Search
Sections
< All Topics
Print

29. Hazrat Jafar Bin Abi Talib (رضی اللہ عنہ)

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

 

میں نے جعفر کو جنت میں یوں دیکھا کہ اس کے دونوں بازو اور پاؤں خون میں لت پت تھے:

(فرمان نبویﷺ)

 

بنو عبد مناف میں پانچ اشخاص ایسے تھے جس کی شکل و صورت رسول اقدسﷺ سے ملتی جلتی تھی۔ ایسی مشابہت تھی کہ کمزور نظر والا اکثر و بیشتر مغالطہ کھا جاتا، بلاشبہ آپ ان پانچ اشخاص کے نام جاننا چاہیں گے’ جو رسول اقدسﷺ کے ساتھ حد درجہ مشابہت رکھتے تھے۔

لیجئے ہم آپ کو ان کا تعارف کرائے دیتے ہیں۔

۱۔ حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبد المطلب یہ رسولﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔

۲۔ حضرت قثم بن عباس بن عبد المطلب یہ بھی رسول اقدسﷺ کے چچا زاد بھائی تھے۔

۳۔ حضرت سائب بن عبید بن عبد یزید بن ہاشم یہ امام شافعی کے جد امجد ہیں۔

۴۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ رسول اقدسﷺ کے نواسے ان کی حضورﷺ کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت تھی۔

ه۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، یہ امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب کے بھائی تھے۔

اب ان کی زندگی کے چند اہم واقعات اور نمایاں پہلو پیش خدمت ہیں، ان کے باپ ابو طالب اپنی قوم قریش میں اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کے باوجود مالی اعتبار سے بہت کمزور اور کثیر العیال تھے، قریش ایک مرتبہ قحط سالی کا شکار ہو گئے، کھیتی باڑی تباہ ہو گئی’ مویشی ہلاک ہو گئے، نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ ہڈیاں پیس کر کھانے لگے’ ان دنوں

بنو ہاشم میں حضرت محمدﷺ اور آپ کے چچا عباس سب سے زیادہ خوشحال تھے۔

حضورﷺ نے حضرت عباس سے کہا۔ چچا جان آپ کا بھائی ابو طالب کثیر العیال ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ قحط سالی کی بنا پر فاقہ کشی پر مجبور ہیں، فقر و افلاس حد سے بڑھ چکا ہے، اس نازک صورت حال میں ہمیں ان کی بھر پور مدد کرنی چاہئے، آیئے ان کے پاس چلیں، ان کی ڈھاس بندھائیں، ایک بیٹے کی کفالت میں اپنے ذمے لیتا ہوں اور ایک کی کفالت کا ذمہ آپ اٹھائیں۔

حضرت عباس فرمانے لگے۔

آپ نے بہت اچھی تجویز دی ہے، ایک نیک اور اہم کام کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کے بعد دونوں ابو طالب کے پاس گئے، دونوں نے بیک زبان کہا ہم آپ کا کچھ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ اس خشک سالی و بدحالی کے پر آشوب دور میں آپ کے لئے کچھ آسانی پیدا ہو سکے اور آپ اس آفت سے بچ سکیں’ جس نے عام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ابو طالب نے جواب دیا بیٹے عقیل کے علاوہ میری اولاد میں سے جسے بھی آپ اپنی کفالت میں لینا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔

حضرت محمدﷺ نے حضرت علی کو اپنے ساتھ ملا لیا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنی کفالت میں لے لیا’ حضرت علی رضی اللہ عنہ سرور کونین حضرت محمدﷺ کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین حق اور رشد و ہدایت کا پیامبر بنا کر بھیجا، تو حضرت علی بچپن ہی میں آپ پر ایمان لے آئے۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی اسماء بنت عمیس پہلے مرحلے میں ہی مسلمانوں کے نورانی قافلے میں شامل ہو گئے تھے، دونوں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے اس وقت مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ ابھی رسول اقدسﷺ تعلیم و تربیت کے لئے دار ارقم میں تشریف فرما نہیں ہوئے تھے، یہ ہاشمی جوان اور ان کی جواں سال بیوی اسلام قبول کرنے کی پاداش میں قریش کی اذیتوں کا نشانہ بنے لیکن دونوں نے کمال صبر و تحمل کا مظاہر کیا’ کیونکہ دونوں یہ بات جانتے تھے کہ جنت کا راستہ خار دار اور نہایت ہی دشوار گزار ہے لیکن جو چیز ان کے دل پر سب سے زیادہ گراں گزرتی وہ یہ تھی کہ قریش اسلامی تعلیمات پہ عمل پیرا ہونے’ لذت عبادت سے شاد کام ہونے میں بہت بڑی رکاوٹ تھے، قریش نے ان کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اس تکلیف دہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اقدسﷺ سے سر زمین حبشہ کی جانب ہجرت کر جانے کی اجازت طلب کی۔ آپ نے انہیں بادل نخواستہ اجازت دے دی۔ ان کے ہمراہ بیوی اور دیگر چند صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، رسول اقدسﷺ پر یہ بات بہت گراں گزر رہی تھی کہ ان پاکیزہ نفوس ہستیوں کو آج اپنے وہ گھر چھوڑ جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو ان کے بچپن کی آماجگاہ اور عہد شباب کی جولانگاہ تھے، ان کا جرم صرف یہ تھا کہ انہوں نے بر سرعام یہ اعلان کر دیا تھا کہ ہمارا رب فقط اللہ ہے، آپ کو اس وقت یہ قوت حاصل نہ تھی کہ اپنے ان مظلوم صحابہ رضی اللہ عنہم کا بزور بازو دفاع کر سکیں اور قریش کی اذیت سے انہیں بچا سکیں۔


مهاجرین مکہ کا یہ پہلا قافلہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی قیادت میں حبشہ کی طرف روانہ ہوا اور وہاں جا کر حبشہ کے عادل اور نیک دل بادشاہ نجاشی کی پناہ میں رہائش پذیر ہو گئے، جب سے انہوں نے اسلام قبول کیا تھا، یہاں پہنچ کر پہلی مرتبہ امن و سکون کا سانس لیا اور عبادت الہی کی لذت و حلاوت سے شاد کام ہوئے۔ یہاں ان کی عبادت گزاری اور سعادت مندی کے پر امن ماحول کو مکدر کرنے والا کوئی نہ تھا۔


جب قریش کو یہ علم ہوا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت سر زمین حبشہ میں آباد ہو چکی ہے اور انہیں وہاں اپنے دین پر عمل کرنے اور اپنے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی ہے، قریش نے آپس میں مشورہ کیا کہ کسی بہانے ان مسلمانوں کو واپس بلایا جائے اور یہاں پہنچتے ہی یا تو انہیں قتل کر دیا جائے یا پھر درد ناک سزا دی جائے، یہ عجیب داستان ہم آپ کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی زبانی سناتے ہیں’ کیونکہ آپ اس واقعہ کی عینی شاہد ہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ہم جبشہ میں فروکش ہوئے تو ہمیں یہاں پر امن ماحول میسر آیا۔ ہم یہاں بے خوف و خطر اپنے دین پر عمل پیرا تھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہمہ تن مصروف ہو گئے، اب ہمیں یہاں نہ کوئی ایذا پہنچانے والا تھا اور نہ ہی کوئی برا بھلا کہنے والا تھا، جب قریش کو ہمارے اطمینان اور خوشحالی کا علم ہوا تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے دو نہایت چوکس، چالاک اور جفاکش نمائندے نجاشی کے پاس بھیجے، ان میں سے ایک عمرو بن عاص تھا اور دوسرا عبد اللہ بن ابی ربیعہ تھا، حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو متاثر کرنے کے لئے بہت سے قیمتی تحائف ان کے ہاتھ بھیجے۔ قریش نے ان دونوں کو یہ ہدایت کی کہ شاہ حبشہ کی ملاقات سے پہلے اس کی کابینہ کے ارکان سے مل لینا اور ہر ایک کی خدمت میں تحفہ بھی پیش کرنا۔


جب وہ دونوں حبشہ پہنچے تو پارلیمنٹ کے ہر ممبر سے ملاقات کی اور انہیں تحائف پیش کئے۔ ان میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہا جسے تحفہ نہ دیا گیا ہو۔

ہر درباری کو تحفہ پیش کرنے کے بعد اسے کہتے کہ آپ کے ملک میں ہمارے خاندان کے چند ایک دیوانے وارد ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنے آباؤ اجداد کا دین ترک کر دیا ہے اور اپنی قوم میں تفریق پیدا کر دی ہے، ہماری گزارش یہ ہے کہ جب ہم اس موضوع پر بادشاہ سے بات کریں تو آپ ہماری تائید کریں اور بادشاہ کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ انہیں ہمارے سپرد کر دے، ہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ بادشاہ سلامت ان کے دین کے متعلق ان میں سے کسی سے بھی سوال نہ کرے کیونکہ ہم ان کے متعلق زیادہ بہتر جانتے ہیں۔

سب نے کہا: بالکل درست’ ہم بادشاہ کو یہی مشورہ دیں گے کہ وہ انہیں غیر مشروط طور پر آپ کے سپرد کر دے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

عمرو بن عاص اور اس کے ساتھی کو سب سے زیادہ یہی خطرہ تھا کہ نجاشی کہیں ہم میں سے کسی مسلمان کو اپنے پاس بلا کر حقیقت حال دریافت نہ کر لے۔


قریش کے دونوں نمائندے نجاشی کے دربار پہنچے اور قیمتی تحائف اس کی خدمت

 

میں پیش کرنے کے بعد عرض کی۔

بادشاہ سلامت! ہم ملک عرب کے رہنے والے ہیں اور ایک درخواست لیکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں’ امید ہے آپ اسے شرف قبولیت بخشیں گے، عرض یہ ہے کہ ہماری قوم کے چند شرپسند عناصر راہ فرار اختیار کرتے ہوئے آپ کی سلطنت میں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ وہ ایک ایسے دین کے علمبردار ہیں جسے نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہی ہم’ ہمارے دین سے وہ منحرف ہو گئے اور آپ کے دین کو بھی قبول نہیں کیا، ہمیں آپ کے پاس سرداران قریش نے بھیجا ہے، اور یہ بھی قریش کے خاندان سے ہیں، ہمیں بھیجنے والوں میں ان کے باپ، چچا اور خاندان کے دیگر افراد بھی شامل ہیں، ان سب کا مطالبہ ہے۔ کہ ازراہ کرم ان سب کو ہمارے حوالے کر دیں، وہ خوب جانتے ہیں جو انہوں نے فتنہ برپا کر رکھا ہے، ان کی پوری بات نہایت اطمینان کے ساتھ سن کر نجاشی نے اپنے وزراء کی طرف دیکھا اور ان سے رائے طلب کی’ سب نے بیک زباں یہ کہا’ بادشاہ سلامت ہماری رائے کے مطابق یہ دونوں سچ کہتے ہیں، ان کی قوم زیادہ بہتر جانتی ہے وہ ان کی کاروائیوں سے بخوبی واقف ہیں، بہتر یہی ہے انہیں واپس لوٹا دیا جائے، وہ خود ہی ان سے نپٹ لیں گے۔ بادشاہ وزراء کی بات سن کر آگ بگولا ہو گیا اور گرجدار آواز میں کہا:

بخدا! میں اس وقت تک انہیں کسی کے سپرد نہیں کروں گا جب تک انہیں اپنے پاس بلا کر صحیح صورت حال معلوم نہیں کر لیتا، اگر صورت حال ایسی ہی ہوئی جو یہ بیان کرتے ہیں، تو میں اسی وقت انہیں ان کے سپرد کر دوں گا’ اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوا تو میں ان کی بھر پور مدد کروں گا’ جب تک وہ یہاں رہنا چاہیں گے، انہیں مکمل آزدای حاصل ہو گی، اور میری طرف سے ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے گی۔


حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، نجاشی نے ہمیں دربار میں طلب کیا’ ہم نے اس کے پاس جانے سے پہلے باہمی مشورہ کیا، بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ بادشاہ ملاقات کے دوران ہمارے دین کے متعلق ضرور پوچھے گا۔ اگر وہ یہ پوچھے تو ہمیں اپنے ایمان کے مطابق صحیح جواب دینا چاہئے، اور دوسرا فیصلہ ہم نے یہ کیا کہ ہماری طرف سے صرف جعفر بن ابی طالب بادشاہ سے بات کریں گے۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

ہم نجاشی کے پاس پہنچے تو وہاں بہت سے علماء جبہ و دستار پہنے مذہبی کتابیں کھولے بادشاہ کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے، ہم نے دیکھا، وہاں قریش کے دونوں نمائندے عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ موجود ہیں، جب محفل جم گئی تو نجاشی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا’

یہ کون سا دین ہے جسے تم نے اختیار کر رکھا ہے، اور اس کی وجہ سے اپنے آبائی دین کو آپ لوگوں نے ترک کر دیا ہے، نہ ہی تم نے میرا دین قبول کیا اور نہ ہی دیگر اقوام کے دین کو تسلیم کیا؟

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دو قدم آگے بڑھے اور فرمایا:

بادشاہ سلامت، ہم جاہل تھے، بتوں کے پجاری تھے، مردار کھاتے، بے حیائی کا ارتکاب کرتے، ظلم و تشدد سے کام لیتے، ہمسایہ سے بدسلوکی سے پیش آتے، ہم میں سے طاقت ور کمزور کو ہڑپ کر جاتا’ ہم ان جرائم میں ملوث زندگی بسر کر رہے تھے کہ اللہ تعالی نے ہمارے پاس ایک رسول بھیجا جس کے حسب و نسب’ صداقت و امانت اور پاکدامنی کو ہم جانتے تھے۔

اس نے ہمیں ایک اللہ کی طرف دعوت دی کہ ہم اس کی توحید کا اقرار کریں’ اسی کی عبادت کریں، بتوں کی عبادت سے کنارہ کشی اختیار کر لیں، نیز اس نے ہمیں سچ بولنے’ امانت ادا کرنے’ صلہ رحمی سے پیش آنے اور ہمسایوں سے حسن سلوک کا حکم دیا اور ساتھ ہی بے حیائی’ کذب بیانی’ یتیموں کا مال کھانے اور جملہ حرام چیزوں سے مکمل طور پر اجتناب کرنے کا حکم دیا۔

پاک دامن عورتوں پہ تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

ہمیں نماز قائم کرنے، زکوۃ ادا کرنے اور رمضان کے روزے رکھنے کا حکم دیا۔

ہم نے رسول اقدسﷺ کی صداقت کا اعتراف کیا، آپ پر ایمان لائے اور جو حکم بھی آپ نے دیا’ ہم نے سر تسلیم خم کیا، جو آپ نے ہمارے لئے حلال قرار دیا، ہم نے اسے حلال سمجھا اور جسے حرام قرار دیا اسے ہم نے حرام سمجھا۔

بادشاہ سلامت! ہماری اطاعت شعاری کا منظر دیکھ کر ہماری قوم کے افراد ہمارے دشمن بن گئے، ہمیں اذیت ناک سزائیں دی گئیں تاکہ ہم توحید سے برگشتہ ہو کر دوبارہ شرک کی دلدل میں پھنس جائیں، جب انہوں نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی’ ہم پہ عرصہ حیات تنگ کر دیا تو ہم عافیت کی تلاش میں آپ کے اس ملک کی طرف نکل آئے، یہاں آ کر اطمینان کا سانس لیا’ ہم امید رکھتے ہیں کہ آپ کے ہوتے ہوئے ہم پر کوئی ظلم و ستم نہیں ہو گا۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

نجاشی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور کہنے لگا کیا آپ کے پاس کوئی ایسا پیغام ہے جو اللہ تعالی نے رسول مقدسﷺ پر نازل کیا ہو؟
کہا: ہاں! اس نے مطالبہ کیا مجھے یہ کلام پڑھ کر سناؤ۔

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی:

*كهيعص۝ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا۝ إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيَّا۝ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّاسُ شَيْبًا وَلَمْ اكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا۝*

“ک ‘ہ’ی’ ع’ ص: ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی، جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا’ اس نے عرض کیا: اے پروردگار میری ہڈیاں تک گھل گئی ہیں اور سر بڑھاپے سے چمک اٹھا ہے’ اے پروردگار میں کبھی تجھ سے دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔

(سورۃ مریم: ۱تا۴)

حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات انتہائی سوز و گداز سے پڑھیں، نجاشی پر ان آیات کا اتنا اثر ہوا کہ وہ زار و قطار رونے لگے ان کے آگے کھلی ہوئی کتابیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں۔

مجلس پر سناٹا چھا گیا، نجاشی کے آنسو خشک ہوئے تو بولا’ یہ پیغام جو رسول اقدسﷺ لے کر آئے ہیں اور وہ پیغام جو حضرت عیسی علیہ السلام نے سنایا تھا، بالکل اس روشنی کی مانند ہے جو ایک طاقچے سے پھوٹ رہی ہو۔

پھر قریش کے دونوں نمائندوں کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا’ تم میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ’ اللہ کی قسم! میں قطعاً انہیں تمہارے سپرد نہیں کروں گا’ یہ جب تک یہاں چاہیں میری ملک کی آزاد فضاؤں میں زندگی بسر کریں، میں ان کی ہر ممکن خدمت بجالاؤں گا۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں۔

جب ہم کامیاب و کامران ہو کر نجاشی کے دربار سے نکلے، تو عمرو بن عاص ہمیں مرعوب کرنے کے لئے دھمکی کے انداز میں کہنے لگا’ کل میں نجاشی کے پاس آؤں گا اور ان مسلمانوں کے متعلق اسے ایک ایسی بات بتاؤں گا جس سے اس کے غیظ و غضب کی کوئی انتہاء نہ رہے گی اور دیکھنا کہ وہ انہیں یہاں سے کس طرح بھگاتا ہے۔

اس کے ساتھی عبد اللہ بن ابی ربیعہ نے کہا ایسے نہ کرنا’ یہ ہمارے رشتہ دار ہیں’ کیا ہوا اگر آج انہوں نے ہماری مخالفت کی۔

عمرو نے کہا: رہنے دیجئے ان سے اتنی ہمدردی کو۔۔۔

بخدا میں نجاشی کو ان کے متعلق ایسی ایسی باتیں بتاؤں گا کہ وہ انہیں شام سے پہلے ہی اپنے ملک سے نکل جانے کا حکم صادر کر دے گا، بخدا میں اسے بتاؤں گا کہ یہ لوگ عیسی بن مریم کو انسان سمجھتے ہیں۔


جب دوسرا دن ہوا’ تو عمرو بن عاص نجاشی کے دربار میں حاضر ہو کر کہنے لگا۔

بادشاہ سلامت! یہ لوگ جنہیں آپ نے یہاں پناہ دے رکھی ہے، عیسی علیہ السلام کے متعلق عجیب و غریب نظریہ رکھتے ہیں، ان کو بلائیں اور پوچھیں کہ عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق ان کا کیا نظریہ ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:

دوسرے روز جب ہمیں بلایا گیا تو ہم گھبرا گئے، آپس میں مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی علیہ السلام کے متعلق ہم سے سوال کیا تو کیا جواب دیں گے، ہم سب نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس سلسلہ میں وہی کچھ کہیں گے، جو اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے، اور اس موقف سے ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں ہوں گے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے بیان کیا ہے۔

اس حق گوئی کی بنا پر ہم پر جو افتاد بھی پڑتی ہے پڑے’ کوئی پروا نہیں، اس بار بھی جب ہم نجاشی کے پاس پہنچے تو درباری علماء پہلے کی طرح اس کے دائیں بائیں باادب انداز میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں قریش کے دونوں نمائندے عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ بھی موجود تھے۔

نجاشی نے ہمیں دیکھتے ہی فوراً یہ سوال کیا، مجھے یہ بتاؤ عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟

حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہا نے کہا، ہماری عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق وہ رائے ہے جو ہمیں نبی مکرم حضرت محمدﷺ نے بتائی ہے۔

نجاشی نے پوچھا: وہ کیا؟ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بتایا:

انہوں نے ہمیں بتایا ہے، کو عیسی علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، روح اللہ اور خدا تعالیٰ کا وہ کلمہ ہیں جو پاکدامن مریم کی طرف القاء کیا گیا’ نجاشی نے جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی مکمل بات سنی تو جوش سے زمین پر ہاتھ مار کر کہنے لگا۔

اللہ کی قسم! بالکل عیسی علیہ السلام وہی کچھ ہیں، جو آپ کے نبی حضرت محمدﷺ نے بیان فرمایا۔

درباری علماء نے جب یہ صورت حال دیکھی تو حیران و ششدر رہ گئے اور پشیمانی کے عالم میں اپنی ناک کھجلانے لگے، نجاشی نے ان کی خفت و پشیمانی کو بھانپ کر کہا’ سن لو یہ میرا فیصلہ ہے، یہ مسلمان بالکل سچے ہیں، آج سے میرے یہ قابل قدر مہمان ہیں۔

پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر کہا:

آج سے تم ہمارے سرکاری مہمان ہو جو تمہیں گالی دے گا نقصان اٹھائے گا’ جو تمہیں کوئی گزند پہنچائے گا اسے سخت ترین سزا دی جائے گی۔

اللہ کی قسم! مجھے تم سونے چاندی کے خزانوں سے بھی زیادہ عزیز ہو۔ پھر نجاشی قریش کے دونوں نمائندوں کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
جاؤ میری آنکھوں سے دور ہو جاؤ۔

درباریوں سے کہا ان کے تحائف واپس کر دو، ہمیں ان تحائف کی کوئی ضرورت نہیں۔

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ابی ربیعہ بڑے ذلیل و خوار اور بے آبرو ہو کر نجاشی کے دربار سے نکلے۔

اور ہمیں ہر طرح کی سہولت میسر آئی، نہایت وقار اور عزت سے زندگی بسر ہونے لگی۔


حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ سر زمین حبشہ میں بڑی عزت، وقار، اطمینان اور سکون سے دس سال گزارے۔

۷ھ ہجری کو دونوں نے حبشہ کو خیر باد کہا اور اپنے دیگر مسلمان ساتھیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ کا رخ کیا، جب یہ برگزیدہ افراد پر مشتمل قافلہ وہاں پہنچا تو رسول اقدسﷺ خیبر فتح کر کے لوٹ رہے تھے، آپ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

فرمانے لگے: آج معلوم نہیں دونوں میں سے زیادہ مجھے کس چیز کی خوشی ہے، فتح خیبر کی یا جعفر رضی اللہ عنہ کے آنے کی؟

عام مسلمانوں کی خوشی بھی رسول اقدسﷺ سے کچھ کم نہ تھی، مساکین تو خاص طور پر بہت خوش تھے کیونکہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ ان کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، اور ان سے ہمیشہ خندہ پیشانی اور حسن سلوک سے پیش آتے، یہاں تک کہ ان کا لقب ہی ابوالمساکین پڑ گیا تھا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:

“ہم ایسے مساکین کے حق میں حضرت جعفر بن ابی طالب لوگوں سے زیادہ فیاض تھے۔ یہ ہمیں اپنے گھر لے جاتے، کھانا کھلاتے، اگر سالن ختم ہو جاتا تو گھی کا برتن ہمارے سامنے رکھ دیتے اور ہم اپنی منشاء کے مطابق گھی استعمال کرتے۔”


ابھی حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں قیام پذیر ہوئے زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ ۷ ہجری کے اوائل میں رسول اقدسﷺ نے سرزمین شام میں رومیوں کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر مقرر کیا اور زید بن حارثہ کو امیر لشکر مقرر کیا اور ارشاد فرمایا:

“اگر اس جنگ میں زید بن حارثہ شہید ہو جائے تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کر دینا اور اگر وہ شہید ہو جائے تو عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو امیر بنا لینا اور اگر عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہو جائے تو جسے چاہیں اپنا امیر بنا لیں۔

جب مسلمان “موتہ” نامی بستی میں پہنچے’ یہ بستی شام کے بالائی علاقے اردن میں واقع تھی، تو مسلمان کیا دیکھتے ہیں کہ رومی ایک لاکھ فوج لے کر مقابلے کے لئے وہاں پڑاؤ کئے ہوئے ہیں، اور تقریباً ایک لاکھ سر زمین عرب کے لخم، جذام اور قضاعہ قبائل کے عیسائی ان کی مدد کے لئے میدان کار زار میں موجود ہیں۔

ادھر لشکر اسلام صرف تین ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا۔

جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں، جنگ شروع ہوئی، زور کارن پڑا تو سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پہلے ہی مرحلے میں شہید ہو کر گر پڑے، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تیزی سے آگے بڑھے اور اس کی برق رفتار گھوڑی کے پاؤں اپنی تلوار سے کاٹ دیئے تاکہ دشمن اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے، جھنڈا ہاتھ میں لیا اور شمشیر زنی کرتے ہوئے رومی فوج کی صفوں میں جا گھسے انہیں تہہ تیغ کرتے ہوئے یہ شعر گنگنا رہے تھے۔

یا حبذا الجنة و اقْتَرابُهَا
طیبة و بارد شَرابُها
والروم رُومٌ قَدْ دنا عَذَابُها
كافِرَةٌ بَعِيدَة أَنْسَابُهَا
عَلَى إِذْ لاقيتها ضرابها
واه واه جنت اور اس کا قرب
صاف ستھرا اور ٹھنڈا مشروب
رومیوں کے لئے عذاب آ چکا ہے
یہ کافر حسب و نسب کے اعتبار سے دور از شرافت

مجھ پر فرض ہے کہ جب ان سے ملوں تو ان کی گردنیں اڑاتا چلا جاؤں۔ آپ دشمن کی صفوں کو اپنی تیز دھار تلوار سے چیرتے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ایک شقی القلب دشمن کے وار سے آپ کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو۔۔۔۔ لشکر اسلام کا جھنڈا فورا بائیں ہاتھ میں تھام لیا۔

تھوڑی ہی دیر بعد آپ کا بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا، تو آپ نے جھنڈا دونوں بازوؤں میں لے کر اپنے سینے سے چمٹا لیا، لیکن تھوڑی ہی دیر بعد دشمن ایک کاری ضرب سے آپ کو گرانے میں کامیاب ہو گیا

تو حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا، انہوں نے بھی دشمن کے مقابلے میں اپنی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا، بالآخر یہ بھی جام شہادت نوش فرما گئے۔


رسول اقدسﷺ کو جب لشکر اسلام کے تینوں جفاکش سپہ سالاروں کے یکے بعد دیگرے شہید ہو جانے کی خبر ملی تو بڑے افسردہ ہوئے، آپ فوراً تعزیت کے لئے اپنے چچا زاد جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، وہاں آپ نے عجیب منظر دیکھا کہ ان کی بیوی اسماء بنت عمیس اپنے خاوند کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہے، کھانا تیار کیا ہوا ہے، بچوں کو نہلا دھلا کر انہیں اجلے کپڑے پہنا رکھے ہیں۔

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اقدسﷺ ہمارے گھر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ اترا ہوا تھا، حزن و ملال کے آثار چہرے پر نمایاں تھے، آپ کی یہ حالت دیکھ کر میرے دل پر خوف طاری ہو گیا، میں نے اپنے خاوند کے متعلق آپ سے پوچھا۔

آپ نے فرمایا: جعفر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو میرے پاس لاؤ’ میں نے انہیں آواز دی تو وہ دوڑے ہوئے شاداں و فرحاں حضورﷺ کی گود میں آ کر بیٹھ گئے، آپ پیار سے انہیں چومنے لگے۔ اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

میں نے عرض کیا، یا رسول اللهﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان، آپ رو کیوں رہے ہیں’ کیا آپ کو جعفر رضی اللہ عنہ اور ان کے دونوں سپہ سالار ساتھیوں کے متعلق کوئی خبر ملی ہے؟

فرمایا: ہاں۔ وہ آج شہید کر دیئے گئے ہیں، جب ان معصوم بچوں نے دیکھا کہ ان کی ماں زار و قطار رو رہی ہے تو ان کے چہروں سے مسکراہٹ جاتی رہی اور بے حس و حرکت ایسے کھڑے ہو گئے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔

رسول اکرمﷺ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تشریف لے گئے اور ہمارے لئے یہ دعا کی:

الہی! جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد کی مدد فرما۔
الہی! جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر کی نگہبانی فرما۔

پھر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ: میں نے جعفر رضی اللہ عنہ کو جنت میں اس حالت میں دیکھا کہ اس کے دونوں بازو خون آلود ہیں اور پاؤں بھی خون سے رنگین ہو چکے ہیں۔


حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

۱- الإصابة ۱/ ۲۳۷
۲- صفة الصفوة ۲۰۵/۱
٣- حلية الأولياء ۱/ ۱۴
۴۔ طبقات ابن سعد ۴/ ۲۲
۵۔ معجم البلدان
(واقعہ جنگ موتہ)
۶- تهذيب التهذيب ۲/ ۹۸
۷- البداية والنہاية ۲۴۱/۴
۸۔ السيرة النبوية ابن هشام ۱/ ۳۵۷
۹- الدرر في اختصار المغازی والسیر ۲۲۲/۵۰
١٠- حياة الصحابه
فہرست ملاحظہ کیجئے
۱۱۔ الكامل لابن اثیر ۲/ ۳۰۔۹۶

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents