Search
Sections
< All Topics
Print

38. Hazrat Asim Bin Sabit (رضی اللہ عنہ)

حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ

 

جو کوئی جنگ لڑے اسے چاہیئے کہ عاصم بن ثابت کی طرح جنگ لڑے۔ فرمان نبویﷺ.

 

سید المرسلین حضرت محمدﷺ سے مقابلہ کرنے کے لئے قریش سب کے سب احد کی طرف نکلے مقابلہ آرائی کے لئے لشکر میں سردار بھی موجود تھے اور غلام بھی۔

غزوہ بدر میں بری طرح شکست کھا جانے کی بنا پر ان کے سینے مسلمانوں کے خلاف بغض و کینہ سے اٹے ہوئے تھے، اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لئے ان کا خون جوش مار رہا تھا۔

انہوں نے اپنے ہمراہ قریش کی عورتیں بھی لے لیں تاکہ وہ مردوں کو جنگ کے لئے ابھاریں اور جوانوں کے دلوں میں آبائی غیرت کے دیپ جلائیں اور انہیں پل بھر کے لئے بھی مضمحل نہ ہونے دیں، ان عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ اور عمرو بن عاص کی بیوی ریطہ بنت منبہ اور طلحہ کی بیوی سلافہ بنت سعد اپنے تینوں بیٹوں مسافع’ جلاس اور کلاب کے ہمراہ لشکر میں شامل ہوئیں ان کے علاوہ بھی بہت سی عورتیں شامل لشکر تھیں۔ جب جنگ احد میں دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کا رن پڑا تو ہند بنت عتبہ اور دیگر چند عورتیں اٹھیں اور صفوں کے پیچھے جا کھڑی ہوئیں، ان کے ہاتھوں میں ڈھولکیاں تھیں انہوں نے ڈھولک کی تھاپ پر یہ گانا شروع کر دیا۔

ان تُقْبِلُوا نَّعانق و نفرش النمارِق
اوتدبروا نفارق فراق غیر وَامِق

اگر تم آگے بڑھو گے تو ہم گلے ملیں گی۔ اور تمہاری لئے تکئے لگائیں گی۔ اگر تم پیٹھ  پھیر کر بھاگ نکلے تو ہم تمہیں دھتکار دیں گی۔

جذبات سے لبریز ترانہ شہسواروں کے سینوں میں قبائلی غیرت کی آگ بھڑکاتا۔ اور ان کے شوہروں کے سینوں میں جادو کا اثر کرتا۔ پھر جنگ سرد پڑ گئی۔ مسلمانوں پر قریش کو غلبہ حاصل ہو گیا’ تو عورتیں فتح کے نشہ میں سرشار میدان کار زار میں رقص کناں ہوئیں اور شہداء کی لاشوں کا مثلہ کرنے لگیں، انہوں نے جوش انتقام میں لاشوں کے پیٹ چاک کر دیئے، آنکھیں نکال دیں، کان اور ناک کاٹ دیئے ان میں سے ایک عورت کا غصہ اس سے بھی ٹھنڈا نہ ہوا تو اس نے میدان بدر میں قتل ہو جانے والے اپنے باپ، بھائی اور چچا کا انتقام لینے کے خیال سے لاشوں کے ناک’ کان کاٹ کر دھاگے میں پروئے۔ ایک کو ہار کے طور پر گلے میں ڈالا اور دوسرے کا پازیب بنایا۔


لیکن سلافۃ بنت سعد کی اپنی قریشی سہیلیوں سے الگ تھلگ شان ہی نرالی تھی۔ وہ بڑی بےچینی کے ساتھ اپنے خاوند اور تین بیٹوں کا شدت سے انتظار کر رہی تھی کہ اگر وہ نظر آ جائیں تو میں بھی فتح و کامیابی کی خوشی میں دوسری عورتوں کے ساتھ شریک ہو سکوں، اس کا دیر تک انتظار کرنا رائیگاں گیا تو وہ معرکہ آرائی کے میدان میں لاشوں کے چہروں کو مولتی ہوئی دور تک چلی گئی، اچانک وہ کیا دیکھتی ہے کہ اس کا خاوند خون میں لت پت موت کے منہ میں جا چکا ہے تو وہ مصیبت ناک شیرنی کی طرح بھر گئی اور انتہائی پھرتی کے ساتھ اپنے بیٹوں مسافع، کلاب اور جلاس کو میدان کے کونے کونے میں تلاش کرنے لگی۔

تھوڑی دیر بعد انہیں دیکھا کہ ان کی لاشیں احد کی چٹانوں پر بکھری پڑی ہیں۔ مسافع اور کلاب تو موت کے گھاٹ اتر چکے تھے، اور تیسرا بیٹا جلاس آخری سانس لے رہا تھا۔

سلافہ غم و اندوہ میں مبتلا اپنے بیٹے کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کا سر اپنی گود میں لیا’ چہرے اور پیشانی سے خون صاف کرنا شروع کیا۔ اس کی زندگی بچانے کے لئے سر توڑ کوشش کرنے لگی۔ اس ہولناک منظر کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو گئے، آہ و بکا کے عالم میں اپنے بیٹے سے پوچھا: میرے لخت جگر! تجھے کس نے یہ گہرے زخم لگائے، اس نے جواب دینا چاہا لیکن اکھڑا ہوا سانس جواب دینے میں رکاوٹ بن گیا۔ اس نے بار بار پوچھا کہ تجھے کس نے کچوکے لگائے؟ اس نے بڑی مشکل سے اکھڑتے ہوئے سانس کے ساتھ جواب دیا کہ مجھے میرے باپ اور بھائیوں کو عاصم بن ثابت نے مارا۔


یہ سن کر سلافہ بنت سعد دیوانہ وار دھاڑیں مار کر رونے لگی اور لات و عزی کی قسم کھا کر کہنے لگی، میری آتش غضب اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہو گی جب تک قریش عاصم بن ثابت سے بدلہ نہیں لیں گے اور شراب نوشی کے لئے اس کے سر کی کھوپڑی مجھے نہیں دیں گے۔

پھر اس نے یہ اعلان کر دیا کہ جو اسے زندہ پکڑ کر لے آئے یا اس کا سر لے آئے تو میں اسے منہ مانگی دولت دوں گی، اس کا یہ اعلان قریش میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ہر نوجوان کے دل میں یہ تمنا انگڑائیاں لینے لگی کہ کاش یہ انعام میرے حصے میں آئے اور میں عاصم بن ثابت کو تہہ تیغ کرنے کا اعزاز حاصل کر سکوں۔


غزوۂ احد کے بعد مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے اور معرکہ آرائی کے متعلق آپس میں باتیں کرنے لگے۔ شہداء کے لئے رحمت کی دعا اور غازیوں کی ہمت و جرات کا تذکرہ نہایت ادب و احترام سے کرنے لگے۔ دوران گفتگو حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے کارنامے کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑے تعجب کا اظہار کیا کہ عاصم رضی اللہ عنہ نے ایک ہی گھر کے چار افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حاضرین میں سے ایک نے کہا:
بھلا اس میں تعجب کی کون سی بات ہے؟ کیا آپ کو یاد نہیں غزوہ بدر سے پہلے جب رسول اکرمﷺ نے ہم سے سوال کیا تھا کہ تم کیسے لڑو گے؟ تو عاصم بن ثابت کھڑے ہوئے کمان اپنے ہاتھ میں پکڑی اور کہا: جب دشمن سو ہاتھ کے فاصلے پر ہو گا تو لڑائی تیر اندازی سے ہوگی۔

جب دشمن اور زیادہ قریب آ جائے گا تو لڑائی نیزے کے ساتھ ہوگی، یہاں تک کہ 

نیزے ٹوٹ جائیں گے۔ اور جب نیزے ٹوٹ جائیں تو پھر لڑائی تلوار سے دست بدست ہوگی۔
یہ سن کر رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
واقعی جنگ اسی طرح لڑنی چاہئے۔
جو دشمن سے جنگ لڑنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عاصم بن ثابت کی طرح جنگ لڑے۔


غزوہ احد کو ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ رسول اللہﷺ نے چھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ایک خاص مشن پر روانہ کیا اور ان کا امیر حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔

یہ منتخب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرمﷺ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے مشن پر روانہ ہوگئے۔ مکہ مکرمہ سے ابھی تھوڑے سے فاصلے پر تھے کہ قبیلہ ہذیل کی ایک جماعت کو ان کے بارے میں علم ہو گیا تو وہ سرپٹ ان کی طرف دوڑے اور انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تلواریں نکال لیں اور مقابلے کے لئے تیار ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر بنو ہذیل کہنے لگے:
آج تم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے، بخدا! ہم تمہیں کوئی نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتے، اگر تم ہتھیار ڈال دو تو ہم اللہ تعالی کو گواہ بنا کر تم سے عہد کرتے ہیں کہ تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا’ یہ تجویز سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ گویا کہ وہ مشورہ کر رہے ہیں کہ اب کیا کریں حضرت عاصم رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:

میں تو مشرکوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔ پھر انہیں سلافہ بنت سعد کی نذر یاد آئی اپنی تلوار سونتی اور یہ دعا کی:

الہی! میں تیرے دین کی حفاظت اور اس کا دفاع کرتا ہوں، ازراہ کرم میرے گوشت اور ہڈیوں کی حفاظت فرما اور میرے جسم کا گوشت اور ہڈیاں دشمنان خدا کے ہاتھ نہ لگیں۔ پھر بنو ہذیل پر حملہ کر دیا اور ان کے دو ساتھی بھی حملہ آور ہوئے، وہ بے جگری  nسے لڑے، یہاں تک کہ یکے بعد دیگرے قتل ہو کر گر گئے، باقی تین ساتھیوں نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے بدعہدی کی۔


پہلے پہل تو قبیلہ ہذیل کہ یہ پتا نہیں لگا تھا کہ قتل ہونے والوں میں عاصم بن ثابت بھی ہے۔ جب انہیں پتہ چلا تو بہت خوش ہوئے خاطر خواہ انعام ملنے کے تصور میں بہت خوش ہوئے۔

چونکہ سلافہ بنت سعد نے یہ نذر مان رکھی تھی کہ اگر وہ حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سر کی کھوپڑی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تو اس میں شراب نوشی کرے گی۔ اور ساتھ ہی اس نے یہ اعلان بھی کیا ہوا تھا کہ جو اسے زندہ پکڑ کر لائے یا مردہ حالت میں، بہر دو صورت وہ اسے منہ مانگی رقم دے گی۔


حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شہادت سے چند گھنٹے بعد قریش کو ان کی لاش کا علم ہوا۔ بنو ہذیل مکہ کے قریب مقیم تھے۔

زعمائے قریش نے ان کے پاس اپنی طرف سے ایک قاصد بھیجا اور ان سے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے سر کا مطالبہ کیا، تاکہ سلافہ بنت سعد کا غصہ ٹھنڈا کر سکیں اور وہ اپنے بیٹوں کے قاتل کے سر کی کھوپڑی میں شراب پی کر اپنے غم کو ہلکا کر سکے۔

قریش نے اپنے قاصد کو وافر مقدار میں مال بھی دیا تھا تاکہ وہ بنو ہذیل کو قیمتی تحائف اور نقد مال دے کر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کا سر لینے میں کامیاب ہو سکے۔


بنو ہذیل حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے کے لئے ان کے جسد اطہر کے قریب ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ ان کے سر اور جسم کے ہر حصے کو بےشمار شہد کی مکھیوں اور بھڑوں نے گھیرے میں لے رکھا ہے۔

جونہی وہ ان کے جسم کے قریب ہوئے مکھیوں اور بھڑوں نے ان کی آنکھوں، چہروں اور جسم کے ہر حصے پر زہریلے ڈنگ مارے اور انہیں دور بھگا دیا۔یکے بعد دیگرے کوشش کرنے کے بعد جب وہ مایوس ہو گئے اور جسم تک پہنچنے کی صورت نظر نہ آئی تو ایک دوسرے سے کہنے لگے۔

چھوڑو! رات آنے دو۔ جب رات کا اندھیر چھا جائے گا’ تو بھڑیں جسم سے الگ ہو جائیں گی’ تو پھر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہو۔ یہ تجویز سن کر سبھی تھوڑی دور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔


ابھی دن ختم نہیں ہوا تھا اور رات شروع ہوئی تھی کہ گھنے سیاہ بادل آسمان پر نمودار ہوئے بادل کڑکا اور فضا میں لرزا طاری ہو گی۔ ایسی موسلادھار بارش ہوئی کہ عمر رسیدہ لوگوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی زندگی میں اس جیسی بارش کبھی نہیں دیکھی تھی۔

جلد ہی راستے اور گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں، نشیبی علاقے پانی سے بھر گئے، سیلاب کی مانند چاروں طرف پانی ہی پانی دکھائی دینے لگا۔

جب صبح ہوئی تو بنو ہذیل حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی لاش ہر جگہ تلاش کرنے لگے، لیکن کہیں اس کا سراغ نہ ملا۔

سیلاب اسے بہا کر کہیں دور نامعلوم جگہ پر لے گیا۔ دراصل اللہ سبحانہ وتعالی نے حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کی دعا قبول کر لی اور ان کے جسم اطہر کی حفاظت کی۔

اور ان کے باعزت سر کو اس ذلت آمیز سلوک سے بچا لیا کہ اس کی کھوپڑی میں شراب پی جائے۔

اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو مومنوں پر غالب نہ ہونے دیا۔


حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

ا۔ الاصابه (مترجم) ۴۳۴۰
٢- الاستيعاب ۳/ ۱۳۲ 
۳۔ اسد الغابة (مترجم) ۲۶۶۴
۴- الطبقات الكبرى ۹۰/۳/۱۷۹٬۵۵٬۴۳٬۴۱/۲
ه۔ حلية الأولياء ۱/ ۱۱۰
۶- صفة الصفوة
فہرست دیکھئے
۷۔تاريخ الطبری
جلد ۱۰ کی فہرست دیکھئے
۸- البدايه والنهايه ۳/ ۶۲۔۶۹
۹۔تاریخ خلیفه بن خیاط ۷۲۔۳۶
۱۰۔السيرة النبوية لابن هشام
فہرست دیکھئے
۱۱۔المعبر في التاريخ ۱۱۸
۱۲۔دیوان حسان بن ثابت
١٣- حياة الصحابه
جلد چہارم کی فہرست دیکھئے

 

حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents