Search
Sections
< All Topics
Print

(B). HUMAYE KAAFIRON KI MUSHABAHAT SEY KYUN ROKA GAYA HAI [WHY ARE WE FORBIDDEN TO IMITATING FROM THEM]

ہمیں کافروں کی مشابہت سے کیوں روکا گیا ہے؟

اب سے پہلے ہمیں اس اسلامی قائدہ کو سمجھ لینا چاہئے کہ دین کی بنیاد اللّٰہ اور رسول کے فرامین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر ہے۔
تسلیم کا معنی یہ ہے کہ اللّٰہ کی باتوں کی تصدیق کرنا، اس کے احکامات کو بجا لانا، منع شدہ چیزوں سے اجتناب کرنا، رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کی دی ہوئ خبر کی تصدیق کرنا اور آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم کے طریقہ کی پیروی کرنا۔


اس قائدہ کی معارفت کے بعد ہر بندہ مسلم پر مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں:


۱)- رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم سے وارد ہر چیز کو تسلیم کرنا۔
۲)۔ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم سے ثابت ہر چیز کو بجا لانا اور جو چیز آپ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم لے کر آۓ اس میں کافروں کی مشابہت سے ممانعت بھی داخل ہے۔
۳)- اللّٰہ کے حکم شریعت کو تسلیم کر لینے، اس کی باتوں پر اعتماد و اطمینان قلب کر لینے اور عملی طور پر انجام دے لینے کے بعد کسی حکم شرعی کی علت و اسباب کے دریافت کرنے میں کوئ حرج نہیں ہے۔
چنانچہ اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کی ممانعت کے اسباب بہت زیادہ ہیں، ان میں سے بیشتر اسباب ایسے ہیں جنھیں کج روی سے محفوظ عقلیں اور راہ راست پر گامزن فطرتیں محسوس کرتی ہیں (ہم ذیل میں بعض اسباب کا ذکر کرتے ہیں)۔

 

پہلا سبب:

 

غیر مسلموں کے افعال دراصل گمراہی و فساد پر مشتمل ہیں، گروہ وہ افعال آپ کو اچھے لگیں یا نہ لگیں، خواہ ان کا فساد ظاہر ہو یا پوشیدہ، خواہ ان کا تعلق عقائد، عادات یا عبادات سے ہو، یا عید و تہوار یا معاملات سے ہو، بہر صورت ان کے افعال کی بنیاد گمراہی، انحراف اور فساد پر ہے، بھلائ اور نیکی تو ان کے یہاں ایک استثناٸ چیز ہے، پھر اگر ان کے یہاں کچھ نیکی کی چیزیں پاٸ بھی جائیں تو ان پر کوٸ اجر و ثواب مرتب نہ ہو گا۔
جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:  الفرقان

وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾

“اور انھوں نے جو اعمال کئیے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا۔”

 

دوسرا سبب: 

 

کفار کی مشابہت ایک مسلمان کو ان کی پیروی میں مبتلا کر دیتی ہے، ایسا کرنا اللّٰہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور مومنوں کی راہ سے ہٹ کر چلنا ہے اور اس پر سخت وعید آٸ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: 

النساء: ۱۱۵ وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵)

“ جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے رسول اللّٰہ کی مخالفت کرے اور مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دینگے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور اسے دوزخ میں ڈال دیں گے، وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔”

 

 تیسرا سبب:

 

متشبہ اور متشبہ بہ کے اندر متشابہت مقلَّد اور مقلَّد کے درمیان ایک گو نہ ہم شکلی پیدا کر دیتی ہے، اس معنی میں کہ شکل و صورت میں مشابہت، قلبی میلان، قربت، باہم یکسانیت اور اقوال و افعال میں یگانگت، یہ ایسی چیز ہے جس سے ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے، لہٰذا کسی مسلمان کے لئیے مناسب نہیں کہ وہ غیر مسلموں کی مشابہت میں واقع ہو۔

 

چوتھا سبب:

 

مشابہت عمومی طور پر کافروں کو پسند کرنے کا سبب بنتی ہے، پھر اس کے بعد مشابہت اختیار کرنے والا ان کے دین، عادات، سلوک، افعال اور ہر طرح کی غلط و مفسدانہ حرکات کو بھی پسند کرنا شروع کر دیتا ہے اور یہ پسندیدگی سنتوں بلکہ رسول اللّٰہ صلّی اللّہ علیہ وسلّم کے لاۓ ہوۓ حق و ہدایت (جس پر سلف صالحین گامزن تھے) کو حقیر سمجھنے کا سبب بنتی ہے، کیونکہ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان کی موافقت کرتا ہے، ان کے ہر فعل کو بہتر سمجھتا اور اس سے راضی ہوتا ہے اور اس کے برعکس مخالف کا قول و فعل اسے ناگوار معلوم ہوتا ہے۔


پانچواں سبب:

 

مشابہت آپس میں مشابہ لوگوں میں الفت و محبت اور ہمدردی کا سبب ہے چنانچہ ایک مسلمان جب کافر کی تقلید کرتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اپنے دل میں اس سے انسیت محسوس کرے، پھر یہ انسیت لا محالہ اس کافر سے محبت اور اس سے رضا مندی کا سبب نیز نیک، صاحب تقویٰ، سنت پر عمل پیرا، دین پر ثابت و قائم افراد سے نفرت کا باعث ہو گی، یہ ایک ایسا لازمی فطری عمل ہے جسے ہر صاحب عقل و خرد محسوس کرتا ہے، خصوصاً جب غیروں کی اندھی پیروی کرنے والا کسی ایسے ماحول میں ہو جہاں وہ اجنبیت یا ذہنی مرعوبیت کا شکار ہو، چنانچہ وہ ایسے موقع پر دوسروں کی تقلید کر کے صاحب تقلید کی عظمت، اس کی الفت و محبت اور اس سے باہمی یکسانیت محسوس کرتا ہے۔ اگر معاملہ صرف باہمی مشابہت تک رہتا تو کسی حد تک چل جاتا جب کہ شکل و صورت، عادات و اتوار اور رہن سہن میں ظاہری مشابہت باطنی موافقت کا سبب ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے انسانی طور و طریقے کے بارے میں غور و فکر کرنے والا ہر شخص محسوس کرتا ہے۔


ہم شکل و صورت لوگوں میں کس قدر یکسانیت اور الفت و محبت پائ جاتی ہے، ہم اسے آپ کے سامنے ایک مثال سے بیان کرتے ہیں:


اگر کوئ شخص اپنے ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں جائے جہاں وہ ایک اجنبی کی سی زندگی گزار رہا ہو، پھر وہ اپنے ہی جیسے کسی انسان کو بازار میں چلتے ہوۓ دیکھے جو اسی جیسا لباس زیب تن کیۓ ہوئے ہو اور اسی کی زبان بولتا ہو تو وہ اس اجنبی ملک میں اپنے ملک سے کہیں زیادہ اس کی الفت و محبت محسوس کرے گا۔ اسی طرح جب کوئ شخص یہ محسوس کرے کہ وہ کسی دوسرے کی تقلید کر رہا ہے تو اس تقلید کا ضرور بالضرور دل پر ایک اثر ہو گا۔ یہ معاملہ تو عام حالات کا ہے لیکن جب کوئ مسلمان کسی کافر کی تقلید اسے پسندیدہ سمجھتے ہوۓ کرے تو اس کا کیا حال ہو گا جبکہ یہی امر واقع ہے کیونکہ کسی مسلمان سے کسی کافر کی تقلید کا امکان نہیں ہے الّا یہ کہ وہ اس کے افعال کو پسند کرتے ہوۓ اس کی تقلید، اس کی مشابہت اور اس سے محبت میں ایسا کرے جو اس کافر سے دلی لگاؤ اور اس کی نصرت و حمایت کا سبب ہو۔ جیسا کہ فرنگیت کے دلدادہ مسلمانوں میں ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

چھٹا سبب:

 

ہمیں کفار کی مشابہت سے روکا گیا ہے کیونکہ عمومی طور پر کافر کی مشابہت ایک مسلمان کو ایسے ذلیل و کمزور شخص کے مقام میں لا کھڑا کرتی ہے جو ذلّت و پسماندگی محسوس کرتا رہتا ہے۔ اس وقت کفار کی نقل کرنے والوں میں اکثر کی صورت حال یہی ہے۔

Table of Contents