(E). MUSHABIHAT KE AHEKAAM[Types of imitating]
مشابہت کے احکام
مشابہت کے احکام کا جائزہ بالتفصیل ممکن نہیں ہے کیوں کے مشابہت کی ہر حالت کا الگ الگ حکم ہے جسے اہل علم اور کتاب کی سمجھ رکھنے والے کتاب و سنت کے دلائل اور شرعی قواعد پر پیش کرتے ہیں لیکن یہاں پر بعض عام احکام ہے جو اجمالی طور پر مشابہت کی تمام قسموں کو سمیٹے ہوئے ہیں ہم ذیل میں ذکر کرتے ہیں :
اوّلا :
کفار کے ساتھ مشابہت کی بعض شکلیں ایسی ہیں جو کفر و شرک ہے مثلاً عقائد اور بعض عبادات میں مشابہت توحید و عقیدہ میں خلل پیدا کرنے والے امور میں یہود و نصارٰی اور مجوسی کی مشابہت مثلا اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا انکار کرنا اور اُن میں کج روی اختیار کرنا کسی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کے حلول کر جانے اور خالق و مخلوق کے ایک ہو جانے کا عقیدہ رکھنا انبیاء سلحا کو مقدس گرداننا انکی عبادت کرنا اللہ کے سوا اُنھیں پکارنا اور انسانوں کے وضع کردہ قوانین کے ذریعے فیصلے کرانا یہ تمام چیزیں یا تو شرک ہے یا کفر ہیں_
ثا نیا :
مشابہت کی بعض شکلیں فسق و معصیت ہے مثلاً بعض عادات میں کفار کی تقلید کرنا جیسے بائیں ہاتھ سے کھانا پینا مردوں کو سونے کی انگوٹھی پہننا داڑھی چھیلنا . عورتوں کا مردوں کی اور مردوں کا عورتوں کی مشابہت اختیار کرنا اور ان جیسے دیگر امور.
ثالثاً:
مشابہت کی بعض شکلیں مکروہ کا درجہ رکھتی ہیں اس سے مراد کفار کے وہ طور طریقے عادتیں اور دنیوی امور ہیں جو حکم کے واضح نہ ہونے کی وجہ سے حرام و نا جائز کے درمیان ہے لہٰذا مسلمانوں کو ان امور میں کفار کی مشابہت سے بچانے کیلئے اُن کا حکم مکروہ کا ہوگا .
سوال کیا کفار کے کچھ اعمال ایسے بھی ہیں جن میں مشابہت جائز ہے ؟
جواب: وہ تمام تر دنیاوی امور جو کفار کے خصائص سے نہ ہوں یعنی وہ انکی خاص پہچان نہ ہوں جو اُنھیں نیک مسلمانوں سے الگ کرتی ہوں اور اسکے اپنانے میں مسلمانوں کیلئے کوئی بڑی خرابی اور کفار کا کوئی ایسا بڑا فائدہ نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کے ذلت و رسوائی کا سبب ہو اور اُن جیسے دیگر امور_
نیز خالص مادی مصنوعات بھی مباح کی قبیل سے ہیں کہ جن کے بارے میں کفار کی تقلید سے مسلمانوں کو کوئی نقصان لاحق نہیں ہوتا ؛ اسی طرح خالص دنیوی علوم بھی مباح کے قبیل سے ہے جن کا دین و اخلاق سے معمولی درجہ کا بھی واسطہ نہ ہو.
بسا اوقات ضروری ہوتا ہے کہ مسلمان کافروں کے خالص دنیاوی علوم سے استفادہ کریں خالص سے مراد یہ ہے کہ اُن علوم کی تدریس میں کفار کی جانب سے ایسی کوئی توجیہ اور اثر انداز ی نہ ہو جو شرعی دلائل و قواعد سے ٹکراتی ہو یا مسلمانوں کو ذلت و رسوائی میں ڈالتی ہو اُن کے علاوہ باقی تمام امور مباح کی قبیل سے ہے _(۲)
لہٰذا عقائد عبادات اور جشن و تہوار میں کفار کے ساتھ مشابہت قطعی طور پر حرام ہے_ رہا مسئلہ عادات کا تو اگر وہ کفار کا نشان امتیاز ہوں تو مسلمانوں کا اُنھیں اختیار کرنا حرام ہے اور اگر وہ کفار کا نشان ..امتیاز نہ ہوں تو یا تو وہ حرام یا مکروہ یا مباح ہیں.
.رہا مسئلہ علوم و فنون اور خالص دنیوی امور کا مثلا تمام تر صنعات ہتھیار سازی وغیرہ تو یہ مذکورہ شرطوں کے ساتھ جائز ہیں.
(۲) مسلمانوں پر ضروری ہے کہ وہ حتٰی الامکان کافروں سے بے نیاز رہنے کی کوشش کریں ؛ لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کوشش اُن کی بنیادی ذمّہ داریوں پر غالب نہ آ جائے مثلاً بھلائی کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا دین کی دعوت دینا دین کو قائم کرنا چنانچہ مسلمانوں کے لئے یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے کہ وہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے دنیوی امور میں کسی ملک یا قوم ٹیکنا لوجی سے استفادہ کریں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور سلف صالحین کا عمل تھا کہ وہ کفار کی ٹیکنالوجی پیشے اور مادی وسائل سے استفادہ سے باز نہیں رہتے تھے جب تک کہ وہ مسلمانوں کی ذلت و حقارت کا سبب نہ ہوں میرا خیال ہے کہ مطلقاً یہ بات مبالغہ آمیزی پر مبنی نہیں ہے کہ آج مسلمانوں کی اہم ترین ذمّہ داری مادی ترقّی کے لئے تگ ودو کرنا ہے لیکن یہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ اولا دین کو قائم کرے شرعی تقاضوں کو پورا کریں پھر مادی برتری کیلئے کوششیں کریں بلکہ یہ تو ایک منطقی بات ہے کہ دین کا قائم کرنا بلاشبہ دنیاوی ترقّی کا سبب ہے |