Search
Sections
< All Topics
Print

24. Zakat kay Masail ka Bayan; [كِتَابُ الزَّكَاةِ]; Obligatory Charity Tax

كِتَابُ الزَّكَاةِ

کتاب: زکوٰۃ کے مسائل کا بیان


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1395 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى الْيَمَنِ فَقَالَ ادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ

ترجمہ : ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے بیان کیا‘ ان سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے بیان کیا‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو فرمایا کہ تم انہیں اس کلمہ کی گواہی کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ لوگ یہ بات مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ اگر وہ لوگ یہ بات بھی مان لیں تو پھر انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مال پر کچھ صدقہ فرض کیا ہے جو ان کے مالدار لوگوں سے لے کر انہیں کے محتاجوں میں لوٹا دیا جائے گا۔


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1396 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ مَا لَهُ مَا لَهُ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَبٌ مَا لَهُ تَعْبُدُ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَقَالَ بَهْزٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ وَأَبُوهُ عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُمَا سَمِعَا مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ عَنْ أَبِي أَيُّوبَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ أَخْشَى أَنْ يَكُونَ مُحَمَّدٌ غَيْرَ مَحْفُوظٍ إِنَّمَا هُوَ عَمْرٌو

ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے محمد بن عثمان بن عبداللہ بن موہب سے بیان کیا ہے‘ ان سے موسیٰ بن طلحہ نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میںلے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ ( سنو ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو اور صلہ رحمی کرو۔ اور بہزنے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن عثمان اور ان کے باپ عثمان بن عبداللہ نے بیان کیا کہ ان دونوں صاحبان نے موسیٰ بن طلحہ سے سنا اور انہوں نے ابوایوب سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کی طرح ( سنا ) ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ محمد سے روایت غیر محفوظ ہے اور روایت عمر وبن عثمان سے ( محفوظ ہے )


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1397 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَالَ تَعْبُدُ اللَّهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومُ رَمَضَانَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا أَزِيدُ عَلَى هَذَا فَلَمَّا وَلَّى قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَلْيَنْظُرْ إِلَى هَذَا حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ أَبِي حَيَّانَ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو زُرْعَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عفان بن مسلم نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن سعید بن حیان نے‘ ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ آپ مجھے کوئی ایسا کام بتلائیے جس پر اگر میں ہمیشگی کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی عبادت کر‘ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرا‘ فرض نماز قائم کر‘ فرض زکوٰۃ دے اور رمضان کے روزے رکھ۔ دیہاتی نے کہا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ ان عملوں پر میں کوئی زیادتی نہیں کروں گا۔ جب وہ پیٹھ موڑ کر جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہے جو جنت والوں میں سے ہوتو وہ اس شخص کو دیکھ لے۔ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا‘ ان سے یحیٰی بن سعید قطان نے‘ ان سے ابوحیان نے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوزرعہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث روایت کی۔
تشریح : مگر یحیٰی بن سعید قطان کی یہ روایت مرسل ہے۔ کیونکہ ابوزرعہ تابعی ہیں۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا اور وہیب کی روایت جو اوپر گزری وہ موصول ہے اور وہیب ثقہ ہیں۔ ان کی زیارت مقبول ہے۔ اس لیے حدیث میں کوئی علت نہیں ( وحیدی ) اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال القرطبی فی ہذا الحدیث وکذا حدیث طلحۃ فی قصۃ الاعرابی وغیرہما دلالۃ علی جواز ترک التطوعات لکن من داوم علی ترک السنن کان نقصا فی دینہ فان کان ترکہا تہاونا بہا ورغبۃ عنہا کان ذلک فسقا یعنی لو رود الوعید علیہ حیث قال صلی اللہ علیہ وسلم من رغب عن سنتی فلیس من وقد کان صدر الصحابۃ ومن تبعہم یواظبون علی السنن مواظبتہم علی الفرائض ولا یفرقون بینہما فی اغتنام ثوابہما ( فتح الباری ) یعنی قرطبی نے کہا کہ اس حدیث میں اور نیز حدیث طلحہ میں جس میں ایک دیہاتی کا ذکر ہے‘ اس پر دلیل ہے کہ نفلیات کا ترک کردینا بھی جائز ہے مگر جو شخص سنتوں کے چھوڑنے پر ہمیشگی کرے گا وہ اس کے دین میں نقص ہوگا اور اگر وہ بے رغبتی اور سستی سے ترک کررہا ہے تو یہ فسق ہوگا۔ اس لیے کہ ترک سنن کے متعلق وعید آئی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنتوں سے بے رغبتی کرے وہ مجھ سے نہیں ہے۔ اور صدر اول میں صحابہ کرام اور تابعین عظام سنتوں پر فرضوں ہی کی طرح ہمیشگی کیا کرتے تھے اور ثواب حاصل کرنے کے خیال میں وہ لوگ فرضوں اور سنتوں میں فرق نہیں کرتے تھے۔ حدیث بالا میں حج کا ذکر نہیں ہے‘ اس پر حافظ فرماتے ہیں۔ لم یذکر الحج لانہ کان حینئذ حاجا ولعلہ ذکرہ لہ فاختصرہ یعنی حج کا ذکر نہیں فرمایا اس لیے کہ وہ اس وقت حاجی تھا یا آپ نے ذکر فرمایا مگر راوی نے بطور اختصار اس کا ذکر چھوڑ دیا۔ بعض محترم حنفی حضرات نے اہلحدیث پر الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ سنتوں کا اہتمام نہیں کرتے‘ یہ الزام سراسر غلط ہے۔ الحمدللہ اہلحدیث کا بنیادی اصول توحید وسنت پر کاربند ہونا ہے۔ سنت کی محبت اہلحدیث کا شیوہ ہے لہٰذا یہ الزام بالکل بے حقیقت ہے۔ ہاں معاندین اہلحدیث کے بارے میں اگر کہا جائے کہ ان کے ہاں اقوال ائمہ اکثر سنتوں پر مقدم سمجھے جاتے ہیں تو یہ ایک حد تک درست ہے۔ جس کی تفصیل کے لیے اعلام الموقعین از علامہ ابن قیم کا مطالعہ مفید ہوگا۔


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1398 حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَبُو جَمْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ هَذَا الْحَيَّ مِنْ رَبِيعَةَ قَدْ حَالَتْ بَيْنَنَا وَبَيْنَكَ كُفَّارُ مُضَرَ وَلَسْنَا نَخْلُصُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذُهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا قَالَ آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَشَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَعَقَدَ بِيَدِهِ هَكَذَا وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَأَنْ تُؤَدُّوا خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ الدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ سُلَيْمَانُ وَأَبُو النُّعْمَانِ عَنْ حَمَّادٍ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ

ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے حدیث بیان کی‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوجمرہ نصربن عمران ضبعی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا‘ آپ نے بتلایا کہ قبیلہ عبدالقیس کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم ربیعہ قبیلہ کی ایک شاخ ہیں اور قبیلہ مضر کے کافر ہمارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان پڑتے ہیں۔ اس لیے ہم آپ کی خدمت میں صرف حرمت کے مہینوں ہی میں حاضر ہوسکتے ہیں ( کیونکہ ان مہینوں میں لڑائیاں بند ہوجاتی ہیں اور راستے پر امن ہوجاتے ہیں ) آپ ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلادیجئے جس پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے قبیلہ کے لوگوں سے بھی ان پر عمل کرنے کے لیے کہیں جو ہمارے ساتھ نہیں آسکے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کی شہادت دینے کا ( یہ کہتے ہوئے ) آپ نے اپنی انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا۔ نماز قائم کرنا‘ پھر زکوٰۃ ادا کرنا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنے ( کا حکم دیتا ہوں ) اور میں تمہیں کدو کے تو نبی سے اور حنتم ( سبزرنگ کا چھوٹا سا مرتبان جیسا گھڑا ) فقیر ( کھجور کی جڑ سے کھودا ہوا ایک برتن ) اور زفت لگا ہوا برتن ( زفت بصرہ میں ایک قسم کا تیل ہوتا تھا ) کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ سلیمان اور ابوالنعمان نے حماد کے واسطہ سے یہی روایت اس طرح بیان کی ہے۔ الایمان باللہ شہادۃ ان لا الہ الا اللہ یعنی اللہ پر ایمان لانے کا مطلب لا الہ الااللہ کی گواہی دینا۔
تشریح : یہ حدیث اوپر کئی بار گزر چکی ہے۔ سلیمان اور ابوالنعمان کی روایت میں ایمان باللہ کے بعد واؤ عطف نہیں ہے اور حجاج کی روایت میں واؤ عطف تھی۔ جیسے اوپر گزری۔ ایمان باللہ اور شہادۃ ان لا الہ الا اللہ دونوں ایک ہی ہیں۔ اب یہ اعتراض نہ ہوگا کہ یہ پانچ باتیں ہوگئیں اور حج کا ذکر نہیں کیا کیونکہ ان لوگوں پر شاید حج فرض نہ ہوگا۔ اس حدیث سے بھی زکوٰۃ کی فرضیت نکلتی ہے کیونکہ آپ نے اس کا امر کیا اور امر وجوب کے لیے ہوا کرتا ہے۔ مگر جب کوئی دوسرا قرینہ ہو جس میں عدم وجوب ثابت ہو۔ حافظ نے کہا کہ سلیمان کی روایت کو خود مؤلف نے مغازی میں اور ابوالنعمان کی روایت کو بھی خود مؤلف نے خمیس میں وصل کیا۔ ( وحیدی ) چار قسم کے برتن جن کے استعمال سے آپ نے ان کو منع فرمایا وہ یہ تھے جن میں عرب لوگ شراب بطور ذخیرہ رکھا کرتے تھے اور اکثر ان ہی سے صراحی اور جام کا کام لیا کرتے تھے۔ ان برتنوں میں رکھنے سے شراب اور زیادہ نشہ آور ہوجایا کرتی تھی۔ اس لیے آپ نے ان کے استعمال سے منع فرما دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ ممانعت وقتی ممانعت تھی۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ نہ صرف گناہوں سے بچنا بلکہ ان کے اسباب اور دواعی سے بھی پرہیز کرنالازمی ہے جن سے ان گناہوں کے لیے آمادگی پیدا ہوسکتی ہو۔ اسی بناپر قرآن مجید میں کہا گیا کہ لاتقربوا الزنیٰ یعنی ان کاموں کے بھی قریب نہ جاؤ جن سے زنا کے لیے آمادگی کا امکان ہو۔


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1399 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ الحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ العَرَبِ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا: لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَهَا فَقَدْ عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ ان سے زہری نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو عرب کے کچھ قبائل کافر ہوگئے ( اور کچھ نے زکوٰۃ سے انکار کردیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے لڑنا چاہا ) تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی موجودگی میں کیونکر جنگ کرسکتے ہیں “ مجھے حکم ہے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کی شہادت نہ دیدیں اور جو شخص اس کی شہادت دے دے تو میری طرف سے اس کا مال وجان محفوظ ہوجائے گا۔ سوا اسی کے حق کے ( یعنی قصاص وغیرہ کی صورتوں کے ) اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا۔


بَابُ وُجُوبِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینا فرض ہے


1400 فَقَالَ وَاللَّهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ قَدْ شَرَحَ اللَّهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ

ترجمہ : اس پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ قسم اللہ کی میں ہر اس شخص سے جنگ کروں گا جو زکوٰۃ اور نماز میں تفریق کرے گا۔ ( یعنی نماز تو پڑھے مگر زکوٰۃ کے لیے انکار کردے ) کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ خدا کی قسم اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی ( بکری کے ) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بخدایہ بات اس کا نتیجہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیا تھا اور بعد میں میں بھی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی حق پر تھے۔
تشریح : وفات نبی کے بعد مدینہ کے اطراف میں مختلف قبائل جو پہلے اسلام لاچکے تھے اب انہوں نے سمجھا کہ اسلام ختم ہوگیا لہٰذا ان میں سے بعض بت پرست بن گئے۔ بعض مسیلمہ کذاب کے تابع ہوگئے جیسے یمامہ والے اور بعض مسلمان رہے مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرنے لگے اور قرآن شریف کی یوں تاویل کرنے لگے کہ زکوٰۃ لینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص تھا۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا۔ خُذ مِن اَموَالِہِم صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُم وُتُزَکِّیہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیہِم اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَن لَّہُم ( التوبہ: 103 ) اور پیغمبر کے سوا اور کسی کی دعا سے ان کو تسلی نہیں ہوسکتی۔ وحسابہ علی اللہ کا مطلب یہ کہ دل میں اس کے ایمان ہے یا نہیں اس سے ہم کو غرض نہیں اس کی پوچھ قیامت کے دن اللہ کے سامنے ہوگی اور دنیا میں جو کوئی زبان سے لا الہ الا اللہ کہے گا اس کو مومن سمجھیں گے اور اس کے مال اور جان پر حملہ نہ کریں گے۔ صدیقی الفاظ میں فرق بین الصلوٰۃ والزکوٰۃ کا مطلب یہ کہ جو شخص نماز کو فرض کہے گا مگر زکوٰۃ کی فرضیت کا انکار کرے گا ہم ضرور ضرور اس پر جہاد کریں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا اور سب صحابہ متفق ہوگئے اور زکوٰۃ دینے والوں پر جہاد کیا۔ یہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فہم وفراست تھی۔ اگر وہ اس عزم سے کام نہ لیتے تو اسی وقت اسلامی نظام درہم برہم ہوجاتا مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے عزم صمیم سے اسلام کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا۔ آج بھی اسلامی قانون یہی ہے کہ کوئی شخص محض کلمہ گو ہونے سے مسلمان نہیں بن جاتا جب تک وہ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ‘ حج کی فرضیت کا اقراری نہ ہو اور وقت آنے پر ان کو ادا نہ کرے۔ جو کوئی کسی بھی اسلام کے رکن کی فرضیت کا انکار کرے وہ متفقہ طورپر اسلام سے خارج اور کافر ہے۔ نماز کے لیے تو صاف موجود ہے من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر جس نے جان بوجھ کر بلا عذر شرعی ایک وقت کی نماز بھی ترک کردی تو اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔ عدم زکوٰۃ کے لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جہاد موجود ہے اور حج کے متعلق فاروق اعظم کا وہ فرمان قابل غور ہے جس میں آپ نے مملکت اسلامیہ سے ایسے لوگوں کی فہرست طلب کی تھی جو مسلمان ہیں اورجن پر حج فرض ہے مگر وہ یہ فرض نہیں ادا کرتے تو آپ نے فرمایا تھا کہ ان پر جزیہ قائم کردو‘ وہ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں۔


بَابُ البَيْعَةِ عَلَى إِيتَاءِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ دینے پر بیعت کرنا


1401 حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ قَيْسٍ قَالَ قَالَ جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے اسماعیل بن خالد نے بیان کیا‘ ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا کہ جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے‘ زکوٰۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی تھی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ دینی بھائی بننے کے لیے قبولیت ایمان واسلام کے ساتھ ساتھ نماز قائم کرنا اور صاحب نصاب ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا بھی ضروری ہے


بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ


1402 حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ هُرْمُزَ الْأَعْرَجَ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ إِذَا هُوَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى صَاحِبِهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَقَالَ وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ قَالَ وَلَا يَأْتِي أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ وَلَا يَأْتِي بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ فَأَقُولُ لَا أَمْلِكُ لَكَ مِنْ اللَّهِ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ

ترجمہ : ہم سے ابولیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن ہر مزا عرج نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ ( قیامت کے دن ) اپنے مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کا حق ( زکوٰۃ ) نہ ادا کیا کہ اس سے زیادہ موٹے تازے ہوکر آئیں گے ( جیسے دنیا میں تھے ) اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گے۔ بکریاں بھی اپنے ان مالکوں کے پاس جنہوں نے ان کے حق نہیں دئیے تھے پہلے سے زیادہ موٹی تازی ہوکر آئیں گی اور انہیں اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا حق یہ بھی ہے کہ اسے پانی ہی پر ( یعنی جہاں وہ چرا گاہ میں چر رہی ہوں ) دوہا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس طرح نہ آئے کہ وہ اپنی گردن پر ایک ایسی بکری اٹھائے ہوئے ہو جو چلارہی ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے عذاب سے بچائیے میں اسے یہ جواب دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا ( میرا کام پہنچانا تھا ) سو میں نے پہنچا دیا۔ اسی طرح کوئی شخص اپنی گردن پر اونٹ لیے ہوئے قیامت کے دن نہ آ : ے کہ اونٹ چلارہا ہو اور وہ خود مجھ سے فریاد کرے‘ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! مجھے بچائےے اور میں یہ جواب دے دوں کہ تیرے لیے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے تجھ کو ( خدا کا حکم زکوٰۃ ) پہنچادیا تھا۔
تشریح : مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ منہ سے کاٹیں گے۔ پچاس ہزار برس کا جو دن ہوگا اس دن یہی کرتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ بندوں کا فیصلہ کرے اور وہ اپنا ٹھکانا دیکھ لیں۔ ( بہشت میں یا دوزخ میں ) اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تنبیہ فرمائی ہے کہ جو لوگ اپنے اموال اونٹ یا بکری وغیرہ میں سے مقررہ نصاب کے تحت زکوٰۃ نہیں ادا کریں گے‘ قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا جو یہاں مذکور ہوا۔ فی الواقع وہ جانور ان حالات میں آئیں گے اور اس شخص کی گردن پر زبردستی سوار ہوجائیں گے۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد کے لیے پکارے گا مگر آپ کا یہ جواب ہوگا جو مذکور ہوا۔ بکری کو پانی پر دوہنے سے غرض یہ کہ عرب میں پانی پر اکثر غریب محتاج لوگ جمع رہتے ہیں وہاں وہ دودھ نکال کر مساکین فقراءکو پلایا جائے۔ بعضوں نے کہا یہ حکم زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے تھا‘ جب زکوٰۃ فرض ہوگئی تو اب کوئی صدقہ یا حق واجب نہیں رہا۔ ایک حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ کے سوا مال میں دوسرا حق بھی ہے۔ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ اونٹوں کا بھی یہی حق ہے کہ ان کا دودھ پانی کے کنارے پر دوہا جائے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وانما خص الحلب بموضع المآءلیکون اسہل علی المحتاج من قصد المنازل وارفق بالماشیۃ یعنی پانی پر دودھ دوہنے کے خصوص کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہاں محتاج اور مسافر لوگ آرام کے لیے قیام پذیر رہتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قیامت کے دن گناہ مثالی جسم اختیار کرلیں گے۔ وہ جسمانی شکلوں میں سامنے آئیں گے۔ اسی طرح نیکیاں بھی مثالی شکلیں اختیار کرکے سامنے لائی جائیں گی۔ ہر دو قسم کی تفصیلات بہت سی احادیث میں موجود ہیں۔ آئندہ حدیث میں بھی ایک ایسا ہی ذکر موجود ہے


بَابُ إِثْمِ مَانِعِ الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ نہ ادا کرنے والے کا گناہ


1403 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ القَاسِمِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسِبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ) الآيَةَ (اٰل عمران:180)

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے ہاشم بن قاسم نے بیان کیا کہ ہم سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے اپنے والد سے بیان کیا‘ ان سے ابوصالح سمان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے اللہ نے مال دیا اور اس نے اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی توقیامت کے دن اس کا مال نہایت زہریلے گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا۔ اس کی آنکھوں کے پاس دوسیاہ نقطے ہوں گے۔ جیسے سانپ کے ہوتے ہیں‘ پھر وہ سانپ اس کے دونوں جبڑوں سے اسے پکڑلے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال اور خزانہ ہوں۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی “ اور وہ لوگ یہ گمان نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں جو کچھ اپنے فضل سے دیا ہے وہ اس پر بخل سے کام لیتے ہیں کہ ان کا مال ان کے لیے بہتر ہے۔ بلکہ وہ برا ہے جس مال کے معاملہ میں انہوں نے بخل کیا ہے۔ قیامت میں اس کا طوق بناکر ان کی گردن میں ڈالا جائے گا۔
تشریح : نسائی میں یہ الفاظ اور ہیں۔ ویکون کنز احدکم یوم القیامۃ شجاعا اقرع یفرمنہ صاحبہ ویطلبہ انا کنزک فلا یزال حتی یلقمہ اصبعہ یعنی وہ گنجا سانپ اس کی طرف لپکے گا اور وہ شخص اس سے بھاگے گا۔ وہ سانپ کہے گا کہ میں تیرا خزانہ ہوں۔ پس وہ اس کی انگلیوں کا لقمہ بنالے گا۔ یہ آیت کریمہ ان مالداروں کے حق میں نازل ہوئی جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہ کرتے بلکہ دولت کو زمین میں بطور خزانہ گاڑتے تھے۔ آج بھی اس کا حکم یہی ہے جو مالدار مسلمان زکوٰۃ ہضم کرجائیں ان کا یہی حشر ہوگا۔ آج سونا چاندی کی جگہ کرنسی نے لے لی ہے جو چاندی اور سونے ہی کے حکم میں داخل ہے۔ اب یہ کہا جائے گا کہ جو لوگ نوٹوں کی گڈیاں بنابناکر رکھتے اور زکوٰۃ نہیں ادا کرتے ان کے وہی نوٹ ان کے لیے دوزخ کا سانپ بن کر ان کے گلوں کا ہار بنائے جائیں گے۔


بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے


1404 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا مَنْ كَنَزَهَا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا فَوَيْلٌ لَهُ إِنَّمَا كَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ تُنْزَلَ الزَّكَاةُ فَلَمَّا أُنْزِلَتْ جَعَلَهَا اللَّهُ طُهْرًا لِلْأَمْوَالِ

ترجمہ : ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے میرے والد شبیب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے خالد بن اسلم نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ایک اعرابی نے آپ سے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر بتلائیے “ جو لوگ سونے اور چاندی کا خزانہ بناکر رکھتے ہیں۔ ” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کا جواب دیا کہ اگر کسی نے سونا چاندی جمع کیا اور اس کی زکوٰۃ نہ دی تو اس کے لیے ویل ( خرابی ) ہے۔ یہ حکم زکوٰۃ کے احکام نازل ہونے سے پہلے تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا حکم نازل کردیا تو اب وہی زکوٰۃ مال ودولت کو پاک کردینے والی ہے۔
تشریح : یعنی اس مال سے متعلق یہ آیت نہیں ہے وَالَّذِینَ یَکنِزُونَ الذَّہَبَ وَالفِضَّۃَ ( التوبہ: 34 ) معلوم ہوا کہ اگر کوئی مال جمع کرے تو گنہگار نہیں بشرطیکہ زکوٰۃ دیا کرے۔ گو تقویٰ اور فضیلت کے خلاف ہے۔ یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث ہے۔ جسے امام مالک نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً نکالا ہے اور ابوداؤد نے ایک مرفوع حدیث نکالی جس کا مطلب یہی ہے۔ حدیث لیس فیمادون خمس اواق صدقۃ یہ حدیث اس باب میں آتی ہے۔ امام بخاری نے اس حدیث سے دلیل لی کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کی جائے وہ کنزنہیں ہے۔ اس کا دبانا اور رکھ چھوڑنا درست ہے کیونکہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں بموجب نص حدیث زکوٰۃ نہیں ہے۔ پس اتنی چاندی کا رکھ چھوڑنا اور دبانا کنزنہ ہوگا اور آیت میں سے اس کو خاص کرنا ہوگا اور خاص کرنے کی وجہ یہی ہوئی کہ زکوٰۃ اس پر نہیں ہے تو جس مال کی زکوٰۃ ادا کردی گئی وہ بھی کنزنہ ہوگا کیونکہ اس پر بھی زکوٰۃ نہیں رہی۔ ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے پانچ اوقیوں کے دو سو درہم ہوئے یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی۔ یہی چاندی کا نصاب ہے اس سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ کنز کے متعلق بیہقی میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کل ما ادیت زکوتہ وان کان تحت سبع ارضین فلیس بکنز وکل مالا تودی زکوتہ فہو کنز وان کان ظاہرا علی وجہ الارض ( فتح الباری ) یعنی ہر وہ مال جس کی تونے زکوٰۃ ادا کردی ہے وہ کنز نہیں ہے اگرچہ وہ ساتویں زمین کے نیچے دفن ہو اور ہر وہ مال جس کی زکوٰۃ نہیں ادا کی وہ کنز ہے اگر چہ وہ زمین کی پیٹھ پر رکھا ہوا ہو۔ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے ما ابالی لو کان لی مثل احد ذہبا اعلم عددہ ازکیہ واعمل فیہ بطاعۃ اللہ تعالیٰ ( فتح ) یعنی مجھ کو کچھ پروا نہیں جب کہ میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو اور میں زکوٰۃ ادا کرکے اسے پاک کروں اور اس میں اللہ کی اطاعت کے کام کروں یعنی اس حالت میں اتنا خزانہ بھی میرے لیے مضر نہیں ہے۔


بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے


1405 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يَزِيدَ أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا الْأَوْزَاعِيُّ أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ أَنَّ عَمْرَو بْنَ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

ترجمہ : ہم سے اسحاق بن یزید نے حدیث بیان کی‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن اسحاق نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام اوزاعی نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے یحیٰی بن ابی کثیر نے خبر دی کہ عمروبن یحییٰ بن عمارہ نے انہیں خبر دی اپنے والد یحیٰی بن عمارہ بن ابولحسن سے اور انہو ںابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
تشریح : ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے۔ پانچ اوقیہ کے دو سو درہم یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی ہوتی ہے‘ یہ چاندی کا نص

اب ہے۔ وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے صاع چار مد کا۔ مدایک رطل اور تہائی رطل کا۔ ہندوستان کے وزن ( اسی تولہ سیر کے حساب سے ) ایک وسق پکے ساڑھے چار من یا پانچ من کے قریب ہوتا ہے۔ پانچ وسق ساڑھے بائیس من یا 25 من ہوا۔ اس سے کم میں زکوٰۃ ( عشر ) نہیں ہے۔


بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے


1406 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي هَاشِمٍ سَمِعَ هُشَيْمًا أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ مَرَرْتُ بِالرَّبَذَةِ فَإِذَا أَنَا بِأَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقُلْتُ لَهُ مَا أَنْزَلَكَ مَنْزِلكَ هَذَا قَالَ كُنْتُ بِالشَّأْمِ فَاخْتَلَفْتُ أَنَا وَمُعَاوِيَةُ فِي الَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ مُعَاوِيَةُ نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الْكِتَابِ فَقُلْتُ نَزَلَتْ فِينَا وَفِيهِمْ فَكَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فِي ذَاكَ وَكَتَبَ إِلَى عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَشْكُونِي فَكَتَبَ إِلَيَّ عُثْمَانُ أَنْ اقْدَمْ الْمَدِينَةَ فَقَدِمْتُهَا فَكَثُرَ عَلَيَّ النَّاسُ حَتَّى كَأَنَّهُمْ لَمْ يَرَوْنِي قَبْلَ ذَلِكَ فَذَكَرْتُ ذَاكَ لِعُثْمَانَ فَقَالَ لِي إِنْ شِئْتَ تَنَحَّيْتَ فَكُنْتَ قَرِيبًا فَذَاكَ الَّذِي أَنْزَلَنِي هَذَا الْمَنْزِلَ وَلَوْ أَمَّرُوا عَلَيَّ حَبَشِيًّا لَسَمِعْتُ وَأَطَعْتُ

ترجمہ : ہم سے علی بن ابی ہاشم نے بیان کیا‘ انہوں نے ہشیم سے سنا‘ کہا کہ ہمیں حصین نے خبر دی ‘ انہیں زید بن وہب نے کہا کہ میں مقام ربذہ سے گزر رہا تھا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ دکھائی دیئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہاں کیوں آگئے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں شام میں تھا تو معاویہ ( رضی اللہ عنہ ) سے میرا اختلاف ( قرآن کی آیت ) “ جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ” کے متعلق ہوگیا۔ معاویہ کا کہنا یہ تھا کہ یہ آیت اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور میں یہ کہتا تھا کہ اہل کتاب کے ساتھ ہمارے متعلق بھی یہ نازل ہوئی ہے۔ اس اختلاف کے نتیجہ میں میرے اور ان کے درمیان کچھ تلخی پیدا ہوگئی۔ چنانچہ انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ ( جو ان دنوں خلیفۃ المسلمین تھے ) کے یہاں میری شکایت لکھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھے لکھا کہ میں مدینہ چلا آؤں۔ چنانچہ میں چلا آیا۔ ( وہاں جب پہنچا ) تو لوگوں کا میرے یہاں اس طرح ہجوم ہونے لگا جیسے انہوں نے مجھے پہلے دیکھا ہی نہ ہو۔ پھر جب میں نے لوگوں کے اس طرح اپنی طرف آنے کے متعلق عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا تو انہوں نے فرمایا کہ اگر مناسب سمجھو تو یہاں کا قیام چھوڑ کر مدینہ سے قریب ہی کہیں اور جگہ الگ قیام اختیار کرلو۔ یہی بات ہے جو مجھے یہاں ( ربذہ ) تک لے آئی ہے۔ اگر وہ میرے اوپر ایک حبشی کو بھی امیر مقرر کردیں تو میں اس کی بھی سنوں گا اور اطاعت کروں گا۔
تشریح : حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بڑے عالی شان صحابی اور زہد ودرویشی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے‘ ایسی بزرگ شخصیت کے پاس خواہ مخواہ لوگ بہت جمع ہوتے ہیں۔ حضرت معاویہ نے ان سے یہ اندیشہ کیا کہ کہیںکوئی فساد نہ اٹھ کھڑا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو وہاں سے بلا بھیجا تو فوراً چلے آئے۔ خلیفہ اور حاکم اسلام کی اطاعت فرض ہے۔ ابوذر نے ایسا ہی کیا۔ مدینہ آئے تو شام سے بھی زیادہ ان کے پاس مجمع ہونے لگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی وہی اندیشہ ہوا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہوا تھا۔ انہوں نے صاف تو نہیں کہا کہ تو مدینہ سے نکل جاؤ مگر اصلاح کے طورپر بیان کیا۔ ابوذر نے ان کی مرضی پاکر مدینہ کو بھی چھوڑا۔ اور وہ ربذہ نامی ایک گاؤں میں جاکر رہ گئے اور تادم وفات وہیں مقیم رہے۔ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ امام احمد اور ابویعلیٰ نے مرفوعاً نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا تھا جب تو مدینہ سے نکالا جائے گا تو کہاں جائے گا؟ تو انہوں نے کہا شام کے ملک میں۔ آپ نے فرمایا کہ جب تو وہاں سے بھی نکالا جائے گا؟ انہوں نے کہا کہ میں پھر مدینہ شریف میں آجاؤں گا۔ آپ نے فرمایا جب پھر وہاں سے نکالا جائے گا تو کیاکرے گا۔ ابوذر نے کہا میں اپنی تلوار سنبھال لوں گا اور لڑوں گا۔ آپ نے فرمایا بہتر بات یہ ہے کہ امام وقت کی بات سن لینا اور مان لینا۔ وہ تم کو جہاں بھیجیں چلے جانا۔ چنانچہ حضرت ابوذر نے اسی ارشاد پر عمل کیا اور دم نہ مارا اور آخردم تک ربذہ ہی میں رہے۔ جب آپ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو آپ کی بیوی جو ساتھ تھیں اس موت غربت کا تصور کرکے رونے لگیں۔ کفن کے لیے بھی کچھ نہ تھا۔ آخر ابوذر کو ایک پیش گوئی یا دآئی اور بیوی سے فرمایا کہ میری وفات کے بعد اس ٹیلے پر جابیٹھنا کوئی قافلہ آئے گا وہی میرے کفن کا انتظام کرے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اچانک ایک قافلہ کے ساتھ ادھر سے گزرے اور صورت حال معلوم کرکے رونے لگے‘ پھر کفن دفن کا انتظام کیا۔ کفن میں اپنا عمامہ ان کو دے دیا ( رضی اللہ عنہم ) علامہ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں وفی ہذا الحدیث من الفوائد غیرماتقدم ان الکفار مخاطبون بفروع الشریعۃ لاتفاق ابی ذر ومعاویۃ ان الایہ نزلت فی اہل الکتاب وفیہ ملاطفۃ الائمۃ للعلماءفان معاویۃ لم یجسر علی الانکار علیہ حتی کاتب من ہو اعلیٰ منہ فی امرہ وعثمان لم یحنق اعلیٰ ابی ذرمع کونہ کان مخالفا لہ فی تاویلہ فیہ التحذیر من الشقاق والخروج علی الائمۃ والترغیب فی الطاعۃ لاولی الامر وامر الافضل بطاعۃ المفضول خشیۃ المفسدۃ وجواز الاختلاف فی الاجتہاد والاخذ بالشدۃ فی الامر بالمعروف وان ادی ذالک الی فراق الوطن وتقدیم دفع المفسدۃ علی جلب المنفعۃ لان فی بقاءابی ذر بالمدینۃ مصلحۃ کبیرۃ من بث عملہ فی طالب العلم ومع ذالک فرجع عند عثمان دفع مایتوقع عند المفسدۃ من الاخذ بمذہبہ الشدید فی ہذہ المسئلۃ ولم یامرہ بعد ذالک بالرجوع عنہ لا ن کلا منہما کان مجتہدا۔ یعنی اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں حضرت ابوذر اور حضرت معاویہ یہاں تک متفق تھے کہ یہ آیت اہل کتاب کے حق میں نازل ہوئی ہے پس معلوم ہوا کہ شریعت کے فروعی احکامات کے کفار بھی مخاطب ہیں اور اس سے یہ بھی نکلا کہ حکام اسلام کو علماءکے ساتھ مہربانی سے پیش آنا چاہیے۔ حضرت معاویہ نے یہ جسارت نہیں کی کہ کھلم کھلا حضرت ابوذر کی مخالفت کریں بلکہ یہ معاملہ حضرت عثمان تک پہنچادیا جو اس وقت مسلمانوں کے خلیفہ برحق تھے اور واقعات معلوم ہونے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی حالانکہ وہ ان کی تاویل کے خلاف تھے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ اہل اسلام کو باہمی نفاق وشقاق سے ڈرنا ہی چاہیے اور ائمہ برحق پر خروج نہ کرنا چاہیے بلکہ اولوالا مرکی اطاعت کرنی چاہیے اور اجتہادی امور میں اس سے اختلاف کا جواز بھی ثابت ہوا اور یہ بھی کہ امربالمعروف کرنا ہی چاہیے خواہ اس کے لیے وطن چھوڑنا پڑے اور فساد کی چیز کو دفع ہی کرنا چاہیے اگرچہ وہ نفع کے خلاف بھی ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا‘ اس میں بڑی مصلحت تھی کہ یہ یہاں مدینہ میں رہیں گے تو لوگ ان کے پاس بکثرت علم حاصل کرنے آئیں گے اور اس مسئلہ متنازعہ میں ان سے اسی شدت کا اثر لیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو اس شدت سے رجوع کرنے کا بھی حکم نہیںفرمایا۔ اس لیے کہ یہ سب مجتہد تھے اور ہر مجتہد اپنے اپنے اجتہاد کا خود ذمہ دار ہے۔ خلاصہ الکلام یہ کہ حضرت ابوذر اپنے زہد وتقویٰ کی بناپر مال کے متعلق بہت شدت برتتے تھے اور وہ اپنے خیال پر اٹل تھے۔ مگر دیگر اکابر نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور نہ ان سے زیادہ تعرض کیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خود ان کی مرضی دیکھ کر ان کو ربذہ میں آباد فرمایا تھا‘ باہمی ناراضگی نہ تھی جیسا کہ بعض خوارج نے سمجھا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔


بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے


1407 حَدَّثَنَا عَيَّاشٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الأَعْلَى، حَدَّثَنَا الجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي العَلاَءِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: جَلَسْتُ ح وَحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الجُرَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو العَلاَءِ بْنُ الشِّخِّيرِ، أَنَّ الأَحْنَفَ بْنَ قَيْسٍ، حَدَّثَهُمْ قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى مَلَإٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَجَاءَ رَجُلٌ خَشِنُ الشَّعَرِ وَالثِّيَابِ وَالهَيْئَةِ، حَتَّى قَامَ عَلَيْهِمْ فَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: بَشِّرِ الكَانِزِينَ بِرَضْفٍ يُحْمَى عَلَيْهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ، ثُمَّ يُوضَعُ عَلَى حَلَمَةِ ثَدْيِ أَحَدِهِمْ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ نُغْضِ كَتِفِهِ، وَيُوضَعُ عَلَى نُغْضِ كَتِفِهِ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ حَلَمَةِ ثَدْيِهِ، يَتَزَلْزَلُ، ثُمَّ وَلَّى، فَجَلَسَ إِلَى سَارِيَةٍ، وَتَبِعْتُهُ وَجَلَسْتُ إِلَيْهِ وَأَنَا لاَ أَدْرِي مَنْ هُوَ؟ فَقُلْتُ لَهُ: لاَ أُرَى القَوْمَ إِلَّا قَدْ كَرِهُوا الَّذِي قُلْتَ، قَالَ: إِنَّهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئًا،

ترجمہ : ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید جریری نے ابوالعلاءیزید سے بیان کیا‘ ان سے احنف بن قیس نے‘ انہوں نے کہا کہ میں بیٹھا تھا ( دوسری سند ) اور امام بخاری نے فرمایا کہ مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد بن عبدالوارث نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا مجھ سے سعید جریری نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوالعلاءبن شخیر نے بیان کیا‘ ان سے احنف بن قیس نے بیان کیا کہ میں قریش کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں سخت بال‘ موٹے کپڑے اور موٹی جھوٹی حالت میں ایک شخص آیا اور کھڑے ہوکر سلام کیا اور کہا کہ خزانہ جمع کرنے والوں کو اس پتھر کی بشارت ہو جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا اور اس کی چھاتی کی بھٹنی پر رکھ دیا جائے گا جو مونڈھے کی طرف سے پار ہوجائے گا۔ اس طرح وہ پتھر برابر ڈھلکتا رہے گا۔ یہ کہہ کر وہ صاحب چلے گئے اور ایک ستون کے پاس ٹیک لگاکر بیٹھ گئے۔ میں بھی ان کے ساتھ چلا اور ان کے قریب بیٹھ گیا۔ اب تک مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون صاحب ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ آپ کی بات قوم نے پسند نہیں کی۔ انہوں نے کہا یہ سب تو بے وقوف ہیں۔


بَابٌ: مَا أُدِّيَ زَكَاتُهُ فَلَيْسَ بِكَنْزٍ

باب: جس مال کی زکوٰۃ دے دی جائے


1408 قَالَ لِي خَلِيلِي، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ خَلِيلُكَ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أَبَا ذَرٍّ أَتُبْصِرُ أُحُدًا قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَى الشَّمْسِ مَا بَقِيَ مِنَ النَّهَارِ، وَأَنَا أُرَى أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرْسِلُنِي فِي حَاجَةٍ لَهُ، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، أُنْفِقُهُ كُلَّهُ، إِلَّا ثَلاَثَةَ دَنَانِيرَوَإِنَّ هَؤُلاَءِ لاَ يَعْقِلُونَ، إِنَّمَا يَجْمَعُونَ الدُّنْيَا، لاَ وَاللَّهِ، لاَ أَسْأَلُهُمْ دُنْيَا، وَلاَ أَسْتَفْتِيهِمْ عَنْ دِينٍ، حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ عز و جل

ترجمہ : مجھ سے میرے خلیل نے کہا تھا میں نے پوچھا کہ آپ کے خلیل کون ہیں؟ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اے ابوذر! کیا احد پہاڑ تو دیکھتا ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ اس وقت میں نے سورج کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا کہ کتنا دن ابھی باقی ہے۔ کیونکہ مجھے ( آپ کی بات سے ) یہ خیال گزرا کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے مجھے بھیجیں گے۔ میں نے جواب دیا کہ جی ہاں ( احد پہاڑ میں نے دیکھا ہے ) آپ نے فرمایا کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کے سوا دوست نہیں رکھتا کہ صرف تین دینار بچا کر باقی تمام کا تمام ( اللہ کے راستے میں ) دے ڈالوں ( ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر فرمایا کہ ) ان لوگوں کو کچھ معلوم نہیں’ یہ دنیا جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔ ہرگز نہیں خدا کی قسم نہ میں ان کی دنیا ان سے مانگتا ہوں اور نہ دین کا کوئی مسئلہ ان سے پوچھتا ہوں تا آنکہ میں اللہ تعالیٰ سے جاملوں۔
تشریح : شاید تین اشرفیاں اس وقت آپ پر قرض ہوں گی یا یہ آپ کا روزانہ کا خرچ ہوگا۔ حافظ نے کہا کہ اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ مال جمع نہ کرے۔ مگر یہ اولویت پر محمول ہے کیونکہ جمع کرنے والا گو زکوٰۃ دے تب بھی اس کو قیامت کے دن حساب دینا ہوگا۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو آئے خرچ کر ڈالے مگر اتنا بھی نہیں کہ قرآن پاک کی آیات کے خلاف ہو جس میں فرمایا وَلاَ تَبسُطہَا کُلَّ البَسطِ فَتَقعُدَ مَلُوماً مَحسُوراً ( بنی اسرائیل: 29 ) یعنی اتنے بھی ہاتھ کشادرہ نہ کرو کہ تم خالی ہوکر شرمندہ اور عاجز بن کر بیٹھ جاؤ۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ ایک مسلمان کے لیے اس کے ایمان کو بچانے کے لیے اس کے ہاتھ میں مال کا ہونا مفید ہوگا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض دفعہ محتاجگی کافر بنادیتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ درمیانی راستہ بہتر ہے۔


بَابُ إِنْفَاقِ المَالِ فِي حَقِّهِ

باب: اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے


1409 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنِي قَيْسٌ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا

ترجمہ : ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے اسماعیل بن ابی خالد سے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے قیس بن ابی حاز م نے بیان کیا اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حسد ( رشک ) کرنا صرف دوہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہوسکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی۔ دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت ( عقل علم قرآن وحدیث اور معاملہ فہمی ) دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔
تشریح : امیر اور عالم ہردو اللہ کے ہاں مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔ مقبول وہ جو اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ زکوٰۃ اور صدقات سے مستحقین کی خبر گیری کریں اور اس بارے میں ریانمود سے بھی بچیں‘ یہ مالدار اس قابل ہیں کہ ہر مسلمان کو ان جیسا مالدار بننے کی تمنا کرنی جائز ہے۔ اسی طرح عالم جو اپنے علم پر عمل کریں اور لوگوں کو علمی فیض پہنچائیں اور ریانمود سے دور رہیں‘ خشیت ومحبت الٰہی بہر حال مقدم رکھیں‘ یہ عالم بھی قابل رشک ہیں۔ امام بخاری کا مقصد یہ کہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والوں کا بڑا درجہ ہے ایسا کہ ان پر رشک کرنا جائز ہے جب کہ عام طورپر حسد کرنا جائز نہیں مگر نیک نیتی کے ساتھ ان پر حسد کرنا جائز ہے۔


بَابُ الصَّدَقَةِ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ لِقَوْلِهِ: {وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ، وَاللَّهُ لاَ يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ

باب: حلال کمائی میں سے خیرات قبول ہوتی ہے


1410 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ عَنْ ابْنِ دِينَارٍ وَقَالَ وَرْقَاءُ عَنْ ابْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَوَاهُ مُسْلِمُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ وَزَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ وَسُهَيْلٌ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا‘ انہوں نے ابوالنضر سالم بن ابی امیہ سے سنا‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا‘ ان سے ان کے والد نے‘ ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلاکر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔ عبدالرحمن کے ساتھ اس روایت کی متابعت سلیمان نے عبداللہ بن دینار کی روایت سے کی ہے اور ورقاءنے ابن دینار سے کہا‘ ان سے سعید بن یسارنے‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت مسلم بن ابی مریم‘ زید بن اسلم اور سہیل نے ابوصالح سے کی‘ ان سے ابوہریرہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
تشریح : حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو۔ جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے۔ اہلحدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کی تاویل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں۔ سلیمان کی روایت مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابوعوانہ نے وصل کیا۔ اور ورقاءکی روایت کو امام بیہقی اور ابوبکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوٰۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قال اہل العلم من اہل السنۃ والجماعۃ نومن بہذہ الاحادیث ولا نتوہم فیہا تشبیہا ولا نقول کیف یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں وچراں احادیث پر ایمان لاتے ہیں اور اس میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا


1411 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تَصَدَّقُوا فَإِنَّهُ يَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ فَلَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا يَقُولُ الرَّجُلُ لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لَقَبِلْتُهَا فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي فیهَا۔

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن خالد نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ صدقہ کرو‘ ایک ایسا زمانہ بھی تم پر آنے والا ہے جب ایک شخص اپنے مال کا صدقہ لے کر نکلے گا اور کوئی اسے قبول کرنے والا نہیں پائے گا۔
تشریح : جس کے پاس صدقہ لے کر جائے گا وہ یہ جواب دے گا کہ اگر تم کل اسے لائے ہوتے تو میں قبول کرلیتا۔ آج تو مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ قیامت کے قریب زمین کی ساری دولت باہر نکل آئے گی اور لوگ کم رہ جائیں گے۔ ایسی حالت میں کسی کو مال کی حاجت نہ ہوگی۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کو غنیمت جانو جب تم میں محتاج لوگ موجود ہیں اور جتنی ہوسکے خیرات دو۔اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ قیامت کے قریب ایسے جلد جلد انقلاب ہوں گے کہ آج آدمی محتاج ہے کل امیر ہوگا۔ آج اس دور میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ ساری روئے زمین پر ایک طوفان برپا ہے مگر وہ زمانہ ابھی دور ہے کہ لوگ زکوٰۃ وصدقات لینے والے باقی نہ رہیں۔


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا


1412 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ فِيكُمْ الْمَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يُهِمَّ رَبَّ الْمَالِ مَنْ يَقْبَلُ صَدَقَتَهُ وَحَتَّى يَعْرِضَهُ فَيَقُولَ الَّذِي يَعْرِضُهُ عَلَيْهِ لَا أَرَبَ لِي

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے عبدالرحمن بن ہر مزاعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت آنے سے پہلے مال ودولت کی اس قدر کثرت ہوجائے گی اور لوگ اس قدر مال دار ہوجائیں گے کہ اس وقت صاحب مال کو اس کی فکر ہوگی کہ اس کی زکوٰۃ کون قبول کرے اور اگر کسی کو دینا بھی چاہے گا تو اس کو یہ جواب ملے گا کہ مجھے اس کی حاجت نہیں ہے۔
تشریح : قیامت کے قریب جب زمین اپنے خزانے اگل دے گی، تب یہ حالت پیش آئے گی


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا


1413 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ الطَّائِيُّ قَالَ سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطْعَ السَّبِيلِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ حَتَّى تَخْرُجَ الْعِيرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ وَأَمَّا الْعَيْلَةُ فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى يَطُوفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ لَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا مِنْهُ ثُمَّ لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أُوتِكَ مَالًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمْ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں سعد ان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے‘ ایک فقروفاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیرنکلے گا۔ ( اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہوگا ) اور رہا فقروفاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک ( مال ودولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہوجائے کہ ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہوگا اور نہ ترجمان کے لیے کوئی ترجمان ہوگا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میںمال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہوگی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی ( کاصدقہ کرکے اس سے اپنا بچاؤ کرسکو ) اگر یہ بھی میسر نہ آسکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔
تشریح : یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے یعنی اگرخیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے ہی جواب دے کہ اس وقت میں مجبور ہوں‘ معاف کرو‘ گھر کنا جھگڑنا منع ہے۔ ترجمان وہ ہے جو ترجمہ کرکے بندے کا کلام اللہ سے عرض کرے اور اللہ کا ارشاد بندے کو سنائے بلکہ خود اللہ پاک کلام فرمائے گا۔ اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں‘ اگر آواز اور حروف نہ ہوں تو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ ( وحیدی ) اس حدیث میں یہ پیش گوئی بھی ہے کہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا‘ چور ڈاکو عام طورپر ختم ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے ( خفیر ) کے بغیر نکلا کریں گے۔ خفیر اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن وعافیت کے ساتھ پار کرا دیتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔ آج اس چودھویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریف کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کرسکے۔ اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے اور حاسدین ومعاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے۔ ( آمین )


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ

باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا


1414 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدٍ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَطُوفُ الرَّجُلُ فِيهِ بِالصَّدَقَةِ مِنْ الذَّهَبِ ثُمَّ لَا يَجِدُ أَحَدًا يَأْخُذُهَا مِنْهُ وَيُرَى الرَّجُلُ الْوَاحِدُ يَتْبَعُهُ أَرْبَعُونَ امْرَأَةً يَلُذْنَ بِهِ مِنْ قِلَّةِ الرِّجَالِ وَكَثْرَةِ النِّسَاءِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوسامہ ( حماد بن اسامہ ) نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ہم سے برید بن عبداللہ نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ضرور ایک زمانہ ایسا آجائے گا کہ ایک شخص سونے کاصدقہ لے کر نکلے گا لیکن کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا اور یہ بھی ہوگا کہ ایک مرد کی پناہ میں چالیس چالیس عورتیں ہوجائیں گی کیونکہ مردوں کی کمی ہو جائے گی اور عورتوں کی زیادتی ہوگی۔
تشریح : قیامت کے قریب یا تو عورتوں کی پیدائش بڑھ جائے گی‘ مرد کم پیدا ہوں گے یا لڑائیوں کی کثرت سے مردوں کی قلت ہوجائے گی۔ ایسا کئی دفعہ ہوچکا ہے


بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو


1415 حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ الْحَكَمُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَصْرِيُّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ الصَّدَقَةِ كُنَّا نُحَامِلُ فَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِشَيْءٍ كَثِيرٍ فَقَالُوا مُرَائِي وَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ فَقَالُوا إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَاعِ هَذَا فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ الْآيَةَ

ترجمہ : ہم سے ابوقدامہ عبیداللہ بن سعید نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابوالنعمان حکم بن عبداللہ بصری نے بیان کیا‘ کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا‘ ان سے سلیمان اعمش نے‘ ان سے ابووائل نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے ( تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کردیا جائے ) اسی زمانہ میں ایک شخص ( عبدالرحمن بن عوف ) آیا اور اس نے صدقہ کے طورپر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے۔ پھر ایک اور شخص ( ابوعقیل نامی ) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی “ وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کماکر لاتے ہیں۔ ( اور کم صدقہ کرتے ہیں ) آخر تک۔
تشریح : یہ طعنہ مارنے والے کم بخت منافقین تھے‘ ان کو کسی طرح چین نہ تھا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنا آدھا مال آٹھ ہزار درہم صدقہ کردئیے تو ان کو ریاکار کہنے لگے۔ ابوعقیل رضی اللہ عنہ بچارے غریب آدمی نے محنت مزدوری سے کمائی کرکے ایک صاع کھجور اللہ کی راہ میں دی تو اس پر ٹھٹھا مارنے لگے کہ اللہ کو اس کی احتیاج نہ تھی۔ ارے مردود! اللہ کو تو کسی چیز کی احتیاج نہیں۔ آٹھ ہزار کیا آٹھ کروڑ بھی ہوں تو اس کے آگے بے حقیقت ہیں۔ وہ دل کی نیت کو دیکھتا ہے۔ ایک صاع کھجور بھی بہت ہے۔ ایک کھجور بھی کوئی خلوص کے ساتھ حلال مال سے دے تو وہ اللہ کے نزدیک مقبول ہے۔ انجیل شریف میں ہے کہ ایک بڑھیا نے خیرات میں ایک دمڑی دی۔ لوگ اس پر ہنسے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس بڑھیا کی خیرات تم سے بڑھ کرہے۔ ( وحیدی


بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو


1416 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَى السُّوقِ فَيُحَامِلُ فَيُصِيبُ الْمُدَّ وَإِنَّ لِبَعْضِهِمْ الْيَوْمَ لَمِائَةَ أَلْفٍ

ترجمہ : ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے ابو مسعودانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جاکر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد ( غلہ یا کھجور وغیرہ ) حاصل کرتے۔ ( جسے صدقہ کردیتے ) لےکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ ( درہم یا دینار ) موجود ہیں۔


بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو


1417 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْقِلٍ قَالَ سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا اور ان سے ابواسحاق عمروبن عبداللہ سبیعی نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن معقل سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر ہی سہی ( مگر ضرور صدقہ کرکے دوزخ کی آگ سے بچنے کی کوشش کرو )
تشریح : ان ہر دو احادیث سے صدقہ کی فضیلت ظاہر ہے اور یہ بھی کہ دور اول میں صحابہ کرام جب کہ وہ خود نہایت تنگی کی حالت میں تھے، اس پر بھی ان کو صدقہ خیرات کا کس درجہ شوق تھا کہ خود مزدوری کرتے‘ بازار میں قلی بنتے‘ کھیت مزدوروں میں کام کرتے‘ پھر جو حاصل ہوتا اس میں غرباءومساکین مسلمانوں کی امداد کرتے۔ اہل اسلام میں یہ جذبہ اس چیز کا بین ثبوت ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں میں بنی نوع انسان کے لیے ہمدردی وسلوک کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھردیا ہے۔ قرآن مجید کی آیت لَن تَنَالُو البِرَّ حَتّٰی تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ ( آل عمران: 92 ) میں اللہ پاک نے رغبت دلائی کہ صدقہ وخیرات میں گھٹیا چیز نہ دو بلکہ پیاری سے پیاری چیزوں کا صدقہ کرو۔ برخلاف اس کے بخیل کی حد درجہ مذمت کی گئی اور بتلایا کہ بخیل جنت کی بو بھی نہ پائے گا۔یہی صحابہ کرام تھے جن کا حال آپ نے سنا پھر اللہ نے اسلام کی برکت سے ان کو اس قدر بڑھایا کہ لاکھوں کے مالک بن گئے۔ حدیث ولوبشق تمرۃ مختلف لفظوں میں مختلف طرق سے وارد ہوئی ہے۔ طبرانی میں ہے اجعلوا بینکم وبین النار حجابا ولوبشق تمرۃ اور دوزخ کے درمیان صدقہ کرکے حجاب پیدا کرو اگرچہ وہ صدقہ ایک کھجور کی پھانک ہی سے ہو۔ نیز مسند احمد میں یوں ہے لیتق احدکم وجہہ بالنار ولوبشق تمرۃ یعنی تم کو اپنا چہرہ آگے سے بچانا چاہئے جس کا واحد ذریعہ صدقہ ہے اگرچہ وہ آدھی کھجور ہی سے کیوں نہ ہو۔ اور مسند احمدی ہی میں حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو خطاب فرمایا یاعائشۃ استتری من النار ولوبشق تمرۃ الحدیث یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پردہ کرو چاہے وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔ آخر میں علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفی الحدیث الحث علی الصدقۃ بماقل وماجل وان لا یحتقر ما یتصدق بہ وان الیسیر من الصدقۃ یستر المتصدق من النار ( فتح الباری ) یعنی حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہر حال کرنا چاہیے اور تھوڑے صدقہ کو حقیر نہ جاننا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑا صدقہ متصدق کے لیے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے۔


بَابٌ: اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ وَالقَلِيلِ مِنَ الصَّدَقَةِ

باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو


1418 حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَتْ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا تَسْأَلُ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ مَنْ ابْتُلِيَ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ بِشَيْءٍ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنْ النَّارِ

ترجمہ : ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے بیان کیا‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے وہی دے دی۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کردی اور خود نہیں کھائی۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا حال بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی۔
تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس عورت نے ایک کھجور کے دو ٹکڑے کرکے اپنی دونوں بیٹیوں کو دے دئیے جو نہایت قلیل صدقہ ہے اور باوجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوزخ سے بچاؤ کی بشارت دی۔ میں کہتا ہوں اس تکلف کی حاجت نہیں۔ باب میں دو مضمون تھے ایک تو کھجور کا ٹکڑا دے کر دوزخ سے بچنا‘ دوسرے قلیل صدقہ دینا۔ توعدی کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت ہوگیا اور حضرت عائشہ کی حدیث سے دوسرا مطلب۔ انہوں نے بہت قلیل صدقہ دیا یعنی ایک کھجور۔ ( وحیدی ) اس سے حضرت عائشہ کی صدقہ خیرات کے لیے حرص بھی ثابت ہوئی اور یہ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا لا یرجع من عندک سائل ولوبشق تمرۃ رواہ البزار من حدیث ابی ہریرۃ ( فتح ) یعنی تمہارے پاس سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ جانا چاہیے۔ اگرچہ کھجور کی آدھی پھانک ہی کیوں نہ ہو


بَابُ أَيُّ الصَدَقةِ أَفَضَلُ وَ صَدَقَةِ الشَّحِيحِ الصَّحِيحِ

باب: تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ


1419 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ الْقَعْقَاعِ حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا قَالَ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتْ الْحُلْقُومَ قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا وَلِفُلَانٍ كَذَا وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور ( اس صدقہ خیرات میں ) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔
تشریح : حدیث میں ترغیب ہے کہ تندرستی کی حالت میں جب کہ مال کی محبت بھی دل میں موجود ہو‘ صدقہ خیرات کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہیے نہ کہ جب موت قریب آجائے اور جان حلقوم میں پہنچ جائے۔ مگر یہ شریعت کی مہربانی ہے کہ آخر وقت تک بھی جب کہ ہوش وحواس قائم ہوں‘ مرنے والوں کو تہائی مال کی وصیت کرنا جائز قرار دیا ہے‘ ورنہ اب وہ مال تو مرنے والے کی بجائے وارثوں کا ہوچکا ہے۔ پس عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ تندرستی میں حسب توفیق صدقہ وخیرات میں جلدی کرنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں۔


بَابٌ


1420 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ فِرَاسٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّنَا أَسْرَعُ بِكَ لُحُوقًا قَالَ أَطْوَلُكُنَّ يَدًا فَأَخَذُوا قَصَبَةً يَذْرَعُونَهَا فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا كَانَتْ طُولَ يَدِهَا الصَّدَقَةُ وَكَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهِ وَكَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ان سے فراس بن یحیٰی ٰ نے‘ ان سے شعبی نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ سے کون جاکر ملے گی تو آپ نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہوگا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کردیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اور سودہ رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاکر ملیں‘ صدقہ کرنا آپ کو بہت محبوب تھا۔
تشریح : اکثر علماءنے کہا کے طول یدہا اور کانت کی ضمیروں میں سے حضرت زینب مراد ہیں مگر ان کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔ کیونکہ اس امر سے اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بیویوں میں سے سب سے پہلے حضرت زینب کا ہی انتقال ہوا تھا۔ لیکن امام بخاری نے تاریخ میں جو روایت کی ہے اس میں ام المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کی صراحت ہے اور یہاں بھی اس روایت میں حضرت سودہ کا نام آیا ہے اور یہ مشکل ہے اور ممکن ہے یوں جواب دینا کہ جس جلسہ میں یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا وہاں حضرت زینب موجود نہ ہوں اور جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں‘ ان سب سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔ مگر ابن حبان کی روایت میں یوں ہے کہ اس وقت آپ کی سب بیویاں موجود تھیں‘ کوئی باقی نہ رہی تھی‘ اس حالت میں یہ احتمال بھی نہیں چل سکتا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ قال لنا محمد بن عمر یعنی الواقدی ہذا الحدیث وہل فی سودۃ انما ہو فی زینب بنت جحش فہی اول نسائہ بہ لحوقا وتوفیت فی خلافۃ عمر وبقیت سودۃ الی ان توفیت فی خلافۃ معاویہ فی شوال سنۃ اربع وخمسین قال ابن بطال ہذا الحدیث سقط منہ ذکر زینب لاتفاق اہل السیر علی ان زینب اول من مات من ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ان الصواب وکانت زینب اسرعنا الخ ولکن ینکر علی ہذا التاویل تلک الروایات المتقدمۃ المصرح فیہا بان الضمیر لسودۃ وقرات بخط الحافظ ابی علی الصدفی ظاہر ہذا اللفظ ان سودۃ کانت اسرع وہو خلاف المعروف عند اہل العلم ان زینب اول من مات من الازواج ثم نقلہ عن مالک من روایتہ عن الواقدی قال یقویہ روایۃ عائشہ بنت طلحۃ وقال ابن الجوزی ہذا الحدیث غلط من بعض الرواۃ العجب من البخاری کیف لم ینبہ علیہ والا اصحابہ التعالیق ولا علم بفساد ذلک الخطابی فانہ فسرہ وقال لحوق سودۃ بہ علم من اعلام النبوۃ وکل ذلک وہم انما ہی زینب فانہا کانت اطولہن یدا بالعطاءکما رواہ مسلم من طریق عائشۃ بلفظ کان اطولنا یدا زینب لانہا کانت تعمل وتتصدق وفی روایۃ کانت زینب امراۃ صناعۃ بالید وکانت تدبغ وتخرز وتصدق فی سبیل اللہ۔ یعنی ہم سے واقدی نے کہا کہ اس حدیث میں راوی سے بھول ہوگئی ہے۔ درحقیقت سب سے پہلے انتقال کرنے والی زینب ہی ہیں جن کا انتقال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوا اور حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ 54 میں ہوا ہے۔ ابن بطال نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت زینب کا ذکر ساقط ہوگیا ہے کیونکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ امہات المؤمنین میں سب سے پہلے انتقال کرنے والی خاتون حضرت زینب بنت حجش ہی ہیں اور جن روایتوں میں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نام آیا ہے ان میں راوی سے بھول ہوگئی۔ ابن جوزی نے کہا کہ اس میں بعض راویوں نے غلطی سے حضرت سودہ کا نام لے دیا ہے اور تعجب ہے کہ حضرت امام بخاری کو اس پر اطلاع نہ ہوسکی اور نہ ان اصحاب تعالیق کو جنہوں نے یہاں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا نام لیا ہے اور وہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہی ہیں جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی ( یعنی صدقہ خیرات کرنے والی ) حضرت زینب تھیں۔ وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگر محنت مشقت دباغت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ناپ کے لحاظ سے حضرت سودہ کے ہاتھ دراز تھے‘ ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے۔ مگر جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینب کو حاصل تھی‘ پہلے انہی کا انتقال ہوا‘ مگر بعض راویوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے یہاں حضرت سودہ کا نام لے دیا۔ بعض علماءنے یہ تطبیق بھی دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت یہ ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نہ تھیں‘ آپ نے اس وقت کی حاضر ہونے والی بیویوں کے بارے میں فرمایا اور ان میں سے پہلے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا مگر اس تطبیق پر بھی کلام کیا گیا ہے۔ حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ والحدیث یوہم ظاہرہ ان اول من ماتت من امہات المومنین بعد وفاتہ صلی اللہ علیہ وسلم سودۃ ولیس کذالک فتامل ولا تعجل فی ہذا المقام فانہ من مزالق الاقدام ( شرح تراجم ابواب بخاری )


بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى غَنِيٍّ وَهُوَ لاَ يَعْلَمُ

باب: اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو


1421 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ رَجُلٌ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ زَانِيَةٍ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدَيْ غَنِيٍّ فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ فَقَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ وَعَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى غَنِيٍّ فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ أَمَّا صَدَقَتُكَ عَلَى سَارِقٍ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَسْتَعِفَّ عَنْ سَرِقَتِهِ وَأَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاهَا وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّهُ يَعْتَبِرُ فَيُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا‘ ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے ( بنی اسرائیل میں سے ) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ ( آج رات ) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور ( ناواقفی سے ) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ ( آج رات ) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ ( میں اپنا صدقہ ( لاعلمی سے ) چور‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑجانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے‘ وہ خرچ کرے۔
تشریح : اس حدیث میں بنی اسرائیل کے ایک سخی کا ذکر ہے جو صدقہ خیرات تقسیم کرنے کی نیت سے رات کو نکلا مگر اس نے لاعلمی میں پہلی رات میں اپنا صدقہ ایک چور کے ہاتھ پر رکھ دیا اور دوسری رات میں ایک فاحشہ عورت کو دے دیا اور تیسری شب میں ایک مالدار کو دیدیا‘ جو مستحق نہ تھا۔ یہ سب کچھ لاعلمی میں ہوا۔ بعد میں جب یہ واقعات اس کو معلوم ہوئے تو اس نے اپنی لا علمی کا اقرار کرتے ہوئے اللہ کی حمد بیان کی گویا یہ کہا اللہم لک الحمد ای لالی ان صدقتی وقعت بید من لا یستحقہا فلک الحمد حیث کان ذلک بارادتک ای لابار ادتی فان ارادۃ اللہ کلہا جمیلۃ یعنی یا اللہ! حمد تیرے لیے ہی ہے نہ کہ میرے لیے۔ میرا صدقہ غیر مستحق کے ہاتھ میں پہنچ گیا پس حمد تیرے ہی لیے ہے۔ اس لیے کہ یہ تیرے ہی ارادے سے ہوا نہ کہ میرے ارادے سے اور اللہ پاک جو بھی چاہے اور وہ جو ارادہ کرے وہ سب بہتر ہی ہے۔ امام بخاری کا مقصد باب یہ ہے کہ ان حالات میں اگرچہ وہ صدقہ غیر مستحق کو مل گیا مگر عنداللہ وہ قبول ہوگیا۔ حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوا کہ ناواقفی سے اگر غیر مستحق کو صدقہ دے دیا جائے تو اسے اللہ بھی قبول کرلیتا ہے اور دینے والے کو ثواب مل جاتا ہے۔ لفظ صدقہ میں نفلی صدقہ اور فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہر دو داخل ہیں۔ اسرائیل سخی کو خواب میںبتلایا گیا یا ہاتف غیب نے خبردی یا اس زمانہ کے پیغمبر نے اس سے کہا کہ جن غیر مستحقین کو تونے غلطی سے صدقہ دے دیا‘ شاید وہ اس صدقہ سے عبرت حاصل کرکے اپنی غلطیوں سے باز آجائیں۔ چور چوری سے اور زانیہ زنا سے رک جائے اور مالدار کو خود اسی طرح خرچ کرنے کی رغبت ہو۔ ان صورتوں میں تیرا صدقہ تیرے لیے بہت کچھ موجب اجر وثواب ہوسکتا ہے۔ ہذا ہو المواد


بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهِ وَهُوَ لاَ يَشْعُرُ

باب: اگر باپ ناواقفی سے اپنے بیٹے کو خیرات


1422 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ حَدَّثَنَا أَبُو الْجُوَيْرِيَةِ أَنَّ مَعْنَ بْنَ يَزِيدَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَبِي وَجَدِّي وَخَطَبَ عَلَيَّ فَأَنْكَحَنِي وَخَاصَمْتُ إِلَيْهِ وَكَانَ أَبِي يَزِيدُ أَخْرَجَ دَنَانِيرَ يَتَصَدَّقُ بِهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَجُلٍ فِي الْمَسْجِدِ فَجِئْتُ فَأَخَذْتُهَا فَأَتَيْتُهُ بِهَا فَقَالَ وَاللَّهِ مَا إِيَّاكَ أَرَدْتُ فَخَاصَمْتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَكَ مَا نَوَيْتَ يَا يَزِيدُ وَلَكَ مَا أَخَذْتَ يَا مَعْنُ

ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا کہا کہ ہم اسرائیل بن یونس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوجویریہ ( حطان بن خفاف ) نے بیان کیا کہ معن بن یزید نے ان سے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا ( اخفش بن حبیب ) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپ ہی نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا۔ وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں ایک شخص کے پاس رکھ دیا۔ میں گیا اور میں نے ان کو اس سے لے لیا۔ پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا۔ یہی مقدمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل گیا اور معن! جو تو نے لے لیا وہ اب تیرا ہوگیا۔
تشریح : امام ابوحنیفہ اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر ناواقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوٰۃ بھی دے دے تو زکوٰۃ ادا ہوجاتی ہے اور دوسرے علماءکہتے ہیں کہ اعادہ واجب ہے اور اہلحدیث کے نزدیک بہر حال ادا ہوجاتی ہے۔ بلکہ عزیز اور قریب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوٰۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے۔ سید علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے‘ خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند‘ اولاد کی صراحت ابوسعید کی حدیث میں موجود ہے۔ ( مولانا وحید الزماں ) مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا۔ باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا۔ آپ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا۔ جو حدیث انما الاعمال بالنیات میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ علماءوفقہاءایسی وسیع الظرفی سے کام لے کر امت کے لیے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیادہ سے زیادہ فراخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ فقہاءکا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کردیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا فقیہاں طریق جدل ساختند لم لا نسلم درانداختند


بَابُ الصَّدَقَةِ بِاليَمِينِ

باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے


1423 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي خُبَيْبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمْ اللَّهُ تَعَالَى فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ إِمَامٌ عَدْلٌ وَشَابٌّ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ اللَّهِ وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي الْمَسَاجِدِ وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ وَرَجُلٌ دَعَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا عبیداللہ عمری سے‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خبیب بن عبدالرحمن نے حفص بن عاصم سے بیان کیا‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ اپنے ( عرش کے ) سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سوا وار کوئی سایہ نہ ہوگا۔ انصاف کرنے والا حاکم‘ وہ نوجوان جو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جوان ہوا ہو‘ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں لگارہے‘ دو ایسے شخص جو اللہ کے لیے محبت رکھتے ہیں‘ اسی پر وہ جمع ہوئے اور اسی پر جدا ہوئے‘ ایسا شخص جسے کسی خوبصورت اور عزت دار عورت نے بلایا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں‘ وہ انسان جو صدقہ کرے اور اسے اس درجہ چھپائے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا اور وہ شخص جو اللہ کو تنہائی میں یاد کرے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بہنے لگ جائیں۔
تشریح : قیامت کے دن عرش عظیم کا سایہ پانے والے یہ سات خوش قسمت انسان مرد ہوں یا عورت ان پر حصر نہیں ہے۔ بعض احادیث میں اور بھی ایسے نیک اعمال کا ذکر آیا ہے جن کی وجہ سے سایہ عرش عظیم مل سکے گا۔ بعض علماءنے اس موضوع پر مستقل رسالے تحریر فرمائے ہیں اور ان جملہ اعمال صالحہ کا ذکر کیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے نیچے سایہ ملنے کا ذریعہ بن سکیں گے۔ بعض نے اس فہرست کو چالیس تک بھی پہنچادیا ہے۔ یہاں باب اور حدیث میں مطابقت اس متصدق سے ہے جو راہ للہ اس قدر پوشیدہ خرچ کرتا ہے کہ دائیں ہاتھ سے خرچ کرتا ہے اور بائیں کو بھی خبر نہیں ہوپاتی۔ اس سے غایت خلوص مراد ہے۔ انصاف کرنے والا حاکم چودھری‘ پنچ‘ اللہ کی عبادت میں مشغول رہنے والا جو ان اور مسجد سے دل لگانے والا نمازی اور دو باہمی الٰہی محبت رکھنے والے مسلمان اور صاحب عصمت وعفت مرد یا عورت مسلمان اور اللہ کے خوف سے آنسو بہانے والی آنکھیں یہ جملہ اعمال حسنہ ایسے ہیں کہ ان پر کاربند ہونے والوں کو عرش الٰہی کا سایہ ملنا ہی چاہیے۔ اس حدیث سے اللہ کے عرش اور اس کے سایہ کا بھی اثبات ہوا جو بلا کیف وکم وتاویل تسلیم کرنا ضروری ہے۔ قرآن پاک کی بہت سی آیات میں عرش عظیم کا ذکر آیا ہے۔ بلا شک وشبہ اللہ پاک صاحب عرش عظیم ہے۔ اس کے لیے عرش کا استواءاور جہت فوق ثابت اور برحق ہے جس کی تاویل نہیں کی جاسکتی اور نہ اس کی کیفیت معلوم کرنے کے ہم مکلف ہیں۔


بَابُ الصَّدَقَةِ بِاليَمِينِ

باب: خیرات داہنے ہاتھ سے دینی بہتر ہے


1424 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ قَالَ سَمِعْتُ حَارِثَةَ بْنَ وَهْبٍ الْخُزَاعِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ تَصَدَّقُوا فَسَيَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ فَيَقُولُ الرَّجُلُ لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ لقَبِلْتُهَا مِنْكَ فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا حَاجَةَ لِي فِيهَا

ترجمہ : ہم سے علی بن جعد نے بیان کیا کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی کہا کہ مجھے معبد بن خالد نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ صدقہ کیا کرو پس عنقریب ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا ( کوئی اسے قبول کرلے مگر جب وہ کسی کو دے گا تو وہ ) آدمی کہے گا کہ اگر اسے تم کل لائے ہوتے تو میں لے لیتا لیکن آج مجھے اس کی حاجت نہیں رہی۔
تشریح : ثابت ہوا کہ مرد مخلص اگر صدقہ زکوٰۃ علانیہ لے کر تقسیم کے لیے نکلے بشرطیکہ خلوص وللہیت مد نظر ہوتو یہ بھی مذموم نہیں ہے۔ یوں بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہوسکے ریا ونمود سے بچنے کے لیے پوشیدہ طورپر صدقہ زکوٰۃ خیرات دی جائے


بَابُ مَنْ أَمَرَ خَادِمَهُ بِالصَّدَقَةِ وَلَمْ يُنَاوِلْ بِنَفْسِهِ

باب: جس نے اپنے خدمت گار کو صدقہ


1425 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا

ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ان سے منصور نے۔ ان سے شقیق نے ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر عورت اپنے شوہر کے مال سے کچھ خرچ کرے اور اس کی نیت شوہر کی پونجی برباد کرنے کی نہ ہوتو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملے گا اور شوہر کو بھی اس کا ثواب ملے گا اس نے کمایا ہے اور خزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کرتا۔
تشریح : مطلب ظاہر ہے کہ مالک کے مال کی حفاظت کرنے والے اور اس کے حکم کے مطابق اسی میں سے صدقہ خیرات نکالنے والے ملازم خادم خزانچی سب ہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثواب کے مستحق ہوں گے۔ حتیٰ کہ بیوی بھی جو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ خیرات کرے وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی۔ اس میں ایک طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور دیانت وامانت کی تعلیم وتلقین ہے۔ آیت شریفہ لَن تَنَالُوا البِرَّ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔


بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی


1426 حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ

ترجمہ : ہم سے عبدان نے بیان کیا کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی انہیں یونس نے، انھیں زہری نے، انہوں نے کہا مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہترین خیرات وہ ہے جس کے دینے کے بعد آدمی مالدار رہے۔ پھر صدقہ پہلے انہیں دو جو تمہاری زیر پرورش ہیں۔
تشریح : اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ اپنے عزیزو اقرباءجملہ متعلقین اگر وہ مستحق ہیں تو صدقہ خیرات زکوٰۃ میں سب سے پہلے ان ہی کا حق ہے۔ اس لیے ایسے صدقہ کرنے والوں کو دوگنے ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔


بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی


1427 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ، وَخَيْرُ الصَّدَقَةِ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ سے بیان کیاان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں ( کے مال ) سے بے نیاز رہتا ہے اسے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہی بنا دیتا ہے۔


بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی


1428 وَعَنْ وُهَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

ترجمہ : اور وہیب نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی بیان فرمایا۔


بَابُ لاَ صَدَقَةَ إِلَّا عَنْ ظَهْرِ غِنًى

باب: صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد بھی آدمی


1429 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَذَكَرَ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ وَالْمَسْأَلَةَ الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنْ الْيَدِ السُّفْلَى فَالْيَدُ الْعُلْيَا هِيَ الْمُنْفِقَةُ وَالسُّفْلَى هِيَ السَّائِلَةُ

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ان سے ایوب نے ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ ( دوسری سند ) اور ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ان سے مالک نے ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کہ آپ منبر پر تشریف رکھتے تھے۔ آپ نے صدقہ اور کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانے کا اور دوسروں سے مانگنے کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والے کا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والے کا۔
تشریح : حضرت امام بخاری نے باب منعقدہ کے تحت ان احادیث کو لاکر یہ ثابت فرمایا کہ ہر مرد مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحب دولت بن کر اور دولت میں سے اللہ کا حق زکوٰۃ ادا کرکے ایسا رہنے کی کوشش کرے کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ اوپر کا ہاتھ رہے اور تازیست نیچے والا نہ بنے یعنی دینے والا بن کر رہے نہ کہ لینے والا اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے والا۔ حدیث میں اس کی بھی ترغیب ہے کہ احتیاج کے باوجود بھی لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا چاہیے بلکہ صبرو استقلال سے کام لے کر اپنے توکل علی اللہ اور خود داری کو قائم رکھتے ہوئے اپنی قوت بازو کی محنت پر گزارہ کرناچاہیے۔


بَابُ مَنْ أَحَبَّ تَعْجِيلَ الصَّدَقَةِ مِنْ يَوْمِهَا

باب: خیرات کرنے میں جلدی کرنا چاہیے


1430 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ قَالَ صَلَّى بِنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ فَأَسْرَعَ ثُمَّ دَخَلَ الْبَيْتَ فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ خَرَجَ فَقُلْتُ أَوْ قِيلَ لَهُ فَقَالَ كُنْتُ خَلَّفْتُ فِي الْبَيْتِ تِبْرًا مِنْ الصَّدَقَةِ فَكَرِهْتُ أَنْ أُبَيِّتَهُ فَقَسَمْتُهُ

ترجمہ : ہم سے ابوعاصم نبیل نے عمر بن سعید سے بیان کیا ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز ادا کی پھر جلدی سے آپ گھر میں تشریف لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد باہر تشریف لے آئے۔ اس پر میں نے پوچھا یا کسی اور نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میں گھر کے اندر صدقہ کے سونے کا ایک ٹکڑا چھوڑ آیا تھا مجھے یہ بات پسند نہیں آئی کہ اسے تقسیم کئے بغیر رات گزاروں پس میں نے اس کو بانٹ دیا۔
تشریح : ( حدیث سے ثابت ہوا کہ ) خیرات اور صدقہ کرنے میں جلدی کرنا بہتر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ موت آجائے یا مال باقی نہ رہے اور ثواب سے محروم رہ جائے۔ باب کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ صاحب نصاب سال تمام ہونے سے پہلے ہی اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردے۔ اس بارے میں مزید وضاحت اس حدیث میں ہے۔ عن علی ان العباس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تعجیل صدقۃ قبل ان تحل فرخص لہ فی ذالک ( رواہ بوداؤ دوالترمذی وابن ماجہ والدارمی ) یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیاوہ اپنی زکوٰۃ سال گزرنے سے پہلے بھی ادا کرسکتے ہیں؟ اس پر آپ نے ان کو اجازت بخش دی۔ قال ابن مالک ہذا یدل علی جواز تعجیل الزکوہ بعد حصول النصاب قبل تمام الحول الخ ( مرعاۃ ) یعنی ابن مالک نے کہا کہ یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نصاب مقررہ حاصل ہونے کے بعد سال پورا ہونے سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کی جاسکتی ہے۔


بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الصَّدَقَةِ وَالشَّفَاعَةِ فِيهَا

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا


1431 حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَدِيٌّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عِيدٍ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ ثُمَّ مَالَ عَلَى النِّسَاءِ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي الْقُلْبَ وَالْخُرْصَ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عدی بن ثابت نے بیان کیا ان سے سعید بن جبیر نے ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن نکلے۔ پس آپ نے ( عیدگاہ میں ) دو رکعت نماز پڑھائی۔ نہ آپ نے اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی اور نہ اس کے بعد۔ پھر آپ عورتوں کی طرف آئے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ انہیں آپ نے وعظ و نصیحت کی اور ان کو صدقہ کرنے کے لیے حکم فرمایا۔ چنانچہ عورتیں کنگن اور بالیاں ( بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ) ڈالنے لگیں۔
تشریح : باب کی مطابقت ظاہر ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو خیرات کرنے کے لیے رغبت دلائی۔ اس سے صدقہ اور خیرات کی اہمیت پر بھی اشارہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ اللہ پاک کے غضب اور غصہ کو بجھا دیتا ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے ترغیبات موجود ہیں۔ فی سبیل اللہ کا مفہوم بہت عام ہے۔


بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الصَّدَقَةِ وَالشَّفَاعَةِ فِيهَا

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا


1432 حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ بْنُ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَاءَهُ السَّائِلُ أَوْ طُلِبَتْ إِلَيْهِ حَاجَةٌ قَالَ اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا وَيَقْضِي اللَّهُ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا اور ان سے ان کے باپ ابوموسیٰ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اگر کوئی مانگنے والا آتا یا آپ کے سامنے کوئی حاجت پیش کی جاتی تو آپ صحابہ کرام سے فرماتے کہ تم سفارش کرو کہ اس کا ثواب پاؤ گے اور اللہ پاک اپنے نبی کی زبان سے جو فیصلہ چاہے گا وہ دے گا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ حاجت مندوں کی حاجت اور غرض پوری کردینا یا ان کے لیے سعی اور سفارش کردینا بڑا ثواب ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو سفارش کرنے کی رغبت دلاتے اور فرماتے کہ اگرچہ یہ ضروری نہیں ہے کہ تمہاری سفارش ضرور قبول ہوجائے۔ ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہے۔ مگر تم کو سفارش کا ثواب ضرور مل جائے گا۔


بَابُ التَّحْرِيضِ عَلَى الصَّدَقَةِ وَالشَّفَاعَةِ فِيهَا

باب: لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا


1433 حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ عَبْدَةَ وَقَالَ لَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ

ترجمہ : ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبدہ نے ہشام سے خبر دی ’ انہیں ان کی بیوی فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماءرضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیرات کو مت روک ورنہ تیرا رزق بھی روک دیا جائے گا۔ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ اور ان سے عبدہ نے یہی حدیث روایت کی کہ گننے نہ لگ جانا ورنہ پھر اللہ بھی تجھے گن گن کر ہی دے گا۔
تشریح : مقصد صدقہ کے لیے رغبت دلانا اور بخل سے نفرت دلانا ہے۔ یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ سارا گھر لٹاکے کنگال بن جاؤ۔ یہاں تک فرمایا کہ تم اپنے ورثاءکو غنی چھوڑ کر جاؤ کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتے پھریں۔ لیکن بعض اشخاص کے لیے کچھ استثناءبھی ہوتا ہے جیسے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جنہوں نے اپنا تمام ہی اثاثہ فی سبیل اللہ پیش کردیا تھا اور کہا تھا کہ گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیاہوں باقی سب کچھ لے آیاہوں یہ صدیق اکبر جیسے متوکل اعظم ہی کی شان ہوسکتی ہے ہر کسی کا یہ مقام نہیں۔ بہر حال اپنی طاقت کے اندر اندر صدقہ خیرات کرنا بہت ہی موجب برکات ہے۔ دوسرا باب اس مضمون کی مزید وضاحت کررہا ہے۔


بَابُ الصَّدَقَةِ فِيمَا اسْتَطَاعَ

باب: جہاں تک ہوسکے خیرات کرنا


1434 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ عَنْ حَجَّاجِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ

ترجمہ : ہم سے ابوعاصم ( ضحاک ) نے بیان کیا اور ان سے ابن جریج نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا‘ ان سے حجاج بن محمد نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی ‘ انہیں عباد بن عبداللہ بن زبیر نے اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( مال کو ) تھیلی میں بند کرکے نہ رکھنا ورنہ اللہ پاک بھی تمہارے لیے اپنے خزانے میں بندش لگادے گا۔ جہاں تک ہوسکے لوگوں میں خیرخیرات تقسیم کرتی رہ۔


بَابُ الصَّدَقَةُ تُكَفِّرُ الخَطِيئَةَ

باب: صدقہ سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں


1435 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيُّكُمْ يَحْفَظُ حَدِيثَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْفِتْنَةِ قَالَ قُلْتُ أَنَا أَحْفَظُهُ كَمَا قَالَ قَالَ إِنَّكَ عَلَيْهِ لَجَرِيءٌ فَكَيْفَ قَالَ قُلْتُ فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَوَلَدِهِ وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْمَعْرُوفُ قَالَ سُلَيْمَانُ قَدْ كَانَ يَقُولُ الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ قَالَ لَيْسَ هَذِهِ أُرِيدُ وَلَكِنِّي أُرِيدُ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ الْبَحْرِ قَالَ قُلْتُ لَيْسَ عَلَيْكَ بِهَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بَأْسٌ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابٌ مُغْلَقٌ قَالَ فَيُكْسَرُ الْبَابُ أَوْ يُفْتَحُ قَالَ قُلْتُ لَا بَلْ يُكْسَرُ قَالَ فَإِنَّهُ إِذَا كُسِرَ لَمْ يُغْلَقْ أَبَدًا قَالَ قُلْتُ أَجَلْ فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ مَنْ الْبَابُ فَقُلْنَا لِمَسْرُوقٍ سَلْهُ قَالَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْنَا فَعَلِمَ عُمَرُ مَنْ تَعْنِي قَالَ نَعَمْ كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ لَيْلَةً وَذَلِكَ أَنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالْأَغَالِيطِ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے ابووائل نے‘ انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آپ لوگوں میں کس کو یاد ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا میں اس طرح یاد رکھتا ہوں جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیان فرمایا تھا۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہیں اس کے بیان پر جرات ہے۔ اچھا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟ میں نے کہا کہ ( آپ نے فرمایا تھا ) انسان کی آزمائش ( فتنہ ) اس کے خاندان‘ اولاد اور پڑوسیوں میں ہوتی ہے اور نماز‘ صدقہ اور اچھی باتوں کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور بری باتوں سے منع کرنا اس فتنے کا کفارہ بن جاتی ہیں۔ اعمش نے کہا ابو وائل کبھی یوں کہتے تھے۔ نماز اور صدقہ اور اچھی باتوں کا حکم دینا بری بات سے روکنا‘ یہ اس فتنے کو مٹا دینے والے نیک کام ہیں۔ پھر اس فتنے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری مراد اس فتنہ سے نہیں۔ میں اس فتنے کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہوا پھیلے گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا‘ میں نے کہا کہ امیرالمؤمنین آپ اس فتنے کی فکر نہ کیجئے آپ کے اور اس فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا صرف کھولا جائے گا۔ انہوں نے بتلایا نہیں بلکہ وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب دروازہ توڑ دیا جائے گا تو پھر کبھی بھی بند نہ ہوسکے گا ابووائل نے کہا کہ ہاں پھر ہم رعب کی وجہ سے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ نہ پوچھ سکے کہ وہ دروازہ کون ہے؟ اس لیے ہم نے مسروق سے کہا کہ تم پوچھو۔ انہوں نے کہا کہ مسروق رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دروازہ سے مراد خود حضرت عمررضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ہم نے پھر پوچھا تو کیا عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ آپ کی مراد کون تھی؟ انہوں نے کہا ہاں جیسے دن کے بعد رات کے آنے کو جانتے ہیں اور یہ اس لیے کہ میں نے جو حدیث بیان کی وہ غلط نہیں تھی۔
تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے بیان کی تعریف کی کیونکہ وہ اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فتنوں اور فسادوں کے بارے میں جو آپ کے بعد ہونے والے تھے‘ پوچھتے رہا کرتے تھے۔ جب کہ دوسرے لوگوں کو اتنی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ بے شک تو دل کھول کر ان کو بیان کرے گا کیونکہ تو ان کو خوب جانتا ہے۔ اس حدیث کو حضرت امام بخاری یہاں یہ ثابت کرنے کے لیے لائے کہ صدقہ گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔


بَابُ مَنْ تَصَدَّقَ فِي الشِّرْكِ ثُمَّ أَسْلَمَ

باب: جس نے شرک کی حالت میں صدقہ


1436 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ صَدَقَةٍ أَوْ عَتَاقَةٍ وَصِلَةِ رَحِمٍ فَهَلْ فِيهَا مِنْ أَجْرٍ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی ‘ انہیں عروہ نے اور ان سے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان نیک کاموں سے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں جنہیں میں جاہلیت کے زمانہ میں صدقہ‘ غلام آزاد کرنے اور صلہ رحمی کی صورت میں کیا کرتا تھا۔ کیا ان کا مجھے ثواب ملے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی ان تمام نیکیوں کے ساتھ اسلام لائے ہو جو پہلے گزر چکی ہےں۔
تشریح : امام بخاری نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو کفر کے زمانہ کی نیکیوں کا بھی ثواب ملے گا۔ یہ اللہ پاک کی عنایت ہے۔ اس میں کسی کا کیا اجارہ ہے۔ بادشاہ حقیقی کے پیغمبر نے جو کچھ فرمادیا وہی قانون ہے۔ اس سے زیادہ صراحت دار قطنی کی روایت میں ہے کہ جب کافر اسلام لاتا ہے اور اچھی طرح مسلمان ہوجاتا ہے تو اس کی ہر نیکی جو اس نے اسلام سے پہلے کی تھی‘ لکھ لی جاتی ہے اور ہر برائی جو اسلام سے پہلے کی تھی مٹادی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہر نیکی کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک ملتا رہتا ہے اور ہر برائی کے بدلے ایک برائی لکھی جاتی ہے۔ بلکہ ممکن ہے اللہ پاک اسے بھی معاف کردے۔


بَابُ أَجْرِ الخَادِمِ إِذَا تَصَدَّقَ بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدٍ

باب: خادم نوکر کا ثواب


1437 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَصَدَّقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا وَلِزَوْجِهَا بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِك

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے اعمش سے بیان کیا‘ ان سے ابووائل نے‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب بیوی اپنے خاوند کے کھانے میں سے کچھ صدقہ کرے اور اس کی نیت اسے برباد کرنے کی نہیں ہوتی تو اسے بھی اس کا ثواب ملتا ہے اور اس کے خاوند کو کمانے کا ثواب ملتا ہے۔ اسی طرح خزانچی کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے۔
تشریح : یعنی بیوی کی خاوند کے مال کو بیکار تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اس کو بھی ثواب ملے گا۔ خادم کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ مگر بیوی اور خدمتگار میں فرق ہے۔ بیوی بغیر خاوند کی اجازت کے اس کے مال میں سے خیرات کرسکتی ہے لیکن خدمت گار ایسا نہیں کرسکتا۔ اکثر علماءکے نزدیک بیوی کو بھی اس وقت تک خاوند کے مال سے خیرات درست نہیں جب تک اجمالاً یا تفصیلاً اس نے اجازت نہ دی ہو اور امام بخاری کے نزدیک بھی یہی مختار ہے۔ بعضوں نے کہا یہ عرف اور دستور پر موقوف ہے یعنی بیوی پکا ہوا کھانا وغیرہ ایسی تھوڑی چیزیں جن کے دینے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا‘ خیرات کرسکتی ہے گو خاوند کی اجازت نہ ملے۔


بَابُ أَجْرِ الخَادِمِ إِذَا تَصَدَّقَ بِأَمْرِ صَاحِبِهِ غَيْرَ مُفْسِدٍ

باب: خادم نوکر کا ثواب


1438 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخَازِنُ الْمُسْلِمُ الْأَمِينُ الَّذِي يُنْفِذُ وَرُبَّمَا قَالَ يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ كَامِلًا مُوَفَّرًا طَيِّبًا بِهِ نَفْسُهُ فَيَدْفَعُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ لَهُ بِهِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید بن عبداللہ نے ‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ خازن مسلمان امانتدار جو کچھ بھی خرچ کرتا ہے اور بعض دفعہ فرمایا وہ چیز پوری طرح دیتا ہے جس کا اسے سرمایہ کے مالک کی طرف سے حکم دیا گیا اور اس کا دل بھی اس سے خوش ہے اور اسی کو دیا ہے جسے دینے کے لیے مالک نے کہا تھا تو وہ دینے والا بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے۔


بَابُ أَجْرِ المَرْأَةِ إِذَا تَصَدَّقَتْ، أَوْ أَطْعَمَتْ، مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، غَيْرَ مُفْسِدَةٍ

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز


1439 حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعْنِي إِذَا تَصَدَّقَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے منصور بن معمر اور اعمش دونوں نے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے کہ جب کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر ( کے مال ) سے صدقہ کرے۔


بَابُ أَجْرِ المَرْأَةِ إِذَا تَصَدَّقَتْ، أَوْ أَطْعَمَتْ، مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، غَيْرَ مُفْسِدَةٍ

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز


1440 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَطْعَمَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا أَجْرُهَا وَلَهُ مِثْلُهُ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، لَهُ بِمَا اكْتَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ

ترجمہ : ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور مجھ سے عمر بن حفص نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے کسی کو کھلائے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا بھی نہ ہو تو اسے اس کا ثواب ملتا ہے اور شوہر کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے اور خزانچی کو بھی ویسا ہی ثواب ملتا ہے۔ شوہر کو کمانے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے۔
تشریح : حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا اور یہ تکرار نہیں ہے کیونکہ ہر ایک باب کے الفاظ جدا ہیں۔ کسی میں اذا تصدقت المراۃ ہے کہ کسی میں اذا اطعمت المراۃ ہے کسی میں من بیت زوجہا ہے کسی میں من طعام بیتہا ہے اور ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تینوں کو برابر ابرابر ثواب ملے گا۔ دوسری روایت میں ہے کہ عورت کو مرد کا آدھا ثواب ملے گا۔ قسطلانی نے کہ داروغہ کو بھی ثواب ملے گا۔ مگر مالک کی طرح اس کو دوگنا ثواب نہ ہوگا۔ ( وحیدی )


بَابُ أَجْرِ المَرْأَةِ إِذَا تَصَدَّقَتْ، أَوْ أَطْعَمَتْ، مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا، غَيْرَ مُفْسِدَةٍ

باب: عورت کا ثواب جب وہ اپنے شوہر کی چیز


1441 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ شَقِيقٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَنْفَقَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ فَلَهَا أَجْرُهَا وَلِلزَّوْجِ بِمَا اكْتَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن یحییٰ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے جریر بن عبدالحمید نے منصور سے بیان کیا ‘ ان سے ابووائل شقیق نے ‘ ان سے مسروق نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب عورت اپنے گھر کے کھانے کی چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے اور اس کا ارادہ گھر کو بگاڑنے کا نہ ہوتو اسے اس کا ثواب ملے گا اور شوہر کو کمانے کا ثواب ملے گا ‘ اسی طرح خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا۔
تشریح : عورت کا خرچ کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کی نیت گھر برباد کرنے کی نہ ہو۔ بعض دفعہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاوند کی اجازت حاصل کرے۔ مگر معمولی کھانے پینے کی چیزوں میں ہر وقت اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں خازن یا خادم کے لیے بغیر اجازت کوئی پیسہ اس طرح خرچ کردینا جائز نہیں ہے۔ جب بیوی اور خادم بایں طور خرچ کریں گے تو اصل مالک یعنی خاوند کے ساتھ وہ بھی ثواب میں شریک ہوں گے۔ اگرچہ ان کے ثواب کی حیثیت الگ الگ ہوگی۔ حدیث کامقصد بھی سب کے ثواب کو برابر قرار دینا نہیں ہے۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى، وَصَدَّقَ بِالحُسْنَى،۔۔۔۔

باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک


1442 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي أَخِي عَنْ سُلَيْمَانَ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي مُزَرِّدٍ عَنْ أَبِي الْحُبَابِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا وَيَقُولُ الْآخَرُ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

ترجمہ : ہم سے اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے بھائی ابوبکر بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے معاویہ بن ابی مزرد نے ‘ ان سے ابوالحباب سعید بن یسار نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کردے۔
تشریح : ابن ابی حاتم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے۔ تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری فاما من اعطی واتقی آخر تک اوراس روایت کو باب میں اس آیت کے تحت ذکر کرنے کی وجہ بھی معلوم ہوگئی۔


بَابُ مَثَلِ المُتَصَدِّقِ وَالبَخِيلِ

باب: صدقہ دینے والے کی اور بخیل


1443 حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ البَخِيلِ وَالمُتَصَدِّقِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ، عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ» وحَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ: أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَثَلُ البَخِيلِ وَالمُنْفِقِ كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَأَمَّا المُنْفِقُ فَلاَ يُنْفِقُ إِلَّا سَبَغَتْ أَوْ وَفَرَتْ عَلَى جِلْدِهِ، حَتَّى تُخْفِيَ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَأَمَّا البَخِيلُ فَلاَ يُرِيدُ أَنْ يُنْفِقَ شَيْئًا إِلَّا لَزِقَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَكَانَهَا، فَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلاَ تَتَّسِعُ» تَابَعَهُ الحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، فِي الجُبَّتَيْنِ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ طاؤس نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی طرح ہے جن کے بدن پر لو ہے کے دو کرتے ہیں۔ ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوالزناد نے خبر دی کہ عبداللہ بن ہر مزاعرج نے ان سے بیان کیا اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ بخیل اور خرچ کرنے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی سی ہے جن کے بدن پر لوہے کے دو کرتے ہوں چھاتیوں سے ہنسلی تک۔ خرچ کرنے کا عادی ( سخی ) خرچ کرتا ہے تو اس کے تمام جسم کو ( وہ کرتہ ) چھپا لیتا ہے یا ( راوی نے یہ کہا کہ ) تمام جسم پر وہ پھیل جاتا ہے اور اس کی انگلیاں اس میں چھپ جاتی ہے اور چلنے میں اس کے پاؤں کا نشان مٹتا جاتا ہے۔ لیکن بخیل جب بھی خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کرتے کا ہر حلقہ اپنی جگہ سے چمٹ جاتا ہے۔ بخیل اسے کشادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوپاتا۔ عبداللہ بن طاؤس کے ساتھ اس حدیث کو حسن بن مسلم نے بھی طاؤس سے روایت کیا ‘ اس میں دو کرتے ہیں۔


بَابُ مَثَلِ المُتَصَدِّقِ وَالبَخِيلِ

باب: صدقہ دینے والے کی اور بخیل


1444 وَقَالَ حَنْظَلَةُ: عَنْ طَاوُسٍ، جُنَّتَانِ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرٌ، عَنْ ابْنِ هُرْمُزَ، سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُنَّتَانِ

ترجمہ : اور حنظلہ نے طاؤس سے دوز رہیں نقل کیا ہے اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہر مز سے سنا کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر یہی حدیث بیان کی اس میں دو زر ہیں ہیں۔
تشریح : اس حدیث میں بخیل اور متصدق کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ سخی کی زرہ اتنی نیچی ہوجاتی ہے جیسے بہت نیچا کپڑا آدمی جب چلے تو وہ زمین پر گھسٹتا رہتا ہے اور پاؤں کا نشان مٹا دیتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ سخی آدمی کا دل روپیہ خرچ کرنے سے خوش ہوتا ہے اور کشادہ ہوجاتا ہے۔ بخیل کی زرہ پہلے ہی مرحلہ پر اس کے سینہ سے چمٹ کررہ جاتی ہے اور اس کو سخاوت کی توفیق ہی نہیں ہوتی۔ اس کے ہاتھ زرہ کے اندر مقید ہوکر رہ جاتے ہیں۔ حسن بن مسلم کی روایت کو امام بخاری نے کتاب اللباس میں اور حنظلہ کی روایت کو اسماعیل نے وصل کیا اور لیث بن سعد کی روایت اس سند سے نہیں ملی۔ لیکن ابن حبان نے اس کو دوسری سند سے لیث سے نکالا۔ جس طرح کہ حافظ ابن حجر نے بیان کیا ہے


بَابٌ: عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ

باب: ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے


1445 حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ فَقَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ يَعْمَلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ قَالُوا فَإِنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ قَالُوا فَإِنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوفِ وَلْيُمْسِكْ عَنْ الشَّرِّ فَإِنَّهَا لَهُ صَدَقَةٌ

ترجمہ : ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سعید بن ابی بردہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ابوبردہ نے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر مسلمان پر صدقہ کرنا ضروری ہے۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! اگر کسی کے پاس کچھ نہ ہو؟ آپ نے فرمایا کہ پھر اپنے ہاتھ سے کچھ کماکر خود کو بھی نفع پہنچائے اور صدقہ بھی کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی طاقت نہ ہو؟ فرمایا کہ پھر کسی حاجت مند فریادی کی مدد کرے۔ لوگوں نے کہا اگر اس کی بھی سکت نہ ہو۔ فرمایا پھر اچھی بات پر عمل کرے اور بری باتوں سے بام رہے۔ اس کا یہی صدقہ ہے۔
تشریح : امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔ ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔ معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: قال الشیخ ابو محمد بن ابی جمرۃ نفع اللہ بہ ترتیب ہذا الحدیث انہ ندب الی الصدقۃ وعند العجز عنہا ندب الی مایقرب منہا او یقوم مقامہا وہو العمل والانتفاع وعند العجز عن ذلک ندب الی مایقوم مقامہ وہو الا غاثۃ وعند عدم ذلک ندب الی فعل المعروف ای من سوی ماتقدم کاماطۃ الاذی وعند عدم ذلک ندب الی الصلوٰۃ فان لم یطق فترک الشر وذلک آخر المراتب قال ومعنی الشرہہنا مامنع الشرع ففیہ تسلیۃ للعاجز عن فعل المندوبات اذا کان عجزہ عن ذالک عن غیر اختیار ( فتح الباری ) مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔ جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔ مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔ پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔ آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔ یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔ ارشاد باری ہے وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ ( آل عمران: 115 ) لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔ بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔ قدرت کا یہی قانون ہے۔ فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ¾ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ¾ ( الزلزال: 8,7 ) جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔ از مکافات غافل مشو گندم از گندم بروید جو زجو


بَابٌ: قَدْرُ كَمْ يُعْطَى مِنَ الزَّكَاةِ وَالصَّدَقَةِ، وَمَنْ أَعْطَى شَاةً

باب: زکوٰۃ یا صدقہ میں کتنا مال دینا درست ہے؟


1446 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ بُعِثَ إِلَى نُسَيْبَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ بِشَاةٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِنْهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقُلْتُ لَا إِلَّا مَا أَرْسَلَتْ بِهِ نُسَيْبَةُ مِنْ تِلْكَ الشَّاةِ فَقَالَ هَاتِ فَقَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا

ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا ‘ ان سے خالد حذاءنے ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے کہ نسیبہ نامی ایک انصاری عورت کے ہاں کسی نے ایک بکری بھیجی ( یہ نسیبہ نامی انصاری عورت خود ام عطیہ ہی کا نام ہے )۔ اس بکری کا گوشت انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھی بھیج دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ تمہارے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور تو کوئی چیز نہیں البتہ اس بکری کا گوشت جو نسیبہ نے بھیجا تھا ‘ وہ موجود ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی لاؤ اب اس کا کھانا درست ہوگیا۔
تشریح : باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ پوری بکری بطور صدقہ نسیبہ کو بھیجی گئی۔ اب ام عطیہ نے جو تھوڑا گوشت اس بکری میں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ کے طورپر بھیجا۔ اس سے یہ نکلا کہ تھوڑا گوشت بھی صدقہ دے سکتے ہیں کیونکہ ام عطیہ کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھیجنا گو صدقہ نہ تھا مگر ہدیہ تھا۔ پس صدقہ کو اس پر قیاس کیا۔ ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری نے یہ باب لاکر ان لوگوں کا ردک کیا جو زکوٰۃ میں ایک فقیر کو اتنادے دینا مکروہ سمجھتے ہیں کہ وہ صاحب نصاب ہوجائے۔ امام ابو حنیفہ سے ایسا ہی منقول ہے لیکن امام محمد نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ( وحیدی ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بکری کے گوشت کو اس لیے کھانا حلال قرار دیا کہ جب فقیر ایسے مال سے تحفہ کے طورپر کچھ بھیج دے تو وہ درست ہے۔ کیونکہ ملک کے بدل جانے سے حکم بھی بدل جاتا ہے۔ یہی مضمون بریرہ کی حدیث میں بھی وارد ہے۔ جب بریرہ نے صدقہ کا گوشت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تحفہ بھیجا تھا تو آپ نے فرمایا تھا۔ ہولہا صدقۃ ولنا ہدیۃ ( وحیدی )


بَابُ زَكَاةِ الوَرِقِ

باب: چاندی کی زکوٰۃ کا بیان


1447 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ مِنْ الْإِبِلِ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو سَمِعَ أَبَاهُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں عمرو بن یحیٰی مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ یحیٰی نے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم ( چاندی ) میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ وسق سے کم ( غلہ ) میں زکوٰۃ نہیں۔ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن یحیٰی نے خبر دی ‘ انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی حدیث کوسنا۔
تشریح : یہ حدیث ابھی اوپر باب ماادی زکوتہ فلیس بکنز میں گزرچکی ہے اور وسق اور اوقیہ کی مقدار بھی وہیں مذکور ہوچکی ہے۔ پانچ اوقیہ دو سودرم کے ہوتے ہیں۔ ہر درم چھ دانق کا۔ ہر دانق 8 جو اور2/5 جو کا۔ تودرم 50 جو اور 2/5 جو کا ہوا۔ بعضوں نے کہا کہ درم چار ہزار اور دو سو رائی کے دانوں کا ہوتا ہے۔ اور دینار ایک درم اور 3/7 درم کا یا چھ ہزار رائی کے دانوں کا۔ ایک قیراط 3/8 دانق کا ہوتا ہے۔ مولانا قاضی ثناءاللہ پانی پتی مرحوم فرماتے ہیں کہ سونے کا نصاب بیس مثقال ہے جس کا وزن ساڑھے سات تولہ ہوتا ہے اور چاندی کا نصاب دو سودرہم ہے جن کے سکہ رائج الوقت دہلی سے 56 روپے کا بنتے ہیں۔ وقال شیخ مشائخنا العلامۃ الشیخ عبداللہ الغازیفوری فی رسالتہ ما معربہ نصاب الفضۃ مائتا درہم ای خسمون واثنتان تولجۃ ونصف تولجۃ وہی تساوی ستین من الروبیۃ الانکلیزیہ المنافضۃ فی الہند فی زمن الانکلیز التی تکون بقدر عشر ماہجۃ ونصف ماہجۃ وقال الشیخ بحرالعلوم اللکنوی الحنفی فی رسائل الارکان الاربعہ ص 178 وزن مائتی درہم وزن خمس وخمسین روبیۃ وکل روبیۃ احد عشر ماشج ( مرعاۃ جلد 3ص 41 ) ہمارے شیخ المشائخ علامہ حافظ عبداللہ غازی پوری فرماتے ہیں کہ چاندی کا نصاب دو سودرہم ہیں یعنی ساڑھے باون تولہ اور یہ انگریزی دور کے مروجہ چاندی کے روپے سے ساٹھ روپوں کے برابر ہوتی ہے۔ جوروپیہ تقریباً ساڑھے گیارہ ماشہ کا مروج تھا۔ مولانا بحر العلوم لکھنؤی فرماتے ہیں کہ دو سودرہم وزن چاندی 55 روپے کے برابر ہے اور ہر روپیہ گیارہ ماشہ کا ہوتا ہے۔ ہمارے زمانہ میں چاندی کا نصاب اوزان ہندیہ کی مناسبت سے ساڑھے باون تولہ چاندی ہے۔ خلاصہ یہ کہ غلہ میں پانچ وسق سے کم پر عشر نہیں ہے اور پانچ وسق اکیس من ساڑھے سینتیس سیروزن 80 تولہ کے سیر کے حساب سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور صاع 234 تولے ( 6 تولہ کم 3 سیر ) کا ہوتا ہے۔ پس ایک وسق چار من ساڑھے پندرہ سیر کا ہوا۔ اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس حساب سے ساڑھے سات تولہ سونا پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ فرض ہے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔


بَابُ العَرْضِ فِي الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ میں اسباب کا لینا


1448 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَلَغَتْ صَدَقَتُهُ بِنْتَ مَخَاضٍ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ وَعِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ عَلَى وَجْهِهَا وَعِنْدَهُ ابْنُ لَبُونٍ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے میرے والد عبداللہ بن مثنی نے بیان کیا۔ کہا کہ مجھ سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا۔ ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں ( اپنے دور خلافت میں فرض زکوٰۃ سے متعلق ہدایت دیتے ہوئے ) اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق یہ فرمان لکھا کہ جس کا صدقہ بنت مخاض تک پہنچ گیا ہو اور اس کے پاس بنت مخاض نہیں بلکہ بنت لبون ہے۔ تو اس سے وہی لے لیا جائے گا اور اس کے بدلہ میں صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دوبکریاں زائد دیدے گا اور اگر اس کے پاس بنت مخاض نہیں ہے بلکہ ابن لبون ہے تو یہ ابن لبون ہی لے لیا جائے گا اور اس صورت میں کچھ نہیں دیا جائے گا ‘ وہ مادہ یا نراونٹ جو تیسرے سال میں لگا ہو۔


بَابُ العَرْضِ فِي الزَّكَاةِ

باب: زکوٰۃ میں اسباب کا لینا


1449 حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهَدُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَصَلَّى قَبْلَ الْخُطْبَةِ فَرَأَى أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ النِّسَاءَ فَأَتَاهُنَّ وَمَعَهُ بِلَالٌ نَاشِرَ ثَوْبِهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ أَنْ يَتَصَدَّقْنَ فَجَعَلَتْ الْمَرْأَةُ تُلْقِي وَأَشَارَ أَيُّوبُ إِلَى أُذُنِهِ وَإِلَى حَلْقِهِ

ترجمہ : ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اسماعیل نے ایوب سے بیان کیا اور ان سے عطاءبن ابی رباح نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا۔ اس وقت میں موجود تھاجب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے نماز ( عید ) پڑھی۔ پھر آپ نے دیکھا کہ عورتوں تک آپ کی آواز نہیں پہنچی ‘ اس لیے آپ ان کے پاس بھی آئے۔ آپ کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے جو اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے۔ آپ نے عورتوں کو وعظ سنایا اور ان سے صدقہ کرنے کے لیے فرمایا اور عورتیں ( اپنا صدقہ بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ) ڈالنے لگیں۔ یہ کہتے وقت ایوب نے اپنے کان اور گلے کی طرف اشارہ کیا۔
تشریح : حضرت امام بخاری نے مقصد باب کے لیے اس سے بھی استدلال کیا کہ عورتوں نے صدقہ میں اپنے زیورات پیش کئے جن میں بعض زیور چاندی سونے کے نہ تھے


بَابٌ: لاَ يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلاَ يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ

باب: زکوٰۃ لیتے وقت جو مال جدا جدا


1450 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں وہی چیز لکھی تھی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروری قرار دیا تھا۔ یہ کہ زکوٰۃ ( کی زیادتی ) کے خوف سے جدا جدا مال کو یک جا اور یک جا مال کو جدا جدا نہ کیا جائے۔
تشریح : سالم کی روایت کو امام احمد اور ابویعلیٰ اور ترمذی وغیرہ نے وصل کیا ہے۔ امام مالک نے مؤطا میں اس کی تفسیر یوں بیان کی ہے۔ مثلاً تین آدمیوں کی الگ الگ چالیس چالیس بکریاں ہوں تو ہر ایک پر ایک بکری زکوٰۃ کی واجب ہے۔ زکوٰۃ لینے والا جب آیا تو تو یہ تینوں اپنی بکریاں ایک جگہ کردیں۔ اس صورت میں ایک ہی بکری دینی پڑے گی۔ اسی طرح دوآدمیوں کی شرکت کے مال میں مثلاً دو سوبکریاں ہوں تو تین بکریاں زکوٰۃ کی لازم ہوں گی اگر وہ زکوٰۃ لینے والا جب آئے اس کو جدا جدا کردیں تو دو ہی بکریاں دینی ہوں گی۔ اس سے منع فرمایا۔ کیونکہ یہ حق تعالیٰ کے ساتھ فریب کرنا ہے‘ معاذ اللہ۔ وہ تو سب جانتا ہے۔ ( وحیدی )


بَابٌ: مَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ، فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ

باب: اگر دو آدمی ساجھی ہوں تو زکوٰۃ کا خرچہ


1451 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں فرض زکوٰۃ میں وہی بات لکھی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمائی تھی اس میں یہ بھی لکھوایا تھا کہ جب دوشریک ہوں تو وہ اپنا حساب برابر کرلیں۔
تشریح : عطا کے قول کو ابوعبید نے کتاب الاموال میں وصل کیا ان کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جدا جدا رہنے دیں گے اور اگر ہر ایک کا مال بقدر نصاب ہوگا تو اس میں سے زکوٰۃ لیں گے ورنہ نہ لیں گے۔ مثلاً دو شریکوں کی چالیس بکریاں ہیں مگر ہر شریک کو اپنی اپنی بیس بکریاں علیحدہ اور معین طور سے معلوم ہیں تو کسی پر زکوٰۃ نہ ہوگی اور زکوٰۃ لینے والے کو یہ نہیں پہنچتا کہ دونوں کے جانور ایک جگہ کرکے ان کو چالیس بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکوٰۃ کی لے۔ اور سفیان نے جو کہا امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے۔ لیکن امام احمد اور شافعی اور اہلحدیث کا یہ قول ہے کہ جب دونوں شریکوں کے جانور مل کر حد نصاب کو پہنچ جائیں تو زکوٰۃ لی جائے گی۔ ( وحیدی )


بَابُ زَكَاةِ الإِبِلِ

باب: اونٹوں کی زکوٰۃ کا بیان


1452 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْهِجْرَةِ فَقَالَ وَيْحَكَ إِنَّ شَأْنَهَا شَدِيدٌ فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا قَالَ نَعَمْ قَالَ فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَتِرَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ بن مدینی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ولید بن مسلم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن یزید نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق پوچھا ( یعنی یہ کہ آپ اجازت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کرآؤں ) آپ نے فرمایا۔ افسوس! اس کی توشان بڑی ہے۔ کیا تیرے پاس زکوٰۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر کیا ہے سمندروں کے اس پار ( جس ملک میں تو رہے وہاں ) عمل کرتا رہ اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔
تشریح : مطلب آپ کا یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کررہے ہو۔ یہاں تک کہ اونٹوں کی زکوٰۃ بھی باقاعدہ نکالتے رہتے ہو تو خواہ مخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں۔ ہجرت کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ گھر در وطن چھوڑنے کے بعد جو تکالیف برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کو ہجرت کرنے والے ہی جانتے ہیں۔ مسلمانان ہند کو اس حدیث سے سبق حاصل کرنا چاہیے اللہ نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین


بَابُ مَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ مَخَاضٍ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ

باب: جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ زکوٰۃ


1453 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ فَرِيضَةَ الصَّدَقَةِ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ مِنْ الْإِبِلِ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنْ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ الْحِقَّةُ وَعِنْدَهُ الْجَذَعَةُ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْجَذَعَةُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ بِنْتُ لَبُونٍ وَيُعْطِي شَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا وَمَنْ بَلَغَتْ صَدَقَتُهُ بِنْتَ لَبُونٍ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ وَمَنْ بَلَغَتْ صَدَقَتُهُ بِنْتَ لَبُونٍ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ وَعِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ بِنْتُ مَخَاضٍ وَيُعْطِي مَعَهَا عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے پاس فرض زکوٰۃ کے ان فریضوں کے متعلق لکھا تھا جن کا اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے۔ یہ کہ جس کے اونٹوں کی زکوٰۃ جذعہ تک پہنچ جائے اور وہ جذعہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ حقہ ہوتو اس سے زکوٰۃ میں حقہ ہی لے لیا جائے گا لیکن اس کے ساتھ دوبکریاں بھی لی جائیں گی ‘ اگر ان کے دینے میں اسے آسانی ہو ورنہ بیس درہم لیے جائیں گے۔ ( تاکہ حقہ کی کمی پوری ہوجائے ) اور اگر کسی پر زکوٰۃ میں حقہ واجب ہو اور حقہ اس کے پاس نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی لے لیا جائے گا اور زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والے کو بیس درہم یا دوبکریاں دے گا اور اگر کسی پرزکوٰۃ حقہ کے برابر واجب ہوگئی اور اس کے پاس صرف بنت لبون ہے تو اس سے بنت لبون لے لی جائے گی اور زکوٰۃ دینے والے کو دوبکریاں یا بیس درہم ساتھ میں اور دینے پڑیں گے اور اگر کسی پر زکوٰۃ بنت لبون واجب ہو اور اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے لے لیا جائے گا اور اس صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں زکوٰۃ دینے والے کو دے گا اور کسی کے پاس زکوٰۃ میں بنت لبون واجب ہو ا اور بنت لبون اس کے پاس نہیں بلکہ بنت مخاض ہے تو اس سے بنت مخاض ہی لے لیا جائے گا۔ لیکن زکوٰۃ دینے والا اس کے ساتھ بیس درہم یا دوبکریاں دے گا۔
تشریح : اونٹ کی زکوٰۃ پانچ راس سے شروع ہوتی ہے‘ اس سے کم پر زکوٰۃ نہیں پس اس صورت میں چوبیس اونٹوں تک ایک بنت مخاض واجب ہوگی یعنی وہ اونٹنی جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگ رہی ہو۔ اونٹنی ہو یا اونٹ۔ پھر چھتیس پر بنت لبون یعنی وہ اونٹ جو دوسال کا ہو تیسرے میں چل رہا ہو۔ پھرچھیالیس پر ایک حقہ یعنی وہ اونٹ جو تین سال کا ہوکر چوتھے میں چل رہا ہو۔ پھر اکسٹھ پر جذعہ یعنی وہ اونٹ جو چار سال کا ہوکر پانچویں میں چل رہا ہو۔ حضرت امام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اونٹ کی زکوٰۃ مختلف عمر کے اونٹ جو واجب ہوئے ہیں اگر کسی کے پاس اس عمر کا اونٹ نہ ہو جس کا دینا صدقہ کے طورپر واجب ہوا تھا تو اس سے کم یا زیادہ عمر والا اونٹ بھی لیا جاسکے گا؟ مگر کم دینے کی صورت میں خود اپنی طرف سے اور زیادہ دینے کی صورت میں صدقہ وصول کرنے والے کی طرف سے روپیہ یا کوئی اور چیز اتنی مالیت کی دی جائے گی جس سے اس کمی یا زیادتی کا حق ادا ہوجائے۔ جیسا کہ تفصیلات حدیث مذکورہ میں دی گئی ہیں اور مزید تفصیلات حدیث ذیل میں آرہی ہیں۔


بَابُ زَكَاةِ الغَنَمِ

باب: بکریوں کی زکوٰۃ کا بیان


1454 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى الْأَنْصَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ أَنَّ أَنَسًا حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ هَذَا الْكِتَابَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْبَحْرَيْنِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَالَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ فَمَنْ سُئِلَهَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِ فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ الْإِبِلِ فَمَا دُونَهَا مِنْ الْغَنَمِ مِنْ كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ إِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ أُنْثَى فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ أُنْثَى فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ إِلَى سِتِّينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ فَإِذَا بَلَغَتْ وَاحِدَةً وَسِتِّينَ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ يَعْنِي سِتًّا وَسَبْعِينَ إِلَى تِسْعِينَ فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنْ الْإِبِلِ فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا مِنْ الْإِبِلِ فَفِيهَا شَاةٌ وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ شَاةٌ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ إِلَى مِائَتَيْنِ شَاتَانِ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةً فَلَيْسَ فِيهَا صَدَقَةٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا وَفِي الرِّقَّةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ بن مثنیٰ انصاری نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں بحرین ( کا حاکم بناکر ) بھیجا تو ان کو یہ پروانہ لکھ دیا۔ شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ یہ زکوٰۃ کا وہ فریضہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لیے فرض قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا۔ اس لیے جو شخص مسلمانوں سے اس پروانہ کے مطابق زکوٰۃ مانگے تو مسلمانوں کو اسے دے دینا چاہیے اور اگر کوئی اس سے زیادہ مانگے تو ہرگز نہ دے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری دینی ہوگی۔ ( پانچ سے کم میں کچھ نہیں ) لیکن جب اونٹوں کی تعداد پچیس تک پہنچ جائے تو پچیس سے پینتیس تک ایک ایک برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو مادہ ہوتی ہے۔ جب اونٹ کی تعداد چھتیس تک پہنچ جائے ( تو چھتیس سے ) پینتالیس تک دو برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھیالیس تک پہنچ جائے ( تو چھیالیس سے ) ساٹھ تک میں تین برس کی اونٹنی واجب ہوگی جو جفتی کے قابل ہوتی ہے۔ جب تعداد اکسٹھ تک پہنچ جائے ( تو اکسٹھ سے ) پچھترتک چار برس کی مادہ واجب ہوگی۔ جب تعداد چھہتر تک پہنچ جائے ( تو چھہتر سے ) نوے تک دو دو برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی۔ جب تعداد اکیانوے تک پہنچ جائے تو ( اکیانوے سے ) ایک سوبیس تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں واجب ہوں گی جو جفتی کے قابل ہوں۔ پھر ایک سوبیس سے بھی تعداد آگے بڑھ جائے تو ہر چالیس پر دو برس کی اونٹنی واجب ہوگی اور ہر پچاس پر ایک تین برس کی۔ اور اگر کسی کے پاس چار اونٹ سے زیادہ نہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی مگر جب ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دے اور ان بکریوں کی زکوٰۃ جو ( سال کے اکثر حصے جنگل یا میدان وغیرہ میں ) چرکر گزارتی ہیں اگر ان کی تعداد چالیس تک پہنچ گئی ہو تو ( چالیس سے ) ایک سو بیس تک ایک بکری واجب ہوگی اور جب ایک سوبیس سے تعداد بڑھ جائے ( تو ایک سوبیس سے ) سے دو سوتک دوبکریاں واجب ہوں گی۔ اگر دوسو سے بھی تعداد بڑھ جائے تو ( تو دو سو سے ) تین سو تک تین بکریاں واجب ہوں گی اور جب تین سو سے بھی تعداد آگے نکل جائے تو اب ہر ایک سوپر ایک بکری واجب ہوگی۔ اگر کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔ اور چاندی میں زکوٰۃ چالیسواں حصہ واجب ہوگی لیکن اگر کسی کے پاس ایک سونوے ( درہم ) سے زیادہ نہیں ہیں تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی مگر خوشی سے کچھ اگر مالک دینا چاہیے تو اور بات ہے۔
تشریح : زکوٰۃ ان ہی گائے‘ بیل یا اونٹوں یا بکریوں میں واجب ہے جو آدھے برس سے زیادہ جنگل میں چرلیتی ہوں اور اگر آدھے برس سے زیادہ ان کو گھر سے کھلانا پڑتا ہے تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اہلحدیث کے نزدیک سوا ان تین جانوروں یعنی اونٹ‘ گائے‘ بکری کے سوا اور کسی جانور میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ مثلاً گھوڑوں یا خچروں یا گدھوں میں۔ ( وحیدی )


بَابٌ: لاَ تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلاَ ذَاتُ عَوَارٍ، وَلاَ تَيْسٌ، إِلَّا مَا شَاءَ المُصَدِّقُ

باب: زکوٰۃ میں بوڑھا یا عیب دار یا نر جانور نہ


1455 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنِي ثُمَامَةُ أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ الصَّدَقَةَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَلَا تَيْسٌ إِلَّا مَا شَاءَ الْمُصَدِّقُ

ترجمہ : ہم سے محمد بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا مجھ سے ثمامہ نے بیان کیا ‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ احکام زکوٰۃ کے مطابق لکھا کہ زکوٰۃ میں بوڑھے، عیبی اور نرنہ لیے جائیں ‘ البتہ اگر صدقہ وصول کرنے والا مناسب سمجھے تو لے سکتا ہے۔
تشریح : مثلاً زکوٰۃ کے جانور سب مادیاں ہی مادیاں ہوں نرکی ضرورت ہوتو نرلے سکتا ہے یا کسی عمدہ نسل کے اونٹ یا گائے یا بکری کی ضرورت ہو اور گو اس میں عیب ہو مگر اس کی نسل لینے میں آءندہ فاءدہ ہوتو لے سکتا ہے۔


بَابُ أَخْذِ العَنَاقِ فِي الصَّدَقَةِ

باب: بکری کا بچہ زکوٰۃ میں لینا


1456 حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، ح وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عَنَاقًا كَانُوا يُؤَدُّونَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهَا

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی اور انہیں زہری نے ( دوسری سند ) اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد زکوٰۃ دینے سے انکار کرنے والوں کے متعلق فرمایا تھا ) قسم اللہ کی اگر یہ مجھے بکری کے ایک بچہ کو بھی دینے سے انکار کریں گے جسے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے تو میں ان کے اس انکار پر ان سے جہاد کروں گا۔


بَابُ أَخْذِ العَنَاقِ فِي الصَّدَقَةِ

باب: بکری کا بچہ زکوٰۃ میں لینا


1457 قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ أَنَّ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الحَقُّ

ترجمہ : عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے سوا اور کوئی بات نہیں تھی جیسا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جہاد کے لیے شرح صدر عطا فرمایا تھا اور پھر میں نے بھی یہی سمجھا کہ فیصلہ انہیں کا حق تھا۔
تشریح : بکری کا بچہ اس وقت زکوٰۃ میں لیا جائے گا کہ تحصیلدار مناسب سمجھے یا کسی شخص کے پاس نرے بچے ہی بچے رہ جائیں۔ حضرت امام بخاری نے حدیث عنوان میں یہ اشارہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ان لفظوں سے نکالا کہ اگر یہ لوگ بکری کا ایک بچہ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیا کرتے تھے اس سے بھی انکار کریں گے تو میں ان پر جہاد کروں گا۔ پہلے پہل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں سے جو زکوٰۃ نہ دیتے تھے لڑنے میں تامل ہوا کیونکہ وہ کلمہ گو تھے۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان سے زیادہ علم تھا۔ آخر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ان سے متفق ہوگئے۔ اس حدیث سے یہ صاف نکلتا ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینے سے آدمی کا اسلام پورا نہیں ہوتا۔ جب تک اسلام کے تمام اصول اور قطعی فرائض کو نہ مانے۔ اگر اسلام کے ایک قطعی فرض کا کوئی انکار کرے‘ جیسے نماز یا روزہ یا زکوٰۃ یا جہاد یا حج تو وہ کافر ہوجاتا ہے اور اس پر جہاد کرنا درست ہے۔ ( وحیدی )


بَابُ لاَ تُؤْخَذُ كَرَائِمُ أَمْوَالِ النَّاسِ فِي الصَّدَقَةِ

باب: زکوٰۃ میں لوگوں کے عمدہ اور چھٹے


1458 حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامٍ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْيَمَنِ قَالَ إِنَّكَ تَقْدَمُ عَلَى قَوْمٍ أَهْلِ كِتَابٍ فَلْيَكُنْ أَوَّلَ مَا تَدْعُوهُمْ إِلَيْهِ عِبَادَةُ اللَّهِ فَإِذَا عَرَفُوا اللَّهَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِهِمْ وَلَيْلَتِهِمْ فَإِذَا فَعَلُوا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْهِمْ زَكَاةً مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِذَا أَطَاعُوا بِهَا فَخُذْ مِنْهُمْ وَتَوَقَّ كَرَائِمَ أَمْوَالِ النَّاسِ

ترجمہ : ہم سے امیہ بن بسطام نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے زید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے روح بن قاسم نے بیان کیا ‘ ان سے اسماعیل بن امیہ نے ‘ ان سے یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ ان سے ابومعبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ دیکھو! تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ( عیسائی یہودی ) ہیں۔ اس لیے سب سے پہلے انہیں اللہ کی عبادت کی دعوت دینا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کو پہچان لیں ( یعنی اسلام قبول کرلیں ) تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ اسے بھی ادا کریں تو انہیں بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر زکوٰۃ فرض قرار دی ہے جو ان کے سرمایہ داروں سے لی جائے گی ( جو صاحب نصاب ہوں گے ) اور انہیں کے فقیروں میں تقسیم کردی جائے گی۔ جب وہ اسے بھی مان لیں تو ان سے زکوٰۃ وصول کر۔ البتہ ان کی عمدہ چیزیں ( زکوٰۃ کے طورپر لینے سے ) پرہیز کرنا۔
تشریح : ان کے فقیروں میں تقسیم کا مطلب یہ کہ ان ہی کے ملک کے فقیروں کو۔ اس معنی کے تحت ایک ملک کو زکوٰۃ دوسرے ملک کے فقیروں کو بھیجنا نا جائز قرار دیا گیا ہے۔ مگر جمہورعلماءکہتے ہیں کہ مراد مسلمان فقراءہیں خواہ وہ کہیں ہوں اور کسی ملک کے ہوں۔ اس معنی کے تحت زکوٰۃ کا دوسرے ملک میں بھیجنا درست رکھا گیا ہے۔ حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں۔ وقال شیخنا فی شرح الترمذی والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم عن عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ ) یعنی ہمارے شیخ مولانا عبدالرحمن شرح ترمذی میں فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ صرف اسی صورت میں وہاں سے زکوٰۃ دوسری جگہ دی جائے جب وہاں مستحق لوگ نہ ہوں یا وہاں سے نقل کرنے میں کوئی مصلحت ہو یا بہت ہی اہم ہو اور زیادہ سے زیادہ نفع بخش ہو کہ وہ نہ بھیجنے کی صورت میں حاصل نہ ہو۔ ایسی حالت میں دوسری جگہ میں زکوٰۃ نقل کی جاسکتی ہے۔


بَابٌ: لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ

باب: پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں


1459 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْمَازِنِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ مِنْ التَّمْرِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنْ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ

ترجمہ : ہم عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں محمد بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ مازنی نے ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وسق سے کم کھجوروں میں زکوٰۃ نہیں اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں۔ اسی طرح پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
تشریح : اس حدیث کے ذیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: عن ابی سعید خمس اواق من الورق صدقۃ وہو مطابق للفظ الترجمۃ وکان للمصنف اراد ان یبین بالترجمۃ ماابہم فی لفظ الحدیث اعتماداً علی طریق الاخری واواق بالتنوین وباثبات التحتانیۃ مشدداً ومحففا جمع اوقیۃ بضم الہمزۃ وتشدید التحتانیۃ وحکی الجیانی وقیۃ بحذف الالف وفتح الواو ومقدار الاوقیۃ فی ہذا الحدیث اربعون درہما بالاتفاق والمراد بالدرہم الخالص من الفضۃ سواءکان مضروبا اوغیر مضروب۔ اوسق جمع وسق بفتح الواو ویجوز کسرہا کما حکاہ صاحب المحکم وجمعہ حینئذ اوساق کحمل واحمال وقد وقع کذلک فی روایۃ المسلم وہو ستون صاعا بالاتفاق ووقع فی روایۃ ابن ماجۃ من طریق ابی البختری عن ابی سعید نحو ہذا الحدیث وفیہ والوسق ستون صاعا۔ وقد اجمعوا علی ذلک فی خمسۃ اوسق فمازاد اجمع العلماءعلی اشتراط الحول فی الماشیۃ والنقد دون المعشرات واللہ اعلم ( فتح الباری ) خلاصہ عبارت یہ کہ پانچ اوقیہ چاندی میں زکوٰۃ ہے۔ یہی لفظ باب کے مطابق ہے اور دوسری روایت پر اعتماد کرتے ہوئے لفظ حدیث میں جو ابہام تھا‘ اسے ترجمہ کے ذریعہ بیان کردیا۔ اور لفظ اواق اوقیہ کی جمع ہے جس کی مقدار متفقہ طورپر چالیس درہم ہے۔ درہم سے خالص چاندی کا سکہ مراد ہے جو مضروب ہویا غیر مضروب۔ لفظ اوسق وسق کی جمع ہے اور وہ متفقہ طورپر ساٹھ صاع پر بولا گیا ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ عشر کے لیے پانچ وسق کا ہونا ضروری ہے اور جانوروں کے لیے‘ نقدی کے لیے ایک سال کا گزر جانا بھی شرط ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ اجناس جن سے عشر نکالا جاتا ہے ان کے لیے سال گزرنے کی شرط نہیں ہے۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ فرماتے ہیں۔ قلت ہذا الحدیث صریح فی ان النصاب شرط لوجوب العشر اونصف العشر فلا تجب الزکوٰۃ فی شئی من الزروع والثمار حتی تبلغ خمسۃ اوسق وہذا مذہب اکثر اہل العلم والصاع اربعۃ امداد والمد رطل وثلث رطل فالصاع خمسۃ ارطال وثلث رطل ذلک بالرطل الذی وزنہ مائۃ درہم وثمانیۃ وعشرون درہما بالدراہم اللتی کل عشرۃ منہا وزن سبعۃ مثاقیل ( مرعاۃ ) یعنی میں کہتا ہوں کہ حدیث ہذا صراحت کے ساتھ بتلا رہی ہے کہ عشریا نصف عشر کے لیے نصاب شرط ہے پس کھیتی اور پھلوں میں کوئی زکوٰۃ فرض نہ ہوگی جب تک وہ پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے اور اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے اور ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔ اور صاع چار مد کا ہوتا ہے اور مد ایک رطل اور تہائی رطل کا پس صاع کے پانچ اور ثلث رطل ہوئے اور یہ حساب اس رطل سے ہے جس کا وزن ایک سو اٹھائیس درہم کے برابر ہوں اور درہم سے مراد وہ جس کے لیے دس درہم کا وزن سات مثقال کے برابر ہو۔ بعض علمائے احناف ہند نے یہاں کی زمینوں سے عشر کو ساقط قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ جو یہاں کی اراضی کو خراجی قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث عبیداللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: اختلف اصحاب الفتوی من الحنفیۃ فی اراضی المسلمین فی بلاد الہند فی زمن الا نکلیز وتخبطوا فی ذالک فقال بعضہم لاعشر فیہا لانہا اراضی دارالحرب وقال بعضہم ان اراضی الہند لیست بعشریۃ ولا خراجیۃ بل اراضی الحوز ای اراضی بیت المال واراض المملکۃ والحق عندنا وجوب العشر فی اراضی الہند مطلقا ای علی ای صفۃ کانت فیجب العشراو نصفہ علی المسلم فیما یحصل لہ من الارض اذا بلغ النصاب سواءکانت الارض ملکالہ اولغیرہ زرع فیہا علی سبیل الا جارۃ اوالعاریۃ اوالمزارعۃ لان العشر فی الحب والزرع والعبرۃ لمن یملکہ فیجب الزکوٰۃ فیہ علی مالکہ المسلم ولیس من مونۃ الارض فلایبحث عن صفتہا والفربیۃ التی تاخذہا المملکۃ من اصحاب المزارع فی الہند لیست خراجا شرعیا ولا مما یسقط فریضۃ العشر کما لا یخفی وارجح الی المغنی ( ص 768/2 ) ( مرعاۃ‘ ج:3 ص: 38 ) یعنی انگریزی دور میں ہندی مسلمانوں کی اراضیات کے متعلق علمائے احناف نے جو صاحبان فتویٰ تھے‘ بعض نے یہ خبط اختیار کیا کہ ان زمینوں کی پیداوار میں عشر نہیں ہے‘ اس لیے کہ یہ اراضی دارالحرب ہیں۔ بعض نے کہا کہ یہ زمینیں نہ تو عشری ہیں نہ خراجی بلکہ یہ حکومت کی زمینیں ہیں اور ہمارے نزدیک امرحق یہ ہے کہ اراضی ہند میں مطلقاً پیداوار نصاب پر مسلمانوں کے لیے عشر واجب ہے‘ چاہے وہ زمین ان کی ملک ہو یا غیر کی ہو وہ کاشتکار ہوں یا ٹھیکیدار ہوں بہر حال اناج کی پیداوار جو نصاب کو پہنچ جائے عشرو اجب ہے اور اس بارے میں زمین پر اخراجات اور سرکاری مالیانہ وغیرہ کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا کیونکہ ہندوستان میں سرکار جو محصول لینی ہے‘ وہ خراج شرعی نہیں ہے اور نہ اس سے عشر ساقط ہوسکتا ہے۔


بَابُ زَكَاةِ البَقَرِ

باب: گائے بیل کی زکوۃ کا بیان


1460 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أَوْ وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ أَوْ كَمَا حَلَفَ مَا مِنْ رَجُلٍ تَكُونُ لَهُ إِبِلٌ أَوْ بَقَرٌ أَوْ غَنَمٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا إِلَّا أُتِيَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا تَكُونُ وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا جَازَتْ أُخْرَاهَا رُدَّتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ رَوَاهُ بُكَيْرٌ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے معرور بن سوید سے بیان کیا ‘ ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا ( آپ نے قسم اس طرح کھائی ) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپ نے قسم کھائی ہو ( اس تاکید کے بعد فرمایا ) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا۔ دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازہ کرکے۔ پھر وہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی اور سینگ مارے گی۔ جب آخری جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا۔ ( اور اسے اپنے سینگ مارے گا اور کھروں سے روندے گا ) اس وقت تک ( یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ اس حدیث کو بکیربن عبداللہ نے ابوصالح سے روایت کیا ہے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
تشریح : اس حدیث سے باب کا مطلب یعنی گائے بیل کی زکوٰۃ دینے کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اس امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے۔ مسلم کی روایت میں اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوٰۃ نہ ادا کرتا ہو۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوٰۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی۔ اس لیے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوٰۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی۔


بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ

باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا


1461 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُسَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ المَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران: قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ: لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ آل عمران وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَخٍ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الأَقْرَبِينَ» فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ، تَابَعَهُ رَوْحٌ، وَقَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَإِسْمَاعِيلُ: عَنْ مَالِكٍ «رَايِحٌ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصارمیں سب سے زیادہ مالدار تھے۔ اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے۔ اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیرحاءکا باغ تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی “ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ ” یہ سن کر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پاسکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ اور مجھے بیرحاءکا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے۔ اس لیے میں اسے اللہ تعالیٰ کے لیے خیرات کرتا ہوں۔ اس کی نیکی اور اس کے ذخیرئہ آخرت ہونے کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ خوب! یہ تو بڑا ہی آمدنی کا مال ہے۔ یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے۔ اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی۔ اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا۔ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متابعت روح نے کی ہے۔ یحیٰی بن یحیٰی اور اسماعیل نے مالک کے واسطہ سے ( رابح کے بجائے ) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح : اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے۔ یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کرسکتی ہے۔ اور گویہ صدقہ فرض زکوٰۃ نہ تھا۔ مگر فرض زکوٰۃ کو بھی اس پر قیاس کیاہے۔ بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہوجیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوٰۃ دینا درست نہیں۔ اور چونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ زندہ تھے‘ اس لیے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پر واجب نہ تھا۔ لہٰذا ماں کو اس پر خیرات خرچ کرنا جائز ہوا۔ واللہ اعلم۔ ( وحیدی )


بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ

باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا


1462 حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ أَخْبَرَنِي زَيْدٌ هُوَ ابْنُ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى الْمُصَلَّى ثُمَّ انْصَرَفَ فَوَعَظَ النَّاسَ وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ فَقَالَ أَيُّهَا النَّاسُ تَصَدَّقُوا فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ فَقَالَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ فَقُلْنَ وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ ثُمَّ انْصَرَفَ فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذِهِ زَيْنَبُ فَقَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ فَقِيلَ امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ نَعَمْ ائْذَنُوا لَهَا فَأُذِنَ لَهَا قَالَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنَّكَ أَمَرْتَ الْيَوْمَ بِالصَّدَقَةِ وَكَانَ عِنْدِي حُلِيٌّ لِي فَأَرَدْتُ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِهِ فَزَعَمَ ابْنُ مَسْعُودٍ أَنَّهُ وَوَلَدَهُ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَيْهِمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ زَوْجُكِ وَوَلَدُكِ أَحَقُّ مَنْ تَصَدَّقْتِ بِهِ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی ‘ انہیں عیاض بن عبداللہ نے ‘ اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ پھر ( نماز کے بعد ) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا۔ فرمایا : لوگو! صدقہ دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہی فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے۔ عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمایا ‘ اس لیے کہ تم لعن وطعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کار آزمودہ مرد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میںلے لیتی ہو۔ ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ آئیں اور اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ زینب آئی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کون سی زینب ( کیونکہ زینب نام کی بہت سی عورتیں تھیں ) کہا گیا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اچھا انہیں اجازت دے دو ‘ چنانچہ اجازت دے دی گئی۔ انہوں نے آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آج آپ نے صدقہ کا حکم دیا تھا۔ اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی۔ لیکن ( میرے خاوند ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان ( مسکینوں ) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا۔ تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں جنہیں تم صدقہ کے طورپر دوگی۔ ( معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں )


بَابٌ: لَيْسَ عَلَى المُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ

باب: مسلمان پراس کے گھوڑوں کی زکوۃ دینا ضرور نہیں ہے


1463 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ قَالَ سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي فَرَسِهِ وَغُلَامِهِ صَدَقَةٌ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے سلیمان بن یسار سے سنا ‘ ان سے عراک بن مالک نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر اس کے گھوڑے اور غلام کی زکوٰۃ واجب نہیں۔


بَابٌ: لَيْسَ عَلَى المُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ صَدَقَةٌ

باب: مسلمان کو اپنے غلام ( لونڈی ) کی زکوٰۃ


1464 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاكٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا خُثَيْمُ بْنُ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ صَدَقَةٌ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید نے بیان کیا ‘ ان سے خثیم بن عراک بن مالک نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ( دوسری سند ) اور ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خثیم بن عراک بن مالک نے بیان کیا ‘ انہوں نے اپنے باپ سے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمان پر نہ اس کے غلام میں زکوٰۃ فرض ہے اور نہ گھوڑے میں۔
تشریح : اہلحدیث کا محقق مذہب یہی ہے کہ غلاموں اور گھوڑوں میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں ہے گو تجارت کے لیے ہوں۔ مگر ابن مندر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تجارت کے لیے ہوں تو ان میں زکوٰۃ ہے۔ اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ ان ہی جنسوں میں لازم ہے جن کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا۔ یعنی چوپایوں میں سے اونٹ‘ گائے‘ اور بیل بکریوں میں اور نقد مال سے سونے چاندی میں اور غلوں میں سے گیہوں اور جو اور جوار اور میووں میں سے کھجور‘ اور سوکھی انگور میں‘ بس ان کے سوا اور کسی مال میں زکوٰۃ نہیں گو وہ تجارت اور سودا گری ہی کے لیے ہو اور ابن منذر نے جو اجماع اس کے خلاف پر نقل کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ جب ظاہر یہ اور اہلحدیث اس مسئلہ میں مختلف ہیں تو اجماع کیوں کرہوسکتا ہے۔ اور ابوداؤد کی حدیث اور دار قطنی کی حدیث کہ جس مال کو ہم بیچنے کے لیے رکھیں اس میں آپ نے زکوٰۃ کا حکم دیا‘ یا کپڑے میں زکوٰۃ ہے ضعیف ہے۔ حجت کے لیے لائق نہیں۔ اور آیت قرآن خذ من اموالہم صدقۃ میں اموال سے وہی مال مراد ہیں جن کی زکوٰۃ کی تصریح حدیث میں آئی ہے۔ یہ امام شوکانی کی تحقیق ہے اور سید علامہ نے اس کی تائید کی ہے۔ اس بناپر جواہر‘ موتی‘ مونگا‘ یاقوت‘ الماس اور دوسری صدہا اشیائے تجارتی میں جیسے گھوڑے، گاڑیاں، کتابیں،کاغذ میں زکوٰۃ واجب نہ ہوگی۔ مگر چونکہ ائمہ اربعہ اور جمہور علماءاموال تجارتی میں وجوب زکوٰۃ کی طرف گئے ہیں لہٰذا احتیاط اور تقویٰ یہی ہے کہ ان میں سے زکوٰۃ نکالے۔ ( وحیدی )


بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى اليَتَامَى

باب: یتیموں پر صدقہ کرنا بڑا ثواب ہے


1465 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ يَحْيَى عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَلَسَ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ فَقَالَ إِنِّي مِمَّا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ عَلَيْكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَزِينَتِهَا فَقَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ فَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ قَالَ فَمَسَحَ عَنْهُ الرُّحَضَاءَ فَقَالَ أَيْنَ السَّائِلُ وَكَأَنَّهُ حَمِدَهُ فَقَالَ إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةَ الْخَضْرَاءِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتْ عَيْنَ الشَّمْسِ فَثَلَطَتْ وَبَالَتْ وَرَتَعَتْ وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ مَا أَعْطَى مِنْهُ الْمِسْكِينَ وَالْيَتِيمَ وَابْنَ السَّبِيلِ أَوْ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ مَنْ يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ وَيَكُونُ شَهِيدًا عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ہشام دستوائی نے ‘ یحیٰی سے بیان کیا۔ ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عطاءبن یسار نے بیان کیا ‘ اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشحالی اور اس کی زیبائش وآرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ایک شخص نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اس لیے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی۔ تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تم سے بات نہیں کرتے۔ پھر ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ بیان کیا کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ صاف کیا ( جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کو آنے لگتا تھا ) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں۔ ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ( سوال کی ) تعریف کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی ( مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے ) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہےں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہےں۔ البتہ ہریالی چرنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کرکے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر چرتا ہے۔ اسی طرح یہ مال ودولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے۔ اور مسلمان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین ‘ یتیم اور مسافر کو دیا جائے۔ یا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ہاں اگر کوئی شخص زکوٰۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔
تشریح : اس طویل حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے مستقبل کی بابت کئی ایک اشارے فرمائے جن میں سے بیشتر باتیں وجود میں آچکی ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ نے مسلمانوں کے عروج واقبال کے دور پر بھی اشارہ فرمایا۔ اور یہ بھی بتلایا کہ دنیا کی ترقی مال ودولت کی فراوانی یہاں کا عیش وعشرت یہ چیزیں بظاہر خیر ہیں مگر بعض دفعہ ان کا نتیجہ شرسے بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کیا خیر کبھی شرکا باعث ہوجائے گی۔ اس سوال کے جواب کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے انتظار میں خاموش ہوگئے۔ جس سے کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ آپ اس سوال سے خفا ہوگئے ہیں۔ کافی دیر بعدجب اللہ پاک نے آپ کو بذریعہ وحی جواب سے آگاہ فرمادیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال دے کر جو حدیث میںمذکور ہے سمجھایا اور بتلایا کہ گو دولت حق تعالیٰ کی نعمت اور اچھی چیز ہے مگر جب بے موقع اور گناہوں میں صرف کی جائے تو یہی دولت عذاب بن جاتی ہے۔ جیسے فصل کی ہری گھاس وہ جانوروں کے لیے بڑی عمدہ نعمت ہے۔ مگر جو جانور ایک ہی مرتبہ گر کر اس کو حد سے زیادہ کھا جائے تو اس کے لیے یہی گھاس زہر کا کام دیتی ہے۔ جانور پر کیا منحصر ہے۔ یہی روٹی جو آدمی کے لیے باعث حیات ہے اگر اس میں بے اعتدالی کی جائے تو باعث موت بن جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا قحط سے متاثر بھوکے لوگ جب ایک ہی مرتبہ کھانا پالیتے ہیں اور حد سے زیادہ کھا جاتے ہیں تو بعض دفعہ ایسے لوگ پانی پیتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہلاک ہوجاتے ہیں۔ یہ کھانا ان کے لیے زہر کا کام دیتاہے۔ پس جو جانور ایک ہی مرتبہ ربیع کی پیداوار پر نہیں گرتا بلکہ سوکھی گھاس پر جو بارش سے ذرا ذرا ہری نکلتی ہے اسکے کھانے پر قناعت کرتا ہے۔ اور پھر کھانے کے بعد سورج کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوکر اس کے ہضم ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ پاخانہ پیشاب کرتا ہے تو وہ ہلاک نہیں ہوتا۔ اسی طرح دنیا کا مال بھی ہے جو اعتدال سے حرام وحلال کی پابندی کے ساتھ اس کو کماتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ کھاتا ہے۔ مسکین‘ یتیم‘ مسافروں کی مدد کرتا ہے تو وہ بچارہتا ہے۔ مگر جو حریص کتے کی طرح دنیا کے مال واسباب پر گرپڑتا ہے اور حلال وحرام کی قید اٹھا دیتا ہے۔ آخر وہ مال اس کو ہضم نہیں ہوتا۔ اور استفراغ کی ضرورت پڑتی ہے۔ کبھی بدہضمی ہوکر اسی مال کی دھن میں اپنی جان بھی گنوادیتا ہے۔ پس مال دنیا کی ظاہری خوبصورتی پر فریب مت کھاؤ‘ ہوشیار رہو‘ حلوہ کے اندر زہرلپٹا ہوا ہے۔ حدیث کے آخری الفاظ کالذی یا کل ولا یشبع میں ایسے لالچی طماع لوگوں پر اشارہ ہے جن کو جوع البقر کی بیماری ہوجاتی ہے اور کسی طرح ان کی حرص نہیں جاتی۔ حدیث اور باب میں مطابقت حدیث کا جملہ فنعم صاحب المسلم مااعطی منہ المسکین والیتیم وابن السبیل ہے کہ اس سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔


بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي الحَجْرِ

باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی


1466 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي شَقِيقٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَذَكَرْتُهُ لِإِبْرَاهِيمَ ح فَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ سَوَاءً قَالَتْ كُنْتُ فِي الْمَسْجِدِ فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ وَكَانَتْ زَيْنَبُ تُنْفِقُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ وَأَيْتَامٍ فِي حَجْرِهَا قَالَ فَقَالَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ سَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَيْكَ وَعَلَى أَيْتَامٍ فِي حَجْرِي مِنْ الصَّدَقَةِ فَقَالَ سَلِي أَنْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ عَلَى الْبَابِ حَاجَتُهَا مِثْلُ حَاجَتِي فَمَرَّ عَلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا سَلْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَجْزِي عَنِّي أَنْ أُنْفِقَ عَلَى زَوْجِي وَأَيْتَامٍ لِي فِي حَجْرِي وَقُلْنَا لَا تُخْبِرْ بِنَا فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ فَقَالَ مَنْ هُمَا قَالَ زَيْنَبُ قَالَ أَيُّ الزَّيَانِبِ قَالَ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ نَعَمْ لَهَا أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ ان سے شقیق نے ‘ ان سے عمر وبن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہ نے۔ ( اعمش نے ) کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نحعی سے کیا۔ تو انہوں نے بھی مجھ سے ابوعبیدہ سے بیان کیا۔ ان سے عمروبن حارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب نے ‘ بالکل اسی طرح حدیث بیان کی ( جس طرح شقیق نے کی کہ ) زینب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا۔ آپ یہ فرما رہے تھے ‘ صدقہ کرو ‘ خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو۔ اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور چند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پر اور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ اس وقت میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا۔ جو میری ہی جیسی ضرورت لے کر موجود تھیں۔ ( جو زینب ابومسعود انصاری کی بیوی تھیں ) پھر ہمارے سامنے سے بلال گذرے۔ تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کرے گا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں۔ ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا۔ وہ اندر گئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہہ دیا کہ زینب نام کی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بے شک درست ہے۔ اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا۔ ایک قرابت داری کا اور دوسرا خیرات کرنے کا۔
تشریح : اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فرض صدقہ یعنی زکوٰۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور صاحبین اور امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو ( بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں ) دینا درست ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوٰۃ دیناد رست نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے۔ ( وحیدی ) لیکن خود حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہاں زکوٰۃ فرض کو مراد لیا ہے۔ جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔


بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الزَّوْجِ وَالأَيْتَامِ فِي الحَجْرِ

باب: عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی


1467 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبْدَةُ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِيَ أَجْرٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى بَنِي أَبِي سَلَمَةَ إِنَّمَا هُمْ بَنِيَّ فَقَالَ أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ فَلَكِ أَجْرُ مَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبدہ نے ‘ ان سے ہشام نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے ‘ ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ‘ ان سے ام سلمہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! اگر میں ابوسلمہ ( اپنے پہلے خاوند ) کے بیٹوں پر خرچ کروں تو درست ہے یا نہیں۔ کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر۔ تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا۔
تشریح : محتاج اولاد پر صدقپ خیرات حتی کہ مال ذکوۃ دینے کا جواز ثابت ہوا


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَفِي الرِّقَابِ وَالغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ

باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان


1468 حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ فَقِيلَ مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَأَمَّا خَالِدٌ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدْ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا تَابَعَهُ ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ هِيَ عَلَيْهِ وَمِثْلُهَا مَعَهَا وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ حُدِّثْتُ عَنِ الْأَعْرَجِ بِمِثْلِهِ

ترجمہ : ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ وصول کرنے کا حکم دیا۔ پھر آپ سے کہا گیا کہ ابن جمیل اور خالد بن ولید اور عباس بن عبدالمطلب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن جمیل یہ شکر نہیں کرتا کہ کل تک وہ فقیر تھا۔ پھر اللہ نے اپنے رسول کی دعا کی برکت سے اسے مالدار بنادیا۔ باقی رہے خالد ‘ تو ان پر تم لوگ ظلم کرتے ہو۔ انہوں نے تو اپنی زرہیں اللہ تعالیٰ کے راستے میں وقف کررکھی ہیں۔ اور عباس بن عبدالمطلب ‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ اور ان کی زکوٰۃ انہی پر صدقہ ہے۔ اور اتنا ہی اور انہیں میری طرف سے دینا ہے۔ اس روایت کی متابعت ابوالزناد نے اپنے والد سے کی اور ابن اسحاق نے ابوالزناد سے یہ الفاظ بیان کیے۔ ہی علیہ ومثلہا معہا ( صدقہ کے لفظ کے بغیر ) اور ابن جریج نے کہا کہ مجھ سے اعرج سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی گئی۔
تشریح : اس حدیث میں تین اصحاب کا واقعہ ہے۔ پہلا ابن جمیل ہے جو اسلام لانے سے پہلے محض قلاش اور مفلس تھا۔ اسلام کی برکت سے مالدار بن گیا تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ اب وہ زکوٰۃ دینے میں کراہتا ہے اور خفا ہوتا ہے۔ اور حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا جب انہوں نے اپنا سارا مال واسباب ہتھیار وغیرہ فی سبیل اللہ وقف کردیا ہے تو اب وقفی مال کی زکوٰۃ کیوں دینے لگا۔ اللہ کی راہ میں مجاہدین کو دینا یہ خود زکوٰۃ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ خالد تو ایسا سخی ہے کہ اس نے ہتھیار گھوڑے وغیرہ سب راہ خدا میں دے ڈالے ہیں۔ وہ بھلا فرض زکوٰۃ کیسے نہ دے گا تم غلط کہتے ہو کہ وہ زکوٰۃ نہیں دیتا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ زکوٰۃ بلکہ اس سے دونا میں ان پر سے تصدق کروں گا۔ مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ عباس رضی اللہ عنہ کی زکوٰۃ بلکہ اس کا دونا روپیہ میں دوں گا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ دو برس کی زکوٰۃ پیشگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودے چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے ان تحصیل کرنے والوں کو زکوٰۃ نہ دی۔ بعضوں نے کہا مطلب یہ ہے کہ بالفعل ان کو مہلت دو۔ سال آئندہ ان سے دوہری یعنی دو برس کی زکوٰۃ وصول کرنا۔ ( مختصر ازوحیدی )


بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ

باب: سوال سے بچنے کا بیان


1469 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّى نَفِدَ مَا عِنْدَهُ فَقَالَ مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک نے ‘ ابن شہاب سے خبر دی ‘ انہیں عطاءبن یزید لیثی نے اور انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ انصار کے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو آپ نے انہیں دیا۔ پھر انہوں نے سوال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا۔ یہاں تک کہ جو مال آپ کے پاس تھا۔ اب وہ ختم ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے پاس جو مال ودولت ہوتو میں اسے بچا کر نہیں رکھوں گا۔ مگر جو شخص سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے سوال کرنے سے محفوظ ہی رکھتا ہے۔ اور جو شخص بے نیازی برتتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز بنادیتا ہے اور جو شخص اپنے اوپر زور ڈال کر بھی صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اسے صبرو استقلال دے دیتا ہے۔ اور کسی کو بھی صبر سے زیادہ بہتر اور اس سے زیادہ بے پایاں خیر نہیں ملی۔ ( صبر تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے )
تشریح : شریعت اسلامیہ کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک یہ خوبی بھی کس قدر اہم ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے‘سوال کرنے سے مختلف طریقوں کے ساتھ ممانعت کی ہے اور ساتھ ہی اپنے زور بازو سے کمانے اور رزق حاصل کرنے کی ترغیبات دلائی ہیں۔ مگر پھر بھی کتنے ہی ایسے معذورین مرد عورت ہوتے ہیں جن کو بغیر سوال کئے چارہ نہیں۔ ان کے لیے فرمایا وَاَمَّا السَّائِلَ فَلاَ تَنہَر یعنی سوال کرنے والوں کو نہ ڈانٹو بلکہ نرمی سے ان کو جواب دے دو۔ حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں۔ جن کا نام سعد بن مالک ہے۔ اور یہ انصاری ہیں۔ جو کنیت ہی سے زیادہ مشہور ہیں۔ حافظ حدیث اور صاحب فضل و عقل علمائے کبار صحابہ میں ان کا شمار ہے 84 سال کی عمر پائی اور 74 ھ میں انتقال کیا اور جنت البقیع میں سپرد خاک کئے گئے رضی اللہ عنہ وارضاہ۔


بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ

باب: سوال سے بچنے کا بیان


1470 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا فَيَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی ‘ انہیں ابوالزناد نے ‘ انہیں اعرج نے ‘ انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے ( پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے ) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آکر سوال کرے۔ پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔
تشریح : حدیث ہذا سے یہ نکلتا ہے کہ ہاتھ سے محنت کرکے کھانا کمانا نہایت افضل ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ کمائی کے تین اصول ہیں۔ ایک زراعت‘ دوسری تجارت‘ تیسری صنعت وحرفت۔ بعضوں نے کہا ان تینوں میں تجارت افضل ہے۔ بعضوں نے کہا زراعت افضل ہے۔ کیونکہ اس میں ہاتھ سے محنت کی جاتی ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں ہے جو ہاتھ سے محنت کرکے پیدا کیا جائے‘ زراعت کے بعد پھر صنعت افضل ہے۔ اس میں بھی ہاتھ سے کام کیا جاتا ہے۔ اور نوکری تو بدترین کسب ہے۔ ان احادیث سے یہ بھی ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محنت کرکے کمانے والے مسلمان پر کس قدر محبت کا اظہار فرمایا کہ اس کی خوبی پر آپ نے اللہ پاک کی قسم کھائی۔ پس جو لوگ محض نکمے بن کر بیٹھے رہتے ہیں اور دوسروں کے دست نگر رہتے ہیں۔ پھر قسمت کا گلہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ لوگ عنداللہ وعندالرسول اچھے نہیں ہیں۔


بَابُ الِاسْتِعْفَافِ عَنِ المَسْأَلَةِ

باب: سوال سے بچنے کا بیان


1471 حَدَّثَنَا مُوسَى حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَأْتِيَ بِحُزْمَةِ الْحَطَبِ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا فَيَكُفَّ اللَّهُ بِهَا وَجْهَهُ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ أَعْطَوْهُ أَوْ مَنَعُوهُ

ترجمہ : ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے والد نے ‘ ان سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اگر ( ضرورت مند ہوتو ) اپنی رسی لے کر آئے اور لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر اپنی پیٹھ پر رکھ کر لائے۔ اور اسے بیچے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو محفوظ رکھ لے تو یہ اس سے اچھاہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرتا پھرے ‘ اسے وہ دیں یا نہ دیں۔
تشریح : اس حدیث کے راوی حضرت زبیر بن عوام ہیں جن کی کنیت ابوعبداللہ قریشی ہے۔ ان کی والدہ حضرت صفیہ عبدالمطلب کی بیٹی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی ہیں۔ یہ اور ان کی والدہ شروع میں ہی اسلام لے آئے تھے جب کہ ان کی عمر سولہ سال کی تھی۔ اس پر ان کے چچا نے دھویں سے ان کا دم گھوٹ کر تکلیف پہنچائی تاکہ یہ اسلام چھوڑ دیں مگر انہوں نے اسلام کو نہ چھوڑا۔ یہ تمام غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور یہ وہ ہیں جنہوں نے سب سے اول تلوار اللہ کے راستے میں سونتی۔ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ احد میں ڈٹے رہے۔ اور عشرہ مبشرہ میں ان کا بھی شمار ہے۔ چونسٹھ سال کی عمر میں بصرہ میں شہید کردئیے گئے۔ یہ حادثہ 36 ھ میں پیش آیا۔ اول وادی سباع میں دفن ہوئے۔ پھر بصرہ میں منتقل کردئیے گئے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔


بَابُ مَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلاَ إِشْرَافِ نَفْسٍ {وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالمَحْرُومِ

باب: اگر اللہ پاک کسی کو بن مانگے


1473 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ خُذْهُ إِذَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ شَيْءٌ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے زہری نے ‘ ان سے سالم نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی چیز عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ آپ مجھ سے زیادہ محتاج کو دے دیجئے۔ لیکن آنحضور فرماتے کہ لے لو ‘ اگر تمہیں کوئی ایسا مال ملے جس پر تمہارا خیال نہ لگا ہوا ہو اور نہ تم نے اسے مانگا ہوتو اسے قبول کرلیا کرو۔ اور جو نہ ملے تو اس کی پرواہ نہ کرو اور اس کے پیچھے نہ پڑو۔


بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا

باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے


1474 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ، حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ القِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةُ لَحْمٍ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے کہا ‘ کہ میں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہو ںنے کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آدمی ہمیشہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے دن اس طرح اٹھے گا کہ اس کے چہرے پر ذرا بھی گوشت نہ ہوگا۔


بَابُ مَنْ سَأَلَ النَّاسَ تَكَثُّرًا

باب: اگر کوئی شخص اپنی دولت بڑھانے


1475 وَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ القِيَامَةِ، حَتَّى يَبْلُغَ العَرَقُ نِصْفَ الأُذُنِ، فَبَيْنَا هُمْ كَذَلِكَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» وَزَادَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ: فَيَشْفَعُ لِيُقْضَى بَيْنَ الخَلْقِ، فَيَمْشِي حَتَّى يَأْخُذَ بِحَلْقَةِ البَابِ، فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اللَّهُ مَقَامًا مَحْمُودًا، يَحْمَدُهُ أَهْلُ الجَمْعِ كُلُّهُمْ وَقَالَ مُعَلًّى: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُسْلِمٍ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ

ترجمہ : اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن سورج اتنا قریب ہو جائے گا کہ پسینہ آدھے کان تک پہنچ جائے گا۔ لوگ اسی حال میں اپنی مخلصی کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے فریاد کریں گے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام سے۔ اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ عبداللہ نے اپنی روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے ابن ابی جعفر نے بیان کیا ‘ کہ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت کریں گے کہ مخلوق کا فیصلہ کیا جائے۔ پھر آپ بڑھیں گے اور جنت کے دروازے کا حلقہ تھام لیں گے۔ اور اسی دن اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود عطا فرمائے گا۔ جس کی تمام اہل محشر تعریف کریں گے۔ اور معلی بن اسد نے کہا کہ ہم سے وہیب نے نعمان بن راشد سے بیان کیا ‘ ان سے زہری کے بھائی عبداللہ بن مسلم نے ‘ ان سے حمزہ بن عبداللہ نے ‘ اور انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اتنی ہی حدیث بیان کی جو سوال کے باب میں ہے۔
تشریح : حدیث کے باب میں بھی سوال کرنے کی مذمت کی گئی ہے اور بتلایا گیاہے کہ غیر مستحق سوال کرنے والوں کا حشر میں یہ حال ہوگا کہ ان کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا اور اس ذلت وخواری کے ساتھ وہ میدان حشر میں محشور ہوں گے۔ سوال کرنے کی تفصیل میں علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہی علی ثلاثۃ اوجہ حرام ومکروہ ومباح فالحرام لمن سال وہو غنی من زکوٰۃ او اظہر من الفقر فوق ماہو بہ والمکروہ لمن سال ما عندہ ما یمنعہ عن ذلک ولم یظہر من الفقر فوق ما ہو بہ والمباح لمن سال بالمعروف قریبا او صدیقا واما السوال عند الضرورۃ واجب لا حیاءالنفس وادخلہ الداودی فی المباح واما الاخذ من غیر مسئلۃ ولا اشراف نفس فلا باس بہ ( عینی ) یعنی سوال کی تین قسمیں ہیں۔ حرام‘ مکروہ اور مباح۔ حرام تو اس کے لیے جو مالدار ہونے کے باوجود زکوٰۃ میں سے مانگے اور خواہ مخواہ اپنے کو محتاج ظاہر کرے۔ مکروہ اس کے لیے جس کے پاس وہ چیز موجود ہے جسے وہ اور سے مانگ رہا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا کہ یہ چیز تو میرے پاس موجود ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اپنے آپ کو محتاج بھی ظاہر نہیں کرتا پھر سوال کررہا ہے۔ اور مباح اس کے لیے ہے جو حقیقی حاجت کے وقت اپنے کسی خاص دوست یا رشتہ دار سے سوال کرے۔ بعض مرتبہ سخت ترین ضرورت کے تحت جہاں موت وزندگی کا سوال آجائے سوال کرنا بھی ضروری ہوجاتا ہے اور بغیر سوال کئے اور تانکے جھانکے کوئی چیز از خود مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ غیر مستحقین سائلین کی سزا کے بیان کے ساتھ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کبریٰ کا بھی بیان کیا گیا ہے جو قیامت میں آپ کو حاصل ہوگی۔ جہاں کسی بھی نبی ورسول کو مجال کلام نہ ہوگا وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوع انسان کے لیے شافع اور مشفع بن کر تشریف لائیں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم یوم القیامۃ امین


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

باب: سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد


1476 حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ الْأُكْلَةَ وَالْأُكْلَتَانِ وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غِنًى وَيَسْتَحْيِي أَوْ لَا يَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا

ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا ( مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پاسکے )۔
تشریح : ابوداؤد نے سہل بن حنظلہ سے نکالا کہ صحابہ نے پوچھا تو نگری جس سے سوال منع ہو، کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب صبح شام کا کھانا اس کے پاس موجود ہو۔ ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے جب دن رات کا پیٹ بھر کھانا اس کے پاس ہو۔ بعضوں نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے دوسری حدیثوں سے جس میں مالدار اس کو فرمایا ہے جس کے پاس پچاس درہم ہوں یا اتنی مالیت کی چیزیں ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

باب: سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد


1477 حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ عَنْ الشَّعْبِيِّ حَدَّثَنِي كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ أَنْ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ

ترجمہ : ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا ‘ ان سے ابن اشوع نے ‘ ان سے عامر شعبی نے۔ کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی۔ لوگوں سے بہت مانگنا۔
تشریح : فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔ اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔ اسی طرح فضول خرچی کرنا بھی انسان کی بڑی بھاری حماقت ہے جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ اسی لیے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ نہ بخیل بنو اور نہ اتنے ہاتھ کشادہ کرو کہ پریشان حالی میں مبتلا ہوجاؤ۔ درمیانی چال بہر حال بہتر ہے۔ تیسرا عیب کثرت کے ساتھ دست سوال دراز کرنا یہ بھی اتنا خطرناک مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بُری طرح سے اس میں گرفتار ہوکر دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث لکھ کر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پیش کیا۔ اشارہ تھا کہ آپ کی کامیابی کا راز اس حدیث میں مضمر ہے۔ جس میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں اس حدیث شریف کو بھی بڑا مقام حاصل ہے۔ اللہ پاک ہم کو یہ حدیث سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

باب: سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد


1478 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ قَالَ فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا قَالَ فَسَكَتُّ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا قَالَ فَسَكَتُّ قَلِيلًا ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا يَعْنِي فَقَالَ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ وَعَنْ أَبِيهِ عَنْ صَالِحٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ بِهَذَا فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَجَمَعَ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي ثُمَّ قَالَ أَقْبِلْ أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ فَكُبْكِبُوا قُلِبُوا فَكُبُّوا مُكِبًّا أَكَبَّ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِعْلُهُ غَيْرَ وَاقِعٍ عَلَى أَحَدٍ فَإِذَا وَقَعَ الْفِعْلُ قُلْتَ كَبَّهُ اللَّهُ لِوَجْهِهِ وَكَبَبْتُهُ أَنَا قال أبو عبد الله: صالح بن كيسان أكبر من الزهري، وهو قد أدرك ابن عمر

ترجمہ : ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جاکر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں ( اور دوسرے کو نظرانداز کرجاتا ہوں ) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ ( جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں ) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور ( یعقوب بن ابراہیم ) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ ( قرآن مجید میں لفظ ) کبکبوا اوندھے لٹا دینے کے منعے میں ہے۔ اور سورئہ ملک میں جو مکبا کا لفظ ہے وہ اکب سے نکلا ہے۔ اکب لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی کب ہے۔ کہتے ہیں کہ کبہ اللہ لوجہہ یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرادیا۔ اور کببۃ یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ملے ہیں۔
تشریح : یہ حدیث کتاب الایمان میں گزرچکی ہے۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ آپ نے عیینہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو سو سو روپے دے دیے۔ اور جعیل سراقہ کو کچھ نہیں دیا۔ آپ نے فرمایا‘ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جعیل بن سراقہ عیینہ اور اقرع ایسے ساری زمین بھرلوگوں سے بہتر ہے۔ لیکن میں عیینہ اور اقرع کا روپیہ دے کر دل ملاتا ہوں اور جعیل کے ایمان پر تو مجھ کو بھروسہ ہے۔ ( وحیدی )


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

باب: سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد


1479 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ وَلَا يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بے پرواہ ہوجائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دے دے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا

باب: سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد


1480 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ ثُمَّ يَغْدُوَ أَحْسِبُهُ قَالَ إِلَى الْجَبَلِ فَيَحْتَطِبَ فَيَبِيعَ فَيَأْكُلَ وَيَتَصَدَّقَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ

ترجمہ : ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر ( میرا خیال ہے کہ آپ نے یوں فرمایا ) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کرکے انہیں فروخت کرے۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔


بَابُ خَرْصِ الثَّمَرِ

باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کرلینا درست ہے


1481 حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى عَنْ عَبَّاسٍ السَّاعِدِيِّ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ قَالَ غَزَوْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ تَبُوكَ فَلَمَّا جَاءَ وَادِيَ الْقُرَى إِذَا امْرَأَةٌ فِي حَدِيقَةٍ لَهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ اخْرُصُوا وَخَرَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ فَقَالَ لَهَا أَحْصِي مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَلَمَّا أَتَيْنَا تَبُوكَ قَالَ أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ فَعَقَلْنَاهَا وَهَبَّتْ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَقَامَ رَجُلٌ فَأَلْقَتْهُ بِجَبَلِ طَيِّءٍ وَأَهْدَى مَلِكُ أَيْلَةَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَةً بَيْضَاءَ وَكَسَاهُ بُرْدًا وَكَتَبَ لَهُ بِبَحْرِهِمْ فَلَمَّا أَتَى وَادِيَ الْقُرَى قَالَ لِلْمَرْأَةِ كَمْ جَاءَ حَدِيقَتُكِ قَالَتْ عَشَرَةَ أَوْسُقٍ خَرْصَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي مُتَعَجِّلٌ إِلَى الْمَدِينَةِ فَمَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَعَجَّلَ مَعِي فَلْيَتَعَجَّلْ فَلَمَّا قَالَ ابْنُ بَكَّارٍ كَلِمَةً مَعْنَاهَا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ قَالَ هَذِهِ طَابَةُ فَلَمَّا رَأَى أُحُدًا قَالَ هَذَا جُبَيْلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ دُورِ الْأَنْصَارِ قَالُوا بَلَى قَالَ دُورُ بَنِي النَّجَّارِ ثُمَّ دُورُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ ثُمَّ دُورُ بَنِي سَاعِدَةَ أَوْ دُورُ بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ وَفِي كُلِّ دُورِ الْأَنْصَارِ يَعْنِي خَيْرًا وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ حَدَّثَنِي عَمْرٌو ثُمَّ دَارُ بَنِي الْحَارِثِ ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ وَقَالَ سُلَيْمَانُ عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ عَنْ عَبَّاسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ كُلُّ بُسْتَانٍ عَلَيْهِ حَائِطٌ فَهُوَ حَدِيقَةٌ وَمَا لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ حَائِطٌ لَمْ يُقَلْ حَدِيقَةٌ

ترجمہ : ہم سے سہل بن بکار نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے ‘ ان سے عمروبن یحیٰی نے ‘ ان سے عباس بن سہل ساعدی نے ‘ ان سے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم غزوئہ تبوک کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جارہے تھے۔ جب آپ وادی قریٰ ( مدینہ منورہ اور شام کے درمیان ایک قدیم آبادی ) سے گزرے تو ہماری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے باغ میں کھڑی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا کہ اس کے پھلوں کا اندازہ لگاؤ ( کہ اس میں کتنی کھجور نکلے گی ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس وسق کا اندازہ لگایا۔ پھر اس عورت سے فرمایا کہ یاد رکھنا اس میں سے جتنی کھجور نکلے۔ جب ہم تبوک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات بڑے زور کی آندھی چلے گی اس لیے کوئی شخص کھڑا نہ رہے۔ اور جس کے پاس اونٹ ہوں تو وہ اسے باندھ دیں۔ چنانچہ ہم نے اونٹ باندھ لیے۔ اور آندھی بڑے زور کی آئی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تھا۔ تو ہوا نے اسے جبل طے پر جا پھینکا۔ اور ایلہ کے حاکم ( یوحنا بن روبہ ) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفید خچر اور ایک چادر کا تحفہ بھیجا۔ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری طورپر اسے اس کی حکومت پر برقرار رکھا پھر جب وادی قریٰ ( واپسی میں ) پہنچے تو آپ نے اسی عورت سے پوچھا کہ تمہارے باغ میںکتنا پھل آیا تھا اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اندازہ کے مطابق دس وسق آیا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مدینہ جلد جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے جو کوئی میرے ساتھ جلدی چلنا چاہے وہ میرے ساتھ جلد روانہ ہو پھر جب ( ابن بکار امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ نے ایک ایسا جملہ کہا جس کے معنے یہ تھے ) کہ مدینہ دکھائی دینے لگا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ہے طابہ! پھر آپ نے احد پہاڑ دیکھا تو فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کیا میں انصار کے سب سے اچھے خاندان کی نشاندہی نہ کروں؟ صحابہ نے عرض کی کہ ضرور کیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ بنو نجار کا خاندان۔ پھر بنو عبدالاشہل کا خاندان، پھر بنو ساعدہ کایا ( یہ فرمایا کہ ) نبی حارث بن خزرج کا خاندان۔ اور فرمایا کہ انصار کے تمام ہی خاندانوں میں خیر ہے ‘ ابو عبداللہ ( قاسم بن سلام ) نے کہا کہ جس باغ کی چہار دیواری ہوا سے حدیقہ کہیں گے۔ اور جس کی چہار دیواری نہ ہو اسے حدیقہ نہیں کہیں گے۔


بَابُ خَرْصِ الثَّمَرِ

باب: کھجور کا درختوں پر اندازہ کرلینا درست ہے


1482 وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ: حَدَّثَنِي عَمْرٌو، «ثُمَّ دَارُ بَنِي الحَارِثِ، ثُمَّ بَنِي سَاعِدَةَ» وَقَالَ سُلَيْمَانُ: عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ

ترجمہ : اور سلیمان بن بلال نے کہا کہ مجھ سے عمرو نے اس طرح بیان کیا کہ پھر بنی حارث بن خزرج کا خاندان اور پھر بنو ساعدہ کا خاندان۔ اور سلیمان نے سعد بن سعید سے بیان کیا ‘ ان سے عمارہ بن غزنیہ نے ‘ ان سے عباس نے ‘ ان سے ان کے باپ ( سہل ) نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔
تشریح : اس طویل حدیث میں جہاں کھجوروں کا اندازہ کرلینے کا ذکر ہے وہاں اور بھی بہت سے حقائق کا بیان ہے۔ غزوئہ تبوک 9 ھ میں ایسے وقت میں پیش آیا کہ موسم گرما اپنے پورے شباب پر تھا اور مدینہ میں کھجور کی فصل بالکل تیار تھی۔ پھر بھی صحابہ کرام نے بڑی جان نثاری کا ثبوت دیا اور ہر پریشانی کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ اس طویل سفر میں شریک ہوئے۔ سرحد کا معاملہ تھا۔ آپ دشمن کے انتظار میں وہاں کافی ٹھہرے رہے مگر دشمن مقابلہ کے لیے نہ آیا۔ بلکہ قریب ہی ایلہ شہر کے عیسائی حاکم یوحنا بن روبہ نے آپ کو صلح کا پیغام دیا۔ آپ نے اس کی حکومت اس کے لیے برقرار رکھی۔ کیونکہ آپ کا منشاءملک گیری کا ہرگز نہ تھا۔ واپسی میں آپ کو مدینہ کی محبت نے سفر میں عجلت پر آمادہ کردیا تو آپ نے مدینہ جلد سے جلد پہنچنے کا اعلان فرمادیا۔ جب یہ پاک شہر نظر آنے لگا تو آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے اس مقدس شہر کو لفظ طابہ سے موسوم فرمایا۔ جس کے معنے پاکیزہ اور عمدہ کے ہیں۔ احد پہاڑ کے حق میں بھی اپنی انتہائی محبت کا اظہار فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائل انصار کی درجہ بدرجہ فضیلت بیان فرمائی جن میں اولین درجہ بنونجار کو دیا گیا۔ ان ہی لوگوں میں آپ کی ننہال تھی اور سب سے پہلے جب آپ مدینہ تشریف لائے یہ لوگ ہتھیار باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ پھر تمام ہی قبائل انصار تعریف کے قابل ہیں جنہوں نے دل وجان سے اسلام کی ایسی مدد کی کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لیے یاد رہ گئے۔ رضی اللہ عنہم ورضواعنہ۔


بَابُ العُشْرِ فِيمَا يُسْقَى مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ، وَبِالْمَاءِ الجَارِي وَلَمْ يَرَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ العَزِيزِ: «فِي العَسَلِ شَيْئًا

باب: اس زمین کی پیداوار سے دسواں حصہ لینا


1483 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ هَذَا تَفْسِيرُ الْأَوَّلِ لِأَنَّهُ لَمْ يُوَقِّتْ فِي الْأَوَّلِ يَعْنِي حَدِيثَ ابْنِ عُمَرَ وَفِيمَا سَقَتْ السَّمَاءُ الْعُشْرُ وَبَيَّنَ فِي هَذَا وَوَقَّتَ وَالزِّيَادَةُ مَقْبُولَةٌ وَالْمُفَسَّرُ يَقْضِي عَلَى الْمُبْهَمِ إِذَا رَوَاهُ أَهْلُ الثَّبَتِ كَمَا رَوَى الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُصَلِّ فِي الْكَعْبَةِ وَقَالَ بِلَالٌ قَدْ صَلَّى فَأُخِذَ بِقَوْلِ بِلَالٍ وَتُرِكَ قَوْلُ الْفَضْلِ

ترجمہ : ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی ‘ انہیں شہاب نے ‘ انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے ‘ انہیں ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ زمین جسے آسمان ( بارش کا پانی ) یا چشمہ سیراب کرتا ہو۔ یا وہ خود بخود نمی سے سیراب ہوجاتی ہو تو اس کی پیداوار سے دسواں حصہ لیا جائے اور وہ زمین جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو تو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ لیا جائے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ یہ حدیث یعنی عبداللہ بن عمر کی حدیث کہ جس کھیتی میں آسمان کا پانی دیا جائے ‘ دسواں حصہ ہے پہلی حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث کی تفسیر ہے۔ اس میں زکوٰۃ کی کوئی مقدار مذکور نہیں ہے اور اس میں مذکور ہے۔ اور زیادتی قبول کی جاتی ہے۔ اور گول مول حدیث کا حکم صاف صاف حدیث کے موافق لیا جاتا ہے۔ جب اس کا راوی ثقہ ہو۔ جیسے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز نہیں پڑھی۔ لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ نے نماز ( کعبہ میں ) پڑھی تھی۔ اس موقع پر بھی بلال رضی اللہ عنہ کی بات قبول کی گئی اور فضل رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ دیا گیا۔
تشریح : اصول حدیث میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ثقہ اور ضابط شخص کی زیادتی مقبول ہے۔ اسی بناپر ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس میں یہ مذکور نہیں ہے کہ زکوٰۃ میں مال کا کون سا حصہ لیا جائے گا یعنی دسواں حصہ یا بیسواں حصہ اس حدیث یعنی ابن عمر کی حدیث میں زیادتی ہے تو یہ زیادتی واجب القبول ہوگی۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے یہ حدیث یعنی ابوسعید کی حدیث پہلی حدیث یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔ کیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نصاب کی مقدار مذکور نہیں ہے۔ بلکہ ہر ایک پیداوار سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ لیے جانے کا اس میں ذکر ہے۔ خواہ پانچ وسق ہو یا اس سے کم ہو۔ اور ابوسعید رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تفصیل ہے کہ پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی ہے۔ اور زیادتی ثقہ اور معتبر راوی کی مقبول ہے۔ ( وحیدالزماں مرحوم )


بَابٌ: لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

باب: پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ فرض نہیں


1484 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا مَالِكٌ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَيْسَ فِيمَا أَقَلُّ مِنْ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ خَمْسَةٍ مِنْ الْإِبِلِ الذَّوْدِ صَدَقَةٌ وَلَا فِي أَقَلَّ مِنْ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنْ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ هَذَا تَفْسِيرُ الْأَوَّلِ إِذَا قَالَ لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے محمد بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی صعصعہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ وسق سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے ‘ اور پانچ مہاراونٹوں سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اور چاندی کے پانچ اوقیہ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔
تشریح : اہلحدیث کا مذہب یہ ہے کہ گیہوں اور جو اورجواراور کھجور اور انگور میں جب ان کی مقدار پانچ وسق یا زیادہ ہوتو زکوٰۃ واجب ہے۔ اور ان کے سوا دوسری چیزوں میں جیسے اور ترکاریاں اور میوے وغیرہ میں مطلقاً زکوٰۃ نہیں خواہ وہ کتنے ہی ہوں۔ قسطلانی نے کہا میووں میں سے صرف کھجور اور انگور میں اور اناجوں میں سے ہر ایک اناج میں جو ذخیرہ رکھے جاتے ہیں جیسے گیہوں‘ جو‘جوار‘ مسور‘ باجرہ‘ چنا‘ لوبیا وغیرہ ان سب میں زکوٰۃ ہے۔ اور حنفیہ کے نزدیک پانچ وسق کی قید بھی نہیں ہے، قلیل ہو یا کثیر سب میں زکوٰۃ واجب ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لاکر ان کا رد کیا۔ ( وحیدی )


بَابُ أَخْذِ صَدَقَةِ التَّمْرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ، وَهَلْ يُتْرَكُ الصَّبِيُّ فَيَمَسُّ تَمْرَ الصَّدَقَةِ

باب: کھجور کے پھل توڑنے کے وقت زکوٰۃ لی جائے


1485 حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ الْأَسَدِيُّ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالتَّمْرِ عِنْدَ صِرَامِ النَّخْلِ فَيَجِيءُ هَذَا بِتَمْرِهِ وَهَذَا مِنْ تَمْرِهِ حَتَّى يَصِيرَ عِنْدَهُ كَوْمًا مِنْ تَمْرٍ فَجَعَلَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَلْعَبَانِ بِذَلِكَ التَّمْرِ فَأَخَذَ أَحَدُهُمَا تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْرَجَهَا مِنْ فِيهِ فَقَالَ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَأْكُلُونَ الصَّدَقَةَ

ترجمہ : ہم سے عمر بن محمد بن حسن اسدی نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا ‘ ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس توڑنے کے وقت زکوٰۃ کی کھجور لائی جاتی، ہر شخص اپنی زکوٰۃ لاتا اور نوبت یہاں تک پہنچتی کہ کھجور کا ایک ڈھیر لگ جاتا۔ ( ایک مرتبہ ) حسن اور حسین رضی اللہ عنہما ایسی ہی کھجوروں سے کھیل رہے تھے کہ ایک نے ایک کھجور اٹھاکر اپنے منہ میں رکھ لی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جونہی دیکھا تو ان کے منہ سے وہ کھجور نکال لی۔ اور فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد زکوٰۃ کامال نہیں کھاسکتی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ یہ فرض زکوٰۃ تھی کیونکہ وہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر حرام ہے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ چھوٹے بچوں کو دین کی باتیں سکھلانا اور ان کو تنبیہ کرنا ضروری ہے۔


بَابُ مَنْ بَاعَ ثِمَارَهُ، أَوْ نَخْلَهُ، أَوْ أَرْضَهُ، أَوْ زَرْعَهُ، وَقَدْ وَجَبَ فِيهِ العُشْرُ أَوِ الصَّدَقَةُ، فَأَدَّى مِنْ غَيْرِهِ، أَوْ بَاعَ ثِمَارَهُ وَلَمْ تَجِبْ فِيهِ الصَّدَقَةُ الزَّكَاةَ

باب: جو اپنا میوہ یا کھجور کا درخت


1486 حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهَا وَكَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاحِهَا قَالَ حَتَّى تَذْهَبَ عَاهَتُهُ

ترجمہ : ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھے عبداللہ بن دینار نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کو ( درخت پر ) اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی پختگی ظاہر نہ ہو۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے جب پوچھتے کہ اس کی پختگی کیاہے، وہ کہتے کہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ اب یہ پھل آفت سے بچ رہے گا۔


بَابُ مَنْ بَاعَ ثِمَارَهُ، أَوْ نَخْلَهُ، أَوْ أَرْضَهُ، أَوْ زَرْعَهُ، وَقَدْ وَجَبَ فِيهِ العُشْرُ أَوِ الصَّدَقَةُ، فَأَدَّى مِنْ غَيْرِهِ، أَوْ بَاعَ ثِمَارَهُ وَلَمْ تَجِبْ فِيهِ الصَّدَقَةُ الزَّكَاةَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے خالد بن یزید نے بیان کیا ‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا جب تک ان کی پختگی کھل نہ جائے۔


بَابُ مَنْ بَاعَ ثِمَارَهُ، أَوْ نَخْلَهُ، أَوْ أَرْضَهُ، أَوْ زَرْعَهُ، وَقَدْ وَجَبَ فِيهِ العُشْرُ أَوِ الصَّدَقَةُ، فَأَدَّى مِنْ غَيْرِهِ، أَوْ بَاعَ ثِمَارَهُ وَلَمْ تَجِبْ فِيهِ الصَّدَقَةُ الزَّكَاةَ

باب: جو اپنا میوہ یا کھجور کا درخت


1488 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ عَنْ مَالِكٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الثِّمَارِ حَتَّى تُزْهِيَ قَالَ حَتَّى تَحْمَارَّ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے امام مالک سے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تک پھل پر سرخی نہ آجائے ‘ انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ مراد یہ ہے کہ جب تک وہ پک کر سرخ نہ ہوجائیں۔
تشریح : یعنی یہ یقین نہ ہوجائے کہ اب میوہ ضرور اترے گا اور کسی آفت کا ڈر نہ رہے۔ پختہ ہونے کا مطلب یہ کہ اس کے رنگ سے اس کی پختگی ظاہر ہوجائے۔ اس سے پہلے بیچنا اس لیے منع ہوا کہ کبھی کوئی آفت آتی ہے تو سارا میوہ خراب ہوجاتا ہے یا گر جاتا ہے۔ اب گویا مشتری کا مال مفت کھالینا ٹھہرا۔


بَابٌ: هَلْ يَشْتَرِي الرَّجُلُ صَدَقَتَهُ؟

باب: کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ


1489 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَالِمٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَوَجَدَهُ يُبَاعُ فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهُ ثُمَّ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَهُ فَقَالَ لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ فَبِذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا لَا يَتْرُكُ أَنْ يَبْتَاعَ شَيْئًا تَصَدَّقَ بِهِ إِلَّا جَعَلَهُ صَدَقَةً

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سالم نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کے راستہ میں صدقہ کیا۔ پھر اسے آپ نے دیکھا کہ وہ بازار میں فروخت ہورہا ہے۔ اس لیے ان کی خواہش ہوئی کہ اسے وہ خود ہی خرید لیں۔ اور اجازت لینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ اسی وجہ سے اگر ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنا دیا ہوا کوئی صدقہ خرید لیتے ‘ تو پھر اسے صدقہ کردیتے تھے۔ ( اپنے استعمال میں نہ رکھتے تھے ) باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


بَابٌ: هَلْ يَشْتَرِي الرَّجُلُ صَدَقَتَهُ؟

باب: کیا آدمی اپنی چیز کو جو صدقہ


1490 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَأَضَاعَهُ الَّذِي كَانَ عِنْدَهُ فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ يَبِيعُهُ بِرُخْصٍ فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تَشْتَرِي وَلَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں امام مالک بن انس نے خبر دی ‘ انہیں زید بن اسلم نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا ‘ کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ایک شخص کو سواری کے لیے دے دیا۔ لیکن اس شخص نے گھوڑے کو خراب کردیا۔ اس لیے میں نے چاہا کہ اسے خرید لوں۔ میرا یہ بھی خیال تھا کہ وہ اسے سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا صدقہ واپس نہ لو۔ خواہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے کیونکہ دیاہوا صدقہ واپس لینے والے کی مثال قے کرکے چاٹنے والے کی سی ہے۔
تشریح : باب کی حدیثوں سے بظاہر یہ نکلتا ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ تو خریدنا حرام ہے لیکن دوسرے کا دیا ہوا صدقہ فقیر سے فراغت کے ساتھ خرید سکتا ہے۔


بَابُ مَا يُذْكَرُ فِي الصَّدَقَةِ لِلنَّبِيِّ ﷺ

باب: نبی کریم ﷺ اور آپ کی آل


1491 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَخَذَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَمْرَةً مِنْ تَمْرِ الصَّدَقَةِ فَجَعَلَهَا فِي فِيهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِخْ كِخْ لِيَطْرَحَهَا ثُمَّ قَالَ أَمَا شَعَرْتَ أَنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے زکوٰۃ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھاکر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چھی چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کامال نہیں کھاتے۔
تشریح : قسطلانی نے کہا کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک صحیح یہ ہے کہ فرض زکوٰۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل کے لیے حرام ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ امام جعفر صادق سے شافعی رحمہ اللہ اور بیہقی رحمہ اللہ نے نکالا کہ وہ سبیلوں میں سے پانی پیا کرتے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو صدقے کا پانی ہے‘ انہوں نے کہا ہم پر فرض زکوٰۃ حرام ہے۔


بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى مَوَالِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ

باب: نبی کریم ﷺ کی بیویوں کی


1492 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ وَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً مَيِّتَةً أُعْطِيَتْهَا مَوْلَاةٌ لِمَيْمُونَةَ مِنْ الصَّدَقَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلَّا انْتَفَعْتُمْ بِجِلْدِهَا قَالُوا إِنَّهَا مَيْتَةٌ قَالَ إِنَّمَا حَرُمَ أَكْلُهَا

ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہما کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔


بَابُ الصَّدَقَةِ عَلَى مَوَالِي أَزْوَاجِ النَّبِيِّ ﷺ

باب: نبی کریم ﷺ کی بیویوں کی


1493 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ لِلْعِتْقِ وَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ قَالَتْ وَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَقُلْتُ هَذَا مَا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ فَقَالَ هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ‘ ان سے ابراہیم نخعی نے ‘ ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو ( جو باندی تھیں ) آزاد کردینے کے لیے خرید لیں۔ لیکن اس کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لیے رہے۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کر دو’ ولاءتو اسی کی ہوتی ہے ‘ جو آزاد کرے۔ انہو ں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ بریرہ رضی اللہ عنہ کو کسی نے صدقہ کے طورپر دیا ہے تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے صدقہ تھا۔ لیکن اب ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔
تشریح : غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاءکہا جاتا ہے۔ گیا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرا رہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والے سے ہوگا۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔


بَابُ إِذَا تَحَوَّلَتِ الصَّدَقَةُ

باب: جب صدقہ محتاج کی ملک ہوجائے


1494 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا خَالِدٌ عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَقَالَ هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ فَقَالَتْ لَا إِلَّا شَيْءٌ بَعَثَتْ بِهِ إِلَيْنَا نُسَيْبَةُ مِنْ الشَّاةِ الَّتِي بَعَثَتْ بِهَا مِنْ الصَّدَقَةِ فَقَالَ إِنَّهَا قَدْ بَلَغَتْ مَحِلَّهَا

ترجمہ : ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا ‘ ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ نہیں کوئی چیز نہیں۔ ہاں نسیبہ رضی اللہ عنہ کا بھیجا ہوا اس بےکری کا گوشت ہے جو انہیں صدقہ کے طورپر ملی ہے۔ تو آپ نے فرمایا لاؤ خیرات تو اپنے ٹھکانے پہنچ گئی۔
تشریح : معلوم ہوا کہ صدقہ کا مال بایں طور اغنیاءکی تحویل میں بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ یہ محتاج آدمی کی ملکیت میں ہوکر اب کسی کو بھی مسکین کی طرف سے دیا جاسکتا ہے۔


بَابُ إِذَا تَحَوَّلَتِ الصَّدَقَةُ

باب: جب صدقہ محتاج کی ملک ہوجائے


1495 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ فَقَالَ هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ سَمِعَ أَنَسًا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ قتادہ سے اور وہ انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیا گیا جو بریرہ رضی اللہ عنہ کو صدقہ کے طورپر ملا تھا۔ آپ نے فرمایا کو یہ گوشت ان پر صدقہ تھا۔ لیکن ہمارے لیے یہ ہدیہ ہے۔ ابوداؤد نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی۔ انہیں قتادہ نے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے۔
تشریح : مقصد یہ ہے کہ صدقہ مسکین کی ملکیت میں آکر اگر کسی کو بطور تحفہ پیش کردیا جائے تو جائز ہے اگرچہ وہ تحفہ پانے والا غنی ہی کیوں نہ ہو۔


بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِيَاءِ وَتُرَدَّ فِي الفُقَرَاءِ حَيْثُ كَانُوا

باب: مالداروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے


1496 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ إِنَّكَ سَتَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوا لَكَ بِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ

ترجمہ : ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحاق نے خبر دی ‘ انہیں یحیٰی بن عبداللہ بن صیفی نے ‘ انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام ابومعبدنے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تشریح : اس حدیث کے ذیل مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں “قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام الذی یتولی قبض الزکوٰۃ وصوفہا امابنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ تؤخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوٰۃ امام وقت وصول کرے گا۔ اور وہی اسے اس کے مصارف میں خرچ کرے گا۔ وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا۔ بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوٰۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوٰۃ میں مختار قرار دیا ہے۔ فان ادی زکوٰتہما خفیۃ یجزءللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مد ظلہ فرماتے ہیں والظاہر عندی ان ولایۃ اخذ الامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ۔ یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لیے امام وقت کی تولیت ضروری ہے۔ اور اگر امام نہ ہو ( جیسے کہ دور حاضرہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں ) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خود اس مال زکوٰۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑی ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں۔ جو چاہے ادھر رجوع کرسکتا ہے۔ یہ مسئلہ کہ اموال زکوٰۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائز ہے یا نہیں‘ اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراءجہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جاسکتا ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کے نزدیک ترد علی فقرآئہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے۔ قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوٰۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔ المحدث الکبیر مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المستحقون لہا اوتکون فی النقل مصلحۃ انفع واہم من عدمہ واللہ تعالیٰ اعلم ( مرعاۃ جلد 3ص 4 ) یعنی زکوٰۃ نقل نہ ہونی چاہیے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو


بَابُ صَلاَةِ الإِمَامِ، وَدُعَائِهِ لِصَاحِبِ الصَّدَقَةِ

باب: امام حاکم کی طرف سے زکوٰۃ دین


1497 حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ قَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى

ترجمہ : ہم سے حفص بن عمر نے بنان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمروبن مرہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوٰۃ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ان کے لیے دعا فرماتے۔ اے اللہ! آل فلاں کو خیرو برکت عطا فرما ‘ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! آل ابی اوفیٰ کو خیروبرکت عطا فرما۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی خلفائے اسلام کے لیے مناسب ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والوں کے حق میں خیروبرکت کی دعائیں کریں۔ لفظ امام سے ایسے ہی خلیفہ اسلام مراد ہیں جو فی الواقع مسلمانوں کے لیے انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ الخ ( امام لوگوں کے لیے ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑائی کی جاتی ہے ) کے مصداق ہوں۔ زکوٰۃ اسلامی اسٹیٹ کے لیے اور اس کے بیت المال کے لیے ایک اہم ذریعہ آمدنی ہے جس کے وجود پذیر ہونے سے ملت کے کتنے ہی مسائل ہوتے ہیں۔ عہد رسالت اور پھر عہد خلافت راشدہ کے تجربات اس پر شاہد عادل ہیں۔ مگر صد افسوس کہ اب نہ تو کہیں وہ صحیح اسلامی نظام ہے اور نہ وہ حقیقی بیت المال۔ اس لیے خود مالداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دیانت کے پیش نظر زکوٰۃ نکالیں اور جو مصارف ہیں ان میں دیانت کے ساتھ خرچ کریں۔ دور حاضرہ میں کسی مولوی یا مسجد کے پیش امام یا کسی مدرسہ کے مدرس کو امام وقت خلیفہ اسلام تصور کرکے اور یہ سمجھ کر کہ ان کو دئیے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی‘ زکوٰۃ ان کے حوالہ کرنا بڑی نادانی بلکہ اپنی زکوٰۃ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا ہے۔


بَابُ مَا يُسْتَخْرَجُ مِنَ البَحْرِ

باب: جو مال سمندر سے نکالا جائے


1498 وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِأَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ فَخَرَجَ فِي البَحْرِ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةً، فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ، فَرَمَى بِهَا فِي البَحْرِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، فَإِذَا بِالخَشَبَةِ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا»، فَذَكَرَ الحَدِيثَ فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ المَالَ

ترجمہ : اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیا ن کیا ‘ انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے ‘ انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ‘ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے بنی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں۔ اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں۔ اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہوجائے اور قرض خواہ کا قرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی۔ آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے ناامید ہوکر ایک لکڑی لی اس کو کریدا اور ہزار اشرفیاں اس میں بھر کروہ لکڑی سمندر میں پھینک دی۔ اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا ‘ سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے کے خیال سے لے آیا۔ پھر پوری حدیث بیان کی۔ جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریا میں سے جو چیزیں ملیں عنبر موتی وغیرہ ان میں زکوٰۃ نہیں ہے اور جن حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ہے ان کا قول صحیح نہیں۔ حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ قال الاسماعیلی لیس فی ہذا الحدیث شئی یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضاً فارتجع قرضہ وکذا قال الداودی حدیث الخشبۃ لیس من ہذا الباب فی شئی واجاب عبدالملک بانہ اشاربہ الی ان کل ماالقاہ البحر جاز اخذہ ولا خمس فیہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤدی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو ( لکڑی جس میں روپیہ ملا ) اس سے کوئی مناسبت نہیں۔ عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اور باب میں مناسبت موجود ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں وذہب الجمھورالی انہ لا یجب فیہ شئی یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسرائیلی حضرات کا یہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اسکی امانت ودیانت کو اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا۔ اور اس نے بایں صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کرلیا۔ فیالواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے ایسے سامان مہیا کرا دیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ مگر آج کل ایسے دیانت دار عنقا ہیں۔ الا ماشاءاللہ وباللہ التوفیق۔


بَابٌ: فِي الرِّكَازِ الخُمُسُ

باب: رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہے


1499 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَعَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْعَجْمَاءُ جُبَارٌ وَالْبِئْرُ جُبَارٌ وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کاکچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَالعَامِلِينَ عَلَيْهَا التوبة: وَمُحَاسَبَةِ المُصَدِّقِينَ مَعَ الإِمَامِ

باب: زکوٰۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوٰۃ


1500 حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ الْأَسْدِ عَلَى صَدَقَاتِ بَنِي سُلَيْمٍ يُدْعَى ابْنَ اللُّتْبِيَّةِ فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ

ترجمہ : ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے بیان کیا ‘ ان سے حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو بنی سلیم کی زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے حساب لیا۔
تشریح : زکوٰۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے‘ کسی کو بدگمانی کا موقع نہ ملے۔ ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوٰۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو‘ لہٰذا اس سے حساب لیا گیا۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تھا کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے‘ اس پر حساب لیا گیا۔ اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے۔ جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔ تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔


بَابُ اسْتِعْمَالِ إِبِلِ الصَّدَقَةِ وَأَلْبَانِهَا لِأَبْنَاءِ السَّبِيلِ

باب: زکوٰۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام


1501 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ شُعْبَةَ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ اجْتَوَوْا الْمَدِينَةَ فَرَخَّصَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتُوا إِبِلَ الصَّدَقَةِ فَيَشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا فَقَتَلُوا الرَّاعِيَ وَاسْتَاقُوا الذَّوْدَ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُتِيَ بِهِمْ فَقَطَّعَ أَيْدِيَهُمْ وَأَرْجُلَهُمْ وَسَمَرَ أَعْيُنَهُمْ وَتَرَكَهُمْ بِالْحَرَّةِ يَعَضُّونَ الْحِجَارَةَ تَابَعَهُ أَبُو قِلَابَةَ وَحُمَيْدٌ وَثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ‘ اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کچھ لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹوں میںجاکر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں ( کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دوا یہی تھی ) لیکن انہوں نے ( ان اونٹوں کے ) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ لائے گئے۔ آں حضور نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا دیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوا دیا ( جس کی شدت کی وجہ سے ) وہ پتھر چبانے لگے تھے۔ اس روایت کی متابعت ابوقلابہ ثابت اور حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسافر اور بیمار جان کر زکوٰۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیونکہ وہ مرض استسقاءکے مریض تھے۔ مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محافظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثلہ کرڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ گئے۔ بعد میں پکڑے گئے اور قصاص میں ان کو ایسی ہی سزادی گئی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لیے زکوٰۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جاسکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہوسکتی ہے۔ غرض المصنف فی ہذا الباب اثبات وضع الصدقۃ فی صنف واحد خلافا لمن قال یجب استیعاب الاصناف الثمانیۃ ( فتح الباری ) یعنی مصنف کا مقصد اس باب سے یہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوٰۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جاسکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔ ان لوگوں کی یہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔


بَابُ وَسْمِ الإِمَامِ إِبِلَ الصَّدَقَةِ بِيَدِهِ

باب: زکوٰۃ کے اونٹوں پر حاکم کا اپنے ہاتھ


1502 حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيُّ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ غَدَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ لِيُحَنِّكَهُ فَوَافَيْتُهُ فِي يَدِهِ الْمِيسَمُ يَسِمُ إِبِلَ الصَّدَقَةِ

ترجمہ : ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعمرو اوزاعی نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کہ آپ ان کی تحنیک کردیں۔ ( یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چباکر ان کے منہ میں ڈال دیں ) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپ کے ہاتھ میں داغ لگانے کا آلہ تھا اور آپ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگارہے تھے :
تشریح : معلوم ہوا کہ جانور کو ضرورت سے داغ دینا درست ہے اور رد ہوا حنفیہ کا جنہوں نے داغ دینا مکروہ اور اس کو مثلہ سمجھا ہے۔ ( وحیدی ) اور بچوں کے لیے تحنیک بھی سنت ہے کہ کھجور وغیرہ کوئی چیز کسی نیک آدمی کے منہ سے کچلواکر بچے کے منہ میں ڈالی جائے تاکہ اس کو بھی نیک فطرت حاصل ہو۔


بَابُ فَرْضِ صَدَقَةِ الفِطْرِ

باب: صدقہ فطر کا فرض ہونا


1503 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ مِنْ الْمُسْلِمِينَ وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ

ترجمہ : ہم سے یحیٰی بن محمد بن سکن نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جھضم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ‘ ان سے عمر بن نافع نے ان سے ان کے باپ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ ( صدقہ فطر ) ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی۔ غلام ‘ آزاد ‘ مرد ‘ عورت ‘ چھوٹے اور بڑے تمام مسلمانوں پر۔ آپ کا حکم یہ تھا کہ نماز ( عید ) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردیا جائے۔


بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَى العَبْدِ وَغَيْرِهِ مِنَ المُسْلِمِينَ

باب: صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک


1504 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ انہیں نافع نے ‘ اور انہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطر کی زکوٰۃ آزاد یا غلام ‘ مردیا عورت تمام مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی تھی۔
تشریح : غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔ بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔ ( وحیدی ) صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صاع من براوقمح عن کل اثنین صغیر اوکبیر حراو عبد ذکر او انثیٰ اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیر کم فیرد علیہ اکثر مما اعطاہ ( ابوداود ) یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا ( اس کا روزہ پاک ہوجائے گا ) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔ صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہو خمسۃ ارطال وثلث رطل بغدادی ویقال لہ الصاع الحجازی لانہ مستعملا فی بلاد الحجاز وہو الصاع الذی کان مستعملا فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ کانوا یخرجون صدقۃ الفطر وزکوٰۃ المعشرات وغیر ہما من الحقوق الواجبۃ المقدرۃ فی عہدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہ قال مالک والشافعی واحمد وابو یوسف وعلماءالحجاز وقال ابو حنیفۃ ومحمد بالصاع العراقی وہو ثمانیۃ ارطال بالرطل المذکور وانما قیل لہ العراقی لانہ کان مستعملا فی بلاد العراق وہوالذی یقال لہ الصاع الحجاجی لانہ اُبَرزہ الحجاج الوالی وکان ابو یوسف یقول کقول ابی حنیفۃ ثم رجع الی قول الجمہور لما تناظر مع مالک بالمدینۃ فاراہ المیعان التی توارثہا اہل المدینۃ عن اسلافہم فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ( مرعاۃ ج 3 ص 93 ) صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔ اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام ابویوسف رحمہ اللہ اور علماءحجاز کا یہی قول ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔ جو بلاد عراق میں مروج تھا۔ جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف رحمہ اللہ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک رحمہ اللہ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک رحمہ اللہ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔ جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔ چنانچہ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔ صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔ حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی ( 80 ) تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔


بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ

باب: صدقہ فطر میں اگر جو دے تو ایک صاع


1505 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُطْعِمُ الصَّدَقَةَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ

ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے عیاض بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک صاع جو کاصدقہ دیا کرتے تھے۔
تشریح : تفصیل سے بتلایا جاچکا ہے کہ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں مروج تھا۔ جس کا وزن تین سیر سے کچھ کم ہوتا ہے۔


بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ

باب: گیہوں یا دو سرا اناج بھی صدقہ فطر


1506 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ الْعَامِرِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی ‘ ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح عامری نے بیان کیا ‘ کہ انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوٰۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب ( خشک انگوریا انجیر ) نکالا کرتے تھے۔
تشریح : طعام سے اکثر لوگوں کے نزدیک گیہوں ہی مراد ہے۔ بعضوں نے کہا جو کے سوا دوسرے اناج اور اہل حدیث اور شافعیہ اور جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ اگر صدقہ فطر میں گیہوں دے تو بھی ایک صاع دینا کافی سمجھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم نے ابوسعید رضی اللہ عنہ سے نکالا۔ میں تو وہی صدقہ دوں گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیا کرتا تھا۔ یعنی ایک صاع کھجور یا ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو۔ ایک شخص نے کہا یا دو مدنصف صاع گیہوں‘ انہوں نے کہا نہیں یہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے۔ ( وحیدی )


بَابُ صَدَقَةِ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ

باب: صدقہ فطر میں کھجور بھی ایک صاع۔۔۔


1507 حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِنْ حِنْطَةٍ

ترجمہ : ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو کی زکوٰۃ فطر دینے کا حکم فرمایا تھا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر لوگوں نے اسی کے برابر دومد ( آدھا صاع ) گیہوں کر لیا تھا۔


بَابُ صَاعٍ مِنْ زَبِيبٍ

باب: صدقہ فطر میں منقیٰ بھی ایک صاع۔۔۔


1508 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ سَمِعَ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَكِيمٍ الْعَدَنِيَّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ قَالَ حَدَّثَنِي عِيَاضُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُعْطِيهَا فِي زَمَانِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ فَلَمَّا جَاءَ مُعَاوِيَةُ وَجَاءَتْ السَّمْرَاءُ قَالَ أُرَى مُدًّا مِنْ هَذَا يَعْدِلُ مُدَّيْنِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے یزیدبن ابی حکیم عدنی سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ‘ ان سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع زبیب ( خشک انگور یا خشک انجیر ) نکالتے تھے۔ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے اور گیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مد دوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ العِيدِ

باب: صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا


1509 حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِزَكَاةِ الْفِطْرِ قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ

ترجمہ : ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نماز ( عید ) کے لیے جانے سے پہلے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔


بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ العِيدِ

باب: صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا


1510 حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ وَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ وَكَانَ طَعَامَنَا الشَّعِيرُ وَالزَّبِيبُ وَالْأَقِطُ وَالتَّمْرُ

ترجمہ : ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو عمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا ‘ ان سے زیدبن اسلم نے بیان کیا ‘ ان سے عیاض بن عبداللہ بن سعد نے ‘ ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن ( کھانے کے غلہ سے ) ایک صاع نکالتے تھے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمارا کھانا ( ان دنوں ) جو، زبیب، پنیر اور کھجور تھا۔
تشریح : صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی نکالا جاسکتا ہے مگر نماز عید سے پہلے تو اسے ادا کرہی دینا چاہیے۔ جیسا کہ دوسری روایات میں صاف موجود ہے فمن اداہا قبل الصلوٰۃ فہی زکوٰۃ مقبولۃ ومن اداہا بعد الصلوٰۃ فہی صدقۃ من الصدقات ( ابوداود وابن ماجہ ) یعنی جو اسے نماز عید سے قبل ادا کردے گا اس کی یہ زکوٰۃ الفطر مقبول ہوگی اور جو نماز کے بعد ادا کرے گا اس صورت میں یہ ایسا ہی معمولی صدقہ ہوگا جیسے عام صدقات ہوتے ہیں۔


بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَى الحُرِّ وَالمَمْلُوكِ

باب: صدقہ فطر، آزاد اور غلام پر واجب ہونا


1511 حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا أَيُّوبُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ فَرَضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ أَوْ قَالَ رَمَضَانَ عَلَى الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُعْطِي التَّمْرَ فَأَعْوَزَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ التَّمْرِ فَأَعْطَى شَعِيرًا فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُعْطِي عَنْ الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ حَتَّى إِنْ كَانَ لِيُعْطِي عَنْ بَنِيَّ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُعْطِيهَا الَّذِينَ يَقْبَلُونَهَا وَكَانُوا يُعْطُونَ قَبْلَ الْفِطْرِ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ قال ابو عبد الله بنى يعنى بنى نافع قال كانوا يعطون ليجمع لا للفقراء

ترجمہ : ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ‘ انہو ںنے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد، عورت، آزاد اور غلام ( سب پر ) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دیا تھا۔ پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابر قرار دے لیا۔ لیکن ابن عمر رضی اللہ عنہما کھجور دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے جو صدقہ میں نکالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک کہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا، دے دیا کرتے تھے۔ اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا میرے بیٹوں سے نافع کے بیٹے مراد ہیں۔ امام بخاری نے کہا وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونے کے لیے نہ فقیروں کے لیے ( پھر وہ جمع کرکے فقرا میں تقسیم کردیا جاتا )


بَابٌ: صَدَقَةُ الفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ

باب: صدقہ فطر بڑوں اور چھوٹوں پر واجب ہے


1512 حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ

ترجمہ : ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰی قطان نے عبیداللہ عمری کے واسطے سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔


Table of Contents