Search
Sections
< All Topics
Print

37. Hazrat Abu Ul Aasss Bin Al Rabee(رضی اللہ عنہ)

حضرت ابو العاص بن الربيع رضی اللہ عنہ

 

ابو العاص رضی اللہ عنہ نے میرے ساتھ بات کی تو سچ بولا, میرے ساتھ وعدہ کیا تو پورا کیا۔ فرمان نبویﷺ.

 

حضرت ابو العاص بن الربیع عبشمی قرشی جاذب نظر، خوبصورت، کڑیل جوان تھے۔ ناز و نعمت میں پلے اور خاندانی وجاہت نے انہیں ممتاز بنا دیا تھا۔ غیرت، خودداری، جوانمردی، وفا شعاری جیسی آباء واجداد سے ورثے میں ملنے والی خوبیوں کی بنا پر عرب معاشرے میں انہیں بطور مثال پیش کیا جاتا تھا۔


حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کو تجارت سے والہانہ لگاؤ قریش سے ورثہ میں ملا تھا’ ان کے تجارتی قافلے مکہ اور شام کے درمیان رواں دواں رہتے۔ ان کا تجارتی قافلہ ایک سو اونٹنیوں اور دو سو نوکروں پر مشتمل تھا۔ ان کی کاروباری مہارت، صداقت اور امانت کی بنا پر لوگ بے دھڑک اپنے مال ان کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔


ان کی خالہ حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا ان کے ساتھ اولاد کی طرح محبت و شفقت سے پیش آتی تھیں۔ رسول اقدس حضرت محمدﷺ بھی ان سے محبت و شفقت سے پیش آتے۔


وقت تیزی سے گذرتا گیا، یہاں تک کہ نبی اکرمﷺ کی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا جوان ہو گئیں، تو سرداران مکہ کے بیٹوں کے دل میں انہیں حبالہ عقد میں لینے کی خواہش

انگڑائیاں لینے لگی۔ بھلا یہ خواہش کیوں نہ پیدا ہوتی، جبکہ یہ قریش کی بیٹیوں میں سب سے زیادہ ممتاز اور بے شمار خوبیوں سے متصف تھیں، لیکن انہیں اپنے مقصد میں کامیابی کیسے حاصل ہو؟ اس لئے کہ مکہ کے ایک ابھرتے ہوئے جوان ان کی خالہ کے بیٹے ابو العاص بن الربیع آڑے آچکے ہیں۔


حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ابو العاص رضی اللہ عنہ سے شادی کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ فاران کی چوٹیوں پر نور الہی جلوہ گر ہوا اور اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے پیارے محمدﷺ کو نبوت کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کر دیا۔ اور حکم دیا کہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے سامنے رشد و ہدایت کی دعوت پیش کریں۔ عورتوں میں سب سے پہلے آپ کی بیوی حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا اور آپ کی بیٹیاں زینب رضی اللہ عنہا، رقیہ رضی اللہ عنہا، ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ پر ایمان لائیں۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ابھی بہت چھوٹی تھیں۔

علاوہ ازیں آپ کے داماد ابو العاص نے اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑنا ناپسند گردانا اور دین اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حالانکہ انہیں اپنی بیوی کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔


جب رسول اللہﷺ اور قریش کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، تو قریش ایک دوسرے سے کہنے لگے:

تمہارا بیڑا غرق۔۔۔ تم نے تو اپنے بیٹوں کی محمد(ﷺ) کی بیٹیوں سے شادیاں کر کے اس کے غموں کا بوجھ اپنے اوپر لاد رکھا ہے، اگر تم اس کی بیٹیاں اس کے گھر پہنچا دو تو وہ آن واحد میں تمہارے سامنے سرنگوں ہو جائے گا۔

سب نے مل کر کہا: یہ تجویز بہت خوب ہے۔ بعد ازاں وہ ابو العاص رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے: اپنی بیوی کو طلاق دے دو اور اسے اس کے باپ کے گھر واپس لوٹا دو، ہم تمہاری شادی قریش کی ایسی دوشیزہ کے ساتھ کر دیں گے جس کی طرف تم اشارہ کرو گے۔

اس نے کہا: بخدا! ایسا نہیں ہو سکتا میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دوں گا میں اپنی بیوی کے مقابلے میں دنیا کی تمام عورتوں کو ہیچ سمجھتا ہوں۔ صورت حال یہ تھی کہ اس سے پہلے رسول اللہﷺ کی دو بیٹیوں حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی گئی تھی۔ ان کے واپس گھر آنے پر رسول اقدسﷺ خوش ہوئے اور اطمینان کا سانس لیا، آپ کی دلی خواہش تھی کہ ابو العاص بھی میری بیٹی زینب کو طلاق دے دے، لیکن آپ اپنی اس خواہش کو بزور بازد پورا نہیں کر سکتے تھے اور ان دنوں مومن عورت کا مشرک مرد سے نکاح کی حرمت کا حکم بھی نازل نہیں ہوا تھا۔


جب رسول اللہﷺ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اور وہاں آپﷺ کو استحکام نصیب ہوا تو قریش آپ سے نبرد آزما ہونے کے لئے مقام بدر پہنچ گئے انہوں نے ابو العاص کو بھی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کیا۔

حالانکہ وہ مسلمانوں سے لڑائی کرنے پر آمادہ نہ تھا اور نہ ہی مسلمانوں کے بالمقابل آنے میں اسے کوئی دلچسپی تھی، لیکن اپنی قوم میں امتیازی حیثیت کی بنا پر مجبوراً قریش کے ساتھ بدر کی طرف جانا پڑا۔

غزوة بدر میں مشرکین مکہ کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بڑے بڑے سرکشوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ کچھ لوگ قتل کر دیئے گئے، بعض کو گرفتار کر لیا گیا اور ان میں سے ایک گروہ بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔ قیدیوں میں حضرت زینب بنت محمدﷺ کا خاوند ابو العاص بھی تھا۔


نبی اکرمﷺ نے قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے حسب مراتب ایک ہزار سے لے کر چار ہزار درہم تک فدیہ مقرر کر دیا۔ قیدیوں کو آزاد کرانے کے لئے فدیہ کی رقم لے کر قاصدوں کی مدینہ منورہ آمدورفت شروع ہو گئی۔

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند کو آزاد کرانے کے لئے ایک شخص کو فدیہ کی رقم دے کر مدینہ منورہ بھیجا۔ فدیہ کے مال میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنا وہ ہار بھی شامل کر دیا جو ان کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجتہ الکبری نے انہیں شادی کے موقع پر دیا تھا۔ جب یہ ہار رسول اقدسﷺ نے دیکھا تو غم و اندوہ سے آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور دل پر رقت طاری ہو گئی۔ پھر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:

زینب رضی اللہ عنہا نے ابو العاص کو چھڑانے کے لئے یہ مال بطور فدیہ بھیجا ہے، اگر ہو سکے تو اس کے قیدی کو آزاد کر دو اور اس کا مال واپس لوٹا دو۔

سب نے بیک زبان کہا: یا رسول اللہﷺ! ہم ویسے ہی کریں گے جس سے آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو اطمینان حاصل ہو۔


نبیﷺ نے ابو العاص کو قید سے آزاد کرنے سے پہلے یہ شرط لگا دی کہ مکہ جاتے ہی بلا تاخیر زینب کو مدینہ بھیج دے۔

ابو العاص نے وعدے کے مطابق اپنی بیوی حضرت زینب کو مدینہ روانہ ہونے کے لئے کہا اور یہ انہیں بتایا کہ مکہ سے کچھ فاصلے پر آپ کے والد مکرم کے بھیجے ہوئے قاصد انتظار کر رہے ہوں گے، ان کے لئے زادراہ اور سواری کا انتظام بھی کر دیا اور اپنے بھائی عمرو بن ربیع کو کہا کہ ان کے ہمراہ جائے اور قاصدوں کے سپرد کر آئے۔


عمرو بن ربیع نے اپنی کمان کندھے پر لٹکائی اور ترکش ہاتھ میں لی، حضرت زینب کو ہودج میں بٹھایا اور دن کے وقت قریش کی نظروں کے سامنے علی الاعلان مکہ سے روانہ ہوئے، قریش یہ منظر دیکھ کر بھڑک اٹھے، اور ان کا پیچھا کیا، ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ انہیں جا لیا، حضرت زینب کو دھمکیاں دینے لگے۔

یہ صورت حال دیکھ کر عمرو بن ربیع نے اپنی ترکش سے تیر نکال کر کمان میں رکھا اور بولا: بخدا! جو شخص بھی میرے قریب آئے گا میں اس کی گردن میں تیر ماروں گا۔ یہ بڑے تیر انداز تھے ان کا کوئی نشانہ خالی نہیں جاتا تھا۔

صورت حال کو بھانپتے ہوئے ابو سفیان بن حرب سامنے آئے اور پیار بھرے لہجے میں کہنے لگے! بیٹا! اپنا تیر روکو ہم تم سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بات سن کر اس نے تیر روک لیا۔ ابو سفیان نے اس سے کہا تم نے یہ اچھا نہیں کیا۔ زینب کو تم ہمارے آنکھوں کے سامنے علانیہ لئے جا رہے ہو۔ عرب غزوہ بدر میں پیش آنے والی رسوائی اور اس کے باپ کے ہاتھوں لگے چرکوں کو ابھی بھولے نہیں۔

اگر تم اس طرح علانیہ اس کی بیٹی کو یہاں سے لے جاؤ گے تو عرب ہمیں بزدلی’ ذلت و رسوائی کا طعنہ دیں گے، میری بات مانو’ اسے ابھی واپس لے جاؤ’ اسے اپنے خاوند کے گھر کچھ دن رہنے دو۔ جب لوگوں کو یقین ہو جائے گا کہ ہم نے اسے واپس لوٹا لیا ہے تو موقع پا کر چپکے سے اسے لے جانا اور باپ کے پاس چھوڑ آنا۔ ہمیں اسے یہاں روکنے
میں کوئی دلچسپی نہیں۔

عمرو بن ربیع نے ابو سفیان کی یہ بات مان لی اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو واپس مکہ لوٹا کر لے گیا۔

چند دنوں کے بعد رات کے وقت حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو اپنے ہمراہ لیا اور بھائی کی تلقین کے مطابق رسول اقدسﷺ کے قاصدوں کے حوالے کر آیا۔


ابو العاص اپنی بیوی کی جدائی کے بعد ایک مدت تک مکہ میں اکیلا رہا، فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے تجارتی سلسلہ میں شام روانہ ہوا جب مکہ کی جانب واپس لوٹا تو اس کے ہمراہ سو اونٹ اور ایک سو ستر افراد پر مشتمل تجارتی قافلہ تھا، یہ قافلہ جب مدینہ کے قریب پہنچا تو مجاہدین نے اونٹ اپنے قبضے میں لے لئے اور اس کے آدمیوں کو گرفتار کر لیا، لیکن ابو العاص ان کے ہاتھ نہ لگا اور وہ آنکھ بچا کر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔

جب رات کی تاریکی چھا گئی تو ابو العاص اندھیرے سے فائدہ اٹھاتا ہوا دبے پاؤں مدینہ میں داخل ہوا اور اپنی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے پناہ طلب کی تو انہوں نے پناہ دے دی۔


جب رسول اللهﷺ نماز جمعہ کے لئے نکلے اور نماز پڑھانے کے لئے محراب میں کھڑے ہوئے، تکبیر تحریمہ کہی، لوگوں نے بھی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز کے لئے نیت باندھ

 لی, تو پیچھے عورتوں کی صف سے حضرت زینب نے بآواز بلند پکار کر کہا: لوگو’ میں زینب بنت محمدﷺ ہوں۔ میں نے ابو العاص کو پناہ دی ہے تم بھی اسے پناہ دے دو۔

جب نبی اکرمﷺ نے سلام پھیرا تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تم نے وہ بات سنی ہے جو میں نے سنی ہے؟ سب نے کہا ہاں یا رسول اللہﷺ! آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! مجھے پہلے اس واقعہ کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ میں نے ابھی یہ بات سنی ہے، مسلمانوں میں سے ایک ادنی شخص بھی کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔

پھر آپ گھر گئے اور اپنی بیٹی سے کہا: ابو العاص کی عزت کرنا، لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے۔ کہ تم اس کے لئے حلال نہیں ہو۔ پھر آپ نے ان لوگوں کو بلایا جنہوں نے اس کے اونٹ پکڑے تھے اور آدمیوں کو گرفتار کیا تھا۔ ان سے کہا: دیکھو جیسا کہ تم جانتے ہو کہ یہ شخص ہم میں سے ہے۔ تم نے اس کا مال اپنے قبضے میں لے لیا۔ میری خواہش ہے کہ تم اس پر احسان کرتے ہوئے اس کا مال واپس لوٹا دو اور اگر تم لوٹانا نہیں چاہتے تو یہ مال غنیمت ہے، اسے روکنے کا بھی تمہیں پورا پورا حق ہے۔

سب نے بیک زبان کہا: یا رسول اللہﷺ! ہم بخوشی اس کا مال واپس لوٹانے کے لئے تیار ہیں۔

ابو العاص! جب اپنا مال وصول کرنے کے لئے آیا تو مجاہدین نے کہا: ابو العاص! تم قریش کے ایک معزز فرد ہو اور رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے اور داماد ہو، اگر تم مسلمان ہو جاؤ تو ہم تمہارا سارا مال داگذار کر دیتے ہیں تم اہل مکہ کے مال سے خوب فائدہ اٹھاؤ اور ہمارے ساتھ مدینہ میں رہو۔ یہ بات سن کر اس نے کہا: کیا میں اپنے نئے دین کا آغاز دھوکے سے کروں، ایسا نہیں ہو سکتا۔


ابو العاص! مال سے لدے ہوئے اپنے اونٹ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گیا، منزل مقصود پر پہنچ کر ہر ایک کو اس کا حق ادا کیا، پھر فرمایا:

اے خاندان قریش کیا کسی کا کوئی مال میرے پاس ہے کہ ابھی اس نے مجھ سے وصول نہ کیا ہو؟

سب نے کہا: نہیں، تم سلامت رہو ہم نے تمہیں وفادار شریف النفس اور دیانتدار پایا ہے۔

پھر ابو العاص نے فرمایا: سن لو! میں نے تمہارے حقوق پورے کر دیئے۔ اور اب تمہارے سامنے میں اعلان کرتا ہوں۔ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ

“میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔”

اللہ کی قسم! حضرت محمدﷺ کے پاس مدینہ میں اسلام قبول کرنے سے صرف اس چیز نے روکا، مجھے اس بات کا اندیشہ تھا کہ تم یہ خیال کرو گے کہ میں نے تمہارا مال کھانے کے لئے اسلام قبول کیا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے مجھے مال تمہارے سپرد کر دینے کی توفیق دی اور میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی تو میں اب اسلام قبول کرتا ہوں۔

پھر یہ روانہ ہوئے اور رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے آپﷺ بڑی شفقت سے پیش آئے۔ اور بیوی ان کے حوالے کر دی۔ آپﷺ ان کے بارے میں فرمایا کرتے تھے۔

ابو العاص نے مجھ سے بات کی تو سچ بولا، مجھ سے وعدہ کیا تو پورا کیا۔


حضرت ابو العاص بن الربیع کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

ا۔ سیر اعلام النبلاء ۱/ ۲۳۹
۲۔ اسد الغابة ۶/ ۱۸۵
۳۔ انساب الاشراف ۳۹۷
۴۔ الاصابة ۴/ ۱۲۱
۵۔ الاستيعاب ۱۲۵/۴
۶- السيرة النبوية لابن هشام ۲/ ۳۰۶
۷- البدايه والنهايه ۳۵۴/۶
۸- حياة الصحابه
چوتھی جلد کی فہرست دیکھئے

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents