Search
Sections
< All Topics
Print

01. Makkah Mukarramah ki ahmiyat aur us ka deeni maqaam wa martaba [The Importance and Religious Status of Makkah Al-Mukarramah]

*مکہ مکرمہ کی اہمیت اور اس کا دینی مقام و مرتبہ*

 

بلد حرام مکہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کو سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اور ان کی دلی محبت کا مرکز ہے۔ حج کا مرکز اور باہمی ملاقات و تعلقات کی آماجگاہ ہے۔ روز اول ہی سے اللہ تعالیٰ نے اس کی تعظیم کے پیش نظر اسے حرم قرار دے دیا تھا۔ اس میں ”کعبہ“ ہے جو روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے بنایا جانے والا سب سے پہلا گھر ہے۔ اس قدیم گھر کی وجہ سے اس علاقے کو ”حرم“ کا درجہ ملا ہے اور اس کی ہر چیز کو امن وامان حاصل ہے۔ حتٰی کہ یہاں کے درختوں اور دوسری خودرو نباتات کو بھی کاٹا نہیں جاسکتا۔ یہاں کے پرندوں اور جانوروں کو ڈرا کر بھگا یا نہیں جا سکتا۔ اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی گنا افضل ہے۔ یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کا درجہ رکھتی ہے۔ مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ کعبہ کی برکت سے ملا ہے۔ فرمان باری تعالٰی ہے:

 

وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا 

 

(سورة آل عمران: 97)

 

”جو شخص اس (حرم) میں داخل ہو جائے امن والا ہے۔“

اللہ تعالیٰ نے اس کی عظمت و تقدس کے اظہار کے لیے اس کی قسمیں اٹھائی ہیں۔ فرمایا:

 

لَاۤ اُقۡسِمُ بِهٰذَا الۡبَلَدِۙ ۞

 

(سورة البلد: 1)

 

رسول اللہ ﷺ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا: 

”اللہ کی قسم! تو اللہ تعالٰی کی زمین میں بہترین جگہ ہے اور اللہ تعالٰی کو محبوب ترین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔“

(مسند احمد 305/4، جامع ترمذی، حدیث : 3925، سنن ابن ماجه، حدیث : 3108)

 

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

 

إِخْتَارَ اللهُ عَزَّ وَجَلَ الْبِلَادَ فَأَحَبُّ الْبُلْدَانِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ الْبَلَدُ الْحَرَامُ

 

(شعب الایمان، بیهقی، حدیث: 3740، نیز دیکھیے: تحقیق شعب الايمان، حديث: 3465، مطبوعہ ہندوستان)

 

”اللہ تعالٰی نے شہروں کو چنا تو سب سے زیادہ بلد حرام کو پسند فرمایا۔“

 

*مکہ ، حرم ہے*

 

مکہ مکرمہ کو ”بلد حرام“ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ آسمان وزمین کی پیدائش کے وقت ہی سے حرم ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

جب اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے رسول ﷺ کو مکہ کی فتح عطا فرمائی تو رسول اللہ ﷺ خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا بیان فرمائی، پھر فرمایا: 

”اللہ تعالیٰ نے مکہ مکرمہ میں ہاتھیوں کو آنے سے روک دیا تھا لیکن اب اپنے رسول اور مومنین کو مکہ پر قابض فرما دیا ہے۔ مجھ سے پہلے مکہ مکرمہ کسی کے لیے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا ۔ میرے لیے بھی کچھ وقت تک کے لیے حلال کیا گیا تھا۔ ( خبردار ! ) اس کے کسی شکار کو ڈرا کر بھگایا نہ جائے۔ اس کے کانٹے دار درخت نہ کاٹے جائیں۔ (اس سے مراد سرسبز نباتات ہیں۔ ) اس میں گری پڑی چیز نہ اٹھائی جائے البتہ جو اعلان کرے وہ اٹھا سکتا ہے۔ جس شخص کا کوئی رشتے دار قتل ہو جائے اسے دو چیزوں ( قتل اور دیت ) میں سے بہتر کا اختیار ہے ( جو وہ بہتر سمجھے اسے اختیار کر سکتا ہے ۔“

 سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے گزارش کی اللہ کے رسول! اذخر گھاس کو مستثنٰی فرما دیجیے کیونکہ ہم اسے گھروں اور قبروں میں استعمال کرتے ہیں۔

(اذخر ایک خوشبودار گھاس ہے جو بالکل کھجور کی چھال کی مانند ہوتی ہے۔)

آپ نے فرمایا: 

”ہاں اذخر مستثنٰی ہے ( اسے کاٹا جا سکتا ہے )۔،،

 

(صحیح بخاری حدیث: 2434 ، صحیح مسلم حديث : 1355.)

 

*حدودِ حرم*

 

سب سے پہلے حرم کی حدود مقرر کرنے والے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تھے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے سیدنا جبریل علیہ السلام کی ہدایات کے مطابق حرم کی برجیاں نصب کیں، پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتٰی کہ رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے سال سیدنا تمیم بن اسد خزاعی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، انھوں نے ان برجیوں کو نئے سرے سے بنایا۔ پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتٰی کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چار قریشیوں کو مقرر فرمایا، جنھوں نے ان کی پھر تجدید کی۔

(حدود حرم متعین کرنے کے لیے نصب کی جانے والی برجیاں مراد ہیں۔)

 

(اخبار مکه، از رقی: 129،130/2)

 

اللہ تعالٰی نے بیت اللہ کی تعظیم کے لیے اس کا حرم مقرر فرمایا اور اس میں ہر چیز حتٰی کہ پرندوں اور درختوں کو بھی امان دے دی اور اس میں اعمال کا ثواب دوسرے مقامات سے افضل قرار دیا۔ حرم مکہ مکرمہ کے ہر طرف پھیلا ہوا ہے، البتہ اس کی حدود ہر طرف ایک جیسی نہیں۔ مکہ مکرمہ کی طرف آنے والے بڑے بڑے راستوں پر حدود حرم کے نشانات لگا دیے گئے ہیں۔ ان کی تفصیل یہ ہے:

 

  1. مغرب کی طرف: 

جدہ روڈ پر مقام ”شُمیسی“ جے ”حدیبیہ“ کہا جاتا تھا یہ مکہ مکرمہ سے 22 کلو میٹر دور ہے۔

  1. جنوب کی طرف:

 ”تهَامَہ“ سے یمن کے راستے پر ”إِضَاءَةُ لِبن“ مقام جو مکہ مکرمہ سے 12 کلومیٹر دور ہے۔

(إضاءة کا معنی ہے زمین اور ”لبن“ ایک پہاڑ کا نام ہے۔)

  1. مشرق کی طرف:

 ”وَادِی عُرَنَہ“ کا مغربی کنارہ جو مکہ مکرمہ سے 15 کلو میٹر دور ہے۔

  1. شمال مشرق کی طرف: 

”جعرانہ“ کے راستے پر بستی ”شَرَائِعُ المُجَاهِدِین“ کے قریب۔ اور یہ مکہ مکرمہ سے 16 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔

  1. شمال کی طرف: 

مقام ”تنعیم“ جو کہ مکہ مکرمہ سے صرف 7 کلو میٹر دور ہے۔

 

*حرم کی عظمت*

 

اللہ تعالٰی نے فرمایا:

 

وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا 

 

(سورة آل عمران : 97)

 

”جو شخص اس حرم میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے۔“

اس آیت میں پورا حرم مراد ہے۔ جب کوئی خوفزدہ شخص حدود حرم میں داخل ہو جائے تو وہ ہر قسم کے خطرے سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ دور جاہلیت میں بھی صورت حال یہی تھی۔ اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے حرم میں چلا جاتا تو مقتول کا بیٹا اسے دیکھ کر بھی کچھ نہیں کہتا تھا بلکہ حرم سے اس کے نکلنے کا انتظار کرتا تھا۔

 

(تفسیر ابن کثیر آیت مذکوره)

 

البتہ اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص حرم کے اندر جرم کرے تو اسے امن حاصل نہ ہوگا کیونکہ اس نے حرم کی بے حرمتی کی ہے۔ ہاں اگر جرم حرم سے باہر کرے پھر حرم میں چلا جائے تو اس کو تنگ کیا جائے گا۔ پھر جب وہ حرم سے باہر نکلے گا تو اس پر حد لگائی جائے گی۔

ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ( فتویٰ ) منقول ہے کہ جو شخص کوئی جرم کر کے بیت اللہ کی پناہ حاصل کرے تو اسے امن حاصل ہو جائے گا اور کسی کو اجازت نہیں کہ اس کو کوئی سزادے۔ جب وہ حرم سے نکلے گا تو پھر اسے حد لگائی جائے گی۔

 

(مثير الغرام الساكن، ابن جوزی)

 

*مکہ مکرمہ کے نام*

 

اس مقدس شہر اور عظیم حرم کے بہت سے نام ہیں جو تقریباً پچاس ہیں۔

 

(شفاء الغرام،  48۔53 /1،معجم البلدان: 181۔ 183 /5)

 

 اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں پانچ نام ذکر فرماٸے ہیں: 

 

مَكَّه، بَكَّهُ، الْبَلَدِ، الْقَرْيَہ اور اُم القرى۔

 

”مکہ“ کا ذکر اس آیت میں ہے:

 

وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ 

 

(سورة الفتح : 24)

 

”اللہ تعالٰی نے وادٸ مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے۔“ 

”بَکَّہ“ کا ذکر اس آیت میں ہے:

 

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةً 

 

(سورة آل عمران : 96)

 

”لوگوں کے لیے عبادت کی غرض سے بنایا جانے والا پہلا گھر بکہ میں ہے جو تمام دنیا کے لئے برکت و ہدایت والا ہے۔“

”البلد“ کا ذکر اس آیت میں ہے:

 

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ

 

(سورة البلد : 1)

 

”میں اس ”بلد“ کی قسم اٹھاتا ہوں۔“

 

اس میں ”بلد“ سے مراد ”مکہ“ ہے۔ ویسے لغت میں”بلد“ بستیوں کے مرکز کو کہتے ہیں۔ القریہ کا ذکر اس آیت میں ہے:

 

وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً 

 

(سورة النحل : 112)

 

”اللہ تعالٰی نے ایک ”قریہ“ کی مثال بیان فرمائی جس میں مکمل امن و سکون تھا۔“

قریہ اس بستی کو کہتے ہیں جس میں بہت سے لوگ رہتے ہوں۔ اس کا لفظی معنی جمع کرنا ہے ۔ ”قَرَيْتُ الْمَاءَ فِي الْحَوْضِ“ کا معنی ہے ” میں نے حوض میں پانی جمع کیا۔“ ام القریٰ نام کا ذکر اس آیت میں ہے:

 

وَلِتُنْذِرَ أَمَّ الْقُرْى

 

(سورة الانعام: 92)

 

”آپ ”ام القرىٰ“ والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیں۔“

اس آیت میں ام القریٰ سے مراد مکہ ہی ہے۔ مکہ مکرمہ کے اور بھی کئی نام ہیں۔ مثلاً : نَسَّاسَهُ، حَاطِمَهُ، حَرَم  صَلَاح، بَاسَهُ، مَعَادُ  رَأْس، بَلَدَ آمِين، اور کُوثٰی وغیرہ۔

 

 

حوالا :
“تاریخ مکہ مکرمہ”
شعبہ تصنیف و تا لیف دارُ اسلام
نظرثانی :  مولانا صفی الرحمن مبارکپوری”

 

 

Table of Contents