20. Hazrat Qasim Bin Muhammad Bin Abu Bakar Siddique (رحمہ اللہ )
حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا
اگر میرے اختیار میں ہوتا تو قاسم بن محمد کو خلیفہ مقرر کر دیتا
عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ
کیا آپ اس جلیل القدر تابعی کے متعلق کچھ جانتے ہیں؟
یہ ایک ایسا نوجوان ہے کہ:
ہر جانب سے مہبد و شرف اس پر آکر مرکوز ہو جاتا ہے وہ اس طرح کہ:
اس کے دادا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہے
اس کی والدہ ایران کے آخری حکمران یزد جر کی بیٹی ہے۔
اس کی پھوپھو بھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا ان تمام تر خصوصیات سے بڑھ کر یہ تقویٰ اور علم کے زیور سے آراستہ تھے۔
کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور شرف ہو سکتا ہے کہ جس کے حصول کے لئے لوگ کوشاں ہوں یہ ہیں قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا
سات فقہائے مدینہ میں سے ایک _
اپنے دور کے سب سے بڑے عالم _
علمامیں سب سے بڑھ کر ذہین_
آئی ان کے داستان حیات کے بیان کا آغاز کرتے ہیں۔
حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ تعالی عنہ امیرالمومنین حضرت عثمان بن حضرت عفان رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت کے آخری ایام میں پیدا ہوئے۔
یہ ننھا سا بچہ ابھی پنگھوڑ ا جول رہا تھا کہ مسلمانوں کے گھروں پر ہولناک فتنے کی تیز آندھی چلی. عابد ‘ زاہد ‘ ذوالنورین اور رقیق القلب خلیفہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہا کو اس حال میں شہید کردیا گیا۔
جب کہ وہ صحیفہ آسمانی قرآن مجید پر جھکے ہوئے اس کی تلاوت کر رہے تھے۔
امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور سرزمین شام کے گورنر امیر معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان شادت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی وجہ سے شدید اختلافات پیدا ہو گئے۔
خونریز جھڑیوں کا آغاز ہوا۔ دونوں طرف مسلمانوں کا خون بہنے لگا ہولناک اور اذیت ناک واقعات رونما ہونے لگے ۔ اس خون آشام دور میں اس بچے اور اس کی بہن کو مدینہ سے مصر منتقل کردیا۔ کیونکہ ان کے ابا جان کو امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے مصر کا گورنر مقرر کر دیا تھا۔ پھر اس خونی فتنے کے استسبدادی نیچے اس کے ابا جان کی طرف بڑھے اور اس سے بری طرح اپنے شکنجے میں لے کر قتل کر دیا۔
جب امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہی غالب آئے تو اسے دوبارہ مصر سے مدینہ منورہ منتقل کر دیا گیا۔ اب یہ یتیم ہو چکے تھے۔
حضرت قاسم آپ نے اس اذیت ناک سفر کی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
جب میرے ابا جان کو مصر میں قتل کر دیا گیا میرے چچا عبدالرحمان ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہا تشریف لائے مجھے اور میری چھوٹی بہن کو گود میں لیا اور مدینہ روانہ ہوئے جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو میری پھوپھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا ہمیں چچا کے گ سے اٹھا کر اپنے گھر لے گئیں اور اپنی نگرانی میں ہماری پرورش کرنے لگی میں نے ان سے بڑھ کر کسی ماں یا باپ کو اپنی اولاد پر شفقت کرنے والا نہ دیکھا۔
یہ اپنے ہاتھ سے ہمیں کھانا کھلاتیں اور خود ساتھ نہ کھاتیں بلکہ جب کھانا ہم سے بچ جاتا تو پھر آپ تناول کرتیں۔
یہ ہمارے ساتھ اس طرح شفقت سے پیش آتیں جیسے دودھ پلانے والی ماں اپنے دودھ پیتے بچے پر شفقت و محبت نچھاور کرتی ہے۔
ہمیں نہلاتیں، ہمارے بالوں میں کنگھی کرتیں اور صاف ستھرے چمکیلے سفید کپڑے پہناتیں، ہمیں ہر وقت نیکی کرنے کی ترغیب دلاتیں اور کار خیر کرنے کی تربیت دیتیں اور برے کاموں سے منع کرتیں اور ان سے باز رہنے کی تلقین کرتی رہتیں۔
قرآن مجید کی آیات کے ذریعے ہمیں اس آسان اور عام فہم انداز میں تلقین کرتیں کہ ہم آسانی سے سمجھ جاتے اور ہمیں حدیث رسول (ﷺ) کو روایت کرنے کی تربیت دیتیں۔
عیدین میں دل کھول کر ہمیں تحائف سے نوازتیں ، ۹ ذی الحجہ عرفہ کی شام کو میری حجامت بنواتیں، مجھے اور میری بہن کو نہلاتیں، ۱۰ ذی الحجہ عید کے دن ہمیں نئے کپڑے پہناتیں۔
اور نماز عید پڑھنے کے لیے پیار بھرے انداز میں روانہ کرتیں جب ہم عید کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے تو میرے اور میری بہن کے سامنے قربانی کا جانور ذبح کرواتیں۔
ایک روز آپ نے ہمیں سفید کپڑے پہنائے، مجھے آپ نے ایک گھٹنے پر بٹھالیا اور میری بہن کو دوسرے گھٹنے پر اور ہمارے چچا عبد الرحمان کو بلایا جب وہ اندر تشریف لائے آپ نے اسے سلام کہا اور حمد و ثناء کے بعد ایسی خوش اسلوبی، فصاحت و بلاغت سے گویا ہوئیں کہ میں نے ایسی رسیلی رس بھری گفتگو پہلے کسی سے نہ سنی تھی، آپ نے ارشاد فرمایا، بھائی جان جب سے میں نے یہ دو نو نہل آپ سے پکڑ کر اپنی گود میں لیے میں نے محسوس کیا کہ آپ کو یہ ناگوار گذرا اور آپ قدرے مجھ سے کھچے کھچے رہنے لگے۔
اللہ کی قسم اس سے آپکو کوئی تکلیف دینا مقصود نہ تھی، نہ ہی آپ پر کوئی برتری جتلانا مطلوب تھی، نہ ہی کوئی بد گمانی اور نہ ہی یہ پیش نظر تھا کہ آپ ان کی پرورش میں کوئی کوتاہی کریں گے۔ بلکہ میں نے سوچا آپ عیالدار آدمی ہیں یہ چھوٹے بچے ہیں خود اپنا آپ سنبھال نہیں سکتے ، مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں آپ کی بیویاں انہیں اپنے لیے بوجھ نہ سمجھیں۔
میں نے سوچا کہ اس صورت حال میں سب سے زیادہ مجھ پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ان کی دیکھ بھال کروں۔
اب ماشاء اللہ یہ جوان ہو چکے ہیں ، اپنا آپ سنبھال سکتے ہیں اب آپ انہیں اپنے ہمراہ لے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمارے چچا عبد الرحمان ہمیں اپنے گھر لے گئے۔
لیکن اس صدیقی نوجوان کا دل اپنی پھوپھی ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضیﷲعنہا کے گھر کے ساتھ وابستہ رہا۔
اس گھر کی گلزار نبوت سے معطر فضا میں پرورش پائی۔
صدیقہ کائنات اور نبی آخر الزماں کی رفیقہ حیات کی گود میں پروان چڑھے انکے میٹھے چشمے سے سیراب ہوئے۔
دن کا کچھ حصہ چچا کے گھر گزارتے اور باقی حصہ اپنی پھوپھی کے
اپنی پھوپھی کے گھر کی کستوری کی خوشبو میں لپٹی ہوئی اور موتیوں کی طرح چمکتی ہوئی یادداشتیں زندگی بھر نہاں خانہ دل میں رچی بسی رہیں۔
ان روح پرور داستانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دن اپنی پھوپھی حضرت عائشہ رضیﷲعنہا سے کہا۔
اماں جان: نبی اکرم (ﷺ) اور آپ کے دونوں جانثار ساتھیوں کی قبروں سے پردہ ہٹائیں، میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ان کی زیارت میرا دلی شوق ہے۔ یہ تینوں قبریں حضرت عائشہ رضیﷲعنہا کے حجرے میں بنائی گئی تھیں اور انہیں کپڑے سے ڈھانپا ہوا تھا انہوں نے تینوں قبروں سے پردہ ہٹایا میں نے دیکھا کہ نہ وہ زیادہ اونچی تھیں اور نہ ہی زمین کے ساتھ لگی ہوئیں اور ان پر سرخ رنگ کے وہ سنگریزے پھیلائے ہوئے تھے جو مسجد نبوی کے صحن میں بچھائے ہوئے تھے۔
میں نے پوچھا: رسول ﷲ (ﷺ) کی قبر کون سی ہے؟
انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا یہ!
یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، لیکن جلدی سے انہیں صاف کرنے لگیں تاکہ میں نہ دیکھ نہ لوں۔ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اپنے دونوں ساتھیوں کی قبروں سے قدرے آگے بڑھا کر بنائی گئی تھی۔
میں نے پوچھا میرے دادا جان حضرت ابو بکر صدیق اللہ کی قبر کونسی ہے؟
آپ نے فرمایا: وہ یہ ہے۔
آپ کو نبی اکرم (ﷺ) کے سر مبارک کے نزدیک دفنایا گیا۔
میں نے کہا یہ حضرت عمر رضىﷲعنه کی قبر ہے۔
آپ نے فرمایا: ہاں۔
حضرت عمر رضىﷲعنه کا سر میرے دادا جان کے سینے اور نبی اکرم (ﷺ) کے مبارک قدموں کے قریب تھا۔
جب یہ صدیقی ہونہار بروا جوانی کو پہنچا تو یہ قرآن مجید حفظ کر چکا تھا اور اپنی پھوپھی حضرت عائشہ رضیﷲعنہا سے حدیث رسول (ﷺ) کا علم بھی کافی حد تک حاصل کر چکا تھا۔
پھر وہ مزید علم حاصل کرنے کے لیے مسجد نبوی میں پھیلے ہوئے علمی حلقوں کی طرف متوجہ ہوا یہ علمی حلقے مسجد نبوی کے صحن میں اس طرح جگمگا رہے تھے جیسے آسمان پر ستارے۔
اس صدیقی نوجوان، عالم، فقیہہ نے حضرت ابو ہریرة رضىﷲ عنه ، حضرت عبداللہ بن عمر رضىﷲ عنه ، حضرت عبداللہ بن عباس رضىﷲ عنه ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضىﷲعنه ، حضرت عبد الله بن جعفر رضىﷲعنه ، حضرت عبد الله بن خباب رضىﷲعنه ، حضرت رافع بن خدیج رضىﷲعنه اور حضرت اسلم مولی عمر بن خطاب رضىﷲ عنه سے حدیث روایت کی یہاں تک کہ یہ مجتہد امام کے منصب پر فائز ہوئے یہ اپنے دور کے سب سے بڑے عالم، فقیمہ اور محدث کہلائے جب یہ صدیقی نوجوان علم و معرفت کے اعلی و ارفع مقام پر فائز ہوئے تو لوگ ان سے علم حاصل کرنے کے لیے دیوانہ وار ان کی طرف لپکے اور انہوں نے بھی بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حصول علم کے لیے آنے والوں پر اپنی توجہ مبذول کی۔
یہ ہر روز صبح کے وقت مسجد نبوی تشریف لاتے اور کبھی ناغہ نہ کرتے۔ دو رکعت نماز پڑھتے پھر یہ روضہ رسول (ﷺ) اور منبر کے درمیان اپنی مسند علم پر براجمان ہو جاتے، ہر جانب سے آنے والے طلبہ کا یہاں ہجوم رہتا۔ اور اس کے صاف شفاف میٹھے چشمے سے پیاسے اپنی پیاس بجھاتے۔ اور جی بھر کر علم و معرفت کے جام نوش جان کرتے۔ تھوڑے ہی عرصے میں قاسم بن محمد اور ان کے خالہ زاد بھائی عبداللہ بن عمر مدینہ کے قابل اعتماد امام مشہور ہوئے۔ لوگوں کے دلوں پر ان کی حکومت تھی۔ حالانکہ یہ حکومت و سلطنت کے کسی عہدے پر فائز نہ تھے۔ لوگوں نے انہیں اپنا سردار بنا لیا کیونکہ یہ تقوی و طہارت کے زیور سے آراستہ تھے ‘ ان کا سینہ علم و فقہہ سے منور تھا ۔ یہ لوگوں سے بے نیاز اور اللہ تعالی کے ہر دم نیاز مند رہتے
ان کے بلند مرتبے کا آپ یہاں سے اندازہ لگائیں کے بنو امیہ کے حکمران امور سلطنت میں سے ہر اہم معاملہ ان کی رائے سے نکل پٹاتے۔
جیسا کہ ولید بن عبدالملک نے جب مسجد نبوی کی توسیع کا ارادہ کیا تو یہ توسیع اس وقت تک ممکن نہ تھی جب تک اسے چاروں طرف سے منہدم نہ کر دیا جاتا ۔ اور ازواج مطہرات کے گھروں کو گرا کر مسجد میں شامل نہ کر دیا جاتا یہ بات عام لوگوں کے لیے ناگوار تھی ‘ ان کے دل اس اقدام پر خوش نہ تھے۔ ولید بن عبدالملک نے مدینہ کے گورنر حضرت عمر بن عبد العزیز کی طرف خط لکھا کہ میں مسجد نبوی کی دو سو ضرب دو سو گز کے حساب سے توسیع کرنا چاہتا ہوں۔ اس کی چاروں جانب سے دیوار میں گرا دیں اور ازواج مطہرات کے حجرے مسجد میں شامل کر دیں اور مسجد کے قرب و جوار کے گھر بھی خرید لیں۔ ہو سکے تو قبلے کی طرف مسجد کو مزید آگے بڑھا دیں۔
آپ یہ کام بخوبی کر سکتے ہیں، کیونکہ لوگوں کے دلوں میں آپ کی محبت ہے۔ اگر مدینہ والے پھر بھی انکار کریں تو قاسم بن محمد اور سالم بن عبداللہ بن عمر کا تعاون حاصل کر لینا ، لوگوں کے گھروں کی قیمتیں فورا ادا کریں اور اس کی ادائیگی میں سخاوت کا ثبوت دیں۔ آپ کو اس کا مکمل اختیار ہے۔ یہ کام سر انجام دینے کے لیے حضرت عمر بن خطاب رضىﷲعنه اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنما کا صداقت پر مبنی نمونہ آپ کے سامنے ہے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضىﷲعنه نے قاسم بن محمد سالم بن عبد اللہ اور مدینہ منورہ کی دیگر ممتاز شخصیات کو بلایا اور ان کے سامنے امیر المومنین کا خط پڑھ کر سنایا۔ مسجد نبوی کی توسیع سے متعلق خلیفہ کا عزم سن کر سب نے مسرت کا اظہار کیا اور اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے سب تیار ہو گئے۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ مدینہ کے دو عظیم المرتبت عالم اپنے ہاتھوں سے مسجد نبوی کی دیواریں گرا رہے ہیں۔ تو سب لوگ فرد واحد کی طرح آگے بڑھے تا کہ مسجد نبوی کی توسیع کے لیے زمین کو ہموار کیا جائے۔ اس وقت لشکر اسلام استنبول کے مضبوط قلعوں پر دستک دے رہا تھا۔ اور یکے بعد دیگرے بہلاور جرنیل مسلمہ بن عبد الملک بن مروان کی قیادت میں نواحی علاقہ جات کے قلعے فتح کر رہا تھا۔ یہ در اصل استنبول کو فتح کرنے کی تمہید تھی۔
جب روم کے بادشاہ کو امیر المومنین کے مسجد نبوی کی توسیع کے منصوبے کا علم ہوا تو اس نے قرب حاصل کرنے کے لیے ایک لاکھ مثقل سونا سو ماہر معمار مزدوروں کی ایک کھیپ اور کافی مقدار میں اعلی قسم کا سنگ مر مر امیر المومنین ولید بن عبد الملک کی طرف روانہ کیا ولید نے یہ تمام سامان حضرت عمر بن عبد العزیز کی طرف مدینہ بھیج دیا تا کہ وہ اسے مسجد نبوی کی تعمیر میں استعمال کرے حضرت عمر بن عبد العزیز رضىﷲعنہ نے حضرت قاسم بن محمد اور حضرت سالم بن عبد اللہ کے مشورے سے یہ قیمتی سامان مسجد نبوی میں استعمال کیا۔
حضرت قاسم بن محمد عادات و خصائل میں ہو بہو اپنے دادا حضرت صدیق اکبر رضىﷲعنہ سے مشابہت رکھتے تھے۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ حضرت صدیق اکبر رضىﷲعنہ کے خاندان میں یہ لڑکا اخلاق و اطوار کی پاکیزگی ، ایمان و تقوی کی مضبوطی ، فراخی دل اور سخاوت میں بالکل صدیق اکبر رضىﷲعنہ کی نشانی ہے۔
بہت سے اقوال و افعال اس پر شاہد ہیں۔
ایک بدوی نے مسجد میں ان سے سوال کیا۔
تم بڑے عالم ہو یا سالم بن عبداللہ ؟
آپ نے اس سوال کے جواب میں چشم پوشی اختیار کی۔
اس نے دوبارہ سوال کیا۔ تو آپ نے جواب میں صرف سبحان اللہ کہا۔ اس نے تیسری مرتبہ سوال دہرایا ، تو آپ نے صرف یہ ارشاد فرمایا :
دیکھو بھائی وہ سالم وہاں بیٹھے ہیں۔ ان سے دریافت کر لو۔
در اصل آپ اپنے منہ سے یہ کہنا انہیں ناپسند تھا کہ میں سالم سے بڑھا عالم ہوں اور یہ بھی کہنا نہیں چاہتے تھے کہ وہ بڑھا عالم ہے۔ اس طرح یہ جھوٹ ہو جاتا کیونکہ حقیقت میں ان کا درجہ میدان علم میں سالم سے بڑا تھا۔
ایک دن منی میں یہ منظر دیکھا گیا کہ حضرت قاسم تشریف فرما ہیں چاروں طرف سے حجاج کرام مسائل دریافت کرنے کے لیے سوالات کر رہے ہیں۔ جن مسائل کا انہیں علم تھا وہ جواب دے رہے ہیں اور جن کا علم نہیں تھا۔ ان کے متعلق بر ملا کہ رہے اس مسئلے کا مجھے علم نہیں۔ میں یہ مسئلہ نہیں جانتا۔
لوگوں نے بڑا تعجب کیا آپ نے انہیں فرمایا: اللہ کی قسم جو مسائل تم پوچھ رہے ہو وہ سب کے سب ہم نہیں جانتے اگر جانتے ہوتے تو وہ آپ لوگوں سے چھپا کر نہ رکھتے اور نہ ہی دینی مسائل کو چھپانا ہمارے لیے جائز ہے۔
میرے نزدیک جاہل کہلانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ نہ جانتے ہوئے بھی لوگوں کو غلط سلط مسائل بتائے۔
ایک مرتبہ مستحقین میں صدقات بانٹنے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ اور آپ نے ہر حق والے کو حق ادا کرنے کے لیے پوری محنت دیانت اور امانت کا ثبوت دیا۔ مستحقین میں سے صرف ایک آدمی اپنے حصے سے راضی نہ ہوا۔ وہ مسجد میں آیا، آپ نماز پڑھ رہے تھے اس نے صدقے کی تقسیم پر اعتراض کیا۔ تو آپ کا بیٹا بول پڑا۔
اس نے کہا: بخدا تم اس شخص کے متعلق اعتراض کر رہے ہو جس نے تمہارے صدقے سے اپنے لیے ایک دمڑی بھی نہیں لی۔ کبھی ایک کھجور کے روا دار بھی نہیں ہوئے ، حضرت قاسم نے اپنی نماز مختصر کی اپنے بیٹے کی طرف متوجہ ہوئے۔
اور فرمایا: بیٹا آج کے بعد کبھی ایسی بات نہ کرنا جس کا تجھے علم نہیں۔ لوگ بولے : بیٹے نے سچ کہا ہے لیکن یہ اس کی تربیت کر رہے ہیں تا کہ اس کی زبان زیادہ بولنے سے پرہیز کرے۔
حضرت قاسم بن محمد رضىﷲعنہ نے بہتر سال سے کچھ زیادہ عمر پائی آخری عمر میں بڑھاپے کی وجہ سے ان کی نظر جاتی رہی۔
آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں حج کی غرض سے مکہ معظمہ سے جانے کا ارادہ کیا ۔
ابھی آپ راستے میں ہی تھے کہ موت کا وقت آگیا ‘ جب آپ کو اپنی زندگی کے آخری لمحات کا احساس ہوا تو اپنے بیٹے کو پاس بلایا اور ارشاد فرمایا ۔
جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے میرے ان کپڑوں کا کفن پہنانا جن سے میں نماز پڑھتا ہوں قمیض تہبند اور چادر یہی تیرے دادا حضرت ابو بکر رضی اللّٰہ عنہ کا کفن تھا ۔
بیٹا پھر مجھے لحد میں اتار دینا ۔ اور اپنے گھر چلے جانا۔ میری قبر پر کھڑے ہو کر یہ نہ کہنا کہ میرا باپ ایسا تھا یا ایسی خوبیوں کا مالک تھا۔
سنو میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ اور نہ تھا۔
حضرت قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کے مفصل حالات زندگی معلوم کرنے کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں ۔
١- صفتہ الصفوہ
٢/ ٨٢
٢- تہزیب التہذیب
٨/ ٣٣٣
٣- وفیات الاعیان لابن خلکان
٤/ ٥٩- ٦٠
٤- الطبقات الکبری لابن سعد
٥/ ١٨٧
٥- شزرات الزہب لعماد حنبلی
١/ ١٣٥
٦- نکت الہمیان (صفدی)
٢٣٠
٧- الکامل فی التاریخ
٥/ ١١٤
٨- تاریخ الطبری
٣/ ٤٢٢
٩- حلیتہ الاولیاء
٢/ ١٨٣
١٠- الا غانی ( ابو الفرج اصفہانی)
٢٠/ ٢٧٩
حوالہ:
“کتاب: حَياتِ تابِعِين کے دَرخشاں پہلوُ”
تالیف: الاستاذ ڈاکتور عبد الرحمان رافت الباشا
ترجمه: محمود غضنفر