21. Imam Abu Dawood [Sunan][D: 275]
امام ابو داؤد رحمہ اللہ
*حالات زندگی امام ابو داؤد رحمہ اللہ*
*نام و نسب*
ابو داؤد سلیمان بن اشعث بن اسحاق بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران۔ یمن کے معروف قبیلہ ازد کی نسبت سے ازدی اور علاقہ سیستان یا سجستان کی نسبت سے سجستانی یا سجزی کہلاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے جد اعلی عمران جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور اسی میں قتل ہوئے تھے۔ واللہ اعلم.
*ولادت و نشوونما*
٢٠٢ ہجری میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ سن شعور کو پہنچے تو معروف اسلامی انداز و اطوار سے آپ کی تعلیم و تربیت کا مرحلہ طے ہوا۔ اور بقول, ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات’ آپ ذہانت و فطانت کی وہبی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ پہلے اپنے علاقے کے علماء و اساتذہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ اس کے بعد کامل طور پر علم حدیث کی طرف راغب ہوگئے اور علمی مراکز کا رخ کیا۔ عراق، جزیرہ، شام، مصر اور حجاز وغیرہ جہاں بھی علماء حدیث اور مشائخ کے متعلق سنا’ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا دامن علم زیادہ سے زیادہ بھرنے کی کوشش کی۔ اور اس مسافرت میں ہر ہر علاقے کی تہذیب و ثقافت سے بھی خوب آگاہ ہوئے۔
*اساتذہ اکرام*
امام صاحب نے وقت کے عظیم ترین اساطین علم سے استفادہ کیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ” سنن ابو داود” وغیرہ میں آپ کے معروف اساتذہ کی تعداد تین سو کے قریب ہے۔ ان میں امام احمد بن حنبل، یحيى بن معین، عثمان بن ابی شیبہ، اسحاق بن راہویہ، ابو الولید طیالسی، قتیبہ بن سعید، اور مسدد بن مسرہد وغیرہ رحيم اللہ کے عظیم الشان نام بہت نمایاں ہیں۔ اور یہ سب امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی سر بلندی اور علمی عظمت و وقار کی شاندار سند ہیں۔
*تلامذہ*
حصول علم کے بعد آپ عنفوان شباب ہی میں مسند تدریس پر فائز ہوگئے اور ساتھ ساتھ انتخاب احادیث اور تالیف کا عمل بھی شروع کردیا۔ آپ طرسوس میں تقریبا بیس سال رہے اور وہاں آپ اپنی یہ عظیم کتاب “السنن” ترتیب دے چکے تھے۔ ایک زمانہ نے آپ سے احادیث رسول کا درس لیا۔ آپ کے تلامذہ میں بڑے بڑے آئمہ کے نام آتے ہیں۔ آپ کے جلیل القدر شیخ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی آپ سے ایک حدیث لی تھی اور اس پر آپ بہت فخر کیا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں امام ترمذی، نسائی، ابو عوانہ، اسفرائینی، زکریا ساجی، ابو بشر محمد
بن احمد دولابی، محمد بن نصر مروزی آپ کے وہ معروف شاگرد ہیں جو امت کے امام کہلائے ہیں اور اصحاب تصانیف بھی ہیں۔
*سنن ابو داؤد کے راوی*:
ان کے علاوہ وہ حضرات جو سنن ابو داؤد کے راوی ہونے کی شہرت رکھتے ہیں، آپ کے خاص معروف شاگرد ہیں۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :
✯ ابو علی محمد بن احمد بن عمرو اللؤلؤی
✯ ابوبکر محمد بن بکر بن عبد الرزاق بن داسہ التمار
✯ ابو سعید احمد بن محمد بن زیاد الاعرابی
✯ ابو الحسن علی بن الحسن بن عبد انصاری
✯ابو اسامہ محمد بن عبد المالک الرؤاسی
✯ابو سالم محمد بن سعید الجلودی اور
✯ ابو عمرو احمد بن علی بن حسن البصری رحمہم اللہ
*امام صاحب کا علمی وقار و مرتبہ*:
درجہ ذیل واقعہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کی جلالت علمی اور اس دور کے علمی حلقات میں آپ کی اہمیت کی بہترین دلیل ہے۔ ہوا یہ کہ ٢٥٧ ہجری میں بصرہ میں کچھ ہنگامے پھوٹ پڑے اور ان کا اثر یہ ہوا کہ بصرہ باوجودیکہ ایک پررونق تجارتی منڈی اور شاندار علاقہ تھا لوگوں نے وہاں سے کوچ کرنا شروع کردیا۔ شہر اور منڈی اجڑنے لگی تو اس بڑھتی ہوی ویرانی کو روکنے کے لیے وہاں کے امیر ابو احمد الموفق نے امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے ساتھ بغداد میں خصوصی ملاقات کی اور درخواست کی کہ آپ بصرہ تشریف لے چلیں اور اسے ہی اپنا وطن بنالیں تاکہ آپ کی وجہ سے طلبہ اور علماء اس شہر کا رخ کریں اور اس علاقہ کی آبادی کاسامان ہوجائے۔ چنانچہ امام صاحب نے امیر بصرہ کی یہ درخواست قبول کرلی اور آپ نے بصرہ کو اپنا مرکز دعوت و تدریس بنالیا تو اس کی رونقیں واپس آنے لگیں۔ یہ واقعہ دلیل ہے کہ بھلے وقتوں میں عوام و امراء اپنے علماء کو اپنے شہروں کی زینت سمجھتے تھے اور ان کا وجود اپنے لیے باعث عزت و برکت گردانتے تھے۔
ایک بار جناب سہیل بن عبداللہ تستری رحمہ اللہ امام صاحب کی زیارت کے لیے آئے۔ آپ نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور ان کو عزت و احترام سے نوازا۔ انہوں نے عرض کیا، حضرت الامام! میں آپ کی خدمت میں ایک اہم کام سے آیا ہوں۔ آپ نے پوچھا، فرمائے؟ کہا کہ پہلے وعدہ فرمائیں حتی الامکان ضرور کریں گے۔ آپ نے وعدہ فرمالیا کہ جہاں تک ہوسکا میں آپ کا کام ضرور کروں گا۔ تو جناب سہیل رحمہ اللہ نے عرض کیا حضرت! میں آپ کی اس مبارک زبان کا بوسہ لینا چاہتا ہوں، جس سے آپ احادیث رسول بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ امام صاحب نے اپنی زبان باہر نکالی اور انہوں نے اس کا بوسہ لیا۔
❁امام ابراہیم حربی رحمہ اللہ نے کہا: امام ابو داؤد رحمہ اللہ کے لیے حدیث ایسے ہی نرم کردی گئی تھی جیسے کہ سیدنا داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا۔
❁جناب موسی بن ہارون رحمہ اللہ نے کہا: امام ابو داؤد دنیا میں حدیث کے لیے اور آخرت میں جنت کے لیے پیدا کئے گئے تھے اور میں نے ان سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔
❁جناب احمد بن محمد بن یاسین ہروی کہتے ہیں: امام ابو داؤد اسلام کے ممتاز ترین حفاظ میں سے تھے۔ انہیں علم حدیث اور اس کی اسانید و علل پر کامل عبور حاصل تھا، عبادت، عفت اور اصلاح و تقویٰ میں ان کا درجہ بہت بلند تھا۔ آپ فن حدیث کے ماہر ترین محدثین میں سے تھے۔
❁امام ابو حاتم بن حبان کا قول ہے: امام ابو داؤد اپنے علم، تفقہ، حفظ، عبادت، ورع و تقویٰ اور پختگی علم میں یگانہ روزگار تھے، انہوں نے احادیث جمع کیں، کتب تصانیف کیں اور سنت رسول کا کامل دفاع کیا۔
❁امام ابو عبداللہ بن مندہ کہتے ہیں: وہ ممتاز آئمہ جنہوں نے احادیث کی تخریج کی اور صحیح و خطا میں امتیاز کیا چار ہیں: امام بخاری، امام مسلم اور ان کے بعد امام ابو داؤد اور نسائی رحيم اللہ۔
الغرض اس،قسم کے دسیوں اقوال آئمہ وقت نے حضرت الامام ابو داؤد رحمہ اللہ کی مدح و ثنا میں بیان کیے ہیں۔
*اقوال حکمت*: امام صاحب کے ذکر جمیل میں بعض تذکرہ نگاروں نے آپ کے کچھ اقوال بھی نقل کیے ہیں جو یقینا حکمت بھرے ہیں۔ مثلا:
❁[الشَّهوَةُ الخَفِيَّةُ حُبُّ الرِّئَاسَةِ]
“سرداری و سربراہی کی خواہش مخفی شہوات میں سے ہے۔”
❁[خَيرُ الكَلاَمِ مَا دَخَلَ الأُذُنَ بِدُونِ إِذُنٍ]
” بہترین بات وہ ہے جو بلا اجازت ہی کان میں داخل ہوجائے۔”
❁[مَنِ اقتَصَرَ علىّ لِبَاسٍ دُونٍ و مُطعَمٍ دُونٍ أرَاحَ جَسَدَه]
” جس نے کمتر سادہ لباس اور کمتر سادہ کھانے پر قناعت کرلی اس نے اپنے جسم کو بہت راحت دی۔”
اس ضمن میں آپ کا وہ مقولہ بھی بڑا حکمت بھرا ہے کہ میں نے اپنی کتاب ” سنن” میں چار ہزار آٹھ سو احادیث جمع کی ہیں۔ ان میں صحیح، اس کے مشابہ اور اس کے قریب درجے کی روایات ہیں۔ کسی بھی انسان کی دینداری کے لیے ان میں سے صرف چار حدیثیں کافی ہیں۔
1) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔
2) انسان کے بہترین اسلام کی علامت یہ ہے کہ بے مقصد امور کو چھوڑ دے۔
3) کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے۔
4 ) حلال واضح ہے اور حرام بھی، اور ان کے درمیان بہت سی چیزیں شبہے والی ہیں۔
*اپنی اولاد کے لیے سماع حدیث کا شوق* :
امام صاحب جہاں امت کے لیے عظیم داعی اور محدث تھے وہاں اپنی اولاد کے لیے بھی یہی شوق رکھتے تھے. اور ہر باپ کی طرح چاہتے تھے کہ یہ مراحل جلد از جلد طے ہوں اور وہ سماع حدیث کی فضیلت حاصل کریں۔ یاقوت حموی نے ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ امام صاحب کے شیخ احمد بن صالح نوعمر امرد بچوں کو اپنی مجلس میں سماع کی اجازت نہ دیا کرتے تھے۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ کا ایک صاحبزادہ نوعمر تھا اور آپ چاہتے تھے کہ کسی طرح شیخ احمد سے سماع حدیث کا شرف حاصل کرلے۔ تو اس غرض کے لیے آپ نے ایک حیلہ اختیار کیا کہ بچے کے چہرے پر بناوٹی ڈاڑھی لگا دی تاکہ بڑا نظر آئے۔ مگر یہ بات کھل گئی۔ اور پھر دوسرے بڑے بڑے علماء کے سامنے اس بچے کی ذہانت و فطانت واضح بھی ہوگئی مگر شیخ احمد نے مزید سماع کی اجازت نہ دی۔
*جرأت و بےباکی*: علمائے حق کی ایک صفت یہ رہی ہے کہ وہ حکام وقت سے بالخصوص کسی طرح مرعوب نہ ہوتے تھے اور حق کا اظہار کردیا کرتے تھے۔ امیر بصرہ ابو احمد الموفق نے درخواست کی کہ آپ میرے بچوں کو اپنی “سنن” کا درس دیں، مگر مجلس ان کے لیے خاص ہو کیونکہ امراء کے بچے عوام کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ آپ نے پہلی بات تو قبول کی لیکن دوسری سے انکار کردیا اور فرمایا کہ علم کے معاملے میں عوام و خواص سب برابر ہیں۔ چنانچہ وہ آپ کی عام مجلس میں آتے تھے مگر درمیان میں پردہ ہوتا تھا۔
*وفات*:
امام ابو داؤد رحمہ اللہ اپنی زندگی کی تہتر بہاریں دیکھنے کے بعد ١٥ شوال ٢٧٥ہجری کو بصرہ میں اپنے رب کے مہمان جا بنے اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ رحمه الله رحمة واسعة۔
*امام صاحب کی تصنیفی خدمات*: آپ نے علم حدیث کی زبانی اشاعت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ جو قلمی ذخیرہ چھوڑا ہے وہ انتہائی وقیع اور قابل قدر ہے۔ درجہ ذیل کتب آپ کا،علمی ورثہ ہیں:
1) السنن
2) مسائل احمد
3) الناسخ والمنسوخ
4) اجاباته عن سؤالات ابي عبيد محمد بن علی بن عثمان الأجري
٥) رسالة في وصف كتاب السنن
٦) كتاب الزهد
٧) تسمية الإخوة الذين روي عنهم الحديث
٨) أسئلة الإمام أحمد بن حنبل عن الرواة والثقات
٩) كتاب القدر
١٠) كتاب البعث والنشور
١١) المسائل التي حلف عليها الإمام أحمد
١٢) دلائل النبوة
١٣) التفرد في السنن
١٤) فضائل الأنصار
١٥) مسند مالك
١٦) الدعاء
١٧) ابتداء الوحي
١٨) أخبار الخوارج
١٩) ماتفردبه اهل الأمصار
٢٠) معرفة الإخوة والأخوات
٢١) الآداب الشرعية
—————————————-
یہ مضمون جناب ڈاکٹر محمد بن لطفی الصباغ کے مقالہ “ابوداؤد، حياة و سننہ” سے ماخوذ ہے۔ یہ رسالہ مکتب اسلامی بیروت سے طبع شدہ ہے۔
حوالہ :
نام كتاب : “سُنن ابُودَاوُد” اردو
ترجمه : ‘ شیخ ابو عمار عمر فاروق سعیدی (حفظه الله تعالى)’
تخریج: ‘حافظ ابوطاہر زبیرعلی زئی (رحمه الله عليه)