Search
Sections
< All Topics
Print

27. Hazrat Umair Bin Saad(رضی اللہ عنہ)

حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ

(1)

 

حضرت عمیر بن سعد انصاری رضی اللہ عنہ نے یتیمی اور فقر و فاقہ کا جام اس وقت پیا جب کہ آپ نے ابھی گھٹنوں کے بل کھڑا ہونا بھی نہیں سیکھا تھا، ان کا باپ ملک عدم کو اس حالت میں کوچ کر گیا کہ اس نے اپنے پیچھے کوئی مال و متاع نہ چھوڑا جو اولاد کے کام آ سکے’ لیکن ان کی والدہ نے کچھ عرصے کے بعد قبیلہ اوس کے ایک مالدار شخص جلاس بن سوید سے نکاح کر لیا اور اس نے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا، جلاس بن سوید کے حسن سلوک، ہمدردی اور فیاضی نے عمیر کو یہ بھلا ہی دیا کہ اس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا تھا۔

جناب عمیر جلاس بن سوید کے ساتھ اس طرح پیش آتے جیسے کوئی فرمانبردار بیٹا اپنے باپ کے ساتھ پیش آتا ہے۔

جناب جلاس بن سوید نے بھی حضرت عمیر کو اپنے دل میں اس طرح جگہ دی جیسے کوئی شفیق باپ اپنی اولاد کو دل میں بساتا ہے، جوں جوں جناب عمیر نشو و نما پاتے اور جوان ہوتے گئے’ توں توں جلاس کے دل میں ان کی محبت بڑھتی چلی گئی’ کیونکہ ان کی ہر ادا سے ذہانت و شرافت ٹپکتی، صداقت، دیانت ان کے ہر عمل سے نمایاں نظر آتی۔


حضرت عمیر بن سعد ابھی دس سال کے نہ ہوئے تھے کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور جلد ہی ان کے پاکیزہ، رقیق اور صاف و شفاف دل میں ایمان راسخ ہو گیا، اسلام ان کے دل کی زرخیز زمین میں پانی کی طرح سرایت کر گیا، انہیں نو عمری میں ہی رسول اللہ ﷺ کی امامت میں نمازیں پڑھنے کا شرف حاصل ہوا’ جب یہ نماز کے لئے مسجد نبویﷺ آتے جاتے تو ان کی والدہ محترمہ اپنے لخت جگر کو کار خیر میں دلچسپی لیتے ہوئے دیکھ کر خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ کبھی تو وہ خوشی کے اظہار میں اکیلی ہوتی اور کبھی اس کا خاوند بھی خوشی میں شریک ہوتا۔


اس نوجوان صحابی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی زندگی نہایت خوشگوار انداز میں گزر رہی تھی کہ اچانک عنفوان شباب میں ہی ایک ایسے سخت ترین تجربے اور کڑے امتحان سے گزرنا پڑا کہ کم ہی کسی نوجوان کو اس قسم کے حالات سے دو چار ہونا پڑا ہو گا۔

ہوا یہ کہ ۹ ہجری کو رسول اقدسﷺ نے مقام تبوک پر رومیوں سے جنگ کرنے کا عزم کیا اور مسلمانوں کو جنگی تیاری کا حکم دے دیا، رسول اقدسﷺ کی یہ عادت مبارکہ تھی کہ جب بھی جنگ کا منصوبہ ترتیب دیتے تو تمام تر منصوبہ بندی صیغہ راز میں رکھتے، جس سمت کو لشکر اسلام روانہ کرنا ہوتا بظاہر اعلان کسی دوسری سمت کا کرتے، لیکن غزوہ تبوک میں آپ نے یہ پالیسی اختیار نہ کی بلکہ لوگوں کو واضح طور پر بتا دیا کہ کہاں جانا ہے۔

دراصل اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو منزل بہت دور تھی اور راستہ بھی نہایت دشوار گزار تھا اور مقابلے میں دشمن بھی بہت طاقتور تھا۔ آپ نے اس موقع پر اس لئے ہر بات کی وضاحت کر دی تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم معاملے کی نزاکت کو سمجھ جائیں اور خوب اچھی طرح تیاری کر لیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسم گرما کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔

گرمی شدید تھی، پھل پک چکے تھے، درختوں کا سایہ بھلا معلوم ہوتا، طبیعتوں میں سستی و کسل مندی کا غلبہ نظر آنے لگا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی مکرمﷺ کی آواز پر لبیک کہا اور انتہائی ذوق و شوق سے جنگی تیاری میں مصروف ہو گئے، لیکن منافقین مختلف حیلے بہانے کرنے لگے۔ مسلمانوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اپنی نجی محفلوں میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگے۔

لشکر اسلام کی روانگی سے چند روز پہلے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ مسجد نبویﷺ میں نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آئے تو مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آپ نے دیکھا کہ مسلمان پورے شوق سے جہاد کی تیاری میں مصروف ہیں۔

مہاجرین و انصار کی معزز خواتین نے رسول اقدسﷺ کی خدمت میں اپنے قیمتی زیورات پیش کر دیئے تاکہ آپ ان کی قیمت لشکر اسلام کی تیاری میں صرف کریں۔

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ رسول اقدسﷺ کی خدمت میں ایک ہزار دینار پیش کر رہے ہیں۔

دوسری طرف دیکھا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے کندھوں پر اشرفیوں کا تھیلا اٹھائے تیزی سے چلے آ رہے ہیں، اور یہ ساری رقم چشم زدن میں رسول اقدسﷺ کے قدموں میں ڈھیر کر دی’ انہوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ایک شخص اپنا بستر بیچ رہا ہے تاکہ اس قیمت سے جہاد کے لئے تلوار خرید سکے۔

حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی آنکھوں کے سامنے جوش’ ولولہ اور جذبہ جہاد کے منظر بار بار آتے تو آپ کی دلی خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہتی، لیکن وہ اس بات پر بڑا تعجب کرتے کہ جلاس بن سوید چپکے سے گھر بیٹھا ہوا ہے، جہاد کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا اور نہ ہی باوجود تونگری و خوشحالی کے راہ خدا میں اپنا مال خرچ کرتا ہے، حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ جلاس بن سوید کی ہمت بندھائے اور اس کے دل میں حمیت، احساس اور جذبہ جہاد پیدا کرے’ تو اس نے وہ تمام مشاہدات بیان کرنے شروع کر دیئے جن کا بچشم خود نظارہ کیا تھا اور خاص طور پر ان اہل ایمان اور قدسی صفات صحابہ رضی اللہ عنہم کی کیفیت بیان کی’ جنہوں نے جہاد کے لئے لشکر اسلام میں شمولیت کی درخواست دی لیکن رسول اقدسﷺ نے اس بنا پر درخواست مسترد کر دی کہ ان کے پاس سواری نہیں اور منزل بہت دور ہے تو وہ اپنی ناکامی اور بے بسی پر زار و قطار رو رہے تھے اور غم سے اس قدر نڈھال تھے کہ ان کی حالت دیکھی نہ جاتی، لیکن جلاس پر ان کی گفتگو کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس نے ساری روئداد سننے کے بعد ایک ایسی جلی کٹی بات کہی کہ جسے سن کر نوجوان صحابی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ حیران و ششدر رہ گئے۔

جلاس نے کہا کہ “محمدﷺ دعوئے نبوت میں سچے ہیں تو پھر ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ

 

بدتر ہیں۔ (نَعُوذ بِاللَّهِ مِن ذالكَ)


حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جلاس بن سوید کے منہ سے یہ بات سن کر انگشت بدنداں رہ گئے’ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جلاس جیسے ذہین و فطین و دانشمند شخص کے منہ سے اس قسم کی بری بات بھی نکل سکتی ہے، جو کہنے والے کو فوری طور پر دائرہ اسلام سے خارج کر دے اور کفر کی حدود میں بلا روک ٹوک داخل کر دے۔

یہ بات سنتے ہی عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ اس سوچ میں پڑ گئے کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے’ وہ سوچ بچار کے بعد بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر جلاس کی اس دل آزار بات سے پہلو تہی اختیار کی گئی اور اس پر پردہ ڈالا گیا تو یہ صریحاً اللہ تعالیٰ اور رسول اقدسﷺ کے ساتھ خیانت ہو گی، اور اس خاموشی اور پردہ داری سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور اس طرز عمل سے ان منافقوں کو تقویت ملے گی جو در پردہ اسلام کو مٹانے کے لئے آپس میں مشورے کرتے رہتے ہیں، اور اگر اس راز کو افشاء کر دیا جائے تو پھر اس شخص پر گراں گزرے گا جسے میں والد کا درجہ دیتا ہوں اور اس نے اپنے حسن سلوک اور فیاضی سے مجھے یتیمی کا احساس تک نہ ہونے دیا اور اقتصادی تعاون سے مجھے مالدار بنا دیا اور مجھے باپ کی وفات کا غم بھلا دیا۔ میں نے سوچا کہ اس نازک مرحلہ پر کون سی کڑوی گولی
نگلی جائے۔ پھر یکدم میں نے جلاس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔

بخدا! روئے زمین پر رسول اقدس حضرت محمدﷺ کے بعد آپ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ عزیز تھے، لیکن آج آپ نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے کہ اگر لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ کرتا ہوں تو آپ رسوا ہو جائیں گے۔ اگر خاموش رہتا ہوں تو امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہوں۔ اس طرح میں اپنے آپ کو تباہ و برباد کر بیٹھوں گا’ میں تو یہ بات رسول اقدسﷺ کو بتانے جا رہا ہوں اب آپ اپنا انجام سوچ لیں۔


یہ کہہ کر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ مسجد نبویﷺ کی طرف چل دیئے اور جو کچھ جلاس بن سوید کی زبانی سنا تھا، من وعن رسول اقدسﷺ کو بتا دیا۔ یہ بات سن کر رسول اکرم

 

ﷺ نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بٹھا لیا اور جلاس کو بلانے کے لئے ایک صحابی کو بھیجا، تھوڑی ہی دیر بعد جلاس آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا، سلام عرض کیا اور آپ کے سامنے دو زانو بیٹھ گیا۔

آپ نے دریافت کیا کیا عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے تم نے یہ بات کی ہے کہ “محمدﷺ
دعوئے نبوت میں سچے ہیں تو ہم پھر گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔”

اس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی’ یہ سراسر جھوٹ بولتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جلاس اور عمیر رضی اللہ عنہ کو بغور دیکھنے لگے تاکہ ان کے چہروں کے تاثرات سے اندازہ لگا سکیں کہ ان میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے! حاضرین مجلس سرگوشیاں کرنے لگے’ ایک منافق کہنے لگا۔ دیکھو یہ نوجوان سانپ کی مانند احسان فراموش نکلا کہ جس نے اسے دودھ پلایا اسے ہی ڈنک مارا۔ دوسرے ساتھی کہنے لگے، نہیں بلکہ یہ نوجوان تو نہایت ہی شریف الطبع ہے، اس کی تو نشو و نما ہی اطاعت الہی کے ماحول میں ہوئی’ اس کے چہرے کے تیور ہی بتاتے ہیں کہ یہ اپنی بات میں سچا ہے۔

رسول اقدسﷺ نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا کہ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو چکا ہے اور آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو جاری ہیں اور بے خودی کے عالم میں بارگاہ الہی
میں یہ دعا کرتا ہے۔

الہی! میری بات اپنے نبی علیہ السلام پر واضح فرما دے۔
الہی! میری بات اپنے نبی علیہ السلام پر واضح فرما دے۔

یہ منظر دیکھ کر جلاس غصے سے آگ بگولا ہو کر کہنے لگا: حضور میں بالکل سچا ہوں میں
حلف دینے کے لئے تیار ہوں۔

میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ کہتا ہوں کہ عمیر رضی اللہ عنہ نے میرے متعلق جو کچھ آپ کو کہا وہ بالکل جھوٹ ہے۔ بخدا! میں نے کوئی ایسی گستاخانہ بات نہیں کی۔

ابھی اس نے اپنا حلفیہ بیان ختم نہیں کیا تھا کہ لوگوں کی نگاہیں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی طرف منتقل ہو گئیں اتنے میں رسول اقدسﷺ پر غنودگی طاری ہو گئی، صحابہ رضی اللہ عنہم پہچان گئے کہ اب وحی نازل ہو گی، ہر ایک اپنی اپنی جگہ سہم گیا اور سب کی نگاہیں رسول اقدس

 

ﷺ کے چہرہ انور پر جم گئیں، یہ منظر دیکھ کر جلاس پر خوف و ہراس طاری ہو گیا اور عمیر رضی اللہ عنہ کے چہرے پر خوشی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور تمام حاضرین کی کیفیت بھی یہی تھی، یہاں تک کہ رسول اقدسﷺ سے وحی کا اثر زائل ہو گیا اور آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔

*يَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوْا بِمَالَمْ يَنَالُوا وَ مَانَقَمُوْا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ اغْنَاهُمُ اللَّهُ وَ رَسُوْلُهُ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنْ يَتُوبُوْا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ وَ يَتَوَلَّوْا يُعْذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيْمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ مَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَّلِي وَلَا نَصِير*
(التوبه – ۷۴)

“یہ لوگ اللہ کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کی، حالانکہ انہوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے’ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے۔ اب یہ اپنی اس روش سے باز آئیں تو انہی کے لئے بہتر ہے۔ اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو درد ناک سزا دے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔”

جلاس یہ آیت سن کر کانپ اٹھا۔ گھبراہٹ سے اس کی زبان گنگ ہو گئی۔ رسول اقدسﷺ کی طرف دیکھا اور آہ وزاری کے ساتھ عرض کی۔

یا رسول اللہ! میری توبہ!
یا رسول اللہ! میری توبہ!
یا رسول اللہ! عمیر رضی اللہ عنہ نے سچ کہا اور میں جھوٹا ہوں۔ یا رسول اللہ! اللہ سے کہیں کہ وہ میری توبہ قبول کر لے۔
یا رسول اللہ! میں آپ پر قربان۔

اس موقع پر رسول اقدسﷺ نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے نور ایمان سے چمکتے ہوئے چہرے کو دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو ٹپک رہے ہیں۔

رسول اقدسﷺ نے نہایت شفقت سے اپنا دست مبارک عمیر رضی اللہ عنہ کے کان پر
رکھا اور فرمایا:

میرے عزیز آپ کے اس کان نے بالکل صحیح سنا اور اللہ تعالی نے اس کی تصدیق کر دی’ اس حادثہ کے بعد جلاس بن سوید صدق دل سے توبہ کر کے دائرہ اسلام میں دوبارہ داخل ہوئے اور پھر پوری زندگی صحیح اسلامی کردار پیش کیا۔

اس واقعہ کے بعد جب بھی جلاس بن سوید کے سامنے عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کا نام لیا جاتا تو فوراً یہ کہتے اللہ تعالٰی اسے جزائے خیر عطا فرمائے۔ اس نے مجھے کفر سے بچا لیا اور جہنم سے میری گردن آزاد کر دی، حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کی زندگی کا صرف یہی روشن اور خوش آئند واقعہ نہیں، بلکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں، جو اس سے بھی زیادہ ایمان افروز اور روح پرور ہیں اور آپ کی زندگی کے روشن باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ان واقعات کی چند ایک جھلکیاں اگلے صفحات میں پیش کی جا رہیں ہیں۔

 


 

حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ
(۲)


ابھی میں نے ایک جلیل القدر صحابی حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے بچپن کے روح پرور حالات سے آگاہ کیا۔ اب میں آپ کے سامنے بڑھاپے میں پیش آنے والے واقعات کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں، آپ یہ محسوس کریں گے کہ یہ واقعات اپنی عظمت و رفعت کے اعتبار سے بچپن میں پیش آنے والے واقعات سے کچھ کم نہیں۔


صورتحال یہ تھی کہ علاقہ حمص کے باشندے اپنے گورنر کے خلاف بڑے زبان دراز اور شکایتی واقع ہوئے تھے۔ جب ان کے پاس کسی کو گورنر بنا کر بھیجا جاتا تو وہ اس پر اعتراضات کی بوچھاڑ کر دیتے اور مختلف قسم کے عیب نکالنے لگتے۔ بالآخر اس کے خلاف زبردست محاذ قائم کر کے خلیفتہ المسلمین سے پر زور مطالبہ کرتے کہ اسے فوری طور پر تبدیل کر دیا جائے، اور اس کی جگہ کسی بہتر شخص کو متعین کیا جائے۔ اس دفعہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ عزم کیا کہ اب ایسا گورنر مقرر کروں گا’ جس کا کردار مثالی ہو اور باشندگان حمص کو انگشت نمائی کا موقع نہ ملے، اس منصب کے لئے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی نظر انتخاب حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ پر پڑی۔ لیکن وہ بلاد شام میں لشکر اسلام کے سپہ سالار کی حیثیت سے شہروں کو آزاد کرتے، قلعوں کو فتح کرتے، قبائل کو زیر فرماں کرتے اور مفتوحہ علاقوں میں مساجد بناتے ہوئے بڑی تیزی سے آگے بڑھتے جا رہے تھے، اس حوصلہ افزاء پیش قدمی کے باوجود امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک سرکاری حکم نامے کے ذریعے انہیں حمص کا گورنر مقرر کرتے ہوئے لکھا کہ آپ میرا یہ خط ملتے ہی حمص روانہ ہو جائیں اور وہاں پہنچ کر بحیثیت گورنر اپنے فرائض سر انجام دیں۔


امیر المؤمنین کا حکم ملتے ہی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ حمص روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچتے ہی لوگوں کو نماز کے لئے اکٹھا کیا۔ نماز کے اختتام پر ان سے خطاب کیا۔

حمد و ثنا اور درود و سلام کے بعد فرمایا:
لوگو! اسلام ایک ناقابل تسخیر قلعے اور ایک مضبوط دروازے کی مانند ہے، حقیقتاً اسلام کا قلعہ عدل و انصاف اور اس کا دروازہ حق و صداقت کا پیغام ہے۔

سن لو! اسلام کا قلعہ اس وقت تک ناقابل تسخیر رہے گا جب تک تمہارا سلطان طاقتور رہے گا۔ بلاشبہ سلطان کی طاقت کوڑے مارنے اور قتل و غارت کرنے میں نہیں، بلکہ اس کی طاقت کا راز عدل و انصاف اور حق و صداقت اختیار کرنے میں ہے، پھر آپ اپنے مختصر خطبے میں پیش کئے ہوئے دستور العمل کو نافذ کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف ہو گئے۔


حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے حمص میں گورنر کی حیثیت سے ایک سال کا عرصہ گزارا’ اس عرصے میں نہ تو امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو کوئی خط لکھا اور نہ بیت المال کے لئے کوئی رقم بھیجی۔ اس صورت حال سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے کیونکہ آپ کو گورنروں کے بارے میں بہت اندیشہ تھا کہ کہیں وه عمده و منصب اور مال و متاع کے فتنے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ان کے نزدیک رسول اقدسﷺ کے سوا کوئی معصوم نبی نہیں تھا۔ آپ نے اپنے سیکرٹری سے کہا: عمیر بن سعد کو خط لکھو کہ جونہی میرا خط ملے حمص کو خیر باد کہہ کر سیدھے میرے پاس چلے آؤ۔ اپنے ساتھ وہ مال بھی لیتے آنا جو اب تک بیت المال کے لئے وصول کیا ہے۔


حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کو جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا خط ملا تو فوراً ایک تھیلا جس میں کچھ زاد راہ تھا، ایک عدد برتن وضو کے لئے اور ہاتھ میں اپنی کلہاڑی پکڑی اور حمص کی گورنری کو خیرباد کہہ کر کشاں کشاں سوئے مدینہ چل دیئے۔

حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ان کا رنگ سیاہی مائل، جسم نہایت لاغر و نحیف ہو چکا تھا۔ سر اور داڑھی کے بال کافی بڑھ چکے تھے، سفر کی مشکلات کے آثار آپ کے چہرے اور جسم پر نمایاں تھے۔


حضرت عمیر رضی اللہ عنہ جب امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو وہ ان کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے، پوچھا عمیر تجھے کیا ہوا؟

عرض کی: امیر المؤمنین مجھے کچھ نہیں ہوا۔ میں الحمد للہ بالکل ٹھیک ہوں۔ میں آج آپ کے پاس اپنی تمام دنیا اٹھا لایا ہوں۔

آپ نے دریافت کیا: تمہارے پاس دنیاوی مال و متاع کتنا ہے؟

فاروق اعظم کا خیال تھا کہ یہ بیت المال سے بہت سا مال و متاع اپنے ہمراہ لائے ہیں۔

حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے بتایا: میرے پاس ایک تھیلا ہے جس میں میرا زاد راہ ہے، ایک
پیالا ہے جس میں کھانا بھی کھاتا ہوں اور اس سے اپنا سر اور کپڑے بھی دھوتا ہوں، ایک
برتن پانی پینے اور وضو کرنے کے لئے ہے، اے امیر المؤمنین اس سامان کے علاوہ ساری دنیا میرے لئے فضول ہے، مجھے اس دنیا سے کوئی غرض نہیں۔

سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا آپ حمص سے پیدل چل کر آئے ہیں؟
عرض کی: ہاں’ یا امیر المؤمنین۔
فرمایا: اتنے بڑے اور اہم منصب کے باوجود آپ کو ایک سواری بھی نہ دی گئی، جس پر آپ سوار ہو کر یہاں آتے۔

عرض کی: نہ ہی باشندگان حمص نے کوئی سواری دی اور نہ ہی میں نے ان سے طلب کی۔

آپ نے دریافت فرمایا: وہ مال و متاع کہاں ہے جو اپنے ہمراہ بیت المال کے لئے لائے ہو، عرض کی: میں تو اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لایا۔

آپ نے پوچھا: کیوں؟
عرض کی: جب میں حمص پہنچا تو وہاں کے باشندوں میں سے صلحاء واتقیاء کو اکٹھا کیا اور ٹیکس جمع کرنے کا کام ان کے سپرد کر دیا، جب بھی وہ کوئی مال اکٹھا کرتے تو میں ان سے مشورہ لیتا اور مناسب جگہ پر خرچ کرتا اور مستحقین میں تقسیم کر دیتا۔ یہ روئیداد سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے سیکرٹری سے کہا کہ عمیر رضی اللہ عنہ کے لئے حمص کی گورنری کی تجدید کر دو تا کہ یہ وہاں جا کر دوبارہ اپنا منصب سنبھال لیں۔ یہ بات سن کر حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ بالکل نہیں۔ میں ہرگز یہ منصب نہیں چاہتا۔ امیر المؤمنین! مجھے معاف کیجئے میں آج کے بعد نہ تو آپ کے کہنے پر اور نہ آپ کے بعد کسی کے بھی کہنے پر یہ منصب سنبھالوں گا۔ پھر آپ نے امیر المؤمنین سے مدینہ منورہ کی ایک نواحی بستی میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ بسیرا کرنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔


حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو اس بستی میں آباد ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کے حالات معلوم کرنے کے لئے اپنے قابل اعتماد ساتھی جناب حارث کو حکم دیا کہ وہ عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس مہمان بن کر جائے۔ اگر وہاں مال و دولت کے آثار دیکھے تو فوراً اسی حالت میں واپس آ جائے، اگر دیکھے کہ وہ تنگ حالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں تو یہ دینار انہیں دے دینا’ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیناروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی اس کے سپرد کی۔


جناب حارث امیر المؤمنین کا حکم سنتے ہی روانہ ہو گئے اور حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے گاؤں پہنچ کر ان کے گھر کا پتہ معلوم کیا’ ان سے ملے، سلام عرض کیا’ انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے سلام کا جواب دیا اور پوچھا آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں۔

جناب حارث نے بتایا کہ میں مدینہ منورہ سے حاضر ہوا ہوں۔

پوچھا: باشندگان مدینہ کا کیا حال ہے؟

عرض کی: سب خیریت سے ہیں۔
پوچھا: امیرالمؤمنین کیسے ہیں۔ عرض کی: بالکل ٹھیک ہیں۔ پوچھا کیا آج کل وہ شرعی حدود نافذ نہیں کرتے۔
کہا: کیوں نہیں، انہوں نے تو اپنے بیٹے کو عبرتناک سزا دی جس سے اس کی موت واقع ہو گئی، یہ سن کر آپ نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کئے اور کہا:
الہی: عمر رضی اللہ عنہ کی مدد فرما۔
الہی میں جانتا ہوں اسے تیرے ساتھ اور تیرے دین کے ساتھ والہانہ محبت ہے۔


جناب حارث حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تین دن ٹھہرے، ہر روز ان کی تواضع کے لئے جو کی صرف ایک روٹی پیش کی جاتی۔

جب تیسرا دن گزرا تو ایک شخص نے کہا آپ نے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اور اس کے اہل خانہ کے لئے بہت مشکل پیدا کر دی ہے، ان کے پاس تو صرف یہ ہی روٹی ہوتی ہے جو روزانہ تجھے کھلا دیتے ہیں، اس طرح مسلسل بھوکے رہنے سے تو وہ نڈھال ہو جائیں گے’ اب آپ یہاں قیام کرنے کی بجائے میرے گھر تشریف لے چلیں۔


یہ بات سنتے ہی جناب حارث نے دیناروں کی تھیلی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں
پیش کی۔

حضرت عمیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟
جناب حارث نے بتایا’ امیر المؤمنین نے آپ کے لئے کچھ رقم بھیجی ہے۔
آپ نے فرمایا: یہ واپس لے جائیں، امیرالمؤمنین کو میرا سلام کہنا اور یہ عرض کرنا کہ عمیر کو اس رقم کی کوئی ضرورت نہیں۔
حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ باتیں سن رہی تھی، اس نے کہا عمیر رضی اللہ عنہ یہ رقم لے لو۔
اگر تمہیں ضرورت پڑی تو خرچ کر لینا ورنہ محتاجوں میں تقسیم کر دینا۔


جب جناب حارث نے خاتون کی یہ بات سنی تو دیناروں کی تھیلی حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کے سامنے رکھ دی اور وہاں سے چل دیئے۔

حضرت عمیر نے وہ دینار لئے اور اسی رات تمام کے تمام حاجت مندوں اور شہداء کے بچوں میں تقسیم کر دیئے۔

جب جناب حارث واپس مدینہ منورہ پہنچے تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا’ آپ نے وہاں کیا منظر دیکھا؟
عرض کی: امیر المؤمنین بہت ہی تنگ دستی دیکھی۔
آپ نے فرمایا: کیا تم انہیں دینار دے آئے ہو؟
عرض کی: ہاں امیر المؤمنین۔
آپ نے دریافت کیا: انہوں نے وہ دینار کیا کئے؟
عرض کی: مجھے علم نہیں، البتہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ایک درہم بھی اپنی ذات کے لئے نہیں رکھا ہو گا۔ یہ سن کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ فوراً مدینہ پہنچو اور مجھے ملو۔

حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ خط ملتے ہی مدینہ روانہ ہو گئے، امیر المومنین کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور نہایت احترام سے اپنے پاس بٹھایا۔ پھر محبت
بھرے انداز میں پوچھا:
عمیر میں نے جو دینار بھیجے تھے، انہیں آپ نے کہاں صرف کیا؟
آپ نے فرمایا: امیرالمؤمنین! آپ مجھے دینار دینے کے بعد ان کے متعلق کیوں پوچھتے ہیں؟

آپ نے فرمایا: میری دلی تمنا ہے کہ میں حقیقت حال معلوم کروں، براہ مہربانی آپ ضرور بتائیں فرمایا: میں نے وہ جمع کر لئے ہیں تاکہ اس دن کام آ سکیں جس دن مال اور اولاد کام نہ آ سکیں گے یہ سن کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

اور فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان بندگان خدا میں سے ہیں، جو ضرورت کے

باوجود دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں، پھر آپ نے حکم دیا کہ ان کے لئے اناج اور کپڑوں کا جوڑا فوراً تیار کیا جائے۔

آپ نے فرمایا: امیر المؤمنین، اناج کی تو مجھے کوئی ضرورت نہیں، میں یہاں آتے ہوئے اہل خانہ کے لئے تھوڑے سے جو گھر چھوڑ آیا ہوں، جب یہ ختم ہوں گے تو اللہ تعالی ہمیں اور رزق عطا فرما دیں گے، البتہ کپڑوں کا جوڑا میں اپنی بیوی کے لئے لے جاتا ہوں کیونکہ اس کا لباس بہت بوسیدہ ہو چکا ہے۔


حضرت عمر بن سعد رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس ملاقات کو ابھی زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ کو رب ذوالجلال کی طرف سے بلاوا آ گیا تاکہ یہ اپنے پیارے نبی سرور عالم حضرت محمدﷺ سے جا ملیں اور دلی تمنا کے مطابق اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکیں’ کیونکہ بڑی شدت سے انہیں رسول اقدسﷺ سے ملنے کا اشتیاق تھا اور وہ آخرت کے سفر پر اطمینان دل سے روانہ ہوئے، اس طرح کہ ان کے کندھوں پر دنیا کا کوئی بوجھ نہ تھا’ البتہ آپ کے پاس نور’ ہدایت اور تقویٰ و اخلاص کی دولت تھی۔ جب آپ کے وصال کی خبر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو ملی تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، اور آپ نے شدید حزن و ملال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ”میری دلی تمنا ہے کہ عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ جیسے مجھے ساتھی ملیں تاکہ امور سلطنت میں ان سے مدد لے سکوں۔”

اللہ تعالٰی حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے راضی اور وہ اپنے اللہ سے راضی’ یہ بلاشبہ یکتائے روزگار، انمول موتی اور درس گاہ نبوت کے لائق وفائق طالب علم تھے۔


حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

۱۔ الاصابه مترجم ٦٠٣٦
۲۔ الاستيعاب ۲/ ۲۴۷
۳۔ اسد الغابة ۱/ ۲۹۳
۴۔ سیر اعلام النبلاء ۱/ ۸۶
ه۔ حياة الصحابه
فہرست دیکھئے
٦- قادة فتح العراق والجزيرة ۵۱۳
۷۔ الاعلام ۵/ ۲۶۴

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents