Search
Sections
< All Topics
Print

48. Hazrat Talah Bin Ubaid ullah Al Tamimi (رضی اللہ عنہ)

حضرت طلحہ بن عبید الله التمیمی رضی اللہ عنہ

 

من سره ان ينظر الى رجل يمشى على الارض وقد قضى نحبه فلينظروا الى طلحة بن عبيد الله (فرمان نبویﷺ)

 

طلحہ بن عبید اللہ قریش کے ایک تجارتی قافلے کے ہمراہ جا رہے تھے جب یہ قافلہ بصری شہر پہنچا تو بڑے بڑے قریشی تاجر خرید و فروخت کے لئے وہاں کی آباد مقامی منڈی کی طرف چل دیئے۔ طلحہ ابھی نوعمر تھے اور میدان تجارت میں نوخیز, لیکن بلا کی ذہانت و بصیرت کی بنا پر یہ میدان تجارت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہونے کی پوری صلاحیت رکھتے تھے۔

طلحہ رضی اللہ عنہ اور صبح و شام اس منڈی میں جایا کرتے جہاں ہر جگہ سے آنے والے تاجروں کا ہجوم رہتا اس سفر میں انہیں ایک ایسا واقعہ درپیش آیا جس نے ان کی زندگی کا رخ تبدیل کر دیا۔

یہ نصیحت آموز واقعہ طلحہ بن عبید اللہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم بصریٰ کے بازار میں خرید و فروخت میں مشغول تھے۔ اچانک ایک راہب لوگوں میں یہ منادی کرنے لگا۔ اے تاجرو! مجھے بتاؤ کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو مکے سے آیا ہو۔ میں اس راہب کے بالکل قریب کھڑا تھا، جلدی سے بولا ہاں! میں مکے سے آیا ہوں۔
اس نے پوچھا:
کیا تم میں احمد کا ظہور ہو چکا ہے؟
میں نے پوچھا: احمد کون؟
اس نے کہا:

ابن عبد اللہ بن عبد المطلب (ﷺ)

اس مہینے میں اس کا ظہور ہونا تھا….
وہ آخری نبی ہو گا۔۔۔۔۔
مکہ میں پیدا ہو گا اور مدینہ طیبہ کی جانب ہجرت کر جائے گا۔
اے نوجوان! تو جلدی سے اس کے پاس جانا۔
طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں راہب کی باتیں میرے دل میں گھر کر گئیں۔ میں جلدی سے اپنی سواری کی طرف گیا اس پر سوار ہوا اور تجارتی قافلے کو وہیں چھوڑتے ہوئے’ مکہ کی جانب چوکڑیاں بھرتے ہوئے بھاگ نکلا۔
جب میں وہاں پہنچا تو گھر والوں سے دریافت کیا: کیا ہمارے جانے کے بعد مکہ میں کوئی نیا واقعہ رونما ہوا ہے؟
انہوں نے بتایا:
ہاں! محمد بن عبد اللہ نے اپنے نبی ہونے کا اعلان کر دیا ہے اور ابو قحافہ کے بیٹے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی بات مان لی ہے۔

طلحہ کہتے ہیں: میں ابو بکر کو پہلے سے جانتا تھا، یہ بڑے نرم خو ہمدرد اور ہر دلعزیز انسان تھے اور یہ ایک خوش اخلاق اور مستقل مزاج تاجر تھے، ہم ان سے مانوس تھے اور انکی مجلسوں میں بیٹھنا پسند کیا کرتے تھے کیونکہ یہ قریش کی تاریخ سے خوب اچھی طرح واقف تھے۔ میں سیدھا ان کے پاس گیا اور پوچھا:

کیا یہ بات درست ہے کہ محمد بن عبد اللہ نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے؟ اور آپ ان کے مطیع و فرمانبردار بن گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! پھر وہ اپنی آپ بیتی سنانے اور مجھے بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دینے لگے، میں نے انہیں راہب کی بات بتائی تو وہ یہ سن کر حیران و ششدر رہ گئے۔ اور کہنے لگے ابھی میرے ساتھ چلو اور خود حضرت محمد کی خدمت اقدس میں یہ بات پیش کرو اور ان کی باتیں سنو تاکہ تم دائرہ اسلام میں داخل ہو سکو۔

طلحہ کہتے ہیں کہ; میں حضرت محمدﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا آپ نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی، قرآن مجید کی چند آیات تلاوت فرمائیں اور مجھے دنیا و آخرت کی بھ
کی خوشخبری دی۔

اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے میرا سینہ کھول دیا۔ میں نے بصریٰ کے راہب کا واقعہ سُنایا۔ آپ یہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ ایک راہب نے آپ کے ظہور کے متعلق خبر دی۔

پھر میں رسول اقدسﷺ کی مجلس میں کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔
اس طرح میں چوتھا انسان تھا جس نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اسلام قبول کیا۔


اس قریشی نوجوان کا اسلام قبول کرنا اہل خانہ کو ایسا ناگوار گزرا جیسے اچانک ان پر بجلی گر پڑی ہو۔ ان کے اسلام قبول کرنے کا سب سے زیادہ افسوس ان کی والدہ کو ہوا۔ ماں کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا اپنی قوم کا سردار بنے’ کیونکہ اس میں سردار بننے کی بھرپور صلاحیتیں موجود ہیں۔


دین اسلام سے منحرف کرنے کے لئے قوم حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی، لیکن یہ ایک مضبوط چٹان کی مانند اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ جب یہ حسن سلوک سے اپنی بات منوانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے درد ناک تکالیف دے کر اپنی بات منوانے کا حربہ استعمال کیا۔

مسعود بن خراش بیان کرتے ہیں کہ:

میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا تھا۔ بہت سے لوگ ایک ایسے نوجوان کے پیچھے لگے ہوئے تھے جس کے دونوں ہاتھ اس کی گردن کے ساتھ جکڑے ہوئے تھے۔ پیچھے سے اس کو عورتیں اور مرد ٹھوکریں مار کر بھاگنے پر مجبور کر رہے تھے اور خود شور و غل مچاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ اور ان میں ایک بڑھیا عورت چیختی چلاتی ہوئی اسے گالیاں دے رہی تھی۔ میں نے لوگوں سے پوچھا: یہ نوجوان کون ہے؟

اسے کیوں تکلیف دی جا رہی ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا یہ عبید اللہ کا بیٹا طلحہ ہے اور یہ بے دین ہو گیا ہے’ اس نے بنو ہاشم کے ایک نوجوان کی پیروی اختیار کر لی ہے۔
میں نے پوچھا: اس کے پیچھے یہ بڑھیا کون ہے؟
انہوں نے بتایا: یہ اس نوجوان طلحہ کی والدہ صعبہ بنت حضری ہے۔


پھر اپنے آپ کو شیر قریش کہلانے والا نوفل بن خویلد اٹھا اور اس نے طلحہ بن عبید اللہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ایک رسی میں جکڑا اور مکہ کے اوباش نوجوانوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ ان دونوں کو عبرتناک سزا دے سکیں۔


پھر تیزی سے دن گزرتے گئے، واقعات و داستانیں جنم لیتی رہیں، اور حضرت طلحہ بن عبداللہ ترقی اور کمال کی منزلیں طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔

اللہ کی راہ میں ان کی آزمائش دن بدن فزوں تر ہوتی گئی۔ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور وفاداری میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا، یہاں تک کہ مسلمان حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو زندہ شہید کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ رسول اللہﷺ انہیں نیک طلحہ، سخی طلحہ اور فیاض و فراخ دل طلحہ کے لقب سے پکارتے۔ ہر لقب اپنے دامن میں ایک داستان لئے ہوئے ہے۔


زندہ شہید کا لقب ملنے کی داستان یہ ہے کہ جب غزوہ احد میں مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انصار میں سے صرف گیارہ اور مہاجرین میں سے صرف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اکرمﷺ کے پاس رہ گئے باقی سب بکھر گئے۔ نبی اکرمﷺ اور یہ ساتھی پہاڑی پر چڑھ رہے تھے کہ مشرکین کا ایک جتھا آ پہنچا جو آپ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔ آپ نے نازک صورت حال کو دیکھ کر ارشاد فرمایا:

آپ میں سے کون ہے کہ جو ان کو یہاں سے بھگائے؟ وہ میرا جنت میں رفیق ہو گا۔

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے جلدی سے کہا میں یا رسول اللہﷺ!…

آپ نے فرمایا: نہیں، تم ابھی رہنے دو انصار میں سے ایک شخص بولا میں یا رسول اللہﷺ! آپ نے فرمایا: ہاں، تم مقابلے کے لئے آگے بڑھو۔

وہ انصاری آپ کا حکم پا کر بےجگری سے لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔

رسول اکرمﷺ اور آپ کے ساتھ کچھ اور اوپر چڑھے تو مشرکین نے پھر گھیرا ڈال لیا۔

آپ نے ارشاد فرمایا: ان کا کون مقابلہ کرے گا؟
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یا رسول اللهﷺ!
آپ نے فرمایا: نہیں تم ابھی نہیں۔
انصار میں سے ایک شخص بولا: میں یا رسول اللہﷺ!
آپ نے فرمایا: ہاں تم آگے بڑھو! یہ انصاری مقابلے میں اترا اور جام شہادت نوش کر گیا۔

رسول اقدسﷺ مسلسل پہاڑ کی بلندی کی طرف چڑھتے گئے اور مشرکین بھی پیچھے لگے رہے، یہاں تک کہ آپ کے ہمراہ تمام انصاری جام شہادت نوش کر گئے اور آخر میں صرف حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رہ گئے۔ آپ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو مشرکین کا مقابلہ کرنے کی اجازت دی۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ رسول اقدسﷺ کے دندان مبارک شہید ہو چکے تھے۔ آپ کی پیشانی خون آلود تھی۔ ہونٹوں پر گہرے زخم آ چکے تھے۔ خون آپ کے چہرہ مبارک پر بہہ رہا تھا۔ تھکاوٹ اور زخموں سے آپ نڈھال ہو چکے تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ اکیلے مشرکین پر ایک زور دار حملہ کرتے۔ انہیں پیچھے دھکیلنے میں جب کامیاب ہو جاتے تو تیزی سے رسول اقدسﷺ کی طرف لپکتے اور آپ کو سہارا دے کر پہاڑ کی بلندی کی طرف چڑھتے۔ پھر آپ کو چٹان کی اوٹ میں بٹھا کر مشرکین پر نئے سرے سے حملہ آور ہوتے۔ مسلسل اسی طرح ہوتا رہا ہو یہاں تک یہ مشرکین کو وہاں سے بھگانے میں کامیاب ہو گئے۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ سے کافی فاصلے پر تھے جب ہم وہاں پہنچے، آپ کی مرہم پٹی کرنے لگے تو آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے چھوڑو اور اپنے ساتھی طلحہ رضی اللہ عنہ کی خبر لو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا خون بہہ رہا تھا ان کے جسم پر ستر (۷۰) سے زائد نیزے اور تلوار کے زخم لگ چکے تھے۔ ایک ہاتھ بھی کٹ چکا تھا۔ بے ہوش ہو کر ایک گڑھے میں گر چکے تھے۔

اس واقعہ کے بعد رسول اکرمﷺ ارشاد فرمایا کرتے تھے جو چاہتا ہے کہ کسی زندہ شہید کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ احد کی لڑائی تو در حقیقت صرف طلحہ رضی اللہ عنہ ہی نے لڑی اور اس کی کامیابی کا سہرہ بھی اس کے ہی سر ہے۔


یہ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو زندہ شہید کا لقب ملنے کی داستان ہے۔ جہاں تک طلحہ الخیر (نیک دل طلحہ) اور طلحہ الجود (سخی طلحہ) کا لقب ملنے کا تعلق ہے، اس ضمن میں تو سینکڑوں واقعات بیان کئے جا سکتے ہیں۔ ان میں سے صرف ایک واقعہ پیش خدمت ہے:

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بہت بڑے دولت مند تاجر تھے۔ ایک دن ان کے پاس حضر موت سے سات لاکھ درہم آئے۔

یہ رات انہوں نے نہایت غم واندوہ اور حزن و ملال میں گزاری۔

آپ کی بیوی ام کلثوم بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پوچھا:

میرے سر کے تاج! کیا بات ہے؟ شاید مجھ سے کوئی ایسی بات ہو گئی جو آپ کو ناگوار گزری۔ فرمانے لگے نہیں: آپ تو بہت فرمانبردار اور نیک دل بیوی ہیں۔ میں رات بھر یہ سوچتا رہا کہ وہ شخص اپنے رب کو کیا جواب دے گا کہ جو اپنے گھر میں اس حال میں رات کو گزار رہا ہے کہ اس کے پاس کثیر مقدار میں مال و دولت موجود ہے؟

بیوی نے کہا: بھلا یہ کون سی غم واندوہ کی بات ہے؟

آپ کی قوم اور دوست و احباب میں بہت سے ضرورت مند ہیں۔ صبح ہوتے ہی یہ مال ان میں تقسیم کر دیں۔ یہ تجویز سن کر وہ خوش ہو گئے اور اپنی بیوی کو دعائیں دینے لگے۔ جب صبح ہوئی تو تمام مال تھیلیوں اور بڑے پیالوں میں رکھا اور مہاجر و انصار فقراء میں تقسیم کر دیا۔



حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس ایک شخص مالی تعاون کے لئے آیا اور رحم دلی کا اس نے حوالہ دیا۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میری رحم دلی کا اس سے پہلے کسی نے تذکرہ نہیں کیا تھا۔ فرمانے لگے: میرے پاس ایک زمین کا پلاٹ ہے جو مجھے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے الاٹ کیا تھا۔ چاہو تو یہ پلاٹ لے لو اگر چاہو تو اس کی قیمت جو کہ تین لاکھ درہم بنتی ہے وہ لے لو۔ وہ شخص کہنے لگا: میں تو قیمت ہی لوں گا۔ آپ نے اسے تین لاکھ درہم عنایت کر دیئے۔

حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو خیر وجود کا لقب مبارک ہو جو انہیں رسول اقدسﷺ نے عطا
کیا۔ اللہ ان سے راضی ہو اور ان کی قبر کو منور کر دے۔ آمین


حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

ا۔ طبقات ابن سعد ۳/ ۱۵۲
۲- تهذيب التهذيب ۵/ ۲۰
۳۔ البدء والتاريخ ۵/ ۱۲
۴۔ الجمع بين رجال الصحيحين ۲۳۰
ه۔ غاية الناية ۱/ ۳۴۲
٦- الرياض النضرة ۲/ ۲۴۹
۷- صفة الصفوة ۱/ ۱۳۰
۸- حلية الأولياء ۱/ ۷
۹۔ ذيل المذيل ۱۱
۱۰- تهذیب ابن عساکر ۷/ ۷۱
۱۱۔ العبر ۳۵۵
١۲- رغبة الامل ۳/ ۱۶۔۸۹

 

حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents