Search
Sections
< All Topics
Print

24. Hazrat Zaid Bin Harisa (رضی اللہ عنہ)

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ

 

بخدا! زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ منصب امارت کے لائق تھا اور مجھے تمام لوگوں سے زیادہ پیارا تھا۔

(فرمان نبویﷺ)

 

سعدی بنت ثعلبہ اپنی قوم بنو معن سے ملاقات کے لئے اپنے بیٹے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئی’ وہ اپنی برادری کے ایک گھر میں ابھی فروکش ہوئی ہی تھی کہ بنی قین کے ڈاکوؤں نے لوٹ مار شروع کر دی’ ان کا مال اپنے قبضے میں لے لیا، مویشی ہانک کر لے گئے اور بچوں کو قید کر لیا۔ ان قیدیوں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی، وہ انہیں فروخت کرنے کے لئے عکاظ منڈی میں لے گئے’ ایک دولت مند سردار حکیم بن حزام بن خویلد نے چار سو درہم میں انہیں خرید لیا’ اس کے علاوہ اس نے اور بھی غلام خریدے اور ان سب کو اپنے ہمراہ مکہ معظمہ لے آیا’ جب اس سردار کی آمد کا حضرت خدیجہ بنت خویلد کو پتہ چلا تو وہ اسے خوش آمدید کہنے کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئیں، کیونکہ رشتے میں یہ اس کی پھوپھی تھیں۔ حکیم بن حزام نے کہا پھوپھی جان میں عکاظ منڈی سے کافی تعداد میں غلام خرید کر لایا ہوں، ان میں سے جو غلام آپ کو پسند ہو’ اسے میں آپ کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کر کے خوشی محسوس کروں گا۔ سیدہ خدیجتہ الکبری نے تمام غلاموں کو دیکھا اور ان میں سے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا، کیونکہ ذہانت اور شرافت اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی، تھوڑے ہی عرصے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے سردار دوجہاں حضرت محمدﷺ سے شادی کر لی، اس موقعے پر آپ کی خدمت اقدس میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تحفہ پیش کرنے کا ارادہ کیا تو انہیں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے بہتر کوئی چیز دکھائی نہ دی، چنانچہ حضورﷺ کی خدمت میں زید کو بطور تحفہ پیش کر دیا۔ 

اس طرح یہ خوش نصیب غلام آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے اعلیٰ و ارفع اخلاق سے فیضیاب ہونے لگا۔

اس کی غمزدہ ماں کو پل بھر کے لئے چین نہ آ رہا تھا’ وہ اس کی گمشدگی کے غم میں رو رو کر بے حال ہو چکی تھی’ کبھی آنسو خشک نہ ہوتے’ اپنے لاڈلے بیٹے کی محبت کا شعلہ جوالہ دل پر مسلسل دہکتا رہا’ غم واندوہ کے ایسے مہیب بادل چھائے کہ چھٹنے کا نام نہ لیتے’ ہر وقت اسی سوچ میں غلطاں و پریشاں رہتی، کیا میرا لخت جگر زندہ ہے کہ اس کی آمد کا انتظار کروں؟ یا فوت ہوچکا ہے کہ نا امید ہو جاؤں؟ باپ نے اپنے لخت جگر کی تلاش میں ملک کا کونہ کونہ چھان مارا، ہر گزرنے والے قافلے سے پوچھتا کہ لوگو! مجھے بتاؤ’ میرا لخت جگر کہاں ہے؟ میرے نور چشم کو زمین نگل گئی یا آسمان اچک کر لے گیا؟

بعض اوقات غم واندو میں مبتلا ایسے دلدوزانداز میں شعر کہنے لگتا کہ سننے والوں کے جگر چھلنی ہو جاتے بطور مثال چند اشعار کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

▪️میں اپنے لخت جگر کی گمشدگی پر آنسو بہاتا ہوں، مجھے علم نہیں کہ اس پر کیا گزری’ کیا وہ زندہ ہے کہ اس کی آمد کا انتظار کروں؟ یا موت کے بے رحم پنجے نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا؟

▪️بخدا! میں نہیں جانتا میرے بیٹے تجھے کیا ہوا؟ میں تو ہر راہی سے پوچھتا ہوں، تجھے نرم زمین نے اپنے دامن میں چھپا لیا یا بلند و بالا پہاڑ نے۔

▪️آفتاب اپنے طلوع کے وقت بیٹے کی یاد دلاتا ہے اور غروب کے وقت پھر اس کی یاد تازہ کر دیتا ہے۔

▪️میں روئے زمین پر تیری تلاش میں اونٹ پر سوار سرگرداں پھر رہا ہوں اور میں اس سرگردانی سے نہیں اکتاؤں گا۔

▪️بیٹے زندگی بھر تیری تلاش جاری رکھوں گا یہاں تک کہ مجھے موت آ جائے’ بالآخر ہر شخص کو فنا ہونا ہے، اگرچہ امیدیں اسے دھوکے میں مبتلا رکھیں۔

ایک سال حج کے موقع پر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے خاندان کے چند افراد مکہ مکرمہ میں آئے، وہ لوگ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے کہ اچانک ان کی نظر زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ پر > 

پڑی’ انہوں نے اسے پہچان لیا اور زید رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں پہچان لیا، آپس میں ایک دوسرے کے حالات معلوم کئے، جب وہ حج سے فارغ ہوئے اور اپنے وطن واپس لوٹے تو ان کے باپ حارثہ کو اطلاع دی کہ تیرا بیٹا زندہ سلامت ہے اور وہ اسوقت مکہ میں ہے’ ہم نے بچشم خود اسے دیکھا اس سے باتیں کیں اور اس کے حالات معلوم کئے ہیں۔


خوشی کی یہ خبر سن کر حارثہ نے فوراً اپنی سواری تیار کی، کچھ نقدی بھی اپنے ساتھ لے لی تاکہ بطور فدیہ ادا کی جا سکے اور اپنے بھائی کعب کو ہمسفر بنایا’ دونوں تیز رفتاری کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے، وہاں پہنچتے ہی رسول اکرمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی: آپ بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں۔ مانگنے والوں کی جھولیاں بھر دیتے ہیں، بھوکوں کو کھانا کھلاتے ہیں، بے کسوں کی فریاد رسی کرتے ہیں، ہم آپ کی خدمت اقدس میں اپنے بیٹے کے لئے حاضر ہوئے ہیں’ ہم نور چشم کو حاصل کرنے کی غرض سے بہت سا مال بھی لائے ہیں’ للّٰه! ہم پر کرم کیجئے۔ جو آپ اس کی قیمت لینا چاہیں، ہم بخوشی دینے کو تیار ہیں۔

رسول اکرمﷺ نے ان کی باتیں سن کر ارشاد فرمایا۔
کون ہے تمہارا بیٹا جس کا مطالبہ کر رہے ہو؟
عرض کی: آپ کا غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ۔
آپ نے فرمایا:
کیا میں تمہیں ایک ایسی تجویز نہ دوں جو فدیہ سے کہیں بہتر ہو؟
دونوں نے تعجب سے پوچھا وہ کیا؟

آپ نے فرمایا: میں اسے تمہارے سامنے بلاتا ہوں۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرے تو اسے اختیار ہے، بڑی خوشی سے لے جائیں، میں اس کے بدلے کچھ بھی نہیں لوں گا، لیکن اگر اس نے میرے پاس رہنے کو ترجیح دی تو پھر میں اسے تمہارے ساتھ جانے پر مجبور نہیں کروں گا۔

یہ تجویز سن کر دونوں خوشی سے بولے: آپ نے خدا لگتی کہی ہے۔ آپ نے عدل و 

انصاف کا حق ادا کر دیا ہے، ہمیں آپ کی تجویز منظور ہے۔

رسول اللہﷺ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلایا اور دریافت کیا:
یہ دونوں کون ہیں؟
عرض کی: یہ میرا باپ حارثہ بن شراحبیل ہے اور یہ میرا چچا کعب ہے۔
آپ نے فرمایا:
میری طرف سے تمہیں اختیار ہے، ان کے ساتھ چلے جاؤ یا میرے پاس رہو۔
حضرت زید رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان سنتے ہی بغیر کسی تردد کے عرض کی۔
حضور! میں تو آپ کے ساتھ ہی رہوں گا۔
باپ نے بیٹے کے منہ سے یہ کلمات سنے تو کہا!

زید! بڑے افسوس کی بات ہے کیا تو اپنے ماں باپ پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے۔

زید نے کہا: ابا جان! میں نے یہاں حضورﷺ کے جن اوصاف حمیدہ کا مشاہدہ کیا ہے اور جس طرح آپ مشفقانہ انداز میں میرے ساتھ پیش آتے ہیں، میں ان سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہوں، لہذا میں انہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔


جب رسول اکرمﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا یہ انداز دیکھا اور اس کی طرف سے والہانہ محبت کے مظاہرے کا مشاہدہ کیا تو آپ بہت خوش ہوئے، جلدی سے اٹھے اس کا ہاتھ پکڑا سیدھے بیت اللہ تشریف لے گئے، سرداران قریش کے سامنے بآواز بلند ارشاد فرمایا۔

اے خاندان قریش! گواہ رہنا یہ میرا بیٹا ہے، یہ میرا وارث ہے اور میں اس کا وارث ہوں، یہ اعلان سن کر حضرت زید رضی اللہ عنہ کے چچا اور باپ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی’ بہر حال یہ خوش آئند اعلان سن کر شاداں و فرحاں اپنے گھر روانہ ہو گئے، اس دن سے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ زید بن محمد رضی اللہ عنہ کے نام سے پکارے جانے لگے، آنحضرتﷺ کے اعلان نبوت کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد رضی اللہ عنہ کے نام سے پکارا جاتا رہا’ یہاں تک کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا یہ حکم نازل ہوا *ادعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ* اس حکم خداوندی کے نزول 

کے بعد آپ کو زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے نام سے پکار جانے لگا۔


حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے جس وقت رسول اکرمﷺ کو اپنے ماں باپ پر ترجیح دی تھی، اس وقت انہیں یہ علم نہ تھا کہ انہوں نے کون سی غنیمت حاصل کی ہے، وہ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ آنحضرتﷺ بلند مرتبہ پر فائز ہونے والے ہیں یا آپ کے سر پر نبوت کا تاج رکھا جائے گا اور آپ کو پوری دنیا کی راہنمائی کے لئے رسول بنا کر بھیجا جائے گا’ انہیں یہ کبھی خیال تک نہ تھا کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جس میں آسمانی حکومت روئے زمین پر قائم ہو گی اور خطہ ارض کو عدل و انصاف اور امن و سکون کا گہوارہ بنا دے گی اور انہیں اس عظیم سلطنت کے عالیشان محل کی پہلی اینٹ بننے کا شرف حاصل ہو گا۔

بلاشبہ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل و شرف والا ہے۔

حبیب کبریاﷺ کو اپنے ماں باپ پر ترجیح دینے کے واقعے پر ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے نبی کو توحید خالص اور دین حق کا پیغام دینے کے لئے رسالت کے عظیم منصب پر فائز کر دیا، زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لائے۔ بھلا اس سے بڑھ کر کوئی شرف انسانی ہو سکتا ہے، جس کے حصول کے لئے بڑھ چڑھ کر کوشش کی جائے، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو راز دان رسولﷺ اور سپہ سالار لشکر اسلام بننے کا اعزاز حاصل ہوا اور مدینہ منورہ میں حضورﷺ کی نیابت کا عظیم شرف بھی ان کے حصے میں آیا۔ آپﷺ ایک غزوہ میں شرکت کے لئے باہر تشریف لے گئے تھے۔


جس طرح حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺ کے ساتھ والہانہ محبت کا مظاہرہ کیا، اسی طرح آپ بھی ان سے شفقت بھرے انداز سے پیش آئے اور انہیں اپنے خاندان کا ایک فرد بنا لیا، جب کسی مشن کے لئے حضرت زید رضی اللہ عنہ روانہ ہوتے تو آپ ان کے لئے دعا کرتے’ جب اس مشن سے واپس لوٹتے تو آپ کو دلی مسرت ہونے کا اظہار  کرتے۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی رسول اکرمﷺ کے ساتھ ایک ملاقات کا منظر بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ:

ایک دفعہ کا ذکر ہے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک سفر سے واپس مدینہ منورہ آئے’ رسول اکرمﷺ میرے گھر تشریف فرما تھے۔

اس نے دروازے پر دستک دی، آپ جلدی سے دروازہ کھولنے کے لئے اٹھے’ دروازہ کھولا تو سامنے زید بن حارثہ کو کھڑے پایا’ آپ کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہیں گلے لگایا، ماتھا چوما، بخدا میں نے پوری زندگی اس طرح کسی صحابی کو خوش آمدید کہتے ہوئے نہیں دیکھا’ اسی لئے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مسلمانوں میں حبیب رسول اللہ کے نام سے معروف تھے، اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے کو فرزند حبیب اللہﷺ کا نام دے رکھا تھا۔

8 ہجری میں اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے چاہا کہ رسول اللہﷺ کو اپنے ایک جاں نثار اور اولاد کی طرح پیارے صحابی کی جدائی میں مبتلا کرے۔

ہوا یہ کہ آنحضرتﷺ نے حارث بن عمیر رضی اللہ عنہ کو ایک خط دے کر شاہ بصری کی طرف روانہ کیا تاکہ اسے اسلام کی طرف دعوت دی جائے، جب حضرت حارث بن عمیر یہ خط لے کر اردن کی مشرقی جانب مقام “موتہ” پہنچے تو وہاں امیر غساسنہ شرحبیل بن عمرو آپ کے سامنے آیا اور انہیں گرفتار کر کے قتل کر دیا’ یہ اندوہناک خبر جب رسول اکرمﷺ کے پاس پہنچی تو آپ کو بہت صدمہ ہوا۔ تین ہزار مجاہدین پر مشتمل لشکر جنگ موتہ کے لئے روانہ کیا اور اس لشکر کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا۔ ارشاد فرمایا کہ: اگر زید رضی اللہ عنہ شہید ہو جائے تو جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو لشکر کی قیادت سونپ دی جائے اور اگر جعفر شہید ہو جائے تو عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو قائد لشکر بنا دیا جائے اور اگر اسے بھی شہید کر دیا جائے’ تو پھر مجاہدین اسلام اپنے میں سے جسے بہتر سمجھیں اپنا قائد بنالیں۔ 

لشکر اسلام اللہ کا نام لے کر روانہ ہوا۔ اردن کی مشرقی جانب ”معان” مقام پر پہنچا تو شاہ روم ایک لاکھ فوج لے کر مقابلے میں اترا اور اس کے ساتھ مشرکین عرب میں سے ایک لاکھ افراد شامل ہو گئے اور یہ لشکر خم ٹھونک کر مسلمانوں کے بالمقابل آ کھڑا ہوا۔

مسلمان “معان” مقام پر دو راتیں آپس میں مسلسل مشورے اور جنگی نقطہ نگاہ سے منصوبہ بندی کرتے رہے۔

ایک مجاہد نے رائے دی کہ ہمیں دشمن کی تعداد کے متعلق رسول اکرمﷺ کو بذریعہ خط اطلاع دینی چاہئے اور آپ کے حکم کا انتظار کرنا چاہئے۔ دوسرے نے کہا:

اللہ کی قسم! نہ تو ہم تعداد کے بل بوتے پر لڑتے ہیں اور نہ ہی قوت اور کثرت کی بنا پر! ہم تو صرف اس دین متین کی حفاظت کے لئے بر سر پیکار ہیں۔

میرے ساتھیو! جو مقصد لے کر میدان جہاد کی طرف نکلے ہو ہمیشہ اسے پیش نظر رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے دو انعامات میں سے ایک کی تمہیں ضمانت دی ہے۔
یا فتح نصیب ہوگی۔۔۔ یا پھر جام شہادت نوش کرو گے۔

مقام “موتہ” پر دونوں فوجیں بالمقابل آئیں۔ لشکر اسلام صرف تین ہزار افراد پر مشتمل تھا، لیکن دشمن کی فوج دو لاکھ افراد پر مشتمل تھی، اس جنگ میں مسلمان ایسی بے جگری سے لڑے کہ رومی فوج کے چھکے چھڑا دیے، دشمنوں کے دلوں پر لشکر اسلام کی دھاک بیٹھ گئی۔

رسول اللہﷺ کے عطا کردہ جھنڈے کی حفاظت کے لئے سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے ایسی جوانمردی کے ساتھ جنگ لڑی کہ جنگی کارناموں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ بالآخر دشمن کے نیزوں نے آپ کے جسم کو چھلنی کر دیا اور آپ شہید ہو گئے، ان کے بعد جھنڈا حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے تھام لیا اور اس کی حفاظت کے 

لئے بڑی جانفشانی سے دشمن کے مقابلے میں نبرد آزما رہے۔ یہاں تک کہ جام شہادت نوش کیا’ ان کے شہید ہو جانے کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا اور ایسی بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ دیکھنے والے ششدر رہ گئے، لیکن بالآخر لڑتے لڑتے اللہ کو پیارے ہو گئے، ان کے بعد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار منتخب کیا گیا، ابھی آپ نئے نئے حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، لیکن آپ نے اپنے تجربات کی بنا پر ایسی جنگی تدبیر اختیار کی کہ لشکر اسلام کو ہزیمت سے بچا لیا۔

جب جنگ “موتہ” کی خبر رسول اللهﷺ کو پہنچی اور لشکر اسلام کے تین سپہ سالاروں کی شہادت کا علم ہوا تو آپ اتنے غمگین ہوئے کہ اس سے پہلے کبھی آپ کو اس طرح حالت غم میں نہیں دیکھا گیا اور آپ خبر سنتے ہی فوری طور پر تعزیت کے لئے ان کے اہل خانہ کے پاس گئے۔

جب آپ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے تو ان کی چھوٹی بیٹی آپ سے چمٹ کر زار و قطار رونے لگی، رسول اللہﷺ بھی آبدیدہ ہو گئے، یہ منظر دیکھ کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟
آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
یہ ایک حبیب کا اپنے حبیب کے غم میں رونا ہے۔


حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لئے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔

 

ا۔ صحیح مسلم
۳۱۳/۷ باب فضائل صحابہ
۲۔ جامع الاصول ۱۰/ ۲۵۔۲۶
٣- الاصابه ۲۹۰
۴۔ الاستيعاب ۵۴۴/۱
٥- السيرة النبويه ابن ہشام 
۶- صفة الصفوة ۱/ ۱۴۷
۷۔ خزانة الأدب ۱/ ۳۶۲
۸۔ البداية والنهايه
۸ ہجری کے واقعات دیکھئے
۹۔ حیاةالصحابه
جلد چہارم کی فہرست دیکھئے

 

حوالہ جات :

“حياتِ صحابہ کے درخشاں پہلو”

تا لیف: “داکتور عبدالر حمان رافت الباشا”

 

 

Table of Contents