Search
Sections
< All Topics
Print

38. Al-Hawaala; [كِتَابُ الحَوَالاَتِ]; Transferance of a Debt from One Person to Another

كِتَابُ الحَوَالاَتِ

کتاب: حوالہ کے مسائل کا بیان

 


بَابُ الحَوَالَةِ، وَهَلْ يَرْجِعُ فِي الحَوَالَةِ؟

باب : حوالہ یعنی قرض کو کسی دوسرے پر اتارنے کا بیان اور اس کا بیان کہ حوالہ میں رجوع کرنا درست ہے یا نہیں


2287 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ

 

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابوالزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( قرض ادا کرنے میں ) مال دار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی کا قرض کسی مالدار پر حوالہ دیا جاے تو اسے قبول کرے۔
تشریح : اس سے یہی نکلتا ہے کہ حوالہ کے لیے محیل اور محتال کی رضا مندی کافی ہے۔ محتال علیہ کی رضا مندی ضروری نہیں۔ جمہوری کا یہی قول ہے اور حنفیہ نے اس کی رضا مندی بھی شرط رکھی ہے۔


 

بَابُ إِذَا أَحَالَ عَلَى مَلِيٍّ فَلَيْسَ لَهُ رَدٌّ

باب : قرض کسی مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اس کا رد کرنا جائز نہیں


2288 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ ذَكْوَانَ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ وَمَنْ أُتْبِعَ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتَّبِعْ

ترجمہ : ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ذکوان نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالدار کی طرف سے ( قرض ادا کرنے میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالہ کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے۔
تشریح : مطلب یہ ہے کہ کسی مالدار نے کسی کاقرض اگر اپنے سر لے لیا تو اس ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہوگا۔ چاہئیے کہ اسے فوراً ادا کردے، نیز جس کا قرض حوالہ کیا گیا ہے اسے بھی چاہئیے کہ اس کو قبول کرکے اس مالدار سے اپنا قرض وصول کرلے اور ایسے حوالہ سے انکار نہ کرے۔ ورنہ اس میں وہ خود نقصان اٹھائے گا۔


بَابُ إِنْ أَحَالَ دَيْنَ المَيِّتِ عَلَى رَجُلٍ جَازَ

باب : اگر کسی میت کا قرض کسی ( زندہ ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے


2289 حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قِيلَ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ فَصَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوںنے آپ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پرہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ںنے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔


 

بَابُ الكَفَالَةِ فِي القَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا

باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں


2290 وَقَالَ أَبُو الزِّنَادِ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الأَسْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَهُ مُصَدِّقًا، فَوَقَعَ رَجُلٌ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَأَخَذَ حَمْزَةُ مِنَ الرَّجُلِ كَفِيلًا حَتَّى قَدِمَ عَلَى عُمَرَ، وَكَانَ عُمَرُ قَدْ جَلَدَهُ مِائَةَ جَلْدَةٍ، فَصَدَّقَهُمْ وَعَذَرَهُ بِالْجَهَالَةِ وَقَالَ جَرِيرٌ، وَالأَشْعَثُ، لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: «فِي المُرْتَدِّينَ اسْتَتِبْهُمْ وَكَفِّلْهُمْ، فَتَابُوا، وَكَفَلَهُمْ عَشَائِرُهُمْ» وَقَالَ حَمَّادٌ: «إِذَا تَكَفَّلَ بِنَفْسٍ فَمَاتَ فَلاَ شَيْءَ عَلَيْهِ»، وَقَالَ الحَكَمُ: «يَضْمَنُ»

ترجمہ : اور ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے محمد بن حمزہ بن عمرو الاسلمی نے اور ان سے ان کے والد ( حمزہ ) نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے عہد خلافت میں ) انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ ( جہاں وہ زکوٰۃ وصول کر رہے تھے وہاں کے ) ایک شخص نے اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لی۔ حمزہ نے اس کی ایک شخص سے پہلے ضمانت لی، یہاں تک کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو سو کوڑوں کی سزا دی تھی۔ اس آدمی نے جو جرم اس پر لگا تھا اس کو قبول کیا تھا لیکن جہالت کا عذر کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو معذور رکھا تھا اور جریر اور اشعث نے عبداللہ بن مسعود سے مرتدوں کے بارے میں کہا کہ ان سے توبہ کرائیے اور ان کی ضمانت طلب کیجئے ( کہ دوبارہ مرتد نہ ہوں گے ) چنانچہ انہوں نے توبہ کر لی اور ضمانت خود انہیں کے قبیلہ والوں نے دے دی۔ حماد نے کہا جس کا حاضر ضامن ہو اگر وہ مر جائے تو ضامن پر کچھ تاوان نہ ہوگا۔ لیکن حکم نے کہا کہ ذمہ کا مال دینا پڑے گا۔


بَابُ الكَفَالَةِ فِي القَرْضِ وَالدُّيُونِ بِالأَبْدَانِ وَغَيْرِهَا

باب : قرضوں وغیرہ کی حاضر ضمانت اور مالی ضمانت کے بیان میں


2291 قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ، فَقَالَ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، قَالَ: فَأْتِنِي بِالكَفِيلِ، قَالَ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَخَرَجَ فِي البَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ التَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا، فَأَخَذَ خَشَبَةً فَنَقَرَهَا، فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى البَحْرِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلاَنًا أَلْفَ دِينَارٍ، فَسَأَلَنِي كَفِيلاَ، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَسَأَلَنِي شَهِيدًا، فَقُلْتُ: كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، فَرَضِيَ بِكَ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا، فَرَمَى بِهَا فِي البَحْرِ حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، يَنْظُرُ لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ، فَإِذَا بِالخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا المَالُ، فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ المَالَ وَالصَّحِيفَةَ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ، فَأَتَى بِالأَلْفِ دِينَارٍ، فَقَالَ: وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ، قَالَ: هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ؟ قَالَ: أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الخَشَبَةِ، فَانْصَرِفْ بِالأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا

ترجمہ : ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ لیث نے بیان کیا، ان سے جعفر بن ربیعہ نے، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے بنی اسرائیل کے ایک دوسرے آدمی سے ایک ہزار دینار قرض مانگے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ایسے گواہ لا جن کی گواہی پر مجھے اعتبار ہو۔ قرض مانگنے والا بولا کہ گواہ تو بس اللہ ہی کافی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اچھا کوئی ضامن لا۔ قرض مانگنے والا بولا کہ ضامن بھی اللہ ہی کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے سچی بات کہی۔ چنانچہ اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اس کو قرض دے دیا۔ یہ صاحب قرض لے کر دریائی صفر پر روانہ ہوئے اور پھر اپنی ضرورت پوری کرکے کسی سواری ( کشتی وغیرہ ) کی تلاش کی تاکہ اس سے دریا پار کرکے اس مقررہ مدت تک قرض دینے والے کے پاس پہنچ سکے جو اس سے طے پائی تھی۔ ( اور اس کا قرض ادا کردے ) لیکن کوئی سواری نہیں ملی۔ آخر ایک لکڑی لی اور اس میں سوراخ کیا۔ پھر ایک ہزار دینار اور ایک ( اس مضمون کا ) خط کہ اس کی طرف سے قرض دینے والے کی طرف ( یہ دینار بھیجے جارہے ہیں ) اور اس کا منہ بند کردیا۔ اور اسے دریا پر لے آئے، پھر کہا، اے اللہ ! تو خوب جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے تھے۔ اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہہ دیا تھا کہ میرا ضامن اللہ تعالیٰ کافی ہے اور وہ بھی تجھ پر راضی ہوا۔ اس نے مجھ سے گواہ مانگا تو اس کا بھی جواب میں نے یہی دیا کہ اللہ پاک گواہ کافی ہے تو وہ مجھ پر راضی ہو گیا اور ( تو جانتا ہے کہ ) میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی سواری ملے جس کے ذریعہ میں اس کا قرض اس تک ( مدت مقررہ میں ) پہنچا سکوں۔ لیکن مجھے اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔ اس لیے اب میں اس کو تیرے ہی حوالے کرتا ہوں ( کہ تو اس تک پہنچا دے ) چنانچہ اس نے وہ لکڑی جس میں رقم تھی دریا میں بہا دی۔ اب وہ دریا میں تھی اور وہ صاحب ( قرض دار ) واپس ہو چکے تھے۔ اگرچہ فکر اب بھی یہی تھا کہ کس طرح کوئی جہاز ملے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر میں جاسکیں۔ دوسری طرف وہ صاحب جنہوں نے قرض دیا تھا اسی تلاش میں ( بندرگاہ ) آئے کہ ممکن ہے کوئی جہاز ان کا مال لے کر آیا ہو۔ لیکن وہاں انہیں ایک لکڑی ملی۔ وہی جس میں مال تھا۔ انہوں نے لکڑی اپنے گھر میں ایندھن کے لیے لے لی۔ لیکن جب اسے چیرا تو اس میں سے دینا رنکلے اور ایک خط بھی نکلا۔ ( کچھ دنوں کے بعد جب وہ صاحب اپنے شہر آئے ) تو قرض خواہ کے گھر آئے۔ اور ( یہ خیال کرکے کہ شادی وہ لکڑی نہ مل سکی ہو دوبارہ ) ایک ہزار دینا ان کی خدمت میں پیش کر دیئے۔ اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تو برابر اسی کوشش میں رہا کہ کوئی جہاز ملے تو تمہارا مال لے کر پہنچوں لیکن اس دن سے پہلے جب کہ میں یہاں پہنچنے کے لیے سوار ہوا۔ مجھے اپنی کوششوں میں کامیابی نہیں ہوئی۔ پھرانہوں نے پوچھا اچھا یہ تو بتاؤ کہ کوئی چیز کبھی تم نے میرے نام بھیجی تھی؟ مقروض نے جواب دیا بتا تو رہا ہوں آپ کو کہ کوئی جہاز مجھے اس جہاز سے پہلے نہیں ملا جس سے میں آج پہنچا ہوں۔ اس پر قرض خواہ نے کہا کہ پھر اللہ نے بھی آپ کا وہ قرضا ادا کر دیا۔ جسے آپ نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ چنانچہ وہ صاحب اپنا ہزار دینار لے کر خوش خوش واپس لوٹ گئے۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)

باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “


2292 حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ إِدْرِيسَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ قَالَ وَرَثَةً وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الْأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ نَسَخَتْ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ إِلَّا النَّصْرَ وَالرِّفَادَةَ وَالنَّصِيحَةَ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ

ترجمہ : ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ ( قرآن مجید کی آیت لکل جعلنا موالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا کہ ( موالی کے معنی ) ورثہ کے ہیں۔ اور والذین عقدت ایمانکم ( کا قصہ یہ ہے کہ ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت و لکل جعلنا موالی نازل ہوئی تو پہلی آیت والذین عقدت ایمانکم منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم ( جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا ) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جنتی چاہے کی جاسکتی ہے۔ ( جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔ )
تشریح : یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔ شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ و اولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ ( الانفال : 75 ) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔ قال الطبری ما استدل بہ انس علی اثبات الحلف لا ینافی حدیث جبیر بن مطعم فی نفیہ فان الاخاءالمذکور کان فی اول الہجرۃ و کانوا یتوارثون بہ ثم نسخ من ذلک المیراث و بقی مالکم یبطلہ القرآن و ہو التعاون علی الحق والنصر و الاخذ علی ید الظالم کما قال ابن عباس الا النصر والنصیحۃ و الوفادۃ و یوصی لہ و قد ذہب المیراث ( فتح ) یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)

باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “


2293 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ عَنْ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَآخَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ یہاں آئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ سے کرایا تھا۔


بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ)

باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “


2294 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِي

ترجمہ : ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے ( غلط قسم کے ) عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عہد و پیمان اگر حق اور انصاف اور عدل کی بنا پر ہو تو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے مگر اس عہد وپمان میں صرف باہمی مدد و خیر خواہی مد نظر ہوگی۔ اور ترکہ کا ایسے بھائی چارہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا کہ وہ وارثوں کا حق ہے۔ یہ امردیگر ہے کہ ایسے مواقع پر حسب قائدہ شرعی مرنے والے کو وصیت کا حق حاصل ہے۔


 

بَابُ مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَيِّتٍ دَيْنًا، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ

باب : جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا،


2295 حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ قَالُوا لَا فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ قَالُوا نَعَمْ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ : ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھادی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ ضامن اپنی ضمانت سے رجوع نہیں کرسکتا۔ جب وہ میت کے قرضے کا ضامن ہو۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ابوقتادہ کی ضمانت کے سبب اس پر نماز پڑھ لی۔ اگر رجوع جائز ہوتا تو جب تک ابوقتادہ رضی اللہ عنہ یہ قرض ادا نہ کردیتے آپ اس پر نماز نہ پڑھتے۔


بَابُ مَنْ تَكَفَّلَ عَنْ مَيِّتٍ دَيْنًا، فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ

باب : جو شخص کسی میت کے قرض کا ضامن بن جائے تو اس کے بعد اس سے رجوع نہیں کرسکتا،


2296 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا فَلَمْ يَجِئْ مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَمَرَ أَبُو بَكْرٍ فَنَادَى مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ أَوْ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِي كَذَا وَكَذَا فَحَثَى لِي حَثْيَةً فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَةٍ وَقَالَ خُذْ مِثْلَيْهَا

ترجمہ : ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے محمد بن علی باقر سے سنا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر بحرین سے ( جزیہ کا ) مال آیا تو میں تمہیں اس طرح دونوں لپ بھر بھر کر دوں گا لیکن بحرین سے مال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک نہیں آیا پھر جب اس کے بعد وہاں سے مال آیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اعلان کرا دیا کہ جس سے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وعدہ ہو یا آپ پر کسی کا قرض ہو وہ ہمارے یہاں آجائے۔ چنانچہ میں حاضر ہوا۔ اور میں نے عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ وہ باتیں فرمائی تھیں۔ جسے سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر دیا۔ میں نے اسے شمار کیا تو وہ پانچ سو کی رقم تھی۔ پھر فرمایا کہ اس کے دو گنا اور لے لو۔
تشریح : سب تین لپ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لپ کا وعدہ فرمایا تھا جیسے دوسری روایت میں ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شہادات میں نکالا، اس کی تصریح ہے۔ باب کا مطلب اس سے یوں نکالا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین ہوئے تو گویا آپ کے سب معاملات اور وعدوں کے وہ کفیل ٹھہرے اور ان کو ان وعدوں کا پورا کرنا لازم ہوا۔ ( قسطلانی )


بَابُ جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَقْدِهِ

باب: نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر ؓ کو ( ایک مشرک کا ) امان دینا اور اس کے ساتھ آپ کا عہد کرنا


2297 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيْ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ إِنَّ مِثْلَكَ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ فَإِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ وَأَنَا لَكَ جَارٌ فَارْجِعْ فَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبِلَادِكَ فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَطَافَ فِي أَشْرَافِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يُكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ وَيَحْمِلُ الْكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ وَآمَنُوا أَبَا بَكْرٍ وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَلْيُصَلِّ وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا قَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ فَطَفِقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلَاةِ وَلَا الْقِرَاءَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَبَرَزَ فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا لَهُ إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِكَ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَأَعْلَنَ الصَّلَاةَ وَالْقِرَاءَةَ وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا فَأْتِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ ذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ فَإِنَّا كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلَانَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَيَّ ذِمَّتِي فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَكَرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ هَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ

ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیرو کار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کرلیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیوں کہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اند رہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کروہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کردیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑد یں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا توآپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کردیں۔ کیوں کہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کرکے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔
تشریح : یہ حدیث واقعہ ہجرت سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے، نیز اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا استقلال اور توکل علی اللہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسی شہر مکہ میں ( جہاں بیٹھ کر کعبہ مقدس میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کو انتہائی ایذائیں دی جارہی تھیں۔ جن سے مجبور ہو کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ مقدس شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اور ہجرت حبشہ کے ارادے سے برک الغماد نامی ایک مقام قریب مکہ میں پہنچ چکے تھے۔ کہ آپ کو قارہ قبیلے کا ایک سردار مالک بن دغنہ ملا۔ قارہ بنی اہون قبیلہ کی ایک شاخ تھی جو تیراندازی میں مشہورتھے۔ اس قبیلے کے سردار مالک بن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب حالت سفر میں کوچ کرتے دیکھا تو فوراً اس کے منہ سے نکلا کہ آپ جیسا شریف آدمی جو غریب پرور ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو، جو دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیتا ہو اور جو مہمان نوازی میں بے نظیر خوبیوں کا مالک ہو، ایسا نیک ترین انسان ہرگز مکہ سے نہیں نکل سکتا۔ نہ وہ نکالا جاسکتا ہے۔ آپ میری پناہ میں ہو کر واپس مکہ تشریف لے چلئے اور وہیں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ اور ابن دغنہ نے مکہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے امن دینے کا اعلان عام کر دیا۔ جسے قریش نے بھی منظور کر لیا، مگر یہ شرط ٹھہرائی کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ علانیہ نماز نہ پڑھیں۔ نہ تلاوت قرآن فرمائیں، جسے سن کر ہمارے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گھر کے اندر تنگی محسوس فرما کر باہر دالان میں بیٹھنا اور قرآن شریف پڑھنا شروع فرما دیا۔ اسی پر کفار قریش نے شکوہ وشکایتوں کا سلسلہ شروع کرکے ابن دغنہ کو ورغلایا اور وہ اپنی پناہ واپس لینے پر تیار ہو گیا۔ جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا کہ انی ارد الیک جوارک و ارضی بجوار اللہ یعنی اے ابن دغنہ ! میں تمہاری پناہ تم کو واپس کرتا ہوں اور میں اللہ پاک کی امان پر راضی ہوں۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف ہی میں موجود تھے، آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی تو بتلایا کہ جلد ہی ہجرت کا واقعہ سامنے آنے والا ہے۔ اور اللہ نے مجھے تمہاری ہجرت کا مقام بھی دکھلایا دیا ہے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ طیبہ سے تھی۔ اس بشارت کو سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹینوں کو سفر کے لیے تیا رکرنے کے خیال سے ببول کے پتے بکثرت کھلانے شروع کر دیئے۔ تاکہ وہ تیز رفتاری سے ہجرت کے وقت سفر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ آپ چار ماہ تک لگاتار ان سواریوں کو سفر ہجرت کے لیے تیار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا وقت آگیا۔ اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ ابن دعنہ نے گویا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ضمانت کی تھی، کہ ان کو مالی اور بدنی ایذا نہ پہچنے۔ حافظ فرماتے ہیں : و الغرض من ہذا الحدیث ہنا رضا ابی بکر بجوار ابن الدعنۃ و تقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہ علی ذلک ووجہ دخولہ فی الکفالۃ انہ لائق بکفالۃ الابدان لان الذی اجارہ کانہ تکفل بنفس المجار ان لا یضام قالہ ابن المنیر ( فتح ) یعنی یہاں اس حدیث کے درج کرنے سے غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کی پڑوس اور اس کی پناہ دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو ثابت رکھا۔ اور اس حدیث کو باب الکفالۃ میں داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ابدان کا کفالت میں دینا جائز ثابت ہوا۔ گویا جس نے ان کو پناہ دی وہ ان کی جان کے کفیل بن گئے کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔ اللہ کی شان ایک وہ وقت تھا اور ایک وقت آج ہے کہ مکہ معظمہ ایک عظیم اسلامی مرکز کی حیثیت میں دنیائے اسلام کے ستر کروڑ انسانوں کا قبلہ و کعبہ بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر سال بر تقریب حج 20-25 لاکھ مسلمان جمع ہو کر صداقت اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔ الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ہزم الاحزاب و حدہ فلا شی بعدہ۔ آج 22ذی الجحجہ 1389ھ کو بعد مغرب مطاف مقدس میں بیٹھ کر یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔


بَابُ الدَيْنٍ

باب : قرض کا بیان


2298 حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ قَالَ أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ

ترجمہ : ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کسی ایسے میت کو لایا جاتا جس پر کسی کا قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کیا اس نے اپنے قرض کے ادا کرنے کے لیے بھی کچھ چھوڑا ہے؟ پھر اگر کوئی آپ کو بتا دیتا کہ ہاں اتنا مال ہے جس سے قرض ادا ہو سکتا ہے۔ تو آپ اس کی نماز پڑھاتے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں ہی سے فرمادیتے کہ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح کے دروازے کھول دیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ مستحق ہوں۔ اس لیے اب جو بھی مسلمان وفات پا جائے اور وہ مقروض رہا ہو تو اس کا قرض ادا کرنا میرے ذمے ہے اور جو مسلمان مال چھوڑ جائے وہ اس کے وارثوں کا حق ہے۔
تشریح : معلوم ہوا کہ قرض داری بری بلا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وجہ سے نماز نہیں پڑھائی، اسی لیے قرض سے ہمیشہ بچنے کی دعا کرنا ضروری ہے۔ اگر مجبوراً قرض لینا پڑے تو اس کی ادائیگی کی کامل نیت رکھنا چاہئے۔ اس طرح اللہ پاک بھی اس کی مدد کرے گا۔ اور اگر دل میں بے ایمانی ہو تو پھر اللہ بھی ایسے ظالم کی مدد نہیں کرتا ہے۔


بَابُ وَكَالَةِ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي القِسْمَةِ وَغَيْرِهَا

باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا


2299 حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نُحِرَتْ وَبِجُلُودِهَا

ترجمہ : ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کی، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو میں خیرات کردوں جنہیں قربانی کیا گیا تھا۔
تشریح : اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔ اس میں صاف یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وکیل بنایا۔ اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔


بَابُ وَكَالَةِ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي القِسْمَةِ وَغَيْرِهَا

باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا


2300 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ

ترجمہ : ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالہ کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کو تقسیم کردیں۔ ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کرلے۔
تشریح : اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔


بَابُ إِذَا وَكَّلَ المُسْلِمُ حَرْبِيًّا فِي دَارِ الحَرْبِ، أَوْ فِي دَارِ الإِسْلاَمِ جَازَ

باب : اگر کوئی مسلمان دار الحرب یا دار الاسلام میں کسی حربی کافر کو اپنا وکیل بنائے تو جائز ہے


2301 حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَاتَبْتُ أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ كِتَابًا بِأَنْ يَحْفَظَنِي فِي صَاغِيَتِي بِمَكَّةَ وَأَحْفَظَهُ فِي صَاغِيَتِهِ بِالْمَدِينَةِ فَلَمَّا ذَكَرْتُ الرَّحْمَنَ قَالَ لَا أَعْرِفُ الرَّحْمَنَ كَاتِبْنِي بِاسْمِكَ الَّذِي كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَكَاتَبْتُهُ عَبْدَ عَمْرٍو فَلَمَّا كَانَ فِي يَوْمِ بَدْرٍ خَرَجْتُ إِلَى جَبَلٍ لِأُحْرِزَهُ حِينَ نَامَ النَّاسُ فَأَبْصَرَهُ بِلَالٌ فَخَرَجَ حَتَّى وَقَفَ عَلَى مَجْلِسٍ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ لَا نَجَوْتُ إِنْ نَجَا أُمَيَّةُ فَخَرَجَ مَعَهُ فَرِيقٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فِي آثَارِنَا فَلَمَّا خَشِيتُ أَنْ يَلْحَقُونَا خَلَّفْتُ لَهُمْ ابْنَهُ لِأَشْغَلَهُمْ فَقَتَلُوهُ ثُمَّ أَبَوْا حَتَّى يَتْبَعُونَا وَكَانَ رَجُلًا ثَقِيلًا فَلَمَّا أَدْرَكُونَا قُلْتُ لَهُ ابْرُكْ فَبَرَكَ فَأَلْقَيْتُ عَلَيْهِ نَفْسِي لِأَمْنَعَهُ فَتَخَلَّلُوهُ بِالسُّيُوفِ مِنْ تَحْتِي حَتَّى قَتَلُوهُ وَأَصَابَ أَحَدُهُمْ رِجْلِي بِسَيْفِهِ وَكَانَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ يُرِينَا ذَلِكَ الْأَثَرَ فِي ظَهْرِ قَدَمِهِ

ترجمہ : ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یوسف بن ماجشون نے بیان کیا، ان سے صالح بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے صالح کے دادا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے امیہ بن خلف سے یہ معاہدہ اپنے اور اس کے درمیان لکھوایا کہ وہ میرے بال بچوں یا میری جائیداد کی جو مکہ میںہے، حفاظت کرے اور میں اس کی جائیداد کی جو مدینہ میں ہے حفاظت کروں۔ جب میں نے اپنا نام لکھتے وقت رحمان کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ میں رحمن کو کیا جانوں۔ تم اپنا وہی نام لکھواؤ جو زمانہ جاہلیت میں تھا۔ چنانچہ میں نے عبد عمرو لکھوایا۔ بدر کی لڑائی کے موقع پر میں ایک پہاڑ کی طرف گیا تاکہ لوگوں سے آنکھ بچا کر اس کی حفاظت کرسکوں، لیکن بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا اور فوراً ہی انصار کی ایک مجلس میں آئے۔ انہوں نے مجلس والوں سے کہا کہ یہ دیکھو امیہ بن خلف ( کافر دشمن اسلام ) ادھر موجود ہے۔ اگر امیہ کافر بچ نکلا تو میری ناکامی ہوگی۔ چنانچہ ان کے ساتھ انصار کی ایک جماعت ہمارے پیچھے ہولی۔ جب مجھے خوف ہوا کہ اب یہ لوگ ہمیں آلیں گے تو میں نے اس کے لڑکے کو آگے کر دیا تاکہ اس کے ساتھ ( آنے والی جماعت ) مشغول رہے، لیکن لوگوں نے اسے قتل کر دیا اور پھر بھی وہ ہماری ہی طرف بڑھنے لگے۔ امیہ بہت بھاری جسم کا تھا۔ آخر جب جماعت انصار نے ہمیں آلیا ا تو میں نے اس سے کہا کہ زمین پر لیٹ جا۔ جب وہ زمین پر لیٹ گیا تو میں نے اپنا جسم اس کے اوپر ڈال دیا۔ تاکہ لوگوں کو روک سکوں، لیکن لوگوں نے میرے جسم کے نیچے سے اس کے جسم پر تلوار کی ضربات لگائیں اور اسے قتل کرکے ہی چھوڑا۔ ایک صحابنی نے اپنی تلوار سے میرے پاؤں کو بھی زخمی کردیا تھا۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اس کا نشان اپنے قدم کے اوپر ہمیں دکھایا کرتے تھے۔
تشریح : اس کا نام علی بن امیہ تھا۔ اس کی مزید شرح غزوہ بدر کے ذکر میں آئے گی۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ امیہ کافر حربی تھا۔ اور دار الحرب یعنی مکہ میں مقیم تھا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مسلمان تھے لیکن انہوں نے اس کو وکیل کیا اور جب دار الحرب میں اس کو وکیل کرنا جائز ہوا تو اگر وہ امان لے کر دار الاسلام میں آئے جب بھی اس کو وکیل کرنا بطریق اولیٰ جائز ہوگا۔ ابن منذر نے کہا اس پر علماءکا اتفاق ہے۔ کسی کا اس میں اختلاف نہیں کہ کافر حربی مسلمان کو وکیل یا مسلمان کافر حربی کو وکیل بنائے دونوں درست ہیں۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ اس نے آپ کو بے انتہا تکالیف بھی دی تھیں۔ تاکہ آپ اسلام سے پھر جائیں۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آخر تک ثابت قدم رہے یہاں تک کہ بدر کا معرکہ ہوا۔ اس میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس ملعون کو دیکھ کر انصار کو بلایا۔ تاکہ ان کی مدد سے اسے قتل کیا جائے۔ مگر چونکہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی اور اس ملعون امیہ کی باہمی خط و کتاب تھی اس لیے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اسے بچانا چاہا۔ اور اس کے لڑکے کو انصار کی طرف دھکیل دیا۔ تاکہ انصار اسی کے ساتھ مشغول رہیں۔ مگر انصار نے اس لڑکے کو قتل کرکے امیہ پر حملہ آور ہونا چاہا کہ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اس کے اوپر لیٹ گئے تاکہ اس طرح اسے بچا سکیں۔ مگر انصار نے اسے آخر میں قتل کر ہی دیا۔ اور اس جھڑپ میں حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کا پاؤں بھی زخمی ہوگیا۔ جس کے نشانات وہ بعد میں دکھلایا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پر فرماتے ہیں : و وجہ اخذ الترجمۃ من ہذا الحدیث ان عبدالرحمن بن عوف و ہو مسلم فی دار الاسلام فوض الی امیۃ بن خلف وہو کافر فی دار الحرب ما یتعلق بامورہ و الظاہر اطلاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم و لم ینکرہ و قال ابن المنذر توکیل المسلم حربیا مستامنا و توکیل الحربی المستامن مسلما لا خلاف فی جوازہ یعنی اس حدیث سے ترجمۃ الباب اس طرح ثابت ہوا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جو مسلمان تھے۔ اور دار الاسلام میں تھے۔ انہوں نے اپنا مال دار الحرب میں امیہ بن خلف کافر کے حوالہ کردیا اور ظاہر ہے کہ یہ واقعہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار نہیں فرمایا۔ اس لیے ابن منذر نے کہا ہے کہ مسلمان کا کسی امانت دار حربی کافر کو وکیل بنانا اور کسی حربی کافر کا کسی امانت دار مسلمان کو اپنا وکیل بنا لینا ان کے جوازمیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔


 

بَابُ الوَكَالَةِ فِي الصَّرْفِ وَالمِيزَانِ

باب : صرافی اور ماپ تول میں وکیل کرنا


2302 حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن بن عوف، عن سعيد بن المسيب، عن أبي سعيد الخدري، وأبي، هريرة رضى الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استعمل رجلا على خيبر، فجاءهم بتمر جنيب فقال ‏”‏أكل تمر خيبر هكذا‏”‏‏. ‏ فقال إنا لنأخذ الصاع من هذا بالصاعين، والصاعين بالثلاثة‏.‏ فقال ‏”‏لا تفعل، بع الجمع بالدراهم، ثم ابتع بالدراهم جنيبا‏”‏‏. ‏ وقال في الميزان مثل ذلك‏.

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمن بن عوف نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور ( اس سے گھٹیا قسم کی ) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ نے یہی حکم فرمایا۔
تشریح : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمن بن عوف نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور ( اس سے گھٹیا قسم کی ) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ نے یہی حکم فرمایا۔


 

بَابُ الوَكَالَةِ فِي الصَّرْفِ وَالمِيزَانِ

 

باب : صرافی اور ماپ تول میں وکیل کرنا


2303 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ فَجَاءَهُمْ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ فَقَالَ أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا فَقَالَ إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ بِعْ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا وَقَالَ فِي الْمِيزَانِ مِثْلَ ذَلِكَ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمن بن عوف نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابوسعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور ( اس سے گھٹیا قسم کی ) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ نے یہی حکم فرمایا۔
تشریح : حافظ نے کہا کہ خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا گیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔ معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا۔ ورنہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے۔


بَابُ إِذَا أَبْصَرَ الرَّاعِي أَوِ الوَكِيلُ شَاةً تَمُوتُ، أَوْ شَيْئًا يَفْسُدُ، ذَبَحَ وَأَصْلَحَ مَا يَخَافُ عَلَيْهِ الفَسَادَ

باب : چرانے والے نے یا کسی وکیل نے کسی بکری کو مرتے ہوئے یا کسی چیز کو خراب ہوتے دیکھ کر ( بکری کو ) ذبح کردیا یا جس چیز کے خراب ہوجانے کے ڈر تھا اسے ٹھیک کر دیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟


2304 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ سَمِعَ الْمُعْتَمِرَ أَنْبَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَتْ لَهُمْ غَنَمٌ تَرْعَى بِسَلْعٍ فَأَبْصَرَتْ جَارِيَةٌ لَنَا بِشَاةٍ مِنْ غَنَمِنَا مَوْتًا فَكَسَرَتْ حَجَرًا فَذَبَحَتْهَا بِهِ فَقَالَ لَهُمْ لَا تَأْكُلُوا حَتَّى أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ أُرْسِلَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَسْأَلُهُ وَأَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَاكَ أَوْ أَرْسَلَ فَأَمَرَهُ بِأَكْلِهَا قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ فَيُعْجِبُنِي أَنَّهَا أَمَةٌ وَأَنَّهَا ذَبَحَتْ تَابَعَهُ عَبْدَةُ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ

ترجمہ : ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے معتمر سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبید اللہ نے خبر دی، انہیں نافع نے، انہوں نے ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنے والد سے بیان کرتے تھے کہ ان کے پاس بکریوں کا ایک ریوڑ تھا۔ جو سلع پہاڑی پر چرنے جاتا تھا ( انہوں نے بیان کیا کہ ) ہماری ایک باندی نے ہماری ہی ریوڑ کی ایک بکری کو کو ( جب کہ وہ چر رہی تھی ) دیکھا کہ مرنے کے قریب ہے۔ اس نے ایک پتھر توڑ کر اس سے اس بکری کو ذبح کر دیا۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جب تک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں میں پوچھ نہ لوں اس کا گوشت نہ کھانا۔ یا ( یوں کہا کہ ) جب تک میں کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے نہ بھیجوں، چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا، یاکسی کو ( پوچھنے کے لیے ) بھیجا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا گوشت کھانے کے لیے حکم فرمایا۔ عبید اللہ نے کہا کہ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ باندی ( عورت ) ہونے کے باوجود اس نے ذبح کردیا۔ اس روایت کی متابعت عبدہ نے عبید اللہ کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح : سند میں نافع کی سماعت ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے۔ مزی نے اطراف میں لکھا ہے کہ ابن کعب سے مراد عبداللہ ہیں۔ لیکن ابن وہب نے اس حدیث کو اسامہ بن زید سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے ابن شہاب سے انہوں نے عبدالرحمن بن کعب بن مالک سے۔ حافظ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن ہیں۔ اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا ثبوت ملتا ہے کہ بوقت ضرورت مسلمان عورت کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور عورت اگر باندی ہو تب بھی اس کا ذبیحہ حلال ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ چاقو، چھری پاس نہ ہونے کی صورت میں تیز دھار پتھر سے بھی ذبیحہ درست ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی حلال جانور اگر اچانک کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو مرنے سے پہلے اس کا ذبح کر دینا ہی بہتر ہے۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی مسئلہ کی تحقیق مزید کر لینا بہرحال بہتر ہے۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ ریوڑکی بکریاں سلع پہاڑی پر چرانے کے لیے ایک عورت ( باندی ) بھیجی جایا کرتی تھی۔ جس سے بوقت ضرورت جنگلوں میں پردہ اور ادب کے ساتھ عورتوں کا جانا بھی ثابت ہوا۔ عبید اللہ کے قول سے معلوم ہوا کہ اس دور میں بھی باندی عورت کے ذبیحہ پر اظہار تعجب کیا جایا کرتا تھا۔ کیوں کہ دستور عام ہر قرن میں مردوں ہی کے ہاتھ سے ذبح کرنا ہے۔ سلع پہاڑی مدینہ طیبہ کے متصل دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ابھی ابھی مسجد فتح و بئر عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ پر جانا ہوا تو ہماری موٹر سلع پہاڑی ہی کے دامن سے گزری تھی۔ الحمد للہ کہ اس نے محض اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں عمر کے اس آخری حصہ میں پھر ان مقامات مقدسہ کی دید سے مشرف فرمایا۔ فللہ الحمد والشکر۔


بَابٌ: وَكَالَةُ الشَّاهِدِ وَالغَائِبِ جَائِزَةٌ

باب : حاضر اور غائب دونوں کو وکیل بنانا جائز ہے


2305 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنْ الْإِبِلِ فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ فَقَالَ أَعْطُوهُ فَطَلَبُوا سِنَّهُ فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا فَقَالَ أَعْطُوهُ فَقَالَ أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً

ترجمہ : ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے ( اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا ( مل سکا ) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔
تشریح : مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہل جزاءالاحسان الا الاحسان ( الرحمن : 60 ) کے تحت ہے


بَابُ الوَكَالَةِ فِي قَضَاءِ الدُّيُونِ

باب : قرض ادا کرنے کے لیے کسی کو وکیل کرنا


2306 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ فَأَغْلَظَ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا ثُمَّ قَالَ أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا أَمْثَلَ مِنْ سِنِّهِ فَقَالَ أَعْطُوهُ فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً

ترجمہ : ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے سنا اور انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( اپنے قرض کا ) تقاضا کرنے آیا، اور سخت سست کہنے لگا۔ صحابہ کرام غصہ ہو کر اس کی طرف بڑھے لیکن آپ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو۔ کیوں کہ جس کا کسی پر حق ہو تو وہ کہنے سننے کا بھی حق رکھتا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس کے قرض والے جانور کی عمر کا ایک جانور اسے دے دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس سے زیادہ عمر کا جانور تو موجود ہے۔ ( لیکن اس عمر کا نہیں ) آپ نے فرمایا کہ اسے وہی دے دو۔ کیوں کہ سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو دوسروں کا حق پوری طرح ادا کردے۔
تشریح : یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔ اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔ حافظ ابن حجر نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔ حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفہم۔ ( وحیدی ) اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔ آمین


بَابُ إِذَا وَهَبَ شَيْئًا لِوَكِيلٍ أَوْ شَفِيعِ قَوْمٍ جَازَ

باب : اگر کوئی چیز کسی قوم کے وکیل یا سفارشی کو ہبہ کی جائے تو درست ہے


2307 حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال وزعم عروة أن مروان بن الحكم، والمسور بن مخرمة، أخبراه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسألوه أن يرد إليهم أموالهم وسبيهم فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏أحب الحديث إلى أصدقه‏.‏ فاختاروا إحدى الطائفتين إما السبى، وإما المال، وقد كنت استأنيت بهم‏”‏‏. ‏ وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم انتظرهم بضع عشرة ليلة، حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين قالوا فإنا نختار سبينا‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏”‏أما بعد فإن إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين، وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم، فمن أحب منكم أن يطيب بذلك فليفعل، ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل‏”‏‏. ‏ فقال الناس قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏”‏إنا لا ندري من أذن منكم في ذلك ممن لم يأذن، فارجعوا حتى يرفعوا إلينا عرفاؤكم أمركم‏”‏‏. ‏ فرجع الناس فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبروه أنهم قد طيبوا وأذنوا‏.

ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ¿ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
تشریح : غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ و یوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ الی آخر الایات ( التوبۃ : 25-26 ) یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔ ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔ ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔ اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میںا نسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میںایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔


بَابُ إِذَا وَهَبَ شَيْئًا لِوَكِيلٍ أَوْ شَفِيعِ قَوْمٍ جَازَ

باب : اگر کوئی چیز کسی قوم کے وکیل یا سفارشی کو ہبہ کی جائے تو درست ہے


2308 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ وَزَعَمَ عُرْوَةُ أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ إِمَّا السَّبْيَ وَإِمَّا الْمَالَ وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِهِمْ وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْتَظَرَهُمْ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنْ الطَّائِفِ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ قَالُوا فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ هَؤُلَاءِ قَدْ جَاءُونَا تَائِبِينَ وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ بِذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ فَقَالَ النَّاسُ قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعُوا إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ فَرَجَعَ النَّاسُ فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا

ترجمہ : ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ عروہ یقین کے ساتھ بیان کرتے تھے اور انہیں مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ( غزوہ¿ حنین کے بعد ) جب قبیلہ ہوازن کا وفد مسلمان ہو کر حاضر ہوا تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کے مال و دولت اور ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پیاری ہے۔ تمہیں اپنے دو مطالبوں میں سے صرف کسی ایک کو اختیار کرنا ہوگا، یا قیدی واپس لے لو، یا مال لے لو، میں اس پر غور کرنے کی وفد کو مہلت بھی دیتا ہوں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد ان کا ( جعرانہ میں ) تقریباً دس رات تک انتظا رکیا۔ پھر جب قبیلہ ہوازن کے وکیلوں پر یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ ان کے مطالبہ کا صرف ایک ہی حصہ تسلیم کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم صرف اپنے ان لوگوں کو واپس لینا چاہتے ہیں جو آپ کی قید میں ہیں۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مطابق حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا، اما بعد ! یہ تمہارے بھائی توبہ کرکے مسلمان ہو کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب جانا کہ ان کے قیدیوں کو واپس کر دوں۔ اب جو شخص اپنی خوشی سے ایسا کرنا چاہے تو اسے کر گزرے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہم اس کے اس حصہ کو ( قیمت کی شکل میں ) اس وقت واپس کردیں جب اللہ تعالیٰ ( آج کے بعد ) سب سے پہلا مال غنیمت کہیں سے دلا دے تو اسے بھی کر گزرنا چاہئے۔ یہ سن کر سب لوگ بولے پڑے کہ ہم بخوشی رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کی خاطر ان کے قیدیوں کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح ہم اس کی تمیز نہیں کرسکتے کہ تم میں سے کسی نے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں دی ہے۔ اس لیے تم سب ( اپنے اپنے ڈیروں میں ) واپس جاؤ اور وہاں سے تمہارے وکیل تمہارا فیصلہ ہمارے پاس لائیں۔ چنانچہ سب لوگ واپس چلے گئے۔ اور ان کے سرداروں نے ( جو ان کے نمائندے تھے ) اس صورت حال پر بات کی پھر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتایا کہ سب نے بخوشی دل سے اجازت دے دی ہے۔
تشریح : غزوہ حنین فتح مکہ کے بعد8ھ میں واقع ہوا۔ قرآن مجید میں اس کا ان لفظوں میں ذکر ہے۔ و یوم حنین اذا اعجبتکم کثرتکم فلم تغن عنکم شیئا و ضاقت علیکم الارض بما رحبت ثم ولیتم مدبرین ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ الی آخر الایات ( التوبۃ : 25-26 ) یعنی حنین کے دن بھی ہم نے تمہاری مدد کی، جب تمہاری کثرت نے تم کو گھمنڈ میں ڈال دیا تھا۔ تمہارا گھمنڈ تمہارے کچھ کام نہ آیا۔ اور زمین کشادہ ہونے کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی۔ اور تم منہ پھیر کر بھاگنے لگے۔ مگر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایمان والوں پر بھی، اور ایسا لشکر نازل کیا جسے تم نہیں دیکھ رہے تھے اور کافروں کو اللہ نے عذاب کیا اور کافروں کا یہی بدلہ مناسب ہے۔ ہوا یہ تھا کہ فتح مکہ کے بعد مسلمانوں کو یہ خیال ہوگیا تھا کہ عرب میں ہر طرف اسلامی پرچم لہرا رہا ہے اب کون ہے، جو ہمارے مقابلے پر آسکے، ان کا یہ غرور اللہ کو ناپسند آیا۔ ادھر حنین کے بہادر لوگ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے اسلام کے مقابلہ پر آگئے۔ اور میدان جنگ میں انہوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کئے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ بڑی تعداد میں راہ فرار اختیار کرنے لگے۔ حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ ارشاد ہوا انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب میں اللہ کا سچا نبی ہوں جس میں مطلق جھوٹ نہیں ہے۔ اور میں عبدالمطلب جیسے نامور بہادر قریش کا بیٹا ہوا۔ پس میدان چھوڑنا میرا کام نہیں ہے۔ ادھر بھاگنے والے صحابہ کو جو آواز دی گئی تو وہ ہوش میں آئے۔ اور اس طرح جوش و خروش کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونے کو واپس لوٹے کہ میدان جنگ کا نقشہ پلٹ گیا اور مسلمان بڑی شان کے ساتھ کامیاب ہوئے اور ساتھ میں کافی تعداد میں لونڈی، غلام اور مال حاصل کرکے لائے۔ بعد میں لڑنے والوں میں سے قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کر لیا اور یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں اپنے اموال اور لونڈی غلام حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ اور طائف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرف باریابی حاصل کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ہر دو مطالبات میں سے ایک پر غور کیا جاسکتا ہے یا تو اپنے آدمی واپس لے لویا اپنے اموال حاصل کرلو۔ آپ نے ان کو جواب کے لیے مہلت دی۔ اور آپ دس روز تک جعرانہ میں ان کا انتظار کرتے رہے یہی جعرانہ نامی مقام ہے جہاں سے آپ اسی اثناءمیں احرام باندھ کر عمرہ کے لیے مکہ تشریف لائے تھے۔ جعرانہ حد حرم سے باہر ہے۔ اس دفعہ کے حج 1389ھ میں اس حدیث پر پہنچا تو خیال ہوا کہ ایک دفعہ جعرانہ جاکر دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ جانا ہوا۔ اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ شریف واپسی ہوئی اور عمرہ کرکے احرام کھول دیا۔ یہاں اس مقام پر اب عظیم الشان مسجد بنی ہوئی ہے اور پانی وغیرہ کا معقول انتظام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مطالبہ کے سلسلہ میں اپنے حصہ کے قیدی واپس کر دئیے۔ اور دوسرے جملہ مسلمانوں سے بھی واپس کرا دئیے۔ اسلام کی یہی شان ہے کہ وہ ہر حال میںا نسان پروری کو مقدم رکھتا ہے۔ آپ نے یہ معاملہ قوم کے وکلاءکے ذریعہ طے کرایا۔ اسی سے مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ثابت ہوا اور یہ بھی کہ اجتماعی قومی معاملات کو حل کرنے کے لیے قوم کے نمائندگان کا ہونا ضروری ہے۔ آج کل کی اصطلاح میں ان کو چودھری پنچ ممبر کہا جاتاہے۔ قدیم زمانے سے دنیا کی ہر قوم میںایسے اجتماعی نظام چلے آرہے ہیں کہ ان کے چودھری پنچ جو بھی فیصلہ کردیں وہی قومی فیصلہ مانا جاتا ہے۔ اسلام ایسی اجتماعی تنظیموں کا حامی ہے بشرطیکہ معاملات حق و انصاف کے ساتھ حل کئے جائیں۔


بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلٌ رَجُلًا أَنْ يُعْطِيَ شَيْئًا، وَلَمْ يُبَيِّنْ كَمْ يُعْطِي، فَأَعْطَى عَلَى مَا يَتَعَارَفُهُ النَّاسُ

باب : ایک شخص نے کسی دوسرے شخص کو کچھ دینے کے لیے وکیل کیا، لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ کتنا دے، اور وکیل نے لوگوں کے جانے ہوئے دستور کے مطابق دے دیا


2309 حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ وَغَيْرِهِ يَزِيدُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَمْ يُبَلِّغْهُ كُلُّهُمْ رَجُلٌ وَاحِدٌ مِنْهُمْ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَكُنْتُ عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ إِنَّمَا هُوَ فِي آخِرِ الْقَوْمِ فَمَرَّ بِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَنْ هَذَا قُلْتُ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ مَا لَكَ قُلْتُ إِنِّي عَلَى جَمَلٍ ثَفَالٍ قَالَ أَمَعَكَ قَضِيبٌ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ أَعْطِنِيهِ فَأَعْطَيْتُهُ فَضَرَبَهُ فَزَجَرَهُ فَكَانَ مِنْ ذَلِكَ الْمَكَانِ مِنْ أَوَّلِ الْقَوْمِ قَالَ بِعْنِيهِ فَقُلْتُ بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ بَلْ بِعْنِيهِ قَدْ أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ وَلَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ أَخَذْتُ أَرْتَحِلُ قَالَ أَيْنَ تُرِيدُ قُلْتُ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً قَدْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَهَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ قُلْتُ إِنَّ أَبِي تُوُفِّيَ وَتَرَكَ بَنَاتٍ فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْكِحَ امْرَأَةً قَدْ جَرَّبَتْ خَلَا مِنْهَا قَالَ فَذَلِكَ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ قَالَ يَا بِلَالُ اقْضِهِ وَزِدْهُ فَأَعْطَاهُ أَرْبَعَةَ دَنَانِيرَ وَزَادَهُ قِيرَاطًا قَالَ جَابِرٌ لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَكُنْ الْقِيرَاطُ يُفَارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ

ترجمہ : ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح اور کئی لوگوں نے ایک دوسرے کی روایت میں زیادتی کے ساتھ۔ سب راویوں نے اس حدیث کو جابر رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچایا بلکہ ایک راوی نے ان میں مرسلاً روایت کیا ہے۔ وہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا، میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور میں ایک سست اونٹ پر سوار تھا اور وہ سب سے آخر میں رہتا تھا۔ اتفاق سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر میری طرف سے ہوا تو آپ نے فرمایا یہ کون صاحب ہیں؟ میں نے عرض کیا جابر بن عبداللہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا بات ہوئی ( کہ اتنے پیچھے رہ گئے ہو ) میں بولا کہ ایک نہایت سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ نے فرمایا، تمہارے پاس کوئی چھڑی بھی ہے؟ میں نے کہا کہ جی ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ مجھے دے دے۔ میں نے آپ کی خدمت میں وہ پیش کر دی۔ آپ نے اس چھڑی سے اونٹ کو جو مارا اور ڈانٹا تو اس کے بعد وہ سب سے ٓاگے رہنے لگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے فروخت کردے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے مجھے فروخت کردے۔ یہ بھی فرمایا کہ چار دینار میں اسے میں خریدتا ہوں ویسے تم مدینہ تک اسی پر سوار ہو کر چل سکتے ہو۔ پھر جب مدینہ کے قریب ہم پہنچے تو میں ( دوسری طرف ) جانے لگا۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کہاں جارہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ایک بیوہ عورت سے شادی کر لی ہے آپ نے فرمایا کہ کسی باکرہ سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ میں نے عرض کیا کہ والد شہادت پاچکے ہیں۔ اور گھر میں کئی بہنیں ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ کسی ایسی خاتون سے شادی کروں جو بیوہ اور تجربہ کار ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو ٹھیک ہے، پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ بلال ! ان کی قیمت ادا کردو اور کچھ بڑھا کر دے دو۔ چنانچہ انہوں نے چار دینار بھی دئیے۔ اور فالتو ایک قیراط بھی دیا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انعام میں اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قیراط جابر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی تھیلی میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو صاف یہ نہیں فرمایا کہ اتنا زیادہ دے دو۔ مگر حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی رائے سے زمانہ کے رواج کے مطابق ایک قیراط جھکتا ہوا سونا زیادہ دیا۔ الفاظ فلم یکن القیراط یفارق جراب جابر بن عبداللہ کا ترجمہ بعض نے یوں کیا کہ ان کی تلوار کی نیام میں رہتا۔ امام مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ جب حرہ کے دن یزید کی طرف سے شام والوں کا بلوہ مدینہ منورہ پر ہوا تو انہوں نے یہ سونا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے چھین لیا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی اپنے کسی بزرگ کے عطیہ کو یا اس کی اور کسی حقیقی یادگار کو تاریخی طور پر اپنے پاس محفوظ رکھے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس حدیث سے آیت قرآنی لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم کی تفسیر بھی سمجھ میں آئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مسلمان کی ادنی تکلیف کو بھی دیکھنا گوارا نہیں فرماتے تھے۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو جب دیکھا کہ وہ اس سست اونٹ کی وجہ سے تکلیف محسوس کر رہے ہیں تو آپ کو خود اس کا احساس ہوا۔ اور آپ نے اللہ کا نام لے کر اونٹ پر جو چھڑی ماری اس سے وہ اونٹ تیز رفتار ہو گیا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی مزید دل جوئی کے لیے آپ نے اسے خرید بھی لیا۔ اور مدینہ تک اس پر سواری کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے شادی کی بابت بی گفتگو فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اس قسم کی گفتگو معیوب نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی معلوم ہوا کہ تعلیم و تربیت محمدی نے ان کے اخلاق کو کس قدر بلندی بخش دی تھی کہ محض بہنوں کی خدمت کی خاطر بیوہ عورت سے شادی کو ترجیح دی اور باکرہ کو پسند نہیں فرمایا جب کہ عام جوانوں کا رجحان طبع ایسا ہی ہوتا ہے۔ حدیث اور باب میں مطابقت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔ مسلم شریف کتاب البیوع میں یہ حدیث مزید تفصیلات کے ساتھ موجود ہے جس پر علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فیہ حدیث جابر و ہو حدیث مشہور احتج بہ احمد ومن وافقہ فی جواز بیع الدابۃ و یشترط البائع لنفسہ رکوبہا یعنی حدیث مذکور جابر کے ساتھ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے موافقین نے دلیل پکڑی ہے کہ جانور کا بیچنا اور بیچنے والے کا اس کی وقتی سواری کے لیے شرط کر لینا جائز ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ یہ جواز اس وقت ہے جب کہ مسافت قریب ہو۔ اور یہ حدیث اسی معنی پر محمول ہے۔ اسی حدیث جابر کے ذیل میں علامہ نووی دوسری جگہ فرماتے ہیں : و اعلم ان فی حدیث جابر ہذا فوائد کثیرۃ احداہا : ہذہ المعجزۃ الظاہرۃ لرسول صلی اللہ علیہ وسلم فی انبعاث جمل جابر و ا سراعہ بعد اعیائہ، الثانیۃ : جواز طلب البیع لمن لم یعرض سلعۃ للبیع، الثالثۃ : جواز المماکسۃ فی البیع، الرابعۃ : استحباب سوال الرجل الکبیر اصحابہ عن احوالہم و الا شارۃ علیہم بمصالحہم، الخامسۃ : استحباب نکاح البکر، السادسۃ : استحباب ملاعبۃ الزوجین السابعۃ فضیلۃ جابر فی ان ترک حظ نفسہ من نکاح البکر و اختار مصلحۃ اخوانہ بنکاح ثیب تقوم بمصالحہن، الثامنۃ : استحباب الابتداءبالمسجد و صلاۃ رکعتین فیہ عند القدوم من السفر التاسعۃ استحباب الدلالۃ علی الخیر المعاشرۃ استحباب ارجاع المیزان فیما یدفعہ الحادیۃ عشرۃ ان اجرۃ وزن الثمن علی البائع الثانیۃ عشرۃ التبرک بآثار الصالحین لقولہ لا تفارقہ زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الثالثۃ عشرۃ جواز تقدم بعض الجیش الراجعین باذن الامیر الرابعۃ عشرۃ جواز الوکالۃ فی اداءالحقوق و نحوہا و فیہ غیر ذلک مما سبق۔ واللہ اعلم ( نووی ) یعنی یہ حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے ایک تو اس میں ظاہری معجزہ نبوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے تھکے ہوئے اونٹ کو چست و چالاک بنا دیا۔ اور وہ خوب چلنے لگ گیا۔ دوسرا امر یہ بھی ثابت ہوا کہ کوئی شخص اپنا سامان نہ بیچنا چاہے تو بھی اس سے اسے بیچنے کے لیے کہا جاسکتا ہے، اور یہ کوئی عیب نہیں ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ اونٹ بیچنا نہیں چاہتے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کو یہ اونٹ بیچ دینے کے لیے فرمایا۔ تیسرے بیع میں شرط کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا۔ چوتھے یہ استحباب ثابت ہوا کہ بڑا آدمی اپنے ساتھیوں سے ان کے خانگی احوال دریافت کرسکتا ہے اور حسب مقتضائے وقت ان کے فائدے کے لیے مشورہ بھی دے سکتا ہے۔ پانچویں کنواری عورت سے شادی کرنے کا استحباب ثابت ہوا۔ چھٹے میاں بیوی کا خوش طبعی کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ساتویں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ انہوں نے اپنی بہنوں کے فائدے کے لیے اپنی شادی کے لیے ایک بیوہ عورت کو پسند کیا۔ آٹھواں یہ امر بھی ثابت ہوا کہ سفر سے واپسی پر پہلے مسجد میں جانا اور دو رکعت شکرانہ کی ادا کرنا مستحب ہے۔ نواں امر یہ ثابت ہوا کہ نیک کام کرنے کے لیے رغبت دلانا بھی مستحب ہے۔ دسواں امر یہ ثابت ہوا کہ کسی حق کا ادا کرتے وقت ترازو کو جھکا کر زیادہ ( یابصورت نقد کچھ زیادہ ) دینا مستحب ہے۔ گیارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ تولنے والے کی اجرت بیچنے والے کے سر ہے۔ بارہواں امر یہ ثابت ہوا کہ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر محفوظ رکھنا جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کے مطابق زیادہ پایا ہوا سونا اپنے پاس عرصہ دراز تک محفوظ رکھا۔ تیرہواں امر یہ بھی ثابت ہوا بعض اسلامی لشکر کو مقدم رکھا جاسکتا ہے جو امیر کی اجازت سے مراجعت کرنے والے ہوں۔ چودہواں امر ادائے حقوق کے سلسلہ میں وکالت کرنے کا جواز ثابت ہوا اور بھی کئی امور ثابت ہوئے جو گزر چکے ہیں۔ آثار صالحین کو تبرک کے طور پر اپنے پاس محفوظ رکھنا، یہ نازک معاملہ ہے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ وہ حقیقتاً صحیح طور پر آثار صالحین ہوں، جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو یقینا معلوم تھا کہ یہ قیراط مجھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود از راہ کرام فالتو دلایا ہے ایسا یقین کامل حاصل ہونا ضروری ہے ورنہ غیر ثابت شدہ اشیاءکو صالحین کی طرف منسوب کرکے ان کو بطور تبرک رکھنا یہ کذب اور افتراءبھی بن سکتا ہے۔ اکثر مقامات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے کچھ بال محفوظ کرکے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیا ہے۔ پھر ان سے تبرک حاصل کرنا شرک کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ ایسی مشکوک چیزوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بڑی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ حقیقت کے خلاف ہیں تو یہ منسوب کرنے والے زندہ دوزخی بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا افترا کرنے والوں کو زندہ دوزخی بتلایا ہے بصورت دیگر اگر ایسی چیز تاریخ سے صحیح ثابت ہے تو اسے چومنا چاٹنا، اس کے سامنے سر جھکانا، اس پر نذر و نیاز چڑھانا اس کی تعظیم میں حد اعتدال سے آگے گزر جانا یہ جملہ امور ایک مسلمان کو شرک جیسے قبیح گناہ میں داخل کردیتے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بلاشبہ اس کو ایک تاریخی یادگار کے طور پر اپنے پاس رکھا۔ مگر یہ ثابت نہیں کہ اس کو چوما چاٹا ہو، اسے نذ ر نیاز کا حق دار گردانا ہو۔ اس پر پھول ڈالے ہوں یا اس کو وسیلہ بنایا ہو۔ ان میں سے کوئی بھی امر ہرگز ہرگز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے پس اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کی ضرورت ہے۔ شرک ایک بدترین گناہ ہے اور باریک بھی اس قدر کہ کتنے ہی دینداری کا دعوی کرنے والے امور شرک کے مرتکب ہو کر عند اللہ دوزخ میں خلود کے مستحق بن جاتے ہیں۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ہر قسم کے شرک خفی و جلی، صغیر و کبیر سے محفوظ رکھے، آمین۔ ثم آمین


بَابُ وَكَالَةِ المَرْأَةِ الإِمَامَ فِي النِّكَاحِ

باب : کوئی عورت اپنا نکاح کرنے کے لیے بادشاہ کو وکیل کردے


2310 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ لَكَ مِنْ نَفْسِي فَقَالَ رَجُلٌ زَوِّجْنِيهَا قَالَ قَدْ زَوَّجْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابوحازم نے، انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے خود کو آپ کو بخش دیا۔ اس پر ایک صحابی نے کہا کہ آپ میرا ان سے نکاح کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہارا نکاح ان سے اس مہر کے ساتھ کیا جو تمہیں قرآن یاد ہے۔
تشریح : یہ وکالت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عورت کے اس قول سے نکالی کہ میں نے اپنی جان آپ کو بخش دی۔ داؤدی نے کہا حدیث میں وکالت کا ذکر نہیں ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر مومن اور مومنہ کے ولی ہیں بموجب آیت النبی اولی بالمومنین الخ اور اسی ولایت کی وجہ سے آپ نے اس عورت کا نکاح کر دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مہر میں تعلیم قرآن بھی داخل ہوسکتی ہے۔ اگرکچھ اس کے پاس مہر میں پیش کرنے کے لیے نہ ہو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دختر حضرت شعیب علیہ السلام کے مہر میں اپنی جان کو دس سال کے لیے بطور خادم پیش فرمایا تھا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔


بَابُ إِذَا وَكَّلَ رَجُلًا، فَتَرَكَ الوَكِيلُ شَيْئًا

باب : کسی نے ایک شخص کو وکیل بنایا پھر وکیل نے ( معاملہ میں ) کوئی چیز ( خود اپنی رائے سے ) چھوڑ دی


2311 وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ الهَيْثَمِ أَبُو عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَكَّلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ زَكَاةِ رَمَضَانَ، فَأَتَانِي آتٍ فَجَعَلَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ فَأَخَذْتُهُ، وَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنِّي مُحْتَاجٌ، وَعَلَيَّ عِيَالٌ وَلِي حَاجَةٌ شَدِيدَةٌ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عَنْهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ»، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ، وَسَيَعُودُ»، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ سَيَعُودُ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهُ سَيَعُودُ، فَرَصَدْتُهُ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعْنِي فَإِنِّي مُحْتَاجٌ وَعَلَيَّ عِيَالٌ، لاَ أَعُودُ، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ شَكَا حَاجَةً شَدِيدَةً، وَعِيَالًا، فَرَحِمْتُهُ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ كَذَبَكَ وَسَيَعُودُ»، فَرَصَدْتُهُ الثَّالِثَةَ، فَجَاءَ يَحْثُو مِنَ الطَّعَامِ، فَأَخَذْتُهُ، فَقُلْتُ: لَأَرْفَعَنَّكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ، وَهَذَا آخِرُ ثَلاَثِ مَرَّاتٍ، أَنَّكَ تَزْعُمُ لاَ تَعُودُ، ثُمَّ تَعُودُ قَالَ: دَعْنِي أُعَلِّمْكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهَا، قُلْتُ: مَا هُوَ؟ قَالَ: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ، فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255]، حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ، فَإِنَّكَ لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَنَّكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، فَأَصْبَحْتُ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا فَعَلَ أَسِيرُكَ البَارِحَةَ»، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ أَنَّهُ يُعَلِّمُنِي كَلِمَاتٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهَا، فَخَلَّيْتُ سَبِيلَهُ، قَالَ: «مَا هِيَ»، قُلْتُ: قَالَ لِي: إِذَا أَوَيْتَ إِلَى فِرَاشِكَ فَاقْرَأْ آيَةَ الكُرْسِيِّ مِنْ أَوَّلِهَا حَتَّى تَخْتِمَ الآيَةَ: {اللَّهُ لاَ إِلَهَ إِلَّا هُوَ الحَيُّ القَيُّومُ} [البقرة: 255]، وَقَالَ لِي: لَنْ يَزَالَ عَلَيْكَ مِنَ اللَّهِ حَافِظٌ، وَلاَ يَقْرَبَكَ شَيْطَانٌ حَتَّى تُصْبِحَ – وَكَانُوا أَحْرَصَ شَيْءٍ عَلَى الخَيْرِ – فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَمَا إِنَّهُ قَدْ صَدَقَكَ وَهُوَ كَذُوبٌ، تَعْلَمُ مَنْ تُخَاطِبُ مُنْذُ ثَلاَثِ لَيَالٍ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ»، قَالَ: لاَ، قَالَ: «ذَاكَ شَيْطَانٌ»

ترجمہ : اور عثمان بن ہیثم ابوعمرو نے بیان کیا کہ ہم سے عوف نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ( رات میں ) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھر بھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی ! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم ! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ( اس کے اظہار معذرت پر ) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آگیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ ابھی وہ پھر آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آکے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آگیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوہریرہ ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آگیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آکر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤگے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھاوہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آسکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر ( اس کے پڑھنے سے ) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آسکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی یہ بات سن کر ) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔
تشریح : ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صدقہ کی کھجور میں ہاتھ کا نشان دیکھا تھا۔ جیسے اس میں سے کوئی اٹھا کر لے گیا ہو۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا کیا تو اس کو پکڑنا چاہتا ہے؟ تو یوں کہہ سبحان من سخرک لمحمد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہی کہا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ میرے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اس کو پکڑ لیا۔ ( وحیدی ) معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اور اٰمن الرسول سے اخیر سورۃ تک۔ اس میں یوں ہے کہ صدقہ کی کھجور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میری حفاظت میں دی تھی۔ میں جو دیکھوں تو روز بروز وہ کم ہو رہی ہے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا شکوہ کیا، آپ نے فرمایا، یہ شیطان کا کام ہے۔ پھر میں اس کو تاکتا رہا۔ وہ ہاتھی کی صورت میں نمودار ہوا۔ جب دروازے کے قریب پہنچا تو دراڑوں میں سے صورت بدل کر اند رچلا آیا اور کھجوروں کے پاس آکر اس کے لقمے لگانے لگا۔ میں نے اپنے کپڑے مضبوط باندھے اور اس کی کمر پکڑی، میں نے کہا اللہ کے دشمن تو نے صدقہ کی کھجور اڑادی۔ دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ اس کے حقدار تھے۔ میں تو تجھ کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤں گا۔ وہاں تیری خوب فضیحت ہوگی۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ میں نے پوچھا تو میرے گھر میں کھجور کھانے کے لیے کیوں گھسا۔ کہنے لگا میں بوڑھا، محتاج، عیالدار ہوں اور نصیبین سے آرہا ہوں۔ اگر مجھے کہیں اور کچھ مل جاتا تو میں تیرے پاس نہ آتا۔ اور ہم تمہارے ہی شہر میں رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے پیغمبر صاحب ہوئے۔ جب ان پر یہ دو آیتیں اتریں تو ہم بھاگ گئے۔ اگر تو مجھ کو چھوڑ دے تو میں وہ آتیں تجھ کو سکھلا دوں گا۔ میں نے کہا اچھا۔ پھر اس نے آیت الکرسی اور اٰمن الرسول سے سورۃ بقرۃ کے اخیر تک بتلائی ( فتح ) نسائی کی روایت میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے یوں روایت ہے۔ میرے پاس کھجور کا ایک تھیلا تھا۔ اس میں سے روز کھجور کم ہو رہی تھی۔ ایک دن میں نے دیکھا، ایک جوان خوبصورت لڑکا وہاں موجود ہے۔ میں نے پوچھا تو آدمی ہے یا جن ہے۔ وہ کہنے لگا میں جن ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہم تم سے کیسے بچیں؟ اس نے کہا آیت الکرسی پڑھ کر۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر آیا۔ آپ نے فرمایا : اس خبیث نے سچ کہا۔ معلوم ہوا جس کھانے پر اللہ کا نام نہ لیا جائے اس میں شیطان شریک ہو جاتے ہیں۔ اور شیطان کا دیکھنا ممکن ہے جب وہ اپنی خلقی صورت بدل لے۔ ( وحیدی ) حافظ صاحب فرماتے ہیں : و فی الحدیث من الفوائد غیر ما تقدم ان الشیطان قد یعلم ما ینتفع بہ المومن و ان الحکمۃ قد ینلقاہا الفاجر فلا ینتفع بہا و توخذ عنہ فینتفع بہا و ان الشخص قد یعلم الشی و لا یعمل بہ و ان الکافر قد یصدق ببعض ما یصدق بہ المومنین و لا یکون بذلک مومنا و بان الکذاب قد یصدق و بان الشیطان من شانہ ان یکذب و ان من اقیم فی حفظ شی سمی وکیلا و ان الجن یاکلون من طعام الانس و انہم یظہرون للانس لکن بالشرط المذکور وانہم یتکلمون بکلام الانس و انہم یسرقون و یخدعون و فیہ فضل آیۃ الکرسی و فضل آخر سورۃ البقرۃ و ان الجن یصیبون من الطعام الذی لا یذکر اسم اللہ علیہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ شیطان ایسی باتیں بھی جانتا ہے جن سے مومن فائدہ اٹھا سکتا ہے اور کبھی حکمت کی باتیں فاجر کے منہ سے بھی نکل جاتی ہے۔ وہ خود تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا مگر دوسرے اس سے سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ اور نفع حاصل کرسکتے۔ اور بعض آدمی کچھ اچھی بات جانتے ہیں مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور بعض کافر ایسی قابل تصدیق بات کہہ دیتے ہیں جیسی اہل ایمان مگر وہ کافر اس سے مومن نہیں ہوجاتے۔ اور بعض دفعہ جھوٹوں کی بھی تصدیق کی جاسکتی ہے اور شیطان کی شان ہی یہ ہے کہ اسے جھوٹا کہا جائے اور یہ کہ جسے کسی چیز کی حفاظت پر مقرر کیا جائے اسے وکیل کہا جاتا ہے۔ اور یہ کہ جنات انسانی غدائیں کھاتے ہیں۔ اور وہ انسانوں کے سامنے ظاہر بھی ہوسکتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ جو مذکور ہوئی اور یہ بھی کہ وہ انسانی زبانوں میں کلام بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ چوری بھی کرسکتے ہیں۔ اور وہ دھوکہ بازی بھی کرسکتے ہیں اور اس میں آیت الکرسی اور آخر سورۃ بقرہ کی بھی فضلیت ہے اور یہ بھی کہ شیطان اس غذا کو حاصل کرلیتے ہیں۔ جس پر اللہ کا نام نہیں لیا جاتا۔ آج 20ذی الحجہ1389ھ میں بوقت مغرب مقام ابراہیم کے پاس یہ نوٹ لکھا گیا۔ نیز آج 5 صفر1389ھ کو مدینہ طیبہ حرم نبوی میں بوقت فجر اس پر نظر ثانی کی گئی۔ ربنا تقبل منا و اغفرلنا ان نسینا او اخطانا آمین


 

بَابٌ: إِذَا بَاعَ الوَكِيلُ شَيْئًا فَاسِدًا، فَبَيْعُهُ مَرْدُودٌ

باب : اگر وکیل کوئی ایسی بیع کرے جو فاسد ہو تو وہ بیع واپس کی جائے گی


2312 حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ هُوَ ابْنُ سَلَّامٍ عَنْ يَحْيَى قَالَ سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ عَبْدِ الْغَافِرِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ بِلَالٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَيْنَ هَذَا قَالَ بِلَالٌ كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ فَبِعْتُ مِنْهُ صَاعَيْنِ بِصَاعٍ لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَوَّهْ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا لَا تَفْعَلْ وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعْ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ ثُمَّ اشْتَرِهِ

ترجمہ : ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن سلام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہ میں نے عقبہ بن عبدالغافر سے سنا اور انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ بلال رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں برنی کھجور ( کھجور کی ایک عمدہ قسم ) لے کر آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کی دو صاع اس کی ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ نے فرمایا توبہ توبہ یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ ( اچھی کھجور ) خریدنے کا ارادہ ہو تو ( خراب ) کھجور بیچ کر ( اس کی قیمت سے ) عمدہ خریدا کر۔
تشریح : معلوم ہوا کہ ایک ہی جنس میں کمی و بیشی سے لین دین سود میں داخل ہے۔ اس کی صورت یہ بتلائی گئی کے گھٹیا جنس کو الگ نقد بیچ کر اس کے روپوں سے وہی بڑھیا جنس خرید لی جائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی یہ بیع فاسد تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر ا دیا۔ جیسا کہ مسلم کی روایت میں ہے۔ حضرت مولانا وحید الزماں نے مسلم شریف کی جس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے وہ باب الرباءمیں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ ہی کی روایت سے منقول ہے۔ جس میں یہ الفاظ ہیں : فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہذہ الرباءفردوہ۔ الحدیث یعنی یہ سود ہے لہٰذا اس کو واپس لوٹا دو۔ اس پر علامہ نووی لکھتے ہیں : ہذا دلیل علی ان المقبوض ببیع فاسد یجب ردہ علی بائعہ و اذا ردہ استرد الثمن فان قیل فلم یذکر فی الحدیث السابق انہ صلی اللہ علیہ وسلم امر بردہ فالجواب ان الظاہر انہا قضیۃ واحدۃ و امر فیہا بردہ فبعض الرواۃ حفظ ذلک و بعضہم لم یحفظہ فقبلنا زیادہ الثقۃ و لو ثبت انہما قضیتان لحملت الاولی علی انہ ایضا امر بہ و ان لم یبلغنا ذلک و لو ثبت انہ لم یامر بہ مع انہما قضیتان لحملنا ہا علی انہ جہل بائعہ و لا یمکن معرفتہ فصار مالا ضائعا لمن علیہ دین بقیمتہ وہو التمر الذی قبضہ فحصل انہ لا اشکال فی الحدیث و للہ الحمد ( نووی ) یعنی یہ امر اس پر دلیل ہے کہ ایسی قبضہ میں لی ہوئی بیع بھی فاسد ہوگی جس کا بائع پر لوٹا لینا واجب ہے اور جب وہ بیع رد ہو گئی تو اس کی قیمت خود رد ہو گئی۔ اگر کہا جائے کہ حدیث سابق میں یہ مذکور نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے رد کرنے کا حکم فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ظاہر یہی کہ قضیہ ایک ہی ہے اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا حکم فرمایا۔ بعض راویوں نے اس کو یاد رکھا اور بعض نے یاد نہیں رکھا۔ پس ہم نے ثقہ راویوں کی زیادتی کو قبول کیا۔ اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ یہ دو قضیے ہیں تو پہلے کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ آپ نے یہی حکم فرمایا تھا اگرچہ یہ ہم تک نہیں پہنچ سکا۔ اور اگر یہ ثابت ہو کہ آپ نے یہ حکم نہیں فرمایا باوجودیکہ یہ دو قضیے ہیں۔ تو ہم اس پر محمول کریں گے کہ اس کا بائع مجہول ہوگیا اور وہ بعد میں پہچانا نہ جاسکا۔ تو اس صورت میں وہ مال ضائع ہو گیا اس شخص کے لیے جس نے اس کی قیمت کا بوجھ اپنے سر پر رکھا اور یہ وہی کھجور ہیں جو اس نے قبضہ میں لی ہے۔ پس حاصل ہوا کہ حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ الحمد للہ آج 5 صفر1390ھ کو حرم نبوی مدینہ طیبہ میں بوقت فجر بہ سلسلہ نظر ثانی یہ نوٹ لکھا گیا۔


بَابُ الوَكَالَةِ فِي الوَقْفِ وَنَفَقَتِهِ، وَأَنْ يُطْعِمَ صَدِيقًا لَهُ وَيَأْكُلَ بِالْمَعْرُوفِ

باب : وقف کے مال میں وکالت اور وکیل کاخرچہ اور وکیل کا اپنے دوست کو کھلانا اور خود بھی دستور کے موافق کھانا


2313 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ فِي صَدَقَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَيْسَ عَلَى الْوَلِيِّ جُنَاحٌ أَنْ يَأْكُلَ وَيُؤْكِلَ صَدِيقًا لَهُ غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ هُوَ يَلِي صَدَقَةَ عُمَرَ يُهْدِي لِنَاسٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صدقہ کے باب میں جو کتاب لکھوائی تھی اس میں یوں ہے کہ صدقے کا متولی اس میں سے کھا سکتا ہے اور دوست کو کھلا سکتا ہے لیکن روپیہ نہ جمع کرے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صدقے کے متولی تھے۔ وہ مکہ والوں کو اس میں سے تحفہ بھیجتے تھے جہاں آپ قیام فرمایا کرتے تھے۔
تشریح : یہاں وکیل سے ناظر، متولی مراد ہے۔ اگر واقف کی اجازت ہے تو وہ اس میں سے اپنے دوستوں کو بوقت ضرورت کھلا بھی سکتا ہے اور خو دبھی کھا سکتا ہے۔


 

بَابُ الوَكَالَةِ فِي الحُدُودِ

باب : حد لگانے کے لیے کسی کو وکیل کرنا


2314 حدثنا أبو الوليد، أخبرنا الليث، عن ابن شهاب، عن عبيد الله، عن زيد بن خالد، وأبي، هريرة رضى الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏”‏واغد يا أنيس إلى امرأة هذا، فإن اعترفت فارجمها‏”‏‏.

ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ نے، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اے انیس ! اس خاتون کے یہاں جا۔ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے سنگسار کردے۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو حد لگانے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اس سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ مجرم خود اگر جرم کا اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں گواہوں کی ضرور ت نہیں ہے۔ اور زنا پر حد شرعی سنگساری بھی ثابت ہے۔


بَابُ الوَكَالَةِ فِي الحُدُودِ

باب : حد لگانے کے لیے کسی کو وکیل کرنا


2315 حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ إِلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا

ترجمہ : ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبید اللہ نے، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ضحاک اسلمی رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اے انیس ! اس خاتون کے یہاں جا۔ اگر وہ زنا کا اقرار کرلے تو اسے سنگسار کردے۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس کو حد لگانے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اس سے قانونی پہلو یہ بھی نکلا کہ مجرم خود اگر جرم کا اقرار کر لے تو اس پر قانون لاگو ہوجاتا ہے۔ اس صورت میں گواہوں کی ضرور ت نہیں ہے۔ اور زنا پر حد شرعی سنگساری بھی ثابت ہے۔


بَابُ الوَكَالَةِ فِي الحُدُودِ

باب : حد لگانے کے لیے کسی کو وکیل کرنا


2316 حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَّامٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ جِيءَ بِالنُّعَيْمَانِ أَوْ ابْنِ النُّعَيْمَانِ شَارِبًا فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ فِي الْبَيْتِ أَنْ يَضْرِبُوا قَالَ فَكُنْتُ أَنَا فِيمَنْ ضَرَبَهُ فَضَرَبْنَاهُ بِالنِّعَالِ وَالْجَرِيدِ

ترجمہ : ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن ابی ملکیہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نعیمان یا ابن نعیمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرکیا گیا۔ انہوں نے شراب پی لی تھی۔ جولوگ اس وقت گھر میں موجود تھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو انہیں مارنے کے لیے حکم دیا۔ انہوں نے بیان کیا میں بھی مارنے والوں سے تھا۔ ہم نے جوتوں اور چھڑیوں سے انہیں مارا تھا۔
تشریح : نعیمان یا ابن نعیمان کے بارے میں راوی کو شک ہے۔ اسماعیلی کی روایت میں نعمان یا نعیمان مذکور ہے۔ حافظ نے کہا اس کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری تھا۔ بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑا خوش مزاج تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو مارنے کا حکم فرمایا۔ اس سے ترجمہ باب نکلتاہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے موجود لوگوں کو مارنے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔ اسی سے حدود میں وکالت ثابت ہوئی اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔


بَابُ الوَكَالَةِ فِي البُدْنِ وَتَعَاهُدِهَا

باب : قربانی کے اونٹوں میں وکالت اور ان کا نگرانی کرنے میں


2317 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ ثُمَّ بَعَثَ بِهَا مَعَ أَبِي فَلَمْ يَحْرُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ حَتَّى نُحِرَ الْهَدْيُ

ترجمہ : ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن ابی بکر بن حزم نے، انہیں عمرہ بنت عبدالرحمن نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے اپنے ہاتھوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کے قلادے بٹے تھے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں کو یہ قلادے اپنے ہاتھ سے پہنائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جانور میرے والد کے ساتھ ( مکہ میں قربانی کے لیے ) بھیجے۔ ان کی قربانی کی گئی۔ لیکن ( اس بھیجنے کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی ایسی چیز حرام نہیں ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کیا تھا۔
تشریح : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قلادہ بٹنے میں آپ کی وکالت فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ ام المومنین رضی اللہ عنہا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحب زادی ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ام رومان بنت عامر بن عویمر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شادی 10نبوی میں مکہ شریف میں ہوئی۔ 2ھ میں ہجرت سے18ماہ بعد رخصتی عمل میں آئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ9سال رہی ہیں کیوں کہ وصال نبوی کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بہت بڑی فصیحہ فقیہ عالمہ، فاضلہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث آپ نے نقل کی ہیں۔ وقائع عرب و محاورات و اشعار کی زبردست واقف کار تھیں۔ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے ایک بڑے طبقہ نے ان سے روایات نقل کی ہیں۔ مدینہ طیبہ میں 57ھ یا 58ھ میں شب سہ شنبہ میں آپ کا انتقال ہوا۔ وصیت کے مطابق شب میں بقیع غرقد میں آپ کو دفن کیا گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ جو ان دنوں معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں مدینہ میں مروان کے ماتحت تھے۔ بقیع غرقد مدینہ کا پرانا قبرستان ہے، جو مسجد نبوی سے تھوڑے ہی فاصلہ پر ہے۔ آج کل اس کی جانب مسجد نبوی سے ایک وسیع سڑک نکال دی گئی ہے۔ قبرستان کو چاروں طرف ایک اونچی فصیل سے گھیر دیا گیا ہے۔ اندر پرانی قبریں بیشتر نابود ہو چکی ہیں، اہل بدعت نے پہلے دور میں یہاں بعض صحابہ و دیگر بزرگان دین کے ناموں پر بڑے بڑے قبے بنا رکھے تھے۔ اور ان پر غلاف، پھول ڈالے جاتے۔ اور وہاں نذر نیازیں چڑھائی جاتی تھیں۔ سعودی حکومت نے حدیث نبوی کی روشنی میں ان سب کو مسمار کردیا ہے۔ پختہ قبریں بنانا شریعت اسلامیہ میں قطعاً منع ہے اور ان پر چادر پھول محدثات و بدعات ہیں۔ اللہ پاک مسلمانوں کو ایسی بدعات سے بچائے۔ آمین


 

بَابُ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ: ضَعْهُ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، وَقَالَ الوَكِيلُ: قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ

 

باب : اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا


2318 حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ فَلَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ فَقَالَ بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا وَأَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ قَالَ أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ تَابَعَهُ إِسْمَاعِيلُ عَنْ مَالِكٍ وَقَالَ رَوْحٌ عَنْ مَالِكٍ رَابِحٌ

ترجمہ : مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرات کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیر حاء ( ایک باغ ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اتری ( تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کرسکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو ) تو ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے ﴾لن تنالوا البر حتی تنفقوا مما تحبون﴿ اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیر حاءہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ نے فرمایا، واہ واہ ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں ایسا کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے پنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے ( لفظ رائح کے بجائے ) رابح نقل کیا ہے۔
تشریح : حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔ اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کو ترجیح دی۔ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔ یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاںحاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔ و الحمد للہ علی ذلک۔


بَابُ وَكَالَةِ الأَمِينِ فِي الخِزَانَةِ وَنَحْوِهَا

باب : خزانچی کا خزانہ میں وکیل ہونا


2319 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُنْفِقُ وَرُبَّمَا قَالَ الَّذِي يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ كَامِلًا مُوَفَّرًا طَيِّبًا نَفْسُهُ إِلَى الَّذِي أُمِرَ بِهِ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ

ترجمہ : ہم سے محمد بن علاءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے برید بن عبداللہ نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امانت دار خزانچی جو خرچ کرتا ہے۔ بعض دفعہ یہ فرمایا کہ جو دیتا ہے حکم کے مطابق کامل اور پوری طرح جس چیز ( کے دینے ) کا اسے حکم ہو اور اسے دیتے وقت اس کا دل بھی خوش ہو، تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں سے ایک ہے۔
تشریح : یعنی اس کو مالک کے برابر ثواب ملے گا کہ اس نے بخوشی مالک کا حکم بجایا اور صدقہ کردیا۔ اور مالک کی طرف سے مالک کے حکم کے مطابق وہ مال خرچ کرنے میں وکیل ہوا۔ یہی منشائے باب ہے۔


بَابُ فَضْلِ الزَّرْعِ وَالغَرْسِ إِذَا أُكِلَ مِنْهُ

باب : کھیت بونے اور درخت لگانے کی فضیلت جس سے لوگ کھائیں


2320 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ح و حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ وَقَالَ لَنَا مُسْلِمٌ حَدَّثَنَا أَبَانُ حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسٌ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ : ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے عبدالرحمن بن مبارک نے بیان کیا ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے مسلم نے بیان کیا کہ ہم سے ابان نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے۔
تشریح : اس حدیث کا شان ورود امام مسلم نے یوں بیان کیا کہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم رای نخلا لام مبشر امراۃ من الانصار فقال من غرس ہذا النخل ا مسلم ام کافر فقالوا مسلم فقال لا یغرس مسلم غرسا فیاکل منہ انسان او طیر او دابۃ الا کان لہ صدقۃ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری عورت ام مبشر نامی کا لگایا ہوا کھجور کا درخت دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مسلمان کوئی درخت لگائے پھر اس سے آدمی یا پرندے یا جانور کھائیں تو یہ سب کچھ اس کی طرف سے صدقہ میں لکھا جاتا ہے۔ حدیث انس روایت کردہ امام بخاری میں مزید وسعت کے ساتھ لفظ او یزرع زرعا بھی موجود ہے یعنی باغ لگائے یا کھیتی کرے۔ تو اس سے جو بھی آدمی، جانور، فائدہ اٹھائیں اس کے مالک کے ثواب میں بطور صدقہ لکھا جاتا ہے۔ حافظ فرماتے ہیں و فی الحدیث فضل الغرس و الزرع و الحض علی عمارۃ الارض یعنی اس حدیث میں باغبانی اور زراعت اور زمین کو آباد کرنے کی فضیلت مذکور ہے۔ فی الواقع کھیتی کی بڑی اہمیت ہے کہ انسان کی شکم پری کا بڑا ذریعہ کھیتی ہی ہے۔ اگرکھیتی نہ کی جائے تو غلہ کی پیداوار نہ ہو سکے اسی لیے قرآن و حدیث میں اس فن کا ذکر بھی آیا ہے۔ مگر جو کاروبار یاد خدا اور فرائض اسلام کی ادائیگی میں حارج ہو، وہ الٹا وبال بھی بن جاتا ہے۔ کھیتی کا بھی یہی حال ہے کہ بیشتر کھیتی باڑی کرنے والے یاد الٰہی سے غافل اور فرائض اسلام میں سست ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں کھیتی اور اس کے آلات کی مذمت بھی وارد ہے۔ بہرحال مسلمان کو دنیاوی کاروبارکے ساتھ ہر حال میں اللہ کو یاد رکھنا اور فرائض اسلام کو ادا کرنا ضروری ہے۔ واللہ ہو الموفق الحمد للہ حدیث بالا کے پیش نظر میں نے بھی اپنے کھیتوں واقع موضع رہپوہ میں کئی درخت لگوائے ہیں جو جلد ہی سایہ دینے کے قابل ہونے والے ہیں۔ امسال عزیز نذیر احمد رازی نے ایک بڑکا پودا نصب کیا ہے جسے وہ دہلی سے لے گئے تھے۔ اللہ کرے کہ وہ پروان چڑھ کر صدہا سالوں کے لیے ذخیرہ حسنات بن جائے اور عزیزان خلیل احمد و نذیر احمد کو توفیق دے کہ وہ کھیتی کا کام ان ہی احادیث کی روشنی میں کریں جس سے ان کو برکات دارین حاصل ہوں گی۔ آج یوم عاشورہ محرم 1390ھ کو کعبہ شریف میں یہ درخواست رب کعبہ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ آمین یارب العالمین


 

Table of Contents