12. Hazrat Salmaan Faarsi (رضی اللہ عنہ)
حضرت سلیمان فارسی رضی اللہ عنہ
یہ ایک ایسے عظیم شخص کی داستان ہے جو حقیقی منزل کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشاں اور سبحانہ تعالیٰ کی تلاش میں سرگرداں رہا ہو۔ حضرت سلمان فارسی کی کہانی انہی کی زبانی سناتے ہیں۔ یقینا جس طرح وہ بیان کر سکتے ہیں کوئی دوسرا تو یہ انداز نہیں اپنا سکتا’ بلاشبہ اس سلسلہ میں جس طرح اپنے احساسات نازک اور انداز بیان صداقت و حقیقت پہ مبنی ہوسکتا ہےکوئی بھی دوسرا یہ حق ادا نہیں کر سکتا۔
تو سنیے!
حضرت سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ میں اصفہان کے علاقہ کا ایک فارسی النسل نوجوان تھا’ جس بستی میں ہم رہائش پذیر تھے وہ جی نام سے مشہور تھی ۔
میرا باپ اس بستی کا سردار تھا اور وہ تمام بستیوں میں زیادہ مالدار اور رعب و دبد بہ کا مالک تھا ۔ پیدائش کے دن سے میرے ساتھ اسے دنیا کی ہر چیز سے زیادہ پیار تھا۔جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی اس کے مہرو و محبت میں اضافہ ہوتا گیا۔
مجھے گھر کی چار دیواری میں اس طرح پابند کردیا گیا جس طرح دوشیزاؤں کو گھروں میں پابند کر دیا جاتا ہے۔میں نے محبت کے اس قید خانہ میں مجوسیت کی تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی۔
میں نے اس میں بہت زیادہ محنت کی اور اس میدان میں خاص مقام پیدا کر لیا۔بالآخر مجھے اس آگ کا نگران بنادیا گیا جس کی ہم پوجا کیا کرتے تھے۔ اسے لگاتار جلائے رکھنے کی ذمہ داری مجھ پر تھی۔ میں اسے دن رات ایک لحظہ کے لیے بجھنے نہ دیتا ۔
میرا والد بہت بڑا جاگیردار تھا۔ وافرمقدار میں غلہ ہمارے گھر آتا۔ روزانہ اس جاگیر کی دیکھ بھال میرے والد کا معمول تھا۔ ایک دن وہ کسی ضروری کام میں مشغول ہو گئے اور مجھے حکم دیا! بیٹا میں آج کھیتوں میں نہیں جا سکوں گا۔ میری جگہ آپ جائیں اور کھیتوں کی نگرانی کر یں۔میں گھر سے تو اپنی جاگیر کی نگرانی کے لیے نکلا لیکن راستہ میں ایک گرجا کے پاس سے گزرا جس میں عیسائی پوجا پاٹ میں مصروف تھے ۔مجھے ان کا طرز عبادت بہت پسند آیا۔
مجھے ان دنوں عیسائیت یا دیگر ادیان کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔ اس لئے کہ میرے والد مجھے گھر سے کسی وقت نکلنے ہی نہ دیتا تھا۔ اس روز جب میں نے گرجا میں عیسائیوں کی اجتماعی آوازیں سنی تو میں بے اختیار اس کے اندر چلا گیا۔ جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ سب عبادت میں مصروف ہیں تو مجھے ان کی عبادت کا انداز بہت پسند آیا اور میں ان کے دین کی طرف راغب ہو گیا۔
میں نے آپنے دل میں کہا:
خدا کی قسم یہ دین تو اس سے کہیں بہتر ہے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے۔ باخدا میں غروب آفتاب تک وہیں رہا اور اس دن کھیتی باڑی کی نگرانی کے لیے نہ گیا میں نے اہل کنیسہ سے دریافت کیا:اس دین کا مرکز کہاں ہے؟
انہوں نے مجھے بتایا شام میں جب رات ہوئی تو میں اپنے گھر واپس لوٹ آیا۔ باپ نے مجھ سے پوچھا! “آج دن بھر آپ نے کون سا کام سرانجام دیا؟”
میں نے عرض کی!بابا جان! آج کھیتوں کی طرف جاتے ہوئے میرا کسینہ کے پاس سے گزر ہوا میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اندر عبادت میں مصروف ہیں۔ مجھے ان کی عبادت کا انداز بہت پسند آیا شام تک میں انہی کے پاس بیٹھا رہا میرا باپ یہ باتیں سن کر گھبرا گیا اور اس نے اپنا دل پکڑ کر کہا بیٹا اس دین میں کوئی بھلائی نہیں تیرے آباء و اجداد کا دین اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے میں نے عرض کیا “ابا جان !ہرگز نہیں”
“خدا کی قسم ! ان لوگوں کا دین ہمارے دین سے بہت بہتر ہے”
میرا باپ میری جانب سے یہ جواب سن کر پریشان ہوا۔ اسے اندیشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں میں اپنے آبائی دین سے منحرف نہ ہو جاؤں۔اس نے مجھے گھر میں قید کر دیا اور میرے پاؤں میں زنجیر ڈال دی۔
ایک دن مجھے موقع ملا تو میں نے گر جے میں یہ پیغام بھیجا۔ جبکہ کوئی ملک شام کو جانے والا قافلہ آپ کے ہاں سے گزرے تو مجھے اطلاع کر دیں ۔
تھوڑے دنوں کے بعد ایک قافلہ وہاں پہنچا جو شام جا رہا تھا۔ عطا فرمائے پہنچا دیا جارہا تھا ۔اہل کنیسہ نے مجھے اطلاع کر دی۔ میں نے زور سے جھٹکا دیا زنجیر ٹو ٹ کر دور جاگری اور میں چپکے سے باہر نکل آیا اور قافلے کے ساتھ ہولیا۔ چند دن بعد ہم شام پہنچ گئے ۔وہاں میں نے دریافت کیا:
اس ملک میں سب سے اعلیٰ مذہبی شخصیت کون ہے؟
چرچ کا نگران اعلی “پوپ”
میں اس کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے یہ عیسائیت میں دلچسپی ہے ۔
میری تمنا ہے میں آپ کے پاس رہوں ‘ عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کروں اور آپ کی راہنمائی میں عبادت کروں۔ میری معروضات سن کر اس نے مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی ۔
میں نے جی بھر کر اس کی خدمت کی’ لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ آدمی اچھا نہیں ہے۔
یہ اپنے پیروکاروں کو صدقہ خیرات کرنے کا حکم دیتا اور جب وہ اپنے مال و متاع لے کر اس کی خدمت میں حاضر ہوتے تا کہ اس کے زریعے صدقہِ خیرات کیا جائے تو یہ سب مال خود ہڑپ کر جاتا۔ فقراء مساکین کو اس میں سے کچھ نہ دیتا۔اس طرح اس نے سات مٹکے سونے اور چاندی سے بھر لئے ۔ جب میں نے اس کی یہ حرکات دیکھیں تو مجھے وہ شخص برا لگا لیکن چند ہی دنوں میں اس کو موت نے آلیا ۔
عیسائی پیروکار جب اسے دفن کرنے لگے تو وہ میں نے ان سے کہا :
تمہارا مذہبی را ہنما کوئی اچھا آدمی نہیں ہے ۔ یہ تمہیں تو صدقہِ خیرات کا حکم دیتا۔
اور جب اس کے ترغیب دلانے پر تم اپنا مال اس کے پاس جمع کرواتے تاکہ یہ اپنے ہاتھ سے غرباء و مساکین میں تقسیم کردے ‘ تو یہ سب مال خود ہڑپ کر جاتا’ اس میں سے ایک پائی بھی کسی مسکین کو نہ دیتا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔
آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟
میں نے کہا! تمہیں اس کا خزانہ بتا دیتا ہوں۔
انہوں نے کہا بتائیں میں نے نہیں وہ صرف یہ جگہ بتائیے!
میں نے انہیں وہ خفیہ جگہ بتائی جہاں اس نے اپنا مال دبا رکھا تھا ۔ جب انہوں نے سونے اور چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکےتو انگشت بد نداں رہ گئے ۔ یہ مٹکے وہاں سے نکال لئے اور سب نے فیصلہ کیا کہ اسے دفن نہ کیا جائے بلکہ سولی پہ لٹکا کر اس پر پتھر برسائے جائیں اور اس کے ساتھ پتھر برسائے جائیں اور اس کے ساتھ بالآ آخر یہی سلوک کیا گیا ۔
چند دن گزرنے کے بعد لوگوں نے ایک دوسرے شخص کو اپنا مذہبی راہنما منتخب کر لیا۔ میں نے اس کی خدمت شروع کر دی اور اس سے تعلیم حاصل کرنے لگا ۔میں نے دیکھا یہ شخص بڑا زاہد ‘ آخرت کا متمنی اور دن رات عبادت میں مصروف رہنے والا ہے۔ اس کو دیکھ کر مجھے اس سے بے انتہا عقیدت محبت ہوگئی ۔میں اس کی خدمت ث بہت عرصہ تک رہا۔جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں بہت افسردہ ہوا ۔روتے ہوئے اس کی خدمت میں عرض کی’ حضرت! میں اب کہاں جاؤں؟ میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں کس سے تعلیم حاصل کروں؟ اس نے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہا بیٹا موصل میں ایک شخص رہتا ہے’ جو ہمارے مشن پر قائم ہے ‘تم اس کے پاس چلے جانا ‘جب میرا یہ مذہبی راہنما فوت ہوگیا تو میں تجہیز و تدفین سے فارغ ہو کر سیدھا مسلمان ہوگیا اس شخص سے ملاقات کی ‘جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرانے کے بعد عرض کی! مجھے فلاں پادری نے مرنے سے پہلے وصیت کی تھی کہ میں آپ کی خدمت عالیہ میں حاضر ہو کر مذہبی تعلیم حاصل کرو انہوں نے آپ کے متعلق یہ بھی بتایا ہے کہ آپ ان کے مشن پر قائم ہیں۔لہذا وہ میری باتوں سے متاثر ہوا۔
اور اپنے پاس رہنے کی اس نے مجھے بخوشی کی اجازت دے دی۔ میں نے اس پادری کو بھی بہت بہتر پایا۔ یہ بھی پہلے مذہبی راہنما کی طرح زاہد’عابد’ متقی اور خدا ترس انسان تھا’لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد اس کا آخری وقت بھی آپہنچا. میں نے افسردہ ہو کر کپکپاتے ہونٹوں سے عرض کی۔حضرت!
آپ جانتے ہیں کہ میں کس تلاش میں گھر سے نکلا ہوں؟ کیوں میں نے نازو نعم کی زندگی کو خیرباد کہا ہے۔ کیوں میں نے پھولوں کی سیج چھوڑ کر خاردار وادی میں قدم رکھا ہے؟ حضور میرے لیے کیا حکم ہے. میں کدھر جاؤں’ کہاں کا رخ کروں کسے اپنا راہنما پاؤں ۔ کس سے مذہبی تعلیم حاصل کرو؟
اس نے میری حالت کو دیکھ کر کپکپاتے ہوئے ہونٹوں اور لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے ارشاد فرمایا؛ بیٹا نصیبن نامی بستی میں فلاں شخص کے پاس چلے جاؤ’ وہ ہمارے مشن پر قائم ہے۔ اسے میرا سلام کہنا اور بتانا کہ میں نے تمہیں اس کے پاس بھیجا ہے۔
جب اسے بھی لحد میں اتار دیا گیا تو میں سیدھا اس مذہبی رہنما کے پاس پہنچ گیا جو بستی میں رہتا تھا۔ میں نے اپنے تعارف کرانے کے بعد اپنے سابقہ مذہبی رہنما کا سلام پیش کیا اور پیغام بھی دیا کہ انہوں نے مجھے آپ کی خدمت میں بھیجا ہے۔ میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا متمنی ہوں اور کامل استاد کی تلاش میں آپ کے پاس پہنچا ہوں۔
اس نے میری باتیں سن کر بڑی مسرت کا اظہار فرمایا اور حصول علم کے لئے اپنے پاس رہنے کی اجازت بھی دے دی یہ بھی پہلے دونوں کی طرح بڑا زاہد’عابد’متقی اور خدا ترس انسان تھا’ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسے بھی اجل نے زیادہ مہلت نہ دی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے افسردگی کے عالم میں ان کے سرہانے بیٹھ کر عرض کی آپ میری تمنا کو جانتے ہیں اب میرے لیے کیا حکم ہے درد کا حال کیسے سناؤ ں کسے اپنا راہنما بناؤں۔
اب کون میرے زخموں پر مرہم لگائے گا ؟اس نے میری کیفیت دیکھ کر بڑے ہی بڑے مشفقانہ انداز میں کہا۔ بیٹا عموریہ میں فلاں شخص اس کے پاس چلے جاؤ۔
وہ ہمارے مشن پر قائم ہے تجہیز و تکفین سے فارغ ہو کر میں اس سے جا ملا اپنا تعارف کرانے کے بعد اپنے سابقہ مذہبی راہنما کا اسے پیغام دیا تو اس نے مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی۔تعلیم کے ساتھ ساتھ مجھے یہاں کاروبار کے مواقع بھی میسر آئے۔
کاروبار میں برکت ہوئی جس سے بہت سی گائیں اور بکریاں میرے پاس جمع ہو گئیں۔ لیکن قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ انہیں مہلت نہ ملی جب موت کا وقت قریب آیا تو میں نے حسب معمول عرض کی حضرت میرے لیے کیا حکم ہے؟ اس نے مجھے یہ بات بتائی ۔کہنے لگا اللہ کی قسم’ روئے زمین پر اب کوئی ایسا شخص باقی نہیں رہا جو ہمارے مشن پر قائم ہو۔ لیکن سرزمین عرب میں ایک نبی مبعوث ہونے والا ہے جو دین ابراہیمی لے کر آئے گا پھر وہ اپنے وطن سے ایسے علاقے کی طرف ہجرت کرے گا۔ جہاں سیاہ خشک پتھروں کے درمیان کھجوروں کے باغات ہوں گے۔اس کی چند ایک واضح نشانیاں بھی ہو گی وہ ہدیہ تو کھا لے گا لیکن صدقہ کی چیز نہیں کھائے گا اور اس کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی ۔اگر آپ وہاں جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو میری نصیحت ضرور ملیں ۔ اس مذہبی رہنما کی وفات کے بعد میں بہت عرصہ تک عموریہ بستی میں رہا۔ ایک مرتبہ قبیلہ بنو کلب کے عرب تاجر یہاں سے گزرے میں نے ان سے کہا اگر تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے جاؤ تو میں اس کے عوض یہ سب گائیں اور بکریاں تمہیں دے دوں گا۔
انہوں نے کہا۔ ہمیں یہ سودا منظور ہے۔
میں نے سارا مال ان کے حوالے کر دیا اور انہوں نے مجھے اپنے ساتھ سوار کر لیا۔
جب ہم وادی القری میں پہنچے تو انہوں نے میرے ساتھ دھوکا کیااور مجھے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا مجھے مجبوراً اس کی غلامی میں رہنا پڑا ‘ لیکن کچھ عرصے کے بعد بنو قریظہ میں اس کا چچا زاد بھائی ملنے کے لیے آیا اس نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ یثرب لے گیا۔ وہاں میں نے کجھوروں کے وہ باغات دیکھے جو عموریہ کے پادری نے مجھے بتائے تھے۔ میں نے سوچ لیا کہ یہی میری آخری منزل ہے۔ میں یہاں غلامی کے دن گزارنے لگا۔ دن بھر ان کا کام کرتا اور زندہ رہنے کے لیے معمولی سا دوپ وقت کا کھانا مل جاتا۔ یونہی میری زندگی کے دن گزرنے لگے ۔ ان دنوں نبی اکرم مکہ معظمہ میں اپنی قوم کو دین اسلام کی دعوت دینے میں مصروف تھے لیکن میں غلامی کی وجہ سے آپ کے متعلق زیادہ معلومات حاصل نہ کر سکا ۔
تھوڑے ہی عرصے بعد رسول اکرم ہجرت کر کے یثرب پہنچ گئے۔ میں اس وقت کھجور کی چوٹی پر کام میں مصروف تھا میرا آقا نیچے کھجور کے درخت کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس کا چچا زاد بھائی دوڑتا ہوا آیا سانس پھولا ہوا تھا گھبراہٹ کے عالم میں کہنے لگا۔ خدا بنو قیلہ کو تباہ کرے وہ آج صبح قبا میں اس شخص کے استقبال کے لیے جا رہے ہیں۔ جو مکہ سے ہجرت کرکے آیا اس کا دعوی ہے کہ میں نبی ہوں میں نے جب حضور کی چوٹی پر اس کے بات سنی تو میرے بدن میں کپکپی طاری ہوگئی۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ میں نیچے ہی نہ گر جاؤں تو میں جلدی سے نیچے اترا اور بے خودی میں آنے والے شخص سے کہا خدا کے لئے آپ مجھے دوبارہ بتائیے کیا خبر ہے میری حالت دیکھ کر میرے آقا کو غصہ آیا اور اس نے مجھے تابڑ توڑ مکے رسید کرنے شروع کر دیئے۔ اور بڑبڑایا کہ تجھے اس سے کیا’چل تو اپنا کام کر۔
جب شام کا وقت ہوا تو میں نے کھجوروں کا تھیلا بغل میں لیا اور تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ گیا جہاں رسول اکرم جلوہ افروز ہوئے تھے۔ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی مجھے پتہ چلا کہ آپ ایک صالح اور خداترس انسان ہیں اور آپ کے ہمراہ کچھ مسافر ساتھی بھی ہیں’ یہ میرے پاس صدقہ کی کجھور یں ہیں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں ۔ آپ نے وہ کھجوریں لیں اور اپنے ساتھیوں سے ارشاد فرمایا:
کہ کھجور کھا لو اور اپنا ہاتھ روک لیا’ آپ نے اس میں سے کوئی کھجور نہ کھائی۔ میں نے اپنے دل میں کہا یہ ایک نشانی پوری ہوئی۔ پھر میں واپس آگیا دوسرے دن اور کھجوریں لیں اور آپ کے پاس حاضر ہو کر عرض کی ‘ چونکہ آپ صدقہ نہیں کھاتے تو اس لیے بطور تحفہ کچھ کھجوریں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔آپ نے تحفہ قبول کیا’ خود بھی کھجوریں کھائی اور اپنے صحابہ کو بھی دی۔
میں نے دل میں یہ سوچا دوسری نشانی پوری ہوئی۔ پھر میں تیسری مرتبہ رسول اقدس کی خدمت میں حاضر ہوا اس دفعہ آپ جنت البقیع میں اپنے ایک صحابی کی تدفین کے سلسلے میں تشریف فرما تھے۔ اس وقت آپ نے چادر زیب تن کی ہوئی تھیں۔ میں نے سلام عرض کیا۔ میں آپ کی مہر نبوت دیکھنے کی کوشش میں تھا جو عموریہ کے پادری نے مجھے بتائی تھی۔نبی کریم نے جب مجھے دیکھا تو آپ بانپ گے کے میں کیا چاہتا ہوں آپ نے اپنی چادر مبارک کندھوں سے نیچے سرکا دی میں نے مہر نبوت دیکھی تو پہچان گیا۔میں اسے چومنے کے لیے جھکا اور زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ رسول اللہ نے جب میری حالت دیکھی تو شفقت سے مجھے تھپکی دی ۔ اور اپنے پاس بٹھا کر فرمایا کیا بات ہے کیوں روتے ہو میں نے پوری درد بھری داستان آپ کو سنائی اور آپ نے اسے بڑی دلچسپی سے سنا اور مجھے فرمایا کہ ان ساتھیوں کو بھی یہ داستان سنائیں۔ میں نے اپنی تمام داستان سنائی۔ وہ سن کر بہت خوش ہوئے کہ میں نے بڑی محنت کے بعد اپنی منزل کو پا لیا ہے۔
سلام حضرت سلمان فارسی’ پر جس دن وہ آپ کی تلاش کے لیے گھر سے نکلے۔
سلام حضرت سلمان فارسی پر جس دن انھوں نے حق کو پہچان لیا اور پختہ یقین کے ساتھ ایمان لے آئے ۔
سلام حضرت سلمان فارسی پر جس دن آپ فوت ہوئے اور جس دن انہیں زندہ اٹھایا جائے گا۔
حضرت سلمان فارسی کے تفصیلی حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کیجئے۔
1.الاصابة۔ 114-112/3
2. الاستيعاب۔ 558-556/2
3.الجرح والتعديل 297-96/22
4.اسد الغابہ 332-328/2
5. تهذيب التهذيب۔ 315/1
6. تقريب التهذيب۔ 147-137/4
7.الجمع بين رجال الصحيحين 193/1
8. طبقات الشعراني 31.30
9. صفته الصفوة 225-210/1
10.شذرات الذهب 44/1
11. تاريخ الاسلام للذهبي 123-108/2
12- سیر اعلام النبلاء 400-362/1
حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”