28. Hazrat Abdul Rehmaan Bin ‘Awf (رضی اللہ عنہ)
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ
جو مال تونے راہ خدا میں خرچ کیا اس میں اللہ تعالٰی برکت عطا کرے اور جو مال اپنے پاس رکھا اس میں بھی برکت عنایت کرے:
(دعائے رسول اکرمﷺ)
ان آٹھ خوش نصیب صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنہیں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
ان دس جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنہیں دنیا میں جنت کی بشارت دی گئی۔
ان چھ ذیشان صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جنہیں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ منتخب کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔
ان جید علماء صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایک جسے رسول اقدسﷺ کی حیات طیبہ میں فتویٰ جاری کرنے کی اجازت تھی۔
زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبد عمرو تھا’ جب اسلام قبول کیا تو رسول اقدسﷺ نے ان کا نام عبدالرحمان رکھا۔ جو بعد میں عبدالرحمان بن عوف کے نام سے مشہور ہوئے۔
اللہ تعالیٰ ان سے راضی اور یہ اپنے اللہ سے راضی۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے رسول اقدسﷺ کے دار ارقم میں بیٹھ کر تعلیم و تربیت کا آغاز کرنے سے پہلے اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے دو روز بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسلام کی راہ میں وہ تمام مصیبتیں برداشت کیں جو صف اول کے مسلمانوں نے جھیلی تھیں، لیکن آپ نے کمال صبر و تحمل سے کام لیا…. آپ راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہے۔
آپ نے دین کی حفاظت کے لئے صف اول کے مسلمانوں کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کا سفر اختیار کیا۔
جب کفار کی جانب سے پہنچنے والی تکالیف کی کوئی انتہا نہ رہی’ تو اللہ تعالیٰ نے رسول اقدسﷺ اور آپ کے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم کو مدینہ طیبہ ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی تو یہ ان عالی مقام مہاجر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سر فہرست تھے’ جو سوئے مدینہ دیوانہ وار چلے’ جب رسول اقدسﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کی فضا قائم کی’ تو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے مابین رشتہ اخوت قائم ہوا۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنے دینی بھائی حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا اے بھائی جان! میں اہل مدینہ میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، میرے دو باغ ہیں اور دو بیویاں۔ ان میں سے جو باغ آپ کو پسند ہے میں اسے آپ کے نام ہبہ کر دیتا ہوں اور ایک بیوی کو طلاق دے دیتا ہوں تاکہ آپ اس سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لیں۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالی آپ کے اہل و عیال اور مال میں
برکت عطا فرمائے۔ آپ مجھے منڈی کا پتہ بتا دیں، میں وہاں محنت کرکے کماؤں گا، حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ کی منڈی میں تجارت کا پیشہ اپنایا اور اس کاروبار میں اللہ تعالی نے اتنی برکت عطا فرمائی کہ تھوڑے ہی عرصے میں اچھی خاصی رقم جمع ہو گئی۔
ایک روز رسول اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ سے عطر کی مہک آ رہی تھی۔
رسول اقدسﷺ نے خوش طبعی سے فرمایا: عبد الرحمان یہ کیا؟
باادب بولے: حضور! میں نے شادی کر لی ہے۔
آپ نے پوچھا: بیوی کو کتنا مہر دیا ہے؟
عرض کی: سونے کی ایک ڈلی۔
آپ نے فرمایا: ولیمہ کرو خواہ ایک بکری ذبح کرو’ اللہ تعالی آپ کے مال و دولت میں برکت عطا فرمائے۔
حضرت عبدالرحمان رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: دنیا مجھ پر فریضہ ہے’ میں کوئی پتھر بھی اٹھاتا ہوں تو اس کے نیچے سے سونا اور چاندی ہاتھ لگتا ہے۔
میدان بدر میں حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کرتے ہوئے مقابلے میں آنے والے دشمن دین عمیر بن عثمان بن کعب کا سر تن سے جدا کر دیا۔
غزوة احد میں یہ اس وقت ثابت قدم رہے جب عام مجاہدین کے قدم ڈگمگا گئے تھے اور یہ اس وقت چٹان کی طرح جمے رہے جب کہ شکست خوردہ بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ جب آپ اس جہاد سے فارغ ہوئے تو جسم پر بیس سے زائد گہرے زخم آ چکے تھے اور ان میں سے بعض اتنے گہرے تھے کہ ان میں پورا ہاتھ داخل ہو سکتا تھا۔
اگر جانی اور مالی جہاد کا موازنہ کیا جائے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جانی کی بجائے مالی جہاد میں دو قدم آگے نظر آتے ہیں۔
ایک دفعہ رسول اقدسﷺ نے لشکر ترتیب دیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم میں یہ اعلان کیا۔
“جہاد فنڈ میں چندہ دو’ میں دشمن کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر روانہ کرنا چاہتا ہوں”
یہ اعلان سنتے ہی حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جلدی سے اپنے گھر گئے اور اسی وقت واپس لوٹ آئے اور عرض کی:
یا رسول اللہﷺ گھر میں چار ہزار دینار تھے، دو ہزار آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دو ہزار اپنے اہل و عیال کے لئے گھر چھوڑ آیا ہوں۔
رسول اقدسﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: جو تو نے اللہ کی راہ میں پیش کئے’ انہیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور جو اہل و عیال کے لئے باقی رکھے ان میں برکت عطا فرمائے۔
رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کا ارادہ کیا۔ یہ وہ آخری جنگ ہے جو آپ نے لڑی، اس میں مردان جنگ کی طرح مال و دولت کی بھی شدید ضرورت تھی، کیونکہ رومی لشکر بہت بڑا تھا، اس کے پاس مال و متاع کی بھی ریل پیل تھی، سفر بڑا طویل اور دشوار گذار تھا، سواری کے لئے اونٹ اور گھوڑے بہت تھوڑی تعداد میں دستیاب تھے۔
یہ منظر بھی دیکھنے میں آیا کہ چند اہل ایمان نے جہاد میں شرکت کے لئے رسول اقدسﷺ سے اجازت طلب کی اور آپ نے ان کی درخواست محض اس لئے مسترد کر دی کہ ان کے لئے سواری کا کوئی انتظام نہیں۔ وہ زار و قطار روتے ہوئے واپس لوٹے اور یہ کہتے جا رہے تھے’ کاش! آج ہمارے پاس زاد راہ ہوتا’ سواری کا انتظام ہوتا’ تو آج اس عظیم شرف سے محروم نہ ہوتے، غزوہ تبوک کے لئے روانہ ہونے والے لشکر کو جيش العسرۃ یعنی لشکر تنگ حال کا نام دیا گیا۔
اس اہم ترین موقعے پر رسول اقدسﷺ نے اپنے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور یہ ترغیب دلائی کہ اس کا اجر اللہ تعالی کے ہاں بہت ملے گا۔
مسلمان نبی اکرمﷺ کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے صدقہ و خیرات جمع کرانے کے لئے ایک دوسرے سے آگے بڑھے، اس دفعہ بھی حضرت عبدالرحمان بن عوف کا پلہ بھاری رہا اور جہاد کے لئے بے دریغ چندہ جمع کرایا ان کا یہ انداز دیکھ کر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمانے لگے یوں لگتا ہے کہ آج عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے گھر والوں کے لئے کچھ باقی نہیں رہنے دیا’ سارا مال حضورﷺ کے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دیا ہے، رسول اقدسﷺ نے پوچھا:
عبد الرحمان! کیا تم کچھ مال گھر والوں کے لئے بھی چھوڑ آئے ہو۔
عرض کی: ہاں یا رسول اللہﷺ! جتنا آج آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے اس سے زیادہ اور عمدہ مال اہل خانہ کے لیے چھوڑ آیا ہوں۔
آپ نے پوچھا کتنا؟
عرض کی: کیا اللہ تعالی نے اس کی راہ میں خرچ کرنے پر رزق کی فراوانی’ خیرو برکت اور اجر وثواب کا وعدہ نہیں کیا؟
لشکر اسلام تبوک کی طرف روانہ ہو گیا، اس سفر میں اللہ تعالٰی نے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو وہ شرف عطا کیا جو اس سے پہلے کسی کو حاصل نہ ہوا’ وہ اس طرح کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ رسول اقدسﷺ تشریف فرما نہ تھے، حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے امامت کے فرائض انجام دیئے پہلی رکعت ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ رسولﷺ تشریف لے آئے اور جماعت میں شامل ہو گئے، آپ نے یہ نماز حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں پڑھی۔
یہ ہے نصیب کی بات: یہ کتنا بڑا شرف ہے کہ سید المرسلین، رحمتہ للعالمین، شفیع المذنبین اپنے جاں نثار صحابی کی امامت میں نماز ادا کر رہے ہیں۔
رسول اقدسﷺ کے وصال کے بعد حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ امهات المؤمنین، ازواج مطہرات کے گھریلو اخراجات کا خیال رکھتے۔ جب انہوں نے سفر پر جانا ہوتا تو خدمت کے لئے ساتھ ہو لیتے، جب سفرحج کا ارادہ کرتیں تو آپ ان کے لئے سواری کا انتظام کرتے’ ہودج پر سبز رنگ کا نہایت ہی عمدہ کپڑا ڈلوا دیتے، دوران سفر جو جگہ بھی انہیں پسند آتی، وہیں پڑاؤ کرنے کا فوری انتظام کرتے، بلاشبہ یہ بہت بڑا شرف ہے جو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا، امہات المؤمنین کو ان پر بہت اعتماد تھا جس پر یہ اللہ تعالیٰ کا ہر دم شکر ادا کرتے رہتے۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کا عام مسلمانوں اور خاص طور پر امہات المومنین کے ساتھ حسن سلوک کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنی زمین چالیس ہزار دینار میں فروخت کی اور یہ ساری رقم رسول اقدسﷺ کی والدہ ماجدہ کے خاندان بنی زہرہ اور اہل اسلام میں سے فقراء و مساکین اور ازواج مطہرات میں بانٹ دی’ جب ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان کا حصہ پیش کیا گیا تو آپ نے پوچھا۔
یہ مال کس نے بھیجا ہے، آپ کو بتایا گیا۔ حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نے۔
آپ نے فرمایا: ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا تھا۔ “میرے بعد صرف وہی لوگ تمہاری خدمت بجا لائیں گے جو صابر و شاکر ہوں گے۔”
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں رسول اقدسﷺ کی دعائے خیر و برکت پوری زندگی ان پر سایہ فگن رہی، یہاں تک کہ آپ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ مالدار اور صاحب ثروت ہو گئے، آپ کی تجارت مسلسل نفع بخش ہوتی چلی گئی۔ آپ کے تجارتی قافلے مدینہ منورہ آتے تو باشندگان مدینہ کے لئے گندم، گھی، کپڑے، برتن، خوشبو اور دیگر ضروریات کی چیزیں اپنے ہمراہ لاتے اور جو اشیاء بچ جاتیں، انہیں کسی دوسری منڈی میں منتقل کر دیتے۔
ایک دن حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کا سات سو اونٹوں پر مشتمل تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوا’ سب اونٹنیاں ساز و سامان سے لدی ہوئی تھیں، جب یہ قافلہ وہاں پہنچا تو زمین تھر تھرانے لگی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا، آج یہ تھر تھراہٹ کیسی ہے۔ آپ کو بتایا گیا کہ حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کا سات سو اونٹنیوں پر مشمتل تجارتی قافلہ آ رہا ہے۔
یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بہت خوش ہوئیں اور بارگاہ الہی میں دعا کی۔
الہی! جو کچھ تو نے انہیں دنیا میں دیا ہے اس میں برکت عطا فرما اور آخرت میں اس سے بڑھ کر اجر و ثواب سے نوازنا۔
پھر کہنے لگیں کہ میں نے رسول اقدسﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
“حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ جنت میں خوشی سے اچھلتے ہوئے داخل ہو گا”
اس سے پہلے کہ تجارتی قافلہ پڑاؤ کرتا ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی’ جب آپ نے یہ بشارت سنی تو خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، دوڑتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور عرض کی: اماں جان! کیا آپ نے میرے لئے جنت کی بشارت کے کلمات رسول
اقدسﷺ کی زبان مبارک سے خود سنے ہیں۔
فرمایا: ہاں۔ یہ سن کر کچھ نہ پوچھئے کہ ان کی خوشی کا کیا عالم تھا۔
فرمانے لگے: اماں جان! گواہ رہنا۔ میں اس خوشی میں سات سو اونٹنیوں پر مشتمل اپنا تجارتی قافلہ مع تمام ساز و سامان کے اللہ کی راہ میں پیش کرتا ہوں۔
جس دن سے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت ملی’ اس دن سے اور زیادہ حوصلے کے ساتھ اللہ کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے بے دریغ دائیں بائیں، خفیہ و اعلانیہ خرچ کرنے لگے، یہاں تک کہ چالیس ہزار دینار اللہ کی راہ میں صرف کر دیئے۔
ایک دفعہ مجاہدین اسلام کے لئے پانچ سو تربیت یافتہ جنگی گھوڑے اور ایک دوسرے موقعے پر ایک ہزار پانچ سو عربی النسل اصیل گھوڑے مجاہدین کے لئے خریدے، وفات سے چند روز پہلے تمام غلام آزاد کر دئیے، اور یہ وصیت لکھوائی کہ اہل بدر میں سے جو صحابہ بھی زندہ ہوں، ان میں سے ہر ایک کو چار سو دینار میرے مال میں سے دے دیئے جائیں’ جن بدری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وصیت کے مطابق رقم وصول کی ان کی تعداد تقریباً ایک سو تھی وصیت میں یہ بھی لکھوایا کہ امہات المومنین میں سے ہر ایک کو میری جائیداد میں سے وافر مقدار میں حصہ دیا جائے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اکثر ان کے حق میں یہ دعا کرتیں۔
الہی! عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کو جنت کے ٹھنڈے میٹھے چشمے سلسبیل سے پانی پلانا”
وصیت کے مطابق مال تقسیم کرنے کے بعد بھی ورثاء کے لئے بہت سا مال باقی بچ گیا’ انہوں نے ورثے میں ایک ہزار اونٹ، چار سو گھوڑے، تین ہزار بکریاں اور سوگواروں میں چار بیویاں چھوڑیں، ان میں سے ہر ایک کے حصے میں اسی اسی ہزار دینار آئے’ ورثاء میں سونا اور چاندی تقسیم کرنے کے لئے سونے اور چاندی کی ڈلیوں کو کلہاڑیوں سے کاٹنا پڑا’ جس سے کاٹنے والوں کے ہاتھ زخمی ہو گئے’ یہ سب کچھ رسول اقدسﷺ کی اس دعا کا اثر تھا جو آپ نے ان کے مال و متاع میں خیر و برکت کے لئے کی تھی۔
وافر مقدار میں مال و دولت سے حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ نہ کسی دنیاوی فتنے میں مبتلا ہوئے اور نہ ان کی ظاہری حالت میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی، جب لوگ انہیں اپنے خدام اور غلاموں کے درمیان دیکھتے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ اور غلاموں کے درمیان کوئی فرق محسوس نہ کرتے۔
ایک روز آپ کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، آپ کا روزہ تھا، افطار کا وقت قریب تھا۔ آپ نے پر تکلف کھانے کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: حضرت وہب بن عمیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اور مجھ سے کہیں بہتر تھے۔ ہمارے پاس کفن کے لئے صرف اتنا کپڑا تھا کہ اگر ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا’ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے دنیاوی مال و متاع کی فراوانی کر دی، مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دنیا ہی میں ہمیں نپٹا نہ دیا گیا ہو۔ اس کے بعد آپ نے زار و قطار رونا شروع کر دیا، حضرت عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ پر ہزار رشک قربان، آپ کو صادق و مصدوق سید المرسلین، شفیع المذنبین’ رسول اقدسﷺ نے زندگی میں جنت کی بشارت دی، آپ کے جسد خاکی کو رسول اقدسﷺ کے ماموں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے لحد میں اتارا۔ آپ کی نماز جنازہ ذوالنورین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے پڑھائی، جنازے کے پیچھے چلتے ہوئے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا: “اے عبد الرحمان! تو نے کھرے سکے حاصل کئے اور کھوٹے سکے مسترد کر دیئے۔” اور جنت کے خالص و پاکیزہ ماحول کو پا لیا اللہ آپ پر رحم فرمائے، آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔
ا- صفته الصفوة ۲/ ۲۵۷
٢- حلية اولياء ۱/ ۹۸
۳- تاريخ الخميس ۲/ ۲۵۷
۴۔ البدء والتاريخ ۵/ ۸۶
٥- الرياض النضرة ۲/ ۲۴۱
۶- الجمع بين رجال الصحيحين ۲۴۱
۷۔ الاصابة مترجم ۵۱۷۱
۸۔ السيرة النبوية لابن هشام
(فهرست ملاحظہ کیجئے)
۹۔ حياة الصحابة رضی اللہ عنہم
(فهرست ملاحظہ کیجئے)
٩- حياة الصحابة ۶/ ۱۶۳
١٠- البداية والنهاية ۲/ ۳۴۰
۱۱- الطبقات الكبرى ۲/ ۳۴۰
١٣- تهذيب التهذيب ١٦٢/٦
حوالہ جات :
“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”
تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”