قیامت کن لوگوں پر قائم ہو گی ؟
جن لوگوں پر قیامت قائم ہو گی وہ سب کے سب برے ہونگے اور ان میں کوئی شخص نیک اورصالح نہ ہو گا ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی لَا یُقَالَ فِیْ الْأَرْضِ:اَللّٰہُ اَللّٰہُ))وفی روایۃ :(( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ عَلیٰ أَحَدٍ یَقُوْلُ: اَللّٰہُ اَللّٰہُ
صحیح مسلم :148
’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ زمین میں اللہ ، اللہ کہنے والا کوئی نہیں ہو گا۔ ‘‘
دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’قیامت کسی ایسے شخص پر قائم نہیں ہو گی جو اللہ ، اللہ کہتا ہو گا ۔ ‘‘
اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب قیامت قائم کرنے کا ارادہ کر لے گا تو مومنوں کی روحوں کو قبض کرلے گاجس سے زمین پر توحید کا نام لیوا کوئی نہیں رہے گا ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام ختم ہو جائے گا اور کوئی کسی سے یہ نہیں کہے گا کہ : اللہ سے ڈر ۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لَا تَزَالُ عِصَابَۃٌ مِّنْ أُمَّتِیْ یُقَاتِلُوْنَ عَلٰی أَمْرِ اللّٰہِ قَاہِرِیْنَ لِعَدُوِّہِمْ،لَا یَضُرُّہُمْ مَّنْ خَالَفَہُمْ حَتّٰی تَأْتِیَہُمُ السَّاعَۃُ،وَہُمْ عَلٰی ذَلِکَ ))
’’ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے دین پر قتال کرتا رہے گا ۔ وہ اپنے دشمنوں پر غالب رہے گااور اس کا کوئی مخالف اسے نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ قیامت قائم ہو جائے گی اور وہ بدستور اسی حالت پر قائم ہو گا۔‘‘
یہ حدیث سن کر حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا : کیوں نہیں ! پھر اللہ تعالیٰ ایک ہوا کو بھیجے گا جس کی خوشبو کستوری کی خوشبو جیسی ہو گی ۔ وہ ایسے لگے گی جیسے ریشم لگتا ہے اور ہر اُس جان کوجس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو گا اسے وہ قبض کر لے گی ۔ پھر برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہو گی۔ ‘‘
صحیح مسلم:1924
اسی طرح حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( وَیَبْقیٰ شِرَارُ النَّاسِ یَتَہَارَجُوْنَ فیہا تَہَارُجَ الْحُمُرِفَعَلَیْہِمْ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ))
’’صرف برے لوگ ہی باقی رہ جائیں گے جو ایسے کھلم کھلا زنا کریں گے جیسے گدھے علانیہ طور پرخواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔ پس انہی پر قیامت قائم ہو گی ۔ ‘‘
صحیح مسلم:2937
دوسرا خطبہ
آئیے اب یہ بھی سماعت فرما لیجئے کہ قیامت کا وقوع کیسے ہو گا؟
کائنات کا خاتمہ …صور کا پھونکا جانا اور کائنات کا بے ہوش ہونا
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿ وَنُفِخَ فِیْ الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَنْ فِیْ الْأَرْضِ إِلاَّ مَنْ شَائَ
اللّٰہُ ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ أُخْرٰی فَإِذَا ہُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ﴾
الزمر39:68
’’ اور صور پھونک دیا جائے گا ، پھر آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے ، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا جس سے وہ ایک دم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے ۔ ‘‘
( إلا من شاء اللّٰه ) سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ بے ہوش ہو کر گرنے سے مستثنی کرے گا۔ وہ کون لوگ ہونگے ؟ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو برا بھلا کہا ، ان میں سے ایک مسلمان اور دوسرا یہودی تھا ۔ چنانچہ مسلمان نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ اس کے جواب میں یہودی نے کہا : اس ذات کی قسم جس نے موسی ( علیہ السلام ) کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ۔ یہ سن کر مسلمان غضبناک ہو گیا اور اس نے یہودی کے چہرے پر ایک تھپڑرسید کردیا ۔ چنانچہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے مسلمان کی شکایت کی ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا تُخَیِّرُوْنِیْ عَلٰی مُوْسٰی، فَإِنَّ النَّاسَ یَصْعَقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، فَأَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ یُّفِیْقُ، فَإِذَا مُوْسٰی بَاطِشٌ بِجَانِبِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِیْ أَکَانَ مُوْسٰی فِیْمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِیْ ، أَوْ کَانَ مِمَّنِ اسْتَثْنَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ
صحیح البخاری:6517، صحیح مسلم:2373
’’ تم مجھے موسی ( علیہ السلام ) پر فضیلت نہ دو کیونکہ قیامت کے روز لوگ بے ہوش کر گر پڑیں گے۔ چنانچہ میں سب سے پہلا شخص ہو نگا جسے افاقہ ہو گا۔اور میں دیکھوں گا کہ موسی ( علیہ السلام ) عرش کے ایک کنارہ کو پکڑے ہوئے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہونگے اور مجھ سے پہلے انہیں افاقہ ہو گا یا انہیں اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں شامل کرے گا جو بے ہوش کر گرنے سے مستثنی ہونگے۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَإِذَا نُفِخَ فِیْ الصُّورِ نَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ. وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّۃً وَّاحِدَۃً . فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ. وَانشَقَّتِ السَّمَائُ فَہِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاہِیَۃٌ. وَالْمَلَکُ عَلَی أَرْجَائِہَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَۃٌ﴾
الحاقۃ69 :17-13
’’ جب صور میں ایک پھونک ماری جائے گی ۔ زمین اور پہاڑ اوپر اٹھا لئے جائیں گے اور یکبارگی ٹکرا کر ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے ۔ اُس دن واقع ہونے والی ( قیامت ) واقع ہو جائے گی ۔ آسمان پھٹ جائے گا ،
وہ اس دن کمزور بُھر بُھرا ہو جائے گا اور اس کے کناروں پر فرشتے ہو نگے ۔ اور آپ کے رب کے عرش کواس دن آٹھ ( فرشتے ) اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہونگے ۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا اور دونوں کے درمیان چالیس ( !) کا فاصلہ ہو گا۔ ‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا : چالیس دن کا ؟ انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔ انھوں نے کہا : چالیس ماہ کا ؟ انھوں نے کہا : میں انکار کرتا ہوں ۔
انھوں نے کہا : چالیس سال کا ؟ انھوں نے کہا: میں انکار کرتا ہوں ۔
پھر اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی نازل کرے گا جس سے وہ یوں اگیں گے جیسے کوئی سبزی اگتی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ انسان کا پورا جسم بوسیدہ ہو چکا ہو گا سوائے اس کی ایک ہڈی کے جسے زمین کبھی نہیں کھائے گی اور وہ ہے ریڑھ کی ہڈی کا سرا۔ اور اسی سے مخلوق کے
( مختلف اجزاء کو ) قیامت کے دن جوڑا جائے گا۔ ‘‘
صحیح البخاری:4814و4935،مسلم:2955 اس حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے (چالیس) کی تحدید کرنے سے انکار کردیا۔ یعنی اس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس سال ؟تو ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہی نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں اس کا علم ہو لیکن انھوں نے اسے بیان کرنا مناسب نہ سمجھا ہو کیونکہ ایک تو اُس وقت ابھی اس کی ضرورت ہی نہ تھی اور اس کے متعلق کچھ بتانا قبل از وقت تھا۔ دوسرا اس لئے کہ یہ بات ان ضروری مسائل میں سے نہ تھی کہ جن کی تبلیغ کرنا ان پر واجب تھا ۔ واللہ اعلم