Search
Sections
< All Topics
Print

(F). HUMAYE KIN KIN LOGON KI MUSHABIHAT SEY ROKA GAYA HAI [various people who we wre forbidden to copy]

ہمیں کن کن لوگوں کی مشابھت سے روکا گیا ہے؟.

شرعی دلائل کی چھان بین کے ذریعے حصر کے طور پر تو نہیں یں لیکن تقریبی طور پر اس قسم کے لوگوں کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے جن کی مشابہت سے ہمیں روکا گیا ہے
(ہم ذیل میں بعض قسم کے لوگوں کا ذکر کرتے ہیں)


پہلی قسم :عمومی طور پر تمام کفار:


بغیر کسی تخصیص کے ہمیں تمام تر کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے ،اس طرح اس میں مشرکین،یہود،نصاری،مجوس، ستارہ پرست اور ملحدین وغیرہ داخل ہیں چناچہ ہمیں عبادات ،عادات اور لباس میں کفار کے ساتھ ہر اس چیز میں مشابہت سے روکا گیا ہے جو ان کے لئے خاص یا ان کا نشان امتیاز ہو-


جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللۂ بن عمر رضی الله عنه کو گیروارنگ کا کپڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا تو فرمایا:


“ان ھذہ من ثیاب الکفار فلا تلبسھا”


یہ کافروں کے لباسوں میں سے ہے تم انھیں نہ پہنو.
یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ مسلمانوں کے لئے ہر اس لباس کا پہننا جائز نہیں ہے جس کفار کا نشان امتیاز ہو.

[میرے خیال میں آج کل رائج لباس پتلون کفار کے امتیازات اور شعار میں سے ہے، لہذا مسلمانوں کے لئے اس کا پہننا جائز نہیں ہے گرچہ مغربیت کے دلدادہ افراد بکثرت اسے استعمال کرتے ہیں اور مسلمان ملکوں میں وہی زیادہ ہیں، کیونکہ اعتبار راہ سنت پر گامزن نیک ، دین کی سمجھ رکھنے والے افراد کا ہے اور پتلون پہننا ان کے اوصاف میں سے نہیں ہے نیز تنگ پتلون میں پورے طور پر شرم و حیا اور وقار نہیں پایا جاتا ہے کیونکہ وہ شرمگاہ کے نشیب و فراز کو نمایاں کرتا ہے، اسی طرح لباس کی بعض ہیئتیں ایسی ہیں جو کافروں کے بعض طبقات کے ساتھ خاص ہیں مثلا ہیٹ یہود جا شیوہ دار اور صلیب نصاری کا نشان امتیاز وغیرہ)

 

دوسری قسم : مشرکین:

 

عبادات،جشن،تہوار، اور افعال میں مشرکوں کی مشابھت اختیار کرنے سے ہمیں روکا گیا ہے مثلا سٹی مارنا ،تالی بجانا، مخلوقات سے شفاعت اور وسیلا کا طالب ہونا، قبروں پر نذرانے پیش کرنا ، قبر والوں کے لیے ذبح کرنا، غروب آفتاب سے پہلے عرفات سے نکل پڑنا.


سلف صالحین رحمہمُ اللہ مشرکین کے ساتھ ان کے امتیازات اور مخصوص افعال میں مشابہت کو ناپسند سمجھتے تھے.


جیسا کہ عبدالله بن عمروبن عاص رضی الله عنہما وغیرہ نے کہا:


“من بنی ببلاد المشرکین و صنع نیروزھم و مھر جانھم حتی یموت حشر معھم یوم القیامہ “


جو شخص مشرکوں کے علاقہ میں مکان تعمیر کرے ، ان کے نیروز و مھرجان (ان کے تہوار)منائے اور موت آنے تک اپنی اسی کردار پر قائم رہے تو وہ قیامت کے دن انھیں لوگوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا.

(بیہیقی ۲۳۴/۹)


عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجدوں پر مثلت یا مربع برجیوں کے بنانے جو مکروہ سمجھتے تھے بہت سے مواقع پر انہوں نے اس سے منع فرمایا ان کا خیال تھا کہ یہ مشرکوں کے بتوں کے مثابہ ہیں-

(دیکھیے مصنف ابن ابی شیبہ /۳۰۹ اقصاء الصراط المستقیم)(محقق) ابن تیمیہ ۳۴۴/۱)



تیسری قسم :

(اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری)

 

چناچہ عقائد عبادات لباس اور جشن و تہوار میں ہمیں یہود و نصاری کے ساتھ ہر اس چیز میں مشابہت سے روکا گیا ہے جو ان دونوں یا کسی ایک کے امتیازات میں سے ہو مثلا قبروں پر عمارات تعمیر کرنا اس کو سجدہ گاہ بنانا، تصویریں لٹکانا عورتوں کے فتنہ میں پڑنا سحری نہ کرنا سفید بالوں پر خضاب نہ لگانا صلیب لٹکانا ان کی عیدیں منانا یا ان میں شریک ہونا اور ان جیسے دیگر امور.

 

چوتھی قسم :مجوس:

 

مجوس کی خاص پہچان آگ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنا ،اس جی عبادت کرنا ، بادشاہوں اور بڑے لوگوں کو مقدص گرداننا، گدی کے بالوں کو صاف کرنا، داڑھی چھیلنا، مونچھوں کو لمبی کرنا ، سیٹی بجانا اور سونے و چاندی کے برتنوں کا استعمال کرنا ہے.

 

پانچویں قسم :

اہل فارس و روم:

 

فارس و روم یہود و نصاری ،مجوس سب کو شامل ہے عبادات،عادات،اور رسم رواج میں ہمیں ہر اس چیز میں فارس و روم کی مشابہت سے روکا گیا ہے جو ان کے امتیازات میں سے ہو مثلا قوم کے سرداروں اور سرکردہ لوگوں کی تعظیم و تقدس کرنا ،شریعت الہی کے خلاف عالموں اور درویشوں کی اطاعت کرنا دین میں بے باسختی اختیار کرنا .

 

چھٹی قسم:

غیر مسلم عجمی لوگ:

 


یہ ممانعت نبی صلی الله علیه وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ہے کہ جب آپ صلی الله علیه وسلم نے کپڑے کے نیچے ریشم لگانے سے منع فرمایا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جیسا عجم کے لوگ کرتے ہیں یا اپنے مونڈھے پر ریشم لگائے جیسا کہ عجم کے لوگ کرتے ہیں.

[ ابو داؤد4049/’نسائ8/ 143مسنداحمد4/’134’اقتصاء’الصراط المستقیم لا بن تیمیہ 1/’304]

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ مقتدی کھڑے ہوں اور امام کسی بیماری کے سبب بیٹھا اس خوف سے کہ کسی کے ذھن میں تعظیم کا شبہہ پیدا ہوا اور جیسا کہ حدیث میں اس وجہ سے جی بیان کی گئی کہ یہ عجمیوں کے فعل کے مثابہ ہے کیونکہ وہ اپنے سرداروں اور بڑے لوگوں کی تعظیم میں کھڑے ہوتے ہیں چناچہ اس فعل کے غیر مسلم عجمیوں سے مشابہت کی وجہ سے اسلام میں اس سے منع کیا گیا یے.


 [مسلم حدیث نمبر 413’ابوداؤد602’606’5230’،ابن ماجہ 124’مسنداحمد5/’253،256]


عمر بن خطاب رضی الله عنه سے ثابت ہے کہ انھوں نے عجم اور مشرکین کا بھیس اور روپ اختیار کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے بیشتر سلف صالحین نے اس کی ممانعت کی جانب اشارہ کیا ہے۔

 

ساتویں قسم :اہل جاہلیت:

 

شریعت اسلامیہ میں دور جاہلیت کے افعال ، اخلاق، عبادات، عادات، اور طور و طریقہ کو اپنانے سے روکا گیا ہے مثلا بگ پردگی، عورتوں کا اپنی زیب و زینت کی نمائش کرنا، محرم کا سایہ کی بجائے دھوپ میں رہنا جیسا کہ آج رافضہ کرتے ہیں، یہ دور جاہلیت کے افعال میں سے ہے ، کلی یا جزئی طور پر بے پردہ ہونا ، قومی تعصب ، خاندانی شرافت پر فخر، نسب میں طعن و تشنیع، نوحہ و ماتم ، ستاروں سے بارش طلب کرنا.
چناچہ جب اسلام کی آمد ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دور جاہلیت کی ہر عادت و خصلت رسم و رواج اور طور و طریقہ کوکالعدم قرار دیا انھیں میں سے عورتوں کی بے پردگی، مردوزن کا باہم اختلاف اور سودی لین دین بھی ہے.

آٹھویں قسم:شیطان:

 

جن لوگوں کی مشابھت سے ہمیں روکہ گیا ہے اس میں سے ایک شیطان بھی ہے، نبی صلی الله علیه وسلم نے بعض شیطانی کاموں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے اپنانے سے منع فرمایا مثلا بائیں ہاتھ سے کھانا پینا ، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیه وسلم نے فرمایا:


“لا یاکلن احدکم مشماله ولا یشرب بھا فان الشیطان یاکل بشماله و یشرب بھا”


کوئئ شخص بائیں ہاتھ سے نہ کھائے پئے ، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔

(مسلم حدیث نمبر ۲۰۱۹)

بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے مسلمان تساہل اور تکبر کی وجہ سے حق سے گریز کرتے ہوۓ اور شیطان کے دوست کفار وفساق کی مشابہت میں اس عادت بد کے شکار ہیں ۔

 

نویں قسم :
باد بیشین لوگ جن کا ایمان پا یہ کھیل کونہیں پہنچا ہے۔

 

اس سے مراد جاہل باد پیشین لوگ ہیں، کیوں کہ باد پیشین بیشتر بہت سے ایسے طریقے اور رسم و رواج ایجاد کرتے ہیں جن کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے، بلکہ بعض طریقے دور جاہلیت سے وراثت میں آۓ ہوۓ ہوتے ہیں، اجڈ بادی نشینوں کے یہاں طور وطریقہ، رسم و رواج اور ان کی اصطلاحات میں ایسی چیز میں پائی جاتی ہیں جو شریعت کے منافی ہوتی ہیں مثلا جا ہلی تعصب، خاندانی شرافت پر فخر ، نسب میں طعن تشیع ، مغرب کو عشاء اور عشاء کوعتمہ کہنا ،طلاق کی قسم کھانا ،کسی عمل پر طلاق دینے کو معلق کرنا ، اپنی چچا زاد بہن کو ایسا پابند بنانا کہ وہ اپنے چچا زاد بھائی ہی سے شادی کرے اور اس طرح کی دیگر جاہلانہ عادتیں ۔

Table of Contents