03. RABI Al AWWAl
ربیع الاول
وجۂ تسمیہ
عربوں کے ہاں یہ مہینہ موسم بہار کا پہلا مہینہ قرار پایا تھا، اس لیے اسے ربیع الاول کہتے تھے۔[1]
فضائل
ربیع الاول، اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ اس اعتبار سے نہایت ممتاز ہے کہ اس مہینے کی 9 تاریخ ہی کو ہمارے پیغمبر نبیٔ عربی، سید الاولین والآخِرین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی اوراسی مہینے کی بارہ تاریخ کو آپ دنیا سے رحلت بھی فرما گئے۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
مسنون اعمال
اس مہینے سے مخصوص کسی نیک عمل کی فضیلت کے بارے میں کوئی نص قرآن و حدیث میں نہیں ہے نہ اس کی کوئی فضیلت ہی کسی حدیث میں بیان کی گئی ہے، لہٰذا جو مسنون اعمال عام دنوں میں کیے جاتے ہیں، وہ اس مہینے میں بھی کیے جائیں۔
[1] اردو دائرہ معارف اسلامیہ۔
رسوم و بدعات
ربیع الاول کا چاند دیکھ کر لوگوں کو ’’عید مبارک‘‘ کہنا یا آمدِعید کا اعلان کرنا۔ مہینہ بھر محافل میلاد کا انعقاد کرتے رہنا اور محافل میں آمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے ہوئے تعظیماً کھڑے ہو جانا۔ بارہ ربیع الاول کو ’’تیسری عید‘‘ قرار دینا اور اس کو اللہ اور رسول کی مقرر کردہ دونوں عیدوں سے زیادہ اہم سمجھنا، نیز جشن میلاد منانا اور بسوں، کاروں، ٹرالیوں اور بیل گاڑیوں کی صورت میں جلوس نکالنا یا اس میں شرکت کرنا۔ مختلف مقامات پر جھنڈیاں لگانا اور مبالغہ آمیز نعتیں پڑھنا، خانہ کعبہ، روضۂ مبارکہ، مسجد نبوی اور دیگر مقامات مقدسہ کے ماڈل بنا کر ان کا طواف کرنا اور آتش بازی، ہلڑ بازی اور رقص و سرود کی مخلوط اور غیر مخلوط محفلیں جمانا۔ وغیرہ وغیرہ ہیں۔
’’عید میلاد‘‘ چند قابل غور پہلو!
(1) سالہا سال سے مذکورہ بدعات دیکھنے میں آرہی ہیں، بالخصوص 12ربیع الاول کو بڑی دھوم دھام سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت منایا جاتا ہے۔ جگہ جگہ جلوس نکلتے ہیں۔ گلی گلی چراغاں ہوتا ہے۔ کھانے پکانے کا بھی خوب خوب اہتمام اورایک عجیب جشن کا ساسماں ہوتا ہے۔ اسے کہنے کو بھی ’’جشن میلاد‘‘ یا ’’عید میلاد‘‘ کہا جاتا ہے، حالانکہ اسلام میں عیدیں صرف دو ہی ہیں۔
بلاشبہ یہ سب مناظر عوام کی نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت کا مظہر ہیں۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کس قسم کی محبت کا حکم دیا گیا ہے۔ آیا محبت کا مطلب یہ ہے کہ ہم سال میں صرف ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
کا جشن منالیں؟ یا محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ کے لائے ہوئے دین اسلام کو اپنی زندگی میں بھی نافذ کریں اوراپنے گردوپیش کے ماحول کوبھی اس کے مطابق بنانے کی حتی المقدور سعی کریں۔
اگر اول الذکر بات ہے تو ظاہر ہے کہ اس خود ساختہ معیار محبت کی رو سے تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام اور ائمۂ دین بھی نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بے گانہ قرار پائیں گے کیونکہ ’’جشن میلاد‘‘ کا یہ اہتمام صحابۂ کرام، تابعین اورائمۂ دین میں سے کسی نے بھی نہیں کیا۔ نہ کسی نے اس کا حکم دیا۔
اور اگر محبت کا مفہوم وہ ہے جو صحابۂ کرام نے سمجھا، تابعین و تبع تابعین نے سمجھا اور امامانِ دین نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو اپنایا جائے، اپنے کردار کو دین کے سانچے میں ڈھالا جائے اور دینی اقدار و روایات کو فروغ دیا جائے جیسا کہ صحابہ و تابعین اور ائمۂ دین نے کیا تو پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ہمارا یہ ’’جشن میلاد‘‘ اس سے کسی قسم کی کوئی مناسبت رکھتا ہے؟
(2) نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی رو سے دین میں اپنی طرف سے اضافہ مردود اور ناقابل قبول ہے:
’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ فِیہِ فَہُوَ رَدٌّ‘(1)
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ دین میں اضافہ شدہ کام(بدعت) مردود ہی نہیں بلکہ گمراہی ہے جو جہنم میں لے جانے والی ہے۔
’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَ کُلُّ ضَلَالَۃٍ فِي النَّارِ‘
1۔ صحیح البخاري، الصلح، باب: إذا اصطلحوا علی صلح جور…، حدیث: 2697، و صحیح مسلم، الأقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ…، حدیث: 1718۔
’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔‘‘[1]
[1] سنن النسائي، صلاۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ، حدیث: 1579۔ [2] ملاحظہ ہو مقالہ ’’السیرۃ النبویۃ، توقیتي مطالعہ‘‘ (از پروفیسر ظفر احمد سابق صدر شعبۂ علوم اسلامیہ، گورنمنٹ ایس ای کالج، بہاول پور۔ پنجاب۔) ص 223-219، شائع شدہ در رسالہ شش ماہی ’’السیرۃ، عالمی‘‘ کراچی (شمارہ 14، اکتوبر 2005۔) اس مقالے میں نہایت تفصیل سے توقیتی حساب سے 12 ربیع الاول ہی کو یومِ وفات اور 8 ربیع الاول کو یوم ولادت ثابت کیا گیا ہے۔
جب یہ واضح ہوگیا کہ ’’عید میلاد‘‘ کا کوئی شرعی ثبوت نہیں نہ صحابہ و تابعین اور ائمۂ دین (امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہم ) اور دیگر ائمہ نے اسے منایا۔ بلکہ خیرالقرون کے کئی سو سال کے بعد اس کی ایجاد ہوئی تو یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ’’بدعت‘‘ ہی قرار پائے گا۔ اب آپ خود سوچ لیں کہ بدعت کا ارتکاب کرکے آپ ’’ثواب‘‘ کمارہے ہیں یا اپنی تمام نیکیاں ہی برباد کررہے ہیں؟
(3) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں اکثر اہل علم و اہل تاریخ کا قول ہے کہ 12ربیع الاول کو ہوئی ہے۔ اسی لیے 12ربیع الاول کا دن ’’بارہ وفات‘‘ کے نام سے مشہور چلا آرہا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کے بارے میں اختلاف ہے۔ علمائے محققین نے تو 8 یا 9ربیع الاول ہی کو آپ کا یوم ولادت صحیح بتلایا ہے۔[2] تاہم بارہ ربیع الاول ہی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یوم ولادت بھی تسلیم کر لیا جائے (جیسا کہ اس روز جشن ولادت منایا جاتا ہے) تو ظاہر ہے کہ یہی روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بھی ہے۔ اس اعتبار سے ذرا سوچیے! کہ کیا نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والے دن ’’جشن‘‘ منانا صحیح ہے؟ اگر کوئی غیر مسلم آپ سے پوچھ بیٹھے کہ بھئی! یہ تم اپنے نبی کی وفات کا ’’جشن‘‘ منا رہے ہو یا ولادت کا؟ کیونکہ یہ تاریخ توآپ کی وفات کی بھی ہے تو اس کا کیا معقول جواب ہمارے پاس ہے؟
(4) پھر خوشی یا ’’جشن‘‘ منانے کا یہ انداز، جس کا مظاہرہ 12ربیع الاول کو کیا جاتا ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش بھی ہے؟ خوشی کے موقع پر جلوس نکالنا، چراغاں کرنا، لڈیاں، بھنگڑے اور دھمالیں ڈالنا، دین اسلام سے ان کا کوئی تعلق بھی ہے؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا۔ اسلام نے ہمارے لیے دو عیدیں مقرر فرمائی ہیں۔ لیکن ان میں نماز پڑھنے اور تکبیر و تہلیل ہی کا حکم ہے۔ اس کے علاوہ کسی بات کا حکم نہیں۔ لیکن تیسری ’’عید میلاد‘‘ جو بنالی گئی ہے۔ اس میں تکبیر و تہلیل کے علاوہ سب کچھ کیا جاتا ہے بلکہ بڑے اہتمام سے کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ سارا انداز غیر اسلامی ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ جس طرح اپنے اکابر کا ’’یوم‘‘ منانا ایک غیر اسلامی فعل ہے۔ اسی طرح زیر بحث ’’جشن میلاد‘‘ منانے کا انداز بھی از اول تا آخر غیر اسلامی ہے۔ بلکہ کفار کی نقالی اوران کی مشابہت ہے، حالانکہ ہمیں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے:
’مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ‘
’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا، وہ انھی میں سے سمجھا جائے گا۔‘‘
[سنن أبي داود، اللباس، باب في لبس الشھرۃ، حدیث: 4031]
بہرحال جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے ’’جشن میلاد‘‘ کی کوئی شرعی و دینی حیثیت سمجھ میں نہیں آئے گی۔ یہ محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان پر ایسا کھوکھلا مظاہرۂ عقیدت ہے جس کی تائید نہ قرآن سے ہوتی ہے نہ حدیث سے، نہ صحابہ و تابعین کے کردار سے اور نہ ائمۂ دین کے اقوال و افعال سے۔
(5) پھر سب سے زیادہ قابل غور بات تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز تو آپ کی ولادت نہیں رسالت ہے۔ یوم رسالت ہی سے مسلمانوں کو وہ توحید ملی جس سے گم گشتگانِ بادیۂ ضلالت محروم تھے۔ یہ دعوت توحید ہی کفار و مشرکین مکہ کے لیے سب سے زیادہ اچنبھے کی چیز تھی اور انھوں نے کہا:
(أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ﴿٥﴾)
’’یہ تو سب معبودوں کو (ختم کرکے) ایک معبود ٹھہراتا ہے یہ تو بڑی ہی تعجب والی بات ہے۔‘‘[ صٓ 5:38]
اس یوم رسالت ہی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت ٹھہری اور آپ کی اطاعت اورآپ کی تابعداری اللہ کی اطاعت اوراس کی محبت کا معیار قرار پائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰهَ ۖ)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔‘‘[النسآء 80:4] اور
(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ)
’’کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری پیروی کرو تم اللہ کے محبوب بن جاؤ گے اور وہ تمھارے گناہ بھی معاف فرمادے گا۔‘‘[آل عمران: 3/31]
اس یوم رسالت ہی سے مسلمانوں کو ایمان و اخلاق کی وہ دولت لازوال حاصل ہوئی جس کی برکت سے مسلمان عرب و عجم پر چھا گئے۔ ایران و روما جیسی عظیم الشان حکومتوں کو روند ڈالا اور دنیا کے خزانے ان کے قدموں میں ڈھیر ہوگئے۔
یہ برکت اور شان، یہ اعجاز اور تاثیر کس کی تھی؟ محمد بن عبداللہ کی نہیں۔ محمد رسول اللہ کی تھی۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ محمد بن عبداللہ کو تو کفار مکہ بھی مانتے تھے، ان کے اخلاق کے معترف اور راست بازی کے بھی قائل تھے۔ لیکن 40سالہ محمد بن عبداللہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنے اور دعوت توحید دی تو مشرکین مکہ جو پہلے ان کی راہوں میں دیدہ و دل بچھایا کرتے تھے، انھوں نے کانٹے بچھانے شروع کردیے، ان کو لہولہان کیا اور قدم قدم پر مزاحمت کی اور مخالفت کا ایک طوفان کھڑا کردیا۔ ان کی محبت، مخالفت میں اور تعلق، دشمنی میں کیوں بدلا؟ کیا انھیں راست بازی سے کد تھی؟ اخلاقیات اسلام سے انکار تھا؟ یقینا نہیں، یہ قدریں تو ان کے ہاں بھی معروف تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بھی اسی لیے کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان انسانی قدروں کے حامل تھے۔
انھیں اختلاف ہوا تو اسی دعوت توحید سے، دعوت مساوات قانون سے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول اللہ تسلیم کرنے سے۔ آج بھی اگر ہم صرف اپنے پیغمبر کے حسن اخلاق کی تعریف کریں۔ ان کے حسن سراپا کا نقشہ کھینچیں اور محمد بن عبداللہ کا یوم ولادت دھوم دھام سے منائیں۔ لیکن ان کی دعوت توحید سے اعراض و تغافل ہو۔ اور قبروں پر کفروشرک کی گرم بازاری ہو اور محمد رسول اللہ کی حیثیت سے تو ہم ان کو تسلیم کرنے میں متأمل ہوں اوران کی اس مسند پرائمہ کو بٹھا دیں۔ ان کے علاوہ دوسروں کے اقوال و اجتہادات کو واجب الاطاعت سمجھیں تو ذرا غور کیجیے کہ ہم میں اور مشرکین مکہ میں پھر فرق کیا ہوا؟
اس لیے محترم! اصل چیز یوم ولادت دھوم دھام سے منانا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام توحید پر ایمان لانا ہے، کفر و شرک کو مٹانا ہے، آپ کی ان تعلیمات کو اپنانا ہے، جن کے اپنانے سے مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا، قبروں کے لات و منات اور عزیٰ و ہبل کو توڑنا ہے اور عقیدت اور اطاعت کے ان محوروں کو تبدیل کرنا ہے جس نے مسلمانوں کو ایک مرکز رسالت سے ہٹا کر بیسیوں فرقوں میں تبدیل کردیا ہے۔ اگر یہ نہیں، یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور ایمان و توحیدکے تقاضوں کونہیں ماننا تو پھر محمد بن عبداللہ کی ’’ولادت‘‘ کا ’’جشن‘‘ ایک فریب نفس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
بہ مصطفے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہی است
’’سیرت گوئی‘‘ سے زیادہ ’’سیرت سازی‘‘ کی ضرورت
مرکزی وزارت مذہبی امور کے تحت اسلام آباد میں اور محکمۂ اوقاف کے تحت صوبوں میں کئی سال سے ربیع الاول کے مہینے میں سالانہ سیرت کانفرنسیں بڑے تزک و احتشام سے ہورہی ہیں، ان کانفرنسوں میں ملک کے ممتاز رہنما، علماء و فضلاء اور مفکرین و اہل قلم شرکت کرتے ہیں۔ جن کی آمدورفت اور مہمان نوازی پر لاکھوں روپیہ خرچ ہوتا ہے۔
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ پوری دنیا کے لیے ایک بہترین اور بے مثال نمونہ ہے۔
( لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)[الأحزاب 21:33]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر فی الواقع صنم کدۂ عرب میں توحید کا علم بلند فرمایا۔شرک و کفر کے ظلمات سے نکال کر لوگوں کے دلوں کو توحید و ہدایت ربانی کے نور سے منور کیا۔ اخلاق باختہ لوگوں کو بااخلاق بلکہ معلم اخلاق بنایا، آپس کے بغض و عناد کو دور کرکے ان میں محبت و الفت پیدا کی۔ بتان رنگ و نسل کو توڑ کر پوری امت مسلمہ کو یک قالب بنایا اور تمیز ما و تو کو مٹایا، غرض محمد عربی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سسکتی ہوئی انسانیت کو سہارا دیا اوراسے مشرکانہ عقائد و توہمات اور اخلاق رزیلہ کی دلدل سے نکال کر توحید اور اخلاق عالیہ کی صراط مستقیم پر گامزن فرمایا۔
مسلمانوں کے لیے اپنے عظیم الشان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بے مثال کارنامہ جس کی نظیر تاریخ انسانیت میں نہیں ملتی، انتہائی قابل فخر ہے۔ لیکن (قطع نظر بعض دوسری اہم باتوں کے) اس سلسلے میں اصل سوال یہ ہے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انسانیت ساز کردار اس لائق ہے کہ سب مسلمان اس کو اپنائیں اوراس کو اختیارکریں؟ یا اس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ سال بہ سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے موقع پر آپ کے ان محاسن و تعلیمات کا زبانی اظہار کرکے عقیدت و تحسین کے چند پھول آپ کی ذات گرامی کو پیش کردیے جائیں اور بس…۔ اگر آپ کی سیرت صرف موضوعِ گفتار ہی ہے تو پھر ہم میں اور غیر مسلموں میں کیا فرق رہا؟ گفتار کی حد تک تو غیر مسلم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں اوران کارناموں کو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں جو جلسہ ہائے سیرت میں بیان کیے جاتے ہیں۔
اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس لائق ہے کہ اس سے صرف زبان و بیان کی محفلوں کو ہی سجانے کا کام نہ لیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ عملاً وہ سیرت و کردار بھی اپنایا جائے جن سے آپ نے دنیائے انسانیت کو روشناس کیا تو ہمیں بتلایا جائے کہ پھر آخر ہماری سرگرمیاں جلسہ و جلوس تک ہی محدود ہوکر کیوں رہ گئی ہیں! ہم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنانے کے لیے کیوں تیار نہیں ہوتے؟ اور جس حساب سے زبانی عقیدت کا جوش و خروش ظاہر کیا جارہا ہے اسی حساب سے ہمارا عمل و کردار پست تر کیوں ہوتا جا رہا ہے، اسی حساب سے ہمارے دلوں کی دنیا کیوں تاریک تر ہوتی جارہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن و فضائل کی گونج سے ہمارے اپنے ہی کان کیوں بے بہرہ ہیں؟ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و کردار کی اس روشنی سے جس سے سارا عالم بقعۂ نور بنا، ہماری اپنی ہی آنکھیں کیوں محروم ہیں؟ بہرحال ہمارا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اصل
چیز عمل ہے، اس کے بغیر محض زبانی عقیدت و محبت کا اظہار کوئی چیز نہیں۔
تَعْصِي الإِْلٰہَ وَأَنْتَ تَزْعُمُ حُبَّہٗ ھٰذَا مَحَالٌ، فِي الْقِیَاسِ بَدِیعُ لَوْ کَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأَطَعْتَہٗ إِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیعُ[ زاد المعاد: 194/4۔]
کیا محض سیرت کانفرنسوں کا انعقاد اور مروجہ رسومات کا اہتمام ہی کافی ہے؟
ربیع الاول میں ’’عقیدت و محبت‘‘ کے عنوان سے جو کچھ کیا جاتا ہے، جیسے جلوس نکالاجاتا ہے جس میں دنیا بھر کی بے ہودگیاں روا رکھی جاتی ہیں، چمٹے بجائے جاتے ہیں، فلمی دھنوں پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں، بھنگڑا ڈالا جاتا ہے اور ڈھولک کی تھاپ پر رقص کیا جاتا ہے، بھلا ان چیزوں کا اسلام سے کیا تعلق؟ اسلام نے تو ان سب چیزوں کو مٹایا تھا۔ اب پھر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر ہی ان خرافات کا احیا کس قدر شوخ چشمانہ جسارت ہے۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حکومت جس کا دعویٰ ہے کہ اسلام اس کا دین ہے، ان ایجاد بندہ رسومات کا سد باب کرتی، اس لیے کہ اسلام کی ابتدائی چھ صدیوں میں یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی حیثیت نہیں دی گئی نہ کوئی مولود کو جانتا تھا، نہ کوئی اس کو پڑھتا تھا نہ ’’مناتا‘‘ تھا۔ عہد نبوی، عہد صحابہ و تابعین حتی کہ چاروں مذہبوں کے امام اور ان کے تلامذہ سے کوئی اس کی اصل نہیں ملتی اور دین کے نام پر کیے گئے ایسے نئے کام اسلام میں بدعت کہلاتے ہیں۔ ہر اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ ایسی بدعات کا قلع قمع کرے لیکن افسوس کہ ہماری حکومتوں کے طرز عمل سے ان ’’رسومات‘‘ کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
وزارت مذہبی امور اور محکمۂ اوقاف کی طرف سے جو سیرت کانفرنسیں مسلسل کئی سال سے ہمارے ملک میں ہورہی ہیں۔ بیان سیرت کی حد تک تو یہ ٹھیک ہے اور مقصد اور جذبہ اگر صحیح ہے تو اس کے کار خیر ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ لیکن ایک تو مولود مروج کے موقع پر ان کا انعقاد محل نظر ہے کیونکہ اس طرح ان کا تعلق ان ہی بدعات سے جڑ جاتا ہے جن کاذکر ہم نے گزشتہ سطور میں کیا ہے۔ یہ کسی اور مہینے میں رکھی جائیں تو بہتر ہے تاکہ برخود غلط لوگوں نے ’’جشن ولادت‘‘ کے عنوان سے جو غیرشرعی رسمیں ایجاد کرلی ہیں، ان سیرت کانفرنسوں سے ان کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔
دوسرے، حکومت کے پاس ہر طرح کے وسائل موجود ہیں اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کو عملاً اجاگر کرنے کی صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔ وہ صرف سیرت کانفرنسوں کے انعقاد سے اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی سے عہدہ بر آ نہیں ہوسکتی تاآنکہ وہ عملی اقدامات بھی بروئے کار نہ لائے۔
اس لیے ہم وزارت مذہبی امور، محکمۂ اوقاف اور حکومت کے دیگر اہم ذمے داروں سے عرض کریں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جذباتی وابستگی کے مظاہرے سے کچھ بلند ہوکر سیرت نبوی کو عملاً اپنانے کی شدید ضرورت ہے۔ ہمارا ملک اخلاقی زوال کی انتہا کو پہنچ چکا ہے، قبر پرستی کی صورت میں کاروبارِ لات و منات عروج پر ہے، رنگ و نسل اور زبان کے وہ بت، جن کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے پاش پاش کردیا تھا، ہم نے نہ صرف اپنے حریم دل کے طاقوں میں سجا لیے ہیں بلکہ ان کی پرستش بھی کررہے ہیں، جس کا مظاہرہ سندھ کے علاقوں اور کراچی وغیرہ میں سالہاسال سے ہورہا ہے اورجس کا سلسلہ وقفے وقفے سے تاحال جاری ہے۔
ان حالات میں بہ بانگ دہل مجمع لگا کر لوگوں کو یہ سنانا کہ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ یہ کارنامے انجام دیے۔ جبکہ خود ہماری اپنی زندگی کا ایک ایک عمل، ایک ایک ادا اور
ایک ایک حرکت پیغمبر اسلام کے کارناموں پر خط نسخ پھیر رہی ہو، کون سا دانش مندانہ فعل ہے؟ اور یہ عقل و فہم کا کون سا صحیح استعمال ہے کہ نسخۂ کیمیا بھی موجود ہو اور مریض جاں بلب بھی سامنے پڑا کراہ رہا ہو لیکن ہم اس نسخۂ کیمیا سے جاں بلب مریض کا علاج کرنے کی بجائے اس امر کا اہتمام کریں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اجتماع کرکے ہم ان کے سامنے اس نسخۂ کیمیا کے وہ اثرات و نتائج اور فوائد بیان کریں جو آج سے چودہ سو سال پہلے جاں بلب قوم کو اس کے استعمال سے حاصل ہوئے تھے۔
ہماری اس حرکت سے دنیا یا تو ہمیں ہی احمق تصور کرے گی یا پھر ان کارناموں کو ہی داستان طرازی سمجھے گی جو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے ضمن میں بیان کرتے ہیں اور جو سیرت کانفرنسوں کا خاص موضوع ہوتے ہیں۔ بہرحال اخلاقی انحطاط سے دو چار قوم کو سیرت گوئی کی نہیں، سیرت سازی کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اگر کچھ کرسکتے یا کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو سیرت سازی کا یہ کام کرئیے!
اگر یہ نہیں تو پھر کچھ نہیں بابا
(قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ)
’’(اے پیغمبر!) آپ کہہ دیجیے: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناہ معاف کردے گا۔‘‘[آل عمران: 3/31]
میلاد النبی۔ شبہات کا ازالہ
یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ، تابعین اور مشہور ائمہ کے عہد میں میلاد النبی کی محفلیں منعقد کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا لیکن ان کے جواز کے لیے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے بعض اقوال اور افعال سے استدلال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں ان شبہات کا ازالہ درج ذیل ہے:
(1) جب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودی عاشورا کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ نے ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے: اس دن اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی۔ ہم شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسٰی مِنْکُمْ، فَصَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہٖ‘
’’میں تمھاری نسبت موسیٰ علیہ السلام کا زیادہ حق دار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیا۔‘‘
[صحیح البخاري، الصوم، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2004، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1130]
ازالہ:نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف یہودیوں کو دیکھ کر یہ روزہ شروع نہیں کیا تھا بلکہ مکہ میں بھی آپ عاشورا کا روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو رکھنے کا حکم دیتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو آپ نے اسے لوگوں کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’کَانَ یَوْمُ عَاشُورَائَ تَصُومُہٗ قُرَیْشٌ فِي الْجَاہِلِیَّۃِ، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَصُومُہٗ فِي الْجَاہِلِیَّۃِ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِینَۃَ صَامَہٗ وَأَمَرَ بِصِیَامِہٖ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ تَرَکَ یَوْمَ عَاشُورَائَ، فَمَنْ شَآئَ صَامَہٗ وَمَنْ شَآئَ تَرَکَہٗ‘
’’عاشورا کے دن قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعثت سے پہلے ہی سے اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ جب آپ مدینہ آئے۔ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو آپ نے عاشورا کا روزہ ترک کر دیا۔ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے۔‘‘
[صحیح البخاري، الصوم،باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2002، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1125]
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
’ھٰذَا یَوْمُ عَاشُورَائَ وَلَمْ یَکْتُبِ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہٗ وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ شَائَ فَلْیَصُمْ وَمَنْ شَائَ فَلْیُفْطِرْ‘
’’یوم عاشورا کا روزہ اللہ نے تم پر فرض نہیں کیا۔ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے۔ تم میں سے جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘
[صحیح البخاري، الصوم،باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 2003، وصحیح مسلم، الصیام، باب صوم یوم عاشورائ، حدیث: 1129]
عاشورا کاروزہ نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی رکھا ہے اور دوسروں کو بھی رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ اس کے برعکس عید میلاد نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منائی، نہ صحابہ نے منائی، نہ تابعین سے اس کا ثبوت ملتاہے اور نہ ائمۂ عظام ہی نے اس کا اہتمام کیا۔ اسے ایک مسنون عمل پر کیسے قیاس کیا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر دین میں نئے امور ایجاد کرنے سے منع فرمایا ہے، سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِیَّاکُمْ وَالْأُمُورَ الْمُحْدَثَاتِ، فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘
’’نئے نئے کام ایجاد کرنے سے بچنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
[ سنن ابن ماجہ، المقدمۃ، باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، حدیث: 42]
اور بہت سی دوسری احادیث ہیں جن کا ذکر مقدمہ میں گزر چکا ہے۔
(2) عید میلاد النبی کے لیے اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر کے روزے کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ذَاکَ یَوْمٌ وُلِدْتُّ فِیہِ، وَیَوْمٌ بُعِثْتُ فِیہِ‘
’’اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھے نبوت عطا کی گئی۔‘‘
[صحیح مسلم، الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ…، حدیث: 1162]
آپ اپنے یوم پیدائش کی تعظیم کیا کرتے تھے اور اپنی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھا کرتے تھے۔
ازالہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف پیر کو روزہ نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کی وجہ آپ نے یہ بتائی:
’تُعْرَضُ الْأَعْمَالُ یَوْمَ الْاِثْنَیْنِ وَالْخَمِیسِ، فَأُحِبُّ أَنْ یُّعْرَضَ عَمَلِِي وَأَنَا صَائِمٌ‘
’’پیر اورجمعرات کو اعمال پیش کیے جاتے ہیں۔ مجھے یہ بات پسند ہے، جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘
[جامع الترمذي،الصوم، باب ماجاء في صوم یوم الاثنین والخمیس، حدیث: 747]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر پیر کو روزہ رکھا کرتے تھے نہ کہ صرف بارہ ربیع الاول کو۔
اس حدیث سے تو محض اس قدر ہی استدلال ہوسکتاہے کہ اس دن روزہ رکھا جائے، باقی سرگرمیوں کا جواز کہاں سے نکل سکتا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۚ إِنَّ اللّٰهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١﴾)
’’اے ایمان والو! تم اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور تم اللہ سے ڈرو، بلاشبہ اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘[ الحجرات 1:49]
مزید ارشاد فرمایا:
(وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ)
’’اور اللہ کا رسول تمھیں جو کچھ دے وہ لے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو۔‘‘[الحشر 7:59]
دلچسپ بات یہ ہے کہ استدلال تو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے سے کیا جاتا ہے، لیکن اس دن روزہ بالکل نہیں رکھا جاتا، بلکہ بہت سے افراد نے لکھاہے کہ اس دن روزہ رکھنا مکروہ ہے۔
ابن عباد اور ابن عاشر نے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ شیخ ابو عبداللہ محمد بن محمد بن عبدالرحمن طرابلسی اپنی کتاب ’’مواہب الجلیل شرح مختصر خلیل‘‘ میں لکھتے ہیں، شیخ زروق ’’شرح القرطبیہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
’إِنَّہٗ مِنْ أَعْیَادِ الْمُسْلِمِینَ فَیَنْبَغِي أَنْ لاَّ یُصَامَ فِیہِ‘
’’یہ دن مسلمانوں کی عیدوں میں سے ہے، اس دن روزہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔‘‘[ القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل، ص: 631]
شیخ احمد بن خالد الناصری اپنی کتاب ’’الاستقصاء لأخبار دول المغرب الأقصی‘‘ (کی جلد دوم صفحہ: 144) میں لکھتے ہیں کہ میں ساحل سمندر کی طرف گیا۔ مجھے ابن عاشر اور ان کے مرید ملے جو کھانے پینے میں مشغول تھے۔ انھوں نے مجھے بھی کھانے
میں شریک ہونے کی دعوت دی۔ میں نے بتایا کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، انھوں نے ناپسندیدہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا:
’ھٰذَا یَوْمُ فَرَحٍ وَّ سُرُورٍ یُسْتَقْبَحُ فِي مِثْلِہِ الصَّوْمُ کَالْعِیدِ‘
’’یہ خوشی اور لطف اندوز ہونے کا دن ہے۔ عید کی طرح اس دن بھی روزہ رکھنا انتہائی بری بات ہے۔‘‘
[ القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد الرسل، ص: 633]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سات دنوں کو مسلمانوں کے لیے عید قرار دیا ہے:
٭ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور ان لوگوں کے ہاں دو دن مقرر تھے، ان میں وہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔ آپ نے پوچھا: ’’یہ دو دن کیا ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا: ہم دورِ جاہلیت میں ان دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’إِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَبْدَلَکُمْ بِھِمَا خَیْرًا مِنْھُمَا: یَوْمَ الْأَضْحٰی، وَیَوْمَ الْفِطْرِ‘
’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمھیں ان کے بدلے ان سے اچھے دن دیے ہیں۔ أضحٰی (قربانی) اور فطر کا دن۔‘‘
[سنن أبي داود، الصلاۃ، باب صلاۃ العیدین، حدیث: 1134]
٭ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’یَوْمُ عَرَفَۃَ وَیَوْمُ النَّحْرِ وَأَیَّامُ التَّشْرِیقِ عِیدُنَا، أَھْلَ الإِْسْلَامِ، وَھِيَ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ‘
’’عرفہ (9ذوالحجہ)، نحر (الاضحی) اور ایام تشریق (عید الاضحی کے بعد والے تین دن) ہم اہل اسلام کے لیے عید کے دن ہیں۔‘‘
[جامع الترمذي، الصوم، باب ما جاء في کراہیۃ صوم…، حدیث: 773]
٭ اسی طرح جمعہ کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا:
’إِنَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ یَوْمُ عِیدٍ، فَلَا تَجْعَلُوا یَوْمَ عِیدِکُمْ یَوْمَ صِیَامِکُمْ إِلاَّ أَنْ تَصُومُوا قَبْلَہٗ أَوْ بَعْدَہٗ‘
’’بے شک جمعے کا دن عید کا دن ہے، اپنے اس عید کے دن روزہ نہ رکھو مگر یہ کہ اس سے ایک دن پہلے یا بعد میں روزہ رکھو۔‘‘
[مسند أحمد: 303/2]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انھی سات دنوں کو عید قرار دیا ہے۔ اب عید کا آٹھواں دن کہاں سے آگیا؟ اللہ تعالیٰ تو واضح انداز میں اعلان فرماتا ہے:
(الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ)
’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمھارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کر لیا۔‘‘
[المآئدۃ 3:5]
دین کی تکمیل کے بعد اس میں اپنی طرف سے اضافہ بدعت ہی ہے چاہے اس پر کیسی ہی ملمع سازی کی گئی ہو۔
(3) یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی منانا تو قرآن کی رو سے مطلوب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے:
(قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا)
’’کہہ دیجیے! کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے خوش ہو جاؤ۔‘‘[ یونس 58:10]
اللہ تعالیٰ نے رحمت سے خوش ہونے کا حکم دیا ہے، نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی رحمت ہیں تو ہم کیوں اس پر خوش نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾)
’’اور ہم نے آپ کو سب جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ [ الأنبیآء 107:21]
ازالہ: سورۂ یونس کی آیت کو پیچھے والی آیت کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ یہاں رحمت سے کیا مراد ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ﴿٥٨﴾)
’’اے لوگو! یقینا تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے (قران کی) نصیحت آگئی ہے اور (یہ) شفا ہے ان (بیماریوں) کے لیے جو سینوں میں ہیں اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (اے نبی!) کہہ دیجیے !(یہ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے (نازل ہوا) ہے، لہٰذا (لوگوں کو) چاہیے کہ وہ اسی کے ساتھ خوش ہوں، یہ ان چیزوں سے بہت بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔‘‘[یونس 58,57:10]
ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رحمت سے مراد قرآن مجید ہے۔ صحابۂ کرام بھی اس سے قرآن اور اسلام ہی مراد لیتے تھے۔
امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا)کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ابو سعید خدری اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
’فَضْلُ اللّٰہِ: الْقُرْآنُ، وَرَحْمَتُہُ: الإِْسْلاَمُ‘
’’اللہ کا فضل قرآن اور اس کی رحمت اسلام ہے۔‘‘
اسی طرح حسن بصری، ضحاک، مجاہد اور قتادہ رحمۃ اللہ علیہم کہتے ہیں:
’فَضْلُ اللّٰہِ: الإِْیمَانُ، وَرَحْمَتُہُ: الْقُرْآنُ‘
’’اللہ کا فضل ایمان اور اس کی رحمت قرآن ہے۔‘‘
[الجامع لأحکام القرآن: 11,10/11]
اسی طرح امام ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے قرآن مجید ہی کی دوسری آیات سے ثابت کیا ہے کہ قرآن ہی کو اللہ نے لوگوں کے لیے اپنی رحمت قرار دیا ہے۔
[تفسیر ابن کثیر: 553/2]
(4) اسی طرح مندرجہ ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
’أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَقَّ عَنْ نَّفْسِہٖ بَعْدَ النُّبُوَّۃِ‘
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔‘‘
[السنن الکبریٰ للبیہقي، حدیث: 19813، و مجمع الزوائد، حدیث: 6203]
نبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ آپ کے دادا عبدالمطلب نے ساتویں دن کیا تھا۔ عقیقہ دوسری مرتبہ نہیں کیا جا سکتا۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ولادت کی خوشی منانے اور امت کو تعلیم دینے کے لیے ایسا کیا۔ ہمیں بھی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے اس عظیم نعمت کے شکرانے کے طور پر اجتماعات منعقد کرنے اور انواع و اقسام کے کھانوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ازالہ: یہ حدیث ثابت ہی نہیں ہے۔
’قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ فِي مُصَنَّفِہٖ… أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَرَّرٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَقَّ عَنْ نَّفْسِہٖ بَعْدَ النُّبُوَّۃِ‘
امام ابن قیم اس حدیث کو عبدالرزاق کے حوالے سے بیان کرنے کے بعد عبدالرزاق کا یہ قول بیان کرتے ہیں:
’إِنَّمَا تَرَکُوا ابْنَ مُحَرَّرٍ بِھٰذَا الْحَدِیثِ‘
’’انھوں (محدثین) نے ابن محرر کو اس حدیث کی وجہ سے چھوڑ دیا ہے۔‘‘[تحفۃ المودود، ص: 93]
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’یہ حدیث ثابت نہیں۔‘‘
بزار کہتے ہیں: اس حدیث کو بیان کرنے والا اکیلا عبداللہ بن محرر ہے اور وہ ضعیف ہے۔[ فتح الباري: 737,736/9]
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وَأَمَّا الْحَدِیثُ الَّذِي ذَکَرَہٗ فِي عَقِّ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم عَنْ نَّفْسِہٖ فَرَوَاہُ الْبَیْہَقِيُّ بِإِسْنَادِہٖ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مُحَرَّرٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنْ أَنَسٍ…الخ۔ ھٰذَا حَدِیثٌ بَاطِلٌ وَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ مُحَرَّرٍ ضَعِیفٌ، مُتَّفَقٌ عَلٰی ضُعْفِہٖ، قَالَ الْحُفَّاظُ: ھُوَ مَتْرُوکٌ۔
عقیقہ والی حدیث کو امام بیہقی عبداللہ بن محرر عن قتادہ عن انس سے بیان کرتے ہیں۔
یہ حدیث باطل ہے۔ عبداللہ بن محرر ضعیف ہے اور اس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔ حفاظ حدیث کہتے ہیں: ’’یہ متروک ہے۔‘‘
[المجموع شرح المہذب: 12/8]
امام ذہبی کہتے ہیں: ’’یہ متروک ہے اور ثقہ نہیں ہے۔‘‘[ میزان الاعتدال: 500/2]
امام احمد کہتے ہیں: ’’لوگوں نے اس کی حدیث کو ترک کر دیا ہے۔‘‘
امام دارقطنی کہتے ہیں: ’’یہ متروک ہے۔‘‘
امام ابن حبان کہتے ہیں: ’’یہ بغیر علم کے جھوٹ بولتا ہے اور اخبار کو بغیر سمجھے الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔‘‘
امام ابن معین کہتے ہیں: ’’یہ ثقہ نہیں ہے۔‘‘
امام بخاری کہتے ہیں: ’’منکر الحدیث ہے۔‘‘[ الضعفاء الکبیر: 309/2، ومیزان الاعتدال: 500/2]
(5) ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے، مان لیتے ہیں عید میلاد النبی بدعت ہے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لیکن یہ بدعت حسنہ ہے جیسا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے تراویح کی جماعت شروع کروائی تو لوگوں کو باجماعت نماز تراویح ادا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’نِعْمَۃِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ‘ ’’یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘ یہی مثال عید میلاد النبی کی ہے۔
ازالہ: اس کا مفصل جواب کتاب کے مقدمہ میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
(6) اسی طرح ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس کے جواز پر متفق اور اس کے منانے کا اہتمام کرتی ہے اور حدیث میں آتا ہے:
’مَا رَاٰہُ الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَھُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ‘
’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہی ہوتاہے۔‘‘[مسند أحمد: 379/1]
ازالہ: اس کا مفصل جواب کتاب کے مقدمہ میں، ص: 103-95 میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
(7) اسی طرح ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام میں جو اچھا کام رائج کرتا ہے اسے اس پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملتا رہتا ہے۔ حدیث میں ہے:
’مَنْ سَنَّ فِي الإِْسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً…الخ‘
’’جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا… الخ‘‘
[صحیح مسلم، العلم، باب من سن …، حدیث: 1017، بعد الحدیث، 2673]
تو میلاد النبی بھی اچھا طریقہ ہے لہٰذا ہمیں اسے منانا چاہیے۔
ازالہ: اس کا مفصل جواب بھی کتاب کے مقدمہ میں گزر چکا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
خود ساختہ ثقافت کے حوالے سے جواز؟ کیا’’ثقافت‘‘ دین و مذہب سے الگ چیز ہے؟
’’میلاد‘‘ کو دھوم دھام سے منانے کی ایک ’’دلیل‘‘ اب یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ اس کا تعلق دین ومذہب سے نہیں بلکہ ثقافت سے ہے۔ پہلے لوگوں کا رہن سہن، معاشرت سادہ تھی، لوگوں کے مکان تنگ اور چھوٹے ہوتے تھے، لباس اور بودوباش اور خوراک وغیرہ سب سادہ تھی۔ اب اس کے برعکس عالیشان رہائشیں ہیں، پوشاکیں اور خوراکیں بھی پرتکلف ہیں حتی کہ مساجد بھی پختہ ہی نہیں، نہایت عالی شان اور زرنگار ہیں۔ اسی طرح میلاد کے جشن میں جو یہ دھوم دھام اور اسرافِ بے جا کی صورتیں ہیں یا جلوس اوراس قسم کے دیگر مظاہر ہیں، ان کا تعلق بھی ثقافت سے ہے، اس لیے جس طرح ثقافت کے دیگر مظاہر کو ’’بدعت‘‘ نہیں کہا جاتا، میلاد کے ان خود ساختہ مظاہروں کو بھی ’’بدعت‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
سبحان اللہ! یہ ’’دلیل‘‘ بھی خوب ہے۔ گویا علاقائی طور اطوار بھی، جس کو ثقافت کا نام دیا گیا ہے، اب ’’شرعی دلیل‘‘ بن گئے ہیں۔ اس اعتبار سے بعض علاقوں میں جو ’’ونی‘‘ یا کاروکاری کی رسمیں ہیں جن کو ختم کرنے کا مطالبہ کیاجاتا رہتا ہے، وہ بھی علاقائی ثقافت کے نام پر جائز ہی ہونی چاہئیں؟مختلف علاقوں میں جو اپنے اپنے علاقوں کے حساب سے مختلف قسم کے ’’ڈانس‘‘ رائج ہیں، جیسے ’’خٹک ڈانس‘‘ ’’لُڈی‘‘ ’’بھنگڑا‘‘ وغیرہ یہ بھی ثقافتی مظاہر ہیں، ان کو بھی دین و شریعت کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، بس علاقائی ثقافت کی وجہ سے ان کا جواز تسلیم کر لینا چاہیے۔ اسی طرح ہماری شادی بیاہ کی بہت سی رسومات ہندوئوں کی نقالی یا اسلامی تہذیب سے نفرت و بیگانگی پر مبنی ہیں، جیسے مہندی کی رسم ہے، بینڈ باجوں کا رواج ہے، آتش بازی کا سلسلہ ہے، مردوں اور عورتوں کا بے باکانہ اختلاط اوران کی ویڈیو فلم سازی ہے، عورتوں کا پردے سے یکسر بے نیاز ہوکر برسرِ عام اپنے حسن و جمال، اپنی آرائش و زیبائش اوراپنے لباس اور زیورات کی نمائش کرنا ہے، انواع و اقسام کے کھانوں کی صورت میں اسراف و تبذیر کا شیطانی سلسلہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب گویا ثقافتی مظاہر ہیں جو قابل نکیر نہیں بلکہ مذکورہ دلیل کی رو سے جائز قرار پائیں گے۔ سچ ہے:
گر ہمیں مکتب و ہمیں ملاں
کار طفلاں تمام خواہد شد
اس لیے ہم عرض کریں گے کہ کسی ملک یا قوم کی ثقافت کوئی چیز نہیں، اصل چیز اس قوم کا مذہب اور نظریہ ہے، ہر چیز اس کے مذہبی نظریات کے تابع ہوتی ہے۔
ہندومت ایک مذہب ہے، اس کے ماننے والوں کی ہر چیز اس کے تابع ہے، وہ اپنے مردوں کو دفناتے نہیں، جلاتے ہیں، وہ اپنی لڑکیوں کو وراثت میں سے حصہ نہیں دیتے، بلکہ شادی کے موقع پر دان (جہیز) دیتے ہیں۔ وعلیٰ ھذا القیاس ان کی ثقافت کے اور مظاہر ہیں، وہ محض ثقافت نہیں، ان کے مذہب اور نظریۂ حیات کا حصہ ہیں۔
حیا باختگی مغربی ثقافت ہے جس کے بہت سے مظاہر ہیں، جیسے بے پردگی و عریانی، مردو زن کا بے باکانہ و بے حجابانہ اختلاط بلکہ برسرعام چوکوں اور سڑکوں پر بوس و کنار، شراب نوشی، جوڑوں کا باہم رقص و سرود، نکاح کے بغیر مردوزن کا باہم جنسی تعلق وغیرہ یہ ان کی اس ثقافت کا حصہ ہیں جو انھوں نے مذہب سے آزاد ہوکر اختیار کی ہے۔ اب یہی ان کا مذہب اور نظریۂ حیات ہے اور یہی ان کی ثقافت اور کلچر ہے۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ آج کل جس کو ثقافت یا کلچرکہا جاتا ہے، وہ کسی قوم کے مذہبی تصورات اورنظریۂ حیات سے الگ نہیں ہوتا بلکہ اس کے نظریۂ حیات ہی کے اجزائے ترکیبی سے تشکیل پاتا ہے۔ اس اعتبار سے مسلمانوں کی ثقافت ہرگز وہ نہیں ہوسکتی جس کے اجزائے ترکیبی اس کے اسلامی تصورات کے بجائے غیروں کے تصورات، یا غیروں کی نقالی و مشابہت پر مبنی یا اسلام کے بیان کردہ اصولوں سے متصادم ہوں۔
’’میلاد‘‘ کے اجزائے ترکیبی کا اسلام کے تصورات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کے سب اجزاء غیروں کی نقالی اور مشابہت پر مبنی ہیں جن سے مسلمانوں کو روکا گیا ہے، جیسے:
٭’’یوم‘‘ منانا ٭چراغاں کرنا
٭ جلوس نکالنا ٭بھنگڑے، لڈیاں ڈالنا
٭اسراف و تبذیر اور ٭افراط و غلو کا مظاہرہ
٭تعین کے ساتھ صدقہ و خیرات کرنا۔
ان میں سے کوئی جز بھی اسلامی نہیں ہے، پھر اس کو اسلامی ثقافت یا مسلمانوں کی ثقافت کس طرح تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ یا ثقافت کے نام پر غیروں کی اس نقالی کو کیوں کر جائز یا اجرو ثواب کا باعث سمجھا جاسکتا ہے؟
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے معاشرت سادہ تھی، اب آسائشوں اور سہولتوں کی فراوانی ہے۔ لیکن ان کا تعلق تو مادی اسباب و وسائل سے ہے، پہلے یہ وسائل کم تھے، اب وسائل کی فراوانی ہے جس کی وجہ سے معاشرت میں سادگی کی بجائے آسائشوں کے استعمال میں زیادتی آگئی ہے اور ایسے حالات میں جب اللہ تعالیٰ اسباب و وسائل سے نوازے، شریعت اسلامیہ میں ان سے فیض یاب ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر کسی پر انعام و اکرام فرمائے تو وہ اس بات کو پسند فرماتاہے کہ اس کے اثرات بھی اس شخص میں نظر آئیں۔[1]
اس اعتبار سے اگر کوئی شخص اللہ کے دیے ہوئے وسائل سے اچھا مکان بنا لیتا ہے، اچھی بودوباش اختیار کرتا ہے، اچھی خوراک استعمال کرتا ہے بشرطیکہ وہ اسراف اور تکبر سے بچتا ہے تو یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ لیکن ان مادی اسباب و وسائل کو استعمال کرنے والا کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ سادہ مکان کی بجائے اچھا مکان بنا کر رہنے میں اجروثواب زیادہ ہے، سادہ خوراک کی بجائے اچھی خوراک کی فضیلت زیادہ ہے، سادہ لباس کی بجائے بیش قیمت لباس پہننے کا اجر مجھے زیادہ ملے گا۔ وغیرہ۔
جب کہ ’’جشن میلاد‘‘ میں کروڑوں کے حساب سے جو بے مصرف پیسہ برباد کیا جاتا ہے، وہ ایک تو سراسر اسراف و تبذیر ہے جو قرآن کی رو سے اخوانِ شیاطین کا کام ہے، لیکن جواز کا فلسفہ تراشنے والے ’’مفکرینِ اسلام‘‘ کی طرف سے اس شیطانی کام کو اجرو ثواب اور نہایت فضیلت والا کام باور کرایا جاتا ہے۔ دوسرا، یہ غیر مسلموں کی نقالی ہے جو فرمانِ رسول کی رو سے سخت ناجائزاور حرام ہے۔ اسی طرح اس رسم کے دوسرے مظاہر ہیں، ان میں سے کسی کا بھی اسلامی نقطۂ نظر سے جواز نہیں ہے۔
علاوہ ازیں مسجد، مکان، خوراک وغیرہ یہ سب چیزیں تو ایسی ہیں جو عہد رسالت و عہد صحابہ میں سادگی کے ساتھ موجود تھیں، وسائل کی فراوانی سے یہی ہوا ہے کہ ان میں کچھ ترقی ہوگئی ہے۔ اگرچہ اس ترقی کو کوئی اجروثواب کا باعث قرار نہیں دیتا۔ لیکن ’’میلاد‘‘ کی رسم تو ایسی ہے کہ عہد رسالت و ادوارِ خیر القرون میں اس کا سرے سے کوئی نام و نشان ہی نہیں ملتا، اس کی دھوم دھام کو معاشرتی ترقی سے کس طرح جوڑا جاسکتا ہے؟ بہرحال جس اعتبار سے بھی اس رسم کاجائزہ لیا جائے، اس کوجواز یا استحسان کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ سراسر اپنے اجزائے ترکیبی کے اعتبار سے ناجائز اور بدعت و منکر ہے۔ أعاذنا اللّٰہ منھا۔
ملحوظہ: یہ ثقافت والی ’’دلیل‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری کی ذہنی اُپج ہے جو قرآن کریم کی بیان کردہ حقیقت (وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ) (الأنعام: 121:6) کی مصداق ہے۔
’’جشن میلاد‘‘ کے جواز میں پیش کیے جانے والے دیگر ’’دلائل‘‘ کی حقیقت جاننے کے لیے ملاحظہ ہو، ہماری کتاب ’’جشن ِمیلاد‘‘ کی حقیقت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ۔‘‘
چراغاں اورآتش بازی کا رواج اوراس کی حقیقت
چراغاں کا سلسلہ بھی آج کل عام اور روز افزوں ہے۔ پہلے پہل ہندوستان میں یہ شب برات کے موقع پر ہوتا تھا اور لوگ عام طورپر اپنے گھروں کی منڈیروں پر موم بتیاں یا تیل کے چھوٹے چھوٹے دیے جلا کر چراغاں کرتے تھے، پھر شبِ معراج میں بھی یہ کام کیاجانے لگا اور پھر بڑھتے بڑھتے یہ سلسلہ ’’عید میلاد‘‘ تک دراز ہوگیا، علاوہ ازیں یہ سلسلہ موم بتیوں اور تیل کے دیووں سے بڑھ کر بجلی کے بلبوں، ٹیوبوں اور قمقموں تک پہنچ گیا، نیز منڈیروں سے نکل کر سڑکوں، گلی کوچوں، چوراہوں اور بازاروں اور پوری پوری عمارتوں حتی کہ مسجدوں تک وسیع ہوگیا۔
اور ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بجلی کے بلبوں اور قمقموں کے ذریعے سے جو زبردست چراغاں کیا جاتا ہے، وہ بیشتر چوری کی بجلی ہوتی ہے، یعنی براہ راست واپڈا کے بجلی کے تاروں سے کُنڈا لگاکر حاصل کی جاتی ہے۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اس چوری کی ان کو اجازت دی ہوئی ہے؟ اور اگر یہ اجازت نہیں ہے اور ہمارے خیال میں نہیں ہے تو کیا اس چوری کی بجلی سے چراغاں کرکے جشن منانے کا کوئی شرعی جواز ہے؟
اب ’’میلاد‘‘ کے موقع پر تو رنگ ونور کا یہ سیلاب کئی دنوں تک جاری رہتا ہے بلکہ انعامی مقابلے منعقد ہوتے ہیں اور جس علاقے کے گلی کوچوں یا بازار اور چوراہے کو یا نمایاں بڑی بڑی عمارتوں کو زیادہ سجایا یا برقایا (بجلی کے قمقموں سے آراستہ کیا) گیا ہوتا ہے، اسے انعام سے نوازا جاتاہے، اس طرح آرائش و زیبائش اور ’’چراغاں‘‘ پر بلامبالغہ
لاکھوں نہیں کروڑوں روپے چند دنوں میں خرچ کردیے جاتے ہیں اور اگر دیگر اسلامی ملکوں کو بھی، جہاں یہ رسوماتِ بدعیہ اسی انداز سے ادا کی جاتی ہیں، شامل کر لیا جائے تو یہ رقم کروڑوں سے تجاوز کرکے اربوں تک پہنچ جاتی ہے۔
اسے عوام کی نظروں میں ایک کارِخیر اور باعثِ اجروثواب کام باور کرادیا گیا ہے، تب ہی تو عوام اپنے خون پسینے کی کمائی اس طرح اس پر صرف کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، وہ اپنے پیغمبر کا اسوۂ حسنہ تو اپنانے اور اپنی زندگی کو اس سانچے میں ڈھالنے کے لیے تیار نہیں ہیں لیکن جب وارثانِ منبرِ رسول کی طرف سے ان کے ذہنوں میں یہ راسخ کردیا جائے کہ محبتِ رسول کا یہ طریقہ ہی نجات کے لیے کافی ہے تو پھر ان کے لیے کیا ضروری ہے کہ وہ اسوۂ حسنہ کو اپنا کر اپنے کاروبار کو صحیح کریں؟ اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کریں؟ اپنے معاملات اور معمولات کو درست کریں، اپنی زندگی کے رہن سہن اور طور اطوار کو صحیح کریں؟ کیا ان کے لیے یہ ’’نعم البدل‘‘ صحیح نہیں کہ وہ ان ساری ’’کھکھیڑوں‘‘ کی بجائے ’’میلاد‘‘ کے موقع پرچراغاں کرلیں یا جلوسِ میلاد میں شرکت کرلیں یا کروڑوں اوراربوں کے اس اسراف میں اپنا حصہ ڈال دیں اور پھر سارا سال اسوۂ حسنہ سے بے نیاز رہ کر من مانیاں کرتے رہیں۔
چنانچہ عوام نے اپنے مذہبی رہنماؤں کی شہ پر یہی ’’نعم البدل‘‘ مستقل طورپر اختیار کرلیا ہے اور وہ ’’میلاد‘‘ کے موقع پر نہایت ذوق و شوق سے اور بڑی وارفتگی سے چراغاں کرتے ہیں اوراس بے فائدہ کام پر کروڑوں اور اربوں روپے ہر سال برباد کردیتے ہیں۔
لیکن آئیے! ذرا دیکھیے! کہ ’’چراغاں‘‘ کا بڑھتا ہوا یہ سلسلہ ’’کارِ خیر‘‘ ہے یا ’’کارِغیر‘‘ ہے؟ یہ فرزندانِ توحید کا کام ہے یا اہل شرک کا امتیاز ہے؟
اس سلسلے میں ہم اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا اقتباس پیش کرنا بہتر سمجھتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’بدعتیں: ہندوستان کے اکثر شہروں میں لوگوں نے یہ رواج کرلیا ہے کہ پندرھویں شعبان کی رات کو اپنے گھر کی دیواروں پر چراغ جلاتے اور فخریہ روشنی کرتے ہیں کہ ہم نے ایسی اچھی روشنی کی ہے جو دوسروں سے اچھی ہے اور ہم اتنے بڑے آدمی ہیں جو روشنی کرتے ہیں۔ فردًا فردًا اور اجتماعی حیثیت سے اس رات میں آتش بازی چھوڑتے اور دیگر کھیل کود کرتے ہیں۔ یہ وہ امور ہیں جن کی اصلیت احادیث کی معتبر کتابوں میں موجود نہیں ہے، اس کے علاوہ کسی غیر معتبر کتاب میں بھی ان امور کے مسنون و سنت ہونے کی کوئی ضعیف یا موضوع حدیث پائی نہیں جاتی۔
ممالکِ عربیہ میں سے حرمین شریفین اور غیر عربی ممالک کے کئی دوسرے شہروں میں (ہندوستان کے سوا) ان امور کا کوئی رواج نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے، عین ممکن یہ ہے بلکہ یقین واثق ہے کہ ہندوستان کے ہندوؤں کے دیگر رسوم انجام دینے کی طرح ہندی مسلمانوں نے اس رسم کی پیروی کی، جیسے ہندو، دیوالی کے تہوار پر اپنے گھروں کی دیواروں اور طاقوں میں دیے جلاتے ہیں اور ہندوستان کے ہندوئوں میں کفر کی وجہ سے بدعتی امور بکثرت رائج ہیں۔ چونکہ مسلمانوں کے ہندوئوں سے بڑے اختلاط رہے ہیں، ہندوئوں نے اپنی عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کی شادیاں کیں، اسی اختلاطِ عام اور رہن سہن کے طریقے اختیار کرنے کے سبب سے مسلمانوں نے بھی روشنی
کرنے کی رسم ڈال لی ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ہم بھی کسی سیٹھ ساہوکار سے کم نہیں، جس طرح وہ روشنی کرتے ہیں ویسی ہی بلکہ اس سے اچھی ہم کرتے ہیں۔
بعض متأخرین علماء کا بیان ہے کہ مخصوص راتوں میں بکثرت روشنی کرنا، بدعتِ شنیعہ (نکمی بدعت) ہے، اس لیے کہ ضرورت سے زیادہ روشنی کرنے کے مستحب ہونے کا شریعت میں کوئی حکم نہیں ہے۔
علی بن ابراہیم کا بیان ہے کہ چراغاں اور روشنی کرنے کی ابتدا برمکیوں نے کی ہے جو نسلاً و اعتقادًاآتش پرست تھے اور ظاہری اسلام لانے کے بعد بھی انھوں نے اپنے وہمی و خیالی امور کو اسلام میں جاری رکھنے کی حتی الامکان کوششیں کیں کیونکہ اعتقادی طورپر ان کو قدیم رواج کے درست ہونے کا یقین تھا، نیز اسلام میں قدیم رواج و رسوم کو باقی رکھنے میں ان کی مصلحت یہ تھی کہ اسلام کے پردے میں چراغ جلا کر اس کو سجدہ کرتے ہوئے آتش پرستی کی روح کو باقی رکھیں۔ اور طرہ یہ ہے کہ جاہل ائمۂ مساجد نے چراغ و روشنی اور نمازِ رغائب کی آڑ میں لوگوں کو جمع کرنے کا طریقہ بنالیا ہے تاکہ اپنی قیادت و سرداری جتا کر دولت سمیٹ سکیں، ساتھ ہی قصہ خوان مجالس میں خوب قصے بیان کرسکیں اور غریبوں سے روپے لیتے رہیں۔ اور حقیقت امر یہ ہے کہ ان تمام منکرات کے بُطلان و اِبطال کے لیے اللہ نے ائمۂ ہدیٰ پیدا کیے کہ منکرات ناپید ہوجائیں۔ ان ائمۂ ہدیٰ میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے دوسری صدی ہجری میں ممالک عرب و شام کے اندر منکرات کو اچھی طرح ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔
’’تذکرہ‘‘میں علامہ طرطوسی نے لکھا ہے کہ ختم قرآن کی شب میں اجتماع، منبروں کا قیام، عورتوں اور مردوں کا میل جول اورکھیل کود وغیرہ میں باہمی اختلاط اور زمانۂ حال کے اعمال و کردارِ ناگفتہ بہ، یہ سب کے سب کام کوئی اصلیت نہیں رکھتے اور ان کے
جواز کی کوئی صورت نہیں۔‘‘[ ماثبت بالسنۃ في أیام السنۃ کا اردو ترجمہ ’’مومن کے ماہ و سال‘‘ صفحہ: 177,176، مطبوعہ دارالاشاعت، کراچی، 1966ء۔]
تقریباً یہی بات ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفّٰی1014ھ) نے بھی لکھی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:
’وَأَوَّلُ حُدُوثِ الْوَقِیدِ مِنَ الْبَرَامَکَۃِ وَکَانُوا عَبَدَۃَ النَّارِ، فَلَمَّا أَسْلَمُوا أَدْخَلُوا فِي الإِْسْلَامِ، مَا یُمَوِّھُونَ أَنَّہٗ مِنْ سُنَنِ الدِّینِ وَمَقْصُودُھُمْ عِبَادَۃُ النِّیرَانِ حَیْثُ رَکَعُوا وَسَجَدُوا مَعَ الْمُسْلِمِینَ إِلٰی تِلْکَ النِّیرَانِ، وَلَمْ یَأْتِ فِي الشَّرْعِ اسْتِحْبَابُ زِیَادَۃِ الْوَقِیدِ عَلَی الْحَاجَۃِ فِي مَوْضِعٍ‘
’’سب سے پہلے جنھوں نے چراغاں کیا، وہ برامکہ تھے، یہ آگ کے پجاری تھے، جب یہ مسلمان ہوگئے تو انھوں نے آتش پرستی کی کئی چیزوں کو اسلام میں داخل کرکے یہ باور کرایا کہ یہ بھی دین اسلام کے طریقے ہیں اور مقصدان کا آگ کی پوجا تھا کیونکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ان چراغوں کی طرف رکوع وسجود کرتے تھے۔ اور شریعت میں کسی بھی جگہ، ضرورت سے زیادہ روشنی کرنے کا استحباب وارد نہیں ہے…۔‘‘[مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ، باب قیام شہر رمضان: 198/3،طبع مکتبہ امدادیہ، ملتان]
برامکہ، یہ ایک مجوسی خاندان تھا، یہ خاندان پڑھا لکھا اور علم و فضل کا مالک تھا، جس کی وجہ سے اس خاندان کے بہت سے لوگوں کو عباسی خلفاء، (ہارون الرشید اور مامون و معتصم وغیرہ) کے درباروں میں خاص مقام حاصل تھا بلکہ بعض تو ان خلفاء کے وزیرو مشیر بھی رہے۔ مذکورہ تاریخی حوالوں سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ قبولِ اسلام کے باوجود آتش پرستی کے جراثیم ان کے اندر موجود رہے اور ظلِّ الٰہی کے سایۂ عاطفت میں رہنے کی وجہ سے ان کو مسلمانوں کے اندر اپنے مشرکانہ خیالات پھیلانے کے مواقع بھی میسر آگئے، جن میں ایک مشرکانہ اور آتش پرستانہ رسم چراغاں اور آتش بازی ہے۔
پہلے پہل شبِ برات کے موقع پر ہی چراغاں بھی ہوتا تھا اور آتش بازی بھی، پھر چراغاں کادائرہ تو بہت پھیل گیا اور ہر اہم موقع پر چراغاں کا اہتمام نہایت ضروری قرار پایا حتی کہ اب یہ شادیوں کا بھی ایک لازمی حصہ بن گیا ہے۔ لیکن آتش بازی ابھی تک زیادہ تر شبِ برا ت ہی کے ساتھ خاص ہے۔ اس رات کو جس شدت اور تسلسل کے ساتھ آتش بازی کی جاتی ہے، وہ الامان والحفیظ کی مصداق ہے، پھر شادیوں پر حکومت کی طرف سے پابندی سے پہلے شادی کے موقع پر بھی اس شیطانی رسم کا سلسلہ بڑا عام ہوگیا تھا۔جس میں پابندی کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی۔ ھَدَاھُمُ اللّٰہُ تعالٰی۔
بہرحال مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ خوشی اور مسرت کے موقع پر کسی بھی انداز سے چراغاں یا آتش بازی کا اہتمام کرنا، آتش پرستی کا ایک حصہ ہے، اس لیے کسی بھی موقع پر ان چیزوں کا اہتمام کرنا سراسر حرام اور ناجائز ہے، وہ ’’عیدِ میلاد‘‘ کا موقع ہو یا شادی بیاہ کا یا کسی اور تقریبِ مسرت کا، کسی بھی موقع پر چراغاں یا آتش بازی کا جواز نہیں ہے۔
حواله جات :
كتاب : ” مسئله رؤیتِ ہلال اور اسلامى ١٢ مہینہے “
قلم کار حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ