22. Hazrat Suhaib Roomi رضی اللہ عنہ
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ
اے ابو یحیٰے! سودا نفع بخش رہا (فرمان نبویﷺ)
ہم میں سے کون ہے جو حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کو نہ جانتا ہو! اور ان کی سیرت کے اہم ترین واقعات جاننے میں دلچسپی نہ رکھتا ہو، لیکن ہم میں سے اکثر و بیشتر یہ بات نہیں جانتے کہ آپ رومی نہیں تھے بلکہ خالص عربی النسل تھے، باپ کی جانب سے نمیری اور ماں کی جانب سے تمیمی تھے، یعنی ان کے والد قبیلہ بنو نمیر اور والدہ قبیلہ بنو تمیم سے تھی، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا روم کی طرف انتساب ایک عجیب و غریب واقعہ ہے جو کہ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ محفوظ رہے گا اور تاریخ دان اسے نہایت دلچپسی سے بیان کرتے رہیں گے۔
بعثت نبوی سے دو سال پہلے کی بات ہے بصرہ سے ملحقہ قدیمی شهر ابلہ کا گورنر سنان بن مالک نمیری تھا۔ اس کی تقرری شاہ ایران کے ایما پر کی گئی تھی، اسے اپنی اولاد میں سب سے زیادہ پیار اپنے پانچ سالہ بچے صہیب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔
صہیب رضی اللہ عنہ خوبصورت اور سرخ سنہری بالوں والا جاذب نظر اور دلکش بچہ تھا، ان کی آنکھوں سے فطانت، ذہانت اور شرافت ٹپکتی تھی، ہر وقت خوش و خرم رہتا، طبیعت میں خوش دلی و خوش مزاجی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، اسے دیکھتے ہی باپ کا دل خوشیوں سے لبریز ہو جاتا اور تمام تھکاوٹ آن واحد میں کافور ہو جاتی۔
ایک وفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی والدہ نے اپنے خدام اور حفاظتی دستے کے ہمراہ اپنے لخت جگر صہیب رضی اللہ عنہ کو لے کر سیر و سیاحت کی غرض سے عراق کے نہایت خوبصورت مقام ثنی نامی بستی کا رخ کیا۔ وہا ابھی یہ پہنچی ہی تھیں کہ روم کے لشکر نے اس بستی پر حملہ کر دیا ان کے تمام حفاظتی دستے کو قتل کر دیا، سب مال و متاع چھین لیا اور بچوں کو قیدی بنا لیا ان قیدیوں میں حضرت صہیب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔
صہیب رضی اللہ عنہ کو روم لے جا کر غلاموں کی منڈی میں بیچ ڈالا گیا’ وہ بکتے ہوئے ایک آقا سے دوسرے آقا کی طرف منتقل ہونے لگے، ان کی حالت ان ہزاروں غلاموں کی سی تھی جن سے روم کے محلات بھرے پڑے تھے۔
اس طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو رومی معاشرے کے داخلی حالات کو بنظر عمیق دیکھنے کا موقع ملا، ان کے محلات میں منکرات و فواحش کی گرم بازاری بچشم خود دیکھی، جب آپ نے کمزور و ناتواں لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا مشاہدہ کیا تو ان کے دل میں رومی معاشرے کے خلاف شدید نفرت کے جذبات بھڑک اٹھے، وہ اپنے دل میں کہا کرتے تھے کہ اس معاشرے کو ہولناک طوفان ہی پاک کر سکتا ہے۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ غلام کی حیثیت سے روم میں پرورش پانے لگے اور اسی سرزمین میں پل کر جوان ہوئے، آپ عربی زبان قریباً بھول گئے تھے، لیکن یہ احساس بدستور قائم رہا کہ میں عربی النسل ہوں اور صحرائی باشندوں کی اولاد ہوں، انہیں اپنی قوم سے جا ملنے کا شوق بدستور قائم رہا اور اس میں ایک لحظہ کے لئے بھی کبھی کمی واقع نہیں ہوئی اور سرزمین عرب کی زیارت کا شوق اس پر مستزوا’ ایک دفعہ انہوں نے ایک نصرانی نجومی کو اپنے آقا سے باتیں کرتے ہوئے سنا وہ اسے کہہ رہا تھا، عنقریب جزیرہ نمائے عرب کے شہر مکہ میں ایک نبیﷺ کا ظہور ہونے والا ہے، جو حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرے گا اور لوگوں کو جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی کی طرف نکال لائے گا۔
ایک روز حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو غلامی کی زنجیر توڑ کر بھاگ نکلنے کا موقع میسر آیا اور آپ نے ام القری مکہ معظمہ جلوہ گاہ نبی منتظرﷺ کا رخ کیا، اور یہاں پہنچ کر مستقل رہائش اختیار کرلی۔
زبان کی لکنت اور سنہری بالوں کی وجہ سے باشندگان مکہ آپ کو صہیب رضی اللہ عنہ رومی کے نام سے پکارنے لگے۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مکہ مکرمہ کے ایک سردار عبداللہ بن جدعان سے مل کر تجارت شروع کردی جس میں بہت نفع ہونے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں بہت سا مال جمع ہو گیا، تجارتی مصروفیات کے باوجود حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کو نصرانی نجومی کی وہ بات نہ بھولی جو انہوں نے اپنے رومی آقا کی زبان سے سنی تھی کہ “عنقریب مکہ معظمہ میں ایک نبی کا ظہور ہونے والا ہے” یہ اکثر اپنے دل میں سوچا کرتے کہ یہ سنہری موقع مجھے کب نصیب ہو گا’ مجھے کب اس نبیﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہو گا لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد آپ کو اس سوال کا جواب مل گیا۔
ایک روز حضرت صہیب رضی اللہ عنہ تجارتی سفر سے مکہ واپس تشریف لائے تو انہیں یہ اطلاع ملی کہ حضرت محمدﷺ نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور آپ لوگوں کو توحید باری تعالی اور ایمان کی دعوت دیتے ہیں، عدل و انصاف اور معروف کا حکم دیتے ہیں، فواحش ومنکرات سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا آپ وہی ہیں جسے لوگ امین و صادق کے نام سے پکارتے ہیں۔
انہیں بتایا گیا کہ ہاں! پوچھا: آپ کی رہائش کہاں ہے؟
بتایا گیا صفا کے پاس دار ارقم میں!
لیکن ذرا احتیاط سے جانا کہیں قریش تمہیں ادھر جاتے ہوئے دیکھ نہ لیں، دیکھنا اگر انہیں معلوم ہو گیا کہ تم وہاں گئے ہو تو تمہارا جینا دوبھر کر دیں گے: تم یہاں غریب الوطن ہو’
تمہارا یہاں کوئی خاندان نہیں’ جو مصیبت کے وقت تمہارے کام آ سکے۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ باشندگان مکہ سے نظریں چراتے ہوئے تاروں کی روشنی میں دار ارقم کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ پہلے سے دروازے پر کھڑے ہیں، پہلے تو گھبرائے، لیکن چونکہ ان کے ساتھ پہلے سے شناسائی تھی، پوچھا: عمار رضی اللہ عنہ کیا ارادے ہیں؟
عمار رضی اللہ عنہ بولے: آپ کے کیا ارادے ہیں؟
حضرت صہیب نے کہا: میں تو دار ارقم میں داخل ہو کر اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں جس نے نبوت کا دعوی کیا ہے اور اپنے کانوں سے ان کا پیغام سننے کا مشتاق ہوں۔
حضرت عمار رضی اللہ عنہ بولے: میرا بھی یہی ارادہ ہے!
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے کہا: واہ! تو پھر آیئے دونوں اللہ کا نام لے کر اندر چلتے ہیں۔
حضرت صہیب بن سنان رومی اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے، آپ کے ارشادات سنے تو نور ایمان سے دونوں کے سینے منور ہو گئے، دونوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے، دن بھر سر چشمہ اسلام سے سیراب اور ہادی برحق سے فیضیاب ہوتے رہے، دن ختم ہوا رات کا اندھیرا چھانے لگا’ لوگوں کی چہل پہل ختم ہوئی، اہالیان مکہ نیند کی آغوش میں محو استراحت ہوئے تو دونوں رات کی تاریکی میں وہاں سے نکلے، ان کے سینے نور ایمان سے منور ہو چکے تھے اور اس نور ایمانی نے ان کے لئے تمام دنیا روشن کر دی تھی۔
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت عمار رضی اللہ عنہ، حضرت سمیہ اور حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ہمراہ قریش کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم نہایت صبر و متحمل سے برداشت کئے، قریش کی طرف سے دیئے جانے والے مظالم اتنے شدید تھے کہ اگر
کسی پہاڑ پر اتارے جاتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا، لیکن آپ نے انہیں صبر و تحمل سے برداشت کیا؟ کیونکہ آپ جانتے تھے کہ جنت کا راستہ مصائب و تکالیف سے اٹا ہوا ہے۔
جب رسول اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا پختہ ارادہ کر لیا، لیکن جب قریش کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے جاسوس مقرر کر دئیے تا کہ انہیں مکے کی حدود سے باہر نہ جانے دیا جائے، انہیں اندیشہ تھا کہ اگر یہ گئے تو اپنے ساتھ مال تجارت اور سونا چاندی بھی لے جائیں گے۔
رسول اکرمﷺ اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے بعد حضرت صہیب رضی اللہ عنہ مسلسل اس موقعے کی تلاش میں رہے کہ کب انہیں ہجرت کی فرصت میسر آئے کیونکہ نگہبانوں اور جاسوسوں کی آنکھیں ہمیشہ ان کے تعاقب میں رہتی تھیں، بالآخر انہیں ایک ترکیب سوجھی، ایک خنک رات میں قضائے حاجت کے بہانے آپ گھر سے نکلے، پھر گھر میں داخل ہوئے یہ عمل آپ نے بار بار دہرایا’ جب آپ کی اس اضطراری حالت کو جاسوسوں نے دیکھا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے مبارک ہو’ لات و عزی نے آج اسے پیٹ کی شدید تکلیف میں مبتلا کر دیا ہے۔ پھر وہ اطمینان سے اپنے بستروں میں جا لیٹے اور گہری نیند سو گئے، حضرت صہیب رضی اللہ عنہ اس صورت حال کو بھانپ کر وہاں سے چل نکلے اور مدینہ منورہ کا رخ کیا۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ابھی تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ نگرانی پر متعین لوگ ہڑبڑا کر اٹھے’ آپ کو وہاں موجود نہ پا کر آپ کے تعاقب میں تیز روگھوڑوں پر سوار ہو کر سرپٹ دوڑے’ صہیب رضی اللہ عنہ ابھی تھوڑی دور گئے تھے کہ پیچھے سے تعاقب کرنے والے بھی پہنچ گئے’ جب آپ نے ان کی آہٹ سنی تو ایک ٹیلے پر کھڑے ہو گئے’ ترکش سے تیر نکالا اور کمان پر چڑھا کر کہنے لگے۔
اے قریش! تم جانتے ہو! کہ میں سب لوگوں سے بڑھ کر تیر انداز ہوں اور میرا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا’ اللہ کی قسم! تم مجھ تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں تمہارے اتنے آدمی قتل نہ کر دوں جتنے میرے ترکش میں تیر موجود ہیں، تیر ختم ہو گئے تو میں تلوار سے تمہاری گردنیں اڑانا شروع کر دوں گا’ یہ معرکہ آرائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میرے بازوؤں میں طاقت ہے آپ کی جرات مندانہ بات سن کر قریش میں سے ایک شخص بولا’ لات و عزی کی قسم! ہم تمہیں یہاں سے جانے نہیں دیں گے’ جب تم یہاں آئے تو مفلس و قلاش تھے’ لیکن تھوڑے ہی عرصے میں دولت مند ہو گئے’ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں سے حاصل کردہ مال تم اپنے ساتھ لے جاؤ اور ہم دیکھتے رہ جائیں۔
آپ نے اس کی بات سن کر ارشاد فرمایا: اگر میں اپنا سارا مال تمہارے سپرد کر دوں تو کیا تم میرا راستہ چھوڑ دو گے؟
انہوں نے کہا: ہاں! اگر تم اپنا سارا مال ہمارے سپرد کر دو تو پھر ہم تمہارا راستہ نہیں روکیں گے۔
آپ نے ارشاد فرمایا: جاؤ میرے گھر کے فلاں کونے میں خزانہ چھپایا ہوا ہے۔ جا کر نکال لو۔ یہ سن کر وہ سب واپس لوٹ گئے اور آپ کا سارا مال قبضے میں لے لیا’ اس طرح آپ اطمینان سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔
حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ وفور شوق سے مدینہ منورہ کی جانب قدم بڑھانے لگے۔ مال و دولت کے ضائع ہونے کا آپ کو غم نہ تھا’ راستے میں جب تھکاوٹ محسوس ہوتی تو رسول اکرمﷺ کی زیارت کا شوق دل میں موجزن ہو جاتا اور توانائیاں لوٹ آتیں۔ اور چاک و چوبند ہو جاتے اور تازہ دم ہو کر سوئے منزل رواں دواں ہوتے، جب آپ وادی قبا میں پہنچے تو رسول اکرمﷺ وہاں موجود تھے’ انہیں دیکھ کر آنحضرتﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا! ابو یحیی! سودا نفع بخش رہا۔ سودا بہت ہی مفید رہا۔
آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا۔
آپ کی زبان مبارک سے یہ کلمات سن کر حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور عرض کی: یارسول اللهﷺ بخدا! مجھ سے پہلے تو آپ کے پاس کوئی نہیں آیا۔
یقینا یہ خبر آپ کو جبریل علیہ السلام نے دی ہو گی۔
بلاشبہ یہ سودا نفع بخش رہا: وحی الہی نے اس کی تصدیق کر دی۔ جبریل علیہ السلام اس پر شاہد ٹھہرے’ کیونکہ وہ حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ آیات لے کر نازل ہوئے تھے۔
*وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ*
“انسانوں ہی میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے۔”
حضرت صہیب بن سنان رومی رضی اللہ عنہ کے لئے یہ حسن انجام مبارک ہو۔
حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
ا- الاصابة مترجم ۴۱۰۴
۲۔ طبقات ابن سعد ۳/ ۲۲۶
۳۔ اسدالغابة ۳/ ۳۰
۴۔ الاستيعاب ۲/ ۱۷۴
۵- صفته الصفوة ۱/ ۱۷۴
٢- البداية والنهاية ۷/ ۳۱۸۔۳۱۹
۷۔ حياة الصحابة
۸۔ الاعلام ومراجعه
حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”