Search
Sections
< All Topics
Print

HAJJ KI FARZIYAT, FAZILAT AUR AHMIYAT

حج کی فرضیت، فضیلت اور اہمیت 

تحریر:  فضیلة الشیخ ابوعمير  حفظہ اللہ

اردو ترجمہ: حافظ محسن انصاری

بیت اللہ شریف کا حج کرنا اللہ تعالی کی شان و عظمت، کبریائی و وحدانیت کی عظیم نشانی اور اس کے شعائر پر مشتمل عظیم عبادت ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بڑی فضیلت اور اہمیت وارد ہوئی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَلِلَّهِ عَلَى ٱلنَّاسِ حِجُّ ٱلۡبَیۡتِ مَنِ ٱسۡتَطَاعَ إِلَیۡهِ سَبِیلࣰاۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَنِیٌّ عَنِ ٱلۡعَـٰلَمِینَ. 
 

اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج (فرض) ہے، جو اس (حج) کی طرف راستے کی طاقت رکھے اور جس نے (حج کا) کفر کیا تو بے شک اللہ تمام جہانوں سے بہت بے پروا ہے۔

[سورة آل عمران: 97]
 وَأَذِّن فِی ٱلنَّاسِ بِٱلۡحَجِّ یَأۡتُوكَ رِجَالࣰا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرࣲ یَأۡتِینَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِیقࣲ لِّیَشۡهَدُوا۟ مَنَـٰفِعَ لَهُمۡ وَیَذۡكُرُوا۟ ٱسۡمَ ٱللَّهِ فِیۤ أَیَّامࣲ مَّعۡلُومَـٰتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِیمَةِ ٱلۡأَنۡعَـٰمِۖ فَكُلُوا۟ مِنۡهَا وَأَطۡعِمُوا۟ ٱلۡبَاۤىِٕسَ ٱلۡفَقِیرَ)
 

اور(اے ابراہیم علیہ السلام) لوگوں میں حج کا اعلان کردے، وہ تیرے پاس پیدل اور ہر لاغر سواری پر آئیں گے، جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گی۔تاکہ وہ اپنے بہت سے (دینی و دنیاوی) فائدوں میں حاضر ہوں اور چند معلوم دنوں میں ان پالتو چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں جو اس نے انھیں دیے ہیں، سو ان میں سے (خود بھی) کھاؤ اور تنگ دست محتاج کو کھلاؤ۔

[سورة الحج 27، 28]
 وَأَتِمُّوا۟ ٱلۡحَجَّ وَٱلۡعُمۡرَةَ لِلَّهِۚ. [سورة البقرة: 196]

اور فقط اللہ کی رضا کے لیے حج اور عمرہ پوری طرح ادا کرو.

 ٱلۡحَجُّ أَشۡهُرࣱ مَّعۡلُومَـٰتࣱۚ فَمَن فَرَضَ فِیهِنَّ ٱلۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِی ٱلۡحَجِّۗ وَمَا تَفۡعَلُوا۟ مِنۡ خَیۡرࣲ یَعۡلَمۡهُ ٱللَّهُ وَتَزَوَّدُوا۟ فَإِنَّ خَیۡرَ ٱلزَّادِ ٱلتَّقۡوَىٰ وَٱتَّقُونِ یَـٰۤأُو۟لِی ٱلۡأَلۡبَـٰبِ
 

 حج چند مہینے ہے، جو معلوم ہیں، پھر جو ان (مہینوں) میں حج فرض کرلے (یعنی حج کا احرام باندھ کر نیت کرلے) تو حج کے دوران نہ کوئی شہوانی فعل ہو( یعنی بیوی سے ملاقات کرنا جائز نہیں) اور نہ کوئی نافرمانی اور نہ کوئی جھگڑا، اور تم نیکی میں سے جو بھی کرو گے اللہ اسے جان لے گا اور زاد راہ لے لو کہ بے شک زاد راہ کی سب سے بہتر خوبی (سوال سے) بچنا ہے اور مجھ سے ڈرو اے عقلوں والو!

[سورة البقرة: 197)
 أَجَعَلۡتُمۡ سِقَایَةَ ٱلۡحَاۤجِّ وَعِمَارَةَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ كَمَنۡ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَٱلۡیَوۡمِ ٱلۡـَٔاخِرِ وَجَـٰهَدَ فِی سَبِیلِ ٱللَّهِۚ لَا یَسۡتَوُۥنَ عِندَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ لَا یَهۡدِی ٱلۡقَوۡمَ ٱلظَّـٰلِمِینَ). [سورة التوبة: 19]

 کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانا اور مسجد حرام کو آباد (حج وغیرہ) کرنا اس جیسا بنا دیا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے اللہ کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ اللہ کے ہاں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

مطلب کہ حج کا شمار بھی بڑے بڑے اعمال میں ہوتا ہے. 

💠 حج اور اس کے اعمال و ارکان اللہ تعالی کے شعائر یعنی اس کی قدرت کی بڑی نشانیوں میں سے ہیں، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىِٕرِ اللّٰهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَیْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِیْمٌ. 

 

بے شک صفا اور مروہ (پہاڑ) اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، تو جو کوئی اس گھر کا حج کرے، یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں کا خوب طواف کرے اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر دان ہے، سب کچھ جاننے والا ہے. (سورة الۡبَقَرَۃِ: 158)

💠 اور اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیوں کی بے حرمتی کرنا سختی سے منع ہے:

یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تُحِلُّوا۟ شَعَـٰۤىِٕرَ ٱللَّهِ وَلَا ٱلشَّهۡرَ ٱلۡحَرَامَ وَلَا ٱلۡهَدۡیَ وَلَا ٱلۡقَلَـٰۤىِٕدَ وَلَاۤ ءَاۤمِّینَ ٱلۡبَیۡتَ ٱلۡحَرَامَ یَبۡتَغُونَ فَضۡلࣰا مِّن رَّبِّهِمۡ وَرِضۡوَ ٰ⁠نࣰا. [سورة المائدة: 2]

 

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ اللہ کی (عبادت کی) نشانیوں کی بے حرمتی کرو اور نہ حرمت والے مہینے کی اور نہ حرم کی قربانی کی اور نہ پٹوں (والے جانوروں) کی اور نہ حرمت والے گھر (بیت اللہ) کا قصد کرنے والوں کی، جو اپنے رب کا فضل اور خوشنودی تلاش کرتے ہیں (یعنی حج اور عمرے کرتے ہیں)۔

 ذَ ٰ⁠لِكَ وَمَن یُعَظِّمۡ شَعَـٰۤىِٕرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ). [سورة الحج: 32]

یہ اور جو اللہ کے نام کی چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو یقیناً یہ (عزت کرنا حقیقت میں ان کے) دلوں کے تقویٰ سے ہے۔

 

💠 اور شعائر اللہ کی بے توقیری، مسجد حرام اور حج وغیرہ سے روکنا کافروں کی نشانی ہے:

إِنَّ ٱلَّذِینَ كَفَرُوا۟ وَیَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ ٱللَّهِ وَٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ ٱلَّذِی جَعَلۡنَـٰهُ لِلنَّاسِ سَوَاۤءً ٱلۡعَـٰكِفُ فِیهِ وَٱلۡبَادِۚ وَمَن یُرِدۡ فِیهِ بِإِلۡحَادِۭ بِظُلۡمࣲ نُّذِقۡهُ مِنۡ عَذَابٍ أَلِیمࣲ)۔ [سورة الحج: 25]

 

بے شک وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا (ان کے لیے دردناک عذاب ہے) اور وہ اللہ کے راستے سے اور اس حرمت والی مسجد (حرام) سے روکتے ہیں جسے ہم نے سب لوگوں کے لیے اس طرح بنایا ہے کہ اس میں رہنے والے اور باہر سے آنے والے برابر ہیں اور جو بھی اس میں کسی قسم کے ظلم کے ساتھ کسی کج روی کا ارادہ کرے گا ہم اسے درد ناک عذاب سے مزہ چکھائیں گے۔


اب حج کی فرضیت، فضیلت اور اہمیت کے حوالے سے چند احادیث لکھی جاتی ہیں:


💠 حج اسلام اور ایمان کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ : شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ. (صحيح بخاری: 8) 

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے: اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک حضرت محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا ۔

💠 اور ارکان اسلام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: یہ جنت میں لے جانے اور دوزخ سے بچانے والے اعمال ہیں. (جامع ترمذی:2616، سنن ابن ماجه: 3973) 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أيُّها النّاسُ قَدْ فَرَضَ اللهُ عَلَيْكُمُ الحَجَّ، فَحُجُّو.

اے (ایمان والے) لوگوں! اللہ تعالی نے تم پر حج فرض کردیا ہے، لہذا حج ضرور کرو. (صحيح مسلم: 1337) 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: 

 العُمْرَةُ إلى العُمْرَةِ كَفّارَةٌ لِما بَيْنَهُما، والحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزاءٌ إلّا الجَنَّةُ (صحيح بخاری: 1773) 

ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ کرنا دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:  

الحجُّ المبرورُ ليسَ لهُ جزاءٌ إلّا الجنَّةُ. قيل: وما بِرُّهُ؟ قال: إطعامُ الطَّعامِ، وطِيبُ الكلامِ.
 

حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے، سوال کیا گیا کہ حج مبرور کیا ہے؟ فرمایا کہ: کھانا کھلانا اور عمدہ گفتگو کرنا. 

(طبرانی اوسط: 8405، انظر صَحِيح الجامِع: 2819، الصَّحِيحَة: 1264، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب: 1104) 
 عن عمرو بن العاص قال : فَلَمّا جَعَلَ اللهُ الإسْلامَ فِي قَلْبِي أتَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ، فَقُلْتُ: ابْسُطْ يَمِينَكَ فَلْأُبايِعْكَ، فَبَسَطَ يَمِينَهُ، قالَ: فَقَبَضْتُ يَدِي، قالَ: ما لَكَ يا عَمْرُو؟ قالَ: قُلْتُ: أرَدْتُ أنْ أشْتَرِطَ، قالَ: تَشْتَرِطُ بِماذا؟ قُلْتُ: أنْ يُغْفَرَ لِي، قالَ: أما عَلِمْتَ أنَّ الإسْلامَ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟ وأنَّ الهِجْرَةَ تَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَها؟ وأنَّ الحَجَّ يَهْدِمُ ما كانَ قَبْلَهُ؟. (مسلم: 121) 

سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے جب ایمان لاتے وقت یہ شرط رکھی کہ کیا میرے گناہ معاف کردیے جائے گیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمرو! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسلام گذشتہ تمام گناہوں کو ختم کردیتا ہے اور حج بھی گذشتہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے. 

 حديث شریف میں آتا ہے کہ: 

مَن حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، ولَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ ولَدَتْهُ أُمُّهُ (صحيح بخاری: 1521) 

جو انسان اس طرح حج کرتا ہے کہ اس نے دوران حج فسق و فجور کا ارتکاب نہ کیا ہو تو وہ (گناہوں سے) اس طرح  پاک ہوکر واپس لوٹتا ہے کہ گویا اس کی ماں نے اسے اسی دن جنا ہو. 

 أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ سُئِلَ: أيُّ العَمَلِ أفْضَلُ؟ فَقالَ: إيمانٌ بِاللَّهِ ورَسُولِهِ. قِيلَ: ثُمَّ ماذا؟ قالَ: الجِهادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ قِيلَ: ثُمَّ ماذا؟ قالَ: حَجٌّ مَبْرُورٌ، (صحيح بخاری: 26)

رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا ” اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا “ کہا گیا ، اس کے بعد کون سا ؟ آپ نے فرمایا کہ ” اللہ کی راہ میں جہاد کرنا “ کہا گیا ، پھر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ” اس کے بعد حج مبرور افضل عمل ہے۔“

💠 حج مبرور کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں سے بھرپور ایسا مقبول حج جو حج کی تمام شرائط کے ساتھ گناہوں سے بچتے ہوئے کیا جائے. 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:  

تابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ والعُمْرَةِ، فَإنَّهُما يَنْفِيانِ الفَقْرَ والذُّنُوبَ كَما يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ، والذَّهَبِ، والفِضَّةِ، ولَيْسَ لِلْحَجَّةِ المَبْرُورَةِ ثَوابٌ إلّا الجَنَّةُ. (جامع ترمذی: 810، سنن نسائی: 2631 )

لگاتار حج اور عمرہ کیا کرو، کیونکہ یہ عمل فقیری، محتاجی اور گناہوں کو اس طرح ختم کردیتا ہے جیسے بھٹی  لوہے، سونے اور چاندی کے زنگ کو صاف کردیتی ہے، اور حج مبرور کا ثواب صرف جنت ہی ہے. 

ایک دوسری روایت میں ہے کہ:

مَا مِنْ مُحْرِمٍ يَضْحَى لِلَّهِ يَوْمَهُ يُلَبِّي حَتَّى تَغِيبَ الشَّمْسُ إِلَّا غَابَتْ بِذُنُوبِهِ فَعَادَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ

جو ایمان والا ایک دن احرام میں رہتے ہوئے (حج یا عمرہ ادا کرے) تو سورج غروب ہونے سے پہلے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں . 

 سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

ما أمْعَرَ حاجٌّ قَطُّ يَقُولُ: ما افْتَقَرَ. (مصنف عبد الرزاق: 5/‏10 ح : 8818)

حاجی کبھی بھی فقیر نہیں ہوگا. 

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ما تَرْفَعُ إبِلُ الحاجِّ رِجْلًا ولاَ تَضَعُ يَدًا إلاَّ كَتَبَ الله تَعالى لَهُ بِها حَسَنَةً أوْ مَحا عَنْهُ سَيِّئَةً أوْ رَفَعَهُ بها درجة. 
 

حج کرنے والے شخص کا اونٹ جب جب اپنا پاؤں اٹھاتا اور رکھتا ہے تو اس حاجی کو ایک نیکی ملتی ہے، ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک درجہ بلند ہوجاتا ہے. 

(رَواهُ البَيْهَقِيّ في الشعب :3821،. انظر حديث رقم: 5596 في صحيح الجامع.)

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: 

مَا مِنۡ مُسْلِمٍ يُلَبِّي، إلّا لَبّىٰ مَنۡ عَنْ يَمِينِهِ أوْ عَنْ شِمالِهِ مِن حَجَرٍ، أوْ شَجَرٍ، أوْ مَدَرٍ، حَتّىٰ تَنْقَطِعَ الأرْضُ مِن هاهُنا وهاهُنا .
 

جب کوئی مسلمان حج کا تلبیہ پڑھتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب زمین کے اختتام تک موجود تمام مخلوقات یعنی پتھر، درخت اور گھر وغیرہ اس کے ساتھ تلبیہ پڑھتے ہیں. 

(جامع ترمذی: 828، سنن ابن ماجة: 2921، صَحِيح الجامِع:5770)

 ایک حدیث میں ہے: 

مَا أهَلَّ مُهِلٌّ قَطُّ إلّا بُشِّرَ، وَلَا كَبَّرَ مُكَبِّرٌ قَطُّ إلّا بُشِّرَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ بِالجَنَّةِ؟، قالَ: نَعَمْ. (طبرانی اوسط 7779، صَحِيح الجامِع: 5569، الصَّحِيحَة: 1621)

جب بھی کوئی انسان حج یا عمرہ کا احرام باندھ کر تلبیہ پڑھتا ہے یا تکبیریں کہتا ہے تو اسے جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے.

 جاءَ رَجُلٌ إلى النَّبِيِّ ﷺ، فَقالَ: إنِّي جَبانٌ، وإنِّي ضَعِيفٌ. قالَ: هَلُمَّ إلى جِهادٍ لا شَوْكَةَ فِيهِ، الحَجُّ. (طبرانی اوسط 4278، صَحِيح الجامِع: 2611، 7044، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب: 1098) 

ایک شخص نے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں بہت زیادہ کمزور و لاغر ہوں( جس کی وجہ سے جہاد نہیں کرسکتا)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو حج کر۔ یہ ایسا جہاد

ہے جس میں تجھے کانٹا بھی نہیں چبے گا. 

 سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

شُدُّوا الرِّحَالَ فِي الْحَجِّ فَإِنَّهُ أَحَدُ الْجِهَادَيْنِ . (صحيح بخاری: 1516) 

پالان کس کر حج کے لیے نکلو اس لیے کہ بے شک حج بھی ایک جہاد ہے. 

 عَنْ عائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رضی اللہ عنھا، أنَّها قالَتْ: يا رَسُولَ اللَّهِ، نَرى الجِهادَ أفْضَلَ العَمَلِ، أفَلاَ نُجاهِدُ؟ قالَ: لاَ، لَكِنَّ أفْضَلَ الجِهادِ حَجٌّ مَبْرُورٌ»… جِهادُكُنَّ الحَجُّ…نِعْمَ الجِهادُ الحَجُّ..  (بخاری: 1520) 

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ؟ ہم سمجھتی ہیں کہ جہاد ایک افضل عمل ہے، تو کیا ہم عورتیں بھی جہاد کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا جہاد حج ہے اور یہ افضل جہاد ہے، بہترین جہاد حج ہے. 

ایک حدیث میں آتا ہے کہ:  

جِهادُ الكَبِيرِ، والصَّغِيرِ، والضَّعِيفِ، والمَرْأةِ: الحَجُّ، والعُمْرَةُ ، (سنن نسائی: 2626=2627) 

بوڑھے بزرگ، چھوٹے بچوں، کمزور لوگوں اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے. 

 أنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قالَ: قالَ اللَّهُ: إنَّ عَبْدًا صَحَّحْتُ لَهُ جِسْمَهُ، ووَسَّعْتُ عَلَيْهِ فِي المَعِيشَةِ يَمْضِي عَلَيْهِ خَمْسَةُ أعْوامٍ لا يَفِدُ إلَيَّ لَمَحْرُومٌ. (صحيح ابن حبان: 3695، 3703، الصحيحة: 1662) 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کو جسمانی طور پر تندرستی عطا کروں اور مال و دولت میں بھی وسعت دوں، وہ پھر بھی پانچ سال تک حج یا عمرہ ادا نہ کرے تو یقیناً وہ بڑا ہی محروم انسان ہے. 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

 وفْدُ اللَّهِ ثَلاثَةٌ: الغازِي، والحاجُّ، والمُعْتَمِرُ.  (سنن نسائی: 2625) 

غازی، حاجی اور عمرہ کرنے والا اللہ تعالی کے وفد یعنی اللہ کے معزز مہمان ہیں. 

 حدیث پاک میں ہے کہ:  ثَلاثَةٌ فِي ضَمانِ اللَّهِ ، رَجُلٌ خَرَجَ مِن بَيْتِهِ إلى مَسْجِدٍ مِن مَساجِدِ اللَّهِ ، ورَجُلٌ خَرَجَ غازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، ورَجُلٌ خَرَجَ حاجًّا. 
 

تین قسم کے انسان اللہ تعالی ضمانت میں ہوتے ہیں۔۔۔(ان میں سے ایک) وہ بھی شخص ہے جو حج کرنے لیے نکلتا ہے. 

 (مسند الحميدی 2/‏255 ح 1121، سلسلة الأحاديث الصحيحة:598) 
 بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ عَنْ رَاحِلَتِهِ فَوَقَصَتْهُ – قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ ؛ فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا. (بخاری: 1265)

ایک شخص میدان عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے ) کھڑا ہوا تھا کہ اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے انہیں کچل دیا ۔ نبی کریم ﷺ نے ان کے لیے فرمایا کہ: پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر احرام کے دو کپڑوں میں ہی انہیں کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ انہیں خوشبو نہ لگاؤ اور نہ ان کا سر چھپاؤ ۔ کیونکہ یہ قیامت کے دن احرام کی حالت میں تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:  

فَإنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضانَ تَقْضِي حَجَّةً أوْ حَجَّةً مَعِي، (صحيح بخاری: 1863) 

رمضان المبارک میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے. 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

 مَن خَرَجَ حاجًّا فَماتَ، كَتَبَ اللهُ لَهُ أجْرَ الحاجِّ إلى يَوْمِ القِيامَةِ ومَن خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَماتَ، كَتَبَ اللهُ لَهُ أجْرَ المُعْتَمِرِ إلى يَوْمِ القِيامَةِ، ومَن خَرَجَ غازِيًا فَماتَ، كَتَبَ اللهُ لَهُ أجْرَ الغازِي إلى يَوْمِ القِيامَةِ. 
 

جو شخص حج یا عمرہ کرنے کے لیے نکلے لیکن راستے میں ہی فوت ہوجائے تو قیامت کے دن تک اس کے لیے حج یا عمرے کا ثواب لکھا جاتا ہے. 

(مسند ابويعليٰ: 6357، طبراني اوسط: 5321، الصَّحِيحَة: 2553، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب:1114) 

 ایک حدیث میں ہے کہ:

  أمّا خَرُوجُكَ مِن بَيْتِكَ تَؤُمُّ البَيْتَ الحَرامَ فإنّ لَكَ بِكُلِّ وطْأةٍ تطَؤُها راحِلَتُكَ يَكْتُبُ اللَّهُ لَكَ بِها حَسَنَةً ويَمْحُو عنكَ بها سَيِّئَةً؛ وأمّا وُقُوفُكَ بِعَرَفَةَ فإنّ اللَّهَ يَنْزِلُ إلى السَّماءِ الدُّنْيا فَيُباهِي بِهِم الملائكة فيقول: هؤلاء عبادي جاءوني شُعْثًا غُبْرًا مِن كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ يَرْجُونَ رَحْمَتِي ويَخافُونَ عَذابِي ولمْ يرَوْني فكَيْفَ لَوْ رَأوْني؟ فَلَوْ كانَ عليكَ مثلُ رَمْلِ عالِجٍ أوْ مِثْل أيّامِ الدُّنْيا أوْ مِثْلُ قَطْرِ السَّماءِ ذُنُوبًا غَسَلَها اللَّهُ عنكَ؛ وأمّا رَمْيُكَ الجِمارَ فإنهُ مَدْخُورٌ لَكَ؛ وأما حَلْقُكَ رَأْسَكَ فإنَّ لكَ بِكُلِّ شَعْرَةٍ تَسْقُطُ حَسَنَةً فَإذا طُفْتَ بالبَيْتِ خَرَجْتَ مِن ذُنُوبِكَ كَيَوْمِ ولَدَتْكَ أمك
 

اپنے گھر سے حج کے ارادے سے نکلنے والے انسان اور اس کی سواری کے ہر قدم پر اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں، درجات بلند ہوتے ہیں، نیکیاں ملتی ہیں، اور جب حاجی عرفات کے میدان میں وقوف کرتے ( ٹہرتے) ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: دیکھو میرے بندے دور دراز سے مشکل اور کٹھن سفر کرکے میلے کچیلے کپڑے اور پراگندہ بالوں کے ساتھ میری رضا حاصل کرنے کے لیے جمع ہوکر بیٹھے ہیں، جو میری رحمت کے طلبگار اور میرے عذاب سے ڈرتے ہیں، انہوں نے ابھی تک مجھے دیکھا نہیں، اور جب یہ دیکھ لے گیں تو ان کی کیا حالت ہوگی؟ ان کے گناہ چاہے پہاڑوں جیسے بلند اور پانی کے قطروں کی تعداد میں بکثرت ہی کیوں نہ ہوں اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے، حج کا ہر ایک عمل حاجی کے لیے ذخیرہ اور گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہوتا ہے، جمرات کو کنکری مارنا، حج اور عمرے میں سر منڈوانا کہ ہر ایک بال کے بدلے نیکی ہے اور جب آخر میں بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو گناہوں سے اس طرح پاک و صاف ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے آج ہی اسے جنم دیا ہو.   

(طبرانی کبیر: 13566، صحيح الجامع : 1360)

 جس انسان کے پاس حج کرنے کی طاقت ہو لیکن وہ پھر بھی حج نہ کرے تو اس کے لیے بڑی ہی سخت وعید آئی ہے، ایک حدیث میں آتا ہے کہ: 

مَن مَلَكَ زادًا وراحِلَةً تُبَلِّغُهُ إلى بَيْتِ اللَّهِ ولَمْ يَحُجَّ فَلا عَلَيْهِ أنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أوْ نَصْرانِيًّا، وذَلِكَ أنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتابِهِ: ولِلَّهِ عَلى النّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَن اسْتَطاعَ إلَيْهِ سَبِيلًا [آل عمران: 97]
قال الترمذي: هَذا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لا نَعْرِفُهُ إلّا مِن هَذا الوَجْهِ، وفِي إسْنادِهِ مَقالٌ، وهِلالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَجْهُولٌ، والحارِثُ يُضَعَّفُ فِي الحَدِيثِ. [حكم الألباني]:ضعيف. سنن الترمذی: 812)

جو انسان سواری اور حج کے لیے اتنے خرچ کا مالک ہو کہ بیت اللہ تک اسے پہنچا سکیں، وہ پھر بھی حج نہ کرے تو وہ یہودی یا عیسائی ہو کر مرے! 

اس روایت کی سند میں اگرچہ کلام ہے لیکن موقوفا اس معنی و مفہوم کی روایتیں ثابت ہیں۔ جن کے حوالے درج ذیل ہیں:

 

 قالَ عُمَرُ بْنُ الخَطّابِ : لَقَدْ هَمَمْتُ أنْ أبْعَثَ رَجُلًا إلى هَذِهِ الأمْصارِ، فَلْيَنْظُرُوا إلى كُلِّ رَجُلٍ ذِي جَدَةٍ لَمْ يَحُجَّ، فَيَضْرِبُوا عَلَيْهِمُ الجِزْيَةَ، ما هُمْ مُسْلِمِينَ، ما هُمْ مُسْلِمِينَ. 
واللَّهِ لَوْ تَرَكُوا الحَجَّ لَقاتَلْتُهُمْ كَما قاتَلْتُهُمْ عَلى الصَّلاةِ، والزَّكاةِ. 
(السنة لأبی بكر بن الخلال 5/‏44 ح : 1571. شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة 4/‏923 — اللالكائی: 1567) 
 قال عُمَر بْن الخَطّابِ : لِيَمُتْ يَهُوَدِيًّا أوْ نَصْرانِيًّا يَقُولُها ثَلاثَ مَرّاتٍ رَجُلٌ ماتَ ولَمْ يَحُجَّ وجَدَ لِذَلِكَ سَعَةً وخُلِّيَتْ سَبِيلُهُ فَحَجَّةٌ أحُجُّها وأنا صَرُورَةٌ أحَبُّ إلَيَّ مِن سِتِّ غَزَواتٍ أوْ سَبْعٍ. ولَغَزْوَةٌ أغْزُوها بَعْدَما أحُجُّ أحَبُّ إلَيَّ مِن سِتِّ حَجّاتٍ أوْ سَبْعٍ.
(السنن الكبرى للبيهقی 4/‏546 — ح : 8661)

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں پر کافروں سے وصول کیے جانے والے جزیہ اور ٹیکس لگانے کا ارادہ فرمایا جو طاقت کے ہوتے ہوئے بھی حج نہیں کرتے، فرماتے ہیں کہ: یہ مسلمان نہیں، جس طرح نماز اور زکوٰۃ کے انکاری سے جہاد ہوگا اسی طرح حج کے انکاری سے بھی جہاد ہوگا، ایسا شخص یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر مرے. 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْيَتَعَجَّلْ فَإِنَّهُ قَدْ يَمْرَضُ الْمَرِيضُ وَتَضِلُّ الضَّالَّةُ وَتَعْرِضُ الْحَاجَةُ. (سنن ابن ماجة: 2883) 

جو شخص حج کا ارادہ یعنی طاقت رکھتا ہو تو اسے جلدی کرنی چاہیے، کیونکہ ہوسکتا ہے وہ بیمار ہو جائے یا سواری کا بندو بست نہ ہو سکے یا کسی بھی ضرورت یا مجبوری کی وجہ سے حج نہ کرسکے. 

 حج ایک ایسی عبادت ہے جو قیامت کی بڑی نشانیوں کے ظہور کے بعد بھی جاری رہے گی، جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ : 

 لَيُحَجَّنَّ البَيْتُ ولَيُعْتَمَرَنَّ بَعْدَ خُرُوجِ يَأْجُوجَ ومَأْجُوجَ
وقال: لاَ تَقُومُ السّاعَةُ حَتّى لاَ يُحَجَّ البَيْتُ.  (صحيح بخاری: 1593) 

یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد بھی حج اور عمرہ کیا جاتا رہے گا، اور قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک بیت اللہ کا حج نہیں کیا جائے گا. 

 أنَّ النَّبِيَّ ﷺ سُئِلَ: أيُّ الحَجِّ أفْضَلُ؟ قالَ: العَجُّ والثَّجُّ، (ترمذی: 827 ،قال الألبانی: صحيح. 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا حج سب سے افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس میں اللہ کا ذکر و اذکار، تکبیریں اور تلبیہ کثرت سے پڑھا جائے اور خوب خون بہایا جائے یعنی عمدہ و بہترین قربانی کی جائے . 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنۡ جَهَّزَ غازِيًا أوْ جَهَّزَ حَاجًّا، أَوْ خَلَفَهُ فِي أهْلِهِ أَوْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أُجُورِهِمْ مِن غَيْرِ أنْ يَنْتَقِصَ مِنۡ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ. 
(صحيح ابن خزيمة 3/‏277 ح: 2064 قال الألبانی: إسناده صحيح، السنن الكبرىٰ للنسائی 3/‏375 ح : 3316) 

جو شخص کسی حاجی کی ضرورت کے مطابق سامان مہیا کرے یا حج کرنے میں اس کی مدد کرتے ہوئے مکمل حج کروا دے یا پھر اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر والوں کی کفالت ( خیال ) کرے تو اسے بھی مکمل حج کا ثواب ملے گا.

 سیدنا عیسیٰ علیہ السلام جب قرب قیامت آسمان سے نزول فرمائے گیں تو آپ فج روحاء مقام سے احرام باندھ کر حج اور عمرہ کرے گیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھا کر یہ بات بیان فرمائی. (صحيح مسلم: 1252) 


 حج و عمرہ میں کیے جانے والے ضمنی اعمال کا ثواب 


 حج و عمرہ کے دوران جو ضمنی فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں وہ بھی بہت عظیم ہیں، جیسا کہ مسجد حرام اور مسجد نبوی میں نماز کی ادائیگی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

 

صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ .(سنن ابن ماجة: 1406) 

میری مسجد (نبوی) میں ایک نماز باقی دوسری مساجد میں ایک ہزار نماز پڑھنے کے برابر ہے، اور مسجد حرام میں ایک نماز باقی دوسری مساجد میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے . 

  حج و عمرہ میں طواف کرنا رکن ہے، پر ویسے بھی طواف کی بڑی فضیلت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

مَن طافَ بِهَذا البَيْتِ أُسْبُوعًا يُحْصِيهِ، كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةٌ، وكُفِّرَ عَنْهُ سَيِّئَةٌ، ورُفِعَتْ لَهُ دَرَجَةٌ، وكانَ عَدْلَ عِتْقِ رَقَبَةٍ.

جو شخص سات چکر بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو اس کے لیے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے، ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے. 

  (مسنداحمد: 5701، سنن ترمذی:959 ، سنن نسائی:2919  صحيح ابن خزيمة: 2753) 
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  إنَّما جُعِلَ الطَّوافُ بِالبَيْتِ، وبَيْنَ الصَّفا والمَرْوَةِ، ورَمْيُ الجِمارِ لِإقامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ
 

بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کے درمیان سعی اور جمرات کو کنکریاں مارنا درحقیقت اللہ تعالی کی بڑائی اور ذکر کو قائم کرنے کا اظہار ہے۔ 

(سنن ابوداؤد: 1888، سنن ترمذی: 902، صحيح ابن خزيمة 5/‏279 ح 2882)

 حجر اسود کو بوسہ دینا یا چھونا، رکن یمانی کو چھونا بھی عظیم الشان عمل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ : 

إنَّ مَسْحَ الرُّكْنِ اليَمانِي والرُّكْنِ الأسْوَدِ يَحُطُّ الخَطايا حَطًّا. (مسند احمد:5621، سنن ترمذی: 959 سنن نسائی:2919) 

بے شک حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام گناہوں کو مٹا دیتا ہے . 


 قالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي الحَجَرِ: واللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ القِيامَةِ لَهُ عَيْنانِ يُبْصِرُ بِهِما، ولِسانٌ يَنْطِقُ بِهِ، يَشْهَدُ عَلى مَن اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ.  هَذا حَدِيثٌ حَسَنٌ. (سنن ترمذی: 961. قال الألباني صحيح)
يَأْتِي الرُّكْنُ يَوْمَ القِيامَةِ أعْظَمَ مِن أبِي قُبَيْسٍ، لَهُ لِسانٌ وشَفَتانِ. (مسنداحمد: 6978) 

اللہ تعالی حجر اسود کو قیامت والے دن اس حال میں لائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہونگی جن سے وہ دیکھے گا، زبان اور ہونٹ ہونگے جن سے وہ بات کرے گا اور ہر اس انسان کے حق میں گواہی دے گا جس نے اس کا استلام کیا ہوگا. 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ،‏‏‏‏‏‏فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ. (سنن ترمذی: 877) 

حجر اسود کو جس وقت جنت سے اتارا گیا تو وہ اس وقت دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، اس کے بعد پھر انسانوں کے گناہوں نے  اسے سیاہ کردیا. 

 


 وقوف عرفات کی بڑی فضیلت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : 


مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ : مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ .(صحيح مسلم: 1348) 

عرفات والے دن سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالی انسانوں کو کثرت سے جہنم سے آزاد کرتا ہے، اور اللہ تعالی ان کے قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر ان کے ذریعے فخر کرتا ہے  . 

 وقَفَ رَسُولُ اللهِ ﷺ بِعَرَفاتٍ، وقَدْ كادَتِ الشَّمْسُ أنْ تَئُوبَ فَقالَ: يا بِلالُ، أنْصِتِ لِيَ النّاسَ ، فَقامَ بِلالٌ فَقال: أنْصِتُوا لِرَسُولِ اللهِ – ﷺ – فَنَصَتَ النّاسُ، فَقالَ: مَعاشِرَ النّاسِ، أتانِي جِبْرِيلُ آنِفًا فَأقْرانِي مِن رَبِّيَ السَّلامَ، وقالَ: إنَّ اللهَ غَفَرَ لِأهْلِ عَرَفاتٍ وأهْلِ المَشْعَرِ وضَمِنَ عَنْهُمُ التَّبِعاتِ ، فَقامَ عُمَرُ بْنُ الخَطّابِ فَقال: يا رَسُولَ اللهِ، هَذا لَنا خاصٌّ؟، فَقالَ: هَذا لَكُمْ، ولِمَن أتى بَعْدَكُمْ إلى يَوْمِ القِيامَةِ، فَقالَ عُمَرُ: كَثُرَ خَيْرُ اللهِ وطابَ.
 
(التمهيد لابن عبد البَرّ (1/ 128)، صَحِيح التَّرْغِيبِ والتَّرْهِيب: 1151)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات والے دن فرمایا: ابھی ابھی جبرئیل امین علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے میرے رب کی طرف سے سلام کہتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالی میدان عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کرنے والوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے… 

 قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ . قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ. قَالُوا : وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : وَالْمُقَصِّرِينَ. (صحيح بخاری: 1727) 

حج و عمرہ کے بعد سر کے بال منڈوائے یا کٹوائے جاتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے بال منڈوانے یا کٹوانے والوں کو رحمت الٰہی کی دعائیں دیتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! سر منڈوانے والوں پر رحم فرما، دوسری دفعہ بھی یہی دعا فرمائی پھر تیسری دفعہ میں فرمایا کہ: اے اللہ! سر کے بال کٹوانے والوں پر بھی رحم فرما. 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے کہ :

 مَنْ خَرَجَ حَتَّى يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ قُبَاءٍ، فَصَلَّى فِيهِ كَانَ لَهُ عَدْلَ عُمْرَةٍ. (سنن نسائی: 699، 700، سنن ابن ماجه: 1412)

جو شخص مسجد قباء میں آکر نماز پڑھتا ہے تو اسے عمرے کا ثواب ملتا ہے.۔

✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯✯
Table of Contents