39. Hazrat Utbah Bin Ghazwaan(رضی اللہ عنہ)
حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ
عتبہ بن غزوان کا اسلام میں بہت بلند مقام ہے۔ ارشاد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز کے بعد بستر پر لیٹے تاکہ کچھ دیر آرام کر لیں اور رات کو گشت کے لئے تازہ دم ہو سکیں، لیکن خلیفتہ المسلمین کو ایرانی سرحد پر لڑی جانے والی جنگ کی صورت حال کے پیش نظر نیند نہیں آ رہی تھی ڈاک کے ذریعے انہیں معلوم ہوا۔ کہ لشکر اسلام جونہی اس قابل ہوتا ہے کہ ایک زوردار حملے سے ایرانیوں کو پسپا کر دے کہ کسی نہ کسی طرف سے انہیں کمک پہنچ جاتی ہے اور وہ دوبارہ اپنی قوت کو مجتمع کر کے مسلمانوں کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔
امیرالمؤمنین کو بتایا گیا، ابلہ شہر سے ایرانیوں کو کمک بہم پہنچائی جاتی ہے۔ آپ نے عزم کر لیا کہ ابلہ کو فتح کرنے کے لئے لشکر روانہ کروں گا۔ تاکہ ایرانیوں کو کمک موصول ہونے کا راستہ منقطع کر دیا جائے، لیکن آپ کے پاس افرادی قوت کی بہت کمی تھی۔
اس لئے کہ نوجوان اور بوڑھے راہ خدا میں جہاد کے لئے اپنے گھروں سے روانہ ہو چکے تھے اور ان کے بعد مدینہ طیبہ میں صرف چند افراد موجود تھے۔
اس موقع پر آپ نے اپنا معروف حربہ استعمال کیا۔
اور وہ یہ کہ افرادی کمی کو تجربہ کار سپہ سالار کے ذریعہ پورا کیا جائے۔
مدینہ میں موجود تمام افراد کی فہرست سامنے رکھ کر ہر ایک کی صلاحیتوں کا بغور جائزہ لینے لگے، بڑی طویل سوچ و بچار کے بعد یک دم یہ کہتے ہوئے نعرہ زن ہوئے۔ میں نے اسے پا لیا۔
ہاں ہاں میں نے اسے پالیا۔
پھر بستر پر دراز ہوتے ہوئے فرمانے لگے:
یہ ایک ایسا مجاہد ہے جس نے بدر، احد، غزوہ خندق اور دیگر غزوات میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔
اس کی تلوار اور تیر کا نشانہ کبھی خطا نہیں گیا۔
پھر اسے حبشہ اور مدینہ کی جانب ہجرت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔
اور وہ ان خوش نصیب سات مسلمانوں میں سے ہے جنہیں سب سے پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
جب صبح ہوئی امیر المؤمنین نے ارشاد فرمایا:
عتبہ بن غزوان کو میرے پاس بلاؤ۔
اور اس کی کمان میں تین سو انیس مجاہدین کا لشکر ابلہ کی جانب روانہ کر دیا، اور یہ وعدہ بھی کیا کہ میں تمہاری مدد کے لئے وافر تعداد میں اور مجاہدین بھی بھیجوں گا:
جب یہ چھوٹا سا لشکر کوچ کرنے کے لئے تیار ہوا تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ قائد لشکر عقبہ کو وصیت کرتے ہوئے فرمانے لگے:
عتبہ! دیکھنا میں تجھے سر زمین ابلہ کی جانب روانہ کر رہا ہوں، یہ دشمن کے قلعوں میں سے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے پر امید ہوں کہ وہ تیری مدد کرے گا۔
جب وہاں جا کر پڑاؤ کرو تو سب سے پہلے اس کے باشندوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتا۔ ان میں سے جو تیری بات مان لے اسے قبول کرلینا: اور جو انکار کر دے اس سے جزیہ وصول کرنا۔ اگر وہ جزیہ دینے سے انکاری ہوں تو بےخوف و خطر ان کی گردنوں پر تلوار چلانا۔
اے عتبہ! اپنے منصب کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ کبر و نخوت سے بچنا۔ کہیں یہ تمہاری آخرت خراب نہ کر دے اس بات کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لو: تجھے رسول اللہﷺ کی صحبت کا اعزاز حاصل ہے۔ اللہ تعالٰی نے تجھے ذلت کے بعد عزت عطا کی’ کمزوری کے بعد قوت عطا کی، تم اس وقت لشکر کے امیر اور ہر دلعزیز قائد ہو: تم جو بات کہو گے اسے بغور سنا جائے گا’ تم جو حکم دو گے اسے بلا چون و چرا مانا جائے گا’ دیکھنا
کہیں اس نعمت کو غلط استعمال نہ کر بیٹھنا’ ورنہ آخرت میں پچھتانا پڑے گا۔
اللہ مجھے اور تمہیں اپنی پناہ میں رکھے۔
حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ اپنا یہ لشکر لے کر روانہ ہو گئے، اس لشکر میں ان کی بیوی کے علاوہ دیگر پانچ مجاہدین کی بیگمات بھی شامل تھیں۔
ابلہ شہر کے قریب ایک سرسبز جگہ پر پڑاؤ کیا، لشکر کے پاس کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ جب بھوک نے زور پکڑا تو حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے چند لوگوں سے کہا کہ کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کر کے لائیں، وہ خوراک تلاش کرنے کے لئے چل نکلے، تاکہ بھوک کا مداوا ہو سکے۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ان میں ایک نے بتایا:
ہم کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کر رہے تھے، ہم چلتے چلتے درختوں کے ایک جھنڈ میں داخل ہوئے، وہاں دو مٹکے پڑے ہوئے تھے۔ ایک میں کھجوریں تھیں اور دوسرے میں سفید رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے تھے جن پر زرد رنگ کا چھلکا تھا۔ ہم نے دونوں مٹکے اٹھا لئے اور لشکر کے پاس لے آئے۔
ہم میں سے ایک ساتھی نے اس مٹکے کو دیکھا جس میں سفید رنگ کے دانے تھے اور کہنے لگا: یہ تو زہر ہے جو دشمن نے تمہارے لئے تیار رکھا ہے اس کے قریب نہ جانا:
ہم کھجوروں کی طرف لپکے اور انہیں کھانا شروع کر دیا۔ اتنے میں ایک گھوڑا اپنی رسی تڑا کر سیدھا اس مٹکے کی طرف آیا جس میں دانے تھے اور انہیں کھانا شروع کر دیا۔
بخدا! ہم نے ارادہ کیا کہ گھوڑے کو ذبح کر لیں ورنہ زہر سے اس کی موت واقع ہو جائے گی۔
ایک ساتھی نے کہا: رہنے دیجئے’ میں رات بھر پہرہ دوں گا اگر مرنے لگا تو میں فوراً اسے ذبح کر لوں گا۔ جب صبح ہوئی دیکھا کہ گھوڑے کو تو کچھ بھی نہیں ہوا۔
تو میری بہن نے کہا۔
بھائی جان! میں نے اپنے والد سے سنا ہے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ زہر کو اگر آگ پر بھون دیا جائے تو اس سے کچھ نقصان نہیں ہوتا۔
پھر بہن نے تھوڑے سے دانے لئے ہنڈیا میں ڈالے اور نیچے آگ جلا دی۔
تھوڑی دیر بعد کہنے لگی کہ آؤ دیکھو ان کا رنگ کس طرح سرخ ہو گیا ہے اور چھلکا اتر رہا ہے اور اندر سے سفید رنگ کے دانے برآمد ہو رہے ہیں۔ ہم نے کھانے کے لئے وہ دانے ایک بڑے پیالے میں ڈالے تو امیر لشکر نے ارشاد فرمایا:
اللہ کا نام لے کر کھاؤ۔
ہم نے کھائے تو بڑا مزا آیا۔
بعد میں ہمیں پتا چلا کہ ان دانوں کا نام چاول ہے:
ابلہ جسے فتح کرنے کے لئے حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ چڑھائی کی تھی، دجلہ کے کنارے پر واقع ایک محفوظ شہر تھا، ایرانیوں نے یہاں اسلحہ محفوظ کرنے کے لئے بڑے سٹور بنا رکھے تھے اور قلعہ کے برجوں پر اپنے دشمنوں پر نگاہ رکھنے کے لئے رصدگاہیں تعمیر کر رکھی تھیں۔
ان تمام تر انتظامات اور اپنی افرادی قوت اور اسلحہ کی کمی کے باوجود حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کی جنگی کاروائی کے راستے میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکی۔
آپ کے ہمراہ لشکر میں صرف چھ سو جنگجو تھے۔ تلواروں اور نیزوں کے علاہ کوئی اسلحہ نہیں تھا۔ اب صرف خداداد فہم و فراست کے ذریعے ہی کامیابی حاصل کی جاسکتی تھی۔
حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے نیزوں کی لکڑیوں کے ساتھ جھنڈے آویزاں کر کے لشکر میں شامل خواتین کے ہاتھوں میں تھما دیئے اور انہیں حکم دیا کہ وہ لشکر کے پیچھے چلیں۔ اور ان سے یہ بھی ارشاد فرمایا: جب ہم شہر کے قریب پہنچ جائیں، تو ہمارے پیچھے اس قدر غبار اڑائیں جس سے فضا اٹ جائے:
جب لشکر اسلام ابلہ شہر کے قریب پہنچا’ تو ایرانی لشکر باہر نکلا جب انہوں نے لشکر اسلام کی اپنی طرف پیش قدمی دیکھی اور دیکھا کہ جھنڈے ان کے پیچھے لہرا رہے ہیں۔ اور
ان کے پیچھے غبار سے پوری فضا بھری ہوئی ہے، تو ایک دوسرے سے کہنے لگے۔
یہ تو مقدمتہ الجیش ہے۔ ان کے پیچھے بہت بڑا لشکر غبار اڑاتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم تو ان کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں۔
ان کے دل مرعوب ہو گئے گبھراہٹ کے عالم میں جلدی جلدی اپنی ایسی قیمتی اشیاء اٹھائیں جن کا وزن بہت کم تھا اور ان کشتیوں پر بیٹھ کر بھاگ نکلے جو ہنگامی حالات سے نپٹنے کے لئے دریائے دجلہ کے کنارے لنگر انداز تھیں۔ حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ کسی جانی نقصان کے بغیر فاتحانہ انداز میں ابلہ میں داخل ہوئے، پھر اس کے بعد اردگرد کے شہروں اور بستیوں کو بھی فتح کر لیا: یہاں سے اتنا مال غنیمت ہاتھ لگا جسے شمار کرنا دشوار تھا۔ اور ہر اندازے کو مات کر گیا۔ یہاں تک کہ کامیابی کے بعد ایک مجاہد مدینہ منورہ واپس لوٹا تو لوگوں نے اس سے پوچھا:
ابلہ میں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟
تو اس نے کہا:
بھلا کس چیز کے بارے میں پوچھتے ہو؟
خدا کی قسم! میں انہیں اس حال میں چھوڑ کر آیا ہوں کہ سونے اور چاندی میں کھیلتے ہیں۔ اور لوگ پروانہ اور ابلہ میں رہائش اختیار کرنے کے لئے دوڑے آ رہے ہیں۔
اس موقع پر حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ لشکر اسلام کا ان مفتوحہ شہروں میں زیادہ دیر قیام کرنا انہیں آرام طلب بنا دے گا۔ اور یہ مجاہد یہاں کے باشندوں کی عادات اپنا لیں گے اور ان کے جنگی عزائم ماند پڑ جائیں گے، تو انہوں نے امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا اور ان سے بصرہ شہر آباد کرنے کی اجازت طلب کی اور مجوزہ جگہ کی نشاندہی بھی کر دی۔ امیرالمؤمنین نے یہ شہر آباد کرنے کی انہیں اجازت دے دی۔
حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے اس نئے شہر کا نقشہ بنایا۔ سب سے پہلے ایک بہت بڑی مسجد تعمیر کی۔ اس مسجد کو اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی تمام تر مساعی کا مرکز بنایا۔ یہیں پر جہاد
فی سبیل اللہ کے لئے قافلے ترتیب دیئے جاتے۔
مسجد کے ذریعے ہی انہوں نے دشمنان خدا پر غلبہ حاصل کیا۔
اس لئے شہر میں فوجیوں نے اپنے گھر بھی تعمیر کئے، لیکن حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لئے کوئی گھر نہیں بنایا اور آپ نے ہمیشہ خیمہ میں ہی رہائش رکھی اور وہ اپنے تئیں اس پر خوش تھے۔
حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ بصرہ میں رہائش پذیر مسلمانوں کے دلوں میں ایسی دنیا در آتی ہے جس سے انسان کا دل غافل ہو جاتا ہے۔
انہوں نے دیکھا کہ تھوڑا عرصہ ہی پہلے وہ لوگ جو چاول جیسے کھانے سے بھی ناآشنا تھے، وہ اب ایرانیوں کے طرح طرح کے لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ انہیں اس دنیا سے اپنے دین کا خطرہ لاحق ہوا اور دنیا سے اپنی آخرت خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا تو لوگوں کو کوفہ کی مسجد میں جمع کیا اور یہ خطاب فرمایا:
لوگو! یہ دنیا ختم ہونے والی ہے، تم یہاں سے ایک ایسے گھر کی طرف منتقل ہونے والے ہو، جس پر کوئی زوال نہیں ہو گا تو وہاں نیک اعمال لے کر جاؤ’ میں رسول اللہﷺ کے ان سات صحابہ میں ہوں جنہیں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا’ ہم درختوں کے پتے کھا کر گزارا کیا کرتے تھے جس سے بعض اوقات ہمارے منہ زخمی ہو جاتے۔
ایک روز گری ہوئی چادر میرے ہاتھ لگی میں نے اسے پھاڑ کر دو حصوں میں تقسیم کیا، ایک کو میں نے بطور تہبند باندھا اور دوسرا حصہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو تہبند باندھنے کے لئے دیا۔ اب ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی شہر کا گورنر ہے۔ میں اس بات سے اللہ کے حضور پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے تئیں عظیم بنوں اور اللہ کے ہاں ذلیل شمار کیا جاؤں۔ پھر حاضرین میں سے ایک کو اپنا نائب مقرر کیا اور انہیں الوداع کہہ کر مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔
جب امیرالمؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اپنا استعفیٰ
پیش کر دیا۔ لیکن حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا استعفیٰ قبول نہیں کیا اور انہیں بصرہ واپس جا کر اپنا منصب سنبھالنے کا حکم دیا، انہوں نے بادل نخواستہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم مانا اور اپنی اونٹنی پر سوار ہو گئے۔
اور یہ دعا کی:
الہی! مجھے واپس نہ لوٹانا۔۔۔۔
الہی! مجھے واپس نہ لوٹانا۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی مدینہ سے ابھی تھوڑے ہی فاصلے پر پہنچے تھے کہ اونٹنی لڑکھڑائی اور حضرت عتبہ رضی اللہ عنہ سر کے بل گرتے ہی اللہ کو پیار ہو گئے۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ
حضرت عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
ا۔ الاصابه (مترجم) ۵۴۱۱
۲۔ الاستيعاب ۳/ ۱۳
۳۔ تاریخ الاسلام علامه ذهبی ۲/ ۷
۴۔ اسد الغابه ۳/ ۳۶۳
ه۔ تاریخ خلیفه بن خیاط ۱/ ۹۵۔۹۸
٢- البدايه والنھايه ۱۰/ ۴۸
۷۔ معجم البلدان ۱۰/ ۴۳۰
۸- الطبقات الكبرى ۷/ ۱
۹- تاریخ طبری
جلد ۱۰ کی فہرست دیکھئے
١٠- سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۲۱۔۲۲۲
۱۱۔ حياة الصحابه
جلد چہارم کی فہرست دیکھئے
حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”