25. Hazrat Usama Bin Zaid رضی اللہ عنہ
حضرة اسامه بن زید رضی اللہ عنہ
اسامہ رضی اللہ عنہ کا باپ رسولﷺ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز تھا اور اسی طرح اسامہ بھی آپﷺ کو تجھ سے زیادہ عزیز تھا۔
(فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے سے خطاب)
ہجرت سے سات سال پہلے مکہ معظمہ میں رسول اکرمﷺ اور آپ کے صحابہ بھی رضی اللہ عنہم قریش کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے ہیں۔ تبلیغی میدان میں مسلسل آپ پر حزن و ملال، غم واندوہ اور مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں، اسی تلاطم خیز دور میں آپ کی حیات طیبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے، کسی نے آپ کو خوشخبری سنائی کہ ام ایمن کے گھر اللہ نے بیٹا عطا کیا ہے، یہ خبر سن کر آپ کے روئے انور پر بے انتہا خوشی کے آثار دکھائی دینے لگے، کیا آپ کو معلوم ہے یہ خوش بخت نومولود کون ہے؟ جس کی ولادت سے رسول اللہﷺ کو اس قدر خوشی ہوئی۔
“یہ نومولود اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔”
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو رسول اکرمﷺ کی اس بے انتہا خوشی پر تعجب نہ ہوا کیونکہ سبھی اس نومولود کے والدین کا حضورﷺ کے ساتھ قریبی تعلق جانتے تھے’ اُسامہ کی والدہ برکت نامی ایک حبشی عورت تھی، جو ام ایمن کے نام سے مشہور ہوئی اور رسول اکرمﷺ کی والدہ ماجدہ کی کنیز بھی رہ چکی تھی، انہیں یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ جب حضورﷺ کی والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو انہوں نے آنحضرتﷺ کو اپنی گود میں لے لیا اور آپ کی نگہداشت کی، آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ام ایمن میری ماں کی مانند ہے’
اور یہ میرے اہل بیت میں سے ہے۔
یہ تو ہے اس خوش نصیب نومولود کی والدہ محترمہ کا تعارف’ رہا اس کا باپ تو وہ محبوب خداﷺ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہے، نزول قرآن مجید سے پہلے آپ نے اسے
اپنا بیٹا قرار دیا تھا، حضر و سفر میں انہیں آپ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں راز دان رسولﷺ ہونے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی ولادت پر بھی مسلمان اتنے خوش ہوئے کہ کبھی کسی کی ولادت پر اتنے خوش نہیں ہوئے تھے، اس لئے کہ جس چیز سے نبی اکرمﷺ کو خوشی حاصل ہوتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے بھی وہ خوشی کا باعث بنتی۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسامہ کو لقب حِب النبی دے دیا، انہوں نے اس نومولود کو یہ لقب دینے میں کسی مبالغے سے کام نہیں لیا تھا، حقیقتاً رسول اکرمﷺ کو ان سے اتنا پیار تھا کہ سب مسلمان اس پہ رشک کناں تھے۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ حضورﷺ کے نواسے حضرت حسن بن فاطمتہ الزہراء کے ہم عمر تھے، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اپنے ناناﷺ کی طرح حسین و جمیل تھے لیکن اُسامہ اپنی حبشی والدہ ام ایمن کی مانند سیاہ رنگ اور چپٹے ناک والے تھے، لیکن رسول اکرمﷺ ان دونوں سے یکساں پیار کرتے تھے۔ شفقت بھرے انداز میں اسامہ رضی اللہ عنہ کو ایک ران پر بٹھا لیتے اور حسن رضی اللہ عنہ کو دوسری ران پر’ کبھی دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے اور یہ دعا کرتے۔
الہی! میں ان دونوں بچوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا لے۔
غرضیکہ اسامہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ آنحضرتﷺ کو بہت پیار تھا، ایک دفعہ اسامہ رضی اللہ عنہ دروازے کی دہلیز پر لڑکھڑا کر گر پڑے، جس سے پیشانی پر زخم آیا اور خون بہنے لگا’ نبی اکرمﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اشارہ کیا کہ اس کا خون صاف کر دیں، لیکن صدیقہ کائنات کسی مصروفیت کی وجہ سے اس طرف فوری توجہ نہ دے سکیں، نبیﷺ نے خود اپنے دست مبارک سے اس کا خون صاف کیا۔
جس طرح بچپن میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے آپ نے پیار کیا اسی طرح جوانی میں بھی ان کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قریشی سردار حکیم بن حزام نے ایک قیمتی لباس رسول ا اکرمﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیا’ جسے اس نے یمن سے پچاس دینار میں خریدا تھا اور یہ لباس شاہ یمن کے لئے بطور خاص تیار کیا گیا تھا، آپﷺ نے یہ تحفہ لینے سے انکار کر دیا، کیونکہ حکیم بن حزام ان دنوں مشرک تھا’ البتہ آپ نے اس سے وہ لباس قیمتاً خرید لیا’ یہ بہترین لباس آپ نے صرف ایک مرتبہ جمعے کے روز پہنا، پھر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو عطا کر دیا اور وہ یہ لباس پہن کر صبح و شام شاداں و فرحاں اپنے مہاجر و انصار نوجوان ساتھیوں کے پاس آیا کرتے تھے۔
جب أسامہ بن زید رضی اللہ عنہ جوان ہوئے تو عمدہ عادات اور اعلیٰ اخلاق سے متصف تھے، اس کے علاوہ حد درجہ کے ذہین، بہادر، دانشمند، پاکدامن، نرم خو اور پرہیز گار تھے’ ان اوصاف حمیدہ کی بنا پر وہ لوگوں کی نگاہ میں پسندیدہ شخصیت قرار دیئے گئے، غزوۂ احد میں اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے ہم عمر بچوں کے ہمراہ میدان جہاد کی طرف نکلے۔ ان میں بعض کو تو جہاد کے لئے قبول کر لیا گیا اور بعض کو بہت چھوٹی عمر کی بنا پر شامل جہاد نہ کیا گیا۔ ان میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی تھے، جب یہ واپس لوٹے تو زارو قطار رو رہے تھے کیونکہ انہیں رسول اکرمﷺ کے جھنڈے تلے راہ خدا میں جہاد کرنے کا موقع نہیں دیا گیا تھا۔
غزوہ خندق میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے ہم عمر نوجوانوں کے ہمراہ میدان کی طرف نکلے تو اپنے پنجوں کے بل اونچے ہو کر کہنے لگے کہ کہیں آج بھی نو عمری کی بنا پر جہاد میں شریک ہونے سے محروم نہ کر دیئے جائیں، ان کی یہ حالت دیکھ کر نبی اکرمﷺ بہت خوش ہوئے اور انہیں جہاد میں شریک ہونے کی اجازت دے دی’ جب حضرت اسامہ نے راہ خدا میں جہاد کے لئے تلوار اٹھائی، اس وقت ان کی عمر صرف پندرہ برس تھی۔
غزوہ حنین میں جب مسلمان شکست سے دوچار ہوئے تو اس نازک ترین موقعے پر أسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ، ابو سفیان بن حارث رضی اللہ عنہ اور دیگر چھ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم میدان کار زار میں ثابت قدم رہے، اس چھوٹے سے بہادر حبھے کی بنا پر رسول اکرمﷺ کے لئے یہ آسانی پیدا ہوئی کہ اللہ نے شکست کو فتح میں بدل دیا اور بھاگنے والے مسلمانوں کو ہزیمت سے بچا لیا۔
جنگ موتہ میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں جہاد کیا، اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم تھی، اپنی آنکھوں سے اپنے باپ کی شہادت کا منظر دیکھا لیکن حوصلہ نہ ہارا بلکہ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کفار سے نبرد آزما رہے، یہاں تک کہ یہ سپہ سالار بھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ پھر عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے لشکر اسلام کی قیادت سنبھالی، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد یہ بھی شہید ہو گئے تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جھنڈے تلے کفار سے نبرد آزمائی کا موقع آیا۔ انہوں نے ایسی جنگی حکمت عملی اختیار کی کہ جس سے یہ۔۔۔۔ لشکر اسلام کو روم کے مضبوط آہنی پنجے سے چھڑانے میں کامیاب ہو گئے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ اپنے شہید باپ کے جسد خاکی کو سرزمین شام میں اللہ کے سپرد کر کے ان ہی کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ طیبہ پہنچے۔
11ھ ہجری کو رسول اکرمﷺ نے رومیوں سے جنگ کرنے کے لئے لشکر اسلام کی تیاری کا حکم صادر فرمایا اور اس لشکر میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو عبید بن جراح رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ حضورﷺ نے اس لشکر کا امیر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ جبکہ ان کی عمر ابھی صرف بیس سال تھی، انہیں حکم دیا کہ علاقہ بلقاء اور قلعہ دار روم کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں، جو کہ بلاد روم کے غزہ نامی شہر کے قریب واقع ہے۔ یہ لو ہے۔ یہ لشکر ابھی تیاری میں مصروف تھا کہ رسول اکرمﷺ بیمار ہو گئے، جب مرض نے شدت اختیار کی تو لشکر اس صورت حال کو دیکھ کر روانہ ہوا۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
جب نبی اکرمﷺ پر بیماری کا شدید حملہ ہوا تو میں اور میرے چند ساتھی تیمار داری کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بیماری کی شدت کی بنا پر آپ بالکل خاموش تھے، آپ اپنا ہاتھ اوپر اٹھاتے پھر اسے مجھ پر رکھ دیتے’ میں سمجھ گیا کہ آپ میرے حق میں دعا کر رہے ہیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد حبیب کبریاﷺ اللہ کو پیارے ہو گئے’ اب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ نے خلیفہ منتخب ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں لشکر اسلام کو اس مشن پر روانہ کیا جس کا حکم رسول اکرمﷺ نے اپنی زندگی میں دیا تھا، لیکن انصار میں سے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ رائے تھی کہ لشکر کی روانگی میں کچھ تاخیر کر دی جائے تو بہتر ہو گا’ انہوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بات کریں اور ساتھ ہی یہ مشورہ دیا کہ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لشکر کی فوری روانگی پر مصر ہوں تو ہماری طرف سے انہیں یہ پیغام پہنچا دیں کہ ہمارا امیر کسی ایسے شخص کو بنایا جائے جو اسامہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ عمر رسیدہ اور تجربہ کار ہو، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانی انصار کا یہ پیغام سنا تو غضبناک ہو گئے اور غصے کی حالت میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اے ابن خطاب! کتنے افسوس کی بات ہے، رسول اللہﷺ نے تو اسامہ رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنایا اور تم مجھے مشورہ دیتے ہو کہ میں اسے معزول کر دوں۔ اللہ کی قسم! یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ لوگوں کے پاس واپس لوٹے تو انہوں دریافت کیا کہ خلیفتہ المسلمین نے کیا جواب دیا؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں تمہاری مائیں گم پائیں، جلدی سے اپنے مشن پر چل نکلو، میں نے آج تمہاری وجہ سے خلیفہ رسولﷺ کو ناراض کیا۔
جب یہ لشکر اپنے نوجوان قائد کے زیر کمان روانہ ہوا تو خلیفہ رسول سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ انہیں الوداع کہنے کے لئے تھوڑی دور تک پیدل ساتھ چلے جبکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
اے خلیفہ رسولﷺ: بخدایا’ تو آپ بھی گھوڑے پر سوار ہو جائیں ورنہ میں گھوڑے سے اترتا ہوں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
بخدا! نہ تو آپ نیچے اتریں گے اور نہ میں سوار ہوں گا۔۔۔
پھر فرمایا: کیا میرے لئے یہ اعزاز نہیں کہ کچھ عرصے کے لئے اپنے پاؤں اللہ کی راہ میں غبار آلود کر دوں؟
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو دعائیں دے کر جہاد پر روانہ کیا اور کہا:
رسول اللہﷺ نے تمہیں جو وصیت کی ہے اس کے مطابق سرگرم عمل رہنا، پھر سرگوشی کے انداز میں فرمایا:
اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو میری معاونت کے لئے میرے پاس رہنے دیں تو بہتر ہو گا۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی رائے سے اتفاق کیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو وہیں رہنے دیا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ لشکر کو لے کر چل پڑے اور اس مشن کی کامیابی کے لئے ہر وہ کوشش کی جس کا رسول اللہﷺ نے حکم دیا تھا، پہلے مرحلے پر لشکر اسلام نے سرزمین فلسطین میں بلقاء اور قلعہ دار روم کو فتح کیا، مسلمانوں کے دلوں سے روم کی سلطنت کا رعب و دبدبہ ختم کر دیا۔
دیار شام، مصر اور شمالی افریقہ کو فتح کر کے بحر ظلمات تک اسلامی سلطنت کا جھنڈا لہرا دیا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس مہم کو سر کر کے بڑی شان و شوکت سے اپنے والد گرامی کے تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہوئے اور کثیر مقدار میں مال غنیمت کے ساتھ بخیر و عافیت لوٹے’ یہاں تک کہ یہ بات لوگوں میں مشہور ہو گئی کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے بڑھ کر آج تک
کوئی لشکر اتنی کثرت سے مال غنیمت نہیں لایا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا مسلمانوں کے دلوں میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی قدر و منزلت بڑھتی گئی اور یہ عزت و وقار اور عظمت و شان رسول اکرمﷺ کے ساتھ وفاداری کے نتیجے میں آپکو میسر آئی۔
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لئے اپنے بیٹے سے زیادہ وظیفہ مقرر کیا تو بیٹے نے عرض کی: ابا جان! آپ نے اسامہ کے لئے چار ہزار اور
میرے لئے تین ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ہے۔ حالانکہ اس کے باپ کو وہ فضیلت حاصل نہ تھی جو آپ کو حاصل ہے اور اسامہ رضی اللہ عنہ کو وہ مقام حاصل نہیں جو میرا ہے۔ بیٹے کی یہ بات سن کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:
بیٹے! افسوس تجھے علم نہیں۔ سنو اس کا باپ تیرے باپ سے زیادہ رسول اکرمﷺ کو عزیز تھا اور یہ خود بھی آنحضرتﷺ کو تجھ سے زیادہ پیارا تھا۔
یہ جواب سن کر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خاموش ہو گئے اور اسی وظیفہ پر راضی ہو گئے، جو ان کے لئے مقرر کیا گیا تھا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جب بھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے ملتے تو خوشی سے پکار اٹھتے: خوش آمدید میرا سردار آ گیا’ جب کوئی ان سے اس والہانہ انداز پر تعجب کرتا تو فرماتے، تمہیں معلوم نہیں ایک موقعے پر رسول اکرمﷺ نے اُسامہ رضی اللہ عنہ کو میرا امیر بنایا تھا۔
ان قدسی نفوس پر اللہ رحمت کی برکھا برسائے، بلاشبہ رسول اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انسانیت کے اعلیٰ و اکمل اور افضل مقام پر فائز تھے، تاریخ نے کبھی ان جیسے قدسی انسانوں کو نہیں دیکھا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
۱۔ الاصابه ۱/ ۴۶
۲۔ الاستيعاب ۱/ ۳۴۔۳۶
٣- تقريب التهذيب ۱/ ۵۳
۴۔ تاریخ اسلام ذهبی ۲/ ۳۷۰۔۳۷۲
ه- الطبقات الكبرى ۴/ ۶۱۔۷۲
۶۔ العبر ۱/ ۹۵
۷۔ من ابطالنا الذين صنعوا التاريخ ۳۳۔۳۹
۸۔ قادة فتح الشام و مصر ۳۳/۔ ۵۱
۹۔ الاسلام و مراجعه ۲۸۱۔۲۸۲
حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”