Search
Sections
< All Topics
Print

17. PUL SIRAAT PAR GUZARNA [AS-SIRAAT (The Bridge) ]

پل صراط پر گزرنا

 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ …چنانچہ وہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئیں گے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (شفاعت کی ) اجازت دی جائے گی۔ پھر امانت اور رحم کو بھیجا جائے گا جو پل صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہو جائیں گے ۔ پھر ( لوگ پل صراط پر سے گزرنا شروع کریں گے ) چنانچہ سب سے پہلا شخص بجلی کی سی تیزی کے ساتھ گذر جائے گا ۔‘‘

میں ( ابو ہریرہ ) نے پوچھا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو ں ، کوئی چیز بجلی کی سی تیزی کے ساتھ بھی گذر سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا : ’’کیا تم نے ( آسمان پر ) بجلی کو نہیں دیکھا ، کیسے وہ تیزی کے ساتھ جاتی ہے اور پلک جھپکتے ہی واپس آتی ہے! ‘‘

پھر دوسرا آدمی ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گذر جائے گا۔

پھرتیسرا آدمی پرندے کی اڑان اور( طاقت ور ) مردوں کے دوڑنے کی طرح گذر جائے گا ۔

یہ سب اپنے اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے گذریں گے اور تمھارا نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پل صراط پر کھڑا کہہ رہا ہو گا: ( یَا رَبِّ ! سَلِّمْ سَلِّمْ ) ’’اے میرے رب ! تو ہی سلامتی دے اور تو ہی محفوظ فرما۔ ‘‘ یہاں تک کہ بندوں کے اعمال عاجز آ جائیں گے۔ اور یہاں تک کہ ایک آدمی ایسا آئے گا جو گھسٹ گھسٹ کر ہی چلنے کے قابل ہو گا ۔ پل صراط کے کناروں پر لوہے کے ہُک لٹکے ہوئے ہوں گے جنھیں بعض لوگوں کو پکڑنے اور اچک لینے کا حکم دیا گیا ہو گا ۔ لہٰذا وہاں سے گزرنے والوں میں سے کچھ تو خراشیں وغیرہ لگنے کے بعد نجات پا کر اسے عبور کر جائیں گے اور کئی لوگوں کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گااور وہ جہنم میں گر جائیں گے۔ ‘‘

پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے ! جہنم کی گہرائی سترسال کی مسافت کے برابر ہے ۔ ‘‘

صحیح مسلم:195

 

جبکہ حضرت ام مبشر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے اور آپ نے ارشاد فرمایا:

 
(( لَا یَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَائَ اللّٰہُ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا تَحْتَہَا))

 

’’ اصحاب الشجرۃ ( درخت والوں ) میں سے جنھوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی کوئی شخص جہنم میں داخل نہیں ہو گا۔ ‘‘

 

توحضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے :

 

﴿وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا﴾

 

’’ تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے ‘‘ ؟

 

مریم19:71

 

تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس سے اگلی آیت نہیں پڑھی :

 

﴿ ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾

 

مریم19:72

 

’’ پھر ہم پرہیزگاروں کو تو بچا لیں گے ۔ ‘‘

 

صحیح مسلم :2496

 

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 

’’کسی مسلمان کے تین بچے مر جائیں ( اور وہ ان پر صبر کا مظاہرہ کرے ) تو اسے دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی ، ہاں صرف قسم کو پورا کرنے کیلئے ۔ ‘‘

 

صحیح البخاری:1251و6656، صحیح مسلم :2632

 

قسم کو پورا کرنے سے مراد کیا ہے؟اسکے متعلق امام نووی نے محدثین کے متعدد اقوال شرح مسلم میں نقل کئے ہیں۔ان میں سے ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:

 

﴿وَإِنْ مِّنْکُمْ إِلَّا وَارِدُہَا﴾

 

 

’’ تم میں سے ہر ایک وہاں ضرور وارد ہونے والا ہے۔ ‘‘واللہ اعلم

مریم19:71

 

ایک اور پل صراط …جنت ودوزخ کے درمیان

 

آخرت میں دو پل صراط ہو نگے۔ ایک پل صراط وہ ہو گا جس پر سے تمام اہل ِ محشر کو گذرنا ہو گا سوائے ان لوگوں کے جو بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو نگے ۔اسی طرح وہ لوگ بھی جن کوجہنم کی ایک گردن پکڑ لے گی اور جہنم میں پھینک دے گی۔ لہٰذا جو لوگ اس پل صراط کو عبور کر جائیں گے اور وہ صرف مومنین ہو نگے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہو گا کہ اگر ان سے قصاص لیا گیا تو ان کی نیکیاں ختم نہیں ہو نگی انھیں دوسرے پل صراط پر روک لیا جائے گا جہاں ان کے درمیان حقوق العباد کا قصاص لیا جائے گا ۔ اور ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہو گا جسے واپس جہنم میں بھیجا جائے گا کیونکہ وہ پہلے پل صراط کو عبور کر چکے ہو نگے جو عین جہنم کے اوپر ہو گا۔ اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہو گا کہ انھیں جہنم میں ڈالنا ہے تو وہ اس پہلے پل صراط کو ہی عبور نہیں کر سکیں گے اور اس پر سے گذرتے ہوئے وہ جہنم میں گر جائیں گے ۔

حضرت ابو سعید الخدر ی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

 

(( یَخْلُصُ الْمُؤْمِنُوْنَ مِنَ النَّارِ فَیُحْبَسُوْنَ عَلٰی قَنْطَرَۃٍ بَیْنَ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ، فَیُقْتَصُّ لِبَعْضِہِمْ مِنْ بَعْضٍ مَظَالِمُ کَانَتْ بَیْنَہُمْ فِی الدُّنْیَا حَتّٰی إِذَا ہُذِّبُوْا وَنُقُّوْا أُذِنَ لَہُمْ فِیْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ )) 

 

’’ مومن جہنم سے بچ کر جنت ودوزخ کے درمیان بنے ہوئے ایک پل پر پہنچیں گے جہاں انھیں روک لیا جائے گا اور ان کے ان حقوق کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں ان کے درمیان واجب الأداء تھے ۔ یہاں تک کہ جب انھیں ( گناہوں سے اور بندوں کے حقوق سے ) بالکل صاف اور بری کردیا جائے گا تو انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ ‘‘

صحیح البخاری:2440و6535

 

ریفرنس:
کتاب:”زادالخطیب” جلد:دوم
ڈاکٹر محمد اسحاق زاہد

 

Table of Contents