Search
Sections
< All Topics
Print

16. Hazrat Abu-Zar-Ghaffaari (رضی اللہ عنہ)

حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ

 

ودان نامی بستی میں قبیلہ غفار رہائش پذیر تھا اور اس بستی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی، اس لئے کہ عرب تاجروں کے قافلے شام یا دیگر ممالک کو جاتے ہوئے یہیں سے گزرتے تھے۔ قبیلہ غفار کی معیشت کا دارومدار بھی اسی آمدن پر تھا جو عرب تاجروں کے یہاں قیام کے وقت انہیں حاصل ہوئی تھی۔ اگر تاجر یہاں خرچ کرنے سے گریز کرتے تو قبیلہ غفار کے لوگ لوٹ مار شروع کر دیتے۔جو چیز بھی ان کے ہاتھ لگتی اسے اپنے قبضہ میں کر لیتے۔ جناب بن جنادہ کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا جن کی کنیت ابو زر تھی۔ انہیں جرأت، دانش مندی اور دور اندیشی میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا، انہیں شروع سے ہی ان بتوں سے دلی نفرت تھی جنہیں ان کی قوم پوجا کرتی تھی۔ انہیں اس بات کا بھی اندیشہ تھا کہ عرب اس وقت عقیدہ کی خرابی اور دینی فساد کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ایسے نئے نبیﷺ کے ظہور کے منتظر تھے جو لوگوں میں شعور پیدا کرے۔ انہیں حوصلہ دے اور پھر انہیں گمراہی کی اتھاہ تاریکیوں سے نکال کر ایمان اور علم و ہدایت کی روشنی کی طرف لائے۔


جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کو جب پتہ چلا کہ مکہ معظمہ میں نے نبیﷺ کا ظہور ہو چکا ہے، تو انہوں نے اپنے بھائی انیس سے کہا: آپ ابھی مکہ معظمہ جائیں، سنا ہے وہاں ایک شخص نے نبوت کا دعوٰی کیا ہے اور اس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ آسمان سے اس پر وحی بھی نازل ہوتی ہے۔ وہاں جاکر غور سے ان تمام حالات کا جائزہ لینا جو اس وقت وہاں رونما ہوچکے ہیں ۔

بالخصوص یہ پتا کرتا کہ ان کی اصلی دعوت کیا ہے؟

اپنے بھائی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جناب lنیس مکہ معظمہ سے روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچ کر سب سے پہلے رسول اکرمﷺ کی خدمت اقدسﷺ میں حاضری دی۔ آپﷺ کی مجلس میں بیٹھے، غور سے آپﷺ کی باتیں سنیں اور وہاں کے حالات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد واپس لوٹ آئے۔ جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بڑی شفقت و محبت سے انہیں خوش آمدید کہا اور بڑے اشتیاق سے نبیﷺ کے متعلق سوالات شروع کر دئیے۔ تو جناب انیس رضی اللہ عنہ نے بتایا:

اللہ کی قسم! میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو اچھے اخلاق کی طرف دعوت دیتے ہیں اور آپﷺ کی گفتگو اسی پر تاثیر ہوتی ہے کہ سننے والا وجد میں آ جاتا ہے اور متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آپﷺ کی گفتگو انتہائی مربوط ہوتی ہے، لیکن اس پر شعر گوئی کا اطلاق بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جناب ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی سے دریافت کیا کہ نئے نبیﷺ کے متعلق لوگوں کی کیا رائے ہے؟

تو انہوں نے بتایا: عام لوگ انہیں جادوگر، نجومی اور شاعر سمجھتے ہیں۔

یہ باتیں سن کر جناب ابوذر فرمانے لگے: پیارے بھائی آپ کے بیان سے دل کو تشفی نہیں ہوئی۔ اب آپ میری اہل و عیال کا خیال رکھیں۔ اب میں خود صحیح صورتحال کا جائزہ لینے وہاں جاتا ہوں۔ جناب اینس رضی اللہ عنہ نے کہا ضرور جائے، آپ کے بعد میں میں اہل خانہ کا خیال رکھوں گا، لیکن اہالیان مکہ سے ذرا محتاط رہنا۔


جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے زاد راہ اور پانی کا ایک چھوٹا سا مشکیزہ اپنے ہمراہ لیا اور دوسری ہی دن نبیﷺ کی زیارت کے لئے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔


جناب ابوذر رضی اللہ عنہ پیدل مسافت طے کرتے ہوئے مکہ معظمہ تو پہنچ گئے، لیکن وہ قریش مکہ سے خوفزدہ تھے، اس لئے کہ انہیں پہلے سے یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ جو بھی حضرت محمدﷺ میں دلچسپی لیتا ہے، اس کے جانی دشمن بن جاتے ہیں۔

انہوں نے سوچا کہ اب کا کیا جائے؟ میں تو یہاں کسی کو جانتا نہیں! اگر کسی سے آپﷺ کے متعلق دریافت کیا تو ممکن ہے وہ آپﷺ کا دشمن ہو! اور وہ میرے لئے نقصان دہ ثابت ہو۔


دن بھر ان ہی خیالات میں غلطاں و پریشان رہے۔ رات ہوئی تو وہی مسجد میں لیٹ گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ان پر نظر پڑی تو سوچا کہ یہ تو کوئی اجنبی مسافر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے پاس آئے، گھر چلنے کی دعوت دی تو آپ رضامند ہوگئے۔ گھر میں ان کی خوب خاطر تواضع کی، لیکن مکہ معظمہ میں آمد کا سبب دریافت کرنے سے عمدا گریز کیا جناب ابو زر رضی اللہ عنہ نے بڑے آرام سے وہاں رات بسر کی۔ صبح ہوئی تو اپنا سامان لے کر مسجد میں تشریف لے آئے، دوسرا دن بھی یوں ہی گزار دیا۔ رسول اکرمﷺ کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ رات ہوئی تو مسجد میں ہی لیٹ گئے۔ دوسری رات پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مسجد میں لیٹے ہوئے دیکھا تو خیال کیا کہ اس مسافر کو آج بھی اپنی منزل نہیں ملی۔ اسے پھر اپنے ہمراہ گھر لے آئے۔ دوسری رات بھی خوب ان کی مہمان نوازی کی لیکن مکہ معظمہ میں آمد کی وجہ پوچھنے سے گریز کیا۔ جب تیسری رات ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مہمان سے پوچھا، کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ مکہ معظمہ میں آمد کا مقصد کیا ہے؟ تو جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کہ اگر آپ میرے ساتھ وعدہ کریں کہ آپ میری صحیح رہنمائی کریں گے، تو میں آپ کو اپنے دل کی بات بتائے دیتا ہوں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہا نے ان سے وعدہ کر لیا، تو انہوں نے بیان کیا: میں دور دراز سفر طے کر کے یہاں محض اس لئے آیا ہوں کہ اس عظیم ہستی کی زیارت کروں جنہوں نے نبوت کا دعوٰی کیا ہے اپنے کانوں سے ان کی باتیں سنوں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سنی تو خوشی سے ان کا چہرہ دمک اٹھا اور فرمایا: اللہ کی قسم! آپﷺ سچے رسولﷺ ہیں اور آپﷺ کے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کیں۔ پھر راز دارانہ انداز میں ارشاد فرمایا: کہ کل صبح آپ میرے پیچھے پیچھے چلتے آئیں۔ اگر میں نے راستے میں کسی مقام پر کوئی خطرہ محسوس کیا تو رک جاؤ گا، لیکن آپ آہستہ آہستہ چلتے رہیں۔ جب میں کسی گھر میں داخل ہو جاؤں تو آپ بھی بے۔

دھڑک میرے پیچھے اندر آجائیں۔


دوسرے دن صبح کہ وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے مہمان کو ہمراہ لے کر رسول کریمﷺ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے پیچھے ہو لئے۔ نہایت احتیاط کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھے۔ بالآخر رسول معظمﷺ کی خدمت اقدس میں پہنچ گئے۔ جناب ابو زر غفاری رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کو دیکھتے ہی کہا۔

السَّلامُ عَلَيْكَ يَارَسُوْلَ الله

آپ ﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا:

وَعَلَيْكَ سَلامُ اللَّهِ وَرَحْمَتُهُ وَبَرَكَاتُهُ

تاریخ اسلام میں جناب ابوذر رضی اللہ عنہ کو سب سے پہلے یہ شرف حاصل ہوا کہ انہوں نے مذکورہ الفاظ میں رسول اقدسﷺ کو سلام کیا اور سلام کا یہی انداز مسلمانوں میں رائج ہو گیا۔


رسول اکرمﷺ نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن مجید سنایا۔ اسی مجلس میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ چوتھے یا پانچویں صحابی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے میں پہل کی۔

دیگر واقعات مختصر انداز میں اب انہیں کی زبانی بیان کئے جاتے ہیں۔

جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اکرمﷺ کی خدمت میں ہی رہا۔ ہاں آپﷺ نے مجھے اسلام کی بنیادی مسائل اچھی طرح سمجھا دئیے اور قرآن مجید کے بعض اجزاء کی بھی میں نے آپﷺ سے تعلیم حاصل کر لی۔ آپﷺ نے محبت بھرے انداز میں مجھے یہ تلقین کی کہ “ابھی یہاں کسی کو نہ بتانا، شیشہ ہے کہ اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں، تو کہیں آپ کو اس جرم کی پاداش میں قتل نہ کر دیں۔”

میں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ اس ذات کی قسم، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، مکہ سے روانگی سے قبل ایک مرتبہ ضرور قریش کے روبرو کلمۂ حق بیان کرنے کو جی چاہتا ہے۔ آپﷺ میرے جذبات دیکھ کر خاموش ہو گئے۔

ایک روز میں مسجد میں گیا، دیکھا کہ قریش آپس میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہیں۔ چپکے سے ان کے درمیان میں جا کر کھڑا ہوگیا اور اچانک بآواز بلند کہا: ایک خاندان قریش! میں صدقے دل سے اقرار کرتا ہوں۔ لا الہ الا الله مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔

ابھی یہ میرے کلمات ان کے کانوں کو ٹکرائے ہی تھے کہ وہ بھڑک اٹھے اور بے دریغ مجھے مارنا شروع کر دیا، قریب تھا کہ میری موت واقع ہو جاتی ہے، اتنے میں نبیﷺ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ میری حمایت میں اٹھے، اور ان کے درمیان حائل ہو کر کہنے لگے:

عقل کے اندھوں، کیا تباہی تمہارا مقدر بن چکی ہے؟ اس کو قتل کرنا چاہتے ہو، جو قبیلہ غفار سے تعلق رکھتا ہے۔ جب مجھے ہوش آیا تو اس سے نڈھال رسول اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ میری ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے۔ اور فرمایا: کیا میں نے تجھے اسلام کا اعلان کرنے سے روکا نہیں تھا؟

میں نے عرض کی۔ حضور آپﷺ نے یقینا مجھے روکا تھا، لیکن میری دلی تمنا تھی کہ مشرکین کے نرغے میں ایک مرتبہ اسلام کا اعلان کروں۔ پھر آپﷺ نے مجھے حکم دیا کہ اب آپ اپنی قوم کے پاس چلے جائیں۔ یہاں جو آپ نے سنا اور دیکھا انہیں جا کر بتائیں۔ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ شاید آپ کے ذریعے انہیں فائدہ ہو، ان کی کایا پلٹ جائے اور آپ کو عنداللہ اجر و ثواب حاصل ہو۔

جب آپ کو یہ خبر ملے کہ مجھے اللہ تعالی کے فضل و کرم سے غلبہ حاصل ہو چکا ہے تو سیدھے میرے پاس چلے آنا۔ جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرمﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنی قوم کے پاس آ گیا۔ جب میں اپنی بستی میں پہنچا تو سب سے پہلے مجھے میرا بھائی ملا! اس نے پوچھا کہ یہ سفر کیسا رہا اور اس میں کیا کچھ حاصل کیا؟

میں نے اسے بتایا عزیز بھائی میں تو مسلمان ہو چکا ہوں۔ رسول اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپﷺ سے اسلام کی بنیادی تعلیمات حاصل کیں، آپﷺ کی رسالت کو تسلیم کیا۔ میری باتوں سے متاثر ہو کر میرا بھائی بھی مسلمان ہوگیا اور کہنے لگا: بھائی جان میں آپ کا دین اختیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہم دونوں اپنی والدہ کے پاس آئے اور ان کی خدمت میں اسلام کی دعوت پیش کی۔ تو وہ بھی فورا اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر فرمانے لگیں: بیٹا! اب میں تمہارے دین سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ وہ بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ اسی روز سے یہ مؤمن گرانہ قبیلہ غفار کو اللہ تعالی کی طرف بلانے میں ہمہ تن مصروف ہو گیا۔ اسی کی دعوت سے متاثر ہوکر قبیلہ کے بہت سے افراد دائرۂ اسلام میں داخل ہوگئے۔ اور نظام قائم کر دیا گیا۔

چند افراد نے یہ کہا کہ ہم اس وقت تک اپنے آبائی دین پر قائم رہیں گے جب تک رسول اکرمﷺ مدینہ منورہ تشریف نہیں لے جاتے۔ چنانچہ جب آپﷺ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے آئے وہ سب مسلمان ہو گئے۔

نبیﷺ نے یہ دعا کی: قبیلہ غفار کی اللہ تعالی مغفرت کرے اور قبیلہ بنو اسلم کو اللہ تعالیٰ سلامت رکھے۔


جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنی بستی میں مقیم رہے یہاں تک کہ بدر، احد اور خندق کے غزوات رونما ہوئے۔ اس کے بعد آپﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور یہاں رسول اکرمﷺ ہی کے ہو کے کر رہ گئے۔ ہمہ وقت آپﷺ کی خدمت میں مصروف رہنے لگے۔ کس قدر خوش نصیبی ہے یہ سعادت وافر مقدار میں آپ کے حصہ میں آئی۔رسول اکرمﷺ بھی ہر معاملہ میں آپ کو ترجیح دیتے آپ کے ساتھ شفقت سے پیش آتے۔ وقت ملا قات مصافحہ کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے۔


جب رسول اللہﷺ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے، تو جناب ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بے چین رہنے لگے۔ چونکہ مدینہ طیبہ آقا کے وجود اقدس سے خالی اور آپﷺ کی مبارک مجلس کی روشنی سے محروم ہوچکا تھا ۔

 

لہذا آپ وہاں سے ملک شام کی طرف کوچ کر گئے۔ خلافت صدیق و فاروق رضی اللہ عنہم میں وہی مقیم رہے، لیکن خلافت عثمان رضی اللہ عنہ میں دمشق کی طرف کوچ کر گئے۔ وہاں مسلمانوں کی یہ حالت زار دیکھی کہ وہ دنیاوی جاہ و جلال کے دلدادہ ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوئے۔ بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مدینہ منورہ بلا لیا۔ تو آپ وہاں تشریف لے آئے۔ یہاں آکر دیکھا کہ لوگ دنیا کی طرف پوری طرح راغب ہو چکے ہیں، تو بہت زیادہ کبیدہ خاطر ہوئے اور بڑی سختی سے لوگوں پر تنقید شروع کردی جس سے عام لوگ بہت تنگ آگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ربزہ بستی میں منتقل ہو جانے کا حکم دے دیا۔ یہ مدینہ منورہ کے نزدیک ہی ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ آپ لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر اس بستی میں زندگی کے دن پورے کرنے لگے۔ یہاں آپ نے دنیا سے بالکل بے نیاز رسول اکرمﷺ اور صاحبین رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔


ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک شخص آپ کے گھر میں داخل ہوا۔ چاروں طرف نظر دوڑائی تو گھر میں کوئی سامان دکھائی نہ دیا۔ اس نے تعجب سے پوچھا: اے ابو ذر رضی اللہ عنہ! آپ کا سامان کہاں ہے؟

فرمایا: ہمارا ایک دوسری جگہ گھر ہے۔ اچھا سامان ہم وہاں بیچ دیتے ہیں۔ وہ شخص آپ کی مراد سمجھ گیا اور کہنے لگا: اے ابو ذر رضی اللہ عنہ! جب تک آپ اس گھر میں ہیں یہاں رہنے کے لئے بھی تو کچھ سامان آپ کے پاس ہونا چاہیے۔ تو آپ نے فرمایا: اگر کا اصل مالک ہمیں یہاں رہنے نہیں دے گا۔


ایک مرتبہ شام کے گورنر نے تین سو دینار آپ کے پاس بھیجے اور یہ پیغام دیا کہ یہ رقم آپ اپنی کسی ضرورت میں استعمال کر لیں۔ آپ نے بڑی بے نیازی سے دینار واپس کر دئیے اور فرمایا: کیا اسے اپنے علاقہ میں مجھ سے زیادہ کوئی مفلوق الحال نظر نہیں آیا۔


آسمان زہد و نقوی کا یہ درخشندہ ستارہ 32ھ کو ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔ آپ کی تعریف میں رسول اکرمﷺ کا یہ ارشاد تاریخ کے اوراق کی زینت بن گیا۔ آپﷺ نے فرمایا: “ارض و سماء نے آج تک ابوذر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی صادق دل نہ دیکھا ہوگا۔”


حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔

 

1۔ الاصابة (مطبوعه السعادة) 3/ 60-63
2۔ الاستیعاب(مطبوعہ حیدر آباد) 3 /645-646
3۔ تهذيب التهذيب 2/ 420
4۔ تجريد اسماء الصحابة 2/ 175
5۔ تذكرة الحفاظ 1/ 15-16
6- حلية الأولياء 1/ 238-254
7- صفة الصفوة 1 / 238-254
8۔ طبقات الشعراني 32
9۔ المعارف 110-11

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents