17. Hazrat Umar Bin Abdul Azeez (رحمہ اللہ)
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللّٰہ عنہ
عمر بن عبد العزیز
اھل علم کے ہاں علم و عمل زھد و تقویٰ کے پیکر اور خلفائے راشدین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
(علامہ ذھی ؒ )
اب ہم عابد, زاہد پانچویں خلیفہ کے متعلق ایسی گفتگو پیش کریں گے جو کستوری سے زیادہ خوشبودار اور خوش رنگ باغیچے سے زیادہ خوبصورت ہو گی – ان کی بے مثال سیرت اس خوش رنگ دلکش باغ کی مانند ہے کہ جس میں آپ جہاں بھی فروکش ہوں وہیں آپ کو تروتازہ گھاس, دلکش پھول اور عمدہ مزیدار خوش ذائقہ تازہ پھل دیکھائی دیتے ہیں – اگرچہ ہم یہاں ان کی مکمل سیرت کا احاطہ نہیں کر سکیں گے جس سے تاریخ کے اوراق اٹے پڑے ہیں البتہ دلفریب باغیچے سے چند کلیاں چننے کی کوشش تو ضرور کریں گے-
یہ اصولی بات ہے کہ جو چیز مکمل حاصل نہ کی جا سکے اس کے بعض حصے کو چھوڑ دینا کوئی عقلمندی نہیں – اب آپ کی خدمت میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کی دلکش اور قابل رشک زندگی کے تین محیرالعقول واقعات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے اس واقعہ کے راوی مدینہ منورہ کے جید عالم مشہور قاضی اور قابل احترام بزرگ جناب سلمہ بن دینار ہیں –
بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس گیا, وہ سر زمین شام کے مشہور شہر حلب کے معاملات کو نپٹانے میں انتہائی مصروف تھے, ان دنوں میں بھی عمر رسیدہ ہو چکا تھا – اور ان کے درمیان ملاقات کو عرصہ دراز بیت چکا تھا, میں نے انہیں اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھے دیکھا- میں انہیں پہچان نہ سکا چونکہ میں نے بہت پہلے انہیں اس وقت دیکھا تھا جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے,
انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور فرمایا- ابو حازم میرے قریب بیٹھو –
میں نے ان کے پاس بیٹھ کر کہا:
آپ عمر بن عبدالعزیز ہیں؟
فرمایا کیوں نہیں میں وہی ہوں-
میں نے کہا آپکو کیا بنی؟ کون سی بپتا ٹوٹ پڑی کس مصیبت میں گرفتار ہو گئے جب آپ مدینہ منورہ میں تھے اس وقت آپ کا چہرہ تروتازہ, جسم تنو مند اور زندگی کے لمحات نہایت خوش گوار گزر رہے تھے –
اس نے کہا آپ ٹھیک کہتے ہیں, میری صحت اس وقت بہت اچھی تھی- میں نے کہا اب چاندی سونے کے مالک بن کر , امیرالمئومنین کے عالی منصب پر فائز ہو کر آپ کو کس چیز نے یکسر بدل کر رکھ دیا –
فرمایا : ابو حازم آپ کو مجھ میں سے کونسی تبدیلی نظر آرہی ہے –
میں نے کہا : آپ کا جسم کمزور ہو چکا ہے – آپ کے چہرے پر شکن آچکے ہیں رنگ زرد ہو چکا ہے- آنکھوں کی چمک مانند پڑھ چکی ہے – یہ باتیں سن کر آپ رو پڑے اور فرمایا –
اے ابو حازم میری موت کے تین دن بعد اگر تم مجھے اس حالت میں دیکھو کہ میری آنکھوں کے ڈیلے بہہ کر میرے رخساروں پر لٹک جائیں, میرا پیٹ پھول کر پھٹ جائے, کیڑے میرے بدن کو نوچنے لگیں, تو آپ کو میری حالت کی نسبت زیادہ عجیب و غریب دیکھائی دے گی-
پھر میری طرف دیکھا اور فرمایا اے ابو حازم کیا وہ حدیث رسول علیہ السلام آپکو یاد ہے جو مدینہ منورہ میں قیام میں آپ نے مجھے سنائی تھی؟
میں نے کہا : امیرالمئومنین مدینہ منورہ میں قیام کے دوران تو بہت سی احادیث بیان کیں تھیں – آپ کونسی حدیث سننا چاہتے ہیں؟
آپ نے فرمایا وہ حدیث جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ ہیں- میں نے کہا: ہاں امیرالمئومنین وہ حدیث مجھے یاد آگئی –
فرمایا: ازراہ کرم اسے دوبارہ بیان کیجئے میں اسے سننے کا دلی اشتیاق رکھتا ہوں – میں نے وہ حدیث بیان کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ انسان کے سامنے ایک کٹھن اور دشوار گزار گھاٹی ہے اسکو وہی سر کر سکتا ہے جو چست و چالاک اور چاق و چوبند ہو اور اسکا بدن پھر تیلاا ہو-
یہ سن کر عمر بن عبدالعزیز بہت روئے, اتنا روئے کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں شدت غم سے انکا کلیجہ نہ پھٹ جائے – پھر آپ نے میرے آنسو صاف کیے اور میری طرف دیکھا اور فرمایا –
اے ابو حازم اب کیا مجھے اس بات پر ملامت کرتے ہو کہ میں نے یہ گھاٹی عبور کرنے کے لیے اپنے آپ کو دبلا پتلا کیا ہوا ہے- لیکن پھر بھی میرا خیال ہے کہ میں نجات نہ پا سکوں گا –
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی قابل رشک زندگی کا دوسرا حیرت انگیز واقعہ طبری نے طفیل بن مرداس کے حوالے سے تحریر کیا ہے, وہ لکھتے ہیں کہ جب امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز مسند خلافت پر جلوہ نشیں ہوئے
تو آپ نے وسط ایشیا کی ریاست صغر کے گورنر سلیمان کو خط لکھا کہ پہلی فرصت میں مسلمانوں کی مہمان نوازی کے لیے بڑے بڑے شہروں میں ہوٹل تعمیر کراؤ جب کوئی بھی مسلمان وہاں آئے اسے ایک دن رات ہوٹل میں بطور مہمان ٹھہراؤ, اس کی خوب خاطر مدارت کرو – اگر وہ زیادہ تھکاوٹ محسوس کرے تو اسے دو دن اور دو راتیں سرکاری خرچ پر ہر قسم کی سہولت مہیا کرو تاکہ وہ اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرے – اگر دوران سفر اس کے پاس خرچ ختم ہو چکا ہو یا اس کے پاس سواری کا بندوبست نہ ہو تو اس کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے خرچ اور سواری مہیا کرو – اور اسے گھر تک با عزت طریقے سے پہنچانا حکومت کا فرض ہے, گورنر نے امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے معروف شہروں میں عالی شان ہوٹل تعمیر کروائے جس کی خبر ہر جگہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی بلاد اسلامیہ کے مشرق و مغرب میں آباد لوگوں میں امیرالمومنین کی فیاضی, عدل و انصاف اور رحم دلی کے متعلق چرچا ہونے لگا, لیکن سمر قند کے باشندوں کے چہرے اترے ہوئے تھے, انہوں نے گورنر سلیمان کے پاس وفد بھیجا, اس نے گورنر سے کہا:
آپ کے پیش رو جرنیل قتیبہ بن مسلم باھلی کا دور ہمارے لیے باعث رحمت تھا ہمیں کسی قسم کی ذلت سے دو چار نہ ہونا پڑا –
ہمیں پتہ چلا ہے کہ تم اپنے دشمنوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہو – اگر وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیں تو تم انہیں جزیہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہو – اور اگر وہ اس سے بھی انکاری ہوں, تو تم انکے خلاف اعلان جنگ کر دیتے ہو-
ہم تمہارے خلیفہ کے عدل و انصاف کو دیکھ کر لشکر کے خلاف کوئی شکوہ شکایت کی جرات نہ کر سکے لیکن چند اشخاص نے ہم پر ظلم کیا جس کی فریاد لے کر آپکی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں, ہمیں خلیفتہ المسلمین سے ملاقات کرنے کی اجازت دیں تاکہ ہم ظلم و جبر کے خلاف ان کی خدمت میں فریاد کر سکیں –
اگر ہم حق پر ہوئے تو ہماری داد رسی ہو جائیگی اور اگر نا حق ہوئے تو واپس لوٹ آئیں گے گورنر سلیمان نے وفد کو امیرالمومنین سے ملنے کی اجازت دے دی وفد نے دارالحکومت دمشق پہنچ کر اپنا مقدم خلیفتہ المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں پیش کیا – خلیفہ نے تمام روئیداد سن کر اپنے گورنر سلیمان کو خط لکھا جس میں یہ تحریر تھا –
جونہی یہ خط آپکے پاس پہنچے آپ اسی وقت سمر قند میں ان کی شکایات سننے کے لیے ایک قاضی بٹھا دیں, اگر قاضی ان کے حق میں فیصلہ دے دے تو پھر آپ لشکر اسلام کو ان کا شہر خالی کرنے کا حکم دیں اور جن مسلمانوں نے انکے گھروں پر قبضہ کیا ہے وہ فوری طور پر خالی کر کے وہاں چلے جائیں گے جہاں قتیبہ بن مسلم باھلی کے دور میں رہائش پذیر تھے –
جب وفد نے گورنر سلیمان کو امیرالمومنین کا خط دیا تو انہوں نے رئیس القصناہ جمیع بن حاصر کو سمر قند پہنچ کر وہاں کے باشندوں کی شکایات سننے کے لیے کہا, انہوں نے اس قوم کے شکوے شکایات سنے لشکر اسلام کے کمانڈروں کے بیانات قلمبند کیے, طرفین کے بیانات سے صحیح صورت حال کھل کر سامنے آ گئی,
لہزا قاضی جمیع نے سمر قند کے باشندوں کے حق میں فیصلہ دے دیا –
گورنر سلیمان نے لشکر اسلام کو ان کے گھر خالی کر دینے اور انہیں فورا چھاونی میں واپس آجانے کا حکم صادر کر دیا اور ساتھ ہی یہ کہا کہ اب دوبارہ کسی مناسب موقع پر ان سے نبرد آزما ہونا یا پھر صلح کی بنیاد پر اس علاقے میں داخل ہونا یا لڑائی میں کامیابی حاصل کر کے – جب سمر قند میں آباد اس قوم کے سرداروں نے مسلمانوں کے قاضی کے فیصلہ کے مطابق گورنر کا حکم سنا تو آپس میں چہ منگوئیاں کرنے لگے . وہ اپنی قوم سے کہنے لگے افسوس صد افسوس تم مسلم قوم کیساتھ مل جل کر رہے تم نے ان کے اخلاق, سیرت, عدل و انصاف اور صداقت و حق گوئی کا مشاہدہ کیا – کیا ہوا اگر انہوں نے چند مکانوں پر قبضہ کر لیا -آخر انہیں سر چھپانے کے لیے جگہ چاہیے-
ہماری مانو انہیں اپنے پاس رہنے دو, انہیں یہاں سے واپس نہ جانے دو, ان کی رفاقت تمارے لیے باعث آرام و برکت ہو گی, انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے, تم اپنے پاؤں پر کیوں کلہاڑی چلا رہے ہو – کچھ سوچو مسلمانوں کا یہاں سے یوں چلے جانا تمہارے مستقبل کے لیے بہتر نہ ہو گا –
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی زندگی کا تیسرا حیرت انگیز واقعہ ابن عبدالحکیم نے اپنی کتاب سیرت عمر بن عبدالعزیز میں تحریر کیا ہے –
لکھتے ہیں کہ جب امیرالمومنین کی وفات کا وقت قریب آیا تو مسلمہ بن عبدالملک ان کے پاس آئے –
اور کہا اے امیرالمومنین آپ نے اپنی اولاد کے مونہہ سے نوالے چھین لیے اور مال و دولت سے انہیں محروم کر دیا, کتنا ہی اچھا ہو اگر آپ مجھے یا اپنے خاندان میں سے کسی اور کو اولاد کے متعلق وصیت کر جائیں – جب اس نے اپنی بات ختم کر لی تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشاد فرمایا مجھے ذرا سہارا دے کر بٹھاو, جب آپ بیٹھ گئے تو ارشاد فرمایا اے مسلمتہ میں نے تمہاری پوری بات سنی ہے, آپ کا یہ کہنا کہ میں نے اپنی اولاد کو مال و دولت سے محروم کر دیا ہے, اور ان کے منہ سے کھانے کے نوالے چھین لیے ہیں, قطعا درست نہیں ہے, اللّٰہ کی قسم میں نے ان کا کوئی حق نہیں مارا اور نہ ہی میں نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہے جن پر ان کا کوئی حق نہیں بنتا, رہا آپ کا یہ مشورہ کہ میں تجھے یا اپنے خاندان میں سے تجھ سے بہتر کسی شخص کو ان کے متعلق وصیت کر جاؤں تو خوب اچھی طرح سن لو, میرا وارث اور کار ساز وہ اللّٰہ ہے جس نے برحق کتاب نازل کی, اور وہی نیک لوگوں کا مدد گار ہے-
اے مسلمہ خوب اچھی طرح جان لو میرے بیٹوں کی دو صورتیں ہیں, یا وہ متقی صالح اور پرہیز گار ہوں گے بایں صورت اللّٰہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں غنی کر دے گا, اور بہتر راستے پر چلنے کی توفیق دے گا, یا وہ بد قماش, بد معاش اور گناہوں کے رسیا ہونگے تو اس صورت میں مال و دولت انکے حوالے کر کے گناہ آلود زندگی میں ان کا معاون نہیں بن سکتا-
پھر فرمایا میرے پاس میرے بیٹوں کو بلاو, بیٹے بلائے گئے-
تعداد تقریباً انیس تھی جب انہیں اپنے پاس کھڑے دیکھا تو خلیفہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا ہائے میں نے اپنے بیٹوں کو کنگال و مفلس کر دیا۔ پھر انکی طرف دیکھ کر اشارہ فرمایا: پیارے بچو میں نے تمھارے لیے بہت کچھ چھوڑا ہے پیارے بیٹو!
تم پورے ملک میں جہاں بھی جاؤ گے تمھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ہر کوئی تمھاری خدمت کرنے کو اپنے لیے سعادت سمجھے گا ۔ میرے نزدیک نیک نامی بہت بڑی دولت ہے ۔
میرے پیارے بیٹو اب دو چیزوں میں تمھیں پورا اختیار ہے یا تو نگری حاصل کر لو ۔ اور تمھارا باپ اس کی وجہ سے جہنم رسید کر دیا جائے ۔
یا فقرو فاقہ اختیار کر لو اور اس وجہ سے تمھارا باپ جنت میں داخل کر دیا جائے ۔ میرا خیال ہے کہ تم اپنے بابے کو جہنم سے آزاد کرانے کو اپنی مالداری و نگری پر ترجیح دو گے پھر ان کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھا اور ارشاد فرمایا ۔
اٹھو اللّٰہ تمھارا نگہبان ہو، اٹھو اللّٰہ تمھیں وافر رزق عطا کرے۔ مسلمہ نے امیر المؤمنین کی طرف دیکھا اور کہا:
امیر المؤمنین میرے پاس انہیں دینے کے لیے بہتر چیز موجود ہے ۔ فرمایا وہ کیا اس نے کہا میرے پاس تین لاکھ دینار ہیں، میں یہ آپکو ہبہ کرتا ہوں آپ نے یہ رقم بطور صدقہ تقسیم کر دیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز علیہ الرحمہ نے ارشاد فرمایا: اے مسلمہ میرے پاس اس سے بہتر تجویز ہے، اس نے کہا وہ کیا:
فرمایا یہ دینار جس سے چھینے ہیں اسے واپس کر دو تیرا ان پر کوئی حق نہیں یہ سن کر مسلمہ کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے ۔ اور کہا امیر المؤمنین آپ پر اللّٰہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتیں نازل ہوں ، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی آپ نے ہمارے سخت دلوں کو نرم کر دیا بھولا ہوا سبق ہمیں یاد دلا دیا، اور آپ کی تربیت سے ہمیں صالحین کے زمرے میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی ۔
لوگوں نے خلیفتہ المسلمین کی وفات کے بعد اس کے تمام بیٹوں کے معاشی حالات دیکھے ان میں سے کسی کو نہ محتاج دیکھا اور نہ ہی فقیر و مفلس ، اللّٰہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ۔
وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا (النساء)
ترجمہ:۔ لوگوں کو اس بات کا خیال کرکے ڈرنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑتے اور مرتے وقت انہیں اپنے بچوں کے حق میں کیسے کچھ اندیشے لاحق ہوتے وہ کا خوف کریں اور راستی کی بات کریں۔ (نساء)
حضرت عمر بن عبد العزیز کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
١- سیرت عمر بن عبدالعزیز (ابن عبدالحکیم)
٢- تاریخ الفسوی ٥٦٨/۱- ٦٢۵
٣- سیرت عمر بن عبدالعزیز( ابن جوزی)
٤- الطبری ٥٦٥/٦ -٥٧٣
٥- سیرت عمر بن عبدالعزیز (آجری)
٦- الجرح والتعدیل۔ ١٢٢/٦
٧- طبقات ابن سعد۔ ٣٣٠/٥
٨- طبقات شیرازی ٦٤
٩- تاریخ خلیفہ ٣٣١- ٣٣٢
١٠- التاریخ الکبیر ١٧٤/٦
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر