا قَامَ لِلْجَنَازَةِ؟

باب: اگر کوئی جنازہ دیکھ کر کھڑا ہو جائے


1308 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ جِنَازَةً فَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَاشِيًا مَعَهَا فَلْيَقُمْ حَتَّى يُخَلِّفَهَا أَوْ تُخَلِّفَهُ أَوْ تُوضَعَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُخَلِّفَهُ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو اگر اس کے ساتھ نہیں چل رہا ہے تو کھڑا ہی ہوجائے تا آنکہ جنازہ آگے نکل جائے یا آگے جانے کی بجائے خود جنازہ رکھ دیا جائے۔


بَابٌ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ يَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِيَامِ

باب: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو


1309 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فَأَخَذَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِيَدِ مَرْوَانَ فَجَلَسَا قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ فَجَاءَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ بِيَدِ مَرْوَانَ فَقَالَ قُمْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ هَذَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ صَدَقَ

ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے سیعد مقبری نے اور ان سے ان کے والد نے کہ ہم ایک جنازہ میں شریک تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان کا ہاتھ پکڑا اور یہ دونوں صاحب جنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھ گئے۔ اتنے میں ابوسعید رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مروان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اٹھو! خدا کی قسم! یہ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔
تشریح : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث یاد نہ رہی تھی۔ جب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے یاد دلائی تو آپ کو یاد آئی اور آپ نے اس کی تصدیق کی۔ اکثر صحابہ اور تابعین اس کو مستحب جانتے ہیں اور شعبی اور نخعی نے کہا کہ جنازہ زمین پر رکھے جانے سے پہلے بیٹھ جانا مکروہ ہے اور بعضوں نے کھڑے رہنے کو فرض کہا ہے۔ نسائی نے ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جنازے میں بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جاتا۔


بَابٌ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ يَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِيَامِ

باب: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو


1310 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے‘ ان سے ابو سلمہ اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔
تشریح : اس بارے میں بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والقول الراجح عندی ہو ماذہب الیہ الجمہور من انہ یستحب ان لا یجلس التابع والمشیع للجنازۃ حتی توضع بالارض وان النہی فی قولہ فلا یقعد محمول علی التنزیہ واللہ تعالیٰ اعلم ویدل علی استحباب القیام الی ان توضع مارواہ البیہقی ( ص: 27ج:4 ) من طریق ابی حازم قال مشیت مع ابی ہریرۃ وابن الزبیر والحسن بن علی امام الجنازۃ حتی انتہینا الی المقبرۃ فقاموا حتی وضعت ثم جلسوا فقلت لبعضعہم فقال ان القائم مثل الحامل یعنی فی الاجر ( مرعاۃ‘ جلد: 2 ص: 471 ) یعنی میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھر جمہور گئے ہیں اور وہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں اور اس کے رخصت کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے نہ بیٹھیں اور حدیث میں نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے اور اس قیام کے استحباب پر بیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابوحازم کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے۔ پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد وہ سب بھی بیٹھ گئے۔ میں نے ان میں سے بعض سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کھڑا رہنے والا بھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کو اٹھا رہا ہے یعنی ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1311 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا

ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔ الیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔ زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔ حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔ مرت جنازۃ فقام لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقمنا معہ فقلنا یا رسول اللہ انہا یہودیۃ فقال ان الموت فزع فاذا رایتم الجنازۃ فقوموا متفق علیہ یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔ نسائی اور حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انما قمنا للملئکۃ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔ پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1312 – حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالقَادِسِيَّةِ، فَمَرُّوا عَلَيْهِمَا بِجَنَازَةٍ، فَقَامَا، فَقِيلَ لَهُمَا إِنَّهَا مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ أَيْ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ، فَقَالاَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمروبن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1313 وَقَالَ أَبُو حَمْزَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كُنْتُ مَعَ قَيْسٍ، وَسَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالاَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ زَكَرِيَّاءُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، كَانَ أَبُو مَسْعُودٍ، وَقَيْسٌ: «يَقُومَانِ لِلْجَنَازَةِ

ترجمہ : اور ابو حمزہ نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے عمرو نے‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ میں قیس اور سہل رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور زکریا نے کہا ان سے شعبی نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ابو مسعود اور قیس رضی اللہ عنہما جنازہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔


بَابُ حَمْلِ الرِّجَالِ الجِنَازَةَ دُونَ النِّسَاءِ

باب: عورتیں نہیں بلکہ مرد ہی جنازے کو اٹھائیں


1314 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ [ص:86]، وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً، قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ، قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهُ صَعِقَ

ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ کیسان نے کہ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور مرد اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے آگے لے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں تو کہتا ہے ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر انسان کہیں سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔


بَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ

باب: جنازے کو جلد لے چلنا


1315 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَفِظْنَاهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے زہری سے سن کر یہ حدیث یاد کی‘ انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔


بَابُ قَوْلِ المَيِّتِ وَهُوَ عَلَى الجِنَازَةِ: قَدِّمُونِي

باب: نیک میت کا کہنا کہ مجھے آگے بڑھائے چلو


1316 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَ الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد ( کیسان ) نے اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔


بَابُ مَنْ صَفَّ صَفَّيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً عَلَى الجِنَازَةِ خَلْفَ الإِمَامِ

باب: امام کے پیچھے جنازہ کی نماز


1317 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي أَوْ الثَّالِثِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا‘ ان سے عطاءنے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔
تشریح : بہر حال دو صف ہوں یا تین صف ہر طرح جائز ہے۔ مگر تین صفیں بنانا بہتر ہے۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1318 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ النَّجَاشِيَّ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَصَفُّوا خَلْفَهُ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزیدبن زریع نے بیان کیا‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے معمرنے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو نجاشی کی وفات کی خبر سنائی‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ تکبیر کہی۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1319 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَصَفَّهُمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا قُلْتُ مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے خبر دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر آئے جو اور قبروں سے الگ تھلگ تھی۔ صحابہ نے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1320 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنْ الْحَبَشِ فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ قَالَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَنَحْنُ مَعَهُ صُفُوفٌ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ كُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي

ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاءبن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح ( نجاشی حبش کے بادشاہ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کرلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔
تشریح : ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔ کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔


بَابُ صُفُوفِ الصِّبْيَانِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الجَنَائِزِ

باب: جنازے کی نماز میں بچے بھی مردوں


1321 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرٍ قَدْ دُفِنَ لَيْلًا فَقَالَ مَتَى دُفِنَ هَذَا قَالُوا الْبَارِحَةَ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي قَالُوا دَفَنَّاهُ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ فَكَرِهْنَا أَنْ نُوقِظَكَ فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَنَا فِيهِمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ ابن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے بیان کیا‘ ان سے عامر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر پر ہوا۔ میت کو ابھی رات ہی دفنایا گیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ دفن کب کیا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ گذشتہ رات۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں اطلاع کرائی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اندھیری رات میں دفن کیا گیا‘ اس لیے ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں بھی انہیں میں تھا ( نابالغ تھا لیکن ) نماز جنازہ میں شرکت کی۔


بَابُ سُنَّةِ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: جنازے پر نماز کا مشروع ہونا


1322 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّنَا فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ فَقُلْنَا يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
تشریح : اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے “نماز” کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔


بَابُ فَضْلِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ

باب: جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت


1323 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا يَقُولُ: حُدِّثَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يَقُولُ: «مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَهُ قِيرَاطٌ» فَقَالَ: أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَيْنَا،

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا‘ ان سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے نافع سے سنا‘ آپ نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جو دفن تک جنازہ کے ساتھ رہے اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ابوہریرہ احادیث بہت زیادہ بیان کرتے ہیں۔


بَابُ فَضْلِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ

باب: جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت


1324 – فَصَدَّقَتْ يَعْنِي عَائِشَةَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ» فَرَّطْتُ: ضَيَّعْتُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

ترجمہ : پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی تصدیق کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد خود سنا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان اٹھایا۔ ( سورہ زمر میں جو لفظ ) فرطت آیا ہے اس کے یہی معنی ہیں میں نے ضائع کیا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللّٰہِ ( الزمر: 56 ) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔


بَابُ مَنِ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ

باب: جو شخص دفن ہونے تک ٹھہرا رہے


1325 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ فَلَهُ قِيرَاطٌ وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ قِيلَ وَمَا الْقِيرَاطَانِ قَالَ مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن ابی ذئب کے سامنے یہ حدیث پڑھی‘ ان سے ابوسعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ ( دوسری سند ) ہم سے احمد بن شبیب نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا کہ ( مجھ سے فلاں نے یہ بھی حدیث بیان کی ) اور مجھ سے عبدالرحمن اعرج نے بھی کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جنازہ میں شرکت کی پھر نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا کہ دو عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔
تشریح : یعنی دنیا کا قیراط مت سمجھو جو درہم کا بارہواں حصہ ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آخرت کے قیراط احد پہاڑ کے برابر ہیں۔


بَابُ صَلاَةِ الصِّبْيَانِ مَعَ النَّاسِ عَلَى الجَنَائِزِ

باب: بڑوں کے ساتھ بچوں کا بھی نماز جنازہ


1326 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرًا فَقَالُوا هَذَا دُفِنَ أَوْ دُفِنَتْ الْبَارِحَةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَصَفَّنَا خَلْفَهُ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا

ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے‘ انہوں نے کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق شیبانی نے‘ ان سے عامر نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس میت کو گزشتہ رات میں دفن کیا گیا ہے۔ ( صاحب قبر مرد تھا یا عورت تھی ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔
تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ کیونکہ ابن عباس اس واقعہ کے وقت بچے ہی تھے۔ مگر آپ کے ساتھ برابر صف میں شریک ہوئے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1327 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَعَى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ يَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ

ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیاانہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ان سے عقیل نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ان سے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ نے بیان کیا اور ان دونوں حضرات سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی اسی دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے خدا سے مغفرت چاہو۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1328 وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفَّ بِهِمْ بِالْمُصَلَّى فَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا

ترجمہ : اور ابن شہاب سے یوں بھی روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں صف بندی کرائی پھر ( نماز جنازہ کی ) چار تکبیریں کہیں۔
تشریح : امام نووی فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر وانعقد الا جماع بعد ذلک علی اربع واجمع الفقہاءواہل الفتویٰ بالامصار علی اربع علی ماجاءفی احادیث الصحاح وماسوی ذلک عندہم شذو ذلایلتفت الیہ ( نووی ) یعنی ابن عبدالبرنے کہا کہ تمام فقہاءاور اہل فتویٰ کا چار تکبیروں پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ احادیث صحاح میں آیا ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ نوادر میں داخل ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والراجح عندی انہ لا ینبغی ان یزاد علی اربع لان فیہ خروجا من الخلاف ولان ذلک ہوالغالب من فعلہ لکن الامام اذا کبر خمساً تابعہ الماموم لان ثبوت الخمس لامردلہ من حیث الروایۃ العمل الخ ( مرعاۃ‘ ج:2ص:477 ) یعنی میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ چار تکبیروں سے زیادہ نہ ہوں۔ اختلاف سے بچنے کا یہی راستہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اکثر یہی ثابت ہے۔ لیکن اگر امام پانچ تکبیریں کہے تو مقتدیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روایت اور عمل کے لحاظ سے پانچ کا بھی ثبوت موجود ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1329 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ

ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذرنے بیان کیا‘ ان سے ابو ضمرہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا جنہوں نے زنا کیا تھا‘ مقدمہ لے کر آئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا۔
تشریح : جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: عن عائشۃ انہا قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی علیہ فانکروا ذلک علیہا فقالت واللہ لقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن بیضاءفی المسجد سہیل واخیہ رواہ مسلم وفی روایۃ ما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل بن البیضاءالافی جوف المسجد رواہ الجماعۃ الاالبخاری یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاءکے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاءکی نمازجنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں والحدیث یدل علی جواز ادخال المیت فی المسجد والصلوٰۃ علیہ وفیہ وبہ قال الشافعی واحمد واسحاق والجمہور یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ ان المومن لا ینجس حیا ولامیتا بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔ بنو بیضاءتین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاءکہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ والحق انہ یجوز الصلوٰۃ علی الجنائزفی المسجد من غیر کراہۃ والافضل الصلوٰۃ علیہا خارج المسجد لان اکثر صلواتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنائز کان فی المصلی الخ ( مرعاۃ ) یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماءیہود نے بدل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ

باب: قبر پر مسجد بنانا مکروہ ہے


1330 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَيْبَانَ عَنْ هِلَالٍ هُوَ الْوَزَّانُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا قَالَتْ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا

ترجمہ : ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے شیبان نے‘ ان سے ہلال وزان نے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنالی جائے۔
تشریح : یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔ لقد اسمعت لو نادیت حیا ولکن لا حیاۃ لمن تنادی ولو نارا نفخت بہا اضاعت ولکن انت تنفخ فی الرماد ( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 ) یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔ “اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔” خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ إِذَا مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا

باب: اگر عورت کا نفاس کی حالت میں انتقال


1331 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے یزیدین زریع نے‘ ان سے حسین معلم نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءمیں ایک عورت ( ام کعب ) کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا نفاس میں انتقال ہوگیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔


بَابٌ: أَيْنَ يَقُومُ مِنَ المَرْأَةِ وَالرَّجُلِ

باب: عورت اور مرد کی نماز جنازہ


1332 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا

ترجمہ : ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔
تشریح : مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد ذہب بعض اہل العلم الی ہذا ای الی ان الامام یقوم حذاءراس الرجل وحذاءعجیزۃ المراۃ وہو قول احمد و اسحاق وہو قول الشافعی وہو الحق وہو روایۃ عن ابی حنیفۃ قال فی الہدایۃ وعن ابی حنیفۃ انہ یقوم من الرجل بحذاءراسہ ومن المراۃ بحذاءوسطہا لان انسا فعل کذالک وقال ہوالسنۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اسحق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔


بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا

باب: نماز میں چار تکبیریں کہنا


1333 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نجاشی کا جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عید گاہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی کرائی اور چار تکبیریں کہیں۔


بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا

باب: نماز میں چار تکبیریں کہنا


1334 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى أَصْحَمَةَ النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ سَلِيمٍ أَصْحَمَةَ وَتَابَعَهُ عَبْدُ الصَّمَدِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن میناءنے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی تو چار تکبیریں کہیں۔ یزید بن ہارون واسطی اور عبدالصمد نے سلیم سے اصحمہ نام نقل کیا ہے اور عبدالصمد نے اس کی متابعت کی ہے۔
تشریح : نجاشی حبش کے ہر بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ ہر ملک میں بادشاہوں کے خاص لقب ہوا کرتے ہیں شاہ حبش کا اصل نام اصحمہ تھا۔


بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا


1335 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ طَلْحَةَ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
تشریح : جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔ اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے۔ والحق والصواب ان قراۃ الفاتحۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ واجبۃ کما ذہب الیہ الشافعی واحمد واسحاق وغیرہم لانہم اجمعواعلی انہا صلوٰۃ وقد ثبت حدیث لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب فہی داخلۃ تحت العموم واخراجہا منہ یحتاج الی دلیل ولا نہا صلوٰۃ یجب فیہا القیام فوجبت فیہا القراۃ کسائر الصلوات ولانہ وردالامر بقراتہا فقدروی ابن ماجۃ باسناد فیہ ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحۃ الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ عبدالمنعم ابوسعید وہو ضعیف انتہی۔ والا مر من ادلۃ الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم علی الجنازۃ فاقر ؤا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکرہ وبقیۃ رجالہ موثقون وفی بعضہم کلام ہذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیۃ فی ہذہ المسئلۃ رسالۃ اسمہا النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ام الکتاب وحقق فیہا ان القراءۃ اولیٰ من ترک القراءۃ ولا دلیل علی الکراہۃ وہوالذی اختارہ الشیخ عبدالحی اللکہنوی فی تصانیفہ لعمدۃ الرعایۃ والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انہ استدل بحدیث ابن عباس علی الجہر بالقراءۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ لا نہ یدل علی انہ جہر بہا حتی سمع ذالک من صلی معہ واصرح من ذلک ماذکر ناہ من روایۃ النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیدہ فسالتہ فقال سنۃ وحق وفی روایۃ اخریٰ لہ ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فسمعتہ یقرا بفاتحۃ الکتاب الخ ویدل علی الجہر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاہر انہ حفظ الدعاءالمذکور لما جہربہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلوٰہ علی الجنازۃ اصرح منہ حدیث واثلۃ فی الفصل الثانی۔ واختلف العلماءفی ذلک فذہب بعضہم الی انہ یستحب الجہر بالقراءۃ والدعاءفیہا واستدلوا بالروایات التی ذکرناہا انفا و ذہب الجمہور الی انہ لا یندب الجہربل یندب الاسرار قال ابن قدامۃ ویسر القراءۃوالدعاءفی صلوٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلا فا انتہی۔ واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامۃ قال السنۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ ان یقرا فی التکبیرۃ الاولیٰ بام القرآن مخافتۃ لحدیث اخرجہ النسائی ومن طریقہ ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المہذب رواہ النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامۃ ہذا صحابی انتہی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیہقی ص:39ج:4 ) من طریقہ عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزہری قال اخبرنی ابوامامۃ بن سہل انہ اخبرہ رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان السنۃ فی الصلوۃ علی الجنازہ ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحۃ الکتاب بعدالتکبیرۃ الاولیٰ سرا فی نفسہ الحدیث وضعفت ہذہ الروایۃ بمطرف لکن قواہا البیہقی بمارواہ فی المعرفۃ والسنن من طریق عبیداللہ بن ابی زیاد الرصا فی عن الزہری بمعنی روایۃ مطرف وبما روی الحاکم ( ص:359،ج:1 ) والبیہقی من طریقہ ( ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبداللہ بن مسعود صلی علی جنازۃ بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوتہ بہا ثم صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال اللہم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخرہ ثم انصرف فقال یا ایہا الناس انی لم اقرا علنا ( ای جہرا ) الا لتعلموا انہا سنۃ قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقہ انتہی۔ واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر بالقراءۃ وقال انما جہرت لاعلمکم انہا سنۃ۔ وذہب بعضہم الی انہ یخیربین الجہر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انہ یجہر باللیل کاللیلۃ ویسربالنہار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جہرت لتعلموا انہا سنۃ یدل علی ان جہرہ کان للتعلیم ای لالبیان ان الجہر بالقراءۃ سنۃ قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجہر باللیل کاللیلۃ فلم اقف علی روایۃ تدل علی ہذا انتہی۔ وہذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمہور ان الاسرار بالقرا ءۃ مندوب ہذا وروایۃ ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ تدل علی مشروعیۃ قرا ءۃ سورۃ مع الفاتحۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانہا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح قلت ویدل علیہ ایضا ما ذکرہ ابن حزم فی المحلیّٰ ( ص:129ج:5 ) معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمۃ صلی علی الجنازۃ فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ قصیرۃ رفع بہاصوتہ فلما فرغ قال لا اجہل ان تکون ہذہ الصلوۃ عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیہا قرا ءۃ۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص:478 ) حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔ متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔ پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔ اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔ شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔ اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔ علمائے احناف کا فتوی! فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ ( تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 ) فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔ روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔ والمراد بالسنۃ الطریقۃ المالوفۃ عنہ صص لا مایقابل الفریضۃ فانہ اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءۃ الفاتحۃ ولیس المراد بالسنۃ انہا لیست بواجبۃ بل مایقابل البدعۃ ای انہا طریقۃ مرویۃ وقال القسطلانی انہا ای قراءۃ الفاتحۃ فی الجنازۃ سنۃ ای طریقۃ الشارع فلا ینا فی کونہا واجبۃ وقد علم ان قول الصحابی من السنۃ کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون السنۃ الالسنۃ رسول اللہ علیہ وسلم ان شاءاللہ تعالیٰ انتہٰی ( مرعاۃ المفاتیح، ص:477 ) یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ

باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر


1336 حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّهُمْ وَصَلَّوْا خَلْفَهُ قُلْتُ مَنْ حَدَّثَكَ هَذَا يَا أَبَا عَمْرٍو قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے شعبی سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر سے گزرے تھے۔ قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے اور صحابہ نے آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ شیبانی نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابو عمرو! یہ آپ سے کس صحابی نے بیان کیا تھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ

باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر


1337 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً كَانَ يَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ قَالُوا مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي فَقَالُوا إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ فَحَقَرُوا شَأْنَهُ قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا‘ ان سے ابو رافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں ( اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی ) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح : یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔ واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں ( وحیدی ) حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ بعض نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔


بَابٌ: المَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ

باب: مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں


1338 حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔ قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربک تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربی اللہ میرا رب اللہ ہے پھر سوال ہوتا ہے ومادینک تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دینی الاسلام میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ لم لادریت ولم لا تلیت کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔


بَابُ مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ المُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا

باب: جو شخص ارض مقدس دفن ہونے کا آرزو مند


1339 حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ ارْجِعْ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ فَالْآنَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ

ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ ( موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو ) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے تو ابھی کیوں نہ آجائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کردیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔
تشریح : بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد باب یہی ہے۔


بَابُ الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ

باب: رات میں دفن کرنا کیسا ہے؟


1340 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ بِلَيْلَةٍ قَامَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَكَانَ سَأَلَ عَنْهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقَالُوا فُلَانٌ دُفِنَ الْبَارِحَةَ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جن کا انتقال رات میں ہوگیا تھا ( اور اسے رات ہی میں دفن کردیا گیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا تھا کہ یہ کن کی قبر ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ فلاں کی ہے جسے کل رات ہی دفن کیا گیا ہے۔ پھر سب نے ( دوسرے روز ) نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ رات ہو یا دن مرنے والے کے کفن دفن میں دیرنہ کی جائے۔


بَابُ بِنَاءِ المَسْجِدِ عَلَى القَبْرِ

باب: قبروں پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟


1341 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ کی بعض بیویوں ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ) نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا دونوں حبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھاکر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے۔ پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں۔
تشریح : امام قسطلانی فرماتے ہیں: قال القرطبی انما صوروا اوائلہم الصور لیتانسوا بہا ویتذکروا افعالہم الصالحۃ فیجتہدون کاجتہادہم ویعبدون اللہ عند قبورہم ثم خلفہم قوم جہلوا مرادہم ووسوس لہم الشیطان ان اسلافکم کانو یعبدون ہذہ الصورو یعظمونہا فحذر النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن مثل ذلک سداللذریعۃ المودیۃ الی ذلک بقولہ اولئک شرارالخلق عنداللہ وموضع الترجمۃ بنوا علی قبرہ مسجدا وہو مول علی مذمۃ من اتخذ القبر مسجدا ومقتضاہ التحریم لا سیما وقد ثبت اللعن علیہ یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔ پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو اعلی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔ اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔ حضرت نوع علیہ السلام کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔ عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔ جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ مَانَعبُدُہُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ رُلفٰی ( الزمر:3 ) یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔ باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔ اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔ صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔ حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین


بَابُ مَنْ يَدْخُلُ قَبْرَ المَرْأَةِ

باب: عورت کی قبر میں کون اترے


1342 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَنَا قَالَ فَانْزِلْ فِي قَبْرِهَا فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا فَقَبَرَهَا قَالَ ابْنُ مُبَارَكٍ قَالَ فُلَيْحٌ أُرَاهُ يَعْنِي الذَّنْبَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ لِيَقْتَرِفُوا أَيْ لِيَكْتَسِبُوا

ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیاایسا آدمی بھی کوئی یہاں ہے جو آج رات کو عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ میں حاضر ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم قبر میں اُتر جاؤ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ اُتر گئے اور میت کو دفن کیا۔ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ فلیح نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ﴿ لم یقارف ﴾ کا معنی یہ ہے کہ جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ سورئہ انعام میں جو ﴿ لیقترفوا ﴾ آیا ہے اس کا معنی یہی ہے تاکہ گناہ کریں۔
تشریح : ایک بات عجیب مشہور ہوگئی ہے کہ موت کے بعد شوہر بیوی کے لیے ایک اجنبی اور عام آدمی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ یہ انتہائی لغو اور غلط تصور ہے۔ اسلام میں شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا معمولی نہیں کہ وہ مرنے کے بعد ختم ہوجائے اور مرد عورت کے لیے اجنبی بن جائے۔ پس عورت کے جنازے کو خود اس کا خاوند بھی اتار سکتا ہے اور حسب ضرورت دوسرے لوگ بھی جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ

باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟


1343 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن دیا۔ آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ سے بتایا جاتا تو آپ بغلی قبر میں اسی کو آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت میں ان کے حق میں شہادت دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ

باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟


1344 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے یزیدبن ابی حبیب نے بیان کیا‘ ان سے ابوالخیر یزیدبن عبداللہ نے‘ ان سے عقبہ بن عامرنے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لیے میر سامان بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم خدا کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ ( نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے )
تشریح : شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کانہ صلی اللہ علیہ وسلم دعالہم واستغفرلہم حین قرب اجلہ بعد ثمان سنین کالمودع للاحیاءوالاموات ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاہر عندی ان الصلوٰۃ علی الشہید لیست بواجبۃ فیجوز ان یصلی علیہا ویجوز ترکہا واللہ اعلم یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں واللہ اعلم۔


بَابُ دَفْنِ الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلاَثَةِ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ

باب: دو یاتین آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا


1345 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ

ترجمہ : ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب نے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو دفن کرنے میں ایک ساتھ جمع فرمایا تھا۔
تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے


بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ غَسْلَ الشُّهَدَاءِ

باب: اس شخص کی دلیل جو شہداء کا غسل


1346 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْفِنُوهُمْ فِي دِمَائِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمن بن کعب نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں خون سمیت دفن کردو یعنی احد کی لڑائی کے موقع پر اور انہیں غسل نہیں دیا تھا۔


بَابُ مَنْ يُقَدَّمُ فِي اللَّحْدِ

باب: بغلی قبر میں کون آگے رکھا جائے


1347 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ يَقُولُ: «أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟»، فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: «أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ» وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دو دو شہید مردوں کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیتے اور پوچھتے کہ ان میں قرآن کس نے زیادہ یا دکیا ہے، پھر جب کسی ایک طرف اشارہ کر دیا جاتا تو لحد میں اسی کو آگے بڑھاتے اور فرماتے جاتے کہ میں ان پر گواہ ہوں۔ آپ نے خون سمیت انہیں دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا۔


بَابُ مَنْ يُقَدَّمُ فِي اللَّحْدِ

باب: بغلی قبر میں کون آگے رکھا جائے


1348 وَأَخْبَرَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِقَتْلَى أُحُدٍ: «أَيُّ هَؤُلاَءِ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟» فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى رَجُلٍ قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ قَبْلَ صَاحِبِهِ، وَقَالَ جَابِرٌ: فَكُفِّنَ أَبِي وَعَمِّي فِي نَمِرَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ : پھر ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی۔ انہیں زہری نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے جاتے تھے کہ ان میں قرآن زیادہ کس نے حاصل کیا ہے؟ جس کی طرف اشارہ کردیا جاتا آپ لحد میں اسی کو دوسرے سے آگے بڑھاتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد اور چچا کو ایک ہی کمبل میں کفن دیا گیا تھا۔اور سلیمان بن کثیر نے بیان کیا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا‘ ان سے اس شخص نے بیان کیا جنہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا تھا۔
تشریح : مسلک راجح یہی ہے جو حضرت امام نے بیان فرمایا کہ شہید فی سبیل اللہ پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔


بَابُ الإِذْخِرِ وَالحَشِيشِ فِي القَبْرِ

باب: اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا


1349 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَرَّمَ اللَّهُ مَكَّةَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا وَقَالَ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِقَيْنِهِمْ وَبُيُوتِهِمْ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا “ لیکن اس سے اذخر کا استثناءکردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ “ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ ” اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔
تشریح : پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1350 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ فَوَضَعَهُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ فَاللَّهُ أَعْلَمُ وَكَانَ كَسَا عَبَّاسًا قَمِيصًا قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ أَبُو هَارُونَ يَحْيَى وَكَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَانِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلْبِسْ أَبِي قَمِيصَكَ الَّذِي يَلِي جِلْدَكَ قَالَ سُفْيَانُ فَيُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَ عَبْدَ اللَّهِ قَمِيصَهُ مُكَافَأَةً لِمَا صَنَعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ عمرو نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی ( منافق ) کو اس کی قبر میں ڈالا جاچکا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ( غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ ) انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایک قمیص پہنائی تھی ( غزوئہ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے ) سفیان نے بیان کیا کہ ابوہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے ( جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسداطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1351 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الْآخَرِ فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو بشربن مفضل نے خبر دی‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے‘ ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے ( اپنے عزیزوں اور وارثوں میں ) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی ( نو ) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
تشریح : جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1352 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دُفِنَ مَعَ أَبِي رَجُلٌ فَلَمْ تَطِبْ نَفْسِي حَتَّى أَخْرَجْتُهُ فَجَعَلْتُهُ فِي قَبْرٍ عَلَى حِدَةٍ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے‘ ان سے ابن ابی نجیح نے‘ ان سے عطاءبن ابی رباح اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے باپ کے ساتھ ایک ہی قبر میں ایک اور صحابی ( حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے چچا ) دفن تھے۔ لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کردی۔


بَابُ اللَّحْدِ وَالشَّقِّ فِي القَبْرِ

باب: بغلی یا صندوقی قبر بنانا


1353 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ رَجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ فَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ احد کے شہداء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کفن میں دو دو کو ایک ساتھ کرکے پوچھتے تھے کہ قرآن کس کو زیادہ یاد تھا۔ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو بغلی قبر میں اسے آگے کردیا جاتا۔ پھر آپ فرماتے کہ میں قیامت کو ان ( کے ایمان ) پر گواہ بنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بغیر غسل دئیے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1354 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: «تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟»، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ» فَقَالَ لَهُ: مَاذَا تَرَى؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا» فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ» فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہیں یونس نے‘ انہیں زہری نے‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ تعالیٰ کے لیے ) اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔ ( آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا۔ ﴿ فارتقب یوم تاتی السماءبدخان مبین ﴾ ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑ دیجئے میں اس کی گردن ماردیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اگر یہ دجال ہے تو تو اس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہوگا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1355 وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ – يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ – فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ – وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ – هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ»، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ: فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ – أَوْ زَمْزَمَةٌ – وَقَالَ إِسْحَاقُ الكَلْبِيُّ، وَعُقَيْلٌ: رَمْرَمَةٌ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ

ترجمہ : اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ پایا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جارہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں زمزمۃ فرفصہ اور عقیل رمرمۃ نقل کیا ہے اور معمر نے رمزۃ کہا ہے۔
تشریح : ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکرکے عوام کو بہکایا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسلام پیش فرمایا۔ اس وقت وہ نابالغ تھا۔ اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب ثابت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ وہ ایمان لانے والا نہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اس کو چھوڑ دیا یعنی اس کی نسبت لاونعم کچھ نہیں کہا صرف اتنا فرمادیا کہ میں اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لایا۔ بعض روایتوں میں فرفصہ صاد مہملہ سے ہے کہ یعنی ایک لات اس کو جمائی۔ بعضوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دبا کر بھینچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس سے پوچھا اس سے آپ کی غرض محض یہ تھی کہ اس کا جھوٹ کھل جائے اور اس کا پیغمبری کا دعویٰ غلط ہو۔ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ میں کبھی سچا کبھی جھوٹا خواب دیکھتا ہوں‘ یہ شخص کاہن تھا اس کو جھوٹی سچی خبریں شیطان دیا کرتے تھے۔ دخان کی جگہ صرف لفظ دخ کہا۔ شیطانوں کی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے کہ ایک آدھ کلمہ اچک لیتے ہیں‘ اسی میں جھوٹ ملاکر مشہور کرتے ہیں ( خلاصہ وحیدی ) مزید تفصیل دوسری جگہ آئے گی۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1356 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهْوَ ابْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1357 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: «كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِنَ المُسْتَضْعَفِينَ أَنَا مِنَ الوِلْدَانِ وَأُمِّي مِنَ النِّسَاءِ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا تھا کہ میں اور میری والدہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں ) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ میں بچوں میں اور میری والدہ عورتوں میں۔
تشریح : جن کا ذکر سورۃ نساءکی آیتوں میں ہے والمستضعفین من الرجال والنساءوالولدان اور الا المستضعفین من الرجال والنساءوالولدان الخ


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1358 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «يُصَلَّى عَلَى كُلِّ مَوْلُودٍ مُتَوَفًّى، وَإِنْ كَانَ لِغَيَّةٍ، مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِطْرَةِ الإِسْلاَمِ، يَدَّعِي أَبَوَاهُ الإِسْلاَمَ، أَوْ أَبُوهُ خَاصَّةً، وَإِنْ كَانَتْ أُمُّهُ عَلَى غَيْرِ الإِسْلاَمِ، إِذَا اسْتَهَلَّ صَارِخًا صُلِّيَ عَلَيْهِ، وَلاَ يُصَلَّى عَلَى مَنْ لاَ يَسْتَهِلُّ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ سِقْطٌ فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ البَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ»، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب ہر اس بچے کی جو وفات پاگیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو جب بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گرجانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ “ یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ الآیۃ۔
تشریح : قسطلانی نے کہا اگر وہ چار مہینے کا بچہ ہوتو اس کو غسل اور کفن دینا واجب ہے‘ اسی طرح دفن کرنالیکن نماز واجب نہیں کیونکہ اس نے آواز نہیں کی اور اگر چار مہینے سے کم کاہوتو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1359 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے‘ انہیںابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔
تشریح : باب کامطلب اس حدیث سے یوں نکلتاہے کہ جب ہر ایک آدمی کی فطرت اسلام پر ہوئی ہے تو بچے پر بھی اسلام پیش کرنا اور اس کا اسلام لانا صحیح ہوگا۔ ابن شہاب نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ہر بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس یہودی بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا گویا اس سے اجازت چاہی جب اس نے اجازت دی تو وہ شوق سے مسلمان ہوگیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے مسلمان ہونے کے لیے فرمایا۔ اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ازراہ ہمدردی مسلمان اور غیر مسلمان سب کے ساتھ محبت کا برتاؤ فرماتے اور جب بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے ( صلی اللہ علیہ وسلم )


بَابُ إِذَا قَالَ المُشْرِكُ عِنْدَ المَوْتِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

باب: جب مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ


1360 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ الْآيَةَ

ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ ( ابراہیم بن سعد ) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ ( مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیںیہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ “ لا الٰہ الا اللہ ” ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تا آنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ وماکان للنبی ﴾ نازل فرمائی۔
تشریح : جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔ ابوطالب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔ اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔ جب سورۃ توبہ کی آیت وماکان للنبی نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں‘ اس وقت آپ رک گئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔ سکرات کی توبہ قبول نہیں جیسا کہ قرآنی آیت فَلَم یَکُ یَنفَعُہُم اِیمَانُہُم لَمَّا رَاَوبَاسُنَا ( غافر: 85 ) میں مذکور ہے۔


بَابُ الجَرِيدِ عَلَى القَبْرِ

باب: قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا


1361 حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہورہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑدیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہوجائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ رضی اللہ عنہم کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ ( وحیدی ) علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔ حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین


بَابُ مَوْعِظَةِ المُحَدِّثِ عِنْدَ القَبْرِ، وَقُعُودِ أَصْحَابِهِ حَوْلَهُ

باب: قبر کے پاس عالم کا بیٹھنا


1362 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ حَدَّثَنِي جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنْ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَإِلَّا قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ قَالَ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى الْآيَةَ

ترجمہ : ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے منصور بن معتمر نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے‘ ان سے ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبیب نے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید نے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میں ہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بدبختوں کو بُرے کاموں میں آسانی نظرآتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿ فامامن اعطی واتقی الخ ﴾
تشریح : یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیارکی اور اچھے دین کو سچا مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی شرح واللیل میں آئے گی۔ اور یہ حدیث تقدیر کے اثبات میں ایک اصل عظیم ہے۔ آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنا اور محنت اٹھانا ضروری ہے۔ جیسے حکیم کہتا ہے کہ دوا کھائے جاؤ حالانکہ شفا دینا اللہ کا کام ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1363 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الإِسْلاَمِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداً کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے اور جو شخص اپنے کو دھار دار چیز سے ذبح کرلے اسے جہنم میں اسی ہتھیارسے عذاب ہوتا رہے گا۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1364 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا فَهُوَ كَمَا قَالَ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا جُنْدَبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ فَمَا نَسِينَا وَمَا نَخَافُ أَنْ يَكْذِبَ جُنْدَبٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ بِرَجُلٍ جِرَاحٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ اللَّهُ بَدَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ

ترجمہ : اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی ( بصرے کی ) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ باندھا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا‘ اس نے ( زخم کی تکلیف کی وجہ سے ) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں جنت حرام کرتا ہوں۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1365 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ وَالَّذِي يَطْعُنُهَا يَطْعُنُهَا فِي النَّارِ

ترجمہ : ہم سے ابولیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی‘ کہا کہ ہم کو ابو الزناد نے خبر دی ‘ ان سے اعرج نے‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خود اپناگلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میںبھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیرسے اپنے تئیں مارے وہ دوزخ میں بھی اس طرح اپنے تئیں مارتا رہے گا۔


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عَلَى المُنَافِقِينَ، وَالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ

باب: منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا


1366 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرُ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةٌ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ قَالَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے‘ ان سے ابن عباس نے اور ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مراتو رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ پر سورئہ براءۃ کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ “ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ ” آیت وہم فاسقون تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو‘ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیںمانا اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔
تشریح : عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور ترین منافق تھا۔ جو عمر بھر اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور اس نے ہرنازک موقع پر مسلمانوں کو اور اسلام کو دھوکا دیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے۔ انتقال کے وقت اس کے لڑکے کی درخواست پر جو سچا مسلمان تھا‘ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور یاد دلایا کہ فلاں فلاں مواقع پر اس نے ایسے ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فطری محبت وشفقت کی بناپر اس پر نماز پڑھی۔ اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ارشاد باری نازل ہوا کہ وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ اَبَدًا ( التوبہ: 84 ) یعنی کسی منافق کی آپ کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی جرات نہ کرتا۔ بہرحال اللہ پاک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت فرمائی اور منافقین اور مشرکین کے بارے میں کھلے لفظوں میں جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔ آج کل نفاق اعتقادی کا علم نا ممکن ہے۔ کیونکہ وحی والہام کا سلسلہ بند ہے۔ لہٰذا کسی کلمہ گو مسلمان کو جو بظاہر ارکان اسلام کا پابند ہو‘ اعتقادی منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اور عملی منافق فاسق کے درجہ میں ہے۔ جس پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔


بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ

باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف


1367 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا وَجَبَتْ قَالَ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔


بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ

باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف


1368 حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ فَقُلْنَا وَثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ

ترجمہ : ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی‘ پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ: ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1369 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِي قَبْرِهِ أُتِيَ ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا وَزَادَ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ

ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ ان سے علقمہ بن مرثد نے‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے اور ان سے براءبن عازب رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تویہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورئہ ابراہیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔ حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبۃ بہذا وزاد ‏{‏یثبت اللہ الذین آمنوا‏}‏ نزلت فی عذاب القبر‏.‏ ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ کہا ہم سے غندر نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے یہی حدیث بیان کی۔ ان کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ آیت ﴿ ویثبت اللہ الذین امنوا ﴾ “ اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے ” عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1370 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ فَقَالَ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَقِيلَ لَهُ تَدْعُو أَمْوَاتًا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے صالح نے‘ ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں ( جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا ) والوں کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پالیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1371 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الْآنَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کافروں کو یہ فرمایا تھا کہ میں جو ان سے کہا کرتا تھا اب ان کو معلوم ہوا ہوگا کہ وہ سچ ہے۔ اور اللہ نے سورئہ روم میں فرمایا اے پیغمبر! تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1372 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ سَمِعْتُ الْأَشْعَثَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا مجھ کو میرے باپ ( عثمان ) نے خبر دی انہیں شعبہ نے‘ انہوں نے اشعث سے سنا‘ انہوں نے اپنے والد ابوالشعثاءسے‘ انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی۔ اس نے عذاب قبر کا ذکر چھیڑدیا او رکہا کہ اللہ تجھ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہاں عذاب قبر حق ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور اس میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ نہ مانگی ہو۔ غندر نے عذاب القبر حق کے الفاظ زیادہ کئے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1373 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقُولُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ الَّتِي يَفْتَتِنُ فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن سلیمان نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے سمابنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے امتحان کا ذکر کیا جہاں انسان جانچا جاتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کررہے تھے تو مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1374 حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کردی جائے گی۔ ( جس سے آرام وراحت ملے ) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی‘ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1375 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتْ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا وَقَالَ النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَوْنٌ سَمِعْتُ أَبِي سَمِعْتُ الْبَرَاءَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد ابو حجیفہ نے‘ ان سے براءبن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے سورج غروب ہوچکا تھا‘ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ( یہودیوں پر عذاب قبر کی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے۔ اور نضربن شمیل نے بیان کیاکہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے عون نے بیان کیا‘ انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا‘ انہوں نے براءسے سنا‘ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1376 حَدَّثَنَا مُعَلًّى حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ قَالَ حَدَّثَتْنِي ابْنَةُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

ترجمہ : ہم سے معلٰی بن اسد نے بیان کیا کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے خالد بن سعید بن عاص کی صاحبزادی ( ام خالد ) نے بیان کیا‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے سنا۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1377 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا کرتے تھے “ اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ ”
تشریح : عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری اپنی مشہور کتاب لوامع انوار البہیۃ میں فرماتے ہیں۔ ومنہاای الامور التی یجب الایمان بہا وانہا حق لا ترد عذاب القبر قال الحافظ جلال الدین السیوطی فی کتابہ “شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور” قد ذکراللہ عذاب القبر فی القرآن فی عدۃ اماکن کما بینتہ فی الاکلیل فی اسرار التنزیل انتہی قال الحافظ ابن رجب فی کتابہ “اموال القبور” فی قولہ تعالیٰ ( فلولا اذا بلغت الحلقوم الی قولہ ان ہذا لہو الحق المبین ) عن عبدالرحمن بن ابی لیلی قال تلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الایات قال اذا کان عند الموت قیل لہ ہذا فان کان من اصحاب الیمین احب لقاءاللہ واحب اللہ لقاءوان کان من اصحاب الشمال کرہ لقاءاللہ وکرہ اللہ لقاءہ۔ وقال الامام المحقق ابن القیم فی کتاب الروح قول السائل ما الحکمۃ فی ان عذاب القبر لم یذکر فی القران صریحا مع شدۃ الحاجۃ الی معرفتہ والایمان بہ لیحذرہ الناس ویتقی فاجاب عن ذلک بوجہین مجمل ومفصل اماالمجل فان اللہ تعالیٰ نزل علی رسولہ وحیین فاوجب علی عبادہ الایمان بہما والعمل بما فیہما وہما الکتاب والحکمۃ قال تعالیٰ وانزل علیک الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ ہوالذی بعث فی الامیین رسولا منہم الی قولہ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن الایۃ۔ والحکمۃ ہی السنۃ باتفاق السلف وما اخبر بہ الرسول عن اللہ فہو فی وجوب تصدیقہ والایمان بہ کما اخبربہ الرب علے لسان رسولہ فہذا اصل متفق علیہ بین اہل الاسلام لا ینکرہ الامن لیس منہم وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ قال المحقق واما الجواب المفصل فہوان نعیم البرزخ وعذابہ مذکور فی القران مواضع منہا قولہ تعالیٰ ولو تری اذ الظلمون فی غمرات الموت الایۃ وہذا خطاب لہم عند الموت قطعا وقد اخبرت الملائکۃ وہم الصادقون انہم حینئذ یجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اللہ غیرالحق وکنتم عن آیاتہ تستکبرون ولوتاخر عنہم ذلک الی انقضاءالدنیا لما صح ان یقال لہم الیوم تجزون عذاب الہون وقولہ تعالیٰ فوقاہ اللہ سیئات مامکروا الی قولہ یعرضون علیہا غدوا وعشیا الایۃ فذکر عذاب الدارین صریحا لا یحتمل غیرہ ومنہا قولہ تعالیٰ فذرہم حتی یلاقوا یومہم الذی فیہ یصعقون۔ یوم لا یغنی عنہم کیدہم شیئا ولاہم ینصرون انتہیٰ کلامہ۔ واخرج البخاری من حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا اللہم انی اعوذبک من عذاب القبرو اخرج الترمذی عن علی رضی اللہ عنہ انہ قال مازلنا فی شک من عذاب القبر حتی نزلت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر وقال ابن مسعود اذا مات الکافر اجلس فی قبرہ فیقال لہ من ربک وما دینک فیقول لا ادری فیضیق علیہ قبرہ ثم قرا ابن مسعود فان لہ معیشۃ ضنکا قال المعیشۃ الضنک ہی عذاب القبر وقال البراءبن عازب رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ ولنذیقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر قال عذاب القبر وکذا قال قتادۃ والربیع بن انس فی قولہ تعالیٰ سنعذبہم مرتین احدھما فی الدنیا والاخریٰ عذاب القبر۔ اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب “شرح الصدور” اور “اکلیل فی اسرار التنزیل” میں موجود ہے۔ حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب “احوال القبور” میں آیت شریفہ فَلَولاَ اِذَا بَلَغَتِ الحُلقُومَ ( الواقعہ: 83 ) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ اور علامہ محقق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔ حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔ مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت ( حدیث نبوی ) مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دی ہے۔ پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔ ( جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے ) پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب ( حدیث ) بھی دیا گیا ہوں۔ پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ ( یہی عذاب وثواب قبر ہے ) ان آیات میں سے ایک آیت وَلَوتَرٰی اِذِالظّٰلِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ الخ ( الانعام: 93 ) بھی ہے ( جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے ) ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔ یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو “آج کا دن” استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔ اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o اَلنَّارُ یُعرَضُونَ عَلَیہَا غُدُوًّا وَّعَشِیّاً ( المومن: 45,46 ) یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں ( دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے ) تیسری آیت شریفہ فَذَرہُم حَتیّٰ یُلٰقُوا یَومَہُم الَّذِی فِیہِ یُصعَقُونَ ( الطور: 45 ) ہے۔ یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ ( اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے ) بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیات اَلہٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرتُمُ المَقِابِرَ ( التکاثر: 2‘ 1 ) نازل ہوئی ( گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ پس حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ: 124 ) کو پڑھا ( کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی ) یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔ حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ وَلَنُذِیقَنَّہُم مِنَ العَذَابِ الاَدنیٰ دُونَ العَذَابِ الاَکبَرِ ( السجدۃ:21 ) کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔ یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا ( اور وہ عذاب قبر ہے ) ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَینِ ( التوبہ: 101 ) ( ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔ قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الاحادیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی عذاب القبر یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔ پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔ باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یتعرض المصنف فی الترجمۃ لکون عذاب القبر یقع علی الروح فقط اوعلیہا وعلیٰ الجسد وفیہ خلاف شہیر عند المتکلمین وکانہ ترکہ لان الادلۃ التی یرضاہا لیست قاطعۃ فی احد الا مرین فلم یتقلد الحکم فی ذلک واکتفٰی باثبات وجودہ خلافا لمن نفاہ مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلۃ کضرار بن عمرو وبشر المریسی ومن وافقہما وخالفہم فی ذلک اکثر المعتزلۃ وجمیع اہل السنۃ وغیرہم، اکثروا من الاحتجاج لہ وذہب بعض المعتزلۃ کالجیانی الی انہ یقع علی الکفار دون المومنین وبعض الاحادیث الاتیہ تردعلیہم ایضا ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ مصنف ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ان کے حسب منشاءکچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔ پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔ جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔ مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔ بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔ وباللہ التوفیق۔ تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں: باب اثبات عذاب القبر قال فی اللمعات المراد بالقبر ہہنا عالم البرزخ قال تعالیٰ ومن وراءہم برزخ الی یوم یبعثون وہو عالم بین الدنیا والاخرۃ لہ تعلق بکل منہما ولیس المراد بہ الحفرۃ التی یدفن فیہ المیت فرب میت لا یدفن کالغریق والحریق والماکول فی بطن الحیوانات یعذب وینعم ویسال وانما خص العذاب بالذکر للاہتمام ولان العذاب اکثر لکثرۃ الکفار والعصاۃ انتہی قلت حاصل ماقیل فی بیان المراد من البرزخ انہ اسم لا نقطاع الحیاۃ فی ہذا العالم المشہود ای دار الدنیا وابتداءحیاۃ اخریٰ فیبدا الشئی من العذاب او النعیم بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ فہو اول دار الجزاءثم توفی کل نفس ماکسبت یوم القیامۃ عند دخولہا فی جہنم اوالجنۃ وانما اضیف عذاب البرزخ ونعیمہ الی القبر لکون معظمہ یقع فیہ ولکون الغالب علی الموتیٰ ان یقبروا والا فالکافر ومن شاءاللہ عذابہ من العصاۃ یعذب بعد موتہ ولولم یدفن ولکن ذلک محجوب عن الخلق الامن شاءاللہ وقیل لا حاجۃ الی التاویل فان القبراسم للمکان الذی یکون فیہ المیت من الارض ولاشک ان محل الانسان ومسکنۃ بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ ہی الارض کما انہا کانت مسکنالہ فی حیاتہ قبل موتہ قال تعالیٰ الم نجعل الارض کفاتا احیاءوامواتا ای ضامۃ للاحیاءوالاموات تجمعہم وتضمہم وتحوزہم فلا محل المیت الا الارض سواءکان غریقا اوحریقا او ماکولا فی بطن الحیوانات من السباع علی الارض والطیور فی الہواءوالحیتان فی البحر فان الغریق یرسب فی الماءفیسقط الی اسفلہ من الارض اوالجبل ان کان تحتہ جبل وکذا الحریق بعدما یصیرر مادالا یستقر الاعلی الارض سواءاذریٰ فی البراو البحرو کذا الماکول فان الحیوانات التی تاکلہ لا تذہب بعد موتہا الا الی الارض فتصیر ترابا والحاصل ان الارض محل جمیع الاجسام السفلیۃ ومقرہا لا ملجا لہاالا الیہا فہی کفات لہا واعلم انہ قد تظاہرت الدلائل من الکتاب والسنۃ علی ثبوت عذاب القبرواجمع علیہ اہل السنۃ وقد کثرت الاحادیث فی عذاب القبر حتی قال غیر واحد انہا متواترۃ لا یصح علیہا التواطق وان لم یصح مثلہا لم یصح شئی من امرالدین الی اخرہ ( مرعاۃ‘ جلد: اول/ ص:130 ) مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔ حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔ پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔ یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔ وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔


بَابُ عَذَابِ القَبْرِ مِنَ الغِيبَةِ وَالبَوْلِ

باب: غیبت اور پیشاب کی آلودگی سے قبر


1378 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہورہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہورہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں کی قبروں پر گاڑدیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہوجائے۔
تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال الزین بن المنیر المراد بتخصیص ہذین الا مرین بالذکر تعظیم امرہما لا نفی الحکم عما عداہما فعلی ہذا لایلزم من ذکر ہما حصر عذاب القبر فیہما لکن الظاہر من الاقتصار علی ذکر ہما انہما امکن فی ذلک من غیرہما وقد روی اصحاب السنن من حدیث ابی ہریرۃ استنزہوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ ثم اورد المصنف حدیث ابن عباس فی قصۃ القبرین ولیس فیہ للغیبہ ذکروا انما ورد بلفظ النمیمۃ وقد تقدم الکلام علیہ مستوفی فی الطہارۃ ( فتح الباری ) یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔ پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔ یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔ باب کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے یہاں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔ اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں


بَابُ المَيِّتِ يُعْرَضُ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِيِّ

باب: مردے کو دونوں وقت صبح اور شام


1379 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی وایس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ اگر جنتی ہے تو صبح وشام اس پر جنت پیش کرکے اس کو تسلی دی جاتی ہے کہ جب تو اس قبر سے اٹھے گا تو تیرا آخری ٹھکانا یہ جنت ہوگی اور اسی طرح دوزخی کو دوزخ دکھلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے آخری انجام پر آگاہ رہے۔ ممکن ہے کہ یہ عرض کرنا صرف روح پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح اور جسم ہردو پر ہو۔ صبح اور شام سے ان کے اوقات مراد ہیں جب کہ عالم برزخ میں ان کے لیے نہ صبح کا وجود ہے نہ شام کا ویحتمل ان یقال ان فائدۃ العرض فی حقہم تبشیرا رواحہم باستقرار ہافی الجنۃ مقترنۃ باجسادہا ( فتح ) یعنی اس پیش کرنے کا فائدہ مومن کے لیے ان کے حق میں ان کی روحوں کو یہ بشارت دینا ہے کہ ان کا آخری مقام قرار ان کے جسموں سمیت جنت ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کو ڈرانا کہ ان کا آخری ٹھکانا ان کے جسموں سمیت دوزخ ہے۔ قبرمیں عذاب وثواب کی صورت یہ بھی ہے کہ جنتی کے لیے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو جنت کی تروتازگی حاصل ہوتی رہتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو دوزخ کی گرم گرم ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں۔ صبح وشام ان ہی کھڑکیوں سے ان کو جنت ودوزخ کے کامل نظارے کرائے جاتے ہیں۔ یا اللہ! اپنے فضل وکرم سے ناشر بخاری شریف مترجم اردو کو اس کے والدین واساتذہ وجملہ معاونین کرام وشائقین عظام کو قبر میں جنت کی طرف سے تروتازگی نصیب فرمائیو اور قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیو اور دوزخ سے ہم سب کو محفوظ رکھیو۔ آمین۔


بَابُ كَلاَمِ المَيِّتِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: میت کا چارپائی پر بات کرنا


1380 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔
تشریح : جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ اِنَّکَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ ( النمل: 80 ) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ

باب: مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟


1381 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ مُسْلِمٌ يَمُوتُ لَهُ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ

ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالعزیزبن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے جوان بچوں پر کرے گا‘ ان کو بہشت میں لے جائے گا۔
تشریح : باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لانے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ اٰمَنُو وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم ( الطور: 21 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ قال النووی اجمع من یعتد بہ من علماءالمسلمین علی ان من مات من اطفال المسلمین فہو من اہل الجنۃ وتوقف بعضہم الحدیث عائشۃ یعنی الذی اخرجہ مسلم بلفظ توفی صبی من الانصار فقلت طوبیٰ لہ لم یعمل سواولم یدر کہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیر ذلک یاعائشۃ! ان اللہ خلق للجنۃ اہلا الحدیث قال والجواب عنہ انہ لعلہ نہا ہا عن المسارعۃ الی القطع من غیر دلیل اوقال ذلک قبل ان یعلم ان اطفال المسلمین فی الجنۃ ( فتح الباری ) یعنی امام نووی نے کہاکہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ

باب: مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟


1382 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ سَمِعَ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ

ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا انہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے۔
تشریح : اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں داخل ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کے لیے اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ چونکہ آپ نے حالت رضاعت میں انتقال فرمایا تھا لہٰذا اللہ پاک نے ان کو دودھ پلانے کے لیے جنت میں ایک انا کو مقرر فرما دیا۔ اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1383 حَدَّثَنِي حِبَّانُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ اللَّهُ إِذْ خَلَقَهُمْ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ

ترجمہ : ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوبشر جعفر نے‘ انہیں سعید بن جبیرنے‘ ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالع بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے علم کے موافق سلوک کرے گا۔ بظاہر یہ حدیث اس مذہب کی تائید کرتی ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں توقف کرنا چاہیے۔ امام احمد اور اسحاق اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بیہقی نے امام شافعی سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ اصولاً بھی یہ کہ نابالغ بچے شرعاً غیر مکلف ہیں پھر بھی اس بحث کا عمدہ حل یہی ہے کہ وہ اللہ کے حوالہ ہیں جو خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے۔ مومنین کی اولاد تو بہشتی ہے لیکن کافروں کی اولاد میں جو نابالغی کی حالت میں مرجائیں بہت اختلاف ہے۔ امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ وہ بہشتی ہیں کیونکہ بغیر گناہ کے عذاب نہیں ہوسکتا اور وہ معصوم مرے ہیں۔ بعضوں نے کہا اللہ کو اختیار ہے اور اس کی مشیت پر موقوف ہے چاہے بہشت میں لے جائے‘ چاہے دوزخ میں۔ بعضوں نے کہا اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی دوزخ میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا خاک ہوجائیں گے۔ بعضوں نے کہا اعراف میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا ان کاامتحان کیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب ( وحیدی )


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1384 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عطاءبن یزیدلیثی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے جو بھی وہ عمل کرنے والے ہوئے۔
تشریح : اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے کام کرنے والے تھے تو بہشت میں جائیں گے ورنہ دوزخ میں۔ بظاہر یہ حدیث مشکل ہے کیونکہ اس کے علم میں جو ہوتاہے وہ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کے علم میں تو یہی تھا کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قطعی بات تو یہی تھی کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے اور پروردگار کو اس کا علم بے شک تھا مگر اس کے ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ زندہ رہتے تو نیک بخت ہوتے یا بدبخت ہوتے۔ والعلم عنداللہ۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1385 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔
تشریح : مگر بعد میں لوگ ان کے کان وغیرہ کاٹ کر ان کو عیب دار کردیتے ہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری نے اپنا مذہب ثابت کیا کہ جب ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ بچپن ہی میں مرجائے تو اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر مراتو بہشتی ہوگا۔ اسلام میں سب سے بڑا جزو توحید ہے تو ہر بچہ کے دل میں خدا کی معرفت اور اس کی توحید کی قابلیت ہوتی ہے۔ اگر بری صحبت میں نہ رہے تو ضرور وہ موحد ہوں لیکن مشرک ماں باپ‘ عزیز واقرباءاس فطرت سے اس کا دل پھرا کر شرک میں پھنسا دیتے ہیں۔ ( وحیدی )


بَابٌ

باب


1386 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا قَالَ فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا فَيَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ فَسَأَلَنَا يَوْمًا فَقَالَ هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا قُلْنَا لَا قَالَ لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُوسَى إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الْكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ قُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ فَيَشْدَخُ بِهِ رَأْسَهُ فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسَطِ النَّهَرِ قَالَ يَزِيدُ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنْ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا فَصَعِدَا بِي فِي الشَّجَرَةِ وَأَدْخَلَانِي دَارًا لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ وَشَبَابٌ وَنِسَاءٌ وَصِبْيَانٌ ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ فَأَدْخَلَانِي دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ فِيهَا شُيُوخٌ وَشَبَابٌ قُلْتُ طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ قَالَا نَعَمْ أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمْ الزُّنَاةُ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا وَالشَّيْخُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلَادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ وَالدَّارُ الْأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيكَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ قَالَا ذَاكَ مَنْزِلُكَ قُلْتُ دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي قَالَا إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے جریربن حازم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابورجاءعمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( فجر ) پڑھنے کے بعد ( عموماً ) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ ( اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی ) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ( امام بخاری نے کہا کہ ) ہمارے بعض اصحاب نے ( غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے ) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سرپر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سرکو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سرپر پتھر مارتا تو سرپر لگ کروہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ( یزیدبن ہارون اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم کے واسطہ سے وسطہ النہر کے بجائے شط النہر نہر کے کنارے کے الفاظ نقل کئے ہیں ) ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہورہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگارہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین وخوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان‘ عورتیں اور بچے ( سب ہی قسم کے لوگ ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہو ںنے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سرکچلا جارہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو‘ یہ شہداءکا گھر ہے اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سراٹھاؤ میں نے جو سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کرلیتے تو اپنے مکان میں آجاتے۔


بَابُ مَوْتِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ

باب: پیر کے دن مرنے کی فضیلت کا بیان


1387 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ فِي كَمْ كَفَّنْتُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ وَقَالَ لَهَا فِي أَيِّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ قَالَ فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا قَالَتْ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ قَالَ أَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ فَقَالَ اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ فَكَفِّنُونِي فِيهَا قُلْتُ إِنَّ هَذَا خَلَقٌ قَالَ إِنَّ الْحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنْ الْمَيِّتِ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ

ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں ( والد ماجد حضرت ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی مرض الموت میں ) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہوجاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھولینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہوجائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔
تشریح : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو وجاءت سکرۃ الموت بالحق یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وروی ابوداؤد من حدیث علی مرفوعاً لا تغالوا فی الکفن فانہ یسلب سریعا ولا یعارضہ حدیث جابر فی الامر بتحسین الکفن اخرجہ مسلم فانہ یجمع بینہما بحمل التحسین علی الصفۃ وحمل المغالات علی الثمن قبل وقیل التحسین فی حق المیت فاذا اوصی بترکہ اتبع کما فعل الصدیق ویحتمل ان یکون اختار ذالک الثوب بعینہ لمعنی فیہ من التبرک بہ لکونہ صار الیہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولکونہ جاہدا فیہ اوتعبد فیہ ویویدہ مارواہ ابن سعد من طریق القاسم بن محمد بن ابی بکر قال قال ابوبکر کفنونی فی ثوبی الذین کنت اصلی فیہما ( فتح الباری‘ ج: 6ص: 5 ) اور ابوداؤ نے حدیث علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔ عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔ ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔ اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ وفی ہذا الحدیث استحباب التکفین فی الثیاب البیض وتثلیث الکفن وطلب الموافقۃ فیما وقع للاکابر تبرکا بذلک وفیہ جواز التکفین فی الثیاب المغسولۃ وایثار الحی بالجدید والدفن باللیل وفضل ابی بکر وصحۃ فراستہ وثباتہ عند وفاتہ وفیہ اخذ المرءالعلم عمن دونہ وقال ابوعمر فیہ ان التکفین فی الثوب الجدید والخلق سوائ۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسے صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔ ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔


بَابُ مَوْتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ

باب: ناگہانی موت کا بیان


1388 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ

ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کردوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔
تشریح : باب کی حدیث لاکرامام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ مومن کے لیے ناگہانی موت سے کوئی ضرر نہیں۔ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس میں وصیت کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے لیے راحت ہے اور بدکار کے لیے غصے کی پکڑ ہے۔ ( وحیدی )


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1389 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ هِشَامٍ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَعَذَّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ أَيْنَ أَنَا غَدًا اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَدُفِنَ فِي بَيْتِي

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
تشریح : 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1391 وَعَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَوْصَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا تَدْفِنِّي مَعَهُمْ وَادْفِنِّي مَعَ صَوَاحِبِي بِالْبَقِيعِ لَا أُزَكَّى بِهِ أَبَدًا

ترجمہ : ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بلکہ میری دوسری سوکنوں کے ساتھ بقیع غرقد میں مجھے دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
تشریح : ہوا یہ کہ ولید کی خلافت کے زمانہ میں اس نے عمر بن عبدالعزیز کو جو اس کی طرف سے مدینہ شریف کے عامل تھے‘ یہ لکھا کہ ازواج مطہرات کے حجرے گرا کر مسجد نبوی کو وسیع کردو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی جانب دیوار بلند کردو کہ نماز میں ادھر منہ نہ ہو عمر بن عبدالعزیز نے یہ حجرے گرانے شروع کئے تو ایک پاؤں زمین سے نمودار ہوا جسے حضرت عروہ نے شناخت کیا اور بتلایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے جسے یوں ہی احترام سے دفن کیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی کسر نفسی کے طورپر فرمایا تھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجرئہ مبارک میں دفن ہوں گی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں میں مجھ کو ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا مجھے بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے جہاں میری بہنیں ازواج مطہرات مدفون ہیں اور میں اپنی یہ جگہ جو خالی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دے دیتی ہوں۔ سبحان اللہ کتنا بڑا ایثار ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ حجرئہ مبارک کی دیواریں بلند کرنے کے بارے میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ای حائط حجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی روایۃ الحموی عنہم والسبب فی ذلک مارواہ ابوبکر الاجری من طبری شعیب بن اسحاق عن ہشام عن عروۃ قال اخبرنی ابی قال کان الناس یصلون الی القبر فامربہ عمر بن عبدالعزیز فرفع حتی لا یصلی الیہ احد فلما ہدم بدت قدم بساق ورکبۃ ففزع عمر بن عبدالعزیز فاتاہ عروۃ فقال ہذا ساق عمرو رکبتہ فسری عن عمر بن عبدالعزیز وروی الاجری من طریق مالک بن مغول عن رجاءبن حیوۃ قال کتب الولید بن عبدالملک الی عمر بن عبدالعزیز وکان قد اشتری حجر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اہدمہا ووسع بہا المسجد فقعد عمر فی ناحیۃ ثم امربہدمہا فما رایتہ باکیا اکثر من یومئذ ثم بناہ کما اراد فلما ان بنی البیت علی القبر وہدم البیت الاول ظہرت القبور الثلاثۃ وکان الرمل الذی علیہاقد انہار ففزع عمر بن عبدالعزیز واراد ان یقوم فیسویہا بنفسہ فقلت لہ اصلحک اللہ انک ان قمت قام الناس معک فلو امرت رجلا ان یصلحہا ورجوت انہ یامرنی بذالک فقال یا مزاحم یعنی مولاہ قم فاصلحہا قال فاصلحہا قال رجاءوکان قبرابی بکر عند وسط النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعمر خلف ابی بکر راسہ عند وسطہ اس عبارت کا خلاصہ وہی مضمون ہے جو گزر چکا ہے ) ( فتح الباری‘ج: 6 ص: 6


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1392 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا فَسَمَّى عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنْ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ فَقَالَ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھاکر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میںجگہ دی۔ ( میری وصیت ہے کہ ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے ( یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں ) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
تشریح : سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔ آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ

باب: مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے


1393 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْأَعْمَشِ تَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ وَابْنُ عَرْعَرَةَ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے بیان کیا‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ مردوں کو برانہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔
تشریح : یعنی مسلمان جو مرجائیں ان کا مرنے کے بعد عیب نہ بیان کرنا چاہیے۔ اب ان کو برا کہنا ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے


بَابُ ذِكْرِ شِرَارِ المَوْتَى

باب: برے مردوں کی برائی بیان کرنا درست ہے


1394 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیاانہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سےانہوں نے کہا کہ مجھ سے عمروبن مرہ نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری ﴿ تبت یدا ابی لہب وتب ﴾ یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہوگیا۔
تشریح : جب یہ آیت اتری وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ ( الشعرا: 214 ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔ پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری تبت یدا ابی لہب وتب یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔ معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ای وصلوا الی ما عملوا من خیر وشرو اشتد بہ علی منع سبب الاموات مطلقا وقد تقدم ان عمومہ مخصوص واصح ماقیل فی ذالک ان اموات الکفار والفساق یجوز ذکر مساویہم للتحذیر منہم والتنفیر عنہم وقد اجمع العلماءعلی جواز جرح المجروحین من الرواۃ احیاءوامواتا یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔ اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔ تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔



1263 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانٍ قَالَ حَدَّثَتْنَا حَفْصَةُ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اغْسِلْنَهَا بِالسِّدْرِ وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ فَضَفَرْنَا شَعَرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ وَأَلْقَيْنَاهَا خَلْفَهَا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حفصہ نے بیان کیا، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی کا انتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ ان کو پانی اور بیری کے پتوں سے تین یا پانچ مرتبہ غسل دے لو۔ اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بھی دے سکتی ہو اور ا ٓخر میں کافور یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاکہ ) تھوڑی سی کافور استعمال کرو پھر جب غسل دے چکو تو مجھے خبر دو۔ چنانچہ فارغ ہو کر ہم نے آپ کو خبر دی تو آپ نے ( ان کے کفن کے لیے ) اپنا ازار عنایت کیا۔ ہم نے اس کے سر کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے کی طرف ڈال دیا تھا۔
تشریح : صحیح ابن حبان میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم دیا تھا کہ بالوں کی تین چوٹیاں کردو۔ اس حدیث سے میت کے بالوں کا گوندھنا بھی ثابت ہوا


بَابُ الثِّيَابِ البِيضِ لِلْكَفَنِ

باب: کفن کے لیے سفید کپڑے ہونے مناسب ہیں


1264 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ يَمَانِيَةٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ مِنْ كُرْسُفٍ لَيْسَ فِيهِنَّ قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبد اللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ( ان کی خالہ ) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کے تین سفید سوتی دھلے ہوئے کپڑوں میں کفن دیا گیا ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ۔
تشریح : بلکہ ایک ازار تھی ایک چادر ایک لفافہ پس سنت یہی تین کپڑے ہیں عمامہ باندھنا بدعت ہے۔ حنابلہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل نے اس کو مکروہ رکھا ہے اور شافعیہ نے قمیص اور عمامہ کا بڑھانا بھی جائز رکھا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ سفید کپڑوں میں کفن دیا کرو۔ ترمذی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کے بارے میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان سب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث زیادہ صحیح ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ کے لوگ زندگی بھی شادی غمی کے رسوم اور بدعات میں گرفتار رہتے ہیں اور مرتے وقت بھی بیچاری میت کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ کہیں کفن خلاف سنت کرتے ہیں کہیں لفافہ کے اوپر ایک چادر ڈالتے ہیں کہیں میت پر شامیانہ تانتے ہیں، کہیں تیجا دسواں چہلم کرتے ہیں۔ کہیں قبرمیں پیری مریدی کا شجر رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کا چراغ جلاتے ہیں۔ کہیں صندل شیرینی چادر چڑھاتے ہیں۔ کہیں قبر پر میلہ اور مجمع کر تے ہیں اور اس کا نام عرس رکھتے ہیں۔ کہیں قبر کو پختہ کرتے ہیں، اس پر عمارت اور گنبد اٹھاتے ہیں۔ یہ سب امور بدعت اور ممنوع ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کی آنکھیں کھولے اور ان کو نیک توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین ( وحیدی ) روایت میں کفن نبوی کے متعلق لفظ ’سحولیۃ” آیا ہے۔ جس کی تشریح علامہ شوکانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ سحولیۃ بضم المھملتین ویروی بفتح اولہ نسبۃ الی سحول قریۃ بالیمن قال النووی والفتح اشھر وھو روایۃ الاکثرین قال ابن الاعرابی وغیرہ ھی ثیاب بیض نقیۃ لا تکون الامن القطن وقال ابن قتیبۃ ثیاب بیض ولم یخصھا بالقطن وفی روایۃ للبخاری “سحول” بدون نسبۃ وھو جمع سحل والسحل الثوب الا بیض النقی ولا یکون الامن قطن کما تقدم وقال الازھری بالفتح المدینۃ وبالضم الثیاب وقیل النسبۃ الی القریۃ بالضم واما بالفتح فنسبۃ الی القصار لانہ یسحل الثیاب ای ینقیھا کذا فی الفتح۔ ( نیل الاوطار، جلد:3ص:40 ) خلاصہ یہ کہ لفظ “سحولیہ” سین اورحاءکے ضمہ کے ساتھ ہے اور سین کا فتح بھی روایت کیا گیا ہے۔ جو ایک گاؤں کی طرف نسبت ہے جو یمن میں واقع تھا۔ ابن اعرابی وغیرہ نے کہا کہ وہ سفید صاف ستھرا کپڑا ہے جو سوتی ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں لفظ “سحول”آیا ہے جو سحل کی جمع ہے اور وہ سفید دھلا ہو اکپڑا ہوتا ہے۔ ازہری کہتے ہیں کہ سحول سین کے فتح کے ساتھ شہر مراد ہوگا اور ضمہ کے ساتھ دھوبی مراد ہوگا جوکپڑے کو دھو کر صاف شفاف بنا دیتا ہے۔


بَابُ الكَفَنِ فِي ثَوْبَيْنِ

باب: دو کپڑوں میں کفن دینا


1265 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَوْقَصَتْهُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے حماد نے، ان سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا۔ یا ( وقصتہ کے بجائے یہ لفظ ) او قصتہ کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں میں انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سرچھپاؤ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن لبیک کہتا ہوا اٹھے گا۔
تشریح : ثابت ہوا کہ محرم کو دو کپڑوں میں دفنایا جائے۔ کیونکہ وہ حالت احرام میں ہے اور محرم کے لیے احرام کی صرف دو ہی چادریں ہیں، برخلاف ا س کے دیگر مسلمانوں کے لیے مرد کے لیے تین چادریں اور عورت کے لیے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔


بَابُ الحَنُوطِ لِلْمَيِّتِ

باب: میت کو خوشبو لگانا


1266 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ فَأَقْصَعَتْهُ أَوْ قَالَ فَأَقْعَصَتْهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفہ میں وقوف کئے ہوئے تھا کہ وہ اپنے اونٹ سے گر پڑا اور اونٹ نے انہیں کچل دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دو کپڑوں کا کفن دو، خوشبو نہ لگاؤ اور نہ سر ڈھکو کیونکہ اللہ تعالی قیامت کے دن انہیں لبیک کہتے ہوئے اٹھائے گا۔
تشریح : محرم کو خوشبو نہ لگائی جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ غیر محرم میت کو خوشبو لگانی چاہیے۔ باب کامقصد یہی ہے۔ محرم کو خوشبو کے لیے اس واسطے منع فرمایا کہ وہ حالت احرام ہی میں ہے اور قیامت میں اس طرح لبیک پکارتا ہوا اٹھے گا اور ظاہر ہے کہ محرم کو حالت احرام میں خوشبو کا استعمال منع ہے۔


بَابٌ: كَيْفَ يُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟

باب: محرم کو کیونکر کفن دیا جائے


1267 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُمِسُّوهُ طِيبًا وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا وفی نسخة ملبدا

ترجمہ : ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابو عوانہ نے خبر دی، انہیں ابو بشر جعفر نے، انہیں سعید بن جبیر نے، انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احرام باندھے ہوئے تھے کہ ایک شخص کی گردن اس کے اونٹ نے توڑ ڈالی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے دو اور کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ ان کے سر کو ڈھکو۔ اس لیے کہ اللہ تعالی انہیں اٹھائےگا۔ اس حالت میں کہ وہ لبیک پکار تاہوگا۔


بَابٌ: كَيْفَ يُكَفَّنُ المُحْرِمُ؟

باب: محرم کو کیونکر کفن دیا جائے


1268 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ عَمْرٍو وَأَيُّوبَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ كَانَ رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ فَوَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ قَالَ أَيُّوبُ فَوَقَصَتْهُ وَقَالَ عَمْرٌو فَأَقْصَعَتْهُ فَمَاتَ فَقَالَ اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ أَيُّوبُ يُلَبِّي وَقَالَ عَمْرٌو مُلَبِّيًا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو اور ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا، اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ایوب نے کہا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی۔ اور عمرو نے یوں کہا کہ اونٹنی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہوگیا تو آپ نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ سر ڈھکو کیونکہ قیامت میں یہ اٹھا یا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ ( یعنی ) تلبیہ کہتے ہوئے ( اٹھا یا جائے گا ) اور عمرونے ( اپنی روایت میں ملبی کے بجائے ) ملبیا کا لفظ نقل کیا۔ ( یعنی لبیک کہتا ہوا اٹھے گا )
تشریح : معلوم ہوا کہ محرم مر جائے تو اس کا احرام باقی رہے گا۔ شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے


بَابُ الكَفَنِ فِي القَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ

باب: قمیص میں کفن دینا


1269 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ فَقَالَ آذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ فَآذَنَهُ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ أَلَيْسَ اللَّهُ نَهَاكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ فَقَالَ أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ قَالَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے کہا کہ مجھ سے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا ( عبداللہ صحابی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! والدکے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص ( غایت مروت کی وجہ سے ) عنایت کی اور فرما یا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا ۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو پیچھے سے پکڑلیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالی نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیساکہ ارشاد باری ہے ” تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو سترمرتبہ بھی استغفار کر ے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا “ چنانچہ نبی کری صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ” کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا “


بَابُ الكَفَنِ فِي القَمِيصِ الَّذِي يُكَفُّ أَوْ لاَ يُكَفُّ، وَمَنْ كُفِّنَ بِغَيْرِ قَمِيصٍ

باب: قمیص میں کفن دینا


1270 حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا دُفِنَ فَأَخْرَجَهُ فَنَفَثَ فِيهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ

ترجمہ : ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرونے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبد اللہ بن ابی کو دفن کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنا لعاب دہن ا سکے منہ میں ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی۔
تشریح : عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔ ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنچادیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔ ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت استغفرلہم اولا تستغفرلہم ان تستغفرلہم ( التوبہ: 80 ) نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ بعد میں آیت ولا تصل علي احد منہم ( التوبہء84 ) نازل ہوئی۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔ پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے


بَابُ الكَفَنِ بِغَيْرِ قَمِيصٍ

باب: بغیر قمیص کے کفن دینا


1271 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كُفِّنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابِ سُحُولٍ كُرْسُفٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے‘ ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سوتی دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دیا گیاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ۔


بَابُ الكَفَنِ بِغَيْرِ قَمِيصٍ

باب: بغیر قمیص کے کفن دینا


1272 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ هِشَامٍ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ قال ابو عبدالله ابو نعيم لا يقول ثلاثة و عبدالله بن الوليد عن سفيان يقول ثلاثة

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحیٰی ٰ نے‘ ان سے ہشام نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔ حضرت امام ابوعبداللہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے لفظ ثلاثہ نہیں کہا اور عبداللہ بن ولید نے سفیان سے لفظ ثلاثہ نقل کیا ہے۔


بَابُ الكَفَنِ بِلاَ عِمَامَةٍ

باب: عمامہ کے بغیر کفن دینے کا بیان


1273 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سحول کے تین سفید کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا نہ ان میں قمیص تھی اور نہ عمامہ تھا۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ چوتھا کپڑا نہ تھا۔ قسطلانی نے کہا امام شافعی رحمہ اللہ نے قمیص پہنانا جائز رکھا ہے مگر اس کو سنت نہیں سمجھا اور ان کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ہے جسے بیہقی نے نکالا کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو پانچ کپڑوں میں کفن دیا۔ تین لفافے اور ایک قمیص اور ایک عمامہ لیکن شرح مہذب میں ہے کہ قمیص اور عمامہ نہ ہو۔ اگرچہ قمیص اور عمامہ مکروہ نہیں مگر اولیٰ کے خلاف ہے ( وحیدی ) بہتر یہی ہے کہ صرف تین چادروں میں کفن دیا جائے۔


بَابٌ: الكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ المَالِ

باب: کفن کی تیاری میت کے سارے مال


1274 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمًا بِطَعَامِهِ فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ وَقُتِلَ حَمْزَةُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ خَيْرٌ مِنِّي فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَّا بُرْدَةٌ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي

ترجمہ : ہم سے احمد بن محمد مکی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے‘ ان سے ان کے باپ سعد نے اور ان سے ان کے والد ابراہیم بن عبدالرحمن نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک دن کھانا رکھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ( غزوئہ احد میں ) شہید ہوئے‘ وہ مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز مہیا نہ ہوسکی۔ اسی طرح جب حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے یا کسی دوسرے صحابی کا نام لیا‘ وہ بھی مجھ سے افضل تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے بھی صرف ایک ہی چادر مل سکی۔ مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے چین اور آرام کے سامان ہم کو جلدی سے دنیا ہی میں دے دئیے گئے ہوں پھر وہ رونے لگے۔
تشریح : امام المحدثین رحمتہ اللہ علیہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ حضرت مصعب اور حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہما کا کل مال اتنا ہی تھا۔ بس ایک چادر کفن کے لیے تو ایسے موقع پر سارا مال خرچ کرنا چاہیے۔ اس میں اختلاف ہے کہ میت قرض دار ہوتو صرف اتنا کفن دیا جائے کہ سترپوشی ہوجائے یا سارا بدن ڈھانکا جائے۔ حافظ ابن حجر نے اس کو ترجیح دی ہے کہ سارا بدن ڈھانکا جائے ایسا کفن دینا چاہیے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ قریشی جلیل القدر صحابی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے ہی ان کو مدینہ شریف بطور معلم القرآن ومبلغ اسلام بھیج دیا تھا۔ ہجرت سے پہلے ہی انہوں نے مدینہ میں جمعہ قائم فرمایا جب کہ مدینہ خود ایک گاؤں تھا۔ اسلام سے قبل یہ قریش کے حسین نوجوانوں میں عیش وآرام میں زیب وزینت میں شہرت رکھتے تھے مگر اسلام لانے کے بعد یہ کامل درویش بن گئے۔ قرآن پاک کی آیت رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُو اللّٰہَ عَلَیہِ ( الاحزاب: 23 ) ان ہی کے حق میں نازل ہوئی۔ جنگ احد میں یہ شہید ہوئے ( رضی اللہ عنہ وارضاہ )


بَابُ إِذَا لَمْ يُوجَدْ إِلَّا ثَوْبٌ وَاحِدٌ

باب: اگر میت کے پاس ایک ہی کپڑا نکلے


1275 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ إِبْرَاهِيمَ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِطَعَامٍ وَكَانَ صَائِمًا فَقَالَ قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي كُفِّنَ فِي بُرْدَةٍ إِنْ غُطِّيَ رَأْسُهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ وَإِنْ غُطِّيَ رِجْلَاهُ بَدَا رَأْسُهُ وَأُرَاهُ قَالَ وَقُتِلَ حَمْزَةُ وَهُوَ خَيْرٌ مِنِّي ثُمَّ بُسِطَ لَنَا مِنْ الدُّنْيَا مَا بُسِطَ أَوْ قَالَ أُعْطِينَا مِنْ الدُّنْيَا مَا أُعْطِينَا وَقَدْ خَشِينَا أَنْ تَكُونَ حَسَنَاتُنَا عُجِّلَتْ لَنَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي حَتَّى تَرَكَ الطَّعَامَ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں ان کے باپ ابراہیم بن عبدالرحمن نے کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے کھانا حاضر کیا گیا۔ وہ روزہ سے تھے اس وقت انہوں نے فرمایا کہ ہائے! مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے‘ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ لیکن ان کے کفن کے لیے صرف ایک چادر میسر آسکی کہ اگر اس سے ان کا سرڈھانکا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانکے جاتے تو سرکھل جاتا اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے یہ بھی فرمایا اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی ( اسی طرح ) شہید ہوئے وہ بھی مجھ سے اچھے تھے۔ پھر ان کے بعد دنیا کی کشادگی ہمارے لیے خوب ہوئی یا یہ فرمایا کہ دنیا ہمیں بہت دی گئی اور ہمیں تو اس کا ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری نیکیوں کا بدلہ اسی دنیا میں ہم کو مل گیا ہو پھر آپ اس طرح رونے لگے کہ کھانا بھی چھوڑ دیا۔
تشریح : حضرت مصعب رضی اللہ عنہ کے ہاں صرف ایک چادر ہی ان کا کل متاع تھی، وہ بھی تنگ‘ وہی ان کے کفن میں دے دی گئی۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ حالانکہ حضرت عبدالرحمن روزہ دار تھے دن بھر کے بھوکے تھے پھر بھی ان تصورات میں کھانا ترک کردیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف عشرہ مبشرہ میں سے ہیں اور اس قدر مالدار تھے کہ رئیس التجار کا لقب ان کو حاصل تھا۔ انتقال کے وقت دولت کے انبار ورثاءکو ملے۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں کی ہر ممکن خدمات کے لیے ہر وقت حاضر رہا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان کے کئی سو اونٹ مع غلہ کے ملک شام سے آئے تھے۔ وہ سارا غلہ مدینہ والوں کے لیے مفت تقسیم فرما دیا۔ رضی اللہ عنہ وار ضاہ


بَابُ إِذَا لَمْ يَجِدْ كَفَنًا إِلَّا مَا يُوَارِي رَأْسَهُ، أَوْ قَدَمَيْهِ غَطَّى رَأْسَهُ

باب: جب کفن کا کپڑا چھوٹا ہو کہ سر اور پاؤں


1276 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا شَقِيقٌ حَدَّثَنَا خَبَّابٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ هَاجَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَلْتَمِسُ وَجْهَ اللَّهِ فَوَقَعَ أَجْرُنَا عَلَى اللَّهِ فَمِنَّا مَنْ مَاتَ لَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَتْ لَهُ ثَمَرَتُهُ فَهُوَ يَهْدِبُهَا قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ فَلَمْ نَجِدْ مَا نُكَفِّنُهُ إِلَّا بُرْدَةً إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ خَرَجَتْ رِجْلَاهُ وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ خَرَجَ رَأْسُهُ فَأَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُغَطِّيَ رَأْسَهُ وَأَنْ نَجْعَلَ عَلَى رِجْلَيْهِ مِنْ الْإِذْخِرِ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شقیق نے بیان کیا‘ کہا ہم سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اللہ کے لیے ہجرت کی۔ اب ہمیں اللہ تعالیٰ سے اجر ملنا ہی تھا۔ ہمارے بعض ساتھی تو انتقال کرگئے اور ( اس دنیا میں ) انہوں نے اپنے کئے کا کوئی پھل نہیں دیکھا۔ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھے اور ہمارے بعض ساتھیوں کا میوہ پک گیا اور وہ چن چن کر کھاتا ہے۔ ( مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ ) احد کی لڑائی میں شہید ہوئے ہم کو ان کے کفن میں ایک چادر کے سوا اور کوئی چیز نہ ملی اور وہ بھی ایسی کہ اگر اس سے سر چھپاتے ہیں تو پاؤں کھل جاتا ہے اور اگر پاؤں ڈھکتے تو سرکھل جاتا۔ آخر یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سرکو چھپا دیں اور پاؤں پر سبز گھاس اذ خرنامی ڈال دیں۔
تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا کفن جب ناکافی رہا تو ان کے پیروں کو اذخرنامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا


بَابُ مَنِ اسْتَعَدَّ الكَفَنَ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُنْكَرْ عَلَيْهِ

باب: جس نےاپنا کفن خود ہی تیار رکھا


1277 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبُرْدَةٍ مَنْسُوجَةٍ، فِيهَا حَاشِيَتُهَا»، أَتَدْرُونَ مَا البُرْدَةُ؟ قَالُوا: الشَّمْلَةُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَتْ: نَسَجْتُهَا بِيَدِي فَجِئْتُ لِأَكْسُوَكَهَا، «فَأَخَذَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَإِنَّهَا إِزَارُهُ»، فَحَسَّنَهَا فُلاَنٌ، فَقَالَ: اكْسُنِيهَا، مَا أَحْسَنَهَا، قَالَ القَوْمُ: مَا أَحْسَنْتَ، لَبِسَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْتَاجًا إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلْتَهُ، وَعَلِمْتَ أَنَّهُ لاَ يَرُدُّ، قَالَ: إِنِّي وَاللَّهِ، مَا سَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهُ، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَكُونَ كَفَنِي، قَالَ سَهْلٌ: فَكَانَتْ كَفَنَهُ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے سہل رضی اللہ عنہ نے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بنی ہوئی حاشیہ دار چادر آپ کے لیے تحفہ لائی۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے ( حاضرین سے ) پوچھا کہ تم جانتے ہو چادر کیا؟ لوگوں نے کہا کہ جی ہاں! شملہ۔ سہل رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں شملہ ( تم نے ٹھیک بتایا ) خیر اس عورت نے کہا کہ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے بناہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنانے کے لیے لائی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کپڑا قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اس وقت ضرورت بھی تھی پھر اسے ازار کے طورپر باندھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو ایک صاحب ( عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یہ تو بڑی اچھی چادر ہے‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے پہنا دیجئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے ( مانگ کر ) کچھ اچھا نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی ضرورت کی وجہ سے پہنا تھا اور تم نے یہ مانگ لیا حالانکہ تم کو معلوم ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا سوال رد نہیں کرتے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! میں نے اپنے پہننے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر نہیں مانگی تھی۔ بلکہ میں اسے اپنا کفن بناؤں گا۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہی چادر ان کا کفن بنی۔
تشریح : گویا حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی ہی میں اپنا کفن مہیا کرلیا۔ یہی باب کا مقصد ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مخیر معتمد بزرگ سے کسی واقعی ضرورت کے موقع پر جائز سوال بھی کیا جاسکتا ہے۔ ایسی احادیث سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرکے جو آج کے پیروں کا تبرک حاصل کیا جاتا ہے یہ درست نہیں کیونکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات اور معجزات میں سے ہیں اور آپ ذریعہ خیروبرکت ہیں کوئی اور نہیں۔


بَابُ اتِّبَاعِ النِّسَاءِ الجَنَائِزَ

باب: عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا کیسا ہے؟


1278 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ نُهِينَا عَنْ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا

ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے خالد حذاءنے‘ ان سے ام ہذیل حفصہ بنت سیرین نے‘ ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہمیں ( عورتوں کو ) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔
تشریح : بہر حال عورتوں کے لیے جنازہ کے ساتھ جانا منع ہے۔ کیونکہ عورتیں ضعیف القلب ہوتی ہیں۔ وہ خلاف شرع حرکات کرسکتی ہیں۔ شارع کی اور بھی بہت سی مصلحتیں ہیں۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا

باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ


1279 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ تُوُفِّيَ ابْنٌ لِأُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الثَّالِثُ دَعَتْ بِصُفْرَةٍ فَتَمَسَّحَتْ بِهِ وَقَالَتْ نُهِينَا أَنْ نُحِدَّ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ إِلَّا بِزَوْجٍ

ترجمہ : ہم سے مسددبن مسرہد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے بشربن مفضل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سلمہ بن علقمہ نے اور ان سے محمد بن سیرین نے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے تیسرے دن انہوں نے صفرہ خلوق ( ایک قسم کی زرد خوشبو ) منگوائی اور اسے اپنے بدن پر لگایا اور فرمایا کہ خاوند کے سوا کسی دوسرے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا

باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ


1280 حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى قَالَ أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ نَافِعٍ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ قَالَتْ لَمَّا جَاءَ نَعْيُ أَبِي سُفْيَانَ مِنْ الشَّأْمِ دَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِصُفْرَةٍ فِي الْيَوْمِ الثَّالِثِ فَمَسَحَتْ عَارِضَيْهَا وَذِرَاعَيْهَا وَقَالَتْ إِنِّي كُنْتُ عَنْ هَذَا لَغَنِيَّةً لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ فَإِنَّهَا تُحِدُّ عَلَيْهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب بن موسیٰ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے حمید بن نافع نے زینب بنت ابی سلمہ سے خبر دی کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر جب شام سے آئی تو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ( ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی اور ام المؤمنین ) نے تیسرے دن صفرہ ( خوشبو ) منگوا کر اپنے دونوں رخساروں اور بازوؤں پر ملا اور فرمایا کہ اگر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہ سنا ہوتا کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ شوہر کے سوا کسی کا سوگ تین دن سے زیادہ منائے اور شوہر کا سوگ چار مہینے دس دن کرے۔ تو مجھے اس وقت اس خوشبو کے استعمال کی ضرورت نہیں تھی۔
تشریح : جب کہ میں خود رانڈ بیوہ اوربڑھیا ہوں، میں نے اس حدیث پر عمل کرنے کے خیال سے خوشبو کا استعمال کرلیا۔ قال بن حجر ہو وہم لانہ مات بالمدینۃ بلا خلاف وانما الذی مات بالشام اخوہا یزید بن ابی سفیان والحدیث فی مسندی ابن ابی شیبۃ والدارمی بلفظ جاءنعی لا خی ام حبیبۃ اوحمیم لہا ولا حمد نحوہ فقوی کو نہ اخاہا یعنی علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ وہم ہے۔ اس لیے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال بلا اختلاف مدینہ میں ہوا ہے۔ شام میں انتقال کرنے والے ان کے بھائی یزید بن ابی سفیان تھے۔ مسند ابن ابی شیبہ اور دارمی اورمسند احمد وغیرہ میں یہ وضاحت موجود ہے۔ اس حدیث سے ظاہر ہوا کہ صرف بیوی اپنے خاوند پر چار ماہ دس دن سوگ کرسکتی ہے اور کسی بھی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں ہے۔ بیوی کے خاوند پر اتنا سوگ کرنے کی صورت میں بھی بہت سے اسلامی مصالح پیش نظر ہیں۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا

باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ


1281 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن عمروبن حزم نے‘ ان سے حمید بن نافع نے‘ ان کو زینب بنت ابی سلمہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کوئی بھی عورت جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے شوہر کے سوا کسی مردے پر بھی تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ہے۔ ہاں شوہر پر چار مہینے دس دن تک سوگ منائے۔


بَابُ إِحْدَادِ المَرْأَةِ عَلَى غَيْرِ زَوْجِهَا

باب: عورت کا اپنے خاوند کے سوا سوگ


1282 ثُمَّ دَخَلْتُ عَلَى زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ حِينَ تُوُفِّيَ أَخُوهَا، فَدَعَتْ بِطِيبٍ، فَمَسَّتْ بِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ، غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى المِنْبَرِ يَقُولُ: «لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ، تُحِدُّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا

ترجمہ : پھر میں حضرت زینب بنت حجش کے یہاں گئی جب کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوا‘ انہوں نے خوشبو منگوائی اور اسے لگایا‘ پھر فرمایا کہ مجھے خوشبو کی کوئی ضرورت نہ تھی لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ کسی بھی عورت کو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو‘ جائز نہیں ہے کہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ لیکن شوہر کا سوگ ( عدت ) چار مہینے دس دن تک کرے۔


بَابُ زِيَارَةِ القُبُورِ

باب: قبرروں کی زیارت کرنا


1283 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ تَبْكِي عِنْدَ قَبْرٍ فَقَالَ اتَّقِي اللَّهَ وَاصْبِرِي قَالَتْ إِلَيْكَ عَنِّي فَإِنَّكَ لَمْ تُصَبْ بِمُصِيبَتِي وَلَمْ تَعْرِفْهُ فَقِيلَ لَهَا إِنَّهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَتْ بَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدَهُ بَوَّابِينَ فَقَالَتْ لَمْ أَعْرِفْكَ فَقَالَ إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک عورت پر ہوا جو قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے ڈر اور صبر کر۔ وہ بولی جاؤ جی پرے ہٹو۔ یہ مصیبت تم پر پڑی ہوتی تو پتہ چلتا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان نہ سکی تھی۔ پھر جب لوگوں نے اسے بتایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے، تو اب وہ ( گھبرا کر ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر پہنچی۔ وہاں اسے کوئی دربان نہ ملا۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو پہچان نہ سکی تھی۔ ( معاف فرمائیے ) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبر تو جب صدمہ شروع ہو اس وقت کرنا چاہیے۔ ( اب کیا ہوتا ہے )
تشریح : مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ “میں نے تمہیں قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا تھا‘ لیکن اب کرسکتے ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائے اسلام میں ممانعت تھی اور پھر بعد میں اس کی اجازت مل گئی۔” دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ قبروں پر جایا کرو کہ اس سے موت یاد آتی ہے یعنی اس سے آدمی کے دل میں رقت پیدا ہوتی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ “اللہ نے ان عورتوں پر لعنت کی ہے جو قبروں کی بہت زیارت کرتی ہیں۔” اس کی شرح میں قرطبی نے کہا کہ یہ لعنت ان عورتوں پر ہے جو رات دن قبروں ہی میں پھرتی رہیں اور خاوندوں کے کاموں کا خیال نہ رکھیں، نہ یہ کہ مطلق زیارت عورتوں کو منع ہے۔ کیونکہ موت کو یاد کرنے میں مرد عورت دونوں برابر ہیں۔ لیکن عورتیں اگر قبرستان میں جاکر جزع فزع کریں اور خلاف شرع امور کی مرتکب ہوں تو پھر ان کے لیے قبروں کی زیارت جائز نہیں ہوگی۔ علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں: ان زیارۃ القبور مکروہ للنساءبل حرام فی ہذا الزمان ولا سیما نساءمصر یعنی حالات موجودہ میں عورتوں کے لیے زیارت قبور مکروہ بلکہ حرام ہے خاص طور پر مصری عورتوں کے لیے۔ یہ علامہ نے اپنے حالات کے مطابق کہا ہے ورنہ آج کل ہر جگہ عورتوں کا یہی حال ہے۔ مولانا وحید الزماں صاحب مرحوم فرماتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صاف نہیں بیان کیا کہ قبروں کی زیارت جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس میں اختلاف ہے اور جن حدیثوں میں زیارت کی اجازت آئی ہے وہ ان کی شرط پر نہ تھیں، مسلم نے مرفوعاً نکالا “میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا اب زیارت کرو کیونکہ اس سے آخرت کی یاد پیدا ہوتی ہے۔” ( وحیدی ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے جو حدیث یہاں نقل فرمائی ہے اس سے قبروں کی زیارت یوں ثابت ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو وہاں رونے سے منع فرمایا۔ مطلق زیارت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ اسی سے قبروں کی زیارت ثابت ہوئی۔ مگر آج کل اکثر لوگ قبرستان میں جاکر مردوں کا وسیلہ تلاش کرتے اور بزرگوں سے حاجت طلب کرتے ہیں۔ ان کی قبروں پر چادر چڑھاتے پھول ڈالتے ہیں وہاں جھاڑو بتی کا انتظام کرتے اورفرش فروش بچھاتے ہیں۔ شریعت میں یہ جملہ امور ناجائز ہیں۔ بلکہ ایسی زیارات قعطاً حرام ہیں جن سے اللہ کی حدود کو توڑا جائے اور وہاں خلاف شریعت کام کئے جائیں۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1284 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ وَمُحَمَّدٌ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَرْسَلَتْ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِ إِنَّ ابْنًا لِي قُبِضَ فَأْتِنَا فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ وَيَقُولُ إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلٌّ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ تُقْسِمُ عَلَيْهِ لَيَأْتِيَنَّهَا فَقَامَ وَمَعَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَمَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ وَزَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَرِجَالٌ فَرُفِعَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّبِيُّ وَنَفْسُهُ تَتَقَعْقَعُ قَالَ حَسِبْتُهُ أَنَّهُ قَالَ كَأَنَّهَا شَنٌّ فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا فَقَالَ هَذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ

ترجمہ : ہم سے عبد ان اور محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم کو عاصم بن سلیمان نے خبر دی ‘ انہیں ابوعثمان عبدالرحمن نہدی نے‘ کہا کہ مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ( حضرت زینب رضی اللہ عنہ ) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع کرائی کہ میرا ایک لڑکا مرنے کے قریب ہے‘ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور کہلوایا کہ اللہ تعالیٰ ہی کا سارا مال ہے‘ جو لے لیا وہ اسی کا تھا اور جو اس نے دیا وہ بھی اسی کا تھا اور ہر چیز اس کی بارگاہ سے وقت مقررہ پر ہی واقع ہوتی ہے۔ اس لیے صبر کرو اور اللہ تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھو۔ پھر حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے قسم دے کر اپنے یہاں بلوا بھیجا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانے کے لیے اٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سعد بن عبادہ‘ معاذ بن جبل‘ ابی بن کعب‘ زیدبن ثابت اور بہت سے دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا۔ جس کی جانکنی کا عالم تھا۔ ابو عثمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جیسے پُرانا مشکیزہ ہوتا ہے ( اور پانی کے ٹکرانے کی اندر سے آواز ہوتی ہے۔ اسی طرح جانکنی کے وقت بچہ کے حلق سے آواز آرہی تھی ) یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ سعد رضی اللہ عنہ بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! یہ رونا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اللہ کی رحمت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ( نیک ) بندوں کے دلوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اپنے ان رحم دل بندوں پر رحم فرماتا ہے جو دوسروں پر رحم کرتے ہیں۔
تشریح : اس مسئلہ میں ابن عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کا ایک مشہور اختلاف تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ کی وجہ سے عذاب ہوگا یا نہیں؟ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس باب میں اسی اختلاف پر یہ طویل محاکمہ کیا ہے۔ اس سے متعلق مصنف رحمہ اللہ متعدد احادیث ذکر کریں گے اور ایک طویل حدیث میں جو اس باب میں آئے گی۔ دونوں کی اس سلسلے میں اختلاف کی تفصیل بھی موجود ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کا خیال یہ تھا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب نہیں ہوتا کیونکہ ہر شخص صرف اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ قرآن میں خود ہے کہ کسی پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں لاَ تَزِرُ وَازِرَۃ وِّزرَ اُخرٰی ( الانعام : 164 ) اس لیے نوحہ کی وجہ سے جس گناہ کے مرتکب مردہ کے گھروالے ہوتے ہیں اس کی ذمہ داری مردے پر کیسے ڈالی جاسکتی ہے؟ لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پیش نظریہ حدیث تھی “میت پر اس کے گھر والوں کے نوحہ سے عذاب ہوتا ہے”۔ حدیث صاف تھی اور خاص میت کے لیے لیکن قرآن میں ایک عام حکم بیان ہوا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ کا جواب یہ تھا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے غلطی ہوئی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک خاص واقعہ سے متعلق تھا۔ کسی یہودی عورت کا انتقال ہوگیا تھا۔ اس پر اصل عذاب کفر کی وجہ سے ہورہا تھا لیکن مزید اضافہ گھر والوں کے نوحہ نے بھی کردیا تھا کہ وہ اس کے استحاق کے خلاف اس کا ماتم کررہے تھے اور خلاف واقعہ نیکیوں کو اس کی طرف منسوب کررہے تھے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر جو کچھ فرمایا وہ مسلمانوں کے بارے میں نہیں تھا۔ لیکن علماءنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے خلاف حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس استدلال کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف ابن عمررضی اللہ عنہما کی حدیث کو بھی ہر حال میں نافذ نہیں کیا بلکہ اس کی نوک پلک دوسرے شرعی اصول وشواہد کی روشنی میں درست کئے گئے ہیں اور پھر اسے ایک اصول کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا ہے۔ علماءنے اس حدیث کی جو مختلف وجوہ و تفصیلات بیان کی ہیں انہیں حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ اس پر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے محاکمہ کا حاصل یہ ہے کہ شریعت کا ایک اصول ہے۔ حدیث میں ہے کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ ہر شخص نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں سے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ یہ حدیث متعدد اور مختلف روایتوں سے کتب احادیث اور خود بخاری میں موجود ہے۔ یہ ایک مفصل حدیث ہے اور اس میں تفصیل کے ساتھ یہ بتایا گیا ہے کہ بادشاہ سے لے کر ایک معمولی سے معمولی خادم تک راعی اور نگراں کی حیثیت رکھتا ہے اور ان سب سے ان کی رعیتوں کے متعلق سوال ہوگا۔ یہاں صاحب تفہیم البخاری نے ایک فاضلانہ بیان لکھا ہے جسے ہم شکریہ کے ساتھ “تشریح” میں نقل کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے کہ قوآ انفسکم واہليکم ناراً ( التحریم:6 ) خود کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس موقع پر واضح کیا ہے کہ جس طرح اپنی اصلاح کا حکم شریعت نے دیا ہے اسی طرح اپنی رعیت کی اصلاح کا بھی حکم ہے‘ اس لیے ان میں سے کسی ایک کی اصلاح سے غفلت تباہ کن ہے۔ اب اگر مردے کے گھر غیر شرعی نوحہ وماتم کا رواج تھا لیکن اپنی زندگی میں اس نے انہیں اس سے نہیں روکا اور اپنے گھر میں ہونے والے اس منکر پر واقفیت کے باوجود اس نے تساہل سے کام لیا‘ تو شریعت کی نظر میں وہ بھی مجرم ہے۔ شریعت نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ایک اصول بنادیا تھا۔ ضروری تھا کہ اس اصول کے تحت اپنی زندگی میں اپنے گھر والوں کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کرتا۔ لیکن اگر اس نے ایسا نہیں کیا‘ تو گویا وہ خود اس عمل کا سبب بنا ہے۔ شریعت کی نظر اس سلسلے میں بہت دور تک ہے۔ اسی محاکمہ میں امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ “کوئی شخص اگر ظلماً ( ظالمانہ طور پر ) قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل کی ایک حد تک ذمہ داری آدم علیہ السلام کے سب سے پہلے بیٹے ( قابیل ) پر عائد ہوتی ہے۔” قابیل نے اپنے بھائی ہابیل کو قتل کردیا تھا۔ یہ روئے زمین پر سب سے پہلا ظالمانہ قتل تھا۔ اس سے پہلے دنیا اس سے ناواقف تھی۔ اب چونکہ اس طریقہ ظلم کی ایجاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کی تھی‘ اس لیے قیامت تک ہونے والے ظالمانہ قتل کے گناہ کا ایک حصہ اس کے نام بھی لکھا جائے گا۔ شریعت کے اس اصول کو اگر سامنے رکھا جائے تو عذاب وثواب کی بہت سی بنیادی گر ہیں کھل جائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان کردہ اصول پر بھی ایک نظر ڈال لیجئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ قرآن نے خود فیصلہ کردیا ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی کوئی ذمہ داری نہیں۔” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ مرنے والے کو کیا اختیار ہے؟ اس کا تعلق اب اس عالم ناسوت سے ختم ہوچکا ہے۔ نہ وہ کسی کو روک سکتا ہے اور نہ اس پر قدرت ہے۔ پھر اس ناکردہ گناہ کی ذمہ داری اس پر عائد کرنا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے؟ اس موقع پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شریعت نے ہر چیز کے لیے اگرچہ ضابطے اور قاعدے متعین کردئیے ہیں لیکن بعض اوقات کسی ایک میں بہت سے اصول بیک وقت جمع ہوجاتے ہیں اور یہیں سے اجتہاد کی حد شروع ہوجاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ جزئی کس ضابطے کے تحت آسکتی ہے؟ اور ان مختلف اصول میں اپنے مضمرات کے اعتبار سے جزئی کس اصول سے زیادہ قریب ہے؟ اس مسئلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اجتہاد سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میت پر نوحہ وماتم کا میت سے تعلق قرآن کے بیان کردہ اس اصول سے متعلق ہے کہ “کسی انسان پر دوسرے کی ذمہ داری نہیں۔” جیسا کہ ہم نے تفصیل سے بتایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اجتہاد کو امت نے اس مسئلہ میں قبول نہیں کیا ہے۔ اس باب پر ہم نے یہ طویل نوٹ اس لیے لکھا کہ اس میں روز مرہ زندگی سے متعلق بعض بنیادی اصول سامنے آئے تھے۔ جہاں تک نوحہ وماتم کا سوال ہے اسے اسلام ان غیر ضروری اور لغو حرکتوں کی وجہ سے رد کرتا ہے جو اس سلسلے میں کی جاتی تھیں۔ ورنہ عزیز وقریب یا کسی بھی متعلق کی موت پر غم قدرتی چیز ہے اور اسلام نہ صرف اس کے اظہار کی اجازت دیتا ہے بلکہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض افراد کو جن کے دل میں اپنے عزیز وقریب کی موت سے کوئی ٹیس نہیں لگی‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت دل کہا۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عزیز وقریب کی وفات پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے ( تفہیم البخاری ) نصوص شرعیہ کی موجودگی میں ان کے خلاف اجتہاد قابل قبول نہیں ہے۔ خواہ اجتہاد کرنے والا کوئی ہو۔ رائے اور قیاس ہی وہ بیماریاں ہیں جنہوں نے امت کا بیڑہ غرق کردیا اور امت تقسیم درتقسیم ہوکر رہ گئی۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کی مناسب توجیہ فرمادی ہے‘ وہی ٹھیک ہے


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1285 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ شَهِدْنَا بِنْتًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ قَالَ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ قَالَ فَقَالَ هَلْ مِنْكُمْ رَجُلٌ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَنَا قَالَ فَانْزِلْ قَالَ فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ( حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا ) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ ( وہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا ۵ھ میں انتقال ہوا ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔
تشریح : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں اتارا۔ ایسا کرنے سے ان کو تنبیہ کرنا منظور تھی۔ کہتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس شب میں جس میں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہانے انتقال فرمایا ایک لونڈی سے صحبت کی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ کام پسند نہ آیا ( وحیدی ) حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں۔ ان کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے آپ کا عقد فرما دیا جن کے انتقال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اسے بھی عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے عقد میں دیتا۔ اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جو وقعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی وہ ظاہر ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1286 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: تُوُفِّيَتْ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِمَكَّةَ، وَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا وَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا – أَوْ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي – فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِعَمْرِو بْنِ [ص:80] عُثْمَانَ: أَلاَ تَنْهَى عَنِ البُكَاءِ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ المَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عبد ان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن عبیداللہ بن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی ( ام ابان ) کا مکہ میں انتقال ہوگیا تھا۔ ہم بھی ان کے جنازے میں حاضر ہوئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی تشریف لائے۔ میں ان دونوں حضرات کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا یا یہ کہا کہ میں ایک بزرگ کے قریب بیٹھ گیا اور دوسرے بزرگ بعد میں آئے اور میرے بازو میں بیٹھ گئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمروبن عثمان سے کہا ( جو ام ابان کے بھائی تھے ) رونے سے کیوں نہیں روکتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ میت پر گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1287 – فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: قَدْ كَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، قَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنْ مَكَّةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ سَمُرَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ، فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلاَءِ الرَّكْبُ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا صُهَيْبٌ، فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالحَقْ أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي يَقُولُ: وَا أَخَاهُ وَا صَاحِبَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا صُهَيْبُ، أَتَبْكِي عَلَيَّ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ

ترجمہ : اس پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی تائید کی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی فرمایا تھا۔ پھر آپ بیان کرنے لگے کہ میں عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ سے چلا جب ہم بیداءتک پہنچے تو سامنے ایک ببول کے درخت کے نیچے چند سوار نظر پڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جاکر دیکھو تو سہی یہ کون لوگ ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا تو صہیب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر جب اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بلا لاؤ۔ میں صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ آیا اور کہا کہ چلئے امیرالمؤمنین بلاتے ہیں۔ چنانچہ وہ خدمت میں حاضر ہوئے۔ ( خیریہ قصہ تو ہوچکا ) پھر جب حضرت عمررضی اللہ عنہ زخمی کئے گئے تو صہیب رضی اللہ عنہ روتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ وہ کہہ رہے تھے ہائے میرے بھائی! ہائے میرے صاحب! اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ صہیب رضی اللہ عنہ! تم مجھ پر روتے ہو‘ تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میت پر اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1288 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ عُمَرَ، وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيُعَذِّبُ المُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ لَيَزِيدُ الكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ»، وَقَالَتْ: حَسْبُكُمُ القُرْآنُ: {وَلاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الأنعام: 164] قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «عِنْدَ ذَلِكَ وَاللَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى» قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: «وَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا شَيْئًا»

ترجمہ : ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو میں نے اس حدیث کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ رحمت عمر پر ہو۔ بخدارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ اللہ مومن پر اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے عذاب کرے گا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے گھروالوں کے رونے کی وجہ سے اور زیادہ کردیتا ہے۔ اس کے بعد کہنے لگیں کہ قرآن کی یہ آیت تم کو بس کرتی ہے کہ “ کوئی کسی کے گناہ کا ذمہ دار اور اس کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔ ” اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس وقت ( یعنی ام ابان کے جنازے میں ) سورئہ نجم کی یہ آیت پڑھی “ اور اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رُلاتا ہے۔ ” ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ خدا کی قسم! ابن عباس کی یہ تقریر سن کر ابن عمررضی اللہ عنہما نے کچھ جواب نہیں دیا۔
تشریح : یہ آیت سورۃ فاطر میں ہے۔ مطلب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ کسی شخص پر غیر کے فعل سے سزانہ ہوگی مگر ہاں جب اس کو بھی اس فعل میں ایک طرح کی شرکت ہو۔ جیسے کسی کے خاندان کی رسم رونا پیٹنا نوحہ کرنا ہو اور وہ اس سے منع نہ کر جائے تو بے شک اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے اس پر عذاب ہوگا۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس پر محمول ہے کہ جب میت نوحہ کرنے کی وصیت کرجائے۔ بعضوں نے کہا کہ عذاب سے یہ مطلب ہے کہ میت کو تکلیف ہوتی ہے اس کے گھر والوں کے نوحہ کرنے سے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی کی تائید کی ہے حدیث لاتقتل نفس کو خود امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے دیات وغیرہ میں وصل کیا ہے۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ ناحق خون کوئی اور بھی کرتا ہے تو قابیل پر اس کے گناہ کا ایک حصہ ڈالا جاتا ہے اور اس کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی کہ اس نے ناحق خون کی بنا سب سے پہلے قائم کی تو اسی طرح جس کے خاندان میں نوحہ کرنے اور رونے پیٹنے کی رسم ہے اور اس نے منع نہ کیا تو کیا عجب ہے کہ نوحہ کرنے والوں کے گناہ کا ایک حصہ اس پر بھی ڈالا جائے اور اس کو عذاب ہو۔ ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1289 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا: سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يَبْكِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا، فَقَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن ابی بکرنے‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک یہودی عورت پر ہوا جس کے مرنے پر اس کے گھر والے رو رہے تھے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ لوگ رو رہے ہیں حالانکہ اس کو قبر میں عذاب کیا جارہا ہے۔
تشریح : اس کے دونوں معنی ہوسکتے ہیں یعنی اس کے گھر والوں کے رونے سے یا اس کے کفر کی وجہ سے دوسری صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ یہ تو اس رنج میں ہیں کہ ہم سے جدائی ہوگئی اور اس کی جان عذاب میں گرفتار ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اگلی حدیث کی تفسیر کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ میت ہے جو کافر ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو عام سمجھا اور اسی لیے صہیب رضی اللہ عنہ پر انکار کیا۔ ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ : «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1290 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ خَلِيلٍ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ وَهْوَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَعَلَ صُهَيْبٌ يَقُولُ وَا أَخَاهُ فَقَالَ عُمَرُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا‘ ان سے علی بن مسہر نے بیان کیا‘ ان سے ابواسحاق شیبانی نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ان کے والد ابوموسیٰ اشعری نے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ کو زخمی کیا گیا تو صہیب رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے آئے‘ ہائے میرے بھائی! اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے۔
تشریح : شوکانی نے کہا کہ رونا اور کپڑے پھاڑنا اور نوحہ کرنا یہ سب کام حرام ہیں ایک جماعت سلف کا جن میں حضرت عمر اور عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ہیں یہ قول ہے کہ میت کے لوگوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اور جمہور علماءاس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ عذاب اسے ہوتا ہے جو رونے کی وصیت کرجائے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطلقاً یہ ثابت ہوا کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو مانا اور سن لیا۔ اس پر ہم کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے وہ رونا پکار کر رونا اور نوحہ کرنا ہے نہ کہ صرف آنسو بہانا۔ ( وحیدی )


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى المَيِّتِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1291 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ كَذِبًا عَلَيَّ لَيْسَ كَكَذِبٍ عَلَى أَحَدٍ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ نِيحَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عبیدنے‘ ان سے علی بن ربیعہ نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ میرے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا عام لوگوں سے متعلق جھوٹ بولنے کی طرح نہیں ہے جو شخص بھی جان بوجھ کر میرے اوپر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔ اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی سنا کہ کسی میت پر اگر نوحہ وماتم کیا جائے تو اس نوحہ کی وجہ سے بھی اس پر عذاب ہوتا ہے۔


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ النِّيَاحَةِ عَلَى المَيِّتِ

باب: میت پر نوحہ کرنا مکروہ ہے


1292 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ تَابَعَهُ عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ وَقَالَ آدَمُ عَنْ شُعْبَةَ الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عبد ان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی ‘ انہیں شعبہ نے‘ انہیں قتادہ نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کو اس پر نوحہ کئے جانے کی وجہ سے بھی قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ عبدان کے ساتھ اس حدیث کو عبدالاعلیٰ نے بھی یزیدبن زریع سے روایت کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا‘ کہا ہم سے قتادہ نے۔ اور آدم بن ابی ایاس نے شعبہ سے یوں روایت کیا کہ میت پر زندے کے رونے سے عذاب ہوتا ہے۔


بَابٌ


1293 بَاب حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُنْكَدِرِ قَالَ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ جِيءَ بِأَبِي يَوْمَ أُحُدٍ قَدْ مُثِّلَ بِهِ حَتَّى وُضِعَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ سُجِّيَ ثَوْبًا فَذَهَبْتُ أُرِيدُ أَنْ أَكْشِفَ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي ثُمَّ ذَهَبْتُ أَكْشِفُ عَنْهُ فَنَهَانِي قَوْمِي فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرُفِعَ فَسَمِعَ صَوْتَ صَائِحَةٍ فَقَالَ مَنْ هَذِهِ فَقَالُوا ابْنَةُ عَمْرٍو أَوْ أُخْتُ عَمْرٍو قَالَ فَلِمَ تَبْكِي أَوْ لَا تَبْكِي فَمَا زَالَتْ الْمَلَائِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا‘ ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محمد بن منکدر نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ میرے والد کی لاش احد کے میدان سے لائی گئی۔ ( مشرکوں نے ) آپ کی صورت تک بگاڑ دی تھی۔ نعش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھی گئی۔ اوپر سے ایک کپڑا ڈھکا ہوا تھا‘ میں نے چاہا کہ کپڑے کو ہٹاؤں۔ لیکن میری قوم نے مجھے روکا۔ پھر دوبارہ کپڑا ہٹانے کی کوشش کی۔ اس مرتبہ بھی میری قوم نے مجھ کو روک دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جنازہ اٹھایا گیا۔ اس وقت کسی زور زور سے رونے والے کی آواز سنائی دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ عمرو کی بیٹی یا ( یہ کہا کہ ) عمرو کی بہن ہیں۔ ( نام میں سفیان کو شک ہوا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روتی کیوں ہیں؟ یا یہ فرمایا کہ روؤ نہیں کہ ملائکہ برابر اپنے پروں کا سایہ کئے رہے ہیں جب تک اس کا جنازہ اٹھایا گیا۔


بَابٌ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ شَقَّ الجُيُوبَ

باب: گریبان چاک کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں


1294 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا زُبَيْدٌ الْيَامِيُّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا‘ کہ ہم سے سفیان ثوری نے‘ ان سے زبید یامی نے بیان کیا‘ ان سے ابراہیم نخعی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عورتیں ( کسی کی موت پر ) اپنے چہروں کو پیٹتی اور گریبان چاک کرلیتی ہیں اور جاہلیت کی باتیں بکتی ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔
تشریح : یعنی ہماری امت سے خارج ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ حرکت سخت ناپسندیدہ ہے


بَابُ رِثَاءِ النَّبِيِّ ﷺ سَعْدَ ابْنَ خَوْلَةَ

باب: وفات پر افسوس کرنا


1295 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الوَدَاعِ مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لاَ» فَقُلْتُ: بِالشَّطْرِ؟ فَقَالَ: «لاَ» ثُمَّ قَالَ: «الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ – أَوْ كَثِيرٌ – إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلًا صَالِحًا إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ البَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ» يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہیں امام مالک نے خبر دی۔ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اور انہیں ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال ( ۰۱ھ میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہاکہ میرا مرض شدت اختیار کرچکا ہے میرے پاس مال واسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کردوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی کردو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کروگے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتیٰ کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر ( حجتہ الوداع کرکے ) مکہ سے جارہے ہیں اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کروگے تو اس سے تمہارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہوگے اور بہت سے لوگوں کو ( مسلمانوں کو ) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو ( کفار و مرتدین کو ) نقصان۔ ( پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا۔ لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پاجانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔
تشریح : اس موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ احادیث کے ذخیرہ میں اس طرح کی احادیث کی کمی نہیں اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ خداوند تعالیٰ خود شارع ہیں اور اس نے اپنی تمام دوسری مخلوقات کے ساتھ انسانوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اس لیے انسان کی طبیعت میں فطری طور پر جو رجحانات اور صلاحیتیں موجود ہیں خداوند تعالیٰ اپنے احکام و اوامر میں انہیں نظرانداز نہیں کرتے۔ شریعت میں معاد ومعاش سے متعلق جن احکام پر عمل کرنے کا ہم سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ ان کا مقصد یہ ہے کہ خدا کی عبادت اس کی رضا کے مطابق ہوسکے اور زمین میں شرو فساد نہ پھیلے۔ اہل وعیال پر خرچ کرنے کی اہمیت اور اس پر اجروثواب کا استحقاق صلہ رحمی اور خاندانی نظام کی اہمیت کے پیش نظر ہے کہ جن پر معاشرہ کی صلاح وبقا کا مدار ہے۔ حدیث کا یہ حصہ کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ دے تو اس پر بھی اجروثواب ملے گا اسی بنیاد پر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اس میں حظ نفس بھی ہے۔ لیکن اگر ازدواجی زندگی کے ذریعہ مسلمان اس خاندانی نظام کو پروان چڑھاتا ہے جس کی ترتیب اسلام نے دی اور اس کے مقتضیات پر عمل کی کوشش کرتا ہے تو قضاءشہوت بھی اجروثواب کا باعث ہے۔ شیخ نووی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حظ نفس اگر حق کے مطابق ہوتو اجروثواب میں اس کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مسلم میں اس سلسلے کی ایک حدیث بہت زیادہ واضح ہے‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری شرمگاہ میں صدقہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم اپنی شہوت بھی پوری کریں اور اجر بھی پائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ اگر حرام میں مبتلا ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ شریعت ہمیں کن حدود میں رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے کیا کیا جتن کئے ہیں اور ہمارے بعض فطری رجحانات کی وجہ سے جو بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی تھیں‘ ان کے سد باب کی کس طرح کوشش کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود کہ بیوی کے منہ میں لقمہ دینے اور دوسرے طریقوں سے خرچ کرنے کا داعیہ نفعانی اور شہوانی بھی ہے۔ خود یہ لقمہ جس جسم کا جزو بنے گا شوہر اسی سے منتفع ( فائدہ ) اٹھاتا ہے لیکن شریعت کی طرف سے پھر بھی اجروثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے اگر دوسروں پر خرچ کیا جائے جن سے کوئی نسبت وقرابت نہیں اور جہاں خرچ کرنے کے لیے کچھ زیادہ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہوگی تو اس پر اجروثواب کس قدر مل سکتا ہے۔ تاہم یہ یاد رہے کہ ہر طرح کے خرچ اخراجات میں مقدم اعزا واقرباءہیں۔ اور پھر دوسرے لوگ کہ اعزاپر خرچ کرکے آدمی شریعت کے کئی مطالبوں کو ایک ساتھ پورا کرتا ہے۔ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ مہاجرین میں سے تھے۔ لیکن آپ کی وفات مکہ میں ہوگئی تھی۔ یہ بات پسند نہیں کی جاتی تھی کہ جن لوگوں نے اللہ اور رسول سے تعلق کی وجہ سے اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہجرت کی تھی وہ بلا کسی سخت ضرورت کے مکہ میں قیام کریں۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو وہاں سے جلد نکل جانا چاہا کہ کہیں وفات نہ ہوجائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے اظہار غم کیا تھا کہ مہاجر ہونے کے باوجود ان کی وفات مکہ میں ہوگئی۔ اسی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کو ہجرت پر استقلال عطا فرمائے تاہم یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ نقصان کس طرح کا ہوگا۔ کیونکہ یہ تکوینیات سے متعلق ہے۔ ( تفہیم البخاری ) ترجمہ باب رثاءسے وہی اظہار افسوس اور رنج وغم مراد ہے نہ مرثیہ پڑھنا۔ مرثیہ اس کو کہتے ہیں کہ میت کے فضائل اور مناقب بیان کئے جائیں اور لوگوں کو بیان کرکے رلایا جائے۔ خواہ وہ نظم ہو یا نثر یہ تو ہماری شریعت میں منع ہے خصوصاً لوگوں کو جمع کرکے سنانا اور رُلانا اس کی ممانعت میں تو کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے جس کو احمد اور ابن ماجہ نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرثیوں سے منع فرمایا۔ سعد رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ اور صحابہ تو آپ کے ساتھ مدینہ طیبہ روانہ ہوجائیں گے اور میں مکہ ہی میں پڑے پڑے مرجاؤں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے گول مول فرمایا جس سے سعد رضی اللہ عنہ نے معلوم کرلیا کہ میں اس بیماری سے مروں گا نہیں۔ پھر آگے صاف فرمایا کہ شاید تو زندہ رہے گا اور تیرے ہاتھ سے مسلمانوں کو فائدہ اور کافروں کا نقصان ہوگا۔ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جیسے آپ کی پیش گوئی تھی ویسا ہی ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدت تک زندہ رہے عراق اور ایران انہوں نے فتح کیا۔ رضی اللہ عنہ ( وحیدی )


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ الحَلْقِ عِنْدَ المُصِيبَةِ

ڑغمی کے وقت سرمنڈوانے کی ممانعت


1296 وَقَالَ الحَكَمُ بْنُ مُوسَى: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرٍ: أَنَّ [ص:82] القَاسِمَ بْنَ مُخَيْمِرَةَ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَجِعَ أَبُو مُوسَى وَجَعًا شَدِيدًا، فَغُشِيَ عَلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حَجْرِ امْرَأَةٍ مِنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهَا شَيْئًا، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: أَنَا بَرِيءٌ مِمَّنْ بَرِئَ مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَرِئَ مِنَ الصَّالِقَةِ وَالحَالِقَةِ وَالشَّاقَّةِ» __________

ترجمہ : او رحکم بن موسیٰ نے بیان کیا کہ ہم سے یحیٰی بن حمزہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن جابر نے کہ قاسم بن مخیمرہ نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوبردہ ابوموسیٰ نے بیان کیاکہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیمار پڑے‘ ایسے کہ ان پر غشی طاری تھی اور ان کا سر ان کی ایک بیوی ام عبداللہ بنت ابی رومہ کی گود میں تھا ( وہ ایک زور کی چیخ مار کر رونے لگی ) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اس وقت کچھ بول نہ سکے لیکن جب ان کو ہوش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں بھی اس کام سے بیزار ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیزاری کا اظہار فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کسی غم کے وقت ) چلاکر رونے والی‘ سرمنڈوانے والی اور گریبان چاک کرنے والی عورتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ غمی میں سرمنڈوانا‘ گریبان چاک کرنا اور چلاکر نوحہ کرنا یہ جملہ حرکات حرام ہیں


بَابٌ: لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدُودَ

باب: رخسار پیٹنے والے ہم میں سے نہیں ہیں


1297 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ( کسی میت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان پھاڑے اور عہد جاہلیت کی سی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
تشریح : جو لوگ عرصہ دراز کے شہید شدہ بزرگوں پر سینہ کوبی کرتے ہیں وہ غور کریں کہ وہ کسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بغاوت کررہے ہیں۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ الوَيْلِ وَدَعْوَى الجَاهِلِيَّةِ عِنْدَ المُصِيبَةِ

باب: مصیبت کے وقت واویلا کرنے


1298 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ حفص نے اور ان سے اعمش نے اور ان سے عبداللہ بن مرہ نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ( کسی کی موت پر ) اپنے رخسار پیٹے‘ گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
تشریح : یعنی اس کا یہ عمل ان لوگوں جیسا ہے جو غیر مسلم ہیں یا یہ کہ ہماری امت سے خارج ہے۔ بہر حال اس سے بھی نوحہ کی حرمت ثابت ہوئی


بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ المُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الحُزْنُ

باب: جو مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ


1299 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ سَمِعْتُ يَحْيَى قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرٍ وَابْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَاهُ الثَّانِيَةَ لَمْ يُطِعْنَهُ فَقَالَ انْهَهُنَّ فَأَتَاهُ الثَّالِثَةَ قَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَزَعَمَتْ أَنَّهُ قَالَ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ لَمْ تَفْعَلْ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تَتْرُكْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْعَنَاءِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے یحیٰی ٰ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرہ نے خبر دی‘ کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ‘ جعفر اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت ( غزوئہ موتہ میں ) کی خبر ملی‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس طرح تشریف فرما تھے کہ غم کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر تھے۔ میں دروازے کے سوراخ سے دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی عورتوں کے رونے کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رونے سے منع کردے۔ وہ گئے لیکن واپس آکر کہا کہ وہ تو نہیں مانتیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ انہیں منع کردے۔ اب وہ تیسری مرتبہ واپس ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں ( عمرہ نے کہا کہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یقین ہوا کہ ( ان کے اس کہنے پر ) رسول کریم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میں نے کہا کہ تیرا برا ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب جس کام کا حکم دے رہے ہیں وہ تو کروگے نہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف میں ڈال دیا۔
تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے باز نہ آنے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور غصہ میں کہا کہ ان کے منہ میں مٹی جھونک دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد غمگین تھے۔ یہی مقصد باب ہے۔


بَابُ مَنْ جَلَسَ عِنْدَ المُصِيبَةِ يُعْرَفُ فِيهِ الحُزْنُ

باب: جو مصیبت کے وقت ایسا بیٹھے کہ


1300 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا حِينَ قُتِلَ الْقُرَّاءُ فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنَ حُزْنًا قَطُّ أَشَدَّ مِنْهُ

ترجمہ : ہم سے عمروبن علی نے بیان کیا‘ ان سے محمد بن فضیل نے بیان کیا‘ ان سے عاصم احول نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب قاریوں کی ایک جماعت شہید کردی گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک قنوت پڑھتے رہے۔ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں سے زیادہ کبھی غمگین رہے ہوں۔
تشریح : یہ شہدائے کرام قاریوں کی ایک معزز ترین جماعت تھی جو سترنفوس پر مشتمل تھی۔ حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں اس جماعت کا تعارف یہ ہے: وکانوا من اوزاع الناس ینزلون الصفۃ یتفقہون العلم ویتعلمون القرآن وکانوا رداءللمسلمین اذانزلت بہم نازلۃ وکانوا حقا عمار المسجد ولیوث الملاحم بعثہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی اہل نجد من بنی عامر لیدعوہم الی الاسلام ویقروا علیہم القرآن فلما نزلوا بئرمعونۃ قصدہم عامر بن الطفیل فی احباءمن بنی سلیم وہم رعل وذکو ان وعصیۃ فقاتلوہم ( فاصیبوا ) ای فقتلوا جمیعا وقیل ولم ینج منہم الاکعب بن زید الانصاری فانہ تخلص وبہ رمق وظنوا انہ مات فعاش حتی استشہدیوم الخندق واسر عمرو بن امیۃ الضمری وکان ذلک فی السنۃ الرابعۃ من الہجرۃ ای فی صفر علی راس اربعۃ اشہر من احد فحزن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حزنا شدیدا قال انس رضی اللہ عنہ مارایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجد علی احدما وجد علیہم ( مرعاۃ ج:2ص222 ) یعنی بعض اصحاب صفہ میں سے یہ بہترین اللہ والے بزرگ تھے جو قرآن پاک اور دینی علوم میں مہارت حاصل کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے کہ مصائب کے وقت ان کی دعائیں اہل اسلام کے لیے پشت پناہی کا کام دیتی تھی۔ یہ مسجد نبوی کے حقیقی طور پر آباد کرنے والے اہل حق لوگ تھے جو جنگ وجہاد کے مواقع پر بہادر شیروں کی طرح میدان میں کام کیا کرتے تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے قبیلہ بنو عامر میں تبلیغ اسلام اور تعلیم قرآن مجید کے لیے روانہ فرمایا تھا۔ جب یہ بئر معونہ کے قریب پہنچے تو عامر بن طفیل نامی ایک غدار نے رعل اور ذکوان نامی قبائل کے بہت سے لوگوں کو ہمراہ لے کر ان پر حملہ کردیا اور یہ سب وہاں شہید ہوگئے۔ جن کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے ایک ماہ تک قبائل رعل وذکوان کے لیے قنوت نازلہ پڑھی۔ یہ 4ھ کا واقعہ ہے۔ کہا گیا ہے کہ ان میں سے صرف ایک بزرگ کعب بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کسی طرح بچ نکلے۔ جسے ظالموں نے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔ یہ بعد تک زندہ رہے۔ یہاں تک کہ جنگ خندق میں شہید ہوئے۔ رضی اللہ عنہم آمین


بَابُ مَنْ لَمْ يُظْهِرْ حُزْنَهُ عِنْدَ المُصِيبَةِ

باب: جو شخص مصیبت کے وقت اپنا رنج ظاہر نہ کرے


1301 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ اشْتَكَى ابْنٌ لِأَبِي طَلْحَةَ قَالَ فَمَاتَ وَأَبُو طَلْحَةَ خَارِجٌ فَلَمَّا رَأَتْ امْرَأَتُهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ هَيَّأَتْ شَيْئًا وَنَحَّتْهُ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَلَمَّا جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ كَيْفَ الْغُلَامُ قَالَتْ قَدْ هَدَأَتْ نَفْسُهُ وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ اسْتَرَاحَ وَظَنَّ أَبُو طَلْحَةَ أَنَّهَا صَادِقَةٌ قَالَ فَبَاتَ فَلَمَّا أَصْبَحَ اغْتَسَلَ فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ أَعْلَمَتْهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ فَصَلَّى مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا كَانَ مِنْهُمَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُبَارِكَ لَكُمَا فِي لَيْلَتِكُمَا قَالَ سُفْيَانُ فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَرَأَيْتُ لَهُمَا تِسْعَةَ أَوْلَادٍ كُلُّهُمْ قَدْ قَرَأَ الْقُرْآنَ

ترجمہ : ہم سے بشربن حکم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک بچہ بیمار ہوگیا انہوں نے کہا کہ اس کا انتقال بھی ہوگیا۔ اس وقت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ گھر میں موجود نہ تھے۔ ان کی بیوی ( ام سلیم ) نے جب دیکھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا تو انہوں نے کچھ کھانا تیار کیا اور بچے کو گھر کے ایک کونے میں لٹا دیا۔ جب ابو طلحہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے پوچھا کہ بچے کی طبیعت کیسی ہے؟ ام سلیم نے کہا کہ اسے آرام مل گیا ہے اور میرا خیال ہے کہ اب وہ آرام ہی کررہا ہوگا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ وہ صحیح کہہ رہی ہیں۔ ( اب بچہ اچھا ہے ) پھر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ام سلیم کے پاس رات گزاری اور جب صبح ہوئی تو غسل کیا لیکن جب باہر جانے کا ارادہ کیا تو بیوی ( ام سلیم ) نے اطلاع دی کہ بچے کا انتقال ہوچکا ہے۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور آپ سے ام سلیم کا حال بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ تم دونوں کو اس رات میں برکت عطا فرمائے گا۔ سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انصار کے ایک شخص نے بتایا کہ میں نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی انہیں بیوی سے نو بیٹے دیکھے جو سب کے سب قرآن کے عالم تھے۔
تشریح : حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کی نیک ترین صالحہ صابرہ بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ بچے کا انتقال ہوگیا ہے اور اب وہ پورے سکون کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔ لیکن حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ بچے کو افاقہ ہوگیا ہے اور اب وہ آرام سے سورہا ہے۔ اس لیے وہ خود بھی آرام سے سوئے‘ ضروریات سے فارغ ہوئے اور بیوی کے ساتھ ہم بستر بھی ہوئے اور اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی بشارت دی۔ یہ کہ ان کے غیر معمولی صبروضبط اور خدا وند تعالیٰ کی حکمت پر کامل یقین کا ثمرہ تھا۔ بیوی کی اس ادا شناسی پر قربان جائیے کہ کس طرح انہوں نے اپنے شوہر کو ایک ذہنی کوفت سے بچالیا۔ محدث علی بن مدینی نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ان نولڑکوں کے نام نقل کئے ہیں جو سب عالم قرآن ہوئے اور اللہ نے ان کو بڑی ترقی بخشی۔ وہ نو بچے یہ تھے۔ اسحاق‘ اسماعیل‘ یعقوب‘ عمیر‘ عمر‘ محمد ‘ عبداللہ‘ زید اور قاسم۔ انتقال کرنے والے بچے کو ابوعمیر کہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیار سے فرمایا کرتے تھے ابوعمیر تمہاری نغیر یعنی چڑیا کیسی ہے؟ یہ بچہ بڑا خوبصورت اور وجیہ تھا۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ اس سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ بچے کی ماں ام سلیم کے استقلال کو دیکھئے کہ منہ پر تیوری نہ آنے دی اور رنج کو ایسا چھپایا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سمجھے واقعی بچہ اچھا ہوگیا ہے۔ پھر یہ دیکھئے کہ ام سلیم نے بات بھی ایسی کہی کہ جھوٹ نہ ہو کیونکہ موت درحقیقت راحت ہے۔ وہ معصوم جان تھی اس کے لیے تو مرنا آرام ہی آرام تھا۔ ادھر بیماری کی تکلیف گئی۔ ادھر دنیا کے فکروں سے جو مستقبل میں ہوتے نجات پائی۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ ام سلیم نے رنج اور صدمہ کو پی لیا بالکل ظاہر نہ ہونے دیا۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ ام سلیم نے اپنے خاوند سے کہا کہ اگر کچھ لوگ عاریت کی چیزلیں پھر واپس دینے سے انکار کریں تو کیسا ہے؟ اس پو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ہرگز انکار نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ عاریت کی چیز واپس کردینا چاہیے تب ام سلیم نے کہا کہ یہ بچہ بھی اللہ کا تھا۔ آپ کو عاریتہ ملا ہوا تھا‘ اللہ نے اسے لے لیا تو آپ کو رنج نہ کرنا چاہیے۔ اللہ نے ان کو صبرو استقلال کے بدلے نولڑکے عطا کئے جو سب عالم قرآن ہوئے۔ سچ ہے کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔


بَابُ الصَّبْرِ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الأُولَى

باب: صبر وہی ہے جو مصیبت آتے ہی کیا جائے


1302 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے ان سے ثابت نے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے نقل کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صبر تو وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں کیا جائے۔
تشریح : ترجمتہ الباب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے مصیبت کے وقت صبر کی فضیلت بیان کی کہ اس سے صابر بندے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق ملتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ والے قول کو حاکم نے مستدرک میں وصل کیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صلوات اور رحمت کو تو جانور کے دونوں طرف کے بوجھے قرار دیا اور بیچ کا بوجھ جو پیٹھ پر رہتا ہے اسے اولئک ہم المہتدون سے تعبیر فرمایا۔ پیچھے بیان ہوا ہے کہ ایک عورت ایک قبر پر بیٹھی ہوئی رو رہی تھی آپ نے اسے منع فرمایا تو وہ خفا ہوگئی۔ پھر جب اس کو آپ کے متعلق علم ہوا تو وہ دوڑی ہوئی معذرت خواہی کے لیے آئی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کیا رکھا ہے صبر تو مصیبت کے شروع ہی میں ہوا کرتا ہے۔


بَاب قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ إِنَّا بِكَ لَمَحْزُونُونَ وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ ؓ عَنْ النَّبِيِّ ﷺ تَدْمَعُ الْعَيْنُ وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ

باب: فرزند رسول اللہ ﷺ کی وفات اور آپ ﷺ کا اظہار غم


1303 حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنَا قُرَيْشٌ هُوَ ابْنُ حَيَّانَ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَيْفٍ الْقَيْنِ وَكَانَ ظِئْرًا لِإِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِبْرَاهِيمَ فَقَبَّلَهُ وَشَمَّهُ ثُمَّ دَخَلْنَا عَلَيْهِ بَعْدَ ذَلِكَ وَإِبْرَاهِيمُ يَجُودُ بِنَفْسِهِ فَجَعَلَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَذْرِفَانِ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ يَا ابْنَ عَوْفٍ إِنَّهَا رَحْمَةٌ ثُمَّ أَتْبَعَهَا بِأُخْرَى فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ رَوَاهُ مُوسَى عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ المُغِيرَةِ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے حسن بن عبدالعزیز نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن حسان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے قریش نے جو حیان کے بیٹے ہیں ، نے بیان کیا ، ان سے ثابت نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کی کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ابوسیف لوہار کے یہاں گئے ۔ یہ ابراہیم ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے رضی اللہ عنہ ) کو دودھ پلانے والی انا کے خاوند تھے ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم رضی اللہ عنہ کو گود میں لیا اور پیار کیا اور سونگھا ۔ پھر اس کے بعد ہم ان کے یہاں پھر گئے ۔ دیکھا کہ اس وقت ابراہیم رضی اللہ عنہ دم توڑ رہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئیں ۔ تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ یا رسول اللہ ! اور آپ بھی لوگوں کی طرح بےصبری کرنے لگے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ ابن عوف ! یہ بےصبری نہیں یہ تو رحمت ہے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ روئے اور فرمایا ۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں اور دل غم سے نڈھال ہے پر زبان سے ہم کہیں گے وہی جو ہمارے پروردگار کو پسند ہے اور اے ابراہیم ! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۔ اسی حدیث کو موسیٰ بن اسماعیل نے سلیمان بن مغیرہ سے ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے ۔


بَابُ البُكَاءِ عِنْدَ المَرِيضِ

باب: مریض کے پاس رونا کیسا ہے؟


1304 حَدَّثَنَا أَصْبَغُ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ اشْتَكَى سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ شَكْوَى لَهُ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ وَسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ فِي غَاشِيَةِ أَهْلِهِ فَقَالَ قَدْ قَضَى قَالُوا لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَبَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَى الْقَوْمُ بُكَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكَوْا فَقَالَ أَلَا تَسْمَعُونَ إِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ بِدَمْعِ الْعَيْنِ وَلَا بِحُزْنِ الْقَلْبِ وَلَكِنْ يُعَذِّبُ بِهَذَا وَأَشَارَ إِلَى لِسَانِهِ أَوْ يَرْحَمُ وَإِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ وَكَانَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَضْرِبُ فِيهِ بِالْعَصَا وَيَرْمِي بِالْحِجَارَةِ وَيَحْثِي بِالتُّرَابِ

ترجمہ : ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا‘ ان سے عبداللہ بن وہب نے کہا کہ مجھے خبر دی عمر وبن حارث نے‘ انہیں سعید بن حارث انصاری نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کے لیے عبدالرحمن بن عوف‘ سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کے ساتھ ان کے یہاں تشریف لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر گئے تو تیمار داروں کے ہجوم میں انہیں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا وفات ہو گئی؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ان کے مرض کی شدت کو دیکھ کر ) رو پڑے۔ لوگوں نے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو روتے ہوئے دیکھا تو وہ سب بھی رونے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر بھی عذاب نہیں کرے گا اور نہ دل کے غم پر۔ ہاں اس کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ کیا ( اور اگر اس زبان سے اچھی بات نکلے تو ) یہ اس کی رحمت کا بھی باعث بنتی ہے اور میت کو اس کے گھروالوں کے نوحہ وماتم کی وجہ سے بھی عذاب ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میت پر ماتم کرنے پر ڈنڈے سے مارتے‘ پتھر پھینکتے اور رونے والوں کے منہ میں مٹی جھونک دیتے۔
تشریح : فوجدہ فی غاشیۃ اہلہ کا ترجمہ بعضوں نے یوں کیا ہے دیکھا تو وہ بے ہوش ہیں اور ان کے گردا گرد لوگ جمع ہیں۔ آپ نے لوگوں کو اکٹھا دیکھ کر یہ گمان کیا کہ شاید سعد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا۔ آپ نے زبان کی طرف اشارہ فرماکر ظاہر فرمایا کہ یہی زبان باعث رحمت ہے اگر اس سے کلمات خیر نکلیں اور یہی باعث عذاب ہے اگر اس سے بُرے الفاظ نکالے جائیں۔ اس حدیث سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے جلال کا بھی اظہار ہوا کہ آپ خلاف شریعت رونے پیٹنے والوں پر انتہائی سختی فرماتے۔ فی الواقع اللہ طاقت دے تو شرعی اوامر ونواہی کے لیے پوری طاقت سے کام لینا چاہیے۔ حضرت سعد بن عبادہ انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ بڑے جلیل القدر صحابی ہیں۔ عقبہ ثانیہ میں شرف الاسلام سے مشرف ہوئے۔ ان کا شمار بارہ نقباءمیں ہے۔ انصار کے سرداروں میں سے تھے اور شان وشوکت میں سب سے بڑھ چڑھ کر تھے۔ بدر کی مہم کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مشاورتی اجلاس طلب فرمایا تھا اس میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے۔ اللہ کی قسم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم انصار کو سمندر میں کودنے کا حکم فرمائیں گے تو ہم اس میں کود پڑیں گے اور اگر خشکی میں حکم فرمائیں گے تو ہم وہاں بھی اونٹوں کے کلیجے پگھلاویں گے۔ آپ کی اس پر جوش تقریر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے حد خوش ہوئے۔ اکثر غزوات میں انصار کا جھنڈا اکثر آپ ہی کے ہاتھوں میں رہتا تھا۔ سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ خاص طور پر اصحاب صفہ پر آپ کے جو دو کرم کی بارش بکثرت برساکرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بے انتہا محبت تھی۔ اسی وجہ سے آپ کی اس بیماری میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو آپ کی بیماری کی تکلیف دہ حالت دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ 15ھ میں بہ زمانہ خلافت فاروقی سرزمین شام میں بمقام حوران آپ کی شہادت اس طرح ہوئی کہ کسی دشمن نے نعش مبارک کو غسل خانہ میں ڈال دیا۔ انتقال کے وقت ایک بیوی اور تین بیٹے آپ نے چھوڑے۔ اور حوران ہی میں سپرد خاک کئے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ آمین


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ

باب: نوحہ وبکا سے منع کرنااورجھڑکنا


1305 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ قَالَتْ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ لَمَّا جَاءَ قَتْلُ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ وَجَعْفَرٍ وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ جَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ فَأَتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ فَأَمَرَهُ بِأَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ الرَّجُلُ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ قَدْ نَهَيْتُهُنَّ وَذَكَرَ أَنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ فَأَمَرَهُ الثَّانِيَةَ أَنْ يَنْهَاهُنَّ فَذَهَبَ ثُمَّ أَتَى فَقَالَ وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنِي أَوْ غَلَبْنَنَا الشَّكُّ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ فَزَعَمَتْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ التُّرَابَ فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ فَوَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْعَنَاءِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبوالوہاب ثقفی نے‘ ان سے یحیٰی بن سعید انصاری نے‘ کہا کہ مجھے عمرہ بنت عبدالرحمن انصاری نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ جب زید بن حارثہ‘ جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم کی شہادت کی خبرآئی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ غم کے آثارآپ کے چہرے پر نمایاں تھے میں دروازے کے ایک سراخ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہی تھی۔ اتنے میں ایک صاحب آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! جعفر کے گھرکی عورتیں نوحہ اور ماتم کررہی ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روکنے کے لیے کہا۔ وہ صاحب گئے لیکن پھر واپس آگئے اور کہا کہ وہ نہیں مانتیں۔ آپ نے دوبارہ روکنے کے لیے بھیجا۔ وہ گئے اور پھر واپس چلے آئے۔ کہا کہ بخدا وہ تو مجھ پر غالب آگئی ہیں یا یہ کہا کہ ہم پر غالب آگئی ہیں۔ شک محمد بن حوشب کو تھا۔ ( عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ) میرا یقین یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے منہ میں مٹی جھونک دے۔ اس پر میری زبان سے نکلا کہ اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے تونہ تو وہ کام کرسکا جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا اور نہ آپ کو تکلیف دینا چھوڑتا ہے۔
تشریح : زید بن حارثہ کی والدہ کا نام سعدیٰ اور باپ کا نام حارثہ اور ابواسامہ کنیت تھی۔ بنی قضاعہ کے چشم وچراغ تھے جو یمن کا ایک معزز قبیلہ تھا۔ بچپن میں قزاق آپ کو اٹھاکر لے گئے۔ بازار عکاظ میں غلام بن کرچار سودر ہم میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت ہوکر ان کی پھوپھی ام المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پہنچ گئے اور وہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگئے۔ ان کے والد کو یمن میں خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے اور دربار نبوت میں ان کی واپسی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ کو کلی اختیار دے دیا کہ اگر وہ گھرجانا چاہیں تو خوشی سے اپنے والد کے ساتھ چلے جائیں اور اگر چاہیں تو میرے پاس رہیں۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر والوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دی اور والد اور چچا کے ہمراہ نہیں گئے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات اور اخلاق فاضلہ ان کے دل میں گھر کر چکے تھے۔ اس واقعہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مقام حجر میں لے گئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! گواہ رہو میں نے زید کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ وہ میرے وارث ہیں اور میں اس کا وارث ہوں۔ اس کے بعد وہ زید بن محمد یکارے حانے لگے۔ یہاں تک کہ قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی کہ متبنٰی لڑکوں کو ان کے والدین کی طرف منسوب کرکے پکارو۔ اللہ کے یہاں انصاف کی بات ہے۔ پھر وہ زیدبن حارثہ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح ام ایمن اپنی آزاد کردہ لونڈی سے کرادیا تھا۔ جن کے بطن سے ان کا لڑکا اسامہ پیدا ہوا۔ ان کی فضیلت کے لیے یہی کافی ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں ایک آیت میں ان کا نام لے کر ان کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے جب کہ قرآن مجید میں کسی بھی صحابی کا نام لے کر کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ غزوئہ موتہ 8ھ میں یہ بہادرانہ شہید ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر 55 سال کی تھی۔ ان کے بعد فوج کی کمان حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محترم چچا ابو طالب کے بیٹے تھے۔ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ یہ شروع ہی میں اکتیس آدمیوں کے ساتھ اسلام لے آئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے دس سال بڑے تھے۔ صورت اور سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی مشابہ تھے۔ قریش کے مظالم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ میں یہ بھی شریک ہوئے اور نجاشی کے دربار میں انہوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں ایسی پُرجوش تقریر کی کہ شاہ حبش مسلمان ہوگیا۔ 7ھ میں یہ اس وقت مدینہ تشریف لائے جب فرزندان توحید نے خیبر کو فتح کیا۔ آپ نے ان کو اپنے گلے سے لگالیا اور فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے تمہارے آنے سے زیادہ خوشی حاصل ہوئی ہے یافتح خیبر سے ہوئی ہے۔ غزوئہ موتہ میں یہ بھی بہادرانہ شہید ہوئے اور اس خبر سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ترین صدمہ ہوا۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اسی موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔ ان کے بعد حضرت عبداللہ بن ابی رواحہ رضی اللہ عنہ نے فوج کی کمان سنبھالی۔ بیعت عقبہ میں یہ موجود تھے۔ بدر‘ احد‘ خندق اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں سوائے فتح مکہ اور بعد والے غزوات میں یہ شریک رہے۔ بڑے ہی فرمانبردار اطاعت شعار صحابی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔ لیلتہ العقبہ میں اسلام لاکر بنوحارثہ کے نقیب مقرر ہوئے اور حضرت مقداد بن اسود کندی رضی اللہ عنہ سے سلسلہ مؤاخات قائم ہوا۔ فتح بدرکی خوشخبری مدینہ میں سب سے پہلے لانے والے آپ ہی تھے۔ جنگ موتہ میں بہادرانہ جام شہادت نوش فرمایا۔ ان کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے مطابق اللہ کی تلوار حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے قیادت سنبھالی اور ان کے ہاتھ پر مسلمانوں کو فتح عظیم حاصل ہوئی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت فرمایا کہ پکارکر‘ بیان کرکرکے مرنے والوں پر نوحہ وماتم کرنا یہاں تک ناجائز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے لیے اس حرکت نازیبا نوحہ وماتم کرنے کی وجہ سے ان کے منہ میں مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خفگی کی دلیل ہے اور یہ ایک محاورہ ہے جو انتہائی ناراضگی پر دلالت کرتا ہے۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنَ النَّوْحِ وَالبُكَاءِ وَالزَّجْرِ عَنْ ذَلِكَ

باب: نوحہ وبکا سے منع کرنااورجھڑکنا


1306 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ أَخَذَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْبَيْعَةِ أَنْ لَا نَنُوحَ فَمَا وَفَتْ مِنَّا امْرَأَةٌ غَيْرَ خَمْسِ نِسْوَةٍ أُمِّ سُلَيْمٍ وَأُمِّ الْعَلَاءِ وَابْنَةِ أَبِي سَبْرَةَ امْرَأَةِ مُعَاذٍ وَامْرَأَتَيْنِ أَوْ ابْنَةِ أَبِي سَبْرَةَ وَامْرَأَةِ مُعَاذٍ وَامْرَأَةٍ أُخْرَى

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ایوب سختیانی نے‘ ان سے محمد نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے وقت ہم سے یہ عہد بھی لیا تھا کہ ہم ( میت پر ) نوحہ نہیں کریں گی۔ لیکن اس اقرار کو پانچ عورتوں کے سوا اور کسی نے پورا نہیں کیا۔ یہ عورتیں ام سلیم‘ ام علائ‘ ابوسبرہ کی صاحبزادی جو معاذ کے گھر میں تھیں اور اس کے علاوہ دو عورتیں یا ( یہ کہا کہ ) ابوسبرہ کی صاحبزادی، معاذ کی بیوی اور ایک دوسری خاتون ( رضی اللہ عنہن )۔
تشریح : حدیث کے راوی کو یہ شک ہے کہ یہ ابوسبرہ کی وہی صاحبزادی ہیں جو معاذ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں یا کسی دوسری صاحبزادی کا یہاں ذکر ہے اور معاذ کی جو بیوی اس عہد کا حق ادا کرنے والوں میں تھیں وہ ابوسبرہ کی صاحبزادی نہیں تھیں۔ معاذ کی جورو ام عمرو بنت خلاد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً مسلمان مردوں‘ عورتوں سے اسلام پر ثابت قدمی کی بیعت لیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے خصوصیت سے نوحہ نہ کرنے پر بھی بیعت لی۔ بیعت کے اصطلاحی معنی اقرار کرنے کے ہیں۔ یہ ایک طرح کا حلف نامہ ہوتا ہے۔ بیعت کی بہت سی قسمیں ہیں۔ جن کا تفصیلی بیان اپنے موقع پر آئے گا۔ اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پھر بھی کمزوریوں کا مسجمہ ہے۔ صحابیات کی شان مسلم ہے پھر بھی ان میں بہت سی خواتین سے اس عہد پر قائم نہ رہا گیا جیسا کہ مذکور ہوا ہے


بَابُ القِيَامِ لِلْجَنَازَةِ

باب: جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجانا۔


1307 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ قَالَ سُفْيَانُ قَالَ الزُّهْرِيُّ أَخْبَرَنِي سَالِمٌ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَخْبَرَنَا عَامِرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَادَ الْحُمَيْدِيُّ حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ أَوْ تُوضَعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سالم نے‘ ان سے ان کے باپ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے‘ ان سے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور کھڑے رہو یہاں تک کہ جنازہ تم سے آگے نکل جائے۔ سفیان نے بیان کیا‘ ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے سالم نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہمیں عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے خبر دی تھی۔ حمیدی نے یہ زیادتی کی ہے۔ “ یہاں تک کہ جنازہ آگے نکل جائے یا رکھ دیا جائے۔ ”


بَابٌ: مَتَى يَقْعُدُ إِذَا قَامَ لِلْجَنَازَةِ؟

باب: اگر کوئی جنازہ دیکھ کر کھڑا ہو جائے


1308 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَى أَحَدُكُمْ جِنَازَةً فَإِنْ لَمْ يَكُنْ مَاشِيًا مَعَهَا فَلْيَقُمْ حَتَّى يُخَلِّفَهَا أَوْ تُخَلِّفَهُ أَوْ تُوضَعَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُخَلِّفَهُ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی جنازہ دیکھے تو اگر اس کے ساتھ نہیں چل رہا ہے تو کھڑا ہی ہوجائے تا آنکہ جنازہ آگے نکل جائے یا آگے جانے کی بجائے خود جنازہ رکھ دیا جائے۔


بَابٌ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ يَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِيَامِ

باب: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو


1309 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فَأَخَذَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِيَدِ مَرْوَانَ فَجَلَسَا قَبْلَ أَنْ تُوضَعَ فَجَاءَ أَبُو سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَخَذَ بِيَدِ مَرْوَانَ فَقَالَ قُمْ فَوَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمَ هَذَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ صَدَقَ

ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے سیعد مقبری نے اور ان سے ان کے والد نے کہ ہم ایک جنازہ میں شریک تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مروان کا ہاتھ پکڑا اور یہ دونوں صاحب جنازہ رکھے جانے سے پہلے بیٹھ گئے۔ اتنے میں ابوسعید رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور مروان کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اٹھو! خدا کی قسم! یہ ( ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بولے کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سچ کہا ہے۔
تشریح : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث یاد نہ رہی تھی۔ جب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے یاد دلائی تو آپ کو یاد آئی اور آپ نے اس کی تصدیق کی۔ اکثر صحابہ اور تابعین اس کو مستحب جانتے ہیں اور شعبی اور نخعی نے کہا کہ جنازہ زمین پر رکھے جانے سے پہلے بیٹھ جانا مکروہ ہے اور بعضوں نے کھڑے رہنے کو فرض کہا ہے۔ نسائی نے ابوہریرہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی جنازے میں بیٹھتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جاتا۔


بَابٌ: مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً، فَلاَ يَقْعُدُ حَتَّى تُوضَعَ عَنْ مَنَاكِبِ الرِّجَالِ، فَإِنْ قَعَدَ أُمِرَ بِالقِيَامِ

باب: جو شخص جنازہ کے ساتھ ہو


1310 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجَنَازَةَ فَقُومُوا فَمَنْ تَبِعَهَا فَلَا يَقْعُدْ حَتَّى تُوضَعَ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے‘ ان سے ابو سلمہ اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ چل رہا ہو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔
تشریح : اس بارے میں بہت کچھ بحث وتمحیص کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: والقول الراجح عندی ہو ماذہب الیہ الجمہور من انہ یستحب ان لا یجلس التابع والمشیع للجنازۃ حتی توضع بالارض وان النہی فی قولہ فلا یقعد محمول علی التنزیہ واللہ تعالیٰ اعلم ویدل علی استحباب القیام الی ان توضع مارواہ البیہقی ( ص: 27ج:4 ) من طریق ابی حازم قال مشیت مع ابی ہریرۃ وابن الزبیر والحسن بن علی امام الجنازۃ حتی انتہینا الی المقبرۃ فقاموا حتی وضعت ثم جلسوا فقلت لبعضعہم فقال ان القائم مثل الحامل یعنی فی الاجر ( مرعاۃ‘ جلد: 2 ص: 471 ) یعنی میرے نزدیک قول راجح وہی ہے جدھر جمہور گئے ہیں اور وہ یہ کہ جنازہ کے ساتھ چلنے والوں اور اس کے رخصت کرنے والوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا جائے نہ بیٹھیں اور حدیث میں نہ بیٹھنے کی نہی تنزیہی ہے اور اس قیام کے استحباب پر بیہقی کی وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے انہوں نے ابوحازم کی سند سے روایت کیا ہے کہ ہم حضرت ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن زبیر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایک جنازہ کے ہمراہ گئے۔ پس یہ جملہ حضرات کھڑے ہی رہے جب تک وہ جنازہ زمین پر نہ رکھ دیا گیا۔ اس کے بعد وہ سب بھی بیٹھ گئے۔ میں نے ان میں سے بعض سے مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ کھڑا رہنے والا بھی اسی کے مثل ہے جو خود جنازہ کو اٹھا رہا ہے یعنی ثواب میں یہ دونوں برابر ہیں


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1311 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ مَرَّ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقُمْنَا بِهِ فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ قَالَ إِذَا رَأَيْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا

ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ ہمارے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم بھی کھڑے ہوگئے۔ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہودی کے جنازے کے لیے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔ یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کی کئی وجوہ بیان کی گئی ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی کچھ ایسا ہی ذکر ہے۔ وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس سوال کا جواب فرمایا۔ الیست نفسا یعنی جان کے معاملہ میں مسلمان اور غیر مسلمان برابر ہیں۔ زندگی اور موت ہردو پر وارد ہوتی ہیں۔ حضرت جابر کی روایت میں مزید تفصیل موجود ہے۔ مرت جنازۃ فقام لہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقمنا معہ فقلنا یا رسول اللہ انہا یہودیۃ فقال ان الموت فزع فاذا رایتم الجنازۃ فقوموا متفق علیہ یعنی ایک جنازہ گزرا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اقتدا میں ہم سب کھڑے ہوگئے۔ بعد میں ہم نے کہا کہ حضور یہ ایک یہودیہ کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کچھ بھی ہو بے شک موت بہت ہی گھبراہٹ میں ڈالنے والی چیز ہے۔ موت کسی کی بھی ہو اسے دیکھ کر گھبراہٹ ہونی چاہیے پس تم بھی کوئی جنازہ دیکھو کھڑے ہوجایا کرو۔ نسائی اور حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ انما قمنا للملئکۃ ہم فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور احمد میں بھی حدیث ابوموسیٰ سے ایسی ہی روایت موجود ہے۔ پس خلاصۃ الکلام یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر بلا امتیاز مذہب عبرت حاصل کرنے کے لیے‘ موت کو یاد کرنے کے لیے‘ فرشتوں کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجانا چاہیے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1312 – حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كَانَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالقَادِسِيَّةِ، فَمَرُّوا عَلَيْهِمَا بِجَنَازَةٍ، فَقَامَا، فَقِيلَ لَهُمَا إِنَّهَا مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ أَيْ مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ، فَقَالاَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ فَقَامَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقَالَ: «أَلَيْسَتْ نَفْسًا

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمروبن مرہ نے بیان کیا کہ میں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہوگئے۔ عرض کیا گیا کہ جنازہ تو ذمیوں کا ہے ( جو کافر ہیں ) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کیا یہودی کی جان نہیں ہے؟


بَابُ مَنْ قَامَ لِجَنَازَةِ يَهُودِيٍّ

باب: جو یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑا ہوگیا


1313 وَقَالَ أَبُو حَمْزَةَ عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: كُنْتُ مَعَ قَيْسٍ، وَسَهْلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالاَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ زَكَرِيَّاءُ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، كَانَ أَبُو مَسْعُودٍ، وَقَيْسٌ: «يَقُومَانِ لِلْجَنَازَةِ

ترجمہ : اور ابو حمزہ نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے عمرو نے‘ ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ میں قیس اور سہل رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ ان دونوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اور زکریا نے کہا ان سے شعبی نے اور ان سے ابن ابی لیلیٰ نے کہ ابو مسعود اور قیس رضی اللہ عنہما جنازہ کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔


بَابُ حَمْلِ الرِّجَالِ الجِنَازَةَ دُونَ النِّسَاءِ

باب: عورتیں نہیں بلکہ مرد ہی جنازے کو اٹھائیں


1314 حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا وُضِعَتِ الجِنَازَةُ [ص:86]، وَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ، فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً، قَالَتْ: قَدِّمُونِي، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ، قَالَتْ: يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا؟ يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الإِنْسَانَ، وَلَوْ سَمِعَهُ صَعِقَ

ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ کیسان نے کہ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور مرد اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ مجھے آگے لے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں تو کہتا ہے ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر انسان کہیں سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔


بَابُ السُّرْعَةِ بِالْجِنَازَةِ

باب: جنازے کو جلد لے چلنا


1315 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَفِظْنَاهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَسْرِعُوا بِالْجِنَازَةِ فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم نے زہری سے سن کر یہ حدیث یاد کی‘ انہوں نے سعید بن مسیب سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنازہ لے کر جلد چلا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو بھلائی کی طرف نزدیک کررہے ہو اور اگر اس کے سوا ہے تو ایک شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتارتے ہو۔


بَابُ قَوْلِ المَيِّتِ وَهُوَ عَلَى الجِنَازَةِ: قَدِّمُونِي

باب: نیک میت کا کہنا کہ مجھے آگے بڑھائے چلو


1316 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ لِأَهْلِهَا يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَ الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا۔ ان سے ان کے والد ( کیسان ) نے اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ جب میت چارپائی پر رکھی جاتی ہے اور لوگ اسے کاندھوں پر اٹھاتے ہیں اس وقت اگر وہ مرنے والا نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے جلد آگے بڑھائے چلو۔ لیکن اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے کہ ہائے بربادی! مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس کی یہ آواز انسان کے سواہر مخلوق خدا سنتی ہے۔ کہیں اگر انسان سن پائے تو بے ہوش ہوجائے۔


بَابُ مَنْ صَفَّ صَفَّيْنِ أَوْ ثَلاَثَةً عَلَى الجِنَازَةِ خَلْفَ الإِمَامِ

باب: امام کے پیچھے جنازہ کی نماز


1317 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ أَبِي عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى النَّجَاشِيِّ فَكُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي أَوْ الثَّالِثِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے بیان کیا‘ ان سے عطاءنے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی نماز جنازہ پڑھی تو میں دوسری یا تیسری صف میں تھا۔
تشریح : بہر حال دو صف ہوں یا تین صف ہر طرح جائز ہے۔ مگر تین صفیں بنانا بہتر ہے۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1318 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ النَّجَاشِيَّ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَصَفُّوا خَلْفَهُ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزیدبن زریع نے بیان کیا‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے معمرنے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے سعید نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو نجاشی کی وفات کی خبر سنائی‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے اور لوگوں نے آپ کے پیچھے صفیں بنا لیں‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار مرتبہ تکبیر کہی۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1319 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَصَفَّهُمْ وَكَبَّرَ أَرْبَعًا قُلْتُ مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے خبر دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر آئے جو اور قبروں سے الگ تھلگ تھی۔ صحابہ نے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔


بَابُ الصُّفُوفِ عَلَى الجِنَازَةِ

باب: جنازہ کی نماز میں صفیں باندھنا


1320 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تُوُفِّيَ الْيَوْمَ رَجُلٌ صَالِحٌ مِنْ الْحَبَشِ فَهَلُمَّ فَصَلُّوا عَلَيْهِ قَالَ فَصَفَفْنَا فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَنَحْنُ مَعَهُ صُفُوفٌ قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ كُنْتُ فِي الصَّفِّ الثَّانِي

ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی کہ انہیں ابن جریج نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے عطاءبن ابی رباح نے خبر دی ‘ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج حبش کے ایک مرد صالح ( نجاشی حبش کے بادشاہ ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ آؤ ان کی نماز جنازہ پڑھو۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ہم نے صف بندی کرلی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے نقل کیا کہ میں دوسری صف میں تھا۔
تشریح : ان سب حدیثوں سے میت غائب پر نماز جنازہ غائبانہ پڑھنا ثابت ہوا۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور اکثر سلف کا یہی قول ہے۔ علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت ثابت نہیں اور قیاس بھی اسی کو مقتضی ہے کہ جنازے کی نماز میں دعا کرنا ہے اور دعا کرنے میں یہ ضروری نہیں کہ جس کے لیے دعا کی جائے وہ ضرور حاضر بھی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش نجاشی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ درست ہے مگر اس بارے میں علمائے احناف نے بہت کچھ تاویلات سے کام کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کا پردہ ہٹاکر اللہ نے نجاشی کا جنازہ ظاہر کردیا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ خصوصیات نبوی سے ہے۔ کچھ نے کہا کہ یہ خاص نجاشی کے لیے تھا۔ بہر حال یہ تاویلات دورازکار ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی کے لیے پھر معاویہ بن معاویہ مزنی کے لیے‘ نماز جنازہ غائبانہ ثابت ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واجیب عن ذلک بان الاصل عدم الخصوصیۃ ولوفتح باب ہذا الخصوص لانسد کثیر من احکام الشرع قال الخطابی زعم ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان مخصوصا بہذا الفعل فاسد لان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا فعل شیئا من افعال الشریعۃ کان علینا اتباعہ والا یتسابہ والتخصیص لا یعلم الا بدلیل ومما یبین ذلک انہ صلی اللہ علیہ وسلم خرج بالناس الی الصلٰوۃ فصف بہم وصلوا معہ فعلم ان ہذا التاویل فاسد وقال ابن قدامہ نقتدی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم مالم یثبت ما یقتضی اختصاصہ ( مرعاۃ ) یعنی نجاشی کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ غائبانہ کو مخصوص کرنے کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ اصل میں عدم خصوصیت ہے اور اگر خواہ مخواہ ایسے خصوص کا دروازہ کھولا جائے گا‘ تو بہت سے احکام شریعت یہی کہہ کر مسدود کردئیے جائیں گے کہ یہ خصوصیات نبوی میں سے ہیں۔ امام خطابی نے کہا کہ یہ گمان کہ نماز جنازہ غائبانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھی بالکل فاسد ہے۔ اس لیے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی کام کریں تو اس کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ تخصیص کے لیے کوئی کھلی دلیل ہونی ضروری ہے۔ یہاں تو صاف بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہمراہ لے کر نجاشی کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے۔ صف بندی ہوئی اور آپ نے نماز پڑھائی۔ ظاہر ہوا کہ یہ تاویل فاسد ہے۔ ابن قدامہ نے کہا کہ جب تک کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت صحیح دلیل سے ثابت نہ ہو ہم اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کریں گے۔ کچھ روایات جن سے کچھ اختصاص پر روشنی پڑسکتی ہے مروی ہیں مگر وہ سب ضعیف اور ناقابل استناد ہیں۔ علامہ ابن حجرنے فرمایا کہ ان پر توجہ نہیں دی جاسکتی۔ اور واقدی کی یہ روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نجاشی کے جنازہ اور زمین کا درمیانی پردہ ہٹا دیا گیا تھا بغیر سند کے ہے جو ہرگز استدلال کے قابل نہیں ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح سفر السعادت میں ایسا ہی لکھا ہے۔


بَابُ صُفُوفِ الصِّبْيَانِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الجَنَائِزِ

باب: جنازے کی نماز میں بچے بھی مردوں


1321 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِقَبْرٍ قَدْ دُفِنَ لَيْلًا فَقَالَ مَتَى دُفِنَ هَذَا قَالُوا الْبَارِحَةَ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي قَالُوا دَفَنَّاهُ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ فَكَرِهْنَا أَنْ نُوقِظَكَ فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَأَنَا فِيهِمْ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ ابن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شیبانی نے بیان کیا‘ ان سے عامر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک قبر پر ہوا۔ میت کو ابھی رات ہی دفنایا گیا تھا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ دفن کب کیا گیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ گذشتہ رات۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کیوں نہیں اطلاع کرائی؟ لوگوں نے عرض کیا کہ اندھیری رات میں دفن کیا گیا‘ اس لیے ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں بھی انہیں میں تھا ( نابالغ تھا لیکن ) نماز جنازہ میں شرکت کی۔


بَابُ سُنَّةِ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: جنازے پر نماز کا مشروع ہونا


1322 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّنَا فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ فَقُلْنَا يَا أَبَا عَمْرٍو مَنْ حَدَّثَكَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے‘ ان سے شیبانی نے اور ان سے شعبی نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی تھی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر پر سے گزرا۔ وہ کہتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری امامت کی اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں۔ ہم نے پوچھا کہ ابو عمرو ( یہ شعبی کی کنیت ہے ) یہ آپ سے بیان کرنے والے کون صحابی ہیں؟ فرمایا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
تشریح : اس باب کا مقصد یہ بتانا ہے کہ نماز جنازہ بھی نماز ہے اور تمام نمازوں کی طرح اس میں وہی چیزیں ضروری ہیں جو نمازوں کے لیے ہونی چاہئیں۔ اس مقصد کے لیے حدیث اور اقوال صحابہ وتابعین کے بہت سے ٹکڑے ایسے بیان کئے ہیں جن میں نماز جنازہ کے لیے “نماز” کا لفظ ثابت ہوا اور حدیث واردہ میں بھی اس پر نماز ہی کا لفظ بولا گیا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم امام ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر کوئی مسلمان جس پر نماز جنازہ پڑھنی ضروری تھی اور اس کو بغیر نماز پڑھائے دفن کردیا گیا تو اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے۔


بَابُ فَضْلِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ

باب: جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت


1323 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا يَقُولُ: حُدِّثَ ابْنُ عُمَرَ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ يَقُولُ: «مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَهُ قِيرَاطٌ» فَقَالَ: أَكْثَرَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَيْنَا،

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا‘ ان سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے نافع سے سنا‘ آپ نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جو دفن تک جنازہ کے ساتھ رہے اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ابوہریرہ احادیث بہت زیادہ بیان کرتے ہیں۔


بَابُ فَضْلِ اتِّبَاعِ الجَنَائِزِ

باب: جنازہ کے ساتھ جانے کی فضیلت


1324 – فَصَدَّقَتْ يَعْنِي عَائِشَةَ أَبَا هُرَيْرَةَ، وَقَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُهُ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «لَقَدْ فَرَّطْنَا فِي قَرَارِيطَ كَثِيرَةٍ» فَرَّطْتُ: ضَيَّعْتُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ

ترجمہ : پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بھی تصدیق کی اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد خود سنا ہے۔ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر تو ہم نے بہت سے قیراطوں کا نقصان اٹھایا۔ ( سورہ زمر میں جو لفظ ) فرطت آیا ہے اس کے یہی معنی ہیں میں نے ضائع کیا۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ قرآن کی آیتوں میں جو لفظ وارد ہوئے ہیں اگر حدیث میں کوئی وہی لفظ آجاتا ہے تو آپ اس کے ساتھ ساتھ قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کردیتے ہیں۔ یہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے کلام میں فرطت کا لفظ آیا اور قرآن میں بھی فَرَّطتُ فِی جَنبِ اللّٰہِ ( الزمر: 56 ) آیا ہے تو اس کی بھی تفسیر کردی یعنی میں نے اللہ کا حکم کچھ ضائع کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا‘ انہوں نے بہت حدیثیں بیان کیں۔ اس سے یہ مطلب نہیں تھا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹے ہیں۔ بلکہ ان کو یہ شبہ رہا کہ شاید ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں یا حدیث کا مطلب اور کچھ ہو وہ نہ سمجھے ہوں۔ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان کی شہادت دی تو ان کو پورا یقین آیا اور انہوں نے افسوس سے کہا کہ ہمارے بہت سے قیراط اب تک ضائع ہوئے۔ حضرت امام کا مقصد باب اس شخص کی فضیلت بیان کرنا ہے جو جنازے کے ساتھ جائے‘ اسے ایک قیراط کا ثواب ملے گا۔ قیراط ایک بڑا وزن مثل احد پہاڑ کے مراد ہے اور جو شخص دفن ہونے تک ساتھ رہے اسے دو قیراط برابر ثواب ملے گا۔


بَابُ مَنِ انْتَظَرَ حَتَّى تُدْفَنَ

باب: جو شخص دفن ہونے تک ٹھہرا رہے


1325 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا يُونُسُ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَحَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ فَلَهُ قِيرَاطٌ وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ قِيلَ وَمَا الْقِيرَاطَانِ قَالَ مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيمَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابن ابی ذئب کے سامنے یہ حدیث پڑھی‘ ان سے ابوسعید مقبری نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ ( دوسری سند ) ہم سے احمد بن شبیب نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ ان سے یونس نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے کہا کہ ( مجھ سے فلاں نے یہ بھی حدیث بیان کی ) اور مجھ سے عبدالرحمن اعرج نے بھی کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے جنازہ میں شرکت کی پھر نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور جو دفن تک ساتھ رہا تو اسے دو قیراط کا ثواب ملتا ہے۔ پوچھا گیا کہ دو قیراط کتنے ہوں گے؟ فرمایا کہ دو عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔
تشریح : یعنی دنیا کا قیراط مت سمجھو جو درہم کا بارہواں حصہ ہوتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ آخرت کے قیراط احد پہاڑ کے برابر ہیں۔


بَابُ صَلاَةِ الصِّبْيَانِ مَعَ النَّاسِ عَلَى الجَنَائِزِ

باب: بڑوں کے ساتھ بچوں کا بھی نماز جنازہ


1326 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الشَّيْبَانِيُّ عَنْ عَامِرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرًا فَقَالُوا هَذَا دُفِنَ أَوْ دُفِنَتْ الْبَارِحَةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَصَفَّنَا خَلْفَهُ ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا

ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے‘ انہوں نے کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا‘ ان سے ابو اسحاق شیبانی نے‘ ان سے عامر نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر پر تشریف لائے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اس میت کو گزشتہ رات میں دفن کیا گیا ہے۔ ( صاحب قبر مرد تھا یا عورت تھی ) ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔
تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ کیونکہ ابن عباس اس واقعہ کے وقت بچے ہی تھے۔ مگر آپ کے ساتھ برابر صف میں شریک ہوئے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1327 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبِي سَلَمَةَ أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ نَعَى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّجَاشِيَّ صَاحِبَ الْحَبَشَةِ يَوْمَ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَقَالَ اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ

ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیاانہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا ان سے عقیل نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ان سے سعید بن مسیب اور ابو سلمہ نے بیان کیا اور ان دونوں حضرات سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے نجاشی کی وفات کی خبر دی اسی دن جس دن ان کا انتقال ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کے لیے خدا سے مغفرت چاہو۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1328 وَعَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ: أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَفَّ بِهِمْ بِالْمُصَلَّى فَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا

ترجمہ : اور ابن شہاب سے یوں بھی روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ میں صف بندی کرائی پھر ( نماز جنازہ کی ) چار تکبیریں کہیں۔
تشریح : امام نووی فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر وانعقد الا جماع بعد ذلک علی اربع واجمع الفقہاءواہل الفتویٰ بالامصار علی اربع علی ماجاءفی احادیث الصحاح وماسوی ذلک عندہم شذو ذلایلتفت الیہ ( نووی ) یعنی ابن عبدالبرنے کہا کہ تمام فقہاءاور اہل فتویٰ کا چار تکبیروں پر اجماع ہوچکا ہے جیسا کہ احادیث صحاح میں آیا ہے اور جو اس کے خلاف ہے وہ نوادر میں داخل ہے جس کی طرف التفات نہیں کیا جاسکتا۔ شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والراجح عندی انہ لا ینبغی ان یزاد علی اربع لان فیہ خروجا من الخلاف ولان ذلک ہوالغالب من فعلہ لکن الامام اذا کبر خمساً تابعہ الماموم لان ثبوت الخمس لامردلہ من حیث الروایۃ العمل الخ ( مرعاۃ‘ ج:2ص:477 ) یعنی میرے نزدیک راجح یہی ہے کہ چار تکبیروں سے زیادہ نہ ہوں۔ اختلاف سے بچنے کا یہی راستہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے اکثر یہی ثابت ہے۔ لیکن اگر امام پانچ تکبیریں کہے تو مقتدیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ روایت اور عمل کے لحاظ سے پانچ کا بھی ثبوت موجود ہے جس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الجَنَائِزِ بِالْمُصَلَّى وَالمَسْجِدِ

باب: نماز جنازہ عیدگاہ میں اور مسجد میں


1329 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ الْيَهُودَ جَاءُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ وَامْرَأَةٍ زَنَيَا فَأَمَرَ بِهِمَا فَرُجِمَا قَرِيبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ

ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذرنے بیان کیا‘ ان سے ابو ضمرہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں اپنے ہم مذہب ایک مرد اور عورت کا جنہوں نے زنا کیا تھا‘ مقدمہ لے کر آئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسجد کے نزدیک نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ کے پاس انہیں سنگسار کر دیا گیا۔
تشریح : جنازہ کی نماز مسجد میں بلاکر اہت جائز ودرست ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے: عن عائشۃ انہا قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا بہ المسجد حتی اصلی علیہ فانکروا ذلک علیہا فقالت واللہ لقد صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابن بیضاءفی المسجد سہیل واخیہ رواہ مسلم وفی روایۃ ما صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی سہیل بن البیضاءالافی جوف المسجد رواہ الجماعۃ الاالبخاری یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص کے جنازہ پر انہوں نے فرمایا کہ اسے مسجد میں داخل کرو یہاں تک کہ میں بھی اس پر نماز جنازہ ادا کروں۔ لوگوں نے اس پر کچھ انکار کیا تو آپ نے فرمایا کہ قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاءکے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی پر نماز جنازہ مسجد ہی میں ادا کی تھی۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سہیل بن بیضاءکی نمازجنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے بیچوں بیچ ادا فرمائی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ مسجد میں پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر دو کا جنازہ مسجد ہی میں ادا کیا گیا تھا۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں والحدیث یدل علی جواز ادخال المیت فی المسجد والصلوٰۃ علیہ وفیہ وبہ قال الشافعی واحمد واسحاق والجمہور یعنی یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ میت کو مسجد میں داخل کرنا اور وہاں اس کا جنازہ پڑھناد رست ہے۔ امام شافعی اور احمد اور اسحاق اور جمہور کا بھی یہی قول ہے۔ جو لوگ میت کے ناپاک ہونے کا خیال رکھتے ہیں ان کے نزدیک مسجد میں نہ میت کا لانا درست نہ وہاں نماز جنازہ جائز۔ مگر یہ خیال بالکل غلط ہے‘ مسلمان مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوا کرتا۔ جیسا کہ حدیث میں صاف موجود ہے۔ ان المومن لا ینجس حیا ولامیتا بے شک مومن مردہ اور زندہ نجس نہیں ہوتا۔ یعنی نجاست حقیقی سے وہ دور ہوتا ہے۔ بنو بیضاءتین بھائی تھے۔ سہل وسہیل اور صفوان ان کی والدہ کو بطور وصف بیضاءکہا گیا۔ اس کا نام دعد تھا اور ان کے والد کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ اس بحث کے آخر میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں۔ والحق انہ یجوز الصلوٰۃ علی الجنائزفی المسجد من غیر کراہۃ والافضل الصلوٰۃ علیہا خارج المسجد لان اکثر صلواتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی الجنائز کان فی المصلی الخ ( مرعاۃ ) یعنی حق یہی ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ بلاکراہت درست ہے اور افضل یہ ہے کہ مسجد سے باہر پڑھی جائے کیونکہ اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو عیدگاہ میں پڑھا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلامی عدالت میں اگر کوئی غیر مسلم کا کوئی مقدمہ دائر ہو تو فیصلہ بہر حال اسلامی قانون کے تحت کیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان یہودی زانیوں کے لیے سنگساری کا حکم اس لیے بھی صادر فرمایا کہ خود تورات میں بھی یہی حکم تھا جسے علماءیہود نے بدل دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گویا ان ہی کی شریعت کے مطابق فیصلہ فرمایا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ اتِّخَاذِ المَسَاجِدِ عَلَى القُبُورِ

باب: قبر پر مسجد بنانا مکروہ ہے


1330 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى عَنْ شَيْبَانَ عَنْ هِلَالٍ هُوَ الْوَزَّانُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ لَعَنَ اللَّهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسْجِدًا قَالَتْ وَلَوْلَا ذَلِكَ لَأَبْرَزُوا قَبْرَهُ غَيْرَ أَنِّي أَخْشَى أَنْ يُتَّخَذَ مَسْجِدًا

ترجمہ : ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا‘ ان سے شیبان نے‘ ان سے ہلال وزان نے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہوکہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عہنا نے کہا کہ اگر ایسا ڈر نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی رہتی ( اور حجرہ میں نہ ہوتی ) کیونکہ مجھے ڈر اس کا ہے کہ کہیں آپ کی قبر بھی مسجد نہ بنالی جائے۔
تشریح : یعنی خود قبروں کو پوجنے لگے یا قبروں پر مسجد اور گرجا بناکر وہاں خدا کی عبادت کرنے لگے۔ توباب کی مطابقت حاصل ہوگئی۔ امام ابن قیم نے کہا جو لوگ قبروں پر وقت معین میں جمع ہوتے ہیں وہ بھی گویا قبر کو مسجد بناتے ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے میری قبر کو عید نہ کرلینا یعنی عید کی طرح وہاں میلہ اور مجمع نہ کرنا۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ بھی ان یہودیوں اور نصرانیوں کے پیرو ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی۔ افسوس! ہمارے زمانے میں گور پرستی ایسی شائع ہورہی ہے کہ یہ نام کے مسلمان خدا اور رسول سے ذرا بھی نہیں شرماتے‘ قبروں کو اس قدر پختہ شاندار بناتے ہیں کہ ان کی عمارات کو دیکھ کر مساجد کا شبہ ہوتا ہے۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی کے ساتھ قبروں پر ایسی تعمیرات کے لیے منع فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوہیاج اسدی کو کہا تھا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الاسویتہ رواہ الجماعۃ الا البخاری وابن ماجہ یعنی کیا میں تم کو اس خدمت کے لیے نہ بھیجوں جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا۔ وہ یہ کہ کوئی مورت ایسی نہ چھوڑ جسے تو مٹا نہ دے اور کوئی اونچی قبر نہ رہے جسے تو برابر نہ کردے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبروں کا حد سے زیادہ اونچا اور بلند کرنا بھی شارع کو ناپسند ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں۔ فیہ ان السنۃ ان القبر لا یرفع رفعا کثیرا من غیر فرق بین من کان فاضلا ومن کان غیر فاضل والظاہر ان رفع القبور زیادۃ علی القدر الماذون حرام یعنی سنت یہی ہے کہ قبر کو حد شرعی سے زیادہ بلندنہ بنایا جائے خواہ وہ کسی فاضل عالم صوفی کی ہویا کسی غیر فاضل کی اور ظاہر ہے کہ شرعی اجازت سے زیادہ قبروں کو اونچا کرنا حرام ہے۔ آگے علامہ فرماتے ہیں: ومن رفع القبور الداخل تحت الحدیث دخولا اولیا القبیب والمشاہد المعمورۃ علی القبور وایضا ہو من اتخاذالقبور مساجد وقد لعن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاعل ذلک کما سیاتی وکم قدسری عن تشیدا بنیۃ القبور وتحسینہا من مفاسد یبکی لہا الاسلام منہا اعتقاد الجہلۃ لہا کا عتقاد الکفار للاصنام وعظم ذلک فظنوا انہا قادرۃ علی جلب المنافع ودفع الضرر فجعلوہا مقصد الطلب قضاءالحوائج وملجاءلنجاح المطالب وسالوا منہا مایسالہ العباد من ربہم وشدوا الیہا الرحال وتمسحوا بہا واستغاثوا وبالجملۃ انہم لم یدعوا شیئا مما کانت الجاہلیۃ تفعلہ بالاصنام الا فعلوہ فانا للہ وانا الیہ راجعون ومع ہذا المنکر الشنیع الکفر الفظیع لا نجد من یغضب للہ ویغار حمیۃ للدین الحنیف لا عالما ولا متعلما ولا امیرا ولا وزیرا ولا ملکا وتوارد الینا من الاخبار مالا یشک معہ ان کثیرا من ہولاءالمقبورین او اکثرہم اذا توجہت علیہ یمین من جہۃ خصمہ حلف باللہ فاجرا واذ قیل لہ بعد ذلک احلف بشیخک ومعتقدک الولی الفلانی تلعثم وتلکاءوابی واعترف بالحق وہذا من ابین الادلۃ الدالۃ علی ان شرکہم قد بلغ فوق شرک من قال انہ تعالیٰ ثانی اثنین اوثالث ثلاثۃ فیا علماءالدین ویاملوک المسلمین ای رزءللاسلام اشد من الکفروای بلاءلہذا الدین اضر علیہ من عبادۃ غیر اللہ وای مصیبۃ یصاب بہا المسلمون تعدل ہذہ المصیبۃ وای منکر یجب انکارہ ان لم یکن انکار ہذا الشرک البین واجبا۔ لقد اسمعت لو نادیت حیا ولکن لا حیاۃ لمن تنادی ولو نارا نفخت بہا اضاعت ولکن انت تنفخ فی الرماد ( نیل الاوطار‘ ج:4ص: 90 ) یعنی بزرگوں کی قبروں پر بنائی ہوئی عمارات، قبے اور زیارت گاہیں یہ سب اس حدیث کے تحت داخل ہونے کی وجہ سے قطعاً ناجائز ہیں۔ یہی قبروں کو مساجد بنانا ہے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے اور ان قبور کے پختہ بنانے اور ان پر عمارات کو مزین کرنے سے اس قدر مفاسد پیدا ہورہے ہیں کہ آج ان پر اسلام رو رہا ہے۔ ان میں سے مثلاً یہ کہ ایسے مزاروں کے بارے میں جاہل لوگ وہی اعتقادات رکھتے ہیں جو کفار بتوں کے بارے میں رکھتے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر۔ ایسے جاہل ان قبور والوں کو نفع دینے والے اور نقصان دور کرنے والے تصور کرتے ہیں۔ اس لیے ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ اپنی مرادیں ان کے سامنے رکھتے ہیں اور ان سے ایسے ہی دعائیں کرتے ہیں جیسے بندگان خدا کو خدا سے دعائیں کرنی چاہئیں۔ ان مزرات کی طرف کجاوے باندھ باندھ کر سفر کرتے ہیں اور وہاں جاکر ان قبروں کو مسح کرتے ہیں اور ان سے فریاد رسی چاہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ جاہلیت میں جو کچھ بتوں کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ سب کچھ ان قبروں کے ساتھ ہورہا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ اور اس کھلے ہوئے بدترین کفر ہونے کے باوجود ہم کسی بھی اللہ کے بندے کو نہیں پاتے جو اللہ کے لیے اس پر غصہ کرے اور دین حنیف کی کچھ غیرت اس کو آئے۔ عالم ہوں یا متعلم‘ امیرہوں یا وزیر یا بادشاہ‘ اس بارے میں سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ سنا گیا ہے کہ یہ قبرپرست دشمن کے سامنے اللہ کی جھوٹی قسم کھاجاتے ہیں۔ مگر اپنے پیروں مشائخ کی جھوٹی قسموں کے وقت ان کی زبانیں لڑکھڑانے لگ جاتی ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ ان کا شرک ان لوگوں سے بھی آگے بڑھا ہوا ہے جو وہ خدا یا تین خدا مانتے ہیں۔ پس اے دین کے عالمو! اور مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کے لیے ایسے کفر سے بڑھ کر اور مصیبت کیا ہوگی اور غیر اللہ کی پرستش سے بڑھ کر دین اسلام کے لیے اور نقصان کی چیز کیا ہوگی اور مسلمان اس سے بھی بڑھ کر اور کس مصیبت کا شکار ہوں گے اور اگر اس کھلے ہوئے شرک کے خلاف ہی آواز انکار بلند نہ کی جاسکی تو اور کونسا گناہ ہوگا جس کے لیے زبانیں کھل سکیں گی۔ کسی شاعر نے سچ کہا ہے۔ “اگر تو زندوں کو پکارتا تو سنا سکتا تھا۔ مگر جن ( مردوں ) کو تو پکار رہا ہے وہ تو زندگی سے قطعاً محروم ہیں۔ اگر تم آگ میں پھونک مارتے تو وہ روشن ہوتی لیکن تم راکھ میں پھونک مار رہے ہو جو کبھی بھی روشن نہیں ہوسکتی۔” خلاصہ یہ کہ ایسی قبور اور ایسے مزارات اور ان پر یہ عرس‘ قوالیاں‘ میلے ٹھیلے‘ گانے بجانے قطعاً حرام اور شرک اور کفر ہیں۔ اللہ ہر مسلمان کو شرک جلی اور خفی سے بچائے۔ آمین حدیث علی رضی اللہ عنہ کے ذیل میں حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ مرحوم فرماتے ہیں: ونہی ان یجصص القبر وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ وقال لا تصلوا الیہا لان ذلک ذریعۃ ان یتخذہا الناس معبودا وان یفر طوا فی تعظمہا بمالیس بحق فیحر فوا دینہم کما فعل اہل الکتاب وہو قولہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن اللہ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیائہم مساجد الخ ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج: 2ص:126 کراتشی ) اور قبر کو پختہ کرنے اور اس پر عمارت بنانے اور اس پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایا کہ قبروں کی طرف نماز نہ پڑھو کیونکہ یہ اس بات کا ذریعہ ہے کہ لوگ قبروں کی پرستش کرنے لگیں اور لوگ ان قبروں کی اتنی زیادہ تعظیم کرنے لگیں جس کی وہ مستحق نہیں ہیں۔ پس لوگ اپنے دین میں تحریف کرڈالیں جیسا کہ اہل کتاب نے کیا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود اور نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔ پس حق یہ ہے کہ توسط اختیار کرے۔ نہ تو مردہ کی اس قدر تعظیم کرے کہ وہ شرک ہوجائے اور نہ اس کی اہانت اور اس کے ساتھ عداوت کرے کہ مرنے کے بعد اب یہ سارے معاملات ختم کرکے مرنے والا اللہ کے حوالہ ہوچکا ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ إِذَا مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا

باب: اگر عورت کا نفاس کی حالت میں انتقال


1331 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے یزیدین زریع نے‘ ان سے حسین معلم نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءمیں ایک عورت ( ام کعب ) کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا نفاس میں انتقال ہوگیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کمر کے مقابل کھڑے ہوئے۔


بَابٌ: أَيْنَ يَقُومُ مِنَ المَرْأَةِ وَالرَّجُلِ

باب: عورت اور مرد کی نماز جنازہ


1332 حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا فَقَامَ عَلَيْهَا وَسَطَهَا

ترجمہ : ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا‘ ان سے حسین نے بیان کیا اور ان سے ابن بریدہ نے کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جس کا زچگی کی حالت میں انتقال ہوگیا تھا۔ آپ اس کے بیچ میں کھڑے ہوئے۔
تشریح : مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔ سنن ابوداؤد میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔ اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔ مگر حضرت امام رحمہ اللہ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وقد ذہب بعض اہل العلم الی ہذا ای الی ان الامام یقوم حذاءراس الرجل وحذاءعجیزۃ المراۃ وہو قول احمد و اسحاق وہو قول الشافعی وہو الحق وہو روایۃ عن ابی حنیفۃ قال فی الہدایۃ وعن ابی حنیفۃ انہ یقوم من الرجل بحذاءراسہ ومن المراۃ بحذاءوسطہا لان انسا فعل کذالک وقال ہوالسنۃ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔ امام احمد رحمہ اللہ اور اسحق رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔


بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا

باب: نماز میں چار تکبیریں کہنا


1333 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَى النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى فَصَفَّ بِهِمْ وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہیں سعید بن مسیب نے‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نجاشی کا جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کی خبر دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ عید گاہ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف بندی کرائی اور چار تکبیریں کہیں۔


بَابُ التَّكْبِيرِ عَلَى الجَنَازَةِ أَرْبَعًا

باب: نماز میں چار تکبیریں کہنا


1334 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى أَصْحَمَةَ النَّجَاشِيِّ فَكَبَّرَ أَرْبَعًا وَقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ سَلِيمٍ أَصْحَمَةَ وَتَابَعَهُ عَبْدُ الصَّمَدِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سلیم بن حیان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن میناءنے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحمہ نجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی تو چار تکبیریں کہیں۔ یزید بن ہارون واسطی اور عبدالصمد نے سلیم سے اصحمہ نام نقل کیا ہے اور عبدالصمد نے اس کی متابعت کی ہے۔
تشریح : نجاشی حبش کے ہر بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ جیسا کہ ہر ملک میں بادشاہوں کے خاص لقب ہوا کرتے ہیں شاہ حبش کا اصل نام اصحمہ تھا۔


بَابُ قِرَاءَةِ فَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: نماز جنازہ میں سورئہ فاتحہ پڑھنا


1335 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَعْدٍ عَنْ طَلْحَةَ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ صَلَّيْتُ خَلْفَ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَلَى جَنَازَةٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ قَالَ لِيَعْلَمُوا أَنَّهَا سُنَّةٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے غندر ( محمد بن جعفر ) نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے اور ان سے طلحہ نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اقتداءمیں نماز ( جنازہ ) پڑھی ( دوسری سند ) ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی ‘ انہیں سعد بن ابراہیم نے‘ انہیں طلحہ بن عبداللہ بن عوف نے‘ انہوں نے بتلایا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورئہ فاتحہ ( ذرا پکار کر ) پڑھی۔ پھر فرمایا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہی طریقہ نبوی ہے۔
تشریح : جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنی ایسی ہی واجب ہے جیسا کہ دوسری نمازوں میں کیونکہ حدیث لا صلوٰۃ لمن لم یقرا بفاتحۃ الکتاب ہر نماز کو شامل ہے۔ اس کی تفصیل حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے۔ والحق والصواب ان قراۃ الفاتحۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ واجبۃ کما ذہب الیہ الشافعی واحمد واسحاق وغیرہم لانہم اجمعواعلی انہا صلوٰۃ وقد ثبت حدیث لا صلوٰۃ الا بفاتحۃ الکتاب فہی داخلۃ تحت العموم واخراجہا منہ یحتاج الی دلیل ولا نہا صلوٰۃ یجب فیہا القیام فوجبت فیہا القراۃ کسائر الصلوات ولانہ وردالامر بقراتہا فقدروی ابن ماجۃ باسناد فیہ ضعف یسیر عن ام شریک قالت امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقراءعلی میتنا بفاتحۃ الکتاب وروی الطبرانی فی الکبیر من حدیث ام عفیف قالب امرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نقرا علی میتنا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ عبدالمنعم ابوسعید وہو ضعیف انتہی۔ والا مر من ادلۃ الوجوب وروی الطبرانی فی الکبیر ایضا من حدیث اسماءبنت یزید قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا صلیتم علی الجنازۃ فاقر ؤا بفاتحۃ الکتاب قال الہیثمی وفیہ معلیٰ بن حمران ولم اجد من ذکرہ وبقیۃ رجالہ موثقون وفی بعضہم کلام ہذا وقد صنف حسن الشر نبلانی من متاخری الحنفیۃ فی ہذہ المسئلۃ رسالۃ اسمہا النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ ام الکتاب وحقق فیہا ان القراءۃ اولیٰ من ترک القراءۃ ولا دلیل علی الکراہۃ وہوالذی اختارہ الشیخ عبدالحی اللکہنوی فی تصانیفہ لعمدۃ الرعایۃ والتعلیق الممجد وامام الکلام ثم انہ استدل بحدیث ابن عباس علی الجہر بالقراءۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ لا نہ یدل علی انہ جہر بہا حتی سمع ذالک من صلی معہ واصرح من ذلک ماذکر ناہ من روایۃ النسائی بلفظ صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیدہ فسالتہ فقال سنۃ وحق وفی روایۃ اخریٰ لہ ایضا صلیت خلف ابن عباس علی جنازۃ فسمعتہ یقرا بفاتحۃ الکتاب الخ ویدل علی الجہر بالدعاءحدیث عوف بن مالک الاتی فان الظاہر انہ حفظ الدعاءالمذکور لما جہربہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی الصلوٰہ علی الجنازۃ اصرح منہ حدیث واثلۃ فی الفصل الثانی۔ واختلف العلماءفی ذلک فذہب بعضہم الی انہ یستحب الجہر بالقراءۃ والدعاءفیہا واستدلوا بالروایات التی ذکرناہا انفا و ذہب الجمہور الی انہ لا یندب الجہربل یندب الاسرار قال ابن قدامۃ ویسر القراءۃوالدعاءفی صلوٰۃ الجنازۃ لا نعلم بین اہل العلم فیہ خلا فا انتہی۔ واستدلوا لذلک بما ذکرنا من حدیث ابی امامۃ قال السنۃ فی الصلوٰۃ علی الجنازۃ ان یقرا فی التکبیرۃ الاولیٰ بام القرآن مخافتۃ لحدیث اخرجہ النسائی ومن طریقہ ابن حزم فی المحلیٰ ( ص:129ج:5 ) قال النووی فی شرح المہذب رواہ النسائی باسناد علی شرط الصحیحین وقال ابوامامۃ ہذا صحابی انتہی وبما روی الشافعی فی الام ( ص:239ج:1 والبیہقی ص:39ج:4 ) من طریقہ عن مطرف بن مازن عن معمرعن الزہری قال اخبرنی ابوامامۃ بن سہل انہ اخبرہ رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان السنۃ فی الصلوۃ علی الجنازہ ان یکبر الامام ثم یقرا بفاتحۃ الکتاب بعدالتکبیرۃ الاولیٰ سرا فی نفسہ الحدیث وضعفت ہذہ الروایۃ بمطرف لکن قواہا البیہقی بمارواہ فی المعرفۃ والسنن من طریق عبیداللہ بن ابی زیاد الرصا فی عن الزہری بمعنی روایۃ مطرف وبما روی الحاکم ( ص:359،ج:1 ) والبیہقی من طریقہ ( ص:42ج:4 ) عن شرحبیل بن سعدقال حضرت عبداللہ بن مسعود صلی علی جنازۃ بالابواءفکبر ثم قرا بام القرآن رافعاً صوتہ بہا ثم صلی علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثم قال اللہم عبدک وابن عبدک الحدیث وفی آخرہ ثم انصرف فقال یا ایہا الناس انی لم اقرا علنا ( ای جہرا ) الا لتعلموا انہا سنۃ قال الحافظ فی الفتح وشرحبیل مختلف فی توثیقہ انتہی۔ واخرج ابن الجارود فی المنتقیٰ من طریق زید بن طلحۃ التیمی قال سمعت ابن عباس قرا علی جنازۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ وجہر بالقراءۃ وقال انما جہرت لاعلمکم انہا سنۃ۔ وذہب بعضہم الی انہ یخیربین الجہر والاسرار وقال بعض اصحاب الشافعی انہ یجہر باللیل کاللیلۃ ویسربالنہار۔ قال شیخنا فی شرح الترمذی قول ابن عباس انما جہرت لتعلموا انہا سنۃ یدل علی ان جہرہ کان للتعلیم ای لالبیان ان الجہر بالقراءۃ سنۃ قال واما قول بعض اصحاب الشافعی یجہر باللیل کاللیلۃ فلم اقف علی روایۃ تدل علی ہذا انتہی۔ وہذا یدل علی ان الشیخ مال الی قول الجمہور ان الاسرار بالقرا ءۃ مندوب ہذا وروایۃ ابن عباس عندالنسائی بلفظ فقرا بفاتحۃ الکتاب وسورۃ تدل علی مشروعیۃ قرا ءۃ سورۃ مع الفاتحۃ فی الصلوٰۃ الجنازۃ قال الشوکانی لامحیص عن المصیر الی ذلک لانہا زیادۃ خارجۃ من مخرج صحیح قلت ویدل علیہ ایضا ما ذکرہ ابن حزم فی المحلیّٰ ( ص:129ج:5 ) معلقا عن محمدبن عمروبن عطاءان المسور بن مخرمۃ صلی علی الجنازۃ فقرا فی التکبیر الاولیٰ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ قصیرۃ رفع بہاصوتہ فلما فرغ قال لا اجہل ان تکون ہذہ الصلوۃ عجماءولکن اردت ان اعلمکم ان فیہا قرا ءۃ۔ ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص:478 ) حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے اس طویل بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ جنازہ میں پڑھنی واجب ہے جیسا کہ امام شافعی اور احمد اور اسحاق وغیر ہم کا مذہب ہے۔ ان سب کا اجماع ہے کہ سورۃ فاتحہ ہی نماز ہے اور حدیث میں موجود ہے کہ سورۃ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ پس نماز جنازہ بھی اسی عموم کے تحت داخل ہے اور اسے اس عموم سے خارج کرنے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنازہ ایک نماز ہے جس میں قیام واجب ہے۔ پس دیگر نمازوں کی طرح اس میں بھی قرات واجب ہے اور اس لیے بھی کہ اس کی قرات کا صریح حکم موجود ہے۔ جیسا کہ ابن ماجہ میں ام شریک سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ اگرچہ اس حدیث کی سند میں کچھ ضعف ہے مگر دیگر دلائل وشواہد کی بناپر اس سے استدلال درست ہے اور طبرانی میں بھی ام عفیف سے ایسا ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جمازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم فرمایا اور امرو جوب کے لیے ہوتا ہے۔ طبرانی میں اسماءبنت یزید سے بھی ایسا ہی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم جنازہ پر نماز پڑھو تو سورۃ فاتحہ پڑھا کرو۔ متاخرین حنفیہ میں ایک مولانا حسن شرنبلانی مرحوم نے اس مسئلہ پر ایک رسالہ بنام النظم المستطاب لحکم القراءۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ بام الکتاب کہا ہے۔ جس میں ثابت کیا ہے کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا نہ پڑھنے سے بہتر ہے اور اس کی کراہیت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایسا ہی مولانا عبدالحی لکھنؤی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف عمدۃ الرعایہ اور تعلیق الممجد اور امام الکلام وغیرہ میں لکھا ہے۔ پھر حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے جہر پر دلیل پکڑی گئی ہے کہ وہ حدیث صاف دلیل ہے کہ انہوں نے اسے بالجہر پڑھا۔ یہاں تک کہ مقتدیوں نے اسے سنا اور اس سے بھی زیادہ صریح دلیل وہ ہے جسے نسائی نے روایت کیاہے۔ راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک جنازہ کی نماز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے پڑھی۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ کو جہر کے ساتھ ہم کو سنا کر پڑھا۔ جب آپ فارغ ہوئے تو میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ مسئلہ آپ سے پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ بے شک یہی سنت اور حق ہے اور جنازہ کی دعاؤں کو جہر سے پڑھنے پر عوف بن مالک کی حدیث دلیل ہے۔ جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ کے بلند آواز سے پڑھنے پر سن سن کر ان دعاؤں کو حفظ ویاد کرلیا تھا اور اس سے بھی زیادہ صریح واثلہ کی حدیث ہے۔ اور علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے۔ بعض نے روایات مذکورہ کی بناپر جہر کو مستحب مانا ہے جیسا کہ ہم نے ابھی اس کا ذکر کیا ہے۔ جمہور نے آہستہ پڑھنے کو مستحب گردانا ہے۔ جمہور کی دلیل حدیث امامہ ہے جس میں آہستہ پڑھنے کو سنت بتایا گیا ہے اخرجہ النسائی۔ علامہ ابن حزم نے محلّٰی میں اور امام شافعی نے کتاب الام میں اور بیہقی وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے فرمایا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے۔ شرحبیل بن سعد کہتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ میں بمقام ابواءشریک ہوا۔ آپ نے سورۃ فاتحہ اور درود اور دعاؤں کو بلند آواز سے پڑھا پھر فرمایا کہ میں جہر سے نہ پڑھتا مگر اس لیے پڑھا تاکہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔ اور منتقی ابن جارود میں ہے کہ زید بن طلحہ تیمی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی جس میں انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورت کو بلند آواز سے پڑھا اور بعد میں فرمایا کہ میں نے اس لیے جہر کیا ہے تاکہ تم کو سکھلاؤں کہ یہ سنت ہے۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ جہر اور سرہردو کے لیے اختیار ہے۔ بعض شافعی حضرات نے کہا کہ رات کو جنازہ میں جہر اور دن میں سر کے ساتھ پڑھا جائے۔ ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن مبارک پوری رحمتہ اللہ علیہ قول جمہور کی طرف ہیں اور فرماتے ہیں کہ قرات آہستہ ہی مستحب ہے اور نسائی والی روایات عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں دلیل ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا مشروع ہے۔ مسور بن مخرمہ نے ایک جنازہ میں پہلی تکبیر میں سورۃ فاتحہ اور ایک مختصر سی سورت پڑھی۔ پھر فرمایا کہ میں نے قرات جہر سے اس لیے کی ہے کہ تم جان لو کہ اس نماز میں بھی قرات ہے اور یہ نماز گونگی ( بغیر قرات والی ) نہیں ہے۔ انتہی مختصرا خلاصتہ المرام یہ کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ مع ایک سورۃ کے پڑھنا ضروری ہے۔ حضرت قاضی ثناءاللہ پانی پتی حنفی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مشہور کتاب مالا بدمنہ میں اپنا وصیت نامہ بھی درج فرمایا ہے۔ جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جو اس میں سورہ فاتحہ پڑھے۔ پس ثابت ہوا کہ جملہ اہل حق کا یہی مختار مسلک ہے۔ علمائے احناف کا فتوی! فاضل محترم صاحب تفہیم البخاری نے اس موقع پر فرمایا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک بھی نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی جائز ہے۔ جب دوسری دعاؤں سے اس میں جامعیت بھی زیادہ ہے تو اس کے پڑھنے میں حرج کیا ہوسکتا ہے۔ البتہ دعا اور ثناءکی نیت سے اسے پڑھنا چاہئے قرات کی نیت سے نہیں۔ ( تفہیم البخاری‘ پ5 ص:122 ) فاضل موصوف نے آخر میں جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ صحیح نہیں جب کہ سابقہ روایات مذکورہ میں اسے قرات کے طور پر پڑھنا ثابت ہے۔ پس اس فرق کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ بہر حال خدا کرے ہمارے محترم حنفی بھائی جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع فرمادیں یہ بھی ایک نیک اقدام ہوگا۔ روایات بالا میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو یہ فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے اس کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث مدظلہ العالی نے یوں فرمائی ہے۔ والمراد بالسنۃ الطریقۃ المالوفۃ عنہ صص لا مایقابل الفریضۃ فانہ اصطلاح عرفی حادث فقال الاشرف الضمیر المونث لقراءۃ الفاتحۃ ولیس المراد بالسنۃ انہا لیست بواجبۃ بل مایقابل البدعۃ ای انہا طریقۃ مرویۃ وقال القسطلانی انہا ای قراءۃ الفاتحۃ فی الجنازۃ سنۃ ای طریقۃ الشارع فلا ینا فی کونہا واجبۃ وقد علم ان قول الصحابی من السنۃ کذا حدیث مرفوع عند الاکثر قال الشافعی فی الام واصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم لا یقولون السنۃ الالسنۃ رسول اللہ علیہ وسلم ان شاءاللہ تعالیٰ انتہٰی ( مرعاۃ المفاتیح، ص:477 ) یعنی یہاں لفظ سنت سے طریقہ مالوفہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے نہ وہ سنت جو فرض کے مقابلہ پر ہوتی ہے۔ یہ ایک عرفی اصطلاح استعمال کی گئی ہے یہ مراد نہیں کہ یہ واجب نہیں ہے بلکہ وہ سنت مراد ہے جو بدعت کے مقابلہ پر بولی جاتی ہے۔ یعنی یہ طریقہ مرویہ ہے اور قسطلانی نے کہا کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنی سنت ہے یعنی شارع کا طریقہ ہے اور یہ واجب ہونے کے منافی نہیں ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے کتاب الام میں فرمایا ہے کہ صحابہ کرام لفظ سنت کا استعمال سنت یعنی طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے تھے۔ اقوال صحابہ میں حدیث مرفوع پر بھی سنت کا لفظ بولا گیا ہے۔ بہرحال یہاں سنت سے مراد یہ ہے کہ سورۃ فاتحہ نماز میں پڑھنا طریقہ نبوی ہے اور یہ واجب ہے کہ اس کے پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی جیسا کہ تفصیل بالا میں بیان کیا گیا ہے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ

باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر


1336 حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ قَالَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ قَالَ أَخْبَرَنِي مَنْ مَرَّ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ مَنْبُوذٍ فَأَمَّهُمْ وَصَلَّوْا خَلْفَهُ قُلْتُ مَنْ حَدَّثَكَ هَذَا يَا أَبَا عَمْرٍو قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا

ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے شعبی سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے اس صحابی نے خبر دی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر سے گزرے تھے۔ قبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام بنے اور صحابہ نے آپ کے پیچھے نماز جنازہ پڑھی۔ شیبانی نے کہا کہ میں نے شعبی سے پوچھا کہ ابو عمرو! یہ آپ سے کس صحابی نے بیان کیا تھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى القَبْرِ بَعْدَ مَا يُدْفَنُ

باب: مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر


1337 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَبِي رَافِعٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَسْوَدَ رَجُلًا أَوْ امْرَأَةً كَانَ يَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ فَمَاتَ وَلَمْ يَعْلَمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَوْتِهِ فَذَكَرَهُ ذَاتَ يَوْمٍ فَقَالَ مَا فَعَلَ ذَلِكَ الْإِنْسَانُ قَالُوا مَاتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ أَفَلَا آذَنْتُمُونِي فَقَالُوا إِنَّهُ كَانَ كَذَا وَكَذَا قِصَّتُهُ قَالَ فَحَقَرُوا شَأْنَهُ قَالَ فَدُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ فَأَتَى قَبْرَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن فضل نے کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے بیان کیا‘ ان سے ابو رافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ کالے رنگ کا ایک مرد یا ایک کالی عورت مسجد کی خدمت کیا کرتی تھیں‘ ان کی وفات ہوگئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کی خبر کسی نے نہیں دی۔ ایک دن آپ نے خود یاد فرمایا کہ وہ شخص دکھائی نہیں دیتا۔ صحابہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان کا تو انتقال ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کی کہ یہ وجوہ تھیں ( اس لیے آپ کو تکلیف نہیں دی گئی ) گویا لوگوں نے ان کو حقیر جان کر قابل توجہ نہیں سمجھا لیکن آپ نے فرمایا کہ چلو مجھے ان کی قبر بتادو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح : یہ کالا مرد یا کالی عورت مسجد نبوی کی جاروب کش بڑے بڑے بادشاہان ہفت اقلیم سے اللہ کے نزدیک مرتبہ اور درجہ میں زائد تھی۔ حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈھونڈ کر اس کی قبر پر نماز پڑھی۔ واہ رے قسمت! آپ کی کفش برداری اگر ہم کو بہشت میں نصیب ہوجائے تو ایسی دنیا کی لاکھوں سلطنتیں اس پر تصدق کردیں ( وحیدی ) حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ اگر کسی مسلمان مرد یا عورت کا جنازہ نہ پڑھا گیا ہو تو قبر پر دفن کرنے کے بعد بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ بعض نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص بتلایا ہے مگر یہ دعویٰ بے دلیل ہے۔


بَابٌ: المَيِّتُ يَسْمَعُ خَفْقَ النِّعَالِ

باب: مردہ لوٹ کر جانے والوں کے جوتوں


1338 حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ قَالَ وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَبْدُ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتُوُلِّيَ وَذَهَبَ أَصْحَابُهُ حَتَّى إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَأَقْعَدَاهُ فَيَقُولَانِ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا وَأَمَّا الْكَافِرُ أَوْ الْمُنَافِقُ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ ثُمَّ يُضْرَبُ بِمِطْرَقَةٍ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً بَيْنَ أُذُنَيْهِ فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ إِلَّا الثَّقَلَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا کہ مجھ سے خلیفہ بن خیاط نے بیان کیا‘ ان سے یزید بن زریع نے‘ ان سے سعید بن ابی عروبہ نے‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور دفن کرکے اس کے لوگ باگ پیٹھ موڑ کر رخصت ہوتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہے۔ پھر دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس شخص ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق تمہارا کیا اعتقاد ہے؟ وہ جواب دیتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ دیکھ جہنم کا اپنا ایک ٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے جنت میں تیرے لیے ایک مکان اس کے بدلے میں بنا دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس بندہ مومن کو جنت اور جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں اور رہا کافریا منافق تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں‘ میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا وہی میں بھی کہتا رہا۔ پھر اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تونے کچھ سمجھا اور نہ ( اچھے لوگوں کی ) پیروی کی۔ اس کے بعد اسے ایک لوہے کے ہتھوڑے سے بڑے زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقہ سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق سنتی ہے۔
تشریح : اس حدیث سے یہ نکلا کہ ہر شخص کے لیے دو دو ٹھکانے بنے ہیں‘ ایک جنت میں اور ایک دوزخ میں اور یہ قرآن شریف سے بھی ثابت ہے کہ کافروں کے ٹھکانے جو جنت میں ہیں ان کے دوزخ میں جانے کی وجہ سے ان ٹھکانوں کو ایماندار لے لیں گے۔ قبر میں تین باتوں کا سوال ہوتا ہے من ربک تیرا رب کون ہے؟ مومن جواب دیتاہے ربی اللہ میرا رب اللہ ہے پھر سوال ہوتا ہے ومادینک تیرا دین کیا تھا‘ مومن کہتا ہے دینی الاسلام میرا دین اسلام تھا۔ پھر پوچھا جاتا ہے کہ تیرا نبی کون ہے؟ وہ بولتا ہے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میرے نبی رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان جوابات پر اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور کافر اور منافق ہر سوال کے جواب میں یہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ جیسا لوگ کہتے رہتے تھے میں بھی کہہ دیا کرتا تھا۔ میرا کوئی دین مذہب نہ تھا۔ اس پر اس کے لیے دوزخ کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ لم لادریت ولم لا تلیت کے ذیل مولانا وحیدالزماں مرحوم فرماتے ہیں۔ یعنی نہ مجتہد ہوا نہ مقلد اگر کوئی اعتراض کرے کہ مقلد تو ہوا کیونکہ اس نے پہلے کہا کہ لوگ جیسا کہتے تھے میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقلید کچھ کام کی نہیں کہ سنے سنائے پر ہر شخص عمل کرنے لگا۔ بلکہ تقلید کے لیے بھی غور لازم ہے کہ جس شخص کے ہم مقلد بنتے ہیں آیا وہ لائق اور فاضل اور سمجھ دار تھا یا نہیں اور دین کا علم اس کو تھا یا نہیں۔ سب باتیں بخوبی تحقیق کرنی ضروری ہیں۔


بَابُ مَنْ أَحَبَّ الدَّفْنَ فِي الأَرْضِ المُقَدَّسَةِ أَوْ نَحْوِهَا

باب: جو شخص ارض مقدس دفن ہونے کا آرزو مند


1339 حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ فَرَدَّ اللَّهُ عَلَيْهِ عَيْنَهُ وَقَالَ ارْجِعْ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ بِهِ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ قَالَ أَيْ رَبِّ ثُمَّ مَاذَا قَالَ ثُمَّ الْمَوْتُ قَالَ فَالْآنَ فَسَأَلَ اللَّهَ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنْ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ

ترجمہ : ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں عبداللہ بن طاؤس نے‘ انہیں ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ملک الموت ( آدمی کی شکل میں ) موسی علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ( نہ پہچان کر ) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کردی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھئے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آجائیں ان کے ہر بال کے بدلے ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ ( موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا تو ) آپ نے کہا کہ اے اللہ! پھر کیا ہوگا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے تو ابھی کیوں نہ آجائے۔ پھر انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ انہیں ایک پتھر کی مار پر ارض مقدس سے قریب کردیا جائے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا کہ لال ٹیلے کے پاس راستے کے قریب ہے۔
تشریح : بیت المقدس ہویا مکہ مدینہ ایسے مبارک مقامات میں دفن ہونے کی آرزو کرنا جائز ہے۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد باب یہی ہے۔


بَابُ الدَّفْنِ بِاللَّيْلِ

باب: رات میں دفن کرنا کیسا ہے؟


1340 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الشَّيْبَانِيِّ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ بَعْدَ مَا دُفِنَ بِلَيْلَةٍ قَامَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ وَكَانَ سَأَلَ عَنْهُ فَقَالَ مَنْ هَذَا فَقَالُوا فُلَانٌ دُفِنَ الْبَارِحَةَ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے شیبانی نے‘ ان سے شعبی نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے شخص کی نماز جنازہ پڑھی جن کا انتقال رات میں ہوگیا تھا ( اور اسے رات ہی میں دفن کردیا گیا تھا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا تھا کہ یہ کن کی قبر ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ فلاں کی ہے جسے کل رات ہی دفن کیا گیا ہے۔ پھر سب نے ( دوسرے روز ) نماز جنازہ پڑھی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ رات ہو یا دن مرنے والے کے کفن دفن میں دیرنہ کی جائے۔


بَابُ بِنَاءِ المَسْجِدِ عَلَى القَبْرِ

باب: قبروں پر مسجد تعمیر کرنا کیسا ہے؟


1341 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار پڑے تو آپ کی بعض بیویوں ( ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ) نے ایک گرجے کا ذکر کیا جسے انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا جس کا نام ماریہ تھا۔ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا دونوں حبش کے ملک میں گئی تھیں۔ انہوں نے اس کی خوبصورتی اور اس میں رکھی ہوئی تصاویر کا بھی ذکر کیا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھاکر فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان میں کوئی صالح شخص مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد تعمیر کردیتے۔ پھر اس کی مورت اس میں رکھتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ ساری مخلوق میں برے ہیں۔
تشریح : امام قسطلانی فرماتے ہیں: قال القرطبی انما صوروا اوائلہم الصور لیتانسوا بہا ویتذکروا افعالہم الصالحۃ فیجتہدون کاجتہادہم ویعبدون اللہ عند قبورہم ثم خلفہم قوم جہلوا مرادہم ووسوس لہم الشیطان ان اسلافکم کانو یعبدون ہذہ الصورو یعظمونہا فحذر النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن مثل ذلک سداللذریعۃ المودیۃ الی ذلک بقولہ اولئک شرارالخلق عنداللہ وموضع الترجمۃ بنوا علی قبرہ مسجدا وہو مول علی مذمۃ من اتخذ القبر مسجدا ومقتضاہ التحریم لا سیما وقد ثبت اللعن علیہ یعنی قرطبی نے کہا کہ بنواسرائیل نے شروع میں اپنے بزرگوں کے بت بنائے تاکہ ان سے انس حاصل کریں اور ان کے نیک کاموں کو یاد کر کرکے خود بھی ایسے ہی نیک کام کریں اور ان کی قبروں کے پاس بیٹھ کر عبادت الٰہی کریں۔ پیچھے اور بھی زیادہ جاہل لوگ پیدا ہوئے۔ جنہوں نے اس مقصد کو فراموش کردیا اور ان کو شیطان نے وسوسوں میں ڈالا کہ تمہارے اسلاف ان ہی مورتوں کو پوجتے تھے اور انہی کی تعظیم کرتے تھے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شرک کا سدباب کرنے کے لیے سختی کے ساتھ ڈرایا اور فرمایا کہ اللہ کے نزدیک یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں۔ اور ترجمۃ الباب لفظ حدیث بنو اعلی قبرہ مسجدا سے ثابت ہوتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی مذمت کی جو قبر کو مسجد بنالے۔ اس سے اس فعل کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے اور ایسا کرنے پر لعنت بھی دارد ہوئی ہے۔ حضرت نوع علیہ السلام کی قوم نے بھی شروع شروع میں اسی طرح اپنے بزرگوں کے بت بنائے‘ بعد میں پھر ان بتوں ہی کو خدا کا درجہ دے دیاگیا۔ عموماً جملہ بت پرست اقوام کا یہی حال ہے۔ جب کہ وہ خود کہتے بھی ہیں کہ مَانَعبُدُہُم اِلاَّ لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللّٰہِ رُلفٰی ( الزمر:3 ) یعنی ہم ان بتوں کو محض اس لیے پوجتے ہیں کہ یہ ہم کو اللہ سے قریب کردیں۔ باقی یہ معبود نہیں ہیں یہ تو ہمارے لیے وسیلہ ہیں۔ اللہ پاک نے مشرکین کے اس خیال باطل کی تردید میں قرآن کریم کا بیشتر حصہ نازل فرمایا۔ صد افسوس! کہ کسی نہ کسی شکل میں بہت سے مدعیان اسلام میں بھی اس قسم کا شرک داخل ہوگیا ہے۔ حالانکہ شرک اکبر ہویا اصغر اس کے مرتکب پر جنت ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔ مگر اس صورت میں کہ وہ مرنے سے پہلے اس سے تائب ہوکر خالص خدا پرست بن جائے۔ اللہ پاک ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ آمین


بَابُ مَنْ يَدْخُلُ قَبْرَ المَرْأَةِ

باب: عورت کی قبر میں کون اترے


1342 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ شَهِدْنَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ أَحَدٍ لَمْ يُقَارِفْ اللَّيْلَةَ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ أَنَا قَالَ فَانْزِلْ فِي قَبْرِهَا فَنَزَلَ فِي قَبْرِهَا فَقَبَرَهَا قَالَ ابْنُ مُبَارَكٍ قَالَ فُلَيْحٌ أُرَاهُ يَعْنِي الذَّنْبَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ لِيَقْتَرِفُوا أَيْ لِيَكْتَسِبُوا

ترجمہ : ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن علی نے بیان کیا‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے جنازہ میں حاضر تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قبر پر بیٹھے ہوئے تھے‘ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیاایسا آدمی بھی کوئی یہاں ہے جو آج رات کو عورت کے پاس نہ گیا ہو۔ اس پر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بولے کہ میں حاضر ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم قبر میں اُتر جاؤ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ اُتر گئے اور میت کو دفن کیا۔ عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا کہ فلیح نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ﴿ لم یقارف ﴾ کا معنی یہ ہے کہ جس نے گناہ نہ کیا ہو۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ سورئہ انعام میں جو ﴿ لیقترفوا ﴾ آیا ہے اس کا معنی یہی ہے تاکہ گناہ کریں۔
تشریح : ایک بات عجیب مشہور ہوگئی ہے کہ موت کے بعد شوہر بیوی کے لیے ایک اجنبی اور عام آدمی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا‘ یہ انتہائی لغو اور غلط تصور ہے۔ اسلام میں شوہر اور بیوی کا تعلق اتنا معمولی نہیں کہ وہ مرنے کے بعد ختم ہوجائے اور مرد عورت کے لیے اجنبی بن جائے۔ پس عورت کے جنازے کو خود اس کا خاوند بھی اتار سکتا ہے اور حسب ضرورت دوسرے لوگ بھی جیسا کہ اس حدیث سے ثابت ہوا۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ

باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟


1343 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ وَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو ملا کر ایک ہی کپڑے کا کفن دیا۔ آپ دریافت فرماتے کہ ان میں قرآن کسے زیادہ یاد ہے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ سے بتایا جاتا تو آپ بغلی قبر میں اسی کو آگے کرتے اور فرماتے کہ میں قیامت میں ان کے حق میں شہادت دوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا۔ نہ انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔


بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الشَّهِيدِ

باب: شہید کی نماز جنازہ پڑھیں یا نہیں؟


1344 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے یزیدبن ابی حبیب نے بیان کیا‘ ان سے ابوالخیر یزیدبن عبداللہ نے‘ ان سے عقبہ بن عامرنے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جاکر تمہارے لیے میر سامان بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم خدا کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کروگے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ ( نتیجہ یہ کہ آخرت سے غافل ہو جاؤ گے )
تشریح : شہید فی سبیل اللہ جو میدان جنگ میں مارا جائے اس پر نماز جنازہ پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ اسی باب کے ذیل میں ہر دو احادیث میں یہ اختلاف موجود ہے۔ ان میں تطبیق یہ ہے کہ دوسری حدیث جس میں شہدائے احد پر نماز کا ذکر ہے اس سے مراد صرف دعا اور استغفار ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کانہ صلی اللہ علیہ وسلم دعالہم واستغفرلہم حین قرب اجلہ بعد ثمان سنین کالمودع للاحیاءوالاموات ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی اس حدیث میں جو ذکر ہے یہ معرکہ احد کے آٹھ سال بعد کا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری وقت میں شہدائے احد سے بھی رخصت ہونے کے لیے وہاں گئے اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔ طویل بحث کے بعد المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں۔ قلت الظاہر عندی ان الصلوٰۃ علی الشہید لیست بواجبۃ فیجوز ان یصلی علیہا ویجوز ترکہا واللہ اعلم یعنی میرے نزدیک شہید پر نماز جنازہ پڑھنا اور نہ پڑھنا ہر دو امور جائز ہیں واللہ اعلم۔


بَابُ دَفْنِ الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلاَثَةِ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ

باب: دو یاتین آدمیوں کو ایک قبر میں دفن کرنا


1345 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ

ترجمہ : ہم سے سعید بن سلیمان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب نے کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دو دو شہیدوں کو دفن کرنے میں ایک ساتھ جمع فرمایا تھا۔
تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے


بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ غَسْلَ الشُّهَدَاءِ

باب: اس شخص کی دلیل جو شہداء کا غسل


1346 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْفِنُوهُمْ فِي دِمَائِهِمْ يَعْنِي يَوْمَ أُحُدٍ وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمن بن کعب نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں خون سمیت دفن کردو یعنی احد کی لڑائی کے موقع پر اور انہیں غسل نہیں دیا تھا۔


بَابُ مَنْ يُقَدَّمُ فِي اللَّحْدِ

باب: بغلی قبر میں کون آگے رکھا جائے


1347 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، ثُمَّ يَقُولُ: «أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟»، فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: «أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلاَءِ» وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دو دو شہید مردوں کو ایک ہی کپڑے میں کفن دیتے اور پوچھتے کہ ان میں قرآن کس نے زیادہ یا دکیا ہے، پھر جب کسی ایک طرف اشارہ کر دیا جاتا تو لحد میں اسی کو آگے بڑھاتے اور فرماتے جاتے کہ میں ان پر گواہ ہوں۔ آپ نے خون سمیت انہیں دفن کرنے کا حکم دیا، نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی اور نہ انہیں غسل دیا۔


بَابُ مَنْ يُقَدَّمُ فِي اللَّحْدِ

باب: بغلی قبر میں کون آگے رکھا جائے


1348 وَأَخْبَرَنَا ابْنُ المُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا الأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِقَتْلَى أُحُدٍ: «أَيُّ هَؤُلاَءِ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ؟» فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى رَجُلٍ قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ قَبْلَ صَاحِبِهِ، وَقَالَ جَابِرٌ: فَكُفِّنَ أَبِي وَعَمِّي فِي نَمِرَةٍ وَاحِدَةٍ، وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ: حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ : پھر ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی۔ انہیں زہری نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے جاتے تھے کہ ان میں قرآن زیادہ کس نے حاصل کیا ہے؟ جس کی طرف اشارہ کردیا جاتا آپ لحد میں اسی کو دوسرے سے آگے بڑھاتے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میرے والد اور چچا کو ایک ہی کمبل میں کفن دیا گیا تھا۔اور سلیمان بن کثیر نے بیان کیا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا‘ ان سے اس شخص نے بیان کیا جنہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا تھا۔
تشریح : مسلک راجح یہی ہے جو حضرت امام نے بیان فرمایا کہ شہید فی سبیل اللہ پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔


بَابُ الإِذْخِرِ وَالحَشِيشِ فِي القَبْرِ

باب: اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا


1349 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَرَّمَ اللَّهُ مَكَّةَ فَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا تُلْتَقَطُ لُقَطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ فَقَالَ الْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا وَقَالَ أَبَانُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ وَقَالَ مُجَاهِدٌ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لِقَيْنِهِمْ وَبُيُوتِهِمْ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا “ لیکن اس سے اذخر کا استثناءکردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ “ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ ” اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔
تشریح : پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔ تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1350 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ فَوَضَعَهُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيقِهِ وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ فَاللَّهُ أَعْلَمُ وَكَانَ كَسَا عَبَّاسًا قَمِيصًا قَالَ سُفْيَانُ وَقَالَ أَبُو هَارُونَ يَحْيَى وَكَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَانِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلْبِسْ أَبِي قَمِيصَكَ الَّذِي يَلِي جِلْدَكَ قَالَ سُفْيَانُ فَيُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَ عَبْدَ اللَّهِ قَمِيصَهُ مُكَافَأَةً لِمَا صَنَعَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ عمرو نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی ( منافق ) کو اس کی قبر میں ڈالا جاچکا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ( غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ ) انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایک قمیص پہنائی تھی ( غزوئہ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے ) سفیان نے بیان کیا کہ ابوہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے ( جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسداطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1351 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا حَضَرَ أُحُدٌ دَعَانِي أَبِي مِنْ اللَّيْلِ فَقَالَ مَا أُرَانِي إِلَّا مَقْتُولًا فِي أَوَّلِ مَنْ يُقْتَلُ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَا أَتْرُكُ بَعْدِي أَعَزَّ عَلَيَّ مِنْكَ غَيْرَ نَفْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ عَلَيَّ دَيْنًا فَاقْضِ وَاسْتَوْصِ بِأَخَوَاتِكَ خَيْرًا فَأَصْبَحْنَا فَكَانَ أَوَّلَ قَتِيلٍ وَدُفِنَ مَعَهُ آخَرُ فِي قَبْرٍ ثُمَّ لَمْ تَطِبْ نَفْسِي أَنْ أَتْرُكَهُ مَعَ الْآخَرِ فَاسْتَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ فَإِذَا هُوَ كَيَوْمِ وَضَعْتُهُ هُنَيَّةً غَيْرَ أُذُنِهِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو بشربن مفضل نے خبر دی‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے‘ ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے ( اپنے عزیزوں اور وارثوں میں ) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی ( نو ) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔
تشریح : جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔


بَابٌ: هَلْ يُخْرَجُ المَيِّتُ مِنَ القَبْرِ وَاللَّحْدِ لِعِلَّةٍ

باب: میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد


1352 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ عَطَاءٍ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ دُفِنَ مَعَ أَبِي رَجُلٌ فَلَمْ تَطِبْ نَفْسِي حَتَّى أَخْرَجْتُهُ فَجَعَلْتُهُ فِي قَبْرٍ عَلَى حِدَةٍ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے‘ ان سے ابن ابی نجیح نے‘ ان سے عطاءبن ابی رباح اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے باپ کے ساتھ ایک ہی قبر میں ایک اور صحابی ( حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے چچا ) دفن تھے۔ لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کردی۔


بَابُ اللَّحْدِ وَالشَّقِّ فِي القَبْرِ

باب: بغلی یا صندوقی قبر بنانا


1353 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ رَجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ ثُمَّ يَقُولُ أَيُّهُمْ أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ فَقَالَ أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ وَلَمْ يُغَسِّلْهُمْ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ احد کے شہداء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کفن میں دو دو کو ایک ساتھ کرکے پوچھتے تھے کہ قرآن کس کو زیادہ یاد تھا۔ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو بغلی قبر میں اسے آگے کردیا جاتا۔ پھر آپ فرماتے کہ میں قیامت کو ان ( کے ایمان ) پر گواہ بنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بغیر غسل دئیے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1354 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ أَنَّ عُمَرَ انْطَلَقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَهْطٍ قِبَلَ ابْنِ صَيَّادٍ، حَتَّى وَجَدُوهُ يَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ عِنْدَ أُطُمِ بَنِي مَغَالَةَ، وَقَدْ قَارَبَ ابْنُ صَيَّادٍ الحُلُمَ، فَلَمْ يَشْعُرْ حَتَّى ضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَ لِابْنِ صَيَّادٍ: «تَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟»، فَنَظَرَ إِلَيْهِ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الأُمِّيِّينَ، فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّ: أَتَشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟ فَرَفَضَهُ وَقَالَ: «آمَنْتُ بِاللَّهِ وَبِرُسُلِهِ» فَقَالَ لَهُ: مَاذَا تَرَى؟ قَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: يَأْتِينِي صَادِقٌ وَكَاذِبٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خُلِّطَ عَلَيْكَ الأَمْرُ ثُمَّ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي قَدْ خَبَأْتُ لَكَ خَبِيئًا» فَقَالَ ابْنُ صَيَّادٍ: هُوَ الدُّخُّ، فَقَالَ: «اخْسَأْ، فَلَنْ تَعْدُوَ قَدْرَكَ» فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلاَ خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہیں یونس نے‘ انہیں زہری نے‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ تعالیٰ کے لیے ) اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔ ( آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا۔ ﴿ فارتقب یوم تاتی السماءبدخان مبین ﴾ ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑ دیجئے میں اس کی گردن ماردیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اگر یہ دجال ہے تو تو اس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہوگا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1355 وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ – يَعْنِي فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ – فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ – وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ – هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ»، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ: فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ – أَوْ زَمْزَمَةٌ – وَقَالَ إِسْحَاقُ الكَلْبِيُّ، وَعُقَيْلٌ: رَمْرَمَةٌ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ

ترجمہ : اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ پایا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جارہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں زمزمۃ فرفصہ اور عقیل رمرمۃ نقل کیا ہے اور معمر نے رمزۃ کہا ہے۔
تشریح : ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکرکے عوام کو بہکایا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسلام پیش فرمایا۔ اس وقت وہ نابالغ تھا۔ اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب ثابت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ وہ ایمان لانے والا نہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اس کو چھوڑ دیا یعنی اس کی نسبت لاونعم کچھ نہیں کہا صرف اتنا فرمادیا کہ میں اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لایا۔ بعض روایتوں میں فرفصہ صاد مہملہ سے ہے کہ یعنی ایک لات اس کو جمائی۔ بعضوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دبا کر بھینچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس سے پوچھا اس سے آپ کی غرض محض یہ تھی کہ اس کا جھوٹ کھل جائے اور اس کا پیغمبری کا دعویٰ غلط ہو۔ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ میں کبھی سچا کبھی جھوٹا خواب دیکھتا ہوں‘ یہ شخص کاہن تھا اس کو جھوٹی سچی خبریں شیطان دیا کرتے تھے۔ دخان کی جگہ صرف لفظ دخ کہا۔ شیطانوں کی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے کہ ایک آدھ کلمہ اچک لیتے ہیں‘ اسی میں جھوٹ ملاکر مشہور کرتے ہیں ( خلاصہ وحیدی ) مزید تفصیل دوسری جگہ آئے گی۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1356 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهْوَ ابْنُ زَيْدٍ عَنْ ثَابِتٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنْ النَّارِ

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1357 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: «كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِنَ المُسْتَضْعَفِينَ أَنَا مِنَ الوِلْدَانِ وَأُمِّي مِنَ النِّسَاءِ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا تھا کہ میں اور میری والدہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں ) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ میں بچوں میں اور میری والدہ عورتوں میں۔
تشریح : جن کا ذکر سورۃ نساءکی آیتوں میں ہے والمستضعفین من الرجال والنساءوالولدان اور الا المستضعفین من الرجال والنساءوالولدان الخ


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1358 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: «يُصَلَّى عَلَى كُلِّ مَوْلُودٍ مُتَوَفًّى، وَإِنْ كَانَ لِغَيَّةٍ، مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ وُلِدَ عَلَى فِطْرَةِ الإِسْلاَمِ، يَدَّعِي أَبَوَاهُ الإِسْلاَمَ، أَوْ أَبُوهُ خَاصَّةً، وَإِنْ كَانَتْ أُمُّهُ عَلَى غَيْرِ الإِسْلاَمِ، إِذَا اسْتَهَلَّ صَارِخًا صُلِّيَ عَلَيْهِ، وَلاَ يُصَلَّى عَلَى مَنْ لاَ يَسْتَهِلُّ مِنْ أَجْلِ أَنَّهُ سِقْطٌ فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُحَدِّثُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ، كَمَا تُنْتَجُ البَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ، هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ»، ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب ہر اس بچے کی جو وفات پاگیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو جب بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گرجانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ “ یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ الآیۃ۔
تشریح : قسطلانی نے کہا اگر وہ چار مہینے کا بچہ ہوتو اس کو غسل اور کفن دینا واجب ہے‘ اسی طرح دفن کرنالیکن نماز واجب نہیں کیونکہ اس نے آواز نہیں کی اور اگر چار مہینے سے کم کاہوتو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں


بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ، هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ

باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال


1359 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا يُونُسُ عَنْ الزُّهْرِيِّ أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَا تُنْتَجُ الْبَهِيمَةُ بَهِيمَةً جَمْعَاءَ هَلْ تُحِسُّونَ فِيهَا مِنْ جَدْعَاءَ ثُمَّ يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے‘ انہیںابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔
تشریح : باب کامطلب اس حدیث سے یوں نکلتاہے کہ جب ہر ایک آدمی کی فطرت اسلام پر ہوئی ہے تو بچے پر بھی اسلام پیش کرنا اور اس کا اسلام لانا صحیح ہوگا۔ ابن شہاب نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ہر بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس یہودی بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا گویا اس سے اجازت چاہی جب اس نے اجازت دی تو وہ شوق سے مسلمان ہوگیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے مسلمان ہونے کے لیے فرمایا۔ اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ازراہ ہمدردی مسلمان اور غیر مسلمان سب کے ساتھ محبت کا برتاؤ فرماتے اور جب بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے ( صلی اللہ علیہ وسلم )


بَابُ إِذَا قَالَ المُشْرِكُ عِنْدَ المَوْتِ: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

باب: جب مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ


1360 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ الْآيَةَ

ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ ( ابراہیم بن سعد ) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ ( مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیںیہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ “ لا الٰہ الا اللہ ” ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تا آنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ وماکان للنبی ﴾ نازل فرمائی۔
تشریح : جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔ ابوطالب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔ اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔ جب سورۃ توبہ کی آیت وماکان للنبی نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں‘ اس وقت آپ رک گئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔ سکرات کی توبہ قبول نہیں جیسا کہ قرآنی آیت فَلَم یَکُ یَنفَعُہُم اِیمَانُہُم لَمَّا رَاَوبَاسُنَا ( غافر: 85 ) میں مذکور ہے۔


بَابُ الجَرِيدِ عَلَى القَبْرِ

باب: قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا


1361 حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَرَّ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا فَقَالَ لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہورہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑدیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہوجائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ رضی اللہ عنہم کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ ( وحیدی ) علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔ حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین


بَابُ مَوْعِظَةِ المُحَدِّثِ عِنْدَ القَبْرِ، وَقُعُودِ أَصْحَابِهِ حَوْلَهُ

باب: قبر کے پاس عالم کا بیٹھنا


1362 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ قَالَ حَدَّثَنِي جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ فَأَتَانَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ ثُمَّ قَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كُتِبَ مَكَانُهَا مِنْ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ وَإِلَّا قَدْ كُتِبَ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنَّا مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ قَالَ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى الْآيَةَ

ترجمہ : ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے منصور بن معتمر نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے‘ ان سے ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبیب نے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید نے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میں ہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بدبختوں کو بُرے کاموں میں آسانی نظرآتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿ فامامن اعطی واتقی الخ ﴾
تشریح : یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیارکی اور اچھے دین کو سچا مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی شرح واللیل میں آئے گی۔ اور یہ حدیث تقدیر کے اثبات میں ایک اصل عظیم ہے۔ آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنا اور محنت اٹھانا ضروری ہے۔ جیسے حکیم کہتا ہے کہ دوا کھائے جاؤ حالانکہ شفا دینا اللہ کا کام ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1363 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي قِلاَبَةَ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الإِسْلاَمِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداً کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے اور جو شخص اپنے کو دھار دار چیز سے ذبح کرلے اسے جہنم میں اسی ہتھیارسے عذاب ہوتا رہے گا۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1364 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ أَبِي قِلَابَةَ عَنْ ثَابِتِ بْنِ الضَّحَّاكِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ بِمِلَّةٍ غَيْرِ الْإِسْلَامِ كَاذِبًا مُتَعَمِّدًا فَهُوَ كَمَا قَالَ وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ عُذِّبَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَقَالَ حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا جُنْدَبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ فَمَا نَسِينَا وَمَا نَخَافُ أَنْ يَكْذِبَ جُنْدَبٌ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَانَ بِرَجُلٍ جِرَاحٌ فَقَتَلَ نَفْسَهُ فَقَالَ اللَّهُ بَدَرَنِي عَبْدِي بِنَفْسِهِ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ

ترجمہ : اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی ( بصرے کی ) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ باندھا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا‘ اس نے ( زخم کی تکلیف کی وجہ سے ) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں جنت حرام کرتا ہوں۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَاتِلِ النَّفْسِ

باب: جو شخص خود کشی کرے


1365 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ وَالَّذِي يَطْعُنُهَا يَطْعُنُهَا فِي النَّارِ

ترجمہ : ہم سے ابولیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی‘ کہا کہ ہم کو ابو الزناد نے خبر دی ‘ ان سے اعرج نے‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خود اپناگلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میںبھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیرسے اپنے تئیں مارے وہ دوزخ میں بھی اس طرح اپنے تئیں مارتا رہے گا۔


بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عَلَى المُنَافِقِينَ، وَالِاسْتِغْفَارِ لِلْمُشْرِكِينَ

باب: منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا


1366 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّهُ قَالَ لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ وَقَدْ قَالَ يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ أَخِّرْ عَنِّي يَا عُمَرُ فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ قَالَ إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرُ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا قَالَ فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتْ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةٌ وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ قَالَ فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے‘ ان سے ابن عباس نے اور ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مراتو رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ پر سورئہ براءۃ کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ “ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ ” آیت وہم فاسقون تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو‘ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیںمانا اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔
تشریح : عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور ترین منافق تھا۔ جو عمر بھر اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور اس نے ہرنازک موقع پر مسلمانوں کو اور اسلام کو دھوکا دیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے۔ انتقال کے وقت اس کے لڑکے کی درخواست پر جو سچا مسلمان تھا‘ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور یاد دلایا کہ فلاں فلاں مواقع پر اس نے ایسے ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فطری محبت وشفقت کی بناپر اس پر نماز پڑھی۔ اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ارشاد باری نازل ہوا کہ وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ اَبَدًا ( التوبہ: 84 ) یعنی کسی منافق کی آپ کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی جرات نہ کرتا۔ بہرحال اللہ پاک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت فرمائی اور منافقین اور مشرکین کے بارے میں کھلے لفظوں میں جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔ آج کل نفاق اعتقادی کا علم نا ممکن ہے۔ کیونکہ وحی والہام کا سلسلہ بند ہے۔ لہٰذا کسی کلمہ گو مسلمان کو جو بظاہر ارکان اسلام کا پابند ہو‘ اعتقادی منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اور عملی منافق فاسق کے درجہ میں ہے۔ جس پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔


بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ

باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف


1367 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ مَرُّوا بِجَنَازَةٍ فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَبَتْ ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَا وَجَبَتْ قَالَ هَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ خَيْرًا فَوَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ وَهَذَا أَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِ شَرًّا فَوَجَبَتْ لَهُ النَّارُ أَنْتُمْ شُهَدَاءُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔


بَابُ ثَنَاءِ النَّاسِ عَلَى المَيِّتِ

باب: لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف


1368 حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ الصَّفَّارُ حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ وَقَدْ وَقَعَ بِهَا مَرَضٌ فَجَلَسْتُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمَرَّتْ بِهِمْ جَنَازَةٌ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِأُخْرَى فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا خَيْرًا فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَجَبَتْ ثُمَّ مُرَّ بِالثَّالِثَةِ فَأُثْنِيَ عَلَى صَاحِبِهَا شَرًّا فَقَالَ وَجَبَتْ فَقَالَ أَبُو الْأَسْوَدِ فَقُلْتُ وَمَا وَجَبَتْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ قُلْتُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا مُسْلِمٍ شَهِدَ لَهُ أَرْبَعَةٌ بِخَيْرٍ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ فَقُلْنَا وَثَلَاثَةٌ قَالَ وَثَلَاثَةٌ فَقُلْنَا وَاثْنَانِ قَالَ وَاثْنَانِ ثُمَّ لَمْ نَسْأَلْهُ عَنْ الْوَاحِدِ

ترجمہ : ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی‘ پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟
تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔ خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ: ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1369 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أُقْعِدَ الْمُؤْمِنُ فِي قَبْرِهِ أُتِيَ ثُمَّ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَذَلِكَ قَوْلُهُ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا وَزَادَ يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ

ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ ان سے علقمہ بن مرثد نے‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے اور ان سے براءبن عازب رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن جب اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں۔ وہ شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ تویہ اللہ کے اس فرمان کی تعبیر ہے جو سورئہ ابراہیم میں ہے کہ اللہ ایمان والوں کو دنیا کی زندگی اور آخرت میں ٹھیک بات یعنی توحید پر مضبوط رکھتا ہے۔ حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبۃ بہذا وزاد ‏{‏یثبت اللہ الذین آمنوا‏}‏ نزلت فی عذاب القبر‏.‏ ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا‘ کہا ہم سے غندر نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے یہی حدیث بیان کی۔ ان کی روایت میں یہ زیادتی بھی ہے کہ آیت ﴿ ویثبت اللہ الذین امنوا ﴾ “ اللہ مومنوں کو ثابت قدمی بخشتا ہے ” عذاب قبر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1370 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ صَالِحٍ حَدَّثَنِي نَافِعٌ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ قَالَ اطَّلَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْقَلِيبِ فَقَالَ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا فَقِيلَ لَهُ تَدْعُو أَمْوَاتًا فَقَالَ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لَا يُجِيبُونَ

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے صالح نے‘ ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں ( جس میں بدر کے مشرک مقتولین کو ڈال دیا گیا تھا ) والوں کے قریب آئے اور فرمایا تمہارے مالک نے جو تم سے سچا وعدہ کیا تھا اسے تم لوگوں نے پالیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ مردوں کو خطاب کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کچھ ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1371 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ الْآنَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتَى

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کافروں کو یہ فرمایا تھا کہ میں جو ان سے کہا کرتا تھا اب ان کو معلوم ہوا ہوگا کہ وہ سچ ہے۔ اور اللہ نے سورئہ روم میں فرمایا اے پیغمبر! تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1372 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ شُعْبَةَ سَمِعْتُ الْأَشْعَثَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ يَهُودِيَّةً دَخَلَتْ عَلَيْهَا فَذَكَرَتْ عَذَابَ الْقَبْرِ فَقَالَتْ لَهَا أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَقَالَ نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ زَادَ غُنْدَرٌ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا مجھ کو میرے باپ ( عثمان ) نے خبر دی انہیں شعبہ نے‘ انہوں نے اشعث سے سنا‘ انہوں نے اپنے والد ابوالشعثاءسے‘ انہوں نے مسروق سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی۔ اس نے عذاب قبر کا ذکر چھیڑدیا او رکہا کہ اللہ تجھ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یہ دیا کہ ہاں عذاب قبر حق ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور اس میں عذاب قبر سے خدا کی پناہ نہ مانگی ہو۔ غندر نے عذاب القبر حق کے الفاظ زیادہ کئے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1373 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَسْمَاءَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقُولُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذَكَرَ فِتْنَةَ الْقَبْرِ الَّتِي يَفْتَتِنُ فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن سلیمان نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی ‘ انہوں نے سمابنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے امتحان کا ذکر کیا جہاں انسان جانچا جاتا ہے۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ذکر کررہے تھے تو مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ القَبْرِ

باب: عذاب قبر کا بیان


1374 حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَإِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَكَانِ فَيُقْعِدَانِهِ فَيَقُولَانِ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ فَيُقَالُ لَهُ انْظُرْ إِلَى مَقْعَدِكَ مِنْ النَّارِ قَدْ أَبْدَلَكَ اللَّهُ بِهِ مَقْعَدًا مِنْ الْجَنَّةِ فَيَرَاهُمَا جَمِيعًا قَالَ قَتَادَةُ وَذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى حَدِيثِ أَنَسٍ قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْكَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ مَا كُنْتَ تَقُولُ فِي هَذَا الرَّجُلِ فَيَقُولُ لَا أَدْرِي كُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُ فَيُقَالُ لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ وَيُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيدٍ ضَرْبَةً فَيَصِيحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ

ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید نے بیان کیا‘ ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی جب اپنی قبر میں رکھا جاتا ہے اور جنازہ میں شریک ہونے والے لوگ اس سے رخصت ہوتے ہیں تو ابھی وہ ان کے جوتوں کی آواز سنتا ہوتا ہے کہ دو فرشتے ( منکر نکیر ) اس کے پاس آتے ہیں‘ وہ اسے بٹھاکر پوچھتے ہیں کہ اس شخص یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تو کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن تو یہ کہے گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس جواب پر اس سے کہا جائے گا کہ تو یہ دیکھ اپنا جہنم کاٹھکانا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہارے لیے جنت میں ٹھکانا دے دیا۔ اس وقت اسے جہنم اور جنت دونوں ٹھکانے دکھائے جائیں گے۔ قتادہ نے بیان کیا کہ اس کی قبر خوب کشادہ کردی جائے گی۔ ( جس سے آرام وراحت ملے ) پھر قتادہ نے انس رضی اللہ عنہ کی حدیث بیان کرنی شروع کی‘ فرمایا اور منافق وکافر سے جب کہا جائے گا کہ اس شخص کے بارے میں تو کیا کہتا تھا تو وہ جواب دے گا کہ مجھے کچھ معلوم نہیں‘ میں بھی وہی کہتا تھا جو دوسرے لوگ کہتے تھے۔ پھر اس سے کہا جائے گا نہ تونے جاننے کی کوشش کی اور نہ سمجھنے والوں کی رائے پر چلا۔ پھر اسے لوہے کے گرزوں سے بڑی زور سے مارا جائے گا کہ وہ چیخ پڑے گا اور اس کی چیخ کو جن اور انسانوں کے سوا اس کے آس پاس کی تمام مخلوق سنے گی۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1375 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ أَبِي جُحَيْفَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ وَجَبَتْ الشَّمْسُ فَسَمِعَ صَوْتًا فَقَالَ يَهُودُ تُعَذَّبُ فِي قُبُورِهَا وَقَالَ النَّضْرُ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَوْنٌ سَمِعْتُ أَبِي سَمِعْتُ الْبَرَاءَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ کہا ہم سے شعبہ نے‘ کہا کہ مجھ سے عون بن ابی حجیفہ نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد ابو حجیفہ نے‘ ان سے براءبن عازب نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے باہر تشریف لے گئے سورج غروب ہوچکا تھا‘ اس وقت آپ کو ایک آواز سنائی دی۔ ( یہودیوں پر عذاب قبر کی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہودی پر اس کی قبر میں عذاب ہورہا ہے۔ اور نضربن شمیل نے بیان کیاکہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ ان سے عون نے بیان کیا‘ انہوں نے اپنے باپ ابوحجیفہ سے سنا‘ انہوں نے براءسے سنا‘ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1376 حَدَّثَنَا مُعَلًّى حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ قَالَ حَدَّثَتْنِي ابْنَةُ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ أَنَّهَا سَمِعَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ

ترجمہ : ہم سے معلٰی بن اسد نے بیان کیا کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے خالد بن سعید بن عاص کی صاحبزادی ( ام خالد ) نے بیان کیا‘ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے سنا۔


بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

باب: قبر کے عذاب سے پناہ مانگنا


1377 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو وَيَقُولُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن ابی کثیر نے بیان کیا‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح دعا کرتے تھے “ اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتاہوں۔ ”
تشریح : عذاب قبر کے بارے میں علامہ شیخ سفارینی الاثری اپنی مشہور کتاب لوامع انوار البہیۃ میں فرماتے ہیں۔ ومنہاای الامور التی یجب الایمان بہا وانہا حق لا ترد عذاب القبر قال الحافظ جلال الدین السیوطی فی کتابہ “شرح الصدور فی احوال الموتی والقبور” قد ذکراللہ عذاب القبر فی القرآن فی عدۃ اماکن کما بینتہ فی الاکلیل فی اسرار التنزیل انتہی قال الحافظ ابن رجب فی کتابہ “اموال القبور” فی قولہ تعالیٰ ( فلولا اذا بلغت الحلقوم الی قولہ ان ہذا لہو الحق المبین ) عن عبدالرحمن بن ابی لیلی قال تلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الایات قال اذا کان عند الموت قیل لہ ہذا فان کان من اصحاب الیمین احب لقاءاللہ واحب اللہ لقاءوان کان من اصحاب الشمال کرہ لقاءاللہ وکرہ اللہ لقاءہ۔ وقال الامام المحقق ابن القیم فی کتاب الروح قول السائل ما الحکمۃ فی ان عذاب القبر لم یذکر فی القران صریحا مع شدۃ الحاجۃ الی معرفتہ والایمان بہ لیحذرہ الناس ویتقی فاجاب عن ذلک بوجہین مجمل ومفصل اماالمجل فان اللہ تعالیٰ نزل علی رسولہ وحیین فاوجب علی عبادہ الایمان بہما والعمل بما فیہما وہما الکتاب والحکمۃ قال تعالیٰ وانزل علیک الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ ہوالذی بعث فی الامیین رسولا منہم الی قولہ ویعلمہم الکتاب والحکمۃ وقال تعالیٰ واذکرن مایتلیٰ فی بیوتکن الایۃ۔ والحکمۃ ہی السنۃ باتفاق السلف وما اخبر بہ الرسول عن اللہ فہو فی وجوب تصدیقہ والایمان بہ کما اخبربہ الرب علے لسان رسولہ فہذا اصل متفق علیہ بین اہل الاسلام لا ینکرہ الامن لیس منہم وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم انی اوتیت الکتاب ومثلہ معہ قال المحقق واما الجواب المفصل فہوان نعیم البرزخ وعذابہ مذکور فی القران مواضع منہا قولہ تعالیٰ ولو تری اذ الظلمون فی غمرات الموت الایۃ وہذا خطاب لہم عند الموت قطعا وقد اخبرت الملائکۃ وہم الصادقون انہم حینئذ یجزون عذاب الہون بماکنتم تقولون علی اللہ غیرالحق وکنتم عن آیاتہ تستکبرون ولوتاخر عنہم ذلک الی انقضاءالدنیا لما صح ان یقال لہم الیوم تجزون عذاب الہون وقولہ تعالیٰ فوقاہ اللہ سیئات مامکروا الی قولہ یعرضون علیہا غدوا وعشیا الایۃ فذکر عذاب الدارین صریحا لا یحتمل غیرہ ومنہا قولہ تعالیٰ فذرہم حتی یلاقوا یومہم الذی فیہ یصعقون۔ یوم لا یغنی عنہم کیدہم شیئا ولاہم ینصرون انتہیٰ کلامہ۔ واخرج البخاری من حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یدعوا اللہم انی اعوذبک من عذاب القبرو اخرج الترمذی عن علی رضی اللہ عنہ انہ قال مازلنا فی شک من عذاب القبر حتی نزلت الہکم التکاثر حتی زرتم المقابر وقال ابن مسعود اذا مات الکافر اجلس فی قبرہ فیقال لہ من ربک وما دینک فیقول لا ادری فیضیق علیہ قبرہ ثم قرا ابن مسعود فان لہ معیشۃ ضنکا قال المعیشۃ الضنک ہی عذاب القبر وقال البراءبن عازب رضی اللہ عنہ فی قولہ تعالیٰ ولنذیقنہم من العذاب الادنیٰ دون العذاب الاکبر قال عذاب القبر وکذا قال قتادۃ والربیع بن انس فی قولہ تعالیٰ سنعذبہم مرتین احدھما فی الدنیا والاخریٰ عذاب القبر۔ اس طویل عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ عذاب قبر حق ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ تفصیلی ذکر حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کی کتاب “شرح الصدور” اور “اکلیل فی اسرار التنزیل” میں موجود ہے۔ حافظ ابن رجب نے اپنی کتاب “احوال القبور” میں آیت شریفہ فَلَولاَ اِذَا بَلَغَتِ الحُلقُومَ ( الواقعہ: 83 ) کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کو تلاوت فرمایا اور فرمایا کہ جب موت کا وقت آتا ہے تو مرنے والے سے یہ کہا جاتا ہے۔ پس اگر وہ مرنے والا دائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے ملنے کو محبوب رکھتا ہے اور اگر وہ مرنے والا بائیں طرف والوں میں سے ہے تو وہ اللہ کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو مکروہ رکھتا ہے۔ اور علامہ محقق امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں لکھا ہے کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ اس امر میں کیا حکمت ہے کہ صراحت کے ساتھ قرآن مجید میں عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہ ضروری تھا کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو اس سے ڈر پیدا ہو۔ حضرت علامہ نے اس کا جواب مجمل اور مفصل ہردو طور پر دیا۔ مجمل تو یہ دیا کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل کی ہے اور ان دونوں پر ایمان لانا اور ان دونوں پر عمل کرنا واجب قرار دیا ہے اور وہ کتاب اور حکمت ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات میں موجود ہے اور سلف صالحین سے متفقہ طور پر حکمت سے سنت ( حدیث نبوی ) مراد ہے اب عذاب قبر کی خبر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث میں دی ہے۔ پس وہ خبر یقینا اللہ ہی کی طرف سے ہے جس کی تصدیق واجب ہے اور جس پر ایمان رکھنا فرض ہے۔ ( جیسا کہ رب تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبان حقیقت ترجمان سے صحیح احادیث میں عذاب قبر کے متعلق بیان کرایا ہے ) پس یہ اصول اہل اسلام میں متفقہ ہے اس کا وہی شخص انکار کرسکتا ہے جو اہل اسلام سے باہر ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خبردار رہو کہ میں قرآن مجید دیا گیا ہوں اور اس کی مثال ایک اور کتاب ( حدیث ) بھی دیا گیا ہوں۔ پھر محقق علامہ ابن قیم نے تفصیلی جواب میں فرمایا کہ برزخ کا عذاب قرآن مجید کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور برزخ کی بہت سی نعمتوں کا بھی قرآن مجید میں ذکر موجود ہے۔ ( یہی عذاب وثواب قبر ہے ) ان آیات میں سے ایک آیت وَلَوتَرٰی اِذِالظّٰلِمُونَ فِی غَمَرَاتِ المَوتِ الخ ( الانعام: 93 ) بھی ہے ( جس میں ذکر ہے کہ اگر تو ظالموں کو موت کی بے ہوشی کے عالم میں دیکھے ) ان کے لیے موت کے وقت یہ خطاب قطعی ہے اور اس موقع پر فرشتوں نے خبردی ہے جو بالکل سچے ہیں کہ ان کافروں کو اس دن رسوائی کا عذاب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب تمہارے لیے اس وجہ سے ہے کہ تم اللہ پر ناحق جھوٹی باتیں باندھا کرتے تھے اور تم اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔ یہاں اگر عذاب کو دنیا کے خاتمہ پر مؤخر مانا جائے تو یہ صحیح نہیں ہوگا یہاں تو “آج کا دن” استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم کو آج کے دن رسوائی کا عذاب ہوگا۔ اس آج کے دن سے یقینا قبر کے عذاب کا دن مراد ہے۔ اور دوسری آیت میں یوں مذکور ہے کہ وَحَاقَ بِاٰلِ فِرعَونَ سُوئُ العَذَابِ o اَلنَّارُ یُعرَضُونَ عَلَیہَا غُدُوًّا وَّعَشِیّاً ( المومن: 45,46 ) یعنی فرعونیوں کو سخت ترین عذاب نے گھیرلیا جس پر وہ ہر صبح وشام پیش کئے جاتے ہیں۔ اس آیت میں عذاب دارین کا صریح ذکر ہے اس کے سوا اور کسی کا احتمال ہی نہیں ( دارین سے قبر کا عذاب اور پھر قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے ) تیسری آیت شریفہ فَذَرہُم حَتیّٰ یُلٰقُوا یَومَہُم الَّذِی فِیہِ یُصعَقُونَ ( الطور: 45 ) ہے۔ یعنی اے رسول! ان کافروں کو چھوڑ دیجئے۔ یہاں تک کہ وہ اس دن سے ملاقات کریں جس میں وہ بے ہوش کردئیے جائیں گے‘ جس دن ان کا کوئی مکر ان کے کام نہیں آسکے گا اور نہ وہ مدد کئے جائیں گے۔ ( اس آیت میں بھی اس دن سے موت اور قبر کا دن مراد ہے ) بخاری شریف میں حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ اللہم انی اعوذبک من عذاب القبر اے اللہ! میں تجھ سے عذاب قبر سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور ترمذی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عذاب قبر کے بارے میں ہم مشکوک رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آیات اَلہٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتّٰی زُرتُمُ المَقِابِرَ ( التکاثر: 2‘ 1 ) نازل ہوئی ( گویا ان آیات میں بھی مراد قبر کا عذاب ہی ہے ) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب کافر مرتا ہے تو اسے قبر میں بٹھایا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے۔ وہ جواب دیتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ پس اس کی قبر اس پر تنگ کردی جاتی ہے۔ پس حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آیت وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہُ مَعِیشَۃً ضَنکاً ( طہ: 124 ) کو پڑھا ( کہ جو کوئی ہماری یاد سے منہ موڑے گا اس کو نہایت تنگ زندگی ملے گی ) یہاں تنگ زندگی سے قبر کا عذاب مراد ہے۔ حضرت براءبن عازب نے آیت شریفہ وَلَنُذِیقَنَّہُم مِنَ العَذَابِ الاَدنیٰ دُونَ العَذَابِ الاَکبَرِ ( السجدۃ:21 ) کی تفسیر میں فرمایا کہ یہاں بھی عذاب قبر ہی کا ذکر ہے۔ یعنی کافروں کو بڑے سخت ترین عذاب سے پہلے ایک ادنیٰ عذاب میں داخل کیا جائے گا ( اور وہ عذاب قبر ہے ) ایسا ہی قتادہ اور ربیع بن انس نے آیت شریفہ سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَینِ ( التوبہ: 101 ) ( ہم ان کو دو دفعہ عذاب میں مبتلا کریں گے ) کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ کہ ایک عذاب سے مراد دنیا کا عذاب اور دوسرے سے مراد قبر کا عذاب ہے۔ قال الحافظ ابن رجب وقد تواترت الاحادیث عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی عذاب القبر یعنی حافظ ابن رجب فرماتے ہیں کہ عذاب قبر کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں جن سے عذاب قبر کا حق ہونا ثابت ہے۔ پھر علامہ نے ان احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔ جیسا کہ یہاں بھی چند احادیث مذکور ہوئی ہیں۔ باب اثبات عذاب القبر پر حضرت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لم یتعرض المصنف فی الترجمۃ لکون عذاب القبر یقع علی الروح فقط اوعلیہا وعلیٰ الجسد وفیہ خلاف شہیر عند المتکلمین وکانہ ترکہ لان الادلۃ التی یرضاہا لیست قاطعۃ فی احد الا مرین فلم یتقلد الحکم فی ذلک واکتفٰی باثبات وجودہ خلافا لمن نفاہ مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلۃ کضرار بن عمرو وبشر المریسی ومن وافقہما وخالفہم فی ذلک اکثر المعتزلۃ وجمیع اہل السنۃ وغیرہم، اکثروا من الاحتجاج لہ وذہب بعض المعتزلۃ کالجیانی الی انہ یقع علی الکفار دون المومنین وبعض الاحادیث الاتیہ تردعلیہم ایضا ( فتح الباری ) خلاصہ یہ کہ مصنف ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے اس بارے میں کچھ تعرض نہیں فرمایا کہ عذاب قبر فقط روح کو ہوتا ہے یا روح اور جسم ہر دو پر ہوتا ہے۔ اس بارے میں متکلمین کا بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام نے قصداً اس بحث کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ ان کے حسب منشاءکچھ دلائل قطعی اس بارے میں نہیں ہیں۔ پس آپ نے ان مباحث کو چھوڑ دیا اور صرف عذاب قبر کے وجود کو ثابت کردیا۔ جب کہ خوارج اور کچھ معتزلہ اس کا انکار کرتے ہیں جیسے ضرار بن عمرو‘ بشر مریسی وغیرہ اور ان لوگوں کی جملہ اہلسنت بلکہ کچھ معتزلہ نے بھی مخالفت کی ہے اور بعض معتزلہ جیانی وغیرہ ادھر گئے ہیں کہ عذاب قبر صرف کافروں کو ہوتا ہے ایمان والوں کو نہیں ہوتا۔ مذکور بعض احادیث ان کے اس غلط عقیدہ کی تردید کررہی ہیں۔ بہرحال عذاب قبر برحق ہے جو لوگ اس بارے میں شکوک وشبہات پیدا کریں ان کی صحبت سے ہر مسلمان کو دور رہنا واجب ہے اور ان کھلے ہوئے دلائل کے بعد بھی جن کی تشفی نہ ہو ان کی ہدایت کے لیے کوشاں ہونا بیکار محض ہے۔ وباللہ التوفیق۔ تفصیل مزید کے لیے حضرت مولانا الشیخ عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ کا بیان ذیل قابل مطالعہ ہے حضرت موصوف لکھتے ہیں: باب اثبات عذاب القبر قال فی اللمعات المراد بالقبر ہہنا عالم البرزخ قال تعالیٰ ومن وراءہم برزخ الی یوم یبعثون وہو عالم بین الدنیا والاخرۃ لہ تعلق بکل منہما ولیس المراد بہ الحفرۃ التی یدفن فیہ المیت فرب میت لا یدفن کالغریق والحریق والماکول فی بطن الحیوانات یعذب وینعم ویسال وانما خص العذاب بالذکر للاہتمام ولان العذاب اکثر لکثرۃ الکفار والعصاۃ انتہی قلت حاصل ماقیل فی بیان المراد من البرزخ انہ اسم لا نقطاع الحیاۃ فی ہذا العالم المشہود ای دار الدنیا وابتداءحیاۃ اخریٰ فیبدا الشئی من العذاب او النعیم بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ فہو اول دار الجزاءثم توفی کل نفس ماکسبت یوم القیامۃ عند دخولہا فی جہنم اوالجنۃ وانما اضیف عذاب البرزخ ونعیمہ الی القبر لکون معظمہ یقع فیہ ولکون الغالب علی الموتیٰ ان یقبروا والا فالکافر ومن شاءاللہ عذابہ من العصاۃ یعذب بعد موتہ ولولم یدفن ولکن ذلک محجوب عن الخلق الامن شاءاللہ وقیل لا حاجۃ الی التاویل فان القبراسم للمکان الذی یکون فیہ المیت من الارض ولاشک ان محل الانسان ومسکنۃ بعد انقطاع الحیاۃ الدنیویۃ ہی الارض کما انہا کانت مسکنالہ فی حیاتہ قبل موتہ قال تعالیٰ الم نجعل الارض کفاتا احیاءوامواتا ای ضامۃ للاحیاءوالاموات تجمعہم وتضمہم وتحوزہم فلا محل المیت الا الارض سواءکان غریقا اوحریقا او ماکولا فی بطن الحیوانات من السباع علی الارض والطیور فی الہواءوالحیتان فی البحر فان الغریق یرسب فی الماءفیسقط الی اسفلہ من الارض اوالجبل ان کان تحتہ جبل وکذا الحریق بعدما یصیرر مادالا یستقر الاعلی الارض سواءاذریٰ فی البراو البحرو کذا الماکول فان الحیوانات التی تاکلہ لا تذہب بعد موتہا الا الی الارض فتصیر ترابا والحاصل ان الارض محل جمیع الاجسام السفلیۃ ومقرہا لا ملجا لہاالا الیہا فہی کفات لہا واعلم انہ قد تظاہرت الدلائل من الکتاب والسنۃ علی ثبوت عذاب القبرواجمع علیہ اہل السنۃ وقد کثرت الاحادیث فی عذاب القبر حتی قال غیر واحد انہا متواترۃ لا یصح علیہا التواطق وان لم یصح مثلہا لم یصح شئی من امرالدین الی اخرہ ( مرعاۃ‘ جلد: اول/ ص:130 ) مختصر مطلب یہ کہ لمعات میں ہے کہ یہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ مرنے والوں کے لیے قیامت سے پہلے ایک عالم اور ہے جس کا نام برزخ ہے اور یہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک عالم ہے جس کا تعلق دونوں سے ہے اور قبر سے وہ گڑھا مراد نہیں جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے کیونکہ بہت سی میت دفن نہیں کی جاتی ہیں جیسے ڈوبنے والا اور جلنے والا اور جانوروں کے پیٹوں میں جانے والا۔ حالانکہ ان سب کو عذاب وثواب ہوتا ہے اور ان سب سے سوال جواب ہوتے ہیں اور یہاں عذاب کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے کہ اس کاخاص اہتمام ہے اور اس لیے کہ اکثر طور پر گنہگاروں اور جملہ کافروں کے لیے عذاب ہی مقدر ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حاصل یہ ہے کہ برزخ اس عالم کا نام ہے جس میں دار دنیا سے انسان زندگی منقطع کرکے ابتدائے دار آخرت میں پہنچ جاتا ہے۔ پس دنیاوی زندگی کے انقطاع کے بعد وہ پہلا جزا اور سزا کا گھر ہے پھر قیامت کے دن ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ جنت یا دوزخ کی شکل میں دیا جائے گا اور عذاب اور ثواب برزخ کو قبر کی طرف اس لیے منسوب کیا گیا ہے کہ انسان اسی کے اندر داخل ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ غالب موتی قبر ہی میں داخل کئے جاتے ہیں ورنہ کافر اور گنہگار جن کو اللہ عذاب کرنا چاہے اس صورت میں بھی وہ ان کو عذاب کرسکتا ہے کہ وہ دفن نہ کئے جائیں۔ یہ عذاب مخلوق سے پردہ میں ہوتا ہے الامن شاءاللہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تاویل کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قبر اسی جگہ کا نام ہے جہاں میت کا زمین میں مکان بنے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مرنے کے بعد انسان کا آخری مکان زمین ہی ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ ہم نے تمہارے لیے زمین کو زندگی اور موت ہر حال میں ٹھکانا بنایا ہے۔ وہ زندہ اور مردہ سب کو جمع کرتی ہے اور سب کو شامل ہے پس میت ڈوبنے والے کی ہو یا جلنے والے کی یا بطن حیوانات میں جانے والے کی خواہ زمین کے بھیڑیوں کے پیٹ میں جائے یا ہوا میں پرندوں کے شکم میں یا دریا میں مچھلیوں کے پیٹ میں‘ سب کا نتیجہ مٹی ہونا اور زمین ہی میں ملنا ہے اور جان لوکہ کتاب وسنت کے ظاہر دلائل کی بناپر عذاب قبر برحق ہے جس پر جملہ اہل اسلام کا اجماع ہے اور اس بارے میں اس قدر تواتر کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ اگر ان کو بھی صحیح نہ تسلیم کیا جائے تو دین کا پھر کوئی بھی امر صحیح نہیں قرار دیا جاسکتا۔ مزید تفصیل کے لیے کتاب الروح علامہ ابن قیم کا مطالعہ کیا جائے۔


بَابُ عَذَابِ القَبْرِ مِنَ الغِيبَةِ وَالبَوْلِ

باب: غیبت اور پیشاب کی آلودگی سے قبر


1378 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ طَاوُسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ ثُمَّ قَالَ بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ قَالَ ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ ثُمَّ قَالَ لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں پر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں کے مردوں پر عذاب ہورہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہورہا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! ان میں ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کے لیے احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں کی قبروں پر گاڑدیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں ان کا عذاب کم ہوجائے۔
تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال الزین بن المنیر المراد بتخصیص ہذین الا مرین بالذکر تعظیم امرہما لا نفی الحکم عما عداہما فعلی ہذا لایلزم من ذکر ہما حصر عذاب القبر فیہما لکن الظاہر من الاقتصار علی ذکر ہما انہما امکن فی ذلک من غیرہما وقد روی اصحاب السنن من حدیث ابی ہریرۃ استنزہوا من البول فان عامۃ عذاب القبر منہ ثم اورد المصنف حدیث ابن عباس فی قصۃ القبرین ولیس فیہ للغیبہ ذکروا انما ورد بلفظ النمیمۃ وقد تقدم الکلام علیہ مستوفی فی الطہارۃ ( فتح الباری ) یعنی زین بن منیر نے کہا کہ باب میں صرف دو چیزوں کا ذکر ان کی اہمیت کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے گناہوں کی نفی مراد نہیں۔ پس ان کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ عذاب قبر ان ہی دو گناہوں پر منحصر ہے۔ یہاں ان کے ذکر پر کفایت کرنا اشارہ ہے کہ ان کے ارتکاب کرنے پر عذاب قبر کا ہونا زیادہ ممکن ہے۔ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے لفظ یہ ہیں کہ پیشاب سے پاکی حاصل کرو کیونکہ عام طور پر عذاب قبراسی سے ہوتا ہے۔ باب کے بعد مصنف رحمہ اللہ نے یہاں حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو قبروں کا قصہ نقل فرمایا۔ اس میں غیبت کا لفظ نہیں ہے بلکہ چغل خور کا لفظ وارد ہوا ہے مزید وضاحت کتاب الطہارۃ میں گزر چکی ہے۔ غیبت اور چغلی قریب قریب ایک ہی قسم کے گناہ ہیں اس لیے ہر دو عذاب قبر کے اسباب ہیں


بَابُ المَيِّتِ يُعْرَضُ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالعَشِيِّ

باب: مردے کو دونوں وقت صبح اور شام


1379 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَحَدَكُمْ إِذَا مَاتَ عُرِضَ عَلَيْهِ مَقْعَدُهُ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ فَمِنْ أَهْلِ النَّارِ فَيُقَالُ هَذَا مَقْعَدُكَ حَتَّى يَبْعَثَكَ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی وایس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے یہ حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص مرجاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح وشام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں اور جو دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تجھ کو اٹھائے گا۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ اگر جنتی ہے تو صبح وشام اس پر جنت پیش کرکے اس کو تسلی دی جاتی ہے کہ جب تو اس قبر سے اٹھے گا تو تیرا آخری ٹھکانا یہ جنت ہوگی اور اسی طرح دوزخی کو دوزخ دکھلائی جاتی ہے کہ وہ اپنے آخری انجام پر آگاہ رہے۔ ممکن ہے کہ یہ عرض کرنا صرف روح پر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ روح اور جسم ہردو پر ہو۔ صبح اور شام سے ان کے اوقات مراد ہیں جب کہ عالم برزخ میں ان کے لیے نہ صبح کا وجود ہے نہ شام کا ویحتمل ان یقال ان فائدۃ العرض فی حقہم تبشیرا رواحہم باستقرار ہافی الجنۃ مقترنۃ باجسادہا ( فتح ) یعنی اس پیش کرنے کا فائدہ مومن کے لیے ان کے حق میں ان کی روحوں کو یہ بشارت دینا ہے کہ ان کا آخری مقام قرار ان کے جسموں سمیت جنت ہے۔ اسی طرح دوزخیوں کو ڈرانا کہ ان کا آخری ٹھکانا ان کے جسموں سمیت دوزخ ہے۔ قبرمیں عذاب وثواب کی صورت یہ بھی ہے کہ جنتی کے لیے جنت کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو جنت کی تروتازگی حاصل ہوتی رہتی ہے اور دوزخی کے لیے دوزخ کی طرف ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے جس سے اس کو دوزخ کی گرم گرم ہوائیں پہنچتی رہتی ہیں۔ صبح وشام ان ہی کھڑکیوں سے ان کو جنت ودوزخ کے کامل نظارے کرائے جاتے ہیں۔ یا اللہ! اپنے فضل وکرم سے ناشر بخاری شریف مترجم اردو کو اس کے والدین واساتذہ وجملہ معاونین کرام وشائقین عظام کو قبر میں جنت کی طرف سے تروتازگی نصیب فرمائیو اور قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیو اور دوزخ سے ہم سب کو محفوظ رکھیو۔ آمین۔


بَابُ كَلاَمِ المَيِّتِ عَلَى الجَنَازَةِ

باب: میت کا چارپائی پر بات کرنا


1380 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وُضِعَتْ الْجِنَازَةُ فَاحْتَمَلَهَا الرِّجَالُ عَلَى أَعْنَاقِهِمْ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَالَتْ قَدِّمُونِي قَدِّمُونِي وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ صَالِحَةٍ قَالَتْ يَا وَيْلَهَا أَيْنَ يَذْهَبُونَ بِهَا يَسْمَعُ صَوْتَهَا كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا الْإِنْسَانَ وَلَوْ سَمِعَهَا الْإِنْسَانُ لَصَعِقَ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جنازہ تیار ہو جاتا ہے پھر مرد اس کو اپنی گردنوں پر اٹھا لیتے ہیں تو اگر وہ مردہ نیک ہو تو کہتا ہے کہ ہاں آگے لیے چلو مجھے بڑھائے چلو اور اگر نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے۔ ہائے رے خرابی! میرا جنازہ کہاں لیے جارہے ہو۔ اس آواز کو انسان کے سوا تمام مخلوق خدا سنتی ہے۔ اگر کہیں انسان سن پائیں تو بے ہوش ہوجائیں۔
تشریح : جنازہ اٹھائے جاتے وقت اللہ پاک برزخی زبان میت کو عطا کردیتا ہے۔ جس میں وہ اگر جنتی ہے تو جنت کے شوق میں کہتا ہے کہ مجھ کو جلدی جلدی لے چلو تاکہ جلد اپنی مراد کو حاصل کروں اور اگر وہ دوزخی ہے تو وہ گھبرا گھبرا کر کہتا ہے کہ ہائے مجھے کہاں لیے جارہے ہو۔ اس وقت اللہ پاک ان کو اس طور پر مخفی طریقہ سے بولنے کی طاقت دیتا ہے اور اس آواز کو انسان اور جنوں کے علاوہ تمام مخلوق سنتی ہے۔ اس حدیث سے سماع موتی پر بعض لوگوں نے دلیل پکڑی ہے جو بالکل غلط ہے۔ قرآن مجید میں صاف سماع موتی کی نفی موجود ہے۔ اِنَّکَ لاَ تُسمِعُ المَوتیٰ ( النمل: 80 ) اگر مرنے والے ہماری آوازیں سن پاتے تو ان کو میت ہی نہ کہا جاتا۔ اسی لیے جملہ ائمہ ہدیٰ نے سماع موتی کا انکار کیا ہے۔ جو لوگ سماع موتی کے قائل ہیں ان کے دلائل بالکل بے وزن ہیں۔ دوسرے مقام پر اس کا تفصیلی بیان ہوگا۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ

باب: مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟


1381 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ مُسْلِمٌ يَمُوتُ لَهُ ثَلَاثَةٌ مِنْ الْوَلَدِ لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمْ

ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا‘ ان سے عبدالعزیزبن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس مسلمان کے بھی تین نابالغ بچے مرجائیں تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحمت سے جوان بچوں پر کرے گا‘ ان کو بہشت میں لے جائے گا۔
تشریح : باب منعقد کرنے اور اس پر حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لانے سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جو نابالغی میں مرجائے وہ جنتی ہے‘ تب ہی تو وہ اپنے والدین کے لیے دوزخ سے روک بن سکیں گے۔ اکثر علماءکا یہی قول ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں ہوگی۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَالَّذِینَ اٰمَنُو وَاتَّبَعَتہُم ذُرِّیَّتُہُم ( الطور: 21 ) یعنی جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ان کی اتباع کی ہم ان کی اولاد کو ان کے ساتھ جنت میں جمع کردیں گے۔ قال النووی اجمع من یعتد بہ من علماءالمسلمین علی ان من مات من اطفال المسلمین فہو من اہل الجنۃ وتوقف بعضہم الحدیث عائشۃ یعنی الذی اخرجہ مسلم بلفظ توفی صبی من الانصار فقلت طوبیٰ لہ لم یعمل سواولم یدر کہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اوغیر ذلک یاعائشۃ! ان اللہ خلق للجنۃ اہلا الحدیث قال والجواب عنہ انہ لعلہ نہا ہا عن المسارعۃ الی القطع من غیر دلیل اوقال ذلک قبل ان یعلم ان اطفال المسلمین فی الجنۃ ( فتح الباری ) یعنی امام نووی نے کہاکہ علماءاسلام کی ایک بڑی تعداد کا اس پر اجماع ہے کہ جو مسلمان بچہ انتقال کر جائے وہ جنتی ہے اور بعض علماءنے اس پر توقف بھی کیا ہے۔ جن کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ انصار کے ایک بچے کا انتقال ہوگیا‘ میں نے کہا کہ اس کے لیے مبارک ہو اس بچے نے کبھی کوئی برا کام نہیں کیا یا یہ کہ کسی برے کام نہیں اس کو نہیں پایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ اے عائشہ! کیا اس خیال کے خلاف نہیں ہوسکتا‘ بے شک اللہ نے جنت کے لیے بھی ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے اور دوزخ کے لیے بھی۔ اس شبہ کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ شاید بغیر دلیل کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بچے کے قطعی جنتی ہونے کا فیصلہ دینے سے منع فرمایا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اس کا اظہار اس وقت فرمایا ہو جب کہ آپ کو اطفال المسلمین کے بارے میں کوئی قطعی علم نہیں دیا گیا تھا۔ بعد میں آپ کو اللہ پاک نے بتلادیا کہ مسلمانوں کی اولاد یقینا جنتی ہوگی۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُسْلِمِينَ

باب: مسلمانوں کی نابالغ اولاد کہاں رہے گی؟


1382 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ سَمِعَ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا تُوُفِّيَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ

ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے عدی بن ثابت نے بیان کیا انہوں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ) کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہشت میں ان کے لیے ایک دودھ پلانے والی ہے۔
تشریح : اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کی اولاد جنت میں داخل ہوگی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے کے لیے اللہ نے مزید فضل یہ فرمایا کہ چونکہ آپ نے حالت رضاعت میں انتقال فرمایا تھا لہٰذا اللہ پاک نے ان کو دودھ پلانے کے لیے جنت میں ایک انا کو مقرر فرما دیا۔ اللہم صلی علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1383 حَدَّثَنِي حِبَّانُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ اللَّهُ إِذْ خَلَقَهُمْ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ

ترجمہ : ہم سے حبان بن موسیٰ مروزی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوبشر جعفر نے‘ انہیں سعید بن جبیرنے‘ ان کو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالع بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جب انہیں پیدا کیا تھا اسی وقت وہ خوب جانتا تھا کہ یہ کیا عمل کریں گے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے اپنے علم کے موافق سلوک کرے گا۔ بظاہر یہ حدیث اس مذہب کی تائید کرتی ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں توقف کرنا چاہیے۔ امام احمد اور اسحاق اور اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بیہقی نے امام شافعی سے بھی ایسا ہی نقل کیا ہے۔ اصولاً بھی یہ کہ نابالغ بچے شرعاً غیر مکلف ہیں پھر بھی اس بحث کا عمدہ حل یہی ہے کہ وہ اللہ کے حوالہ ہیں جو خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے۔ مومنین کی اولاد تو بہشتی ہے لیکن کافروں کی اولاد میں جو نابالغی کی حالت میں مرجائیں بہت اختلاف ہے۔ امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ وہ بہشتی ہیں کیونکہ بغیر گناہ کے عذاب نہیں ہوسکتا اور وہ معصوم مرے ہیں۔ بعضوں نے کہا اللہ کو اختیار ہے اور اس کی مشیت پر موقوف ہے چاہے بہشت میں لے جائے‘ چاہے دوزخ میں۔ بعضوں نے کہا اپنے ماں باپ کے ساتھ وہ بھی دوزخ میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا خاک ہوجائیں گے۔ بعضوں نے کہا اعراف میں رہیں گے۔ بعضوں نے کہا ان کاامتحان کیا جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب ( وحیدی )


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1384 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ يَزِيدَ اللَّيْثِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ فَقَالَ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عطاءبن یزیدلیثی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کے نابالغ بچوں کے بارے میں پوچھا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ خوب جانتا ہے جو بھی وہ عمل کرنے والے ہوئے۔
تشریح : اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے کام کرنے والے تھے تو بہشت میں جائیں گے ورنہ دوزخ میں۔ بظاہر یہ حدیث مشکل ہے کیونکہ اس کے علم میں جو ہوتاہے وہ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔ تو اس کے علم میں تو یہی تھا کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قطعی بات تو یہی تھی کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے اور پروردگار کو اس کا علم بے شک تھا مگر اس کے ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ زندہ رہتے تو نیک بخت ہوتے یا بدبخت ہوتے۔ والعلم عنداللہ۔


بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ

باب: مشرکین کی نابالغ اولاد کا بیان


1385 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ كَمَثَلِ الْبَهِيمَةِ تُنْتَجُ الْبَهِيمَةَ هَلْ تَرَى فِيهَا جَدْعَاءَ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ ان سے ابن ابی ذئب نے‘ ان سے زہری نے‘ ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں بالکل اس طرح جیسے جانور کے بچے صحیح سالم ہوتے ہیں۔ کیا تم نے ( پیدائشی طورپر ) کوئی ان کے جسم کا حصہ کٹا ہوا دیکھا ہے۔
تشریح : مگر بعد میں لوگ ان کے کان وغیرہ کاٹ کر ان کو عیب دار کردیتے ہیں۔ اس حدیث سے امام بخاری نے اپنا مذہب ثابت کیا کہ جب ہر بچہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوتا ہے تو اگر وہ بچپن ہی میں مرجائے تو اسلام پر مرے گا اور جب اسلام پر مراتو بہشتی ہوگا۔ اسلام میں سب سے بڑا جزو توحید ہے تو ہر بچہ کے دل میں خدا کی معرفت اور اس کی توحید کی قابلیت ہوتی ہے۔ اگر بری صحبت میں نہ رہے تو ضرور وہ موحد ہوں لیکن مشرک ماں باپ‘ عزیز واقرباءاس فطرت سے اس کا دل پھرا کر شرک میں پھنسا دیتے ہیں۔ ( وحیدی )


بَابٌ

باب


1386 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ فَقَالَ مَنْ رَأَى مِنْكُمْ اللَّيْلَةَ رُؤْيَا قَالَ فَإِنْ رَأَى أَحَدٌ قَصَّهَا فَيَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ فَسَأَلَنَا يَوْمًا فَقَالَ هَلْ رَأَى أَحَدٌ مِنْكُمْ رُؤْيَا قُلْنَا لَا قَالَ لَكِنِّي رَأَيْتُ اللَّيْلَةَ رَجُلَيْنِ أَتَيَانِي فَأَخَذَا بِيَدِي فَأَخْرَجَانِي إِلَى الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ فَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ وَرَجُلٌ قَائِمٌ بِيَدِهِ كَلُّوبٌ مِنْ حَدِيدٍ قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ مُوسَى إِنَّهُ يُدْخِلُ ذَلِكَ الْكَلُّوبَ فِي شِدْقِهِ حَتَّى يَبْلُغَ قَفَاهُ ثُمَّ يَفْعَلُ بِشِدْقِهِ الْآخَرِ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَلْتَئِمُ شِدْقُهُ هَذَا فَيَعُودُ فَيَصْنَعُ مِثْلَهُ قُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مُضْطَجِعٍ عَلَى قَفَاهُ وَرَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِهِ بِفِهْرٍ أَوْ صَخْرَةٍ فَيَشْدَخُ بِهِ رَأْسَهُ فَإِذَا ضَرَبَهُ تَدَهْدَهَ الْحَجَرُ فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ لِيَأْخُذَهُ فَلَا يَرْجِعُ إِلَى هَذَا حَتَّى يَلْتَئِمَ رَأْسُهُ وَعَادَ رَأْسُهُ كَمَا هُوَ فَعَادَ إِلَيْهِ فَضَرَبَهُ قُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا إِلَى ثَقْبٍ مِثْلِ التَّنُّورِ أَعْلَاهُ ضَيِّقٌ وَأَسْفَلُهُ وَاسِعٌ يَتَوَقَّدُ تَحْتَهُ نَارًا فَإِذَا اقْتَرَبَ ارْتَفَعُوا حَتَّى كَادَ أَنْ يَخْرُجُوا فَإِذَا خَمَدَتْ رَجَعُوا فِيهَا وَفِيهَا رِجَالٌ وَنِسَاءٌ عُرَاةٌ فَقُلْتُ مَنْ هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى نَهَرٍ مِنْ دَمٍ فِيهِ رَجُلٌ قَائِمٌ عَلَى وَسَطِ النَّهَرِ قَالَ يَزِيدُ وَوَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ وَعَلَى شَطِّ النَّهَرِ رَجُلٌ بَيْنَ يَدَيْهِ حِجَارَةٌ فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ الَّذِي فِي النَّهَرِ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ رَمَى الرَّجُلُ بِحَجَرٍ فِي فِيهِ فَرَدَّهُ حَيْثُ كَانَ فَجَعَلَ كُلَّمَا جَاءَ لِيَخْرُجَ رَمَى فِي فِيهِ بِحَجَرٍ فَيَرْجِعُ كَمَا كَانَ فَقُلْتُ مَا هَذَا قَالَا انْطَلِقْ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَوْضَةٍ خَضْرَاءَ فِيهَا شَجَرَةٌ عَظِيمَةٌ وَفِي أَصْلِهَا شَيْخٌ وَصِبْيَانٌ وَإِذَا رَجُلٌ قَرِيبٌ مِنْ الشَّجَرَةِ بَيْنَ يَدَيْهِ نَارٌ يُوقِدُهَا فَصَعِدَا بِي فِي الشَّجَرَةِ وَأَدْخَلَانِي دَارًا لَمْ أَرَ قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهَا فِيهَا رِجَالٌ شُيُوخٌ وَشَبَابٌ وَنِسَاءٌ وَصِبْيَانٌ ثُمَّ أَخْرَجَانِي مِنْهَا فَصَعِدَا بِي الشَّجَرَةَ فَأَدْخَلَانِي دَارًا هِيَ أَحْسَنُ وَأَفْضَلُ فِيهَا شُيُوخٌ وَشَبَابٌ قُلْتُ طَوَّفْتُمَانِي اللَّيْلَةَ فَأَخْبِرَانِي عَمَّا رَأَيْتُ قَالَا نَعَمْ أَمَّا الَّذِي رَأَيْتَهُ يُشَقُّ شِدْقُهُ فَكَذَّابٌ يُحَدِّثُ بِالْكَذْبَةِ فَتُحْمَلُ عَنْهُ حَتَّى تَبْلُغَ الْآفَاقَ فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ يُشْدَخُ رَأْسُهُ فَرَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَنَامَ عَنْهُ بِاللَّيْلِ وَلَمْ يَعْمَلْ فِيهِ بِالنَّهَارِ يُفْعَلُ بِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي الثَّقْبِ فَهُمْ الزُّنَاةُ وَالَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّهَرِ آكِلُوا الرِّبَا وَالشَّيْخُ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَام وَالصِّبْيَانُ حَوْلَهُ فَأَوْلَادُ النَّاسِ وَالَّذِي يُوقِدُ النَّارَ مَالِكٌ خَازِنُ النَّارِ وَالدَّارُ الْأُولَى الَّتِي دَخَلْتَ دَارُ عَامَّةِ الْمُؤْمِنِينَ وَأَمَّا هَذِهِ الدَّارُ فَدَارُ الشُّهَدَاءِ وَأَنَا جِبْرِيلُ وَهَذَا مِيكَائِيلُ فَارْفَعْ رَأْسَكَ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا فَوْقِي مِثْلُ السَّحَابِ قَالَا ذَاكَ مَنْزِلُكَ قُلْتُ دَعَانِي أَدْخُلْ مَنْزِلِي قَالَا إِنَّهُ بَقِيَ لَكَ عُمُرٌ لَمْ تَسْتَكْمِلْهُ فَلَوْ اسْتَكْمَلْتَ أَتَيْتَ مَنْزِلَكَ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا ہم سے جریربن حازم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابورجاءعمران بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ( فجر ) پڑھنے کے بعد ( عموماً ) ہماری طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے اور پوچھتے کہ آج رات کسی نے کوئی خواب دیکھا ہو تو بیان کرو۔ راوی نے کہا کہ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو اسے وہ بیان کردیتا اور آپ اس کی تعبیر اللہ کو جو منظور ہوتی بیان فرماتے۔ ایک دن آپ نے معمول کے مطابق ہم سے دریافت فرمایا کیا آج رات کسی نے تم میں کوئی خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کی کہ کسی نے نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا لیکن میں نے آج رات ایک خواب دیکھا ہے کہ دو آدمی میرے پاس آئے۔ انہوں نے میرے ہاتھ تھام لیے اور وہ مجھے ارض مقدس کی طرف لے گئے۔ ( اور وہاں سے عالم بالا کی مجھ کو سیر کرائی ) وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تو بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ہاتھ میں ( امام بخاری نے کہا کہ ) ہمارے بعض اصحاب نے ( غالباً عباس بن فضیل اسقاطی نے موسیٰ بن اسماعیل سے یوں روایت کیا ہے ) لوہے کا آنکس تھا جسے وہ بیٹھنے والے کے جبڑے میں ڈال کر اس کے سرکے پیچھے تک چیردیتا پھر دوسرے جبڑے کے ساتھ بھی اسی طرح کرتا تھا۔ اس دوران میں اس کا پہلا جبڑا صحیح اور اپنی اصلی حالت پر آجاتا اور پھر پہلے کی طرح وہ اسے دوبارہ چیرتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیاہورہا ہے؟ میرے ساتھ کے دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص کے پاس آئے جو سر کے بل لیٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص ایک بڑا سا پتھر لیے اس کے سرپر کھڑا تھا۔ اس پتھر سے وہ لیٹے ہوئے شخص کے سرکو کچل دیتا تھا۔ جب وہ اس کے سرپر پتھر مارتا تو سرپر لگ کروہ پتھر دور چلا جاتا اور وہ اسے جاکر اٹھا لاتا۔ ابھی پتھر لے کر واپس بھی نہیں آتا تھا کہ سر دوبارہ درست ہوجاتا۔ بالکل ویسا ہی جیسا پہلے تھا۔ واپس آکر وہ پھر اسے مارتا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم آگے بڑھے تو ایک تنور جیسے گڑھے کی طرف چلے۔ جس کے اوپر کا حصہ تو تنگ تھا لیکن نیچے سے خوب فراخ۔ نیچے آگ بھڑک رہی تھی۔ جب آگ کے شعلے بھڑک کر اوپر کو اٹھتے تو اس میں جلنے والے لوگ بھی اوپر اٹھ آتے اور ایسا معلوم ہوتا کہ اب وہ باہر نکل جائیں گے لیکن جب شعلے دب جاتے تو وہ لوگ بھی نیچے چلے جاتے۔ اس تنور میں ننگے مرد اور عورتیں تھیں۔ میں نے اس موقع پر بھی پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ لیکن اس مرتبہ بھی جواب یہی ملا کہا کہ ابھی اور آگے چلو‘ ہم آگے چلے۔ اب ہم خون کی ایک نہر کے اوپر تھے نہر کے اندر ایک شخص کھڑا تھا اور اس کے بیچ میں ( یزیدبن ہارون اور وہب بن جریر نے جریر بن حازم کے واسطہ سے وسطہ النہر کے بجائے شط النہر نہر کے کنارے کے الفاظ نقل کئے ہیں ) ایک شخص تھا۔ جس کے سامنے پتھر رکھا ہوا تھا۔ نہر کا آدمی جب باہر نکلنا چاہتا تو پتھر والا شخص اس کے منہ پر اتنی زور سے پتھر مارتا کہ وہ اپنی پہلی جگہ پر چلا جاتا اور اسی طرح جب بھی وہ نکلنے کی کوشش کرتا وہ شخص اس کے منہ پر پتھر اتنی ہی زور سے پھر مارتا کہ وہ اپنی اصلی جگہ پر نہر میں چلا جاتا۔ میں نے پوچھا یہ کیاہورہا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابھی اور آگے چلو۔ چنانچہ ہم اور آگے بڑھے اور ایک ہرے بھرے باغ میں آئے۔ جس میں ایک بہت بڑا درخت تھا اس درخت کی جڑ میں ایک بڑی عمر والے بزرگ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ بچے بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ درخت سے قریب ہی ایک شخص اپنے آگے آگ سلگارہا تھا۔ وہ میرے دونوں ساتھی مجھے لے کر اس درخت پر چڑھے۔ اس طرح وہ مجھے ایک ایسے گھر میں اندر لے گئے کہ اس سے زیادہ حسین وخوبصورت اور بابرکت گھر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس گھر میں بوڑھے، جوان‘ عورتیں اور بچے ( سب ہی قسم کے لوگ ) تھے۔ میرے ساتھی مجھے اس گھر سے نکال کر پھر ایک اور درخت پر چڑھا کر مجھے ایک اور دوسرے گھر میں لے گئے جو نہایت خوبصورت اور بہتر تھا۔ اس میں بھی بہت سے بوڑھے اور جوان تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم لوگوں نے مجھے رات بھر خوب سیر کرائی۔ کیا جو کچھ میں نے دیکھا اس کی تفصیل بھی کچھ بتلاؤ گے؟ انہو ںنے کہا ہاں وہ جو تم نے دیکھا تھا اس آدمی کا جبڑا لوہے کے آنکس سے پھاڑا جارہا تھا تو وہ جھوٹا آدمی تھا جو جھوٹی باتیں بیان کیا کرتا تھا۔ اس سے وہ جھوٹی باتیں دوسرے لوگ سنتے۔ اس طرح ایک جھوٹی بات دور دور تک پھیل جایا کرتی تھی۔ اسے قیامت تک یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ جس شخص کو تم نے دیکھا کہ اس کا سرکچلا جارہا تھا تو وہ ایک ایسا انسان تھا جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو پڑا سوتا رہتا اور دن میں اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اسے بھی یہ عذاب قیامت تک ہوتا رہے گا اور جنہیں تم نے تنور میں دیکھا تو وہ زنا کار تھے۔ اور جس کو تم نے نہر میں دیکھا وہ سود خوار تھا اور وہ بزرگ جو درخت کی جڑ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے ارد گرد والے بچے‘ لوگوں کی نابالغ اولاد تھی اور جو شخص آگ جلارہا تھا وہ دوزخ کا داروغہ تھا اور وہ گھر جس میں تم پہلے داخل ہوئے جنت میں عام مومنوں کا گھر تھا اور یہ گھر جس میں تم اب کھڑے ہو‘ یہ شہداءکا گھر ہے اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میرے ساتھ میکائیکل ہیں۔ اچھا اب اپنا سراٹھاؤ میں نے جو سراٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر بادل کی طرح کوئی چیز ہے۔ میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ تمہارا مکان ہے۔ اس پر میں نے کہا کہ پھر مجھے اپنے مکان میں جانے دو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری عمر باقی ہے جو تم نے پوری نہیں کی اگر آپ وہ پوری کرلیتے تو اپنے مکان میں آجاتے۔


بَابُ مَوْتِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ

باب: پیر کے دن مرنے کی فضیلت کا بیان


1387 حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ فِي كَمْ كَفَّنْتُمْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ وَقَالَ لَهَا فِي أَيِّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ قَالَ فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا قَالَتْ يَوْمُ الِاثْنَيْنِ قَالَ أَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ فَقَالَ اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ فَكَفِّنُونِي فِيهَا قُلْتُ إِنَّ هَذَا خَلَقٌ قَالَ إِنَّ الْحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنْ الْمَيِّتِ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ

ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں ( والد ماجد حضرت ) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ( ان کی مرض الموت میں ) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہوجاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھولینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے کا مردے سے زیادہ مستحق ہے‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہوجائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔
تشریح : سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو وجاءت سکرۃ الموت بالحق یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضی اللہ عنہ وارضاہ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: وروی ابوداؤد من حدیث علی مرفوعاً لا تغالوا فی الکفن فانہ یسلب سریعا ولا یعارضہ حدیث جابر فی الامر بتحسین الکفن اخرجہ مسلم فانہ یجمع بینہما بحمل التحسین علی الصفۃ وحمل المغالات علی الثمن قبل وقیل التحسین فی حق المیت فاذا اوصی بترکہ اتبع کما فعل الصدیق ویحتمل ان یکون اختار ذالک الثوب بعینہ لمعنی فیہ من التبرک بہ لکونہ صار الیہ من النبی صلی اللہ علیہ وسلم اولکونہ جاہدا فیہ اوتعبد فیہ ویویدہ مارواہ ابن سعد من طریق القاسم بن محمد بن ابی بکر قال قال ابوبکر کفنونی فی ثوبی الذین کنت اصلی فیہما ( فتح الباری‘ ج: 6ص: 5 ) اور ابوداؤ نے حدیث علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔ حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔ عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔ ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔ اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔ وفی ہذا الحدیث استحباب التکفین فی الثیاب البیض وتثلیث الکفن وطلب الموافقۃ فیما وقع للاکابر تبرکا بذلک وفیہ جواز التکفین فی الثیاب المغسولۃ وایثار الحی بالجدید والدفن باللیل وفضل ابی بکر وصحۃ فراستہ وثباتہ عند وفاتہ وفیہ اخذ المرءالعلم عمن دونہ وقال ابوعمر فیہ ان التکفین فی الثوب الجدید والخلق سوائ۔ یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔ جیسے صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔ جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔ ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔


بَابُ مَوْتِ الفَجْأَةِ البَغْتَةِ

باب: ناگہانی موت کا بیان


1388 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ

ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کردوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔
تشریح : باب کی حدیث لاکرامام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ مومن کے لیے ناگہانی موت سے کوئی ضرر نہیں۔ گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس میں وصیت کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔ ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے لیے راحت ہے اور بدکار کے لیے غصے کی پکڑ ہے۔ ( وحیدی )


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1389 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ عَنْ هِشَامٍ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ يَحْيَى بْنُ أَبِي زَكَرِيَّاءَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَعَذَّرُ فِي مَرَضِهِ أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ أَيْنَ أَنَا غَدًا اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي وَدُفِنَ فِي بَيْتِي

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
تشریح : 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1391 وَعَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَوْصَتْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا تَدْفِنِّي مَعَهُمْ وَادْفِنِّي مَعَ صَوَاحِبِي بِالْبَقِيعِ لَا أُزَكَّى بِهِ أَبَدًا

ترجمہ : ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بلکہ میری دوسری سوکنوں کے ساتھ بقیع غرقد میں مجھے دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
تشریح : ہوا یہ کہ ولید کی خلافت کے زمانہ میں اس نے عمر بن عبدالعزیز کو جو اس کی طرف سے مدینہ شریف کے عامل تھے‘ یہ لکھا کہ ازواج مطہرات کے حجرے گرا کر مسجد نبوی کو وسیع کردو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی جانب دیوار بلند کردو کہ نماز میں ادھر منہ نہ ہو عمر بن عبدالعزیز نے یہ حجرے گرانے شروع کئے تو ایک پاؤں زمین سے نمودار ہوا جسے حضرت عروہ نے شناخت کیا اور بتلایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے جسے یوں ہی احترام سے دفن کیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی کسر نفسی کے طورپر فرمایا تھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجرئہ مبارک میں دفن ہوں گی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں میں مجھ کو ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا مجھے بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے جہاں میری بہنیں ازواج مطہرات مدفون ہیں اور میں اپنی یہ جگہ جو خالی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دے دیتی ہوں۔ سبحان اللہ کتنا بڑا ایثار ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ حجرئہ مبارک کی دیواریں بلند کرنے کے بارے میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ای حائط حجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی روایۃ الحموی عنہم والسبب فی ذلک مارواہ ابوبکر الاجری من طبری شعیب بن اسحاق عن ہشام عن عروۃ قال اخبرنی ابی قال کان الناس یصلون الی القبر فامربہ عمر بن عبدالعزیز فرفع حتی لا یصلی الیہ احد فلما ہدم بدت قدم بساق ورکبۃ ففزع عمر بن عبدالعزیز فاتاہ عروۃ فقال ہذا ساق عمرو رکبتہ فسری عن عمر بن عبدالعزیز وروی الاجری من طریق مالک بن مغول عن رجاءبن حیوۃ قال کتب الولید بن عبدالملک الی عمر بن عبدالعزیز وکان قد اشتری حجر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اہدمہا ووسع بہا المسجد فقعد عمر فی ناحیۃ ثم امربہدمہا فما رایتہ باکیا اکثر من یومئذ ثم بناہ کما اراد فلما ان بنی البیت علی القبر وہدم البیت الاول ظہرت القبور الثلاثۃ وکان الرمل الذی علیہاقد انہار ففزع عمر بن عبدالعزیز واراد ان یقوم فیسویہا بنفسہ فقلت لہ اصلحک اللہ انک ان قمت قام الناس معک فلو امرت رجلا ان یصلحہا ورجوت انہ یامرنی بذالک فقال یا مزاحم یعنی مولاہ قم فاصلحہا قال فاصلحہا قال رجاءوکان قبرابی بکر عند وسط النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعمر خلف ابی بکر راسہ عند وسطہ اس عبارت کا خلاصہ وہی مضمون ہے جو گزر چکا ہے ) ( فتح الباری‘ج: 6 ص: 6


بَابُ مَا جَاءَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ ؓ

باب: نبی کریمﷺ اور صحابہ کی قبروں کا بیان


1392 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا حُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ قَالَ رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ اذْهَبْ إِلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقُلْ يَقْرَأُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَيْكِ السَّلَامَ ثُمَّ سَلْهَا أَنْ أُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيَّ قَالَتْ كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي فَلَأُوثِرَنَّهُ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي فَلَمَّا أَقْبَلَ قَالَ لَهُ مَا لَدَيْكَ قَالَ أَذِنَتْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا كَانَ شَيْءٌ أَهَمَّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمُوا ثُمَّ قُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُونِي وَإِلَّا فَرُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ إِنِّي لَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَمَنْ اسْتَخْلَفُوا بَعْدِي فَهُوَ الْخَلِيفَةُ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا فَسَمَّى عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ وَسَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ وَوَلَجَ عَلَيْهِ شَابٌّ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ كَانَ لَكَ مِنْ الْقَدَمِ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ الشَّهَادَةُ بَعْدَ هَذَا كُلِّهِ فَقَالَ لَيْتَنِي يَا ابْنَ أَخِي وَذَلِكَ كَفَافًا لَا عَلَيَّ وَلَا لِي أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ خَيْرًا أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأَنْ يَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَأَنْ لَا يُكَلَّفُوا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھاکر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میںجگہ دی۔ ( میری وصیت ہے کہ ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے ( یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں ) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
تشریح : سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔ چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔ آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔ سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔


بَابُ مَا يُنْهَى مِنْ سَبِّ الأَمْوَاتِ

باب: مردوں کو برا کہنے کی ممانعت ہے


1393 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا وَرَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْقُدُّوسِ عَنْ الْأَعْمَشِ وَمُحَمَّدُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ الْأَعْمَشِ تَابَعَهُ عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ وَابْنُ عَرْعَرَةَ وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے بیان کیا‘ ان سے مجاہد نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ مردوں کو برانہ کہو کیونکہ انہوں نے جیسا عمل کیا اس کا بدلہ پالیا۔ اس روایت کی متابعت علی بن جعد‘ محمد بن عرعرہ اور ابن ابی عدی نے شعبہ سے کی ہے۔ اور اس کی روایت عبداللہ بن عبدالقدوس نے اعمش سے اور محمد بن انس نے بھی اعمش سے کی ہے۔
تشریح : یعنی مسلمان جو مرجائیں ان کا مرنے کے بعد عیب نہ بیان کرنا چاہیے۔ اب ان کو برا کہنا ان کے عزیزوں کو ایذا دینا ہے


بَابُ ذِكْرِ شِرَارِ المَوْتَى

باب: برے مردوں کی برائی بیان کرنا درست ہے


1394 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ أَبُو لَهَبٍ عَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَبًّا لَكَ سَائِرَ الْيَوْمِ فَنَزَلَتْ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیاانہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اعمش سےانہوں نے کہا کہ مجھ سے عمروبن مرہ نے بیان کیا‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیاکہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ سارے دن تجھ پر بربادی ہو۔ اس پر یہ آیت اتری ﴿ تبت یدا ابی لہب وتب ﴾ یعنی ٹوٹ گئے ہاتھ ابولہب کے اور وہ خود ہی برباد ہوگیا۔
تشریح : جب یہ آیت اتری وَاَنذِر عَشِیرَتَکَ الاَقرَبِینَ ( الشعرا: 214 ) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا تو آپ کوہ صفا پر چڑھے اور قریش کے لوگوں کو پکارا‘ وہ سب اکٹھے ہوئے۔ پھر آپ نے ان کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تب ابولہب مردود کہنے لگا تیری خرابی ہو سارے دن کیا تو نے ہم کو اسی بات کے لیے اکٹھا کیاتھا؟ اس وقت یہ سورت اتری تبت یدا ابی لہب وتب یعنی ابولہب ہی کے دونوں ہاتھ ٹوٹے اور وہ ہلاک ہوا۔ معلوم ہوا کہ برے لوگوں کافروں‘ ملحدوں کو ان کے برے کاموں کے ساتھ یاد کرنا درست ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ای وصلوا الی ما عملوا من خیر وشرو اشتد بہ علی منع سبب الاموات مطلقا وقد تقدم ان عمومہ مخصوص واصح ماقیل فی ذالک ان اموات الکفار والفساق یجوز ذکر مساویہم للتحذیر منہم والتنفیر عنہم وقد اجمع العلماءعلی جواز جرح المجروحین من الرواۃ احیاءوامواتا یعنی انہوں نے جو کچھ برائی بھلائی کی وہ سب کچھ ان کے سامنے آگیا۔ اب ان کی برائی کرنا بیکار ہے اور اس سے دلیل پکڑی گئی ہے کہ اموات کو برائیوں سے یاد کرنا مطلقاً منع ہے اور پیچھے گزرچکا ہے کہ اس کا عموم مخصوص ہے اور اس بارے میں صحیح ترین خیال یہ ہے کہ مرے ہوئے کافروں اور فاسقوں کی برائیوں کا ذکر کرنا جائز ہے۔ تاکہ ان کے جیسے برے کاموں سے نفرت پیدا ہو اور علماءنے اجماع کیا ہے کہ راویان حدیث زندوں مردوں پر جرح کرنا جائز ہے۔


Table of Contents